Incest Lover
Well-known member
Offline
- Thread Author
- #1
چوبیس سالہ مسز فوزیہ گیلانی اپنی شادی کے فورن بعد ہی اپنے شوہر جاوید کے ساتھ پاکستان سے امریکا کے ایک سٹی فریمونٹ کیلی فورنیا میں موو ہو گئی تھی
فوزیہ کی شادی کے بعد پاکستان کی راویتی ساسوں کی طرح فوزیہ کی ساس کی بھی یه ہی خوائش تھی کے فوزیہ شادی کے پہلے سال ہی بچے کی ماں بن جائے
مگر جاوید چوںکہ اپنی بیوی کی تنگ چھوت کا مزہ زیادہ عرصے لینا چاتا تھا . اس لیے شادی ہوتے ہی جاوید نے فوزیہ کو نہ صرف پرگینیٹ نہ ہونے والی گولیاں کھلانا شروع کر دیں. بلکہ چودای کے دوران جاوید جب بھی فارغ ہونے لگتا. تو وہ فورن اپنے لن کو اپنی بیوی کی پھدی سے نکال کر اپنے لن کے پانی کو فوزیہ کی چھوت کے لبوں یا اس کے پیٹ پر ہی خار ج کرتا تھا
فوزیہ اپنی شادی شدہ زندگی اور اپنے شوھر جاوید احمد سے بہت خوش تھی . مگر یه خوشی ایک ہفتہ قبل اس وقت ختم ہو گئی جب ملازمت کے دوران جاوید نے اپنی بھارتی آئی ٹی مشاورتی فرم سدھا ٹیکنالوجی سولیوشن انک ( ایس ٹی ایس) کے سب سے بڑے اور اچھے کلاینٹ کو اپنی غلطی اور بواقوفی سے کھو دیا تھا
فوزیہ جانتی تھی کے اس کا شوہر جاوید آج کل اس وجہ سے بہت ہی پریشان تھا . کیوں کے اس ای ٹی مشاورتی فرم نے ہی جاوید کو اس کی قابلیت کی بنا پر دبئی سے سلیکٹ کر کے ورک ویزا پر امریکا میں نوکری دی تھی
اس کمپنی کا انڈین مالک مسٹر سنیل قاسم کل شام ہی انڈیا سے واپس امریکا ایا تھا. اور آتے ساتھ ہی اس نے فون کر جاوید کو دوسرے دن جاب کے دوران ہی لنچ ٹائم میں اپنے گھر میں ملاقات کے لیے بلا لیا تھا
اپنی کمپنی کے اونر کی یه کال سنتے ہی جاوید کو اس بات کا پکا یقین ہو گیا تھا. کے مسٹر قاسم سے ہونے والی یه پہلی ملاقات ہی جاوید کے لیے آخری ملاقات ثابت ہو گئی. اور جاوید کو اپنی غلطی کا خمیازہ نوکری سے چھٹی کی صورت میں بگتنا پرے گا. یه ہی وجہ تھی کے اگلی صبح جاب پر جاتے ہوے جاوید کی پریشانی میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا تھا
ادھر جاوید اپنی پرشانی میں مبتلا تھا. تو دوسری طرف اس کی نہایت خوبصورت اور وفاداربیوی فوزیہ کی حالت بھی اس سے مختلف نہیں تھی
اپنے شوہر کے آفس جانے کے بعد ایک سفید سلیولیسس بلاؤوس اور سیاہ کیپری میں ملبوس ھو کر مطالعہ کی میز پر بہٹھی فوزیہ اپنی تھوڑی پر ہاتھ رکھ کر ایک گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی
"جاوید پچھلے کچھ ہفتوں بہت خوفزدہ ہے ! وہ سوچتا ہے کے اس بڑے اکاؤنٹ کو کھونے کی پاداش میں کہ مسٹر قاسم اسے آج کل میں نوکری سے ضرور نکال دیں گے " اپنے شوہر کی پریشانی کے بارے میں سوچتے ہوے فوزیہ کے دل میں اس وقت یه خیال چل رہا تھا
! مجھے امید ہے کہ ایسا نہیں گا ! "فوزیہ نے سوچتے ہوۓ اپنے آپ کو امید دلائی، ہو سکتا ہے کے مسٹر قاسم جاوید کو نوکری سے نکالنے کی بجاۓ صرف ایک وارننگ دے کر ہی چھوڑ دیں، ویسے جاوید کو نوکری سے ہاتھ دھونا پرے تو ان دونوں کو امریکا میں رہنے میں کافی تکلیف ہو گئی. کیوں کے ان کے گرین کارڈ جسے ایس ٹی ایس نے ہی ان کے لیے سپانسر کیا تھا،وه بھی ابھی تک نہیں ایا تھا
فوزیہ اپنی انہی سوچوں میں گم تھی کے اتنے میں اس کی نظر پاس پرے ٹیبل پر پری. جہاں ایک کاغذ پڑا ہوا تھا. جس پر اس کے شوہر جاوید نے کل رات اپنے باس کے گھر کا ایڈریس اور فون نمبر لکھا تھا.
اس کاغذ پر نظر پڑتے ہی فوزیہ کو مسٹر سنیل قاسم کے متلعق کہی گئی اپنے شوہر جاوید کی بات یاد آئی " کے سننے میں ایا ہے کے مسٹر قاسم ایک بہت اچھے اورمدد کرنے والے انسان ہیں "
"اگر واقعی ہی اسی بات ہے تو کیوں نہ جاوید سے پہلے میں خود مسٹر قاسم سے مل کر انھے اس بات پر قائل کرنے کی کوسش کروں ، کے وہ جاوید کو نوکری سے نکالنے کی بجاے ایک وارننگ دے کر ہی چھوڑ دیں "
اپنے شوہر کو صبح پریشانی کی حالت میں جاب پر جاتے ہوۓ دیکھ کر فوزیہ خود بہت پرشان ہو چکی تھی. اسی لیے جاوید کی گئی غلطی کو خود سلجانے کا یه خیال اس کے دل میں اس وقت انے لگا تھا
"مگر کہیں یه نہ ہو کے جاوید کی بجاے میرا جانا ، مسٹر قاسم کو اچھا نہ لگے اور اس طرح جاوید کا کام سدھرنے کی بجاے پہلے سے زیادہ خراب ہو جائے " مسٹر قاسم سے ملنے کا خیال دل میں اتے ہی فوزیہ کے دل میں اس وسوسے نے جنم لیا
مگر اس کے ساتھ ہی " جو ہو گا دیکھا جائے گا " کا سوچتے ہوے فوزیہ نے پاس پرے اس پیپر سے فون نمبر دیکھ کر اپنے شوہر کے باس کو کال ملا دی
فوزیہ کی شادی کے بعد پاکستان کی راویتی ساسوں کی طرح فوزیہ کی ساس کی بھی یه ہی خوائش تھی کے فوزیہ شادی کے پہلے سال ہی بچے کی ماں بن جائے
مگر جاوید چوںکہ اپنی بیوی کی تنگ چھوت کا مزہ زیادہ عرصے لینا چاتا تھا . اس لیے شادی ہوتے ہی جاوید نے فوزیہ کو نہ صرف پرگینیٹ نہ ہونے والی گولیاں کھلانا شروع کر دیں. بلکہ چودای کے دوران جاوید جب بھی فارغ ہونے لگتا. تو وہ فورن اپنے لن کو اپنی بیوی کی پھدی سے نکال کر اپنے لن کے پانی کو فوزیہ کی چھوت کے لبوں یا اس کے پیٹ پر ہی خار ج کرتا تھا
فوزیہ اپنی شادی شدہ زندگی اور اپنے شوھر جاوید احمد سے بہت خوش تھی . مگر یه خوشی ایک ہفتہ قبل اس وقت ختم ہو گئی جب ملازمت کے دوران جاوید نے اپنی بھارتی آئی ٹی مشاورتی فرم سدھا ٹیکنالوجی سولیوشن انک ( ایس ٹی ایس) کے سب سے بڑے اور اچھے کلاینٹ کو اپنی غلطی اور بواقوفی سے کھو دیا تھا
فوزیہ جانتی تھی کے اس کا شوہر جاوید آج کل اس وجہ سے بہت ہی پریشان تھا . کیوں کے اس ای ٹی مشاورتی فرم نے ہی جاوید کو اس کی قابلیت کی بنا پر دبئی سے سلیکٹ کر کے ورک ویزا پر امریکا میں نوکری دی تھی
اس کمپنی کا انڈین مالک مسٹر سنیل قاسم کل شام ہی انڈیا سے واپس امریکا ایا تھا. اور آتے ساتھ ہی اس نے فون کر جاوید کو دوسرے دن جاب کے دوران ہی لنچ ٹائم میں اپنے گھر میں ملاقات کے لیے بلا لیا تھا
اپنی کمپنی کے اونر کی یه کال سنتے ہی جاوید کو اس بات کا پکا یقین ہو گیا تھا. کے مسٹر قاسم سے ہونے والی یه پہلی ملاقات ہی جاوید کے لیے آخری ملاقات ثابت ہو گئی. اور جاوید کو اپنی غلطی کا خمیازہ نوکری سے چھٹی کی صورت میں بگتنا پرے گا. یه ہی وجہ تھی کے اگلی صبح جاب پر جاتے ہوے جاوید کی پریشانی میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا تھا
ادھر جاوید اپنی پرشانی میں مبتلا تھا. تو دوسری طرف اس کی نہایت خوبصورت اور وفاداربیوی فوزیہ کی حالت بھی اس سے مختلف نہیں تھی
اپنے شوہر کے آفس جانے کے بعد ایک سفید سلیولیسس بلاؤوس اور سیاہ کیپری میں ملبوس ھو کر مطالعہ کی میز پر بہٹھی فوزیہ اپنی تھوڑی پر ہاتھ رکھ کر ایک گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی
"جاوید پچھلے کچھ ہفتوں بہت خوفزدہ ہے ! وہ سوچتا ہے کے اس بڑے اکاؤنٹ کو کھونے کی پاداش میں کہ مسٹر قاسم اسے آج کل میں نوکری سے ضرور نکال دیں گے " اپنے شوہر کی پریشانی کے بارے میں سوچتے ہوے فوزیہ کے دل میں اس وقت یه خیال چل رہا تھا
! مجھے امید ہے کہ ایسا نہیں گا ! "فوزیہ نے سوچتے ہوۓ اپنے آپ کو امید دلائی، ہو سکتا ہے کے مسٹر قاسم جاوید کو نوکری سے نکالنے کی بجاۓ صرف ایک وارننگ دے کر ہی چھوڑ دیں، ویسے جاوید کو نوکری سے ہاتھ دھونا پرے تو ان دونوں کو امریکا میں رہنے میں کافی تکلیف ہو گئی. کیوں کے ان کے گرین کارڈ جسے ایس ٹی ایس نے ہی ان کے لیے سپانسر کیا تھا،وه بھی ابھی تک نہیں ایا تھا
فوزیہ اپنی انہی سوچوں میں گم تھی کے اتنے میں اس کی نظر پاس پرے ٹیبل پر پری. جہاں ایک کاغذ پڑا ہوا تھا. جس پر اس کے شوہر جاوید نے کل رات اپنے باس کے گھر کا ایڈریس اور فون نمبر لکھا تھا.
اس کاغذ پر نظر پڑتے ہی فوزیہ کو مسٹر سنیل قاسم کے متلعق کہی گئی اپنے شوہر جاوید کی بات یاد آئی " کے سننے میں ایا ہے کے مسٹر قاسم ایک بہت اچھے اورمدد کرنے والے انسان ہیں "
"اگر واقعی ہی اسی بات ہے تو کیوں نہ جاوید سے پہلے میں خود مسٹر قاسم سے مل کر انھے اس بات پر قائل کرنے کی کوسش کروں ، کے وہ جاوید کو نوکری سے نکالنے کی بجاے ایک وارننگ دے کر ہی چھوڑ دیں "
اپنے شوہر کو صبح پریشانی کی حالت میں جاب پر جاتے ہوۓ دیکھ کر فوزیہ خود بہت پرشان ہو چکی تھی. اسی لیے جاوید کی گئی غلطی کو خود سلجانے کا یه خیال اس کے دل میں اس وقت انے لگا تھا
"مگر کہیں یه نہ ہو کے جاوید کی بجاے میرا جانا ، مسٹر قاسم کو اچھا نہ لگے اور اس طرح جاوید کا کام سدھرنے کی بجاے پہلے سے زیادہ خراب ہو جائے " مسٹر قاسم سے ملنے کا خیال دل میں اتے ہی فوزیہ کے دل میں اس وسوسے نے جنم لیا
مگر اس کے ساتھ ہی " جو ہو گا دیکھا جائے گا " کا سوچتے ہوے فوزیہ نے پاس پرے اس پیپر سے فون نمبر دیکھ کر اپنے شوہر کے باس کو کال ملا دی
نمبر ڈائل کرنے کے تھوڑی دیر بعد جوں ہی فوزیہ کو فون کے دوسری طرف سے ایک مرد کی آواز سنائی دی. تو اس نے ایک دم اپنا طاروف کروایا " ہیلو! مسٹر قاسم میرا نام مسز فوزیہ جاوید ہے ! میرے شوہر جاوید احمد آپ کی کمپنی سدھا ٹیکنالوجی میں کام کرتے ہیں ! "
" یه وہ جاوید احمد تو نہیں جن کے ساتھ آج دوپہر کو میری میٹنگ ہے ؟" اپنا طاروف کرواتے ہی فوزیہ کے کانوں میں سنیل صاحب کی آواز گونجی
مسٹر قاسم کا سوال سن کر فوزیہ نے فورن ہی جواب دیا "جی ہاں، وہ وہی جاوید جو آج دوپہرآپ کے ساتھ ملاقات کررہے ہیں!
" اچھا آپ بتائیں كے میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں " فوزیہ کا جواب سن کر مسٹر قاسم نے انگلش کی بجائے اِس بار فوزیہ سے ہندی میں پوچھا
" سب سے پہلے تو میری آپ سے ایک ریکویسٹ ہے . كے براے مہربانی جاوید کو مت بتائیں كے میں نئے آپ کو کال کی ہے ، دوسری بات یہ كے اصل میں جاوید کی آپ سے ملاقات سے پہلے میں آپ سے ملنا چا رہی تھی ، کیوں كے میں آپ سے مل کر صرف اِس بات کی وضاحت کرنا چاہتی ہوں ، كے میرے شوہر جاوید اپنی کی گئی غلطی سے کتنے زیادہ پریشان ہیں . " قاسم صاحب کے جواب میں اِس بار فوزیہ نے بھی قاسم صاحب کو اردو میں ہی جواب دیتے ہوئے کہا
"اچھا ٹھیک ہے، اگر آپ ایک گھنٹے کے اندر مجھے مل سکتی ہیں تو میں آپ کا انتظار کر سکتا ہوں" فوزیہ کی بات سن کر فون کی دوسری طرف سے مسٹر قاسم نے جواب دیا
"جی میں ایک گھنٹے کے اندر اندر آپ کے گھر پہنچ سکتی ہوں" مسٹر قاسم کا جواب سنتے ہی فوزیہ بولی اور پھر فون بند کرتے ساتھ ہی شاور کی طرف ڈور پری
اپنے جسم کواچھی ترا شاور دینے کے بعد فوزیہ باتھ روم سے باھر آئی اور اپنے گیلے
جسم کو تولیے سے اچھی ترا سے صاف اور خشک کرنے کے بعد وہ ننگی حالت میں ہی صوفے پر بیٹھ کر اپنی لمبی ہیل کو اپنے پاؤں میں پہننے لگی
اپنی ایری والی جوتی کو اپنے پاؤں میں پہن کر فوزیہ تیزی کے ساتھ بیڈ کے سامنے
پرے ہوے شیشے کے سامنے کھڑی ہوئی. اور اسی ننگی حالت میں ہی جلدی جلدی اپنے منہ پر میک اپ کرنے لگی
میک اپ سے فارغ ہونے کے بعد فوزیہ نے الماری سے ایک ویسٹرن سٹائل کا ایک لمبا ڈریس نکال کر پہن لیا
"میں دیکھنے میں اچھی لگ رہی ہوں نہ " اپنے گداز جسم کو آئینے میں دیکھتے ہوئےفوزیہ نے اپنے بال کو تھوڑا سا تھوڑا سا سیٹ کرتے ہوے اپنے آپ سے کہا
اس کے ساتھ ہی فوزیہ نے ٹیبل پر پڑا اپنا سیل فون اٹھا کر گوگل میپ میں مسٹر قاسم کے گھر کا پتا ڈالا .اور پھر اپنی کار میں بیٹھ کر وہ مسٹر قاسم کے گھر کی طرف چل پڑی
" یه وہ جاوید احمد تو نہیں جن کے ساتھ آج دوپہر کو میری میٹنگ ہے ؟" اپنا طاروف کرواتے ہی فوزیہ کے کانوں میں سنیل صاحب کی آواز گونجی
مسٹر قاسم کا سوال سن کر فوزیہ نے فورن ہی جواب دیا "جی ہاں، وہ وہی جاوید جو آج دوپہرآپ کے ساتھ ملاقات کررہے ہیں!
" اچھا آپ بتائیں كے میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں " فوزیہ کا جواب سن کر مسٹر قاسم نے انگلش کی بجائے اِس بار فوزیہ سے ہندی میں پوچھا
" سب سے پہلے تو میری آپ سے ایک ریکویسٹ ہے . كے براے مہربانی جاوید کو مت بتائیں كے میں نئے آپ کو کال کی ہے ، دوسری بات یہ كے اصل میں جاوید کی آپ سے ملاقات سے پہلے میں آپ سے ملنا چا رہی تھی ، کیوں كے میں آپ سے مل کر صرف اِس بات کی وضاحت کرنا چاہتی ہوں ، كے میرے شوہر جاوید اپنی کی گئی غلطی سے کتنے زیادہ پریشان ہیں . " قاسم صاحب کے جواب میں اِس بار فوزیہ نے بھی قاسم صاحب کو اردو میں ہی جواب دیتے ہوئے کہا
"اچھا ٹھیک ہے، اگر آپ ایک گھنٹے کے اندر مجھے مل سکتی ہیں تو میں آپ کا انتظار کر سکتا ہوں" فوزیہ کی بات سن کر فون کی دوسری طرف سے مسٹر قاسم نے جواب دیا
"جی میں ایک گھنٹے کے اندر اندر آپ کے گھر پہنچ سکتی ہوں" مسٹر قاسم کا جواب سنتے ہی فوزیہ بولی اور پھر فون بند کرتے ساتھ ہی شاور کی طرف ڈور پری
اپنے جسم کواچھی ترا شاور دینے کے بعد فوزیہ باتھ روم سے باھر آئی اور اپنے گیلے
جسم کو تولیے سے اچھی ترا سے صاف اور خشک کرنے کے بعد وہ ننگی حالت میں ہی صوفے پر بیٹھ کر اپنی لمبی ہیل کو اپنے پاؤں میں پہننے لگی
اپنی ایری والی جوتی کو اپنے پاؤں میں پہن کر فوزیہ تیزی کے ساتھ بیڈ کے سامنے
پرے ہوے شیشے کے سامنے کھڑی ہوئی. اور اسی ننگی حالت میں ہی جلدی جلدی اپنے منہ پر میک اپ کرنے لگی
میک اپ سے فارغ ہونے کے بعد فوزیہ نے الماری سے ایک ویسٹرن سٹائل کا ایک لمبا ڈریس نکال کر پہن لیا
"میں دیکھنے میں اچھی لگ رہی ہوں نہ " اپنے گداز جسم کو آئینے میں دیکھتے ہوئےفوزیہ نے اپنے بال کو تھوڑا سا تھوڑا سا سیٹ کرتے ہوے اپنے آپ سے کہا
اس کے ساتھ ہی فوزیہ نے ٹیبل پر پڑا اپنا سیل فون اٹھا کر گوگل میپ میں مسٹر قاسم کے گھر کا پتا ڈالا .اور پھر اپنی کار میں بیٹھ کر وہ مسٹر قاسم کے گھر کی طرف چل پڑی
ہاے جاوید کی گئی غلطی کو سدھارتے سدھارتے اپنے شوہر کا کام بگاڑ ہی نہ دون کہیں" سنیل قاسم کی رھائش گاہ کی طرف اپنی کار دوڑاتے ہوے فوزیہ کے دل میں یه ہی خوف چھایا رہا
مگر اس خوف کے باوجود اس نے اب واپس پلٹنا مناسب نہ سمھجا اور پھر کچھ ہی دیر بعد اس کی کار مسٹر قاسم کے گھر کے سامنے جا رکی
سنیل قاسم کے گھر کے سامنے اپنی گاری پارک کر کے فوزیہ نے جوں ہی اپنی کار سے باہر نکل کر مسٹر قاسم کے گھر کے مین ڈور کی طرف واک کرنا شروع کیا
تو ٹھنڈی ہوا کا ایک تازہ جھونکاایک دم سے آ کر اس کے تازہ تازہ نہایے ہوے بدن سے ٹکرا گیا
"افففففف مسٹر قاسم سے ملنے کی جلدی میں اپنی پینٹی تو پینٹی، میں تو اپنی برا بی پہننا بھول گئی ہوں آج " تازہ ہوا نے ڈریس کے اندر گھس کر جوں ہی فوزیہ کی جوان چوت اور اس کی کسی ہوئی گداز چھاتیوں کو چھوا. تو اپنی غلطی کا احساس کرتے ہی فوزیہ ایک دم بوکھلا اٹھی.
"ہاۓ اب مجے اسی حالت میں ہی مسٹر قاسم سے ملنا پرے گا ، کیوں کے اب گھر واپس جا کر برا اور پینٹی پہننے کا وقت نہیں ہے میرے پاس" فوزیہ کو اپنی اس بیواقفی پر افسوس تو بہت ہوا مگر اب ٹائم کی کمی کی وجہ سے اس کا گھر جا کر واپس آنا
بہت مشکل کام تھا. اس لیے نہ چاہتے ہوے بھی وہ مسٹر ٹیگو قاسم کے گھر کے دروازے کی طرف اپنے قدم بڑھاتی رہی
مسٹر قاسم کے مین ڈور کے سامنے روک کر فوزیہ نے اپنی بکھری سانسوں کو سمبھالا. اورپھر ہمت کر کے دوسرے لمحے ہی دروازے پر دستک دے دی
فوزیہ کی دستک کے جواب میں تھوڑی دیر بعد 45 سال کی عمر کے ایک آدمی نے دروازہ کھولا. جو اپنی عمر کے حساب سے کافی فٹ لگ رہا تھا
دروازے پر کھڑے اس آدمی کو دیکھتے ہی فوزیہ ایک ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ بولی " مسٹرقاسم میں جاوید احمد کی بیوی فوزیہ ہوں، مجھے ملاقات کے لیے وقت دینے کے لیے آپ کا بہت بہت شکریہ"
"ویل آپ سے مل کر بہت اچھا لگا ، پلیز آپ اندر تشریف لائیں " فوزیہ کی بات کے جواب میں مسٹر قاسم نے بی مسکرا کر جواب دیا اور اپنے گھر کا دروازہ کھول کر فوزیہ کو اندر انے کی دعوت دی
فوزیہ مسٹر قاسم کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی ان کے ڈرائنگ روم میں چلی آئی . اور اتے ساتھ ہی کمرے کی سیٹنگ کا جائزہ لیا
ڈرائنگ روم میں ایک طرف ایک بڑا صوفہ رکھا ہوا تھا . صوفے کے سامنے ایک بہت بڑا شیشے کا ٹیبل پڑا ہوا تھا. جب کے کمرے کی دوسری جانب دو چیرز پڑی ہوئی تھیں . اور ان چیرز کے درمیاں میں ایک سائیڈ ٹیبل تھی جس کی وجہ سے ان دونوں میں تھوڑا فاصلہ تھا
اپنے شوہر کے باس کے لیونگ روم کی سیٹنگ دیکھنے کے بعد فوزیہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی کمرے میں رکھی چیئر پر بیٹھ گئی
اور فوزیہ کے بیٹھتے ہی سائیڈ ٹیبل کی دوسری طرف رکھی چیئر پر قاسم صاحب بھی تشریف فرما ہو گے
اپنی چیئر پر بیٹھ کر قاسم صاحب نے فوزیہ کی طرف دیکھا اور بولے "مجھے خوشی ہے کہ مجھے پہلی بار آپ سے ملنے کا موقع مل رہا ہے ! ویسے مجھے یه کہنے میں کوئی حرج نہیں کے جاوید بہت خوش قسمت انسان ہے، جسے آپ جیسی خوبصورت بیوی ملی ہے ، جوخوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے شوہر کے لیے فکر مند بھی ہے ! اب مجھے بتائیں کے آپ کیوں اتنی پریشان ہیں اور آپ کی پرشانی دور کرنے میں کیسے میں آپ کی ہیلپ کر سکتا ہوں
مگر اس خوف کے باوجود اس نے اب واپس پلٹنا مناسب نہ سمھجا اور پھر کچھ ہی دیر بعد اس کی کار مسٹر قاسم کے گھر کے سامنے جا رکی
سنیل قاسم کے گھر کے سامنے اپنی گاری پارک کر کے فوزیہ نے جوں ہی اپنی کار سے باہر نکل کر مسٹر قاسم کے گھر کے مین ڈور کی طرف واک کرنا شروع کیا
تو ٹھنڈی ہوا کا ایک تازہ جھونکاایک دم سے آ کر اس کے تازہ تازہ نہایے ہوے بدن سے ٹکرا گیا
"افففففف مسٹر قاسم سے ملنے کی جلدی میں اپنی پینٹی تو پینٹی، میں تو اپنی برا بی پہننا بھول گئی ہوں آج " تازہ ہوا نے ڈریس کے اندر گھس کر جوں ہی فوزیہ کی جوان چوت اور اس کی کسی ہوئی گداز چھاتیوں کو چھوا. تو اپنی غلطی کا احساس کرتے ہی فوزیہ ایک دم بوکھلا اٹھی.
"ہاۓ اب مجے اسی حالت میں ہی مسٹر قاسم سے ملنا پرے گا ، کیوں کے اب گھر واپس جا کر برا اور پینٹی پہننے کا وقت نہیں ہے میرے پاس" فوزیہ کو اپنی اس بیواقفی پر افسوس تو بہت ہوا مگر اب ٹائم کی کمی کی وجہ سے اس کا گھر جا کر واپس آنا
بہت مشکل کام تھا. اس لیے نہ چاہتے ہوے بھی وہ مسٹر ٹیگو قاسم کے گھر کے دروازے کی طرف اپنے قدم بڑھاتی رہی
مسٹر قاسم کے مین ڈور کے سامنے روک کر فوزیہ نے اپنی بکھری سانسوں کو سمبھالا. اورپھر ہمت کر کے دوسرے لمحے ہی دروازے پر دستک دے دی
فوزیہ کی دستک کے جواب میں تھوڑی دیر بعد 45 سال کی عمر کے ایک آدمی نے دروازہ کھولا. جو اپنی عمر کے حساب سے کافی فٹ لگ رہا تھا
دروازے پر کھڑے اس آدمی کو دیکھتے ہی فوزیہ ایک ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ بولی " مسٹرقاسم میں جاوید احمد کی بیوی فوزیہ ہوں، مجھے ملاقات کے لیے وقت دینے کے لیے آپ کا بہت بہت شکریہ"
"ویل آپ سے مل کر بہت اچھا لگا ، پلیز آپ اندر تشریف لائیں " فوزیہ کی بات کے جواب میں مسٹر قاسم نے بی مسکرا کر جواب دیا اور اپنے گھر کا دروازہ کھول کر فوزیہ کو اندر انے کی دعوت دی
فوزیہ مسٹر قاسم کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی ان کے ڈرائنگ روم میں چلی آئی . اور اتے ساتھ ہی کمرے کی سیٹنگ کا جائزہ لیا
ڈرائنگ روم میں ایک طرف ایک بڑا صوفہ رکھا ہوا تھا . صوفے کے سامنے ایک بہت بڑا شیشے کا ٹیبل پڑا ہوا تھا. جب کے کمرے کی دوسری جانب دو چیرز پڑی ہوئی تھیں . اور ان چیرز کے درمیاں میں ایک سائیڈ ٹیبل تھی جس کی وجہ سے ان دونوں میں تھوڑا فاصلہ تھا
اپنے شوہر کے باس کے لیونگ روم کی سیٹنگ دیکھنے کے بعد فوزیہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی کمرے میں رکھی چیئر پر بیٹھ گئی
اور فوزیہ کے بیٹھتے ہی سائیڈ ٹیبل کی دوسری طرف رکھی چیئر پر قاسم صاحب بھی تشریف فرما ہو گے
اپنی چیئر پر بیٹھ کر قاسم صاحب نے فوزیہ کی طرف دیکھا اور بولے "مجھے خوشی ہے کہ مجھے پہلی بار آپ سے ملنے کا موقع مل رہا ہے ! ویسے مجھے یه کہنے میں کوئی حرج نہیں کے جاوید بہت خوش قسمت انسان ہے، جسے آپ جیسی خوبصورت بیوی ملی ہے ، جوخوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے شوہر کے لیے فکر مند بھی ہے ! اب مجھے بتائیں کے آپ کیوں اتنی پریشان ہیں اور آپ کی پرشانی دور کرنے میں کیسے میں آپ کی ہیلپ کر سکتا ہوں
مسٹر قاسم میں اصل میں اپنے شوہر کے متلعق آپ سے بات کرنا چاہ رہی تھی ، میں جانتی ہوں کے میرے شوہر جاوید نے جو غلطی کی ہے اس کا آپ کی کمپنی کو کافی نقصان پہنچا ہے اور ہو سکتا ہے سزا کے طور پر جاوید کو آپ آج نوکری سے بی نکال دیں ، مگراس کے باوجود میں آپ کو یه بتانا چاہتی ہوں کے جاوید اپنی اس غلطی پر بہت پرشان اور شرمندہ ہے "
یه بات کرتے ہوے فوزیہ نے التجائی نظروں سے قاسم صاحب کی طرف دیکھا اور اپنی بات جاری رکھتے ہوے کہا " جاوید نے مجھے آپ کے بارے میں بتایا تھا کے آپ بہت اچھے اور غلطیاں معاف کرنے والے انسان ہیں ،اور اپنے شوہر کی اسی بات پر یقین کر کے میں آپ کے پاس یه ریکویسٹ لے کر آئی ہوں کے اگر ہو سکے تو میرے شوہر کی غلطی کو نظر انداز کرتے ہوے اسے ایک بار معاف کر دیں پلیز" اپنے دل کی بات کرتے ہی فوزیہ کی آنکھوں میں نہ جانے کیوں اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پائی. جس کی بنا پر اس کی آنکھوں میں آنسوؤں آ گے اور وہ اپنے ہاتھوں کو اپنی آنکھوں پر رکھ کر وہ ایک دہم سے رونے لگی
فوزیہ کے اس طرح اچانک رونے کی اصل وجہ دراصل یه تھی کے جاوید اور فوزیہ نے دو ویک پہلے ہی اپنا گھر خریدنے کے لیے ڈون پیمنٹ کی تھی. اور اگر آج جاوید اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھتا تھا. تو ان کے مالی حالات کافی خراب ہو سکتے تھے
کیوں کے اپنی اب تک کی سیونگ تو وہ لوگ پہلے ہی نیا گھر خریدنے میں خرچ کر چکے تھے . اور اب جاوید کی جاب ختم ہونے کی صورت میں ان دونوں میاں بیوی کے لیے پردیس میں اپنے گھر کا خرچہ چلانا کافی مشکل ہو سکتا تھا
مسٹر قاسم سے بات کرنے کے دوران جب فوزیہ کے ذھن میں یه بات آئی . تو اپنی انے والے مالی مشکلات کا سوچ کر فوزیہ کی آنکھوں سے آنسوؤں خود با خود جاری ہو گے اور وہ اپنے ہاتھوں کو اپنے منہ پر رکھ کر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی
فوزیہ اپنے ہاتھوں کو آنکھوں پر رکھ کر ابھی اسی ترھا رونے میں مصروف تھی . کے اسے اپنے کندھےکی نرم جلد پر مسٹر قاسم کے سخت مردانہ ہاتھوں کا احساس ہوا
مسٹر قاسم کے ہاتھ کو اپنے کندھے پر محسوس کرتے ہی فوزیہ نے ایک دھم اپنا رونا بند کرتے ہوے اپنے ہاتھوں کو اپنی آنکھوں سے ہٹا کر پیچھے کی طرف دیکھا . تو اس کی نضر اپنی چیئر کے پیچھے کھڑے قاسم صاحب پر پری
جو پیچھے سے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ کرمساج کرتے ہوے اسے دلاسا دینے کی کوشش کر رہے تھے
اپنے جسم کے کسی بی حصے پر ایک اجنبی مرد کے ہاتھوں کا لمس پہلی بار محسوس کرتے ہی شرم کے مارے فوزیہ کے جسم کو ایک جھرجری سی محسوس ہوئی. اور اس نے بے اختیاری میں اپنے ہاتھ کو اوپر اٹھاتے ہوے اپنے کندھے پر رکھے ہوے مسٹر قاسمکے ہاتھ کو اپنے جسم سے الگ کر دیا
فوزیہ کا یوں ان کا ہاتھ کو اپنے کندھے سے جٹکنے والا عمل مسٹر قاسم کو اچھا نہیں لگا تھا
اسی لیے مسٹر قاسم نے جسے ہی یه دیکھا کے فوزیہ نے اب رونا بند کر دیا ہے .تو وہ فوزیہ کے پیچھے سے ہٹ کر فوزیہ کے سامنے سے ہوتے ہوے دوبارہ اپنی چیئر کی طرف بڑھنے لگے
"لگتا ہے اپنے کندھے سے یوں ان کا ہاتھ کو ہٹانے کا طریقہ قاسم صاحب کو شاید اچھا نہیں لگا ، اس لیے وہ شاید غصے کے عالم میں مجھ سے پرے ہو رہے ہیں " قاسم صاحب کی باڈی لینگویج کو دیکھتے ہی فوزیہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا
اس لیے قاسم صاحب پیچھے سے چلتے ہوے جوں ہی چیئر پر بہٹھی فوزیہ کے عین سامنے اے .تو فوزیہ کو نجانے کیا سوجھی کے اس نے ایک دہم سے اپنا ہاتھ آگے کرتے ہوے قاسم صاحب کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ کی گرفت میں لے لیا.
" مسٹر قاسم کیا ایسا کوئی طریقہ ہے کے آپ جاوید کو ایک چانس مزید دے دیں پلیز " قاسم صاحب کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں تھامتے ہوے چیئر پر بہٹھی فوزیہ نے اپنے سامنے کھڑے سنیل صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک بار پھر التجا کی
" ہاں ایک چییز ایسی ہے جسے کرنے سے جاوید کی نوکری بچ سکتی ہے " فوزیہ کی بات سن کر مسٹر قاسم نے فوزیہ کے ہاتھ کی گرفت سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوے اب کی بار فوزیہ کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں تھامتے ہوے جواب دیا
"او تو پھر جلدی سے بتائیں نہ کے اس کے لیے کیا کرنا ہو گا مجھے " مسٹر قاسم کے منہ سے یه بات سنتے ہی فوزیہ نے ایک دم بے چینی سے پوچھا
فوزیہ کی بات سنتے ہی مسٹر قاسم اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوے فوزیہ کے ہاتھ کو اپنی طرف کھینچتے ہوے دوسرے ہی لمحے اس کے نازک اور ملائم ہاتھ کو پینٹ میں کسے اپنے لورے کے عین اوپر رکھ دیا اور بولا " تماری بات کا جواب تماری انگلیوں کے نیچے ہے "
فوزیہ تو اپنے شوہر جاوید کے منہ سےقاسم صاحب کی شرافت اور اچھائی کے قصے سن کر مدد کی غرض سے یہاں آئی تھی
مگربظاھر شریف نظر انے والے اس ادھیڑ عمر شخص کی اس شرمناک حرکت کو دیکھتے ہی فوزیہ پر حیرت کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا
یه بات کرتے ہوے فوزیہ نے التجائی نظروں سے قاسم صاحب کی طرف دیکھا اور اپنی بات جاری رکھتے ہوے کہا " جاوید نے مجھے آپ کے بارے میں بتایا تھا کے آپ بہت اچھے اور غلطیاں معاف کرنے والے انسان ہیں ،اور اپنے شوہر کی اسی بات پر یقین کر کے میں آپ کے پاس یه ریکویسٹ لے کر آئی ہوں کے اگر ہو سکے تو میرے شوہر کی غلطی کو نظر انداز کرتے ہوے اسے ایک بار معاف کر دیں پلیز" اپنے دل کی بات کرتے ہی فوزیہ کی آنکھوں میں نہ جانے کیوں اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پائی. جس کی بنا پر اس کی آنکھوں میں آنسوؤں آ گے اور وہ اپنے ہاتھوں کو اپنی آنکھوں پر رکھ کر وہ ایک دہم سے رونے لگی
فوزیہ کے اس طرح اچانک رونے کی اصل وجہ دراصل یه تھی کے جاوید اور فوزیہ نے دو ویک پہلے ہی اپنا گھر خریدنے کے لیے ڈون پیمنٹ کی تھی. اور اگر آج جاوید اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھتا تھا. تو ان کے مالی حالات کافی خراب ہو سکتے تھے
کیوں کے اپنی اب تک کی سیونگ تو وہ لوگ پہلے ہی نیا گھر خریدنے میں خرچ کر چکے تھے . اور اب جاوید کی جاب ختم ہونے کی صورت میں ان دونوں میاں بیوی کے لیے پردیس میں اپنے گھر کا خرچہ چلانا کافی مشکل ہو سکتا تھا
مسٹر قاسم سے بات کرنے کے دوران جب فوزیہ کے ذھن میں یه بات آئی . تو اپنی انے والے مالی مشکلات کا سوچ کر فوزیہ کی آنکھوں سے آنسوؤں خود با خود جاری ہو گے اور وہ اپنے ہاتھوں کو اپنے منہ پر رکھ کر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی
فوزیہ اپنے ہاتھوں کو آنکھوں پر رکھ کر ابھی اسی ترھا رونے میں مصروف تھی . کے اسے اپنے کندھےکی نرم جلد پر مسٹر قاسم کے سخت مردانہ ہاتھوں کا احساس ہوا
مسٹر قاسم کے ہاتھ کو اپنے کندھے پر محسوس کرتے ہی فوزیہ نے ایک دھم اپنا رونا بند کرتے ہوے اپنے ہاتھوں کو اپنی آنکھوں سے ہٹا کر پیچھے کی طرف دیکھا . تو اس کی نضر اپنی چیئر کے پیچھے کھڑے قاسم صاحب پر پری
جو پیچھے سے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ کرمساج کرتے ہوے اسے دلاسا دینے کی کوشش کر رہے تھے
اپنے جسم کے کسی بی حصے پر ایک اجنبی مرد کے ہاتھوں کا لمس پہلی بار محسوس کرتے ہی شرم کے مارے فوزیہ کے جسم کو ایک جھرجری سی محسوس ہوئی. اور اس نے بے اختیاری میں اپنے ہاتھ کو اوپر اٹھاتے ہوے اپنے کندھے پر رکھے ہوے مسٹر قاسمکے ہاتھ کو اپنے جسم سے الگ کر دیا
فوزیہ کا یوں ان کا ہاتھ کو اپنے کندھے سے جٹکنے والا عمل مسٹر قاسم کو اچھا نہیں لگا تھا
اسی لیے مسٹر قاسم نے جسے ہی یه دیکھا کے فوزیہ نے اب رونا بند کر دیا ہے .تو وہ فوزیہ کے پیچھے سے ہٹ کر فوزیہ کے سامنے سے ہوتے ہوے دوبارہ اپنی چیئر کی طرف بڑھنے لگے
"لگتا ہے اپنے کندھے سے یوں ان کا ہاتھ کو ہٹانے کا طریقہ قاسم صاحب کو شاید اچھا نہیں لگا ، اس لیے وہ شاید غصے کے عالم میں مجھ سے پرے ہو رہے ہیں " قاسم صاحب کی باڈی لینگویج کو دیکھتے ہی فوزیہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا
اس لیے قاسم صاحب پیچھے سے چلتے ہوے جوں ہی چیئر پر بہٹھی فوزیہ کے عین سامنے اے .تو فوزیہ کو نجانے کیا سوجھی کے اس نے ایک دہم سے اپنا ہاتھ آگے کرتے ہوے قاسم صاحب کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ کی گرفت میں لے لیا.
" مسٹر قاسم کیا ایسا کوئی طریقہ ہے کے آپ جاوید کو ایک چانس مزید دے دیں پلیز " قاسم صاحب کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں تھامتے ہوے چیئر پر بہٹھی فوزیہ نے اپنے سامنے کھڑے سنیل صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک بار پھر التجا کی
" ہاں ایک چییز ایسی ہے جسے کرنے سے جاوید کی نوکری بچ سکتی ہے " فوزیہ کی بات سن کر مسٹر قاسم نے فوزیہ کے ہاتھ کی گرفت سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوے اب کی بار فوزیہ کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں تھامتے ہوے جواب دیا
"او تو پھر جلدی سے بتائیں نہ کے اس کے لیے کیا کرنا ہو گا مجھے " مسٹر قاسم کے منہ سے یه بات سنتے ہی فوزیہ نے ایک دم بے چینی سے پوچھا
فوزیہ کی بات سنتے ہی مسٹر قاسم اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوے فوزیہ کے ہاتھ کو اپنی طرف کھینچتے ہوے دوسرے ہی لمحے اس کے نازک اور ملائم ہاتھ کو پینٹ میں کسے اپنے لورے کے عین اوپر رکھ دیا اور بولا " تماری بات کا جواب تماری انگلیوں کے نیچے ہے "
فوزیہ تو اپنے شوہر جاوید کے منہ سےقاسم صاحب کی شرافت اور اچھائی کے قصے سن کر مدد کی غرض سے یہاں آئی تھی
مگربظاھر شریف نظر انے والے اس ادھیڑ عمر شخص کی اس شرمناک حرکت کو دیکھتے ہی فوزیہ پر حیرت کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا
تو وہ آنکھیں پھاڑ کر مسٹر قاسم کی طرف دیکھنے لگی. اور پھر قاسم صاحب کے لن پر جمے اپنے ہاتھ کو ہٹانے کی کوشش کرتے ہوے ایک دم سے فوزیہ کے منہ سے نکلا "کیا مطلب ہے آپ کا "
" تم کوئی دودھ پیتی بچی نہیں کے میری اس بات کا مطلب نہ سمجھ سکو" فوزیہ کی بات کا جواب دیتے ساتھ ہی قاسم صاحب نے فوزیہ کے ہاتھ کو اپنے لن پر مزید زور سے دبایا . تو فوزیہ کے نرم ہاتھ کے لمس سے قاسم صاحب کا لن جوش میں اتے ہوے پنٹ میں تیزی پھولنے پھلنے لگا . جس کی بنا پر فوزیہ کو اس بات کا فورن اندازہ ہو گیا کے قاسم صاحب کا " ہتھیار" جاوید کے ہتھیار کے مقابلے میں کافی برا ہے
"نہیں نہیں میں یه نہیں کر سکتی ،کیوں کے میں نے آج تک اپنے ہسبنڈ کے سوا کسی اور کے ساتھ ایسا کوئی کام نہیں کیا " قاسم صاحب کی بات کا مطلب اچھی ترا سمجتے ہوے فوزیہ نے جواب دیا . اور اس کے ساتھ اس نے قاسم صاحب کے لورے پر دبے اپنے ہاتھ کو ایک بار ان کے ہاتھ سے چھڑانے کی کوشش کی.
مگر اس بار بی قاسم صاحب نے اس کی یه کوشش ناکام بناتے ہوے فوزیہ کے ہاتھ کو اپنے لورے پر جماے رکھا اور بولے "کوئی بات نہیں اگر پہلے کبھی نہیں کیا تو آج کر لو، کیوں کے اپنے شوہر کی جاب بچانے کے لیے میرے لن کی مٹھ لگانے کا سودا برا نہیں بیگم فوزیہ "
قاسم صاحب کے منہ سے نکلنے والے یه گندے الفاظ سن کر فوزیہ پورا وجود شرم کے مارے کانپنے لگا اوروہ ایک دم بولی "نہیں مجھ سے نہیں ہو گا یه سب "
اس کے ساتھ ہی فوزیہ نے قاسم صاحب کی طرف دیکھتے ہوھے ایک بار پھر التجا کی "مجھے جانے دیں پلیز " اوریه کہتے ھوے اس نے چیئر سے اٹھنے کی کوشش بھی کی
"اتنی بھی کیا جلدی ہے فوزیہ جی...." فوزیہ کو چیئر سے اٹھتے دیکھ کر قاسم صاحب نے اپنے دوسرے ہاتھ سے فوزیہ کے کھندھے کو زور سے دباتے ہوے اسے اٹھنے سے روکنے کے دوران اسے کہا
اپنے ساتھ ہونے والا مسٹر قاسم کا برتاؤ اور اس کی ناجائز فرمائش سن کر فوزیہ یه بات اچھی ترھا اب سمجھ ہی چکی تھی کے اس کے شوہر باس کوئی اچھا انسان نہیں ہے . مگر اس کے باوجود ایک اخری کوشش کے طور وہ بولی " مسٹر قاسم جاوید کی ہیلپ کریں پلیز "
یه بات کہتے ہوے فوزیہ کی آواز بھر آئی اور قاسم صاحب کے شکنجے سے نہ نکل پانے کا سوچ کراس کی آنکھوں سے آنسوؤں ایک بار پھر سے پھوٹ پرے
" دیکھے بیگم جاوید ، آپ کے ہسبنڈ نے بہت بڑی غلطی کی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ہماری کمپنی کو کافی نقصان ہوا ہے . بلکہ ہمارا کسٹمر بھی ہم سے کافی ناراض ہو گیا ہے " مسٹر قاسم نے فوزیہ کو ایک بار پھر یوں روتا دیکھ کر اسے سمجھانے کی کوشش تو کی . لکن اس کے ساتھ ساتھ ہی ہو اپنے لن پر فوزیہ کے ہاتھ کا دباو بھی بڑھاتا رہا
" میں آپ کی اس بات کو سمجھ سکتی ہوں مگر آپ جوکہ رھے ہیں وہ میرے لیے نہ ممکن عمل ہے " قاسم صاحب کی بات کا جواب دیتے ہوۓ فوزیہ نے اپنے ہاتھ کو اس کے لن سے ہٹانے کی ایک اور ناکام کوشش کی . مگرقاسم صاحب کے ہاتھ کی مظبوط گرفت کی وجہ سے اس بار بی وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکی
" فوزیہ جی آپ کی اطلاع کے لیے آپ کو بتا دون کے ایک سنگل مرد ہونے کا ناطے چونکہ میرے اپنے کوئی بچے نہیں، اسی لیے یہ کمپنی مجھے اپنے بچوں کی ترا عزیز ہے ، میں ایک کاروباری آدمی ہوں، اورجس مقام پر آج میں ہوں ، اس مقام تک میں کوئی بھی چیز فری میں کسی کو دے کر نہیں پونچا جا سکتا ، جس کام کے لیے آپ میرے پاس آئی ہیں ، میرے لیے یه بھی ایک کاروباری ڈیل ہی ہے ، اپ مجھ سے ایک بڑی چیز مانگ رہی ہو ، بدلے میں آپ سے میں اتنی ہی بڑی چیز کی ڈیمانڈ کر رہا ہوں، آپ چاہیں تو میری اففر کو رد کر سکتی ہیں ، اس صورت میں آپ کو ابھی کے ابھی یہاں سے جانا ہو گا ، کیوں کے میرا وقت بہت قیمتی ہے اس لیے میں اپنا وقت ویسٹ کرنا پسند نہیں کرتا" اس کے ساتھ ہی مسٹر قاسم نے اپنے لن پر پرے فوزیہ کے ہاتھ کو ہٹا کر اس کی گود میں رکھ دیا. تو فوزیہ کو سکون سا محسوس ہوا اور اس نے رونا بند کر دیا
فوزیہ کے ہاتھ کو پنیٹ میں تنے اپنے لن سے ہٹاتے ہی مسٹر قاسم ایک لمحے کی خاموشی کے بعد دوبارہ بولا " فوزیہ جی آپ یہاں سے جانے میں اب آزاد تو ہیں ، مگر یہاں سے باہر نکلنے سے پہلے یه بات اچھی طرح جان لیں، کے آپ کے یہاں سے باہر نکلنے کی صورت میں آپ کے شوہر جاوید کو نوکری کی برخاستگی کا لیٹر شام سے پہلے پہلے ان کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا، اور چونکہ آپ کے شوہر کو ان کی غلطی کی بنا پر نوکری سے نکالا جائے گا، اس وجہ سے نہ صرف انھے اگلی نوکری ملنا بہت مشکل کام ہو گا ،بلکہ اس نوکری سے نکالے جانے کی صورت میں آپ اور اپ کے شوہر کو تیس دن کے اندر اندر امریکا چھوڑ کر واپس پاکستان بھی جانا ہو گا "
" یه کہ تو سہی رہا ہے ، کے اگر جاوید کو اس نوکری سے نکال دیا گیا، تو اسے کوئی اور جاب ملنا بہت ہی مشکل ہو گا، مگر اس کے باوجود مجھے سمھج نہیں آ رہی کے آخر کروں بھی تو کیا کروں ، کیوں کے اگر اٹھ کر چلی جاتی ہوں ، تو شوہر کو نہ صرف جاب سے نکال دیا جائے گا ، بلکہ ہمیں امریکا بی چھوڑنا پرے گا ، اور یہاں سے باہر نہ جانے کا مطلب یه ہو گا مسٹر قاسم کی بات مانتے ہوے میں ایک نیک اور شریف بیوی سے ایک گھشتی عورت بننا قبول کر لوں" مسٹر قاسم کی ساری بات سن کر فوزیہ ایک دھم سے سوچ میں پڑ گئی. اور وہ قید میں نہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو زنجیروں میں جکڑا ہوا محسوس کرنے لگی
مسٹر قاسم کی ساری باتوں اور فوزیہ کے ساتھ قاسم صاحب کے اس برتاؤ سے فوزیہ یه بات اچھی ترا جان چکی تھی . کے جاوید کی باتوں کے برعکس قاسم ایک نہایت ہی خبیث قسم کا انسان تھا جو اپنی بات منوانے کے لیے کسی حد تک بی جا سکتا تھا
ادھر اپنی سوچوں میں گم کرسی پر بہٹھی فوزیہ اگلا قدم اٹھانے کی الجن میں جکڑی ہوئی تھی
تو دوسری طرف فوزیہ کے سامنے کھڑا مسٹر قاسم فوزیہ کے چہرے کا جائزہ لیتے ہوے اس کے ردعمل کو سمجنے کی کوشش میں مصروف تھا . تا کے اسی کے مطابق وہ بھی اپنا اگلا قدم اٹھا سکے
اصل میں صورتحال یه تھی کے جاوید کی گئی غلطی کا پتا چلنے کے بعد بھی آج صبح تک قاسم صاحب کا جاوید کو جاب سے نکالنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اسی لیے انھوں نے تو جاوید کو اپنے پاس اصل میں تو ایک وارننگ دینے کی غرض سے ہی طلب کیا تھا
لکین فوزیہ کے فون کرنے پر عورتوں کے معاملے میں کافی رنگین مزاج واقعیه ہونے والے سنیل قاسم کا لن فون پر فوزیہ کی مدھور آواز سنتے ہی ایک دم اپنے جوبن پر آ گیا تھا
اور یه ہی وجہ تھی کے فوزیہ کی ریکویسٹ پر قاسم صاحب نے فورن ہی اس سے ملاقات کی حامی بھر لی تھی
پھر جب ٹائٹ ڈریس میں ملبوس فوزیہ مسٹر قاسم کے سامنے اپنی تمام تر رینایوں کے ساتھ جلفا افروز ہوئی
تو فوزیہ کے حسین جسم کے نشب و فراز اور لباس کے اندر بنا برازئر کے چھلکتی فوزیہ کی جوان چھاتیوں کو دیکھتے ہی قاسم صاحب کی پنٹ میں قید ان کا لورا جوش میں آ کر اچھلنے لگا
اور یه ہی وہ موقعہ تھا جس وقت قاسم صاحب نے فیصلہ کیا کے وہ اپنے ہندوستانی لورے کو آج اس جوان پاکستانی چوت کا مزہ ضرور چکھا کر رہے گا
ایک بزنس مین ہونے کے ناطے مسٹر قاسم کی زندگی میں اس ترا کے موقعے پہلے بی کافی آئے تھے جب اس کے کسی ورکر کی بیوی نے اس کے سامنے بیٹھ کر اپنے شوہر کی نوکری بچانے کی ان سے التجا کی تھی اور پھر اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوے قاسم صاحب نے ہمیشہ ہی اس عورت کی پھدی کا مزہ چکھا تھا
اسی لیے اب فوزیہ کے سامنے کھڑے ہو کر اس کے چہرے کا جائزہ لیتے ہوے ایک ہوشیار اور شاطر شخص ہونے کے ناطے مسٹر قاسم یه بات اچھی ترا جان چکا تھا کے دوسری کئی عورتوں کی ترھا فوزیہ بھی اس کے بچھاے ہوے جال میں پھنس چکی ہے مگر اس کے باوجود مسٹر قاسم یه چاھتا تھا کے فوزیہ جو بھی کام اور حرکت کرے وہ اپنی مرضی سے کرے
اس کی وجہ یه تھی کے ایک تو مسٹر قاسم کوئی رپسٹ انسان نہیں تھا جس کی وجہ سے وہ فوزیہ سے زبردستی چداہی کی کوشش کرتا
اور دوسرا یه کے مسٹر قاسم یه بات بہت اچھی ترھا جانتا تھا کے امریکا میں کسی کے ساتھ زبردستی چداہی کا قانون کتنا سخت ہے. اور اپنی کی گئی کسی بھی غلط حرکت پر اسے لینے کے دینے پر سکتے ہیں
اسی لیے وہ اپنا اگلا قدم اٹھانے سے پہلے فوزیہ کی رضامندی کی پوری ترا تسلی کر لینا چاھتا تھا
کچھ دیر فوزیہ کے سامنے ہونہی کھڑے رہنے کے دوران جب مسٹر قاسم نے فوزیہ کو کرسی سے اٹھ کر گھر سے باہر جاتا نہیں دیکھا تو وہ سمج گیا کےزبان سے اقرار نہ کرنے کے باوجود بھی فوزیہ دلی طور پر اب اس کی ڈیمانڈ منانے پر رضامند ہے
جس کی بنا پر وہ اب اسے نہ تو آگے بڑھنے سے روکے گئی اور نہ ہی وہ اب اس کی کسی بات سے انکار کر پائے گئی
یه بات سوچتے ہی مسٹر قاسم نے اپنی قیمتی پنٹ کی بیلٹ کھولی
اور پنٹ کے ساتھ ساتھ اپنے انڈرویر کو نیچے کرتے ہوے پنٹ اور انڈرویر دونو کو ایک ساتھ ہی اپنے جسم سے الگ کر کے نیچے فرش پر گرا دیا
مسٹر قاسم کی پنٹ اور انڈرویر اترنے کی دیر تھی کے اس کے ساتھ ہی قاسم صاحب کا ہرا ہوا
انکٹ لورا چھن سے باہر نکلا اور سانپ کی طرح اپنا پھُن پھلاتے ہوے تن کر ہوا میں کھڑا ہو گیا
قاسم صاحب کے لورے کو اپنی نظروں کے سامنے یوں عریاں ہوتا دیکھ کر شرم کے مارے نہ صرف فوزیہ کا چہرہ سرخ ہو گیا بلکہ ساتھ ہی حیرت کے مارے اس کی آنکھیں بھی پھٹی کی پھٹی رہ گیں
فوزیہ کے اس مکس ری ایکشن کی وجہ یه تھی کے چوںکہ فوزیہ نے نہ تو شادی سے پہلے اور نہ ہی شادی کے بعد اپنے شوہر جاوید کے علاوہ کسی اور مرد سے کسی قسم کا کوئی جنسی تعلق رکھا تھا اور نہ ہی اپنی زندگی میں جاوید کے علاوہ کسی غیر مرد کا لن کو اس سے پہلے دیکھا تھا . اس لیے شوہر کے علاوہ کسی اور مرد کے لن کو یوں اچانک اپنی نظروں سے سامنے ننگا دیکھ کر اسے بہت شرم محسوس ہوئی
مگر ساتھ ہی ساتھ جاوید کے لورے کے مقابلے میں قاسم صاحب کا لن نہ صرف کافی لمبا، موٹا اور چوڑا تھا. بلکہ جاوید کے لورے کے برعکس قاسم صاحب کا لورا آگے سے کٹا ہوا بھی نہیں تھا . اسی لیے اپنے شوہرکے کٹے ھوے لن سے مختلف ایک انکٹ لورا دیکھ کر فوزیہ ایک دم حیرت زدہ رہ گئی
ابھی فوزیہ گم صم کی حالت میں ہی کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی کے اتنے میں قاسم صاحب نے آگے ہوتے ہوے فوزیہ کی گود میں رکھا ہوے ہاتھ کو اٹھایا اور اسے لا کر ایک دم سے اپنے تنے ہوے ننگے لن پر رکھ دیا
قاسم صاحب نے جسے اپنے لورے پر فوزیہ کا ہاتھ کو رکھا تو شرم اور خوف کے مارے "نہیییییی نہیییییی " چلاتے ہوے فوزیہ نے مسٹر قاسم کے لن سے اپنا ہاتھ کو ہٹانا چاہا
تو فوزیہ کو اپنے لورے سے اپنا ہاتھ ہٹانے کی کوشش کرتا دیکھ کر قاسم صاحب سے اس کے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوے فوزیہ سے ایک بار پھر فرمائش کی. "اووووووو اپنے ہاتھ سے میرے لن کی مٹھ لگا کر میرا پانی نکال دو نہ فوزیہ جی "
اور پھر جواب کا انتظار کیے بغیر ہی اپنی گانڈ کو آگے پیچھے ہلاتے ہوے اپنے تنے ہوے سخت لورے کو فوزیہ کی نرم اور گداز ہتھلی پر آہستہ آہستہ رگڑنا شروع کر دیا
ایک اجنبی مرد کے ننگے لن پر اپنے ہاتھوں کی ماجودگی ذہنی طور پر فوزیہ کے لیے بہت ہی قوفت کا باحیث تھی مگر وہ کوشش کے باوجود بھی قاسم صاحب کے چنگل سے اپنے آپ کو نہیں بچا پا رہی تھی
فوزیہ ابھی اسی کشمکش میں گھری ہوئی تھی کے وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے کے اچانک اس کے دماغ میں ایک بات آئی اور وہ خیالوں ہی خیالوں میں اپنے آپ سے ہمکلام ہوئی کے "
" جب میری کالج کی کافی ساری کلاس فیلوز پاکستان میں رهتے ہوے بھی پڑھائی کے دوران ہی بواۓ فرینڈز بنا کر شادی سے پہلے ہی چدوا سکتی ہیں ، تو اپنے شوہر کی جاب بچانےاور اپنے بہتر مستقبل کے لیے پردیس میں اس غیر مرد کی مٹھ لگانے میں مجھے کوئی حرج نہیں ہونا چایئے"
یه خیال دل میں اتے ہی فوزیہ نےاپنے آپ کو اس گندے کام کے لیے امادہ کرنے کی کوشش کی .اور پھر ساتھ بی بوجل دل کے ساتھ نہ چاہتے ہوے قاسمصاحب کے چٹان کی طرح سخت اور لوہے کی طرح گرم لورے پر اپنے ہاتھ کا دباو بڑھاتے ہوے جلدی سے ان کے لن کی مٹھ لگانا شروع کر دی
"اففففففففف کیا جادو ہے آپ کے ان نازک ہاتھوں میں فوزیہ جی " فوزیہ کے گداز ہاتھوں کو اپنے موٹے سخت لورے پر چلتا ہوا محسوس کرتے ہی مزے اور خوشی سے اچھلتے ہوے قاسم صاحب ایک دم بول پرے
اصل میں مسٹر قاسم ایک نہایت ہی شاطراور بے غیرت قسم کا انسان تھا . جسے کسی عورت سے اس کی مرضی کے خلاف اس ترھا کا گندا کام کروا کر ایک عجیب سا جنسی مزہ ملتا تھا
یه ہی وجہ تھی کے فوزیہ جیسی جوان اور خوبصورت عورت کو اپنے سامنے دیکھ کر مسٹر قاسم کو جاوید کی غلطی پر بہت خوشی ہوئی تھی کیوں کے یه جاوید کی غلطی کی وجہ سے ہی اسے جاوید کی شریف اور خوبصورت بیوی کے ساتھ جنسی مزہ کرنے کا موقع میسر ایا تھا . اور اب فوزیہ جیسی جوان شادی شدہ عورت کو اپنی مرضی کے خلاف اس کے لورے پر ہاتھ چلاتا دیکھ کر قاسم صاحب کے اندر کا شیطان اب پورا ترا جاگ چکا تھا
اور اسی لیے فوزیہ کو یوں اپنی بات مانتے دیکھ کر قاسم صاحب نے اپنے فرمائشی پروگرام کو آگے بڑھانے کا سوچتے ہوے اپنے سامنے بیٹھی فوزیہ بیگم کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوے کہا " میرے لن کو اپنے منہ میں بھر لیں فوزیہ جی "
اس شادی شدہ عورت کو اپنی مرضی کے خلاف اس کے لورے پر ہاتھ چلاتا دیکھ کر قاسم صاحب کے اندر کا شیطان اب پورا طرح جاگ چکا تھا. اور اسی لیے فوزیہ کو یوں اپنی بات مانتے دیکھ کر قاسم صاحب نے اپنے فرمائشی پروگرام کو آگے بڑھانے کا سوچتے ہوے اپنے سامنے بیٹھی فوزیہ بیگم کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوے کہا " اپنے ہونٹوں سے میرے لن کو پیار کریں فوزیہ جی "
" کیااااااا" قاسم صاحب کی یه فرمائش سنتے ہی فوزیہ نے اپنی آنکھیں اوپر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا اور ساتھ ہی اپنے سر کو قاسم صاحب کے ہاتھ کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کی
مگر اسی دوران قاسم صاحب نے کرسی پر بہٹھی فوزیہ کے سر کو اپنے ہاتھوں سے دبوچتے ہوے فوزیہ کے منہ کو اپنے تنے ہوے لن کے قریب کیا. اور اپنے لورے کو فوزیہ کے ہونٹوں کے عین سامنے لہراتے ہوے ایک بارپھر اپنی فرمائش دوہرائی " اپنے ان گلابی ہونٹوں سے ایک بار میرے لورے کو چھویں فوزیہ جی "
"نہیں میں نے تو یه کام کبھی جاوید کے ساتھ نہیں کیا، تو آپ کے ساتھ کیسے کر سکتی ہوں قاسم صاحب " اپنی آنکھوں کے سامنے تنے ہوے مسٹر قاسم کے لورے پر نظریں جماے فوزیہ ایک دم سے گبھراتے ہوے بولی
" جاوید کے ساتھ آپ نے یه سب کیا ہے یا نہیں ، مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ، اگر تو آپ اپنے شوہر کی نوکری واقعی ہی بچانا چاہتی ہیں، تو پھر آپ کو میری ہر بات ماننا پرے گئی ، ورنہ آبھی بھی وقت ہے آپ یہاں سے جا سکتی ہیں فوزیہ جی " فوزیہ کا انکار سنتے ہی مسٹر قاسم کو غصہ ایا اور اپنی خواہش پوری نہ ہوتے دیکھ کر وہ سفاکی سے بولا
مسٹر قاسم کا یه سفاکانہ لہجہ سنتے ہی فوزیہ سمھج گئی کے اب اس خبیث آدمی کی بات ماننے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں بچا تھا
اس لیے اپنی بے بسی کا سوچتے ہوے فوزیہ کی آنکھوں میں آنسوؤں ایک بار پھر سے جاری ہو گے تو اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھیں خود با خود بند ہو گیں
فوزیہ کو یوں اپنی آنکھیں بند کرتے دیکھ کر مسٹر قاسم سمجھ گیا کے فوزیہ اس کے سامنے ہار مان چکی ہے
جس کی بنا پر اس کا حوصلہ بڑھا اور پھر اس نے چند قدم آگے بڑھ کر اپنے تنے ہوے پتھریلے لورے کو کرسی پر بٹھی فوزیہ کے نرم- و- نازک ہونٹوں کے عین اوپر رکھ کر لن کو فوزیہ کے لبوں پر ہلکا سے رگڑا . تو قاسم صاحب کے گرم لورے کی تپش اپنے گداز لبوں پر محسوس کرتے ہی فوزیہ نے ایک دم سے اپنی آنکھیں کھول دیں
"فوزیہ جی میرا لورا آپ کے ان پنکھڑی جسے گلابی ہونٹوں کا سواد چکنا چاہتا ہے ، پلیز اس اپنے ہونٹوں کا رس پلا دیں " مسٹر قاسم نے اپنے موٹے لورے کو فوزیہ کے لبوں کے سامنے لہراتے ھوے فرمائش کی
قاسم صاحب کی بات سن کر فوزیہ نے نظریں اٹھا کر ان کی طرف دیکھا اور پھر نہ چاہتے ہوے بھی اس نے اپنا منہ آگے بڑھایا اور اپنی زبان کو اپنے منہ سے باہر نکال کر مسٹر قاسم کے لن کے موٹے ٹوپے کو ہلکا سا چھو لیا
ہاااااااااے کیا گرم زبان ہے آپ کی فوزیہ جی ، میرے لن کو یوں تو نہ ترسائیں ، بلکہ اسے اپنے منہ میں بھر لیں پلیز " فوزیہ کی گرم زبان کو یوں پہلی بار اپنے لن سے ٹچ ہوتا محسوس کر کے مزے کے مارے مسٹر قاسم کے منہ سے سسکاری نکلی اور اس کے ساتھ ہی اس نے فوزیہ سے دوبارہ ایک اور فرمائش کر دی
مسٹر قاسم کی بات سن کر فوزیہ نے ایک لمحے کے لیے کچھ سوچا اور پھر اپنا منہ پورا کھولتے ہوے قاسم صاحب کے لن کے ٹوپے کو اپنے منہ میں بھرنے کی کوشش کی مگر قاسم صاحب کا لورے کا ٹوپا اتنا موٹا تھا کے وہ فوزیہ کے چوتھے منہ میں داخل نہیں ہو پا رہا تھا
فوزیہ نے لن کو منہ سے باہر نکالا اور ایک بار پھر ٹرائی کی مگر نتیجہ پہلے جیسا ہی تھا
قاسم صاحب نے جب دیکھا کے کوشش کے باوجود فوزیہ ان کے موٹے لمبے لورے کو اپنے منہ میں نہیں لے پا رہی تو انھے نہ جانے ایک دم کیا سوجھی کے انھوں نے فوزیہ کے سر کو اپنے ہاتھوں میں پکڑتے ہوے اپنی گانڈ کو ایک جٹکا دیا تو ان کا لورا فوزیہ کے لبوں کو چیرتا ہوے اس کے منہ میں آدھا داخل ہو گیا
"اوووو نہیں " قاسم صاحب کےسخت لورے کو اپنے منہ میں محسوس کرتے ہی فوزیہ نے اپنے سر کو پیچھے کرتے ہوے مسٹر قاسم کے لن کو اپنے منہ سے نکالنے کی کوشش کی مگر قاسم صاحب بھی اس جنسی کھیل میں ایک منجھے ہوے کھلاڑی کی حثیت سے فوزیہ جیسی ناسمجھ عورت کے ری ایکشن سے اچھی طرح واقف تھے
اس لیے فوزیہ نے جوں ہی اپنے سر کو پیچھے کر کے قاسم صاحب کے لن کو اپنے منہ سے نکالنے کی کوشش کی
تو مقابلے میں قاسم صاحب نے فوزیہ کے سر کو اپنے ہاتھوں سے جکڑتے ہوے فوزیہ کو یه موقہ نہیں دیا کے وہ ان کے لن کو اپنے منہ سے اب نکال سکے
"اففففففففففففف اس عورت کا منہ اگر اتنا گرم ہے تو اس کی چوت کتنی گرم ہو گئی " فوزیہ کے منہ میں اپنے لمبے لورے کا موٹا ٹوپا داخل کرنے ہی مسٹر قاسم کو اپنی توقع سے زیادہ سواد ملا تو اس کے ذھن میں خیال ایا. اور اس کے ساتھ ہی وہ ایک بولا " ہاۓ فوزیہ جی میرے لن کا چوپا تو لگاؤ نہ پلیز "
اپنے لن کو اپنے سامنے بہٹھی فوزیہ کے حلق میں ٹھونستے ہوے مسٹر قاسم نے فرمائش کی اور پھر اس کے جواب کا انتظار کیے بنا ہی اپنی گانڈ کو آگے پیھچے ہلاتے ہوے اپنے لن کے ذرے فوزیہ کے منہ کو آہستہ آہستہ چودنا شروع کر دیا
" ہاااااااااے اپنی شادی کے بعد جاوید نے کئی بار مجھ سے اپنا لن چوسنے کی فرمائش کی تھی مگر میں نے اپنے شوہر کو ہمیشہ یه کہہ کر خاموش کر دیا تھا کے " یه گندہ کام ہے جان ، مگر آج مسٹر قاسم اپنی بلیک میلنگ کے ذریعے مجھے اب وہ ہی گندہ کام اپنے ساتھ کرنے پر مجبور کر رہا ہے جسے میں آج تک اپنے شوہر کے ساتھ کرنے سے انکاری تھی " اپنے منہ میں آگے پیچھے ہلتے مسٹر قاسم کے لورے کی حرکت کو محسوس کرتے ہوے فوزیہ کے ذہن میں خیال ایا .
ابھی فوزیہ اپنے اسی خیال میں گم تھی کے اتنے میں اس کے سامنے کھڑے مسٹر قاسم نے اپنی گانڈ کو ایک دم آگے کرتے ہوے ایک بار پھر زور کا دھکا مارا تو اس بارقاسم صاحب کا لورا مزید تیزی
کے ساتھ فوزیہ کے منہ سے ہوتا ہوا اس کے حلق میں اترتا چلا گیا
فوزیہ قاسم صاحب کے اس اچانک حملے کے لیے بالکل بی تیار نہیں تھی . اسی لیے جوں ہی قاسم صاحب کا موٹا لمبا لورا فوزیہ کے حلق میں اترا تو فوزیہ کو اپنی سانس بند ہوتی ہوئی محسوس ہوئی اور اس کے ساتھ ہی اسے ایک دم سے کھانسی لگ گئی جس کی وجہ سے اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگ گئی اور اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں ایک بار پھر آنسوں سے بھر گئیں.
فوزیہ نے اپنے سر کو پیچھے کرتے ہوے مسٹر قاسم کے لورے کو ایک بار پھر اپنے منہ سے جٹکنے کی کوشش کی مگر قاسم صاحب نے اب کی بار فوزیہ کے سر کے کو اپنے دونوں ہاتھوں
سے دبوچتے فوزیہ کے سر کو پیچھے کی طرف سے کس کے پکڑا اور اپنا لوڑا تیزی کے ساتھ فوزیہ کے گرم منہ میں پیلنا شروع کر دیا
"میرے ساتھ یه خبث انسان جو کچھ بھی کر رہا ہے بیشک وہ کسی بی لحاظ سے سہی نہیں مگر اب بہتری اسی میں ہے کے اس آدمی سے تاؤن کرتے ہوے میں جلدی سے اس کا پانی نکل کر اسے فارغ کروں اور تا کے یہاں سے جلد از جلد نکل سکوں" اپنی مرضی کے خلاف اپنے منہ میں گومتے قاسم صاحب کے لن کے تیکھے سواد کو اپنے زبان سے پہلی بار چکتے ہوے فوزیہ نے سوچا اور پھر اس کے ساتھ اس نے اپنی بہتی آنکھوں کو اپنے ہاتھوں سے صاف کرتے ہوۓ اپنے منہ کو پورا کھولتے ہوے قاسم صاحب کے موٹے لمبے لورے کا جیسے تیسے چوپا لگانے لگی
"اففففف فوزیہ جی کیا جادو ہے آپ کی زبان میں" فوزیہ کی اناڑی زبان نے جسے ہی منہ سے نکل کر قاسم صاحب کے لورے پر گھومنا شروع کیا تو لذت کے مارے مسٹر قاسم کے منہ سے سسکیاں نکل کر کمرے میں گھونجنے لگیں
فوزیہ کے گرم منہ کے سواد سے بے حال ہوتے ہوے قاسم صاحب نے فوزیہ کے سر کو اپنے ہاتھوں میں مزید طاقت سے پکڑا اور طوفانی انداز فوزیہ کے منہ کو چھودتے ہوے زور سے چیخے " اففف... آں رنڈی..کھول اور کھول اپنا منہ اور میرا پورے کا پورا ا پنے منہ میں لے رنڈی"
فوزیہ جیسی شریف عورت نے جب پہلی بار کسی مرد کے منہ سے اپنے متلعق ایسے الفاظ سنے تو اس نے نظریں اٹھا کر قاسم صاحب کی طرف دیکھا مگر اپنے بارے میں کہے گے ان گندے الفاظ کو سن کر مسٹر قاسم پر غصہ انے کی بجاے نہ جانے فوزیہ کو پہلی بار اپنی چھوت ایک دم گھلی محسوس ہونے لگی
" افففف یه کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ آج " اپنے جوان جسم کی اس بدلتی حالت کو محسوس کرتے ہی فوزیہ کو یه خیال آیا اور شرم کے مارے وہ اپنی ہی نظروں میں اپنے کو گرا ہوا محسوس کرنے لگی
اب کمرے میں حالت یه تھی کے ایک طرف مسٹر قاسم بھوکے شیر کی طرح اپنے لن کو اندر باہر کرتے ہوے فوزیہ کے لبوں اور منہ سے لطف اندوز ہو رہا تھا
جب کے دوسری طرف فوزیہ اپنے منہ اور زبان کو مسٹر قاسمکے لن پر تیزی سے گماتے ہوے جلد از جلد اس مصیبت سے چھٹکارا پانا چا رہی تھی
فوزیہ بیشک لورا چوسائی کے معاملے میں اناڑی تھی مگر اس کے باوجود اپنے ساتھ کی جانے والی مسٹر قاسم کی زبردستی کے ہاتھوں ہار مانتے ہوۓ اس نے جوں ہی قاسم صاحب کے لورے کو پہلی بار چوسنا شروع کیا.تو فوزیہ کے کنوارے منہ کی گرمی کے اثر سے مسٹر قاسم جسے تجربہ کار مرد کا لورا بھی پگلنے پر مجبور ہونے لگا تھا اور پھر فوزیہ کے چوسے سٹارٹ کے چند ہی لمحوں بعد قاسم صاحب کی ہمت جواب دے گئی اور ان کے منہ سے " اہہ ہہ اااااااا۔۔ اوووووو۔۔۔ ھاااااااااا" جیسی آوازیں نکلنا شروع ہو گیں
اس کے ساتھ ہی قاسم صاحب کو اپنے بھاری ٹٹو میں ایک طوفان سا اٹھتا ہوا ممحسوس ہوا . اور وہ اپنے لن کو فوزیہ کے منہ میں جھڑ تک گھساتے ہوے ایک دم چیخے "اووو افففف میرا پانی نکلنے لگا ہے فوزیہ جی "
قاسم صاحب کی یه بات سنتے ہی فوزیہ نےاپنے سر کو پیچھے کرتے ہوے اپنے منہ میں گھسے قاسم صاحب کے لن کو باہر نکالنے کی کوشش کی
مگر مسٹر قاسم صاحب کے ہاتھوں می جکڑے اس کے سر اور اپنے منہ میں ٹھسے قاسم صاحب کے لن کے ٹوپا نے اس کا منہ کو بند کیا ہوا تھا۔
جس کی بنا پرچاہنے کے باوجود فوزیہ ایسا نا کر سکی اور پھر دوسرے ہی لمحے قاسم صاحب کے لن سے تازہ اور گرم منی کی دھار نکل کر فوزیہ کے منہ کے اندر ہی گرنے لگی
اوو نو" قاسم صاحب کی لیس دار گرم منی جوں ہی پہلی بار فوزیہ کے منہ میں گری تواس کے کے نمکین ذائقے کو اپنی زبان پر محسوس کرتے ہی فوزیہ کے منہ سے یه الفاظ نکلے
مگر قاسم صاحب نے اس کے ردے عمل کی پروا نہیں کی اور فوزیہ کے سر کو اپنے ہاتھوں سے دباتے ہوے اپنے لن کا سارا مادہ اس کے منہ میں انڈیلتے ہوے بولا " لے سالی گشتی پی میرے لن کا پانی کو، تم بے شک اقرار نہ کرو مگر مجھے پتا ہے کے اوپر سے شرافت کا ڈھونگ رچانے والی تماری جیسی عورتیں اندر سے پوری رنڈی ہوتی ہیں جن کو لن کا پانی پینے میں بہت مزہ اتا ہے "
فوزیہ کا سر قاسم صاحب کے ہاتھوں میں دبوچے ہونے کی وجہ سے فوزیہ کے پاس ان کے لن کا پانی سے بچنے کا کوئی چارہ نہیں تھا اس لیے وہ بے بسی سے مسٹر قاسمان گندی باتوں کو سننے کے ساتھ ساتھ ان کی تیکھی اور گاری منی کو اپنے منہ کے راستے اپنے حلق میں گرتا ہوا محسوس کرتی رہی
کچھ دیر یوں ہی اپنے لن کے مادے سے فوزیہ کے منہ کو بھرنے کے بعد قاسم صاحب نے فوزیہ کے منہ میں ٹھنسا ہوا اپنا لورا باہر نکالا اور ساتھ والے صوفے پر جا کر بیٹھ گیا
جب کے دوسری طرف اپنے منہ سے قاسم صاحب کا لن نکلتے ہی فوزیہ نے اپنے حلق ہو ایک دم کھولا تو اس کی سانس میں سانس تو آئی مگر اس کے ساتھ ہی منہ میں بھری ہوئی قاسم صاحب کی تیکھی منی اس کے منہ سے نکل کر لبوں کو بھگوتے ہوے فوزیہ کے گلے اور چھاتی کو بھی گیلا کرنے لگی
"بے شک اس خبیث انسان نے اپنے لن کے پانی کو میرے منہ میں بھر کر میرا پاکیزہ منہ ناپاک تو کر دیا ہے مگر چلو اس کے بدلے اب میرے شوہر جاوید کی نوکری تو ضرور بچ جائے گئی" اپنے منہ میں چھوڑے ہوے قاسم صاحب کے لن کے پانی کو اپنے حلق میں جاتا محسوس کرتے ہی فوزیہ کے ذھن میں یه خیال ایا تو اس نے ایک دم سے فرش پر تھوکا اور پھر بھاگتے ہوے قاسم صاحب کے بیڈ روم کے ساتھ بنے ہوے باتھ روم میں جا کر پانی سے اپنے منہ کے غرارے کرنے لگی
اپنے منہ کو پانی سے طرح صاف کرنے کے بعد فوزیہ جوں ہی باتھ روم سے باہر آئی تو اس کی نظر دروازے کے سامنے کھڑے قاسم صاحب پر پری
جو اس وقت اپنے لباس سے بے نیاز بلکل ننگی حالت میں فوزیہ کے سامنے کھڑے تھے اور ان کی ٹانگوں کے درمیاں ان کا موٹا لمبا لورا اپنا پانی فوزیہ کے منہ میں نکالنے کے باوجود ایک بار پھر تن کر کھڑا تھا
"آپ اس حالت میں میرے سامنے آ کر کیوں کھڑے ہو گے ہیں قاسم صاحب " بے شک فوزیہ نے آبھی کچھ لمحے پہلے ہی نیم ننگے قاسم صاحب کے لورے کو چوس کر ان کے لن کا پانی اپنے ہی منہ میں نکالا تھا مگر اس کے باوجود اسے مسٹر قاسم کو اپنے سامنے اس حالت میں دیکھ کر شرم محسوس ہوی اور اس نے اپنی نظروں کو ایک دم نیچے جھکاتے ہوے کہا
"افففف تماری اس ظالم جوانی نے میرے لن کو آج اتنا پاگل کر دیا ہے کے یه تمارے منہ کے ساتھ ساتھ اب تمہاری چھوت کا ذائقہ بھی چکھنا چاہتا ہے فوزیہ جی "
فوزیہ کی بات سن کر مسٹر قاسم نے اپنے لن پر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرتے ہوے جواب دیا
" میں نے آپ کی خواھش پوری کر دی ہے اس لیے اب جانے دیں مجے پلیز " قاسم صاحب کے منہ سے ایک نیا مطالبہ سنتے ہی فوزیہ ایک دم سکتے میں آ گئی .اس نے اپنی ناظرین اوپر اٹھا کر قاسم صاحب کی طرف دیکھا اور پھر ایک دم تیزی سے چلتے ہوے کمرے سے باہر نکلنے کی کوشش کی
"ہاااااااااے جہاں پہلے میری ایک فرمائش پوری کی ہے وہاں دوسری فرماش پوری کرنے میں کیا حرج ہے میری جان " فوزیہ کو یوں اپنے چنگل سے نکلتا دیکھ کر قاسم صاحب کو غصہ ایا اور انھوں نے فوزیہ کو جسم کوپیچھے سے اپنی باہوں میں جکڑ لیا
قاسم صاحب کے ایک اور حملے سے فوزیہ ایک دم پریشان ہو گئی اور اس نے اپنے وجود کو مسٹر قاسم کی قید سے چھڑانے کی کوشش کرتے ہوے کہا "میں نے اب تک جو کچھ بی کیا وہ صرف اور صرف اپنے شوہر کی نوکری بچانے کی مجبوری میں کیا، اب اس سے آگے بڑھنا میرے لیے ناممکن ہے قاسم صاحب "
" ہاااااااااے فوزیہ جی بس ایک بار اپنی اس پیاری چھوت کا مزہ لینے دیں مجھے اس کے بعد میں آپ کو تنگ نہیں کروں گا " فوزیہ کی بات سن کر مسٹر قاسم نے پیار بھرے لہجے میں اسے جواب دیا اور دوسرے ہی لمحے فوزیہ کے ڈریس کو اس کے جسم سے ***حدہ کیا تو بنا برازئراور پینٹی کے فوزیہ کا جوان اور دلکش وجود مسٹر قاسم صاحب کی نظروں کے سامنے عریاں ہو گیا
فوزیہ کی خوبصورت ٹانگیں، گوری گوری اور بھری بھری رانیں، موٹے، سڈول اور فل جوسی چوڑے کولہے اور اوپر سے موٹی بھاری صاف شفاف اور گداز کسی ہوئی جوان چھاتیاں کو دکھتے ہی قاسم صاحب کی تو سٹی ہی گم ہوگئی اور فوزیہ کا یه قیامت خیزسراپا دیکھتے ہی مسٹر قاسم کے منہ میں پانی آ گیا
" افففف کیا شاندار جوانی ہے آپ کی فوزیہ جی " فوزیہ کی کسی ہوئی جوان چھاتیوں اور اس کی لمبی گداز رانوں کے درمیاں سے جانگتی شفاف چھوت پر ہوس بھری نظریںڈالتے ہوے قاسم صاحب بولے