Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!
  • اردو اسٹوری ورلڈ ممبرشپ

    اردو اسٹوری ورلڈ ممبرشپ ریٹس

    ٭یہ ریٹس 31 دسمبر 2025 تک کے لیے ہیں٭

    فری رجسٹریشن

    مکمل طور پر مفت

    رجسٹریشن بالکل مفت ہے، اور فورم کے عمومی سیکشنز تک رسائی حاصل کریں۔

    پرو پیڈ ممبرشپ

    فیس: 1000 روپے (1 ماہ)

    اس پیکج میں آپ کو صرف پرو پیڈ سیکشنز تک رسائی حاصل ہوگی۔

    وی آئی پی ممبرشپ

    فیس: 3000 روپے (3 ماہ)

    وی آئی پی ممبرشپ میں پرو اور وی آئی پی اسٹوریز سیکشنز تک رسائی حاصل کریں۔

    وی آئی پی پلس ممبرشپ

    فیس: 5000 روپے (6 ماہ)

    وی آئی پی پلس ممبرشپ کے ذریعے پرو، وی آئی پی اور وی آئی پی پلس سیکشنز وزٹ کریں۔

    پریمیم ممبرشپ

    فیس: 50 ڈالر (6 ماہ)

    پریمیم ممبرشپ میں پرو، وی آئی پی، وی آئی پی پلس اور خصوصی پریمیم سیکشنز شامل ہیں۔

    رابطہ کریں

    WhatsApp: +1 540 569 0386

    Email: [email protected]

    © 2025 اردو اسٹوری ورلڈ۔ تمام حقوق محفوظ ہیں۔

Sex Story جانباز سرحد کے پار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتھرابھٹی

Man mojiMan moji is verified member.

Staff member
Moderator
Joined
Dec 24, 2022
Messages
8,023
Reaction score
247,483
Location
pakistan
Gender
Male
Offline
1اپڈیٹ







یہ ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جو مادر وطن کے لیے جان دینے کو ہر پل تیار رہتا تھا۔۔۔

جس کے لیے سب سے پہلی ترجیح ملک و ملت کا تحفظ تھا۔۔۔

(کہانی کے کردار صرف خیالاتی ہیں ان کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ صرف مصنف کے دماغ کی اختراع ہے۔۔)



رات کے وقت سارا آسمان کالے دھوئیں سے

بھر گیا تھا………… ایندھن کے جلنے کی

بدبو فلائٹ لیفٹیننٹ شمشیر قدوائی کی ناک میں آ رہی تھی…………..

وہ اپنے پیراشوٹ کے سہارے اس انجانی سرزمین پر اتر رہا تھا………….

دھڑاممممم کی آواز اس کے کانوں میں پڑی ……………………!!!

اس سے پہلے کی اس کے پاؤں زمین کی سطح سے ٹکراتے ………. نیچے کہیں تیز

دھماکا ہوا………

وہ سمجھ گیا کہ اس کا raf b17 لڑاکا طیارہ ٹکڑے- ٹکڑے ہو گیا ہو گا………

جو آخری بات اس کو یاد تھی وہ یہ تھی اس کے فائٹر جیٹ کے بائیں حصے میں ایک

دھماکا ہوا تھا اس کے بعد اس کو آگ کا آلارم سنائی دیا تھا جس سے اس کو پتہ چل گیا کہ یہ آگ جو الگ چکی ہے یہ جلدی ہی انجن تک جا پہنچے گی …

وہ اپنے ٹرینر کی دی ہوئی ہدایات کو اچھے سے سمجھتا تھا اس نے فوراً ایمرجنسی ایگزٹ کا بٹن دبا دیا تھا…….

نیچے کو گرتے ہوئے وہ یہی امید کر رہا تھا کہ جلدی ہی وہ دشمنوں کے ہاتھ میں ہوگا

………….. یا پھر نیچے گرتے ہی اسے گولیوں سے بھون دیا جائے گا……

لیکن جو وہ سوچ رہا تھا ویسا کچھ بھی نہ ہوا وہ سنبھلتے سنبھلتے اس سر زمین پر اتر گیا اتنا سنبھل سنبھل کر اترنے کے باوجود بھی اس کے پورے جسم میں درد کی تیز لہر دوڑ گئی……….. ایک دو لمبی لمبی سانسیں لینے کے بعد وہ بڑی پھرتی سے

اٹھا…..

اپنے پیراشوٹ کو اپنے جسم سے

الگ کیا………… اب تک اس کی آنکھیں

اندھیرے میں دیکھنے کے قابل ہو

چکی تھیں…….

جہاں پر وہ کھڑا تھا جو ایک جنگل کا علاقہ لگ رہا تھا……. بالکل سنسان………. لیکن وہ جانتا تھا کہ جلدی ہی کوئی نہ کوئی اسے ڈھونڈتا ہوا یہاں آ جائے گا……

اسنے اندھیرے میں ہی اندھا دھند ایک طرف کو دوڑنا شروع کر دیا………..کوئی 10 منٹ تک وہ بے تحاشہ بھاگتا رہا اس کے

بعد اسے دور کچھ روشنی سی نظر آنے لگی

لیکن اب اس جسم اس کا ساتھ نہیں دے پا رہا تھا …….…………ادھر اُدھر دیکھنے کے بعد اسے قریب ہی ایک غار سا نظر آیا ….

وہ تیزی سے اس کے اندر چلا گیا…… اور اندر گھستے ہی زمین پر گر سا گیا…….. دھیرے-دھیرے ایک بیہوشی اس پر چھانے لگی اور وہ ہوش سے بیگانہ ہوتا گیا………

پتہ نہیں کتنی دیر تک وہ بے ہوش رہا… دھیرے-دھیرے وہ ہوش میں واپس لوٹنے لگا ۔۔۔۔

اسکا دماڑ ہوش میں آ چکا تھا لیکن اس جسم ابھی بھی آدھی بہوشی کی حالت میں تھا…..بہت زیادہ تھکن اور درد کی وجہ سے اس کے دماغ کا ساتھ نہیں دے پا رہا تھا.. اسنے پچھلے کچھ گھنٹوں میں ہونے والے واقعات کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا….

یہ 1999 کا وقت تھا………….کارگل

جنگ کا دور تھا…….وہ پاکستانی فضائیہ

میں فلائٹ لیفٹیننٹ کے فرائض سر انجام دے رہا تھا اور لڑتے لڑتے دشمن کی سرحد میں پہنچ گیا تھا…. جب اس کے فائٹر جیٹ پر حملہ ہوا تھا اس وقت وہ دشمن کی سرحد کے اندر لگ بھگ 25_20 کلومیٹر اور تک آ چکا تھا….اسکا مطلب ابھی بھی

وہ سرحد سے تقریباً 20 کلومیٹر دور

ہیلو….

یہ سوچتے ہی اس کے اندر ایک نیا جوش سا بھر گیا… اس نے اپنی کمر پر سے اپنے کٹ بیگ کو اتارا اور اپنا سامان چیک

کیا…. ایک ریوالور، کچھ

چاکلیٹ، خشک میوہ جات، ایک فلاسک جس کے اندر کچھ جوس تھا اور کچھ اور سائنسی آلات .... ساتھ میں ابتدائی طبی امداد کا کچھ سامان……

پہلی بار اس نے اپنے آپ پر دھیان دیا، اُس کے بائیں پاؤں کی پنڈلی میں درد ہو رہی تھی ….شاید جب وہ زمین پر گرا تھا تب یہ چوٹ لگی ہو گی.......

اس نے بیگ میں سے ڈیٹول اور کاٹن نکالی

اور کاٹن کو پوری طرح ڈیٹول میں بھگو لیا ….. پھر اس کاٹن کو اپنی پنڈلی پر جہاں چوٹ لگی ہوئی تھی دھیرے دھیرے سے پھیرنے لگا خون صاف ہوتے ہی اسے دکھائی دیا کہ اسکی پنڈلی میں ایک گہرا گھاؤ ہو چکا ہے……

دھات کا ایک ٹکڑا اندر دھنسا ہوا تھا…..اور شاید کافی خون بھی بہہ چکا تھا……

وہ تو حیران ہو رہا تھا کہ ابھی تک اس نے یہ برداشت کیسے کر لیا… پھر اس کے اندر سے ہی جواب بھی آیا….شاید جان کا خوف،

درد پر بھاری پڑ گیا تھا…

اس نے دھات کے ٹکڑے کے سرے کو پکڑا اور اپنی آنکھ بند کر کے، پورا زور لگا کر، ایک جھٹکے سے باہر کھینچ دیا....

اس نے اپنی خود کی ہی درد بھی آہ سنی اس سے تکلیف برداشت نہیں ہو رہی تھی....

اس کو ایسا لگا کہ وہ پھر سے بے ہوش ہو جائے گا ......

اس نے پھر سے ڈیٹول سے بھیگی ہوئی کاٹن کو اپنے زخم پر زور سے دبا دیا…..

کچھ دیر تک لمبی لمبی سانسیں لے کر اس نے پھر اپنی طاقت کو اکٹھا کیا……

اس نے فلاسک کو نکالا اور اور جوس کا ایک بڑا سا گھونٹ اپنے گلے سے نیچے اتارا………طاقت کی ایک لہر اس کے سارے وجود میں دوڑ گئی……… پر کچھ ہی پل بعد اسے محسوس ہوا کہ ایک نئی جہت اس کے وجود میں آ گئی ہے…

غار میں اب ہلکی سی روشنی ہونے لگی تھی…….. "شاید صبح ہو گئی ہے!!"

اس نے اپنے آپ سے کہا…

وہ دھیرے سے اٹھ کر باہر آیا……..درد کی وجہ سے اب اس کے ایک پاؤں میں لنگڑاہٹ

تھی……..پر اس آنجان جگہ پر بھی تو بہت دیر تک نہیں رکا جا سکتا تھا….

اس نے اپنے بیگ میں سے کمپاس نکالا اور سمتوں کو چیک کیا…..اگر اسے جلدی ہی واپس پہنچنا تھا تو اس کو (مشرق کی سمت) میں چلنا تھا …….. اس نے آخری بار

چاروں طرف دیکھا اور مشرق کی سمت چلنا شروع کر دیا……..

پہلے دھیرے دھیرے اور پھر تیزی کے ساتھ وہ اپنے قدم بڑھا رہا تھا… اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دھیان رکھ رہا تھا کہ وہ کسی کی نظروں میں نہ آ جائے……اپنی وردی کی وجہ سے وہ آرام سے پہچانا جا سکتا تھا……

گھنے جنگل میں چلتے چلتے اب قریب 2 گھنٹے ہو چکے تھے ………… پیاس کی وجہ اس کے ہونٹ اور گلا بالکل خشک ہو چکے تھے اور گلے میں کانٹے چبھ رہے تھے ………..اور تبھی جو اسے دکھائی دیا وہ مانو اس کے لیے زندگی کے مترادف تھا………..

اس نے پانی کے بہنے کی آواز سنی شاید قریب ہی کہیں پہاڑی ندی (دریا) بہ رہی تھی………….وہ جلدی جلدی قدم بڑھاتا ہوا ندی تک پہنچ گیا ………….قریب 10 میٹر چوڑی اور 2-3 فٹ گہری ندی تھی ……….. ندی کے پاس آکر وہ اندھا دھند ندی میں کُود گیا… 2-3 ڈبکی لگانے کے بعد اس نے جی بھر کر پانی پیا اور پھر کچھ پلوں کے لیے پانی میں ہی لیٹ گیا…………..

اب وہ اپنے آپ کو پھر سے تازہ دم محسوس کر رہا تھا………. اس نے اپنے بیگ میں سے نکال کر کچھ چاکلیٹ کھائیں اور پیٹ میں دوڑتے چوہوں کو بھی کچھ سکون شانت کرنے کی کوشش کی….

ندی کو پار کرنے کے بعد وہ دوسرے کنارے پر آ گیا ……..آگے جو اس نے دیکھا وہ ایک

پہاڑی علاقہ تھا…….دور اونچے اونچے پہاڑ دکھائی دے رہے تھے….انکے آگے گھنے جنگل

….اور کہیں کہیں ایک دو مکان……….جو مکان اسے سب سے نزدیک دکھائی دیا وہ بھی وہاں سے تقریباً 1-1.5 کلومیٹر دور تھا………….

کون جانتا تھا کہ وہ ایل او سی (انڈین مقبوضہ کشمیر) میں ہے .... اور دن کی روشنی میں وہ خطرے میں رہے گا….. اس نے پھر شام ہونے تک ہی انتظار کرنے کا فیصلہ کیا….اور درختوں کے بیچ میں چھپ کر بیٹھ گیا....

شمشیر کو پتہ بھی نہیں چلا کہ کب وہ نیند کی وادی میں اترتا چلا گیا…. درختوں کی گھنی چھاؤں اور چاروں طرف سے لگ رہی ٹھنڈی ہوا نے اس کو نیند کہ گود میں پہنچا دیا……….

آنکھ کھلنے پر اس نے وقت دیکھا…………..4.00 بجے کا وقت ہو رہا تھا……..اب اس کے پاؤں میں پھر سے درد ہونے لگی تھی اور اوپر سے اسے خود کو چھپانے کے لیے بھی کسی جگہ کا انتظام اسے کرنا تھا……………

جو ایک گھر اسے سب سے نزدیک دکھائی دے رہا تھا وہ خود کی طاقت مجتمع کر کے اس طرف چل پڑا… پہاڑی راستے اس کو 1-1.5 کلومیٹر کی کا فاصلہ طے کرنے میں بھی اس کو قریباً 1 گھنٹہ لگ گیا………….

وہ ایک چھوٹا سا گھر تھا……….گھر کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا کھلا میدان اور قریب 50 میٹر دور ایک جھونپڑی نما طبیلا…………..گھر کے دونوں طرف پیڑ تھے اور پیڑوں کے پیچھے اونچے اونچے پہاڑ گھر کے ایک طرف کا میدان خالی تھا اور اُدھر سے ایک پگڈنڈی کہیں دور کو جا

رہی تھی…………..شاید اس راستے کا استعمال گھر میں رہنے والے اپنے آنے جانے کے لیے کرتے تھے۔۔۔۔

شمشیر قدوائی جانتا تھا کہ وہ ایل او سی کے علاقے میں ہے اور یہ اسکی امید کی ایک وجہ تھی…….وہ جانتا تھا کہ یہاں کے لوگ اپنے آپ کو پاکستان کا حصہ مانتے ہیں

اور شاید اسکی مدد بھی کریں……

گھر اور طبیلے کے بیچ میں جو خالی میدان تھا، اس کے ایک طرف جہاں پہاڑ تھا وہیں پیڑوں کے آگے جھاڑیوں کا ایک بڑا سا جھرمٹ تھا…………. شمشیر دبے پاؤں جھونپڑی کے پیچھے سے ہوتا ہوا ان جھاڑیوں کے سامنے پہنچ گیا اور وہیں چھپ کر انتظار کرنے لگا…………..

دھیرے دھیرے اندھیرا چھانے لگا تھا… اور پھر گھر کے 1-2 کمروں میں روشنی آن ہو

گئی …………….پر ابھی تک گھر کے اندر سے کسی بھی انسان کی صورت اس کو دکھائی نہیں دی تھی …

(کھڑکی کا شیشہ) سے اندر کا نظارہ شمشیر کو دکھائی دے رہا تھا……… وہ گھر کا کچن تھا……….. جو کمروں میں سب سے آگے بنا ہوا تھا....کچن کے اندر ایک لڑکی کام کر رہی تھی ……….. دور سے شمشیر کو اس کی صورت تو نہیں دکھائی دی پر جسم سے اس نے اندازہ لگایا کہ وہ تقریباً 30 سال کی ہوگی…..پتلا جسم……….کالے لمبے بال اور کشمیری لباس زیب تن کیے ہوئے تھی……

میں (شمشیر قدوائی) کافی دیر تک وہیں پر چھپ کر بیٹھا رہا …………..وہ لڑکی ابھی بھی کچن میں کام کر رہی تھی………… بیچ بیچ میں وہ گھر کے اندر کے کمروں میں جاتی اور پھر لوٹ کر کچن میں آ جاتی تھی….

سورج اب چھپنے لگا تھا اور آسمان کا رنگ لال ہونے لگا تھا……….بھوک، درد اور تھکان سے میرا برا حال تھا اور من ہی من میں میں دعا کر رہا تھا جو بھی لعگ اس گھر میں رہتے ہیں وہ مجھے یہاں چھپنے کی جگہ دینے کو تیار ہو جائیں گے……….

تبھی گھر کا دروازہ کھلا…….اور جو لڑکی کچن میں کام کر رہی تھی وہ باہر آگئی…. اسکے ہاتھ میں ایک بالٹی تھی………وہ سیدھی وہاں بنے ہوئے طبیلے میں چلی گئی.5-10 منٹ بعد ہی وہ واپس آئی، اور گھر کے سامنے کھڑے ہوکر آواز لگائی…

"شازیہ... شازیہ..."

اگے پھر اس نے کچھ کہا جو میری سمجھ میں نہیں آیا …………… شاید اس علاقے کی مقامی زبان تھی………….

اب وہ لڑکی ٹھیک میرے سامنے کھڑی تھی…قریب 20-25 میٹر دور……..یہاں سے اسکا چہرہ صاف دکھائی دے رہا تھا… گھر کے باہر لگے بلب کی روشنی اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی…………گورا رنگ…. قد لگ بھگ 3"5 کے آس پاس………..چہرے پر ایک عجیب سی سختی تھی……..

"شازیہ ……………………… اس نے پھر سے آواز لگائی ………..

اس بار گھر کا دروازہ کھلا، ایک اور لڑکی گھر سے باہر نکلی………… اس کے ہاتھ میں 2 بالٹیاں تھیں…………….

پھر میرے سامنے سے ہوتی ہوئی دونوں طبیلے میں چلی گئیں……….. جتنی دیر میں وہ دونوں طبیلے تک پہنچیں ……….میں نے اس دوسری لڑکی کا بھی معائنہ کر لیا….وہ پہلے والی سے عمر میں چھوٹی تھی ….یہی کوئی 20-22 سال کی…….لمبی اس سے 1-2 انچ ذیادہ ہی تھی………….جسم نہ زیادہ فربہ نہ پتلا تھا……….اور چال میں الہڑپن سا تھا……۔۔

یہ شاید صحیح وقت تھا میرے اگلے ایکشن کا…..جہاں میں چھپا کھڑا تھا وہ جگہ مکان کے بائیں طرف تھی…….. اس کی دائیں طرف مکان کے پیچھے گھنے درخت اور پھر کچھ اور پیچھے پہاڑ تھا….یعنی کسی کے دور سے دیکھے جانے کی امید بہت کم تھی………

میں نے مکان کی دیور کے ساتھ ساتھ اپنی دائیں طرف میں بڑھنا شروع کیا………. میں جھکتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا تاکہ اگر کوئی مکان کے اندر ہو تو مجھے نہ دیکھ سکے.... ساتھ ہی ساتھ میں وقفے وقفے سے کھڑکی سے گھر کےاندر بھی جھانک رہا تھا………. مکان کا پورا چکر کاٹ کر میں پھر مکان

کے دائیں طرف پہنچ گیا…….پر مجھے اندر کوئی بھی دکھائی نہ دیا اسکا مطلب تھا کہ اس وقت ان دو لڑکیوں کے علاوہ اس گھر میں کوئی اور نہیں تھا… یہ بات میرے لیے سود مند تھی…

مکان کی دائیں طرف صرف ایک ہی دیوار تھی……….اسکے اندر جب میں جھانکا

تو اندر گھپ اندھیرا ہی دکھائی دیا…….. میں دھیرگ دھیرے دبے پاؤں اگے بڑھ رہا تھا…..اپنا ریوالور میں نے بیگ میں سے نکل کر اپنی کمر پر بیلٹ کے اندر پھنسا لیا تھا..

میں لگ بھگ بھاگتا ہوا، لیکن پاؤں کو دبا کر رکھتا ہوا … گھر کے سامنے والے کھلے حصے میں آ گیا ………..وہاں ایک چھوٹا سا پودا لگا ہوا تھا جو مکان اور طبیلے کے بیچوں بیچ تھا……….اس کے آڑ میں کھڑا

ہوکر میں ان دونوں لڑکیوں کا انتظار کرنے

لگا ……………

مکان کے باہر لگے ہوئے بلب کی ہلکی روشنی پورے صحن میں پھیل رہی تھی….

اچانک آہٹ ہوئی اور پھر طبیلے سے ایک لڑکی باہر نکلی……یہ چھوٹی والی

لڑکی تھی …شاید شازیہ نام تھا اسکا…….. اس نے اپنے ہاتھ میں ایک بالٹی پکڑی ہوئی تھی…….

جیسے ہی وہ میرے قریب پہنچی … میں پودے کے پیچھے سے نکل کر اس کے سامنے آ گیا۔۔۔۔۔

"باجی ………………!!!!" وہ بہت زور سے چلائی …اسکے ہاتھ سے بالٹی چھوٹ گئی…… ایک دو پل کے لیے اس نے مجھے دیکھا…. اور پھر وہ مکان کی طرف بھاگی………

میں بھی اسے پکڑنے کے لیے لپکا………..آگے بڑھ کر میں نے اس کلائی پکڑ لی اور جھٹکے سے اپنی طرف کھینچا………..وہ سیدھی میرے سینے سے آکر ٹکرائی… اس نے پھر سے چیخنے کے لیے منہ کھولا پر تب تک میرا ایک ہاتھ اس نہ پر جا چکا تھا میں نے اس کا منہ اپنے ہاتھ سے بند کر دیا جس سے اس کی چیخ منہ میں ہی دب گئی……..

اب وہ بلکل میری نزدیک تھی… اس کی باہوں کو مروڑ کر میں نے اس کی کمر پر لگا دیا تھا……..وہ بول نہیں پا رہی تھی پر خوف کی وجہ اس کی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں…….

اسکا چہرا میرے چہرے سے کچھ ہی انچ دور تھا ………..ایک عجب سی معصومیت

تھی اسکی آنکھوں میں ………… ان آنکھوں کو دیکھنے پر کچھ پل کے لیے میں بھول ہی گیا کہ میں کیا اور کیوں کر رہا ہوں……اور جب یاد آیا تب تک دیر ہو چکی تھی…….

دھننننننننن ………… میرے سر پر لکڑی سے وار کیا گیا تھا……….جو میرے کندھے پر پڑا… کچھ پل کے لیے میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور پھر میں زمین پر گر گیا………گرتے ہی میں پلٹا ہے اور دیکھا کہ پھر میرے اوپر وار کیا جار آہا ہے…….میں نے بچنے کے لیے اپنی بائیں ٹانگ

اوپر کی اور اگلا وار سیدھا میری پنڈلی پر پڑا……….وہ جہاں پہلے سے ہی چوٹ لگی ہوئی تھی…….یہ وار میرے ہوش اُڑانے کے لیا کافی تھا اور میں اپنی ٹانگ کو پکڑ کر زمین پر دوہرا ہو گیا…. ,

اس سے پہلے کہ اگلا وار ہوتا ہے…..میرا ہاتھ اپنی کمر پر لگے ریوالور پر پہنچ گیا………میں نے ریوالور نکالی اور لیٹے لیٹے ہی ان پر تان دی...

"رک جاؤ!!!………………………….اب اگر مارا تو میں گولی چلا دوں گا…"

میں پورے زور سے چیخ کر بولا۔

اور اس کا فوری اثر ہوا…………..شازیہ اس بڑی والی لڑکی کے پیچھے دبک سی گئی…..اور اس لڑکی کا ہاتھ بھی ہوا میں ہی رک گیا………اس کے ہاتھ میں ایک موت سا لکڑی کا ڈنڈا تھا…………… دھیرے دھیرے اسکا ہاتھ نیچے کو آ گیا ………

مجھے اس وقت پتہ چلا کہ وار کرنے والی دوسری لڑکی تھی جو شازیہ کی چیخ سن کر باہر آئی تھی۔۔۔

میں نے اپنی پوری طاقت لگائی پھر کہیں جا کر کھڑا ہو پایا … درد کی وجہ سے مجھ سے صحیح طرح کھڑا نہیں ہوا جا رہا تھا لیکن میں ان پر یہ ظاہر نہیں کرنا چاہتا

تھا………

’’کیا تم لوگوں کو اردو سمجھ میں آتی ہے‘‘۔ " میں اپنی ریوالور نیچے کرتے ہوئے میں کچھ نرمی سے بولا….

اُس بڑی والی لڑکی کے چہرے پر بات سمجھنے کے آثار نظر آئے………..

"بتاؤ ،.... کیا آپ لوگ اردو سمجھ سکتے ہو؟ "میں نے پھر اپنا سوال دوہرایا اب کی بار اس بڑی لڑکی کا سر ہاں میں ہلا………

"اچھا ………………. ڈرو مت میں آپ لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا………………..” میں نے ان کو سمجھانے کی کوشش کی اب ان کے چہرے سے ڈر کے اثرات ہونے ہونے لگے… اور اب ڈر کی جگہ ایک الجھن ڈی دکھائی دے رہی تھی…….. شازیہ، جو ابھی تک اسی دوسری لڑکی کے

پیچھے چھپی ہوئی تھی …………..تھوڑا سا باہر نکل کر آ گئی تھی اور اس نے بڑی لڑکی کے کندھے کو پکڑا ہوا تھا اور میری طرف دیکھ رہی تھی..

میرا نام شمشیر ہے……میرا جہاز کل رات وہاں….

میں بات سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ

"تمہارے پاؤں سے خون نکل رہا ہے" "میری بات بیچ میں ہی کاٹ کر شازیہ بولی اور پھر اُس دُوسری لڑکی کی طرف دیکھا………

میں نے بھی اب غور کیا کہ میرے زخم میں سے لگاتار خون بہ رہا تھا اور زمین پر گرتا جا رہا تھا………

شازیہ ………………………

اس بڑی لڑکی نے شازیہ سے کچھ کہا جو میری سمجھ میں نہیں آیا اور وہ تیزی سے گھر کے اندر چلی گئی....

اگلے کچھ سیکنڈ ہمارے بیچ خاموشی سی چھائی رہی………………. پھر اس لڑکی نے

ہی بات شروع کی....

"کیا تم پاکستانی ہو...؟ "جیسے

کہیں کسی گہرے کنویں میں سے کوئی آواز آئی ہو……

"ہان"

"فوجی ہو؟ " اس نے پھر سے پوچھا۔۔۔

" ہاں ………………..پاکستانی ائیر فورس میں ہوں " میں نے جواب دیا ۔

اُسکے چہرے پر ایک سوال سا اُبھرا………… جیسے میری بات اس کی سمجھ میں نہ آئی ہو………….

تب تک شازیہ اندر سے باہر آ گئی تھی……اس کے ہاتھ میں ایک ڈبہ تھا، ہارڈ بورڈ کا بنا ہوا پرانا سا ڈبہ….

"میں ہوائی جہاز اڑاتا ہوں …………… پاکستانی فوج کے"

میں نے ان کو سمجھانے کی کوشش کی

"آو چلو، گھر کے اندر آ جاؤ"

اس نے سوالیہ سی نظروں سے دیکھتے ہوئے مجھے کہا…

شازیہ کا سر بھی ہاں میں ہلا اور پھر ہم تینوں گھر کے اندر آئے....

انکا گھر کافی صاف ستھرا تھا ………جیسا عام طور پر پہاڑی علاقوں میں ہوتے ہیں لکڑی اور کنکریٹ سے بنا ہوا………….ایک برآمدے سے ہوتے ہوئے وہ دونوں مجھے گھر کے دائیں طرف بنے ایک کمرے میں لے گئیں………

کمرے میں گھستے ہی درد کی وجہ سے میرے قدم پھر سے لڑکھڑا گئے اور

سہارے کے لیے میں نے شازیہ کے کندھے کو تھام لیا………اس کی بری حالت میں بھی اس کشمیری لڑکی کے جسم کو چھوتے ہی میرے پورے وجود میں ایک کرنٹ سا دوڑ گیا تبھی اس بڑی والی لڑکی نے میرے ہاتھ کو پکڑ کر مجھے سہارا دیا اور

شازیہ سے کچھ کہا……شازیہ پھر وہاں سے باہر چلی گئی……اُس لڑکی نے مجھے سہارا دیتے ہوئے ایک لکڑی کی کرسی پر بیٹھا دیا………وہ ایک لمبی سی آرام دہ کرسی تھی جس پر میں ڈھ سا گیا……..

وہ میرے سامنے زمین پر بیٹھ گئی اور مجھے دیکھتے ہوئے پھر سے بات شروع کی…

’’کیا چاہتے ہو تم ہم لوگوں سے……‘‘ اس نے اردو میں ہی سوال کیا تھا لیکن اس کا لہجہ کشمیری تھا….

"سب سے پہلے تو چھپنے کے لیے جگہ اور کچھ کھانے کے لیے ………." میں نے

آنکھیں بند کرتے ہوئے جواب دیا۔۔۔۔

"کب تک چھپنا چاہتے ہو......؟"

"معلوم نہیں …….وہ لوگ مجھے ڈھونڈ رہے ہوں گے اور مجھے جلد از جلد سرحد کے پار واپس جانا ہے...." اس بار میں نے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔

"وہ لوگ کون؟ انڈین فوج؟ وہ میرے پاؤں کی طرف نگاہ کر کے بولی…

"ہاں.."

"کچھ دیر خاموشی رہی اور پھر ایک لمبی سانس لیکر وہ پھر بولی"

ٹھیک ہے ……… ہم تمہیں چھپنے کی جگہ دی گے لیکن اس گھر میں نہیں …..ساتھ ہی تمہیں وعدہ کرنا ہوگا کہ تم ہم لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچاؤ گے جیسے یہ ہندوستانی فوجی آئے روز یہاں کی عورتوں کے ساتھ کرتے ہیں ویسے نہیں کریں گے… "

"مجھ پر یقین کیجئے ………. اور ایک بات سمجھ لیں میں پاکستانی فوجی ہوں عورتوں کی عزت کے رکھوالے ہیں ہم کشمیری ہمارے اپنے ہیں ہم ان کے لیے کچھ بھی کر گزرنے سے دریغ نہیں کرتے اس لیے آپ فکر رہیں میں کوئی بھی حرکت ایسی نہیں کروں گا جس سے آپ کو کوئی پریشانی ہو ………..” اب کی بار میں نے یہ سب اس کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا...

اچانک وہ اٹھی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔ ۔ ۔ ۔

کچھ ہی سیکنڈ بعد دونوں لڑکیاں ایک ساتھ اندر آئیں……….شازیہ کے ہاتھ میں ایک برتن تھا جس میں سے بھاپ نکل رہی تھی …………. دونوں میرے سامنے زمین پر بیٹھ گئیں …………..پھر بڑی لڑکی نے ہی بات شروع کی….

"میرا نام حنا ہے اور یہ میری چھوٹی بہن شازیہ ہے ………..ہم دونوں

یہیں اس گھر میں اکیلی رہتی ہیں……..”

میرے پاؤں کو اٹھا کر ایک لکڑی کے چھوٹے سے اسٹول پر رکھ دیا……..میری پینٹ کے

پائنچوں کو اس نے دھیرے سے اوپر کیا… میرے زخم کو دیکھتے ہی اس چہرے پر درد کی لہر سی لہرا گئی……..زخم سے ابھی بھی خون رس رہا تھا………اس نے ایک کپڑے کو برتن میں ڈالا اور پھر دھیرے سے میرے زخم پر رکھ دیا …………

درد کی ایک لہر میرے سارے وجود میں سرایت کر گئی………… کچھ دیر تک رکنے

کے بعد اس نے دھیرے دھیرے کپڑے سے زخم کو صاف کرنا شروع کر دیا……..

اس کے بعد اس نے ایک چھوٹی سی شیشی کو ڈبے میں سے نکالا اور کھول کر بڑے آرام سے میرے زخم کے اوپر الٹا کر دیا………شیشی میں سے مائع کی کچھ بوندیں زخم

کے اوپر گریں اور پھر زخم چننے کا احساس ہوا……… میں نے کچھ پل کے لیے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور جب دوبارہ کھولیں تو دیکھا کہ اب وہ زخم پر پٹی باندھ رہی ہے....

میں نے پہلی بار ان دونوں کے چہروں کو غور سے دیکھا، حنا کے چہرے پر ایک

عجیب سی سختی اور روکھا پن تھا پر اس وقت ہماری آنکھوں میں مجھے گہری سوچ نظر آ رہی تھی …………..جبکہ شازیہ کے چہرے پر ایک نرماہٹ اور معصومیت سی تھی………… حنا کی آنکھیں اور بال کالے جبکی شازیہ کی آنکھیں گہری نیلی اور بال ہلکے سنہری تھے…………دونوں بہنوں کا رنگ گورا تھا اور چھریرا بدن تھا۔۔۔۔

اچانک شازیہ نے …….جو ابھی تک اپنی بہن کو دیکھ رہی تھی میری طرف دیکھا اور ایک پیاری سی مسکان سے مجھے تسلی دینے کی کوشش کی……یقین مانیے اس کی ایک مسکان نے میرے آدھے درد کو غائب کر

دیا تھا....

ڈریسنگ کر دینے کے بعد حنا نے اپنا چہرہ اوپر اٹھایا اور پھر اسی سخت سے لہجے میں کہا “زخم زیادہ گہرا نہیں ہے…. اب 2-3 دن تک زیادہ چلنا پھرنا نہیں..."

میں نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ اسکا شکریہ ادا کرنے کی کوشش کی ....پر اسے

چہرے پر کوئی بھی تاثر نہ ابھرا ….

پھر دونوں بہنیں مجھے اسی کمرے میں چھوڑ کر باہر چلی گئیں…….میں انتظار کرتا رہا کہ اب وہ لوگ کیا کرنی والی ہیں.... 10-15 منٹ باد شازیہ ہاتھ میں ایک ڈش لے کر آئی اور میرے سامنے پڑی ایک چھوٹی سی میز پر رکھ دیا………..”کھانا کھا لِجیے……”اسنے کہا اور میں بنا دیر کیے اُس کھانے پر ٹوٹ سا پڑا………..

کھانا کھانے کے بعد مجھے ایسا لگا جیسے ایک نئی زندگی مل گئی ہو……..کچھ دیر کے لیے میں یہ بھی بھول گیا کہ میں کہاں ہوں اور کس حالت میں ہوں۔۔۔۔

کچھ ہی دیر کے بعد حنا کمرے میں واپس لوٹی اور بولی “آو…….

تمہیں تمہارے رہنے کی جگہ دکھا دیتی ہوں"

میں بڑے آرام سے سنبھل کر اٹھا اور اس کے ساتھ چل دیا … میرے پاؤں میں اب درد

کم تھا اور میں تقریباً صحیح چل پا رہا تھا… وہ میرے آگے آگے چلتے ہوئے مجھے راستہ دکھا رہی تھی………….گھر سے باہر آکر ہم لوگ طبیلے کی طرف چل دیے……باہر کا موسم اب ٹھنڈا ہو گیا تھا، ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے بارش آنے والی ہو………وہ طبیلے کے اندر داخل ہوئی اور میں اس کے پیچھے پیچھے اندر آ گیا….

طبیلہ کافی بڑا تھا………..اسکے بائیں والے حصے میں ایک طرف جانوروں کے

لیے باڑا سا بنا ہوا تھا اور کچھ جانور بندھے ہوئے تھے ………اسی کے اندر دائیں طرف میں تقسیم کر کے کمرے کا سا با دیا گیا تھا……. طبیلے کی چھت کچی تھی پر چاروں دیواریں پکی تھیں اور ان میں کہیں کہیں چھوٹے چھوٹے سوراخ بنے ہوئے تھے……… حنا نے اس چھوٹے سے سٹور نما کمرے کی طرف اشارا کیا "تم یہاں پر رہ سکتے ہو"

میں اس سٹور نما کمرے میں داخل ہوا… ایک چھوٹا سا کمرہ…………..جو ابھی فلحال بھوسے سے بھرا ہوا تھا……“ تم یہیں رکو، میں تمہارے لیے سونے کے بستر کا انتظام کرتی ہوں…” حنا نے

کہا اور پھر طبیلے سے باہر نکل گئی ………

میں وہیں بھوسے کے ڈھیر پر بیٹھ گیا اور اپنی گھڑی میں دیکھا……..رات

کے 10.30 کا وقت ہو گیا تھا……………باہر اب بونداباندی شروع ہو گئی تھی… اور سردی بھی بڑھتی سی جا رہی تھی………

حنا واپس آئی تو اس کے پیچھے پیچھے شازیہ بھی تھی……………… انکے ہاتھ سے

میں کچھ کپڑے …………..بستر اور رضائی تھی……..

دونوں نے کپڑوں کو وہیں زمین پر رکھ دیا اور دونوں مل کر اس چھوٹے کمرے کی صفائی کرنے لگیں………………

میں وہیں ایک دیوار کے سہارے بیٹھا دیکھ رہا تھا…………. تقریباً 10 منٹ کی محنت کے بعد دونوں بہنوں نے اس سٹور کو میرے رہنے والے لائق کر دیا، کچھ بھوسا کمرے سے نکال کے باہر طبیلے میں رکھ دیا اور باقی کو فرش پر بچھا کر بستر کا روپ دے دیا تھا……..کچھ کپڑے ڈال کر اب وہ ایک آرام دہ بستر بن چکا تھا………..اور 2-3 کمبل میرے اوڑھنے کے لیے رکھ دئیے…۔۔​
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
Back
Top