Offline
- Thread Author
- #61
Episode, 41#
فجر کی طرف سے آنے کے بعد عائلہ نے تھکاوٹ اور کپڑے چینج کرنے کا بہانہ کرتے ہوئے سیدھا اپنے روم کا رخ کیا تھا اور دروازہ اندر سے بند کر لیا تھا اندھیرا ہونے کی وجہ سے مہرالنساء کو اسکی دگرگوں ہوتی ظاہری اور باظنی حالت کا پتہ نہ چل سکا وہ خود بھی کافی زیادہ تھکی ہوئی تھیں اس لیے عائلہ کی خاموشی کو بلقیس بیگم کی باتوں کا اثر سمجھ کر صبح اس سے بات کرنے کا سوچ کر وہ بھی اپنے روم کی طرف چل دیں۔۔۔باہر کے گیٹ کی جاتے وقت ڈپلیکیٹ کیز وہ اپنے ساتھ لے گئ تھیں اس لیے واپسی پہ دروازے پہ دستک دے کر رشید احمد کو اٹھانے کی بجائے خاموشی سے لاک کھول کر وہ اندر چلی آئی تھیں رشید احمد بیٹھک میں سویا ہوا تھا۔۔۔اپنے روم میں آ کر کپڑے چینج کر کے ایمن اور مہرالنساء فوراً سو گئیں جبکہ عینا عائلہ کے روم کے باہر ہی کھڑی اسکے دروازہ کھولنے کا انتظار کرنے لگی مگر اندر سے آتی عائلہ کی سسکیوں نے اس کے دل پہ جیسے منوں بوجھ ڈال دیا تھا۔۔۔
وہ وقفے وقفے سے دروازہ ناک کرتی رہی دھیمی آواز میں عائلہ کی منتیں کرتے ہوئے اس کو دروازہ کھولنے کے لیے پکارتی رہی مگر دروازہ نہ کھلنا تھا نہ کھلا۔۔۔کافی دیر تک انتظار کرنے اور عائلہ کی منتیں کرنے کے بعد بھی اس نے دروازہ نہیں کھولا تو عینا بوجھل قدموں سے اپنی والدہ کے روم میں چلی آئی۔۔۔اپنے بستر میں دراز ہونے کے بعد وہ عائلہ اور صارم شاہ کے بیچ میں ہونے والی بات چیت کے بارے میں سوچتی رہی صارم شاہ اسکی بہن میں پہلے دن سے انٹرسٹڈ تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ عائلہ سے بہت محبت کرنے لگا تھا اس کا اسے باخوبی ادراک تھا اور اس بات سے بہت خوش بھی تھی وہ یہ بھی جانتی تھی کہ عائلہ چاہے کتنا انکار کرے مگر اسکے دل میں بھی صارم شاہ کو لے کر کومل جزبے پروان چڑھ چکے تھے اسے اور فجر کو یقین تھا کہ صارم شاہ اور عائلہ کی اگر ایک بار تنہائی میں ملاقات کروا دی جائے تو یہ ناممکن ہوگا کہ عائلہ صارم شاہ کی محبت سے نظریں چرا سکے اور یہی سوچ کر دونوں نے مل کر یہ پلان بنایا تھا مگر سب الٹ ہوگیا۔۔۔صارم شاہ کا انداز اور عائلہ کی حالت اور اسکی سسکیاں اس بات کا واضح ثبوت تھیں کہ اس کا اور فجر کا دونوں کو قریب لانے کا پلان بری طرح ناکام ہو گیا تھا صبح عائلہ کے ری ایکشن کا سوچ سوچ کر اسکا دماغ دکھنے لگا تھا کہ اسکی نظر اپنے موب پہ پڑی جو اس نے سائیلنٹ موڈ پہ لگایا ہوا تھا سکرین پہ صارم شاہ کا نام جگمگا رہا تھا۔۔۔وہ حیران ہوئی تھی ٹائم دیکھا تو گھڑی رات کے 2 بجا رہی تھی۔۔۔اس نے کال پک کی تھی کہ اب صارم بھائی سے ہی عائلہ کے اس رویے اور ساری صورت حال کا پتہ چل سکتا۔۔۔
" کیوں۔۔۔میرے مالک۔۔۔کیوں۔۔۔یہ کس آزمائش میں تو نے ڈال دیا ہے۔۔۔اگر میری قسمت میں دلاور کو لکھا تھا تو چھوٹے شاہ کو کیوں بھیجا۔۔۔ دلوں میں محبت تو تو ہی پیدا کرتا ہے ناں پھر کیوں میرے دل میں اس کی محبت جگی مجھے اس رستے کا مسافر کیوں بنایا جو میری منزل ہی نہیں جو میری قسمت میں لکھا ہی نہیں۔۔۔
میرے مالک میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہمیشہ تیری رضا پہ راضی رہی۔۔۔مگر اب کیا کروں۔۔۔کیا کروں میں۔۔۔دلاور کو تیری رضا سمجھوں یا چھوٹے شاہ کو۔۔۔دلاور وہ شخص جسے میرے باپ نے میرے لیے چنا۔۔۔چھوٹے شاہ وہ شخص جس نے میرے کورے وجود پہ اپنے نشان چھوڑ دئیے۔۔۔یاالّٰلہ تو دلوں کے حال جانتا ہے بندے کے دل میں پیدا ہونے والی سوچ کو اسکے پیدا ہونے سے پہلے جان جاتا ہے۔۔۔یاالّٰلہ تو جانتا ہے میں خائن نہیں۔۔۔میں بہکنے والوں اور بھٹکنے والوں میں سے نہیں ہوں۔۔۔
میرے مالک دیکھ۔۔۔دیکھ میرے مالک۔۔۔میں ان نشانوں کو کھرچ رہی ہوں۔۔۔نہیں مٹ رہے۔۔۔میرے مولا میں کیا کروں۔۔۔کیا کروں میں۔۔۔یا الّٰلہ مجھے کوئی رستہ دکھا۔۔۔میری مدد فرما۔۔۔میرے مالک میں ایسے جی نہیں پاؤں گی۔۔۔
یاالّٰلہ میں کیا کروں۔۔۔میں مانتی ہوں کہ ایک نامحرم کو سوچنے کا میرا دل گنہگار ہوا۔۔۔مگر تو جانتا ہے دلاور کا نام اپنے نام کے ساتھ جڑنے کے بعد میں نے اسے تیری رضا جان کر قبول کر لیا تھا۔۔۔
مگر چھوٹے شاہ میرے سامنے آ کھڑے ہوئے۔۔۔
باپ کے آگے سر جھکاتی ہوں تو خائن بن کر نہ صرف کسی کی زندگی میں شامل ہوں گی بلکہ کسی کی موت کی ذمہ دار بھی بن جاؤں گی۔۔۔چھوٹے شاہ کا ہاتھ تھامتی ہوں تو ماں کو کھو دوں گی۔۔۔عینا ایمن کے ساتھ نہ جانے بابا کیا کریں۔۔۔
میرے مالک مجھ پہ رحم کر۔۔۔یاالّٰلہ مجھ پہ وہ بوجھ نہ ڈال جسے میں اٹھا نہ سکوں۔۔۔مجھے اس آزمائش میں نہ ڈال جس میں میں پوری نہ اتر سکوں۔۔۔میں کیا کروں میرے مالک۔۔۔میں کیا کروں۔۔۔مجھے رستہ دکھا میرے مالک۔۔۔مجھے رستہ دکھا۔۔۔میرے مالک مجھے اس عزاب سے نکال دے۔۔۔"
دروازہ بند کرتے ہی عائلہ اسکے ساتھ لگ کر وہیں نڈھال سی زمین پہ بیٹھتی چلی گئ۔۔۔پورا راستہ وہ خاموشی کی بکل اوڑھے بے حس و حرکت بیٹھی رہی تھی۔۔۔مگر اپنے روم میں آتے ہی اس کے خود پہ باندھے سبھی بند ٹوٹ گئے۔۔۔وہ دروازے کے ساتھ لگی سسک سسک کر رونے لگی۔۔۔رو رو کر آنسو خشک ہوئے تو اٹھ کر وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑی ہو گئ۔۔۔سجدے میں گئ تو پھر سے دل بھر آیا بدقت نماز پوری ادا کر کے سجدے میں گری پھر سے سسکنے لگی یونہی گریہ زاری کرتے ساری رات بیت گئ۔۔۔صبح کے آثار نمودار ہونا شروع ہو گئے تھے فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ اٹھی تو سر اتنے زور سے چکرایا کہ وہیں ڈھے گئ۔۔۔
" آپی ی ی ی۔۔۔کیا ہوا ہے آپکو۔۔۔پلیزز آنکھیں کھولیں۔۔۔اففففف۔۔۔میرے الّٰلہ آپکو تو بہت تیز بخار ہے۔۔۔کیا کروں میں۔۔۔ایمننن۔۔۔"
دن چڑھے بھی عائلہ کو کمرے سے نکلتا نہ دیکھ کر عینا اس کے کمرے کی طرف آئی تو دروازہ اندر سے بند تھا آج سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ عائلہ اتنی دیر تک سوئی رہی ہو۔۔۔عینا کے دل کو فکر نے آ گھیرا۔۔۔وہ فوراً مہرالنساء کے روم میں گئ اور ماسٹر کی لا کر دروازہ کھولا تو عائلہ کو نیچے فرش پہ بے سدھ حالت میں گرے دیکھ کر اسکی چیخ نکل گئ۔۔۔وہ تیزی سے آگے بڑھی اور اسے اٹھانے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔۔۔
عینا نے جیسے ہی عائلہ کو اٹھانے کے لیے اس کا گال تھپتھپایا تو اسے وہ آگ کی بھٹی مععلوم ہوا۔۔۔ چیخنے کے سے انداز میں اس نے ایمن کو آواز دی اور اسکی مدد سے بڑی مشکل سے کھینچ تانچ کر عائلہ کو سیدھا کر کے بستر پہ لٹایا۔۔۔اور ایک گرم چادر اس پہ اوڑھا دی۔۔۔
" کیا بات ہے بیٹا۔۔۔تم ایسے چیخی کیوں تھی۔۔۔"؟
مہرالنساء ایمن کو یوں گھبراہٹ زدہ لہجے میں آواز دینے پہ اسکے پیچھے پیچھے ہی پریشان ہوتی چلی آئیں تو سامنے سے عینا کو اپنی طرف آتے دیکھ کر فکرمندی سے پوچھا۔۔۔
" امی جان عائلہ آپی کو بہت تیز بخار ہے۔۔۔"
عینا نے پریشان ہو کر کہا۔۔۔تو مہرالنساء بھی پریشان ہو کر عائلہ کو دیکھنے بڑھیں۔۔۔
" بیٹا ایسا کرو جلدی سے فریج میں سے ٹھنڈا پانی کسی باؤل میں لے کر آؤ اور ساتھ میں ململ کا کپڑا بھی۔۔۔"
مہرالنساء نے بہت شفقت اور محبت سے عائلہ کی پیشانی پہ ہاتھ رکھا تو وہ انگارہ بنی ہوئی تھی۔۔۔انھوں نے عینا کو پانی لانے کا کہا اور پھر پڑھ پڑھ کر عائلہ پہ پھونک مارنے لگیں۔۔۔
" عائلہ میری بچی۔۔۔کیسی طبیعت ہے اب۔۔۔تم نے تو میری جان ہی نکال دی۔۔۔مجھے ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ میری بچی اس حد تک کمزور دل ہے کہ اتنی چھوٹی سی بات کو دل پہ لے لے گی۔۔۔"
کچھ دیر تک عائلہ کی پیشانی اور پاؤں کے تلوؤں پہ پٹیاں کرنے سے بخار کم ہوا تو میرالنساء نے فوراً اسے ٹیبلٹ کھلا دی۔۔۔چہرے پہ بخار کی سرخی کم ہوئی تو مہرالنساء نے اسکے بالوں میں دھیرے دھیرے ہاتھ پھیرتے ہوئے لہجے میں دنیا جہاں کی محبت سموئے کہا۔۔۔
" ہممممم۔۔۔۔ٹھیک ہوں۔۔۔"
عائلہ نے اٹھنے کی کوشش کرتے کہا مگر مہرالنساء نے اسے پھر سے لٹا دیا کہ ابھی مت اٹھو۔۔۔
" آج گھر میں فاقہ کشی کا ارادہ ہے کیا۔۔۔دوپہر ہونے کو آئی مگر تم لوگ ایسی سست ہو کہ ابھی تک اٹھنے کا نام نہیں لے رہی۔۔۔"
رشید احمد نے کمرے میں جھانکتے دروازے کے بیچوں بیچ ہی کھڑے ہو کر طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔تو مہرالنساء نے ایک غصیلی نظر اس پہ ڈالی اور اسکی بات کا کوئی جواب دئیے بنا عینا سے اپنے باپ اور باقی سب کے لیے ناشتہ بنانے کا کہا۔۔۔
" امی جان فجر آپی کی طرف کتنے بجے جانا ہے میں کپڑے پریس کردوں۔۔۔۔"
سب کو ناشتہ کروانے اور کچن سمیٹنے کے بعد عینا نے روم میں آکر اپنی والدہ سے پوچھا جو عائلہ کے سرہانے بیٹھیں کچھ پڑھ پڑھ کر اس پہ پھونک رہی تھیں۔۔۔عائلہ کے بخار کی شدت میں کافی حد تک کمی آ چکی تھی مگر ٹوٹا نہیں تھا۔۔۔بخار کی وجہ سے اسکا بھرم رہ گیا تھا ورنہ ساری رات گریہ زاری کرنے کی وجہ سے سوجی سوجی آنکھیں اسکا سارا بھید کھول دیتیں۔۔۔
" بیٹا کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کروں عائلہ کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے۔۔۔"
مہرالنساء نے فکرمندی سے کہا۔۔۔
" امی جان جانا تو ضروری ہے ، ہم میں سے کوئی بھی نہ گیا تو یہ مناسب نہیں لگے گا ایسا کریں کہ آپ اور ایمن چلی جائیں میں آپی کے پاس رک جاتی ہوں فجر کو فون کر کے میں اپنے اور آپی کے نہ آنے کی وجہ بتا دوں گی۔۔۔"
عینا نے عائلہ کی طبیعت کی وجہ سے اپنا جانا کینسل کرتے کہا تو اسکی بات پہ مہرالنساء نے اقرار میں سر ہلایا۔۔۔














آج فجر کی شادی تھی۔۔۔سب کی خواہش تھی کہ فیصل آباد کی سب سے مشہور مارکی میں اس کا ارینج ہوتا مگر اچانک سب تہ ہونے کی وجہ سے اور کافی بھاگ دوڑ کے باوجود ایسا ہو نا پایا شادیوں کا سیزن ہونے کی وجہ سے پورے فیصل آباد کے شادی ہالز پہلے سے بک تھے جسکی وجہ سے آپس کے متفقہ مشورے سے گاؤں میں لڑکوں کے سکول میں برات کو رسیو کرنے اور کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔۔۔
شاہ سائیں نے سارا انتظام اپنی نگرانی میں خود کروایا تھا جسکے لیے فیصل آباد کے سب سے مشہور ویڈنگ ایونٹس آرگنائز کرنے والی پارٹی کو ڈبل پیمنٹ کرکے بلوایا گیا تھا۔۔۔
ان کے ساتھ گاؤں کے اور لوگوں نے بھی بڑھ چڑھ کر اس کام میں حصّٰہ لیا تھا جسکی وجہ سے سکول کم شادی ہال کا منظر زیادہ پیش ہورہا تھا۔۔۔
دلہن کو تیار کرنے کے لیے بھی خاص طور پہ لاہور سے بیوٹیشن بلائی گئ تھی۔۔۔
رخصتی کا ٹائم ہوا چاہتا تھا مگر صبح سے کسی نے بھی صارم شاہ کا آج چہرہ نہیں دیکھا تھا۔۔۔
فجر کے لیے آج اسکی زندگی کا بہت اہم دن تھا مگر دلہن بنی بیٹھی وہ اپنی آنے والی زندگی کی بجائے اپنے بھائی کے لیے دل ہی دل میں پریشان ہو رہی تھی۔۔۔صبح عینا نے فون کر کے جب سے عائلہ کی طبیعت کی خرابی کا بتایا تھا اسکی پریشانی بڑھ گئ تھی رات اس نے فون کر کے انکے یوں اچانک جانے کا اور صارم شاہ اور عائلہ کے بارے میں پوچھا تو عینا سے اپنے پلان کی ناکامی کا سن کر اس نے صارم شاہ کو کتنی ہی کالز کیں کہ وہ اسکے روم میں آئے مگر صارم شاہ نے اس کا فون اٹینڈ نہیں کیا تھا اور اب بھی صبح سے غائب تھا اور اب صبح عائلہ کے بخار کا سن کر وہ ایک نئ پریشانی کا شکار ہوئی تھی۔۔۔اپنی ماں سے بھی دو تین بار صارم شاہ کا وہ پوچھ چکی تھی مگر ہر بار جواب ملتا کہ پیغام بھجوایا ہے باہر ابھی آتا ہے۔۔۔
" احتشام بیٹا یہ صارم کدھر ہے۔۔۔اسکو بلاؤ بیٹا تمہارے بابا اور فجر کئ بار پوچھ چکے ہیں رخصتی کا ٹائم ہوا چاہتا ہے اور یہ غائب ہے۔۔۔"
ہائمہ خاتون کی جیسے ہی احتشام شاہ پہ نظر پڑی تو انھوں نے اشارے سے اسے اپنے پاس بلا کر اسکے کان میں آہستہ سے کہا۔۔۔
احتشام شاہ اپنے بازوؤں کے گھیرے میں لیے فجر کو آہستہ آہستہ گاڑی کی طرف بڑھا جبکہ صارم شاہ اپنے غم کو دل میں چھپائے لال انگارہ ہوتی آنکھوں کے ساتھ چہرے پہ ویرانی لیے قرآن پاک کا اپنی بہن پہ سایہ کیے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔۔۔
" ہمیشہ خوش رہو۔۔۔شاد و آباد رہو۔۔۔"
دونوں بھائیوں نے گاڑی میں بٹھانے کے بعد باری باری فجر کے سر پہ ہاتھ رکھتے پیار کے ساتھ دعا دیتے کہا۔۔۔فجر کو گاڑی میں بٹھاتے سمے صارم شاہ کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے اپنے آنسو صاف کرتے وہ تیزی سے پیچھے ہوا تھا۔۔۔ہزار ضبط کے باوجود فجر کی آنکھوں سے بھی برسات جاری ہو گئ۔۔۔
ہائمہ خاتون اور احتشام شاہ نے بدقت اسکو سمجھا بجھا کر چپ کروایا۔۔۔
" بھائی۔۔۔"
احتشام شاہ پیچھے کو ہوا تو فجر نے سسکی بھرتے اسے پکارا تھا...
" بولو بھائی کی جان۔۔۔کچھ چاہیے کیا۔۔۔"؟
احتشام شاہ نے نیچے کو جھکتے اسکے سر پہ ہاتھ رکھتے آنکھوں میں نمی لیے کہا۔۔۔
" بھائی۔۔۔صارم بھیا کو پلیز اکیلا مت چھوڑیے گا۔۔۔وہ ٹھیک نہیں ہیں۔۔۔"
فجر نے روتے ہوئے کہا تو احتشام شاہ نے حیرانی سے اسکی بات کا مطلب سمجھنے کے لیے صارم شاہ کی طرف دیکھا تھا جو گاڑی سے ذرا فاصلے پہ کھڑا تھا آنکھیں رونے کی وجہ سے سوجی سوجی سی اور چہرے پہ عجیب سے کرب کے آثار تھے۔۔۔
احتشام شاہ اثبات میں سر ہلا کر پیچھے کو ہٹ گیا۔۔۔پھر وہ شرجیل کے گلے ملا اور اسے اپنی بہن کا خیال رکھنے کی خاص کر تاکید کی۔۔۔یونہی باری باری سب ایک دوسرے سے بغلگیر ہوئے اور اجازت چاہی۔۔۔
لاہور گھر پہنچتے ہی سب لوگ گاڑیوں سے اترنے لگے۔۔۔آئمہ سلطان اور رامین نے پہلے نیچے اتر کر فجر کے لہنگے کو سمیٹا پھر اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے گاڑی سے اترنے میں مدد دی۔۔۔
گاڑیوں کا ہارن سنتے ہی بڑا سا گیٹ کھول دیا گیا گیٹ سے اندر داخل ہوتے وقت فجر کا ہاتھ تھامنے کو شرجیل نے اپنا ہاتھ فجر کی طرف بڑھایا تو اسکے ہاتھ میں لرزش محسوس کرتے وہ مسکرا دیا اور اسے ریلیکس رہنے کا کہتے ہوئے دونوں نے ایک ساتھ اپنا دایاں قدم اندر رکھا۔۔۔
قدم اندر رکھتے ہی ان دونوں پہ پھولوں کی آسمان سے یوں برسات ہونے لگی جیسے پھولوں بھرا آسمان یکدم پھٹ گیا ہو۔۔۔
گیٹ سے لیکر برائیڈل روم تک گلاب کی پتیوں کے ساتھ رو بنائی گئ تھی جس پہ چلتے چلتے دونوں روم تک پہنچے۔۔۔
فجر کو جس روم میں لا کر بٹھایا گیا ہیڈ بیڈ والی دیوار پہ فریش ادھ کھلے گلاب کا سپرے کیا گیا تھا۔۔۔جبکہ بیڈ کو فریش پھولوں میں لپٹے سکوائر ٹینٹ سے سجایا گیا تھا جنکے ارد گرد چھوٹی چھوٹی ڈیکوریشن لائٹس بھی لپٹی ہوئیں تھیں۔۔۔
ڈارک آف وائٹ کلر کے جالی دار دیدہ زیب پردے بیڈ کے چاروں طرف سے بیڈ کے اوپر سے لے کر نیچے تک فرش کو چھو رہے تھے۔۔۔
پھولوں کی پتیوں سے ہارٹ شیپ میں بیڈ کے سینٹر میں سجاوٹ کی گئ تھی زمین پہ بھی ہارٹ شیپ کے بہت سے بالونز پڑے ہوئے تھے۔۔۔
بیڈ کی سائیڈ کے دونوں اطراف میں فل ڈیکوریٹڈ ٹیبل رکھی گئ تھیں جن کے اوپر گلاب کی پتیوں میں شیشے کے ہارٹ شیپ جار میں کینڈلز سجائی گئ تھیں۔۔۔
فجر کو روم میں بٹھانے کے بعد فوٹو سیشن کا دور شروع ہوا ، پھر باری باری فیملی کے تمام لوگوں نے اسکے ساتھ پکس بنوائیں۔۔۔
اسکے بعد کچھ خاندانی رسموں رواج کا دور شروع ہوا فجر کا تھکاوٹ کے مارے برا حال ہونے لگے تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ اپنی کمر کو کھینچ کر ذرا سا سیدھا کرتی۔۔۔
" رابعہ آپا میرے خیال میں اب بس کردینا چاہیے فجر بیٹی کو اب آرام کرنے دینا چاہیے بیٹھے بیٹھے تھک گئ ہوگی۔۔۔باقی کی رسمیں ہم کل کر لیں گے۔۔۔"
رات کے 10 بج چکے تھے آئمہ سلطان کسی کام سے اندر آئیں تو فجر کی حالت دیکھ کر انھوں نے اپنی نند سے کہا انکی نند نے مسکراتے ہوئے سب کو اٹھنے کا بول دیا اور خود بھی اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔۔
سب کے جانے کے بعد فجر اپنا دوپٹہ اوپر کر کے ستائشی نظروں سے کمرے کا جائزہ لینے لگی پورے کمرے میں پھیلی فریش پھولوں کی خوشبو اور ڈیکوریشن لائٹس کی مدھم روشنی کمرے کو عجب سحر انگیز سا بنا رہی تھی ابھی وہ جائزہ لے ہی رہی تھی کہ کمرے کے باہر اسے قدموں کی چاپ سنائی دی وہ فوراً سر جھکا کر سیدھی ہوکر بیٹھ گئ اور دوپٹے کو ذرا سا کھینچا جس سے پیشانی سے لے کر ناک تک اس کا چہرہ چھپ گیا۔۔۔
شرجیل آہستہ سے روم میں داخل ہوا روم لاک کیا اور لائٹ آف کی تو فجر کا دل دھک دھک کرنے لگا شرجیل نے باری باری تمام کینڈلز کو روشن کیا تو پورا کمرہ کینڈلز کی روشنی میں سحر انگیز منظر پیش کرنے لگا خوابیدہ جزبے پرزور انگڑائی لے کر جاگ اٹھے شرجیل آہستہ آہستہ چلتا ہوا دھیرے سے اسکے پاس بیڈ پہ آ بیٹھا فجر کا جھکا سر مزید جھک گیا اسکی ٹھوڑی گردن کو چھونے لگی اور ہتھیلیاں نم آلود ہونے لگیں۔۔۔
کمرے میں پھیلی خوابناک خاموشی تنہائی اور آنے والے لمحات کا سوچ کر فجر کی روح فنا ہونے لگی اسکی دھڑکن کا شور اتنا بڑھا کہ اسے لگا جیسے ابھی اس کا دل اسکی پسلیوں سے باہر آ جائے گا۔۔۔
گولڈن سکن کلر کے دوپٹے کو بڑی نفاست سے اسکے سر اور کندھوں پہ پنز کی مدد سے سیٹ کیا گیا تھا مہرون کلر کی فل ایمبراڈد کرتی اور گولڈن سکن کلر کے لہنگے میں اسکا روپ بن پیئے شرجیل کو مدہوش کرنے لگا۔۔۔ہونٹوں کی لالی اسے اپنی طرف کھینچنے لگی جیسے کہ رہی ہو کہ ان لبوں کا رس صرف تمہارے لیے ہے آؤ اور آ کے پی جاؤ۔۔۔شرجیل نے ہاتھ بڑھا کر اسکا دوپٹہ اوپر کو سرکایا تو اس کا حسن دلسوز اسکے اندر لگی آگ کو بڑھا گیا۔۔۔
شرجیل یونہی بیٹھا کئ لمحے دل میں ہلچل مچاتے اسکے دلکش روپ کو نہارتا رہا۔۔۔
" یقین نہیں آ رہا کہ کوئی اتنا خوبصورت بھی ہوسکتا ہے۔۔۔آج آپکے سامنے اس دنیا کی ہر خوبصورتی بے معنی بے وقعت لگ رہی ہے جان شرجیل۔۔۔"
شرجیل نے اپنی انگلیوں کی پوروں سے دھیرے سے اسکی ٹھوڑی کو چھو کر اس کا چہرہ ذرا سا اپنی طرف موڑتے ہوئے جزبات سے لبریز لہجے میں کہا شرجیل کے چھوتے ہی اپنی جھکی نظروں کو وہ زور سے میچتے ہوئے خود میں سمٹ کر رہ گئ شرجیل اسکی اس حرکت پہ خوب محفوظ ہوا۔۔۔
" جان شرجیل۔۔۔کچھ کہیں گی نہیں آج۔۔۔یوں آنکھیں بند رکھیں گی تو مجھے لگے گا کہ میرا چہرہ پسند نہیں آیا آپکو۔۔۔خیر کوئی بات نہیں میں ماما سے کہ دیتا ہوں جا کے کہ آپکی بہو نے مجھے ریجیکٹ کردیا ہے۔۔۔"
شرجیل نے شرارت سے اسکی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔اور جھوٹ موٹ اٹھنے کی ایکٹنگ کی۔۔۔"
" نن۔۔نہیں ایسی بات نہیں ہے۔۔۔میں۔۔۔"
فجر نے بےساختہ اپنی آنکھیں کھول کر کہا ابھی وہ کچھ اور بھی کہنے لگی تھی کہ شرجیل کی آنکھوں میں ناچتی شرارت دیکھ کر خفگی سے منہ نیچے کر لیا۔۔۔شرجیل ہنستا ہوا پھر سے اسکے قریب یٹھ گیا۔۔۔
" یہ ہوئی ناں بات۔۔۔ فجر آج میں بہت خوش ہوں آپ کو پا کر مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میں دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان ہوں جسے بنا کسی آزمائش سے گزارے اسکے رب نے اسکی محبت اسکی قسمت میں لکھ دی۔۔۔آج میں جتنا بھی شکر ادا کروں وہ کم ہے۔۔۔میری زندگی میں آنے کے لیے مجھے قبول کرنے کے لیے میری خطا کو معاف کرنے کے لیے آپکا بہت بہت شکریہ۔۔۔"
شرجیل نے آہستہ سے گود میں دھرے فجر کے ہاتھ تھام کر پورے استحقاق سے اپنے لبوں سے لگاتے جزبات سے چور لہجے میں کہا فجر کی جان سوا ہوئی تھی اسکا جسم ہولے ہولے کپکپانے لگا تھا۔۔۔اس نے شرجیل کو تنگ کرنے کے لیے کیا کچھ سوچا ہوا تھا مگر اسے اپنا سارا اعتماد ہوا ہوتا محسوس ہونے لگا دل میں اک عجیب سے ہوتی گدگدی کے ساتھ ایک ڈر اور خوف اسکے وجود میں سرائیت کرنے لگا۔۔۔
" ریلیکس یار۔۔۔شوہر ہوں تمہارا۔۔۔اور تم میری محرم۔۔۔"
شرجیل نے اسے کے کانپتے لرزتے وجود کو دیکھ کر اسکے ہاتھوں پہ ہلکا سا دباؤ ڈالتے کہا پھر اسے بہت نرمی سے اپنے بازوؤں کے گھیرے میں لے کر اپنے ساتھ لگا کر اسکے ماتھے پہ اپنے ہونٹ رکھتے شدت بھرا لمس چھوڑا۔۔۔
" مم۔۔۔مجھے نیند آ رہی ہے۔۔۔اور۔۔۔اور میں نے آپکو معاف نہیں کیا۔۔۔
اپنی اتھل پتھل ہوتی دھرکنوں کو قابو کرتے لرزتے ہوئے فجر کے منہ سے بے ساختہ خارج ہوا اور شرجیل کو پیچھے کرتی تیزی سے بیڈ سے اتر کر دور جا کے رخ موڑے کھڑی ہو گئ۔۔اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اسکے جسم سے جان نکل رہی ہو چہرہ حیا کی تمازت سے سرخ انار ہونے لگا۔۔۔
" واٹ۔۔۔۔اگر معاف نہیں کیا تو کوئی سزا بھی سوچی ہوگی۔۔۔بندہ ناچیز حاضر ہے۔۔۔چاہے تو جان لے لیں۔۔۔مگر یوں منہ مت موڑیں۔۔۔
شرجیل اٹھ کر اسکے انتہائی قریب جا کر کھڑا ہوگیا کہ اس کا جسم فجر کے ساتھ ٹچ ہونے لگا شرجیل نے فجر کا رخ اپنی طرف موڑتے اسکی طرف جزبے لٹاتی آنکھوں سے دیکھ کر کہا۔۔۔
" پپ۔۔۔پلیزز۔۔۔کیا ایسا ممکن نہیں کہ ہم آج صرف باتیں کریں۔۔۔"
فجر نے غیر محسوس انداز میں اپنے اور شرجیل کے بیچ میں فاصلہ قائم کیا۔۔۔
" اٹس ناٹ فئیر مسز شرجیل۔۔۔آپکا یہ گریز میری سمجھ سے باہر ہے جبکہ اب ہم ایک مظبوط اور پاک رشتے میں بندھ چکے ہیں۔۔۔"
شرجیل نے اسکے بنائے فاصلے کی حد کو کراس کرتے شکایتی لہجے میں کہا اور اسکے گرد بازوؤں کا گھیرا تنگ کرتے اپنے سینے میں بھینچا۔۔۔
فجر کا حلق اندر تک خشک ہوا دل تیز تیز دھڑکنے لگا۔۔۔
" مم۔۔۔میں کرلوں گی۔۔۔"
شرجیل نے اسکے سر اور کندھوں پہ سیٹ کیے دوپٹے سے پنز نکالنی چاہیں تو فجر نے پیچھے کو ہوکر اسے روکا۔۔۔
" جہاں کھڑی ہیں۔۔۔وہیں کھڑی رہیں۔۔۔یہ میرا کام ہے مجھے کرنے دیں۔۔۔"
شرجیل نے ایک گھوری ڈالتے کہا پھر اسکو اپنے قریب کرتے اسکے سر پہ اپنے ہونٹ رکھے اور وہاں سے پنز نکالیں۔۔۔
پھر کندھے پہ ہونٹ رکھے تو فجر لرز کر رہ گئ۔۔۔شرجیل نے دھیرے سے وہاں سے بھی پنز نکال دیں اور دوپٹہ اتار کر سائیڈ پہ رکھتے اسکے برہنہ کندھے پہ باری باری اپنے ہونٹوں کا لمس چھوڑنے لگا۔۔۔اسی وقت فجر لڑکھڑائی تھی شرجیل نے جلدی سے اپنی بانہوں کا سہارا دے کر اسے سنبھالا اور اسکے ہونٹوں پہ اپنی نظریں گاڑ دیں اسکی آنکھوں میں سرخی بڑھ رہی تھی جزبات کا سمندر پوری انگڑائی لے کر جاگ چکا تھا فجر کا دل پسلیاں توڑ کر باہر آنے کو بے تاب ہونے لگا اسے اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہونے لگیں۔۔۔
شرجیل نے ایک جھٹکے سے اس کی کمر اور گردن میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنی بانہوں میں بھرا تو وہ اپنی آنکھیں میچ گئ۔۔۔
" کوئی فائدہ نہیں ہے۔۔۔جو بھی سزا دینی ہے وہ کل کے لیے ادھار کر لیں۔۔۔جو سزا دیں گی پکا وعدہ افففف بھی نہیں کروں گا۔۔۔ آج خود کو مجھے سونپ دیں۔۔۔آج بس مجھے سنیں مجھے محسوس کریں۔۔۔"
شرجیل نے آہستہ سے اسے بیڈ پہ لٹاتے اسکی گردن پہ اپنے ہونٹ رکھتے کہا اور ہلکے سے بائٹ کی اسکی شدتوں سے گھبرا کر فجر نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے اسے پیچھے کرتے اسکی گرفت سے نکلنا چاہا۔۔
مگر اپنی گرفت اور مظبوط کرتے وہ اسکے جسم سے اٹھتی مہک پہ بے خود ہوتے فجر کے ایک ایک نقش کو اپنے لبوں سے معتبر کرنے لگا اسکی شدتوں بھرے لمس کے آگے ہار مانتے فجر نے مزاحمت چھوڑ کر اپنے دل سے سارے ڈر خوف نکال کر خود کو اپنے محرم کے سپرد کردیا۔۔۔۔














" آپی آپ نے ایک بات نوٹ کی۔۔۔۔۔"؟
قاسم نے اپنے ساتھ والی فرنٹ سیٹ پہ بیٹھی ایمان کی طرف بنا دیکھے گاڑی چلاتے ہوئے اپنی نظریں سامنے رکھتے ہوئے کہا۔۔۔
" کونسی بات۔۔۔"؟
ایمان نے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔
" یہی کہ۔۔۔مہدیہ کے ماں باپ بچپن میں مر گئے۔۔۔
ایک چچا تھا جنہوں نے پالا وہ بھی مرگیا۔۔۔
شوہر کی بھی ڈیتھ ہو گئ۔۔۔
بہن بھائی کوئی ہے نہیں۔۔۔اور نہ ہی کوئی اور عزیز رشتے دار سوائے رضوانہ بوا کے۔۔۔
یہ سب کچھ آپکو عجیب سا نہیں لگ رہا۔۔۔ایسا لگ رہا ہے جو بتایا جا رہا ہے جو دکھایا جا رہا ہے ویسا ہے نہیں۔۔۔"
قاسم نے گہری سوچ میں ڈوبے کہا تو ایمان اس کی بات پہ چپ رہ گئ بات تو واقع عجیب سی تھی قاسم نے جن باتوں کو پوائینٹ آؤٹ کیا تھا وہ کچھ غلط بھی نہ تھیں مگر رضوانہ خاتون پہ شک کرنے کی کوئی وجہ بھی تو نہیں تھی۔۔۔کیونکہ وہ کافی سالوں سے انکے گھر کام کر رہی تھیں اور سب نے انکے کردار کو ہر لحاظ سے بے داغ ہی پایا تھا۔۔۔
" یہ صرف تمہارا وہم ہے دنیا میں بہت سے ایسے کیسز ہیں کہ کوئی بلکل تنہا ہوتا ہے نہ ماں باپ نہ کوئی عزیز رشتے دار۔۔یہاں تو پھر بھی رضوانہ خاتون ہیں اور وہ کافی عرصے سے ہمارے گھر کام کر رہی ہیں وہ بہت اچھے کردار کی اور قابل بھروسہ خاتون ہیں انھیں کیا ضرورت ہے کہ وہ کچھ چھپائیں اور غلط بیانی سے کام لیں جبکہ انھوں نے آج تک ایسا نہیں کیا۔۔۔
" تمہاری واپسی کب ہے۔۔۔"
ایمان نے موضوع بدلتے ہوئے سرسری انداز میں پوچھا۔۔۔
" خیر ہے۔۔۔تنگ آ گئیں ہیں کیا۔۔۔"
قاسم نے اچنبھے سے پوچھا۔۔۔
" نہیں ایسی بات نہیں ہے اصل میں کبھی اتنے دن گھر میں ٹکے نہیں ناں۔۔۔"
ایمان نے کہا۔۔۔قاسم اپنی سوچوں میں گم تھا ایمان نے کیا کہا اس نے دھیان نہیں دیا مہدیہ کا چہرہ اسکے دماغ میں بری طرح سے کھٹک رہا تھا جو چہرہ اسکو یاد آیا تھا اب سب سے پہلے وہ اس کا پتہ کروانے کا سوچنے لگا۔۔۔
" تم نے بتایا نہیں۔۔۔"
قاسم کو خاموش دیکھ کر ایمان نے اپنا سوال دہرایا تھا۔۔۔
" کیا ہوگیا ہے آپ تو میرے پیچھے ہی پڑ گئ ہیں۔۔۔کہیں تو ابھی چکا جاتا ہوں۔۔۔"
پھر سے وہی سوال دہرانے پہ قاسم کو تپ چڑھی تھی وہ جھنجلا کر غصے سے بولا۔۔۔
" میری طرف سے تم جب چاہے آؤ ، جب چاہے جاؤ۔۔۔مگر اتنا ذہن میں رکھنا کہ تمہاری وجہ سے رضوانہ بوا کی فیملی کو کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے ایسی کوئی حرکت مت کرنا جو ہمارے لیے شرمندگی کا باعث بنے۔۔۔میں تمہاری نیچر کو جانتی ہوں اور بابا کی نیچر کو بھی۔۔۔اس لیے سمجھا رہی ہوں کہ اپنے " شغل " باہر تک ہی رکھنا۔۔۔"
ایمان نے دوٹوک انداز اپناتے کہا۔۔۔قاسم اسکی باتوں پہ جل کر سوا ہو گیا باقی کا راستہ خاموشی میں ہی کٹا ایمان کو بوتیک کے سامنے ہی اتار کر بنا اسکی طرف دیکھے اور کوئی بات کیے وہ زن سے گاڑی بھگا لے گیا۔۔۔
" مہدیہ بیگم۔۔۔موہنی بائی۔۔۔ان میں سے کون ہو تم۔۔۔اب جب تک میں اس بات کی تہ تک نہیں پہنچ جاتا چین سے نہیں بیٹھوں گا۔۔۔میں اتنا بڑا دھوکا نہیں کھا سکتا۔۔۔اتنی حد تک کسی میں مشابہت۔۔۔ناممکن۔۔۔"
قاسم گاڑی ڈرائیو کرتا ہوا بڑبڑایا۔۔۔پھر ایک سائیڈ پہ گاڑی روک کر لاہور اپنے ایک خاص دوست کو کال ملائی۔۔۔"











