Shehla69
Elite writer
Offline
- Thread Author
- #1
پہلے پہل جب سو جل سے ملاقات ہوئی تو میں بہت حیران تھی کہ وہ اتنا کم کیوں بولتی ہے ، دھیمے دھیمے لہجے میں بات کرتی ، اتنی خاموش طبع لڑکی میں نے کبھی نہ دیکھی تھی۔ اس کی خاموشی کے سبب انہوں نے اس کو مغرور سمجھ لیا اور وہ بھری کلاس میں تنہارہ گئی لیکن میں نے اسی کی ہم نشست بننا پسند کیا اور اس کی خاموش طبع سے سمجھوتہ کر لیا۔ بالآخر اس نے مجھ سے دوستی کر لی۔ وہ صرف مجھ سے بات کرتی، میں نے بھی اس کے سوا کسی اور کو سہیلی نہ بنایا، یوں ہم ایک جان دو قالب ہو گئے۔ رفتہ رفتہ مجھے علم ہو گیا کہ وہ خاموش طبع اور آدم بیزار بالکل نہیں ہے ، اس کے ماحول نے اسے یہ رویہ اپنانے پر مجبور کر دیا ہے۔ سوجل دراصل ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ ایک ایسا روایتی خاندان، جہاں لڑکیوں کا زیادہ بات کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اسے بچپن سے ہی کم بولنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ اس کی ماں بھی کم گو ، مدھم لہجے میں بات کرنے والی، سہمی سہمی سی عورت تھی، حالانکہ وہ ایک پیار کرنے والی ماں اور بہت اچھی سوچ رکھنے والی خاتون تھی لیکن سوجل کا باپ ایک روایتی قسم کا جاگیر دار تھا۔ بھائی بھی باپ کے نقش قدم پر چلتے تھے ۔ ان کے ہاں دولت کی تو فراوانی تھی لیکن عورت کی پیدائش کو جرم جانا جانا تھا، تبھی اس پر کئی طرح کی پابندیاں عائد کی جاتیں تا ہم یہ سوجل کی خوش قسمتی تھی کہ ان کے ہاں لڑکیوں کو پڑھنے سے نہیں روکا جاتا تھا کیو نکہ ان کے لڑ کے اعلی تعلیم یافتہ ہو کر گھروں کو لوٹتے تو وہ اپنے خاندان کی ان پڑھ لڑکیوں سے شادی سے انکار کر دیتے تھے اور باہر سے لڑکیاں بیویاں بنا کر لے آتے تھے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے بزرگوں نے اپنی بچیوں پر سے پابندی ہٹالی اور ان کو کالج اور یونیورسٹی میں بھی پڑھنے کی اجازت دے دی گئی اس شرط کے ساتھ کہ وہ کسی غیر لڑکے کو نظر بھر کر بھی نہ دیکھیں گی۔ وہ مجھ سے کہتی ، فلزا! تم نہیں جانتیں کہ ہمارا ماحول کیسا ہے ؟ ایک بات کو بار بار سمجھایا جاتا ہے۔ ایسی باتوں سے ہماری شخصیت رفته رفته مسخ ہو کر رہ جاتی ہے۔ زندگی کے بڑے فیصلے تو کجا ہم اپنے چھوٹے چھوٹے فیصلے خود نہیں کر سکتے۔ سوجل ! کیسی باتیں کرتی ہو ؟ تمہاری باتیں میری سمجھ سے باہر ہیں۔ اب زمانہ بہت بدل گیا ہے، نجانے تمہارا گھرانہ کس دور میں رہتا ہے۔ تم ابھی نہیں سمجھ سکتیں لیکن وقت آنے پر سمجھ جائو گی۔ خیر ، مجھے اپنی دوست سے غرض تھی جو نہایت ہم درد اور اچھی فطرت کی لڑکی تھی۔ مجھے اس کو دیکھ کر دکھ ہوتا تھا۔ ڈر اور خوف اس کے اندر سرایت کر چکا تھا ، خود اعتمادی رخصت ہو گئی تھی۔ اس کی بڑی بڑی ہرنی جیسی آنکھیں اکثر خالی خالی اور ویران نظر آتی تھیں۔ اس کی باتیں کبھی کبھی میرے لئے بہت پریشانی کا باعث بنتی تھیں۔ میں کہتی ، چلو اتنی خوش قسمت تو ہو کہ تم گائوں سے کالج تک پہنچ جاتی ہو۔ وہ کہتی، بیرونِ ملک تعلیم دلوانا، ہمارے بھائیوں کا نصیب اور ہم کالج تک بھی نہ پڑھیں تو تہذیب یافتہ کیسے کہلائیں گے۔ جب میں نے کالج میں داخلہ لیا مجھے بھائی نے کہا تھا۔ کان کھول کر سُن لو ! تمہاری آنکھیں صرف کتابیں دیکھنے کے لئے تمہارے ساتھ جارہی ہیں۔ کان صرف لیکچر سننے کے لئے اور ہاتھ پائوں پڑھائی کے کاموں میں استعمال ہونے کے لئے ، اگر ان کا ذرا بھی غلط استعمال ہوا تو آنکھیں نکالی جاسکتی ہیں ، کان بند کئے جا سکتے ہیں اور ہاتھ پائوں توڑے بھی جا سکتے ہیں۔ انہی باتوں کے پیش نظر وہ کلاس فیلوز سے بہت کم بات کرتی تھی۔ ہمارے ساتھ بہت اچھے گھرانوں کے طلباء پڑھتے تھے۔ وہ سوجل سے بات کرنے کے خواہش مند تھے مگر وہ کسی کی جانب دیکھتی تک نہ تھی جیسے کوئی نگراں ہر وقت اس پر مقرر رہتا ہو۔ اس کے ساتھ آنے والا ڈرائیور اور گارڈ بھی سارا دن کالج سے باہر بیٹھارہتا تھا۔ وہ ایک ایسی قید میں تھی جس کی کوئی سلاخیں نہ تھیں، مگر اس کی شخصیت روز ہی ٹوٹتی اور روز ہی بکھرتی رہتی۔ مجھے کبھی کبھی بہت زیادہ دکھ ہوتا تھا۔ ہماری کلاس میں ایک لڑکا اختر تھا وہ بہت سلجھا ہوا اور با تہذیب، کسی اچھے خاندان کا چشم و چراغ لگتا تھا۔ ہوشیار اور ذہین بھی اس جیسا کوئی نہ تھا۔ پڑھائی میں ہم اکثر طالب علم اس سے مدد لیا کرتے۔ سوجل کو کوئی پریشانی یا مشکل ہوتی تو وہ مجھ سے کہتی اور میں اس کا مسئلہ اختر سے حل کروا دیا کرتی تھی۔ میں نے ایک بات نوٹ کی تھی کہ سوجل کبھی کبھار کسی لڑکے کی بات کا جواب دے دیا کرتی تھی مگر اختر سے بالکل بھی بات نہ کرتی تھی۔ ایک دو بار اختر نے کوشش بھی کی تو اس نے بُری طرح اسے جھڑک دیا۔ اختر بہت اچھا لڑکا تھا رفتہ رفتہ میری اس کے ساتھ دوستی ہو گئی مگر مجھے یہ احساس بھی ہوا کہ اس سے دوستی کرنے کی وجہ سے سوجل مجھ سے دُور ہو گئی ہے۔ جہاں میں اور وہ بیٹھی ہو تیں اور وہ آجاتا تو وہ فوراً اٹھ کر چلی جاتی تھی۔ اس بات کو وہ بھی محسوس کرتا تھا مگر کچھ کہتا نہیں تھا۔ ایک دن تو سوجل نے حد کر دی۔ اختر کلاس میں آیا۔ وہاں دو تین طالب علم اور بھی موجود تھے۔ وہ ہماری طرف آگیا۔ میں نے سلام کیا۔ اس نے جواب دیا اور کہا کہ آپ کی سہیلی سلام کا جواب دینے سے نا آشنا ہے ، کیا اس کو سلام وجواب کی فضیات کسی نے نہیں بتائی ؟ اس کا اتنا کہنا تھا کہ سوجل نے آگے بڑھ کر اس کے منہ پر تھپڑ مار دیا اور کلاس روم سے چلی گئی ۔ سب حیران رہ گئے۔ مجھے اس بات نے افسردہ کر دیا۔ میں نے سوچا کہ کل آئے گی تو اس سے بات کروں گی۔ میں نے اختر سے پوچھا۔ تم ہی بتائو اصل معاملہ کیا ہے ؟ آخر سوجل کا غیر معمولی رد عمل تمہارے ساتھ کیوں ہے؟ وہ چپ رہا تب دل جوئی کی خاطر میں بولی۔ در اصل تم کو پتا نہیں کہ یہ کس گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کا بھی قصور نہیں، ہر انسان اپنے ساتھ اپنا خاندانی پس منظر لے کر آتا ہے۔ کوئی دوسرا نہ سمجھے تو ایسی باتیں وقوع پذیر ہو جاتی ہیں۔ تب وہ گویا ہوا۔ فلزا! آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میں تم سے بھی زیادہ اس کی فیملی کو جانتا ہوں کیونکہ وہ میری کزن ہے۔ حیرت سے میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا، تاہم اس نے مسئلہ نہ بتایا اور چلا گیا۔ آج کیسا دن تھا؟ میں گھر آگئی مگر ابھی تک ذہن میں آج کے دن کا یہ واقعہ مکڑیوں کی طرح رینگ رہا تھا۔ کبھی مجھے اختر کا خیال آتا اور کبھی سو جل کا، میں سوچتی رہی کہ آخر سو جل نے مجھے کیوں نہیں بتایا کہ اختر سے اس کی رشتے داری ہے۔ تمام باتوں نے میرے ذہن کو الجھا کر رکھ دیا۔ تمام رات پریشان رہی۔ اگلے دن تو میری الجھن میں اور بھی اضافہ ہو گیا کہ دونوں ہی کالج نہیں آئے تھے۔ گھر آکر سوجل کا نمبر ملایا۔ میں نے کہا۔ سو جل تمہارے نام کا مطلب تو اجالا ہے ، پھر کیوں تم نے میرے دل میں اندھیرا بھر دیا۔ اس کی آواز بھاری بھاری لگ رہی تھی، جیسے تمام رات روتی رہی ہو۔ کہنے لگی۔ اگر تم نے اختر کے بارے کوئی بات کرنی ہے تو کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ لیکن وہ تو کہتا ہے کہ تم اس کی کزن ہو؟ یہ سُن کر وہ ایک لمحے کو سکتے میں آگئی۔ فون میں اس کی سانسوں کے علاوہ کوئی آواز سنائی نہ دے رہی تھی۔ مجھے بتائو گی نہیں تو یقینا تمہارے دل کا بوجھ تم کو گرا دے گا۔ مجھ کو دوست سمجھتی ہو تو بتاد و پلیز میں نے منت کی۔ اچھا، میں ڈرائیور کو بھیجتی ہوں، تم آ جائو۔ تھوڑی دیر بعد ہی اس کا ڈرائیور مجھے لینے آگیا۔ میں امی کو بتا کر اس کے گھر چلی گئی۔ وہ مجھ سے گلے ملتے ہی رو پڑی۔ کافی چُپ کرانے کی کوشش کی مگر اس کے آنسو ہی نہ تھمتے تھے۔ پتا نہیں اس نے کتنی مدت سے جذبات کے منہ زور پانیوں کو روکا ہوا تھا۔ میں نے کہا۔ سو جل تم نے آج تک مجھے نہ بتایا کہ اختر تمہارا کزن ہے۔ یہ بات تو میں در و دیوار سے بھی چھپانا چاہتی ہوں۔ یہ تب کی بات ہے جب میں پیدا بھی نہیں ہوئی تھی کہ میرا رشتہ اس سے طے کر دیا گیا تھا۔ وہ میری خالہ کا بیٹا ہے اور اس کا باپ میرے والد کا چچازاد ہے۔ امی بڑی اور خالہ چھوٹی تھیں۔ میرا کوئی ماموں نہیں ہے ، نانا کی جائیداد کی وارث دونوں بیٹیاں تھیں۔ ابو اور خالو کا آپس میں بہت اچھا تعلق تھا اور زمین بھی مشترکہ تھی، محبت تقسیم ہوئی اور نہ زمین ورنہ ہمارا مختصر خاندان تتر بتر ہو کر بکھر جاتا۔ ابو نانا کے بڑے داماد تھے جبکہ خالہ کی منگنی ہوئی تھی۔ اس لئے میرے والد کی بات اس گھر میں حتمی فیصلے کی حیثیت رکھتی تھی۔ ایک دن ابو گھر آئے تو بہت غصے میں تھے۔ انہوں نے بتایا کہ چھوٹی خالہ کا منگیتر کچھ ٹھیک تیور نہیں رکھتا۔ وہ زمین بیچ کر فیکٹری لگانا چاہتا ہے۔ والدہ بولیں۔ اپنے حصے کی زمین بیچ رہا ہے تو بیچنے دو، ہم روکیں گے تو والد صاحب کہیں گے کہ زمین ان کی ہے۔ بے شک انہی کی ہے ، وہ ابھی حیات ہیں اور زمین کے مالک بھی، لیکن مقبول ابھی ان کا داماد نہیں بنا۔ ابھی سے اسے ہونے والی بیوی کے حصے کی زمین بیچنے کی کیا لگی ہوئی ہے، میں اپنی زندگی میں تو یہ ہونے نہیں دوں گا اور نہ ہی اب تمہاری بہن کی شادی اس کے ساتھ ہونے دوں گا۔ یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ وہ آپ کا چچازاد بھی ہے ، آپ اس معاملے کے بیچ میں مت پڑیئے۔ میں والد صاحب سے بات کرتی ہوں۔ والدہ نے اپنے والد سے بات کی تو نانا بولے۔ بیٹی ! یہ زمین آج بھی انہی کی ہے کل بھی۔ میں کچھ دنوں کا مہمان ہوں، آج کل میں چھوٹی لڑکی کی شادی کر رہا ہوں۔ اس کے بعد وہ جانیں ان کے کام ۔ والد کو نانا ابو کا یہ جواب سخت نا گوار گزرا تو انہوں نے اپنے چچازاد کو منع کیا۔ اس نے کہا کہ آپ کی زمین تو نہیں بیچ رہا۔ بات بڑھتے بڑھتے جھگڑے کی شکل اختیار کر گئی۔ انہوں نے اپنی زمین کے ساتھ کچھ زمین نانا کی بھی بیچ دی، تو ابو نے ان سے تعلق ختم کر دیا اور نانا سے بھی کہہ دیا کہ اگر آپ نے مقبول سے بیٹی بیاہی تو اپنی بڑی بیٹی کو اپنے گھر لے جانا، میں اس کو طلاق دے دوں گا۔ نانا کے لئے ضعیفی میں یہ معاملہ ایک امتحان سے کم نہ تھا۔ اب صرف ایک ہی راستہ تھا کہ بڑے داماد کو راضی کرنے کے لئے چھوٹے یعنی مقبول کی منت کریں کہ وہ جا کر ان کے بڑے داماد کو منت سماجت کر کے منالیں ، تاکہ بڑی لڑکی کا گھر بسا رہے اور وہ چھوٹی کو بھی بیاہ کر اس کے گھر کا کر دیں۔ نانا کے ساتھ یہ سب اس وجہ سے ہو رہا تھا کہ زمین اور جائیداد تھی مگر بیٹا نہ تھا۔ اگر کوئی بیٹا ہوتا تو وہ خود اس معاملے کو سمجھ لیتا، ناناکی عمر اس وقت ستر سال تھی وہ بھلا کیونکر جوان خون کا مقابلہ کر سکتے تھے۔ بچپن کی منگنی تھی تبھی خالہ بھی خوف سے مری جاتی تھیں کہ کہیں مقبول سے ان کی شادی کا معاملہ کھٹائی میں نہ پڑ جائے۔ ادھر مقبول بھی اپنی منگیتر کو نہ کھونا چاہتے تھے۔ سارا فساد زمین کا تھا جو میرے والد کا پھیلایا ہوا تھا۔ وہ زمین کی فروخت سے نالاں تھے۔ جب بھی گھر میں چھوٹی خالہ کی شادی کا تذکرہ چلتا، وہ آپے سے باہر ہو جاتے اور شور مچا دیتے۔ دراصل وہ اس گھر میں اپنے بڑے ہونے کا فائدہ اٹھا رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ بچپن کی منگنی کے سبب خالہ اور مقبول ایک دوسرے کو چاہتے ہیں۔ وہ یہ شادی نہ ہونے دے کر اپنے چچازاد کو زمین فروخت کرنے کی سزا دینا چاہتے تھے۔ مجبور ہو کر مقبول میرے والد کے پاس آئے۔ اپنی پگڑی ان کے پیروں میں ڈال دی اور کہا کہ زمین فروخت کر چکا ہوں۔ آپ راضی نہیں ہیں تو زیادہ رقم خریدار کو دے کر زمین واپس لئے لیتا ہوں۔ خریدنے والا بھی ہمارا رشتہ دار ہے ضرور ہماری مجبوری پر مان جائے گا بشر طیکہ آپ ناراضی ختم کر دیں۔ غرض خریدار کو زیادہ رقم دے کر زمین واپس لے لی گئی ، مگر والد صاحب دل سے راضی پھر بھی نہ ہوئے۔ بہر حال چھوٹی خالہ کی شادی مقبول چچا سے ہو گئی۔ والدہ نے خالہ سے وعدہ لیا کہ اگر میرے ہاں لڑ کی ہوئی اور اگر تمہارا پہلا لڑکا ہوگا تو تم میری بیٹی کو اپنی بہو بنائو گی۔ خدا کی کرنی شادی کے دس ماہ بعد خالہ نے اختر کو جنم دیا۔ میں اختر سے ڈیڑھ برس بڑی ہوں لیکن جنم دن سے ہی مجھے کو اختر کے نام کا کر دیا گیا تھا، اس رشتہ پر تمام خاندان والے راضی تھے اس کی وجہ وہی کہ ایک تو دشمنی ختم ہو گئی دوسرے زمین تقسیم نہ ہو سکی۔ وقت گزرتا رہا۔ اختر مزید پڑھنے شہر چلا گیا کیونکہ اس کے والد ان دنوں شہر میں تھے اور کالج بھی شہر میں تھا۔ مجھے بھی شہر کے کالج داخلہ لینا تھا۔ والد اور بھائی نے اس شرط پر داخلہ دلوایا کہ وہاں نہ تو چھوٹی خالہ کے گھر جائو گی اور نہ اختر سے بات کرو گی۔ یہ سُن کر میں حیران رہ گئی۔ گویا ابو نے ابھی تک خالو کو دل سے معاف نہ کیا تھا۔ انہوں نے خالہ سے شادی کے بعد بیوی کی زمین بیچی تو ابو کی دشمنی پھر سے عود آئی۔ اب ان کے لئے دل صاف کر لینا امر محال ہوا اور مجھے بھی ان کی نیت کا پتا چل گیا۔ میں نے وعدہ کر لیا۔ دل میں اختر کے لئے نرم گوشہ تو بچپن سے تھا مگر تعلیم کی خاطر وعدے کا پاس بھی تھالہذا میں نے کالج میں محتاط رویہ اپنالیا، حالا نکہ دل سے ایسانہ چاہتی تھی۔ اختر نہیں جانتا کہ میں کس لئے اس کے ساتھ بات نہیں کرتی اور محتاط رہتی ہوں، اس پر ظاہر بھی نہ کر سکتی تھی۔ خود سے اسے دور رکھنے کی خاطر اس کے سوا چارہ نہ تھا کہ بے رُخی سے پیش آئوں تاکہ وہ میری طرف سے مایوس ہو جائے، حالانکہ اپنے رویئے پر جس قدر میں دُکھی تھی کوئی اور کیا ہو سکتا تھا۔ میں اس سے بات کرنا چاہتی تھی، بتانا چاہتی تھی مگر خوف تھا کہ مجھے کالج سے نہ ہٹا لیا جائے اور پڑھائی کا سلسلہ منقطع نہ ہو جائے اور میں اس کو دیکھنے سے بھی رہ جائوں۔ اختر نے میرا جینا مشکل کر دیا ہے۔ نہ اس سے دُور جاسکتی ہوں اور نہ بات کر سکتی ہوں۔ تم ہی بتائو میں کیا کروں؟ واقعی میری سہیلی بہت دُکھی تھی۔ ہم دونوں ہی نہیں جانتی تھیں کہ اس کہانی کا انجام کیا ہو گا؟ میں نے بھی اختر کی آنکھوں میں سوجل کے لئے پیار کی قندیلیں جلتی دیکھی تھیں مگر گھر والوں کے خوف سے وہ بچاری مجبور تھی۔ اگر اس کے ساتھ ہتک آمیز رویہ نہ رکھتی تو وہ ضرور اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا، اور یہ بات جب سوجل کے گھر تک پہنچتی تو اس کے لئے بہت خطرناک ثابت ہوتی۔ میں نے کہا۔ صبر سے کام لو یہ دو سال کسی طرح پورے کر لو۔ اس کے بعد اپنے جذبات تم اپنی خالہ تک پہنچا لینا۔ وہی کوئی رستہ نکالیں گی۔ صبر کے ساتھ سو جل نے تعلیمی سال پورے کئے اور ایک دن مجھ سے مدد چاہی۔ میں نے اس کی خالہ کو فون کیا۔ اپنا نام بتایا۔ وہ شفیق آواز میں بولیں۔ ارے میں خود تم سے بات کرنا چاہ رہی تھی مگر تمہارا نمبر نہیں تھا۔ جانے سو جل کو کیا ہوا ہے اختر سے اتنی نفرت کرنے لگی ہے۔ تم سے اس کا سبب پوچھنا چاہ ر ہی تھی۔ خالہ ! وہ نفرت نہیں کرتی وہ تو اختر سے محبت کرتی ہے لیکن اس کے والد نہیں چاہتے کہ ان کی شادی ہو ، آپ اپنی بہن سے بات کیجئے۔ میں نے بات کی ہے وہ کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیتیں۔ تو پھر اپنے والد یا خاوند کو سو جل کے ابو کے پاس بھیجیے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا، وہ اور ان کے شوہر انکل کے پاس اختر کے لئے سوجل کا ہاتھ مانگنے گئے تو انہوں نے نہ صرف انکار کیا بلکہ ان کو بے عزت کر کے گھر سے نکال دیا۔ اب کیا رہ گیا تھا۔ سو جل اور اختر نے کہا کہ ہم اکٹھے خود کشی کر لیتے ہیں۔ ان کے نانا حیات تھے ، بولے۔ ابھی میں زندہ ہوں۔ تم لوگوں کو خود کشی کرنے کی ضرورت نہیں ، جیسا کہتا ہوں کرو۔ خالو مقبول کو بھی اپنی بے عزتی پر غصّہ تھا۔ انہوں نے چپکے سے بڑی خالہ سے رابطہ کر کے ان کو اکسایا کہ بیٹی کا ساتھ دو۔ میں سوجل اور اختر کی شادی کرا دیتا ہوں ، دیکھتا ہوں کہ تمہارا ہٹ دھرم شوہر کیا کر لیتا ہے۔ پہلے تو سوجل راضی نہیں تھی پھر نانا کے سمجھانے پر اس نے اپنے باپ کے گھر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیر باد کہ دیا اور نانا کے پاس چلی گئی۔ ایک خط اپنے والد کے نام لکھ کر رکھ آئی کہ میری غلطی، میرے قصور کو معاف کر دیا جائے، مجھے واپس لانے کی کوشش مت کیجئے گا ورنہ نانا خود آپ کے خلاف عدالت میں گواہی دیں گے۔ وہ میرا نکاح اختر سے پڑھانے اور عدالتی کارروائی کرنے کے بعد ہم کو دبئی روانہ کریں گے۔ فکر نہ کیجئے ، خالہ نے اپنے ترکے کی تمام زمین میرے نام کر دی ہے۔ آپ کو زمین چاہئے تھی نا ! وہ آپ کی بیٹی کو مل گئی ہے۔ باقی ہر کسی نے اپنا حق لے لیا ہے۔ اس میں آپ کی ناراضی بے جا ہے۔ آپ نے نانا سے بدلہ لینا ہے تو لے لیجئے گا۔ ہم تو اس وقت وطن کو خیر باد کہہ چکے ہوں گے اور اگر آپ نے اس عمر میں میری والدہ کو طلاق دی تو ان کو سنبھالنے کے لئے ان کے بیٹے موجود ہیں۔ وہ دن اور آج کا دن سوجل سے سب نے رابطہ رکھا سوائے اس کے باپ نے جس کا زندگی بھر اس کو غم رہے گا۔(ختم شد) –