Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

Welcome!

اردو ورلڈ کے نمبر ون فورم پر خوش آمدید۔ ہر قسم کی بہترین اردو کہانیوں کا واحد فورم جہاں ہر قسم کی کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی۔

Register Now
  • اردو اسٹوری ورلڈ ممبرشپ

    اردو اسٹوری ورلڈ ممبرشپ ریٹس

    ٭یہ ریٹس 31 دسمبر 2025 تک کے لیے ہیں٭

    فری رجسٹریشن

    مکمل طور پر مفت

    رجسٹریشن بالکل مفت ہے، اور فورم کے عمومی سیکشنز تک رسائی حاصل کریں۔

    پرو پیڈ ممبرشپ

    فیس: 1000 روپے (1 ماہ)

    اس پیکج میں آپ کو صرف پرو پیڈ سیکشنز تک رسائی حاصل ہوگی۔

    وی آئی پی ممبرشپ

    فیس: 3000 روپے (3 ماہ)

    وی آئی پی ممبرشپ میں پرو اور وی آئی پی اسٹوریز سیکشنز تک رسائی حاصل کریں۔

    وی آئی پی پلس ممبرشپ

    فیس: 5000 روپے (6 ماہ)

    وی آئی پی پلس ممبرشپ کے ذریعے پرو، وی آئی پی اور وی آئی پی پلس سیکشنز وزٹ کریں۔

    پریمیم ممبرشپ

    فیس: 50 ڈالر (6 ماہ)

    پریمیم ممبرشپ میں پرو، وی آئی پی، وی آئی پی پلس اور خصوصی پریمیم سیکشنز شامل ہیں۔

    رابطہ کریں

    WhatsApp: +1 540 569 0386

    Email: [email protected]

    © 2025 اردو اسٹوری ورلڈ۔ تمام حقوق محفوظ ہیں۔

Moral Story دھوکے اور وفا کی داستان

Joined
Nov 24, 2024
Messages
262
Reaction score
14,850
Points
93
Location
pakistan
Gender
Male
Offline
ان دنوں میں سات برس کی تھی۔ ماں بتاتی تھیں کہ تمہارے والد ایک شریف انسان تھے ، لیکن کچھ بد قماش دوست ان کو غلط جگہوں پر لے جانے لگے۔ انسان خطا کا پتلا ہے۔ میرے والد صاحب کے قدم بھی بہک گئے اور وہ ایک گانے والی کے حسن پر فریفتہ ہو کر گھر بار، کاروبار اور ہر شے سے بیگانہ ہو گئے۔ وہ اس عورت کے عشق میں ایسے گرفتار ہوئے کہ اپنی خاندانی شرافت کو پس پشت ڈال کر اس عورت سے شادی کے درپے ہو گئے۔ خاندان والوں نے بہت روکا، امی جان نے دہائی دی کہ تمہارے بچے ہیں ، ان کی طرف دیکھو، ان کے بارے سوچو۔ آدمی شادی اچھے خاندان میں کرتا ہے اور تم ایک کوٹھے والی کو گھر لا رہے ہو۔ کل تمہارے بچوں کے رشتوں کے سلسلے میں چھان بین ہو گی، تو اس وقت یہ بات تمہارے لئے عذاب بنے گی۔ پھپھو بھی سمجھاتی رہیں، مگر ابو پر کسی بات کا اثر نہ ہوا، ہمارے باوا نے اپنی سی کر دکھائی اور نگین سے بیاہ رچا کر گھر لے آئے۔ ان دنوں میں چھ سال، جبکہ بھائی نہال آٹھ برس کے تھے۔ امی کو ابو کی دوسری شادی کا بہت غم تھا لیکن کیا کرتیں ؟ نباہ پر مجبور تھیں۔ نگینہ نے ایک طوائف کے بطن سے جنم لیا اور آنکھ بھی ایک رقاصہ کے کوٹھے پر کھولی، وہیں پلی بڑھی۔ عادات و اطوار بھی اپنے ماحول کی عکاس تھیں، تاہم وہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ذہین بھی تھی، لہذا بہت جلد سارے گھرانے کے رہن سہن میں خود کو ڈھال لیا۔ وہ بظاہر شرافت بھری زندگی اپنانے کی آرزو مند تھی لیکن اس کا دل اندر سے میلا ہی تھا۔ وہ میری ماں سے حسد کرتی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ اس کی سوتن زمین برد ہو جائے، تاکہ وہ اکیلی ہی شوہر کے گھر کی مالکہ ہو اور اس کی دولت پر تنہا راج کرے۔ والد صاحب دونوں بیویوں کے معاملات میں خاموش رہتے تھے۔ وہ امی جان کو کچھ کہتے تھے اور نہ نگینہ بیگم کو ۔ سوتنیں آپس میں الجھ پڑتیں تو وہ کسی کی طرف داری نہ کرتے ، بلکہ گھر سے چلے جاتے۔ وہ میری ماں سے بہت زیادتی کرتی۔ امی کس سے شکایت کرتیں، جب شوہر ہی نہیں سنتا تھا۔ یہ غم میری ماں کو دیمک کی طرح چاٹنے لگا تھا۔ سال بھر بیمار رہیں، پھر بستر پر گر گئیں۔ باقاعدہ چیک اپ کروایا تو پتا چلا کہ ان کو ٹی بی ہے۔ نگینہ نے میرے والد سے کہا کہ ٹی بی چھوت کی بیماری ہے۔ بہتر ہے کہ یہ ہم سے دور رہیں ، خاص طور پر بچوں سے ورنہ بیماری بچوں کو بھی لگ سکتی ہے۔ جب نانی اور ماموں تک یہ بات پہنچی، تو وہ آکر امی کو اپنے گھر لے گئے۔ نگینہ کے کہنے پر ابو نے ہماری ماں سے ملنا بند کر دیا۔ وہ کبھی کبھی امی کو دیکھنے نانا کے گھر جاتے اور خرچہ دے کر آجاتے تھے۔ امی ہم بچوں کی جدائی میں اور زیادہ غمزدہ اور پریشان رہنے لگیں اور ایک دن یونہی دنیا سے چلی گئیں۔ اب نگین بیگم، جس کو ابو نگو ” کہتے تھے ، کلی طور پر گھر کی مالکہ تھیں۔ ۔ بظاہر ہم پر ظلم و سختی نہ کرتی تھیں، لیکن دل سے محبت بھی نہ کرتی تھیں۔ انہوں نے چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہمارا جینا دشوار بھی نہیں کیا، لیکن اپنے کلیجے سے بھی نہیں لگایا۔ ان کی ایک اور بات یہ اچھی تھی کہ ہماری چھوٹی چھوٹی فرمائشیں پوری کرتیں تھیں ، لہذا ہم جلد ہی سگی ماں کو بھول گئے اور انہیں ہی چھوٹی امی کہنے لگے۔ ابو چھوٹی امی کو بہت چاہتے تھے۔ لگتا تھا کہ ہماری امی کے مرنے کا ان کو کوئی غم نہیں تھا۔ ہم تو بچے تھے۔ وہ پیار سے بلاتی تھیں ، ہم ان کے گرویدہ ہو گئے۔

وقت گزرتا رہا اور ہم بڑے ہو گئے ، تب والد نے پھپھو سے ذکر کیا کہ بچے جو ان ہیں اور میں ان کے گھر بسانے کی سوچ میں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں پہلےبیٹی کا رشتہ کرنا چاہتا ہوں۔ جب امی کو علم ہوا تو وہ سلگ اٹھیں۔ کہا کہ پہلے لڑکے کا رشتہ کرو، وہ بڑا ہے۔ بیٹی ابھی چھوٹی ہے ، اس کو کچھ سمجھدار ہونے دو۔ یوں انہوں نے بھائی مراد کی شادی ایک امیر گھرانے میں نہایت خود پسند لڑکی سے کروا دی۔ امی، بھا بھی کی سپورٹ کرتیں اور میری شکایتیں کرتیں جس پر مجھے بھائی سے ڈانٹ پڑتی۔ یوں میں اپنے گھر میں ہی اجنبی کی طرح زندگی گزارنے لگی۔ ہر وقت کی ڈانٹ پھٹکار نے میری شخصیت کو اتنا مسخ کر دیا کہ میں ذہنی طور پر مفلوج ہو گئی۔ اسکول جانا چھوڑ دیا، ہنسنا بھول گئی، بس ہر وقت روتی رہتی۔ ایک دن چھوٹی ماں نے میری شادی کی بات کی تو ابو نے پھپھو کے بیٹے صفدر کا نام لیا۔ اس پر وہ بولیں کہ صفدر کو چھوڑو، ہمیں اس سے بہتر رشتہ ڈھونڈنا چاہئے۔ ابو کہتے تھے کہ یہی بہتر رشتہ ہے ، مگر وہ نہ مانیں۔ ایک روز وہ مجھے اپنے ساتھ ایک گھر میں لے گئیں اور کہا۔ کسی کو نہ بتانا، یہ میرے بھائی کا گھر ہے اور تمہارے ابو نے پابندی لگائی تھی کہ میں اپنے رشتہ داروں سے نہیں ملوں گی، لیکن میں بھی آخر انسان ہوں۔ گھر کے مکینوں نے میری آؤ بھگت کی۔ چھوٹی امی نے وہاں اپنے رشتہ داروں سے کچھ دیر دوسرے کمرے میں جا کر بات کی۔ ان لوگوں کے اچھے اخلاق سے میں بہت متاثر ہوئی۔ وہاں ایک نوجوان لڑکا بھی تھا، یہ نگو امی کا بھانجا شباب تھا۔ اس نے مجھے معنی خیز نظروں سے دیکھا اور مسکرادیا۔ اس کی صورت میں ایسی چمک دمک تھی کہ میں مرعوب ہوئے بغیر نہ رہ سکی چونکہ امی نے منع کیا تھا کہ گھر میں کسی کو نہ بتانا، تو میں نے راز کو راز ہی رکھا۔ اب امی کہتی تھیں کہ اس کی شادی صفدر سے نہ کرو۔ میں اپنی مرضی سے کروں گی۔ ابو کہتے تھے کہ یہ اچھا رشتہ ہے ، میری بہن مجھ سے ناراض ہو جائے گی۔ میں اسے کیوں گنواؤں۔ پھوپھو سے تو امی کو الرجی تھی کیونکہ ان کی شادی پر سب سے زیادہ مخالفت اس بہن نے کی تھی۔ بہر حال والد نے امی کی نہ سنی اور صفدر کے ساتھ میری منگنی کر دی۔ میں اس فیصلے پر کافی حیران تھی۔ امی کی وجہ سے پھپھو اور صفدر ہمارے گھر نہیں آتے تھے، مگر ابو نے رشتہ جوڑ کر ان کو منا لیا تھا۔ تب صفدر دعوت پر اپنے والدین کے ساتھ آیا۔ میں نے اسے دور سے ایک نظر دیکھا۔ وہ بہت خوبرو تھا۔ دل خوش ہوا کہ میرا ہونے والا جیون ساتھی خوبصورت ہے۔ بھائی اور ابو اس کی تعریفیں کرتے نہ تھکتے تھے ، مگر چھوٹی امی کا منہ پھولا ہوا تھا۔ پھپھو کے سرال والے پڑھے لکھے ، مہذب اور اعلیٰ خاندان سے تھے۔ نندیں بھی تعلیم یافت تھیں۔ میں اپنی زندگی کا وہ لمحہ نہیں بھول سکتی، جب پھو پھا نے مجھے پاس ہونے کی نوید سنائی تھی۔ اب سسرال سے میرے لئے فون آتے۔ کبھی پھپھو بات کرتیں، تو بھی اُن کی بیٹیاں اور کبھی پھوپھا بھی خیریت دریافت کر لیتے تھے۔ وہ سب مجھ سے باتیں کر کے خوش ہوتے، میرا بہت چاؤ کرتے۔ لیکن یہ سب میری چھوٹی ماں کو بالکل نہیں بھاتا تھا۔ جب میں فون پر بات کر رہی ہوتی تو وہ برتن پٹخنے لگتیں۔ کبھی کسی کام کے بہانے آواز دے کر بلاتیں ۔ اب امی ، بھا بھی سے میری لگائی بجھائی کرتیں اور وہ بھائی کو اکساتیں، ان کا مجھ سے موڈ خراب ہو جاتا۔ یہ مجھ پر بڑا سخت وقت تھا۔ چھوٹی امی چاہتی تھیں کہ یہ منگنی ٹوٹ جائے۔ انہوں نے پھپھو کو یہاں تک کہہ دیا کہ میری بہو بہت اچھی ہے۔ حنا ہی اس کے ساتھ بد سلوکی سے پیش آتی ہے۔ پھوپھا مگر بہت سمجھ دار اور دور اندیش آدمی تھے۔ انہوں نے امی کو سمجھایا کہ تم بیٹی کے سسرال والوں سے اپنی بیٹی کی تعریف کرنے کے بجائے برائیاں بیان کر رہی ہو۔ یہ تو تو اچھی بات نہ ہوئی۔ ہم اپنے ہیں، کسی بات کو دل پر نہیں لیتے ، مگر تمہارا طرز عمل درست نہیں ہے۔ یہ سن کر نگو امی شرمندہ ہو گئیں۔ ایک بات تو میں جان چکی تھی کہ ماں چپکے چپکے اپنے رشتہ داروں سے رابطہ رکھے ہوئے تھیں، لیکن میں نے اس بارے لب سی لئے تھے کیونکہ یہ امی کے عزیز تھے اور کسی کے عزیزوں کو اس سے دور رکھنا، اچھی بات نہ تھی۔ مجھے خبر نہ تھی کہ میری ماں، چپکے چپکے کیا پلاننگ کر رہی ہے۔ دراصل وہ اس بات کی منصوبہ بندی کر رہی تھی کہ کسی طرح میں ان کے بھتیجے شہاب کو پسند کرنے لگوں تو وہ میری شادی اس کے ساتھ کروا دیں۔ اس طرح ان کارشتہ پھر سے سابقہ زندگی سے جڑ سکتا تھا، لیکن یہ بات ابو کو کب گوارا تھی۔ وہ پہلے ہی نگین بیگم کی وجہ سے خاندان سے لڑائی مول لے چکے تھے ، بھلا وہ ایسے گھرانے میں میرا رشتہ دینا کیونکر گوارا کرتے ، لیکن چھوٹی امی کہتی تھیں ، اُن کا بھائی ، ان کی خاطر سب کچھ قربان کر سکتا ہے۔ وہ کسی سے کوئی تعلق نہ رکھے گا اگر نگین بیگم کے شوہر اس کو بطور رشتہ دار قبول کر لیں اور اپنے گھر آنے جانے کی اجازت دے دیں۔ والد صاحب کو یہ بات قبول نہ تھی، کجا کہ بیوی کے بھتیجے کو بطور داماد قبول کر لیتے۔ اس صورت حال کو دیکھ کر ابو نے شادی کی تاریخ دے دی۔ میں نے سکون کا سانس لیا کہ شاید اب میری زندگی میں بہار آنے والی ہے ، مگر جو اوپر والے نے لکھ دیا وہ ہو کر رہتا ہے۔ جس روز میری شادی ہوئی، چھوٹی امی کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ وہ رو رو کر فون پر شہاب کو بتا رہی تھیں کہ میں نے تو تیرے لئے پری تلاش کی تھی، مگر افسوس میری نے چلی۔ اگر ضد پر اڑ جاتی، تو کروڑوں کی دولت سے محروم ہو جاتی اور گھر سے باہر ہونا پڑتا۔ خیر، تم فکر نہ کرو میں ہارنے والی نہیں ۔ اس وقت تو مجھے ان باتوں کی سمجھ نہ آئی اور میں خیریت سے بیاہ کر ے بیاہ کر اپنے گھر آگئی۔ سسرال والوں نے بانہیں پھیلا کر محبت سے استقبال کیا، ساس سسر نے بلائیں لیں، نندوں نے میرے قدم لئے ، یہ صحیح معنوں میں مشرف اور بہترین لوگ تھے میں تو خوشیوں بھری جنت میں پہنچ گئی تھی، لیکن ماں مجھے خوش دیکھ کر سلگ رہی تھی۔ اس نے مجھے گھر میں چین سے نہ رہنے دینے کی قسم کھائی تھی۔ انہی دنوں ابو کچھ بیمار رہنے لگے۔ شادی کے تیسرے دن میکے والوں نے مجھے لینے آنا تھا، لیکن بھائی نہ آیا۔ میں ٹوٹ کر رہ گئی کیونکہ سسرال والوں کی نظروں میں مجھے میکے کو گرانا مقصود نہ تھا۔ دوسری بے عزتی سوتیلی ماں نے یہ کی کہ مجھے تو میکے بلایا، مگر میرے شوہر کو نہیں۔ سسر صاحب کافی حیران ہوئے، پھر بھی انہوں نے مجھے بھجوا دیا اور جب میں گھر لوٹی تو میرے دولہا نے پوچھا کہ مجھے تمہارے گھر والوں نے کیوں مدعونہ کیا ؟ میں شرمندہ ہو گئی کیا جواب دیتی۔

ماں نے اسی پر بس نہ کیا۔ جب سسر اور نندیں مجھے لینے آئے ، تو انہوں نے ان کو گھر کے اندر نہیں آنے دیا، باہر ہی کھڑے رکھا۔ تب پھو پھانے ان سے کہا کہ گھر آئے دشمن کو بھی بلا لیتے ہیں۔ ہم تو تمہاری بیٹی کے سسرال والے ہیں۔ امی نے منہ پھٹ ہو کر کہہ دیا کہ میں یہ رشتہ کرنا ہی نہیں چاہتی تھی، کیونکہ تمہاری بیگم نے میری شادی پر ہنگامہ کھڑا کیا تھا۔ اس بات کو میں بھولی نہیں ہوں۔ پھوپھا بچارے یہ سن کر گھبرا گئے اور مجھ سے کہنے لگے کہ بیٹی تمہارا کیا ارادہ ہے ؟ میں آپ کے گھر کی عزت ہوں بابا جانی! آپ کے ساتھ کے ساتھ چلوں گی۔ فوراً اپنا پرس اٹھا کر ان کے ساتھ ہوئی۔ اب امی ہر کسی کو کہتی تھیں کہ میں حنا کی شادی اونچی جگہ کرنا چاہتی تھی، مگر باپ بیٹے نے میرے ارادے کو ناکام بنا دیا۔ وہ ایسی باتیں اب کھل کر کر سکتی تھیں کہ والد بیمار ہو گئے تھے اور ان کے رحم و کرم پر تھے۔ انہی دنوں میرے بھائی بیرون ملک چلے گئے ۔ اب امی کو موقع مل گیا۔ ابو کو اسپتال جانا ہوتا، تو وہ اپنے بھتیجے شہاب کو بلا لیتیں۔ محبور والد نے چپ سادھ لی کہ لاغر ہونے کی وجہ سے بیوی کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ رفتہ رفت شہاب کا والد کے گھر آنا جانا ہونے لگا، پھر امی کے بھائی بہن او بہن اور رشتہ دار بھی آنے لگے ۔ میرے والد کو ان لوگوں سے راہ و رسم بالکل گوارہ نہ تھی۔ خاندان والوں سے بھی ڈرتے تھے کیونکہ وہ شور مچاتے تھے کہ یہ ہیرا منڈی کے لوگ کیونکر ہمارے خاندان میں آتے ہیں۔ جب میرے سسر کو علم ہوا کہ چھوٹی امی کے رشتہ دار میرے والد کے گھر بلا جھجک آنے جانے لگے ہیں تو انہوں نے مجھے میکے جانے سے روک دیا۔ کہا کہ بیٹی میکہ ماں سے ہوتا ہے ، جبکہ تمہارا بھائی بھی بیرون ملک میں ہے اب تم وہاں مت جایا کرو۔ تمہاری سوتیلی ماں ہمیں بھی گھر آنے کی اجازت نہیں دیتی، پھر تمہارا ہمارے بنا وہاں جانا مناسب نہیں لگتا۔ اس بات پر میں سسرال والوں سے بدظن ہو گئی کیونکہ ابا تو حیات تھے اور بیمار بھی تھے۔ میرا ان کے پاس جانا تو بنتا تھا۔ ماں نے بلوایا تو میں نے کہلوا دیا کہ میرے سسرال والے، آپ کے رشتہ داروں کے آنے جانے کی وجہ سے مجھے میکے آنے نہیں دینا چاہتے۔ چھوٹی امی اسی دن کی منتظر تھیں۔ فوراً آکر جھگڑا کرنے لگیں۔ مجھے کہا کہ تم ان سے کیوں دبتی ہو؟ تمہارا باپ زندہ ہے تو یہ تم پر روک لگاتے ہیں، کل کو وہ نہ رہے تو یہ تمہارے ساتھ کیا کریں گے؟ ماں نے میرا دل اس وقت مٹھی میں لیا، جب ابو بیمار تھے۔ میں ان کی باتوں میں آ گئی اور یہاں سے میری بربادی کا آغاز ہو گیا۔ ابو پلنگ پر لاچار پڑے تھے۔ وہ ہر بات سنتے اور چپ رہتے تھے، کسی سے کچھ نہیں کہتے تھے ، مگر یہ باتیں ان کے دل کو لگتی تھیں۔ ڈاکٹروں نے بتا دیا تھا کہ اُن کو کینسر ہے اور چند دن کے مہمان ہیں۔ یہ سن کر چھوٹی امی کی آنکھ نم ہونے کی بجائے ان کے لبوں پر ایک خفیف سی مسکراہٹ کھیل گئی تھی۔ سچ ہے بندہ دہشت گرد اسی وقت بنتا ہے، جب ایک کمزور دماغ اس کے قبضے میں آجائے۔ یہی میری ماں نے میرے ساتھ کیا۔ میں نادان اپنے شوہر اور سسرال والوں کی باتیں میکے میں بتانے لگی اور سوتیلی ماں کی ح چالوں کو نہ سمجھ سکی۔ بس ان کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئی۔ میری زندگی میں بہار نو کی نوید آئی تو سسرال والے خوشی سے پھولے نہ سمائے، لیکن امی کا چہرہ اتر گیا اور وہ مجھے لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے گئیں تا کہ میری ہونے والی اولاد کا گلا پیدا ہونے سے پہلے دبا دیں۔ وہ بامراد ہوئیں کہ میں ایسے معاملات کو سمجھتی نہیں تھی۔ انہی دنوں میری نند کو دیکھنے ایک اچھی فیملی سے عورتیں رشتے کی عرض سے آئیں۔ چھوٹی امی بھی اتفاق سے اس روز موت کے فرشتے کی مانند ہمارے گھر پہنچ گئیں ۔ کہا کہ چلو، تمہارے ابا تم کو یاد کر رہے ہیں۔ میں نے کہا۔ امی ، اہم مہمان آئے ہوئے ہیں۔ ان کو جانے دیجئے ، پھر ہم چلتے ہیں۔ اس پر وہ بولیں ۔ یہ تم کو میکے جانے سے روکتے ہیں ، یہ ظالم لوگ ہیںان کی پروامت کرو۔ میں تمہاری دوسری شادی کرا دوں گی۔ تمہارے ابا بیمار ہیں، پھر باتوں باتوں میں بتانے لگیں کہ قسمت تو اللہ بناتا ہے۔ دیکھو میں کوٹھے پر ایک طوائف کے بطن سے پیدا ہوئی مگر میری شادی کس طرح تمہارے باپ کے ساتھ ایک امیر اور شریف گھرانے میں ہو گئی اور میں عیش و آرام کی زندگی گزار رہی ہوں۔ میں اور میرے سسرال والے یہ باتیں سن کر ہکا بکارہ گئے۔ میں نے ان سے کہا۔ امی کچھ لحاظ کریں۔ میری نند کارشتہ ہو رہا ہے آپ یہاں کیسی باتیں کر رہی ہیں۔ اس پر انہوں نے جان بوجھ کر اور اوٹ پٹانگ باتیں شروع کر دیں۔ ان لوگوں پر اتنا برا اثر ڈالا کہ وہ مکدر ہو چلے گئے۔ میں انہی کی نہیں، سسرال والوں کی نظروں میں بھی گر گئی۔ میرے شوہر اتنے چھے تھے کوئی اور ہوتا تو بدلہ لیتا، مگر انہوں نے کہا۔ یہ اللہ کی مرضی ہے، اور مجھے کچھ نہ کہا۔ پھپھو خفا ہونے لگیں تو پھو پھانے ان کو جھاڑا کہ اس بچی کو کیا قصور ہے ؟ تم بہو پر کیوں ناراض ہو رہی ہو۔ کسی کا کیا یہ کیوں بھرے ؟ جانتی نہیں کہ وہ ان کی سوتیلی ماں ہے اور خاندانی بھی نہیں۔ ایسی عورت سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ میں نے میکے جانا چھوڑ دیا، لیکن ایک روز چھوٹی امی کا سندیس آیا کہ تمہارے ابا جان کنی کے عالم میں ہیں۔ آخری دیدار کر لو، پھر نہ کہنا کہ مجھے خبر نہ کی۔ اس بات پر سر صاحب نے فوراً اجازت دے دی۔ ہم والد کے گھر پہنچے۔ واقعی ابو کی طبیعت بہت خراب تھی۔ وہ قریب المرگ تھے۔ شاید میرا انتظار کر رہے تھے۔ میرے آتے ہی دم دے دیا۔ اب چند دن یہاں رہنا لازم تھا۔ میں میکے میں رہ گئی اور صفدر والد کی تدفین کے بعد میرے سسرال والوں کے ساتھ چلے گئے۔ یہاں میرے دن افسردگی میں گزر رہے تھے۔ صفدر لینے آئے، تو امی بولیں ۔ اس کو علیحدہ مکان کر دو، ورنہ یہ یہیں رہے گی، جب تک الگ گھر نہیں لے کر دو گے ۔ صفدر بولے ۔ ابھی یہ ممکن نہیں ہے۔ میری تنخواہ اتنی نہیں کہ علیحدہ رہوں ۔ کچھ وقت بعد یہ بھی ممکن ہو جائے گا۔ تمہارے والد اس کو میکے آنے سے روکیں گے کیونکہ میرے رشتہ دار تو یہاں آتے ہیں، لہذا یا تو علیحدہ گھر کی شرط پوری کرو، تاکہ میں اپنی بیٹی سے ملنے آسکوں یا پھر اس کو طلاق دے دو۔ اس وقت تو صفدر مجھے ساتھ لے گئے ، لیکن کچھ دن بعد سوتیلی ماں ہمارے گھر آگئیں۔ بولیں کہ ابو کے لئے ختم کرانا ہے اور خیرات کرنی ہے۔ حنا کو میرے ساتھ بھیج دو۔ پھپھونے کہا کہ یہ اکیلی کیوں جائے ؟ میرے بھائی کے لئے ختم کروارہی ہو ، تو میں کیوں نے ساتھ جاؤں ؟ تم اس لئے نہیں آسکتیں کہ وہاں سب میرے رشتے دار آئیں گے جن کے آنے پر تم لوگوں کو اعتراض ہے۔ تو پھر ہماری بہو بھی اپنے والد کے گھر نہیں جائے گی۔ پھو پھونے کہا اس کو ساتھ بھیجیں ، ورنہ طلاق دے دو۔ اس پر صفدر اور میرے سسر غصے میں آ گئے اور انہوں نے چھوٹی امی کی بے عزتی کر کے ان کو اپنے گھر سے نکال دیا۔ وقتی طور پر میں بہت ڈسٹرب تھی، تبھی میکے سے سندیسہ آیا کہ تمہارا بھائی آ گیا ہے۔ مجھے بھائی کی محبت نے مجبور کر دیا۔ شوہر سے کہا کہ میں اپنے بھائی سے ملنے جاؤں گی، تب انہوں نے میکے جانے کی اجازت دے دی۔ دو دن بعد وہ لینے آئے تو بھائی میرے شوہر سے الجھ پڑے ۔ وہ امی کی باتوں میں آ گئے تھے۔ کہنے لگے کہ تم نے ہماری ماں کو بے عزت کر کے اپنے گھر سے نکال دیا ، اب میری بہن آپ کے گھر نہیں جائے گی، جب تک پھوپھا اور پھر بھی میری ماں سے معافی نہیں مانگیں گے۔ اس پر بات اتنی بڑھ گئی کہ صفدر ناراض ہو کر چلے گئے، یوں نگو امی کی چال کامیاب رہی۔ سسر صاحب نے معافی نہیں مانگی اور بھائی نے دباؤ ڈال کر میری طلاق کرا دی۔ میں روتی رہ گئی اور وہ پھر سے ناروے چلے گئے، لیکن میرا گھر اجاڑ گئے۔ اب امی کی بن آئی۔ انہوں نے شہاب کو مستقل اپنے پاس رکھ لیا اور جب عدت ختم ہو گئی تو انہوں نے مجھ کو آمادہ کرنے کی کوششیں شروع کر دیں کہ میں شہاب سے شادی کر لو۔ میں اپنی غلطی مانتی ہوں کہ میں نے چھوٹی امی کے جھوٹے پیار کو اہمیت دی اور اپنے شوہر کے سچے پیار کو نہ سمجھ سکی، پھر انہوں نے مرادوں سے اپنی جھولی بھر لی اور میری شادی اپنے بھتیجے سے کرانے میں وہ کامیاب ہو گئیں۔ بھائی اور بھابھی کے بیرون ملک جانے کے بعد میرا پرسان حال کوئی نہ رہا تھا۔ کچھ دن تو اچھے یوں گزر گئے کہ میں اور شہاب امی کے ساتھ رہے اور انہوں نے خوب ہمارے چاؤ چونچلے کیے۔ ایک دن شہاب نے کہا۔ میرے بغیر میری ماں پریشان رہتی ہیں۔ چاہتا ہوں کہ کچھ دن ہم ان کے پاس جا کر رہیں۔ میں ان کے ساتھ ان کے گھر گئی تو مجھے پتا چلا کہ شرافت کیا شے ہوتی ہے اور جن لوگوں کے پاس عزت کا تصور نہیں ہوتا، ان کی زندگی کیسی ہوتی ہے۔ میں اپنی نندوں کے اطوار دیکھ کر حیران و پریشان تھی۔ ان کا کھانا پینا ہنسنا بولینا سب امیرانہ ٹھاٹھ تھے ، لیکن ان کے مرد تو نہیں کماتے تھے ، عورتیں کماتی تھیں اور مرد کھاتے تھے۔ خدا کی کرنی کہ چھوٹی امی کو اچانک بخار ہوا اور وہ چند روز بعد چل بسیں ۔ ان کو ڈینگی ہو گیا تھا۔ ان کی اچانک موت کے صدمے سے میں نڈھال ہو گئی کہ ان کو ہی اب آخری سہارا سمجھتی تھی۔ گھر کو تالا لگ گیا اور اب میں مستقل شہاب کے ساتھ ان کی بہنوں ، ماں اور نانی کے ساتھ رہنے پر مجبور تھی۔ اس زندگی کا کب میں نے تصور کیا تھا۔ ہمیں تو ہر وقت سر پر دوپٹہ اوڑھنے کا حکم تھا اور ان کی عور تیں ، دن کو سوتی اور راتوں کو جاگتیں۔ شام ڈھلے زرق برق لباس زیب تن کر کے، بناؤ سنگھار کر کے اپنے چاہنے والوں کے ساتھ چلی جاتیں۔ ان کی زندگی کا مقصد بس عیاشیوں کا حصول تھا ، چاہے نا جائز ذرائع سے کیوں نہ ہو، پھر ایک دن وہ بھی آگیا جب انہوں نے مجھے بھی اپنے ڈگر پر چلانا چاہا۔ میں خوب روئی۔ مجھے میرے اپنی پھپھو ، پھوپھا یاد آئے، جو شریف لوگ تھے۔ کاش میں سوتیلی ماں کی باتوں میں نہ آتی۔ کچھ دن کی تگ و دو کے بعد بالآخر میں وہاں سے بھاگ کر اپنے والد کے ایک دوست کے گھر آ گئی۔ انہوں نے بھائی کو اطلاع دی، جنہوں نے میرا داخلہ ناروے یونی ورسٹی میں کروا کر مجھے وہیں بلوا لیا۔ تعلیم مکمل کرکے، کافی عرصہ محنت بھری زندگی کے بعد بالآخر وہاں کی شہریت حاصل کرنے میں کامیا ب ہو گئی۔ دعا ہے، خدا کسی کو ایسے میلے کچیلے لوگوں میں نہ پھنسائے جو خود تو میلے ہوتے ہیں دوسروں کو بھی دلدل میں گرا دیتے ہیں۔
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
Back
Top