Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

Hardcore جگ تجھ پہ وار دیا

یہاں سے دانی استاد دلاور بن کے جیل سے نکلے گا
 

Episode, 16#

" مگر یہ تو بتایا ہی نہیں تم نے کہ کس کو گروی رکھ رہے ہو۔۔۔مجھے بھی تو پتہ ہونا چاہیے یہ۔۔۔کیا خیال ہے۔۔۔"؟
دلاور نے رشید احمد کو کرسی پہ بیٹھنے کا اشارہ کرکے۔۔۔خود بھی کرسی پہ بیٹھتے ہوئے کہا
" میری چار بچیاں ہیں۔۔۔ی۔۔۔یہ تصویر ہے میرے پاس انکی۔۔۔ان میں سے جسے تم کہو۔۔"
رشید احمد نے کچھ سال پہلے ایک شادی کے فنکشن میں لی گئ اپنی فیملی کی تصویر موبائل میں اوپن کر کے دلاور کے سامنے کرتے ہوئے کہا۔۔ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی جیتے جاگتے وجود کی نہیں۔۔بلکہ کسی اینٹ پتھر کی بات کر رہا ہو۔۔
" یہ نیلے کپڑوں میں کون ہے۔۔کیا نام ہے اس کا۔۔۔"؟
دلاور نے عائلہ کی تصویر پہ انگلی رکھتے ہوئے اشتیاق سے پوچھا۔۔
" یہ میری بڑی بیٹی ہے۔۔عائلہ نام ہے اس کا۔۔"
رشید احمد کی بات سن کر دلاور کرسی کے ساتھ پیچھے کو ٹیک لگا کر ٹانگوں کو سیدھا کر کے کچھ دیر چپ چاپ کسی گہری سوچ میں ڈوبا رہا۔۔
جبکہ رشید احمد دلاور کے کوئی جواب نہ دینے پر پریشانی سے اُس کو تکی جائے۔۔اس کا دل ہول رہا تھا کہ اگر دلاور نے انکار کر دیا تو وہ کیا کرے گا۔۔
وہ دل ہی دل میں الّٰلہ سے دعا کرنے لگا کہ یا الّٰلہ دلاور مان جائے۔۔
زندگی میں پہلی بار اس کو الّٰلہ یاد آیا تھا۔۔الّٰلہ کا نام اسکی زبان پر آیا تھا۔۔اور وہ بھی ایک مکروہ مقصد کے لیے۔۔
" تو ٹھیک ہے۔۔۔مجھے تمہاری بات منظور ہے۔۔ دو ہفتے نہیں۔۔صرف ایک ہفتہ۔۔۔ایک ہفتے سے ایک دن۔۔۔ایک منٹ بھی اوپر نہیں۔۔اور نہ کسی قسم کی کوئی بات سنوں گا۔۔اور اگر تم اپنی بات سے مکرے۔۔تو یاد رکھنا۔۔کہ تمہیں گولی نہیں ماروں گا۔۔بلکہ تمہارے پاؤں سے شروع کروں گا۔۔اور تمہارے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرتا کرتا۔۔آخر میں تمہارا سر قلم کروں گا۔۔
اور اس کو دھمکی سمجھنے کی غلطی مت کرنا۔۔تم جانتے ہو مجھے اچھے سے۔۔"
دلاور انتہائی سرد لہجے میں ہر لفظ چبا چبا کر بولا۔۔
" ایک ہفتہ۔۔۔۔۔ایک ہفتہ بہت کم ہے۔۔۔۔مم۔۔۔میں اتنے تھوڑے وقت میں انتظام نہیں کر سکتا۔۔۔
مجھ پہ رحم کرو۔۔۔مجھے تھوڑا اور وقت دے دو۔۔۔
رشید احمد گھگیاتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر بولا
" ہممممممم۔۔۔۔۔۔اچھا ایک بات بتاؤ۔۔۔اگر کچھ ایسا ہو جائے کہ تمہیں ایک پیسہ بھی واپس نہ کرنا پڑے۔۔تو ۔۔۔۔تو کیسا رہے گا۔۔"؟
دلاور نے بڑے معنی خیز انداز میں رشید احمد کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے پوچھا۔۔
دلاور کی بات پر نہ صرف رشید احمد بلکہ بھولا اور پاس کھڑے دلاور کے دونوں آدمی۔۔۔جو رشید احمد کو پکڑ کر لائے تھے سب حیران ہو کر دلاور کی طرف دیکھنے لگے۔۔رشید احمد کو ایسا لگا کہ جیسے اسکو سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے۔۔
" کک۔۔کیا۔۔ کیا مطلب ہے۔۔میں کچھ سمجھا نہیں۔۔"؟
رشید احمد نے حیرانی سے کہا۔۔
" میں کہ رہا ہوں کہ میرے پاس تمہارے لیے ایک اوپشن ہے۔۔کہ جس سے تمہیں کوئی پیسہ نہیں دینا پڑے گا۔۔بلکہ تمہارا فائدہ ہی فائدہ ہے۔۔اور تمہیں اپنی بیٹی کو گروی بھی نہیں رکھنا پڑے گا۔۔
اگر تم مان جاتے ہو تو۔۔۔۔۔"
" مم۔۔۔مجھے تمہاری ہر بات۔۔ہر شرط منظور ہے۔۔تم جو کہو گے میں وہ کروں گا۔۔تم ایک بار کہ کر تو دیکھو۔۔"
رشید احمد کا بس نہیں چل رہا تھا کہ دلاور کی بات پہ فٹ سے عمل کر ڈالے۔۔جس سے اسکی پیسے واپس کرنے سے جان چھوٹ جائے۔۔
" اپنی بڑی بیٹی کا مجھ سے نکاح کرنا ہو گا تمہیں۔۔اسکے بدلے میں تمہیں اپنی ساری رقم معاف کردوں گا۔۔بولو منظور ہے۔۔"؟
" منظور ہے۔۔۔مجھے منظور ہے۔۔۔بلکل منظور ہے۔۔۔تم۔کہو تو بے شک آج ہی میں نکاح پڑھوا دیتا ہوں۔۔"
خوشی کے مارے رشید احمد کے منہ سے لفظ نہیں نکل رہے تھے۔۔اسکے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اسکی جان اتنے سستے میں چھوٹ جائے گی۔۔اور دلاور نکاح کی بات کرے گا۔۔۔
" نئیں۔۔۔اب میں اتنا بھی ظالم نہیں ہوں۔۔تمہاری بیٹی بھی ٹھیک نہیں ہے۔۔۔تو اس لیے ٹھیک ایک ہفتے بعد نکاح ہوگا۔۔اور ساتھ ہی رخصتی۔۔تب تک تمہاری بیٹی بھی ٹھیک ہو کر گھر آ جائے گی۔۔
مگر یہ سب تم مجھے اشٹام پیپر پہ لکھ کر دو گے۔۔آج سے تمہاری بیٹی تمہارے پاس میری امانت ہے۔۔بولو منظور ہے۔۔"؟
دلاور نے اشٹام پیپر رشید احمد کے سامنے رکھا۔۔
" بلکل۔۔۔منظور ہے۔۔جیسے تم چاہو۔۔"
رشید احمد اشٹام پیپر پہ سائن کرتے ہوئے بولا۔۔ایک بیٹے کی حثیت سے تو رشید احمد اپنے ماں باپ کی نظروں سے گرا ہی تھا۔۔مگر آج وہ ایک شوہر ایک باپ کے درجے سے بھی گر گیا تھا۔۔اسکی بے راہ روی۔۔اسکی جوئے کی لت۔۔اسکی بزدلی۔۔۔اسکی خود غرضی آج اسکو اس مقام پہ لے آئی تھی۔۔جہاں پہ ایک عورت یہ سوچنے پہ مجبور ہو جاتی ہے۔۔۔کہ ایسے شوہر کے ہونے سے وہ بیوہ بھلی۔۔۔ایک بیٹی یہ سوچنے پہ مجبور ہو جاتی ہے۔۔کہ کاش وہ یتیم ہوتی۔۔
رشید خوشی خوشی اشٹام پیپر پر سائن کر کے گنگناتا ہوا وہاں سے جا چکا تھا۔۔
دلاور کے باقی آدمی بھی دلاور کو پیشگی مبارکباد دے کر کمرے سے جا چکے تھے۔۔
بھولا اپنی جگہ پہ کھڑا دلاور کو گھورے جا رہا تھا۔۔
" تمہیں کیا ہوا ہے یار۔۔ایسے کیوں دیکھ رہے ہو۔۔
مبارک باد دینے کی بجائے کھڑے گھورے جا رہے ہو بس۔۔"
دلاور حیرانگی سے بھولے کی طرف دیکھ کر بولا۔۔
" دیکھ رہا ہوں کہ تم دلاور ہی ہو۔۔یا اسکے بھیس میں کوئی اور ہی ہو۔۔اور کس بات کی مبارک باد دوں۔۔تمہاری بے حسی کی۔۔یا تمہارے اس شاطرانہ کھیل کی۔۔"
بھولا دلاور کا خاص آدمی ہی نہیں تھا۔۔بلکہ اسکے دکھ درد کا ساتھی بھی تھا۔۔وہ آج تک ہمیشہ دلاور کا سایہ بن کر اسکے ساتھ رہا۔۔اسکی ہر بات بنا کوئی سوال کیے فرض سمجھ کر مانتا چلا گیا۔۔مگر آج اسے پتہ نہیں کیوں دلاور کا یہ قدم برا لگ رہا تھا۔۔سو چپ نہیں رہ سکا۔۔
" میں کوئی کھیل نہیں کھیل رہا۔۔تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ میں گھر بسانے جا رہا ہوں۔۔"
دلاور کو اس کا ایسے بولنا اچھا نہیں لگا تھا۔۔اس لیے نا چاہتے ہوئے بھی اس کا لہجہ سخت ہو گیا۔۔
" اور موہنی کا کیا۔۔مجھے لگتا تھا کہ تم شرمندہ ہو کر ایک دن اسکو اپنا لو گے۔۔مگر تم نے اسکے ساتھ جو کیا ہے۔۔بہت غلط کیا ہے۔۔"
" میں نے کبھی اس سے کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔۔نہ کوئی امید ہی کبھی دلائی تھی۔۔اس دن میں اپنے حواسوں میں نہیں تھا۔۔اس لیے بس وہ سب ہو گیا۔۔"
دلاور لاپرواہ سے انداز میں بولا۔۔
" یہ تم بھی بہت اچھے سے جانتے تھے اور وہاں آنے جانے والا ہر شخص بھی کہ وہ صرف تمہیں چاہتی تھی۔۔تمہارے علاوہ کسی کی طرف کبھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔۔ایسی غلیظ جگہ پر رہتے ہوئے بھی کبھی اس نے کسی کو خود کو چھونے تک نہیں دیا۔۔اگر تم نے اس کو کبھی کوئی امید نہیں دلائی۔۔تو کبھی نا امید بھی تو نہیں کیا تھا۔۔
میں تمہیں برسوں سے جانتا ہوں۔۔تم ایسے تو نہیں تھے۔۔تم تو عورت کو ہر روپ میں عزت دینے والے تھے۔۔پھر چاہے وہ کوئی طوائف ہی کیوں نہ ہو۔۔مگر تمہارا یہ کونسا روپ ہے میں سمجھ نہیں پا ریا۔۔
اور اب پھر سے ایک جیتے جاگتے وجود کا سودا کر رہے ہو۔۔"
بھولا لگاتار اسکے ضمیر پہ کچوکے لگا رہا تھا۔۔
" میں نے کوئی سودا نہیں کیا۔۔سودا اس کا بے غیرت باپ کر رہا تھا۔۔گروی رکھنے کی بات اس نے کی تھی۔۔میں نے تو سوچا تھا کہ اس سے اسکی بیٹی کا ہاتھ مانگوں گا۔۔اور ایسا کیا بھی۔۔
سوچو ذرا کہ اگر میری جگہ کوئی اور ہوتا۔۔اور یہی بات وہ اس سے کرتا تو جانتے ہو کیا ہوتا۔۔
چند دن اس کی بیٹی کے ساتھ کھیل کر کسی کوٹھے کی زینت بنا دیتا اس کو۔۔
اور رہی موہنی کی بات تو میں نے اس غلطی کا کفارہ ادا کرنے کے لیے اس سے کہا تھا کہ اس کو وہاں سے نکال کر کہیں اور رہائش کا بندوبست کر دوں گا۔۔جہاں وہ عزت سے رہ سکے۔۔
اور اگر وہ اس زندگی سے نا خوش ہوتی ناں تو میری بات مان لیتی۔۔"
دلاور نے بھولے کی بدگمانی دور کرنے کے لیے اور خود کو اپنی نظروں میں بھی درست ثابت کرنے کے لیے ہر بات کا جواز پیش کر دیا۔۔
" یعنی کوٹھے سے نکال کر اسکو پھر کوٹھا دینا چاہتے تھے تم۔۔
اکیلی تنہا عورت جس کے سر پہ کسی مرد کا مظبوط سائبان نہ ہو۔۔ایسی عورت اس معاشرے میں ہر مرد کے لیے تر نوالا ہوتی ہے۔۔ایک کھلے پڑے خزانے کی طرح۔۔ جسے مال غنیمت سمجھ کر ہر کوئی لوٹنے کو تیار بیٹھا ہوتا ہے۔۔اور ایک دن وہ پھر واپس وہیں پہنچا دی جاتی۔۔اچھا ہوا کہ اس نے تمہاری بات نہیں مانی۔۔
کفارہ ادا کرنا تھا تو اس کو اپنا نام دیتے۔۔وہ کوئی پیشہ ور طوائف نہیں تھی۔۔وہ عزت کی زندگی تمہارے ساتھ جینا چاہتی تھی۔۔تم نے اچھا نہیں کیا اسکے ساتھ۔۔اور نہ ہی اس لڑکی کے ساتھ ٹھیک کر رہے ہو۔۔"
صحیح غلط کی جنگ اگر ایک بار انسان کے اندر چھڑ جائے تو وہ بہت سے گناہ کرنے سے، ابلیس کے رستے پہ چلنے سے بچ جاتا ہے۔۔پھر وہ صرف رحمان کا بندہ بن کر رہتا ہے۔۔کیونکہ صحیح ، غلط میں۔۔ حق و باطل میں۔۔ جیت ہمیشہ صحیح کی اور حق کی ہوتی ہے۔۔اور بھولے کی باتوں سے دلاور کے اندر وہ جنگ چھڑ چکی تھی۔۔اب صرف ایک کاری وار پڑنے کی دیری تھی۔۔انسان کا سچا پکا دوست وہی ہوتا ہے۔۔جو آپکی کسی غلط بات پہ آپکی ناراضگی کی پرواہ کیے بنا آپکو اس بات سے روکتا ہے۔۔آپکی ہاں میں ہاں ملانے کی بجائے آپکی غلط بات پہ آپ سے کہتا ہے کہ آپ نے غلط کیا ہے۔۔اور دلاور خوش قسمت تھا کہ اسکے پاس بھولے جیسا دوست تھا۔۔
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png

رات کے 10 بج چکے تھے.۔ڈیفینس میں واقع اس کوٹھی پلس کوٹھے کے باہر روڈ پر گاڑیوں کی ایک لمبی لائن لگی ہوئی تھی۔۔ان میں سے کچھ کے مالک ناچ گانے کے شوقین۔۔کہ جیسے ہی انکی نظروں کی پیاس بجھتی اور لچکیلے تھرکتے بدن ساکت ہوتے۔۔
تو تب انکو اپنا گھربیاد آ جاتا۔۔پھر اپنے اپنے گھروں کی راہ لیتے۔۔
اور کچھ ایسے جو یا تو اپنی بیویوں کے ستائے ہوتے۔۔یا پھر آوارہ مزاج جو ہر روز کھلتے گلابوں کا رس چوسنے کے عادی ہوتے۔۔سیٹھ شجاع بھی ایک آوارہ مزاج انسان تھا۔۔جس پھول پہ ایک بار اسکی نگاہ ٹک جاتی۔۔پھر اسکو وہ ہر حال میں چاہیے ہوتا تھا۔۔چاہے بے رنگ اور مسلا ہوا ہی کیوں نہ ہو۔۔
موہنی پہ بھی کچھ عرصے سے اسکی نظر ٹکی ہوئی تھی۔۔مگر موہنی کے ہوشربا حسن اور اداؤں کا ایسا گھائل ہوا تھا کہ وہ اس کے ساتھ کسی قسم۔کی کوئی زور زبردستی نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔وہ موہنی کے حسن کو گھونٹ گھونٹ کر کے اسکی مرضی سے پینا چاہتا تھا۔۔
اور اسی انتظار میں اتنا عرصہ بیت گیا۔۔مگر جب اسکو پتہ چلا کہ دلاور اس سے پہلے ہی اس پھول کی خوشبو سونگھ چکا ہے۔۔تو اس کو اب نہ موہنی کی مرضی کی پرواہ رہی تھی۔۔نہ اسکی طبیعت کی خرابی کی۔۔
اس سے پہلے بھی دو بار جب سیٹھ شجاع ہر قیمت پہ موہنی کو حاصل کرنا چاہ رہا تھا۔۔یہ نیلم بائی ہی جانتی تھی کہ کس طرح سے منت ترلوں سے سمجھا بجھا کر وقت کو ٹالا تھا۔۔سیھ شجاع کو ہر صورت موہنی چاہیے تھی۔۔چاہے زندہ لاش ہی کیوں نہ ہو۔۔
سیٹھ شجاع بڑے کروفر سے بیٹھا۔۔ کمرۂ خاص میں گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے۔۔سیگرٹ پہ سیگریٹ پھونکتا موہنی کا انتظار کر رہا تھا۔۔
گلشن اور جہاں آرا موہنی کی تیاری کو آخری ٹچ دے رہیں تھیں۔۔جب نیلم بائی ہاتھ میں ایک بڑا سا ڈبہ پکڑے داخل ہوئی۔۔مگر موہنی کی طرف دیکھ کر اپنا سر پیٹ کر رہ گئ۔۔
" ی۔۔۔یہ تم نے کیا پہن لیا ہے۔۔اتنا سادہ سوٹ۔۔تم کسی مرگ میں جا رہی ہو۔۔جو سفید لباس پہن لیا ہے۔۔
اور تم لوگوں کی عقل گھاس چرنے گئ ہے کیا۔۔تم لوگ سمجھا نہیں سکتی تھیں اسے۔۔"
لونگ سفید فراک پہنے۔۔جس کے گھیرے اور گلے پر فیروزی کلر کا خوبصورت سا ایمبرائیڈری ورک تھا۔۔نیلم بائی کو موہنی کو ان کپڑوں میں دیکھ کر جھٹکا لگا تھا۔۔اس لیے غصے اور تلخی سے پہلے موہنی اور پھر گلشن اور جہاں آرا سے مخاطب ہوئی۔۔جنہوں نے موہنی کو تیار کیا تھا۔۔
" اس نے آپکی آج تک سنی ہے کبھی۔۔جو یہ ہماری سنتی۔۔ہم نے کہا تھا۔۔منع بھی کیا تھا۔۔مگر یہ کسی کی سنے تب ناں۔۔اپنی مرضی کر کے دیکھ لی۔۔کیسی چوٹ پڑی ہے۔۔مگر اکڑ پھر بھی نہیں گئ۔۔نخرے ایسے دکھاتی ہے جیسے کوئی بڑی شریف زادی ہے۔۔"
گلشن نے انتہائی غصے اور نفرت سے کہا۔۔اسے موہنی پہ شدید غصہ آتا تھا۔۔جب جب بھی وہ کوٹھے کے اصولوں کے الٹ چلتی۔۔اور نیلم بائی اسکی ہر بات پہ چپ سادھ لیتی۔۔تو جلن اور حسد میں اسکی نفرت موہنی سے بڑھتی جاتی۔۔موہنی کی من موہنی صورت کے آگے اس کا حسن ماند پڑ جاتا تھا۔۔اس لیے جب جہاں موقع ملتا۔۔وہ اس نفرت کا اظہار کرنے سے ذرا بھی" نہ جھجکتی۔۔
" اپنی زبان کو لگام دو گلشن۔۔آج کل بہت بولنے لگی ہو تم۔۔کس کو کیا کہنا ہے۔۔کس سے کیا کام لینا ہے۔۔یہ میرا کام ہے۔۔دوبارہ کوئی فضول گوئی نہ سنوں میں۔۔ہر کوئی تمہاری طرح بولنے لگا۔۔یا اپنی رائے دینے لگا۔۔تو چلا لیا میں نے یہ کوٹھا۔۔"
نیلم بائی کو گلشن کا ایسے بولنا بہت برا لگا تھا۔۔تبھی اسکو ڈانٹ دیا۔۔
" موہنی سیٹھ شجاع نے تمہارے لیے یہ ڈریس بھیجا ہے۔۔وہ چاہتا ہے کہ تم یہی پہنو۔۔"
نیلم بائی نے موہنی کی طرف وہ بڑا سا ڈبہ بڑھاتے ہوئے کہا۔۔
" ی۔۔۔یہہہہ۔۔۔میں ہرگز نہیں پہنوں گی یہ۔۔"
موہنی نے ڈبے سے جب وہ ڈریس نکال کر دیکھا تو اسے ایک زور کا جھٹکا لگا۔۔لونگ نیٹ کی بیک لیس اور وی شیپ کے ڈیپ گلے کی سلیو لیس میرون کلر کی میکسی اس کے ہوش اڑا گئ تھی۔۔اس نے کوٹھے پر رہنے کے باوجود ایسا نیم برہنہ ڈریس آج تک زیب تن نہیں کیا تھا۔۔
اس نے وہ ڈریس فوراً بیڈ پہ ایسے اچھالا۔۔جیسے اسے ڈر ہو کہ اگر تھوڑی دیر اور پکڑے رکھا تو اسے کوئی بیماری لگ جائے گی۔۔ڈریس اور موہنی کے چہرے پر ہوائیاں اڑتی دیکھ کر گلشن اور جہاں آرا کی دبی دبی معنی خیز مسکراہٹ پر موہنی نے خونخوار نظروں سے انکی طرف دیکھا۔۔
"دماغ خراب ہے تمہارا۔۔۔تم یہی پہنو گی۔۔سنا تم نے۔۔اور خبردار اگر کوئی ڈرامہ کیا تو۔۔"
نیلم بائی نے بیڈ سے وہ ڈریس اٹھایا۔۔اور سختی سے موہنی کا ہاتھ پکڑ کر اسکے ہاتھ پہ دوبارہ وہ ڈریس رکھ کر غصے سے بولی۔۔
" میں نے کہا ناں کہ میں نہیں پہنوں گی۔۔"
موہنی نے بھی ویسے ہی غصے سے جواب دیا۔۔
" میں بھی دیکھتی ہوں تم کیسے نہیں پہنتی۔۔بہت برداشت کر لی تمہاری من مانی۔۔
گلشن۔۔۔جہاں آرا تم لوگ ذرا باہر جاؤ.."
نیلم بائی موہنی سے ایسے مخاطب ہوئی جیسے وہ آج اسکا برا حال کردے گی۔۔گلشن اور جہاں آرا موہنی کی طرف مسکرا کر دیکھتی ہوئیں باہر نکل گئیں۔۔
" موہنی کیا چاہتی ہو تم۔۔یہاں رہنا یا یہاں سے جانا۔۔"؟
" کیا مطلب میں سمجھی نہیں آپکی بات۔۔"
موہنی نے حیرانگی سے نیلم بائی کی طرف دیکھ کر پوچھا۔۔
" میں نے تم سے کہا بھی تھا کہ مجھ پہ بھروسہ رکھو۔۔اور جیسا میں کہوں۔۔ویسا کرتی جاؤ۔۔مگر لگتا یے تمہیں مجھ پہ بھروسہ نہیں ہے۔۔"
نہیں خالہ ایسی بات نہیں ہے۔۔یہ ڈریس پہننے سے سیٹھ شجاع کو لگے گا کہ میں خود کو اسے سونپنے کو راضی ہوں۔۔۔۔۔ اور میں۔۔۔۔۔"
" اور یہی میں چاہتی ہوں کہ تم اسکو ایسا گمان ہونے دو۔۔"
نیلم بائی موہنی کی بات بیچ میں ہی ٹوک کر بولی۔۔
" دیکھو موہنی سیٹھ شجاع کو یہی لگنا چاہیے کہ دلاور کی حرکت کی وجہ سے تمہارا دل بہت دکھا ہے۔۔اور تم سے غلطی ہوئی جو تم نے سیٹھ شجاع کو ٹھکرایا۔۔اور اب سے تم صرف اسکی ہو۔۔
اگر سیٹھ شجاع کو تم پہ یقین آ گیا تو پھر یقین رکھو کہ تم اسکو جیسے چاہو اپنی انگلیوں پہ نچا سکتی ہو۔۔اور اس کا تم پہ یقین ہی تمہارا اس سے پیچھا چھڑانے میں مدد کرے گا۔۔
اور جیسے ہی اس کو تم پہ یقین آ جائے گا۔۔پھر ہم اپنا اگلا قدم اٹھائیں گے۔۔سمجھ رہی ہو میری بات یا نہیں۔۔"
نیلم بائی موہنی کا ہاتھ پکڑ کر اہنے ساتھ موہنی کو بھی بیڈ پہ بٹھاتی ہوئی بولی۔۔
" جی سمجھ گئ۔۔"
" چلو ٹھیک ہے۔۔تم جلدی سے یہ ڈریس پہن لو اب اور جلدی سے تیار ہو جاؤ۔۔اور ایسے ظاہر کرو جیسے اب تمہیں کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔ ٹھیک ہے۔۔"
" جی ٹھیک ہے۔۔"
" موہنیییی۔۔۔۔۔۔افففف کیا قیامت لگ رہی ہو۔۔۔سچ میں نظر نہیں ٹھہر رہی۔۔۔"
کچھ دیر بعد نیلم بائی ، گلشن اور جہاں آرا کمرے میں آئیں تو اسکو میرون میکسی میں دیکھ کر جہاں آرا آنکھوں میں ستائش لیے کھلے دل سے بولی۔۔جبکہ گلشن طنزیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھنے لگی۔۔جیسے کہ رہی ہو کہ آ ہی گئ ناں اپنی اوقات پہ۔۔
" خانم ہم نے آپکی بات مان لی ہے۔۔مگر یہ بہت زیادہ ہے۔۔ایسے ہم ریلیکس ہو کے محفل نہیں کر سکیں گے۔۔
موہنی اپنے ڈریس کے ڈیپ گلے اور بیک لیس کو کسی طرح ٹھیک کرنے کے چکر میں ہلکان ہوتی ہوئی بولی۔۔وہ آگے سے گلے کو کور کرنے کی کوشش کرتی تو بیک اور زیادہ نمایاں ہو جاتی۔۔بیک کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتی تو اس کا سینہ مزید نمایاں ہو جاتا۔۔
" لگتا ہے اس کو پتہ نہیں ہے۔۔کہ آج سیٹھ شجاع اس کا پوسٹ مارٹم کرے گا۔۔محفل کا تو بس بہانہ ہے۔۔چلو اچھا ہے۔۔اچانک لگنے والے جھٹکے کا مزا ہی اور ہوگا۔۔"
گلشن جہاں آرا کے کان میں کھسر پھسر کرتی مسکرا کر بولی۔۔
" گلشن تم کھڑی کیا وہاں کانا پھوکی کر رہی ہو۔۔ جلدی سے قینچی، میرون کلر کی نلکی اور سوئی لے کر آؤ۔۔جلدی کرو۔۔"
نیلم بائی موہنی کا بغور جائزہ لے کر گلشن سے بولی۔۔
نیلم بائی نے قینچی کے ساتھ ڈریس کے گھیرے کے نیچے سے کر کے ایک ترتیب کے ساتھ تھوڑا سا کپڑا کاٹا۔۔اور پھر بڑی پھرتی اور مہارت کے ساتھ اسکو گلے کے ساتھ دھاگے سے سلائی کر کے ایک ڈیزائیننگ شیپ دے دی۔۔ایسا ہی اس نے بیک لیس کے ساتھ بھی کیا۔۔پھر ایک لمبی پٹی کا ایک سرا گلے سے لا کر بازو کے نیچے سے لاتے دوسرے سرے سے پن اپ کر دیا۔۔رہی سہی کسر اسکے ریشم کی تاروں جیسے بالوں نے پوری کردی۔۔جن کو کھلا چھوڑ کر آدھے آگے اور آدھے کمر پہ چھوڑ دئیے۔۔ گلا اور کمر مکمل طور پہ کور ہو چکے تھے۔۔
پٹی کو اس انداز میں سیٹ کیا گیا تھا جیسے سکول کی بچیاں کھیلتے وقت اپنی سکول کی پٹی کمر کے ساتھ باندھ لیتی ہیں۔۔
" واؤ زبردست۔۔"
موہنی نے ایک نظر خود کو آئینے میں دیکھا۔۔اور پھر بے اختیار نیلم بائی کے گلے لگتی ہوئی بولی۔۔
" ہو لے جتنا خوش ہونا ہے۔۔ایک بار کمرے میں جائے ذرا۔۔پھر اسکی اس دن کی طرح اجڑی شکل دیکھنے والی ہوگی۔۔پھر ٹوٹے گی اسکی اکڑ۔۔اور بنے گی پھر یہ موہنی طوائف۔۔"
گلشن دل ہی دل میں بولتی۔۔موہنی کی طرف مسکرا مسکرا کر دیکھتی رہی۔۔
" میرا خیال ہے اب چلنا چاہیے سیٹھ شجاع کافی دیر سے بیٹھا انتظار کر رہا ہے۔۔"

" معزرت چاہتی ہوں سیٹھ جی۔۔آپکو اتنا انتظار کرنا پڑا۔۔مگر آپکی پسند کے مطابق تیاری کرنے میں تھوڑی دیر لگ گئ۔۔آ رہی ہے موہنی۔۔بس دو منٹ اور۔۔"
نیلم بائی کمرۂ خاص میں داخل ہوتے ہوئے سیٹھ شجاع سے بولی۔۔وہ جان بوجھ بوجھ کر موہنی کو ساتھ لے کر نہیں آئی تھی۔۔تا کہ سیٹھ شجاع کے شوق و انتظار کو اور بڑھا سکے۔۔
" ہمممممم۔۔۔۔کوئی بات نہیں۔۔ جہاں برسوں انتظار کیا وہاں چند پل اور سہی۔۔"
سیٹھ شجاع یہ کہ کر بے چینی سے کمرے میں چکر کاٹنے لگا۔۔چند منٹ بعد موہنی کمرۂ خاص میں داخل ہوئی تو سیٹھ شجاع کی نظر پلٹنا بھول گئ۔۔وہ ٹکٹکی باندھے مبہوت سا ہو کر موہنی کی طرف دیکھنے لگا۔۔
موہنی کمرے کے بیچوں بیچ بنے ایک مخصوص گول دائرے میں آ کر کھڑی ہو گئ۔۔کمرے کی سائیڈ دیوار کے پاس نیچے زمین پر سازندوں کے بیٹھنے کے لیے سفید چادر بچھائی گئ تھی۔۔موہنی کے پیچھے پیچھے ہی سازندے بھی کمرے میں داخل ہوئے۔۔اور اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ کر اپنے اپنے ساز سنبھال لیے۔۔
سیٹھ ابھی تک کمرے کے بیچ میں موہنی پہ نظریں جمائے ساکت کھڑا تھا۔۔
"سیٹھ جی شروع کریں کیا۔۔"
نیلم بائی نے اجازت طلب کی۔۔مگر سیٹھ شجاع نے کوئی جواب نہ دیا۔۔
" سیٹھ جی اگر آپکی اجازت ہو تو شروع کریں۔۔"
اب کی بار نیلم بائی نے کافی بلند آواز میں کہا۔۔
" ہا۔۔۔ہاں۔۔۔۔بلکل۔۔۔بلکل شروع کریں جی۔۔"
سیٹھ شجاع ہڑبڑا کر ہوش کی دنیا میں واپس آ کر بولا۔۔اور جا کر بیڈ پہ پڑے تکیے پہ کہنی ٹکائے موہنی پہ نظریں گڑائے ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر بیٹھ گیا۔۔
سازندوں نے ساز بجانے شروع کیے۔۔تو موہنی پیروں کی انگلیوں پہ اپنا پورا وزن ڈال کر ایک مخصوص انداز سے کمرے میں بنے گول دائرے کے اندر گول گول گھومنے لگی۔۔پھر اسی وقت کمرے کی لائٹ آف ہوئی۔۔اور صرف گول دائرے پہ ہی روشنی پڑنے لگی۔۔جہاں موہنی رقص کر رہی تھی۔۔لائٹ آف ہوتے ہی موہنی کی آواز گونجی۔۔

" چاہا تھا میں نے۔۔سوچا تھا میں نے۔۔
کیا کیا تھے ارماں دلِ ناداں کے۔۔
ان آنکھوں میں تھی اک رات سجی۔۔۔
ہاتھوں میں کبھی چوڑی بجی۔۔
آنسو لڑیوں کی صورت میں موہنی کے گالوں پہ بہ رہے تھے۔۔اسکی مدہوش کن آواز میں اسکے جزبات میں ڈوبے دل سے نکلتے ہر ہر لفظ نے وہاں بیٹھے ہر شخص پر سکتہ طاری کر دیا تھا۔۔سازندے اپنا ساز بجانا بار بار بھول رہے تھے۔۔
اسی وقت گلشن بائی کے ذہن میں ایک خیال آتے ہی ہونٹوں پر بڑی معنی خیز مسکراہٹ در آئی۔۔اور جلدی سے اپنا موبائل نکال کر موہنی کی ویڈیو بنانے لگی۔۔
پر آنکھ کھلی تو آیا نظر۔۔۔
نہ رات سجی نہ چوڑی بجی۔۔۔
میرا ٹوٹا تھا دل اس کی جھنکار تھی۔۔۔
سارا وہ رنگ تھا میرے خون دل کا۔۔۔
یہ تو ہے رونا دل کا۔۔۔کاہے کا ترانہ۔۔۔۔
چلو جو بھی ہوا۔۔وہ خوب ہوا۔۔۔
اب ہر کوئی محبوب ہوا۔۔۔
ہے سب کے لیے یہ رات میری۔۔۔
اب تو ہے یہی اوقات میری۔۔۔
ہنس کے بھیگی پلک جھپکانا ہے۔۔۔
سونی بانہیں ادا سے لہرانا ہے۔۔۔
غم کھا کے آنسو پی کے۔۔۔۔
محفل میں اب گانا ہے۔۔۔۔۔"
گانا ختم ہو چکا تھا۔۔کمرے میں گہرا۔سناٹا طاری تھا۔۔لائٹس آن کر دی گئ تھیں۔۔گول دائرے کے بیچوں بیچ موہنی گھٹنوں میں سر دئیے سسک رہی تھی۔۔
جہاں آرا نمدیدہ آنکھوں سے موہنی کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔نہ جانے کیوں اس کا دل بھی آج موہنی کے ساتھ رونے کو چاہ رہا تھا۔۔
" موہنی یہ کیا کر رہی ہو۔۔تمہاری ذرا سی کمزوری بھی تمہیں لے ڈوبے گی۔۔اور میں تمہاری پھر کوئی مدد نہیں کر سکوں گی۔۔اب تمہاری عقل و ذہانت کا امتحان شروع ہوگا۔۔ایسے تو تم لڑنے سے پہلے ہی ہار جاؤ گی۔۔"
نیلم بائی جلدی سے موہنی کے پاس آ کر اسکو اٹھانے کے بہانے اسکے کان میں بولی۔۔
" اب ہم تنہائی چاہتے ہیں نیلم بائی۔۔اور کسی قسم کی کوئی ڈسٹربنس نہیں۔۔۔"
سیٹھ شجاع ایک گہری نگاہ موہنی پہ ڈال کر کھڑے ہوتے ہوئے بولا۔۔
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png

شام کے 7 بج چکے تھے۔۔ہاسپٹل میں لوگوں کا رش اور شور کافی کم ہو چکا تھا۔۔سبھی لوگ اپنے اپنے پیشنٹ کے پاس کمرہ بند تھے۔۔
اجالا کا اوپریشن ہو چکا تھا۔۔۔اسکو روم میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔۔مگر فلحال اسکے روم میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔۔دیوار میں نصب شیشے سے اسکو دیکھا جا سکتا تھا بس۔۔
اس وقت مہرالنساء سمیت چاروں بچیاں اور صارم شاہ بھی وہاں کھڑے شیشے کے پار اجالا کو دیکھ رہے تھے۔۔جو ابھی بھی کتنی ہی مختلف قسم کی نالیوں میں جکڑی ہوئی تھی۔۔
" بیٹا اجالا کو ہوش کب آئے گا۔۔کیا کہا ہے ڈاکٹرز نے۔۔"؟
مہرالنساء نے اجالا کی طرف دیکھ کر بھرائی ہوئی آواز میں صارم شاہ سے پوچھا۔۔
" خالہ جان ڈکڑرز کا کہنا ہے کہ 24 گھنٹے یا اس سے کچھ زیادہ ٹائم لگ سکتا ہے اجالا کو ہوش آنے میں۔۔اور یہ وقت بہت کریٹیکل ہے۔۔آپ سب دعا کریں۔۔"
" کیا مطلب ہے تمہاری بات کا۔۔کیا اوپریشن ٹھیک نہیں ہوا ہے۔۔تم ایسے کیوں کہ رہے ہو۔۔۔"
مہرالنساء نے صارم شاہ کی بات پر پریشان ہو کر اس سے پوچھا۔۔۔باقی سب بھی اسکی طرف دیکھنے لگے۔۔
" نہیں۔۔۔ایسا کچھ نہیں ہے۔۔اوپریشن بلکل ٹھیک ہوا ہے۔۔آپ دعا کریں کہ الّٰلہ اسکو جلد صحت یاب کرے۔۔"
صارم شاہ نے مہرالنساء کے ساتھ باقی سب کو بھی تسلی دیتے کہا۔۔
" آمین۔..آمین۔۔"
سبھی نے یک زبان ہو کر کہا۔۔
" میرا خیال ہے کہ ہمیں اب چلنا چاہیے۔۔اجالا کو ہوش تو اب صبح ہی آئے گا اس لیے یہاں رکنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔۔"
احتشام شاہ نے فجر کی طرف دیکھ کر کہا۔۔
" ایسا کریں خالہ کہ آپ سب گھر چلے جائیں۔۔میں یہاں رکتا ہوں۔۔"
صارم شاہ نے سب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مہرالنساء سے کہا۔۔
" نہیں بیٹے میں نہیں جاؤں گی۔۔میں اپنی بچی کے پاس ہی رکوں گی۔۔تم دو دن سے یہیں پر ہو۔۔ایسا کرو کہ تم اور باقی سب گھر چلے جاؤ۔۔"
مہرالنساء نے صاف انکار کیا۔۔
" ہم بھی یہیں امی کے پاس رکیں گی۔۔ہمیں نہیں جانا۔۔امی کو اکیلا چھوڑنا مناسب نہیں ہے۔۔"
عائلہ اور عینا نے بھی انکار کیا۔۔
" بات تو آپکی ٹھیک ہے۔۔مگر یہاں اتنے لوگوں کا رکنا الاؤ نہیں ہے۔۔اور بیڈ بھی بس ایک ہی ہے۔۔اتنے لوگ ایڈجسٹ نہیں کر سکیں گے۔۔اور ایمن بھی خواہ مخواہ ڈسٹرب ہو گی۔۔
اسی لیے میں کہ رہا ہوں کہ آپ سب جائیں میں رک جاتا ہوں۔۔کسی میل کا ہونا بھی ضروری ہے یہاں۔۔"
صارم شاہ نے پھر ایک کوشش کرتے ہوئے ایمن کی طرف اشارہ کیا جو گہری نیند میں جا چکی تھی۔۔
" ایسا کریں کہ خالہ اور عائلہ رک جائیں ادھر۔۔باقی سب لوگ گھر چلیں۔۔اور صبح آ جائیں بے شک۔۔میں باہر انتظار کر رہا ہوں۔۔آ جائیں سب۔۔"
احتشام شاہ نے دو ٹوک انداز میں سب کی طرف دیکھ کر کہا۔۔اور ایمن کو اپنے بازوؤں میں اٹھانے کو جھکا۔۔
" پلیز۔۔۔رہنے دیں آپ۔۔ہم نہیں چاہتے کہ آپ پھر سے ایک نئی مصیبت کا شکار ہوں۔۔یہ ہماری ذمہ داری ہے ہم اٹھا لیں گے۔۔"
عینا نے آگے کو ہو کر جلدی سے احتشام شاہ کو اسکی بات جتاتے ہوئے منع کیا۔۔مگر احتشام شاہ سنی ان سنی کر کے ایمن کو اپنے بازوؤں میں اٹھا کر دروازے سے باہر نکل گیا۔۔
عینا کے انداز اور لہجے پر سب حیران ہو کر اسکی طرف دیکھنے لگے۔۔عینا کو احتشام شاہ کے انداز پہ شدید تپ چڑھی تھی۔۔مگر فلوقت وہ چپ کر گئ۔۔
" امی جان اپنا خیال رکھیے گا۔۔ہم چلتے ہیں پھر۔۔اور پریشان مت ہوئیے گا۔۔الّٰلہ نے چاہا تو اجالا بہت جلد پہلے کی طرح اٹھ کر بھاگے دوڑے گی۔۔عائلہ خیال رکھنا اپنا بھی اور امی کا بھی۔۔میں صبح جلد آنے کی کوشش کروں گی۔۔"
عینا نے اپنا حجاب درست کیا۔۔اور مہرانساء کے گلے لگ کر انکو تسلی دی۔۔پھر عائلہ سے گلے مل کر سب کے ساتھ باہر نکل گئ۔۔
احتشام شاہ ایمن کو اپنی گاڑی کے پچھلی سیٹ پہ لٹا کر باہر کھڑا فجر اور عینا کا انتظار کر رہا تھا۔۔عینا احتشام شاہ کے ساتھ اسکی گاڑی میں بیٹھنا نہیں چاہتی تھی۔۔مگر ایمن کو احتشام کی گاڑی میں دیکھ کر شش و پنج میں پڑ گئ تھی۔۔اور نہ صارم کے ساتھ اکیلی بیٹھنا مناسب لگ رہا تھا۔۔
" عینا ادھر آ جاؤ۔۔ایمن کو وہاں سکون سے لیٹا رہنے دو۔۔ہم صارم بھائی کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں۔۔"
فجر نے صارم شاہ کی گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر عینا سے ادھر آنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔اس کی بات پہ عینا نے سکون کا سانس لیا تھا۔۔اور دونوں شاہ کے ساتھ جا کر بیٹھ گئیں۔۔

گھر پہنچتے پہنچتے ان لوگوں کو رات کے 10 بج چکے تھے۔۔سبھی لوگ اس وقت سونے کے لیے اپنے اپنے کمروں میں چلے جاتے تھے۔۔مگر آج انکے انتظار میں سبھی لوگ ابھی تک جاگ رہے تھے۔۔
" اسلام علیکم امی جان۔۔۔۔
اسلام علیکم آنٹی۔۔"
فجر، عینا، احتشام، اور صارم شاہ نے سبھی کو اکٹھا سلام کیا۔۔
" وعلیکم اسلام۔۔۔وعلیکم اسلام۔۔۔"
جواباً باقی سب نے بھی انکو اکٹھا جواب دیا۔۔
احتشام شاہ ایمن کو اس کے کمرے میں لٹانے چلا گیا۔۔اور صارم شاہ سب سے معزرت کرتا فریش ہونے چلا گیا۔۔
" آ جاؤ ہم ادھر امی جان کے پاس بیٹھتی ہیں۔۔اور تمہارا تعارف بھی کرواتی ہوں خالہ سے۔۔"
فجر عینا کا ہاتھ پکڑ کر اسکو تقریباً کھینچتے ہوئے ہائمہ خاتون کے پاس جا کر بیٹھ گئ۔۔
" اچھا خالہ آپ سب گپ شپ کریں۔۔ہم ذرا صارم کو دیکھ لیں۔۔دو دن سے اسکی شکل دیکھنے کو نہیں ملی۔۔"
شہریار کی نظریں بار بار عینا پر بھٹک رہی تھیں۔جو کہ شرجیل نے با خوبی نوٹ کی تھیں۔۔اور اسکی یہ حرکت اسے اچھی نہیں لگ رہی تھی۔۔
شرجیل نے اٹھتے ہوئے کہا۔۔جس پہ مجبوراً شہریار کو بھی اٹھنا پڑا کیونکہ اب خواتین کے بیچ میں اسکے بیٹھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔۔
" ہمممم۔۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے اثبات میں سر ہلایا۔۔
" خالہ۔۔رامین۔۔ یہ عینا ہے۔۔میری بیسٹی عائلہ کی چھوٹی سس۔۔
اور عینا یہ میری آئمہ خالہ ہے۔۔ماما سے چھوٹی ہیں یہ۔۔اور جو ابھی ابھی اٹھ کر گئے وہ انکے بیٹے ہیں۔۔اور یہ انکی بیٹی رامین۔۔
فجر سب کا ایک دوسرے سے تعارف کروایا۔۔
" اسلام علیکم۔۔کیسی ہیں آپ۔۔اور آپکی امی اور سس۔۔"
رامین نے دوستانہ انداز میں اسکی طرف ہاتھ بڑھاتے پوچھا۔۔۔
" ٹھیک۔۔"
عینا نے یک لفظی جواب دیا۔۔
مَاشآءَالّٰلہ۔۔۔بہت پیاری بچیاں ہیں۔۔صبح ملاقات ہوئی تھی سب سے مگر تعارف اب ہوا ہے۔۔
" جی وہ امی جان نے آپکو بتایا ہوگا کہ اجالا کا اوپریشن تھا آج۔۔ تو بس اسی وجہ سے بھاگم بھاگ ہمیں نکلنا پڑا۔۔"
فجر نے صبح ٹھیک سے انکے نہ ملنے کی ریزن پیش کی۔۔
" اب کیا حال ہے بیٹا اجالا کا۔۔سب ٹھیک ہے۔۔"؟
ہائمہ خاتون نے انتہائی شفقت اور محبت سے عینا کو اپنے ساتھ لگا کر پوچھا۔۔
" جی پتہ نہیں۔۔وہ بے ہوش تھی ابھی۔۔ڈاکٹر کہ رہے کہ 24 گھنٹوں بعد ہوش آئے گا تو تبھی کچھ کنفرم کہ سکتے ہیں۔۔"
ہائمہ خاتون کے اتنی شفقت اور محبت سے ہوچھنے پر بات کرتے کرتے عینا کی آوز بھرا گئ تھی۔۔اور نہ چاہتے ہوئے بھی ایک آنسو اسکے گال پہ لڑھک آیا تھا۔۔اس سے مزید بولا نہیں گیا تو سختی سے اپنے ہونٹ بھینچ کر چپ کر گئ۔۔
اور یہ منظر وہاں سے گزر کر کچن کی طرف جاتے احتشام شاہ نے بھی دیکھا۔۔نہ جانے کیوں ایک پل کو اس کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔بے اختیار اسکے دل میں خواہش پیدا ہوئی تھی کہ اسکے آنسو چن لے۔۔
" امی جان ڈاکٹرز کہ تو رہے ہیں کہ اوپریشن کامیاب ہوا ہے۔۔مگر کتنا کامیاب رہا ہے یہ اجالا کے ہوش میں آنے کے بعد ہی پتہ چلے گا۔۔کیونکہ اس اوپریشن میں اکثر پیشنٹ کومہ میں چلے جاتے ہیں۔۔سر پہ چوٹ کی وجہ سے ساری بلیڈنگ انٹرنل ہوئی ہے۔۔اور برین کو اندرونی طور پہ بھی ضرب لگی ہے۔۔جس سے نہ صرف برین میں سوجن ہوئی تھی۔۔بلکہ کچھ سیال اسکے اندر بھی چلا گیا تھا۔۔آپ سب دعا کریں کہ اسکو ہوش آ جائے۔۔"
فجر نے باقی کی ساری تفصیل بھی گوش گزار کی۔۔
" یا الّٰلہ رحم"
فجر کی بات سن کر ہائمہ اور آئمہ خاتون کے منہ سے بے اختیار ایک ساتھ نکلا۔۔
" ی۔۔یہ سب۔۔مم۔۔۔ میری وجہ سے ہوا ہے۔۔اگر۔۔اس۔۔ اسکو کچھ ہو گیا تو میں۔۔خ۔۔ خود کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔"
عینا جو کب سے ضبط کیے بیٹھی فجر کی بات سن رہی تھی۔۔اپنا ضبط کھوتے ہوئے ہچکیاں لے لے کر روتے ہوئے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بولی۔۔اور اپنی جگہ سے روتی ہوئی تیزی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں جاتے ہوئے سامنے سے آتے احتشام شاہ کے ساتھ بری طرح سے ٹکرائی۔۔اور خود کو سنبھالتے سنبھالتے بھی نیچے گر پڑی۔۔
احتشام شاہ کھانے کی ٹرے ہاتھ میں پکڑے اپنے روم میں جا رہا تھا۔۔مگر عینا کے ٹکرانے سے سارا کھانا اسکے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گری عینا کے اوپر جا پڑا۔۔
عینا کا حلیہ عجیب منظر پیش کرنے لگا۔۔قورمہ سے بھرا ڈونگہ کچھ اسکے سر پہ۔۔کچھ چہرے پہ اور کچھ کپڑوں پہ آ گرا تھا۔۔پانی کا جگ الٹنے سے کپڑے الگ بھیگ گئے تھے۔۔
اسکے چہرے پر نظر پڑی تو خود کو روکتے روکتے بھی احتشام شاہ کا بلند و بانگ قہقہ پورے لاؤنج میں گونجنے لگا۔۔
لاؤنج میں بیٹھے سبھی لوگ احتشام شاہ پہ پہلے حیرانگی سے اور پھر افسوس بھری نظر ڈال کر بھاگ کر عینا کو اٹھانے آگے بڑھے۔۔
" احتشام۔۔۔یہ کیا بچپنا ہے۔۔ایک تو بچی کو سالن میں نہلا دیا۔۔اوپر سے آپ ہنس رہے ہو۔۔ہنسی تو ان سب کو بھی آئی تھی مگر فوراً خود کو سنبھال گئے تھے۔۔
" ایم سو سوری۔۔پلیز۔۔"
اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی احتشام شاہ نے معزرت کی تھی۔۔
" سوری بیٹا۔۔مگر دیکھا جائے تو قصور اس کا بھی نہیں ہے۔۔"
ہائمہ خاتون نے عینا کو اٹھاتے ہوئے پہلے احتشام کو سرزنش کی۔۔پھر عینا سے معزرت کی۔۔
عینا کا دل تو چاہ رہا تھا کہ ہاسپٹل کا سارا غصہ بھی ابھی اتار دے۔۔اور خوب کھری کھری سنائے۔۔مگر کچھ سب کا لحاظ کرتے ہوئے اور کچھ انہی کے گھر میں پناہ گزیں ہونے کی وجہ سے خون کے گھونٹ پی کر رہ گئ۔۔
" فجر بیٹا جاؤ بہن کے ساتھ اور یہ واش کرنے میں اسکی ہیلپ کرو۔۔اور آج آپ عینا کے روم میں ہی سو جانا۔۔"
" جی۔۔"
فجر یک لفظی جواب دے کر عینا کے ساتھ اسکے روم کی طرف چل پڑی۔۔
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png

ماضی۔۔۔!
فاطمہ دلاور سے مل کر جب سے گھر واپس آئی تھی۔۔ہر وقت رضوانہ خاتون سے چھپ چھپ کر روتی رہتی۔۔اس نے اپنی ماں کو آکر یہی کہا تھا کہ دلاور بلکل ٹھیک ہے۔۔اور یہی بات اس نے حمید صاحب سے بولنے کو کہا تھا۔۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ سچ جان کر اسکی ماں پریشان ہوتی۔۔کچھ دنوں سے انکے ساتھ عجیب و غریب کام ہو رہے تھے۔۔
کبھی کوئی دروازے کے باہر سے کنڈی لگا جاتا۔۔اور کبھی کوئی مرا ہوا کوا انکے صحن میں پھینک دیتا۔۔
فاطمہ نے ان باتوں سے بھی اپنی ماں کو بے خبر رکھا ہوا تھا۔۔مگر رات کو جو ہوتا اس سے نہیں رکھ پائی تھی۔۔
" ی۔۔۔یہ پھر سے۔۔۔ام۔۔امی جان۔۔مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔۔نہ جانے کون لوگ ہیں یہ۔۔"
فاطمہ خوفزدہ ہو کر رضوانہ خاتون کے ساتھ چمٹی جا رہی تھی۔۔
" کک۔۔کچھ نہیں۔۔کچھ نہیں ہے میری جان۔۔میں ہوں ناں تمہارے پاس۔۔ڈرو مت۔۔درود پاک اور آیت الکرسی پڑھو۔۔سس۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔"
رضوانہ خاتون نے فاطمہ کو اپنے بازوؤں میں زور سے بھینچ کر تسلی دیتے ہوئے کہا۔۔مگر انکا اپنا دل ہول رہا تھا۔۔اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔۔مگر جب سے دانی کو جیل ہوئی تھی۔۔تب سے یہ سب اکثر ہونے لگا تھا۔۔کبھی کبار انکے گھر میں کوئی پتھر پھینک دیتا۔۔
اس لیے فاطمہ اور رضوانہ خاتون شام ہوتے ہی کمرہ بند ہوجایا کرتی تھیں۔۔ایک دو بار انکو ایسا لگا جیسے صحن میں کوئی اترا ہے۔۔اور اب کچھ دنوں سے آدھی رات کو کبھی انکی کھڑکی بجنے لگتی تو کبھی دروازے پہ دستک ہونے لگی تھی۔۔ساری ساری رات دونوں کی جاگ کر گزر جاتی۔۔
دستک ایسے انداز میں ہوتی جیسے کوئی کتا بلا دروازے کو پنجے مار رہا ہو۔۔یا کبھی ایسے لگتا جیسے کوئی دروازہ کھولنے کی کوشش کر رہا ہو۔۔
انھی سب باتوں کے پیش نظر فاطمہ نے ریگولر سٹوڈنٹ کی بجائے ایز آ پرائیویٹ سٹوڈنٹ کے اپنا بی۔اے کا داخلہ بھجوا دیا تھا۔۔
بی اے کا پرائیویٹ امتحان پاس کرکے۔۔اپنی گلی کے پاس ہی ایک پرائیویٹ سکول میں جاب سٹارٹ کردی تھی۔۔
" فاطمہ بیٹا آج ہفتہ ہے ناں۔۔آج ملاقات کا دن ہے۔۔تو جب دانی سے ملنے جاؤ تو اسکے لیے آلو کے پراٹھے بنا کر لیتی جانا۔۔
دو ماہ ہونے کو آئے اسکا چہرہ دیکھے۔۔جانے وہ کیسا ہوگا۔۔کاش کہ میں چل پھر سکتی اور خود جا کر اپنی آنکھوں سے اسکو دیکھتی۔۔
فاطمہ میرے دانی سے کہنا کہ اسکی ماسو ماں اسکے بنا بہت اداس ہے۔۔اور یہ گھر ویران ہو گیا ہے جب سے وہ گیا ہے۔۔
اور۔۔اور میرا بہت سارا پیار کہنا اسکو۔۔"
فاطمہ صبح صبح سکول جانے کی تیاری کر رہی تھی جب رضوانہ خاتون نے اس کو مخاطب کرتے کہا۔۔
اپنی ماں کی بات سن کر فاطمہ کا دل کٹ رہا تھا۔۔مگر ایسے ظاہر کیا جیسے سب ٹھیک ہے۔۔
" امی جان آپ کیوں فکر کرتی ہیں۔۔ہر ہفتے میں جب بھی دانی سے ملنے جاتی ہوں۔۔آپ کا بہت سارا پیار اس سے کہتی ہوں۔۔اور جو جو آپ کہتی ہیں وہ سب بھی اسکو بتاتی ہوں۔۔"
" اور یہ حمید صاحب بھی کافی دن ہو گئے نہ وہ آئے۔۔اور نہ انکے گھر سے کوئی آیا ہے۔۔پہلے تو ایسا کبھی نہیں یوا۔۔"
رضوانہ خاتون کو اچانک یاد آیا۔۔
" پتہ نہیں ماں۔۔یہ دنیا ایسی ہی ہے۔۔ہر کوئی مطلب کا یار ہوتا ہے۔۔مطلب ختم۔۔ہھر میں کون اور تو کون۔۔اور ویسے بھی غریبوں کا نہ کوئی رشتےدار ہوتا ہے۔۔ناں کوئی سنگی ساتھی۔۔
کاش کہ دانی بھی باقی لوگوں کی طرح بے حس ہو جاتا تو ہم آج اس مصیبت میں تو نہ پھنستے۔۔وہ لوگ آرام سے اپنے گھر بیٹھے ہیں۔۔اور ہم ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔۔"
" بری بات ہے بیٹا۔۔ایسا نہیں کہتے۔۔دانی نے جو کیا مجھے فخر ہے اپنے بچے پہ۔۔یہ مشکل وقت ہے۔۔آزمائش کا وقت ہے۔۔یہ گزر ہی جائے گا۔۔
مشکل وقت میں صبر سے کام لینے کی بجائے اپنے حالات اور قسمت کو کوسنے والے لوگ ناشکرے ہوتے ہیں۔۔اور الّٰلہ نا شکروں کو اپنی رحمتوں سے نہیں نوازتا۔۔اور نہ ہی آخرت میں انکو کوئی اجر ملتا ہے۔۔"
رضوانہ خاتون کو فاطمہ کا ایسے بولنا اچھا نہیں لگا تو اسے سمجھانے لگیں۔۔
" سوری ماں۔۔بس دل خراب ہو رہا تھا ان سب حالات کی وجہ سے۔۔اس لیے ایسا منہ سے نکل گیا۔۔
میں اب چلتی ہوں۔۔سکول سے دیر ہو رہی ہے۔۔اور پانی کا جگ۔۔اور آپکی دوائی میں نے آپکے سرہانے کے پاس رکھ دی ہے۔۔یاد سے ٹھیک 12 بجے کھا لیجے گا۔۔"
فاطمہ اپنا پرس پکڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنی ماں کی ایک دو مزید ضرورت کی چیزیں انکے پاس رکھ کر۔۔انکو خدا حافظ کہ کر سکول کو چلی گئ۔۔
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png


 
Episode, 17#
اپنے روم میں آتے ہی عینا نے جلدی سے دوپٹہ اتارا۔۔اپنے بیگ میں سے کپڑے نکالنے لگی۔۔وہ دل ہی دل میں شکر ادا کر رہی تھی کہ احتیاطً آتے وقت ان لوگوں نے ایک ایک ڈریس ساتھ میں رکھ لیا تھا۔۔ان کا خیال تھا کہ زیادہ سے زیادہ ایک دو دن میں اجالا گھر آ جا ئے گی۔۔اور اس حساب سے ایک ایک ڈریس تینوں کا کافی تھا ساتھ میں۔۔
" تم جا کر جلدی سے فریش ہو جاؤ۔۔میں یہ پریس کر دیتی ہوں۔۔"
فجر عینا کے ہاتھ سے اس کا سوٹ پکڑتے ہوئے بولی۔۔جو کہ اپنے سلوٹ زدہ کپڑے ہاتھ میں لیے آئرن کرنے کے لیے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔۔
" آپ مجھے پلیز آئرن لا دیں۔۔میں خودی کر لوں گی۔۔"
عینا نے اسکے ہاتھ سے اپنے کپڑے واپس لینے چاہے۔۔اس کو اچھا نہیں لگا تھا اس سے اپنے کپڑے پریس کروانا۔۔
" یار فکر مت کرو۔۔اٹس ناٹ آ بگ ڈیل۔۔آپکی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ہم سب بہن بھائی اکثر اپنے کام خود کرتے ہیں۔۔کیونکہ ہماری امی حضور کا کہنا ہے کہ منہ میں سونے کا چمچ لیکر پیدا ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ اپنے ہاتھ پیر سلامت ہونے کے باوجود ہمارے منہ میں نوالا بھی دوسرے ڈالیں۔۔اور ہم دوسروں پہ ڈپینڈ کر کے رہ جائیں۔۔
امی جان کا بس چلے ناں تو سارے نوکروں کی چھٹی کر کے ہم تینوں بہن بھائیوں میں کام بانٹ دیں۔۔
اور اس کا ایک منظر تم دیکھ چکی ہو۔۔کہ احتشام بھائی نے اپنے لیے کھانا بھی خودی گرم کیا۔۔یہ اور بات کہ ان کے نصیب میں نہیں ہوا وہ۔۔"
فجر نے مظلوم شکل بنا کر خود پہ ہونے والے مظالم کی داستان سنائی۔۔
عینا اسکی باتیں سن کر مسکرائے جا رہی تھی۔۔مگر لاسٹ میں کی گئ بات پہ خجل سی ہو کر منہ پھیر کر مسکرا دی۔۔منہ پھیرتے ہی اچانک سامنے لگے آئینے میں اسکی نظر اہنےعکس پہ پڑی تو پہلے تو حیران ہو کر خود کو دیکھا۔۔پھر بے اختیار ہی اس کی زوردار ہنسی چھوٹ گئ۔۔اور ہنستی ہی چلی گئ۔۔فجر حیران ہو کر اسکے ہنسنے کی وجہ سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔۔
اور جب اسکے ہنسنے کی وجہ سمجھ میں آئی تو دونوں کا ہی ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا۔۔
" ویسے ایک بات کہوں عینا۔۔تمہارا بہت بہت شکریہ۔۔
عینا حیران ہو کر اس کی طرف دیکھنے لگی کہ کس بات کے لیے۔۔"؟
" یار تمہاری وجہ سے ہمیں احتشام بھائی کے چہرے پہ سالوں بعد اتنی جاندار ہنسی دیکھنے کو ملی۔۔ہنسی نہیں بلکہ قہقہے۔۔دیکھنے کو ملے۔۔"
فجر نے مسکراتے ہوئےکہا۔۔
" کیوں۔۔تمہارے احتشام بھائی مسکراتے یا قہقہے نہیں لگاتے کیا۔۔"؟
عینا فجر کی بات پہ حیران ہوئی۔۔
" نہیں یار۔۔ہنستے ہیں۔۔مسکراتے بھی ہیں۔۔مگر ان کا قہقہ کبھی کسی نے نہیں سنا۔۔انکی اپنی ہی دنیا ہے جس میں گم رہتے ہیں۔۔
البتہ صارم بھائی کا تو پوچھو مت۔۔یوں تو دونوں بھائی میری جان ہیں۔۔مگر صارم بھائی کا تو ٹشن ہی الگ ہے۔۔جانتی ہو بابا کو بہت شوق تھا کہ احتشام بھائی گاؤں کے سب معاملات سنبھالیں۔۔مگر انکا اس طرف رجحان ہی نہیں تھا۔۔اس لیے ایم بی اے کے بعد شہر میں اہنا بزنس سیٹ کر لیا۔۔
اور صارم بھائی اپنی تعلیم بیچ میں ہی چھوڑ کر بابا کے ساتھ سب معاملات دیکھنے لگے۔۔
بابا نے بہت کہا کہ اپنی تعلیم پہلے مکمل کر لیں۔۔لیکن وہ نہیں مانے۔۔۔
انکا کہنا ہے کہ زمین جائیداد کے معاملات دیکھنے اور دنیا کو سمجھنے کے لیے جتنا ضروری تھا وہ پڑھ چکے۔۔اور انسان بننے کے لیے جو پڑھنا ضروری تھا وہ ان کو امی جان نے ہڑھا دیا۔۔۔
لو بتاؤ ہم بھی کن باتوں میں لگ گئے ہیں۔۔تم نہا لو جا کے۔۔میں تمہارے کپڑے پریس کر دیتی ہوں تب تک۔۔ پھر ساری رات خوب باتیں کریں گے۔."
" اوکے۔۔"
عینا فجر کی بات پہ یک لفظی جواب دے کر واش روم میں گھس گئ۔۔
تھوڑی دیر بعد عینا فریش ہو کر آئی تو فجر روم میں نہیں تھی۔۔ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ یہ کدھر گئیں۔۔وہ کھانے کی ٹرے لیکر کمرے میں انٹر ہوئی۔۔
" عینا آ جاؤ یار جلدی سے۔۔بہت بھوک لگی ہوئی ہے۔۔صبح سے بس سنیکس اور کوک پہ ہی گزارا ہو رہا ہے۔۔میرے پیٹ میں تو چوہے بیڈمنٹن کھیلنے لگے ہیں اب۔۔"
فجر نے کھانے کی ٹرے ٹیبل پہ رکھتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔۔
" سوری۔۔۔ہماری وجہ سے آپ لوگوں کی روٹین لائف ڈسٹرب ہو گئ ہے۔۔"
عینا کو اپنا آپ ان پہ بوجھ سا فیل ہو رہا تھا۔۔انکے گھر کے مسلے میں وہ لوگ خواہ مخواہ گھسیٹے گئے تھے۔۔اس لیے شرمندہ ہوتے ہوئے بولی۔۔
" ایک لگاؤں گی تمہارے۔۔جو اس قسم کی دوبارہ کوئی بات کی۔۔اور سوچی بھی تو۔۔ہم دوست ہیں۔۔اور دوستوں میں نو تھینکس۔۔نو سوری۔۔
صرف مان ہوتا ہے اور پیار ہوتا ہے۔۔اوکے۔۔"
فجر نے مسکراتے ہوئے اسکے گال پہ پیار کرتے ہوئے کہا۔۔
" ایک بات اور کہوں۔۔۔"؟
" سو باتیں کہو یار۔۔بادشاہ سلامت آج آپکی ہر فریاد سنیں گے۔۔۔مگر اس قسم کی فضول بات کوئی نہیں۔۔۔
شاہانہ انداز میں بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے فجر سر کو اکڑا کر بولی۔۔
" آپ سب بہت اچھے ہیں۔۔۔آپی بہت لکی ہیں جو انکی آپ کے جیسی دوست ہے۔۔"
"اُوئے ہوئے مسکے۔۔خیر تو ہے جناب۔۔"
فجر عینا کی بات پہ ہنستی ہوئی بولی۔۔
" کھانے سے فارغ ہو کر۔۔دونوں کچن میں گئیں۔۔اور اپنے لیے چائے بنائی۔۔اور ساتھ میں ہلکی پھلکی باتیں بھی کرتی رہیں۔۔ جن میں اجالا کا ہی ذکر تھا۔۔
واپس کمرے میں آکر چائے پینے کے دوران فجر اسے اپنی خالہ اور انکے بچوں کے بارے میں بتاتی رہی۔۔باتیں کرتے کرتے کب نیند نے اپنی آغوش میں لیا۔۔اسے پتہ بھی نہیں چلا۔۔عینا نے اسکی طرف مسکرا کر دیکھتے ہوئے۔۔اسے بیڈ پہ سیدھا کرکے لٹایا اور اس پہ ہلکی سی پاس پڑی چادر ڈال دی۔۔پھر
۔۔کمرے کا دروازہ لاک کر کے۔۔اور لائٹ آف کر کے زیرو پاور کی لائٹ آن کی۔۔ اپنا دوپٹہ اتار کر اپنے سرہانے رکھا۔۔اور چادر تان کر سونے کے لیے اپنی آنکھیں بند کیں تو ذہن کی رو بھٹک کر اجالا کی طرف چلی گئ۔۔اس دن جو کچھ بھی ہوا۔۔سارے مناظر کسی فلم کی طرح اس کی آنکھوں کے گرد گھومنے لگے۔۔
اُسکے باپ کا پیسوں کی خاطر اس کی ماں کو مارنا۔۔پھرعینا کا گلا دبانا۔۔اور معصوم اجالا کا اس کو بچانے کے لیے اپنے باپ کی ٹانگ پر اپنے دانت گاڑنا۔۔
آنسو ایک تواتر سے اسکے گالوں پہ پھسلنے لگے۔۔اور اسکو پتہ ہی نہیں چلا کہ کب اسکی سسکیاں کمرے میں گونجنے لگیں۔۔
" عینا۔۔۔۔عینا کیا ہوا ہے۔۔۔۔سب ٹھیک ہے ناں۔۔۔اجالا ٹھیک ہے ناں۔۔۔عینا پلیز بولو کیا ہوا ہے۔۔"
آدھی رات کو ایسے اس کی سسکیوں کی آواز پہ فجر ہڑبڑا کر اٹھی تھی۔۔پھر جلدی سے کمرے کی لائٹ آن کی تو۔۔عینا کو روتا پا کر پہلا خیال اس کا اجالا کی طرف گیا۔۔کہ شائد ہاسپٹل سے کوئی اطلاع آئی ہے۔۔
" میں۔۔۔میں ابھی امی جان کو اٹھاتی ہوں۔۔"
فجر کی طرف سے مسلسل روئے جانے اور کوئی جواب نہ پانے پہ وہ بڑبڑاتی ہوئی اٹھنے لگی تو عینا نے جلدی سے اس کا ہاتھ ہکڑ لیا۔۔
" سس۔۔۔سب ٹھیک ہے۔۔مجھے اجالا کی یاد آ رہی تھی۔۔تو بس اسی لیے۔۔۔۔۔"
عینا اتنا کہ کر خاموش ہو گئ۔۔
" پلیز عینا پریشان مت ہو۔۔الّٰلہ نے چاہا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔تم دعا کرو اسکے لیے کہ وہ خیروعافیت سے جلد ٹھیک ہو کر گھر لوٹ آئے۔۔"
فجر نے عینا کو گلے لگا کر اس کے انسو صاف کرتے ہوئے اسے تسلی دیتے کہا۔۔
" آمین۔۔"
" سوری فجر میری وجہ سے تمہاری نیند خراب ہوئی۔۔"
عینا اپنے آنسو صاف کر کے سیدھی ہو کر بیٹھ گئ۔۔
" نہیں یار۔۔۔میں سوری ہوں۔۔۔آج عائلہ نہیں تھی تمہارے پاس۔۔اور ساری سچوئیشین جانتے ہوئے بھی مجھے تم سے پہلے نہیں سونا چاہیے تھا۔۔۔"
فجر کو شرمندگی ہونے لگی۔
" پلیز آپ ایسا مت بولیں۔۔آپ سب پہلے ہی ہمارے لیے بہت کر رہے ہیں۔۔جبکہ ہمارا کوئی خونی رشتہ بھی نہیں۔۔نہ کوئی رشتہ داری۔۔"
" غلط۔۔بلکل غلط۔۔ہم میں رشتہ ہے۔۔جو دنیا کا سب سے مظبوط رشتہ ہے۔۔دوستی کا۔۔محبت کا۔۔احساس کا۔۔اس رشتے کے آگے ہر تعلق بے معنی ہوتا ہے۔۔
اور جہاں احساس نہ ہو۔۔وہاں یم پاس تو ہوتے ہیں۔۔مگر ساتھ نہیں۔۔"
" ہممممم۔۔۔۔ٹھیک کہ رہی ہیں۔۔
اچھا ایک بات ہوچھوں۔۔اگر تم بتانا چاہو تو۔۔میرا مطلب اگر ایزی فیل کرو تو۔۔"
فجر نے ٹھہر ٹھہر کر جھجکتے ہوئے پوچھا۔۔
" میرا نہیں خیال کہ آپکو اجازت لینے کی ضرورت ہے۔۔ہمارا یہاں ہونا اس بات کے لیے کافی ہے کہ آپ ہر بات جاننے کا حق رکھتی ہو۔۔"
" اجالا کو چوٹ کیسے لگی ہے۔۔صارم بھائی کو شک ہے کہ آپکے گھر کوئی شدید جھگڑا ہوا ہے۔۔ان کو لگتا ہے کہ اس سب کی وجہ انکل ہیں۔۔"
"ٹھیک سمجھ رہے ہیں وہ۔۔ہمارا نام نہاد باپ ہی اس سب کی وجہ ہے۔۔"
عینا بیچ میں ہی فجر کی بات کاٹ کر بولی۔۔پھر اس دن جو کچھ ہوا سب الف سے ی اسکو بتا دیا۔۔
" افففف میرے خدایا۔۔کوئی باپ اتنا ظالم کیسے ہو سکتا ہے۔۔مجھے یہ تو پتہ تھا کہ وہ جوا شوا کھیلتے ہیں۔۔نشہ کرتے ہیں۔۔مگر وہ اس حد تک جا سکتے ہیں۔۔اس کا ہرگز اندازہ نہیں تھا۔۔"
فجر کو افسوس و حیرت کے ساتھ یقین نہیں آ رہا تھا۔۔وہ حیران تھی کہ یہ باپ کا کونسا روپ ہے۔۔
کافی دیر تک دونوں بیٹھی باتیں کرتی رہیں۔۔پھر نیند کا شدید غلبہ ہوا تو فجر سونے کو چلی گئ۔۔
مگر عینا کی آنکھوں سے اب نیند روٹھ چکی تھی۔۔
آج کا سارا دن شدید ٹینشن میں گزرا تھا۔۔اور کچھ تھکاوٹ کی وجہ سے بھی سر میں ہونے والا ہلکا ہلکا درد شدت اختیار کرتا جا رہا تھا۔۔چائے کی طلب بھی بڑھتی جا رہی تھی۔۔پہلے سوچا کہ فجر کو اٹھا دے۔۔مگر پھر اسکی نیند خراب ہونے کا سوچ کر۔۔خود ہی بنانے کا سوچ کر کچن کی طرف چل دی۔۔
" واؤ۔۔۔ اگر مجھے اندازہ ہوتا کہ اس وقت کچن میں چاند نکلے گا۔۔تو میں اسکی روشنی میں نہانے بہت پہلے آ گیا ہوتا۔۔"
اپنے خیالوں میں گم۔۔کپ میں چائے انڈیلتی عینا
اپنے کان کے قریب ہوئی سرگوشی پہ ہڑبڑا کر مڑی تو پیچھے کھڑے شہریار سلطان کے سینے سے جا لگی۔۔اور چائے کی سٹیوپوٹ اور کپ ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پہ جا پڑا۔۔
شہریار نے فوراً خود ہٹنے یا اسے پیچھے کرنے کی بجائے اُسے تیزی سے دونوں بازوؤں کے گھیرے میں لے کر زور سے اپنے سینے میں بھینچا۔۔
" بہت خوبصورت ہو تم۔۔اور تمہارے جسم کی یہ خوشبو بھی بہت الگ ہے۔۔"
شہریار انتہائی کمینگی سے اسکی گردن پہ اپنے ہونٹ رکھتے ہوئے بولا۔۔
اسکی اس حرکت پہ عینا نے سیخ پا ہوتے ہوئے اسکے بازوؤں کے تنگ گھیرے کو اپنی پوری قوت سے کھولتے ہوئے اپنے جوتے کی ایڑی زور سے اسکے پاؤں پہ ماری۔۔
" آہہہہہ۔۔۔۔۔"
تکلیف کے مارے شہریار نے ایک سسکاری بھری۔۔اور فوراً عینا کو چھوڑ دیا۔۔
جیسے ہی اسکی گرفت کمزور پڑی۔۔عینا نے ایک زوردا تھپڑ اسکے گال پہ جڑ دیا۔۔
" اس تھپڑ کی گونج بھی بہت الگ ہے باسٹرڈ۔۔جو مرتے دم تک تمہیں سنائی دے گی۔۔"
اس کا پاؤں اپنی ایڑی سے کچل کر۔۔تھپڑ مار کر بھی عینا کا غصہ کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا۔۔اس کا دل چاہ رہا تھا وہ اسکی جان لے لے۔۔
عینا کے ڈرنے، دبکنے کی بجائے اسکے بپھرنے نے شہریار کو خوفزدہ کر دیا تھا۔۔کہ کوئی آ نہ جائے۔۔اسکی سوچ کے برعکس ساری بازی ہی پلٹ گئ تھی۔۔
" اگر تم نے اس بات کا ذکر کسی سے بھی کرنے کی غلطی کی تو۔۔۔یاد رکھنا۔۔یہ صرف ایک ٹریلر تھا۔۔پوری مووی بنا ڈالوں گا تمہاری۔۔۔آئی سمجھ۔۔زبان بند۔۔"
شہریار کو پیچھے کو دھکا دے کر وہ جتنی تیزی سے کچن سے نکلنے لگی۔۔اتنی ہی تیزی سے شہریار اسکا بازو دبوچ کر ہونٹوں پہ انگلی رکھ کر اسے خاموش رہنے کا کہتے ہوئے کرختگی سے بولا۔۔
" تم۔۔۔۔تم مووی بناؤ گے میری۔۔۔ہاں۔۔۔لوبناؤ پھر۔۔ذلیل گھٹیا انسان۔۔۔تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے چھونے کی بھی۔۔"
کہتے ساتھ ہی جس ہاتھ سے شہریار نے عینا کا بازو دبوچا ہوا تھا۔۔اس پہ اپنے دانت گاڑ دئیے۔۔
شہریار کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ عینا اتنے شدید ردعمل کا اِظہار کرے گی۔۔آج تک اس نے مڈل کلاس غریب گھر کی ایسی ہی لڑکیاں دیکھی تھیں۔۔ان ہی سے واسطہ پڑا تھا جو یا تو بدنامی کے ڈر سے۔۔یا پھر اپنے گھر والوں کی بد اعتمادی کی وجہ سے چپ چاپ ہر قسم کی سیکشوئل ابیوزنگ برداشت کرتی جاتی تھیں۔۔
اور شہریار عینا کو غریب، بے سہارا ،لاچار جان کر تر نوالا سمجھ بیٹھا تھا۔۔جس کے سر پہ نہ باپ کا سایہ تھا۔۔نہ بھائی کا مضبوط سہارا۔۔
شرجیل کے سمجھانے کے باوجود اپنی فطرت سے مجبور ہوکر یہی غلطی وہ کر بیٹھا تھا۔۔
یہ عینا تھی۔۔۔جو کسی سے نہیں ڈرتی تھی۔۔ہر بات منہ پہ دے مارنے والی۔۔
" آہہہہہ۔۔۔یو بچ۔۔۔
عینا نے اتنی بری طرح سے اسکے ہاتھ پہ کاٹا تھا کہ روکتے روکتے بھی شہریار کی چیخ نکل گئ۔۔اسکے ہاتھ سے خون رسنے لگا تھا۔۔
" یہ مت سوچنا کہ میں ڈر گیا۔۔چھوڑوں گا نہیں تمہیں۔۔اور یہ جتنی تکلیف تم نے مجھے دی ہے۔۔سود سمیت لوٹاؤں گا۔۔یہ وعدہ ہے میرا۔۔"
شہریار اپنا ہاتھ سہلاتے ہوئے ایک انگلی سے اسکی طرف اشارہ کرتے ہوئے غصے سے بولا۔۔
اس کا دل تو چاہ رہا تھا عینا کا گلا دبا دے۔۔مگر موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اسے کھسکنے میں ہی عافیت لگی۔۔
مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی۔۔
چیخ کی آواز سن کر احتشام شاہ جلدی سے روم سے باہر نکلا تھا۔۔اور کچن کی لائٹ جلتی دیکھ کر۔۔اور ادھر سے آتا شور سن کر تیزی سے اس طرف آیا تھا۔۔
" کیا ہو رہا ہے یہاں۔۔"؟
اچانک سے دھاڑتی ہوئی آواز پہ شہریار نے فوراً پلٹ کر دیکھا تو احتشام شاہ کچن کے دروازے میں کھڑا تھا۔۔
احتشام کی آواز اور شہریار کی چیخ پہ صارم شاہ بھی حیران ہوتا کمرے سے باہر نکل آیا۔۔صارم اور احتشام ایک ہی روم شئیر کر رہے تھے۔۔جو کہ کچن کے پاس پڑتا تھا۔۔باہر ہونے والا شور اور احتشام کی آواز اسے روم میں صاف سنائی دی تو جلدی سے روم سے باہر آ کر سوالیہ نظروں سے وہاں موجود سب کی طرف دیکھنے لگا۔۔
" کک۔۔کچھ نہیں احتشام۔۔مم۔۔میرے سر میں درد تھی تو چچ۔۔چائے بنانے آیا تھا۔۔مگر یہ لڑکی مجھے کچھ اور سمجھ کر ڈر گئ۔۔تو میں اس کو ریلیکس ہونے کا بول رہا تھا کہ تم آ گئے۔۔"
شہریار گھبراہٹ کا شکار ہو کر ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں بولا۔۔
احتشام شاہ نے شہریار کی بات سن کر ایک گہری نگاہ اس پر پھر عینا پر ڈالی۔۔جو لال بھبوکا چہرہ لیے۔۔آنسو ضبط کرتی، ہونٹوں کو اپنے دانتوں میں بھینچے وہاں کھڑی کوئی اور ہی کہانی سنا رہی تھی۔۔
" عینا کیا ہوا ہے۔۔بولو گڑیا کیا بات ہے۔۔میں نے آپ کو بہن صرف زبان سے نہیں کہا۔۔دل سے مانا ہے۔۔اس لیے بتاؤ مجھے کیا ہوا ہے۔۔بھروسہ رکھو اپنے بھائی پہ۔۔
صارم شاہ معاملے کو کچھ کچھ سمجھتا ہوا۔۔آگے بڑھ کر عینا کو کندھوں سے تھام کر بولا۔۔
خوفزدہ چہرے اور اپنے اندر کے لاوے کو ضبط کرتے چہرے کا فرق کوئی اندھا بھی بتا سکتا تھا۔۔یہ تو پھر صارم شاہ تھا۔۔جس کے ظاہر اور باطن کی دونوں آنکھیں کھلی تھیں۔۔اور ان آنکھوں نے اس کو جو سمجھایا تھا۔۔وہ دعا کر رہا تھا کہ وہ غلط ہو۔۔
" ہم نہیں جانتے تھے کہ رات کو آپ کے گھر میں کتوں کو کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔۔اگر معلوم ہوتا تو اپنے کمرے سے نکلنے کی غلطی کبھی نہ کرتے۔۔۔اور نہ ہی ہم یہ جانتے تھے کہ اگر آپ کے گھر میں کوئی کسی کی گھٹیا بات نہ مانے تو اسکی مووی بنائی جاتی ہے۔۔۔اور یہی بات یہ مسٹر جو میرا نام تک نہیں جانتے مجھے سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔۔۔"
احتشام شاہ اپنے دونوں ہاتھ کی مٹھیاں بھینچے کھڑا عینا کی بات سن ریا تھا۔۔
عینا نے کچھ نہ کہ کر بھی سب کچھ کہ ڈالا۔۔۔ شہریار حیرت زدہ عینا کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔گاؤں میں رہنے والی کوئی لڑکی اتنی نڈر اور دلیر بھی ہو سکتی ہے۔۔۔اسکی اسے ہرگز توقع نہ تھی۔۔۔وہ دل ہی دل میں اپنے بے صبرے پن پہ لعنت بھیجنے لگا۔۔غلط جگہ۔۔۔غلط موقع پہ وہ بہت غلط شاٹ کھیل گیا تھا۔۔
عینا کی بات ابھی ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ صارم شاہ کا زوردار تھپڑ شہریار کے گال پہ اپنے نشان چھوڑ گیا تھا۔۔۔
عینا کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ صارم ایسا کچھ کرے گا۔۔۔بنا کوئی سوال کیے۔۔۔وہ عینا کی بات پہ ایمان لے آیا تھا۔۔۔اس لڑکی پہ جس کو وہ ٹھیک سے جانتا بھی نہیں تھا۔۔۔اور اپنے کہے ہر لفظ کا مان رکھ گیا تھا کہ وہ اس کا بھائی ہے۔۔۔آج تک اس کو ہر مرد اپنے باپ جیسا ہی لگتا تھا۔۔۔
زندگی میں پہلی بار اسے تحفظ کا احساس ہوا تھا۔۔۔پہلی بار اس نے مرد کو ایک الگ روپ میں پایا تھا۔۔۔
پہلی بار اس کے دل نے شدت سے خواہش کی تھی کہ کاش صارم شاہ اسکی ماں کا جنا ہوتا۔۔۔اسکا سچ میں بھائی ہوتا۔۔۔یا پھر اس جیسا ہی کوئی بھائی ہوتا۔۔۔جو بنا کہے اپنی بہن کا دکھ جان جاتا۔۔۔بنا کوئی سوال کیے اسکی بات پہ یقین کرتا۔۔۔
جو صارم شاہ کی طرح اسکی طرف بڑھنے والے ہاتھ کو بنا کسی رشتے کا لحاظ کیے توڑ کر رکھ دیتا۔۔۔
" سوری۔۔۔غلطی ہو گئ۔۔۔میں نے بس مزاقاً۔۔۔۔"
" واٹ سوری۔۔۔کونسا مزاق۔۔۔جسکا نام تک تمہیں معلوم نہیں۔۔۔جس کو تم جانتے تک نہیں۔۔۔کس کو بیوقوف بنا رہے ہو تم۔۔۔
مزاق نہیں تم نے گری ہوئی غلیظ حرکت کی ہے۔۔۔
تم نے۔۔۔تم نے کیا سوچ کر اسکو ہاتھ لگایا شہریار۔۔بہن ہے یہ میری۔۔بلکل ایسے ہی جیسے فجر۔۔۔
مہمان تھیں یہ۔۔امانت تھیں یہ ہمارے پاس کسی کی۔۔جن کو اپنی ذمہ داری پہ لایا تھا میں۔۔۔بالفرض ایسا نہ بھی ہوتا۔۔۔تب بھی۔۔۔تب بھی تم نے جرأت کیسے کی یہ۔۔۔اس گاؤں کا ہر بچہ ماما بابا کو اپنی اولاد کی طرح عزیز ہے۔۔۔
انکو اس بات کی بھنک بھی پڑ گئ تو جانتے ہو کیا ہوگا۔۔۔ساری عمر کے لیے خالہ اور امی ایک دوسرے سے دور ہو جائیں گی۔۔۔
دل تو چاہ رہا ہے کہ۔۔۔۔"
صارم شاہ کا ہر ہر لفظ عینا کے دل پر ٹھنڈی پھوار کی طرح پڑ رہا تھا۔۔۔صارم شاہ کے لفظوں نے اسکے دل کے ہر زخم پر مرہم رکھ دیا تھا۔۔۔وہ محبت اور عقیدت سے اسکی طرف دیکھنے لگی۔۔۔پھر خاموشی سے وہاں سے نکلتی چلی گئ۔۔۔
صارم شاہ انتہائی طیش کے عالم میں شہریار کو گریبان سے پکڑ کر جھنجوڑتے ہوئے ایک ایک لفظ کو چبا چبا کر بولا۔۔۔اور پھر سے ایک لگانے لگا تو احتشام شاہ جو چپ چاپ کھڑا سب دیکھ رہا تھا۔۔آگے بڑھ کر صارم شاہ کا ہاتھ روک گیا۔۔۔شہریار سر جھکائے چپ چاپ کھڑا صارم شاہ کی باتیں سنتا رہا۔۔۔
" صارم چھوڑ دو اسے۔۔۔سکون رکھو تھوڑا۔۔۔ایسا نہ ہو کہ سب اٹھ کر آ جائیں۔۔۔
شہریار اپنے کمرے میں جاؤ تم۔۔۔صارم تم بھی جاؤ۔۔۔اور اس بات کا گھر میں کسی کو پتہ نہیں چلنا چاہیے۔۔"
احتشام شاہ نے دونوں کو وارن کیا۔۔۔
" جی۔۔"
دونوں نے یک لفظی جواب دیا۔۔۔
اور آپ پلیز معا۔۔۔۔"
شہریار سے کہ کر احتشام شاہ عینا کو کچھ کہنے پیچھے کو مڑا تو وہ وہاں سے جا چکی تھی۔۔۔احتشام شاہ ٹھنڈا سانس بھر کر رہ گیا۔۔۔پھر بعد میں بات کرنے کا سوچ کر وہ بھی اپنے روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png


ایک ایک کر کے سب لوگ کمرے سے نکلتے چلے گئے۔۔
" ہم بھی چلتے ہیں سیٹھ جی۔۔وعدے کے مطابق آپکی امانت آپکے حوالے کردی ہے۔۔۔امید کرتے ہیں کہ آپکی یہ رات بہت یادگار رہے گی۔۔۔
نیلم بائی اک ادا سے کہتی ہوئی لاسٹ میں آنکھوں ہی آنکھوں میں موہنی کو ریلیکس رہنے کا اشارہ کر کے روم سے نکل گئ۔۔۔
" سب کے جاتے ہی سیٹھ شجاع نے آگے بڑھ کر دروازہ لاک کیا۔۔۔پھر مڑ کر دروازے کے پاس ہی کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ سینے پہ باندھ کر سر سے پاؤں تک موہنی کی طرف گہری نظروں سے دیکھنے لگا۔۔
اپنے بدن کا ایکسرے کرتی نگاہیں محسوس کرکے موہنی اپنی جگہ پہ کھڑے کھڑے ہی رخ موڑ گئ۔۔۔خود کو کمپوز کرنے کے باوجود بھی وہ پزل ہو رہی تھی۔۔۔اسکے ہاتھ پسینے سے بھیگنے لگے۔۔۔
وہ اپنے ڈریس کو خواہ مخواہ ہی ادھر اُدھر سے ہلکا ہلکا کھینچنے لگی۔۔۔جیسے اسے ٹھیک کر رہی ہو۔۔
" بڑی طلب تھی صنم کو بے نقاب دیکھنے کی
دوپٹہ جو گرا تو زلفیں دیوار بن گئیں۔۔"
سیٹھ شجاع آہستہ آہستہ چلتا اسکے قریب آیا تھا۔۔۔اور موہنی کے دائیں کان کے پاس منہ کرکے دھیمے سے سرگوشی کی۔۔۔
موہنی نے آہستہ سے دور ہونا چاہا تو اُسی وقت سیٹھ شجاع نے اسکے کندھوں پہ اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر دباؤ ڈال کر اسے وہیں کھڑے رہنے کا اشارہ دیا۔۔۔موہنی جی جان سے کانپ گئ تھی۔۔۔
" بہت انتظار کیا تھا ہم نے اس دن کے لیے۔۔۔بہت تڑپایا ہے آپ نے ہمیںں۔۔۔لیکن کس کے لیے۔۔۔
ہاں۔۔۔کس کے لیے۔۔؟
سیٹھ شجاع نے ایک جھٹکے سے اسکے ریشم سے بالوں کو اپنی مٹھی میں جکڑ کر اسکا چہرہ اپنی طرف موڑا تھا۔۔۔
اور اپنا چہرہ اسکے چہرے کے اتنا قریب کیا کہ اسکے لب موہنی کے چہرے کو چھونے لگے۔۔۔
" دلاور نے ہمارے ساتھ جو بھی کیا اس میں ہماری مرضی شامل نہیں تھی۔۔۔وہ نشے میں تھا۔۔۔
جس نے آپ کو یہ خبر دی۔۔۔اس نے یہ نہیں بتایا کیا۔۔۔"
موہنی نے اُسی پوزیشن میں ہمت کر کے ٹھوس لہجے میں کہا۔۔۔
" بتایا تھا۔۔۔اور یہ بھی کہ اسکے بعد آپکی کیا حالت رہی۔۔۔اور اسی وجہ سے ہمیں آپ پہ غصّٰہ نہیں ترس آیا۔۔۔سچ پوچھیں تو ہمارا دل کیا تھا کہ آپکو بہت بری سزا دیں۔۔۔کسی قابل نہ چھوڑیں آپکو۔۔۔مگر ہم چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پائے۔۔۔ آپکو دیکھ کر ہم سب بھول جاتے ہیں۔۔۔
اس لیے ہم نے سوچا کہ دلاور کی چاہت نے جو تھپڑ آپکے منہ پہ مارا ہے۔۔۔آپکے لیے وہی سزا کافی ہے۔۔۔
سیٹھ شجاع آہستہ سے موہنی کے بالوں کو چھوڑ کر اس کو کندھوں سے تھام کر اس کا رخ مکمل طور پہ اپنی طرف موڑ کر بولا۔۔۔
" کیا ابھی بھی وہ آپکے دل میں ہے۔۔۔"؟
" نہیں۔۔۔کہیں نہیں ہے وہ۔۔۔کوئی تعلق نہیں ہے ہمارا اس کے ساتھ۔۔۔ہم کسی دلاور کو نہیں جانتے۔۔۔"
موہنی نے سیٹھ شجاع کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دو ٹوک لہجے میں کہا۔۔۔
" غلط کہ رہی ہیں آپ۔۔۔تعلق تو ابھی بھی آپ نے اس سے رکھا ہوا ہے۔۔۔"
سیٹھ شجاع نے معنی خیز نظروں سے اسکی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا۔۔۔
" مطلب کیا ہے آپ کا۔۔۔"
موہنی حیران ہوئی۔۔۔
" نفرت کا۔۔۔نفرت کا تعلق رکھا ہوا ہے آپ نے اسکے ساتھ۔۔۔کہتے ہیں کہ نفرت بھی محبت کی ہی ایک شکل ہے۔۔۔نفرت کب محبت میں بدل جائے پتہ ہی نہیں چلتا۔۔۔"
" ہمیں اس کے ہونے اور نہ ہونے سے اب کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔اور ہمارا اس وقت آپ کے پاس ہونا ہی ہماری بات کا ثبوت ہے۔۔۔
دلاور کے ساتھ ہم محبت کا۔۔۔نکاح کا رشتہ بنانا چاہتے تھے۔۔۔ہوس کا نہیں۔۔۔مگر۔۔۔۔۔"
موہنی سیٹھ شجاع کی بات کاٹ کر اپنی بات ادھوری چھوڑ کر فوراً بولی۔۔۔
" امپریسو۔۔۔لیکن ہمارے لیے یہ ثبوت ناکافی ہے۔۔۔خود کو ہمیں اپنی مرضی سے آپکو سونپنا ہوگا۔۔۔
سیٹھ شجاع مسکراتا ہوا ستائشی انداز میں بولا۔۔۔اور جا کر بیڈ پہ نیم دراز سا لیٹ گیا۔۔۔
سیٹھ شجاع کی بات سن کر موہنی کی جان حلق میں اٹکی تھی۔۔۔مگر خود کو بچانے کے لیے اسکو اب اس کی سوچ کے حساب سے ہی اسکے ساتھ کھیلنا تھا۔۔۔
" اور ہمارے ساتھ کونسا رشتہ بنانا چاہتی ہیں۔۔۔"
سیٹھ شجاع نے جانچتی نظروں سے سوال کیا۔۔۔
" آج کے بعد ہمارا ہر کسی سے صرف پیسوں کا رشتہ ہوگا۔۔۔جو زیادہ ہیسے دے گا۔۔۔ہم اسکے۔۔۔"
موہنی آہستہ آہستہ چلتی ہوئی سیٹھ شجاع کے برابر میں آ کر بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے اک ادا سے بولی۔۔۔
" اور ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے۔۔۔"
کہتے ساتھ ہی سیٹھ شجاع نے اک جھٹکے سے موہنی کا بازو پکڑ کر اسے خود پہ گرایا تھا۔۔۔یہ حرکت اتنی اچانک ہوئی تھی کہ موہنی خود کو سنبھال بھی نہ پائی۔۔۔اسکے گھنے ریشم کی تاروں سے بال سیٹھ شجاع کے چہرے پر کسی بدلی کی طرح سایہ فگن ہو گئے۔۔۔ان سے اٹھتی خوشبو، اور موہنی کے بدن کی نرمیاں اسکے جسم سے ٹچ ہوئیں تو اسکے حواسوں پہ سوار ہو کر اسے بے خود کرنے لگیں۔۔۔
" آج ہم ہر دن کا آپ کو سود سمیت بدلہ لوٹائیں گے۔۔۔اور اپنی کسی بھی گستاخی کے لیے آپ سے معافی ہرگز نہیں مانگیں گے۔۔۔"
سیٹھ شجاع نے موہنی کی گردن پہ اپنے لب رکھتے ہوئے کہا۔۔۔پھر اس کی کمر کے گرد اپنی گرفت مضبوط کی۔۔۔اور کروٹ لی۔۔۔جس سے موہنی سیٹھ شجاع کے نیچے اور سیٹھ شجاع مکمل طور پہ اس پہ حاوی ہو گیا۔۔۔موہنی نے زور سے اپنی آنکھیں بند کیں۔۔۔اور کسی زندہ لاش کی طرح بے حس و حرکت پڑی رہی۔۔۔
سیٹھ شجاع اسکے گال، گردن اور بیوٹی بون پہ اپنی شدتوں کے نشان چھوڑنے لگا۔۔۔
پھر سیٹھ شجاع نے ایک ہاتھ اسکی کمر کے نیچے لے جا کر اور دوسرے ہاتھ سے اسکو تھوڑا سا اوپر کو اٹھا کر اسکے ڈریس کو ان زپ کر دیا۔۔۔
موہنی کے وجود میں تب بھی کوئی حرکت نہ ہوئی۔۔۔اور نہ ہی اس نے کوئی ری ایکشن شو کیا۔۔۔
" کیا بات ہے تم ساتھ کیوں نہیں دے رہی۔۔۔"؟
موہنی کے کسی زندہ لاش کی طرح پڑے رہنے پر سیٹھ شجاع جھنجلایا تھا۔۔۔اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کسی بے جان وجود پہ اپنے جزبات لٹا رہا ہے۔۔۔
" بات مرضی کی ہوئی تھی۔۔۔دل کی نہیں۔۔۔مرضی ہے تو آپکو روکا نہیں۔۔۔
دل نہیں ہے۔۔۔اس لیے بدلے میں آپکو کچھ ملے گا نہیں۔۔۔"
موہنی نے ذرا سی آنکھیں کھول کر نپے تلے لہجے میں کہا۔۔۔
" تو ہمیں آپکی خوشی اور آپکے دل میں اترنے کے لیے کیا کرنا ہوگا۔۔۔"
سیٹھ شجاع پیچھے ہو کر اٹھ کر بیٹھتے ہوئے بولا۔۔۔
" ہم آپ سے اپنا کوئی بھی رشتہ یہاں اس جگہ نہیں بنانا چاہتے۔۔۔ہم جب بھی ملیں گے کہیں باہر ملیں گے۔۔۔اس کمرے کے درودیوار سے ہمیں اپنی چیخوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔۔۔ایسا لگ رہا ہے جیسے آپ نہیں۔۔۔پھر سے دلاور ہمارے ساتھ۔۔۔۔۔"
موہنی دکھ اور کرب سے بولتی ہوئی اپنی بات ادھوری چھوڑ گئ۔۔۔
" بس اتنی سی بات۔۔۔ہمیں افسوس ہے کہ ہم بنا آپکو سمجھے آپ پر مسلط ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔۔۔
ہمیں آپکی ہر بات منظور ہے۔۔۔
ہم بھی آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہمارے ہوتے کسی اور شخص کو آپکو چھونے کی ہمت بھی نہیں ہوگی۔۔آپ آج سے صرف ہماری ہیں۔۔۔آپکی ہر رات صرف ہمارے لیے سجے گی۔۔۔
آپ صرف ہمارے لیے گائیں گی۔۔۔
آپکی چوڑیوں سے کھنکتی بانہیں صرف ہمارے گلے کا ہار بنیں گی۔۔۔
آپکے بستر پر ہمارے سوا کسی اور مرد کے نام کی سلوٹ نہیں پڑے گی۔۔۔
آپکے دل پہ صرف ہمارا نام۔کندہ ہوگا۔۔۔
بولیں منظور ہے۔۔۔"؟
سیٹھ شجاع نے موہنی کو اٹھا کر اسکی پیچھے سے زپ بند کی۔۔۔اور اسکا ہاتھ اپنے لبوں سے لگا کر دھیرے دھیرے بولا۔۔۔
" منظور ہے۔۔۔ہم وعدہ کرتے ہیں۔۔۔کہ اب کوئی اور ہمیں کبھی بھی چھو نہیں پائے گا۔۔۔ہمارے بستر پر کسی اور مرد کے نام کی سلوٹ کبھی نہیں پڑے گی۔۔۔
مگر ہمیں تھوڑا ٹائم چاہیے۔۔۔تاکہ جب ہم آپکے پاس آئیں تو اس میں ہماری مرضی کے ساتھ ہمارے دل کی خوشی بھی شامل ہو۔۔۔"
اک ادا سے کہتے موہنی نے اپنا سر سیٹھ شجاع کے کندھے کے ساتھ ٹکا دیا۔۔۔"
" منظور ہے۔۔۔جہاں اتنا انتظار کیا۔۔۔تھوڑا اور سہی۔۔. مگر چھوٹی موٹی کی گستاخی کی اجازت تو ہوگی ناں تب تک۔۔۔"
یہ کہ کر سیٹھ شجاع نے مسکراتے ہوئے موہنی کو اپنے ساتھ لپٹا لیا۔۔۔
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png



 

Episode, 18#

" ایسے کیا دیکھ رہے ہیں۔۔۔"؟
سیٹھ شجاع کے یک ٹک تکنے پہ موہنی خفیف سی سیدھی ہو کر بیٹھتے ہوئے بولی۔۔۔ساتھ ہی غیر محسوس انداز سے اپنے اور اسکے بیچ میں فاصلہ قائم کر گئ۔۔۔
" بہت چاہ تھی کہ دیکھیں گے انکو بے حجابانہ
مگر واہ ری قسمت حسرت حسرت ہی رہی"
سیٹھ شجاع نے موہنی کے سوال پہ ایک گہرا سانس لیا اور اس پہ نظریں گڑائے اک جزب سے شعر پڑھا۔۔۔
" آپ نے اس ڈریس کے ساتھ کیا کیا ہے۔۔۔ہم جیسا لائے تھے ویسے ہی آپکو پہنے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے۔۔۔"
سیٹھ شجاع شکوہ کناں لہجے میں بولا۔۔۔
" ہمیں پسند نہیں ہیں ایسے ڈریس۔۔۔ہم نے کبھی نہیں پہنے۔۔۔یہ بھی صرف آپکی وجہ سے پہن لیا۔۔۔"

" اوکے۔۔۔آج کا دن آپکا۔۔۔مگر کل سے آپ وہی پہنیں گی جو ہم پہنائیں گے۔۔۔رائٹ۔۔۔"؟
" جی۔۔۔"
موہنی نے یک لفظی جواب دیا۔۔۔
" آپ سچ میں بہت الگ ہیں سب سے۔۔۔ہماری سوچ سے بھی زیادہ۔۔۔کیا سچ میں آپ یہیں کی ہیں۔۔۔
آپ جانتی ہیں اگر ہم نے اتنی عنایت یہاں" کسی" اور پہ لٹائی ہوتی۔۔۔تو وہ اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتی۔۔۔لباس کا تکلف کیے بنا ہماری آغوش میں چلی آتی۔۔۔مگر آپ۔۔۔۔
" ہم موہنی ہیں سیٹھ جی۔۔۔" کسی" نہیں۔۔۔اور نہ ہی ہمیں " کسی" بننا ہے۔۔۔
اگر ہم انکے جیسے ہوتے تو آپ نہیں۔۔۔بلکہ ہم آپ کی نظر عنایت کے لیے تڑپ رہے ہوتے۔۔۔"
موہنی سیٹھ شجاع کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ٹھہر ٹھہر کر اسکی بات بیچ میں ہی کاٹ کر بولی۔۔۔
" یو آر ایبسلیوٹلی رائٹ۔۔۔بلکل ٹھیک کہا آپ نے۔۔۔
" ہم ہمیشہ سوچتے تھے کہ ایسا خاص کیا ہے آپ میں۔۔۔جو آپ ہمیں سب سے الگ لگتی ہیں۔۔۔ہم آپ کی طرف کھینچے جاتے ہیں۔۔۔ہم بہت غصہ ہونے کے باوجود آپ سے ایک لفظ نہیں کہ سکے۔۔۔
اور اس کا جواب ہمیں آج آپ کو چھو کر ملا۔۔۔آپ کو قریب سے دیکھ کرملا۔۔۔
حسن میں جب حیا کی آمیزش بھی ہو تو وہ حسن کو دوآتشہ کر دیتی ہے۔۔۔مرد ہمیشہ ایسی عورت کی زلفوں کا اسیر رہتا ہے۔۔۔
بے باک عورت وقتی طور پہ ہر مرد کو اٹریکٹ کرتی ہے۔۔۔مگر ایسی عورت سے مرد کا دل بہت جلد بھر جاتا ہے۔۔۔
اور ہمیں لگتا ہے کہ ہم آپکی چاہ کی قید سے کبھی نہیں نکل پائیں گے۔۔۔سیٹھ شجاع خمار آلود لہجے میں بولا۔۔۔اور موہنی کو پھر سے اپنے قریب کرنا چاہا۔۔۔مگر وہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنا رخ موڑ گئ۔۔۔
" تو کیا جواب ملا ہے آپ کو۔۔۔ہم بھی جاننا چاہیں گے۔۔۔"
موہنی نے بنا پلٹے کہا۔۔۔
آپکی یہ ادائیں۔۔۔آپکا یوں حیا کھانا۔۔۔اور
یہی بات آپکو سب سے الگ کرتی ہے۔۔۔ہم آپ سے جھوٹ نہیں بولیں گے۔۔۔ہماری زندگی میں بہت سی لڑکیاں آئیں۔۔۔کچھ پیسوں کے لالچ میں اپنی مرضی سے۔۔۔اور کچھ ایسی جن کو بنا انکی مرضی کے ہم نے ہر قیمت پہ زبردستی حاصل کیا۔۔۔جس پہ بھی نظر ٹھہرتی وہ ہمارے بستر کی زینت بن جاتی۔۔۔
مگر جب آپ پہ نظر ٹھہری۔۔۔تو کہیں اور بھٹکنا بھول گئ۔۔۔ آپکی ناں کو ہاں میں بدلنے کے لیے کبھی آپکے ساتھ وہ سب نہیں کرسکے جو باقی سب کے ساتھ کیا۔۔۔ہم چاہتے تو کب کا آپکو حاصل کر چکے ہوتے۔۔۔اور کوئی ہمیں روک بھی نہ پاتا۔۔۔
مگر ہم چاہ کر بھی ایسا نہیں کر سکے۔۔۔کیا کیا ہے آپ نے ہمارے ساتھ۔۔۔آپ جادوگرنی تو نہیں ہیں کہیں۔۔۔جو سب کو اپنے بس میں کر لیتی ہے۔۔۔
بہت ظلم کیا ہے آپ نے آج ہمارے ساتھ۔۔۔جنت کے دروازے تک لا کر ہمیں باہر دھکا دے دیا۔۔۔ہماری طلب کو اور ہوا دے دی ہے۔۔۔"
سیٹھ شجاع موہنی کے پیچھے سے اسکے قریب آ کر اسکے برہنہ کندھے پہ اپنے ہونٹ رکھتے ہوئے اسکے پیٹ کے گرد اپنے دونوں بازو حائل کر کے جزبات سے چور لہجے میں بولا۔۔۔پھر اسے ہلکا سا پیچھے کو جھٹکا دیا تو موہنی کی پشت سیٹھ شجاع کے سینے سے جا لگی۔۔۔اسے پھر بہکتے دیکھ کر موہنی پریشان ہونے لگی۔۔۔جان اسکی تب نکلی جب
سیٹھ شجاع کے ہاتھ کو اپنے پیٹ سے سرکتے ہوئے اپنے سینے کی طرف آتا محسوس کیا۔۔۔
" آآآآپ نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ آپ ہماری بات کا مان رکھیں گے۔۔۔یہاں نہیں۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔۔"
سیٹھ شجاع کے بازوؤں پہ دباؤ ڈال کر ان کا گھیرا توڑ کر موہنی دور جا کر کھڑے ہوتے ہوئے روہانسے لہجے میں بولی۔۔۔
" اففففففف۔۔۔بہت ظالم ہیں آپ۔۔۔"
کہتے ساتھ ہی سیٹھ شجاع بیڈ پہ نڈھال سا ہو کر گر پڑا۔۔۔موہنی نے سکون کا گہرا سانس لیا تھا۔۔۔مگر دوسرے پل اس کا سکون غارت ہوا تھا جب سیٹھ شجاع نے اپنے بازو وا کر کے موہنی کو اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا۔۔۔
" فکر مت کریں آج ہم آپکی مرضی کے بنا کچھ نہیں کریں گے۔۔۔بس آپکو محسوس کرنا چاہتے ہیں۔۔۔"
موہنی کو اپنی جگہ کھڑے تذبذب کا شکار ہوتے دیکھ کر سیٹھ شجاع مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔
موہنی مرتی کیا نہ کرتی۔۔۔اسکی ہر بات پہ چوں چراں سیٹھ شجاع کو اب بھی اور بعد میں بھی شک میں مبتلا کرسکتی تھی۔۔۔موہنی پہ وہ یقین کر گیا تھا۔۔۔اور یہ اسکی پہلی کامیابی تھی۔۔۔اس لیے جیسے یہ کھیل چل رہا تھا۔۔۔اسکو ابھی مزید ویسے ہی چلانا تھا۔۔۔یہی سوچ کر وہ اسکے پاس جا بیٹھی۔۔۔
سیٹھ شجاع نے تھوڑا سا کھسک کر بیڈ پہ اسکے لیے جگہ بنائی اور موہنی کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر اسکو اپنے برابر میں لٹا لیا۔۔۔آپ بہت حسین ہیں موہنی جی۔۔۔بہت زیادہ۔۔۔آپ کو سامنے پا کر ہم بے بس ہونے لگتے ہیں۔۔۔کہتے ساتھ ہی سیٹھ شجاع نے موہنی کے ہونٹوں پہ اپنے ہونٹ رکھنے چاہے مگر موہنی پھرتی سے اپنا ہاتھ سیٹھ شجاع کے ہونٹوں پہ رکھ کر اپنا چہرہ موڑ گئ۔۔.
" یہ بھی چیٹنگ ہے جناب۔۔۔"
موہنی نے اسی حالت میں کہا۔۔۔
سیٹھ شجاع موہنی کی اس حرکت پہ جز بز ہوتا اٹھ کھڑا ہوا اور بیڈ کے سامنے پڑی ریلیکسنگ چئیر پہ جا بیٹھا۔۔۔پھر اٹھ کر اپنے لیے ڈرنک بنانے لگا۔۔۔
اسے ڈرنک بناتے دیکھ کر موہنی نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا۔۔۔کیونکہ نیلم بائی نے اسکو بتایا تھا کہ اس نے ڈرنک میں نیند کی گولیاں ڈال دی تھیں۔۔۔
سیٹھ شجاع کی بڑھتی ہوئی گستاخیاں اب اسکی برداشت سے باہر ہو رہی تھیں۔۔۔
" آج رات۔۔۔بس آج کی رات ہے آپکے پاس۔۔۔ہم آپکو زبان دے چکے ہیں۔۔۔اور اسے نبھائیں گے بھی۔۔۔مگر کل ہم یہ سب برداشت نہیں کریں گے۔۔۔"
سیٹھ شجاع موہنی کی طرف دیکھ کر اس پہ ایک گہری نگاہ ڈالتے ہوئے گھونٹ گھونٹ ڈرنک کرتا ہوا بولا۔۔۔
تھوڑی دیر تک جب موہنی نے دیکھا کہ اس پہ نشہ طاری ہونے لگا ہے تو وہ بیڈ سے اٹھی اور سیٹھ شجاع کو سہارا دے کر بیڈ پہ لٹا دیا۔۔۔اور اسکی شرٹ اتار کر زمین پہ پھینکی۔۔۔اسکا والٹ اور کیز نکال کر ٹیبل پہ رکھ دیں۔۔شوز بھی اتار دئیے۔۔۔پھر ہلکے ہلکے سے اپنے بال الجھائے۔۔۔لپ اسٹک اور اپنا کاجل خراب کیا۔۔۔اور چئیر پہ بیٹھ کر صبح ہونے کا انتظار کرنے لگی۔۔۔

دروازے پہ زوردار دستک کی آواز پہ سیٹھ شجاع برا سا منہ بناتا اٹھ کر بیٹھا تو اسکی نظر سامنے چئیر پر بے سدھ موہنی پہ پڑی۔۔۔پھر اپنے شرٹ لیس وجود پہ۔۔۔موہنی کا اور اس کا حلیہ ایک الگ کہانی سنا رہا تھا۔۔۔
موہنی بھی کب کی جاگ چکی تھی۔۔۔مگر جان بوجھ کر سوتی بنی رہی۔۔۔
" موہنی۔۔۔۔موہنی۔۔۔۔"
سیٹھ شجاع نے موہنی کو کندھے سے پکڑ کر اس کو جھنجوڑ کر اٹھاتے ہوئے پکارا۔۔۔
" آپ۔۔۔آپ دور رہیں مجھ سے۔۔۔ہاتھ مت لگائیں مجھے۔۔۔دھوکا دیا ہے آپ نے بھی مجھے۔۔۔آپ نے۔۔۔آپ نے۔۔۔"
سیٹھ شجاع کے ہاتھ جھٹک کر موہنی اُٹھ کر کھڑے ہوتے ہوئے غصے سے بولی۔۔۔
سیٹھ شجاع حیران ہو کر موہنی کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔جو موہنی کہ رہی تھی۔۔۔اسے ایسا کچھ بھی یاد نہیں آ رہا تھا۔۔۔مگر اپنا اور موہنی کا حلیہ دیکھ کر وہ سوچنے لگا کہ شائد اس نے زیادہ پی لی تھی۔۔۔اسی لیے ہوش کھو بیٹھا۔۔۔
" جب بھی ہم نے کسی سے کوئی کمٹمنٹ کی اسے ہر صورت نبھایا مگر۔۔۔۔۔زندگی میں پہلی بار ہم اپنی زبان کا پاس نہیں رکھ سکے۔۔۔یہ سب کیسے ہوا نہیں جانتے۔۔۔ہم سوری بھی نہیں کہیں گے۔۔۔آج نہیں تو کل بھی یہی ہونا تھا۔۔۔فرق بس اتنا ہے کہ جیسے ہم چاہتے تھے ویسے نہیں ہوا۔۔۔خیر۔۔۔
ہم کل شام کو آئیں گے۔۔۔تیار رہیے گا۔۔۔کل سے آپ ہمارے ساتھ ہمارے فارم ہاؤس پہ رہیں گی۔۔۔اور یہاں سے کچھ بھی ساتھ لے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔آپکی ضرورت کی ہر چیز وہاں مل جائے گی آپکو۔۔۔
یہ 5 لاکھ آپ کی آج کی رات کی قیمت۔۔۔کل ہم آ کر خانم سے باقی کی ساری ڈیل تہ کر لیں گے۔۔۔"
سیٹھ شجاع نے زمین سے اپنی شرٹ اٹھا کر پہنی۔۔۔پھر اپنے شوز پہنے۔۔۔اور ٹیبل سے اپنا والٹ اور کیز اٹھا کر۔۔۔ 5 لاکھ کی گڈی ٹیبل پہ رکھتے ہوئے بولا۔۔۔اور موہنی پہ ایک نظر ڈال کر چلا گیا۔۔۔
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png


عینا جیسے ہی اپنے کمرے میں داخل ہوئی تو خود پہ باندھے ضبط کے سبھی بندھن ٹوٹ گئے۔۔۔وہ تقریباً بھاگتی ہوئی واش روم میں گھسی۔۔۔اور اندر سے لاک لگا دیا۔۔۔
اپنی سسکیوں کو روکنے کے لیے اس نے اپنے دوپٹے کا گولا سا بنا کر منہ میں اڑس لیا۔۔۔پھر وہیں دروازے کے ساتھ بیٹھتی چلی گئ۔۔۔اسکی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب رواں تھا۔۔۔اس کا دل چیخ چیخ کر رونے کو چاہ رہا تھا۔۔۔کہ زمین آسمان ہل جائیں۔۔۔مگر اپنی ہر چیخ کا گلا گھونٹتی سسکیوں کی صورت اپنے دل کا غبار نکالنے لگی۔۔۔کچھ دیر بعد دور کہیں سے فجر کی اذان کی آواز کانوں میں پڑی۔۔۔تو بے حس و حرکت دل پی دل میں اس آواز پہ لبیک کہنے لگی۔۔۔
شدید رونے کی وجہ سے اسکی آنکھیں سرخ ہو کر سوج گئ تھیں۔۔۔اسے اپنی آنکھوں میں جلن اور چبھن محسوس ہونے لگی۔۔۔تو اٹھ کر ان میں پانی کے چھینٹے مارے۔۔۔پھر وضو کر کے باہر آئی اور نماز کے لیے کھڑی ہو گئ۔۔۔نماز سے فارغ ہوئی تو سجدے میں سر گرا کر کتنی دیر الّٰلہ سے فریاد کناں رہی۔۔۔اجالا کے لیے دعا کرنے کے بعد منہ پہ ہاتھ پھیر کر گھٹنوں کے گرد اپنے دونوں بازوؤں کا گھیرا بنا کر ان پہ سر گرا کر پھر سے بے آواز آنسو بہانے لگی۔۔۔دل کا غبار کچھ ہلکا ہوا تو اٹھی اور جائے نماز تہ کرکے چئیر کی بیک پہ رکھ کر قرآن پاک کی تلاش میں نظریں ادھر ادھر بھٹکیں۔۔۔مایوس ہو کر بیڈ پہ بیٹھ گئ۔۔۔فجر کی طرف دیکھا کہ اسکو نماز کے لیے اٹھائے یا نہیں۔۔۔پھر کچھ سوچ کر اسکو آواز دی۔۔۔
" فجر آپی۔۔۔آپی اٹھ جائیں نماز کا ٹائم جا رہا ہے۔۔۔"
ایک دو آوازیں دینے کے بعد فجر نے ذرا کی ذرا آنکھیں کھول کر کلاک کی طرف دیکھا تو ٹائم دیکھ کر ہڑبڑا کر اٹھی۔۔۔
" اُففففف۔۔۔اتنا ٹائم ہوگیا۔۔۔"
کہتے ساتھ ہی وہ تیزی سے اٹھی۔۔۔جوتا پہنا اور واش روم میں گھس گئ۔۔۔عینا بیٹھ کر سورۃ یٰسین کی تلاوت کرنے لگی۔۔۔جو کہ مہرالنساء نے بچپن سے ہی تینوں بہنوں کو حفظ کروا دی تھی۔۔۔اجالا گھر میں سب سے چھوٹی اور لاڈلی ہونے کی وجہ سے لاپروائی سے کام لیتی تھی۔۔۔اس لیے ابھی وہ مکمل حفظ نہیں کر پائی تھی۔۔۔
انکے کمرے کے آگے سے گزرتا احتشام شاہ اسکی دل میں اترتی تلاوت کی آواز پہ بے خود سا ہو کر یک ٹک دروازے کو تکنے لگا۔۔۔
اس دن نہر پہ شرارتیں کرتے بھی اسکی آواز پہ وہ اور صارم بے خود سے اس طرف چلے آئے تھے۔۔۔مگر آج اسکی تلاوت کی آواز پہ ساری دنیا بھول کر کسی ٹرانس کے عالم میں وہیں جم گیا تھا۔۔۔
" کیا بات ہے بیٹا یہاں کیوں کھڑے ہو۔۔۔"؟
رشیداں بوا کی آواز پہ وہ یک دم اچھل کر ہوش کی دنیا میں واپس آیا تھا۔۔۔
" کک۔۔۔کچھ نہیں بوا۔۔۔وہ مم۔۔۔میں فجر کو اٹھانے آیا تھا کہ نماز پڑھ لے۔۔۔ٹائم جا رہا ہے۔۔۔"
احتشام شاہ سے کچھ نہ بن پڑا تو جو منہ میں آیا کہ دیا۔۔۔
رشیداں نے حیران ہو کر احتشام شاہ کی طرف دیکھا۔۔۔کہ اسکو کب سے نماز کی اتنی فکر ہونے لگی۔۔۔باقاعدگی سے نماز اس نے کبھی بھی نہیں پڑھی تھی۔۔۔جب دل کرتا تب پڑھ لیتا۔۔۔
" یہ عینا بی بی ہیں۔۔۔ماشآء الّٰلہ جادو ہے انکی آواز میں۔۔۔بہت پیاری بچیاں ہیں۔۔۔اور نیک سیرت بھی بہت ہیں۔۔۔بہت اچھی تربیت کی ہے مہرالنساء نے بچیوں کی۔۔۔"
رشیداں بوا احتشام شاہ کا دروازے کے سامنے ایسے کھڑے ہونے کی وجہ جان چکی تھی۔۔۔اسی لیے عینا کے بارے میں بتانے لگی کہ تلاوت وہ کر رہی ہے۔۔۔
" ہممممم۔۔۔"
احتشام شاہ سر ہلا کر دروازے پہ ایک نظر ڈال کر چلا گیا۔۔۔
" چھوٹی بی بی۔۔۔بی بی جی۔۔۔"
احتشام شاہ کے جانے کے بعد رشیداں بوا نے فجر کو پکارتے ہوئے دروازے پہ دستک دی۔۔۔فجر نماز ادا کرنے کے بعد دعا مانگ رہی تھی۔۔۔
عینا جو اپنی تلاوت مکمل کر چکی تھی۔۔۔اس نے ایک نظر فجر کی طرف دیکھا پھر اُٹھ کر دروازہ کھول دیا۔۔۔
" اسلام علیکم بوا۔۔۔"
" وعلیکم اسلام۔۔۔جیتی رہو۔۔۔بیٹا فجر بی بی کو بڑی بی بی اپنے کمرے میں بلا رہی ہیں۔۔۔"
" آرہی ہوں بوا۔۔۔بس دو منٹ۔۔۔"
فجر نے دعا مانگ کر منہ پہ ہاتھ پھیر کر جواب دیا۔۔۔

فجر ہائمہ خاتون کے کمرے میں داخل ہوئی تو وہاں پر صارم شاہ، احتشام شاہ پہلے سے ہی موجود تھے۔۔۔جب بھی کوئی اہم معاملہ ہوتا تھا تو شاہ سائیں اور ہائمہ خاتون اس میں بچوں کی رائے بھی لازمی لیا کرتے تھے۔۔۔اور یہ معاملہ ایسا تھا کہ شاہ سائیں نے اسکی مکمل ذمہ داری ہائمہ خاتون پہ ڈال کر کہ وہ بچوں سے بات کریں۔۔۔خود مردان خانے چلے گئے تھے۔۔۔ان کا خیال تھا کہ ماں بچوں کے زیادہ نزدیک ہوتی ہے۔۔۔اور بچے باپ کی نسبت ماں سے کھل کر اپنے دل کی بات کر لیتے ہیں۔۔۔
" کیا معاملہ ہے۔۔۔"
فجر نے آنکھوں ہی آنکھوں میں صارم شاہ کی طرف دیکھ کر پوچھا۔۔۔مگر صارم شاہ خود بے خبر تھا۔۔۔اس لیے کندھے اچکا گیا۔۔۔
" بیٹا مجھے آپ سب سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔۔اجالا والے معاملے کی وجہ سے تم لوگوں سے بات کرنے کا موقع ہی نہیں مل رہا۔۔۔
بیٹا تمہاری خالہ ایک خواہش کا اظہار کر رہی ہیں۔۔۔خواہش تو انکی برسوں پرانی ہے۔۔۔مگر اس وقت تم لوگ بہت چھوٹے تھے۔۔۔اس لیے ہم نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔۔۔مگر اب چونکہ تم لوگ بالغ ہو۔۔۔سمجھدار ہو۔۔۔اس لیے تم لوگوں کی ہم مرضی جانے بنا کوئی جواب نہیں دینا چاہتے۔۔۔کچھ دن تک انکی واپسی ہے۔۔۔تو اس لیے وہ چاہ رہی ہیں کہ جانے سے پہلے سب معاملات تہ کر کے جائیں۔۔۔
" ماما بات کیا ہے۔۔۔آپ کھل کر کہیں۔۔۔"
" بیٹا تمہاری خالہ شرجیل کے لیے فجر کا رشتہ اور احتشام کے لیے رامین کا رشتہ چاہ رہی ہیں۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے تینوں کے سر پہ بم پھوڑا تھا۔۔۔
" فجر ، صارم، احتشام تینوں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔۔۔کمرے میں گہرا سکوت طاری ہو گیا تھا۔۔۔
" ماما جب تک میں اپنی سٹڈی کمپلیٹ نہیں کر لیتی۔۔۔میں اس قسم کے کسی بھی معاملے میں انوالو نہیں ہونا چاہتی۔۔۔پلیز۔۔۔۔
فجر کے جواب کے بعد ہائمہ خاتون احتشام شاہ کی طرف دیکھنے لگیں۔۔۔
" ماما میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا۔۔۔اس لیے مجھے اس معاملے سے دور رکھیں۔۔۔"
احتشام شاہ نے دو ٹوک جواب دیا۔۔۔
" یہ کیا بات ہوئی بیٹا۔۔۔کب تک آپ ایسے انکار کرتے رہو گے۔۔۔اور یہ کوئی وجہ نہیں ہے انکار کی۔۔۔ہاں اگر آپ کے دل میں کچھ اور ہے تو بھی آپ بتا دو۔۔۔آپ جانتے ہو کہ ہمارے لیے سب سے پہلے آپکی مرضی اہم ہے۔۔۔
ہائمہ خاتون کی بات پر احتشام شاہ کی آنکھوں کے سامنے عینا کا عکس لہرایا تھا۔۔۔اس نے دل ہی دل میں خود پہ حیران ہوکر سر جھٹکا تھا۔۔۔
اگر کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہے۔۔۔تو میں آئمہ کو ہاں کر رہی ہوں۔۔۔رامین بہت پیاری بچی ہے۔۔۔اور مجھے پسند بھی۔۔۔
اور فجر کی تب تک انگیجمنٹ کر دیتے ہیں۔۔۔سٹڈی کمپلی۔۔۔۔۔۔"
" نہیں۔۔۔۔بلکل نہیں۔۔۔"
صارم شاہ اور احتشام شاہ کے منہ سے ایک ساتھ نکلا تھا۔۔۔فجر اور ہائمہ خاتون نے انکے ری ایکشن پر حیران ہو کر دونوں کی طرف دیکھا تھا۔۔۔
" سوری ماما ہم آپکی بات بیچ میں ہی کاٹ گئے۔۔۔ہمارا مطلب تھا کہ فجر کو بلکل بھی اس معاملے میں تنگ نہ کریں۔۔۔اگر وہ ایزی فیل نہیں کر رہی۔۔۔
" ہممممم۔۔۔اور آپ۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے جانچتی نظروں سے احتشام کی طرف دیکھا تھا۔۔۔
" ماما پلیز۔۔۔۔میں نے کہا ناں کہ ابھی نہیں۔۔۔"
احتشام شاہ نے اب کی بار التجائیہ انداز میں کہا۔۔۔
" تو ٹھیک ہے پھر ہم صارم کا رامین سے تہ کر دیتے ہیں۔۔۔
" واٹ۔۔۔نہیں پلیز۔۔۔ہرگز نہیں۔۔۔"
صارم شاہ بال اپنے کورٹ میں آتا دیکھ کر اپنی جگہ سے اچھل کر کھڑا ہوا تھا۔۔۔
" آخر مسلہ کیا ہے تم لوگوں کے ساتھ۔۔۔کہیں اور بھی انوالو نہیں ہو۔۔۔پھر ایسا ری ایکشن میری سمجھ سے باہر ہے۔۔۔نہ تم لوگ فجر کا کرنے پہ راضی ہو رہے ہو۔۔۔
" ماما میں کسی اور کے لیے سوچ چکا ہوں۔۔۔"
صارم شاہ نے دھماکا کیا تھا۔۔۔جس پہ کمرے میں موجود سب لوگ حیران ہو کر اسکی طرف دیکھنے لگے۔۔۔احتشام شاہ کے ہونٹوں پہ مبہم سی مسکراہٹ در آئی تھی۔۔۔اور پھر فجر بھی مسکرانے لگی۔۔۔صارم شاہ ان دونوں کی طرف دیکھ کر گھورنے لگا۔۔۔
" کون ہے وہ۔۔۔"؟
ہائمہ خاتون نے اپنا رخ مکمل طور پہ صارم شاہ کی طرف موڑ کر پوچھا۔۔۔
" عائلہ۔۔۔"
فجر نے مسکراتے ہوئے صارم کی طرف سے جواب دیا۔۔۔جبکہ صارم نے فجر کی بات پر سر جھکا کر اسکی بات کی تصدیق کردی۔۔۔
" کیا عائلہ کی بھی یہی خواہش ہے۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے دوسرا سوال کیا۔۔۔
" معلوم نہیں۔۔۔کہ وہ کیا سوچتی ہے۔۔۔وہ تو شائد جانتی بھی نہیں میری فیلنگز کے بارے۔۔۔"
صارم شاہ نے سر جھکائے جھکائے جواب دیا۔۔۔
" تو پھر پہلے معلوم کرو۔۔۔اس کے بعد ہم بات کریں گے۔۔۔اگر وہ راضی ہے تمہارے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔۔۔
" ویسے یہ بچیاں مجھے بھی بہت اچھی لگی ہیں۔۔۔الّٰلہ نے خوبصورتی کے ساتھ سیرت بھی خوب دی ہے۔۔۔تم نہ بھی بتاتے۔۔۔میں اسے بہو بنانے کا سوچ چکی تھی۔۔۔وہ تو بس میں نے سوچا کہ موقع اچھا ہے تم سے بھی سچ اگلوا لوں۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے صارم شاہ کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔"
" تھینکس ماما۔۔۔آپ سچ میں دنیا کی بیسٹ ماما ہیں۔۔۔"
صارم شاہ اپنی جگہ سے اٹھ کر ہائمہ خاتون کے گرد اپنے بازوؤں کا گھیرا ڈال کر انکے گال پہ زوردار پیار کرتے ہوئے بولا۔۔۔
" ہممممم۔۔۔اچھا تو اب یہ بتاؤ کہ تمہاری خالہ کو کیا جواب دوں۔۔۔
" ماما آپ خالہ کو انکار کردیں۔۔۔وہ ہماری خالہ ہیں۔۔۔ہمارے دل میں انکے لیے بہت احترام اور محبت ہے۔۔۔مگر رشتہ نہیں۔۔۔"
احتشام شاہ نے اب کی بار صاف طور پہ منع کرنا ہی مناسب سمجھا۔۔۔
" جی ماما۔۔۔میں بھی بھائی جان کی بات سے ایگری ہوں۔۔۔"
صارم شاہ نے جواب دیا۔۔۔
" بات کیا ہے۔۔۔کیا کچھ ایسا ہے جو میں نہیں جانتی۔۔۔"؟
ہائمہ خاتون نے ان پہ نظریں گڑا کر پوچھا۔۔۔
" ماما پلیز۔۔۔آپ انکار کر دیں بس۔۔۔کچھ بھی کہ دیں۔۔۔آپ کہ دیں کہ میں بھی اپنی زندگی کا فیصلہ کر چکا ہوں۔۔۔اور فجر کو اتنی دور نہیں بھیج سکتے۔۔۔"
احتشام شاہ نے بے بسی سے انکی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔
ہائمہ خاتون کو ان کا اس طرح سے انکار کرنا بہت کچھ سمجا رہا تھا۔۔۔مگر فجر کے خیال سے چپ کر گئیں۔۔۔کہ بعد میں پوچھ لیں گی۔۔۔
" ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔جیسے آپ لوگوں کی مرضی۔۔۔"
ٹھیک ہے اب تم لوگ جا سکتے ہو۔۔۔میں چکر لگاؤں گی ہاسپٹل۔۔۔جب جاؤ تو مجھے بتا دینا۔۔۔"
" جی بہتر۔۔۔"
صارم شاہ نے جواب دیا۔۔۔پھر تینوں کمرے سے نکلتے چلے گئے۔۔۔ہائمہ خاتون انکے جانے کے بعد گہری سوچوں میں غرق ہو گئیں۔۔۔انکی سمجھ سے باہر تھا کہ چند دنوں میں ایسا کیا ہوا ہے۔۔۔جس کی وجہ سے دونوں بھائی اس رشتے کے خلاف ہیں۔۔۔

" عینا یار آ جاؤ۔۔۔کھانے پہ سب ویٹ کر رہے ہیں۔۔"
فجر عینا کے روم میں آ کر بولی۔۔۔
" ہم ادھر ہی۔۔۔"
نہیں جی۔۔۔امی جان کا حکم ہے کہ آپ لوگ سب کے ساتھ ہی کھانا کھایا کریں گے اب سے۔۔۔"
فجر نے اسکی طرف دیکھ مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔جبکہ عینا شہریار کے بھی وہاں موجود ہونے کا سوچ کر تذبذب کا شکار ہو گئ۔۔۔
" نہیں پلیز میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔میں ادھر ہی کھا لوں گی۔۔۔
" اس وقت کھانے کی ٹیبل پر سبھی لوگ موجود تھے۔۔۔سوائے شہریار کے۔۔۔
" یہ شہریار بیٹا نظر نہیں آ رہا۔۔۔وہ نہیں آیا کھانے پہ۔۔۔طبیعت ٹھیک ہے اسکی کیا۔۔۔رشیداں بوا دیکھیں ذرا اسکو۔۔۔اور بلا کر لائیں۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے رشیداں بوا سے کہا۔۔۔جو پانی کا جگ ٹیبل پہ رکھ کر کچن میں جا رہی تھیں۔۔۔
" فجر بیٹا آپ نے کہا نہیں عینا سے کھانے کے لیے۔۔۔"؟
ہائمہ خاتون نے فجر کو اپنے عینا اور ایمن کے لیے کھانا نکالتے دیکھ کر پوچھا۔۔۔
" ماما وہ شائد کمفرٹیبل فیل نہیں کر رہی۔۔۔اس لیے میں نے سوچا کہ یم وہیں کھا لیتے ہیں۔۔۔
" ماما رہنے دیں اگر اس دل نہیں چاہ رہا تو آپ ادھر ہی بھجوا دیں۔۔۔"
احتشام شاہ نے فجر کی بات سن کر کہا
" بیٹا یہ مناسب نہیں لگتا۔۔۔ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے ایسے طور طریقوں سے غیریت جھلکتی ہے۔۔۔اس وقت وہ جن حالات سے گزر رہی ہیں۔۔۔انکو یہ احساس دلانے کی بہت ضرورت ہے کہ ہم انکے ساتھ ہیں۔۔۔ایک فیملی کی طرح۔۔۔اور وہ اس گھر میں گھر کے باقی افراد کی طرح ہی ہیں۔۔۔میں خود دیکھتی ہوں۔۔۔آپ لوگ شروع کریں۔۔۔"
اتنا کہ کر ہائمہ خاتون اپنی چئیر سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔۔جبکہ آئمہ خاتون کو یہ خاطر تواضع حد سے زیادہ لگ رہی تھی۔۔۔

" عینا بیٹا اس گھر کو اپنا گھر ہی سمجھو۔۔۔اور ریلیکس ہوکر کھاؤ۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے عینا سے کہا۔۔۔جو کہ بہت جھجک کر اپنی اور ایمن کی پلیٹ میں کھانا نکال رہی تھی۔۔۔اس نے جی کہ کر باقی سب پہ ایک سرسری نظر ڈالی مگر اسکی طرف کوئی بھی متوجہ نہیں تھا۔۔۔سب لوگ سر جھکائے اپنے اپنے کھانے میں بزی تھے۔۔۔ہائمہ خاتون نے اسکو اتنے پیار اور اپنائیت سے سب کے ساتھ کھانے کا کہا تھا کہ وہ چاہ کر بھی انکار نہیں کرسکی۔۔۔شہریار کو وہاں نہ پاکر وہ پرسکون ہوگئ تھی۔۔۔
احتشام شاہ نے بغور اسکا جائزہ لیا تھا۔۔۔اسکی سوجی آنکھیں دیکھ کر اسکو شہریار پر ایک بار پھر طیش آیا تھا۔۔۔
اس بات سے ہر کوئی بے خبر تھا کہ شہریار کو اس نے منع کیا تھا کہ جب تک وہ بچیاں اس گھر میں موجود ہیں۔۔۔انکی موجودگی میں وہ کمرے سے باہر نہیں نکلے گا۔۔۔
بلکہ جتنی جلدی ہوسکے واپس چلا جائے۔۔۔اس سے پہلے کہ کسی کو اس بات کی بھنک بھی پڑے۔۔۔کیونکہ بابا سائیں انصاف کرتے وقت اپنے خون کا بھی لحاظ نہیں کرتے۔۔۔اور اگر انکو پتہ چل گیا تو اس گھر میں بھی پنچایت لگ جائے گی۔۔۔اور جو فیصلہ ہوگا وہ دونوں فیمیلیز سہ نہیں پائیں گی۔۔۔
" رشیداں بوا مہرالنساء اور عائلہ بیٹے کے لیے کھانا پیک کردیں۔۔۔ہاسپٹل جاتے وقت ہم انکے لیے بھی لیتے جائیں گے۔۔۔"
ہائمہ خاتون کے ہم کہنے پر سب نے حیران ہوکر انکی طرف دیکھا۔۔۔
میں سوچ رہی تھی کہ ہاسپٹل کا ایک چکر لگا آؤں۔۔۔اتنے دن ہوگئے۔۔۔مجھے پہلے دن ہی جانا چاہیے تھا۔۔۔مگر سارا دن آئمہ کے ساتھ اتنا بزی گزرتا ہے کہ ٹائم ہی نہیں مل رہا۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے سب کو اپنی طرف دیکھتا پا کر وضاحت کی۔۔۔صارم شاہ کی خواہش جان کر اب انکو لگ رہا تھا کہ انکو ایک چکر ہاسپٹل کا لازمی لگانا چاہیے۔۔۔بچوں کے فیصلے سے وہ شاہ سائیں کو آگاہ کر چکی تھیں۔۔۔شاہ سائیں تو پہلے بھی بچوں کے ساتھ زور زبردستی کے سخت خلاف تھے۔۔۔اس لیے انھوں نے کہ دیا تھا کہ جیسے بچوں کی خوشی۔۔۔اور عینا کو کھانے کے لیے کہنا بھی انھی کا فیصلہ تھا تا کہ بچیاں فیملی میں گھل مل جائیں۔۔۔اور ہائمہ خاتون کو یہ بات بلکل ٹھیک لگی تھی۔۔۔
" آپا آپ میری فکر نہ کریں۔۔۔جیسے آپکو بہتر لگے آپ وہ کریں۔۔۔ویسے بھی ہم نے ایک دو دن تک چلے ہی جانا ہے۔۔۔ان لوگوں کے ساتھ تو آپ نے ساری عمر رہنا ہے۔۔۔"
آئمہ خاتون کی باتوں میں سب کو شکوہ واضح طور پہ محسوس ہوا۔۔۔ہائمہ خاتون نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ فوراً شاہ سائیں بولے۔۔۔
" اچھا بھئ یہ سب باتیں تو ہوتی رہیں گی۔۔۔میرے پاس آپ سب لوگوں کے لیے ایک بہت اچھی خبر ہے۔۔۔"
شاہ سائیں نے اپنا کھانا ختم کر چکنے کے بعد گفتگو میں حصّٰہ لیا۔۔۔سب سوالیہ نظروں سے انکی طرف دیکھنے لگے۔۔۔
" اچھی خبر یہ ہے کہ۔۔۔۔
شاہ سائیں نے سسپنس کری ایٹ کرتے ہوئے بات ادھوری چھوڑی۔۔۔
" اب بتا بھی دیں۔۔۔ایسی کیا بات ہے جو اتنا ویٹ کروا رہے ہیں۔۔۔
ہائمہ خاتون نے کہا۔۔۔
" بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے علاقے میں بچیوں کے ہائیر سیکنڈری سکول و کالج کے لیے گورنمنٹ کو جو درخواست دی تھی وہ منظور ہو گئ ہے۔۔۔اور بہت جلد اس پہ کام شروع ہو جائے گا۔۔۔اب بچیوں کو میٹرک اور ایف۔اے کے لیے شہر نہیں جانا پڑا کرے گا۔۔۔
شاہ سائیں نے سب کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
" کیا۔۔۔سچ میں۔۔۔بہت زبردست۔۔۔بہت بہت مبارک ہو بابا جان۔۔۔آخر آپکی کوششیں رنگ لے ہی آئیں۔۔۔"
صارم شاہ نے بھرپور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔۔۔
باقی سب نے بھی خوشی کا اظہار کیا اور مبارک باد دی۔۔۔
" مبارک ہو شاہ جی۔۔۔آپ نے اس گاؤں کے لیے جو کیا ہے لوگ ہمیشہ اسکو یاد رکھیں گے۔۔۔"
عینا نے بھی خوش ہو کر کہا۔۔۔
" بیٹا آپ مجھے شاہ جی نہیں۔۔۔بلکہ انکل کہ کر بلا سکتی ہو۔۔۔شاہ سائیں میں گاؤں والوں کے لیے ہوں۔۔۔اپنے بچوں کے لیے نہیں۔۔۔
آپ فجر کی دوست ہو تو جیسے فجر میری بیٹی ہے۔۔۔آپ لوگ بھی ہو۔۔۔"
شاہ سائیں نے عینا کے سر پہ شفقت سے ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔

" اسلام علیکم۔۔۔کیسی ہیں آپ۔۔۔اور اجالا کیسی ہے۔۔۔"؟
ہائمہ خاتون مہرالنساء کے گلے لگتے ہوئے بولیں۔۔۔
اس وقت مہرالنساء اور عائلہ آئی سی یو کے باہر کھڑی تھیں۔۔۔اجالا کو ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا۔۔۔
صارم شاہ کے ساتھ عینا، ایمن اور ہائمہ خاتون ہاسپٹل آئیں تھیں۔۔۔عینا اپنی ماں سے مل کر عائلہ کے پاس کھڑی ہو گئ۔۔۔جبکہ ہائمہ خاتون مہرالنساء سے باتوں میں مصروف ہو گئیں۔۔۔

2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png


ماضی۔۔۔۔۔!
" اُوئے ہیرو۔۔۔چل باہر آ۔۔۔ملاقات آئی ہے تیری۔۔۔"
سنتری نے لاک اپ کھولتے ہوئے طنزیہ لہجے میں دانی سے کہا۔۔۔
" کون آیا ہے۔۔۔"؟
دانی نے فاطمہ کا سوچ کر پوچھا۔۔۔کہ اگر وہ ہے تو ملنے سے انکار کردے گا۔۔۔
" میں نوکر ہوں تیرا۔۔۔کہ جا کے پہلے دیکھوں۔۔۔پھر نواب صاحب کو آ کر اطلاع دوں۔۔۔چل نکل باہر۔۔۔خود دیکھ لے جاکے۔۔۔"
سنتری نے دانی کو گریبان سے کھینچ کر باہر نکالتے ہوئے کہا۔۔۔
" بھولے تو۔۔۔"
ملاقات والے روم میں فاطمہ کی جگہ بھولے کو دیکھ کر دانی نے سکون بھرا سانس لیا تھا۔۔۔بلال عرف بھولا عمر میں اس سے ایک سال بڑا تھا۔۔۔مگر قد کاٹھ میں دانی بڑا لگتا تھا۔۔۔
وہ اس کے ساتھ ہی ورکشاپ پہ کام کرتا تھا۔۔۔دونوں میں عمر کا فرق ہونے کے باوجود بہت اچھی دوستی تھی۔۔۔اپنے گھر والوں کے منع کرنے کے باوجود وہ ایک دو بار پہلے بھی دانی سے جیل میں ملنے آ چکا تھا۔۔۔
" کیسا ہے تو۔۔۔"
بھولے نے پوچھا
" ٹھیک ہوں یار۔۔۔تو بتا بہت بڑی دیر بعد چکر لگایا ہے۔۔۔اور ماسو ماں اور فاطمہ آپی کا کیا حال ہے۔۔۔"؟
سب ٹھیک ہیں یار۔۔۔لیکن۔۔۔"
" لیکن۔۔۔لیکن کیا۔۔۔"؟
دانی نے بے چینی سے پوچھا۔۔۔
" یار جن لڑکوں سے تیرا جھگڑا ہوا تھا۔۔۔وہ خالہ کو بہت پریشان کر رہے ہیں۔۔۔کبھی گھر میں مرا ہوا کوا پھنیک دیتے ہیں۔۔۔اور کبھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
بلال نے ہر بات دانی کو بتا دی۔۔۔جسے سن کر اس کا خون کھولنے لگا۔۔۔۔
" مم۔۔۔۔میں چھوڑوں گا نہیں ان حرامزادوں کو۔۔۔ایک تو پہنچنے والا ہے اگلے جہاں۔۔۔ان سب کو بھی پہنچا کر ہی دم لوں گا۔۔۔"
دانی نے اپنے ایک ہاتھ کا مکا بنا کر زور سے دیوار پہ مار کر غصے سے کہا۔۔۔
" تھوڑا حوصلہ رکھ یار۔۔۔چند دن تیرے چھوٹنے میں رہ گئے ہیں۔۔۔ایسا نہ ہو کہ ان کو کوئی بہانہ مل جائے۔۔۔تیری سزا بڑھانے کا۔۔۔تو باہر آ جا پھر نمٹ لیں گے ان سے۔۔۔"
بھولا دانی کو سمجھاتے ہوئے بولا۔۔
" کیا محلے لوگ اور حمید چاچا اس بات سے سے بے خبر ہیں۔۔۔وہ کچھ نہیں کہتے کیا۔۔۔"
دانی کے ذہن میں حمید چاچا کا خیال آیا۔۔۔
" حمید چاچا کیا۔۔۔سب لوگ جانتے ہیں۔۔۔مگر کوئی بھی ان لوگوں کے ڈر سے اب اس معاملے میں پڑنا نہیں چاہتا۔۔۔یہ دنیا ایسی ہی ہے یار۔۔۔ہر شخص بزدل، خود غرض اور مطلبی۔۔۔اپنی عزت اور جان کے ڈر سے کوئی کسی کے معاملے میں نہیں پڑتا۔۔۔"
بلال نے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
" ہممممم۔۔۔ٹھیک کہ رہا ہے تو۔۔۔"
" اچھا میں یہ تیرے کھانے کے لیے لایا تھا۔۔۔چکن برگر بہت پسند ہے ناں تجھے۔۔۔ لے کھا لے اسے۔۔۔ملاقات کا ٹائم بھی ختم ہونے والا ہے۔۔۔میں جمعرات کو آؤں گا۔۔۔اس دن رہائی ہے ناں تیری۔۔۔"
بھولے نے اپنی جیب سے ایک رول نکال کر دانی کو پکڑاتے ہوئے کہا۔۔۔ دانی نے بھولے می بات پہ اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
" بھولے جب تک میں باہر نہیں آ جاتا۔۔۔ماسو ماں اور فاطمہ آپی کی ذمہ داری میں تیرے حوالے کر رہا ہوں۔۔۔"
دانی نے بھولے سے کہا۔۔۔
" تو فکر نہ کر یار۔۔۔تیرے کہے بنا میں روز چکر لگاتا ہوں ادھر۔۔۔اچھا چلتا ہوں میں اب۔۔۔"

" ابے وہ دیکھ کون آ رہا ہے۔۔۔"
یہ مبین، اور اکرم تھے۔۔۔رئیس گھروں کے بگڑے ہوئے آوارہ لڑکے۔۔۔جن کے ساتھ دانی کا جھگڑا ہوا تھا۔۔۔
"یار آج تو کچھ بانٹنا چاہیے کہ آج اُنکے درشن ہوئے ہیں۔۔"
اکرم نے فاطمہ کی طرف دیکھ کر واہیات انداز میں اسکے پاس آکر مبین کو مخاطب کر کے کہا۔۔۔
جس رستے سے فاطمہ سکول پڑھانے جاتی تھی۔۔۔یہ دونوں اسکے آنے جانے کا ٹائم نوٹ کر کے پہلے سے ہی وہاں موجود ہوتے تھے۔۔۔اب بھی وہ چھٹی کے بعد باہر نکلی تو وہ اسکے راستے میں کھڑے ہو گئے۔۔۔
" یار ہم بھی بلکل اندھے ہیں ویسے۔۔۔اپنے ایرئیے میں حسن بکھرا پڑا ہے۔۔۔اور ہم اسکی تلاش میں باہر بھٹک رہے ہیں۔۔۔"
اکرم نے فاطمہ کا راستہ روک کر اسکی کلائی تھامنے کو کوشش میں ہاتھ بڑھا کر کہا۔۔۔
" سچ کہ رہا تو۔۔۔کیا خیال ہے چلیں پھر جنت کی سیر کو۔۔۔"
مبین نے کمینگی سے معنی خیز لہجے میں کہتے فاطمہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں جکڑا تھا۔۔۔
" لگتا ہے اس دن کی مار بھول گئے ہو۔۔۔جب میرے نکے سے ویر نے تن تنہا تم لوگوں کا مار مار کر برا حال کیا تھا۔۔۔مردانگی دکھانے کا بہت شوق ہے ناں تو تب دکھانی تھی۔۔۔کسی عورت کے ساتھ زور آزمائی کرنے والے مرد نہیں نامرد کہلاتے ہیں۔۔۔"
فاطمہ ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑواتے ہوئے بولی تھی۔۔۔
" تو۔۔۔تیری اتنی ہمت۔۔۔چل پہلے تجھے بتاتے ہیں کہ ہم مرد ہیں یا نامرد۔۔۔پھر تیرے اس بھائی نما یار کو بھی دیکھ لیں گے۔۔۔"
مبین نے کہتے ساتھ ہی فاطمہ کا بازو پکڑ کر اپنی گاڑی کی طرف کھینچ کر لانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔۔
" یہ کیا ہو رہا ہے۔۔۔"
گلی کے کونے سے اچانک آئی آواز پہ سب نے مڑ کر دیکھا تو بھولا وہاں کھڑا تھا۔۔۔
" تیری ماں نوں۔۔۔۔۔۔۔چھوڑ اسے۔۔۔
ایک غلیظ گالی نکال کر بھولے نے تیزی سے زمین پہ پڑا ایک پتھر اُٹھایا تھا۔۔۔
بھولے کو دیکھ کر اور پکڑے جانے کے ڈر سے فاطمہ کا بازو فوراً چھوڑ کر وہ لوگ دھمکیاں دیتے ہوئے وہاں سے بھاگ گئے۔۔۔
" آپ ٹھیک ہیں ناں۔۔۔"
بھولا فاطمہ کے پاس آ کر بولا تھا۔۔۔فاطمہ نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔اور گھر کی طرف چل پڑی۔۔۔
" آپ فکر نہ کریں جی۔۔۔جب تک دانی باہر نہیں آ جاتا میں روزانہ آپکے سکول کے ٹائم پہ یہاں موجود ہوا کروں گا۔۔۔
اسکی آنکھوں میں نمی دیکھ کر بھولے کا دل خراب ہوا تو اسکو تسلی دیتے ہوئے بولا۔۔۔

" فاطمہ بیٹا شیخ صاحب اور خالد صاحب کے گھر سے کپڑوں کی سلائی کے پیسے آ گئے کیا۔۔۔"
رضوانہ خاتون نے فاطمہ سے پوچھا جو چاول چن رہی تھی۔۔۔
" جی امی جان۔۔۔دے گئے تھے وہ۔۔۔انھی پیسوں کا سودا لے آئی تھی میں سکول سے آتے۔۔۔"
فاطمہ نے کچن کی طرف جاتے جواب دیا۔۔۔آج دانی کی رہائی کا دن تھا۔۔۔فاطمہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اسکے لیے دنیا جہاں کی چیزیں پکا دے۔۔۔
مگر سلائی کے پیسے اور اسکی تنخواہ ملا کر بڑی مشکل سے گھر کی دال روٹی چلتی تھی۔۔۔بعض دفعہ تو کئ کئ دن انکے گھر سبزی کا ناغہ ہوتا۔۔۔سبز دھنیا کوٹ کر اسکی چٹنی سے روٹی کھا کر گزارہ کرنا پڑتا تھا۔۔۔
مگر آج مہینوں بعد انکی نظر میں عیاشی والا کھانا یعنی چاول اور دہی بڑے بن رہے تھے۔۔۔گوشت مہنگا ہونے کی وجہ سے چاہ کر بھی اسکی ہمت ہی نہیں ہوئی تھی لینے کی۔۔۔
" فاطمہ بیٹا تھوڑا سوجی کا حلوہ بھی بنا لو۔۔۔میرے دانی کو بہت پسند ہے۔۔۔"
رضوانہ خاتون نے اپنی وہیل چئیر کے دونوں پہیوں کو اپنے ہاتھوں سے گھما کر کچن کے سامنے آ کر کہا۔۔۔
" جی امی جان۔۔۔سب ہوگیا ہے۔۔۔"
فاطمہ نے جواب دیا۔۔۔
" بیٹا بلال نے بتایا نہیں کہ کب تک آئیں گے وہ لوگ۔۔۔"
" امی جان دوپہر 2 بجے تک کا کہا تھا اس نے۔۔۔"

دروازے پہ دستک کی آواز پہ فاطمہ نے بھاگ کر دروازہ کھولا تو سامنے ہی دانی اور بلال کھڑے تھے۔۔۔
" آ گئے تم لوگ۔۔۔دانی۔۔۔ آپی کی جان۔۔۔بہت یاد کیا تمہیں۔۔۔"
دونوں کے اندر آنے پہ فاطمہ خوشی کے مارے بے اختیار روتے ہوئے دانی کے گلے لگی تھی۔۔۔
" آپی پلیز ٹھیک ہوں میں۔۔۔"
دانی نے آہستہ سے فاطمہ کو خود سے الگ کرتے کہا۔۔۔
" ماسو ماں۔۔۔"
کمرے میں داخل ہوا تو رضوانہ خاتون چئیر پہ بیٹھی شکرانے کے نوافل ادا کر رہی تھیں۔۔۔دانی وہیں زمین پہ رضوانہ خاتون کے قدموں میں بیٹھ گیا۔۔۔
سلام پھیر کر دعا کرتے ہوئے رضوانہ خاتون کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہونے لگا۔۔۔انکے منہ سے ایک ہی لفظ کا ورد جاری تھا۔۔۔
" یاالّٰلہ تیرا شکر ہے۔۔۔یا الّٰلہ تیرا شکر ہے۔۔۔"
" میری جان۔۔۔میرا دانی۔۔۔"
الّٰلہ کا شکر ادا کرنے کے بعد رضوانہ خاتون دانی کو گلے سے لگائے بلند آواز سے رونے لگیں۔۔۔
کسی نے بھی انکو چپ کروانے کی کوشش نہیں کی تھی۔۔۔تاکہ وہ اندر کا بوجھ ہلکا کر لیں۔۔۔
" دانی میرے بچے۔۔۔تم نہیں جانتے تمہارے جانے کے بعد ہماری کیا حالت تھی۔۔۔ان 6 ماہ میں بہت تڑپی ہوں تمہیں دیکھنے کو۔۔۔ہر پل مر مر کے گزارہ ہے ہم نے۔۔۔"
رضوانہ خاتون دانی کو گلے لگا کر اس کا جگہ جگہ دے چہرہ چومتے ہوئے بولیں۔۔۔
" جانتا ہوں ماسو ماں۔۔۔سب جانتا ہوں۔۔۔
" " دانی تمہیں پولیس والوں نے مارا تو نہیں۔۔۔تنگ تو بہیں کیا۔۔۔"
رضوانہ خاتون دانی کے ہاتھ پکڑ کر اسکے چہرے اور پورے جسم کی طرف دیکھ کر بولیں۔۔۔
" نہیں ماسو ماں۔۔۔کسی نے ہاتھ بھی نہیں لگایا مجھے۔۔۔ایس ایچ او صاحب بہت اچھے انسان تھے۔۔۔بہت دھیان رکھا انھوں نے میرا۔۔۔"
دانی اہنی ماسو ماں کو پرسکون کرنے کے لیے ان سے ہر بات چھپا گیا۔۔۔وہ کیسے بتاتا کہ اس کے ساتھ کیسے جانوروں کی طرح سلوک کیا گیا۔۔۔
اسکے جسم پہ اس مار کے ابھی بھی نشان موجود تھے۔۔۔اسکے کانوں میں اپنی ہی چیخیں گونجتی تھیں۔۔۔
" فاطمہ آپی کیا پکا ہے آج۔۔۔ بہت بھوک لگی ہے۔۔۔سچ میں ترس گیا تھا میں گھر کا بنا ماسو ماں کے ہاتھ سے کھانا۔۔۔
" دانی نے اٹھ کر کھڑے ہوتے ہوئے پیٹ پر ہاتھ پھیر کر کہا۔۔۔
" میں چلتا اب۔۔۔پھر آؤں گا۔۔۔"
بھولا بھی کھڑے ہوتے ہوئے بولا۔۔۔
" ہرگز نہیں بیٹا۔۔۔کھانا تیار ہے۔۔۔اور کھائے بنا تم نہیں جاؤ گے۔۔۔
اور فاطمہ بیٹا پہلے بھائی کو کپڑے نکال دو۔۔۔یہ فریش ہو جائے۔۔۔تب تک تم کھانا لگا دو۔۔۔"
رضوانہ خاتون نے سب سے کہا۔۔۔
"پرسوں کیا ہوا تھا آپی۔۔۔"؟
دانی نے کھانا کھاتے ہوئے اچانک پوچھا۔۔۔
" کک۔۔۔کچھ بھی تو نہیں۔۔۔کیوں کیا ہوا۔۔۔"؟
فاطمہ نے کہتے ہوئے ایک شکوہ بھری نگاہ بھولے پر بھی ڈالی۔۔۔
" مجھے سچ سننا ہے۔۔۔نہ صرف جو پرسوں ہوا۔۔۔وہ۔۔۔بلکہ ان 6 ماہ میں جو جو بھی ہوا۔۔۔ایک ایک لفظ جاننا ہے مجھے۔۔۔بلکل سچ۔۔۔"
دانی نے فاطمہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے سر پہ رکھ کر کہا۔۔۔تو وہ بے بسی سے اسکی طرف دیکھنے لگی۔۔۔پھر لفظ با لفظ اسے بتاتی چلی گئ۔۔۔جسے سن کر اسکے اندر جھکڑ چلنے لگے۔۔۔مگر ایسے پرسکون ہوکر بیٹھا رہا جیسے کسی اور گھر کی بات ہو رہی ہو۔۔۔
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png


 
اب وہ ان سب سے بدلا لے گا اور جرم کی دنیا میں اپنے قدم رکھ دیگا بہت ہی زبردست کاوش ہے یار
 

Episode,19#
ایمن اجالا کے اس کھڑی ٹکٹکی باندھے اسکی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔پھر اسکے ننھے سینے پہ سر رکھ کر سسک پڑی۔۔۔
" اجالا پلیز آنکھیں کھولو ناں۔۔۔دیکھو اب کوئی بھی میرے ساتھ نہیں کھیلتا ہے۔۔۔ماما اور آپی ہر وقت روتی رہتی ہیں۔۔۔مس یو اجالا۔۔۔۔اجالا پلیز اٹھ جاؤ ناں اب۔۔۔"
ایمن اجالا کو لیٹے لیٹے ہگ کرتے ہوئے رو رو کر بولی۔۔۔
" میری جان۔۔۔میری گڑیا۔۔۔بھائی ہے ناں آپکے پاس۔۔۔آپ رو نہیں۔۔۔دیکھنا بھائی سب ٹھیک کر دیں گے۔۔۔"
صارم شاہ نے ایمن کو کندھے سے پکڑ کر اوپر کو اٹھا کر زور سے اپنے سینے میں بھینچ کن اکھیوں سے عائلہ کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔
عینا اور باقی سب مسکرا کر انکی طرف دیکھنے لگے۔۔۔مگر عائلہ نے دیکھا ان دیکھا کر کے منہ پھیر لیا۔۔۔
" سسٹر یہ اور کتنی دیر تک ہوش میں آئیں گی۔۔۔"
صبح صبح ڈاکٹر کے راؤںڈ لگانے سے پہلے سبھی پیشنٹس کو نرسز ایک بار چیک کرنے ضرور آتی تھیں۔۔۔اور اگر صبح کے ٹائم کوئی میڈ دینے والی ہوتی تو وہ دے کر چلی جاتی تھیں۔۔۔
نرس نے آ کر اجالا کو چیک کیا۔۔۔پھر اسکی ڈرپ میں دو انجیکشن انجیکٹ کرنے کے بعد اسکی فائل پہ کچھ لکھنے کے بعد جانے لگی تو عینا اور عائلہ نے ایک ساتھ بڑی بے چینی سے نرس سے پوچھا۔۔۔
" دیکھیں ہم کچھ نہیں کہ سکتے ابھی۔۔۔ہم بھی اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں آپ بھی دعا کریں۔۔۔"
نرس پروفیشنل سا جواب دے کر چلی گئ۔۔۔
" یہ کیا بات ہوئی۔۔۔ابھی کل رات کو تو یہ کہ رہی تھیں کہ 24 گھنٹے بعد ہوش آ جائے گا۔۔۔24 گھنٹوں سے آدھا گھنٹہ اوپر ہونے کو ہے۔۔۔پھر اسکو ابھی تک ہوش کیوں نہیں آیا۔۔۔
اور اب کہ رہی ہے کہ پتہ نہیں۔۔۔صارم بھائی پلیز آپ ڈاکٹر سے پوچھیں ناں۔۔۔کہ یہ کب ہوش میں آئے گی۔۔۔"
عینا کو نرس کے جواب نے پریشان کر دیا تھا۔۔۔پریشان تو وہاں موجود سب لوگ ہوئے تھے۔۔۔مگر عینا اپنے دل میں آئی بات فوراً کہ دیا کرتی تھی۔۔۔
" پریشان مت ہو گڑیا۔۔۔الّٰلہ نے چاہا تو سب ٹھیک ہو گا۔۔۔"
صارم شاہ نے عینا کے سر پہ ہاتھ رکھ کر اسکو ہلکا سے اپنے گلے سے لگا کر کہا۔۔۔
عائلہ کو صارم کی یہ حرکت سخت ناگوار گزری تھی۔۔۔اور عینا پہ بھی غصّٰہ آیا تھا۔۔۔
مہرالنساء اور ہائمہ خاتون اجالا کے پاس رکھے گئے صوفے پہ بیٹھی ہوئی تھیں۔۔۔اور اجالا کی طبیعت کے بارے میں ہی بات کر رہی تھیں۔۔۔
" اتنی سوئیر چوٹ لگی کیسے بچی کو۔۔۔آپ سب لوگ کدھر تھے۔۔۔اور عینا کہ رہی تھی کہ اسکو بچاتے ہوئے اجالا کو چوٹ لگی۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے مہرالنساء سے پوچھا تو انکے آخری الفاظ پہ خشمگین نظروں سے عائلہ نے عینا کی طرف دیکھا۔۔۔
" کچھ نہیں بہن۔۔۔ایسے دونوں بہنیں اچھل کود کر رہی تھیں۔۔۔تو کھیلتے ہوئے خود کو سنبھال نہیں پائی۔۔۔اور نیچے گرتے ہوئے پوری قوت سے اس کا سر زمین پہ لگ گیا۔۔۔"
مہرانساء نے اصل بات چھپاتے ہوئے گول مول سا جواب دیا۔۔۔وہ نہیں چاہتی تھیں کہ کسی کے سامنے بھی انکا بھرم ٹوٹے۔۔۔
" ایک تو آج کل کے بچے بھی بہت شرارتی ہیں۔۔۔اب انکو ہی دیکھ لیں۔۔۔ماشآءالّٰلہ سے صارم اور فجر اتنے بڑے ہو گئے ہیں۔۔۔مگر جب گھر پہ ہوں تو چھوٹے بچوں کی طرح ادھم مچاتے ہیں ۔۔۔"
" جی۔۔۔۔جی بلکل۔۔۔"
" اسلام علیکم جی۔۔۔
کیا حال ہیں۔۔۔کیسی ہے میری بیٹی اب۔۔۔ابھی تک ہوش نہیں آیا اسے۔۔۔"
اسی وقت رشید احمد ہاتھ میں کچھ فروٹس کے شاپر لیے کمرے میں داخل ہوا۔۔۔اس نے ہائمہ خاتون کو سلام کیا۔۔۔پھر اجالا کے پاس کھڑے ہو کر اسکے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔۔۔
عائلہ اور عینا کے ساتھ مہرالنساء کو بھی لفظ میری بیٹی پہ زوردار جھٹکا لگا تھا۔۔۔انکو ایسا لگا جیسے انھیں سننے میں غلطی ہوئی ہے۔۔۔
" بیٹا آپ دونوں کیسی ہو۔۔۔"
رشید احمد نے اب کی بار عائلہ اور عینا کے سر پہ ہاتھ رکھنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو عائلہ تو چپ چاپ سنجیدہ چہرہ لیے کھڑی رہی۔۔۔اور کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔۔۔جبکہ عینا نفرت سے منہ پھیر کر دو قدم پیچھے کو ہوئی تھی۔۔۔
اسکی یہ حرکت واضح طور پہ صارم شاہ اور ہائمہ خاتون نے بھی نوٹ کی تھی۔۔۔انکو صورت حال کچھ کشیدہ سی لگی تھی۔۔۔
" میرا خیال ہے صارم بیٹا اب ہمیں چلنا چاہیے۔۔۔کافی دیر ہو گئ ہے۔۔۔میں پھر چکر لگاؤں گی۔۔۔الّٰلہ اجالا بیٹی پہ رحم فرمائے اور جلد صحت یاب ہو کر گھر لوٹے۔۔۔"
سبھی نے انکی بات پہ آمین کہا۔۔۔
" اور کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو ہمیں ضرور بتائیے گا۔۔۔میں صارم بیٹے کو شام کو بھیج دوں گی۔۔۔ایک تو کھانا دے جائے گا۔۔۔دوسرا بچیوں کو گھر لے جائے گا۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔اور مہرالنساء کے گلے مل کر بچیوں کے سر پہ شفقت بھرا ہاتھ رکھ کر صارم شاہ کے ساتھ باہر نکل گئیں۔۔۔رشید احمد کے آنے کے بعد صارم شاہ کا وہاں رکنا انکو مناسب نہیں لگا تھا۔۔۔
" کیا بات ہے رشید احمد۔۔۔یہ منحوسیں تمہاری بیٹیاں کب سے ہو گئیں۔۔۔
تمہیں کیسے یاد آ گیا کہ یہ تمہاری بچیاں ہیں۔۔۔یہ کونسا نیا کھیل کھیل رہے ہو۔۔۔"
ہائمہ خاتون کے جاتے ہی مہرالنساء رشید احمد کی طرف دیکھتے ہوئے نفرت سے بولیں تھیں۔۔۔
" مجھے معاف کردو تم سب۔۔۔مجھے اپنی غلطیوں کا احساس ہو گیا ہے۔۔۔میں وعدہ کرتا ہوں کہ آج کے بعد میں ایک اچھا باپ اور ایک اچھا شوہر بن کر دکھاؤں گا۔۔۔"
رشید احمد نے ندامت کا اظہار کرتے ہوئے مہرالنساء کے ہاتھ پکڑنے چاہے تو اس نے نفرت سے جھٹک دئیے۔۔۔
" رشید احمد چلے جاؤ یہاں سے۔۔۔نہ میں اور نہ بچیاں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے۔۔۔"
مہرالنساء نے کہ کر نفرت سے منہ موڑ لیا تھا۔۔۔
" عائلہ تم تو میری بہت اچھی بیٹی ہو۔۔۔تم بھی اپنے بابا کو معاف نہیں کرو گی کیا۔۔۔مم۔۔۔میں ہاتھ جوڑتا ہوں مجھے معاف کردو بیٹا۔۔۔میں جانتا ہوں تم اپنے بابا سے بہت پیار کرتی ہو۔۔۔اور مجھے ضرور معاف کردو گی۔۔۔"
مہرالنساء سے مایوس ہوکر رشید احمد نے اپنا رخ اب عائلہ کی طرف موڑا تھا۔۔۔اور آنکھوں میں آنسو لاتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر عائلہ سے کہا۔۔۔
" بابا آپکو احساس ہوگیا ہمارے لیے یہی بہت ہے۔۔۔لیکن پلیز آپ ہاتھ مت جوڑیں۔۔۔"
عائلہ کو اپنے باپ کا ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنا اچھا نہیں لگا تھا۔۔۔اس لیے اپنی ازلی نرم فطرت سے مجبور ہو کر بے اختیار رشید احمد کے ہاتھ پکڑ کر شرمندہ ہو کر بولی۔۔۔جبکہ مہالنساء اور عینا نے منہ پھیر لیا تھا۔۔۔
" جیتی رہو میری بچی۔۔۔ہمیشہ خوش رہو۔۔۔ میں ڈاکٹر سے مل کر اس سے پوچھ کر آتا ہوں اجالا بیٹی کی طبیعت کے بارے میں۔۔۔اور میں یہ کھانا بھی لے کر آیا تھا تم لوگوں کے لیے۔۔۔یہ کھا لو آپ سب۔۔۔اور عائلہ مجھے پتہ ہے کہ میری بیٹی کو دہی بڑے بہت پسند ہیں۔۔۔میں وہ اسپیشل تمہارے لیے لے کر آیا ہوں۔۔۔کھا کر بتانا کیسے لگے۔۔۔"
رشید احمد نے عائلہ کے سر پہ ہاتھ رکھ کر خوش ہو کر کہا۔۔۔اور دروازے سے باہر نکل گیا۔۔۔
" ماما یہ اچانک سے کیا ہوگیا ہے بابا کو۔۔۔کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔"
عائلہ نے رشید احمد کے جانے کے بعد مہرالنساء کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔عینا بھی انکے پاس آ کر بیٹھ گئ۔۔۔
" آپ بابا کو کیسے معاف کر سکتی ہیں آپی۔۔۔بھول گئیں انھوں نے آج تک کیا کچھ نہیں کیا ہمارے ساتھ۔۔۔اور اجالا کو اس حال میں پہچانے والے بھی یہی ہیں۔۔۔میری سمجھ سے باہر ہے کہ بیٹھے بٹھائے آج اچانک سے ان کے دل میں ہماری محبت کہاں سے جاگ گئ۔۔۔"
عینا سے کسی طور بھی اپنے باپ کا یہ روپ ہضم نہیں ہو رہا تھا۔۔۔اور نہ ہی وہ اس کا دل انکو معاف کرنے کو چاہ رہا تھا۔۔۔
" دیکھو عینا اگر وہ اپنے کیے پہ شرمندہ ہیں۔۔۔انکو احساس ہو گیا ہے۔۔۔تو ہمیں انکی اولاد ہونے کے ناتے انکو معاف کردینا چاہیے۔۔۔وہ ہمارے باپ ہیں۔۔۔ہم انکی بیٹیاں۔۔۔اس بات سے ہم مر کے بھی انکار نہیں کر سکتے۔۔۔اس لیے ہمارا فرض ہے کہ ہم اچھی بیٹیاں ہونے کا ثبوت دیں۔۔۔"
عائلہ نے اپنے طور پہ عینا کو سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔
" تو ٹھیک ہے آپ کریں معاف۔۔۔میں نہیں کروں گی۔۔۔آج انکی وجہ سے ہم اپنے گھر سے بے گھر ہیں۔۔۔لوگ ہمیں تر نوالہ سمجھنے لگے ہیں۔۔۔نہ ہم اپنے گھر میں محفوظ ہیں نہ ہی باہر۔۔۔لوگ بھوکے بھڑئیے کی طرح ہمیں نوچنے کو تیار بیٹھے ہیں۔۔۔صرف انکی وجہ سے۔۔۔کریں آپ معاف۔۔۔مجھے انکی کسی بات پہ بھروسہ نہیں ہے۔۔۔"
عینا اپنی جگہ سے بپھر کر اٹھی اور غصے سے بولتی چلی گئ۔۔۔اسکے ہر ہر لفظ میں اپنے باپ کے لیے صرف نفرت ہی نفرت تھی۔۔۔پھر اس نے جھپٹنے کے سے انداز میں وہ شاپر اٹھایا جس میں رشید احمد انکے لیے کھانے پینے کا سامان لے کر آیا تھا۔۔۔وہ شاپر اس نے کونے میں پڑی ڈسٹ بن کے اندر پھینک دیا۔۔۔مہرالنساء چپ چاپ بیٹھی اپنی دونوں بیٹیوں کی طرف دیکھتی کسی گہری سوچ میں گم تھیں۔۔۔
" اففففف۔۔۔یار اس سب میں اس کھانے کا کیا قصور تھا۔۔۔وہ کیوں پھینک دیا۔۔۔کسی بھی صورت میں کھانا ضائع کرنا الّٰلہ کو سخت ناپسند ہے۔۔۔اور مجھے یہ بتاؤ کہ طتمہاری اس بات کا مطلب کیا ہے۔۔۔کون تر نوالا سمجھنے لگا ہے ہمیں۔۔۔کیا ہوا ہے عینا۔۔۔کسی نے کچھ کہا ہے کیا۔۔۔کیا شاہ سائیں کے گھر میں کوئی بات ہوئی ہے۔۔۔بولو عینا کیا ہوا ہے۔۔۔"
عینا کے آخری الفاظ پہ عائلہ نے چونک کر اسکی طرف دیکھا تھا۔۔۔پھر اسکے قریب آ کر دھیرے سے بولی تھی کہ کہیں انکی والدہ نہ سن لیں۔۔۔
عائلہ کی کسی بھی بات کا جواب دینے کی بجائے عینا نظریں چرا گئ تھی۔۔۔
" کس کی اتنی ہمت ہے جو آپکی بہن سے پنگا لے۔۔۔آپ جانتی ہیں مجھے اچھے سے۔۔۔وہ تو میں لوگوں کی سوچ کی بات کر رہی تھی۔۔۔کہ باپ کا تحفظ نہ ہو تو لوگ ان لڑکیوں کے لیے کیا سوچ رکھتے ہیں۔۔۔"
عینا زندگی میں پہلی بار عائلہ سے کچھ چھپا گئ تھی۔۔۔صارم شاہ انکو بھائی کا مان بخش کر جس طرح سے شہریار سے پیش آیا تھا۔۔۔اس بات نے اس بات نے اسے اندر تک سرشار کر دیا تھا۔۔۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ سچ جان کر عائلہ صارم شاہ سے مزید بدگمان ہو جائے۔۔۔
" امی جان آپ کیوں چپ ہیں۔۔۔کوئی بات کریں ناں پلیز۔۔۔عینا کو سمجھائیں آپ ہی۔۔۔"
عائلہ مہرالنساء کے کندھے سے ٹیک لگا کر انکے ساتھ جڑ کر بیٹھتے ہوئے بولی۔۔۔
" میں کیا سمجھاؤں اسے۔۔۔ زندگی میں پہلی بار مجھے تمہارے باپ سے خوف آ رہا ہے۔۔۔تمہارے باپ کا یہ روپ مجھ سے ہضم نہیں ہو رہا۔۔۔تاریخ گواہ ہے کہ جو شخص اپنے ماں باپ کا نہیں ہوتا وہ کسی کا بھی نہیں ہوتا۔۔۔آخری سانس تک تمہارے دادا دادی اپنے بیٹے کی راہ تکتے رہے۔۔۔جب تک وہ زندہ رہے انکو خون کے آنسو رلاتا رہا۔۔۔ساری عمر جن بیٹیوں کو وہ منحوسیں سمجھتا رہا۔۔۔کبھی ایک پل کو بھی جن پہ شفقت کی نگاہ نہیں ڈالی۔۔۔آج اچانک اس کے اندر بیٹیوں کے لیے پیار جاگ گیا۔۔۔نا ممکن بیٹا۔۔۔نا ممکن ہے یہ۔۔۔
انسان کی عادتیں بدل جاتی ہیں۔۔۔مگر فطرت نہیں۔۔۔خود غرضی ، جھوٹ ، ہیراپھیری اور رشتوں کو کسی کارڈ کی طرح یوز کرنا تمہارے باپ کی فطرت میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔۔۔
مجھے بس اسی بات کا ڈر ہے کہ کہیں اپنی خودغرضی کی بھینٹ وہ تم لوگوں کو نہ چڑھا چکا ہو۔۔۔
تم لوگوں نے ایک بات نہیں نوٹ کی۔۔۔
کہ میں نے اسے معاف نہیں کیا۔۔۔عینا نے نہیں کیا۔۔۔اس نے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی۔۔۔جن ماں باپ کو اس نے خون کے آٹھ آٹھ آنسو رلایا انکے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا۔۔۔
ایسا لگ رہا تھا جیسے اسکو عائلہ کے سوا کسی کے بھی ماننے یا نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔ایمن کی طرف اس نے دیکھا تک نہیں۔۔۔اور یہی بات مجھے پریشان کر رہی ہے۔۔۔اس کا یی روپ سمجھ میں نہیں آ رہا۔۔۔اور جو آ رہا ہے میں وہ سمجھنا نہیں چاہتی۔۔۔الّٰلہ میری بچیوں کی حفاظت فرمائے۔۔۔آمین۔۔۔"
مہرالنساء نے بازو پھیلا کر چہرے پہ تفکر لیے تینوں کو اپنی آغوش میں ایسے چھپا لیا۔۔۔جیسے پرندے کسی خطرے کو بھانپ کر اپنے بچوں کو فوراً اپنے پروں میں چھپا لیتے ہیں۔۔۔
" امی جاااااان اجالا کو ہوش آ رہا ہے شائد۔۔۔"
عائلہ کی اچانک اجالا پہ نظر پڑی تھی جو سر کو ہلکے سے جنبش دے رہی تھی۔۔۔
" مم۔۔۔میں ابھی ڈاکٹر کو بلا کر لاتی ہوں۔۔۔"
عائلہ خوشی کے مارے پرجوش ہو کر بولی۔۔۔عائلہ کے ساتھ عینا بھی باہر نکل گئ۔۔۔جبکہ ایمن اور مہرالنساء اجالا کے سرہانے کھڑے ہو کر اسکو آوازیں دینے لگیں۔۔۔
" اجالا میری جان آنکھیں کھولو۔۔۔اجالا۔۔۔۔"
مہرالنساء اسے آوازیں دینے لگیں۔۔۔کہ اچانک اجالا کے چہرے پہ شدید تکلیف کے آثار نمودار ہوئے۔۔۔سانس لیتے ہوئے اسکے منہ سے عجیب عجیب سی آوازیں نکلنے لگیں۔۔۔اسی وقت عینا عائلہ اور ایک ڈاکٹر دو نرسز کے ساتھ روم میں داخل ہوا۔۔۔
" پلیز۔۔۔آپ سب لوگ روم سے باہر چلے جائںں۔۔۔اور ہمیں چیک کرنے دیں۔۔۔"
اجالا نے ہلکی سی آنکھیں کھولی تھیں۔۔۔مگر اسکے ساتھ ہی اسکا سانس اکھڑنے لگا تھا۔۔۔جس پہ مہرالنساء اور باقی تینوں بچیاں اسکی حالت دیکھ کر رونے لگیں۔۔۔ڈاکٹرز نے سب کو روم سے باہر نکال دیا تھا۔۔۔پوری وارڈ میں ہلچل مچ چکی تھی۔۔۔ایمرجنسی سائرن کے بجتے ہی نیوروسرجن اسپیشلسٹ ایمرجنسی روم کی طرف بھاگے آئے تھے۔۔۔
" یہ۔۔۔یہ آپ کہاں لے کر جا رہے ہیں میری بیٹی کو۔۔۔کیا ہوا ہے اسے۔۔۔ابھی تو یہ ہوش میں آئی تھی۔۔۔
سسٹر۔۔۔سسٹر پلیز کچھ تو بتائیے۔۔۔کک۔۔۔کیا ہوا ہے ہماری بہن کو۔۔۔وہ ٹھیک تو ہے۔۔۔
یاالّٰلہ میری بچی۔۔۔"
یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا تھا کہ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔۔۔ڈاکٹرز اور نرسز کے چہرے پہ ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔۔۔کوئی بھی کچھ نہیں بتا رہا تھا۔۔۔اجالا کو الیکٹرک شاک دئیے جا رہے تھے۔۔۔
مہرالنساء ، عائلہ ، عینا اور ایمن کی سسکیوں پہ وارڈ میں آنے جانے والا ہر شخص انکی طرف ترحم بھری نظروں سے دیکھتا ہوا گزر رہا تھا۔۔۔
تھوڑی دیر پہلے اجالا کو ہوش میں آتے دیکھ کر سبھی کے دل خوشی سے لبریز تھے۔۔۔اور اب ایک انجانے خوف نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔۔۔
مہرالنساء ایمرجنسی روم کی دیوار کے ساتھ لگیں بے آواز روتے ہوئے آیت کریمہ کا ورد کرتے ہوئے غائبانہ طور پہ اجالا کا تصور کر کے اس پہ پھونک مارنے لگیں۔۔۔عینا اور عائلہ خوفزدہ کھڑی ایمن کو اپنے ساتھ لپٹائے اسے تسلی دینے لگیں۔۔۔ہزار روکنے کے باوجود بھی آنسو انکی گال پہ لڑھک آتے جسے وہ بار بار ہاتھ کی پشت سے صاف کرنے لگتیں۔۔۔
رشید احمد نے انکے پاس آ کر انکے سر پہ ہاتھ رکھنا چایا تو عینا نے بری طرح سے جھٹک دیا۔۔۔
سب کی نظریں ایمرجنسی روم کے ڈور پہ جمی ہوئیں تھیں۔۔۔

" ص۔۔۔صص۔۔۔۔۔۔صارم بھائی۔۔۔ااااجااالا کو کچھ ہو گیا ہے۔۔۔پپ۔۔۔پلیز آپ جلدی سے آجائیں۔۔۔پلیز۔۔۔۔۔۔"
ساری سیچوئیشن دیکھتے ہوئے عینا کا دھیان شام شاہ کی طرف گیا تھا۔۔۔کہ وہ آ کر سب دیکھ لے گا۔۔۔
" میں ابھی آیا گڑیا تم پریشان مت ہو۔۔۔سب کا خیال رکھنا۔۔۔اوکے۔۔۔بس آدھے گھنٹے تک میں پہنچ رہا ہوں۔۔۔"
صارم شاہ نے جیسے ہی ہیلو کہو تو دوسری طرف سے عینا کی روتی کرلاتی آواز اور اس نے جو کہا تھا اس نے اسے پریشان کردیا تھا۔۔۔گھر میں سب کو بتا کر وہ نکلنے لگا تو احتشام شاہ بھی اسکے ہمراہ گاڑی میں بیٹھ گیا۔۔۔
" گاڑی میں چلاتا ہوں یار۔۔۔تم رہنے دو۔۔۔"
صارم کو شدید ٹینشن میں دیکھ کر ہائمہ خاتون کو اسکا ڈرائیو کرنا ٹھیک نہیں لگا تو احتشام شاہ کو بھی ساتھ بھیج دیا۔۔۔

2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png

ہائمہ خاتون ہاسپٹل سے واپس آ کر شام کے کھانے کے بعد آئمہ سلطان کے پاس انکے کمرے میں ہی چلیں آئیں تھیں۔۔۔جبکہ رامین فجر کے کمرے میں اسے اپنی یونی کے قصے سنا رہی تھی۔۔۔
ہائمہ خاتون نے ادھر ادھر کی باتوں کے بعد بہت سہولت سے اپنی بہن آئمہ سلطان کو بچوں کی مرضی سے آگاہ کردیا تھا۔۔۔جسے سن کر کچھ پل کو آئمہ سلطان گنگ رہ گئیں۔۔۔
" آپا میں آپکی بات مان لیتی ہوں۔۔اگر بھائی وٹہ سٹہ نہیں کرنا چاہتے تو ٹھیک ہے۔۔۔صارم اور احتشام اپنے لیے فیصلہ لے چکے ہیں تو بھی ٹھیک ہے۔۔۔مگر فجر کے لیے تو انکار نہ کریں۔۔۔اسے میرے شرجیل کے نام کردیں آپا۔۔۔
پلیز آپا مجھے خالی ہاتھ مت لوٹائیں۔۔۔ہر ماں کو اپنی اولاد بہت پیاری ہوتی ہے۔۔۔اس سے اچھا کوئی بھی نہیں ہوتا۔۔۔مگر آپا میرا شرجیل لاکھوں میں ایک ہے۔۔۔اور یہ میں اسکی ماں ہونے کے ناتے نہیں کہ رہی۔۔۔وہ ہے ہی ایسا۔۔۔کہ ہر ماں اس جیسے بیٹے کی خواہش کرے۔۔۔
رشتوں کو نبھانے والا۔۔۔انکو عزت و احترام دینے والا۔۔بنا اپنے پرائے کا فرق کیے چھوٹے بڑے کا لحاظ کرنے والا۔۔۔سب کے کام آنے والا۔۔۔
باہر کے آزاد اور کھلے ماحول میں پروان چڑھنے کے باوجود کبھی کسی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔۔۔ حیادار اور غیرت مند۔۔۔نہ اس نے کبھی سموکنگ کی ہے نہ کبھی شراب کو ہی ہاتھ لگایا۔۔۔
آپا اور کیا کہوں اسکے بارے میں۔۔۔
میں آپ سے شہریار کے لیے بھی فجر کا ہاتھ مانگ سکتی تھی۔۔۔جبکہ بچپن سے اسی کے لیے خیال تھا۔۔۔مگر اپنا جنا ہونے کے باوجود مجھے لگا کہ وہ فجر کے قابل نہیں ہے۔۔۔اس لیے میں نے شرجیل کے لیے جھولی پھیلائی۔۔۔شرجیل کو آپ نے ہی گڑتی دی تھی نہ آپا۔۔۔آپکو یاد ہے اس نے پہلی بار پہلا قدم آپکے ہاتھوں میں ہی اٹھایا تھا۔۔۔اور اس پہلے قدم کے ساتھ آج تک وہ آپکا عکس بنا ہی چل رہا ہے۔۔۔مجھے ہر پل اپنے شرجیل میں آپ نظر آتی ہیں۔۔۔
ایسا مت کریں آپا۔۔۔ایسا مت کریں۔۔۔"
آئمہ سلطان نے رقت بھرے انداز میں ہائمہ خاتون سے کہا۔۔۔بات کرتے کرتے لاسٹ میں ایک ایک آنسو ہائمہ سلطان کے گال پہ لڑھک آیا تھا۔۔۔اور اپنے ہاتھ ہائمہ خاتون کے آگے جوڑ دئیے۔۔۔
" آئمہ پلیز۔۔۔کیا کر رہی ہو۔۔۔الّٰلہ کا واسطہ ہے مجھے شرمندہ مت کرو۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے اپنی بہن کے ہاتھ کھول کر اپنے لبوں سے لگاتے ہوئے کہا۔۔۔
" اچھا ٹھیک ہے۔۔۔میں تمہارے بھائی سے پھر بات کرتی ہوں۔۔۔اور اگر انکا جواب پھر ناں میں ہوا تو تم دوبارہ یہ بات نہیں کرو گی۔۔۔اور نہ اپنا دل خراب کرو گی۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے کہا۔۔۔
" ٹھیک آپا۔۔۔جو میرے بیٹے کی قسمت۔۔۔"
آئمہ سلطان نے ٹھنڈا سانس بھرتے ہوئے کہا۔۔۔

" کیوں۔۔۔آخر کیوں۔۔۔میرے لاکھ سمجھانے کے باوجود بھی ایسا کیوں کیا آپ نے۔۔۔ایک لمحہ کو بھی نہیں سوچا کہ اگر کسی کو پتہ چل گیا تو وہ کیا سوچے گا۔۔۔آپ کے بارے میں ماما کے بارے میں۔۔۔
کہ یہ تربیت کی ہے اپنے بیٹوں کی انھوں نے۔۔۔
کچھ اور نہیں تو اس رشتے کا ہی لحاظ کر لیتے جو خالہ کا ہم سے ہے۔۔۔"
رات اپنے کمرے میں شہریار جب واپس آیا تو اسکے پیچھے پیچھے ہی احتشام شاہ بھی چلا آیا تھا۔۔۔اور اس نے جو بھی شہریار سے کہا وہ سب شرجیل نے حرف با حرف سنا تھا۔۔۔جبکہ وہ دونوں اسے سوتا سمجھ رہے تھے۔۔۔اور وہی ہوا تھا جسکی اسے توقع تھی۔۔۔یعنی رشتے سے انکار کردیا گیا تھا۔۔۔
فجر سے مل کر اس کو دیکھنے کے بعد ایک میٹھا سا احساس شرجیل کے دل میں پنپنے لگا تھا۔۔۔یہ پتہ ہونے کے باوجود کہ اسکی فجر سے رشتے کی بات چل رہی ہے۔۔۔خالہ کی بیٹی ہونے ناتے ایک ہی چھت تلے رہنے کے باوجود اس نے فجر سے فرینک ہونے کی کوشش نہیں کی تھی۔۔۔
صارم اور احتشام شاہ کی طرح اسکی بھی یہی سوچ تھی۔۔۔کہ جب تک آپ کسی لڑکی سے کسی مظبوط بندھن میں نہیں بندھ جاتے وہ آپکے لیے نامحرم ہے۔۔۔جسکی طرف دیکھنا بھی گناہ ہے۔۔۔
اسی وجہ سے وہ اپنے دل میں فجر کے لیے پیدا ہونے والے جذبات کو فلحال اپنے اندر ہی چھپائے ہوئے تھا۔۔۔اور اس وقت کا انتظار تھا جب وہ پورے استحقاق سے اسکی زندگی میں شامل ہو۔۔۔تب وہ اسے بتائے کہ اسکی سانسوں کی ڈور اس سے جڑی ہے۔۔۔وہ اسکی زندگی بن چکی ہے۔۔۔
مگر اس سب سے پہلے ہی اسکو موت کی نوید سنا دی گئ تھی۔۔۔
" میں نے ایسا نہیں سوچا تھا۔۔۔مجھے لگا چند پیسوں کا لالچ دوں گا اور وہ منہ بند رکھے گی۔۔۔مگر۔۔۔وہ بہت عجیب نکلی۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔.."
" کیوں۔۔۔کیوں سوچا آپ نے ایسا۔۔۔یہی تو میں کہ رہا ہوں کہ آپ نے ایسا کیوں سوچا۔۔۔۔یہ کینڈا۔۔۔امریکہ نہیں ہے۔۔۔جہاں کی لڑکیوں کو اپنی عزت کا کوئی پاس نہیں ہوتا۔۔۔یہ پاکستان ہے۔۔۔جہاں کی لڑکیاں عزت پہ حرف آنا تو دور کی بات اگر کوئی میلی نگاہ سے انکی طرف دیکھے تو اسکی آنکھیں آنکھیں نکال کے ہتھیلی پہ رکھ دیں۔۔۔اپنی عزت بچانے کے لیے مر جائیں یا مار دیں۔۔۔
بھائی ایسے کہ اگر کوئی انکی عزت پہ ہاتھ ڈالے تو اسکو دوسرا سانس لینے کی مہلت نہ دیں۔۔۔
اس گھر میں کام کرنے والی ملازماؤں کی طرف بھی اس گھر کے مرد آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتے۔۔۔
اور وہ تو پھر کسی کی امانت کے طور پہ انکی پناہ میں تھیں۔۔۔
آپ نے یہ بھی ایک پل کو نہیں سوچا کہ آپکی یہ حرکت دونوں خاندانوں کے بیچ جو ایک نئے رشتے کی بنیاد بن رہی ہے۔۔۔اسکو بننے سے پہلے ہی مٹی میں ملا دے گی۔۔۔ماما برسوں سے جو ایک خواب سجائے بیٹھی ہیں۔۔۔وہ پورا ہونے سے پہلے ہی ٹوٹ جائے گا۔۔۔اور وہ بھی اپنے بیٹے کے ہاتھوں۔۔۔
آپکی اس حرکت سے صرف ماما کا دل نہیں ٹوٹے گا۔۔۔بلکہ آپ نے اپنے بھائی کی سانسیں بھی کھینچ لی ہیں بھائی۔۔۔مجھے جینے سے پہلے ہی مار دیا ہے آپ نے۔۔۔"
شرجیل بیچ میں ہی شہریار کی بات کاٹ کر روہانسے لہجے میں بولا۔۔۔پھر دونوں ہاتھوں میں سر گرا کر بیڈ پہ گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گیا۔۔۔
" تم ایسے کیوں بول رہے ہو۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔"
شہریار اسکی باتوں پہ حیران ہو کر بولا۔۔۔
" کیا ہوا ہے۔۔۔"؟…. یہ آپ پوچھ رہے ہیں۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔"؟
اب کی بار شرجیل غصے سے تھوڑا با آواز بلند بولا تھا۔۔۔
" انکار کر دیا ہے۔۔۔نہ صرف رامین کے رشتے کے لیے۔۔۔بلکہ میرے اور فجر کے رشتے سے بھی۔۔۔
یہ ہوا ہے۔۔۔
کتنا سمجھایا تھا آپکو کہ چھوڑ دیں یہ سب۔۔۔سدھر جائیں۔۔۔اور آپ نے تو ماما سے وعدہ بھی کیا تھا ناں کہ کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جو انکو ہرٹ کرے۔۔۔یا کسی کو تکلیف دے۔۔۔پھر۔۔۔۔۔
" مامااااااا۔۔۔۔۔۔ماما۔۔۔۔پلیز آنکھیں کھولیں۔۔۔۔ماما۔۔۔۔"
آئمہ خاتون رات کو سونے سے پہلے ایک بار اپنے بچوں کے روم میں چکر ضرور لگانے آتی تھیں۔۔۔آج جب آئیں تو روم کے اندر سے آتی آوازوں پہ حیران ہو کر باہر ہی رک گئیں۔۔۔مگر جو سچ ان پہ آشکار ہوا تھا۔۔۔اس نے انکے وجود کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔۔۔انکو اب سمجھ آئی تھی کہ ہائمہ خاتون کسی ایک بچے کا بھی رشتہ کیوں نہیں کرنا چاہ رہیں۔۔۔
جبکہ اصل بات سے خود ہائمہ خاتون بھی ابھی تک بے خبر تھیں۔۔۔
یہ کڑوا سچ وہ سہ نہیں پائی تھیں کہ انکا اپنا بیٹا انکے گھر میں نقب زن نکلا تھا۔۔۔دل پہ ہاتھ رکھے وہ وہیں دروازے میں ہی ڈھیر ہو گئیں تھیں۔۔۔
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png


سیٹھ شجاع کے جاتے ہی نیلم بائی ، گلشن ،جہاں آرا کے علاوہ کچھ اور لڑکیاں بھی کمرے کے اندر تیزی سے داخل ہوئیں۔۔۔وہ سر تا پیر اشتیاق بھری نظروں سے موہنی کا ایسے جائزہ لینے لگیں جیسے کوٹھے پہ کوئی انہونی ہوئی ہو۔۔۔اور انکے لیے انہونی ہی تو تھی۔۔۔کہ آج تک جس نے کوٹھے پہ ہر آنے جانے والے کو اپنے جوتے کی نوک پہ رکھا تھا۔۔۔آج وہ خود کسی کے پیروں کی دھول بن گئ تھی۔۔۔اسکا کا احڑا حلیہ بکھرے بال اور بکھرا میک اپ گزری رات کی کہانی سنا رہا تھا۔۔۔مگر اس دن کی طرح آج نہ موہنی رو ریی تھی۔۔۔نہ چیخ چلا رہی تھی۔۔۔بلکہ پرسکون بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔
" موہنی تم ٹھیک ہو ناں۔۔۔اور یہ تمہاری گردن پہ اور گردن سے نیچے نشان۔۔۔۔۔۔"؟
گلشن نے آگے کو ہو کر بظاہر ہمدردی جتاتے پوچھا تھا۔۔۔جبکہ نیلم بائی ایک سائیڈ پہ بیٹھی سر تا پیر بغور اس کا جائزہ لے رہی تھی۔۔۔
" کیوں۔۔۔تمہاے یہ نشان کبھی نہیں پڑے کیا۔۔۔یا یہ جو یہاں کھڑی ہیں ان سب کے کبھی نہیں پڑے۔۔۔
یا پھر تمہیں یہ دیکھ کر جھٹکا لگا کہ جو تم نے سوچا۔۔۔میں تمہیں ویسے نظر نہیں آئی۔۔۔"
موہنی بیڈ پہ ٹانگیں پسار کر طنزاً مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔موہنی کی بات پہ سب ہنسنے لگیں۔۔۔جبکہ گلشن منہ بسور کر ایک سائیڈ پہ کھڑی ہو گئ۔۔۔
" موہنی جتنے اس سیٹھ کی جیب سے پیسے نکلوا سکتی ہو نکلوا لو۔۔۔فلحال تو تم پہ لٹو ہے۔۔۔کب کس وقت نظریں پھیر لے کچھ پتہ نہیں۔۔۔"
ایک لڑکی نے موہنی کے پاس بیٹھتے ہوئے اپنی طرف سے بڑا مخلصانہ مشورہ دیا تھا اسکو۔۔۔
" ہممممم۔۔۔۔ٹھیک کہ رہی ہو تم۔۔۔اس دنیا کی سب سے بڑی سچائی صرف پیسہ ہے۔۔۔افسوس بہت دیر سے سمجھ آئی مجھے۔۔۔خیر۔۔۔خانم یہ 5 لاکھ سیٹھ دے گیا ہے۔۔۔کہ رہا رھا تھا کل آئے گا پھر۔۔۔لیکن میں ابھی فلحال کسی سے نہیں ملنا چاہتی۔۔۔دیکھ لینا سب۔۔۔میں اپنے کمرے میں جا رہی ہوں آرام کرنے۔۔۔اور کوئی مجھے ڈسٹرب نہ کرے۔۔۔"
موہنی نے 5 لاکھ کی گڈی نیلم بائی کی گود میں رکھتے ہوئے کہا۔۔۔اور کمرے سے باہر نکل گئ۔۔۔
" واہ۔۔۔جی اسکے نخرے تو اور بڑھ گئے ہیں۔۔۔"
وہاں کھڑی ایک بولی۔۔۔
" ہاں تو بڑھیں کیوں ناں۔۔۔ایک رات میں ہی 5 لاکھ کا ہاتھ مارا ہے۔۔۔ آگے اور پتہ نہیں کتنے لاکھ بنائے گی۔۔۔"
ایک دوسری نے کہا۔۔۔
" چلو بھئ اپنے اپنے روم میں جاؤ سب۔۔۔میں بھی سونے جا رہی ہوں۔۔۔تم لوگ بھی آرام کرو جا کے سب۔۔۔"
نیلم بائی نے سب کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔اور کمرے سے نکل گئ۔۔۔

" موہنی کیا ہوا۔۔۔سب ٹھیک سے ہوگیا کیا۔۔۔"
موہنی ابھی شاور لے کر باہر ہی نکلی تھی کہ تھوڑی دیر بعد نیلم بائی موہنی کے کمرے میں آ کر اس سے بولی۔۔۔اور دروازہ بند کردیا۔۔۔
" فکر مت کریں خانم۔۔۔جیسا ہم نے سوچا تھا سب ویسے ہی ہوا۔۔۔"
" پھر یہ نشان۔۔۔"
نیلم بائی نے اسکی گردن کی طرف اشارہ کیا۔۔۔
" بس ایسے ہی۔۔۔بڑے عزاب سے بچنے کے لیے چھوٹا عزاب سہا ہے۔۔۔یہ سمجھ لیں۔۔۔"
موہنی نے ایک گہرا سانس لے کر کہا۔۔۔
" اوکے سمجھ لو کہ یہ آخری عزاب تھا۔۔۔اب آگے کیا کرنا ہے وہ سن لو۔۔۔"
نیلم بائی اگلے لائحہ عمل سے اسکو آگاہ کرنے لگی۔۔۔
" میں نے جو کہا ہے اسکو اچھی طرح سے ذہن نشین کر لو۔۔۔کل جب سیٹھ شجاع آئے گا تو میں اس کو منع کردوں گی تمہیں ساتھ بھیجنے کو۔۔۔تم اسکو تھوڑے نخرے دکھاؤ۔۔۔اس سے ناراضگی کا اظہار کرو۔۔۔پھر ہفتے تک مان جانا۔۔۔تب تک رحمو بابا ساری معلومات بھی لے آئیں گے۔۔۔اور جیسے ہی وہ آئیں گے نیکسٹ ڈے ہم فائنل قدم اٹھائیں گے۔۔۔اب تم ریسٹ کرو۔۔۔میں چلتی ہوں۔۔۔"
یہ کہ کر نیلم بائی چلی گئ۔۔۔اور موہنی گہری سوچوں میں غرق ہو گئ۔۔۔پتہ نہیں زندگی اسکو آگے کیا دکھانے والی تھی اسکو۔۔۔
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png


 
بہترین اپڈیٹ یار ماسٹر مائنڈ بہت ہی اچھی اسٹوری ہے
 
بہترین سٹوری کی شاندار اپڈیٹ جناب
 

Episode, 20#
مہرانساء کو تسلی و تشفی دے کر اور ڈاکٹرز سے ساری سیچوئشین جان کر صارم شاہ ایمرجنسی روم کی طرف آیا تو سبھی بے چینی سے اسکی طرف دیکھنے لگے۔۔۔
" کک۔۔۔کیا کہا ہے ڈاکٹر نے۔۔۔کیا ہوا ہے اجالا کو۔۔۔"
عینا نے تقریباً بھاگنے کے سے انداز میں اسکے پاس آنے سے پہلے ہی خود اس کے پاس جاکر پوچھا۔۔۔صارم شاہ کی حالت ایسی تھی جیسے کوئی مسافر برسوں کی مسافت پیدل طے کر کے آیا ہو۔۔۔اس نے عینا کو ساتھ لگا کر تسلی دینی چاہی تو وہ بدک کر پیچھے ہوئی۔۔۔عائلہ، مہرالنساء اور رشید احمد بھی اسکے پاس چلے آئے۔۔۔اور سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھنے لگے۔۔۔
" صارم بھائی میں نے ہوچھا ہے اجالا کیسی ہے۔۔۔
شام سے رات ہو گئ ہے۔۔۔مگر کوئی بھی ابھی تک کچھ بتا کیوں نہیں رہا۔۔
کیا کہ رہے ہیں ڈاکٹرز۔۔۔یہ اچانک اسکو کیا ہوا ہے۔۔۔"
عینا نے تقریباً چیخنے کے سے انداز میں صارم شاہ کا ہاتھ پکڑ کر بلند آواز میں پوچھا۔۔۔
" ٹھیک ہے وہ۔۔۔پہلے سے بہتر ہے۔۔۔دعا کریں آپ سب اس کے لیے۔۔۔"
صارم شاہ نے عینا کے سر پہ ہاتھ رکھ کر اس کو اور باقی سب کو تسلی دی۔۔۔
صارم شاہ اگر ڈاکٹرز کی کہی بات انکو بتا دیتا تو
سب کو سنبھالنا اس کے لیے مشکل ہوجاتا۔۔۔اور ویسے بھی وہ امید کا ہاتھ آخری سانس تک پکڑے رکھنے کا قائل تھا۔۔۔
" اجالا۔۔۔۔۔۔میری بچی۔۔۔۔"
مہرالنساء کسی ٹرانس میں چلتے ہوئے اور بڑبڑاتے ہوئے ایمرجنسی روم کے دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر دروازے کو تکتے ہوئے ایسے بولیں جیسے اجالا نظر آ رہی ہو۔۔۔الّٰلہ نے ماں کے دل کو یہ طاقت بخشی ہے کہ وہ اپنی اولاد پہ آنے والی مصیبت سے پہلے ہی آگاہ ہو جاتی ہے۔۔۔کبھی اس کا دل اسے کسی انہونی کا الہام دیتا ہے۔۔۔اور کبھی خواب کی صورت میں اس کو الّٰلہ کی طرف سے اشارے مل جاتے ہیں۔۔۔
الّٰلہ کی طرف سے ماؤں کے دلوں پہ الہام اترتے ہیں۔۔۔
اور مہرالنساء کے دل نے کسی انہونی کے ہونے کا الہام اس کو دے دیا تھا۔۔۔ صارم شاہ کے چہرے پہ لکھی وہ تحریر پڑھ چکی تھیں جو کوئی اور نہیں پڑھ سکا تھا۔۔۔
" امی جان۔۔۔۔۔امی جان۔۔۔۔"
عینا اور عائلہ مہرالنساء کے پاس آ کر انکے دائیں بائیں کھڑے ہو کر انکے کندھوں کو تھامنے کے انداز میں اپنا سر انکے کندھے پہ ٹکا کر روہانسے انداز میں بولیں۔۔۔
صارم شاہ بھی چپ چاپ انکے پاس آ کھڑا ہوا۔۔۔اور ڈاکٹر کے باہر آنے کا ویٹ کرنے لگے۔۔۔
کچھ دیر بعد ایمرجنسی روم کا دروازہ کھول کر ایک ڈاکٹر باہر آیا تو سب اسکی طرف لپکے۔۔۔
" ڈاکٹر صاحب میری بچی۔۔۔۔وہ ٹھیک ہے ناں۔۔۔"
رشید احمد نے فوراً سوال کیا تھا۔۔۔
" دیکھیں اسکے برین کا اوپریٹ کر کے وہاں سے بلڈ اور سیال نکالنا ایک مشکل امر تھا۔۔۔جس میں ہم کامیاب بھی رہے۔۔۔مگر چوٹ اتنی شدید تھی کہ جس کی وجہ سے اسکا پورا برین بری طرح سے متاتر ہوا۔۔۔اور اسی وجہ سے اپنی ہر ممکن کوشش کے باوجود ہم اسکو بچا نہیں سکے۔۔۔ہمیں افسوس ہے۔۔۔"
ڈاکٹر کے الفاظ تھے یا انکے سروں پہ کوئی بم پھٹا تھا۔۔۔پورے کوریڈور میں عینا ، عائلہ اور ایمن کی ددر ناک چیخیں گونج رہی تھیں۔۔۔صارم کبھی ایک کو دیکھتا تو کبھی دوسرے کو۔۔۔
وارڈ بوائے سٹریچر ایمرجنسی روم سے نکال کر انکے سامنے باہر رکھ کر جا چکا تھا۔۔۔جس پہ اجالا کا مردہ وجود چادر میں لپٹا پڑا تھا۔۔۔ایک ننھا ہنستا مسکراتا وجود اپنے ہی باپ کی بے رحمی اور حرص و لالچ کا شکار ہو کر موت کی آغوش میں جا سویا تھا۔۔۔اس بات سے بے نیاز ہو کر کہ اسکے پیچھے رہ جانے والوں کے لیے قیامت سے پہلے ہی قیامت آ چکی تھی۔۔۔
دل تھے کہ شدت غم سے پھٹنے کو آ رہے تھے۔۔۔جس کے دم سے بہنوں اور ماں کے مردہ دلوں میں زندگی کی لہر رواں دواں تھی۔۔۔وہ ان سب کو روتا چھوڑ کر کسی اور ہی دنیا کی باسی بن چکی تھی۔۔۔
ہسپتال کے کوریڈور میں گونجتی سب کی آہ و بکا اور چیخ و پکار سے وہاں کھڑی ہر نرس کی آنکھیں بھی پرنم تھیں۔۔۔
" اجالا گڑیا۔۔۔میری جان۔۔۔۔آنکھیں کھولو۔۔۔۔تم۔۔۔تم تو ہماری بہادر گڑیا ہو ناں۔۔۔سب سے زیادہ بہادر۔۔۔پلیز میری جان آنکھیں کھولو۔۔۔دیکھو اگر تم نے آنکھیں نہیں کھولیں تو میں پکا والا تم سے ناراض ہو جاؤں گی۔۔۔۔پلیز اجالا آنکھیں کھولو۔۔۔اور بتاؤ سب کو کہ تم ٹھیک ہو۔۔۔اجالااااااا۔۔۔۔۔۔اجالاااااااا۔۔۔۔۔۔"
عائلہ نے سٹریچر کے پاس آ کر لرزتے کانپتے ہاتھوں سے اجالا کے چہرے پہ پڑی چادر آہستہ سے پرے ہٹائی تھی۔۔۔پھر اسکا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر ہچکیاں لے لے کر روتے ہوئے بولی۔۔۔
مگر اسکی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر وہ اسکا نام لے لے کر اسے جھنجھوڑنے لگی۔۔۔
" اجالا۔۔۔اجالا۔۔۔اٹھو ناں۔۔۔آئی پرومس میں تمہارا سارا ہوم ورک کر دیا کروں گی۔۔۔روزانہ تمہارے ساتھ کھیلا بھی کروں گی۔۔۔اجالاااا۔۔۔پلیز اجالا اٹھو ناں۔۔۔"
ایمن سٹریچر کے دوسری سائیڈ پہ کھڑی ہو کر اجالا کا بازو ہلا ہلا کر روتے ہوئے بولی۔۔۔
مہرالنساء اجالا کے پاس کھڑی منہ سے بنا کوئی آواز نکالے یک ٹک اس کو تکے جا رہی تھیں۔۔۔
عینا اپنے آنسو روکنے کی بے سود کوشش کرتے ہوئے مٹھیاں بھینچے سٹریچر کے پاس کھڑی اجالا کے مردہ ساکت پڑے وجود کو دیکھے جا رہی تھی۔۔۔
"بند کرو تم اپنے یہ مگر مچھ کے آنسو۔۔۔۔
قاتل۔۔۔۔قاتل ہو تم۔۔۔۔تم نے مارا ہے اجالا کو۔۔۔۔تم قاتل ہو اجالا کے۔۔۔۔۔
تم مر کیوں نہیں گئے۔۔۔۔۔کاش۔۔۔کاش کہ اجالا کی جگہ پہ تم مر جاتے۔۔۔۔۔"
عینا یک دم کسی آندھی طوفان کی طرح رشید احمد کی طرف بڑھی تھی۔۔۔جو ایک سائیڈ پہ کھڑا آنسو بہا رہا تھا۔۔۔
اسکا گریبان پکڑ کر وہ چیخ چیخ کر انتہائی نفرت اور غصے سے بولی۔۔۔رشید احمد سر جھکائے چپ چاپ ہر بات سنتا گیا۔۔۔
" امی جاااااااان۔۔۔۔۔۔۔۔"
" آنٹیییییییی…….."
مہرالنساء سینے پہ ہاتھ رکھے تیورا کر نیچے گری تھیں۔۔۔انکو گرتا دیکھ کر ایمن اور صارم شاہ اور عینا مہرالنساء کو اٹھانے کو بڑھے تھے۔۔۔مگر عائلہ اپنی جگہ ساکت و جامد کھڑی تھی۔۔۔وہ سکتے میں جا چکی تھی۔۔۔
مہرالنساء کو فوراً ایمرجنسی روم میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔۔۔انکو سوئیر ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔۔۔
صارم شاہ کے لیے یہ زندگی کے سب سے اذیت ناک لمحے تھے۔۔۔وہ خود کو بے بسی کی انتہا پہ محسوس کر رہا تھا۔۔۔اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ مہرالنساء کو دیکھے یا اجالا اور بچیوں کو دیکھے۔۔۔
" عینا گڑیا پلیز ہمت کرو۔۔۔اس وقت اگر ہم نے ہمت اور حوصلے سے کام نہیں لیا تو بہت مشکل ہو جائے گی ہمارے لیے۔۔۔پلیز ہمت کرو۔۔۔
میں آنٹی کو دیکھتا ہوں۔۔۔تم یہاں اجالا اور باقی دیکھو۔۔۔پلیز۔۔۔"
صارم شاہ عینا کو کچھ بہتر حالت میں دیکھ کر اسکے پاس آیا تھا۔۔۔پھر اسکے کندھوں کو تھام کر اسے حالات کی سنگینی کا احساس دلاتے مدبرانہ لہجے میں بولا تھا۔۔۔
ایک نظر اس نے عائلہ کی طرف دیکھا۔۔۔جو ہر چیز سے بے خبر انداز لیے ساکت بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔اس کا دل چاہا کہ آگے بڑھ کر اس سے بات کرے۔۔۔کوئی تسلی تشفی کا لفظ بولے۔۔۔مگر پھر ایک گہرا سانس لے کر رہ گیا۔۔۔کہ پتہ نہیں وہ کیوں اس سے اتنی بدگمان تھی۔۔۔اس کا انداز اور رویہ دیکھ کر اس کو بات کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی۔۔۔
کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے گھر فون ملایا تھا۔۔۔سب حالات سے گھر والوں کو آگاہ کرنا بہت ضروری تھا۔۔۔
رشید احمد نے عائلہ کے سر پہ تسلی و تشفی کا ہاتھا رکھا تو اسکی طرف سے کسی قسم کا کوئی بھی ریسپونس شو نہ پا کر صارم شاہ ایک لمحہ کو ٹھٹکا تھا۔۔۔
مگر پھر دھیان رشید احمد کی طرف ہو گیا۔۔۔جو اسکو اپنے جانے کا بتا رہا تھا تاکہ پہلے پہنچ کر تدفین کے سب انتظامات دیکھ سکے۔۔۔

2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png

رات کا گہرا سناٹا ہر طرف طاری تھا۔۔۔ہر چیز خاموشی کی دبیز تہ میں لپٹی ہوئی تھی۔۔۔نہ تو پرندوں کی مختلف آوازیں آ رہی تھیں اور نہ گلی میں سے گزرتے کسی شخص کی آواز سنائی دے رہی تھی۔۔۔حویلی کے بھی سبھی ملازم اپنے گھروں کو اور اپنے کوارٹروں میں جا چکے تھے۔۔۔
مگر اس حویلی کے مکینوں کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔۔۔سب لو گ آئمہ سلطان کی اچانک طبیعت کی خرابی کی وجہ سے انکے روم میں جمع تھے۔۔۔
" آلّٰلہ کا لاکھ لاھ شکر ہے آئمہ تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا۔۔۔کیا بات ہے۔۔۔ابھی شام کو تو تمہاری طبیعت بلکل ٹھیک تھی۔۔۔پھر اچانک سے ایسے بیٹھے بٹھائے تمہارا بی پی اتنا کیسے شوٹ کر گیا۔۔۔"؟
ہائمہ خاتون نے آئمہ سلطان کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ کر فکرمندی سے پوچھا۔۔۔
" ماما۔۔۔کیسی طبیعت ہے اب آپکی۔۔۔۔ماما۔۔۔۔"
شہریار، رامین اور شرجیل نے ایک ساتھ پوچھا۔۔۔مگر آئمہ سلطان نے کوئی جواب نہ دیا۔۔۔
" آئمہ اب کیسا فیل کر رہی ہیں آپ۔۔۔"؟
شاہ سائیں نے پوچھا۔۔۔
" جی ٹھیک ہوں بھائی صاحب۔۔۔اب کافی بہتر ہوں۔۔۔"
آئمہ سلطان نے آخر چپ کا روزہ توڑ کر شاہ سائیں کو جواب دیا۔۔۔انکا رشتہ ہی ایسا تھا کہ انکو جواب دینا پڑا۔۔۔
" چلیں ٹھیک ہے آپ ریسٹ کریں اب۔۔۔اور باقی سب بھی اپنے اپنے روم میں جائیں۔۔۔آرام کرنے دیں انکو۔۔۔"
کچھ دیر پاس بیٹھ کر ادھر ادھر کی ہلکی پھلکی باتوں کے بعد شاہ سائیں اٹھ کر کھڑے ہوتے ہوئے بولے۔۔۔اور اپنے کمرے میں چلے گئے۔۔۔
" ماما پلیز آپ کچھ تو بات کریں۔۔۔کچھ تو کہیں۔۔۔ڈانٹ لیں۔۔۔چاہیں تو مار لیں مگر پلیز ایسے مت کریں۔۔۔ماما پلیز معاف کر دیں۔۔۔"
شہریار شاہ سائیں کے جاتے ہی آئمہ سلطان کے پاؤں پکڑ کر بولا۔۔۔مگر آئمہ سلطان نے تب بھی کوئی جواب نہ دیا۔۔۔جبکہ ہائمہ خاتون ، فجر، رامین حیران ہو کر شہریار کی طرف اور پھر آئمہ سلطان کی طرف دیکھنے لگیں۔۔۔مگر اتنا ضرور سمجھ گئیں کہ انکی طبیعت کی خرابی کی وجہ شہریار ہے۔۔۔
" آپا جان آپ نے فجر اور شرجیل کے رشتے بات دوبارہ تو نہیں کی بھائی صاحب سے۔۔۔"؟
آّئمہ سلطان نے شہریار کو مکمل نظر انداز کرتے ہوئے ہائمہ خاتون سے پوچھا۔۔۔
" نہیں آج ارادہ تھا کرنے کا۔۔۔مگر تمہاری طبیعت کی خرابی کی وجہ سے نہیں کر سکی۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے جواب دیا۔۔۔
" ہممممم۔۔۔۔۔شکر ہے الّٰلہ کا۔۔۔اب مت کیجیے گا۔۔۔۔"
آئمہ سلطان نے ایک گہرا سانس لے کر کہا۔۔۔۔
" کیا مطلب۔۔۔اس بات کا مطلب کیا ہے۔۔۔"؟
ہائمہ خاتون کو سخت حیرت ہوئی تھی۔۔۔۔
آئمہ کیا کوئی بات ہوئی ہے۔۔۔مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ سب مجھ سے کچھ چھپا رہے ہیں۔۔۔"؟
ہائمہ خاتون کو اچانک سے صارم شاہ اور احتشام شاہ کا فجر کے رشتے سے منع کرنا یاد آیا۔۔۔اور اب انکی بہن بھی عجیب بات کر رہی تھیں۔۔۔
ہائمہ خاتون کی بات پہ شہریار نے نظریں جھکائیں تھیں۔۔۔جبکہ احتشام شاہ اور شرجیل دونوں اسکی طرف افسوس سے دیکھنے لگے۔۔۔
" امی جان ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔بس ایسے ہی۔۔۔آپ پریشان نہ ہوں۔۔۔"
احتشام شاہ نے کہا۔۔۔
" کیا زندگی میں کبھی بھی ایسا ہوا ہے کہ مجھے کسی معاملے میں اپنی بات دہرانی پڑے۔۔۔پھر آج کیوں۔۔۔"؟
ہائمہ خاتون نے کچھ پل چپ رہنے کے بعد تنبیہی نظروں سے احتشام شاہ کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔جس پہ وہ شرمندہ ہو کر رہ گیا۔۔۔اور نفی میں اپنا سر ہلایا۔۔۔
پھر شہریار نے مختصر سا کر کے نپے تلے لفظوں میں سب سچ کہ سنایا۔۔۔جیسے جیسے احتشام شاہ بتاتا جا ریا تھا۔۔۔ویسے ویسے ہی ہائمہ خاتون کے چہرے پہ ایک رنگ آ رہا تھا اور دوسرا جا رہا تھا۔۔۔جبکہ فجر دکھ تکلیف کے اتھاہ سمندر میں ڈوبتی جا رہی تھی۔۔۔اسکو اب سمجھ میں آ رہا تھا کہ اس دن صبح صبح عینا بار بار کیوں رو رہی تھی۔۔۔
" یہ۔۔۔یہ آپ نے کیا کیا شہریار بھائی۔۔۔آپ کو ذرا بھی شرم نہیں آئی۔۔۔وہ دوست تھی میری۔۔۔ہمارے گھر پناہ لیے ہوئے تھی۔۔۔اور اس کا بڑا پن دیکھیں کہ آپکی اس حرکت کا مجھ سے بھی ذکر نہیں کیا۔۔۔آپ جانتے ہیں کہ اگر وہ یہ سب بابا کو بتا دیتیں تو اس وقت شائد آپ زندہ کھڑے نہ ہوتے۔۔۔اور وہ یہ کرنے میں حق بجانب تھی۔۔۔
بہت عزت تھی آپکی میرے دل میں۔۔۔مگر۔۔۔۔"
اس سے پہلے کہ فجر کچھ اور بھی کہتی۔۔۔مگر ہائمہ خاتون نے اسکو بیچ میں ہی روک کر چپ کروا دیا۔۔۔فجر غصے سے کمرے سے باہر نکل گئ۔۔۔تو رامین بھی آنکھوں میں آنسو لیے ایک افسوس بھری نگاہ شہریار پر ڈال کر فجر کے پیچھے ہی باہر نکل گئ۔۔۔شہریار کا دل چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔۔۔
" آپا مجھے معاف کردیں۔۔۔مجھے آپکو مجبور نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔آپ سب کا فیصلہ بلکل ٹھیک تھا۔۔۔جس گھر میں انسان نما جانور رہتے ہوں۔۔۔اس گھر سے اپنی بیٹیوں کو کوسوں دور رکھنا چاہیے۔۔۔میں بیوقوف آج تک اپنے خون کو پہچان ہی نہیں سکی۔۔۔میں یہی سمجھتی رہی کہ اپنے دوستوں کے ساتھ کبھی کبار بس تھوڑی بہت پی لیتا ہے۔۔۔یا کلب چلا گیا۔۔۔مگر یہ ہرگز نہیں جانتی تھی کہ یہ انسانیت کی سطح سے بھی گر چکا ہے۔۔۔
بلی بھی سات گھر چھوڑ کر منہ مارتی ہے۔۔۔مگر۔۔۔۔پتہ نہیں کب۔۔۔کہاں مجھ سے کوتاہی ہو گئ جو میں اسکو انسان اور جانور کا فرق ہی نہ سمجھا سکی۔۔۔
کاش کہ یہ سب سننے سے پہلے مجھے موت آ جاتی۔۔۔
آج یہاں موجود سب لوگ سن لیں۔۔۔اور جو یہاں نہیں ہیں انکو بھی بتا دیں۔۔۔
کہ میرے صرف دو بچے ہیں۔۔۔رامین اور شرجیل۔۔۔اسکے علاوہ میری اور کوئی اولاد نہیں ہے۔۔۔"
آئمہ سلطان دکھ اور اذیت سے آنسو بہاتے ہوئے بولیں۔۔۔
انکی بات سن کر سب ششدر رہ گئے تھے۔۔۔کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اتنی بڑی بات کہ دیں گی۔۔۔مگر انھوں نے ثابت کر دیا تھا کہ وہ ہائمہ کی بہن ہیں۔۔۔کسی بھی رشتے کا لحاظ کیے بنا حق سچ کا ساتھ دینے والی۔۔۔الّٰلہ سے ڈرنے والی ایک مظبوط ایمان رکھنے والی خاتون ہیں۔۔۔
اولاد کی بے راہ روی ماں باپ کو زندہ درگور تو کرتی ہی ہے۔۔۔مگر معاشرے میں انکی عزت وقار کو بھی سخت ٹھیس پنہچاتی ہے۔۔۔ساری حقیقت جان کر اپنے بیٹے سے ماں کہنے کا حق چھین کر بھی وہ ہائمہ خاتون سے نظریں نہیں ملا پا رہی تھیں۔۔۔
" ماما پلیز۔۔۔۔ایسا مت کہیں۔۔۔مجھ سے غلطی ہو گئی ہے۔۔۔آئندہ کبھی ایسا کچھ نہیں کروں گا حس سے آپکو تکلیف پہچے۔۔۔میں ہر برا کام اور اپنے سب دوست بھی چھوڑ دوں گا۔۔۔مگر پلیز آپ ایسا مت کہیں۔۔۔آپ سے کہیں کوئی غلطی نہیں ہوئی۔۔۔میں غلط تھا۔۔۔میں سمجھتا تھا کہ یہ میری زندگی ہے۔۔۔میں جو بھی کروں گا۔۔۔اس کا اثر صرف مجھ پہ ہوگا۔۔۔مگر میں یہ بھول گیا تھا کہ ہماری غلطیوں کی سزا صرف ہمیں ہی نہیں بلکہ ہم سے جڑے رشتوں۔۔۔خاص کر ہمارے ماں باپ اور بھائی بہنوں کو بھی بھگتنی پڑتی ہے۔۔۔
ماما میں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں۔۔۔آپ جو کہیں گی۔۔۔جیسا کہیں گی۔۔۔میں ویسے ہی کروں گا۔۔۔مگر پلیز مجھے اتنی بڑی سزا مت دیں۔۔۔مجھ سے ناراض مت ہوں۔۔۔پلیز ماما۔۔۔پلیز۔۔۔۔ماما میں عینا سے بھی ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لوں گا۔۔۔بس آپ مجھے معاف کردیں۔۔۔پلیز۔۔۔"
شہریار آئمہ سلطان کے پاؤں پکڑ کر پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے بولا۔۔۔ایک کڑیل جوان مرد بلکل کسی بچے کی طرح رو رہا تھا۔۔۔اور اسکا ہر آنسو اسکی شرمندگی کا گواہ بن رہا تھا۔۔۔
" ماما پلیز بھائی کو معاف کردیں۔۔۔وہ سچ میں شرمندہ ہیں۔۔۔"
شرجیل آئمہ سلطان کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر التجا کرتے بولا۔۔۔
" معافی مجھ سے نہیں یہ آپا سے مانگے۔۔۔جن کی امانت میں خیانت کی کوشش کی ہے اس نے۔۔۔اگر آپا اور عینا معاف کردیتی ہیں تو میں بھی کر دوں گی۔۔۔"
آئمہ سلطان نے ناراضگی لیے لہجےمیں شہریار کی طرف بنا دیکھے شرجیل سے کہا۔۔۔
" خالہ جان۔۔۔پلیز معاف کردیں۔۔۔بے شک نہ میں کسی کا بھائی کہلانے کا حقدار ہوں نہ بیٹا۔۔۔مگر پلیز میرے جرم کی سزا کسی اور کو نہ دیں۔۔۔"
شہریار نے ہائمہ خاتون کے گھٹنوں پہ اپنا سر رکھ کر روتے ہوئے کہا۔۔۔
" اس میں کچھ شک نہیں بیٹا کہ تم سے غلطی نہیں گناہ سرزد ہوا ہے۔۔۔کبھی کبھی انسان طاقت، جوانی، اور دولت کے نشے میں وہ خطاء کر بیٹھتا ہے جس کی کوئی معافی نہیں ہوتی۔۔۔اور یہ بھی سچ ہے کہ صبح کا بھولا شام کو لوٹ آئے تو اس کو بھولا نہیں کہتے۔۔۔کبھی کبھی ایک چھوٹی سی غلطی کا خمیازہ نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔۔۔مگر شکر ہے میرے رب کا کہ وہ وقت آنے سے پہلے ہی تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔۔۔عینا سے معافی ضرور مانگ لینا۔۔۔ایک طرف بہن کا دکھ اور دوسری طرف اپنی بے وقعتی کا احساس۔۔۔نہ جانے وہ بچی کس کرب سے گزر رہی ہوگی۔۔۔الّٰلہ رحم کرے اس پہ۔۔۔چلو اٹھو اب۔۔۔شاباش۔۔۔اور الّٰلہ سے توبہ کرو۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے شہریار کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے محبت سے سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔
" شہریار جو میں کہوں گی۔۔۔کیا وہ کرو گے۔۔۔"؟
آئمہ سلطان نے شہریار کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ کر پوچھا۔۔۔جو کہ انکے اور ہائمہ خاتون کے درمیان میں بیڈ پہ بیٹھا ہوا تھا۔۔۔
" جی ماما۔۔۔آپ حکم کریں۔۔۔"
شہریار نے انتہائی فرمانبرداری سے آئمہ سلطان کا ہاتھ چوم کر کہا۔۔۔
" عینا سے شادی کرو گے کیا۔۔۔مجھے یقین ہے وہ بچی تمہاری بہترین ہمسفر ثابت ہوگی۔۔۔اجالا کی طبیعت سنبھلتی ہے تو ہم بات کریں گے اس کی والدہ سے۔۔۔اگر تمہیں کوئی اعتراض۔۔۔۔۔"
" نہیں ایسا ممکن نہیں ہے۔۔۔میرا مطلب ہے کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے عینا کی مرضی جاننا بہت ضروری ہے۔۔۔ایسا نہ ہو کہ وہ مزید ہرٹ ہو جائے۔۔۔اور اسکی مرضی جاننے کا کام ہم فجر کے ذمہ لگا دیتے ہیں۔۔۔"
آئمہ سلطان کی بات پہ سب کو ایک جھٹکا لگا۔۔۔مگر پھر خوش بھی ہوئے۔۔۔مگر احتشام شاہ کو یہ بات بہت عجیب لگی۔۔۔نہ جانے کیوں اس بات پہ اس کو ایسا لگا جیسے کسی نے اس کا دل نکال دیا ہو۔۔۔اس لیے فوراً منع کرنے کے لیے بولا۔۔۔
" میرا خیال ہے احتشام ٹھیک کہ رہا ہے۔۔۔جو کچھ بھی ہوا ہے۔۔۔اسکے بعد پہلے عینا کی مرضی جاننا بہت اہم ہے۔۔۔پھر ہی بات آگے بڑھائی جائے گی۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے احتشام شاہ کی بات سے اتفاق کرتے کہا۔۔۔" ٹھیک ہے آپا۔۔۔جیسے آپکو بہتر لگے۔۔۔"
آئمہ سلطان نے کہا
اسی وقت احتشام شاہ کے موبائل پہ رنگ ہوئی تھی۔۔۔کال پک کرنے کے بعد دوسری طرف کی بات سن کر موب آف کر کے وہ پریشان ہو کر سب کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔
" بیٹا کیا ہوا ہے۔۔۔کس کا فون تھا۔۔۔سب خیریت تو ہے ناں۔۔۔"؟
ہائمہ اور آئمہ سلطان نے ایک ساتھ پوچھا۔۔۔
" امی جان صارم کا فون تھا۔۔۔وہ کہ رہا ہے کہ اجالا کی ڈیتھ ہو گئ ہے۔۔۔اور مہرالنساء خالہ کو سوئیر ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔۔۔"
احتشام شاہ نے جواب دیا۔۔۔
" کیا۔۔۔۔"؟
ہائمہ خاتون نے تیزی سے اپنی جگہ سے اٹھتے کہا۔۔۔
" تم بیٹا ابھی کے ابھی نکلو۔۔۔صارم کو تمہاری ضرورت ہو گی۔۔۔میں شاہ سائیں کو اطلاع کرتی ہوں۔۔۔باقی کے معاملات وہ دیکھ لیں گے خود ہی۔۔۔جلدی کرو۔۔۔فوراً جاؤ ہاسپٹل۔۔۔"
ہائمہ خاتون احتشام شاہ کو کہ کر شاہ سائیں کو بتانے کے لیے جلدی سے روم سے نکل گئیں۔۔۔
" میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔۔۔"
شرجیل نے کہا۔۔۔
" نہیں میں دین محمد کو ساتھ لے چلتا ہوں۔۔۔تم دونوں بابا سائیں کے ساتھ رہو۔۔۔"
اتنا کہ کر احتشام شاہ بھی کمرے سے نکل گیا۔۔۔
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png

" دو تین بار سیٹھ شجاع موہنی کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے آیا تو اس نے انکار کر دیا تھا۔۔۔کہ سیٹھ شجاع نے جو اس کے ساتھ کیا ہے۔۔۔اس سے اس کا دل بہت خراب ہوا ہے۔۔۔اس لیے کچھ دن وہ سکون سے رہنا چاہتی ہے۔۔۔اور سیٹھ شجاع اسکی بات مان بھی گیا۔۔۔مگر اس بار جب آیا تو موہنی نے ساتھ جانے کے لیے ہامی بھر لی۔۔۔اور ایسے ظاہر کیا جیسے وہ اس جگہ سے جان چھوٹنے پہ بہت خوش ہے۔۔۔
" موہنی اپنی بہت ضروری چیزیں اور ایک دو سوٹ ساتھ میں رکھ لو۔۔۔اس کے علاوہ اور کچھ بھی مت رکھو۔۔۔میں نے بینک میں تمہارا اکاؤنٹ کھلوا دیا ہے۔۔۔جس میں 50 لاکھ جمع کروا دئیے ہیں۔۔۔اور یہ چیک بک ہے اور اپنے باپ کا ایڈریس سنبھال کر رکھنا۔۔۔یہ دونوں چیزیں اگر گم ہو گئیں تو میں نہیں جانتی آگے کیا ہوگا۔۔۔اس کو سنبھال کے رکھنا۔۔۔بڑی مشکل سے انھوں نے یہ ایڈریس ڈونڈھا ہے۔۔۔میرا اور رحمو بابا کا نمبر تو تمہارے پاس ہے ناں۔۔۔کبھی بھی کسی چیز کی ضرورت ہو۔۔۔یا کوئی مسلہ ہو تو بھول کر بھی یہاں آنے کی غلطی نہ کرنا۔۔۔رحمو بابا کو کال کر دینا۔۔۔۔وہ سب دیکھ لیں گے۔۔۔اب رات کو ٹھیک 2 بجے کے قریب ہم اپنے اگلے پلان کو عملی جامہ پہنائیں گے۔۔۔اس وقت سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں بند ہوں گے۔۔۔کوئی مسلہ نہیں ہوگا۔۔۔۔ہمارے پاس بس چند گھنٹے ہیں۔۔۔رحمو بابا کچھ دیر تک ڈیڈ باڈی لے کر آتے ہوں گے۔۔۔"
نیلم بائی اور رحمو بابا نے موہنی کو وہاں سے نکالنے کے لیے جو پلان بنایا تھا۔۔۔اس کے ہر پوائنٹ کو موہنی پہ واضح کرتے ہوئے بولیں۔۔۔اس وقت رات کے 11 بجے کا وقت تھا۔۔۔نیلم بائی سب سے نظر بچا کر موہنی کے کمرے میں آئی تھی تا کہ کسی کو بھی پتہ نہ چلے کہ لاسٹ ٹائم وہی موہنی کے پاس تھی۔۔۔
" کیا بات ہے موہنی۔۔۔کیا تم خوش نہیں ہو۔۔۔کوئی مسلہ ہے کیا۔۔۔"؟
نیلم بائی نے موہنی سے پوچھا۔۔۔جو مردہ دلی سے چپ چاپ اپنی پیکنگ کر رہی تھی۔۔۔اور اسکی کسی بھی بات پہ کوئی ریسپونس شو نہیں کر رہی تھی۔۔۔
" خالہ۔۔۔آپ بہت یاد آئیں گی۔۔۔پلیز آپ چلیں ناں میرے ساتھ۔۔۔رحمو بابا سے کہیں کہ وہ دو باڈی کا انتظام کر دیں۔۔۔میں کیسے رہوں گی آپکے بنا۔۔۔"
نیلم بائی کی بات پہ کچھ دیر کو چپ رہنے کے بعد وہ یکدم نیلم بائی کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔۔
" نہیں چندا یہ ممکن نہیں ہے۔۔۔سیٹھ شجاع بہت کایاں آدمی ہے۔۔۔وہ فوراً بات کی تہ تک پہنچ جائے گا۔۔۔اور پھر پاتال سے بھی ہمیں ڈونڈھ نکالے گا۔۔۔وہ تم پہ فریفتہ ہے۔۔۔اس لیے تم نے اس کا صرف ایک ہی روپ دیکھا ہے۔۔۔نرمی والا۔۔۔پیار والا۔۔۔
اس کا دوسرا روپ بہت خوفناک ہے۔۔۔سچ جان کر وہ کسی کو بھی نہیں چھوڑے گا۔۔۔اور نہ معاف کرے گا۔۔۔"
نیلم بائی نے موہنی کو اپنے دونوں بازوؤں میں بھینچ کر زور سے ہگ کرتے ہوئے اس کے ماتھے پہ بوسہ دیتے کہا۔۔۔
" اور اگر بابا نے یا باقی لوگوں نے مجھے قبول نہ کیا تو۔۔۔۔۔۔تو کیا کروں گی میں۔۔۔"؟
موہنی نے اپنے آنسو صاف کر کے اپنے خدشے کا اظہار کیا۔۔۔
" ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔۔۔کوئی مرد چاہے کتنا ہی بے غیرت اور عیاش کیوں نہ ہو۔۔۔یہ کبھی برداشت نہیں کرتا کہ اسکی عزت کسی کوٹھے کی زینت بنے۔۔۔بیوی اور بیٹی میں بہت فرق ہوتا ہے۔۔۔
بیوی کو طلاق ہو جاتی ہے۔۔۔مگر اولاد کو کبھی طلاق نہیں ہوتی۔۔۔چاہے وہ کتنی ہی نافرمان کیوں نہ ہو۔۔۔اس لیے پریشان مت ہو۔۔۔اور اگر باالفرض کچھ ایسا ہو بھی جائے تو رحمو بابا کو کال کر لینا۔۔۔میرے موب پہ مت کرنا۔۔۔ہو سکتا ہے سیٹھ شجاع اسے انڈراوبزرویشن میں رکھے۔۔۔"
نیلم بائی نے اسے تسلی دیتے کہا۔۔۔
" اور ایک اور بات کہ آج کے بعد تم موہنی نام یوز نہیں کرو گی۔۔۔تم اپنا اصل نام مہدیہ استعمال کرو گی۔۔۔ٹھیک ہے۔..بس سٹاپ تک رحمو بابا تمہارے ساتھ ہی جائیں گے۔۔۔ٹکٹ لے کر اور تمہیں فیصل آباد کی بس پہ بٹھا کر ہی آئیں گے۔۔۔فیصل آباد پہنچ کر کسی سے بھی اس گاؤں کی بس یا وین کا پوچھ لینا۔۔۔
نیلم بائی موہنی کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ بیڈ پہ بٹھاتے ہوئے اس کا سر اپنے کندھے سے لگا کر اسے پیار کرتے ہوئے بولی۔۔۔
وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔۔۔جہاں اس جگہ سے نکلنے کی خوشی تھی۔۔۔وہیں پہ ایک انجانی سی اداسی بھی موہنی کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے تھی۔۔۔آنے والے حالات کا خوف۔۔۔زندگی میں پہلی بار تنہا سفر کرنے کاخوف۔۔۔منزل پر پہنچ کر بھی نہ پہنچنے کا خوف۔۔۔اسکو اندر سے پریشان کر رہا تھا۔۔۔

" آگ۔۔۔آگ۔۔۔موہنی کے کمرے میں آگ لگ گئ ہے۔۔۔"
گلشن، جہاں آرا، مینا، شوکت اور وہاں موجود ہر کمرہ بند جوڑا اپنے اپنے روم سے نکل کر چیخ و پکار کر رہا تھا۔۔۔موہنی کی درد ناک چیخیں اور بچاؤ بچاؤ کی پکار سب کے دل لرزا رہی تھی۔۔۔مگر آگ اس قدر بھڑک چکی تھی کہ کسی کو بھی اندر جا کے موہنی کو بچانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔۔۔
" شوکت۔۔۔فائر برگیڈ والوں کو فون کرو جلدی۔۔۔"
خانم نے پاس کھڑے شوکت سے اونچی آواز میں چیخ کر کہا۔۔۔
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png


ماضی۔۔۔۔!

2 سال بعد۔۔۔
دلاور عرف دانی 18 سال کا ہو چکا تھا۔۔۔جیل سے آنے کے بعد اس نے پڑھائی کو خیر باد کہ دیا تھا۔۔۔کالج اور محلے کے ارد گرد کے رہنے والے سب جاننے کے باوجود کہ وہ جیل کس وجہ سے گیا تھا۔۔۔پھر بھی اسے ایسے ٹریٹ کرتے جیسے وہ کوئی قاتل ہو۔۔۔فاطمہ اور رضوانہ خاتون کے بار بار اصرا پہ اس نے کالج میں ایڈمیشن لے تو لیا مگر آگے پڑھنا اس کے لیے دو بھر ہو گیا۔۔۔شریف لڑکے کسی چھوت کی طرح اس سے دور بھاگتے اور آوارہ لڑکے اپنے گینگ کا حصّٰہ بنانا چاہتے۔۔۔
مبین ، اکرم اور طارق (جو کہ کچھ ہفتوں بعد کومہ سے باہر نکل آیا تھا۔۔۔) کسی نہ کسی بہانے اسکے راستے میں آ جاتے۔۔۔ایسی باتیں کرتے کہ جس سے وہ غصے میں آکر کچھ ری ایکشن شو کرے۔۔۔مگر رضوانہ خاتون نے اس کو جیل سے واپس آتے ہی اسی دن اپنی قسم دے کر ہر قسم کے جھگڑے سے دور رہنے کو کہا۔۔۔اور وہ اسی قسم میں بندھا انکی ہر طرح کی بکواس چپ چاپ سنتا رہتا۔۔۔
محلے کے لوگوں کے لیے وہ جو پہلے سب کے لیے آئیڈیل بیٹا تھا۔۔۔وہی سب کے لیے غنڈہ بن گیا۔۔۔لوگوں نے ان سے ملنا جلنا آنا جانا ختم کر دیا۔۔۔اور جن کی عزت کے لیے اُس نے اپنی زندگی اپنے مستقبل کی پرواہ نہ کی۔۔۔انھوں نے بھی پلٹ کر کبھی خبر نہ لی۔۔۔
لوگوں کی یہیں پر بس نہ ہوئی۔۔۔اسکے اور فاطمہ کے رشتے پر بھی انگلیاں اٹھنے لگیں۔۔۔لوگوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ رضوانہ خاتون تو معزوری کی وجہ سے سارا دن ایک کمرے میں بند رہتی ہیں۔۔۔دانی اور فاطمہ جوان جہان ہونے کی وجہ سے اب ایک چھت تلے نہیں رہ سکتے۔۔۔
ان سب باتوں کی وجہ سے دانی نے کالج چھوڑ دیا۔۔۔
اور صبح کا گیا رات لیٹ نائٹ گھر آنے لگا۔۔۔
آج بہت دنوں بعد محلے سے ایک عورت انکے گھر آئی تھی۔۔۔
" رضوانہ بہن اگر برا نہ مانو تو ایک بات کہوں۔۔۔"
مریم بی نے بڑے رازدارانہ انداز میں کہا۔۔۔
" جی جی بہن۔۔۔کہیے جو بھی کہنا ہے۔۔۔"
رضوانہ خاتون نے کہا۔۔۔
" دیکھو آج نہیں تو کل تم نے بیٹی کی شادی کرنی تو ہے۔۔۔تو میرا مشورہ ہے کہ ادھر ادھر دیکھنے کی بجائے تم گھر پہ ہی رشتہ کر لو۔۔۔اگر تھوڑا چھوٹا ہے تو کیا ہوا۔۔۔اور یہ تو سنت بھی ہے۔۔۔حضرت خدیجہ رضہ بھی تو آپ صہ سے عمر میں بڑی تھیں کافی سال۔۔۔اور یہاں تو بس دو تین سال کا فرق ہے۔۔۔میں تو کہوں کہ دانی کو اپنا داماد بنا لو۔۔۔اس سے لوگوں کی زبانیں بھی بند ہو جائیں گی۔۔۔"
مریم بی کے الفاظ تھے یا کوئی ہتھوڑے جو رضوانہ خاتون کے سر پہ برس رہے تھے۔۔۔
" بس کرو مریم بی۔۔۔کچھ تو الّٰلہ کا خوف کرو۔۔۔بھائی ہے وہ اس کا۔۔۔"
رضوانہ خاتون کو انکی بات سخت گراں گزری تو سختی سے غصیلے لہجے میں کہا۔۔۔
" ارے بہن اس میں غصّٰہ کرنے کی کیا بات ہے۔۔۔آج میں کہ رہی ہوں بعد میں پورا محلہ اور پوری دنیا کہے گی۔۔۔میں تو نیک مشورہ دے رہی تھی۔۔۔آگے تمہاری مرضی۔۔۔"
یہ کہ کر مریم بی اپنی چادر سنبھالے الّٰلہ حافظ کہ کر نکل گئیں۔۔۔فاطمہ کمرے کے باہر کھڑی سب باتیں سن کر دوسرے کمرے میں جا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔پھر اپنی ماں کے آوز دینے پہ جلدی سے منہ پہ پانی کے چھینٹے مار کر کمرے کے اندر چلی آئی۔۔۔

" ارے واہ یار۔۔۔موجیں لگی ہوئی ہیں۔۔۔ایک ٹکٹ میں دو دو مزے۔۔۔"
مبین نے فاطمہ اور دانی کو آتا دیکھ کر فقرہ کسا۔۔۔دانی فاطمہ کو سکول سے چھٹی کے بعد واپس لے کر آرہا تھا کہ راستے میں تینوں آوارہ لڑکوں نے آوازیں کسنا شروع کر دیں۔۔۔انکے ساتھ دو اور لڑکے بھی تھے۔۔۔جو پہلے کبھی انکے ساتھ نظر نہیں آئے تھے۔۔۔
" ویسے یار یہ بھی ٹھیک ہے۔۔۔گھر سے باہر پکی بہن۔۔۔اور گھر کے اندر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑا سیانا نکلا یہ تو۔۔۔"
طارق نے انتہائی غلیظ بات کی جس پہ اکرم اور مبین اور باقی دونوں لڑکے بھی ہاتھ پہ ہاتھ مار کر اونچی اونچی قہقہے لگانے لگے۔۔۔مگر انکی بات دانی کو اندر باہر سے جھلسا کر رکھ گئ۔۔۔
" آپی گھر جائیں آپ۔۔۔ میں آتا ہوں۔۔۔"
دانی مٹھیاں بھینچے غصّٰہ ضبط کرتے بولا۔۔۔
" پلیز دانی دفعہ کرو انھیں۔۔۔کتوں کا کام بھونکنا ہے۔۔۔بھونکنے دو انکو۔۔۔"
فاطمہ نے دانی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ کھینچنے کی کوشش کی۔۔۔مگر دانی اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہ ہلا۔۔۔
" میں نے کہا کہ جائیں آپ۔۔۔۔"
اب کی بار وہ غصے سے دھاڑ کر بولا تھا۔۔۔
" نہیں جاؤں گی میں تمہیں چھوڑ کر۔۔۔اور امی سے تم نے وعدہ کیا تھا۔۔۔یہ مت بھولو۔۔۔"
فاطمہ نے بھی اونچی آواز میں کہا۔۔۔
" اففففففف۔۔۔۔۔یار اسے کہتے ہیں محبتاں سچیاں۔۔۔مریں گے بھی ساتھ اور جئیں گے بھی ساتھ۔۔۔"
اکرم خباثت سے بولا۔۔۔
" یار لگتا ہے انکو پتہ نہیں ہے کہ کچھ کتے بھونکنے کے ساتھ ساتھ کاٹتے بھی ہیں۔۔۔"
طارق نے یہ کہتے ساتھ ہی دانی کو زوردار دھکا دیا تھا۔۔۔جس کے لیے دانی ہرگز تیار نہیں تھا۔۔۔اس لیے وہ لڑکھڑاتا ہوا دور جا گرا۔۔۔اسکے گرتے ہی تینوں بھوکے کتوں کی طرح اس پہ پل پڑے۔۔۔
" بڑا ہیرو بنتا ہے تو۔۔۔آج تجھے بتاتے ہیں کہ تو ہیرو ہے یا زیرو۔۔۔"
طارق اور اکرم نے اسے اٹھنے کا موقع ہی نہیں دیا۔۔۔اور وہیں زمین پہ گرے گرے دبوچ لیا۔۔۔جبکہ مبین اور دونوں نیو لڑکے مکے ، گھونسے اور ٹانگیں جہاں اس کے لگیں ماری جائیں۔۔۔فاطمہ چیختی ہوئی دانی کو چھڑوانے کو آگے بڑھی تو مبین نے ایک زوردار تھپڑ اسکے منہ پہ بھی مار دیا۔۔۔
" بڑی فکر ہو رہی ہے اپنے یار کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم میں کیا برائی ہے ہاں۔۔۔جو اسکو بغل میں لیے پھرتی ہو۔۔۔"
مبین دانی کو چھوڑ کر فاطمہ کو بالوں سے پکڑ کر جھٹکا دیتے ہوئے بولا۔۔۔
" چھوڑ اسے ذلیل انسان۔۔۔تیری لڑائی مجھ سے ہے۔۔۔مرد ہے تو مجھ سے لڑ۔۔۔"
دانی نے ہاتھا پائی کے دوران چیخ کر مبین سے کہا۔۔۔
" تجھے یہ بتانے کے لیے کہ ہم کیسے مرد ہیں یہی لوگ کافی ہیں۔۔۔میں اسکو سمجھا دوں کہ کتے بھونکتے نہیں کاٹتے بھی ہیں۔۔۔"
مبین دانی کو جواب دے کر فاطمہ کو جکڑ کر اس کے ہونٹوں پہ کس کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بولا۔۔۔
" اؤئے خبیثو۔۔۔تہاڈی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی وقت بلال کی گرجدار آواز کانوں میں پڑی تو دانی کے ہمت ہارتے وجود میں ایک نئ طاقت پیدا ہوئی۔۔۔مبین فاطمہ کو چھوڑ کر بلال کی طرف لپکا۔۔۔تھوڑی دیر میں وہ دونوں ان پانچوں پہ حاوی ہونے لگے تو پانسہ پلٹتا دیکھ کر سب نے رفو چکر ہونے میں آفیت سمجھی۔۔۔اور دھمکیاں دیتے ہوئے وہاں سے نو دو گیارہ ہو گئے۔۔۔
" آپی آپ ٹھیک ہیں ناں۔۔۔زیادہ چوٹ تو نہیں لگی۔۔۔"
دانی کے چہرے پہ نیل پڑے ہوئے تھے۔۔۔ہونٹ پھٹا ہوا تھا۔۔۔جسم میں بھی جگہ جگہ درد تھا۔۔۔مگر اپنی ساری تکلیف بھول کر اسے فاطمہ کی فکر ہوئی تھی۔۔۔اس نے سر سے پیر تک فاطمہ کا جائزہ لیا تھا کہ کہیں وہ اپنی چوٹ چھپا تو نہیں رہی۔۔۔
" نہیں۔۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔۔تم ٹھیک ہو۔۔۔"
" ہاں میں ٹھیک ہوں۔۔۔"
" تمہارا بہت بہت شکریہ بھولے۔۔۔اگر تم نہیں آتے تو میں خود سے کبھی نظر نہیں ملا پاتا۔۔۔"
دانی نے فاطمہ کو جواب دے کر دانی سے کہا۔۔۔
" آپی۔۔۔ماسو ماں کو پلیز کچھ مت بتائیے گا۔۔۔جو بھی ہوا ہے۔۔۔"
دانی نے فاطمہ کو منع کیا۔۔۔فاطمہ نے اثبات میں سر ہلا کر جواب دیا۔۔۔

ایک ہفتے بعد۔۔۔۔
" مبین کا ہاتھ تم نے کاٹا ہے۔۔۔"
کل رات پولیس دانی کو پھر پکڑ کر لے گئ تھی۔۔۔مبین کو اغواہ کر کے کسی نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا تھا۔۔۔اور اسکے دوستوں نے اپنے شک کا اظہار دانی پہ کیا تھا۔۔۔مگر دانی اس وقت اپنے دوستوں کے ساتھ کسی ہوٹل میں کھانا کھا رہا تھا۔۔۔سی سی ٹیوی فوٹیج بھی اسکے حق میں گئ تھی۔۔۔جس کی وجہ سے پولیس کو اسے چھوڑنا پڑا۔۔۔
مگر فاطمہ کو پورا یقین تھا کہ یہ کام دانی کا ہے۔۔۔اسی وجہ سے اس سے کڑے تیوروں سے پوچھنے لگی۔۔۔
" کیا ہوگیا ہے آپی۔۔۔آپ نے اتنا ظالم سمجھا ہوا ہے مجھے۔۔۔میں تو اس وقت اپنے دوستوں کے ساتھ تھا۔۔۔"
دانی نے پر اعتماد انداز میں کہا۔۔۔
" میں تمہیں بھی جا نتی ہوں اور تمہارے دوستوں کو بھی۔۔۔جن کے گھروں میں فاقوں تک نوبت آ جاتی ہو۔۔۔وہ ہوٹلنگ نہیں کرتے۔۔۔اور اتنی لیٹ نائٹ اسی لیے گھر آتے تھے ناں کہ تم اس سب کی پلاننگ کر رہے تھے۔۔۔
اس لیے جو پوچھ رہی ہوں وہ سچ سچ بتاؤ۔۔۔ورنہ میں امی کو سب بتا دوں گی۔۔۔پھر دینا جواب انکو۔۔۔"
فاطمہ ہر لفظ چبا چبا کر غصے سے بولی۔۔۔
" کیا مصیبت ہے۔۔۔ہاں میں نے کاٹا تھا۔۔۔اور جو بھی آپکی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے گا۔۔۔اس کی آنکھیں نکال دوں گا۔۔۔جو ہاتھ لگائے گا۔۔۔اس کا ہاتھ کاٹ ڈالوں گا۔۔۔اور میں نے جو بھی کیا مجھے اس پہ کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔۔۔وہ لوگ اسی قابل تھے۔۔۔"
دانی نے آخر تھک ہار کر فاطمہ کو سچ بتا ہی دیا۔۔۔
" لوگ سچ کہتے ہیں۔۔۔تم واقعی ایک غنڈے بن چکے ہو۔۔۔جیل کی ہوا نے تم سے تمہاری انسانیت چھین لی ہے۔۔۔تم۔۔۔تم ہمارے دانی نہیں ہو۔۔۔تم تو کوئی اور ہی ہو۔۔۔
اور یہ فیصلہ کرنے والے تم کون ہوتے ہو کہ کون کس قابل ہے۔۔۔"
فاطمہ دانی کی بات سن کر سکتے میں آ گئ تھی۔۔۔دکھ اور غصے میں اسکے منہ میں جو آیا بولتی گئ۔۔۔
دونوں اس بات کا ہوش کھو چکے تھے کہ انکی آوازیں اتنی بلند ہو گئ ہیں کہ وہ جو بات بھی کر رہے ہیں اس چھوٹے سے گھر کے چھوٹے سے دوسرے کمرے میں رضوانہ خاتون کو صاف سنائی دے رہی ہیں۔۔۔
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png


 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top Bottom
Chat