Ccutp cccut
Well-known member
Offline
Episode , 62
" دانی واپس نہیں چلنا کیا۔۔۔صبح ہو گئ ہے۔۔۔"
بلال نے دلاور کے کندھے کو آہستہ سے ہلا کر کہا جو ساری رات الّٰلہ سے گریہ زاری کرتے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے فرش پہ بچھی جائے نماز پہ ہی ابھی کچھ دیر پہلے ہی سویا تھا۔۔۔بلال کی رات جب جب بھی آنکھ کھلی اس نے دلاور کو رب کے حضور گڑگڑاتے ہوئے پایا تھا۔۔۔
وہ خوش تھا بہت خوش کہ دلاور کو اپنی غلطیوں کا احساس ہو گیا تھا۔۔۔دل ہی دل میں الّٰلہ کا شکر ادا کرتے عشاء کی نماز کے بعد وہ سو گیا تھا۔۔۔صبح اسکی آنکھ کھلی تو دلاور کو پھر اسی حالت میں پایا۔۔۔فجر کی نماز دونوں نے ساتھ میں امام صاحب کی امامت میں ادا کی۔۔۔
بلال نماز کے بعد پھر سو گیا تھا اب آنکھ کھلی تو دلاور کو سوتے پایا۔۔۔صبح کے 10 بج چکے تھے۔۔۔وہ کل رات سے گاؤں سے غائب تھے۔۔۔واپس جاکر نہ صرف انھیں پنچایت کے سامنے حاضر ہونا تھا بلکہ اپنی ہر غلطی کی معافی بھی مانگنا تھی۔۔۔
" ہممممم ٹھیک کہ رہے ہو ہمیں واپس جانا ہوگا ایسا نہ ہو کہیں بہت دیر ہو جائے۔۔۔امام صاحب سے اجازت لے کر ابھی نکلتے ہیں۔۔۔"
دلاور نے اٹھ کر بیٹھتے دھیمے لہجے میں کسی ٹرانس میں کہا پھر وہ امام صاحب سے اجازت لینے انکے حجرے میں گئے تو وہ وہاں موجود نہیں تھے۔۔مسجد سے باہر آئے تو دیکھا امام صاحب مسجد والی گلی کی صفائی کر رہے تھے۔۔۔انھیں بہت عجیب سا لگا اور شرم بھی آئی کہ اس عمر میں اور پھر انکی موجودگی میں وہ یہ کام کر رہے ہیں۔۔۔
" امام صاحب یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔۔لائیں مجھے دیں میں کردیتا ہوں۔۔۔"
دلاور اور بلال ایک ساتھ آگے بڑھ کر ایک ساتھ بولے۔۔۔
" نہیں بیٹا میں ہمیشہ اپنا کام خود کرتا ہوں۔۔۔اور ویسے بھی مجھے بہت سکون ملتا ہے یہاں کی صفائی ستھرائی اپنے ہاتھ سے کرنے سے۔۔۔
اور دوسرا اس لیے بھی کرتا ہوں کہ میرا نفس مجھ پہ حاوی نہ ہونے پائے اپنے نفس کو جوتے مارتے رہنے سے بندہ ہمیشہ اپنی اوقات میں اور الّٰلہ کا بندہ بن کر رہتا ہے۔۔۔اگر بندہ اپنے نفس کو کھلا چھوڑ دے اسے اپنی من مانی کرنے دے تو انسان سے شیطان بننے میں دیر نہیں لگتی اور میں الّٰلہ کا بندہ بن کر ہی رہنا چاہتا ہوں۔۔۔"
امام صاحب نے انکو منع کرتے مسکرا کر اپنا کام جاری رکھتے کہا۔۔۔
" ہم لوگ آپ سے واپسی کی اجازت لینے آئے تھے۔۔۔اگر آپ اجازت دیں تو۔۔۔"؟
دلاور نے مؤدبانہ انداز میں کہا۔۔۔۔
" واپس جا پاؤ گے کیا۔۔۔"؟
امام صاحب نے سیدھے ہوتے بغور دلاور کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔
" واپس ہی تو جانا ہے۔۔۔اگر اب نہ گیا تو مجھے ڈر ہے کہ پھر ساری عمر واپسی کے لیے بھٹکتا رہوں گا۔۔۔میں آپکا احسان ہمیشہ یاد رکھوں گا امام صاحب ، آپ کی وجہ سے مجھے خود کو پہچاننے کی توفیق ملی میں اپنے دل کے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ پایا۔۔۔الّٰلہ پاک کا صد شکر جس نے آپ کو ہم سے ملایا اگر آپ ہمیں نہیں ملتے تو شائد میں ہمیشہ اندھیروں کا مسافر بن کے رہ جاتا۔۔۔
امام صاحب کی بات میں مخفی اشارے کو سمجھتے دلاور نے سر جھکائے ندامت اور شرمندگی کے ملے جلے تاثر لیے کہا تو امام صاحب اسکی بات پہ مسکرا دئیے۔۔۔
" لو بیٹا آج میں پہلی بار اپنا کام کسی کو دے رہا ہوں۔۔۔اس مسجد کی اور اس گلی کی صفائی کرو گے کیا۔۔۔"؟
امام صاحب نے کہا تو دلاور نے خوشدلی سے انکے ہاتھ سے جھاڑو پکڑ لیا جبکہ ایک اور جھاڑو ڈونڈھ کر بلال بھی اسکے ساتھ صفائی کرنے لگا۔۔۔آس پاس سے گزرتے لوگ حیران ہو کر ان سوٹڈ بوٹد بندوں کو دیکھنے لگے جو بڑے مگن ہو کر دلجمعی سے گلی کی صفائی کر رہے تھے۔۔۔کچھ بچے انکو دیکھ کر ہنسنے لگے تو بلال اور دلاور بھی انکی طرف دیکھ کر مسکرانے لگے۔۔۔انکی دیکھا دیکھی وہ بچے بھی انکے ساتھ مل کر صفائی کرنے لگے۔۔۔پھر سارا کوڑا ایک جگہ جمع کر کے اسے دلاور نے آگ لگا دی۔۔۔
بلال اور دلاور کے نہ صرف کپڑے بلکہ بال بھی مٹی سے اٹے پڑے تھے۔۔۔
دلاور کی بلال کے حلیے پہ نظر پڑی تو اسکی ہنسی چھوٹ گئ۔۔۔بلال نے سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھا پھر فوراً اسکے ہنسنے کی وجہ سمجھ کر ہنستے ہوئے اسکی طرف اشارہ کیا کہ تمہارا بھی میرے جیسا حال ہوا پڑا ہے۔۔۔دونوں نے نل سے منہ ہاتھ دھویا کپڑے جھاڑ کر امام صاحب کے پاس آ کر بیٹھ گئے جہاں دو تین محلے کے بزرگ امام صاحب کے پاس بیٹھے انکے بارے میں ہی گفتگو کر رہے تھے۔۔۔انکے دل میں سکون و اطمینان کی اک عجب سی کیفیت جاگزیں تھیں جو اس سے پہلے انھیں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔۔۔دونوں کا ہی دل چاہ رہا تھا کہ بس یہیں بیٹھے رہیں کہیں مت جائیں۔۔۔مگر جو کچھ وہ پیچھے بگاڑ آئے تھے اس کو سدھارنے کے لیے انکا واپس جانا بہت ضروری تھا۔۔
" بیٹا تم لوگ بہت خوش قسمت ہو۔۔۔شائد تمہیں معلوم نہیں کہ سالوں سے امام صاحب نے اس گلی کی صفائی کا فریضہ ہمیشہ خود انجام دیا مگر آج پہلی بار یہ توفیق کسی اور کو ملی ہے۔۔۔مسجد کی صفائی جس کا دل چاہتا وہ کر لیتا تھا مگر اس گلی کی صفائی کا ذمہ امام صاحب نے کسی کے سپرد نہیں کیا۔۔۔"
امام صاحب کے پاس بیٹھے ایک بزرگ نے مسکراتے ہوئے بڑی اپنائیت سے کہا
" بیٹا کیا نام ہے تمہارا۔۔۔کہاں سے آئے ہو۔۔۔یہاں کے تو نہیں ہو تم دونوں۔۔۔"؟
اسی بزرگ نے دوسرا سوال کیا تھا۔۔۔
جی سچ کہا ہم اس گاؤں کے رہائشی نہیں ہیں۔۔۔اور نام عبدالّٰلہ ہے۔۔۔دلاور نے دھیمے مگر مؤدب لہجے میں جواب دیا۔۔۔بلال نے بھی اپنا نام عبدالّٰلہ بتایا تو وہ بزرگ انکی بات پہ گہری مسکراہٹ لیے ہنس دئیے۔۔۔امام صاحب کی قربت حاصل کرنے والا ہر شخص عبدالّٰلہ ہی تو بن جاتا تھا نہ جانے انکی شخصیت میں ایسا کیا تھا کہ جو ایک بار ان سے مل لیتا پھر ان کا ہی بن جاتا۔۔۔امام صاحب کی روح پرور باتوں میں کھو کر وہ بھول گئے کہ انکو واپس جانا ہے۔۔۔
" بیٹا زندگی محلت دے نہ دے ، پھر ملاقات ہو نہ ہو مگر جانے سے پہلے میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ پیسے کی فراوانی عیش و عشرت ، جوش جوانی ، طاقت ، معاشرے میں اچھے مقام پہ ہونا بندے میں تکبر بھر دیتا ہے۔۔۔اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب کس وقت وہ رحمان کے رستے کو چھوڑ کر شیطان کے رستے پہ چل پڑا ہے۔۔۔
لوگ اس کی واہ واہ کریں ، اس کی ہر بات بلا چوں چرا مان لیا کریں ، کوئی اس سے اختلاف نہ کرے ، جو وہ کہے یا جو وہ کرے بس وہی ٹھیک۔۔۔یہ الّٰلہ کے بندے کی صفات نہیں ہوتیں۔۔۔یہ شیطان کے بندے کی صفات ہیں۔۔۔
الّٰلہ کا بندہ تو بس الّٰلہ کے بندوں کا خادم بن کر انکی خدمت کرتا یے۔۔۔اپنی حیثیت اپنی اوقات کے مطابق الّٰلہ کے بندوں کے لیے بس آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔۔۔
ہر وقت اس فکر میں رہتا ہے کہ اسکی وجہ سے کسی کا دل نہ دکھے ، کسی کو اسکی وجہ سے کوئی پریشانی نہ ہو۔۔جانتے ہو بیٹا روز قیامت سب سے کڑا امتحان عبادات کا نہیں ہوگا بلکہ حقوق العباد کا ، یعنی الّٰلہ کے بندوں کے حقوق کا ہوگا۔۔۔لوگوں کی دل آزاری سے بچو ، انکی عزت نفس مجروح کرنے سے بچو ، کسی کی مدد کرو تو اس حال میں کہ الّٰلہ کے سوا کوئی تمہارا رازدار نہ ہو۔۔۔اپنے سے کم درجہ اپنے غریب رشتہ داروں کا خاص طور پہ خیال رکھو انکو حقیر مت سمجھو ان سے ملو تو اس طرح سے ملو کہ وہ بادشاہ ہیں اور تم فقیر۔۔۔
لوگ تمہارے بارے میں کیا سوچتے ہیں ، کیا کہتے ہیں ، اس بات کی کبھی فکر مت کرنا۔۔۔اگر فکر کرنی ہے تو ہمیشہ اس بات کی کرنا کہ الّٰلہ تم سے کیا چاہتا ہے ، جب بھی کوئی معاملہ درپیش آئے تو بس یہ دیکھنا کہ الّٰلہ کا کیا حکم ہے ، اور الّٰلہ کے حکم کے آگے اگر تمہارے سامنے تمہارے خونی رشتے ماں باپ بھی آ کھڑے ہوں تو تب بھی اپنے دل پہ قابو رکھنا ہمیشہ وہ فیصلہ کرنا جو الّٰلہ کا حکم ہے۔۔۔
اور اس رستے پہ چلتے اگر تم سے تمہارے اپنے ناراض ہو جائیں تو پرواہ مت کرنا۔۔۔کہ انکی ناراضگی سے کہیں زیادہ الّٰلہ کی ناراضگی خوفناک ہے۔۔۔
الّٰلہ کے آگے ہمیشہ جھکے رہنا ، نماز مت چھوڑنا۔۔۔
اب جاؤ تم لوگ۔۔۔الّٰلہ تمہارا حامی و ناصر ہو۔۔۔ہمیشہ الّٰلہ کی امان میں رہو۔۔۔"
امام صاحب کی مدلل گفتگو اور انکے بیان کرنے کا انداز اس قدر دلنشیں تھا کہ دلاور اور بلال ساکت و صامت بیٹھے سر جھکائے سنتے رہے انھیں یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس دنیا سے کٹ کر وہ کسی اور ہی دنیا میں بیٹھے ہوئے ہیں۔۔۔امام صاحب نے چند مزید نصیحتوں کے بعد اپنی بات ختم کر کے انکو گلے ملنے کے بعد جانے کی اجازت دی۔۔۔امام صاحب سے گلے ملتے ان دونوں کو یوں محسوس ہوا جیسے کھلے آسمان تلے تیز دھوپ میں اور تپتے صحرا میں چلتے ہوئے کسی نے ان پہ سایہ کردیا ہو پاؤں کے نیچے ٹھنڈا فرش بچھا دیا ہو جیسے کسی نے ٹھنڈی پر کیف ہواؤں کا رخ انکی طرف موڑ دیا ہو۔۔۔
" امام صاحب اگر آپکی اجازت ہو تو کیا کبھی کبار ہم آپ سے ملنے آ سکتے ہیں آپ سے مل کر دل کو بہت سکون ملا ہے سچ پوچھیں تو واپس جانے کو دل نہیں چاہ رہا من کر رہا ہے کہ یہیں پہ ڈیرے جما لیں "؟
دلاور نے عاجزانہ لہجے میں پوچھا تھا۔۔۔اسکی بات پہ امام صاحب مسکرا دئیے۔۔۔
" بیٹا جیسے تمہاری خوشی۔۔۔میں بھی چاہتا ہوں کہ کل جب تم واپس اپنے شہر جاؤ تو یہاں سے ایک بار ہوتے جاؤ۔۔۔"
امام صاحب نے دھیمی مسکراہٹ لیے کہا تو دلاور اور بلال نے خوشدلی سے اور بڑی گرمجوشی سے دوبارہ آنے کا وعدہ کیا۔۔۔اور خدا حافظ کہ کر وہاں سے نکل آئے۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
" آپ۔۔۔۔آپ اندر نہیں جا سکتے۔۔۔دلاور استاد نے اور رشید احمد نے سختی سے منع کیا ہے کہ جب تک پنچایت کے فیصلے پہ عمل درآمد نہیں ہو جاتا حویلی سے جو بھی آئے وہ گھر کے اندر داخل نہ ہونے پائے۔۔۔"
احتشام شاہ جیسے ہی رشید احمد کے گھر کے باہر گاڑی روک کر نیچے اترا تو دروازے کے باہر کھڑے پہرہ دیتے دلاور کے آدمیوں نے اس کا راستہ روکا۔۔۔
" تم۔۔۔۔تم لوگ روکو گے مجھے۔۔۔ہاں۔۔۔۔تو ٹھیک ہے دکھاؤ روک کے۔۔۔میں کسی کام سے یہاں سے غائب کیا ہوا تم لوگوں نے اس گھر کو اپنی ماں کا گھر سمجھ لیا۔۔۔یہ میرا گھر ہے اور تم لوگوں کو جرأت کیسے ہوئی میرے گھر کے اندر قدم بھی رکھنے کی۔۔۔دفعہ ہو جاؤ تم سب یہاں سے۔۔۔اگر تم میں سے کوئی ایک شخص بھی اس گھر کے دروازے کے پاس کھڑا ملا تو اپنے انجام کا وہ خود ذمہ دار ہوگا۔۔۔
تم لوگوں کی قسمت اچھی ہے جو تم سب اس وقت باہر موجود ہو۔۔۔تم میں سے جو بھی اندر ہوتا خدا کی قسم وہ زندہ باہر نہیں آتا۔۔۔"
احتشام شاہ نے انکی بات پہ انتہائی سرد اور غصیلے لہجے میں ان سب کی طرف دیکھتے گرجدار لہجے میں کہا پھر وہ آگے بڑھنے لگا تو ایک آدمی نے احتشام شاہ کو نہتا اور اکیلا دیکھ کر تیزی سے آگے بڑھ کر اس کا راستہ روکتے گن نکال لی۔۔۔
مگر جیسے ہی اس آدمی نے گن کا رخ احتشام شاہ کی طرف کیا احتشام شاہ کا ایک زوردار گھونسہ اسکے جبڑے پہ پڑا جس سے وہ اچھل کر دو فٹ دور جا گرا۔۔۔اس آدمی کے منہ سے تیزی سے خون بہنے لگا۔۔۔احتشام شاہ نے غصے سے ایک نظر سب کی طرف دیکھا کہ کوئی اور ہے کیا۔۔۔؟
دوسرے آدمی نے گن لوڈ کی تو انکے لیڈر نے یہ صورت حال دیکھ کر چیختے ہوئے سبکو منع کیا کہ کوئی گولی نہیں چلائے گا۔۔۔دلاور نے منع کیا تھا کہ کچھ بھی ہو گولی کوئی نہیں چلائے گا۔۔۔
" دلاور نے اس بات سے بھی منع کیا تھا کہ حویلی کا کوئی بندہ اندر نہیں جائے گا۔۔۔"
احتشام شاہ سے مار کھانے والے پہلے آدمی نے کینہ توز نظروں سے احتشام شاہ کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔
" یہ حویلی کا بندہ ہونے کے ساتھ اس گھر کا داماد بھی ہے ہم اسے نہیں روک سکتے۔۔۔جانے دو اسے میں کر لوں گا بات دلاور سے۔۔۔ٹھیک ہے جی جاؤ آپ۔۔۔کوئی نہیں روکے گا آپکو۔۔۔"
ان سب کو لیڈ کرنے والے آدمی نے احتشام شاہ کی طرف دیکھ کر کہا اور ساتھ ہی اپنے آدمیوں کو سائیڈ پہ کھڑے ہونے کا اشارہ کیا سب لوگ منہ بسورتے احتشام شاہ کی طرف غصے سے دیکھتے مجبوراً اپنے لیڈر کے حکم پہ دروازے سے چند فٹ کے فاصلے پہ سائیڈ پہ جا کھڑے ہوئے ۔۔۔
احتشام شاہ نے وہیں کھڑے کھڑے موبائل پہ کسی کو کال ملائی تو کچھ دیر میں 4 ،5 آدمی اسلحہ سمیت ایک گاڑی سے اتر کر احتشام شاہ کے پاس مؤدبانہ انداز میں وہاں آ کے کھڑے ہو گئے۔۔۔
" تم لوگ اب یہیں رکو گے۔۔۔اور اگر ان میں سے کوئی بھی گھر کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرے تو بے شک گولی مار دینا چاہے وہ دلاور ہی کیوں نہ ہو یہ لوگ تب تک سلامت ہیں جب تک گھر سے باہر ہیں۔۔۔یہ میرا گھر ہے اور میں ہرگز برداشت نہیں کروں گا کہ کوئی بھی کتا بلا میرے گھر کے اندر داخل ہو۔۔۔اور اگر ایسا ہوا تو میں تم لوگوں کو مار ڈالوں گا۔۔۔
احتشام شاہ نے اپنے آدمیوں کو سختی سے وارن کیا پھر دروازے سے اندر داخل ہو گیا۔۔۔مگر اپنے پیچھے دروازہ بند کرنا نہیں بھولا۔۔۔
احتشام شاہ گھر کے اندر داخل ہوا تو صحن میں کوئی بھی موجود نہیں تھا۔۔۔وہ سیدھا مہرالنساء کے کمرے کی طرف گیا دروازہ اندر سے بند تھا۔۔۔احتشام شاہ نے آہستہ سے دستک دی مگر کوئی جواب نہ آیا اس نے پریشان ہو کر اب کے ذرا زور سے دستک دینے کے ساتھ عینا کو آواز بھی دی۔۔۔
" کون ہے۔۔۔۔۔"؟
عینا نے احتشام شاہ کی آواز پہچاننے کے باوجود غصے سے سوال کیا۔۔۔
" عینا۔۔۔۔میں ہوں احتشام شاہ۔۔۔۔دروازہ کھولو پلیززز۔۔۔"
احتشام شاہ کی آواز سن کر بے اختیار عینا کا جی بھر آیا تھا دل چاہا کہ دروازہ کھول کر اس کے سینے سے جا لگے۔۔۔اپنے اندر کا سارا غبار نکال دے۔۔۔مگر دوسرے پل خود کو سنبھالتے وہ تنک کر بولی تھی۔۔۔وہ اس سے شدید خفا تھی۔۔۔جس وقت وہ تکلیف میں تھی اسے اس کی مدد کی ضرورت تھی۔۔۔اس نے کتنی کالز کیں اسے۔۔۔مگر اس نے ایک بار بھی کال سننا تو دور ایک میسج تک نہ کیا۔۔۔اب وہ اس سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔
" آپکو غلط فہمی ہوئی ہے احتشام شاہ۔۔۔یہاں کوئی عینا نہیں رہتی۔۔۔آپ جا سکتے ہیں۔۔۔"
عینا نے غصے سے دروازہ کھولے بنا اندر سے ہی دھیمے لہجے میں کہا۔۔۔کچھ دیر پہلے ہی اس نے مہرالنساء کو نیند کی ٹیبلٹ دی تھی۔۔۔جب سے عائلہ گئ تھی اور پنچایت نے اپنا فیصلہ سنایا تھا انکی طبیعت خراب رہنے لگی تھی۔۔۔ساری رات بھی جاگتی رہتیں۔۔۔مجبوراً عینا کو انھیں نیند کی گولی دینی پڑی۔۔۔عینا کے لہجے سے اس کا غصہ اسکی ناراضگی جھلک رہی تھی۔۔۔
" عین پلیززز دروازہ کھولو یار۔۔۔مجھے اپنی بات ایکسپلین کرنے کا ایک موقع تو دو۔۔۔اسکے بعد بے شک جتنا مرضی ناراض ہو لینا۔۔۔پلیزززز عین دروازہ کھولو۔۔۔"
عینا کے شام جی کی جگہ اسے احتشام شاہ کہ کر پکارنے پہ احتشام شاہ کا دل کٹ کر رہ گیا مگر پھر یہ سوچ کر کہ اپنی جگہ وہ حق پہ ہے تو التجائیہ لہجے میں عینا سے دروازہ کھولنے کا کہنے لگا۔۔۔
" کہا ناں کہ چلے جائیں یہاں سے۔۔۔میں کسی احتشام شاہ کو نہیں جانتی۔۔۔چلے جائیں یہاں سے۔۔۔"
عینا نے اب کے رندھی ہوئی آواز میں کہا تھا اپنے بھیگے لہجے کو وہ ہر ممکن نارمل رکھنے کی کوشش کر رہی تھی وہ احتشام شاہ پہ یہ ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی کہ وہ کمزور پڑ رہی ہے۔۔۔مگر اسکی آواز کی کپکپی احتشام شاہ سے چھپی نہیں رہ سکی تھی وہ جان گیا تھا کہ وہ خود پہ ضبط کر رہی ہے۔۔۔
" عینا بلیو می اگر اب میرے تین گننے سے پہلے تم نے ڈور اوپن نہیں کیا تو میں اسے توڑ ڈالوں گا۔۔۔مگر تم سے ملے بنا تم سے بات کیے بنا ہرگز یہاں سے نہیں جاؤں گا۔۔۔"
احتشام شاہ نے دو ٹوک لہجے میں کہا تو عینا نے گھبرا کر دروازے کی طرف دیکھا احتشام شاہ کا مضبوط لہجہ اس بات کا گواہ تھا کہ وہ اپنے کہے پہ عمل کر ڈالے گا۔۔۔اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ شور شرابے سے اسکی ماں ڈسٹرب ہو اس لیے جیسے ہی احتشام شاہ نے تین کہا اس نے فٹ سے دروازہ کھول دیا۔۔۔اور خود دروازے سے ذرا فاصلے پہ جا کھڑی ہوئی۔۔۔
" کیسی ہو جان۔۔۔"
دروازہ کھلتے ہی احتشام شاہ تیزی سے اندر داخل ہوا اور بڑی بے چینی سے آگے بڑھ کر عینا کا حال دریافت کرنے کے ساتھ اسے اپنی بانہوں میں لینا چاہا تو وہ بدک کر پیچھے ہوئی تھی۔۔۔
" میں مروں یا جیئوں آپکو اس سے مطلب۔۔۔"
عینا نے تنک کر منہ پھلائے غصے سے کہا تھا۔۔۔
" میرے سارے مطلب اب تم سے ہی تو ہیں کیا اس بات کا ابھی تک اندازہ نہیں ہوا تمہیں۔۔۔"
احتشام شاہ نے اس کی بات پہ خفگی سے کہا پھر ایک نظر مہرالنساء پہ ڈالی انھیں سوتا دیکھ کر وہ مطمئین ہوا تھا پھر مہرالنساء کے ڈسٹرب ہونے کے خیال سے وہ عینا کا ہاتھ پکڑ کر اسے کمرے سے باہر لے گیا۔۔۔عینا نے اس کی اس حرکت پہ اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرتے دبے دبے لہجے میں بھرپور احتجاج کیا مگر وہ اسکی کسی بات کو بھی خاطر میں نہیں لایا اور اس کا ہاتھ اسکے روم میں لیجا کر ہی چھوڑا۔۔۔اور ساتھ ہی دروازہ بند کردیا۔۔۔
" یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔۔آپکو سمجھ نہیں آ رہی کہ مجھے بات نہیں کرنی آپ سے۔۔۔اس وقت کہاں تھے آپ جب مجھے اور میرے گھر والوں کو آپکی ضرورت تھی۔۔۔تب کتنا پکارا تھا میں نے آپکو۔۔۔کتنی کالز کیں۔۔۔آپ بھی جھوٹے آپکا پیار بھی جھوٹا۔۔۔آپکے سب وعدے بھی جھوٹے۔۔۔
عینا خود پہ اختیار کھوتے کمرے میں آتے ساتھ ہی پوری قوت سے غصے سے چلائی تھی۔۔۔یہاں ان دونوں کے سوا کوئی نہیں تھا نہ اسے اپنی ماں کے ڈسٹرب ہونے کا ڈر تھا اس لیے اس نے اب اپنی آواز کو دھیما رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔۔۔ اپنی آنکھوں میں امنڈنے والے آنسوؤں کو روکنے اور خود کو کمپوز کرنے کے لیے اپنے لب بھینچے وہ کچھ سیکنڈ رکی تھی خود کو کمپوز کر چکنے کے بعد احتشام شاہ کو غصے سے اپنے دائیں ہاتھ سے پش کرتے اسکا گریبان تھامے وہ تڑخ کر پھر سے گویا ہوئی تھی۔۔۔
آپکو کیا لگتا ہے میں آپکے عشق میں مری جا رہی تھی جو اپنا وقار اپنا غرور خاک میں ملا کر آپکے سامنے جا کھڑی ہوئی کہ احتشام شاہ مجھ سے نکاح کر لو۔۔۔
ہرگز نہیں۔۔۔آپ سے نکاح کا مقصد صرف عائلہ آپی کو سیو کرنا تھا۔۔۔آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ میں جب بھی پکاروں گی میری ایک آواز پہ آپ چلے آئیں گے زندگی کے ہر قدم پہ میرا ساتھ دیں گے۔۔۔۔مگر آپ تو پہلے قدم پہ ہی فیل ہو گئے احتشام شاہ۔۔۔آپ نے میری ہر سوچ کو غلط ثابت کردیا۔۔۔جب مجھے آپکی ضرورت تھی آپ تب نہیں آئے تو اب کیا لینے آئے ہیں۔۔۔چلے جائیں آپ یہاں سے۔۔۔اکیلا چھوڑ دیں ہمیں جیسے پہلے چھوڑا تھا۔۔۔"
عینا نے بھرائی آواز میں لب بھینچے کہا خود پہ ہزار بند باندھنے کے باوجود بولتے ہوئے آنسو تواتر سے اس کے گالوں پہ بہ رہے تھے۔۔۔
عینا کا ضبط جواب دے گیا تھا احتشام شاہ کا اس پہ یوں حق جتانا جہاں اسے سکون دے رہا تھا وہیں غصہ بھی دلا رہا تھا وہ احتشام شاہ سے کوئی شکوہ نہیں کرنا چاہتی تھی کہ شکوہ ہمیشہ ان سے کیا جاتا ہے جن کی آپکی زندگی میں کوئی اہمیت ہوتی ہے اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ احتشام شاہ کو یہ احساس دلائے کہ وہ اس کے لیے کتنا اہم ہے مگر اسے سامنے پا کر چاہ کر بھی وہ اپنی سوچ پہ عمل نہیں کر پائی سارے گلے شکوے اور اسکے اندر کی ساری کثافت اس کی زبان پہ در آئی۔۔۔احتشام شاہ کچھ دیر بغور اسکی طرف یونہی اسے بولتے ہوئے دیکھتا سنتا رہا اس نے اسے نہ چپ کروانے کی کوشش کی نہ روکنے کی اور نہ ہی اپنی طرف سے کوئی صفائی دینے کی ہی کوئی کوشش کی۔۔۔وہ چپ چاپ کھڑا اسکی ہرزہ سرائی سہتا رہا صرف اس لیے کہ اس کے اندر جو بھی غبار بھرا ہے وہ نکال دے پرسکون ہو جائے تبھی وہ اسکی بات سن پاتی سمجھ پاتی۔۔۔
چند دن میں ہی وہ کوئی مرجھایا ہوا پھول لگ رہی تھی لگتا تھا بال بھی چند دن سے نہیں بنائے تھے آنکھوں کے نیچے ہلکے واضح ہو رہے تھے۔۔۔گلابی رنگت میں زردی کا عکس نمایاں ہو رہا تھا۔۔۔احتشام شاہ کے دل کو جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑا تھا۔۔۔عینا کی حالت اسکے شکوؤں پہ اس کا دل بے چین ہو اٹھا تھا جن آنکھوں میں ہمیشہ اس نے خوشیوں کے رنگ بھرنے کا خود سے عہد کیا تھا جن لبوں پہ ہمیشہ ہنسی کھلانے کے پیمان باندھے تھے انجانے میں ہی سہی مگر اسکی وجہ سے ان آنکھوں میں اسکی وجہ سے سمندر اتر آئے تھے لبوں پہ ہنسی کی جگہ فریاد دکھ شکوؤں نے لے لی تھی۔۔۔
احتشام نے ایک گہرا سانس بھرتے اچانک ایک جھٹکے سے اسے اپنی طرف کھینچا تھا اور زور سے اپنے بازوؤں میں بھینچا تھا اسکے جسم سے اٹھتی اسکی مخصوص خوشبو کو اپنی سانسوں میں اتارا تھا۔۔۔عینا اس اچانک جھٹکے پہ سنبھل نہیں پائی تھی وہ اسکے بازوؤں کی گرفت سے نکلنے کے لیے کچھ پل کسمسائی تھی مگر احتشام شاہ نے اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کی تھی احتشام شاہ کے مضبوط بازوؤں کی پناہ میں آتے ہی وہ بکھر گئ تھی اسکی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہ نکلا تھا احتشام شاہ کے سینے میں منہ چھپائے روتے ہوئے وہ اسکی غیر موجودگی میں جو کچھ ہوا سب بتاتی چلی گئ احتشام شاہ کا دل چاہا وہ دلاور کے ٹکڑے کر کے چیل کوؤں کو کھلا دے مگر وہ مجبور تھا۔۔۔اس کے خیال میں وہ سب سے بڑا مجرم مہدیہ کا تھا اور مہدیہ اس کے بچے کی ماں بننے والی تھی یہی بات اسے کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے روکے ہوئے تھی دلاور کی قسمت کا فیصلہ اب مہدیہ کے ہاتھ میں تھا اور اس نے سوچ لیا تھا کہ اگر مہدیہ اسے معاف نہیں کرتی تو اس گاؤں سے وہ دلاور کو زندہ واپس کسی صورت نہیں جانے دے گا۔۔۔وہ اس سے مہدیہ کا ، عائلہ صارم اور اپنی فیملی کو پریشان کرنے کا ہر چیز ہر بات کا حساب لے گا۔۔۔
کچھ دیر بعد اس کے اندر کا سیلاب تھما اس کے شکوؤں نے دم توڑا تو احتشام شاہ اسے یونہی اپنے بازوؤں کے گھیرے میں لیے بیڈ پہ آ بیٹھا۔۔۔
" کچھ اور کہنا ہے تو وہ بھی کہ لو۔۔۔،جتنا چاہے برا بھلا کہ لو مگر۔۔۔عین۔۔۔میری جان ایسا کبھی مت سوچنا کہ میرا پیار جھوٹا ہے ، میرے وعدے جھوٹے ہیں۔۔۔آپکی کسی پکار پہ میں نہ آ سکوں تو سمجھ جانا کہ میں خود کسی مصیبت کسی مشکل میں پھنسا ہوں۔۔۔یا پھر اس دنیا میں ہی نہیں ہوں۔۔۔صرف موت۔۔۔۔"
احتشام شاہ نے عینا کو یونہی اپنے بازوؤں کے گھیرے میں لیے اسکی پیشانی پہ محبت کی مہر ثبت کرتے کہا احتشام شاہ کا فقرہ ابھی منہ میں ہی تھا کہ اس کے آخری الفاظ پہ اس نے تڑپ کر احتشام شاہ کے ہونٹوں پہ اپنا ہاتھ رکھتے خفگی سے اسکی طرف دیکھا تھا۔۔۔احتشام شاہ نے اسکی اس حرکت پہ مسکراتے ہوئے اسے خود میں زور سے بھینچا تھا اور اپنی آنکھیں بند کیے ایک پرسکون گہرا سانس بھرا تھا۔۔۔
پھر عینا کی کالز کا جواب نہ دینے کی وجہ مختصر سی کر کے مہدیہ کی ساری حقیقت اسکے سامنے آشکار کردی۔۔۔ساری بات سننے کے بعد عینا کو شدید شرمندگی نے آ گھیرا۔۔۔سچ جانے بنا اس نے کیا کچھ نہیں سنا ڈالا تھا اسے۔۔۔اسکے چہرے پہ شرمندگی جھلکنے لگی۔۔۔۔
" امید ہے کہ اب آپ کا دل میری طرف سے صاف ہو گیا ہوگا اب آپ کے دل میں کوئی شکوہ نہیں رہا ہوگا۔۔۔"
احتشام شاہ نے عینا کو اس سے نظریں چراتے دیکھ کر اس کے بالوں کو سہلاتے اس کا چہرہ ذرا سا اوپر کرتے اسکی آنکھوں میں محبت سے دیکھتے کہا تو عینا مارے ندامت کے اپنی آنکھیں جھکا گئ۔۔۔
" سوری۔۔۔مجھے یوں آپ سے ناراض نہیں ہونا چاہیے تھا۔۔۔اس وقت جو حالات تھے آپکے کال پک نہ کرنے کی وجہ سے پھر میسج ریڈ کرنے کے بعد بھی اس کا کوئی ریپلائی نہ کرنے کی وجہ سے میرا دل بہت دکھی ہوا تھا اور بدگمان بھی۔۔۔کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کروں۔۔۔اوپر سے دلاور بھی اپنے آدمیوں کے ساتھ آ دھمکا تھا۔۔۔"
عینا نے ندامت بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
" دلاور یا اس کے کسی آدمی نے آپ سے یا خالہ سے کوئی بدتمیزی تو نہیں کی۔۔۔مجھے سچ بتائیے گا عین۔۔۔"
دلاور کے ذکر پہ احتشام شاہ نے سرد اور سخت لہجے میں عینا سے پوچھا تھا۔۔۔عینا نے نفی میں سر ہلایا تو احتشام شاہ کے تنے اعصاب ڈھیلے پڑے تھے۔۔۔عینا کا دل چاہا کہ اسے سب بتا دے مگر پھر یہ سوچ کر چپ کر گئ کہ کہیں اشتعال اور غصے میں آ کر وہ کوئی غلط قدم نہ اٹھا بیٹھے۔۔۔
" تو آپ مانتی ہیں کہ آپ غلط تھیں۔۔۔"؟
احتشام شاہ نے اپنا موڈ بحال کرتے سنیجیدگی سے سوال کیا تو عینا اسکی بات پہ شرمندہ ہوتے ہاں میں سر ہلا گئ۔۔۔
" تو آپ یہ بھی مانتی ہیں کہ آپ مجھ سے محبت نہیں کرتیں بلکہ آپ نے مجھ سے نکاح اپنے فائدے کے لیے کیا۔۔۔"؟
احتشام شاہ نے اپنی مسکراہٹ چھپاتے اسی سنجیدگی سے سوال کیا۔۔۔عینا کے ذہن میں اپنی کہی کچھ دیر پہلے کی سب باتیں گونج رہی تھیں خود پہ افسوس ہو رہا تھا کہ اس نے بنا سچائی جانے احتشام شاہ کو کوئی موقع دئیے بنا کیا کچھ سنا ڈالا۔۔۔انھی سوچوں میں گم وہ پھر سے بنا احتشام شاہ کی بات پہ غور کیے ہاں میں سر ہلا گئ۔۔۔
" واٹ۔۔۔۔۔۔۔"؟
اب کے احتشام شاہ چلانے کے انداز میں بولا تو عینا ہڑبڑا کر اس کی طرف دیکھنے لگی اسے اس کے اس ردعمل کی ہرگز سمجھ نہیں آئی تو حیرانی سے سوالیہ نظروں سے احتشام شاہ کی طرف دیکھا جیسے چلانے کی وجہ پوچھ رہی ہو۔۔۔
" آپ نے ابھی کہا کہ آپ مجھ سے پیار نہیں کرتیں۔۔۔تو اس بات پہ چلاؤں نہیں تو اور کیا کروں۔۔۔اففففف اب آدھی زندگی آپکو اپنے پیار کا یقین دلانے میں گزر جائے گی اور آدھی آپکا پیار پانے کے چکر میں۔۔۔یاالّٰلہ کیا بنے گا میرا۔۔۔"
احتشام شاہ نے ڈرامائی انداز میں ایکٹنگ کرتے بیڈ پہ نیم دراز ہوتے بیچارگی سے کہا تو عینا حیران و پریشان ہو کر اسکی طرف دیکھنے لگی۔۔۔وہ کہیں سے بھی اس وقت کوئی وڈ وڈیرا یا کوئی بزنس مین نہیں لگ رہا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی لاابالی چلبلا سا ٹین ایج کا لڑکا ہو۔۔۔
" آپ کے اور کتنے روپ ہیں شام جی۔۔۔بظاہر دکھنے میں کچھ اور عملی طور پہ کچھ۔۔۔اور وہ تو میں نے غصے میں کہ دیا تھا کہ آپ سے محبت نہیں کرتی۔۔۔ایک آپ سے ہی تو کی ہے ساری دنیا چھوڑ کر۔۔۔کہا تو ہے غلطی ہو گئ۔۔۔سوری۔۔۔"
عینا نے کانوں کو ہاتھ لگاتے احتشام شاہ کی ایکٹنگ پہ ہنستے ہوئے کہا تھا۔۔۔
" میرے اور کتنے روپ ہیں وہ میں آپکو آج نہیں بلکہ اپنی گولڈن نائیٹ پہ بتاؤں گا۔۔۔نہیں۔۔۔دکھاؤں گا۔۔۔فلحال تو آپ اپنی اس غلطی کی تلافی کریں اب۔۔۔"
احتشام شاہ نے مسکراتی آنکھوں سے اسے اک جھٹکے سے کھینچتے اپنے پاس بیڈ پہ لٹاتےکہا تو اسکی آنکھوں میں چھپی شرارت کا مطلب سمجھتے عینا نے اسے گھور کر دیکھا۔۔۔
" گھورنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔یا تو خود تلافی کریں یا پھر میں اپنے طریقے سے سزا دوں۔۔۔"
احتشام شاہ نے اب کے کھل کے مسکراتے ہوئے اپنے گالوں پہ اپنی انگلی رکھ کر اسے مخصوص اشارہ کیا۔۔۔
عینا اس کی کھلم کھلا اس فرمائش پہ کچھ پل کو مسکرا کر اسکی طرف دیکھتی رہی پھر آگے بڑھ کر اس نے اپنے لبوں کا امرت احتشام شاہ کے گالوں پہ چھوڑا۔۔۔احتشام شاہ مزید پھیلا اور پھر انگلی اپنی پیشانی پہ رکھی عینا نے اپنے ہونٹوں کی شبنم وہاں بھی چھوڑی۔۔۔پھر احتشام شاہ نے اپنے یونٹوں پہ ہاتھ رکھا تو عینا آہستہ سے اسکے ہونٹوں کی طرف بڑھی۔۔۔احتشام شاہ نے ایک گہرا سانس بھرتے اس لمحے کی تاثیر کو اپنی روح میں اتارنے کے لیے اپنی آنکھیں موند لیں۔۔۔
کچھ پل کے انتظار کے بعد بھی اسے کچھ محسوس نہ ہوا پھر عینا کے بلند و بانگ قہقہے پہ اس نے پٹ سے آنکھیں کھول کر دیکھا تو عینا اس سے کچھ فاصلے پہ کھڑی اپنی ہنسی ضبط کرنے کے چکر میں لال سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ پیٹ پہ ہاتھ رکھے ہنسی کی پھلجھڑی بنی ہوئی تھی۔۔۔
" عینا کی بچی۔۔۔ابھی بتاتا ہوں تمہیں۔۔۔"
احتشام شاہ کھلھلا کر ہنستا اپنی جگہ سے اٹھ کر تیزی سے عینا کی طرف بڑھا تو اپنے پاؤں میں الجھ کر راہ میں ہی زمین بوس ہو گیا۔۔۔عینا کا چھت پھاڑ قہقہ پورے کمرے کے در و دیوار ہلا گیا تھا۔۔۔احتشام شاہ کو زمین پہ گرے دیکھ کر اس کا ہنس ہنس کر برا حال ہونے لگا۔۔۔احتشام شاہ کپڑے جھاڑتا ہنستا ہوا اٹھ کر پھر سے اسکی طرف بڑھا۔۔۔
" وہیں رک جائیے زیادہ پھیلنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔فلحال اتنی تلافی پہ ہی گزارا کریں باقی کا ادھار کر لیں۔۔۔"
عینا نے احتشام شاہ کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر اپنی ہنسی کو فوراً بریک لگاتے جلدی سے کہا تو احتشام شاہ کے وجود پہ اترتے خمار کو بھی بریک لگے تھے۔۔۔
" ہینننننننن۔۔۔۔۔۔ادھار۔۔۔۔۔آج تک پیسوں کا ادھار تو سنا تھا یہ پیار میں " پیار ادھار " کہاں سے آ گیا۔۔۔"
احتشام شاہ نے مصنوعی خفگی سے اسکی طرف دیکھتے کہا۔۔۔عینا کے بیچ میں ہی روک دینے پہ وہ جھنجلایا تھا۔۔۔وہ کچھ پل اسکی قربت میں گزارنے کا سوچ چکا تھا مگر عینا نے اسے ہری جھنڈی دکھائی تھی۔۔۔
" لو ادھار کا کیا ہے جس چیز میں مرضی کر لو۔۔۔"
عینا نے شوخ لہجے میں کندھے اچکاتے کہا اسکی آنکھوں میں بھرپور شرارت ناچ رہی تھی۔۔۔کچھ پل پہلے مرجھایا ہوا چہرہ اب قوس قزح بنا ہوا تھا۔۔۔اسکے چہرے پہ کھلتے ان رنگوں کو دیکھ کر احتشام شاہ اندر تک سرشار ہوا تھا۔۔۔محبوب کی ہنسی اسکی مسکراہٹ اسکے چہرے پہ کھلتے رنگ انسان کی برسوں کی تھکاوٹ بھی ایک پل میں بھگا دیتے ہیں۔۔۔عینا کو ہنستا مسکراتا دیکھ کر احتشام شاہ بھی جیسے سب بھول گیا تھا۔۔۔
" اوکے۔۔۔۔۔فلحال تو میں اتنے سے ہی کام چلا لیتا ہوں مگر رخصتی کے بعد کوئی ادھار نہیں۔۔۔نہ آپکا نہ میرا۔۔۔سب کچھ آن دا سپاٹ نمٹے گا۔۔۔"
احتشام شاہ نے عینا کے قریب آتے اسکے سراپے پہ نظریں ٹکائے اسکے گالوں کو اپنی دو انگلیوں سے چھوتے ذو معنی لہجے میں کہا تو عینا گالوں تک سرخ پڑی تھی۔۔۔عینا کے بلش کرتے چہرے پہ احتشام شاہ کا دل ڈولا تھا وہ کوئی گستاخی کرنے کو اسکی طرف جھکا ہی تھا کہ موبائل پہ آتی کال نے اسکے قدموں کو وہیں روکا تھا۔۔۔موبائل آن کرکے سکرین پہ جگمگاتے نمبر کو دیکھ کر اس نے جلدی سے کال پک کی تھی۔۔۔دوسری طرف سے جو کچھ اس کو بتایا گیا اس کے بعد اس کے چہرے پہ گہری سنجیدگی در آئی تھی۔۔۔
" شام۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔سب خیر ہے ناں۔۔۔"؟
عینا اسکے چہرے کے سرد تاثرات پہ پریشان ہوئی تھی۔۔۔
" ہاں سب ٹھیک ہے۔۔۔فجر کی کال تھی۔۔۔مہدیہ کی طبیعت بگڑ گئ تھی۔۔۔اس لیے مجھے فوراً جانا ہوگا اور عائلہ کی فکر مت کرنا میں اسکے اور صارم کے رشتے کو کچھ نہیں ہونے دوں گا اور نہ ہی انکو کوئی نقصان پہنچنے دوں گا۔۔۔
اور نہ ہی اب دلاور یا اسکے کسی آدمی سے ڈرنے کی ضرورت ہے۔۔۔میرے آدمی آپ کی حفاظت کے لیے باہر موجود ہیں جو اب پنچایت کے فیصلے تک یہیں پہرہ دیں گے۔۔۔پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے لیکن پھر بھی آپ دروازہ اندر سے لاک رکھیں گی۔۔۔کوئی بھی پریشانی ہو مسلہ ہو تو آپ مجھے فوراً کال کریں گی۔۔۔اگر میں اٹینڈ نہ کر سکوں تو آپ فجر کے نمبر پہ کال کریں گی۔۔۔اوکے۔۔۔"؟
اپنی جون میں واپس آتے احتشام شاہ نے واپسی کا ارادہ باندھتے عینا کو اپنے گلے لگاتے اس تسلی دیتے اور سمجھاتے کہا۔۔۔تو عینا اثبات میں سر ہلا گئ۔۔۔
" مگر پنچایت کا فیصلہ۔۔۔۔۔"
" پنچایت کا فیصلہ لوح محفوظ پہ لکھی کوئی تحریر نہیں ہے جو بدلی نہ جا سکے۔۔۔عائلہ اور صارم شاہ حق پہ ہیں اب یہ میں سب کو بتاؤں گا۔۔۔پنچایت میں انکی طرف سے میں کھڑا ہوں گا۔۔۔اور میں دیکھوں گا کہ میرے سامنے کون کھڑا ہوتا ہے۔۔۔الّٰلہ نے چاہا تو وہ سب کے سامنے سرخرو ہوں گے۔۔۔"
احتشام شاہ نے ٹھوس لہجے میں سنجیدگی سے کہا پھر عینا کو مزید تسلی اور حوصلہ دے کر وہاں سے عجلت میں نکل آیا۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
پورے گاؤں میں میں یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل چکی تھی کہ صارم شاہ اور عائلہ مل گئے ہیں اور انکو لا کر کمرے میں بند کردیا گیا ہے پنچایت سے پہلے کسی کو بھی ان سے ملنے کی اجازت نہیں تھی۔۔۔
شاہ سائیں کے پہنچنے سے پہلے ہی گاؤں کی ٹیم ان تک پہنچ چکی تھی۔۔۔اس لیے شاہ سائیں آدھے راستے سے ہی پلٹ گئے اور گھر واپس جانے کی بجائے وہ اپنے ڈیرے پہ چلے گئے ان میں گھر میں موجود فجر اور ہائمہ خاتون کی شکوہ کناں نظروں کا سامنا کرنے کی ہمت تھی نہ انکے سوالوں کے جواب انکے پاس تھے۔۔۔ڈیرے پہ آتے ہی وہ کمرہ بند ہو کر بیٹھ گئے دین محمد کو سختی سے انھوں نے منع کردیا تھا کہ پنچایت کا وقت ہونے سے پہلے کوئی انکو ڈسٹرب نہ کرے۔۔۔
یہ زندگی میں دوسری بار ہوا تھا کہ جب وہ خود کو انتہائی بےبس محسوس کر رہے تھے۔۔۔انھیں خود پہ شدید غصہ آ رہا تھا برسوں پہلے نہ وہ نازنین کے لیے کچھ کر پائے تھے اور نہ ہی اب چاہ کر بھی صارم شاہ اپنے چہیتے بیٹے کے لیے کچھ کر پا رہے تھے۔۔۔انکی انصاف پسند اور اصولی طبیعت نے انکے ہاتھ باندھ دئیے تھے۔۔۔
پنچایت کا ٹائم شام 4 بجے کا تھا مگر لوگوں کا ایک جم غفیر تھا جو 2 گھنٹے پہلے ہی پنڈال میں جمع ہونا شروع ہو گیا تھا۔۔۔
نواز اندر ہی اندر لوگوں کو بھڑکانے کی کوشش کر رہا تھا کہ شاہ سائیں کا بیٹا ہے تو کیا ہوا۔۔۔پنچایت کا قانون سب کے لیے ایک سا ہے جو غلطی کرے گا اسے سزا ملے گی پھر چاہے وہ شاہ سائیں کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔۔۔
بہت سے لوگ نواز کے ہم خیال ہونے لگے تھے۔۔۔اور بہت سے ایسے بھی تھے جو شاہ سائیں کے احترام اور انکی محبت کی وجہ سے صارم شاہ کو رعایت دینے کے حق میں تھے۔۔۔
لوگوں کی کثیر تعداد ہونے کی وجہ سے پنچایت کا سارا بندوبست گاؤں سے باہر کھلے میدان میں کیا گیا تھا۔۔۔
پنچایت کا وقت ہوا تو صارم شاہ اور عائلہ کو بند کمرے سے نکال کر باہر سب کے سامنے کھڑا کردیا گیا پنچایت نے انکے بارے میں کیا فیصلہ کیا ہے یہ بات وہ دونوں راستے میں آتے ہوئے ہی جان چکے تھے مگر صارم شاہ کے چہرے پہ خوف کا رتی بھر شائبہ تک نہیں تھا۔۔۔عائلہ سہمی ہوئی نظروں سے چاروں اور دیکھ رہی تھی اس نے ایک بڑی سی چادر میں چہرے سمیت اپنا پورا وجود چھپایا ہوا تھا۔۔۔عائلہ کو خوفزدہ اور پریشان دیکھ کر صارم شاہ نے مضبوطی سے اس کا ہاتھ تھاما تھا اور اسے ریلیکس رہنے کا اشارہ کیا تھا۔۔۔
شاہ سائیں اپنی مخصوص نشست پہ براجمان ہو چکے تھے۔۔۔احتشام شاہ آج شاہ سائیں کے قریب بیٹھنے کی بجائے صارم شاہ کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔۔۔صارم شاہ نے ایک نظر مجمع پہ ڈالی تھی پھر رشید احمد اور دلاور کو غائب پا کر اس نے حیران نظروں سے احتشام شاہ سے سوال کیا تو احتشام شاہ کندھے اچکا گیا وہ خود حیران تھا کہ وہ لوگ آئے کیوں نہیں۔۔۔
مہرالنساء بھی ایک طرف بیٹھی اپنی بیٹی کی طرف فکر و پرشانی سے دیکھ رہی تھیں۔۔۔
شاہ سائیں نے ایک نظر ان سب کی طرف دیکھا تھا انکے چہرے پہ کرب کے واضح اثرات موجود تھے مگر اب وہ انکے باپ نہیں تھے وہ صرف ایک سردار تھے۔۔۔احتشام شاہ اور صارم شاہ اپنے باپ کی حالت پہ رنجیدہ ہوئے تھے وہ دونوں ہی جانتے تھے کہ اس وقت انکا باپ اذیت کی کس انتہا سے گزر رہا ہے۔۔۔اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ آج انکا باپ عام لوگوں کی نسبت صارم شاہ کے ساتھ زیادہ سختی سے پیش آئے گا۔۔۔کہ کوئی یہ نہ کہے کہ انھوں نے ایک سردار بن کر نہیں بلکہ ایک باپ بن کر فیصلہ سنایا ہے۔۔۔
" میرا خیال ہے کہ کاروائی شروع کی جائے اب۔۔۔"
پنچوں میں سے ایک پنچ نے مجمعے پہ ایک نگاہ ڈالنے کے بعد کہا تو باقی سب نے اثبات میں سر ہلایا پھر ایک پنچ نے کھڑے ہو کر ایک ہاتھ فضا میں بلند کرتے سب کو خاموش ہونے کا کہا تو سب لوگ دم سادھ گئے۔۔۔پھر شاہ سائیں اور باقی پنچ آپس میں صلاح مشورہ کرنے لگے۔۔۔
" آپ سب کو معلوم ہے کہ ہمارے گاؤں کی کچھ روایات ہیں کچھ طور طریقے ہیں جو برسوں سے چلے آ رہے ہیں۔۔۔اور جو بھی ان روایات کے خلاف جاتا ہے انکو توڑنے کی کوشش کرتا ہے اس کو سخت سزا سے گزرنا پڑتا ہے۔۔۔
صارم شاہ نے بھی وہی غلطی کی ہے۔۔۔اس نے نہ صرف اس گاؤں کی روایات کو توڑا ہے بلکہ کسی اور کی منگ کو بھگانے کا بھی مرتکب ہوا ہے۔۔۔
عائلہ نے بھی کسی اور کی منگ ہوتے ہوئے نہ صرف ایک غیر مرد کے ساتھ مراسم رکھے بلکہ ایک غیر محرم کے ساتھ گاؤں سے بھاگنے کا جرم بھی کیا۔۔۔
بیٹیاں تو اپنے ماں باپ کی عزت پہ مر مٹتی ہیں مگر عائلہ نے اپنی اس حرکت سے اپنے باپ کو پورے گاؤں میں رسوا کیا۔۔۔
اب یہ پنچایت فیصلہ کرتی ہے کہ صارم شاہ ابھی اسی وقت سب کی موجودگی میں عائلہ کو طلاق دے گا۔۔۔اس کے بعد۔۔۔۔
" رک جائیے پنچ جی۔۔۔۔"
اس سے پہلے کہ پنچ کچھ اور کہتے کہ بھرے مجمعے میں دور تک صارم شاہ کی آواز کسی دھاڑ کی صورت میں گونجی تھی۔۔۔سب لوگوں میں کھلبلی مچی تھی۔۔۔سب لوگ صارم شاہ کی طرف اچنبھے سے دیکھنے لگے تھے۔۔۔اپنے بیٹے کے یوں گرجنے پہ شاہ سائیں کے اندر تک سکون اترا تھا بے اختیار ہلکی مسکراہٹ نے انکے لبوں کو چھوا تھا۔۔۔اگر صارم شاہ خاموش رہتا تو انھیں اپنے خون پہ افسوس ہوتا۔۔۔وہ کب سے یہی سوچ رہے تھے کہ وہ خاموش کیوں ہے۔۔۔اور اب جب بولا تھا تو اس نے ثابت کردیا تھا کہ کمی کمینوں کا نہیں بلکہ سچ میں شاہوں کا خون ہے۔۔۔
" پہلی بات کہ میری بیوی ایک عزت دار خاتون ہیں۔۔۔اور دوسری بات کہ ہم پہ جو بھی الزامات لگے ہیں آپکو بھی پہلے انکو ثابت کرنا ہوگا۔۔۔اس کے بعد آپکو فیصلہ سنانا ہوگا۔۔۔اس پنچایت میں آج تک کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوئی سب ثبوتوں اور گواہوں کی گواہی کے بعد فیصلے سنائے گئے۔۔۔پھر یہ ناانصافی ہمارے ساتھ کیوں۔۔۔۔
ہم پہ الزام لگانے والے نہ تو رشید احمد یہاں موجود ہیں نہ دلاور ملک۔۔۔پھر انکی غیر موجودگی میں ہم پہ کیسے کوئی الزام ثابت ہوتا ہے۔۔۔
اور رہی بات عائلہ کو طلاق دینے کی تو اتنا تو آپ بھی جانتے ہیں کہ جو بھی شخص میاں بیوی میں جدائی ڈالنے کا سبب بنتا ہے ان کے بیچ جھگڑے کا سبب بنتا ہے یا ان کو الگ کرتا ہے وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے جس کی الّٰلہ کے ہاں کوئی معافی نہیں۔۔۔
کیا آپ نہیں جانتے کہ شوہر اور بیوی کا رشتہ الّٰلہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔۔۔
پھر آپ جانتے بوجھتے کہ عائلہ میری بیوی ہے اسے چھوڑ دینے کی اسے طلاق دینے کی بات کیسے کر سکتے ہیں۔۔۔
عائلہ نے کوئی گناہ کوئی جرم نہیں کیا اور نہ ہی وہ اپنے ماں باپ اپنے خاندان کو رسوا کرنے والی لڑکیوں میں سے ہے۔۔۔نہ تو میں بھاگا تھا نہ عائلہ۔۔۔ مجھے اور میری بیوی عائلہ صارم شاہ کو اس کی والدہ نے دلاور کے ظلم اور اپنے شوہر کے غلط فیصلے سے بچانے کے لیے مجبور ہو کر ہمیں یہ گاؤں چھوڑنے کا کہا تھا۔۔۔اور چھوڑنے میں اور بھاگنے میں کیا فرق ہوتا ہے مجھے اسکی وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے وہ آپ سب خوب جانتے ہیں۔۔۔
یہاں سارے گاؤں کو ہمارا گاؤں سے جانا تو نظر آ رہا ہے مگر ہم یہ قدم اٹھانے پہ کیوں مجبور ہوئے یہ کسی کو دکھائی نہیں دے رہا۔۔۔
میں پورے گاؤں سے اور اس پنچایت سے پوچھتا ہوں کہ
جب رشید احمد جوئے میں ہاری رقم کے بدلے عائلہ کا نکاح دلاور سے کر رہا تھا تب یہ پنچایت کہاں تھی۔۔۔
جب بنا کسی رشتے کے دلاور عائلہ کے گھر اپنے آدمیوں سمیت گھسا بیٹھا تھا تب کسی کو اس گھر کی عورتوں کی رسوائی کا خیال کیوں نہیں آیا تب یہ پنچایت کہاں تھی۔۔۔
اور یہ کس کتاب میں کس حدیث میں لکھا ہے کہ اگر گھر کے باپ یا بھائی اپنے گھر کی عورتوں کا شادی کے نام پہ سودا کرنا چاہیں تو ہمارا دین اسکی اجازت دیتا ہے گھر کے سربراہ کو سب کچھ کرنے کی اجازت ہے۔۔۔
عائلہ نے ایک فرمانبردار بیٹی ہونے کا ثبوت دیتے اپنےباپ کے غلط فیصلے کو دل و جان سے قبول کیا۔۔۔
بے شک باپ گھر کا سربراہ ہوتا ہے لیکن جب یہی سربراہ جب اپنی سربراہی کو غلط استعمال کرے اور گھر کے لوگوں کی اپنی عورتوں کی زندگی ان پہ تنگ کردے تو کسی نہ کسی کو اسکے سامنے کھڑا ہونا پڑتا ہے کبھی بیٹے کی صورت میں تو کبھی بیوی کی صورت میں اور کبھی بیٹی کی صورت میں۔۔۔یہاں پہ خالہ مہرالنساء اپنے شوہر کے خلاف کھڑی ہوئیں تو کیا غلط کیا انھوں نے۔۔۔
بجائے اس کے کہ آپ سب رشید احمد کو غلط کہیں آپ نے ہمیں ہی کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔۔۔رشید احمد کے ماضی سے حال سے ہر کوئی واقف ہے پھر بھی آپ سب اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔۔۔میری بات کی تصدیق آپ خالہ مہرالنساء سے بھی کر سکتے ہیں وہ آپ سب کو سارا سچ بتا دیں گی۔۔۔
جہاں تک عائلہ کو طلاق دینے کی بات ہے تو میں مر کے بھی اپنی بیوی عائلہ صارم شاہ کو طلاق نہیں دوں گا۔۔۔
میری اس بات کو چاہے آپ بغاوت کہیں یا کچھ بھی۔۔۔مگر میں نے جو کہا اسے آخری سانس تک نبھاؤں گا۔۔۔
آپ اپنے گواہوں کو بلائیے اور اس کے بعد فیصلہ سنائیں۔۔۔عائلہ کو چھوڑنے کے سوا مجھے اس پنچایت کا ہر فیصلہ ہر سزا منظور ہے۔۔۔"
صارم شاہ نے گرجدار آواز میں دو ٹوک لہجے میں کہا اسکی بات پہ ہر طرف سرگوشیاں ہونے لگیں جو بڑھتے بڑھتے شور شرابے میں مدغم ہونے لگیں تو پنچوں نے فوراً فیصلہ کرتے دلاور اور رشید احمد کو فوراً حاضر ہونے کا حکم دیا اور ساتھ ہی مہرالنساء کو گواہی کے لیے سامنے آنے کا کہا۔۔۔میرالنساء نے صارم شاہ کے کہے ہر لفظ پہ سچ کی مہر ثبت کی تھی۔۔۔شاہ سائیں کے حکم پہ کچھ لوگ رشید احمد کے گھر گئے کہ پتہ کریں کہ وہ لوگ ابھی تک پنچایت میں کیوں نہیں آئے۔۔۔
صارم شاہ کے انداز پہ اسکی باتوں پہ عائلہ کے بےقرار دل کو گوناں گوں سکون ملا تھا اسے کہیں نہ کہیں یہ ڈر ضرور تھا کہ ایسا نہ ہو کہ پنچایت کے حکم پہ اور اپنے باپ کے سامنے وہ مجبور ہو جائے۔۔۔اور اسے چھوڑ دے۔۔۔مگر اس نے ثابت کردیا تھا کہ وہ اپنی زبان اپنی محبت میں کتنا سچا تھا۔۔۔
احتشام شاہ نے بھی بھرپور مسکراہٹ لیے صارم شاہ کی طرف دیکھا تھا۔۔۔اس نے آج سے پہلے کبھی صارم شاہ کو یوں بولتے گرجتے نہیں دیکھا تھا ہمیشہ سر جھکا کر بابا کے ہر حکم پہ چلنے والا آج ساری دنیا کے سامنے پنچایت کے فیصلے کو ماننے سے انکار کر گیا تھا اور بے شک اسے ایسا ہی کرنا چاہیے تھا کسی بھی غیرت مند مرد کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔۔۔
اس مرد سے تو ہیجڑے بہتر ہیں جسکی موجودگی میں اسکی بیوی پہ زمانہ انگلی اٹھائے اس کا تماشہ بنائے اور وہ اس کا دفاع کرنا تو دور اس کے حق میں ایک لفظ تک نہ بول سکے۔۔۔
" یہ تو کوئی بات نہ ہوئی جی۔۔۔آج یہ دونوں گاؤں سے بھاگے ہیں۔۔۔تو انکی دیکھا دیکھی گاؤں کے باقی لونڈوں اور لونڈیوں کو بھی شہ ملے گی وہ بھی کل کو کوئی داستان سنا کر اپنے بھاگنے کو صحیح ثابت کردیں گے۔۔۔وجہ چاہے کچھ بھی ہو مگر اس طرح سے گاؤں سے بھاگنا کسی صورت ٹھیک نہیں۔۔۔اور دوسری بات گھر کا سربراہ مرد ہوتا ہے اور اسی کی بات مانی جاتی ہے شوہر کے ہر حکم پہ سر جھکانا عورت کا فرض ہے اگر مہرالنساء کی طرح ہر عورت اپنے شوہر کے فیصلے کے خلاف کھڑی ہونے لگی تو کوئی گھر سلامت نہیں رہے گا ہر گھر ٹوٹ جائے گا۔۔۔
اگر آج اس بات کو یہیں نہیں روکا گیا تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں ہمارے گاؤں میں روایات کو توڑنے کا زہر ہماری نسلوں کے اندر سرایت نہ کر جائے۔۔۔آگے پنچوں کی مرضی۔۔۔"
گاؤں کے تقریباً سب لوگوں کی ہمدردیاں صارم شاہ کی طرف ہوتے دیکھ کر نوازے کا دماغ کھولا تھا۔۔۔وہ ہر صورت صارم شاہ کو غلط ثابت کر کے اسے سزا دلوانا چاہتا تھا اس لیے اپنی جگہ سے تلملا کر اٹھتے اس نے اپنے اندر کا زہر سب کے کانوں میں انڈیلا تھا اسکی بات پہ
گاؤں کے سیدھے سادھے لوگ سوچ و بچار میں پڑ گئے تھے ۔۔۔رشید احمد کے بھی اس نے خوب کان بھرے تھے کہ عائلہ کو کسی صورت صارم شاہ کے ساتھ مت جانے دے پنچایت کا فیصلہ بلکل ٹھیک ہے۔۔۔ مگر آج وہ نہ جانے کہاں غائب تھا۔۔۔جبکہ اسے تو سب سے پہلے یہاں موجود ہونا چاہیے تھا۔۔۔
احتشام شاہ نے نوازے کی طرف شعلہ بار نظروں سے دیکھا تھا اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ نوازا یہ جرأت کیوں کر کر رہا ہے اس کے ہر انداز سے شاہ فیملی کے لیے نفرت جھلک رہی تھی۔۔۔
" میں چاچا نواز کی ہر بات سے اختلاف کرتا ہوں۔۔۔قانون ، روایات یہ سب لوگوں کی معاشرے کی بھلائی کے لیے بنائے جاتے ہیں ناں کہ لوگوں کو پریشان کرنے کے لیے یا کسی کو فائدہ پہنچانے اور اسکی راہیں ہموار کرنے کے لیے۔۔۔
جب بھی کوئی جرم ہوتا ہے تو یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ وہ جرم کن حالات میں ہوا۔۔۔
بے شک مرد گھر کا سربراہ ہوتا ہے لیکن سربراہ کے لیے بھی الّٰلہ نے کچھ دائرے کچھ حدود رکھی ہیں۔۔۔اگر گھر کے سربراہ کی بات ہی حرف آخر ہوتی اور عورت کی کسی بات کی کوئی وقعت نہیں ہوتی تو ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم یہ کبھی ارشاد نہ فرماتے کہ لڑکی کی مرضی کے بنا اس کا نکاح نہیں ہو سکتا جب تک لڑکی اپنے منہ سے اقرار نہیں کرتی اس کا نکاح ہی نہیں ہوتا۔۔۔
اگر باپ کے یا گھر کے سربراہ کا فیصلہ ہی حرف آخر ہوتا تو نکاح شادی کا فیصلہ لڑکی کی رضامندی پہ چھوڑنے کی بجائے یہ کہا جاتا کہ بس باپ نے یا گھر کے سربراہ نے جو فیصلہ کیا وہی ہوگا چاہے عورت کی مرضی ہو چاہے نہ ہو۔۔۔
چاچا رشید عائلہ کا نکاح جس شخص سے کر رہے تھے اس میں نہ تو عائلہ کی رضامندی تھی نہ عائلہ کی والدہ کی نہ عائلہ کی بہن کی۔۔۔
اور جہاں تک گھر ٹوٹنے کی بات ہے ایسے گھر کا ٹوٹ جانا ہی اچھا ہے جہاں پہ عورت کی دن رات تذلیل کی جائے اسے پاؤں کی جوتی سمجھا جائے جہاں عورت کی وقعت گھر کے نوکروں کے برابر سمجھی جائے۔۔۔جہاں پہ عورت کو اپنی رائے دینے کی اپنے دل کی بات کرنے کی آزادی نہ ہو۔۔۔جہاں شوہر ایک مہربان ہمدرد اور محبت کرنے والے شخص کی بجائے ایک جانور کی شکل میں ہو۔۔۔
اور ہماری مقدس کتاب میں ، حدیث میں ، سنت میں کہیں بھی ایسے گھر کا کوئی تصور نہیں ہے۔۔۔
احادیث سے ثابت ہے کہ نبی پاک ص اکثر معاملات میں حضرت عائشہ رضہ عنہ سے اور اپنی باقی ازواج مطہرات سے صلاح مشورہ کیا کرتے تھے۔۔۔"
احتشام شاہ نپے تلے ٹھوس لہجے میں بولتا کچھ پل سانس لینے کو رکا تھا۔۔۔
" دانی واپس نہیں چلنا کیا۔۔۔صبح ہو گئ ہے۔۔۔"
بلال نے دلاور کے کندھے کو آہستہ سے ہلا کر کہا جو ساری رات الّٰلہ سے گریہ زاری کرتے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے فرش پہ بچھی جائے نماز پہ ہی ابھی کچھ دیر پہلے ہی سویا تھا۔۔۔بلال کی رات جب جب بھی آنکھ کھلی اس نے دلاور کو رب کے حضور گڑگڑاتے ہوئے پایا تھا۔۔۔
وہ خوش تھا بہت خوش کہ دلاور کو اپنی غلطیوں کا احساس ہو گیا تھا۔۔۔دل ہی دل میں الّٰلہ کا شکر ادا کرتے عشاء کی نماز کے بعد وہ سو گیا تھا۔۔۔صبح اسکی آنکھ کھلی تو دلاور کو پھر اسی حالت میں پایا۔۔۔فجر کی نماز دونوں نے ساتھ میں امام صاحب کی امامت میں ادا کی۔۔۔
بلال نماز کے بعد پھر سو گیا تھا اب آنکھ کھلی تو دلاور کو سوتے پایا۔۔۔صبح کے 10 بج چکے تھے۔۔۔وہ کل رات سے گاؤں سے غائب تھے۔۔۔واپس جاکر نہ صرف انھیں پنچایت کے سامنے حاضر ہونا تھا بلکہ اپنی ہر غلطی کی معافی بھی مانگنا تھی۔۔۔
" ہممممم ٹھیک کہ رہے ہو ہمیں واپس جانا ہوگا ایسا نہ ہو کہیں بہت دیر ہو جائے۔۔۔امام صاحب سے اجازت لے کر ابھی نکلتے ہیں۔۔۔"
دلاور نے اٹھ کر بیٹھتے دھیمے لہجے میں کسی ٹرانس میں کہا پھر وہ امام صاحب سے اجازت لینے انکے حجرے میں گئے تو وہ وہاں موجود نہیں تھے۔۔مسجد سے باہر آئے تو دیکھا امام صاحب مسجد والی گلی کی صفائی کر رہے تھے۔۔۔انھیں بہت عجیب سا لگا اور شرم بھی آئی کہ اس عمر میں اور پھر انکی موجودگی میں وہ یہ کام کر رہے ہیں۔۔۔
" امام صاحب یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔۔لائیں مجھے دیں میں کردیتا ہوں۔۔۔"
دلاور اور بلال ایک ساتھ آگے بڑھ کر ایک ساتھ بولے۔۔۔
" نہیں بیٹا میں ہمیشہ اپنا کام خود کرتا ہوں۔۔۔اور ویسے بھی مجھے بہت سکون ملتا ہے یہاں کی صفائی ستھرائی اپنے ہاتھ سے کرنے سے۔۔۔
اور دوسرا اس لیے بھی کرتا ہوں کہ میرا نفس مجھ پہ حاوی نہ ہونے پائے اپنے نفس کو جوتے مارتے رہنے سے بندہ ہمیشہ اپنی اوقات میں اور الّٰلہ کا بندہ بن کر رہتا ہے۔۔۔اگر بندہ اپنے نفس کو کھلا چھوڑ دے اسے اپنی من مانی کرنے دے تو انسان سے شیطان بننے میں دیر نہیں لگتی اور میں الّٰلہ کا بندہ بن کر ہی رہنا چاہتا ہوں۔۔۔"
امام صاحب نے انکو منع کرتے مسکرا کر اپنا کام جاری رکھتے کہا۔۔۔
" ہم لوگ آپ سے واپسی کی اجازت لینے آئے تھے۔۔۔اگر آپ اجازت دیں تو۔۔۔"؟
دلاور نے مؤدبانہ انداز میں کہا۔۔۔۔
" واپس جا پاؤ گے کیا۔۔۔"؟
امام صاحب نے سیدھے ہوتے بغور دلاور کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔
" واپس ہی تو جانا ہے۔۔۔اگر اب نہ گیا تو مجھے ڈر ہے کہ پھر ساری عمر واپسی کے لیے بھٹکتا رہوں گا۔۔۔میں آپکا احسان ہمیشہ یاد رکھوں گا امام صاحب ، آپ کی وجہ سے مجھے خود کو پہچاننے کی توفیق ملی میں اپنے دل کے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ پایا۔۔۔الّٰلہ پاک کا صد شکر جس نے آپ کو ہم سے ملایا اگر آپ ہمیں نہیں ملتے تو شائد میں ہمیشہ اندھیروں کا مسافر بن کے رہ جاتا۔۔۔
امام صاحب کی بات میں مخفی اشارے کو سمجھتے دلاور نے سر جھکائے ندامت اور شرمندگی کے ملے جلے تاثر لیے کہا تو امام صاحب اسکی بات پہ مسکرا دئیے۔۔۔
" لو بیٹا آج میں پہلی بار اپنا کام کسی کو دے رہا ہوں۔۔۔اس مسجد کی اور اس گلی کی صفائی کرو گے کیا۔۔۔"؟
امام صاحب نے کہا تو دلاور نے خوشدلی سے انکے ہاتھ سے جھاڑو پکڑ لیا جبکہ ایک اور جھاڑو ڈونڈھ کر بلال بھی اسکے ساتھ صفائی کرنے لگا۔۔۔آس پاس سے گزرتے لوگ حیران ہو کر ان سوٹڈ بوٹد بندوں کو دیکھنے لگے جو بڑے مگن ہو کر دلجمعی سے گلی کی صفائی کر رہے تھے۔۔۔کچھ بچے انکو دیکھ کر ہنسنے لگے تو بلال اور دلاور بھی انکی طرف دیکھ کر مسکرانے لگے۔۔۔انکی دیکھا دیکھی وہ بچے بھی انکے ساتھ مل کر صفائی کرنے لگے۔۔۔پھر سارا کوڑا ایک جگہ جمع کر کے اسے دلاور نے آگ لگا دی۔۔۔
بلال اور دلاور کے نہ صرف کپڑے بلکہ بال بھی مٹی سے اٹے پڑے تھے۔۔۔
دلاور کی بلال کے حلیے پہ نظر پڑی تو اسکی ہنسی چھوٹ گئ۔۔۔بلال نے سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھا پھر فوراً اسکے ہنسنے کی وجہ سمجھ کر ہنستے ہوئے اسکی طرف اشارہ کیا کہ تمہارا بھی میرے جیسا حال ہوا پڑا ہے۔۔۔دونوں نے نل سے منہ ہاتھ دھویا کپڑے جھاڑ کر امام صاحب کے پاس آ کر بیٹھ گئے جہاں دو تین محلے کے بزرگ امام صاحب کے پاس بیٹھے انکے بارے میں ہی گفتگو کر رہے تھے۔۔۔انکے دل میں سکون و اطمینان کی اک عجب سی کیفیت جاگزیں تھیں جو اس سے پہلے انھیں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔۔۔دونوں کا ہی دل چاہ رہا تھا کہ بس یہیں بیٹھے رہیں کہیں مت جائیں۔۔۔مگر جو کچھ وہ پیچھے بگاڑ آئے تھے اس کو سدھارنے کے لیے انکا واپس جانا بہت ضروری تھا۔۔
" بیٹا تم لوگ بہت خوش قسمت ہو۔۔۔شائد تمہیں معلوم نہیں کہ سالوں سے امام صاحب نے اس گلی کی صفائی کا فریضہ ہمیشہ خود انجام دیا مگر آج پہلی بار یہ توفیق کسی اور کو ملی ہے۔۔۔مسجد کی صفائی جس کا دل چاہتا وہ کر لیتا تھا مگر اس گلی کی صفائی کا ذمہ امام صاحب نے کسی کے سپرد نہیں کیا۔۔۔"
امام صاحب کے پاس بیٹھے ایک بزرگ نے مسکراتے ہوئے بڑی اپنائیت سے کہا
" بیٹا کیا نام ہے تمہارا۔۔۔کہاں سے آئے ہو۔۔۔یہاں کے تو نہیں ہو تم دونوں۔۔۔"؟
اسی بزرگ نے دوسرا سوال کیا تھا۔۔۔
جی سچ کہا ہم اس گاؤں کے رہائشی نہیں ہیں۔۔۔اور نام عبدالّٰلہ ہے۔۔۔دلاور نے دھیمے مگر مؤدب لہجے میں جواب دیا۔۔۔بلال نے بھی اپنا نام عبدالّٰلہ بتایا تو وہ بزرگ انکی بات پہ گہری مسکراہٹ لیے ہنس دئیے۔۔۔امام صاحب کی قربت حاصل کرنے والا ہر شخص عبدالّٰلہ ہی تو بن جاتا تھا نہ جانے انکی شخصیت میں ایسا کیا تھا کہ جو ایک بار ان سے مل لیتا پھر ان کا ہی بن جاتا۔۔۔امام صاحب کی روح پرور باتوں میں کھو کر وہ بھول گئے کہ انکو واپس جانا ہے۔۔۔
" بیٹا زندگی محلت دے نہ دے ، پھر ملاقات ہو نہ ہو مگر جانے سے پہلے میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ پیسے کی فراوانی عیش و عشرت ، جوش جوانی ، طاقت ، معاشرے میں اچھے مقام پہ ہونا بندے میں تکبر بھر دیتا ہے۔۔۔اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب کس وقت وہ رحمان کے رستے کو چھوڑ کر شیطان کے رستے پہ چل پڑا ہے۔۔۔
لوگ اس کی واہ واہ کریں ، اس کی ہر بات بلا چوں چرا مان لیا کریں ، کوئی اس سے اختلاف نہ کرے ، جو وہ کہے یا جو وہ کرے بس وہی ٹھیک۔۔۔یہ الّٰلہ کے بندے کی صفات نہیں ہوتیں۔۔۔یہ شیطان کے بندے کی صفات ہیں۔۔۔
الّٰلہ کا بندہ تو بس الّٰلہ کے بندوں کا خادم بن کر انکی خدمت کرتا یے۔۔۔اپنی حیثیت اپنی اوقات کے مطابق الّٰلہ کے بندوں کے لیے بس آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔۔۔
ہر وقت اس فکر میں رہتا ہے کہ اسکی وجہ سے کسی کا دل نہ دکھے ، کسی کو اسکی وجہ سے کوئی پریشانی نہ ہو۔۔جانتے ہو بیٹا روز قیامت سب سے کڑا امتحان عبادات کا نہیں ہوگا بلکہ حقوق العباد کا ، یعنی الّٰلہ کے بندوں کے حقوق کا ہوگا۔۔۔لوگوں کی دل آزاری سے بچو ، انکی عزت نفس مجروح کرنے سے بچو ، کسی کی مدد کرو تو اس حال میں کہ الّٰلہ کے سوا کوئی تمہارا رازدار نہ ہو۔۔۔اپنے سے کم درجہ اپنے غریب رشتہ داروں کا خاص طور پہ خیال رکھو انکو حقیر مت سمجھو ان سے ملو تو اس طرح سے ملو کہ وہ بادشاہ ہیں اور تم فقیر۔۔۔
لوگ تمہارے بارے میں کیا سوچتے ہیں ، کیا کہتے ہیں ، اس بات کی کبھی فکر مت کرنا۔۔۔اگر فکر کرنی ہے تو ہمیشہ اس بات کی کرنا کہ الّٰلہ تم سے کیا چاہتا ہے ، جب بھی کوئی معاملہ درپیش آئے تو بس یہ دیکھنا کہ الّٰلہ کا کیا حکم ہے ، اور الّٰلہ کے حکم کے آگے اگر تمہارے سامنے تمہارے خونی رشتے ماں باپ بھی آ کھڑے ہوں تو تب بھی اپنے دل پہ قابو رکھنا ہمیشہ وہ فیصلہ کرنا جو الّٰلہ کا حکم ہے۔۔۔
اور اس رستے پہ چلتے اگر تم سے تمہارے اپنے ناراض ہو جائیں تو پرواہ مت کرنا۔۔۔کہ انکی ناراضگی سے کہیں زیادہ الّٰلہ کی ناراضگی خوفناک ہے۔۔۔
الّٰلہ کے آگے ہمیشہ جھکے رہنا ، نماز مت چھوڑنا۔۔۔
اب جاؤ تم لوگ۔۔۔الّٰلہ تمہارا حامی و ناصر ہو۔۔۔ہمیشہ الّٰلہ کی امان میں رہو۔۔۔"
امام صاحب کی مدلل گفتگو اور انکے بیان کرنے کا انداز اس قدر دلنشیں تھا کہ دلاور اور بلال ساکت و صامت بیٹھے سر جھکائے سنتے رہے انھیں یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس دنیا سے کٹ کر وہ کسی اور ہی دنیا میں بیٹھے ہوئے ہیں۔۔۔امام صاحب نے چند مزید نصیحتوں کے بعد اپنی بات ختم کر کے انکو گلے ملنے کے بعد جانے کی اجازت دی۔۔۔امام صاحب سے گلے ملتے ان دونوں کو یوں محسوس ہوا جیسے کھلے آسمان تلے تیز دھوپ میں اور تپتے صحرا میں چلتے ہوئے کسی نے ان پہ سایہ کردیا ہو پاؤں کے نیچے ٹھنڈا فرش بچھا دیا ہو جیسے کسی نے ٹھنڈی پر کیف ہواؤں کا رخ انکی طرف موڑ دیا ہو۔۔۔
" امام صاحب اگر آپکی اجازت ہو تو کیا کبھی کبار ہم آپ سے ملنے آ سکتے ہیں آپ سے مل کر دل کو بہت سکون ملا ہے سچ پوچھیں تو واپس جانے کو دل نہیں چاہ رہا من کر رہا ہے کہ یہیں پہ ڈیرے جما لیں "؟
دلاور نے عاجزانہ لہجے میں پوچھا تھا۔۔۔اسکی بات پہ امام صاحب مسکرا دئیے۔۔۔
" بیٹا جیسے تمہاری خوشی۔۔۔میں بھی چاہتا ہوں کہ کل جب تم واپس اپنے شہر جاؤ تو یہاں سے ایک بار ہوتے جاؤ۔۔۔"
امام صاحب نے دھیمی مسکراہٹ لیے کہا تو دلاور اور بلال نے خوشدلی سے اور بڑی گرمجوشی سے دوبارہ آنے کا وعدہ کیا۔۔۔اور خدا حافظ کہ کر وہاں سے نکل آئے۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
" آپ۔۔۔۔آپ اندر نہیں جا سکتے۔۔۔دلاور استاد نے اور رشید احمد نے سختی سے منع کیا ہے کہ جب تک پنچایت کے فیصلے پہ عمل درآمد نہیں ہو جاتا حویلی سے جو بھی آئے وہ گھر کے اندر داخل نہ ہونے پائے۔۔۔"
احتشام شاہ جیسے ہی رشید احمد کے گھر کے باہر گاڑی روک کر نیچے اترا تو دروازے کے باہر کھڑے پہرہ دیتے دلاور کے آدمیوں نے اس کا راستہ روکا۔۔۔
" تم۔۔۔۔تم لوگ روکو گے مجھے۔۔۔ہاں۔۔۔۔تو ٹھیک ہے دکھاؤ روک کے۔۔۔میں کسی کام سے یہاں سے غائب کیا ہوا تم لوگوں نے اس گھر کو اپنی ماں کا گھر سمجھ لیا۔۔۔یہ میرا گھر ہے اور تم لوگوں کو جرأت کیسے ہوئی میرے گھر کے اندر قدم بھی رکھنے کی۔۔۔دفعہ ہو جاؤ تم سب یہاں سے۔۔۔اگر تم میں سے کوئی ایک شخص بھی اس گھر کے دروازے کے پاس کھڑا ملا تو اپنے انجام کا وہ خود ذمہ دار ہوگا۔۔۔
تم لوگوں کی قسمت اچھی ہے جو تم سب اس وقت باہر موجود ہو۔۔۔تم میں سے جو بھی اندر ہوتا خدا کی قسم وہ زندہ باہر نہیں آتا۔۔۔"
احتشام شاہ نے انکی بات پہ انتہائی سرد اور غصیلے لہجے میں ان سب کی طرف دیکھتے گرجدار لہجے میں کہا پھر وہ آگے بڑھنے لگا تو ایک آدمی نے احتشام شاہ کو نہتا اور اکیلا دیکھ کر تیزی سے آگے بڑھ کر اس کا راستہ روکتے گن نکال لی۔۔۔
مگر جیسے ہی اس آدمی نے گن کا رخ احتشام شاہ کی طرف کیا احتشام شاہ کا ایک زوردار گھونسہ اسکے جبڑے پہ پڑا جس سے وہ اچھل کر دو فٹ دور جا گرا۔۔۔اس آدمی کے منہ سے تیزی سے خون بہنے لگا۔۔۔احتشام شاہ نے غصے سے ایک نظر سب کی طرف دیکھا کہ کوئی اور ہے کیا۔۔۔؟
دوسرے آدمی نے گن لوڈ کی تو انکے لیڈر نے یہ صورت حال دیکھ کر چیختے ہوئے سبکو منع کیا کہ کوئی گولی نہیں چلائے گا۔۔۔دلاور نے منع کیا تھا کہ کچھ بھی ہو گولی کوئی نہیں چلائے گا۔۔۔
" دلاور نے اس بات سے بھی منع کیا تھا کہ حویلی کا کوئی بندہ اندر نہیں جائے گا۔۔۔"
احتشام شاہ سے مار کھانے والے پہلے آدمی نے کینہ توز نظروں سے احتشام شاہ کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔
" یہ حویلی کا بندہ ہونے کے ساتھ اس گھر کا داماد بھی ہے ہم اسے نہیں روک سکتے۔۔۔جانے دو اسے میں کر لوں گا بات دلاور سے۔۔۔ٹھیک ہے جی جاؤ آپ۔۔۔کوئی نہیں روکے گا آپکو۔۔۔"
ان سب کو لیڈ کرنے والے آدمی نے احتشام شاہ کی طرف دیکھ کر کہا اور ساتھ ہی اپنے آدمیوں کو سائیڈ پہ کھڑے ہونے کا اشارہ کیا سب لوگ منہ بسورتے احتشام شاہ کی طرف غصے سے دیکھتے مجبوراً اپنے لیڈر کے حکم پہ دروازے سے چند فٹ کے فاصلے پہ سائیڈ پہ جا کھڑے ہوئے ۔۔۔
احتشام شاہ نے وہیں کھڑے کھڑے موبائل پہ کسی کو کال ملائی تو کچھ دیر میں 4 ،5 آدمی اسلحہ سمیت ایک گاڑی سے اتر کر احتشام شاہ کے پاس مؤدبانہ انداز میں وہاں آ کے کھڑے ہو گئے۔۔۔
" تم لوگ اب یہیں رکو گے۔۔۔اور اگر ان میں سے کوئی بھی گھر کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرے تو بے شک گولی مار دینا چاہے وہ دلاور ہی کیوں نہ ہو یہ لوگ تب تک سلامت ہیں جب تک گھر سے باہر ہیں۔۔۔یہ میرا گھر ہے اور میں ہرگز برداشت نہیں کروں گا کہ کوئی بھی کتا بلا میرے گھر کے اندر داخل ہو۔۔۔اور اگر ایسا ہوا تو میں تم لوگوں کو مار ڈالوں گا۔۔۔
احتشام شاہ نے اپنے آدمیوں کو سختی سے وارن کیا پھر دروازے سے اندر داخل ہو گیا۔۔۔مگر اپنے پیچھے دروازہ بند کرنا نہیں بھولا۔۔۔
احتشام شاہ گھر کے اندر داخل ہوا تو صحن میں کوئی بھی موجود نہیں تھا۔۔۔وہ سیدھا مہرالنساء کے کمرے کی طرف گیا دروازہ اندر سے بند تھا۔۔۔احتشام شاہ نے آہستہ سے دستک دی مگر کوئی جواب نہ آیا اس نے پریشان ہو کر اب کے ذرا زور سے دستک دینے کے ساتھ عینا کو آواز بھی دی۔۔۔
" کون ہے۔۔۔۔۔"؟
عینا نے احتشام شاہ کی آواز پہچاننے کے باوجود غصے سے سوال کیا۔۔۔
" عینا۔۔۔۔میں ہوں احتشام شاہ۔۔۔۔دروازہ کھولو پلیززز۔۔۔"
احتشام شاہ کی آواز سن کر بے اختیار عینا کا جی بھر آیا تھا دل چاہا کہ دروازہ کھول کر اس کے سینے سے جا لگے۔۔۔اپنے اندر کا سارا غبار نکال دے۔۔۔مگر دوسرے پل خود کو سنبھالتے وہ تنک کر بولی تھی۔۔۔وہ اس سے شدید خفا تھی۔۔۔جس وقت وہ تکلیف میں تھی اسے اس کی مدد کی ضرورت تھی۔۔۔اس نے کتنی کالز کیں اسے۔۔۔مگر اس نے ایک بار بھی کال سننا تو دور ایک میسج تک نہ کیا۔۔۔اب وہ اس سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔
" آپکو غلط فہمی ہوئی ہے احتشام شاہ۔۔۔یہاں کوئی عینا نہیں رہتی۔۔۔آپ جا سکتے ہیں۔۔۔"
عینا نے غصے سے دروازہ کھولے بنا اندر سے ہی دھیمے لہجے میں کہا۔۔۔کچھ دیر پہلے ہی اس نے مہرالنساء کو نیند کی ٹیبلٹ دی تھی۔۔۔جب سے عائلہ گئ تھی اور پنچایت نے اپنا فیصلہ سنایا تھا انکی طبیعت خراب رہنے لگی تھی۔۔۔ساری رات بھی جاگتی رہتیں۔۔۔مجبوراً عینا کو انھیں نیند کی گولی دینی پڑی۔۔۔عینا کے لہجے سے اس کا غصہ اسکی ناراضگی جھلک رہی تھی۔۔۔
" عین پلیززز دروازہ کھولو یار۔۔۔مجھے اپنی بات ایکسپلین کرنے کا ایک موقع تو دو۔۔۔اسکے بعد بے شک جتنا مرضی ناراض ہو لینا۔۔۔پلیزززز عین دروازہ کھولو۔۔۔"
عینا کے شام جی کی جگہ اسے احتشام شاہ کہ کر پکارنے پہ احتشام شاہ کا دل کٹ کر رہ گیا مگر پھر یہ سوچ کر کہ اپنی جگہ وہ حق پہ ہے تو التجائیہ لہجے میں عینا سے دروازہ کھولنے کا کہنے لگا۔۔۔
" کہا ناں کہ چلے جائیں یہاں سے۔۔۔میں کسی احتشام شاہ کو نہیں جانتی۔۔۔چلے جائیں یہاں سے۔۔۔"
عینا نے اب کے رندھی ہوئی آواز میں کہا تھا اپنے بھیگے لہجے کو وہ ہر ممکن نارمل رکھنے کی کوشش کر رہی تھی وہ احتشام شاہ پہ یہ ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی کہ وہ کمزور پڑ رہی ہے۔۔۔مگر اسکی آواز کی کپکپی احتشام شاہ سے چھپی نہیں رہ سکی تھی وہ جان گیا تھا کہ وہ خود پہ ضبط کر رہی ہے۔۔۔
" عینا بلیو می اگر اب میرے تین گننے سے پہلے تم نے ڈور اوپن نہیں کیا تو میں اسے توڑ ڈالوں گا۔۔۔مگر تم سے ملے بنا تم سے بات کیے بنا ہرگز یہاں سے نہیں جاؤں گا۔۔۔"
احتشام شاہ نے دو ٹوک لہجے میں کہا تو عینا نے گھبرا کر دروازے کی طرف دیکھا احتشام شاہ کا مضبوط لہجہ اس بات کا گواہ تھا کہ وہ اپنے کہے پہ عمل کر ڈالے گا۔۔۔اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ شور شرابے سے اسکی ماں ڈسٹرب ہو اس لیے جیسے ہی احتشام شاہ نے تین کہا اس نے فٹ سے دروازہ کھول دیا۔۔۔اور خود دروازے سے ذرا فاصلے پہ جا کھڑی ہوئی۔۔۔
" کیسی ہو جان۔۔۔"
دروازہ کھلتے ہی احتشام شاہ تیزی سے اندر داخل ہوا اور بڑی بے چینی سے آگے بڑھ کر عینا کا حال دریافت کرنے کے ساتھ اسے اپنی بانہوں میں لینا چاہا تو وہ بدک کر پیچھے ہوئی تھی۔۔۔
" میں مروں یا جیئوں آپکو اس سے مطلب۔۔۔"
عینا نے تنک کر منہ پھلائے غصے سے کہا تھا۔۔۔
" میرے سارے مطلب اب تم سے ہی تو ہیں کیا اس بات کا ابھی تک اندازہ نہیں ہوا تمہیں۔۔۔"
احتشام شاہ نے اس کی بات پہ خفگی سے کہا پھر ایک نظر مہرالنساء پہ ڈالی انھیں سوتا دیکھ کر وہ مطمئین ہوا تھا پھر مہرالنساء کے ڈسٹرب ہونے کے خیال سے وہ عینا کا ہاتھ پکڑ کر اسے کمرے سے باہر لے گیا۔۔۔عینا نے اس کی اس حرکت پہ اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرتے دبے دبے لہجے میں بھرپور احتجاج کیا مگر وہ اسکی کسی بات کو بھی خاطر میں نہیں لایا اور اس کا ہاتھ اسکے روم میں لیجا کر ہی چھوڑا۔۔۔اور ساتھ ہی دروازہ بند کردیا۔۔۔
" یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔۔آپکو سمجھ نہیں آ رہی کہ مجھے بات نہیں کرنی آپ سے۔۔۔اس وقت کہاں تھے آپ جب مجھے اور میرے گھر والوں کو آپکی ضرورت تھی۔۔۔تب کتنا پکارا تھا میں نے آپکو۔۔۔کتنی کالز کیں۔۔۔آپ بھی جھوٹے آپکا پیار بھی جھوٹا۔۔۔آپکے سب وعدے بھی جھوٹے۔۔۔
عینا خود پہ اختیار کھوتے کمرے میں آتے ساتھ ہی پوری قوت سے غصے سے چلائی تھی۔۔۔یہاں ان دونوں کے سوا کوئی نہیں تھا نہ اسے اپنی ماں کے ڈسٹرب ہونے کا ڈر تھا اس لیے اس نے اب اپنی آواز کو دھیما رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔۔۔ اپنی آنکھوں میں امنڈنے والے آنسوؤں کو روکنے اور خود کو کمپوز کرنے کے لیے اپنے لب بھینچے وہ کچھ سیکنڈ رکی تھی خود کو کمپوز کر چکنے کے بعد احتشام شاہ کو غصے سے اپنے دائیں ہاتھ سے پش کرتے اسکا گریبان تھامے وہ تڑخ کر پھر سے گویا ہوئی تھی۔۔۔
آپکو کیا لگتا ہے میں آپکے عشق میں مری جا رہی تھی جو اپنا وقار اپنا غرور خاک میں ملا کر آپکے سامنے جا کھڑی ہوئی کہ احتشام شاہ مجھ سے نکاح کر لو۔۔۔
ہرگز نہیں۔۔۔آپ سے نکاح کا مقصد صرف عائلہ آپی کو سیو کرنا تھا۔۔۔آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ میں جب بھی پکاروں گی میری ایک آواز پہ آپ چلے آئیں گے زندگی کے ہر قدم پہ میرا ساتھ دیں گے۔۔۔۔مگر آپ تو پہلے قدم پہ ہی فیل ہو گئے احتشام شاہ۔۔۔آپ نے میری ہر سوچ کو غلط ثابت کردیا۔۔۔جب مجھے آپکی ضرورت تھی آپ تب نہیں آئے تو اب کیا لینے آئے ہیں۔۔۔چلے جائیں آپ یہاں سے۔۔۔اکیلا چھوڑ دیں ہمیں جیسے پہلے چھوڑا تھا۔۔۔"
عینا نے بھرائی آواز میں لب بھینچے کہا خود پہ ہزار بند باندھنے کے باوجود بولتے ہوئے آنسو تواتر سے اس کے گالوں پہ بہ رہے تھے۔۔۔
عینا کا ضبط جواب دے گیا تھا احتشام شاہ کا اس پہ یوں حق جتانا جہاں اسے سکون دے رہا تھا وہیں غصہ بھی دلا رہا تھا وہ احتشام شاہ سے کوئی شکوہ نہیں کرنا چاہتی تھی کہ شکوہ ہمیشہ ان سے کیا جاتا ہے جن کی آپکی زندگی میں کوئی اہمیت ہوتی ہے اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ احتشام شاہ کو یہ احساس دلائے کہ وہ اس کے لیے کتنا اہم ہے مگر اسے سامنے پا کر چاہ کر بھی وہ اپنی سوچ پہ عمل نہیں کر پائی سارے گلے شکوے اور اسکے اندر کی ساری کثافت اس کی زبان پہ در آئی۔۔۔احتشام شاہ کچھ دیر بغور اسکی طرف یونہی اسے بولتے ہوئے دیکھتا سنتا رہا اس نے اسے نہ چپ کروانے کی کوشش کی نہ روکنے کی اور نہ ہی اپنی طرف سے کوئی صفائی دینے کی ہی کوئی کوشش کی۔۔۔وہ چپ چاپ کھڑا اسکی ہرزہ سرائی سہتا رہا صرف اس لیے کہ اس کے اندر جو بھی غبار بھرا ہے وہ نکال دے پرسکون ہو جائے تبھی وہ اسکی بات سن پاتی سمجھ پاتی۔۔۔
چند دن میں ہی وہ کوئی مرجھایا ہوا پھول لگ رہی تھی لگتا تھا بال بھی چند دن سے نہیں بنائے تھے آنکھوں کے نیچے ہلکے واضح ہو رہے تھے۔۔۔گلابی رنگت میں زردی کا عکس نمایاں ہو رہا تھا۔۔۔احتشام شاہ کے دل کو جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑا تھا۔۔۔عینا کی حالت اسکے شکوؤں پہ اس کا دل بے چین ہو اٹھا تھا جن آنکھوں میں ہمیشہ اس نے خوشیوں کے رنگ بھرنے کا خود سے عہد کیا تھا جن لبوں پہ ہمیشہ ہنسی کھلانے کے پیمان باندھے تھے انجانے میں ہی سہی مگر اسکی وجہ سے ان آنکھوں میں اسکی وجہ سے سمندر اتر آئے تھے لبوں پہ ہنسی کی جگہ فریاد دکھ شکوؤں نے لے لی تھی۔۔۔
احتشام نے ایک گہرا سانس بھرتے اچانک ایک جھٹکے سے اسے اپنی طرف کھینچا تھا اور زور سے اپنے بازوؤں میں بھینچا تھا اسکے جسم سے اٹھتی اسکی مخصوص خوشبو کو اپنی سانسوں میں اتارا تھا۔۔۔عینا اس اچانک جھٹکے پہ سنبھل نہیں پائی تھی وہ اسکے بازوؤں کی گرفت سے نکلنے کے لیے کچھ پل کسمسائی تھی مگر احتشام شاہ نے اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کی تھی احتشام شاہ کے مضبوط بازوؤں کی پناہ میں آتے ہی وہ بکھر گئ تھی اسکی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہ نکلا تھا احتشام شاہ کے سینے میں منہ چھپائے روتے ہوئے وہ اسکی غیر موجودگی میں جو کچھ ہوا سب بتاتی چلی گئ احتشام شاہ کا دل چاہا وہ دلاور کے ٹکڑے کر کے چیل کوؤں کو کھلا دے مگر وہ مجبور تھا۔۔۔اس کے خیال میں وہ سب سے بڑا مجرم مہدیہ کا تھا اور مہدیہ اس کے بچے کی ماں بننے والی تھی یہی بات اسے کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے روکے ہوئے تھی دلاور کی قسمت کا فیصلہ اب مہدیہ کے ہاتھ میں تھا اور اس نے سوچ لیا تھا کہ اگر مہدیہ اسے معاف نہیں کرتی تو اس گاؤں سے وہ دلاور کو زندہ واپس کسی صورت نہیں جانے دے گا۔۔۔وہ اس سے مہدیہ کا ، عائلہ صارم اور اپنی فیملی کو پریشان کرنے کا ہر چیز ہر بات کا حساب لے گا۔۔۔
کچھ دیر بعد اس کے اندر کا سیلاب تھما اس کے شکوؤں نے دم توڑا تو احتشام شاہ اسے یونہی اپنے بازوؤں کے گھیرے میں لیے بیڈ پہ آ بیٹھا۔۔۔
" کچھ اور کہنا ہے تو وہ بھی کہ لو۔۔۔،جتنا چاہے برا بھلا کہ لو مگر۔۔۔عین۔۔۔میری جان ایسا کبھی مت سوچنا کہ میرا پیار جھوٹا ہے ، میرے وعدے جھوٹے ہیں۔۔۔آپکی کسی پکار پہ میں نہ آ سکوں تو سمجھ جانا کہ میں خود کسی مصیبت کسی مشکل میں پھنسا ہوں۔۔۔یا پھر اس دنیا میں ہی نہیں ہوں۔۔۔صرف موت۔۔۔۔"
احتشام شاہ نے عینا کو یونہی اپنے بازوؤں کے گھیرے میں لیے اسکی پیشانی پہ محبت کی مہر ثبت کرتے کہا احتشام شاہ کا فقرہ ابھی منہ میں ہی تھا کہ اس کے آخری الفاظ پہ اس نے تڑپ کر احتشام شاہ کے ہونٹوں پہ اپنا ہاتھ رکھتے خفگی سے اسکی طرف دیکھا تھا۔۔۔احتشام شاہ نے اسکی اس حرکت پہ مسکراتے ہوئے اسے خود میں زور سے بھینچا تھا اور اپنی آنکھیں بند کیے ایک پرسکون گہرا سانس بھرا تھا۔۔۔
پھر عینا کی کالز کا جواب نہ دینے کی وجہ مختصر سی کر کے مہدیہ کی ساری حقیقت اسکے سامنے آشکار کردی۔۔۔ساری بات سننے کے بعد عینا کو شدید شرمندگی نے آ گھیرا۔۔۔سچ جانے بنا اس نے کیا کچھ نہیں سنا ڈالا تھا اسے۔۔۔اسکے چہرے پہ شرمندگی جھلکنے لگی۔۔۔۔
" امید ہے کہ اب آپ کا دل میری طرف سے صاف ہو گیا ہوگا اب آپ کے دل میں کوئی شکوہ نہیں رہا ہوگا۔۔۔"
احتشام شاہ نے عینا کو اس سے نظریں چراتے دیکھ کر اس کے بالوں کو سہلاتے اس کا چہرہ ذرا سا اوپر کرتے اسکی آنکھوں میں محبت سے دیکھتے کہا تو عینا مارے ندامت کے اپنی آنکھیں جھکا گئ۔۔۔
" سوری۔۔۔مجھے یوں آپ سے ناراض نہیں ہونا چاہیے تھا۔۔۔اس وقت جو حالات تھے آپکے کال پک نہ کرنے کی وجہ سے پھر میسج ریڈ کرنے کے بعد بھی اس کا کوئی ریپلائی نہ کرنے کی وجہ سے میرا دل بہت دکھی ہوا تھا اور بدگمان بھی۔۔۔کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کروں۔۔۔اوپر سے دلاور بھی اپنے آدمیوں کے ساتھ آ دھمکا تھا۔۔۔"
عینا نے ندامت بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
" دلاور یا اس کے کسی آدمی نے آپ سے یا خالہ سے کوئی بدتمیزی تو نہیں کی۔۔۔مجھے سچ بتائیے گا عین۔۔۔"
دلاور کے ذکر پہ احتشام شاہ نے سرد اور سخت لہجے میں عینا سے پوچھا تھا۔۔۔عینا نے نفی میں سر ہلایا تو احتشام شاہ کے تنے اعصاب ڈھیلے پڑے تھے۔۔۔عینا کا دل چاہا کہ اسے سب بتا دے مگر پھر یہ سوچ کر چپ کر گئ کہ کہیں اشتعال اور غصے میں آ کر وہ کوئی غلط قدم نہ اٹھا بیٹھے۔۔۔
" تو آپ مانتی ہیں کہ آپ غلط تھیں۔۔۔"؟
احتشام شاہ نے اپنا موڈ بحال کرتے سنیجیدگی سے سوال کیا تو عینا اسکی بات پہ شرمندہ ہوتے ہاں میں سر ہلا گئ۔۔۔
" تو آپ یہ بھی مانتی ہیں کہ آپ مجھ سے محبت نہیں کرتیں بلکہ آپ نے مجھ سے نکاح اپنے فائدے کے لیے کیا۔۔۔"؟
احتشام شاہ نے اپنی مسکراہٹ چھپاتے اسی سنجیدگی سے سوال کیا۔۔۔عینا کے ذہن میں اپنی کہی کچھ دیر پہلے کی سب باتیں گونج رہی تھیں خود پہ افسوس ہو رہا تھا کہ اس نے بنا سچائی جانے احتشام شاہ کو کوئی موقع دئیے بنا کیا کچھ سنا ڈالا۔۔۔انھی سوچوں میں گم وہ پھر سے بنا احتشام شاہ کی بات پہ غور کیے ہاں میں سر ہلا گئ۔۔۔
" واٹ۔۔۔۔۔۔۔"؟
اب کے احتشام شاہ چلانے کے انداز میں بولا تو عینا ہڑبڑا کر اس کی طرف دیکھنے لگی اسے اس کے اس ردعمل کی ہرگز سمجھ نہیں آئی تو حیرانی سے سوالیہ نظروں سے احتشام شاہ کی طرف دیکھا جیسے چلانے کی وجہ پوچھ رہی ہو۔۔۔
" آپ نے ابھی کہا کہ آپ مجھ سے پیار نہیں کرتیں۔۔۔تو اس بات پہ چلاؤں نہیں تو اور کیا کروں۔۔۔اففففف اب آدھی زندگی آپکو اپنے پیار کا یقین دلانے میں گزر جائے گی اور آدھی آپکا پیار پانے کے چکر میں۔۔۔یاالّٰلہ کیا بنے گا میرا۔۔۔"
احتشام شاہ نے ڈرامائی انداز میں ایکٹنگ کرتے بیڈ پہ نیم دراز ہوتے بیچارگی سے کہا تو عینا حیران و پریشان ہو کر اسکی طرف دیکھنے لگی۔۔۔وہ کہیں سے بھی اس وقت کوئی وڈ وڈیرا یا کوئی بزنس مین نہیں لگ رہا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی لاابالی چلبلا سا ٹین ایج کا لڑکا ہو۔۔۔
" آپ کے اور کتنے روپ ہیں شام جی۔۔۔بظاہر دکھنے میں کچھ اور عملی طور پہ کچھ۔۔۔اور وہ تو میں نے غصے میں کہ دیا تھا کہ آپ سے محبت نہیں کرتی۔۔۔ایک آپ سے ہی تو کی ہے ساری دنیا چھوڑ کر۔۔۔کہا تو ہے غلطی ہو گئ۔۔۔سوری۔۔۔"
عینا نے کانوں کو ہاتھ لگاتے احتشام شاہ کی ایکٹنگ پہ ہنستے ہوئے کہا تھا۔۔۔
" میرے اور کتنے روپ ہیں وہ میں آپکو آج نہیں بلکہ اپنی گولڈن نائیٹ پہ بتاؤں گا۔۔۔نہیں۔۔۔دکھاؤں گا۔۔۔فلحال تو آپ اپنی اس غلطی کی تلافی کریں اب۔۔۔"
احتشام شاہ نے مسکراتی آنکھوں سے اسے اک جھٹکے سے کھینچتے اپنے پاس بیڈ پہ لٹاتےکہا تو اسکی آنکھوں میں چھپی شرارت کا مطلب سمجھتے عینا نے اسے گھور کر دیکھا۔۔۔
" گھورنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔یا تو خود تلافی کریں یا پھر میں اپنے طریقے سے سزا دوں۔۔۔"
احتشام شاہ نے اب کے کھل کے مسکراتے ہوئے اپنے گالوں پہ اپنی انگلی رکھ کر اسے مخصوص اشارہ کیا۔۔۔
عینا اس کی کھلم کھلا اس فرمائش پہ کچھ پل کو مسکرا کر اسکی طرف دیکھتی رہی پھر آگے بڑھ کر اس نے اپنے لبوں کا امرت احتشام شاہ کے گالوں پہ چھوڑا۔۔۔احتشام شاہ مزید پھیلا اور پھر انگلی اپنی پیشانی پہ رکھی عینا نے اپنے ہونٹوں کی شبنم وہاں بھی چھوڑی۔۔۔پھر احتشام شاہ نے اپنے یونٹوں پہ ہاتھ رکھا تو عینا آہستہ سے اسکے ہونٹوں کی طرف بڑھی۔۔۔احتشام شاہ نے ایک گہرا سانس بھرتے اس لمحے کی تاثیر کو اپنی روح میں اتارنے کے لیے اپنی آنکھیں موند لیں۔۔۔
کچھ پل کے انتظار کے بعد بھی اسے کچھ محسوس نہ ہوا پھر عینا کے بلند و بانگ قہقہے پہ اس نے پٹ سے آنکھیں کھول کر دیکھا تو عینا اس سے کچھ فاصلے پہ کھڑی اپنی ہنسی ضبط کرنے کے چکر میں لال سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ پیٹ پہ ہاتھ رکھے ہنسی کی پھلجھڑی بنی ہوئی تھی۔۔۔
" عینا کی بچی۔۔۔ابھی بتاتا ہوں تمہیں۔۔۔"
احتشام شاہ کھلھلا کر ہنستا اپنی جگہ سے اٹھ کر تیزی سے عینا کی طرف بڑھا تو اپنے پاؤں میں الجھ کر راہ میں ہی زمین بوس ہو گیا۔۔۔عینا کا چھت پھاڑ قہقہ پورے کمرے کے در و دیوار ہلا گیا تھا۔۔۔احتشام شاہ کو زمین پہ گرے دیکھ کر اس کا ہنس ہنس کر برا حال ہونے لگا۔۔۔احتشام شاہ کپڑے جھاڑتا ہنستا ہوا اٹھ کر پھر سے اسکی طرف بڑھا۔۔۔
" وہیں رک جائیے زیادہ پھیلنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔فلحال اتنی تلافی پہ ہی گزارا کریں باقی کا ادھار کر لیں۔۔۔"
عینا نے احتشام شاہ کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر اپنی ہنسی کو فوراً بریک لگاتے جلدی سے کہا تو احتشام شاہ کے وجود پہ اترتے خمار کو بھی بریک لگے تھے۔۔۔
" ہینننننننن۔۔۔۔۔۔ادھار۔۔۔۔۔آج تک پیسوں کا ادھار تو سنا تھا یہ پیار میں " پیار ادھار " کہاں سے آ گیا۔۔۔"
احتشام شاہ نے مصنوعی خفگی سے اسکی طرف دیکھتے کہا۔۔۔عینا کے بیچ میں ہی روک دینے پہ وہ جھنجلایا تھا۔۔۔وہ کچھ پل اسکی قربت میں گزارنے کا سوچ چکا تھا مگر عینا نے اسے ہری جھنڈی دکھائی تھی۔۔۔
" لو ادھار کا کیا ہے جس چیز میں مرضی کر لو۔۔۔"
عینا نے شوخ لہجے میں کندھے اچکاتے کہا اسکی آنکھوں میں بھرپور شرارت ناچ رہی تھی۔۔۔کچھ پل پہلے مرجھایا ہوا چہرہ اب قوس قزح بنا ہوا تھا۔۔۔اسکے چہرے پہ کھلتے ان رنگوں کو دیکھ کر احتشام شاہ اندر تک سرشار ہوا تھا۔۔۔محبوب کی ہنسی اسکی مسکراہٹ اسکے چہرے پہ کھلتے رنگ انسان کی برسوں کی تھکاوٹ بھی ایک پل میں بھگا دیتے ہیں۔۔۔عینا کو ہنستا مسکراتا دیکھ کر احتشام شاہ بھی جیسے سب بھول گیا تھا۔۔۔
" اوکے۔۔۔۔۔فلحال تو میں اتنے سے ہی کام چلا لیتا ہوں مگر رخصتی کے بعد کوئی ادھار نہیں۔۔۔نہ آپکا نہ میرا۔۔۔سب کچھ آن دا سپاٹ نمٹے گا۔۔۔"
احتشام شاہ نے عینا کے قریب آتے اسکے سراپے پہ نظریں ٹکائے اسکے گالوں کو اپنی دو انگلیوں سے چھوتے ذو معنی لہجے میں کہا تو عینا گالوں تک سرخ پڑی تھی۔۔۔عینا کے بلش کرتے چہرے پہ احتشام شاہ کا دل ڈولا تھا وہ کوئی گستاخی کرنے کو اسکی طرف جھکا ہی تھا کہ موبائل پہ آتی کال نے اسکے قدموں کو وہیں روکا تھا۔۔۔موبائل آن کرکے سکرین پہ جگمگاتے نمبر کو دیکھ کر اس نے جلدی سے کال پک کی تھی۔۔۔دوسری طرف سے جو کچھ اس کو بتایا گیا اس کے بعد اس کے چہرے پہ گہری سنجیدگی در آئی تھی۔۔۔
" شام۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔سب خیر ہے ناں۔۔۔"؟
عینا اسکے چہرے کے سرد تاثرات پہ پریشان ہوئی تھی۔۔۔
" ہاں سب ٹھیک ہے۔۔۔فجر کی کال تھی۔۔۔مہدیہ کی طبیعت بگڑ گئ تھی۔۔۔اس لیے مجھے فوراً جانا ہوگا اور عائلہ کی فکر مت کرنا میں اسکے اور صارم کے رشتے کو کچھ نہیں ہونے دوں گا اور نہ ہی انکو کوئی نقصان پہنچنے دوں گا۔۔۔
اور نہ ہی اب دلاور یا اسکے کسی آدمی سے ڈرنے کی ضرورت ہے۔۔۔میرے آدمی آپ کی حفاظت کے لیے باہر موجود ہیں جو اب پنچایت کے فیصلے تک یہیں پہرہ دیں گے۔۔۔پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے لیکن پھر بھی آپ دروازہ اندر سے لاک رکھیں گی۔۔۔کوئی بھی پریشانی ہو مسلہ ہو تو آپ مجھے فوراً کال کریں گی۔۔۔اگر میں اٹینڈ نہ کر سکوں تو آپ فجر کے نمبر پہ کال کریں گی۔۔۔اوکے۔۔۔"؟
اپنی جون میں واپس آتے احتشام شاہ نے واپسی کا ارادہ باندھتے عینا کو اپنے گلے لگاتے اس تسلی دیتے اور سمجھاتے کہا۔۔۔تو عینا اثبات میں سر ہلا گئ۔۔۔
" مگر پنچایت کا فیصلہ۔۔۔۔۔"
" پنچایت کا فیصلہ لوح محفوظ پہ لکھی کوئی تحریر نہیں ہے جو بدلی نہ جا سکے۔۔۔عائلہ اور صارم شاہ حق پہ ہیں اب یہ میں سب کو بتاؤں گا۔۔۔پنچایت میں انکی طرف سے میں کھڑا ہوں گا۔۔۔اور میں دیکھوں گا کہ میرے سامنے کون کھڑا ہوتا ہے۔۔۔الّٰلہ نے چاہا تو وہ سب کے سامنے سرخرو ہوں گے۔۔۔"
احتشام شاہ نے ٹھوس لہجے میں سنجیدگی سے کہا پھر عینا کو مزید تسلی اور حوصلہ دے کر وہاں سے عجلت میں نکل آیا۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
پورے گاؤں میں میں یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل چکی تھی کہ صارم شاہ اور عائلہ مل گئے ہیں اور انکو لا کر کمرے میں بند کردیا گیا ہے پنچایت سے پہلے کسی کو بھی ان سے ملنے کی اجازت نہیں تھی۔۔۔
شاہ سائیں کے پہنچنے سے پہلے ہی گاؤں کی ٹیم ان تک پہنچ چکی تھی۔۔۔اس لیے شاہ سائیں آدھے راستے سے ہی پلٹ گئے اور گھر واپس جانے کی بجائے وہ اپنے ڈیرے پہ چلے گئے ان میں گھر میں موجود فجر اور ہائمہ خاتون کی شکوہ کناں نظروں کا سامنا کرنے کی ہمت تھی نہ انکے سوالوں کے جواب انکے پاس تھے۔۔۔ڈیرے پہ آتے ہی وہ کمرہ بند ہو کر بیٹھ گئے دین محمد کو سختی سے انھوں نے منع کردیا تھا کہ پنچایت کا وقت ہونے سے پہلے کوئی انکو ڈسٹرب نہ کرے۔۔۔
یہ زندگی میں دوسری بار ہوا تھا کہ جب وہ خود کو انتہائی بےبس محسوس کر رہے تھے۔۔۔انھیں خود پہ شدید غصہ آ رہا تھا برسوں پہلے نہ وہ نازنین کے لیے کچھ کر پائے تھے اور نہ ہی اب چاہ کر بھی صارم شاہ اپنے چہیتے بیٹے کے لیے کچھ کر پا رہے تھے۔۔۔انکی انصاف پسند اور اصولی طبیعت نے انکے ہاتھ باندھ دئیے تھے۔۔۔
پنچایت کا ٹائم شام 4 بجے کا تھا مگر لوگوں کا ایک جم غفیر تھا جو 2 گھنٹے پہلے ہی پنڈال میں جمع ہونا شروع ہو گیا تھا۔۔۔
نواز اندر ہی اندر لوگوں کو بھڑکانے کی کوشش کر رہا تھا کہ شاہ سائیں کا بیٹا ہے تو کیا ہوا۔۔۔پنچایت کا قانون سب کے لیے ایک سا ہے جو غلطی کرے گا اسے سزا ملے گی پھر چاہے وہ شاہ سائیں کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔۔۔
بہت سے لوگ نواز کے ہم خیال ہونے لگے تھے۔۔۔اور بہت سے ایسے بھی تھے جو شاہ سائیں کے احترام اور انکی محبت کی وجہ سے صارم شاہ کو رعایت دینے کے حق میں تھے۔۔۔
لوگوں کی کثیر تعداد ہونے کی وجہ سے پنچایت کا سارا بندوبست گاؤں سے باہر کھلے میدان میں کیا گیا تھا۔۔۔
پنچایت کا وقت ہوا تو صارم شاہ اور عائلہ کو بند کمرے سے نکال کر باہر سب کے سامنے کھڑا کردیا گیا پنچایت نے انکے بارے میں کیا فیصلہ کیا ہے یہ بات وہ دونوں راستے میں آتے ہوئے ہی جان چکے تھے مگر صارم شاہ کے چہرے پہ خوف کا رتی بھر شائبہ تک نہیں تھا۔۔۔عائلہ سہمی ہوئی نظروں سے چاروں اور دیکھ رہی تھی اس نے ایک بڑی سی چادر میں چہرے سمیت اپنا پورا وجود چھپایا ہوا تھا۔۔۔عائلہ کو خوفزدہ اور پریشان دیکھ کر صارم شاہ نے مضبوطی سے اس کا ہاتھ تھاما تھا اور اسے ریلیکس رہنے کا اشارہ کیا تھا۔۔۔
شاہ سائیں اپنی مخصوص نشست پہ براجمان ہو چکے تھے۔۔۔احتشام شاہ آج شاہ سائیں کے قریب بیٹھنے کی بجائے صارم شاہ کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔۔۔صارم شاہ نے ایک نظر مجمع پہ ڈالی تھی پھر رشید احمد اور دلاور کو غائب پا کر اس نے حیران نظروں سے احتشام شاہ سے سوال کیا تو احتشام شاہ کندھے اچکا گیا وہ خود حیران تھا کہ وہ لوگ آئے کیوں نہیں۔۔۔
مہرالنساء بھی ایک طرف بیٹھی اپنی بیٹی کی طرف فکر و پرشانی سے دیکھ رہی تھیں۔۔۔
شاہ سائیں نے ایک نظر ان سب کی طرف دیکھا تھا انکے چہرے پہ کرب کے واضح اثرات موجود تھے مگر اب وہ انکے باپ نہیں تھے وہ صرف ایک سردار تھے۔۔۔احتشام شاہ اور صارم شاہ اپنے باپ کی حالت پہ رنجیدہ ہوئے تھے وہ دونوں ہی جانتے تھے کہ اس وقت انکا باپ اذیت کی کس انتہا سے گزر رہا ہے۔۔۔اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ آج انکا باپ عام لوگوں کی نسبت صارم شاہ کے ساتھ زیادہ سختی سے پیش آئے گا۔۔۔کہ کوئی یہ نہ کہے کہ انھوں نے ایک سردار بن کر نہیں بلکہ ایک باپ بن کر فیصلہ سنایا ہے۔۔۔
" میرا خیال ہے کہ کاروائی شروع کی جائے اب۔۔۔"
پنچوں میں سے ایک پنچ نے مجمعے پہ ایک نگاہ ڈالنے کے بعد کہا تو باقی سب نے اثبات میں سر ہلایا پھر ایک پنچ نے کھڑے ہو کر ایک ہاتھ فضا میں بلند کرتے سب کو خاموش ہونے کا کہا تو سب لوگ دم سادھ گئے۔۔۔پھر شاہ سائیں اور باقی پنچ آپس میں صلاح مشورہ کرنے لگے۔۔۔
" آپ سب کو معلوم ہے کہ ہمارے گاؤں کی کچھ روایات ہیں کچھ طور طریقے ہیں جو برسوں سے چلے آ رہے ہیں۔۔۔اور جو بھی ان روایات کے خلاف جاتا ہے انکو توڑنے کی کوشش کرتا ہے اس کو سخت سزا سے گزرنا پڑتا ہے۔۔۔
صارم شاہ نے بھی وہی غلطی کی ہے۔۔۔اس نے نہ صرف اس گاؤں کی روایات کو توڑا ہے بلکہ کسی اور کی منگ کو بھگانے کا بھی مرتکب ہوا ہے۔۔۔
عائلہ نے بھی کسی اور کی منگ ہوتے ہوئے نہ صرف ایک غیر مرد کے ساتھ مراسم رکھے بلکہ ایک غیر محرم کے ساتھ گاؤں سے بھاگنے کا جرم بھی کیا۔۔۔
بیٹیاں تو اپنے ماں باپ کی عزت پہ مر مٹتی ہیں مگر عائلہ نے اپنی اس حرکت سے اپنے باپ کو پورے گاؤں میں رسوا کیا۔۔۔
اب یہ پنچایت فیصلہ کرتی ہے کہ صارم شاہ ابھی اسی وقت سب کی موجودگی میں عائلہ کو طلاق دے گا۔۔۔اس کے بعد۔۔۔۔
" رک جائیے پنچ جی۔۔۔۔"
اس سے پہلے کہ پنچ کچھ اور کہتے کہ بھرے مجمعے میں دور تک صارم شاہ کی آواز کسی دھاڑ کی صورت میں گونجی تھی۔۔۔سب لوگوں میں کھلبلی مچی تھی۔۔۔سب لوگ صارم شاہ کی طرف اچنبھے سے دیکھنے لگے تھے۔۔۔اپنے بیٹے کے یوں گرجنے پہ شاہ سائیں کے اندر تک سکون اترا تھا بے اختیار ہلکی مسکراہٹ نے انکے لبوں کو چھوا تھا۔۔۔اگر صارم شاہ خاموش رہتا تو انھیں اپنے خون پہ افسوس ہوتا۔۔۔وہ کب سے یہی سوچ رہے تھے کہ وہ خاموش کیوں ہے۔۔۔اور اب جب بولا تھا تو اس نے ثابت کردیا تھا کہ کمی کمینوں کا نہیں بلکہ سچ میں شاہوں کا خون ہے۔۔۔
" پہلی بات کہ میری بیوی ایک عزت دار خاتون ہیں۔۔۔اور دوسری بات کہ ہم پہ جو بھی الزامات لگے ہیں آپکو بھی پہلے انکو ثابت کرنا ہوگا۔۔۔اس کے بعد آپکو فیصلہ سنانا ہوگا۔۔۔اس پنچایت میں آج تک کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوئی سب ثبوتوں اور گواہوں کی گواہی کے بعد فیصلے سنائے گئے۔۔۔پھر یہ ناانصافی ہمارے ساتھ کیوں۔۔۔۔
ہم پہ الزام لگانے والے نہ تو رشید احمد یہاں موجود ہیں نہ دلاور ملک۔۔۔پھر انکی غیر موجودگی میں ہم پہ کیسے کوئی الزام ثابت ہوتا ہے۔۔۔
اور رہی بات عائلہ کو طلاق دینے کی تو اتنا تو آپ بھی جانتے ہیں کہ جو بھی شخص میاں بیوی میں جدائی ڈالنے کا سبب بنتا ہے ان کے بیچ جھگڑے کا سبب بنتا ہے یا ان کو الگ کرتا ہے وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے جس کی الّٰلہ کے ہاں کوئی معافی نہیں۔۔۔
کیا آپ نہیں جانتے کہ شوہر اور بیوی کا رشتہ الّٰلہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔۔۔
پھر آپ جانتے بوجھتے کہ عائلہ میری بیوی ہے اسے چھوڑ دینے کی اسے طلاق دینے کی بات کیسے کر سکتے ہیں۔۔۔
عائلہ نے کوئی گناہ کوئی جرم نہیں کیا اور نہ ہی وہ اپنے ماں باپ اپنے خاندان کو رسوا کرنے والی لڑکیوں میں سے ہے۔۔۔نہ تو میں بھاگا تھا نہ عائلہ۔۔۔ مجھے اور میری بیوی عائلہ صارم شاہ کو اس کی والدہ نے دلاور کے ظلم اور اپنے شوہر کے غلط فیصلے سے بچانے کے لیے مجبور ہو کر ہمیں یہ گاؤں چھوڑنے کا کہا تھا۔۔۔اور چھوڑنے میں اور بھاگنے میں کیا فرق ہوتا ہے مجھے اسکی وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے وہ آپ سب خوب جانتے ہیں۔۔۔
یہاں سارے گاؤں کو ہمارا گاؤں سے جانا تو نظر آ رہا ہے مگر ہم یہ قدم اٹھانے پہ کیوں مجبور ہوئے یہ کسی کو دکھائی نہیں دے رہا۔۔۔
میں پورے گاؤں سے اور اس پنچایت سے پوچھتا ہوں کہ
جب رشید احمد جوئے میں ہاری رقم کے بدلے عائلہ کا نکاح دلاور سے کر رہا تھا تب یہ پنچایت کہاں تھی۔۔۔
جب بنا کسی رشتے کے دلاور عائلہ کے گھر اپنے آدمیوں سمیت گھسا بیٹھا تھا تب کسی کو اس گھر کی عورتوں کی رسوائی کا خیال کیوں نہیں آیا تب یہ پنچایت کہاں تھی۔۔۔
اور یہ کس کتاب میں کس حدیث میں لکھا ہے کہ اگر گھر کے باپ یا بھائی اپنے گھر کی عورتوں کا شادی کے نام پہ سودا کرنا چاہیں تو ہمارا دین اسکی اجازت دیتا ہے گھر کے سربراہ کو سب کچھ کرنے کی اجازت ہے۔۔۔
عائلہ نے ایک فرمانبردار بیٹی ہونے کا ثبوت دیتے اپنےباپ کے غلط فیصلے کو دل و جان سے قبول کیا۔۔۔
بے شک باپ گھر کا سربراہ ہوتا ہے لیکن جب یہی سربراہ جب اپنی سربراہی کو غلط استعمال کرے اور گھر کے لوگوں کی اپنی عورتوں کی زندگی ان پہ تنگ کردے تو کسی نہ کسی کو اسکے سامنے کھڑا ہونا پڑتا ہے کبھی بیٹے کی صورت میں تو کبھی بیوی کی صورت میں اور کبھی بیٹی کی صورت میں۔۔۔یہاں پہ خالہ مہرالنساء اپنے شوہر کے خلاف کھڑی ہوئیں تو کیا غلط کیا انھوں نے۔۔۔
بجائے اس کے کہ آپ سب رشید احمد کو غلط کہیں آپ نے ہمیں ہی کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔۔۔رشید احمد کے ماضی سے حال سے ہر کوئی واقف ہے پھر بھی آپ سب اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔۔۔میری بات کی تصدیق آپ خالہ مہرالنساء سے بھی کر سکتے ہیں وہ آپ سب کو سارا سچ بتا دیں گی۔۔۔
جہاں تک عائلہ کو طلاق دینے کی بات ہے تو میں مر کے بھی اپنی بیوی عائلہ صارم شاہ کو طلاق نہیں دوں گا۔۔۔
میری اس بات کو چاہے آپ بغاوت کہیں یا کچھ بھی۔۔۔مگر میں نے جو کہا اسے آخری سانس تک نبھاؤں گا۔۔۔
آپ اپنے گواہوں کو بلائیے اور اس کے بعد فیصلہ سنائیں۔۔۔عائلہ کو چھوڑنے کے سوا مجھے اس پنچایت کا ہر فیصلہ ہر سزا منظور ہے۔۔۔"
صارم شاہ نے گرجدار آواز میں دو ٹوک لہجے میں کہا اسکی بات پہ ہر طرف سرگوشیاں ہونے لگیں جو بڑھتے بڑھتے شور شرابے میں مدغم ہونے لگیں تو پنچوں نے فوراً فیصلہ کرتے دلاور اور رشید احمد کو فوراً حاضر ہونے کا حکم دیا اور ساتھ ہی مہرالنساء کو گواہی کے لیے سامنے آنے کا کہا۔۔۔میرالنساء نے صارم شاہ کے کہے ہر لفظ پہ سچ کی مہر ثبت کی تھی۔۔۔شاہ سائیں کے حکم پہ کچھ لوگ رشید احمد کے گھر گئے کہ پتہ کریں کہ وہ لوگ ابھی تک پنچایت میں کیوں نہیں آئے۔۔۔
صارم شاہ کے انداز پہ اسکی باتوں پہ عائلہ کے بےقرار دل کو گوناں گوں سکون ملا تھا اسے کہیں نہ کہیں یہ ڈر ضرور تھا کہ ایسا نہ ہو کہ پنچایت کے حکم پہ اور اپنے باپ کے سامنے وہ مجبور ہو جائے۔۔۔اور اسے چھوڑ دے۔۔۔مگر اس نے ثابت کردیا تھا کہ وہ اپنی زبان اپنی محبت میں کتنا سچا تھا۔۔۔
احتشام شاہ نے بھی بھرپور مسکراہٹ لیے صارم شاہ کی طرف دیکھا تھا۔۔۔اس نے آج سے پہلے کبھی صارم شاہ کو یوں بولتے گرجتے نہیں دیکھا تھا ہمیشہ سر جھکا کر بابا کے ہر حکم پہ چلنے والا آج ساری دنیا کے سامنے پنچایت کے فیصلے کو ماننے سے انکار کر گیا تھا اور بے شک اسے ایسا ہی کرنا چاہیے تھا کسی بھی غیرت مند مرد کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔۔۔
اس مرد سے تو ہیجڑے بہتر ہیں جسکی موجودگی میں اسکی بیوی پہ زمانہ انگلی اٹھائے اس کا تماشہ بنائے اور وہ اس کا دفاع کرنا تو دور اس کے حق میں ایک لفظ تک نہ بول سکے۔۔۔
" یہ تو کوئی بات نہ ہوئی جی۔۔۔آج یہ دونوں گاؤں سے بھاگے ہیں۔۔۔تو انکی دیکھا دیکھی گاؤں کے باقی لونڈوں اور لونڈیوں کو بھی شہ ملے گی وہ بھی کل کو کوئی داستان سنا کر اپنے بھاگنے کو صحیح ثابت کردیں گے۔۔۔وجہ چاہے کچھ بھی ہو مگر اس طرح سے گاؤں سے بھاگنا کسی صورت ٹھیک نہیں۔۔۔اور دوسری بات گھر کا سربراہ مرد ہوتا ہے اور اسی کی بات مانی جاتی ہے شوہر کے ہر حکم پہ سر جھکانا عورت کا فرض ہے اگر مہرالنساء کی طرح ہر عورت اپنے شوہر کے فیصلے کے خلاف کھڑی ہونے لگی تو کوئی گھر سلامت نہیں رہے گا ہر گھر ٹوٹ جائے گا۔۔۔
اگر آج اس بات کو یہیں نہیں روکا گیا تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں ہمارے گاؤں میں روایات کو توڑنے کا زہر ہماری نسلوں کے اندر سرایت نہ کر جائے۔۔۔آگے پنچوں کی مرضی۔۔۔"
گاؤں کے تقریباً سب لوگوں کی ہمدردیاں صارم شاہ کی طرف ہوتے دیکھ کر نوازے کا دماغ کھولا تھا۔۔۔وہ ہر صورت صارم شاہ کو غلط ثابت کر کے اسے سزا دلوانا چاہتا تھا اس لیے اپنی جگہ سے تلملا کر اٹھتے اس نے اپنے اندر کا زہر سب کے کانوں میں انڈیلا تھا اسکی بات پہ
گاؤں کے سیدھے سادھے لوگ سوچ و بچار میں پڑ گئے تھے ۔۔۔رشید احمد کے بھی اس نے خوب کان بھرے تھے کہ عائلہ کو کسی صورت صارم شاہ کے ساتھ مت جانے دے پنچایت کا فیصلہ بلکل ٹھیک ہے۔۔۔ مگر آج وہ نہ جانے کہاں غائب تھا۔۔۔جبکہ اسے تو سب سے پہلے یہاں موجود ہونا چاہیے تھا۔۔۔
احتشام شاہ نے نوازے کی طرف شعلہ بار نظروں سے دیکھا تھا اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ نوازا یہ جرأت کیوں کر کر رہا ہے اس کے ہر انداز سے شاہ فیملی کے لیے نفرت جھلک رہی تھی۔۔۔
" میں چاچا نواز کی ہر بات سے اختلاف کرتا ہوں۔۔۔قانون ، روایات یہ سب لوگوں کی معاشرے کی بھلائی کے لیے بنائے جاتے ہیں ناں کہ لوگوں کو پریشان کرنے کے لیے یا کسی کو فائدہ پہنچانے اور اسکی راہیں ہموار کرنے کے لیے۔۔۔
جب بھی کوئی جرم ہوتا ہے تو یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ وہ جرم کن حالات میں ہوا۔۔۔
بے شک مرد گھر کا سربراہ ہوتا ہے لیکن سربراہ کے لیے بھی الّٰلہ نے کچھ دائرے کچھ حدود رکھی ہیں۔۔۔اگر گھر کے سربراہ کی بات ہی حرف آخر ہوتی اور عورت کی کسی بات کی کوئی وقعت نہیں ہوتی تو ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم یہ کبھی ارشاد نہ فرماتے کہ لڑکی کی مرضی کے بنا اس کا نکاح نہیں ہو سکتا جب تک لڑکی اپنے منہ سے اقرار نہیں کرتی اس کا نکاح ہی نہیں ہوتا۔۔۔
اگر باپ کے یا گھر کے سربراہ کا فیصلہ ہی حرف آخر ہوتا تو نکاح شادی کا فیصلہ لڑکی کی رضامندی پہ چھوڑنے کی بجائے یہ کہا جاتا کہ بس باپ نے یا گھر کے سربراہ نے جو فیصلہ کیا وہی ہوگا چاہے عورت کی مرضی ہو چاہے نہ ہو۔۔۔
چاچا رشید عائلہ کا نکاح جس شخص سے کر رہے تھے اس میں نہ تو عائلہ کی رضامندی تھی نہ عائلہ کی والدہ کی نہ عائلہ کی بہن کی۔۔۔
اور جہاں تک گھر ٹوٹنے کی بات ہے ایسے گھر کا ٹوٹ جانا ہی اچھا ہے جہاں پہ عورت کی دن رات تذلیل کی جائے اسے پاؤں کی جوتی سمجھا جائے جہاں عورت کی وقعت گھر کے نوکروں کے برابر سمجھی جائے۔۔۔جہاں پہ عورت کو اپنی رائے دینے کی اپنے دل کی بات کرنے کی آزادی نہ ہو۔۔۔جہاں شوہر ایک مہربان ہمدرد اور محبت کرنے والے شخص کی بجائے ایک جانور کی شکل میں ہو۔۔۔
اور ہماری مقدس کتاب میں ، حدیث میں ، سنت میں کہیں بھی ایسے گھر کا کوئی تصور نہیں ہے۔۔۔
احادیث سے ثابت ہے کہ نبی پاک ص اکثر معاملات میں حضرت عائشہ رضہ عنہ سے اور اپنی باقی ازواج مطہرات سے صلاح مشورہ کیا کرتے تھے۔۔۔"
احتشام شاہ نپے تلے ٹھوس لہجے میں بولتا کچھ پل سانس لینے کو رکا تھا۔۔۔