Story Lover
VIP+
- Joined
- Nov 24, 2024
- Messages
- 500
Offline
- Thread Author
- #1
زیادہ امیر تو نہ تھے، مگر کتب مختصر تھا، لہٰذا عُسرت میں بھی خوش حالی سے بسر ہو رہی تھی۔ جونہی میں سولہ سال کی ہوئی اور چہرے پر نوخیزی کے آثار آنے لگے، ماں کو میرے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر ستانے لگی۔ ملنے جلنے والیوں سے میرے رشتے کے بارے میں تذکرے شروع ہو گئے۔ جب میرے کانوں میں یہ تذکرے پڑتے تو سوچتی کہ ابھی تو میں نے میٹرک بھی پاس نہیں کیا، جانے اماں کو میرے بیاہنے کی فکر کیوں پڑ گئی ہے۔ہمارے پڑوس میں زینب نامی ایک خاتون رہتی تھیں، جنہیں ہم خالہ جی کہتے تھے۔ ان کا بھانجا لاہور میں پڑھ رہا تھا۔ خالہ نے میرے رشتے کی بات اپنے بھانجے سے چھیڑی۔ لڑکے نے شرط رکھی کہ وہ لڑکی کو دیکھ کر ہی شادی کرے گا۔ اگر پسند آئی تو ٹھیک، ورنہ انکار کر دے گا۔لڑکی کو پہلے دیکھنا اور پھر پسند نہ آنے پر رد کر دینا ایک معیوب بات سمجھی جاتی تھی، لہٰذا میرے والدین نے اس شرط کو نا منظور کر دیا۔ البتہ اس بات پر راضی ہو گئے کہ اگر لڑکا صرف تصویر دیکھنے پر اکتفا کرے، تو اُسے تصویر دکھائی جا سکتی ہے، وہ بھی خالہ کی ذمہ داری پر کہ تصویر بعد میں واپس کر دی جائے۔ خالہ نے یہ بات منظور کر لی۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ تمہارے پاس کوئی اچھی سی تصویر ہے تو دے دو۔میں رشتے کی بات سن چکی تھی، جانتی تھی کہ تصویر کس مقصد کے لیے مانگی جا رہی ہے، لہٰذا کہہ دیا کہ ڈھونڈتی ہوں، اگر کوئی پڑی ہو گی تو دے دوں گی۔
ان دنوں تصویریں بنوانے کا رواج کم تھا اور ہم ایک چھوٹے سے محلے میں رہتے تھے، جہاں شاید ہی کوئی اچھا فوٹو اسٹوڈیو ہوتا، تبھی لڑکیاں گھر سے باہر تصویریں نہیں بنواتی تھیں۔ کچھ دنوں تک میں امی اور پڑوسن خالہ کو یونہی ٹالتی رہی۔ میں شکل و صورت کی معمولی لڑکی تھی، اوپر سے میری تصویر بھی اچھی نہیں آتی تھی۔ جب شادی کی تقریب میں مہمان وغیرہ ایک دوسرے کی تصویریں بناتے تو فوٹو دیکھ کر لگتا جیسے تصویر میں میری شکل حقیقت سے بھی زیادہ بگڑی ہوئی ہے۔ میرا فوٹو جینک فیس ہی نہیں تھا۔ان دنوں میں عجب شش و پنج میں مبتلا تھی۔ اُدھر خالہ اپنے بھانجے کے حسن کی تعریفیں کرتے نہ تھکتی تھیں۔ پھر ایک دن انہوں نے اس کی تصویر لا کر امی کو دکھائی، جو میں نے بھی دیکھ لی۔ اب دل میں کچھ کھد بد ہوئی۔ سوچا کہ ایسا خوبصورت لڑکا جو یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہو، بھلا مجھ جیسی معمولی شکل کی لڑکی کی تصویر سے کیسے متاثر ہو سکتا ہے۔ وہ تصویر دیکھ کر ضرور میرا مذاق اُڑائے گا۔اُدھر خالہ تھیں کہ روز تصویر کا تقاضا کرتی تھیں۔ امی سے کہتی تھیں کہ دیکھنا، یہ ہیرے جیسا لڑکا ہاتھ سے نکل جائے گا۔ پھر ایسا رشتہ تمہیں کہاں ملے گا؟ اور تم پچھتاتی رہ جاؤ گی۔اُن کے بار بار کے تقاضے سے تنگ آ کر بالآخر میں نے ایک حل سوچ لیا۔ میں کسی صورت ناکامی نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ میری ایک بے حد خوبصورت سہیلی شازیہ تھی۔ وہ میرے ساتھ اسکول میں پڑھتی تھی۔ اُس کا ایک فوٹو میرے پاس موجود تھا۔ میں نے وہی فوٹو ایک لفافے میں بند کر کے امی کو دے دیا۔ انہوں نے اسے خالہ کے حوالے کیا، اور خالہ نے وہ بند لفافہ لاہور اپنے عزیزوں کو بھیج دیا۔
انہوں نے مجھے پہلے دیکھا ہوا تھا، غالباً اسی لیے لفافہ نہیں کھولا۔ لڑکے کو تصویر بہت پسند آئی اور اس نے فوراً رشتے کے لیے ہامی بھر لی۔خالہ کے پاس خط آ گیا کہ امتحان سے فارغ ہوتے ہی لڑکے والے ہمارے گھر آ کر منگنی یا نکاح کریں گے، رشتہ پکا سمجھیں۔ نندھیا کیا چاہے، دو آنکھیں! میرے والدین کی طرف سے بھی ہاں ہو گئی۔ امی اس قدر خوش ہوئیں کہ فوراً جہیز کے جوڑے سینے بیٹھ گئیں۔ میں دل ہی دل میں شاداں تھی کہ یہ ترکیب تو کارگر ہو گئی۔ اب جناب جب وہ گھونگٹ اٹھا کر میری صورت دیکھیں گے تو چکرا جائیں گے، تب کیا ہو گا؟ خود کو تسلی دیتی کہ میں حالات سنبھال لوں گی، اتنا تو مجھ میں اعتماد تھا۔دو ماہ بعد میری شادی کی تاریخ رکھ دی گئی اور چار ماہ بعد میں سجاد کے ساتھ بیاہ کر سسرال چلی گئی۔ سہاگ رات سجاد نے بڑی آرزوؤں کے ساتھ میرا گھونگٹ اٹھایا۔ جو تصویر والی صورت انہوں نے دل میں بسا رکھی تھی، میں اس سے قطعی مختلف تھی۔ وہ ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئے۔
شریف اور عزت دار خاندان سے تعلق رکھتے تھے، میرے والدین کی عزت کو مدنظر رکھا اور اپنے خاندان کا پاس بھی۔ پھر یہ بھی چاہتے تھے کہ ایک معصوم سی لڑکی کا دل نہ ٹوٹے۔ نکاح ہو چکا تھا، میں رخصت ہو کر ان کے گھر آ چکی تھی۔ شادی مذاق نہیں ہوتی کہ اسی رات مجھے اپنی خواب گاہ سے نکال دیتے۔ ایک سولہ، سترہ برس کی لڑکی، سولہ سنگھار کیے ان کے سامنے سر جھکائے بیٹھی تھی۔ صبر کے سوا چارہ نہ تھا۔ انہوں نے صبر کر لیا۔ اس میں انہوں نے اللہ کی رضا اور اپنی بہتری سمجھی۔میں بھی کوئی اتنی بدصورت نہ تھی۔ معمولی صورت سے کچھ بہتر ہی تھی۔ اور ویسے بھی معمولی صورت کی لڑکیاں جب دلہن بنتی ہیں تو وہ بھی خوبصورت لگنے لگتی ہیں۔ میں بھی دلہن بن کر خاصی دلکش لگ رہی تھی، تبھی انہوں نے مجھے قبول کر لیا۔ البتہ مجھ سے پوچھا ضرور کہ یہ تصویر تمہارے گھر والوں نے غلطی سے بھیجی تھی یا خالہ جی نے ایسا کیا؟میں نے کہا کہ یہ میں نے کیا تھا، کیونکہ جب خالہ نے آپ کی تصویر دکھائی، تو وہ میرے دل پر نقش ہو گئی تھی۔ میں چاہتی تھی کہ آپ مجھے ہر صورت قبول کر لیں، اس لیے سچ سے کام لیا۔سجاد نے کہا کہ اگر میں اس دھوکے کو قبول نہ کرتا تو؟میں نے کہا کہ میری قسمت اچھی تھی کہ آپ نے قبول کر لیا، اب معاف بھی کر دیں۔سجاد نے کہا کہ چلو معاف کیا، تم بھی کیا یاد کرو گی کہ کس رئیس سے پالا پڑا ہے۔میں نے پوچھا کہ کیا آپ کے گھر والوں نے وہ تصویر دیکھی تھی؟انہوں نے کہا کہ نہیں، میں نے انہیں نہیں دکھائی تھی۔یہ بات یونہی نہ کہی گئی تھی۔ سچ یہی تھا کہ ان کا سلوک میرے ساتھ بہت اچھا تھا۔ ہم میاں بیوی ہنسی خوشی رہنے لگے، مگر پھر بھی ان کو ایک کرید سی رہتی۔ وہ اکثر کہتے کہ کاش اس پری کو ایک نظر دیکھ سکتا، جس کی تصویر میرے خیالوں میں بس گئی ہے۔میں ان کی بات مذاق میں ٹال دیتی تھی۔ یہی سمجھتی کہ مذاق کر رہے ہیں۔یوں میری شادی کو چھ سال گزر گئے۔ میں ایک بچے کی ماں بن چکی تھی، مگر سجاد اب بھی کبھی کبھار اُس تصویر والی لڑکی کا ذکر چھیڑ دیتے۔ اتفاق سے ایک روز شازیہ ہمارے گھر آ گئی۔ اس کے بھائی کا تبادلہ لاہور ہو گیا تھا، اس لیے ان کا کنبہ یہاں منتقل ہو گیا۔ شازیہ کو جب پتہ چلا کہ میرا گھر بھی لاہور میں ہے، تو اس نے امی سے پتہ لیا اور ایک دن ہمارے گھر آ پہنچی۔اسے دیکھ کر میں حیران رہ گئی۔ وہ پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت ہو چکی تھی۔ میٹرک کے بعد میں تو گھر بیٹھ گئی تھی، مگر اس نے تعلیم جاری رکھی اور گریجویشن مکمل کی۔ تعلیم نے اس کی شخصیت میں نکھار پیدا کر دیا تھا، اور اس کا لباس اور انداز بھی بہت باوقار ہو گیا تھا۔ہم برسوں بعد ملے تھے، باتوں میں اس قدر محو تھے کہ کب سجاد گھر آ گئے، پتہ ہی نہ چلا۔ آتے ہی ان کی نظر شازیہ پر پڑی اور وہیں ٹھہر گئی۔ وہ ہکا بکا اسے دیکھنے لگے، اور بے اختیار ان کے منہ سے نکلا کہ ارے، یہ تو وہی ہے… تصویر والی – شازیہ کو اس قصے کا علم نہ تھا، لیکن جب سجاد نے اُسے تصویر والی کہا، تو میں نے ہنستے ہنستے شازیہ کو پوری بات بتا دی اور اس سے معذرت بھی کی۔کہا کہ اگر تمہاری تصویر کا سہارا نہ لیتی، تو آج سجاد جیسے شوہر کی بیوی کیسے بنتی؟ شازیہ بولی کہ واقعی، تم خوش قسمت ہو۔ سجاد جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ افسر کی بیوی بن گئیں، اور ہمیں دیکھو کہ اچھی صورت کے ہوتے ہوئے بھی ابھی تک رشتے کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔سجاد نے کہا کہ نصیب اپنا اپنا۔ یہ نصیب کا نہیں، تصویر کا کمال ہے۔میں نے کہا کہ سب کچھ تصویر کی بدولت ہے، جو کچھ آج مجھے حاصل ہے۔ سجاد بولے کہ مگر ہمیں تصویر والی حاصل نہ ہوئی، یہ ہے ہماری قسمت۔ان کے لہجے کی سنجیدگی کو ہم دونوں نے ایک ساتھ محسوس کیا، مگر خاموش رہے۔ بات آئی گئی ہو گئی۔
شازیہ اب ہر دوسرے تیسرے دن ہمارے گھر آنے لگی۔ میرے شریکِ زندگی بھی میری سہیلی سے گھل مل گئے۔ میرے دل میں کبھی کوئی شک نہ پیدا ہوا۔ دونوں دل سے مجھے چاہتے تھے۔ سجاد محض خوش اخلاقی سے بات کرتے تھے، یہی سمجھتی رہی۔کیا جانتی تھی کہ برسوں پہلے جو تصویر کی جھلک دیکھی تھی، وہ نقشِ دل بن چکی تھی۔ اب وہ خلش، جو کبھی ہلکی سی چبھن تھی، رفتہ رفتہ ناسور بننے لگی تھی۔میں گھر داری میں مصروف تھی، کچھ خبر نہ تھی کہ کب بات یہاں تک پہنچ گئی کہ وہ دونوں گھر سے باہر ملنے لگے۔ جب سجاد نے کہنا شروع کیا کہ مجھے اب تم دوسری شادی کی اجازت دو، ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گا پہلے پہل میں نے ان کے اس مطالبے کو بالکل بھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ وہ اصرار پر اُتر آئے، میں ٹالتی رہی۔ یہی کہتی تھی کہ مذاق مت کریں، یہ آج کل آپ کیسے باتیں کرنے لگے ہیں۔ شازیہ سے بھی کہتی، اے اللہ کی بندی! کہیں تُو نے میرے میاں پر جادو تو نہیں کر دیا؟ یہ میرے دھوکے کا بدلہ تھا یا واقعی کوئی جادو تھا؟ میاں تصویر والے ماضی کے واقعے کو بہانہ بنا کر شازیہ پر لٹو ہو گئے تھے۔
ایک دن شازیہ نے بتا ہی دیا کہ سجاد مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں، اس لیے تم سے دوسری شادی کی اجازت مانگ رہے ہیں اور اس پر اصرار بھی کر رہے ہیں۔اب مجھ پر بھید کھلا اور سہیلی کے چکر میں چکرا کر رہ گئی۔ میں نے کہا، میرے گھر مت آیا کرو، پلیز! مجھ پر مہربانی کرو، میں تمہاری بچپن کی دوست ہوں۔ تمہیں اُسی پرانی دوستی کا واسطہ دیتی ہوں، تم آتی رہو گی تو ان کا دماغ یونہی گھومتا رہے گا۔شازیہ نے میرے گھر آنا موقوف کر دیا۔ اب مجھے کچھ سکون محسوس ہونا چاہیے تھا، مگر ایسا نہ ہوا۔ بلکہ میرے میاں کا مطالبہ اور شدت اختیار کر گیا۔ وہ شازیہ سے شادی پر بضد ہو گئے۔یہ نہیں کہ میں بانجھ تھی۔ میری ایک بیٹی تھی۔ اگر بانجھ ہوتی تو وہ اولاد کا بہانہ بنا کر دوسری شادی کا جواز پیش کر سکتے تھے، تب شاید رشتہ دار بھی ان کا ساتھ دیتے۔ لیکن یہ تو وہ جادو تھا، جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ایک دن میں نے بہت منت سماجت سے سمجھایا۔دیکھو! یہ فلمی باتیں مت کرو۔ ہم اپنے گھر میں اچھے بھلے آباد ہیں۔ ہنسی خوشی زندگی کے دن گزر رہے ہیں۔ تمہیں مجھ سے کوئی شکایت بھی نہیں ہے، پھر دوسری شادی کی اجازت کیوں لکھ کر دوں؟وہ بولے، شکایت کی بات نہ کرو۔ مجھ کو تم سے ایک بہت بڑی شکایت ہے، جو شادی کے پہلے دن سے دل میں ہے۔ اگر شازیہ میرے سامنے نہ آتی تو یہ شکایت نہ ابھرتی۔ میں سمجھ لیتا کہ وہ تصویر ایک خیالی پیکر ہے۔ اکثر لوگوں کے دل میں خیالی پیکر ہوتے ہیں، بس خیالوں تک رہتے ہیں، اور اصل زندگی میں وہ حقیقتوں کے ساتھ بندھے رہتے ہیں۔ زندگی نارمل طریقے سے گزر جاتی ہے۔لیکن اب، تصویر کا وہ خیالی پیکر میرے سامنے حقیقت کا روپ دھار چکا ہے، تو ماضی کا وہ ملال، وہ تم سے شکایت، تمہارا دھوکہ دینا، وہ تلخ یاد پھر سے تازہ ہو گئی ہے۔یہ یادیں اب کانٹوں کی جھاڑی بن کر میرے دل و دماغ میں پیوست ہو گئی ہیں۔
سچ کہتا ہوں، اگر میں نے شازیہ سے شادی نہ کی تو پاگل ہو جاؤں گا۔ تب تم ایک پاگل انسان کو کیسے سنبھالو گی؟ اگر تم واقعی مجھ سے محبت کرتی ہو تو مجھے شادی کی اجازت دے دو۔میں تم سے وعدہ کرتا ہوں، دوسری شادی کے بعد بھی تمہارا ہی رہوں گا۔ ہم ویسے ہی زندگی گزارتے رہیں گے جیسے گزار رہے ہیں۔ بس دل کی خلش ختم ہو جائے گی، جو اندر ہی اندر مجھے چپکے چپکے کھا رہی ہے۔سجاد کی باتیں سن کر میں حیران ہو گئی۔ سوچا بھی نہ تھا کہ تصویر والا زخم ابھی تک ان کے دل میں تازہ اور زندہ ہے۔کیا مرد کی فطرت میں معاف کرنا نہیں ہوتا؟ یا وہ محض عزت کی خاطر چپ تھے اور مجھے مجبوری میں قبول کیا تھا؟کیا وہ درحقیقت مجھ سے کبھی محبت ہی نہیں کرتے تھے؟ اور اب شازیہ کی ایک جھلک نے ان کی اصل فطرت کو میرے سامنے عیاں کر دیا ہے؟بتا نہیں سکتی کہ میں کس قدر صدمے اور دکھ سے دوچار ہوئی۔ تبھی خیال آیا کہ کسی اور کی تصویر بھیج کر میں نے ان کے گھر میں جگہ بنائی تھی، تو جب انہوں نے میرا گھونگٹ اٹھایا ہوگا، شاید اسی لمحے انہیں بھی ویسا ہی صدمہ اور ملال ہوا ہو گا۔جانے کیسے وہ اس دھوکے کو زہر کا گھونٹ سمجھ کر پی گئے تھے۔ اگر اس وقت وہ مجھے واپس میرے میکے بھیج دیتے، تو میرا اور میرے والدین کا کیا حال ہوتا؟اب شازیہ کے سامنے آنے پر وہ کہتے تھے کہ تم نے اس کی تصویر دکھا کر مجھے دھوکا کیوں دیا؟اب جب حقیقت میں اس کو دیکھ لیا ہے، تو اسے اپنائے بغیر رہ نہیں سکتا۔وہ تو برسوں سے میرے خیالوں میں تھی۔ میں نے کئی بار اپنے دل کو مضبوط کیا کہ لکھ کر دے ہی دیتی ہوں انہیں دوسری شادی کی اجازت، مگر ہمت نہ کر سکی۔ اور بالآخر روٹھ کر میکے چلی آئی۔
یہ میری نادانی تھی۔ مجھے گھر پر ہی رہ کر حالات کا سامنا کرنا چاہیے تھا۔اماں نے بھی کہا: جب چڑیا اپنا گھونسلہ خود چھوڑ کر چلی جائے، تو اُس کی جگہ کوئی اور چڑیا آ بیٹھتی ہے۔سجاد نے یہ مان لی تھی، تو دوسری شادی کرنی ہی تھی۔مگر تمہارے میکے آ جانے سے اس کے لیے میدان صاف ہو گیا۔ہم نہ کوئی شرطیں لکھوا سکے اور نہ اس پر دباؤ ڈال سکے۔تمہاری نادانی سے ہمارے ہاتھ کٹ چکے ہیں۔شازیہ نے بھی بھرپور چال چلی۔پہلے مجھے طلاق دلوائی، پھر سجاد سے نکاح کر لیا۔ورنہ وہ پہلے لکھ کر دے رہے تھے کہ میرے ساتھ خرچ اور رہن سہن ایسے ہی رہے گا، طلاق بھی نہیں دوں گا بشرطیکہ تم خود مجھے چھوڑ کر نہ جاؤ۔اور میں عجیب کیفیت میں تھی۔ بھلا کوئی عورت سوتن برداشت کر سکتی ہے؟ میں کیوں انہیں دوسری شادی کی اجازت دیتی؟آج میں شوہر کھو چکی ہوں، گھر کھو چکی ہوں، اور ساری خوشیاں بھی کھو بیٹھی ہوں۔شاید یہ میری خطا کی سزا تھی یا قسمت کا لکھا۔اب بوڑھی ماں پر بوجھ ہوں، جو بیوہ ہو چکی ہے۔افسوس تو یہ ہے کہ میرا اس دنیا میں کوئی نہیں رہا۔ میں اکلوتی اولاد تھی۔کاش کوئی بھائی یا بہن ہی ہوتا، شاید زندگی کی اس ٹوٹی پھوٹی گاڑی کو کچھ سہارا مل جاتا۔
ان دنوں تصویریں بنوانے کا رواج کم تھا اور ہم ایک چھوٹے سے محلے میں رہتے تھے، جہاں شاید ہی کوئی اچھا فوٹو اسٹوڈیو ہوتا، تبھی لڑکیاں گھر سے باہر تصویریں نہیں بنواتی تھیں۔ کچھ دنوں تک میں امی اور پڑوسن خالہ کو یونہی ٹالتی رہی۔ میں شکل و صورت کی معمولی لڑکی تھی، اوپر سے میری تصویر بھی اچھی نہیں آتی تھی۔ جب شادی کی تقریب میں مہمان وغیرہ ایک دوسرے کی تصویریں بناتے تو فوٹو دیکھ کر لگتا جیسے تصویر میں میری شکل حقیقت سے بھی زیادہ بگڑی ہوئی ہے۔ میرا فوٹو جینک فیس ہی نہیں تھا۔ان دنوں میں عجب شش و پنج میں مبتلا تھی۔ اُدھر خالہ اپنے بھانجے کے حسن کی تعریفیں کرتے نہ تھکتی تھیں۔ پھر ایک دن انہوں نے اس کی تصویر لا کر امی کو دکھائی، جو میں نے بھی دیکھ لی۔ اب دل میں کچھ کھد بد ہوئی۔ سوچا کہ ایسا خوبصورت لڑکا جو یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہو، بھلا مجھ جیسی معمولی شکل کی لڑکی کی تصویر سے کیسے متاثر ہو سکتا ہے۔ وہ تصویر دیکھ کر ضرور میرا مذاق اُڑائے گا۔اُدھر خالہ تھیں کہ روز تصویر کا تقاضا کرتی تھیں۔ امی سے کہتی تھیں کہ دیکھنا، یہ ہیرے جیسا لڑکا ہاتھ سے نکل جائے گا۔ پھر ایسا رشتہ تمہیں کہاں ملے گا؟ اور تم پچھتاتی رہ جاؤ گی۔اُن کے بار بار کے تقاضے سے تنگ آ کر بالآخر میں نے ایک حل سوچ لیا۔ میں کسی صورت ناکامی نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ میری ایک بے حد خوبصورت سہیلی شازیہ تھی۔ وہ میرے ساتھ اسکول میں پڑھتی تھی۔ اُس کا ایک فوٹو میرے پاس موجود تھا۔ میں نے وہی فوٹو ایک لفافے میں بند کر کے امی کو دے دیا۔ انہوں نے اسے خالہ کے حوالے کیا، اور خالہ نے وہ بند لفافہ لاہور اپنے عزیزوں کو بھیج دیا۔
انہوں نے مجھے پہلے دیکھا ہوا تھا، غالباً اسی لیے لفافہ نہیں کھولا۔ لڑکے کو تصویر بہت پسند آئی اور اس نے فوراً رشتے کے لیے ہامی بھر لی۔خالہ کے پاس خط آ گیا کہ امتحان سے فارغ ہوتے ہی لڑکے والے ہمارے گھر آ کر منگنی یا نکاح کریں گے، رشتہ پکا سمجھیں۔ نندھیا کیا چاہے، دو آنکھیں! میرے والدین کی طرف سے بھی ہاں ہو گئی۔ امی اس قدر خوش ہوئیں کہ فوراً جہیز کے جوڑے سینے بیٹھ گئیں۔ میں دل ہی دل میں شاداں تھی کہ یہ ترکیب تو کارگر ہو گئی۔ اب جناب جب وہ گھونگٹ اٹھا کر میری صورت دیکھیں گے تو چکرا جائیں گے، تب کیا ہو گا؟ خود کو تسلی دیتی کہ میں حالات سنبھال لوں گی، اتنا تو مجھ میں اعتماد تھا۔دو ماہ بعد میری شادی کی تاریخ رکھ دی گئی اور چار ماہ بعد میں سجاد کے ساتھ بیاہ کر سسرال چلی گئی۔ سہاگ رات سجاد نے بڑی آرزوؤں کے ساتھ میرا گھونگٹ اٹھایا۔ جو تصویر والی صورت انہوں نے دل میں بسا رکھی تھی، میں اس سے قطعی مختلف تھی۔ وہ ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئے۔
شریف اور عزت دار خاندان سے تعلق رکھتے تھے، میرے والدین کی عزت کو مدنظر رکھا اور اپنے خاندان کا پاس بھی۔ پھر یہ بھی چاہتے تھے کہ ایک معصوم سی لڑکی کا دل نہ ٹوٹے۔ نکاح ہو چکا تھا، میں رخصت ہو کر ان کے گھر آ چکی تھی۔ شادی مذاق نہیں ہوتی کہ اسی رات مجھے اپنی خواب گاہ سے نکال دیتے۔ ایک سولہ، سترہ برس کی لڑکی، سولہ سنگھار کیے ان کے سامنے سر جھکائے بیٹھی تھی۔ صبر کے سوا چارہ نہ تھا۔ انہوں نے صبر کر لیا۔ اس میں انہوں نے اللہ کی رضا اور اپنی بہتری سمجھی۔میں بھی کوئی اتنی بدصورت نہ تھی۔ معمولی صورت سے کچھ بہتر ہی تھی۔ اور ویسے بھی معمولی صورت کی لڑکیاں جب دلہن بنتی ہیں تو وہ بھی خوبصورت لگنے لگتی ہیں۔ میں بھی دلہن بن کر خاصی دلکش لگ رہی تھی، تبھی انہوں نے مجھے قبول کر لیا۔ البتہ مجھ سے پوچھا ضرور کہ یہ تصویر تمہارے گھر والوں نے غلطی سے بھیجی تھی یا خالہ جی نے ایسا کیا؟میں نے کہا کہ یہ میں نے کیا تھا، کیونکہ جب خالہ نے آپ کی تصویر دکھائی، تو وہ میرے دل پر نقش ہو گئی تھی۔ میں چاہتی تھی کہ آپ مجھے ہر صورت قبول کر لیں، اس لیے سچ سے کام لیا۔سجاد نے کہا کہ اگر میں اس دھوکے کو قبول نہ کرتا تو؟میں نے کہا کہ میری قسمت اچھی تھی کہ آپ نے قبول کر لیا، اب معاف بھی کر دیں۔سجاد نے کہا کہ چلو معاف کیا، تم بھی کیا یاد کرو گی کہ کس رئیس سے پالا پڑا ہے۔میں نے پوچھا کہ کیا آپ کے گھر والوں نے وہ تصویر دیکھی تھی؟انہوں نے کہا کہ نہیں، میں نے انہیں نہیں دکھائی تھی۔یہ بات یونہی نہ کہی گئی تھی۔ سچ یہی تھا کہ ان کا سلوک میرے ساتھ بہت اچھا تھا۔ ہم میاں بیوی ہنسی خوشی رہنے لگے، مگر پھر بھی ان کو ایک کرید سی رہتی۔ وہ اکثر کہتے کہ کاش اس پری کو ایک نظر دیکھ سکتا، جس کی تصویر میرے خیالوں میں بس گئی ہے۔میں ان کی بات مذاق میں ٹال دیتی تھی۔ یہی سمجھتی کہ مذاق کر رہے ہیں۔یوں میری شادی کو چھ سال گزر گئے۔ میں ایک بچے کی ماں بن چکی تھی، مگر سجاد اب بھی کبھی کبھار اُس تصویر والی لڑکی کا ذکر چھیڑ دیتے۔ اتفاق سے ایک روز شازیہ ہمارے گھر آ گئی۔ اس کے بھائی کا تبادلہ لاہور ہو گیا تھا، اس لیے ان کا کنبہ یہاں منتقل ہو گیا۔ شازیہ کو جب پتہ چلا کہ میرا گھر بھی لاہور میں ہے، تو اس نے امی سے پتہ لیا اور ایک دن ہمارے گھر آ پہنچی۔اسے دیکھ کر میں حیران رہ گئی۔ وہ پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت ہو چکی تھی۔ میٹرک کے بعد میں تو گھر بیٹھ گئی تھی، مگر اس نے تعلیم جاری رکھی اور گریجویشن مکمل کی۔ تعلیم نے اس کی شخصیت میں نکھار پیدا کر دیا تھا، اور اس کا لباس اور انداز بھی بہت باوقار ہو گیا تھا۔ہم برسوں بعد ملے تھے، باتوں میں اس قدر محو تھے کہ کب سجاد گھر آ گئے، پتہ ہی نہ چلا۔ آتے ہی ان کی نظر شازیہ پر پڑی اور وہیں ٹھہر گئی۔ وہ ہکا بکا اسے دیکھنے لگے، اور بے اختیار ان کے منہ سے نکلا کہ ارے، یہ تو وہی ہے… تصویر والی – شازیہ کو اس قصے کا علم نہ تھا، لیکن جب سجاد نے اُسے تصویر والی کہا، تو میں نے ہنستے ہنستے شازیہ کو پوری بات بتا دی اور اس سے معذرت بھی کی۔کہا کہ اگر تمہاری تصویر کا سہارا نہ لیتی، تو آج سجاد جیسے شوہر کی بیوی کیسے بنتی؟ شازیہ بولی کہ واقعی، تم خوش قسمت ہو۔ سجاد جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ افسر کی بیوی بن گئیں، اور ہمیں دیکھو کہ اچھی صورت کے ہوتے ہوئے بھی ابھی تک رشتے کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔سجاد نے کہا کہ نصیب اپنا اپنا۔ یہ نصیب کا نہیں، تصویر کا کمال ہے۔میں نے کہا کہ سب کچھ تصویر کی بدولت ہے، جو کچھ آج مجھے حاصل ہے۔ سجاد بولے کہ مگر ہمیں تصویر والی حاصل نہ ہوئی، یہ ہے ہماری قسمت۔ان کے لہجے کی سنجیدگی کو ہم دونوں نے ایک ساتھ محسوس کیا، مگر خاموش رہے۔ بات آئی گئی ہو گئی۔
شازیہ اب ہر دوسرے تیسرے دن ہمارے گھر آنے لگی۔ میرے شریکِ زندگی بھی میری سہیلی سے گھل مل گئے۔ میرے دل میں کبھی کوئی شک نہ پیدا ہوا۔ دونوں دل سے مجھے چاہتے تھے۔ سجاد محض خوش اخلاقی سے بات کرتے تھے، یہی سمجھتی رہی۔کیا جانتی تھی کہ برسوں پہلے جو تصویر کی جھلک دیکھی تھی، وہ نقشِ دل بن چکی تھی۔ اب وہ خلش، جو کبھی ہلکی سی چبھن تھی، رفتہ رفتہ ناسور بننے لگی تھی۔میں گھر داری میں مصروف تھی، کچھ خبر نہ تھی کہ کب بات یہاں تک پہنچ گئی کہ وہ دونوں گھر سے باہر ملنے لگے۔ جب سجاد نے کہنا شروع کیا کہ مجھے اب تم دوسری شادی کی اجازت دو، ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گا پہلے پہل میں نے ان کے اس مطالبے کو بالکل بھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ وہ اصرار پر اُتر آئے، میں ٹالتی رہی۔ یہی کہتی تھی کہ مذاق مت کریں، یہ آج کل آپ کیسے باتیں کرنے لگے ہیں۔ شازیہ سے بھی کہتی، اے اللہ کی بندی! کہیں تُو نے میرے میاں پر جادو تو نہیں کر دیا؟ یہ میرے دھوکے کا بدلہ تھا یا واقعی کوئی جادو تھا؟ میاں تصویر والے ماضی کے واقعے کو بہانہ بنا کر شازیہ پر لٹو ہو گئے تھے۔
ایک دن شازیہ نے بتا ہی دیا کہ سجاد مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں، اس لیے تم سے دوسری شادی کی اجازت مانگ رہے ہیں اور اس پر اصرار بھی کر رہے ہیں۔اب مجھ پر بھید کھلا اور سہیلی کے چکر میں چکرا کر رہ گئی۔ میں نے کہا، میرے گھر مت آیا کرو، پلیز! مجھ پر مہربانی کرو، میں تمہاری بچپن کی دوست ہوں۔ تمہیں اُسی پرانی دوستی کا واسطہ دیتی ہوں، تم آتی رہو گی تو ان کا دماغ یونہی گھومتا رہے گا۔شازیہ نے میرے گھر آنا موقوف کر دیا۔ اب مجھے کچھ سکون محسوس ہونا چاہیے تھا، مگر ایسا نہ ہوا۔ بلکہ میرے میاں کا مطالبہ اور شدت اختیار کر گیا۔ وہ شازیہ سے شادی پر بضد ہو گئے۔یہ نہیں کہ میں بانجھ تھی۔ میری ایک بیٹی تھی۔ اگر بانجھ ہوتی تو وہ اولاد کا بہانہ بنا کر دوسری شادی کا جواز پیش کر سکتے تھے، تب شاید رشتہ دار بھی ان کا ساتھ دیتے۔ لیکن یہ تو وہ جادو تھا، جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ایک دن میں نے بہت منت سماجت سے سمجھایا۔دیکھو! یہ فلمی باتیں مت کرو۔ ہم اپنے گھر میں اچھے بھلے آباد ہیں۔ ہنسی خوشی زندگی کے دن گزر رہے ہیں۔ تمہیں مجھ سے کوئی شکایت بھی نہیں ہے، پھر دوسری شادی کی اجازت کیوں لکھ کر دوں؟وہ بولے، شکایت کی بات نہ کرو۔ مجھ کو تم سے ایک بہت بڑی شکایت ہے، جو شادی کے پہلے دن سے دل میں ہے۔ اگر شازیہ میرے سامنے نہ آتی تو یہ شکایت نہ ابھرتی۔ میں سمجھ لیتا کہ وہ تصویر ایک خیالی پیکر ہے۔ اکثر لوگوں کے دل میں خیالی پیکر ہوتے ہیں، بس خیالوں تک رہتے ہیں، اور اصل زندگی میں وہ حقیقتوں کے ساتھ بندھے رہتے ہیں۔ زندگی نارمل طریقے سے گزر جاتی ہے۔لیکن اب، تصویر کا وہ خیالی پیکر میرے سامنے حقیقت کا روپ دھار چکا ہے، تو ماضی کا وہ ملال، وہ تم سے شکایت، تمہارا دھوکہ دینا، وہ تلخ یاد پھر سے تازہ ہو گئی ہے۔یہ یادیں اب کانٹوں کی جھاڑی بن کر میرے دل و دماغ میں پیوست ہو گئی ہیں۔
سچ کہتا ہوں، اگر میں نے شازیہ سے شادی نہ کی تو پاگل ہو جاؤں گا۔ تب تم ایک پاگل انسان کو کیسے سنبھالو گی؟ اگر تم واقعی مجھ سے محبت کرتی ہو تو مجھے شادی کی اجازت دے دو۔میں تم سے وعدہ کرتا ہوں، دوسری شادی کے بعد بھی تمہارا ہی رہوں گا۔ ہم ویسے ہی زندگی گزارتے رہیں گے جیسے گزار رہے ہیں۔ بس دل کی خلش ختم ہو جائے گی، جو اندر ہی اندر مجھے چپکے چپکے کھا رہی ہے۔سجاد کی باتیں سن کر میں حیران ہو گئی۔ سوچا بھی نہ تھا کہ تصویر والا زخم ابھی تک ان کے دل میں تازہ اور زندہ ہے۔کیا مرد کی فطرت میں معاف کرنا نہیں ہوتا؟ یا وہ محض عزت کی خاطر چپ تھے اور مجھے مجبوری میں قبول کیا تھا؟کیا وہ درحقیقت مجھ سے کبھی محبت ہی نہیں کرتے تھے؟ اور اب شازیہ کی ایک جھلک نے ان کی اصل فطرت کو میرے سامنے عیاں کر دیا ہے؟بتا نہیں سکتی کہ میں کس قدر صدمے اور دکھ سے دوچار ہوئی۔ تبھی خیال آیا کہ کسی اور کی تصویر بھیج کر میں نے ان کے گھر میں جگہ بنائی تھی، تو جب انہوں نے میرا گھونگٹ اٹھایا ہوگا، شاید اسی لمحے انہیں بھی ویسا ہی صدمہ اور ملال ہوا ہو گا۔جانے کیسے وہ اس دھوکے کو زہر کا گھونٹ سمجھ کر پی گئے تھے۔ اگر اس وقت وہ مجھے واپس میرے میکے بھیج دیتے، تو میرا اور میرے والدین کا کیا حال ہوتا؟اب شازیہ کے سامنے آنے پر وہ کہتے تھے کہ تم نے اس کی تصویر دکھا کر مجھے دھوکا کیوں دیا؟اب جب حقیقت میں اس کو دیکھ لیا ہے، تو اسے اپنائے بغیر رہ نہیں سکتا۔وہ تو برسوں سے میرے خیالوں میں تھی۔ میں نے کئی بار اپنے دل کو مضبوط کیا کہ لکھ کر دے ہی دیتی ہوں انہیں دوسری شادی کی اجازت، مگر ہمت نہ کر سکی۔ اور بالآخر روٹھ کر میکے چلی آئی۔
یہ میری نادانی تھی۔ مجھے گھر پر ہی رہ کر حالات کا سامنا کرنا چاہیے تھا۔اماں نے بھی کہا: جب چڑیا اپنا گھونسلہ خود چھوڑ کر چلی جائے، تو اُس کی جگہ کوئی اور چڑیا آ بیٹھتی ہے۔سجاد نے یہ مان لی تھی، تو دوسری شادی کرنی ہی تھی۔مگر تمہارے میکے آ جانے سے اس کے لیے میدان صاف ہو گیا۔ہم نہ کوئی شرطیں لکھوا سکے اور نہ اس پر دباؤ ڈال سکے۔تمہاری نادانی سے ہمارے ہاتھ کٹ چکے ہیں۔شازیہ نے بھی بھرپور چال چلی۔پہلے مجھے طلاق دلوائی، پھر سجاد سے نکاح کر لیا۔ورنہ وہ پہلے لکھ کر دے رہے تھے کہ میرے ساتھ خرچ اور رہن سہن ایسے ہی رہے گا، طلاق بھی نہیں دوں گا بشرطیکہ تم خود مجھے چھوڑ کر نہ جاؤ۔اور میں عجیب کیفیت میں تھی۔ بھلا کوئی عورت سوتن برداشت کر سکتی ہے؟ میں کیوں انہیں دوسری شادی کی اجازت دیتی؟آج میں شوہر کھو چکی ہوں، گھر کھو چکی ہوں، اور ساری خوشیاں بھی کھو بیٹھی ہوں۔شاید یہ میری خطا کی سزا تھی یا قسمت کا لکھا۔اب بوڑھی ماں پر بوجھ ہوں، جو بیوہ ہو چکی ہے۔افسوس تو یہ ہے کہ میرا اس دنیا میں کوئی نہیں رہا۔ میں اکلوتی اولاد تھی۔کاش کوئی بھائی یا بہن ہی ہوتا، شاید زندگی کی اس ٹوٹی پھوٹی گاڑی کو کچھ سہارا مل جاتا۔