Story Lover
Well-known member
Offline
- Thread Author
- #1
”حاجو خان! تم سے ایک کام ہے۔ اس کام کے بدلے میں تمہیں دس ہزار روپے دوں گا۔ کام اتنا مشکل نہیں ہے۔ بس تم وہ چیز لاکر مجھے دے دوگے اور تمہارا کام ختم۔ پھر تم سے اس چیز کے بارے میں کوئی نہیں پوچھے گا۔ نہ کوئی تم پر شک کرے گا۔ کیا خیال ہے ، یہ کام کروگے؟“
”ہاں! کیوں نہیں۔ مجھے آج کل پیسوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ آپ بس کام بتائیں۔“ حاجو خان نے کر کہا۔
وہ پراسرار آدمی اس سے جب بھی کوئی کام لیتا تھا، پہلے اسے ایک خط لکھتا تھا۔ اس خط میں ایک چابی ہوتی تھی۔ وہ چابی لے کر اس کی بتائی ہوئی عمارت تک پہنچ جاتا۔ عمارت کے دروازے پر لگا تالا اس چابی سے کھل جاتا تھا۔ عمارت کے ایک کمرے میں اسے اس پراسرار آدمی کی آواز سنائی دیتی تھی۔ اُ سے جو کام لینا ہوتا ، وہ اس کی تفصیل بتاتا تھا۔ معاوضے کی رقم بھی اس کمرے میں میز کی دراز سے مل جاتی تھی۔
وہ پراسرار آدمی آج تک ا س کے سامنے نہیں آیا تھا۔ پہلی مرتبہ بھی اس نے اس طرح اس کے نام ایک خط لکھا تھا۔ اس میں چابی تھی اور اس عمارت کا پتا جس میں اسے جانا تھا اور یہ ہدایات لکھی تھیں کہ وہ کسی کو کچھ بتائے بغیر اگر وہاں آجائے تو اس سے ایک بہت آسان سا کام لیا جائے گا اور معاوضہ دس ہزارو روپے بیٹھے بٹھائے مل جائے گا۔
اور واقعی وہ کام بہت آسان تھا۔ بس دفتر کے ایک آدمی کا قلم چرانا تھا۔ اس نے قلم چرا کر اس عمارت تک پہنچا دیا اور اپنے دس ہزار کھرے کرلیے۔ اس بات کو جب ایک ماہ گزر گیا اور پھر اس پراسرار آدمی کا فون نہ آیا تو اسے بے چینی محسوس ہونے لگی۔ وہ چاہنے لگا کہ اس کا فون آجائے اور وہ اس سے کوئی کام لے اور اسے دس ہزار اور مل جائیں۔ آخر ڈیڑھ ماہ بعد اس کا خط آ گیا۔ اس نے ایک اور چھوٹا سا کام اس سے لیا اور اسے دس ہزار مل گئے۔
اس وقت تک وہ اس سے ایسے کتنے ہی کام لے چکا تھا۔ وہ ایک سرکاری دفتر میں چپراسی تھا چوں کہ سب سے اعلیٰ افسر کا چپراسی تھا، اس لیے دوسرے آفیسرز کے کمروں میں اس کا روز کا آناجانا تھا۔
ان حالات میں قلم جیسی چیزیں پارکردینا اس کے لیے ذرا بھی مشکل کام نہیں تھا۔
”ہاں تو حاجو! اس مرتبہ تم اپنے آفیسر کی گھڑی چراکے لاﺅگے۔ یہ کام تمہارے لیے مشکل تو نہیں ہوگا۔“ آواز آئی۔
”جی…. جی نہیں ۔ مشکل تو نہیں ہوگا، لیکن ان کی گھڑی بہت قیمتی ہے، لہٰذا وہ سب سے باری باری پوچھیں گے اور جب نہیں ملے گی تو پولیس کو بلالیں گے۔ پولیس ہم جیسوں سے سوالات ضرور کرے گی۔ آپ جانتے ہی ہوں گے کہ پولیس کے سامنے اپنے چہرے کے تاثرات کو معمول پر رکھنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ میرا بدلتا ہوا رنگ دیکھ کر انہیں مجھ پر شک ہوجائے گا اور آخر کار وہ مجھ سے اگلوالیں گے۔ پھر یہ ہوگا کہ میں انہیں یہاں تک لاﺅں گا۔ آگے کیا ہوگا؟ مجھے پتا نہیں، لیکن میرے حق میں بہرحال اچھا نہیں ہوگا۔“ یہاں تک کہہ کر حاجو خاموش ہوگیا۔
”تم اپنی بات پوری کرچکے۔“ ناخوش گوار آواز سنائی دی۔
”جی ہاں بالکل۔“
”میز کی دراز کھولو۔“
اس نے میز کی دراز کھولی تو چونک اٹھا۔ دراز میں ایک گھڑی رکھی تھی۔
”یہ…. یہ کیا جناب اس میں تو گھڑی موجود ہے۔“
”ہاں! یہ گھڑی جیب میں ڈال لو…. اپنے آفیسر کی گھڑی اٹھا کر اس کی جگہ یہ والی رکھ دینا۔ اس طرح نہ تو انہیں کوئی شک ہوگا نہ پولیس آئے گی اور نہ تم سے کوئی پوچھ گچھ ہوگی۔ اس سے اندازہ لگا لو مجھے تمہارا کتنا خیال ہے۔“
”وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے؟“ حاجو خان نے حیران ہوکر کہا۔
”کیا کیسے ہوسکتا ہے؟“
”بھلا گھڑی تبدیل ہونے کا انہیں کیوں پتا نہیں چلے گا۔“
”اس لیے کہ یہ گھڑی انہوں نے ابھی کل ہی خریدی ہے۔ لہٰذا اس دکان سے بالکل اسی جیسی گھڑی خریدنا کیا مشکل بات تھی۔“
”اب میرے لیے اور زیادہ حیرت کی بات ہوگئی۔ آخر آپ اس گھڑی کا کیا کریں گے۔“
”حاجو خان! تم سوالات بہت کرنے لگے ہو۔ اب میں اس قسم کے آسان سے کام کسی اور سے لیا کروں گا۔“
”نن…. نہیں سر…. نہیں۔“ وہ کانپ گیا کیوں کہ وہ ایسے چھوٹے چھوٹے کاموں کے دس دس ہزار روپے کئی بار وصول کرچکا تھا اور کمائی کے اس ذریعے سے ہاتھ نہیں دھونا چاہتا تھا۔
”اچھا تو پھر جاﺅ وہ گھڑی لاکر یہیں رکھ دینا۔ تمہارا معاوضہ اسی دراز سے تمہیں مل جائے گا۔“
”جی اچھا۔“
گھڑی جیب میں ڈال کر وہ باہر نکل آیا، لیکن آج وہ حد درجے الجھن محسوس کررہا تھا کیوں کہ یہ چکر اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ سمجھ میں تو اس شخص کی کوئی بات پہلے بھی نہیں آئی تھی، لیکن گھڑی والے معاملے نے اسے کچھ زیادہ ہی الجھن میں ڈال دیا تھا۔ اس سے پہلے جب ایک آفیسر کا قلم اس نے چوری کرایا تھا تو اس نے بہت الجھن محسوس کی تھی۔ بھلا کوئی کسی کا قلم دس ہزار روپے خرچ کرکے کیوں چوری کرانے لگا؟ وہ اس سے کیا فائدہ اٹھا سکتا تھا؟ اسی طرح کی چند اور چیزیں اس نے دفتر کے لوگوں کی چوری کروائی تھیں۔ اب معاملہ ذرا مختلف تھا۔ اسے گھڑی اٹھا کر بدلے میں دوسری گھڑی رکھنا تھی۔ اس کے آفیسر کی عادت تھی کہ میز پر بیٹھتے ہی گھڑی اتار کر رکھ دیتے تھے اور پھر جانے کے وقت ہی پہنتے تھے۔ ان حالات میں اس کے لیے یہ کام بہت آسان تھا کیوں کہ آفیسر کئی بار اٹھ کر ادھر اُدھر جاتے تھے، لیکن وہ سوچ رہا تھا کہ بدلے میں رکھی جانے والی گھڑی میں نہ جانے کیا بات ہوگی اور وہ نامعلوم آدمی اس طرح کیا کرنا چاہتا ہے۔ ان باتوں نے اس کی الجھن میں اضافہ کردیا تھا۔
٭….٭….٭
دوسرے دن پروگرام کے مطابق وہ اس کمرے کا تالا کھول کر اندر داخل ہوا تو گھڑی اس کی جیب میں موجود تھی۔ اس نے دراز کھولی تو وہاں دس ہزار روپے موجود تھے۔ اس نے دھک دھک کرتے دل کے ساتھ گھڑی وہاں رکھ دی اور نوٹ جیب میں رکھ لیے۔
”میں نے گھڑی رکھ دی ہے۔“ اس نے منہ اوپر اٹھا کر کہا، لیکن اس شخص کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔ اس کا مطلب تھا، وہ اس وقت اس مکان میں نہیں تھا، چنانچہ وہ باہر نکل آیا اور دروازے کو تالا لگا کر اپنے گھر چلا آیا۔
دوسرے دن صبح سویرے ناشتے سے پہلے وہ اخبار دیکھ رہا تھا کہ بہت زور سے اچھلا، اس کی آنکھیں مارے خوف کے پھیل گئیں۔
عین اس وقت اس کے فون کی گھنٹی بجی۔ اس نے لرزتے ہاتھوں سے فون اٹھایا تو دوسری طرف سے اسی پراسرار آدمی کی آواز سنائی دی۔
”حاجو خان۔“
”جج…. جی جناب۔“
”یہ تم نے اچھا نہیں کیا۔“
”کیا…. کیا مطلب؟“
”ایسا کرکے تم نے اپنے پاﺅں پر کلہاڑی ماری ہے۔“
”وہ کیسے؟“
”تم نے میری ہدایات پر عمل نہیں کیا جو گھڑی میں نے تمہیں دی تھی۔ وہ تم نے اپنے آفیسر کی میز پر نہیں رکھی اور اس کی گھڑی اٹھا کر اس مکان میں نہیں رکھی بلکہ تم نے مکان میں وہی گھڑی رکھ دی جو میں نے تمہیں دی تھی۔ تم نے ایسا ہی کیا ہے نا۔“
”ہاں! اس لیے کہ مجھے خوف محسوس ہوا تھا۔میں ڈر رہا تھا کہ نہ جانے اس گھڑی کی وجہ سے آفیسر صاحب کے ساتھ کیا معاملہ ہوجائے لہٰذا میں نے ایسا کیا۔ مجھے خوشی ہے کہ آفیسر بچ گئے اور وہ مکان تباہ ہوگیا۔“
”لیکن…. اب تم کس مشکل میں پھنس گئے ہو یہ ابھی تمہیں معلوم نہیں۔ آج ہی کسی وقت تم جان لوگے۔“
ان الفاظ کے ساتھ ہی فون بند ہوگیا۔ اس کا رنگ اڑ گیا اور جسم سے جان نکلتی محسوس ہوئی۔ اس نے سوچا وہ آج دفتر نہیں جاسکے گا، چنانچہ اس نے دفتر فون کردیا اور طبیعت خراب ہونے کا بتا کر چھٹی کرلی۔ اب بھی اس کا دل دھک دھک کررہا تھا۔ اس کی بیوی اور بیٹی اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہوگئیں۔
”کیا بات ہے؟ آپ کو کیا ہوگیا ہے۔ تھوڑی دیر پہلے تو آپ بالکل ٹھیک ٹھاک تھے۔ مزے سے ناشتا کررہے تھے۔ پھر اخبار دیکھ کر آپ گھبراگئے اور اس کے بعد یہ فون سن کر آپ کی حالت اور خراب ہوگئی…. بات کیا ہے؟“
اس نے ان دونوں کی طرف خالی خالی نظروں سے دیکھا اور کتنی ہی دیر دیکھتا رہا…. پھر بولا:
”مجھ سے ایک بہت خوفناک غلطی ہونے لگی تھی۔ اللہ نے مجھے اس سے بچالیا، لیکن اب پریشانی آکر رہے گی۔“
”بات کیا ہے؟ آپ پوری بات بتائیں۔“ بیوی گھبرا گئی۔
وہ انہیں تفصیل سے سنانے لگا کیوں کہ اس نے سوچا تھا کہ بات تواب ویسے بھی نکل کر رہے گی کیوں نہ انہیں بتا کر دل ہلکا کرے۔ جونہی اس نے بات پوری کی۔ اس کا بیٹا بہت زور سے چونکا اور چلایا©:
”جلدی کریں آئیں میرے ساتھ۔“
”لیکن کہاں؟“ وہ گھبرا گیا۔
”ان باتوں کا وقت نہیں ہے جلدی کریں۔“
دوسرے ہی لمحے وہ ایک ٹیکسی میں بیٹھے اڑے جارہے تھے اور یہ ٹیکسی ایک صاف ستھرے گھر کے سامنے رکی۔ لڑکا اچھل کر ٹیکسی سے باہر نکلا اور اس نے دروازے کی گھنٹی بجادی۔ دروازہ کھلا اور ایک خوبصورت سا، شوخ سا لڑکا نظر آیا۔ یہ فاروق تھا۔ اسے دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔
”ارے اجمل تم!“ اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
”السلام علیکم۔“
”وعلیکم السلام کہو خیریت تو ہے؟“
”خیریت نہیں ہے۔ ہم…. ہمیں …. انسپکٹر صاحب سے ملنا ہے….۱ ابھی اسی وقت۔“
”آپ اندر آجائیں۔“
”بہت بہت شکریہ۔“
اجمل اندر داخل ہوا۔ ادھر محمود نے اسے دیکھا، تو اس کے منہ سے بھی نکلا۔”ارے اجمل تم!!“
”ہاں محمود …. میں۔“ اجمل نے اٹک اٹک کر کہا۔
”خیر تو ہے اجمل…. بہت پریشان ہو۔“ محمود نے پوچھا۔
”جج…. جی ہاں۔“
”محمود تمہارے دوست ضرورت سے کچھ زیادہ پریشان ہیں۔ میرا خیال ہے مجھے بھی ٹھہرجانا چاہیے، کہیں انہیں میری ضرورت نہ ہو۔ آیئے تشریف رکھیے۔“ انسپکٹر جمشید نے اجمل کو بغور دیکھتے ہوئے کہا۔
”وہ…. آپ…. آپ بہت اچھے ہیں۔“
”شکریہ۔“ انسپکٹر جمشیدمسکرائے۔
”ڈرائنگ روم میں میرے والد صاحب موجود ہیں۔“ اجمل بولا۔
”پہلے آپ بات بتائیں پھر ان سے ملاقات کروں گا۔“ انسپکٹر جمشید نے کہا۔
”یہ آپ نے کس لیے کہا؟“ محمود کے لہجے میں حیرت در آئی۔
”بس یونہی…. آپ بات بتادیں۔“
اب اجمل نے پوری بات تفصیل سے بتادی۔ انسپکٹر جمشید چند لمحے تک سوچ میں غرق رہے پھر اس سے بولے:
”اچھی بات ہے آپ یہیں ٹھہریں۔ میں اکیلا ان سے بات کروں گا۔“
”جی اچھا۔“ اجمل نے قدرے پریشان ہوکر کہا۔
انسپکٹر جمشید ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے بولے:
”السلام علیکم حاجو خان صاحب۔“
”جج…. جی …. وعلیکم السلام۔“ وہ اٹھتے ہوئے بولا۔ چہرے پر گھبراہٹ ہی گھبراہٹ تھی۔
”بچے سے میں نے تفصیل سنی ہے۔ آپ محکمہ اطلاعات میں ہیں۔“
”جی ہاں۔“
”اس نامعلوم شخص سے تو ہم لوگ آپ کو بچانے کی کوشش کریں گے اور ان شاءاللہ آپ کو اس کی طرف سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، لیکن جو جرم آپ کرچکے ہیں، میں آپ کو اس کی معافی نہیں دلاسکوں گا۔ اب یہ عدالت کا معاملہ ہے کہ وہ آپ کو کیا سزا دے گی۔“
یہ بھی بہت ہے کہ آپ مجھے اس شخص سے بچانے کی کوشش کریں گے۔“ اس نے مریل آواز میں کہا۔
”خوب ! اب ذرا آپ شروع سے بتائیں۔ اس نے آپ سے کس طرح رابطہ کیا۔“
”جی میں عرض کرتا ہوں پہلی بار ا س نے مجھے ایک خط لکھا تھا۔ خط میں ایک چابی تھی۔ اس نے لکھا تھا، میں تمہارے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں۔ مالی مشکلات میں مبتلا ہو، کوئی مدد کرنے والا نہیں، لیکن میں تمہاری بہت اچھے طریقے سے مدد کرسکتا ہوں۔ پتا لکھ رہا ہوں، اس پتے پر آجاﺅ۔ چابی سے تالا کھول کر میرا نتظار کرنا، میں جلد ہی آجاﺅں گا۔“ یہ خط پڑھ کر اور چابی دیکھ کر میں بہت حیران ہوا اور پھر یہ الجھن مجھے وہاں لے گئی کہ آخر یہ شخص چاہتا کیا ہے۔ وہاں یہ شخص میرے سامنے نہیں آیا بلکہ میں نے اس کی آوا ز سنی۔ اس نے مجھ سے کہا:” ایک چھوٹا سا کام ہے۔ تم اپنے دفتر کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر فیاض حامد کا پین مجھے لاکر دے دو، میں تمہیں اتنے سے کام کے دس ہزار روپے دوں گا، کیوں کیا خیال ہے؟“ اب آپ خود سوچیں میں ٹھہرا محکمہ کے ڈائریکٹر نصیر الدین شاہ صاحب کا چپراسی۔ مجھے تو ہر کمرے میں جانا آنا پڑتا ہے اور اس قسم کی چیز اٹھا کر جیب میں رکھ لینا میرے لیے بھلا کیا مشکل کام ہوسکتا ہے۔ میں حیران تو بہت ہوا، لیکن دس ہزار کا لالچ میری حیرت پر چھا گیا اور میں نے یہ کام کرنے کی حامی بھرلی۔ میرا جواب سن کر اس نے کہا۔”بس تو پھر تم وہ قلم کل لے کر یہیں آجانا۔ تمہیں دس ہزار روپے مل جائیں گے۔ سو میں وہاں قلم لے گیا۔ اس کی آواز سنائی دی کہ میز کی دراز کھول کر قلم اس میں رکھ دو اور اس میں سے دس ہزار روپے لے لو۔ بس میں نے ایسا ہی کیا۔ دو ماہ بعد اس کا خط پھر مجھے ملا۔ اس میں پھر چابی تھی۔ میں حیران ہوا، اس بار اس نے ہیڈ کلرک سلیم راشد صاحب کا لائٹر منگوایا تھا۔ میں نے ان کا لائٹر بھی وہاں پہنچادیا۔ اس طرح مجھے دس ہزار اور مل گئے۔ پھر ڈیڑھ ماہ بعد اس کا خط ملا۔ اس بار اس نے نصیرالدین شاہ صاحب کی ردی کی ٹوکری کے کاغذات منگوائے تھے۔ میں نے وہ بھی وہاں پہنچادیے۔ اب یہ چوتھا موقع تھا۔ اس بار اس نے کہا تھا کہ اپنے آفیسر کی گھڑی چرا کر وہاں پہنچادوں۔ اس پر میں نے کہا کہ ان کی گھڑی تو بہت مہنگی ہے۔ دفتر میں شور مچ جائے گا۔ پھر پولیس آئے گی اور وہ اگلوالے گی۔ اس طرح میں پھنس جاﺅں گا۔ تب اس نے کہا کہ میز کی دراز میں سے ایک گھڑی اٹھالو۔ یہ اس کی جگہ رکھ دینا کیونکہ یہ بالکل ویسی ہے۔ یہ اور زیادہ الجھن میں مبتلا کردینے والی بات تھی۔ مجھے اور تو کچھ نہ سوجھا۔ میں نے صاحب کی گھڑی تو چرائی نہ اور اسی کی گھڑی دراز میں رکھ دی اور پیسے اٹھا کر لے آیا۔ دوسرے دن وہ مکان دھماکے سے اڑ گیا۔ تب میرے ہوش جاتے رہے۔ یہ گویا نصیر الدین شاہ صاحب کو اڑانے کا پروگرام تھا۔ ادھر ساتھ ہی اس کا فون ملا۔ اس نے مجھے جان سے مار ڈالنے کی دھمکی دی۔ مجھے پریشان دیکھ کر میرا بیٹے مجھے یہاں لے آیا۔ اب میں حاضر ہوں جو جرم مجھ سے سرزد ہوا ہے، میں نے بیان کردیا ہے اور میں اللہ کا شکر ادا کررہا ہوں کہ میں نے وہ گھڑی شاہ صاحب کی میز پر نہیں رکھ دی۔ ورنہ شاید اس وقت….“ یہ کہتے ہوئے وہ کانپ گیا۔
اس کے خاموش ہونے پر انسپکٹر جمشید چند سیکنڈ تک سوچ میں گم رہے۔ پھر انہوں نے کہا۔
”آپ کی حفاظت کی جائے گی۔ آپ پر مقدمہ اس پراسرار شخص کی گرفتاری کے بعد قائم کیا جائے گا۔ فی الحال آپ کو حوالات نہیں بھیجا جاسکتا کیوں کہ ہوسکتا ہے، وہ شخص آپ کو حوالات میں ختم کرانے کی کوشش کرے، لہٰذا میں آپ کو خفیہ جگہ رکھوں گا۔ آپ کے بچے اور گھر والے بھی آپ کے ساتھ رہیں گے۔ آپ مجھے یہ بتائیں کیا آپ کو ہر مرتبہ اسی مکان میں بلایا جاتا تھا یا وہ مکان ہر بار بدل دیتا تھا؟“
”جی نہیں میں ہر بار وہیں جاتا رہا ہوں۔“
”ہوں! اس مکان کا پتا مجھے لکھوادیں۔ ویسے تو وہاں بہت لوگ جمع ہوں گے۔ دور سے ہی پتا چل جائے گا کہ وہ مکان ہے۔“
”جی ہاں! وہ مکان رام گلی نمبر 19میں ہے۔“ اس نے کہا۔
انہوں نے پتا نوٹ کرلیا۔پھر اکرام کے نمبر ملائے۔ وہ آیا تو حاجو خان کو اس کے حوالے کردیاگیا اور ہدایات بھی دیں۔ اکرام اسے لے کر اسی وقت چلا گیا۔ اجمل کو وہیں روک لیا گیا تھا۔ پھر اکرام اس کے والد کو خفیہ ٹھکانہ نمبر ایک میں لے گیا۔ جلد ہی ا س کی واپسی ہوئی۔ اب اس نے اجمل کو ساتھ لیا اور اس کے گھر پہنچا۔ گھر کے افراد کو ساتھ لیا اور خفیہ ٹھکانے پر پہنچ گیا۔ جیپ میں لگے آلات نے اسے اس قابل بنادیا تھا کہ کوئی جیپ کا تعاقب نہیں کرسکتا تھا اور اگر کرتا تو پتا چل جاتا۔
ان کی طرف سے اطمینان ہوجانے کے بعد انسپکٹر جمشید ان سے بولے۔
”میں ذرا اس تباہ شدہ مکان کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ محمود، فاروق کیا تم میرے ساتھ چل رہے ہو؟“
”جی ہاں! کیوں نہیں۔“
وہ اسی وقت گھر سے روانہ ہوئے اور مکان کے سامنے پہنچ گئے۔ پولیس نے اس کے گرد گھیرا ڈالا ہوا تھا۔ مکان اس بری طرح تباہ ہوا تھا کہ بس اب صرف ملبے کا ڈھیر نظر آرہا تھا۔ انہوں نے وہاں موجود ایک حوالدار کی طرف قدم اٹھادیے۔ وہ معمول کے مطابق سادہ لباس میں تھے اور آئے بھی تھے اپنی ذاتی کار میں۔ اس لیے حوالدار نے ان کی طرف لپکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
”کیا معلوم ہوا؟“
”کس بارے میں۔“ اس کا لہجہ کافی اکھڑا تھا۔
”اس دھماکے کے بارے میں۔“ وہ مسکرائے۔
”صا ف ظاہر ہے کسی دہشت گرد کی کارروائی ہے۔“
”مکان تھا کس کا؟“
”آپ ہیں کون؟ سوالات تو ایسے کررہے ہیں جیسے مجھ پر افسر لگے ہوئے ہیں۔“
”نہیں ! میں آپ پر افسرنہیں ہوں۔ ویسے میرا نام انسپکٹر جمشید ہے۔“
”جی!!!“اس کا رنگ اڑ گیا۔
”مکان کے مالک کے بارے میں معلوم ہوا؟“
”جی ہاں! مکان کا مالک اسی محلے میں رہتا ہے۔“
”میں اس سے ملنا چاہتا ہوں۔“
”ابھی یہیں کھڑا حسرت بھری نظروں سے ملبے کے ڈھیر کو دیکھ رہا تھا۔ پھر چلا گیا، اس نے یہ مکان کرائے پر دیا ہوا تھا۔ خوش قسمتی سے کرائے دار اس وقت گھر میں نہیں تھا۔“
”ہوں! مجھے اس کے گھر تک لے چلیں۔“
”آیئے۔“ اس نے کہا اور چل پڑا۔
جلد ہی وہ ایک شان دار مکان کے سامنے پہنچے۔ حوالدار نے گھنٹی کا بٹن دبایا تو فوراً ایک شخص باہر نکل آیا۔
”یہ ہمارے آفیسر ہیں۔ آپ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں۔“
مالک مکان نے جونہی ان کی طرف دیکھا اس کے چہرے پر زلزلے کے آثار طاری ہوگئے۔ ادھر انسپکٹر جمشید کے منہ سے نکلا۔
”باقر شاہ…. تم؟“
دوسرے ہی لمحے انسپکٹر جمشید کے ہاتھ میں پستول نظر آیا۔ وہ سرد آوا ز میں بولے۔
”خبردار! ہاتھ اوپر اٹھا دو۔“
”لیکن کیوں؟ مدت ہوئی میں جرائم کی زندگی چھوڑ چکا ہوں۔ جرائم سے اب میرا دور کا بھی واسطہ نہیں۔“
”میںنے کہا ہے ہاتھ اوپر اٹھاﺅ۔“
اس نے بھنائے ہوئے انداز میں دونوں ہاتھ بلند کرلیے۔
”اب ساکت کھڑے رہنا۔ محمود! اس کی تلاشی لو۔“
”جی اچھا۔“ ا س نے کہا اور جلدی جلدی تلاشی لینے لگا، لیکن اس کے پاس سے کوئی ایسی ویسی چیز برآمد نہ ہوئی۔
”کچھ نہیں ہے ابا جان۔“ محمود بولا۔
”ٹھیک ہے۔ ہاتھ نیچے کرلو اور یہ بتاﺅ تم یہ حرکتیں کیوں کررہے ہو؟“
”جی…. کون سی حرکتیں؟“
”بھئی یہ حاجو خان والی۔“
”میں کسی حاجو خان کو نہیں جانتا۔“
”یہ مکان جو تباہ ہوا…. کیا تمہارا نہیں ہے۔“
”جی بالکل میرا ہے۔ کچھ مدت پہلے میں نے خریدا تھا۔“
”اور یہ مکان جس میں تم رہ رہے ہو۔“ انہوں نے پوچھا۔
”یہ بھی میرا ہے۔ اس میں، میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتا ہوں۔ وہ میں نے اس لیے خریدا تھا کہ کرائے پر چڑھایا کروں گا۔ اس طرح روزی کی ایک صورت بنی رہے گی۔“
”خوب خوب! آج کل کس نے کرائے پر لے رکھا تھا۔“
”ایک صاحب ہیں۔ نصیر جان کچھ ہی دن پہلے انہو ں نے کرائے پر لیا تھا۔ چھے ماہ کا پیشگی کرایہ دیا تھا انہوں نے۔“
”کیا وہ یہاں رہتے بھی رہے ہیں۔“
”وہ تمام دن باہر رہتے ہیں۔ اپنے کام کا ج کے سلسلے میں۔ رات گئے آتے ہیں۔ یہ بات انہوں نے مجھے پہلے ہی بتادی تھی۔ اس لیے ظاہر ہے انہیں کم ہی لوگوں نے دیکھا ہوگا۔“
”ہوں! ان کا حلیہ تو آپ بتا ہی سکتے ہیں۔“انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”جی ہاں! کیوں نہیں۔ وہ لمبے قد کے، دبلے پتلے سے آدمی ہیں۔ رنگ سرخ اور سفید ہے۔ آنکھیں نیلے رنگ کی، ناک بہت باریک سی اور سر کے بال سرخی مائل اور ہونٹ بھی بہت پتلے پتلے سے۔ بس یوں لگتا ہے جیسے دو لکیریں سی ہوں۔“
”کیا؟“ انسپکٹر جمشید مارے خوف کے چلائے۔
انہیں اس حد تک خوف زدہ دیکھ کر محمود، فاروق، خان عبدالرحمن اور پروفیسر داﺅد بھی ساکت رہ گئے۔
”کیا تم نے بالکل درست حلیہ بتایا ہے۔“
”جج…. جی ہاں…. لیکن بات کیا ہے؟ آپ جیسا شخص اور خوف زدہ۔“
”باقر شاہ! تم نے حلیہ اگر درست بتایا ہے اور میرا خیال ہے کہ درست ہی بتایا ہے فرضی نہیں بتایا۔ تب وہ آدمی دنیا کے خطرناک ترین چند لوگوں میں سے ایک ہے اور اس کا ہمارے ملک میں ہونا خطرے کی گھنٹی ہے۔ ظاہر ہے، وہ کسی نیک ارادے سے نہیں آیا۔ اس کا پہلا نشانہ نصیر الدین شاہ تھے، لیکن حاجو خان کی عقل مندی سے وہ بال بال بچ گئے۔ ورنہ اس وقت ہم ان کی لاش کے گرد جمع ہوتے۔ اب جناب باقر شاہ آپ کو ہمارے ساتھ دفتر چلنا ہوگا۔“
”لیکن کیوں؟ میرا اس معاملے سے کیا تعلقہے۔ میں تو بس ایک مالک مکان ہوں اور اس نے مجھ سے میرا مکان کرائے پر لیا تھا۔“
”ہاں! میں مانتا ہوں، لیکن اگر آپ کوئی عام آدمی ہوتے تو یہ بات کہی جاسکتی تھی اور کوئی شک کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی،مگر چونکہ آپ جرائم پیشہ رہے ہیں اس لیے گمان گزرتا ہے کہ اس نے آپ سے باقاعدہ رابطہ کیا ہوگا اور تعاون کرنے کے سلسلے میں کوئی رقم پیش کی ہوگی۔ اب اگر آپ نے اس سے کوئی رقم کرائے کے علاوہ وصول کی ہے….تب تو آپ پھنس گئے ہیں۔ ورنہ ہم آپ کو کچھ نہیں کہیں گے۔ کیا خیال ہے؟“ یہاں تک کہہ کر انسپکٹر جمشید خاموش ہوگئے۔
”ٹھیک ہے میں آپ کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہوں۔ آپ میرے بارے میں اپنا اطمینان کرلیں۔“
وہ اسے دفتر لے آئے۔ انہوں نے اس کے بارے میں جہاں سے بھی ہوسکا، معلومات حاصل کیں، لیکن اس کی کسی مجرمانہ سرگرمی کاپتا نہ چل سکا۔ آخر انہوں نے اسے جانے کی اجازت دے دی۔ تاہم انہوں نے اکرام کو ہدایات دیں کہ ایک آدمی اس کی نگرانی پر مقرر کردیا جائے۔ ابھی انہوں نے اسے رخصت کیا ہی تھا کہ ایک خفیہ کارکن کا فون موصول ہوا۔ وہ خوف زدہ انداز میں کہہ رہا تھا:
”سر! عمارت نمبر 1کے آس پاس کچھ پراسرار لوگ نظر آرہے ہیں۔
”کیا…. نہیں۔“
”یس سر! حاجو خان اور اس کے بیوی بچوں کو اسی عمارت میں رکھا گیا ہے۔“
”نن نہیں…. میں آرہا ہوں۔ سب لوگ ہوشیار ہوجائیں حاجو خان اور اس کے بیوی بچوں کو کچھ ہوا تو مجھے بہت افسوس ہوگا۔ میں نے اس سے کہا تھا تمہاری حفاظت کی جائے گی۔“
”ہم پوری طرح ہوشیار ہیں جناب!“
”ٹھیک ہے ہم پہنچ رہے ہیں۔“
وہ اسی وقت روانہ ہوگئے۔
”لگتا ہے یہ شخص ہمیں سکون کا سانس نہیں لینے دے گا۔ باریک ہونٹوں والے کا نام کیا ہے جمشید…. تم نے اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔“ خان عبدالرحمن بولے۔
”اس کا نام بلتان ہے۔ وہ ایک بین الاقوامی مجرم ہے۔ اس کا ہمارے ملک میں ہونا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ باقر شاہ نے جو حلیہ بتایا ہے وہ اس پر بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔ پھر بھی میری دعا ہے کہ وہ ہمارے ملک میں نہ ہو۔“
”گویا آپ بھی اس سے خوف محسوس کررہے ہیں۔“
”اس سے تو بڑی بڑی حکومتیں خوف کھاتی ہیں۔“
”لیکن وہ خود کس ملک کے لیے کام کرتا ہے؟“
”کسی ملک کے لیے نہیں جو ملک اس سے معاملہ طے کرتا ہے، اس کا منہ مانگا معاوضہ ادا کرتا ہے۔ اسی کے واسطے کام کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے، البتہ….“ یہاں تک کہہ کر وہ رک گئے۔
”البتہ کیا؟“
”البتہ! اس نے آج تک کسی اسلامی ملک کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ جب بھی کیا اسلام دشمن ملکوں کے لیے کیا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام غیر اسلامی ممالک میں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ا س کی بہت عزت کی جاتی ہے۔ ان حکومتوں کے سربراہ اس بات کو مانتے ہیں۔ ایک طرح سے اس کی حالت یہ ہے کہ وہ کسی بھی ملک کے کسی بھی محکمے میں دخل اندازی کرڈالتا ہے اور کوئی اس سے جواب طلب نہیں کرتا۔“
”اس کامطلب ہے وہ خالص اسلام دشمن ہے۔“محمود نے پریشانی کے عالم میں کہا۔
”بالکل…. اس میں کوئی شک نہیں۔“
اسی وقت وہ خفیہ عمارت نمبر 1کے سامنے پہنچ گئے۔ انہوں نے گاڑی سے اتر کر چاروں طرف کا جائزہ لیا اور پھر ان کا رنگ اڑ گیا۔ ان کے منہ سے نکلا:
”حیرت ہے…. کمال ہے۔“
”کک…. کیا مطلب؟ جمشید کیا ہوا۔“پروفیسر داﺅدفوراً بولے۔
”عمارت چاروں طرف سے گھیرے میں ہے۔ پہلی حیرت یہ کہ انہوں نے اس کا سراغ کس طرح لگا لیا،دوسری حیرت یہ کہ ان لوگوں نے عمارت کو اس طرح گھیرے میں لیا ہے کہ وہ تو عمارت پر ہر طرف سے حملہ کرسکتے ہیں اور ہم ان پر وار نہیں کرسکتے۔“
”اوہ…. اوہ….“ ان کے منہ سے مارے خوف کے نکلا۔
”اور ایک تیسری بات۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”اور وہ کیا؟“
”عمارت کے پاس آتے ہی اب ہم بھی پوری طرح ان کی زد میں ہیں۔“
”اوہ۔“ وہ بولے۔
”بالکل ٹھیک کہا انسپکٹر جمشید نے تم بہت ذہین ہو۔ تم سے پہلی ملاقات پر خوشی ہوئی۔“
عمارت کے پاس آواز گونجی۔ انہوں نے ایک بار پھر چاروں طرف کا جائزہ لیا۔
”کیا چاہتے ہو دوست۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”صرف اور صرف ایک ہی مطالبہ ہے میرا تو حاجو خان کو میرے حوالے کردےں اور بس۔“
”پہلے ہم عمارت کے اندر جائیں گے۔ پھر آپ سے بات کریں گے۔“
”ضرور…. ضرور کوئی اعتراض نہیں۔“ ہنس کر کہا گیا۔ اس کی آواز بھی بہت باریک تھی۔
اور پھر وہ عمارت میں داخل ہوگئے۔ اندر خفیہ کارکنوں کے رنگ اڑے ہوئے تھے۔
”حاجو خان اور اس کے بیوی بچے کہاں ہیں؟“
”جی …. آخری کمرے میں۔“
”اوکے…. پروفیسر صاحب آپ کیا چاہتے ہیں؟“
”میں چھت پر جارہا ہوں جمشید تم تیاری مکمل کرلو۔ جونہی تم اشارہ دوگے۔ میں حرکت میں آجاﺅں گا۔“
”بہت خوب! بس ہم چند منٹ لگائیں گے۔“
”اوکے۔“ پروفیسر صاحب نے کہا اور فوراً اوپر کی طرف دوڑے۔
ایسے میں باہر سے آواز آئی۔
”ہاں تو انسپکٹر جمشیدکیا پروگرام ہے؟“
”دو منٹ ٹھہریں۔“
”ٹھہرنے کو تو میں تین منٹ ٹھہر جاﺅں۔“ باہر سے ہنس کر کہا گیا۔
پھر دو منٹ بعد انسپکٹر جمشید نے پروفیسر داﺅد کو اشارہ کیا۔
پروفیسر داﺅد نے پہلے سامنے کی طرف پھر دائیں، پھر بائیں اور آخر میں پچھلی طرف چار ننھی منی سی گیندیں اچھال دیں۔ فوراً ہی چار دھماکے ہوئے اور ہر طرف دھواں پھیل گیا۔ گیندیں پھینکنے کے فوراً بعد وہ نیچے اتر آئے اور وہاں پہنچ گئے جہاں باقی لو گ موجود تھے۔
خفیہ عمارت کے نیچے ایک تہ خانہ تھا۔ اس تہ خانے سے ایک راستہ نکلتا تھا۔ وہ عمارت سے کافی دور تھا۔ اس راستے سے ہوتے ہوئے وہ جنگل میں نکل گئے اور درختوں کی اوٹ لے کر اب وہ بلتان کے آدمیوں کے گھیرے سے باہر آچکے تھے۔ ادھر خفیہ ٹھکانہ ابھی تک دھوئیں میں ڈوبا ہوا تھا۔ انہوں نے سنا کوئی کہہ رہا تھا:
”خبردار ! دائرہ بڑا کرلو۔ اس دھوئیں کا سہارا لے کر وہ باہر نکلنے کی کوشش کریں گے۔ ان میں سے ایک بھی بچ کر نہ جائے۔“
یہ الفاظ سن کر وہ مسکرا دیے۔ انسپکٹر جمشید نے اپنے ساتھی کو اشارہ کیا کہ کچھ اور پیچھے ہٹ کے درختوں کی اوٹ میں پوزیشن لے لیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر جونہی دشمن پیچھے ہٹنے کے چکر میں ان کی نظروں میں آیا۔ انہوں نے تاک تاک کر گولیاں برسادیں۔ وہ اچھلا چھل کر گرے۔ ان میں سے کوئی بھی بچ کرنہ نکل سکا۔ اس کے باوجود وہ احتیاطاً کافی دیر تک اپنی جگہوں پر کھڑے رہے۔ جب پوری طرح اطمینان ہوگیا، تب وہاں سے آگے بڑھے۔ انہوں نے گرنے والوں کا جائزہ لیا۔ وہ سب کے سب بری طرح زخمی تھے، گولیاں ان کی ٹانگوں پر ماری گئی تھیں۔ پھر اکرام کو فون کیا گیا۔ وہ بڑی گاڑی کے ساتھ وہاں پہنچ گیا۔ زخمی بارہ عددتھے۔ انہیں ہسپتال بھیجنے اور اکرام کو ان کے بارے میں ہدایات دینے کے بعد انہوںنے اطمینان کا سانس لیا۔
”اب رہ گئے حاجو خان اور ان کے گھر والے ان کا کیا کریں؟“
”شاید ہمارا کوئی خفیہ ٹھکانہ بلتان کی نظروں سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ اس لیے اب ہم انہیں اپنے گھر میں رکھیں گے۔ اب جو ہوگا وہاں ہوگا۔“
”اس کامطلب ہے آپ بلتان کو اپنے گھر پر حملے کی دعوت دے رہے ہیں؟“
”کیا کیا جائے مجبوری ہے۔“ وہ مسکرائے۔
”لیکن بلتان خود کہاں ہے؟ ہم نے جس کی آواز سنی تھی۔ کیا وہ بلتان تھا۔“ خان عبدالرحمن بولے۔
”ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا، لیکن ہم یہ بات معلوم کرسکتے ہیں۔“
”وہ کیسے جمشید؟“
”زخمیوں کے ہوش میں آنے پر آخر ان سے بات چیت کی جائے گی۔ ان کی آوازیں سنی جائیں گی۔ اس سے معلوم ہوجائے گا۔ ا س کے علاوہ ان سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس کے لیے کام کررہے ہیں…. وغیرہ۔“ انہوں نے جواب دیا۔
”لیکن سب سے پہلے حاجو خان کی حفاظت کا مسئلہ ہے۔“
”آپ…. آپ میرے لیے کس قدر کوشش کررہے ہیں اور ایک میں ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے حاجو خان رو پڑا۔
”فکر نہ کرو غلطی انسان سے ہوتی ہے، لیکن تم نے دھماکے والی گھڑی خود اس کی جگہ پر رکھ کر بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس بنیا د پر صرف میں ہی نہیں، نصیر الدین صاحب بھی تمہاری سفار ش کریں گے۔ امید ہے عدالت بھی تمہیں رہا کردے گی۔“
”اللہ آپ کا بھلا کرے۔“
پھر وہ وہاں سے گھر پہنچ گئے۔ حاجو خان اور اس کے بیوی بچوں کو بیگم جمشید کے حوالے کردیا گیا۔ صورت حال سمجھا دی گئی۔ ہسپتال فون کیا گیا تو اکرام نے بتایا۔ وہ سب ہوش میں آچکے ہیں۔ وہ اسی وقت روانہ ہوگئے۔
انہیں جس ہال میں رکھا گیا تھا۔ اس کے گرد پولیس کا پہرہ تھا۔ وہ اس ہال میں داخل ہوئے۔ اندر اکرام موجود تھا۔
”کچھ بتایا انہوں نے۔“
”جی ابھی نہیں۔“
وہ آگے بڑھے۔ انہوں نے باری باری سب سے بات کی، لیکن ان میں وہ آواز سنائی نہ دی جو وہ خفیہ عمارت کے باہر سن چکے تھے۔
”اس کا مطلب ہے تمہارا باس وہاں تھا ضرور، لیکن کسی الگ جگہ پر تھا۔“
”جی…. جی ہاں وہ ایک درخت پر تھا۔“
”اوہ!“وہ حیرت زدہ رہ گئے۔
”جب تم لوگ پیچھے ہٹے تھے۔ کیاوہ اس وقت درخت پر ہی تھا۔“
”جی ہاں بالکل۔“
”اس کا نام اور حلیہ….“
”ہم اس کا نام نہیں جانتے۔ نہ حلیہ بیان کرسکتے ہیں کیونکہ وہ نقاب میں تھا۔“
”تم اس کے لیے کب سے کام کررہے ہو؟ وہ تمہارا نیا نیا باس ہے یا کوئی پرانا آدمی ہے۔
”بہت پرانا، اس کا ہمارا ساتھ تو برسوں پرانا ہے۔“
”حیرت ہے۔ پھر بھی تم اس کا نام نہیں جانتے۔“
”بس…. ہم اسے باس کہتے ہیں۔“
”وہ تمہیں احکامات کس طرح دیتا ہے اور کہاں بلاتا ہے؟ کچھ تو بتاﺅ۔“
”ہمارا گرو ہ بہت پرانا ہے۔ وہ ہر ماہ ہمیں ہار ڈی بلڈنگ کے سامنے بلاتا ہے۔ وہیں ہمیں تنخواہ دیتا ہے۔ نئے احکامات دیتا ہے یا پھر فون پر رابطہ کرتا ہے۔“
”اس کا فون نمبر؟“
”فون اسی بلڈنگ کا ہے۔ ایکس ٹینشن نمبر دباناپڑتا ہے 8نمبرہے۔“
”فون نمبر بتاﺅ۔“
انہوں نے نمبر بتادیا۔ نمبر ڈائل کیا گیا، لیکن 8نمبر سے کسی نے فون نہ اٹھایا۔ اب وہ سمجھ گئے کہ ان لوگوں کا باس کوئی مقامی آدمی ہے۔ اس مقامی آدمی سے بلتان کام لے رہا ہے۔ وہ خود سامنے نہیں آیا گویا بلتان تک پہنچنا اتنا آسان کام نہیں تھا۔ آخر وہ ہارڈی بلڈنگ پہنچے۔ اس بلڈنگ میں بے شمار کمرے تھے۔ کمرے کرائے پر دیے جاتے تھے۔ عمارت کے مالک کا نام بھی ہارڈی تھا۔ انہوں نے اس سے ملاقات کی۔ وہ پریشان ہوگیا اور گھبرا سا گیا۔
”میں کیا خدمت کرسکتا ہوں؟“
”کمرا نمبر 302میں کون رہتا ہے۔“
”جج…. جی…. کمرا نمبر 302میں۔“ وہ بری طرح ہکلانے لگا۔
”ہاں۔“ انسپکٹر جمشید نے اسے گھورا۔
”وہ ایک پراسرار آدمی ہے۔ شاید اپنا حلیہ تبدیل کیے رہتا ہے اور جناب! ہمارا کام تو عمارت کے کمرے کرائے پر دینا ہے…. میں نے یہ عمارت اسی لیے بنوائی ہے۔“ اس نے جلدی جلدی کہا۔
”ہوں! ٹھیک ہے۔ کیا وہ اس کمرے میں آتا جاتا ہے؟“
”ہاں جی! بالکل آتا جاتا ہے۔“
”ہم اس کمر ے کو دیکھنا چاہتے ہیں۔“
”میرے پاس ہر کمرے کی چابی ہوتی ہے۔ کمرا کھول کر دکھا سکتا ہوں۔“
”چلیے پھر۔“
وہ اس کے ساتھ کمرے میں آئے۔ پھر انہوں نے اکرام کے ذریعے کمرے سے انگلیوں کے نشانات اٹھوائے۔
”اکرام اب تم ان نشانات کو چیک کرلو۔ شاید ہمارے ریکارڈ میں یہ نشانات مل جائیں۔“ انسپکٹر جمشید نے کہا۔
”جی اچھا۔“
”اور ہاں !مسٹر ہارڈی کی انگلیوں کے نشانات بھی لے لو۔“
”جی….کیا مطلب؟ یہ ….یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ میرا بھلا کسی معاملے سے کیوں تعلق ہونے لگا۔ میں تو ایک سیدھا سادہ عام سا آدمی ہوں۔“
”تب پھر انگلیوں کے نشانات دینے میں کیا ڈر؟“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”اوہ ہاں…. واقعی یہ بھی ٹھیک ہے۔“
پھر اس نے نشانات دے دیے۔ ان پر ایک نظر ڈالتے ہی اکرام کے چہرے پر حیرت کے آثار ابھر آئے۔ اس نے جلدی سے کمرے میں پائے جانے والے نشانات کو ان نشانات سے ملایا تو اچھل پڑا۔
”یہ ا س کمرے میں پائے جانے والے نشانات مسٹر ہارڈی کے ہیں۔“
”اس …. اس سے کیا ہوتا ہے؟ مجھے تو آخر ہر کمرے میں جانا آنا پڑتا ہے۔ صفائی کرانا پڑتی ہے اور کرائے داروں کے آرام کا خیال کرنا پڑتا ہے۔“
”اکرام! چند اور کمروں سے انگلیوں کے نشانات اٹھواﺅ۔“
”جی …. کیا مطلب؟ اکرام اور ہارڈی نے ایک ساتھ کہا۔
”مطلب یہ کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں دوسرے کمروں میں بھی اسی طرح آپ کی انگلیوں کے نشانات ملتے ہیں یا نہیں۔“
”اوہ….اوہ۔“ ا س کے منہ سے نکلا۔
اکرام نے جلد ہی اپنا یہ کام بھی مکمل کر لیا۔ پھر وہ ان کی طرف آیا۔
”نہیں سر! کسی کمرے سے مسٹر ہارڈ ی کی انگلیوں کے نشانات نہیں ملے…. دوسرے ملازموں کے ضرور ملے ہیں جو صفائی کرتے ہیں۔“
ہارڈی کا چہرہ زرد پڑگیا۔ عین اس لمحے انسپکٹر جمشید کے موبائل کی گھنٹی بجی۔
جونہی انہوں نے فون آن کیا۔ دوسری طرف سے بیگم جمشید کی خوف زدہ آواز ابھری:
”میں خطرہ محسوس کررہی ہوں۔“
فون سنتے ہی انسپکٹر جمشید پریشان ہوگئے۔ انہوں نے فوراً اکرام کی طر ف رخ کیا۔
”اسے لے جاکر حوالات میں بند کردو۔ اس سے بلتان کے بارے میں ضرور کچھ معلوم ہوسکتا ہے۔ ادھر گھر میں کسی گڑبڑ کا امکان ہے۔ غالباً بلتان حاجو کو سزا دینے کے لیے بری طرح بے چین ہے اور جلد از جلد اس کام سے فارغ ہوجانا چاہتا ہے۔“
وہ اندھا دھند انداز میں گاڑی چلاتے گھر پہنچے۔ گھر کا دروازہ بند تھا۔ محمود نے دوڑ کی گھنٹی کا بٹن دبادیا۔ دس پندرہ سیکنڈ گزرنے پر اس نے پھر بٹن دبادیا۔ اندر گھنٹی بجنے کی آواز سنائی دی، لیکن بیگم جمشید نے پھر بھی دروازہ نہ کھولا۔ اب تو ان کی پریشانی بڑھ گئی کہ دروازہ اندر سے بند تھا۔
”محمود دوڑ کر جاﺅ بیگم شیرازی کی چھت سے اپنی چھت پر آجاﺅ۔ دیکھو زینہ کھلا ہے یا نہیں۔“
”جی اچھا۔“ یہ کہتے ہی اس نے دوڑ لگادی۔ پھر بیگم شیرازی کے دروازے سے اس کی خوف زدہ آواز آئی:
”ابا جان ! دروازہ اندر سے بند نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے گڑبڑ دونوں گھروں میں پھیلی ہوئی ہے۔“
وہ دوڑ پڑے۔ بیگم شیرازی کے گھر میں داخل ہوئے۔ پورا گھر سنسان پڑا تھا۔ اب وہ چھت پر آئے وہاں سے اپنی چھت پر اترے۔ زینہ کھلا تھا بے تحاشا انداز میں سیڑھیاں اترتے نیچے پہنچے۔ بیگم جمشید غائب تھیں۔ صحن کی میز پر ایک کاغذ موجود تھا۔ کاغذ میں ایک خنجر گڑا تھا اور خنجر کی نوک خون آلود تھی۔ انہوں نے جھک کر کاغذ پر لکھے الفاظ پڑھے۔
”میں حاجو خان ، اس کے بیوی بچوں ، بیگم جمشید اور بیگم شیرازی کو لے جارہا ہوں…. انہیں چھڑانے کا شوق ہو تو جزیرہ نانگا پر آجانا…. ملاقات ہوجائے گی۔“
الفاظ پڑھ کر انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
”ہم سے غلطی ہوئی حاجو خان اور اس کے بیوی بچوں کو صرف بیگم کی حفاظت میں دینا کافی نہیں تھا جب کہ مقابلہ بلتان سے ہے، لیکن اب تو غلطی ہوچکی تھی۔“
”اور یہ جزیرہ نانگا کہاں ہے؟“ پروفیسر داﺅد ہکلائے۔
”میںنے بھی اس جزیرے کا نام پہلی بار سنا ہے۔ دنیا کے نقشے میں دیکھنا ہوگا یا پھر جغرافیے کے کسی ماہر سے پوچھ لیتے ہیں۔ ہاں یاد آیا ہمارے شہر میں ایک غیر ملکی جغرافیہ دان ہے تو سہی ایک بار کسی سلسلے میں اخبار میں اس کا ذکر آیا تھا۔ اب یاد کرنا ہوگا کہ وہ کون سا اخبار تھا، لیکن…. نہیں اخبارات کے مدیروں کو فون کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔“
اب انہوں نے ایک اخبار کے مدیر کو فون کیا۔ اپنا تعارف کرانے کے بعد وہ بولے:
”ہمارے شہر میں ایک غیر ملکی جغرافیہ دان رہتے ہیں۔ ہمیں ان سے کچھ کام ہے۔ کیا آپ کو ان کے بارے میں کچھ معلوم ہے؟“
”جی ہاں! کیوں نہیں ان کانام پروفیسر جیفر سام ہے اور وہ نیومون ٹاﺅن میں رہتے ہیں۔ کوٹھی کا نمبر ہے G.108۔“
”بہت بہت شکریہ ! آپ نے تو ہمارا بہت سا وقت بچا دیا۔“
وہ فوراً پروفیسر سام کی طرف روانہ ہوگئے۔ ان کی کوٹھی تلاش کرنے میں انہیں کوئی دقت نہ ہوئی۔ وہ اس علاقے کے مشہور آدمی تھے۔ ان سے بے خوف ہوکر ملے۔
”ہم صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ جزیرہ نانگا کہاں ہے؟“
”اوہ نہیں۔“ پروفیسر سام نے خوف کے عالم میں کہا۔
”کیاہوا؟‘ پروفیسر داﺅد حیران ہوکر بولے۔
”آپ…. آپ لوگ اس جزیرے کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہیں؟“
”ہمیں وہاں جاناہے۔“
”میں اس کا مشورہ ہرگز نہیں دوں گا۔“ اس نے بوکھلائے ہوئے انداز میں کہا۔
”جی…. کیامطلب…. کیا ہے وہاں؟“
”سوائے موت کے اور کچھ نہیں۔ اس جزیرے پر جب بھی کوئی گیا، لوٹ کر نہیں آیا۔ کوئی اس جزیرے کی کہانی نہیں سنا سکا آج تک…. وہاں کیا ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔ پروفیسر نے جلدی جلدی کہا۔
”آپ نے ہمارا شوق اور بڑھادیا۔ بات یہ ہے پروفیسر صاحب کہ ایک بین الاقوامی شخص ہے۔ بلتان، کیا آپ نے اس کا نام سنا ہے؟“
”بالکل سنا ہے۔ بہت خطرناک آدمی ہے۔ حکومتیں اس سے ڈرتی ہےں۔“
”بالکل ٹھیک وہ شخص ہمارے ساتھیوں کو اغوا کرکے جزیرہ نانگا لے گیا ہے۔“
”ارے باپ رے۔“ پروفیسر سام بوکھلا اٹھے۔
”لہٰذا آپ ہمیں صرف یہ بتادیں کہ یہ جزیرہ کہاں ہے؟“
”مجھے افسوس ہے۔“ پروفیسر بولے۔
”آپ کو افسوس ہے، لیکن کس بات پر جلدی بتایئے تاکہ ہم بھی اس افسوس میں شریک ہوجائیں۔“
پروفیسر سام نے فاروق کو تیز نظروں سے دیکھا ، پھر بولے:
”یہ صاحب کچھ پاگل تونہیں ہیں۔“
”جی نہیں ان کی باتوں کا برا نہ مانیں اور مہربانی فرما کر ہمیں اس جزیرے کے بارے میں بتادیں۔“
”گویا آ پ رک نہیں سکتے۔“
”پروفیسر صاحب شاید آپ نے توجہ نہیں فرمائی۔ بلتان ہمارے ساتھیوں کو اٹھا لے گیا ہے اور ہم کیسے رک سکتے ہیں؟“
”آپ کی مرضی…. بلتان نے اگر آپ کو جزیرہ نانگا بلایا ہے تو اس نے وہاں آپ لوگوں کے خلاف جال بچھارکھا ہوگا۔ وہ ایسے ہی تو آپ کو چیلنج نہیں کرسکتا۔“
”یہ بات ہم سمجھتے ہیں، لیکن ہم مجبور ہیں۔ یہ تو ہمارے اپنے گھر کے دو افراد اور چند دوسرے افراد کی بات ہے۔ اگر وہ ہمارے گھر کے افراد کو نہ لے جاتا تو بھی ہم ضرور جاتے، لہٰذا آپ ہمیں روکنے کی بالکل کوشش نہ کریں۔“
”اچھی بات ہے۔ میں آپ لوگوں کو سمندر ی راستے کا نقشہ بنادیتا ہوں۔ اگر آپ نے اس نقشے کے مطابق سفر کیا تو سمندر میں بھٹکنے سے بچ جائیں گے یاپھر میں خود آپ لوگوں کے ساتھ چلوں اور جزیرے تک پہنچا کر لوٹ آﺅں کیا خیال ہے؟“
”یہ اور بھی اچھی بات ہوگی۔“ فاروق بول اٹھا۔
ایک بار پھر پروفیسر نے فاروق کو گھورا۔
”کیا آپ خاموش نہیں رہ سکتے۔“
”لیکن جناب! آپ کو میرے بولنے پر ہی کیوں اعتراض ہے۔“ فاروق کے لہجے میں حیرت تھی۔
”ہاں واقعی! یہ عجیب بات ہے۔“ پروفیسر بولے
”کیا فرمایا آپ نے۔“ محمود کو ان کی بات سن کر حیرت ہوئی۔
”ان صاحب کی آواز میرے کانوں میں تیر کی طرح لگتی ہے جب کہ باقی لوگوں کی آواز سن کر میں نے ایسی کوئی بات محسوس نہیں کی۔“
”اگر یہ بات ہے ، تو میں اب آپ سے کوئی بات نہیں کروں گا۔ آپ بے فکر رہیں۔“ فاروق نے برا سا منہ بنایا۔
”بہت بہت شکریہ! اس صورت میں میں آپ لوگوں کے ساتھ جاسکوں گا۔ لیکن آپ کو میرے وقت کی قیمت ادا کرنا ہوگی۔“
”اوہ ضرور ضرور…. کیوں نہیں۔“خان عبدالرحمن نے فوراً کہا۔
”چلیے ٹھیک ہے۔ پھر ہم کب چل رہے ہیں؟“
”آپ تیاری کرلیں اور ایک بڑی لانچ کا انتظام کرلیں۔ اس کو مشرقی ساحل پر بھجوادیں۔ آپ کل صبح ٹھیک آٹھ بجے یہاں آجائیں ، میں تیا رملوں گا۔“
”اور آپ کا معاوضہ کیا ہوگا“ انسپکٹر جمشید نے پوچھا۔
”اوہو جمشید ! اس کو رہنے دو جو یہ مانگیں گے دے دیں گے۔“ خان عبدالرحمن جلدی سے بولے۔
”نہیں بھئی پہلے طے کرنا اچھا ہوتا ہے۔“
”ٹھیک ہے میں دس ہزار روپے لوں گا۔ آپ لانچ کے ذریعے مجھے واپس بھجوائیں گے۔“
”لیکن اگر ہمیں وہاں دیر لگنے کا امکان نہ ہوا تو آپ ہمارے ساتھ بھی تو آسکتے ہیں۔“
”میں ذرا بزد ل سا آدمی واقع ہوا ہوں۔ لڑائی بھڑائی کا تجربہ نہیںہے۔ آپ کو تو وہاں جاکر کرنا ہوگی جنگ…. بلتان سے جنگ کرنا اتنا بھی آسان نہیں کہ میں وہاں رک کر آپ لوگوں کی فتح کا انتظار کروں گا۔ اس سے یہ بہتر ہوگا کہ جونہی آپ لوگ جزیرے پر پہنچیں پہلے آپ مجھے واپس بھجوادیں اور اپنے لیے لانچ واپس منگوالیں۔“
”اس کا مطلب ہے جزیرہ ساحل سے زیادہ دورنہیں ہے۔“
”ایک دن اور ایک رات کا فاصلہ ہے۔“ اس نے کہا۔
”خیر یونہی سہی…. پروگرام طے ہوگیا۔ ہم کل آٹھ بجے پہنچ جائیں گے۔“
”اور انکل۔“ فاروق نے کچھ کہنا چاہا، لیکن پھر یاد آنے پر اس نے فوراً اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا، سب لوگ مسکرادیے جب کہ پروفیسر سام کا چہرہ تن گیا تھا، لیکن جونہی فاروق کا …. چہرہ معمول پرآگیا۔
”شکریہ…. آپ نے جملہ درمیان میں روک دیا۔“
”کیا واقعی میری آواز آپ کے لیے اس حد تک تکلیف دہ ہے؟“
”ہاں ! مجھے اپنے کانوں کے پردے پھٹتے محسوس ہوتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میرے دماغ میں کوئی چیز ٹوٹ رہی ہے۔“
”کیا پہلے بھی کسی کی آواز سن کر آپ کو ایسا ہوا ہے؟“
”نہیں…. زندگی میں پہلی بار ایسا محسوس کررہا ہوں اور دعاکرتا ہوں کہ ان صاحب کی آواز مجھے پھر سنائی نہ دے۔“
”ہم کوشش کریں گے کہ فاروق کو آپ سے فاصلے پر رکھیں اور اس کی آواز آ پ کے کانوں تک نہ پہنچ سکے۔“
”میں ان کے سامنے سرگوشی کرتا رہوں گا۔“ فاروق بول پڑا۔
”اُف اُف۔“ پروفیسراچھل پڑا۔ اس کا رنگ زرد پڑگیا ۔ پھر اس نے کہا۔
”نہیں …. نہیں۔ میں آپ لوگوں کے ساتھ اس مہم پر نہیں جاﺅں گا۔“
”حد ہوگئی فاروق…. پروفیسر صاحب! آپ پریشان نہ ہوں۔ اس بات کی ذمے داری میں لیتا ہوں کہ اب آپ کو فاروق کی آواز سنائی نہیں دے گی۔“
”یہ …. یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔“ فاروق نے جلدی سے اشاروں میں کہا۔ اس بار اس کے صرف ہونٹ ہلے تھے۔ آواز سنائی نہیں دی تھی۔
”ہاں فاروق ! یہ ٹھیک رہے گا۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”کیاٹھیک رہے گا۔“پروفیسر سام جھلائے ہوئے اندا ز میں بولے۔
”اس بار فاروق نے اشاروں میں بات کی ہے اور ہم نے اس کی بات کو سمجھ لیا ہے۔“
”چلیے پھر یونہی سہی، لیکن آپ خیال رکھیے گا۔ اس وقت بھی میرے دماغ میں دھماکے ہورہے ہیں۔ پتا نہیں کتنی دیر تک جاری رہیں گے۔ کہیں یہ دس ہزار مجھے مہنگے نہ پڑیں۔“
”آپ فکر نہ کریں۔ ہم آپ کو 20ہزار ادا کریں گے۔“ خان عبدالرحمن جلدی سے بولے۔
انسپکٹر جمشید نے انہیں گھورا۔ پھر وہ اٹھ کر چلے آئے۔ دوسرے دن ٹھیک آٹھ بجے وہ پروفیسر سام کے دروازے کی گھنٹی بجا رہے تھے۔ وہ فوراً ہی باہر آگئے۔ اب خان عبدالرحمن کی بڑی گاڑی میں ساحل کی طرف اشاروں میں کہا:
”ابا جان! اس گاڑی میں کہیں نہ کہیں گڑ بڑ ہے۔ مہربانی فرما کر گاڑی کو چیک کرالیجیے۔“
انسپکٹر جمشید نے چونک کر فاروق کی طرف دیکھا۔
”کیا تم نے کوئی بات محسوس کی ہے؟“
”جی نہیں! بات تو کوئی محسوس نہیں کی، لیکن نہ جانے کیوں یہ خیال بار بار آرہا ہے کہ کہیں کوئی گڑ بڑ ہے۔“
”محمود ! تم کیا کہتے ہو؟“
”وہی جو فارو ق نے کہا ہے۔“ محمود نے بھی پریشانی کے عالم میں کہا۔
”خوب خوب …. خان عبدالرحمن …. تم؟“
”میں نے ایسی ویسی کوئی بات محسوس نہیں کی۔ “ انہوں نے منہ بنایا۔
”پروفیسر صاحب! آپ کیا کہتے ہیں۔“
”میں نے تو بالکل کوئی بات محسوس ہی نہیں کی۔“
”لیکن مشکل ایک اور ہے۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”اور وہ کیا جمشید۔“ پروفیسر داﺅد جلدی سے بولے۔
”یہ کہ میں بھی یہی بات محسوس کررہا ہوں اور ان دونوں کی نسبت پہلے سے محسوس کررہا ہوں ۔‘ ‘ انہوں نے پریشانی کے عالم میں کہا۔
”تب پھر آگے چلنے سے پہلے گاڑی کو چیک کرنا بہتر ہوگا۔ آپ لوگوں کے ساتھ کہیں میں بھی نہ مارا جاﺅں اور یہ دس ہزار روپے مجھے مہنگے نہ پڑیں۔“ پروفیسر جیفر سام نے گھبرا کر کہا۔
”ٹھیک ہے….گاڑی روک دو۔“
گاڑی رک گئی۔ وہ نیچے اتر آئے اب گاڑی کی اچھی طرح تلاشی لی گئی۔ یہاں تک کہ بعد میں پروفیسر داﺅد نے آلات کے ذریعے بھی تلاش لی، لیکن کوئی ایسی ویسی چیز نہ ملی۔
”میرا خیال ہے ہمیں وہم ہوا ہے آﺅ چلیں۔“
وہ ایک بار پھر روانہ ہوئے۔ فاروق نے بے چینی کے عالم میں پہلو بدلا۔ انسپکٹر جمشید اس کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔ یہی حالت محمود کی نظر آئی گویا ان کا احساس ابھی تک باقی تھا۔
پھر وہ ساحل پر پہنچ گئے۔ لانچ بالکل تیاری کھڑی تھی۔ اکرام انہیں ساحل پر کھڑا نظر آیا۔ لانچ کا ڈرائیور اپنی سیٹ پر چوکس بیٹھا تھا۔
”ہاں اکرام ! کہیں کوئی گڑبڑ تو محسوس نہیں ہوئی؟“
”جی…. جی نہیں۔ ہر طرح خیریت ہے۔“
”ٹھیک ہے تم اپنے چند ماتحت یہاں مقرر کردو۔ پروفیسر سام ہمیں جزیرے تک پہنچا کر واپس آئیں گے۔ انہیں گھر پہنچانا ہوگا۔“
”ٹھیک ہے جناب! انہیں یہاں گاڑی تیار ملے گی۔“
اب وہ لانچ میں سوار ہوکر روانہ ہوئے۔ اکرام نے ہاتھ ہلا کر انہیں الوداع کہا۔ جلد ہی لانچ اکرام کی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ وہ اپنی گاڑی پر آیا ماتحت ساتھ تھے۔ اس نے ماتحتوں کو ہدایات دیں اور خود خان عبدالرحمن کی گاڑی کی طرف بڑھا۔ عین اس لمحے ایک زبردست دھماکا ہوا اور گاڑی کے پرخچے اُڑ گئے۔ اکرام اچھل کر دور جا گرا، وہ چند لمحے تک پھٹی پھٹی آنکھوں سے اِدھر اُدھر دیکھتا رہا۔ اس کے ماتحت بھی اپنی گاڑی سے باہر نکل آئے تھے۔ ان کے چہروںپر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔
آخر اکرام نے انسپکٹر جمشید کے نمبرملائے اور سلسلہ ملنے پر وہ بولا©:
”سر! گاڑی کے پرخچے اڑگئے۔“
”کیا مطلب ؟“ ان کے منہ سے مارے حیرت کے نکلا۔
اکرام نے وضاحت کی، تو وہ سکتے میں آگئے۔ آخر انہوں نے کہا۔
”ٹھیک ہے۔ اپنے مزید ماتحتوں کو بلا لو۔ جائے واردات پر اپنی کارروائی مکمل کرلو۔“
”بہت بہتر جناب۔“
فون بند کرکے انسپکٹر جمشید ان کی طرف مڑے۔
”ہم تینوں کا احساس درست تھا۔ گاڑی میں بم تھا۔ خان عبدالرحمن کی گاڑی ٹکڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔“
”کیا….نہیں۔“ وہ چلائے ۔
چند لمحے تک وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔
ایسے میں پروفیسر داﺅد کھوئے کھوئے انداز میں بولے۔
”لیکن ہم نے تو گاڑی کو بہت اچھی طرح دیکھا تھا۔“
”ہمارا خیال درست تھا گاڑی میں گڑ بڑ تھی۔ حیرت اس پر ہے کہ ہم اس کے بارے میں جان کیوں نہ سکے۔“
”اور میں اب اور زیادہ خوف محسوس کررہا ہوں۔ میرا خیال ہے ہمیں واپس ساحل پر چلنا چاہیے۔ ہم اپنا یہ سفر پھر سے شروع کریں گے کیونکہ روانہ ہونے سے پہلے ہم نے لانچ کو بھی چیک نہیں کیا۔“ فاروق نے جلدی جلدی کہا۔
”اب اس کا کوئی فائدہ نہیں جو ہونا ہے ، ہوکر رہے گا۔ پھر ہمیں جزیرہ نانگا پر تو جانا ہی ہے ہم کیسے رک سکتے ہیں؟“
”مم…. میر ا مشورہ بھی یہی ہے کہ واپس چلتے ہیں۔“ پروفیسر سام نے کانپتی آواز میں کہا۔
”اگر اس لانچ پر بم موجود ہے تو یہ ہمارے واپس پہنچنے سے پہلے پھٹ جائے گا، لہٰذا واپس جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ہاں لانچ کی رفتار بڑھا کر جلد از جلد جزیرے پر پہنچنے کی کوشش کرلی جائے اوراس دوران لانچ کی تلاشی جاری رکھی جائے۔“
”یہ ٹھیک رہے گا جمشید۔“ پروفیسر داﺅد بولے۔
”تب پھر آپ اپنے آلات کے ذریعے تلاشی لے لیں۔“
”وہ تو میں نے پہلے بھی لی تھی، لیکن گاڑی سے کوئی بم نہیں ملا تھا حالاں کہ بم گاڑی میں موجود تھا۔“
”اس پرہم سب کو حیرت ہے، لیکن اس کے باوجود ہمیں اپنا کام کرنا ہوگا۔“
انہوں نے لانچ کی اچھی طرح تلاشی لی، لیکن کوئی بم دم نہ ملا۔ ان کا سفر جاری رہا۔ آخر کار پروفیسر سام کی آواز ابھری:
”وہ رہا جزیرہ نانگا۔“
وہ سب جزیرے کو دیکھنے میں محو ہوگئے اور لانچ ساحل سے جالگی۔ وہ اتر پڑے ان کے ساتھ پروفیسر سام بھی اتر آئے اور بولے:
”یہ چھوٹا سا جزیرہ ہے۔ دو کلو میٹر میں پھیلا ہوا ہے۔ اس میں بہت گھنے درخت ہیں اور بہت زیادہ بڑ ے اور تن آور ہیں۔ میں حیران ہوں آپ لوگ یہاں کیوں آئے ہیں یہاں تو کوئی بھی نظر نہیں آرہا۔“
”ہمارے ساتھی اور انہیں اغوا کرنے والے آگے کہیں ہوں گے۔ ہمیں پورا جزیرہ تو نظر نہیں آرہا۔“ انسپکٹر جمشید نے منہ بنایا۔
”ہاں! یہی بات ہے جمشید۔ پروفیسر صاحب اب آپ واپس جاسکتے ہیں۔ کپتان صاحب آپ انہیں لے جائیں۔ ساحل پر ان کے لیے گاڑی تیار ملے گی۔“
”اوکے سر۔“ اس نے کہا۔ وہ بھی ان کے ساتھ لانچ سے اتر کر ساحل پر آگیا تھا۔
”نن…. نہیں۔ “ پروفیسر سام ہکلائے۔
”جی…. کیا کہا آپ نے؟“
”مجھے …. خوف محسوس ہورہا ہے۔ کہیں گاڑی کی طرح یہ لانچ بھی نہ اڑ جائے۔“
”ارے ! باپ رے۔“ ڈرائیور بھی کانپ گیا۔
”لیکن ہمارے ساتھ آپ کیسے رہ سکیں گے؟ ہم تو یہاں موت اور زندگی کی جنگ لڑنے آئے ہیں۔ آپ کو معلوم نہیں۔“ انسپکٹر جمشید یہاں تک کہہ کر خاموش ہوگئے۔
”کیا معلوم نہیں۔“
”مجرم نے ہمیں یہاں کس لیے بلایا ہے۔“
”کس لیے بلایا ہے؟“
”وہ ہمیں مو ت کے گھاٹ اتار دینا چاہتا ہے۔“
”لیکن کیوں؟“
”اس وقت وہ جس ملک کے لیے کام کررہا ہے۔ اس ملک کی یہی خواہش ہے۔ حاجو خان اور میری بیگم وغیرہ کو اغوا کرکے یہاں لانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ ہم سب کو آسانی سے ٹھکانے لگا سکے۔“
”اور آپ یہاں آگئے۔“ پروفیسر سام نے حیران ہوکر کہا۔
”اور ہم کر بھی کیا سکتے تھے۔ بلتان کی منصوبہ بندی اس قسم کی ہوتی ہے۔ وہ ہر طرف سے اپنے دشمن کو بالکل بے بس کردیتا ہے اور ہمارے ساتھ بھی وہ ایسا ہی کھیل کھیلنا چاہتا ہے۔“
عین اس لمحے کان پھاڑ دینے والا ایک دھماکا ہوا۔ وہ بری طرح اچھل کر دور جا گرے۔ انہوں نے خود کو سنبھال کر ساحل کی طرف دیکھا تو لانچ کے پرخچے پانی پر تیرتے نظر آئے۔ بہت سے ٹکڑوں کو آگ لگ چکی تھی۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ منظر دیکھتے رہے۔
”اللہ اپنا رحم فرمائے۔ یہ ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے جمشید۔“ پروفیسر داﺅد نے لرزتی آواز میں کہا۔
”اور…. اب …. اب میرا کیا ہوگا؟ میں کیسے واپس جاﺅں گا۔“پروفیسر سام نے تھرتھرائی آواز میں کہا۔
”اور میں…. میں ۔“کپتان ہکلایا۔
”مجھے افسوس ہے کہہمارے ساتھ آپ لوگ بھی مصیبت میں پھنس گئے۔ لیکن آپ دونوں فکر نہ کریں ۔ میں ابھی آپ کے لیے لانچ منگواتا ہوں۔“
”لیکن کیسے؟“ پروفیسر سام بولے۔
”کیا مطلب؟“
”لانچ یہاں تک آئے گی کیسے؟ نانگا جزیرے کا راستہ کپتان کیسے معلوم کرے گا۔ یہ تو میں تھا جو آپ لوگوں کو یہاں تک لایا ہوں۔“
”اوہ…. اوہ۔“
ان کے منہ سے نکلاہ پھر اچانک انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”کوئی مسئلہ نہیں۔“
”جی ؟ کیا کہا آپ نے؟ کوئی مسئلہ نہیں؟“ پروفیسر سام بولے۔
”ہاں ! میں نے یہی کہا ہے۔ کوئی مسئلہ نہیں میں آپ دونوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے واپس بھجوائے دیتا ہوں۔ ہیلی کاپٹر کے پائلٹ سے میں برابر موبائل پر رابطہ رکھوں گا اور یہاں ہم کپڑے اور خشک شاخوں کو آگ لگا کر دھواں بلند کرتے جائیں گے۔ پائلٹ دھواں دیکھ کر آخر یہاں پہنچ جائے گا۔“
”بس تو پھر پہلے آپ یہی کام کریں۔ “ پروفیسر سام نے جلدی سے کہا۔
”ہاں! کیوں نہیں ہم اپنے ساتھ آپ دونوں کو خطرے میں نہیں ڈالیں گے۔“
انہوں نے موبائل نکالا نمبر ڈائل کرنا چاہا، لیکن ان کا فون بند تھا۔
”میرا فون بند ہے، محمو داپنا فون مجھے دو۔“
اس نے گھبرا کر اپنا فون نکالا۔ وہ بھی بند تھا، اب تو سب نے اپنے اپنے فون دیکھے…. سب بند تھے۔
ان کے رنگ اڑ گئے۔ چہروں پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ ایسے میں جزیرہ ایک آواز سے گونج اٹھا۔
”خوش آمدید انسپکٹر جمشید! مجھے تمہارا ہی انتظار تھا اور مجھ سے زیادہ تمہاری بیوی، بیگم شیرازی ، حاجو خان اور اس کے بیوی بچوں کو تمہارا انتظار تھا۔ ان لوگوں کا خیال تو یہ تھا کہ تم ان کے نجات دہندہ بن کر آﺅگے اور میرا خیال یہ تھا کہ تم بھی اپنی موت کی تلاش میں یہاں آﺅگے۔“
”شکریہ! موت کا کیا ہے وہ تو ایک دن آکر رہے گی۔“
”تب پھر آگے چلے آﺅ موت تیار ہے۔“
”کیا کہا موت تیار ہے؟“ پروفیسر سام چلا اٹھے۔
”بھائی صاحب! آپ مو ت تیار ہے تو ا س طرح کہہ رہے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں، کھانا تیار ہے۔“ محمود نے جھلا کر کہا، لیکن اس نے یہ الفاظ بلند آواز میں نہیں کہے تھے۔
”فکر نہ کرو پہلے تمہیں کھانا کھلایا جائے گا۔ پھر موت کی نیند سلایا جائے گا۔“
”ارے باپ رے! بھائی صاحب نے تو میری آہستہ آواز بھی سن لی۔“
”ا س جزیرے پر سوئی گرنے کی آواز بھی میں سن لوں گا۔“
”آپ کی تعریف۔“ محمود نے بلند آواز میں پوچھا۔
”پروفیسر صاحب! میراتعارف اس سے کرادو۔“ آواز آئی۔
”کک…. کون سے پروفیسر صاحب یہاں تو دو عدد پروفیسر موجود ہیں۔“ پروفیسر داﺅد بولے۔
”آپ تو کیا تعارف کرائیں گے، ہاں پروفیسر جیفر شاید کر ادیں۔“
”نن…. ہاں۔“ وہ ہکلائے۔
”آپ نے ہاں کہا یا نہیں۔“
”اپنے ساتھ آپ لوگ مجھے بھی لے بیٹھے۔ اب مجھے بھی آپ کے ساتھ مرنا پڑے گا۔“
”مرنا تو آپ کو ویسے بھی پڑے گا اور موت تو سب کو آئے گی۔“
”اور میں …. میں تو بالکل مفت میں مرگیا۔“ لانچ کے کپتان نے لرزتی آوازمیں کہا۔
”میں آپ دونوں کو واپس بھجوادیتا ہوں۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”کیا کہا آپ نے؟ آپ ہمیں واپس بھجواسکتے ہیں، وہ کیسے؟“ کپتان کے لہجے میں بلا کی حیرت در آئی۔
”ہاں ! بھجواسکتا ہوں کیوں پروفیسر سام؟ آپ واپس جانا پسند کریں گے یا ہمارے ساتھ ٹھہرنا۔“
”حد ہوگئی بھلا میں کیوں آپ لوگوں کے ساتھ ٹھہروں گا؟ ویسے لگتا ہے جزیرے پر آتے ہی آپ کا دماغ الٹ گیا ہے۔“
”اللہ کی مہربانی سے ایسا نہیں ہے۔“
”تب پھر آپ ہمیں کس طرح بھجواسکتے ہیں۔ پہلے ذرا اس کی وضاحت کردیں۔“
”ابھی میرے پاس اپنے ماتحتوں سے رابطہ کرنے کا ایک ذریعہ موجود ہے۔“
”اور…. اور وہ کیا ؟“ وہ سب ایک ساتھ بولے۔
”میری گھڑی۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”حد ہوگئی…. گھڑی نہ ہوئی ٹیلی فون ہوگیا۔“
”ابھی دکھاتا ہوں۔“
یہ کہہ کر انہوں نے گھڑی کی طرف ہاتھ اٹھایا۔ ایسے میں پروفیسر سام مارے خوف کے چلائے۔
”اُف …. وہ دیکھیے۔“
ساتھ ہی انہوں نے ایک جانب اشارہ کیا۔ سب نے بوکھلا کر اس طرف دیکھا اور پھر انہیں اپنی رگوں میں خون جمتا محسوس ہوا۔
انسپکٹر جمشید بھی گھڑی کا بٹن دبانے سے رہ گئے۔ ان گنت رائفلیں درختوں کے پیچھے سے ان کی طرف تنی ہوئی تھیں۔
”حرکت نہ کرنا ، انسپکٹر جمشید ورنہ پرخچے اڑجائیں گے۔“
وہ ساکت رہ گئے ۔
”تم لوگوں کے پاس جو کچھ بھی ہے نیچے گرا دو اور پندرہ قدم گن کر آگے آجاﺅ۔ انسپکٹر جمشید تم اپنی گھڑی کو ہاتھ نہیں لگاﺅگے۔ ہاتھ سر سے بلند کرکے کھڑے رہو۔ تمہارے ہاتھ سے گھڑی پروفیسر اتاریں گے۔ باقی لوگ اپنی سب چیزیں اتار کر نیچے گرادیں ۔ جسموں پر صرف کپڑے رہ جائیں ۔“
انہوں نے اپنی چیزیں گرادیں۔
”پروفیسر سام! آپ انسپکٹر جمشید کی گھڑی اتار کر سمندر میں پھینک دیں…. تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔“
”جج…. جی ….جی اچھا…. حضور…. لل…. لیکن ۔“
”لیکن کیا؟“ پوچھا گیا۔
”اگر انہوں نے مجھ پر حملہ کردیا تو؟“
”ا ن کے پیچھے سے آکر گھڑی اتارلیں، یہ پوری طرح ہماری زد پر ہیں۔“
”اچھی بات ہے۔“ پروفیسر سام نے کہا۔
اور پھر اس نے ان کی کمر کی طرف آکر گھڑی اتارلی۔ انہوں نے کوئی حرکت نہ کی۔ وہ واقعی پوری طرح زد پر تھے اور جو رائفلیں ان پر تنی ہوئی تھیں ، وہ بہت خوفناک تھیں۔
”پروفیسر سام! آپ نے گھڑی سمندر میں گرادی؟“
”جی ….جی ہاں۔“ وہ بولے۔
”اب سب لوگ پندرہ قدم آگے آجائیں۔“
ان سب نے انسپکٹر جمشید کی طرف دیکھا جیسے پوچھ رہے ہوں اب کیا کریں؟
”جو کہا گیا ہے ، کرو۔ ہمارے پیچھے سمندر ہے اور آگے بلتان اور ابھی ہماری اپنے ساتھیوں سے ملاقات بھی نہیں ہوئی لہٰذا پندرہ قدم گن ڈالو۔“ انہوں نے خوش گوار لہجے میں کہا۔
”لیکن جناب! اس سارے معاملے میں میرا کیا قصور ہے؟“ کپتان نے روتی آواز میں کہا۔
”آپ کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ہمارا بھی کوئی قصور نہیں، یہ سب تو لکھا ہوا ہے، انسان کے مقدر میں جو لکھ دیا گیا ہے وہ پیش آکر رہے گا، لہٰذا صبر کرو۔ ایک بات میں تم سے کہے دیتا ہوں اور وہ یہ کہ پہلے ہم مریں گے بعد میں تمہاری باری آئے گی۔ یہ نہیں ہوگا کہ کسی موقعے پر ہم اپنی جانیں بچانے کے لیے آپ کو آگے کردیں۔“
”لیکن اس سے مجھے کیا فائدہ ہوگا۔“ اس نے برا سا منہ بنایا۔
”اگر یہ بات ہے تو پھر سن لیں۔ مرنا تو آپ کو ویسے بھی پڑے گا۔ موت اس جزیرے پر آئے یا کسی اور جگہ آئے۔“
”تم لوگ بلاوجہ دیر لگارہے ہو۔ ان باتوں سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ قدم اٹھانے کی کرو۔“
انہوں نے قدم اٹھانے شروع کردیے۔ جلدہی آواز پھر ابھری:
”یہ کیا؟ کچھ لوگ پیچھے کیوں رہ گئے ہیں۔“
انسپکٹر جمشید، خان عبدالرحمن اور پروفیسر داﺅد نے چونک کر دیکھا۔ محمود اور فاروق باقی سب سے کئی قدم پیچھے نظر آئے:
”کیا ہوا تمہیں؟“
”جی…. ہوا تو کچھ بھی نہیں۔“ محمود مسکرایا۔
”تو پھر پیچھے کیوں رہ گئے؟“
”آپ کے قدم لمبے ہیں اور ہمارے چھوٹے، لہٰذا ہم پندرہ قدم اٹھا کر وہاں نہیں پہنچ سکیں گے جہاں آپ لوگ پہنچ جائیں گے۔“ محمود نے جلدی جلدی کہا۔
وہ مسکرادیے۔ ادھر جھنجھلاتی ہوئی آواز میں کہا گیا:
”تم بھی بڑوں کے پاس پہنچ جاﺅ۔ پندرہ قدم کا مطلب یہ نہیں کہ تم اپنے ساتھیوں تک پہنچنے کے لیے کوئی اور قدم اٹھا ہی نہیں سکتے۔“
”اب آپ نے کہا ہے تو اٹھا لیتے ہیں۔ ہمارا کیا جاتا ہے۔ ہم اپنے ساتھیوں سے بھی آگے نکل جاتے ہیں۔“
”نہیں! اس کی ضرورت نہیں۔ اِدھر اُدھر کی باتیں نہ کرو۔ میں تمہیں اچھی طرح جانتا ہوں۔“
”اچھی طرح جانتے ہیں…. کیا مطلب؟“
”مطلب یہ کہ تم لوگ اِدھر اُدھر کی باتوں میں لگا کر اپنا کام نکالنے کے ماہر ہو، لیکن میں تمہیں کوئی موقع نہیں دوں گا۔“
”چلیے خیر…. نہ دیجیے گا موقع۔ ہم آپ سے مانگیں گے بھی نہیں۔“ محمود نے برا سا منہ بنایا۔
”کیا نہیں مانگیں گے ۔ “ بلتان نے اسے گھورا۔
”بھئی موقع اور کیا۔“
”آپ لوگوں کے ساتھ میں بھی پھنس گیا۔ وہ دس ہزار میرے کس کام آئے؟“
”بعد میں کام آجائیں گے فکر نہ کریں۔“ محمود نے جلدی سے کہا۔
”میں، میں آگے نہیں جاﺅں گا۔ میں تو بس جزیرے کے کنارے پر رہوں گا۔ کیا خبر کوئی جہاز یا لانچ اس طرف آجائے۔ اس صورت میں اس پر سوار تو ہو سکوں گا، لیکن اگر میں آپ لوگوں کے ساتھ آگے چلا گیا، تو ایسا کوئی موقع ہاتھ نہیں آئے گا۔“
”اگر مسٹر بلتان آپ کو اجازت دیتے ہیں، تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔“ انسپکٹر جمشید نے خوش گوار لہجے میں کہا۔
”اگر یہ دونوں حضرات کنارے پر جا کر کسی گزرتے جہاز کا انتظار کرنا چاہیں، تو مجھے کوئی اعتراض نہیں شوق سے چلے جائیں۔ اگر ان دونوں نے آپ لوگوں کی کسی بھی طرح سے مدد کرنے کی کوشش کی، تو پھر ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہوگی۔“
”ٹھیک ہے ہم کیوں کریں گے ان کی مدد؟ ان کی وجہ سے تو ہم اس مصیبت میں پھنسے ہیں۔ ہماری طرف سے یہ لوگ جائیں جہنم میں۔“
”ایسا تو نہ کہو۔ کیا تم نے اپنے بارے میں ہمارے والد کے الفاظ نہیں سنے، یعنی ان کے جذبات کیا ہیں اور آپ کیا سوچ رہے ہیں۔“
”آپ لوگ اگر ہم سے پہلے اپنی جانیں دے دیتے ہیں، تو اس سے ہمیں کیا فائدہ ہوجائے گا؟ ہم دونوں بھی اپنی جان سے تو ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔“
”اب بات سمجھ میں آئی۔ آپ دونوں جزیرے کے کنارے اس لیے ٹھہرنا چاہتے ہیں کہ جان سے ہاتھ دھونے کے بجائے پانی سے ہاتھ دھوسکیں۔“ محمود نے جل بھن کر کہا اور وہ سب مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔
”ہم کچھ بھی کریں آپ کو کیا اور میرا خیال ہے ان کے دشمن کو ہمارے الگ ہوجانے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔“
”بالکل نہیں آپ دونوں خوشی سے کنارے پر چلے جائیں، لیکن اگر کوئی چال چلنے کی کوشش کی تو نقصان میں رہیں گے۔“
”ہم کوئی چال نہیں چلیں گے۔ ہمیں ضرورت بھی کیا ہے کچھ کرنے کی؟ یہ لوگ ہمارے کس کام آئیں گے۔ رہ گئے آپ…. آپ سے نہ ہماری دوستی ہے نہ دشمنی اس لیے آپ سے کوئی امید ہوسکتی ہے کیونکہ وقت کی باگ ڈور اس وقت آپ کے ہاتھ میں ہے۔“
”آپ دونوں عقل مند ہیں۔ کنارے پر چلے جائیں اور ہمیں ان لوگوں سے فارغ ہولینے دیں۔ پھر آپ کو ساحل کی طرف بھجوادیا جائے گا۔“
”بہت خوب…. آپ کا شکریہ ! آپ بہت اچھے ہیں۔“ پروفیسر سام نے خوش ہوکر کہا۔
”تب پھر ایک کام کرتے جائیں۔“ آواز آئی۔
”جی …. وہ کیا؟“
”ان لوگوں نے جو چیزیں گرائی ہیں، وہ اٹھا کر لے جائیں اور سمندر میں گرادیں۔“
”اچھی بات ہے۔“
”اور میرے تین ساتھی ان لوگوں کی اچھی طرح تلاشی لیں۔ کوئی چیز ان کے پاس رہ گئی ہو تو وہ بھی نکال کر سمندر میں گرادی جائے۔“
اس پر عمل کیا گیا۔ ایسے میں اچانک انسپکٹر جمشید کی آنکھیں مارے حیرت کے پھیل گئیں۔
انسپکٹر جمشید اتنے زور سے چونکے تو ان کے ساتھی بھی حیران رہ گئے۔
”کک…. کیا ہوا ابا جان؟“ محمود گھبرا کر بولا۔
”ایک خیال آیا ہے۔ کیا پروفیسر جیفر سام اور کپتان ساحل کی طرف جا چکے ہیں؟“ وہ بولے۔
”جی ہاں وہ تو ان لوگوں کے تلاشی شروع کرنے سے پہلے چلے گئے تھے۔“
”خفیہ عمارت نمبر ایک کو جب بلتان کے آدمیوں نے گھیرا تھا، تو ہم وہاں ایک آواز سنتے رہے تھے….“ انہوں نے کھوئے کھوئے انداز میں کہا۔
”جی…. جی ہاںبالکل سنتے رہے ہیں۔“
”بعد میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ وہ آواز بلتان کی نہیں تھی۔“
”جی…. جی ہاں! یہی بات ہے۔“
”اب جو ہم نے آواز سنی ہے۔ کیا یہ وہی نہیں ہے؟“
”اوہ جی ہاں! یہ وہی آواز ہے، تو کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ بلتان کی آواز ہے۔“
”میں ابھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ آواز بلتان کی ہے یا کسی اور کی، لیکن یہ آواز ہے وہی جو ہم خفیہ عمارت نمبر ایک کے باہر سنتے رہے ہیں۔“
”مطلب یہ کہ زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ یہی بلتان ہے۔“
”ہاں! یہ کہا جاسکتا ہے۔“
”لیکن انسپکٹر جمشید۱ اس سے کیا فرق پڑتا ہے بھلا۔“ آواز لہرائی۔
”یہ میں بعد میں بتاﺅں گا کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
ان کی یہ مسکراہٹ بہت عجیب تھی۔ اس مسکراہٹ نے ان کے ساتھیوں کو شدید الجھن میں ڈال دیا۔
”کیا مطلب ؟“ وہ بول اٹھے۔
”ابھی اس کامطلب رہنے دیں۔“ وہ ہنسے۔
”لیکن ابا جان! ہم شدید الجھن محسوس کررہے ہیں۔“
”کوئی بات نہیںکرتے رہیں الجھن محسوس۔“ انہوں نے پھر عجیب اندا ز میں کہا۔
”مطلب یہ کہ آپ کو کوئی خاص بات معلوم ہوگئی ہے۔“ فاروق نے ان کی طرف غور سے دیکھا۔
”ہاں ! تم یہ کہہ سکتے ہو۔“
”اب یہ اپنی اِدھر اُدھر کی باتیں ختم کرو اور قدم اٹھاﺅ۔ میرے ماتحتو! تم یہ ہدایت سن لو کہ اگر اب ان کے قدم رکیں تو فائر کردینا۔“
”اوکے سر!“
”پیچھے سے چند ہوائی فائر کرکے انہیں جتادو کہ تم لو گ ان کے پیچھے موجود ہو اور بہت آسانی سے تم انہیں نشانہ بناسکتے ہو۔ سب لوگ ایک ہی وقت میں فائر کریں۔“
”اوکے سر!“
اس کے ساتھ ہی جزیدہ ان گنت گولیوں کی آوازوں سے گونج اٹھا۔ جزیرے کے پرندے خوف زدہ انداز میں درختوں سے اڑے اور ان کا بے تحاشا شور مچ گیا، اب تو گویا کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی…. ان کے قدم اٹھتے رہے۔ تین چار منٹ بعد کہیں جاکر پرندے پرسکون ہوئے۔
”کیا ضرورت تھی ان پرندوں کو خوف زدہ کرنے کی؟“
انسپکٹر جمشید نے برا سا منہ بنایا۔
”تم لوگ پوری طرح ہماری زد پر ہو صرف یہ بتایا ہے۔“
”یہ بات تو ہم اس جزیدے پر قدم رکھنے سے پہلے سے جانتے تھے۔“ انسپکٹر جمشید جھلا اٹھے۔
”آگیا غصہ…. میں نے تو سنا تھا انسپکٹر جمشید کو غصہ نہیں آتا اور دشمنوں سے مقابلے میں یہی ان کی کامیابیوں کا رازہے۔“
”میں بھی آخر انسان ہوں کبھی آبھی جاتا ہے۔“ وہ ہنس دیے۔
وہ چلتے رہے،پندرہ منٹ بعد ایک کھلے میدان میں داخل ہوئے۔ اس کے چاروں طرف درخت ایک دائرے کی صورت میں تھے۔ گویا اس وقت وہ ان درختوں کے گھیرے میں تھے۔
”ان کے ساتھی نیچے لٹکادو۔“
”کیا کہا نیچے لٹکا دو۔“ مارے حیرت کے ان کے منہ سے نکلا۔ ساتھ ہی انہوں نے اوپر دیکھا درختوں سے چند رسیاں لٹکتی نظر آئیں۔ ان کے سروں پر ان کے ساتھی بری طرح بندھے ہوئے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ نیچے آرہے۔
”اُف اتنا ظلم سربلتان! میں آپ کو ایسا نہیں سمجھتا تھا۔ خیر …. میں آپ کو اس ظلم کا مزہ چکھاﺅں گا۔“
”خوب بہت خوب پہلے اپنے ساتھیوں کی خبر لے لو۔“
”محمود جلدی کرو چاقونکالو۔“
محمود نے جوتے کی ایڑھی سرکائی اور پھر دھک سے رہ گیا۔ ایڑی میں چاقو نہیں تھا۔ اس نے پریشانی کے عالم میں ان کی طرف دیکھا۔
”چاقو غائب ہے ابا جان۔“
”اوہو اچھا! خیر کوئی بات نہیں۔“
”انہیں کوئی چاقو دے دو بھئی۔ بے چارے آخری بار اپنے ساتھیوں سے مل لیں گے۔“
اوپر سے ایک چاقو نیچے آگرا۔ وہ عام سا چاقو تھا۔ انہوں نے ا س کے ذریعے رسیاں کاٹنی شروع کردیں اور جلد ہی وہ آزاد ہوگئے۔ ان کے ہونٹوں پر بھی ٹیپ چپکائی گئی تھی۔ اسے اتارتے وقت انہیں شدید تکلیف محسوس ہوئی۔منہ کھلتے ہی ان سب نے کہا:
”اللہ کا شکر ہے اس مصیبت سے نجات ملی اور آپ لوگوں کی شکل نظر آئی۔“
”اچھی طرح اللہ کا شکر ادا کرلو۔ آج تم لوگوں کی زندگیوں کا آخری دن ہے۔“
”تب پھر پہلے ہمیں یہ بتادیں کہ حاجو خان سے آپ کیا کام لے رہے تھے۔ دفتر کے لوگوں کی چیزیں کیوں اس کے ذریعے اڑا رہے تھے۔“
”پہلے چند آدمیوں کی چھوٹی چھوٹی چیزیں اڑ ا کر حاجو خان کو یہ احساس دلایا تھا کہ یہ کام بے ضررہے۔ پھر اس کے ذریعے نصیر الدین شاہ کی دراز میں گھڑی رکھوانے کا پروگرام تھا، لیکن حاجو خان کم بخت دھوکا دے گیا۔
امید نہیں تھی کہ وہ ایسا ثابت ہوگا۔ میرا تو خیال تھا وہ پوری طرح شیشے میں اتر چکا ہے، لیکن ہو ااِس کا اُلٹ۔ خیر …. کوئی بات نہیں۔ تم لوگوں کے ساتھ اس کا بھی کانٹا نکال دیاجائے گا۔ جب تم ایک دوسرے کو خوب جی بھر کر دیکھ چکو تو بتا دینا۔ اُس وقت میرے ساتھی درختوں پر سے فائرنگ کرکے تم لوگوں کو اگلے جہاں پہنچادیں گے۔“
”اچھی بات ہے، لیکن یہ تو کوئی مزے داری نہ ہوئی۔“ انسپکٹر جمشید نے حیران ہوکر کہا۔
”کیا مطلب؟“
”مسٹر بلتان! کم ا ز کم ہماری اور آپ کی ملاقات تو ہونی چاہیے تھی۔“
”اچھی بات ہے۔ تم سے ملاقات بھی کر لیتا ہوں۔ کہیں مرتے وقت تم یہ خوش فہمی لے کر نہ مرو کہ میں تم سے ڈر رہا تھا ، اس لیے سامنے نہیں آیا۔“
”چلیے ٹھیک ہے۔ ہم یہ خوش فہمی لے کر نہیں مریں گے وعدہ کرتے ہیں۔“ فاروق نے خوش ہوکر کہا۔
”حد ہوگئی یہ خوش ہونے کا کون سا موقع ہے؟“
”اچھا جب خوش ہونے کا موقع آئے تو بتادینا۔“ اس نے برا سا منہ بنایا۔
اب انہوں نے اپنے ساتھیوں کی طرف توجہ دی۔
”ہمیں افسوس ہے کہ یہ لوگ آپ لوگوں کو اغوا کرکے لے آئے۔ غلطی ہماری تھی۔“
”اب تو جوہونا تھا ہوچکا۔“ حاجو خان نے پریشانی کے عالم میں کہا۔
”موت کا وقت مقررہے اور اپنے وقت پر آکر رہتی ہے۔ بس اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں معاف کردے، ہمارے گناہوں سے درگزر کرے۔“
”آمین ۔“ ان سب کے منہ سے نکلا۔ ساتھ ہی آنکھو ں میں آنسو آگئے۔
”انسپکٹر جمشید! تم لوگوں کی آنکھوں میں آنسو؟ میں نے تو سنا تھا تم لوگ وہ ہو جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے ہو، لیکن میں تو تم لوگوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھ رہا ہوں۔“
”یہ آنسو حاجو خان اور اس کے بیوی بچوں کے لیے ہیں۔ ہم ان کی حفاظت نہ کرسکے۔ وہ ہماری پناہ میں تھے۔“
”اس میں آپ کا کیا قصور؟“ حاجو خان کے منہ سے نکلا۔
”کیا تم لوگ ایک دوسرے سے مل چکے؟“
”ہاں! لیکن ا ب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔“
”میں آرہا ہوں۔ بالکل آرہا ہوں….فکر نہ کریں۔“
اور پھر خاموشی چھا گئی۔ وہ چارو ں طرف دیکھنے لگے …. درختوں کے حلقے کے اندران کے سوا کوئی نہیں تھا۔
اچانک انہیں درختوں کے درمیان سے نکل کر کوئی آتا نظر آیا۔
پھر وہ درختوں کے دائرے میں داخل ہوا۔ اس کے چہرے پر نقاب تھا۔ وہ درمیانے قد کا دبلا پتلا سا آدمی تھا۔ پرسکون انداز میں چلتے ہوئے وہ ان کے سامنے آکھڑا ہوا:
”اس نقاب کی ضرورت سمجھ میں نہیں آئی جب کہ ہمیں معلوم ہے آپ بلتان ہیں۔“ انسپکٹر جمشید نے الجھن کے عالم میں کہا۔
”میں نے سوچا کہیں تم لوگ مجھے دیکھ کر ڈر نہ جاﺅ۔“
”جہاں تک بلتان کے حلیے کا تعلق ہے مجھے معلوم ہے، لہٰذا اس کے حلیے سے تو ہم خوف زدہ ہوں گے نہیں کوئی اور بات ہو تو وہ آپ بتادیں۔“
”میرا خیال تھا تم حلیے کے چکر میں پڑنے کی بجائے یہ پوچھو گے کہ میں کیا چاہتا ہوں؟ یہ سارا چکر کیا ہے۔“
”اس میں شک نہیں ۔ ضروری یہی ہے، چلیے خیر اگر آپ اپنا چہرہ نہیں دکھانا چاہتے تو پھر یہ باتیں بتادیں جن کی طرف خود آپ نے اشارہ کیا ہے؟“
”ضرور کیوں نہیں حاجو خان کے محکمے کے ڈائریکٹر پر ہماری ایک مدت سے نظریں تھیں۔ محکمہ اطلاعات بہت اہم ہوتا ہے۔ اس کا ڈائریکٹر اگر ہماری مرضی کا ہو تو بہت سے کام چٹکیوں میں نکل آتے ہیں۔ سو اوپر سے حکم ملا، نصیر الدین شاہ کو ختم کردیاجائے ، لیکن اس طرح کہ تفتیش کرنے والے چکر ہی کھاتے رہ جائیں۔ سو حاجو خان کو چھوٹے چھوٹے معاملات میں دس دس ہزار روپے دے کر قابو کیا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ اصل واردات کی باری میں وہ ہاتھ سے پھسل گیا اور اس نے ہدایات کے مطابق عمل نہ کیا۔ اب ظاہر ہے ہمیں نصیر الدین کو تو ٹھکانے لگانا تھا۔ سوچا اس کے ساتھ ہی ، حاجو خان کو بھی مزہ چکھا دیا جائے لیکن یہ حضرت پہنچ گئے آپ کے پاس۔ جب انہیں آپ کے گھر سے اغوا کیا گیا تو پروگرام طے پایا کہ ساتھ میں آپ کے گھر کو بھی لپیٹ میں لیا جائے تاکہ ایک تیر سے تین شکار ہوجائیں چنانچہ دیکھ لیں سب یہاں موجود ہیں۔ نصیر الدین شاہ بھی ہیں۔ ایک ہی بار آپ سب کو لپیٹ دیا جائے گا۔ پھر یہاں لاشوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کا مسئلہ بھی نہیں ہے۔ اٹھا کر سمندر میںپھینک دیں گے اور فارغ…. پھر ہم ہوں گے اور آپ کا ملک ہوگا۔ بات ایک ڈائریکٹر پر تو ختم نہیں ہوجائے گی۔ تمام اسلام پسندوں کو ایک ایک کرکے ختم کریں گے اور ان کی جگہ اپنی مرضی کے آدمی لائے جائیں گے…. اس طرح یہ ملک بغیر کسی جنگ کے فتح ہوجائے گا۔ جب انسپکٹر جمشید جیسے لوگ نہیں ہوں گے تو ہمارے لیے آسانیاں ہی آسانیاں ہوں گی اور تم لوگوں کے ہوتے ہوئے رکاوٹیں ہی رکاوٹیں ہیں۔“
”یہاں آپ خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔“ انسپکٹر اس کے خاموش ہوتے ہی بولے۔
”وہ کیسے؟“
”ایسے کہ اس ملک میں ایک ہم ہی نہیں ہیں۔ ہم جیسے نہ جانے کتنے سرپھرے موجود ہیں۔“
”کوئی پروا نہیں…. باری باری سبھی کو اس جزیرے پر لایا جائے گا اور یہ جزیرہ موت کا جزیرہ بن جائے گا۔“
”چلیے ٹھیک ہے۔ اب ذرا آخر میں اپنا چہرہ دکھا دیں تاکہ ہم بھی دیکھ لیں بلتان کیسا ہوتا ہے۔“ انہوں نے شوخ انداز میں کہا۔
”اچھی بات ہے۔ تم لوگ بھی کیا یاد کروگے۔“
اس نے کہا اور چہرے سے نقاب اتار دیا۔ انہوں نے بالکل اس حلیے کے آدمی کو اپنے سامنے دیکھا…. جو حلیہ انہوںنے بلتان کا سن رکھا تھا۔
”چلو اس بہانے زندگی میں بلتان کو دیکھ لیا، بہت شہرت سنی تھی آپ کی۔ اب ایک بات اور بتادیں۔“
”جو پوچھنا ہے پوچھ لو۔ پھر تمہیں کہاں موقع ملے گا۔“ وہ ہنسا۔
”اس مرتبہ آپ کس ملک کے لیے کام کررہے ہیں۔“
”انشارجہ کے لیے…. ویسے میں زیادہ تر انشارجہ کے لیے ہی کام کرتا ہوں۔“
”خوب بہت خوب میرا بھی یہی اندازہ تھا۔ یہ انشارجہ ہی تو ہے جو ہر ملک کو غلام بنانے کی فکر میں رہتا ہے۔ وہ بھی بلتان جیسے لوگوں کے ذریعے۔“
”بس ہوگئیں تم لوگوں کی باتیں ختم۔ اب ہم اپنا کام کریں گے۔“
”میری ایک خواہش تھی۔“ انسپکٹر جمشید کی آواز ابھری۔
”کیا مطلب؟کیسی خواہش؟‘ ‘ وہ چونکا۔
”دو بے چارے ساحل پر رہ گئے۔ اس معاملے میں واقعی ان کا کوئی قصور نہیں وہ بلاوجہ پھنس گئے۔ میں چاہتا تھا آپ انہیں بھی یہاں بلالیں جو کچھ ہوان کے سامنے ہوجائے۔ اس طرح اس واقعے کے گواہ بھی ہوں گے۔“
”ان گواہوں کا تم لوگوں کو کیا فائدہ ہوگا بھلا؟“
”بات فائدے اور نقصان کی نہیں۔ میں تو بس ان کا خیال کرتے ہوئے کہہ رہا ہوں۔ وہ بھی دیکھ لیتے اپنے دین اور ملک کے لیے کس طرح زندگیاں قربان کی جاتی ہیں۔“
”اگرچہ اس کی ضرورت نہیں پھر بھی میں اس کو آپ کی آخری خواہش سمجھ کر پوری کیے دیتا ہوں۔ پروفیسر سام اور کپتان صاحب! آپ دونوں تک میری آوز پہنچ رہی ہے نا۔“
”جج….جی ہاں پہنچ رہی ہے۔“
”بس تو پھر آپ بھی آگے چلے آیئے۔ آپ دونوں کو خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچایاجائے گا۔ بس آپ ان لوگوں کی موت کا منظر دیکھیں گے۔“
”نن نہیں…. ہم یہ خوفناک منظر نہیں دیکھ سکتے ۔“ پروفیسر سام کی لرزتی آواز سنائی دی۔
”میں نے کہا نا آپ کو ڈرنے کی ضرورت نہیں …. بس چلے آیئے۔ ورنہ پھر ہم آپ لوگوں کو جزیرے پر چھوڑ کر چلے جائیں گے۔“
”ن…. نہیں…. ایسا نہ کیجیے۔“ ڈرائیور خوف زدہ آواز میں چلا اٹھا۔
”تو پھر چلیں آئیں ناک کی سیدھ میں آکر ان کی موت کا منظر دیکھ لیں۔ پھر ہم یہاں سے چلیں گے۔“
”چلیے پروفیسر صاحب! اب تو چلنا پڑے گا۔“
”ہاں …. بالکل۔“
اور پھر وہ انتظار کرنے لگے۔ یہاں تک کہ دونوں درختوں کے دائرے میں داخل ہوتے نظر آئے۔ ان کے چہروں پر خوف طاری تھا۔
”آیئے پروفیسر صاحب! آیئے۔“ بلتان چہکا۔
”پروفیسر صاحب! میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ آپ تو جانتے ہی ہیں۔ یہ ہمارا آخری وقت ہے۔ کیا آپ میری بات سننا پسند کریں گے۔“
”آ پ لوگوں ہی نے تو ہمیں اس مصیبت میں پھنسایا ہے۔ ہم آپ کی بات کیوں سنیں۔“
”شاید وہ بات آپ کے حق میں ہو۔“
”اچھی بات ہے سن لیتا ہوں۔“ پروفیسر سام نے برا سا منہ بنایا اور ان کی طرف دیکھنے لگا۔
پروفیسر سام کے قدم ان کی طرف اٹھنے لگے۔ ان کی نظریں پروفیسر پر جم کر رہ گئی تھیں۔ ایسے میں محمود نے دبی آوا ز میں کہا۔
”ابا جان! آپ پروفیسر صاحب سے کیا کہنا چاہتے ہیں؟“
”بس دیکھتے جاﺅ۔“ وہ بولے۔
”جی…. کیا دیکھتے جائیں؟“
”یہ کہ میں ان سے کیا کہنا چاہتا ہوں۔“
”آپ کہتے ہیں تو دیکھ لیتے ہیں، ہمارا کیا جاتا ہے۔“ فاروق نے منہ بنایا۔
اور وہ مسکرانے لگے۔ اگرچہ موت کے دہانے پر مسکرانا آسان کام نہیں تھا، لیکن ان کی زندگیوں میں ایسے لمحات آتے ہی رہتے تھے، لہٰذا مسکراسکتے تھے۔ آخر پروفیسر سام ان کے بالکل نزدیک پہنچ گئے۔
”ہاں انسپکٹر جمشید آپ مجھ سے کیا کہنا چاہتے ہیں؟“
”میں آپ کے کان میں کہنا چاہتا ہوں۔ مہربانی فرما کر اور نزدیک آجائیں۔“
”اوہو…. وہ ایسی کیا بات ہے آخر۔“
”آپ سن کر حیرت زدہ رہ جائیں گے۔“
”چلیے مان لیامیں سن کر دھک سے رہ جاﺅں گا، لیکن بات ہے کیا۔“
”وہ تو میں کان میں بتاسکتا ہوں۔“
”اچھی بات ہے، میں نزدیک آجاتا ہوں۔“
اس کے قدم اٹھنے لگے یہاں تک کہ وہ ان کے بالکل نزدیک پہنچ گیا۔
”لیجیے آگیا نزدیک کہیے کیا کہنا چاہتے ہیں؟“
”کان قریب کیجیے نا۔“ انہو ں نے منہ بنایا۔
پروفیسر سام نے بھی منہ بنایا تاہم وہ ان سے اور نزدیک ہوگیا اور اپنا کا ن ان کے منہ کی طرف کردیا۔
عین اس وقت انسپکٹر جمشید نے ایک عجیب حرکت کی۔
وہ عجیب حرکت یہ تھی کہ انسپکٹر جمشید نے پروفیسر سام کی گردن کے گرد اپنا دایاں بازو کس دیا تھا اور بایاں ہاتھ اس کے سر پر اس طرح رکھا کہ جونہی ذرا سا جھٹکا دیں تو اس کی گردن ٹوٹ جائے اور یہ انسپکٹر جمشید کا ایک خاص انداز تھا۔ ایک عجیب داﺅ تھا۔ اس داﺅ سے وہ بڑے سے بڑے ماہر لڑاکے کو قابو میں کرچکے تھے۔ ان کے اس داﺅد کے جواب میں ان کا شکار اگر ذرا بھی حرکت کرنے کی کوشش کرتا تو اس کی گردن ٹوٹ جاتی تھی۔ شکار فوراً محسوس کرلیتا تھا کہ وہ بہت بری طرح پھنس گیا ہے۔
”یہ…. یہ کیا انسپکٹر جمشید ؟ تم نے اپنے ساتھی کو اس طرح کیوں پکڑلیا۔“ بلتان کی حیرت زدہ آواز گونجی۔
”یہ ہمارا ساتھی نہیں، البتہ ہمارے ساتھ یہاں تک آیا ضرور ہے۔ اب یہ اس حالت میں ہے کہ اس کے جسم کو ذرا بھی حرکت ہوئی تو اس کی گردن ٹوٹ جائے گی۔ یہ خود حرکت کرے یا میں حرکت کروں ، ایک ہی بات ہوگی بلکہ تم میں سے کوئی کسی طرح بھی ہم پر وار کرے، اس کی گردن پہلے ٹوٹے گی۔ اگر یقین نہیں تومسٹر ساکا خود اس سے پوچھ لو۔“
”کیا …. کیا کہا مسٹر ساکا؟“ وہ بری طرح اچھلا۔
”ہاں! تم بلتان نہیں ہو ساکا ہو۔ ہمارے ملک کا ایک بڑا جرائم پیشہ تم سے میری ملاقات ایک کیس کے سلسلے میں ہوچکی ہے، لیکن تم میرے ہاتھ سے بچ کر نکل گئے تھے۔ میں چونکہ اس وقت تمہاری آوا ز سنتا رہا ہوں، اس لیے اب جب میں نے تمہاری آواز سنی تو میرے دماغ میں ایک جھماکا سا ہوا۔ میرے دماغ نے مجھے فوراً بتایا کہ یہ شخص بلتان نہیں ساکا ہے۔ ایک مقامی جرائم پیشہ کیوں میں غلط تو نہیں کہہ رہا؟“
”نہیں! تم بالکل ٹھیک سمجھے۔“ اس نے ہنس کر کہا۔
”خوب! تم نے اتنی بات تو مانی۔ اب اپنے ساتھیوں کو حکم دو، وہ درختوں سے نیچے آجائیں لیکن نیچے آنے سے پہلے اپنے پستول اور رائفلیں گرادیں۔“
”کیا آپ پاگل ہوگئے ہیں انسپکٹر جمشید۔“ ساکا غرایا۔
”نہیں البتہ تم لوگوں کو پاگل کردینے کا ارادہ ہے اور وہ تم آج ضرور ہوگے۔“
”کیا اِدھر اُدھر کی ہانک رہے ہو؟ پروفیسر سام کو چھوڑ دو۔ تم لوگ پوری طرح ہماری زد پر ہو۔ ایک پل میں سب کے سب تڑپتے نظر آﺅگے۔“
”اس میں شک نہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے ساتھ پروفیسر سام بھی تڑپتے نظر آئیں گے۔“
”تو کیا ہوا ہماری بلا سے۔ آجائیں تڑپتے نظر۔“ساکا بولا۔
”تب پھر اپنے ساتھیوں کو حکم دوکہ وہ ہم پر فائرنگ شروع کریں۔ ہم پوری طرح ان کی زد پر ہیں نا؟فائرنگ شروع کرنا ان کے لیے کیا مشکل ہے شروع کریں۔“
”لگتا ہے آپ واقعی پاگل ہوگئے ہیں۔ بھلا ہمیں پروفیسر سام کی کیا پروا؟ تم لوگو ںکے ساتھ یہ بھی مرتے ہیں تو ہمیں کیا۔“
”اسی لیے تو کہہ رہا ہوں اپنے ساتھیوں سے کہو ہم پر فائرنگ کریں۔“
”یہ حکم تو خیر مجھے دینا ہی ہے، لیکن….“ ساکا کہتے کہتے رک گیا۔
”لیکن کیا…. یہ لیکن اٹک کیوں گیا؟“ فاروق کی شوخ آواز سنائی دی۔ اب صورت حال ان کی سمجھ میں بہت تیزی سے آرہی تھی۔
”لیکن…. میں سوچتا ہوں بلاوجہ پروفیسر سام کیوں مارے جائیں؟ آپ انہیں چھوڑ دیں تاکہ ہم فائرنگ شرو ع کرسکیں۔ انہیں ساحل کی طرف جانے دیں۔“
”اب میں اتنا بھی پاگل نہیں۔“ انسپکٹر جمشید ہنسے۔
”کتنے بھی جمشید؟“ خان عبدالرحمن نے حیران ہوکر کہا۔
”یار سمجھا کرو۔“ وہ جھلا کر بولے۔
”اچھی بات ہے، اب سمجھا کروں گا۔“ خان عبدالرحمن نے فوراً کہا۔
”کیا سمجھا کروگے؟“ انسپکٹر جمشید بولے۔ جب کہ ان کی پوری توجہ پروفیسر سام کی طرف تھی۔ وہ ذرا بھی اِدھر اُدھر نہیں دیکھ رہے تھے۔
”جج…. جو تم کہوگے بس وہی سمجھا کروں گا۔“
”انسپکٹر جمشید تم بھی اپنے بچوں کی طرح اِدھر اُدھر کی باتوں میں لگ گئے۔ ہے کوئی تک…. تم پروفیسر سام کو چھوڑتے ہو یا میں فائرنگ کا حکم دوں۔“
”یہی تو میں کہہ رہا ہوں تم فائرنگ کا حکم دے دو۔“
”ضرور تم پاگل ہوگئے ہو۔“ ساکا گرجا۔
”تو پھر تمہیں اس سے کیا؟ میں پاگل ہوگیا ہوں، تمہاری بلا سے۔ میں تو تمہارا دشمن ہوں، تمہارے قابو میں ہوں اور پروفیسر سام کوئی تمہارے سگے رشتے دار بھی نہیں ہیں کہ تمہیں ان کی زندگی کی کوئی پروا ہوگی، تو پھر حکم دو اپنے ساتھیوں کو وہ ہم پر فائرنگ کریں۔“
”اب یہی کرنا ہوگا۔ میں تو بس اس لیے رک گیا تھا کہ بے چارے پروفیسر سام بلاوجہ مارے جائیں گے جب کہ ان کا کوئی قصور نہیں ہے اور ہمیں ان سے کوئی دشمنی نہیں، لہٰذا میں آخر ی بار کہہ رہاہوں پروفیسر سام کو چھوڑ دیں۔“
”اور میں بھی تمہیںآخری بار کہہ رہاہوں کہ فائرنگ کا حکم دو۔“ انسپکٹر جمشید گرجے۔
ان کی گرج نے ان سب کو ہلا کر رکھ دیا، لیکن خود انسپکٹر جمشید نہیں ہلے تھے، اس لیے کہ اگر وہ ہلتے تو پروفیسر سام کی گردن ٹوٹ جاتی۔
”اچھی بات ہے انسپکٹر جمشید! آپ جیت گئے۔ آپ پروفیسر کو چھوڑدیں، ہم آپ سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔“ ساکا نے ڈھیلی ڈھالی آواز میں کہا۔
”انسپکٹر جمشید نے اپنے بال دھوپ میں سفید نہیں کیے۔“انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”کیا کہہ رہے ہیں ابا جان؟ آپ کے بال تو ابھی سفید ہوئے ہی نہیں۔“ فاروق نے حیران ہوکر کہا۔
”اوہ…. معاف کرنا محاورہ درمیان میں ٹپک پڑا۔“
”کیا کہنا چاہتے ہیں انسپکٹر جمشید؟“ ساکا نے جھلائے ہوئے اندا ز میں کہا۔
”با ت تو جتنی بھی ہوگی اسی حالت میں ہوگی یعنی پروفیسر سام کو چھوڑے بغیر۔“
”اوکے…. آپ کیا چاہتے ہیں؟“ساکا کی آواز اور ڈھیلی ہوگئی۔
”ہاں! اب آپ آئے سیدھے راستے پر…. درختوں پر جتنے لوگ موجود ہیں ان سب سے کہو اپنی رائفلیں اور پستول نیچے گرادیں۔ اگر کسی کے پاس بھی پستول یا رائفل نظر آئی تو ہم اسے نہیں چھوڑ یں گے۔“
”گرادو بھئی….نیچے۔“ ساکا بولا۔
”یہ کیا؟ یہ صاحب توپروفیسر سام کو بچانے کے لیے آپ کی ہر بات ماننے کے لیے تیار ہوگئے کمال ہے۔“ محمود نے حیران ہوکر کہا۔
”اسی کو کہتے ہیں انقلاب زمانہ۔“ انسپکٹر جمشید ہنسے۔
”یہ تو کمال ہوگیا جمشید…. لیکن یہ ہو کیسے گیا؟“ پروفیسر داﺅد کے لہجے میں حیرت تھی۔
”ساکا کے چہرے کی طرف دیکھ لیں۔“
”ساکا کے چہرے کی طرف دیکھ لوں کیا وہاں پر لکھا ہے کہ یہ کیسے ہوگیا۔“
”کچھ نہ کچھ تو لکھا نظر آ ہی جائے گا۔“
”اچھی بات ہے جمشید تم کہتے ہو تو دیکھ لیتا ہوں۔ ورنہ اس کی طرف دیکھنے کو جی نہیں چاہتا۔ ارے یہ کیا؟ اس کے چہرے پر تو سیاہی ہی سیاہی نظر آرہی ہے۔“
”بلکہ یوں کہیں کہ کالک ملی نظر آرہی ہے۔“ خان عبدالرحمن بولے۔
”اوہو! سوال تو یہ ہے کہ کیوں؟ پروفیسر سام کی ان لوگوں کے نزدیک کیا اہمیت ہے؟“ فاروق نے جھلائے ہوئے اندا ز میں کہا۔
”ابھی تک رائفلیں نہیں گرائی گئیں۔“ انسپکٹر جمشید کی سرد آواز لہرائی۔
”گراتے کیوں نہیں۔“ ساکا چلایا۔
رائفلیں اور پستول نیچے گرنے لگے۔
”تم لوگ حرکت میں آجاﺅ۔ تمام رائفلوں اورپستولوں کو خالی کرکے دور پھینک دو۔ اس قدر دور کہ اس سے زیادہ دور نہ پھینک سکو۔“
”جی اچھا۔“ وہ بولے۔
اور انہوں نے اپنا کام شروع کردیا۔ جلد ہی میدان رائفلوں اور پستولوں سے پاک ہوگیا۔
”اب ان لوگوں سے کہو کہ نیچے آجائیں۔“
”نیچے آجاﺅ۔“ ساکا بولا۔
ان لوگوں نے درختوں سے رسیوں کی سیڑھیاں لگائی ہوئی تھیں۔ فوراً ہی وہ ان کے ذریعے نیچے اترتے نظر آئے۔
”فاروق ان رسیوں کو کاٹ کر نیچے گرادو۔“
”جی اچھا۔“
فاروق نے وہ چاقو اٹھالیاجو میدان میں پڑا تھا اور اس کو لے کر درخت پر چڑھ گیا۔ اس طرح اس نے رسیاں کاٹ ڈالیں۔
”اب ان رسیوں سے ان لوگوں کو باندھنا شروع کردو۔“
وہ اس کام میں لگ گئے۔ جب سب کو باندھ لیا گیا تو انسپکٹر جمشید نے کہا:
”مسٹر ساکا! اب تم خود کو بندھوالو۔“
”اچھی بات ہے۔“
انہوں نے اسے بھی باندھ دیا۔
”میں اس کی گردن پکڑے رہوں گا۔تم لوگ اسے بھی رسیوں سے باندھ دو۔“
”آپ کا مطلب ہے پروفیسر سام کو ۔“ مارے حیرت کے محمود کے منہ سے نکلا۔
”ہاں! پروفیسر سام کو۔“
”تت…. تو یہ بھی ان کا ساتھی ہے۔“ فاروق چلا اٹھا۔
”بہت دیر بعد سمجھے…. جب میں نے خان عبدالرحمن کی گاڑی اڑنے کی خبر سنی تھی، تو میں اس وقت چونکا تھا۔ پھر جب لانچ اڑی تو مجھے یقین ہوگیا کہ یہ سب پروفیسر سام کررہا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ یہ بھی ان کا ساتھی ہے۔ اسی لیے تو ایک ایسے جزیرے کو منتخب کیا گیا جس کے بارے میں ہمیں اس سے رابطہ کرنا پڑا۔ اب کیوں نہ میں تمہیں اس کا اصل نام بھی بتادوں؟“
”جج…. جی …. اصل نام…. آپ…. آپ کامطلب ہے …. جیفر سام اس کا اصل نام نہیں ہے۔“
”نہیں…. جیفر نام کا آدمی تو اس وقت بھی اپنے گھرمیں موجود ہے۔ یہ تو اس کے میک اپ میں ہے۔“
”کیا؟“ مارے حیرت کے ان کے منہ سے نکلا۔
”ہاں ! بالکل یہی بات ہے۔ یہ جیفر سام نہیں ہے۔ اس کے میک اپ میں ہمارا اصل مجرم ہے۔“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”آپ….آپ کا مطلب ہے یہ بلتان ہے۔“ وہ چلا اٹھے۔
”ہاں بالکل…. دراصل ہمارا سب سے بڑا دشمن انشارجہ ہمارے ملک کی اہم ترین جگہوں پر اسلامی ذہن کے لوگ پسند نہیں کرتا۔ اس بار اس نے بلتان کے ذمے کچھ لوگوں کو ٹھکانے لگانے کا کام لگایا تھا۔ ان میں پہلا نمبر نصیر الدین شاہ کا تھا۔ بلتان جیسے لوگ دور بیٹھ کر اپنا کام کرنا پسند کرتے ہیں، لہٰذا اس نے یہ کام دوسروں سے لینے کا منصوبہ بنایا تھا۔ آٹھ دس خاص خاص آدمیوں کو یہ اسی قسم کی سازشوں کے ذریعے ٹھکانے لگاتا اور فتح کے شادیانے بجاتا انشارجہ چلا جاتا۔ منصوبہ تو بس اتنا سا تھا۔ اب اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ اس کا پہلا ہی شکار ا س کے ہاتھوں سے پھسل جائے گا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ حاجو خان اس کا سارا منصوبہ چوپٹ کردے گا جہاں تک میرا خیال ہے اس نے اس شہر میں پروفیسر جیفر سام کے گھر کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنایاتھا…. جیفر سام انہی کا کارندہ ہوگا، لہٰذا اسی کے مشورے سے اس جزیرے کا نام ہمیں دیا گیا تاکہ ہم اس کے بارے میں معلوم کرنے کے لئے اس کے پاس جائیں اور وہاں سے جیفر سام کے روپ میں بلتان ہمارے ساتھ ہولے۔ جب ہماری گاڑی ساحل سمندر پر بھک سے اڑ گئی تو مجھے بہت حیرت ہوئی کیونکہ پروفیسر داﺅد پہلے ہی گاڑی کو چیک کرچکے تھے اور اس وقت کوئی چیز اس میں نہیں ملی تھی۔ پھر گاڑی میں دھماکا کرنے کا سامان کب رکھا گیا؟ یہ بات مجھے اس وقت سوجھی جب لانچ بھی اسی طرح اُڑ گئی۔ اس وقت مجھے قطعاً کوئی شک نہیں رہ گیا تھا کہ بلتان خود ہمارے ساتھ ہے۔ نتیجہ یہ کہ اس وقت بلتان کا پورا منصوبہ خاک میں مل چکا ہے۔ اس کے تمام ساتھی ہماری قید میں ہیں اور خود یہ موت کے دہانے پر کھڑا ہے۔ لو میں اس کا بھی کانٹانکالے دے رہا ہوں۔“
”واہ! کیا انصاف ہے۔“ایسے میں بلتان نے اپنے جسم کو حرکت دیے بغیر کہا۔
”انصاف…. گو یا تم مجھے ناانصافی کا طعنہ دے رہے ہوبھلا وہ کیسے؟“
”دھوکے سے مجھے قابو میں کرلیا۔یہ کیا بہادری ہے؟ مزہ تو تب تھا جب مجھے مقابلے کے لیے للکارتے۔ میری تمہاری جنگ ہوتی پھر میں تمہیں بتاتا، تم کتنے پانی میں ہو۔“
”یہ بات وہ شخص کہہ رہا ہے جس نے اس وقت تک صرف اور صرف دھوکے سے کام لیاہے۔ ہماری گاڑی اڑا دی، لانچ اڑادی اور اس سے پہلے حاجوخان کو دھوکا دیا۔ اب یہ صاحب مجھ سے مطالبہ کررہے ہیں کہ میں انہیں باقاعدہ مقابلہ کرکے شکست دوں۔ واﺅ کیا خوب۔“
”گویا تم مجھے اسی طرح ہلاک کردینا چاہتے ہو۔“
”ہاں بالکل! میں دشمن کو بلاوجہ موقع دینے کے حق میں نہیں۔ تم میرے ذاتی دشمن نہیں ہو میر ے ملک کے دشمن ہو ، میری قوم کے دشمن ہو۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اسلام کے دشمن ہو۔ اب دیکھو نا میں بہادری کے گھمنڈ میں تمہاری گردن چھوڑ دوں اور تم سے کہوں آﺅ کرو مجھ سے مقابلہ اور مقابلے میں جیت جاﺅ تم، تو یہ نقصان کس کا ہوگا؟ مجھے تو یہ نقصان پہنچے گا کہ میں تمہارے ہاتھوں مارا جاﺅں گا یا شدید زخمی ہوجاﺅں گا اور میرے بچے تمہارے ہاتھوں مارے جائیں گے۔ میرے ساتھی بھی مارے جائیں گے۔ غرض ہم سب ختم ہوجائیں گے۔ بات صرف یہاں تک ہوتی، تو بھی میں تمہاری خواہش پوری کرتااور تم سے دو دو ہاتھ کرتا، لیکن خطرہ بس یہ نہیں اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ ہے کہ تم اسلام کے دشمن ہو۔ ہمارے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرتے ہو، لہٰذایہ تم جاری رکھوگے اور اگر ایسا ہوا تو یہ میری اس بہادری کے گھمنڈ کا نتیجہ ہوگا۔ بات یہ ہے کہ میں دشمن کو مہلت دینے کا قائل نہیں۔ ہاں اس کی ایک صورت ہے۔“
”ایک صورت…. اور وہ کیا؟“ بلتان کی آواز میں تجسس تھا۔
”وہ یہ کہ تم میرے ایک سوال کا جواب دے دو۔“
”کک…. کیسا سوال؟“
”بالکل آسان سا سوال ہے۔ یہ بتادو کہ ہم سب کو ختم کرنے کی صورت میں تم لوگ یہاں سے کس طرف جاتے؟ ظاہر ہے اس جزیرے پر تو رہنے کے لیے انتظام نہیں ہے۔“
بلتان کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزر گیا، وہ کچھ نہ بول سکا۔
”مسٹر بلتان ! تم نے جواب نہیں دیا۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
وہ اب بھی خاموش رہا۔
”واہ جمشید …. تم نے تو کمال کردیا اِسے گنگ کردیا۔
”میں اب اس کی گردن توڑ رہا ہوں کیونکہ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔“
”ٹھیک ہے جمشید…. یہی بہتر ہے۔ سانپ کو چھوڑ دینا عقل مندی نہیں۔“
”ٹھہرو انسپکٹر جمشید ! میں تمہارے سوال کا جواب دے رہا ہوں۔ یہاں پاس ہی ایک اور جزیرہ ہے وہاں میرے بہت سے ماتحت موجود ہیں۔ ان کے پاس ایسی کئی لانچیں ہیں۔“
”خوب بہت خوب! آپ نے دیکھا پروفیسر صاحب۔“ انسپکٹر جمشید چہکے۔
”کک…. کیادیکھا۔“ پروفیسر ہکلائے۔
”یہ کہ ادھر میرا اور اس کا مقابلہ شروع ہوتا، ادھر اس کے ساتھی ہمیں پکڑلیتے اور رائفلیں ہم پہلے ہی یہاں سے بہت دور پھینک چکے ہیں اور وہ سب ان کے ہاتھ لگ جاتیں اور ہم بہت آسانی سے ان کے ہاتھوں مارے جاتے۔ بازی پھر بلتان کے ہاتھ میں رہتی۔“
”ارے باپ رے۔“ پروفیسر داﺅد اور خان عبدالرحمن بوکھلا اٹھے۔ وہ مسکرادیے۔
”پھر اب کیا کرنا ہے جمشید؟“
”بس دیکھتے جاﺅ۔“
”اچھا دیکھتے جائیں گے،ہمارا کیا جاتا ہے۔“پروفیسر داﺅد نے منہ بنایا۔
”چلو بھئی بلتان اپنے ساتھیوں سے کہو وہ ادھر ہی آجائیں۔ وہ بھی یہ مقابلہ دیکھیں گے۔“
”ٹھیک ہے۔“ بلتان نے فوراً کہا۔
”تو دو نا پیغام۔“
”میری جیب سے موبائل نکال کر مجھے دیں۔“ وہ بولا۔
”نمبر بتاﺅ میں دائل کرتا ہوں۔ کیا نام ہے؟ اس ماتحت کا جسے تم ہدایات دوگے۔“
”راجر بوم۔“ وہ بولا۔
”محمود بہت احتیاط سے اس کی جیب سے موبائل نکال لو۔ خود کو اس کی زد سے بچائے رکھنا۔“
”کیا اِس حالت میں یہ صاحب مجھ پر حملہ کرسکتے ہیں؟“
”نہیں…. لیکن ہوشیار رہنا اچھا ہے۔“
”جی اچھا۔“
محمود نے موبائل اس کی جیب سے نکال لیا۔ پھر اس سے نمبر پوچھا۔ اس نے جونہی نمبربتایا۔ انسپکٹر جمشید نے اس کے جسم کو زو ر دار جھٹکا دیا…. اس کے منہ سے ایک دل دوز چیخ نکل گئی۔
”یہ …. یہ آپ نے کیا کیا؟ اسے ختم کردیا۔“ فاروق بول اٹھا۔
”نہیں ! بے ہوش کیا ہے۔“
اب وہ خان عبدالرحمن کی طرف مڑے اور بولے۔
”خان عبدالرحمن حرکت میں آجاﺅ۔“
”کیا کہا…. حرکت میں آجاﺅں…. کیسے؟“
”سب لوگ ان رائفلوں کو تلاش کرلیں۔ ان میں میگزین بھرلیں اور درختوں کی بہترین انداز میں اوٹ لے لیں۔ دشمن کے ساتھی سیدھے ادھر آئیں گے۔ ان کا نشانہ لینا بھلا کیا مشکل ہوگا۔“
”بہت خوب جمشید!“
اور پھر اس ہدایت پر کام شروع ہوگیا۔ جلد ہی وہ درختوں کے پیچھے پوزیشن لے چکے تھے۔ اب انسپکٹر جمشید نے پروفیسر داﺅ دسے کہا۔
”جن لوگوں کو ہم نے رسیوں سے باندھا ہے، انہیں آپ کوئی چیز سونگھا کر بے ہوش کردیں تاکہ یہ شور وغیرہ کرکے آنے والوں کو خبردار کرنے کی کوشش نہ کریں۔“
”اچھی بات ہے جمشید۔“ وہ مسکرا دیے ۔
جب سب لوگ بے ہوش ہوگئے تو انسپکٹر جمشید نے راجر بوم کے نمبرملائے جونہی اس کی آواز ابھری۔ انہوں نے حلق سے بلتان کی آواز نکالی۔
”راجر بوم۔“
”یس سر!“ دوسری طرف سے فوراً کہا گیا۔
”ہم نے ان سب کو قابو کرلیا ہے۔ اب تم بے فکر ہوکر آجاﺅ۔“
”اوکے سر۔“
انہوں نے فون بند کیا ہی تھا کہ فاروق نے پریشانی کے عالم میں کہا۔©
”ہم ایک بات نظر انداز کرگئے ابا جان۔“
”اور وہ کیا؟“
ان سب کے منہ سے نکلا۔
”ہم یہ بات نظر انداز کرگئے ہیں کہ ہمارا مقابلہ بلتان سے ہے۔“ محمو د مسکرایا۔
”حد ہوگئی بھلا یہ بات بھی کوئی بھولنے والی ہے؟ بلتان ہمارے سامنے پڑ اہے۔“ فاروق نے منہ بنایا۔
”کیا کہنا چاہتے ہو محمود؟“ انسپکٹر جمشید الجھن کے عالم میں بولے۔
”بلتان نے بھی آخر اپنے منصوبے کا ہر طرح جائزہ لیا ہوگا۔ اس نے یہ اندازہ لگایا ہوگا کہ آپ نے اس کے بارے میں بھانپ لیا تو اس صورت میں وہ کیا قدم اٹھائے گا۔ ایک قدم تو آپ سمجھ گئے لیکن میرا خیال ہے اس نے کوئی اور قدم بھی سوچا ہے یعنی یہ راجر بوم اور اس کے آدمیوں کو ختم کردیتے ہیں۔ بلتان پر بھی قابو پالیتے ہیں تو اس صورت میں آخری داﺅ کے طور پر وہ کیا قدم اٹھائے گا۔“
”ہوں…. تمہارا خیال ٹھیک ہے محمود۔ بلتان نے اس مقام پر شکست کے بعد ضرو رکوئی اور پہلو بچا رکھا ہے۔“
”اور ابا جان ! وہ پہلو یہ ہے کہ جب ہم بلتان اور اس کے ساتھیوں کو لے کر لانچ پر سوار ہوجائیں گے تو اس وقت وہ آخر ی وار ہوگا۔“
”ہوں…. ضرور یہی بات ہے۔“
”بس تو پھر بلتان کو آپ اسی طرح پھر سے قابو میں کرلیں۔“ محمود نے تجویز پیش کی۔
”لیکن جمشید اسے ختم ہی کیوں نہ کردیا جائے۔“پروفیسر داﺅد بولے۔
”ہوں ٹھیک ہے اس کا کانٹانکال ہی دیتے ہیں۔ پھر ہم راجر بوم اور اس کے ساتھیوں کا انتظار کریں گے۔ وہ زد میں آگئے تو ان کا کام بھی تمام کردےں گے۔ اس کے بعد ہم یہیں اسی طرح انتظار کریں گے۔ ان کی لائی ہوئی لانچوں میں ہر گز سفر نہیں کریں گے۔“
”یہ ٹھیک رہے گا۔ بلتان والا موبائل اب ہمارے پاس ہے۔ ہم اس کے ذریعے آئی جی صاحب کو فون کرکے یہاں لانچیں منگوا سکتے ہیں۔“
”ٹھیک ہے جمشید بسم اللہ کرو اور بلتان کاکام تمام کردو۔“
انسپکٹر جمشید اس کی طرف بڑھے ہی تھے کہ بلتان کے جسم میں بجلی کی سی حرکت پیدا ہوئی اور وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ بری طرح چونکے اب ان کے چہروں پر حیرت ہی حیرت تھی۔
”تم سے چوک ہوگئی جمشید۔ میں پوری طرح تمہارے قابو میں تھا۔ مجھے بے ہوش کرنے کے بجائے ختم کردینا چاہیے تھا۔“ وہ ہنسا۔
”اللہ مالک ہے جس نے مجھے تم پر پہلے قابو دیا تھا۔ وہ اب پھر دے دے گا۔“
”اس وقت اور بات تھی میں تمہارے دھوکے میں آگیا تھا۔“
”کوئی بات نہیں آﺅ دو دو ہاتھ بھی ہو ہی جائیں کہ یہی تمہاری خواہش ہے۔ خان عبدالرحمن …. تم اپنا کام کرو۔ راجر بوم اور اس کے ساتھی کم از کم بلتان کی مدد کو نہ پہنچیں۔“
”ٹھیک ہے جمشید ! تم فکر نہ کرو۔“ خان عبدالرحمن کی پرسکون آواز سنائی دی۔
”تم لوگ بھی اپنے انکل کے ساتھ جاﺅ۔“
”یہ…. یہ کیسے ممکن ہے ابا جان!یہاں آپ کے اور بلتان کے دود و ہاتھ ہونے والے ہیں۔“ محمود نے پریشان ہوکر کہا۔
”اور ادھر دشمن آنے والا ہے۔ اگر آنے والوں کو نہ روکا گیا تو بلتان کی طاقت کئی گناہ بڑھ جائے گی، لہٰذا تم دشمن کی طرف توجہ دو۔ پروفیسر صاحب آپ بھی خان صاحب کی مدد کریں۔“
”ٹھیک ہے جمشید ہم چاروں پوزیشن لے لیتے ہیں، لیکن جب تک لانچیں نظر نہیں آجاتیں، اس وقت تک تو ہم رخ پھیر کر لڑائی دیکھ سکتے ہیں۔“ فاروق نے مارے بے چینی کے کہا۔
”ہاں ! اتنی اجازت ہے، لیکن تم خود لڑائی میں دخل اندازی نہیں کروگے۔ یہ مقابلہ صرف میرے اور بلتان کے درمیان ہوگاسمجھ گئے۔“
”جی ہاں ! وہ ایک ساتھ بولے۔
”چاہے میری پوزیشن کچھ بھی کیوں نہ ہوجائے۔ تم اپنی جگہ سے نہیں ہلوگے….تم نے سنا …. میں نے کیا کہا ہے۔“
”جی ….جی ہاں ۔“ وہ بولے۔
ایسے میں انہوں نے بلتان کو ہوا میں اڑ کر ان کی طرف آتے دیکھا۔
”سنبھل کر۔“ وہ چلا اٹھے۔
لیکن ان کے چیخنے سے بھی پہلے انسپکٹر جمشید ایک طرف گرکر لڑھک چکے تھے۔ گویا وہ پوری طرح ہوشیار تھے۔ ادھر بلتان اپنی جھونک میں سیدھا ایک درخت کی طرف آیا اور اگر وہ دونوں ہاتھ آگے نہ کردیتا تو بری طرح درخت سے ٹکرا گیا تھا۔ ساتھ ہی وہ ان کی طرف مڑا۔ اس کے چہرے پر حیرت نظر آئی اوریہ حیرت ضرور وار خالی جانے پر تھی۔
”ابا جان ! لانچیں نظر آرہی ہیں۔“
”بس ٹھیک ہے۔ اب تم لوگوں کی پوری توجہ حملہ آوروں کی طرف ہونی چاہیے۔ ادھر کوئی نہ دیکھے بلکہ خان عبدالرحمن تم ان لوگوں کے ساتھ کافی آگے چلے جاﺅ۔“
”لیکن جمشید….“
”خان عبدالرحمن ! یہاں کسی لیکن کی گنجائش نہیں ہے۔ سنا تم نے۔“ وہ تیز آواز میں بولے۔
”اچھی بات ہے جیسا تم کہوگے ، ہم کریں گے۔“
اور پھر وہ لڑائی کے اس مقام سے آگے بڑھتے چلے گئے۔ اگر چہ ان میں سے ایک کا جی بھی آگے جانے کو نہیں چاہ رہاتھا، لیکن مجبوری تھی۔ حملہ آوروں کو نہ روکا جاتا، تو پھر وہ سب کے سب مارے جاتے۔
”آﺅ بھئی رک کیوں گئے ۔“ انسپکٹر جمشید دونوں بازو پھیلاتے ہوئے بولے۔
”آرہا ہوں لوسنبھالو میرا وار۔“ یہ کہتے ہوئے بلتان پرسکون انداز میں ان کی طرف قدم اٹھانے لگا۔ انسپکٹر جمشید اس پر نظر جمائے اپنی جگہ کھڑے رہے۔پھر جونہی وہ نزدیک پہنچا تو یک دم اونچا اُچھلا۔ اس کے دونوں پاﺅں ان کے سینے کی طر ف آتے نظر آئے۔ وہ فوراً ترچھے ہوگئے اور ساتھ ہی دو ہتڑ چلادیا ۔ ان کے دونوں ہاتھ اس کی کمر پر لگے اور وہ اوندھے منہ گرا۔
”دو وار خالی ہوچکے ہیں۔ بس ایک کی اور مہلت دوں گا۔ تاکہ تم یہ نہ کہومیں نے مقابلہ نہیں کیا۔“
”ٹھیک ہے میرا بھی تیسرا وار فیصلہ کن ہوگا۔ اگر میں اس میں بھی کامیاب نہ ہوسکا، تو اپنی ہار مان لوں گا۔“
یہ کہتے ہی وہ زمین پر گرگیا اور بلا کی رفتار سے ان کی طرف آیا۔ نزدیک آتے ہی اس نے ایک ہاتھ زمین پر رکھا اور پورا جسم گھمادیا۔ انسپکٹر جمشید اس کے اس وار سے بچنے کے لیے اوپر اُچھل گئے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح اس کا جسم نیچے سے نکل جائے گا، لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ اس کے دونوں پیرا ِن کی پنڈلیو ں سے ٹکراگئے۔ انہیں یوں جیسے ان کے جسم سے جان نکل گئی ہو۔ وہ بے دم سے ہوکر زمین پر اوندھے منہ گرے۔
”انسپکٹر جمشید آپ تو گئے کام سے۔ اب آپ کے باقی ساتھیوں کو ٹھکانے لگانا میرے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہوگا۔“بلتان ہنسا۔
”گویا…. گویا تم مجھے موقع نہیں دوگے جب کہ میں نے تمہیں تین مواقع دیے ہیں۔ جب تم درخت سے ٹکرائے تھے اس وقت میں چاہتا تو ایک ہی وار میں تمہارا کام تمام کرسکتا تھا۔ پھر دوسرے وار کے بعد بھی میرے پا س حملہ کرنے کا وقت تھا اور تیسرا وار تمہارا کارگر رہا۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ تم بھی مجھے تین مواقع دو۔“
”نہیں ! میں ایسا نہیں کروں گا۔ اس حالت میں آپ کی گردن مروڑ دینا میرے لیے آسان ہے۔“
یہ کہتے ہوئے وہ ان کی طرف بڑھا۔ اس کے دونوں ہاتھ ان کی گردن کی طرف آئے۔ انہوںنے اپنی قوت کو جمع کیا اور دائیں ہاتھ کو گھمادیا۔ وہ اس وقت تک پوری طرح ان پر جھک چکا تھا۔ دائیں ہاتھ کا مکا اس کے چہرے پر پوری قوت سے لگا۔ اس کے منہ سے ایک دل دو زچیخ نکل گئی۔وہ بری طرح لڑکھڑایا اور دھڑام سے گرا۔ ساتھ ہی انسپکٹر جمشید اس پر جا پڑے اور اس کی گردن بازو کی گرفت میں لے لی۔ بالکل ایسی طرح جیسے وہ پہلی با رقابو میں آیا تھا۔
”بلتان! اب کیا کہتے ہو؟“
اس کے منہ سے کچھ نہ نکل سکا۔ دوسرے ہی لمحے انہوں نے اس کی گردن کو جھٹکا دیا۔ اس کے منہ سے آخری چیخ نکلی اور وہ ساکت ہوگیا۔ وہ اسے اسی طرح پکڑے بیٹھے رہے کہ کہیں مکر نہ کررہا ہو اور زندہ نہ ہو، لیکن اس کی گردن ٹوٹ چکی تھی۔ آخر اس کی موت کا یقین ہوجانے پر وہ اسے چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے ۔ ایک نظر اس کے بے جان جسم پر ڈالی۔ اس کی کھلی آنکھوں سے وحشت ٹپک رہی تھی۔
وہ مڑے اور اپنے ساتھیوں کی طرف چل پڑے۔ دور سے انہیں لانچیں صاف نظر آئیں۔ اپنے ساتھیوں کے نزدیک پہنچ کر انہوں نے ایک درخت کی اوٹ لے لی کہ کہیں ان کے ساتھی انہیں دشمن خیال کرتے ہوئے فائر نہ کردیں۔ پھر وہ پرسکون آواز میں بولے۔
” میں بھی اب تمہارے ساتھ موجود ہوں۔“
”بلتان کا کیا بنا؟“ وہ ایک ساتھ بولے۔
”اللہ کی مہربانی سے مارا گیا۔“
”یا اللہ تیرا شکر ہے۔“
آخر لانچیں ساحل سے آلگیں ۔ بلتان کے ماتحت ساحل پر اترنے لگے۔ پھر بے فکری سے آگے بڑھنے لگے کیونکہ انہیں تو یہی معلوم تھا کہ ان کا راستہ صاف ہے جونہی وہ زد میں آئے۔ انہوں نے فائر کھول دیا۔
دیکھتے ہی دیکھتے وہ خاک اور خون میں تڑپتے نظر آئے۔ ان میں سے ایک بھی نہ بچ سکا۔
دو گھنٹے بعد پولیس کی لانچیں جزیرے کو گھیر چکی تھیں او ر وہ ایک لانچ پر ساحل کا رخ کررہے تھے۔
”اللہ کا شکر ہے ایک سازشی سے تو نجات ملی۔“ محمود کی آواز سنائی دی۔
”لیکن ہمارے ملک میں ایسے سازشیوں اور غداروں کی کیا کمی ہے۔ جلد ہی کسی اور سے ملاقات ہوجائے گی۔“ فاروق نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا۔
اور وہ مسکرانے لگے۔
٭….٭….٭
”ہاں! کیوں نہیں۔ مجھے آج کل پیسوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ آپ بس کام بتائیں۔“ حاجو خان نے کر کہا۔
وہ پراسرار آدمی اس سے جب بھی کوئی کام لیتا تھا، پہلے اسے ایک خط لکھتا تھا۔ اس خط میں ایک چابی ہوتی تھی۔ وہ چابی لے کر اس کی بتائی ہوئی عمارت تک پہنچ جاتا۔ عمارت کے دروازے پر لگا تالا اس چابی سے کھل جاتا تھا۔ عمارت کے ایک کمرے میں اسے اس پراسرار آدمی کی آواز سنائی دیتی تھی۔ اُ سے جو کام لینا ہوتا ، وہ اس کی تفصیل بتاتا تھا۔ معاوضے کی رقم بھی اس کمرے میں میز کی دراز سے مل جاتی تھی۔
وہ پراسرار آدمی آج تک ا س کے سامنے نہیں آیا تھا۔ پہلی مرتبہ بھی اس نے اس طرح اس کے نام ایک خط لکھا تھا۔ اس میں چابی تھی اور اس عمارت کا پتا جس میں اسے جانا تھا اور یہ ہدایات لکھی تھیں کہ وہ کسی کو کچھ بتائے بغیر اگر وہاں آجائے تو اس سے ایک بہت آسان سا کام لیا جائے گا اور معاوضہ دس ہزارو روپے بیٹھے بٹھائے مل جائے گا۔
اور واقعی وہ کام بہت آسان تھا۔ بس دفتر کے ایک آدمی کا قلم چرانا تھا۔ اس نے قلم چرا کر اس عمارت تک پہنچا دیا اور اپنے دس ہزار کھرے کرلیے۔ اس بات کو جب ایک ماہ گزر گیا اور پھر اس پراسرار آدمی کا فون نہ آیا تو اسے بے چینی محسوس ہونے لگی۔ وہ چاہنے لگا کہ اس کا فون آجائے اور وہ اس سے کوئی کام لے اور اسے دس ہزار اور مل جائیں۔ آخر ڈیڑھ ماہ بعد اس کا خط آ گیا۔ اس نے ایک اور چھوٹا سا کام اس سے لیا اور اسے دس ہزار مل گئے۔
اس وقت تک وہ اس سے ایسے کتنے ہی کام لے چکا تھا۔ وہ ایک سرکاری دفتر میں چپراسی تھا چوں کہ سب سے اعلیٰ افسر کا چپراسی تھا، اس لیے دوسرے آفیسرز کے کمروں میں اس کا روز کا آناجانا تھا۔
ان حالات میں قلم جیسی چیزیں پارکردینا اس کے لیے ذرا بھی مشکل کام نہیں تھا۔
”ہاں تو حاجو! اس مرتبہ تم اپنے آفیسر کی گھڑی چراکے لاﺅگے۔ یہ کام تمہارے لیے مشکل تو نہیں ہوگا۔“ آواز آئی۔
”جی…. جی نہیں ۔ مشکل تو نہیں ہوگا، لیکن ان کی گھڑی بہت قیمتی ہے، لہٰذا وہ سب سے باری باری پوچھیں گے اور جب نہیں ملے گی تو پولیس کو بلالیں گے۔ پولیس ہم جیسوں سے سوالات ضرور کرے گی۔ آپ جانتے ہی ہوں گے کہ پولیس کے سامنے اپنے چہرے کے تاثرات کو معمول پر رکھنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ میرا بدلتا ہوا رنگ دیکھ کر انہیں مجھ پر شک ہوجائے گا اور آخر کار وہ مجھ سے اگلوالیں گے۔ پھر یہ ہوگا کہ میں انہیں یہاں تک لاﺅں گا۔ آگے کیا ہوگا؟ مجھے پتا نہیں، لیکن میرے حق میں بہرحال اچھا نہیں ہوگا۔“ یہاں تک کہہ کر حاجو خاموش ہوگیا۔
”تم اپنی بات پوری کرچکے۔“ ناخوش گوار آواز سنائی دی۔
”جی ہاں بالکل۔“
”میز کی دراز کھولو۔“
اس نے میز کی دراز کھولی تو چونک اٹھا۔ دراز میں ایک گھڑی رکھی تھی۔
”یہ…. یہ کیا جناب اس میں تو گھڑی موجود ہے۔“
”ہاں! یہ گھڑی جیب میں ڈال لو…. اپنے آفیسر کی گھڑی اٹھا کر اس کی جگہ یہ والی رکھ دینا۔ اس طرح نہ تو انہیں کوئی شک ہوگا نہ پولیس آئے گی اور نہ تم سے کوئی پوچھ گچھ ہوگی۔ اس سے اندازہ لگا لو مجھے تمہارا کتنا خیال ہے۔“
”وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے؟“ حاجو خان نے حیران ہوکر کہا۔
”کیا کیسے ہوسکتا ہے؟“
”بھلا گھڑی تبدیل ہونے کا انہیں کیوں پتا نہیں چلے گا۔“
”اس لیے کہ یہ گھڑی انہوں نے ابھی کل ہی خریدی ہے۔ لہٰذا اس دکان سے بالکل اسی جیسی گھڑی خریدنا کیا مشکل بات تھی۔“
”اب میرے لیے اور زیادہ حیرت کی بات ہوگئی۔ آخر آپ اس گھڑی کا کیا کریں گے۔“
”حاجو خان! تم سوالات بہت کرنے لگے ہو۔ اب میں اس قسم کے آسان سے کام کسی اور سے لیا کروں گا۔“
”نن…. نہیں سر…. نہیں۔“ وہ کانپ گیا کیوں کہ وہ ایسے چھوٹے چھوٹے کاموں کے دس دس ہزار روپے کئی بار وصول کرچکا تھا اور کمائی کے اس ذریعے سے ہاتھ نہیں دھونا چاہتا تھا۔
”اچھا تو پھر جاﺅ وہ گھڑی لاکر یہیں رکھ دینا۔ تمہارا معاوضہ اسی دراز سے تمہیں مل جائے گا۔“
”جی اچھا۔“
گھڑی جیب میں ڈال کر وہ باہر نکل آیا، لیکن آج وہ حد درجے الجھن محسوس کررہا تھا کیوں کہ یہ چکر اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ سمجھ میں تو اس شخص کی کوئی بات پہلے بھی نہیں آئی تھی، لیکن گھڑی والے معاملے نے اسے کچھ زیادہ ہی الجھن میں ڈال دیا تھا۔ اس سے پہلے جب ایک آفیسر کا قلم اس نے چوری کرایا تھا تو اس نے بہت الجھن محسوس کی تھی۔ بھلا کوئی کسی کا قلم دس ہزار روپے خرچ کرکے کیوں چوری کرانے لگا؟ وہ اس سے کیا فائدہ اٹھا سکتا تھا؟ اسی طرح کی چند اور چیزیں اس نے دفتر کے لوگوں کی چوری کروائی تھیں۔ اب معاملہ ذرا مختلف تھا۔ اسے گھڑی اٹھا کر بدلے میں دوسری گھڑی رکھنا تھی۔ اس کے آفیسر کی عادت تھی کہ میز پر بیٹھتے ہی گھڑی اتار کر رکھ دیتے تھے اور پھر جانے کے وقت ہی پہنتے تھے۔ ان حالات میں اس کے لیے یہ کام بہت آسان تھا کیوں کہ آفیسر کئی بار اٹھ کر ادھر اُدھر جاتے تھے، لیکن وہ سوچ رہا تھا کہ بدلے میں رکھی جانے والی گھڑی میں نہ جانے کیا بات ہوگی اور وہ نامعلوم آدمی اس طرح کیا کرنا چاہتا ہے۔ ان باتوں نے اس کی الجھن میں اضافہ کردیا تھا۔
٭….٭….٭
دوسرے دن پروگرام کے مطابق وہ اس کمرے کا تالا کھول کر اندر داخل ہوا تو گھڑی اس کی جیب میں موجود تھی۔ اس نے دراز کھولی تو وہاں دس ہزار روپے موجود تھے۔ اس نے دھک دھک کرتے دل کے ساتھ گھڑی وہاں رکھ دی اور نوٹ جیب میں رکھ لیے۔
”میں نے گھڑی رکھ دی ہے۔“ اس نے منہ اوپر اٹھا کر کہا، لیکن اس شخص کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔ اس کا مطلب تھا، وہ اس وقت اس مکان میں نہیں تھا، چنانچہ وہ باہر نکل آیا اور دروازے کو تالا لگا کر اپنے گھر چلا آیا۔
دوسرے دن صبح سویرے ناشتے سے پہلے وہ اخبار دیکھ رہا تھا کہ بہت زور سے اچھلا، اس کی آنکھیں مارے خوف کے پھیل گئیں۔
عین اس وقت اس کے فون کی گھنٹی بجی۔ اس نے لرزتے ہاتھوں سے فون اٹھایا تو دوسری طرف سے اسی پراسرار آدمی کی آواز سنائی دی۔
”حاجو خان۔“
”جج…. جی جناب۔“
”یہ تم نے اچھا نہیں کیا۔“
”کیا…. کیا مطلب؟“
”ایسا کرکے تم نے اپنے پاﺅں پر کلہاڑی ماری ہے۔“
”وہ کیسے؟“
”تم نے میری ہدایات پر عمل نہیں کیا جو گھڑی میں نے تمہیں دی تھی۔ وہ تم نے اپنے آفیسر کی میز پر نہیں رکھی اور اس کی گھڑی اٹھا کر اس مکان میں نہیں رکھی بلکہ تم نے مکان میں وہی گھڑی رکھ دی جو میں نے تمہیں دی تھی۔ تم نے ایسا ہی کیا ہے نا۔“
”ہاں! اس لیے کہ مجھے خوف محسوس ہوا تھا۔میں ڈر رہا تھا کہ نہ جانے اس گھڑی کی وجہ سے آفیسر صاحب کے ساتھ کیا معاملہ ہوجائے لہٰذا میں نے ایسا کیا۔ مجھے خوشی ہے کہ آفیسر بچ گئے اور وہ مکان تباہ ہوگیا۔“
”لیکن…. اب تم کس مشکل میں پھنس گئے ہو یہ ابھی تمہیں معلوم نہیں۔ آج ہی کسی وقت تم جان لوگے۔“
ان الفاظ کے ساتھ ہی فون بند ہوگیا۔ اس کا رنگ اڑ گیا اور جسم سے جان نکلتی محسوس ہوئی۔ اس نے سوچا وہ آج دفتر نہیں جاسکے گا، چنانچہ اس نے دفتر فون کردیا اور طبیعت خراب ہونے کا بتا کر چھٹی کرلی۔ اب بھی اس کا دل دھک دھک کررہا تھا۔ اس کی بیوی اور بیٹی اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہوگئیں۔
”کیا بات ہے؟ آپ کو کیا ہوگیا ہے۔ تھوڑی دیر پہلے تو آپ بالکل ٹھیک ٹھاک تھے۔ مزے سے ناشتا کررہے تھے۔ پھر اخبار دیکھ کر آپ گھبراگئے اور اس کے بعد یہ فون سن کر آپ کی حالت اور خراب ہوگئی…. بات کیا ہے؟“
اس نے ان دونوں کی طرف خالی خالی نظروں سے دیکھا اور کتنی ہی دیر دیکھتا رہا…. پھر بولا:
”مجھ سے ایک بہت خوفناک غلطی ہونے لگی تھی۔ اللہ نے مجھے اس سے بچالیا، لیکن اب پریشانی آکر رہے گی۔“
”بات کیا ہے؟ آپ پوری بات بتائیں۔“ بیوی گھبرا گئی۔
وہ انہیں تفصیل سے سنانے لگا کیوں کہ اس نے سوچا تھا کہ بات تواب ویسے بھی نکل کر رہے گی کیوں نہ انہیں بتا کر دل ہلکا کرے۔ جونہی اس نے بات پوری کی۔ اس کا بیٹا بہت زور سے چونکا اور چلایا©:
”جلدی کریں آئیں میرے ساتھ۔“
”لیکن کہاں؟“ وہ گھبرا گیا۔
”ان باتوں کا وقت نہیں ہے جلدی کریں۔“
دوسرے ہی لمحے وہ ایک ٹیکسی میں بیٹھے اڑے جارہے تھے اور یہ ٹیکسی ایک صاف ستھرے گھر کے سامنے رکی۔ لڑکا اچھل کر ٹیکسی سے باہر نکلا اور اس نے دروازے کی گھنٹی بجادی۔ دروازہ کھلا اور ایک خوبصورت سا، شوخ سا لڑکا نظر آیا۔ یہ فاروق تھا۔ اسے دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔
”ارے اجمل تم!“ اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
”السلام علیکم۔“
”وعلیکم السلام کہو خیریت تو ہے؟“
”خیریت نہیں ہے۔ ہم…. ہمیں …. انسپکٹر صاحب سے ملنا ہے….۱ ابھی اسی وقت۔“
”آپ اندر آجائیں۔“
”بہت بہت شکریہ۔“
اجمل اندر داخل ہوا۔ ادھر محمود نے اسے دیکھا، تو اس کے منہ سے بھی نکلا۔”ارے اجمل تم!!“
”ہاں محمود …. میں۔“ اجمل نے اٹک اٹک کر کہا۔
”خیر تو ہے اجمل…. بہت پریشان ہو۔“ محمود نے پوچھا۔
”جج…. جی ہاں۔“
”محمود تمہارے دوست ضرورت سے کچھ زیادہ پریشان ہیں۔ میرا خیال ہے مجھے بھی ٹھہرجانا چاہیے، کہیں انہیں میری ضرورت نہ ہو۔ آیئے تشریف رکھیے۔“ انسپکٹر جمشید نے اجمل کو بغور دیکھتے ہوئے کہا۔
”وہ…. آپ…. آپ بہت اچھے ہیں۔“
”شکریہ۔“ انسپکٹر جمشیدمسکرائے۔
”ڈرائنگ روم میں میرے والد صاحب موجود ہیں۔“ اجمل بولا۔
”پہلے آپ بات بتائیں پھر ان سے ملاقات کروں گا۔“ انسپکٹر جمشید نے کہا۔
”یہ آپ نے کس لیے کہا؟“ محمود کے لہجے میں حیرت در آئی۔
”بس یونہی…. آپ بات بتادیں۔“
اب اجمل نے پوری بات تفصیل سے بتادی۔ انسپکٹر جمشید چند لمحے تک سوچ میں غرق رہے پھر اس سے بولے:
”اچھی بات ہے آپ یہیں ٹھہریں۔ میں اکیلا ان سے بات کروں گا۔“
”جی اچھا۔“ اجمل نے قدرے پریشان ہوکر کہا۔
انسپکٹر جمشید ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے بولے:
”السلام علیکم حاجو خان صاحب۔“
”جج…. جی …. وعلیکم السلام۔“ وہ اٹھتے ہوئے بولا۔ چہرے پر گھبراہٹ ہی گھبراہٹ تھی۔
”بچے سے میں نے تفصیل سنی ہے۔ آپ محکمہ اطلاعات میں ہیں۔“
”جی ہاں۔“
”اس نامعلوم شخص سے تو ہم لوگ آپ کو بچانے کی کوشش کریں گے اور ان شاءاللہ آپ کو اس کی طرف سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، لیکن جو جرم آپ کرچکے ہیں، میں آپ کو اس کی معافی نہیں دلاسکوں گا۔ اب یہ عدالت کا معاملہ ہے کہ وہ آپ کو کیا سزا دے گی۔“
یہ بھی بہت ہے کہ آپ مجھے اس شخص سے بچانے کی کوشش کریں گے۔“ اس نے مریل آواز میں کہا۔
”خوب ! اب ذرا آپ شروع سے بتائیں۔ اس نے آپ سے کس طرح رابطہ کیا۔“
”جی میں عرض کرتا ہوں پہلی بار ا س نے مجھے ایک خط لکھا تھا۔ خط میں ایک چابی تھی۔ اس نے لکھا تھا، میں تمہارے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں۔ مالی مشکلات میں مبتلا ہو، کوئی مدد کرنے والا نہیں، لیکن میں تمہاری بہت اچھے طریقے سے مدد کرسکتا ہوں۔ پتا لکھ رہا ہوں، اس پتے پر آجاﺅ۔ چابی سے تالا کھول کر میرا نتظار کرنا، میں جلد ہی آجاﺅں گا۔“ یہ خط پڑھ کر اور چابی دیکھ کر میں بہت حیران ہوا اور پھر یہ الجھن مجھے وہاں لے گئی کہ آخر یہ شخص چاہتا کیا ہے۔ وہاں یہ شخص میرے سامنے نہیں آیا بلکہ میں نے اس کی آوا ز سنی۔ اس نے مجھ سے کہا:” ایک چھوٹا سا کام ہے۔ تم اپنے دفتر کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر فیاض حامد کا پین مجھے لاکر دے دو، میں تمہیں اتنے سے کام کے دس ہزار روپے دوں گا، کیوں کیا خیال ہے؟“ اب آپ خود سوچیں میں ٹھہرا محکمہ کے ڈائریکٹر نصیر الدین شاہ صاحب کا چپراسی۔ مجھے تو ہر کمرے میں جانا آنا پڑتا ہے اور اس قسم کی چیز اٹھا کر جیب میں رکھ لینا میرے لیے بھلا کیا مشکل کام ہوسکتا ہے۔ میں حیران تو بہت ہوا، لیکن دس ہزار کا لالچ میری حیرت پر چھا گیا اور میں نے یہ کام کرنے کی حامی بھرلی۔ میرا جواب سن کر اس نے کہا۔”بس تو پھر تم وہ قلم کل لے کر یہیں آجانا۔ تمہیں دس ہزار روپے مل جائیں گے۔ سو میں وہاں قلم لے گیا۔ اس کی آواز سنائی دی کہ میز کی دراز کھول کر قلم اس میں رکھ دو اور اس میں سے دس ہزار روپے لے لو۔ بس میں نے ایسا ہی کیا۔ دو ماہ بعد اس کا خط پھر مجھے ملا۔ اس میں پھر چابی تھی۔ میں حیران ہوا، اس بار اس نے ہیڈ کلرک سلیم راشد صاحب کا لائٹر منگوایا تھا۔ میں نے ان کا لائٹر بھی وہاں پہنچادیا۔ اس طرح مجھے دس ہزار اور مل گئے۔ پھر ڈیڑھ ماہ بعد اس کا خط ملا۔ اس بار اس نے نصیرالدین شاہ صاحب کی ردی کی ٹوکری کے کاغذات منگوائے تھے۔ میں نے وہ بھی وہاں پہنچادیے۔ اب یہ چوتھا موقع تھا۔ اس بار اس نے کہا تھا کہ اپنے آفیسر کی گھڑی چرا کر وہاں پہنچادوں۔ اس پر میں نے کہا کہ ان کی گھڑی تو بہت مہنگی ہے۔ دفتر میں شور مچ جائے گا۔ پھر پولیس آئے گی اور وہ اگلوالے گی۔ اس طرح میں پھنس جاﺅں گا۔ تب اس نے کہا کہ میز کی دراز میں سے ایک گھڑی اٹھالو۔ یہ اس کی جگہ رکھ دینا کیونکہ یہ بالکل ویسی ہے۔ یہ اور زیادہ الجھن میں مبتلا کردینے والی بات تھی۔ مجھے اور تو کچھ نہ سوجھا۔ میں نے صاحب کی گھڑی تو چرائی نہ اور اسی کی گھڑی دراز میں رکھ دی اور پیسے اٹھا کر لے آیا۔ دوسرے دن وہ مکان دھماکے سے اڑ گیا۔ تب میرے ہوش جاتے رہے۔ یہ گویا نصیر الدین شاہ صاحب کو اڑانے کا پروگرام تھا۔ ادھر ساتھ ہی اس کا فون ملا۔ اس نے مجھے جان سے مار ڈالنے کی دھمکی دی۔ مجھے پریشان دیکھ کر میرا بیٹے مجھے یہاں لے آیا۔ اب میں حاضر ہوں جو جرم مجھ سے سرزد ہوا ہے، میں نے بیان کردیا ہے اور میں اللہ کا شکر ادا کررہا ہوں کہ میں نے وہ گھڑی شاہ صاحب کی میز پر نہیں رکھ دی۔ ورنہ شاید اس وقت….“ یہ کہتے ہوئے وہ کانپ گیا۔
اس کے خاموش ہونے پر انسپکٹر جمشید چند سیکنڈ تک سوچ میں گم رہے۔ پھر انہوں نے کہا۔
”آپ کی حفاظت کی جائے گی۔ آپ پر مقدمہ اس پراسرار شخص کی گرفتاری کے بعد قائم کیا جائے گا۔ فی الحال آپ کو حوالات نہیں بھیجا جاسکتا کیوں کہ ہوسکتا ہے، وہ شخص آپ کو حوالات میں ختم کرانے کی کوشش کرے، لہٰذا میں آپ کو خفیہ جگہ رکھوں گا۔ آپ کے بچے اور گھر والے بھی آپ کے ساتھ رہیں گے۔ آپ مجھے یہ بتائیں کیا آپ کو ہر مرتبہ اسی مکان میں بلایا جاتا تھا یا وہ مکان ہر بار بدل دیتا تھا؟“
”جی نہیں میں ہر بار وہیں جاتا رہا ہوں۔“
”ہوں! اس مکان کا پتا مجھے لکھوادیں۔ ویسے تو وہاں بہت لوگ جمع ہوں گے۔ دور سے ہی پتا چل جائے گا کہ وہ مکان ہے۔“
”جی ہاں! وہ مکان رام گلی نمبر 19میں ہے۔“ اس نے کہا۔
انہوں نے پتا نوٹ کرلیا۔پھر اکرام کے نمبر ملائے۔ وہ آیا تو حاجو خان کو اس کے حوالے کردیاگیا اور ہدایات بھی دیں۔ اکرام اسے لے کر اسی وقت چلا گیا۔ اجمل کو وہیں روک لیا گیا تھا۔ پھر اکرام اس کے والد کو خفیہ ٹھکانہ نمبر ایک میں لے گیا۔ جلد ہی ا س کی واپسی ہوئی۔ اب اس نے اجمل کو ساتھ لیا اور اس کے گھر پہنچا۔ گھر کے افراد کو ساتھ لیا اور خفیہ ٹھکانے پر پہنچ گیا۔ جیپ میں لگے آلات نے اسے اس قابل بنادیا تھا کہ کوئی جیپ کا تعاقب نہیں کرسکتا تھا اور اگر کرتا تو پتا چل جاتا۔
ان کی طرف سے اطمینان ہوجانے کے بعد انسپکٹر جمشید ان سے بولے۔
”میں ذرا اس تباہ شدہ مکان کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ محمود، فاروق کیا تم میرے ساتھ چل رہے ہو؟“
”جی ہاں! کیوں نہیں۔“
وہ اسی وقت گھر سے روانہ ہوئے اور مکان کے سامنے پہنچ گئے۔ پولیس نے اس کے گرد گھیرا ڈالا ہوا تھا۔ مکان اس بری طرح تباہ ہوا تھا کہ بس اب صرف ملبے کا ڈھیر نظر آرہا تھا۔ انہوں نے وہاں موجود ایک حوالدار کی طرف قدم اٹھادیے۔ وہ معمول کے مطابق سادہ لباس میں تھے اور آئے بھی تھے اپنی ذاتی کار میں۔ اس لیے حوالدار نے ان کی طرف لپکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
”کیا معلوم ہوا؟“
”کس بارے میں۔“ اس کا لہجہ کافی اکھڑا تھا۔
”اس دھماکے کے بارے میں۔“ وہ مسکرائے۔
”صا ف ظاہر ہے کسی دہشت گرد کی کارروائی ہے۔“
”مکان تھا کس کا؟“
”آپ ہیں کون؟ سوالات تو ایسے کررہے ہیں جیسے مجھ پر افسر لگے ہوئے ہیں۔“
”نہیں ! میں آپ پر افسرنہیں ہوں۔ ویسے میرا نام انسپکٹر جمشید ہے۔“
”جی!!!“اس کا رنگ اڑ گیا۔
”مکان کے مالک کے بارے میں معلوم ہوا؟“
”جی ہاں! مکان کا مالک اسی محلے میں رہتا ہے۔“
”میں اس سے ملنا چاہتا ہوں۔“
”ابھی یہیں کھڑا حسرت بھری نظروں سے ملبے کے ڈھیر کو دیکھ رہا تھا۔ پھر چلا گیا، اس نے یہ مکان کرائے پر دیا ہوا تھا۔ خوش قسمتی سے کرائے دار اس وقت گھر میں نہیں تھا۔“
”ہوں! مجھے اس کے گھر تک لے چلیں۔“
”آیئے۔“ اس نے کہا اور چل پڑا۔
جلد ہی وہ ایک شان دار مکان کے سامنے پہنچے۔ حوالدار نے گھنٹی کا بٹن دبایا تو فوراً ایک شخص باہر نکل آیا۔
”یہ ہمارے آفیسر ہیں۔ آپ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں۔“
مالک مکان نے جونہی ان کی طرف دیکھا اس کے چہرے پر زلزلے کے آثار طاری ہوگئے۔ ادھر انسپکٹر جمشید کے منہ سے نکلا۔
”باقر شاہ…. تم؟“
دوسرے ہی لمحے انسپکٹر جمشید کے ہاتھ میں پستول نظر آیا۔ وہ سرد آوا ز میں بولے۔
”خبردار! ہاتھ اوپر اٹھا دو۔“
”لیکن کیوں؟ مدت ہوئی میں جرائم کی زندگی چھوڑ چکا ہوں۔ جرائم سے اب میرا دور کا بھی واسطہ نہیں۔“
”میںنے کہا ہے ہاتھ اوپر اٹھاﺅ۔“
اس نے بھنائے ہوئے انداز میں دونوں ہاتھ بلند کرلیے۔
”اب ساکت کھڑے رہنا۔ محمود! اس کی تلاشی لو۔“
”جی اچھا۔“ ا س نے کہا اور جلدی جلدی تلاشی لینے لگا، لیکن اس کے پاس سے کوئی ایسی ویسی چیز برآمد نہ ہوئی۔
”کچھ نہیں ہے ابا جان۔“ محمود بولا۔
”ٹھیک ہے۔ ہاتھ نیچے کرلو اور یہ بتاﺅ تم یہ حرکتیں کیوں کررہے ہو؟“
”جی…. کون سی حرکتیں؟“
”بھئی یہ حاجو خان والی۔“
”میں کسی حاجو خان کو نہیں جانتا۔“
”یہ مکان جو تباہ ہوا…. کیا تمہارا نہیں ہے۔“
”جی بالکل میرا ہے۔ کچھ مدت پہلے میں نے خریدا تھا۔“
”اور یہ مکان جس میں تم رہ رہے ہو۔“ انہوں نے پوچھا۔
”یہ بھی میرا ہے۔ اس میں، میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتا ہوں۔ وہ میں نے اس لیے خریدا تھا کہ کرائے پر چڑھایا کروں گا۔ اس طرح روزی کی ایک صورت بنی رہے گی۔“
”خوب خوب! آج کل کس نے کرائے پر لے رکھا تھا۔“
”ایک صاحب ہیں۔ نصیر جان کچھ ہی دن پہلے انہو ں نے کرائے پر لیا تھا۔ چھے ماہ کا پیشگی کرایہ دیا تھا انہوں نے۔“
”کیا وہ یہاں رہتے بھی رہے ہیں۔“
”وہ تمام دن باہر رہتے ہیں۔ اپنے کام کا ج کے سلسلے میں۔ رات گئے آتے ہیں۔ یہ بات انہوں نے مجھے پہلے ہی بتادی تھی۔ اس لیے ظاہر ہے انہیں کم ہی لوگوں نے دیکھا ہوگا۔“
”ہوں! ان کا حلیہ تو آپ بتا ہی سکتے ہیں۔“انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”جی ہاں! کیوں نہیں۔ وہ لمبے قد کے، دبلے پتلے سے آدمی ہیں۔ رنگ سرخ اور سفید ہے۔ آنکھیں نیلے رنگ کی، ناک بہت باریک سی اور سر کے بال سرخی مائل اور ہونٹ بھی بہت پتلے پتلے سے۔ بس یوں لگتا ہے جیسے دو لکیریں سی ہوں۔“
”کیا؟“ انسپکٹر جمشید مارے خوف کے چلائے۔
انہیں اس حد تک خوف زدہ دیکھ کر محمود، فاروق، خان عبدالرحمن اور پروفیسر داﺅد بھی ساکت رہ گئے۔
”کیا تم نے بالکل درست حلیہ بتایا ہے۔“
”جج…. جی ہاں…. لیکن بات کیا ہے؟ آپ جیسا شخص اور خوف زدہ۔“
”باقر شاہ! تم نے حلیہ اگر درست بتایا ہے اور میرا خیال ہے کہ درست ہی بتایا ہے فرضی نہیں بتایا۔ تب وہ آدمی دنیا کے خطرناک ترین چند لوگوں میں سے ایک ہے اور اس کا ہمارے ملک میں ہونا خطرے کی گھنٹی ہے۔ ظاہر ہے، وہ کسی نیک ارادے سے نہیں آیا۔ اس کا پہلا نشانہ نصیر الدین شاہ تھے، لیکن حاجو خان کی عقل مندی سے وہ بال بال بچ گئے۔ ورنہ اس وقت ہم ان کی لاش کے گرد جمع ہوتے۔ اب جناب باقر شاہ آپ کو ہمارے ساتھ دفتر چلنا ہوگا۔“
”لیکن کیوں؟ میرا اس معاملے سے کیا تعلقہے۔ میں تو بس ایک مالک مکان ہوں اور اس نے مجھ سے میرا مکان کرائے پر لیا تھا۔“
”ہاں! میں مانتا ہوں، لیکن اگر آپ کوئی عام آدمی ہوتے تو یہ بات کہی جاسکتی تھی اور کوئی شک کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی،مگر چونکہ آپ جرائم پیشہ رہے ہیں اس لیے گمان گزرتا ہے کہ اس نے آپ سے باقاعدہ رابطہ کیا ہوگا اور تعاون کرنے کے سلسلے میں کوئی رقم پیش کی ہوگی۔ اب اگر آپ نے اس سے کوئی رقم کرائے کے علاوہ وصول کی ہے….تب تو آپ پھنس گئے ہیں۔ ورنہ ہم آپ کو کچھ نہیں کہیں گے۔ کیا خیال ہے؟“ یہاں تک کہہ کر انسپکٹر جمشید خاموش ہوگئے۔
”ٹھیک ہے میں آپ کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہوں۔ آپ میرے بارے میں اپنا اطمینان کرلیں۔“
وہ اسے دفتر لے آئے۔ انہوں نے اس کے بارے میں جہاں سے بھی ہوسکا، معلومات حاصل کیں، لیکن اس کی کسی مجرمانہ سرگرمی کاپتا نہ چل سکا۔ آخر انہوں نے اسے جانے کی اجازت دے دی۔ تاہم انہوں نے اکرام کو ہدایات دیں کہ ایک آدمی اس کی نگرانی پر مقرر کردیا جائے۔ ابھی انہوں نے اسے رخصت کیا ہی تھا کہ ایک خفیہ کارکن کا فون موصول ہوا۔ وہ خوف زدہ انداز میں کہہ رہا تھا:
”سر! عمارت نمبر 1کے آس پاس کچھ پراسرار لوگ نظر آرہے ہیں۔
”کیا…. نہیں۔“
”یس سر! حاجو خان اور اس کے بیوی بچوں کو اسی عمارت میں رکھا گیا ہے۔“
”نن نہیں…. میں آرہا ہوں۔ سب لوگ ہوشیار ہوجائیں حاجو خان اور اس کے بیوی بچوں کو کچھ ہوا تو مجھے بہت افسوس ہوگا۔ میں نے اس سے کہا تھا تمہاری حفاظت کی جائے گی۔“
”ہم پوری طرح ہوشیار ہیں جناب!“
”ٹھیک ہے ہم پہنچ رہے ہیں۔“
وہ اسی وقت روانہ ہوگئے۔
”لگتا ہے یہ شخص ہمیں سکون کا سانس نہیں لینے دے گا۔ باریک ہونٹوں والے کا نام کیا ہے جمشید…. تم نے اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔“ خان عبدالرحمن بولے۔
”اس کا نام بلتان ہے۔ وہ ایک بین الاقوامی مجرم ہے۔ اس کا ہمارے ملک میں ہونا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ باقر شاہ نے جو حلیہ بتایا ہے وہ اس پر بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔ پھر بھی میری دعا ہے کہ وہ ہمارے ملک میں نہ ہو۔“
”گویا آپ بھی اس سے خوف محسوس کررہے ہیں۔“
”اس سے تو بڑی بڑی حکومتیں خوف کھاتی ہیں۔“
”لیکن وہ خود کس ملک کے لیے کام کرتا ہے؟“
”کسی ملک کے لیے نہیں جو ملک اس سے معاملہ طے کرتا ہے، اس کا منہ مانگا معاوضہ ادا کرتا ہے۔ اسی کے واسطے کام کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے، البتہ….“ یہاں تک کہہ کر وہ رک گئے۔
”البتہ کیا؟“
”البتہ! اس نے آج تک کسی اسلامی ملک کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ جب بھی کیا اسلام دشمن ملکوں کے لیے کیا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام غیر اسلامی ممالک میں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ا س کی بہت عزت کی جاتی ہے۔ ان حکومتوں کے سربراہ اس بات کو مانتے ہیں۔ ایک طرح سے اس کی حالت یہ ہے کہ وہ کسی بھی ملک کے کسی بھی محکمے میں دخل اندازی کرڈالتا ہے اور کوئی اس سے جواب طلب نہیں کرتا۔“
”اس کامطلب ہے وہ خالص اسلام دشمن ہے۔“محمود نے پریشانی کے عالم میں کہا۔
”بالکل…. اس میں کوئی شک نہیں۔“
اسی وقت وہ خفیہ عمارت نمبر 1کے سامنے پہنچ گئے۔ انہوں نے گاڑی سے اتر کر چاروں طرف کا جائزہ لیا اور پھر ان کا رنگ اڑ گیا۔ ان کے منہ سے نکلا:
”حیرت ہے…. کمال ہے۔“
”کک…. کیا مطلب؟ جمشید کیا ہوا۔“پروفیسر داﺅدفوراً بولے۔
”عمارت چاروں طرف سے گھیرے میں ہے۔ پہلی حیرت یہ کہ انہوں نے اس کا سراغ کس طرح لگا لیا،دوسری حیرت یہ کہ ان لوگوں نے عمارت کو اس طرح گھیرے میں لیا ہے کہ وہ تو عمارت پر ہر طرف سے حملہ کرسکتے ہیں اور ہم ان پر وار نہیں کرسکتے۔“
”اوہ…. اوہ….“ ان کے منہ سے مارے خوف کے نکلا۔
”اور ایک تیسری بات۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”اور وہ کیا؟“
”عمارت کے پاس آتے ہی اب ہم بھی پوری طرح ان کی زد میں ہیں۔“
”اوہ۔“ وہ بولے۔
”بالکل ٹھیک کہا انسپکٹر جمشید نے تم بہت ذہین ہو۔ تم سے پہلی ملاقات پر خوشی ہوئی۔“
عمارت کے پاس آواز گونجی۔ انہوں نے ایک بار پھر چاروں طرف کا جائزہ لیا۔
”کیا چاہتے ہو دوست۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”صرف اور صرف ایک ہی مطالبہ ہے میرا تو حاجو خان کو میرے حوالے کردےں اور بس۔“
”پہلے ہم عمارت کے اندر جائیں گے۔ پھر آپ سے بات کریں گے۔“
”ضرور…. ضرور کوئی اعتراض نہیں۔“ ہنس کر کہا گیا۔ اس کی آواز بھی بہت باریک تھی۔
اور پھر وہ عمارت میں داخل ہوگئے۔ اندر خفیہ کارکنوں کے رنگ اڑے ہوئے تھے۔
”حاجو خان اور اس کے بیوی بچے کہاں ہیں؟“
”جی …. آخری کمرے میں۔“
”اوکے…. پروفیسر صاحب آپ کیا چاہتے ہیں؟“
”میں چھت پر جارہا ہوں جمشید تم تیاری مکمل کرلو۔ جونہی تم اشارہ دوگے۔ میں حرکت میں آجاﺅں گا۔“
”بہت خوب! بس ہم چند منٹ لگائیں گے۔“
”اوکے۔“ پروفیسر صاحب نے کہا اور فوراً اوپر کی طرف دوڑے۔
ایسے میں باہر سے آواز آئی۔
”ہاں تو انسپکٹر جمشیدکیا پروگرام ہے؟“
”دو منٹ ٹھہریں۔“
”ٹھہرنے کو تو میں تین منٹ ٹھہر جاﺅں۔“ باہر سے ہنس کر کہا گیا۔
پھر دو منٹ بعد انسپکٹر جمشید نے پروفیسر داﺅد کو اشارہ کیا۔
پروفیسر داﺅد نے پہلے سامنے کی طرف پھر دائیں، پھر بائیں اور آخر میں پچھلی طرف چار ننھی منی سی گیندیں اچھال دیں۔ فوراً ہی چار دھماکے ہوئے اور ہر طرف دھواں پھیل گیا۔ گیندیں پھینکنے کے فوراً بعد وہ نیچے اتر آئے اور وہاں پہنچ گئے جہاں باقی لو گ موجود تھے۔
خفیہ عمارت کے نیچے ایک تہ خانہ تھا۔ اس تہ خانے سے ایک راستہ نکلتا تھا۔ وہ عمارت سے کافی دور تھا۔ اس راستے سے ہوتے ہوئے وہ جنگل میں نکل گئے اور درختوں کی اوٹ لے کر اب وہ بلتان کے آدمیوں کے گھیرے سے باہر آچکے تھے۔ ادھر خفیہ ٹھکانہ ابھی تک دھوئیں میں ڈوبا ہوا تھا۔ انہوں نے سنا کوئی کہہ رہا تھا:
”خبردار ! دائرہ بڑا کرلو۔ اس دھوئیں کا سہارا لے کر وہ باہر نکلنے کی کوشش کریں گے۔ ان میں سے ایک بھی بچ کر نہ جائے۔“
یہ الفاظ سن کر وہ مسکرا دیے۔ انسپکٹر جمشید نے اپنے ساتھی کو اشارہ کیا کہ کچھ اور پیچھے ہٹ کے درختوں کی اوٹ میں پوزیشن لے لیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر جونہی دشمن پیچھے ہٹنے کے چکر میں ان کی نظروں میں آیا۔ انہوں نے تاک تاک کر گولیاں برسادیں۔ وہ اچھلا چھل کر گرے۔ ان میں سے کوئی بھی بچ کرنہ نکل سکا۔ اس کے باوجود وہ احتیاطاً کافی دیر تک اپنی جگہوں پر کھڑے رہے۔ جب پوری طرح اطمینان ہوگیا، تب وہاں سے آگے بڑھے۔ انہوں نے گرنے والوں کا جائزہ لیا۔ وہ سب کے سب بری طرح زخمی تھے، گولیاں ان کی ٹانگوں پر ماری گئی تھیں۔ پھر اکرام کو فون کیا گیا۔ وہ بڑی گاڑی کے ساتھ وہاں پہنچ گیا۔ زخمی بارہ عددتھے۔ انہیں ہسپتال بھیجنے اور اکرام کو ان کے بارے میں ہدایات دینے کے بعد انہوںنے اطمینان کا سانس لیا۔
”اب رہ گئے حاجو خان اور ان کے گھر والے ان کا کیا کریں؟“
”شاید ہمارا کوئی خفیہ ٹھکانہ بلتان کی نظروں سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ اس لیے اب ہم انہیں اپنے گھر میں رکھیں گے۔ اب جو ہوگا وہاں ہوگا۔“
”اس کامطلب ہے آپ بلتان کو اپنے گھر پر حملے کی دعوت دے رہے ہیں؟“
”کیا کیا جائے مجبوری ہے۔“ وہ مسکرائے۔
”لیکن بلتان خود کہاں ہے؟ ہم نے جس کی آواز سنی تھی۔ کیا وہ بلتان تھا۔“ خان عبدالرحمن بولے۔
”ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا، لیکن ہم یہ بات معلوم کرسکتے ہیں۔“
”وہ کیسے جمشید؟“
”زخمیوں کے ہوش میں آنے پر آخر ان سے بات چیت کی جائے گی۔ ان کی آوازیں سنی جائیں گی۔ اس سے معلوم ہوجائے گا۔ ا س کے علاوہ ان سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس کے لیے کام کررہے ہیں…. وغیرہ۔“ انہوں نے جواب دیا۔
”لیکن سب سے پہلے حاجو خان کی حفاظت کا مسئلہ ہے۔“
”آپ…. آپ میرے لیے کس قدر کوشش کررہے ہیں اور ایک میں ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے حاجو خان رو پڑا۔
”فکر نہ کرو غلطی انسان سے ہوتی ہے، لیکن تم نے دھماکے والی گھڑی خود اس کی جگہ پر رکھ کر بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس بنیا د پر صرف میں ہی نہیں، نصیر الدین صاحب بھی تمہاری سفار ش کریں گے۔ امید ہے عدالت بھی تمہیں رہا کردے گی۔“
”اللہ آپ کا بھلا کرے۔“
پھر وہ وہاں سے گھر پہنچ گئے۔ حاجو خان اور اس کے بیوی بچوں کو بیگم جمشید کے حوالے کردیا گیا۔ صورت حال سمجھا دی گئی۔ ہسپتال فون کیا گیا تو اکرام نے بتایا۔ وہ سب ہوش میں آچکے ہیں۔ وہ اسی وقت روانہ ہوگئے۔
انہیں جس ہال میں رکھا گیا تھا۔ اس کے گرد پولیس کا پہرہ تھا۔ وہ اس ہال میں داخل ہوئے۔ اندر اکرام موجود تھا۔
”کچھ بتایا انہوں نے۔“
”جی ابھی نہیں۔“
وہ آگے بڑھے۔ انہوں نے باری باری سب سے بات کی، لیکن ان میں وہ آواز سنائی نہ دی جو وہ خفیہ عمارت کے باہر سن چکے تھے۔
”اس کا مطلب ہے تمہارا باس وہاں تھا ضرور، لیکن کسی الگ جگہ پر تھا۔“
”جی…. جی ہاں وہ ایک درخت پر تھا۔“
”اوہ!“وہ حیرت زدہ رہ گئے۔
”جب تم لوگ پیچھے ہٹے تھے۔ کیاوہ اس وقت درخت پر ہی تھا۔“
”جی ہاں بالکل۔“
”اس کا نام اور حلیہ….“
”ہم اس کا نام نہیں جانتے۔ نہ حلیہ بیان کرسکتے ہیں کیونکہ وہ نقاب میں تھا۔“
”تم اس کے لیے کب سے کام کررہے ہو؟ وہ تمہارا نیا نیا باس ہے یا کوئی پرانا آدمی ہے۔
”بہت پرانا، اس کا ہمارا ساتھ تو برسوں پرانا ہے۔“
”حیرت ہے۔ پھر بھی تم اس کا نام نہیں جانتے۔“
”بس…. ہم اسے باس کہتے ہیں۔“
”وہ تمہیں احکامات کس طرح دیتا ہے اور کہاں بلاتا ہے؟ کچھ تو بتاﺅ۔“
”ہمارا گرو ہ بہت پرانا ہے۔ وہ ہر ماہ ہمیں ہار ڈی بلڈنگ کے سامنے بلاتا ہے۔ وہیں ہمیں تنخواہ دیتا ہے۔ نئے احکامات دیتا ہے یا پھر فون پر رابطہ کرتا ہے۔“
”اس کا فون نمبر؟“
”فون اسی بلڈنگ کا ہے۔ ایکس ٹینشن نمبر دباناپڑتا ہے 8نمبرہے۔“
”فون نمبر بتاﺅ۔“
انہوں نے نمبر بتادیا۔ نمبر ڈائل کیا گیا، لیکن 8نمبر سے کسی نے فون نہ اٹھایا۔ اب وہ سمجھ گئے کہ ان لوگوں کا باس کوئی مقامی آدمی ہے۔ اس مقامی آدمی سے بلتان کام لے رہا ہے۔ وہ خود سامنے نہیں آیا گویا بلتان تک پہنچنا اتنا آسان کام نہیں تھا۔ آخر وہ ہارڈی بلڈنگ پہنچے۔ اس بلڈنگ میں بے شمار کمرے تھے۔ کمرے کرائے پر دیے جاتے تھے۔ عمارت کے مالک کا نام بھی ہارڈی تھا۔ انہوں نے اس سے ملاقات کی۔ وہ پریشان ہوگیا اور گھبرا سا گیا۔
”میں کیا خدمت کرسکتا ہوں؟“
”کمرا نمبر 302میں کون رہتا ہے۔“
”جج…. جی…. کمرا نمبر 302میں۔“ وہ بری طرح ہکلانے لگا۔
”ہاں۔“ انسپکٹر جمشید نے اسے گھورا۔
”وہ ایک پراسرار آدمی ہے۔ شاید اپنا حلیہ تبدیل کیے رہتا ہے اور جناب! ہمارا کام تو عمارت کے کمرے کرائے پر دینا ہے…. میں نے یہ عمارت اسی لیے بنوائی ہے۔“ اس نے جلدی جلدی کہا۔
”ہوں! ٹھیک ہے۔ کیا وہ اس کمرے میں آتا جاتا ہے؟“
”ہاں جی! بالکل آتا جاتا ہے۔“
”ہم اس کمر ے کو دیکھنا چاہتے ہیں۔“
”میرے پاس ہر کمرے کی چابی ہوتی ہے۔ کمرا کھول کر دکھا سکتا ہوں۔“
”چلیے پھر۔“
وہ اس کے ساتھ کمرے میں آئے۔ پھر انہوں نے اکرام کے ذریعے کمرے سے انگلیوں کے نشانات اٹھوائے۔
”اکرام اب تم ان نشانات کو چیک کرلو۔ شاید ہمارے ریکارڈ میں یہ نشانات مل جائیں۔“ انسپکٹر جمشید نے کہا۔
”جی اچھا۔“
”اور ہاں !مسٹر ہارڈی کی انگلیوں کے نشانات بھی لے لو۔“
”جی….کیا مطلب؟ یہ ….یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ میرا بھلا کسی معاملے سے کیوں تعلق ہونے لگا۔ میں تو ایک سیدھا سادہ عام سا آدمی ہوں۔“
”تب پھر انگلیوں کے نشانات دینے میں کیا ڈر؟“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”اوہ ہاں…. واقعی یہ بھی ٹھیک ہے۔“
پھر اس نے نشانات دے دیے۔ ان پر ایک نظر ڈالتے ہی اکرام کے چہرے پر حیرت کے آثار ابھر آئے۔ اس نے جلدی سے کمرے میں پائے جانے والے نشانات کو ان نشانات سے ملایا تو اچھل پڑا۔
”یہ ا س کمرے میں پائے جانے والے نشانات مسٹر ہارڈی کے ہیں۔“
”اس …. اس سے کیا ہوتا ہے؟ مجھے تو آخر ہر کمرے میں جانا آنا پڑتا ہے۔ صفائی کرانا پڑتی ہے اور کرائے داروں کے آرام کا خیال کرنا پڑتا ہے۔“
”اکرام! چند اور کمروں سے انگلیوں کے نشانات اٹھواﺅ۔“
”جی …. کیا مطلب؟ اکرام اور ہارڈی نے ایک ساتھ کہا۔
”مطلب یہ کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں دوسرے کمروں میں بھی اسی طرح آپ کی انگلیوں کے نشانات ملتے ہیں یا نہیں۔“
”اوہ….اوہ۔“ ا س کے منہ سے نکلا۔
اکرام نے جلد ہی اپنا یہ کام بھی مکمل کر لیا۔ پھر وہ ان کی طرف آیا۔
”نہیں سر! کسی کمرے سے مسٹر ہارڈ ی کی انگلیوں کے نشانات نہیں ملے…. دوسرے ملازموں کے ضرور ملے ہیں جو صفائی کرتے ہیں۔“
ہارڈی کا چہرہ زرد پڑگیا۔ عین اس لمحے انسپکٹر جمشید کے موبائل کی گھنٹی بجی۔
جونہی انہوں نے فون آن کیا۔ دوسری طرف سے بیگم جمشید کی خوف زدہ آواز ابھری:
”میں خطرہ محسوس کررہی ہوں۔“
فون سنتے ہی انسپکٹر جمشید پریشان ہوگئے۔ انہوں نے فوراً اکرام کی طر ف رخ کیا۔
”اسے لے جاکر حوالات میں بند کردو۔ اس سے بلتان کے بارے میں ضرور کچھ معلوم ہوسکتا ہے۔ ادھر گھر میں کسی گڑبڑ کا امکان ہے۔ غالباً بلتان حاجو کو سزا دینے کے لیے بری طرح بے چین ہے اور جلد از جلد اس کام سے فارغ ہوجانا چاہتا ہے۔“
وہ اندھا دھند انداز میں گاڑی چلاتے گھر پہنچے۔ گھر کا دروازہ بند تھا۔ محمود نے دوڑ کی گھنٹی کا بٹن دبادیا۔ دس پندرہ سیکنڈ گزرنے پر اس نے پھر بٹن دبادیا۔ اندر گھنٹی بجنے کی آواز سنائی دی، لیکن بیگم جمشید نے پھر بھی دروازہ نہ کھولا۔ اب تو ان کی پریشانی بڑھ گئی کہ دروازہ اندر سے بند تھا۔
”محمود دوڑ کر جاﺅ بیگم شیرازی کی چھت سے اپنی چھت پر آجاﺅ۔ دیکھو زینہ کھلا ہے یا نہیں۔“
”جی اچھا۔“ یہ کہتے ہی اس نے دوڑ لگادی۔ پھر بیگم شیرازی کے دروازے سے اس کی خوف زدہ آواز آئی:
”ابا جان ! دروازہ اندر سے بند نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے گڑبڑ دونوں گھروں میں پھیلی ہوئی ہے۔“
وہ دوڑ پڑے۔ بیگم شیرازی کے گھر میں داخل ہوئے۔ پورا گھر سنسان پڑا تھا۔ اب وہ چھت پر آئے وہاں سے اپنی چھت پر اترے۔ زینہ کھلا تھا بے تحاشا انداز میں سیڑھیاں اترتے نیچے پہنچے۔ بیگم جمشید غائب تھیں۔ صحن کی میز پر ایک کاغذ موجود تھا۔ کاغذ میں ایک خنجر گڑا تھا اور خنجر کی نوک خون آلود تھی۔ انہوں نے جھک کر کاغذ پر لکھے الفاظ پڑھے۔
”میں حاجو خان ، اس کے بیوی بچوں ، بیگم جمشید اور بیگم شیرازی کو لے جارہا ہوں…. انہیں چھڑانے کا شوق ہو تو جزیرہ نانگا پر آجانا…. ملاقات ہوجائے گی۔“
الفاظ پڑھ کر انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
”ہم سے غلطی ہوئی حاجو خان اور اس کے بیوی بچوں کو صرف بیگم کی حفاظت میں دینا کافی نہیں تھا جب کہ مقابلہ بلتان سے ہے، لیکن اب تو غلطی ہوچکی تھی۔“
”اور یہ جزیرہ نانگا کہاں ہے؟“ پروفیسر داﺅد ہکلائے۔
”میںنے بھی اس جزیرے کا نام پہلی بار سنا ہے۔ دنیا کے نقشے میں دیکھنا ہوگا یا پھر جغرافیے کے کسی ماہر سے پوچھ لیتے ہیں۔ ہاں یاد آیا ہمارے شہر میں ایک غیر ملکی جغرافیہ دان ہے تو سہی ایک بار کسی سلسلے میں اخبار میں اس کا ذکر آیا تھا۔ اب یاد کرنا ہوگا کہ وہ کون سا اخبار تھا، لیکن…. نہیں اخبارات کے مدیروں کو فون کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔“
اب انہوں نے ایک اخبار کے مدیر کو فون کیا۔ اپنا تعارف کرانے کے بعد وہ بولے:
”ہمارے شہر میں ایک غیر ملکی جغرافیہ دان رہتے ہیں۔ ہمیں ان سے کچھ کام ہے۔ کیا آپ کو ان کے بارے میں کچھ معلوم ہے؟“
”جی ہاں! کیوں نہیں ان کانام پروفیسر جیفر سام ہے اور وہ نیومون ٹاﺅن میں رہتے ہیں۔ کوٹھی کا نمبر ہے G.108۔“
”بہت بہت شکریہ ! آپ نے تو ہمارا بہت سا وقت بچا دیا۔“
وہ فوراً پروفیسر سام کی طرف روانہ ہوگئے۔ ان کی کوٹھی تلاش کرنے میں انہیں کوئی دقت نہ ہوئی۔ وہ اس علاقے کے مشہور آدمی تھے۔ ان سے بے خوف ہوکر ملے۔
”ہم صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ جزیرہ نانگا کہاں ہے؟“
”اوہ نہیں۔“ پروفیسر سام نے خوف کے عالم میں کہا۔
”کیاہوا؟‘ پروفیسر داﺅد حیران ہوکر بولے۔
”آپ…. آپ لوگ اس جزیرے کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہیں؟“
”ہمیں وہاں جاناہے۔“
”میں اس کا مشورہ ہرگز نہیں دوں گا۔“ اس نے بوکھلائے ہوئے انداز میں کہا۔
”جی…. کیامطلب…. کیا ہے وہاں؟“
”سوائے موت کے اور کچھ نہیں۔ اس جزیرے پر جب بھی کوئی گیا، لوٹ کر نہیں آیا۔ کوئی اس جزیرے کی کہانی نہیں سنا سکا آج تک…. وہاں کیا ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔ پروفیسر نے جلدی جلدی کہا۔
”آپ نے ہمارا شوق اور بڑھادیا۔ بات یہ ہے پروفیسر صاحب کہ ایک بین الاقوامی شخص ہے۔ بلتان، کیا آپ نے اس کا نام سنا ہے؟“
”بالکل سنا ہے۔ بہت خطرناک آدمی ہے۔ حکومتیں اس سے ڈرتی ہےں۔“
”بالکل ٹھیک وہ شخص ہمارے ساتھیوں کو اغوا کرکے جزیرہ نانگا لے گیا ہے۔“
”ارے باپ رے۔“ پروفیسر سام بوکھلا اٹھے۔
”لہٰذا آپ ہمیں صرف یہ بتادیں کہ یہ جزیرہ کہاں ہے؟“
”مجھے افسوس ہے۔“ پروفیسر بولے۔
”آپ کو افسوس ہے، لیکن کس بات پر جلدی بتایئے تاکہ ہم بھی اس افسوس میں شریک ہوجائیں۔“
پروفیسر سام نے فاروق کو تیز نظروں سے دیکھا ، پھر بولے:
”یہ صاحب کچھ پاگل تونہیں ہیں۔“
”جی نہیں ان کی باتوں کا برا نہ مانیں اور مہربانی فرما کر ہمیں اس جزیرے کے بارے میں بتادیں۔“
”گویا آ پ رک نہیں سکتے۔“
”پروفیسر صاحب شاید آپ نے توجہ نہیں فرمائی۔ بلتان ہمارے ساتھیوں کو اٹھا لے گیا ہے اور ہم کیسے رک سکتے ہیں؟“
”آپ کی مرضی…. بلتان نے اگر آپ کو جزیرہ نانگا بلایا ہے تو اس نے وہاں آپ لوگوں کے خلاف جال بچھارکھا ہوگا۔ وہ ایسے ہی تو آپ کو چیلنج نہیں کرسکتا۔“
”یہ بات ہم سمجھتے ہیں، لیکن ہم مجبور ہیں۔ یہ تو ہمارے اپنے گھر کے دو افراد اور چند دوسرے افراد کی بات ہے۔ اگر وہ ہمارے گھر کے افراد کو نہ لے جاتا تو بھی ہم ضرور جاتے، لہٰذا آپ ہمیں روکنے کی بالکل کوشش نہ کریں۔“
”اچھی بات ہے۔ میں آپ لوگوں کو سمندر ی راستے کا نقشہ بنادیتا ہوں۔ اگر آپ نے اس نقشے کے مطابق سفر کیا تو سمندر میں بھٹکنے سے بچ جائیں گے یاپھر میں خود آپ لوگوں کے ساتھ چلوں اور جزیرے تک پہنچا کر لوٹ آﺅں کیا خیال ہے؟“
”یہ اور بھی اچھی بات ہوگی۔“ فاروق بول اٹھا۔
ایک بار پھر پروفیسر نے فاروق کو گھورا۔
”کیا آپ خاموش نہیں رہ سکتے۔“
”لیکن جناب! آپ کو میرے بولنے پر ہی کیوں اعتراض ہے۔“ فاروق کے لہجے میں حیرت تھی۔
”ہاں واقعی! یہ عجیب بات ہے۔“ پروفیسر بولے
”کیا فرمایا آپ نے۔“ محمود کو ان کی بات سن کر حیرت ہوئی۔
”ان صاحب کی آواز میرے کانوں میں تیر کی طرح لگتی ہے جب کہ باقی لوگوں کی آواز سن کر میں نے ایسی کوئی بات محسوس نہیں کی۔“
”اگر یہ بات ہے ، تو میں اب آپ سے کوئی بات نہیں کروں گا۔ آپ بے فکر رہیں۔“ فاروق نے برا سا منہ بنایا۔
”بہت بہت شکریہ! اس صورت میں میں آپ لوگوں کے ساتھ جاسکوں گا۔ لیکن آپ کو میرے وقت کی قیمت ادا کرنا ہوگی۔“
”اوہ ضرور ضرور…. کیوں نہیں۔“خان عبدالرحمن نے فوراً کہا۔
”چلیے ٹھیک ہے۔ پھر ہم کب چل رہے ہیں؟“
”آپ تیاری کرلیں اور ایک بڑی لانچ کا انتظام کرلیں۔ اس کو مشرقی ساحل پر بھجوادیں۔ آپ کل صبح ٹھیک آٹھ بجے یہاں آجائیں ، میں تیا رملوں گا۔“
”اور آپ کا معاوضہ کیا ہوگا“ انسپکٹر جمشید نے پوچھا۔
”اوہو جمشید ! اس کو رہنے دو جو یہ مانگیں گے دے دیں گے۔“ خان عبدالرحمن جلدی سے بولے۔
”نہیں بھئی پہلے طے کرنا اچھا ہوتا ہے۔“
”ٹھیک ہے میں دس ہزار روپے لوں گا۔ آپ لانچ کے ذریعے مجھے واپس بھجوائیں گے۔“
”لیکن اگر ہمیں وہاں دیر لگنے کا امکان نہ ہوا تو آپ ہمارے ساتھ بھی تو آسکتے ہیں۔“
”میں ذرا بزد ل سا آدمی واقع ہوا ہوں۔ لڑائی بھڑائی کا تجربہ نہیںہے۔ آپ کو تو وہاں جاکر کرنا ہوگی جنگ…. بلتان سے جنگ کرنا اتنا بھی آسان نہیں کہ میں وہاں رک کر آپ لوگوں کی فتح کا انتظار کروں گا۔ اس سے یہ بہتر ہوگا کہ جونہی آپ لوگ جزیرے پر پہنچیں پہلے آپ مجھے واپس بھجوادیں اور اپنے لیے لانچ واپس منگوالیں۔“
”اس کا مطلب ہے جزیرہ ساحل سے زیادہ دورنہیں ہے۔“
”ایک دن اور ایک رات کا فاصلہ ہے۔“ اس نے کہا۔
”خیر یونہی سہی…. پروگرام طے ہوگیا۔ ہم کل آٹھ بجے پہنچ جائیں گے۔“
”اور انکل۔“ فاروق نے کچھ کہنا چاہا، لیکن پھر یاد آنے پر اس نے فوراً اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا، سب لوگ مسکرادیے جب کہ پروفیسر سام کا چہرہ تن گیا تھا، لیکن جونہی فاروق کا …. چہرہ معمول پرآگیا۔
”شکریہ…. آپ نے جملہ درمیان میں روک دیا۔“
”کیا واقعی میری آواز آپ کے لیے اس حد تک تکلیف دہ ہے؟“
”ہاں ! مجھے اپنے کانوں کے پردے پھٹتے محسوس ہوتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میرے دماغ میں کوئی چیز ٹوٹ رہی ہے۔“
”کیا پہلے بھی کسی کی آواز سن کر آپ کو ایسا ہوا ہے؟“
”نہیں…. زندگی میں پہلی بار ایسا محسوس کررہا ہوں اور دعاکرتا ہوں کہ ان صاحب کی آواز مجھے پھر سنائی نہ دے۔“
”ہم کوشش کریں گے کہ فاروق کو آپ سے فاصلے پر رکھیں اور اس کی آواز آ پ کے کانوں تک نہ پہنچ سکے۔“
”میں ان کے سامنے سرگوشی کرتا رہوں گا۔“ فاروق بول پڑا۔
”اُف اُف۔“ پروفیسراچھل پڑا۔ اس کا رنگ زرد پڑگیا ۔ پھر اس نے کہا۔
”نہیں …. نہیں۔ میں آپ لوگوں کے ساتھ اس مہم پر نہیں جاﺅں گا۔“
”حد ہوگئی فاروق…. پروفیسر صاحب! آپ پریشان نہ ہوں۔ اس بات کی ذمے داری میں لیتا ہوں کہ اب آپ کو فاروق کی آواز سنائی نہیں دے گی۔“
”یہ …. یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔“ فاروق نے جلدی سے اشاروں میں کہا۔ اس بار اس کے صرف ہونٹ ہلے تھے۔ آواز سنائی نہیں دی تھی۔
”ہاں فاروق ! یہ ٹھیک رہے گا۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”کیاٹھیک رہے گا۔“پروفیسر سام جھلائے ہوئے اندا ز میں بولے۔
”اس بار فاروق نے اشاروں میں بات کی ہے اور ہم نے اس کی بات کو سمجھ لیا ہے۔“
”چلیے پھر یونہی سہی، لیکن آپ خیال رکھیے گا۔ اس وقت بھی میرے دماغ میں دھماکے ہورہے ہیں۔ پتا نہیں کتنی دیر تک جاری رہیں گے۔ کہیں یہ دس ہزار مجھے مہنگے نہ پڑیں۔“
”آپ فکر نہ کریں۔ ہم آپ کو 20ہزار ادا کریں گے۔“ خان عبدالرحمن جلدی سے بولے۔
انسپکٹر جمشید نے انہیں گھورا۔ پھر وہ اٹھ کر چلے آئے۔ دوسرے دن ٹھیک آٹھ بجے وہ پروفیسر سام کے دروازے کی گھنٹی بجا رہے تھے۔ وہ فوراً ہی باہر آگئے۔ اب خان عبدالرحمن کی بڑی گاڑی میں ساحل کی طرف اشاروں میں کہا:
”ابا جان! اس گاڑی میں کہیں نہ کہیں گڑ بڑ ہے۔ مہربانی فرما کر گاڑی کو چیک کرالیجیے۔“
انسپکٹر جمشید نے چونک کر فاروق کی طرف دیکھا۔
”کیا تم نے کوئی بات محسوس کی ہے؟“
”جی نہیں! بات تو کوئی محسوس نہیں کی، لیکن نہ جانے کیوں یہ خیال بار بار آرہا ہے کہ کہیں کوئی گڑ بڑ ہے۔“
”محمود ! تم کیا کہتے ہو؟“
”وہی جو فارو ق نے کہا ہے۔“ محمود نے بھی پریشانی کے عالم میں کہا۔
”خوب خوب …. خان عبدالرحمن …. تم؟“
”میں نے ایسی ویسی کوئی بات محسوس نہیں کی۔ “ انہوں نے منہ بنایا۔
”پروفیسر صاحب! آپ کیا کہتے ہیں۔“
”میں نے تو بالکل کوئی بات محسوس ہی نہیں کی۔“
”لیکن مشکل ایک اور ہے۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”اور وہ کیا جمشید۔“ پروفیسر داﺅد جلدی سے بولے۔
”یہ کہ میں بھی یہی بات محسوس کررہا ہوں اور ان دونوں کی نسبت پہلے سے محسوس کررہا ہوں ۔‘ ‘ انہوں نے پریشانی کے عالم میں کہا۔
”تب پھر آگے چلنے سے پہلے گاڑی کو چیک کرنا بہتر ہوگا۔ آپ لوگوں کے ساتھ کہیں میں بھی نہ مارا جاﺅں اور یہ دس ہزار روپے مجھے مہنگے نہ پڑیں۔“ پروفیسر جیفر سام نے گھبرا کر کہا۔
”ٹھیک ہے….گاڑی روک دو۔“
گاڑی رک گئی۔ وہ نیچے اتر آئے اب گاڑی کی اچھی طرح تلاشی لی گئی۔ یہاں تک کہ بعد میں پروفیسر داﺅد نے آلات کے ذریعے بھی تلاش لی، لیکن کوئی ایسی ویسی چیز نہ ملی۔
”میرا خیال ہے ہمیں وہم ہوا ہے آﺅ چلیں۔“
وہ ایک بار پھر روانہ ہوئے۔ فاروق نے بے چینی کے عالم میں پہلو بدلا۔ انسپکٹر جمشید اس کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔ یہی حالت محمود کی نظر آئی گویا ان کا احساس ابھی تک باقی تھا۔
پھر وہ ساحل پر پہنچ گئے۔ لانچ بالکل تیاری کھڑی تھی۔ اکرام انہیں ساحل پر کھڑا نظر آیا۔ لانچ کا ڈرائیور اپنی سیٹ پر چوکس بیٹھا تھا۔
”ہاں اکرام ! کہیں کوئی گڑبڑ تو محسوس نہیں ہوئی؟“
”جی…. جی نہیں۔ ہر طرح خیریت ہے۔“
”ٹھیک ہے تم اپنے چند ماتحت یہاں مقرر کردو۔ پروفیسر سام ہمیں جزیرے تک پہنچا کر واپس آئیں گے۔ انہیں گھر پہنچانا ہوگا۔“
”ٹھیک ہے جناب! انہیں یہاں گاڑی تیار ملے گی۔“
اب وہ لانچ میں سوار ہوکر روانہ ہوئے۔ اکرام نے ہاتھ ہلا کر انہیں الوداع کہا۔ جلد ہی لانچ اکرام کی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ وہ اپنی گاڑی پر آیا ماتحت ساتھ تھے۔ اس نے ماتحتوں کو ہدایات دیں اور خود خان عبدالرحمن کی گاڑی کی طرف بڑھا۔ عین اس لمحے ایک زبردست دھماکا ہوا اور گاڑی کے پرخچے اُڑ گئے۔ اکرام اچھل کر دور جا گرا، وہ چند لمحے تک پھٹی پھٹی آنکھوں سے اِدھر اُدھر دیکھتا رہا۔ اس کے ماتحت بھی اپنی گاڑی سے باہر نکل آئے تھے۔ ان کے چہروںپر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔
آخر اکرام نے انسپکٹر جمشید کے نمبرملائے اور سلسلہ ملنے پر وہ بولا©:
”سر! گاڑی کے پرخچے اڑگئے۔“
”کیا مطلب ؟“ ان کے منہ سے مارے حیرت کے نکلا۔
اکرام نے وضاحت کی، تو وہ سکتے میں آگئے۔ آخر انہوں نے کہا۔
”ٹھیک ہے۔ اپنے مزید ماتحتوں کو بلا لو۔ جائے واردات پر اپنی کارروائی مکمل کرلو۔“
”بہت بہتر جناب۔“
فون بند کرکے انسپکٹر جمشید ان کی طرف مڑے۔
”ہم تینوں کا احساس درست تھا۔ گاڑی میں بم تھا۔ خان عبدالرحمن کی گاڑی ٹکڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔“
”کیا….نہیں۔“ وہ چلائے ۔
چند لمحے تک وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔
ایسے میں پروفیسر داﺅد کھوئے کھوئے انداز میں بولے۔
”لیکن ہم نے تو گاڑی کو بہت اچھی طرح دیکھا تھا۔“
”ہمارا خیال درست تھا گاڑی میں گڑ بڑ تھی۔ حیرت اس پر ہے کہ ہم اس کے بارے میں جان کیوں نہ سکے۔“
”اور میں اب اور زیادہ خوف محسوس کررہا ہوں۔ میرا خیال ہے ہمیں واپس ساحل پر چلنا چاہیے۔ ہم اپنا یہ سفر پھر سے شروع کریں گے کیونکہ روانہ ہونے سے پہلے ہم نے لانچ کو بھی چیک نہیں کیا۔“ فاروق نے جلدی جلدی کہا۔
”اب اس کا کوئی فائدہ نہیں جو ہونا ہے ، ہوکر رہے گا۔ پھر ہمیں جزیرہ نانگا پر تو جانا ہی ہے ہم کیسے رک سکتے ہیں؟“
”مم…. میر ا مشورہ بھی یہی ہے کہ واپس چلتے ہیں۔“ پروفیسر سام نے کانپتی آواز میں کہا۔
”اگر اس لانچ پر بم موجود ہے تو یہ ہمارے واپس پہنچنے سے پہلے پھٹ جائے گا، لہٰذا واپس جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ہاں لانچ کی رفتار بڑھا کر جلد از جلد جزیرے پر پہنچنے کی کوشش کرلی جائے اوراس دوران لانچ کی تلاشی جاری رکھی جائے۔“
”یہ ٹھیک رہے گا جمشید۔“ پروفیسر داﺅد بولے۔
”تب پھر آپ اپنے آلات کے ذریعے تلاشی لے لیں۔“
”وہ تو میں نے پہلے بھی لی تھی، لیکن گاڑی سے کوئی بم نہیں ملا تھا حالاں کہ بم گاڑی میں موجود تھا۔“
”اس پرہم سب کو حیرت ہے، لیکن اس کے باوجود ہمیں اپنا کام کرنا ہوگا۔“
انہوں نے لانچ کی اچھی طرح تلاشی لی، لیکن کوئی بم دم نہ ملا۔ ان کا سفر جاری رہا۔ آخر کار پروفیسر سام کی آواز ابھری:
”وہ رہا جزیرہ نانگا۔“
وہ سب جزیرے کو دیکھنے میں محو ہوگئے اور لانچ ساحل سے جالگی۔ وہ اتر پڑے ان کے ساتھ پروفیسر سام بھی اتر آئے اور بولے:
”یہ چھوٹا سا جزیرہ ہے۔ دو کلو میٹر میں پھیلا ہوا ہے۔ اس میں بہت گھنے درخت ہیں اور بہت زیادہ بڑ ے اور تن آور ہیں۔ میں حیران ہوں آپ لوگ یہاں کیوں آئے ہیں یہاں تو کوئی بھی نظر نہیں آرہا۔“
”ہمارے ساتھی اور انہیں اغوا کرنے والے آگے کہیں ہوں گے۔ ہمیں پورا جزیرہ تو نظر نہیں آرہا۔“ انسپکٹر جمشید نے منہ بنایا۔
”ہاں! یہی بات ہے جمشید۔ پروفیسر صاحب اب آپ واپس جاسکتے ہیں۔ کپتان صاحب آپ انہیں لے جائیں۔ ساحل پر ان کے لیے گاڑی تیار ملے گی۔“
”اوکے سر۔“ اس نے کہا۔ وہ بھی ان کے ساتھ لانچ سے اتر کر ساحل پر آگیا تھا۔
”نن…. نہیں۔ “ پروفیسر سام ہکلائے۔
”جی…. کیا کہا آپ نے؟“
”مجھے …. خوف محسوس ہورہا ہے۔ کہیں گاڑی کی طرح یہ لانچ بھی نہ اڑ جائے۔“
”ارے ! باپ رے۔“ ڈرائیور بھی کانپ گیا۔
”لیکن ہمارے ساتھ آپ کیسے رہ سکیں گے؟ ہم تو یہاں موت اور زندگی کی جنگ لڑنے آئے ہیں۔ آپ کو معلوم نہیں۔“ انسپکٹر جمشید یہاں تک کہہ کر خاموش ہوگئے۔
”کیا معلوم نہیں۔“
”مجرم نے ہمیں یہاں کس لیے بلایا ہے۔“
”کس لیے بلایا ہے؟“
”وہ ہمیں مو ت کے گھاٹ اتار دینا چاہتا ہے۔“
”لیکن کیوں؟“
”اس وقت وہ جس ملک کے لیے کام کررہا ہے۔ اس ملک کی یہی خواہش ہے۔ حاجو خان اور میری بیگم وغیرہ کو اغوا کرکے یہاں لانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ ہم سب کو آسانی سے ٹھکانے لگا سکے۔“
”اور آپ یہاں آگئے۔“ پروفیسر سام نے حیران ہوکر کہا۔
”اور ہم کر بھی کیا سکتے تھے۔ بلتان کی منصوبہ بندی اس قسم کی ہوتی ہے۔ وہ ہر طرف سے اپنے دشمن کو بالکل بے بس کردیتا ہے اور ہمارے ساتھ بھی وہ ایسا ہی کھیل کھیلنا چاہتا ہے۔“
عین اس لمحے کان پھاڑ دینے والا ایک دھماکا ہوا۔ وہ بری طرح اچھل کر دور جا گرے۔ انہوں نے خود کو سنبھال کر ساحل کی طرف دیکھا تو لانچ کے پرخچے پانی پر تیرتے نظر آئے۔ بہت سے ٹکڑوں کو آگ لگ چکی تھی۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ منظر دیکھتے رہے۔
”اللہ اپنا رحم فرمائے۔ یہ ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے جمشید۔“ پروفیسر داﺅد نے لرزتی آواز میں کہا۔
”اور…. اب …. اب میرا کیا ہوگا؟ میں کیسے واپس جاﺅں گا۔“پروفیسر سام نے تھرتھرائی آواز میں کہا۔
”اور میں…. میں ۔“کپتان ہکلایا۔
”مجھے افسوس ہے کہہمارے ساتھ آپ لوگ بھی مصیبت میں پھنس گئے۔ لیکن آپ دونوں فکر نہ کریں ۔ میں ابھی آپ کے لیے لانچ منگواتا ہوں۔“
”لیکن کیسے؟“ پروفیسر سام بولے۔
”کیا مطلب؟“
”لانچ یہاں تک آئے گی کیسے؟ نانگا جزیرے کا راستہ کپتان کیسے معلوم کرے گا۔ یہ تو میں تھا جو آپ لوگوں کو یہاں تک لایا ہوں۔“
”اوہ…. اوہ۔“
ان کے منہ سے نکلاہ پھر اچانک انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”کوئی مسئلہ نہیں۔“
”جی ؟ کیا کہا آپ نے؟ کوئی مسئلہ نہیں؟“ پروفیسر سام بولے۔
”ہاں ! میں نے یہی کہا ہے۔ کوئی مسئلہ نہیں میں آپ دونوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے واپس بھجوائے دیتا ہوں۔ ہیلی کاپٹر کے پائلٹ سے میں برابر موبائل پر رابطہ رکھوں گا اور یہاں ہم کپڑے اور خشک شاخوں کو آگ لگا کر دھواں بلند کرتے جائیں گے۔ پائلٹ دھواں دیکھ کر آخر یہاں پہنچ جائے گا۔“
”بس تو پھر پہلے آپ یہی کام کریں۔ “ پروفیسر سام نے جلدی سے کہا۔
”ہاں! کیوں نہیں ہم اپنے ساتھ آپ دونوں کو خطرے میں نہیں ڈالیں گے۔“
انہوں نے موبائل نکالا نمبر ڈائل کرنا چاہا، لیکن ان کا فون بند تھا۔
”میرا فون بند ہے، محمو داپنا فون مجھے دو۔“
اس نے گھبرا کر اپنا فون نکالا۔ وہ بھی بند تھا، اب تو سب نے اپنے اپنے فون دیکھے…. سب بند تھے۔
ان کے رنگ اڑ گئے۔ چہروں پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ ایسے میں جزیرہ ایک آواز سے گونج اٹھا۔
”خوش آمدید انسپکٹر جمشید! مجھے تمہارا ہی انتظار تھا اور مجھ سے زیادہ تمہاری بیوی، بیگم شیرازی ، حاجو خان اور اس کے بیوی بچوں کو تمہارا انتظار تھا۔ ان لوگوں کا خیال تو یہ تھا کہ تم ان کے نجات دہندہ بن کر آﺅگے اور میرا خیال یہ تھا کہ تم بھی اپنی موت کی تلاش میں یہاں آﺅگے۔“
”شکریہ! موت کا کیا ہے وہ تو ایک دن آکر رہے گی۔“
”تب پھر آگے چلے آﺅ موت تیار ہے۔“
”کیا کہا موت تیار ہے؟“ پروفیسر سام چلا اٹھے۔
”بھائی صاحب! آپ مو ت تیار ہے تو ا س طرح کہہ رہے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں، کھانا تیار ہے۔“ محمود نے جھلا کر کہا، لیکن اس نے یہ الفاظ بلند آواز میں نہیں کہے تھے۔
”فکر نہ کرو پہلے تمہیں کھانا کھلایا جائے گا۔ پھر موت کی نیند سلایا جائے گا۔“
”ارے باپ رے! بھائی صاحب نے تو میری آہستہ آواز بھی سن لی۔“
”ا س جزیرے پر سوئی گرنے کی آواز بھی میں سن لوں گا۔“
”آپ کی تعریف۔“ محمود نے بلند آواز میں پوچھا۔
”پروفیسر صاحب! میراتعارف اس سے کرادو۔“ آواز آئی۔
”کک…. کون سے پروفیسر صاحب یہاں تو دو عدد پروفیسر موجود ہیں۔“ پروفیسر داﺅد بولے۔
”آپ تو کیا تعارف کرائیں گے، ہاں پروفیسر جیفر شاید کر ادیں۔“
”نن…. ہاں۔“ وہ ہکلائے۔
”آپ نے ہاں کہا یا نہیں۔“
”اپنے ساتھ آپ لوگ مجھے بھی لے بیٹھے۔ اب مجھے بھی آپ کے ساتھ مرنا پڑے گا۔“
”مرنا تو آپ کو ویسے بھی پڑے گا اور موت تو سب کو آئے گی۔“
”اور میں …. میں تو بالکل مفت میں مرگیا۔“ لانچ کے کپتان نے لرزتی آوازمیں کہا۔
”میں آپ دونوں کو واپس بھجوادیتا ہوں۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”کیا کہا آپ نے؟ آپ ہمیں واپس بھجواسکتے ہیں، وہ کیسے؟“ کپتان کے لہجے میں بلا کی حیرت در آئی۔
”ہاں ! بھجواسکتا ہوں کیوں پروفیسر سام؟ آپ واپس جانا پسند کریں گے یا ہمارے ساتھ ٹھہرنا۔“
”حد ہوگئی بھلا میں کیوں آپ لوگوں کے ساتھ ٹھہروں گا؟ ویسے لگتا ہے جزیرے پر آتے ہی آپ کا دماغ الٹ گیا ہے۔“
”اللہ کی مہربانی سے ایسا نہیں ہے۔“
”تب پھر آپ ہمیں کس طرح بھجواسکتے ہیں۔ پہلے ذرا اس کی وضاحت کردیں۔“
”ابھی میرے پاس اپنے ماتحتوں سے رابطہ کرنے کا ایک ذریعہ موجود ہے۔“
”اور…. اور وہ کیا ؟“ وہ سب ایک ساتھ بولے۔
”میری گھڑی۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”حد ہوگئی…. گھڑی نہ ہوئی ٹیلی فون ہوگیا۔“
”ابھی دکھاتا ہوں۔“
یہ کہہ کر انہوں نے گھڑی کی طرف ہاتھ اٹھایا۔ ایسے میں پروفیسر سام مارے خوف کے چلائے۔
”اُف …. وہ دیکھیے۔“
ساتھ ہی انہوں نے ایک جانب اشارہ کیا۔ سب نے بوکھلا کر اس طرف دیکھا اور پھر انہیں اپنی رگوں میں خون جمتا محسوس ہوا۔
انسپکٹر جمشید بھی گھڑی کا بٹن دبانے سے رہ گئے۔ ان گنت رائفلیں درختوں کے پیچھے سے ان کی طرف تنی ہوئی تھیں۔
”حرکت نہ کرنا ، انسپکٹر جمشید ورنہ پرخچے اڑجائیں گے۔“
وہ ساکت رہ گئے ۔
”تم لوگوں کے پاس جو کچھ بھی ہے نیچے گرا دو اور پندرہ قدم گن کر آگے آجاﺅ۔ انسپکٹر جمشید تم اپنی گھڑی کو ہاتھ نہیں لگاﺅگے۔ ہاتھ سر سے بلند کرکے کھڑے رہو۔ تمہارے ہاتھ سے گھڑی پروفیسر اتاریں گے۔ باقی لوگ اپنی سب چیزیں اتار کر نیچے گرادیں ۔ جسموں پر صرف کپڑے رہ جائیں ۔“
انہوں نے اپنی چیزیں گرادیں۔
”پروفیسر سام! آپ انسپکٹر جمشید کی گھڑی اتار کر سمندر میں پھینک دیں…. تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔“
”جج…. جی ….جی اچھا…. حضور…. لل…. لیکن ۔“
”لیکن کیا؟“ پوچھا گیا۔
”اگر انہوں نے مجھ پر حملہ کردیا تو؟“
”ا ن کے پیچھے سے آکر گھڑی اتارلیں، یہ پوری طرح ہماری زد پر ہیں۔“
”اچھی بات ہے۔“ پروفیسر سام نے کہا۔
اور پھر اس نے ان کی کمر کی طرف آکر گھڑی اتارلی۔ انہوں نے کوئی حرکت نہ کی۔ وہ واقعی پوری طرح زد پر تھے اور جو رائفلیں ان پر تنی ہوئی تھیں ، وہ بہت خوفناک تھیں۔
”پروفیسر سام! آپ نے گھڑی سمندر میں گرادی؟“
”جی ….جی ہاں۔“ وہ بولے۔
”اب سب لوگ پندرہ قدم آگے آجائیں۔“
ان سب نے انسپکٹر جمشید کی طرف دیکھا جیسے پوچھ رہے ہوں اب کیا کریں؟
”جو کہا گیا ہے ، کرو۔ ہمارے پیچھے سمندر ہے اور آگے بلتان اور ابھی ہماری اپنے ساتھیوں سے ملاقات بھی نہیں ہوئی لہٰذا پندرہ قدم گن ڈالو۔“ انہوں نے خوش گوار لہجے میں کہا۔
”لیکن جناب! اس سارے معاملے میں میرا کیا قصور ہے؟“ کپتان نے روتی آواز میں کہا۔
”آپ کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ہمارا بھی کوئی قصور نہیں، یہ سب تو لکھا ہوا ہے، انسان کے مقدر میں جو لکھ دیا گیا ہے وہ پیش آکر رہے گا، لہٰذا صبر کرو۔ ایک بات میں تم سے کہے دیتا ہوں اور وہ یہ کہ پہلے ہم مریں گے بعد میں تمہاری باری آئے گی۔ یہ نہیں ہوگا کہ کسی موقعے پر ہم اپنی جانیں بچانے کے لیے آپ کو آگے کردیں۔“
”لیکن اس سے مجھے کیا فائدہ ہوگا۔“ اس نے برا سا منہ بنایا۔
”اگر یہ بات ہے تو پھر سن لیں۔ مرنا تو آپ کو ویسے بھی پڑے گا۔ موت اس جزیرے پر آئے یا کسی اور جگہ آئے۔“
”تم لوگ بلاوجہ دیر لگارہے ہو۔ ان باتوں سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ قدم اٹھانے کی کرو۔“
انہوں نے قدم اٹھانے شروع کردیے۔ جلدہی آواز پھر ابھری:
”یہ کیا؟ کچھ لوگ پیچھے کیوں رہ گئے ہیں۔“
انسپکٹر جمشید، خان عبدالرحمن اور پروفیسر داﺅد نے چونک کر دیکھا۔ محمود اور فاروق باقی سب سے کئی قدم پیچھے نظر آئے:
”کیا ہوا تمہیں؟“
”جی…. ہوا تو کچھ بھی نہیں۔“ محمود مسکرایا۔
”تو پھر پیچھے کیوں رہ گئے؟“
”آپ کے قدم لمبے ہیں اور ہمارے چھوٹے، لہٰذا ہم پندرہ قدم اٹھا کر وہاں نہیں پہنچ سکیں گے جہاں آپ لوگ پہنچ جائیں گے۔“ محمود نے جلدی جلدی کہا۔
وہ مسکرادیے۔ ادھر جھنجھلاتی ہوئی آواز میں کہا گیا:
”تم بھی بڑوں کے پاس پہنچ جاﺅ۔ پندرہ قدم کا مطلب یہ نہیں کہ تم اپنے ساتھیوں تک پہنچنے کے لیے کوئی اور قدم اٹھا ہی نہیں سکتے۔“
”اب آپ نے کہا ہے تو اٹھا لیتے ہیں۔ ہمارا کیا جاتا ہے۔ ہم اپنے ساتھیوں سے بھی آگے نکل جاتے ہیں۔“
”نہیں! اس کی ضرورت نہیں۔ اِدھر اُدھر کی باتیں نہ کرو۔ میں تمہیں اچھی طرح جانتا ہوں۔“
”اچھی طرح جانتے ہیں…. کیا مطلب؟“
”مطلب یہ کہ تم لوگ اِدھر اُدھر کی باتوں میں لگا کر اپنا کام نکالنے کے ماہر ہو، لیکن میں تمہیں کوئی موقع نہیں دوں گا۔“
”چلیے خیر…. نہ دیجیے گا موقع۔ ہم آپ سے مانگیں گے بھی نہیں۔“ محمود نے برا سا منہ بنایا۔
”کیا نہیں مانگیں گے ۔ “ بلتان نے اسے گھورا۔
”بھئی موقع اور کیا۔“
”آپ لوگوں کے ساتھ میں بھی پھنس گیا۔ وہ دس ہزار میرے کس کام آئے؟“
”بعد میں کام آجائیں گے فکر نہ کریں۔“ محمود نے جلدی سے کہا۔
”میں، میں آگے نہیں جاﺅں گا۔ میں تو بس جزیرے کے کنارے پر رہوں گا۔ کیا خبر کوئی جہاز یا لانچ اس طرف آجائے۔ اس صورت میں اس پر سوار تو ہو سکوں گا، لیکن اگر میں آپ لوگوں کے ساتھ آگے چلا گیا، تو ایسا کوئی موقع ہاتھ نہیں آئے گا۔“
”اگر مسٹر بلتان آپ کو اجازت دیتے ہیں، تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔“ انسپکٹر جمشید نے خوش گوار لہجے میں کہا۔
”اگر یہ دونوں حضرات کنارے پر جا کر کسی گزرتے جہاز کا انتظار کرنا چاہیں، تو مجھے کوئی اعتراض نہیں شوق سے چلے جائیں۔ اگر ان دونوں نے آپ لوگوں کی کسی بھی طرح سے مدد کرنے کی کوشش کی، تو پھر ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہوگی۔“
”ٹھیک ہے ہم کیوں کریں گے ان کی مدد؟ ان کی وجہ سے تو ہم اس مصیبت میں پھنسے ہیں۔ ہماری طرف سے یہ لوگ جائیں جہنم میں۔“
”ایسا تو نہ کہو۔ کیا تم نے اپنے بارے میں ہمارے والد کے الفاظ نہیں سنے، یعنی ان کے جذبات کیا ہیں اور آپ کیا سوچ رہے ہیں۔“
”آپ لوگ اگر ہم سے پہلے اپنی جانیں دے دیتے ہیں، تو اس سے ہمیں کیا فائدہ ہوجائے گا؟ ہم دونوں بھی اپنی جان سے تو ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔“
”اب بات سمجھ میں آئی۔ آپ دونوں جزیرے کے کنارے اس لیے ٹھہرنا چاہتے ہیں کہ جان سے ہاتھ دھونے کے بجائے پانی سے ہاتھ دھوسکیں۔“ محمود نے جل بھن کر کہا اور وہ سب مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔
”ہم کچھ بھی کریں آپ کو کیا اور میرا خیال ہے ان کے دشمن کو ہمارے الگ ہوجانے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔“
”بالکل نہیں آپ دونوں خوشی سے کنارے پر چلے جائیں، لیکن اگر کوئی چال چلنے کی کوشش کی تو نقصان میں رہیں گے۔“
”ہم کوئی چال نہیں چلیں گے۔ ہمیں ضرورت بھی کیا ہے کچھ کرنے کی؟ یہ لوگ ہمارے کس کام آئیں گے۔ رہ گئے آپ…. آپ سے نہ ہماری دوستی ہے نہ دشمنی اس لیے آپ سے کوئی امید ہوسکتی ہے کیونکہ وقت کی باگ ڈور اس وقت آپ کے ہاتھ میں ہے۔“
”آپ دونوں عقل مند ہیں۔ کنارے پر چلے جائیں اور ہمیں ان لوگوں سے فارغ ہولینے دیں۔ پھر آپ کو ساحل کی طرف بھجوادیا جائے گا۔“
”بہت خوب…. آپ کا شکریہ ! آپ بہت اچھے ہیں۔“ پروفیسر سام نے خوش ہوکر کہا۔
”تب پھر ایک کام کرتے جائیں۔“ آواز آئی۔
”جی …. وہ کیا؟“
”ان لوگوں نے جو چیزیں گرائی ہیں، وہ اٹھا کر لے جائیں اور سمندر میں گرادیں۔“
”اچھی بات ہے۔“
”اور میرے تین ساتھی ان لوگوں کی اچھی طرح تلاشی لیں۔ کوئی چیز ان کے پاس رہ گئی ہو تو وہ بھی نکال کر سمندر میں گرادی جائے۔“
اس پر عمل کیا گیا۔ ایسے میں اچانک انسپکٹر جمشید کی آنکھیں مارے حیرت کے پھیل گئیں۔
انسپکٹر جمشید اتنے زور سے چونکے تو ان کے ساتھی بھی حیران رہ گئے۔
”کک…. کیا ہوا ابا جان؟“ محمود گھبرا کر بولا۔
”ایک خیال آیا ہے۔ کیا پروفیسر جیفر سام اور کپتان ساحل کی طرف جا چکے ہیں؟“ وہ بولے۔
”جی ہاں وہ تو ان لوگوں کے تلاشی شروع کرنے سے پہلے چلے گئے تھے۔“
”خفیہ عمارت نمبر ایک کو جب بلتان کے آدمیوں نے گھیرا تھا، تو ہم وہاں ایک آواز سنتے رہے تھے….“ انہوں نے کھوئے کھوئے انداز میں کہا۔
”جی…. جی ہاںبالکل سنتے رہے ہیں۔“
”بعد میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ وہ آواز بلتان کی نہیں تھی۔“
”جی…. جی ہاں! یہی بات ہے۔“
”اب جو ہم نے آواز سنی ہے۔ کیا یہ وہی نہیں ہے؟“
”اوہ جی ہاں! یہ وہی آواز ہے، تو کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ بلتان کی آواز ہے۔“
”میں ابھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ آواز بلتان کی ہے یا کسی اور کی، لیکن یہ آواز ہے وہی جو ہم خفیہ عمارت نمبر ایک کے باہر سنتے رہے ہیں۔“
”مطلب یہ کہ زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ یہی بلتان ہے۔“
”ہاں! یہ کہا جاسکتا ہے۔“
”لیکن انسپکٹر جمشید۱ اس سے کیا فرق پڑتا ہے بھلا۔“ آواز لہرائی۔
”یہ میں بعد میں بتاﺅں گا کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
ان کی یہ مسکراہٹ بہت عجیب تھی۔ اس مسکراہٹ نے ان کے ساتھیوں کو شدید الجھن میں ڈال دیا۔
”کیا مطلب ؟“ وہ بول اٹھے۔
”ابھی اس کامطلب رہنے دیں۔“ وہ ہنسے۔
”لیکن ابا جان! ہم شدید الجھن محسوس کررہے ہیں۔“
”کوئی بات نہیںکرتے رہیں الجھن محسوس۔“ انہوں نے پھر عجیب اندا ز میں کہا۔
”مطلب یہ کہ آپ کو کوئی خاص بات معلوم ہوگئی ہے۔“ فاروق نے ان کی طرف غور سے دیکھا۔
”ہاں ! تم یہ کہہ سکتے ہو۔“
”اب یہ اپنی اِدھر اُدھر کی باتیں ختم کرو اور قدم اٹھاﺅ۔ میرے ماتحتو! تم یہ ہدایت سن لو کہ اگر اب ان کے قدم رکیں تو فائر کردینا۔“
”اوکے سر!“
”پیچھے سے چند ہوائی فائر کرکے انہیں جتادو کہ تم لو گ ان کے پیچھے موجود ہو اور بہت آسانی سے تم انہیں نشانہ بناسکتے ہو۔ سب لوگ ایک ہی وقت میں فائر کریں۔“
”اوکے سر!“
اس کے ساتھ ہی جزیدہ ان گنت گولیوں کی آوازوں سے گونج اٹھا۔ جزیرے کے پرندے خوف زدہ انداز میں درختوں سے اڑے اور ان کا بے تحاشا شور مچ گیا، اب تو گویا کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی…. ان کے قدم اٹھتے رہے۔ تین چار منٹ بعد کہیں جاکر پرندے پرسکون ہوئے۔
”کیا ضرورت تھی ان پرندوں کو خوف زدہ کرنے کی؟“
انسپکٹر جمشید نے برا سا منہ بنایا۔
”تم لوگ پوری طرح ہماری زد پر ہو صرف یہ بتایا ہے۔“
”یہ بات تو ہم اس جزیدے پر قدم رکھنے سے پہلے سے جانتے تھے۔“ انسپکٹر جمشید جھلا اٹھے۔
”آگیا غصہ…. میں نے تو سنا تھا انسپکٹر جمشید کو غصہ نہیں آتا اور دشمنوں سے مقابلے میں یہی ان کی کامیابیوں کا رازہے۔“
”میں بھی آخر انسان ہوں کبھی آبھی جاتا ہے۔“ وہ ہنس دیے۔
وہ چلتے رہے،پندرہ منٹ بعد ایک کھلے میدان میں داخل ہوئے۔ اس کے چاروں طرف درخت ایک دائرے کی صورت میں تھے۔ گویا اس وقت وہ ان درختوں کے گھیرے میں تھے۔
”ان کے ساتھی نیچے لٹکادو۔“
”کیا کہا نیچے لٹکا دو۔“ مارے حیرت کے ان کے منہ سے نکلا۔ ساتھ ہی انہوں نے اوپر دیکھا درختوں سے چند رسیاں لٹکتی نظر آئیں۔ ان کے سروں پر ان کے ساتھی بری طرح بندھے ہوئے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ نیچے آرہے۔
”اُف اتنا ظلم سربلتان! میں آپ کو ایسا نہیں سمجھتا تھا۔ خیر …. میں آپ کو اس ظلم کا مزہ چکھاﺅں گا۔“
”خوب بہت خوب پہلے اپنے ساتھیوں کی خبر لے لو۔“
”محمود جلدی کرو چاقونکالو۔“
محمود نے جوتے کی ایڑھی سرکائی اور پھر دھک سے رہ گیا۔ ایڑی میں چاقو نہیں تھا۔ اس نے پریشانی کے عالم میں ان کی طرف دیکھا۔
”چاقو غائب ہے ابا جان۔“
”اوہو اچھا! خیر کوئی بات نہیں۔“
”انہیں کوئی چاقو دے دو بھئی۔ بے چارے آخری بار اپنے ساتھیوں سے مل لیں گے۔“
اوپر سے ایک چاقو نیچے آگرا۔ وہ عام سا چاقو تھا۔ انہوں نے ا س کے ذریعے رسیاں کاٹنی شروع کردیں اور جلد ہی وہ آزاد ہوگئے۔ ان کے ہونٹوں پر بھی ٹیپ چپکائی گئی تھی۔ اسے اتارتے وقت انہیں شدید تکلیف محسوس ہوئی۔منہ کھلتے ہی ان سب نے کہا:
”اللہ کا شکر ہے اس مصیبت سے نجات ملی اور آپ لوگوں کی شکل نظر آئی۔“
”اچھی طرح اللہ کا شکر ادا کرلو۔ آج تم لوگوں کی زندگیوں کا آخری دن ہے۔“
”تب پھر پہلے ہمیں یہ بتادیں کہ حاجو خان سے آپ کیا کام لے رہے تھے۔ دفتر کے لوگوں کی چیزیں کیوں اس کے ذریعے اڑا رہے تھے۔“
”پہلے چند آدمیوں کی چھوٹی چھوٹی چیزیں اڑ ا کر حاجو خان کو یہ احساس دلایا تھا کہ یہ کام بے ضررہے۔ پھر اس کے ذریعے نصیر الدین شاہ کی دراز میں گھڑی رکھوانے کا پروگرام تھا، لیکن حاجو خان کم بخت دھوکا دے گیا۔
امید نہیں تھی کہ وہ ایسا ثابت ہوگا۔ میرا تو خیال تھا وہ پوری طرح شیشے میں اتر چکا ہے، لیکن ہو ااِس کا اُلٹ۔ خیر …. کوئی بات نہیں۔ تم لوگوں کے ساتھ اس کا بھی کانٹا نکال دیاجائے گا۔ جب تم ایک دوسرے کو خوب جی بھر کر دیکھ چکو تو بتا دینا۔ اُس وقت میرے ساتھی درختوں پر سے فائرنگ کرکے تم لوگوں کو اگلے جہاں پہنچادیں گے۔“
”اچھی بات ہے، لیکن یہ تو کوئی مزے داری نہ ہوئی۔“ انسپکٹر جمشید نے حیران ہوکر کہا۔
”کیا مطلب؟“
”مسٹر بلتان! کم ا ز کم ہماری اور آپ کی ملاقات تو ہونی چاہیے تھی۔“
”اچھی بات ہے۔ تم سے ملاقات بھی کر لیتا ہوں۔ کہیں مرتے وقت تم یہ خوش فہمی لے کر نہ مرو کہ میں تم سے ڈر رہا تھا ، اس لیے سامنے نہیں آیا۔“
”چلیے ٹھیک ہے۔ ہم یہ خوش فہمی لے کر نہیں مریں گے وعدہ کرتے ہیں۔“ فاروق نے خوش ہوکر کہا۔
”حد ہوگئی یہ خوش ہونے کا کون سا موقع ہے؟“
”اچھا جب خوش ہونے کا موقع آئے تو بتادینا۔“ اس نے برا سا منہ بنایا۔
اب انہوں نے اپنے ساتھیوں کی طرف توجہ دی۔
”ہمیں افسوس ہے کہ یہ لوگ آپ لوگوں کو اغوا کرکے لے آئے۔ غلطی ہماری تھی۔“
”اب تو جوہونا تھا ہوچکا۔“ حاجو خان نے پریشانی کے عالم میں کہا۔
”موت کا وقت مقررہے اور اپنے وقت پر آکر رہتی ہے۔ بس اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں معاف کردے، ہمارے گناہوں سے درگزر کرے۔“
”آمین ۔“ ان سب کے منہ سے نکلا۔ ساتھ ہی آنکھو ں میں آنسو آگئے۔
”انسپکٹر جمشید! تم لوگوں کی آنکھوں میں آنسو؟ میں نے تو سنا تھا تم لوگ وہ ہو جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے ہو، لیکن میں تو تم لوگوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھ رہا ہوں۔“
”یہ آنسو حاجو خان اور اس کے بیوی بچوں کے لیے ہیں۔ ہم ان کی حفاظت نہ کرسکے۔ وہ ہماری پناہ میں تھے۔“
”اس میں آپ کا کیا قصور؟“ حاجو خان کے منہ سے نکلا۔
”کیا تم لوگ ایک دوسرے سے مل چکے؟“
”ہاں! لیکن ا ب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔“
”میں آرہا ہوں۔ بالکل آرہا ہوں….فکر نہ کریں۔“
اور پھر خاموشی چھا گئی۔ وہ چارو ں طرف دیکھنے لگے …. درختوں کے حلقے کے اندران کے سوا کوئی نہیں تھا۔
اچانک انہیں درختوں کے درمیان سے نکل کر کوئی آتا نظر آیا۔
پھر وہ درختوں کے دائرے میں داخل ہوا۔ اس کے چہرے پر نقاب تھا۔ وہ درمیانے قد کا دبلا پتلا سا آدمی تھا۔ پرسکون انداز میں چلتے ہوئے وہ ان کے سامنے آکھڑا ہوا:
”اس نقاب کی ضرورت سمجھ میں نہیں آئی جب کہ ہمیں معلوم ہے آپ بلتان ہیں۔“ انسپکٹر جمشید نے الجھن کے عالم میں کہا۔
”میں نے سوچا کہیں تم لوگ مجھے دیکھ کر ڈر نہ جاﺅ۔“
”جہاں تک بلتان کے حلیے کا تعلق ہے مجھے معلوم ہے، لہٰذا اس کے حلیے سے تو ہم خوف زدہ ہوں گے نہیں کوئی اور بات ہو تو وہ آپ بتادیں۔“
”میرا خیال تھا تم حلیے کے چکر میں پڑنے کی بجائے یہ پوچھو گے کہ میں کیا چاہتا ہوں؟ یہ سارا چکر کیا ہے۔“
”اس میں شک نہیں ۔ ضروری یہی ہے، چلیے خیر اگر آپ اپنا چہرہ نہیں دکھانا چاہتے تو پھر یہ باتیں بتادیں جن کی طرف خود آپ نے اشارہ کیا ہے؟“
”ضرور کیوں نہیں حاجو خان کے محکمے کے ڈائریکٹر پر ہماری ایک مدت سے نظریں تھیں۔ محکمہ اطلاعات بہت اہم ہوتا ہے۔ اس کا ڈائریکٹر اگر ہماری مرضی کا ہو تو بہت سے کام چٹکیوں میں نکل آتے ہیں۔ سو اوپر سے حکم ملا، نصیر الدین شاہ کو ختم کردیاجائے ، لیکن اس طرح کہ تفتیش کرنے والے چکر ہی کھاتے رہ جائیں۔ سو حاجو خان کو چھوٹے چھوٹے معاملات میں دس دس ہزار روپے دے کر قابو کیا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ اصل واردات کی باری میں وہ ہاتھ سے پھسل گیا اور اس نے ہدایات کے مطابق عمل نہ کیا۔ اب ظاہر ہے ہمیں نصیر الدین کو تو ٹھکانے لگانا تھا۔ سوچا اس کے ساتھ ہی ، حاجو خان کو بھی مزہ چکھا دیا جائے لیکن یہ حضرت پہنچ گئے آپ کے پاس۔ جب انہیں آپ کے گھر سے اغوا کیا گیا تو پروگرام طے پایا کہ ساتھ میں آپ کے گھر کو بھی لپیٹ میں لیا جائے تاکہ ایک تیر سے تین شکار ہوجائیں چنانچہ دیکھ لیں سب یہاں موجود ہیں۔ نصیر الدین شاہ بھی ہیں۔ ایک ہی بار آپ سب کو لپیٹ دیا جائے گا۔ پھر یہاں لاشوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کا مسئلہ بھی نہیں ہے۔ اٹھا کر سمندر میںپھینک دیں گے اور فارغ…. پھر ہم ہوں گے اور آپ کا ملک ہوگا۔ بات ایک ڈائریکٹر پر تو ختم نہیں ہوجائے گی۔ تمام اسلام پسندوں کو ایک ایک کرکے ختم کریں گے اور ان کی جگہ اپنی مرضی کے آدمی لائے جائیں گے…. اس طرح یہ ملک بغیر کسی جنگ کے فتح ہوجائے گا۔ جب انسپکٹر جمشید جیسے لوگ نہیں ہوں گے تو ہمارے لیے آسانیاں ہی آسانیاں ہوں گی اور تم لوگوں کے ہوتے ہوئے رکاوٹیں ہی رکاوٹیں ہیں۔“
”یہاں آپ خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔“ انسپکٹر اس کے خاموش ہوتے ہی بولے۔
”وہ کیسے؟“
”ایسے کہ اس ملک میں ایک ہم ہی نہیں ہیں۔ ہم جیسے نہ جانے کتنے سرپھرے موجود ہیں۔“
”کوئی پروا نہیں…. باری باری سبھی کو اس جزیرے پر لایا جائے گا اور یہ جزیرہ موت کا جزیرہ بن جائے گا۔“
”چلیے ٹھیک ہے۔ اب ذرا آخر میں اپنا چہرہ دکھا دیں تاکہ ہم بھی دیکھ لیں بلتان کیسا ہوتا ہے۔“ انہوں نے شوخ انداز میں کہا۔
”اچھی بات ہے۔ تم لوگ بھی کیا یاد کروگے۔“
اس نے کہا اور چہرے سے نقاب اتار دیا۔ انہوں نے بالکل اس حلیے کے آدمی کو اپنے سامنے دیکھا…. جو حلیہ انہوںنے بلتان کا سن رکھا تھا۔
”چلو اس بہانے زندگی میں بلتان کو دیکھ لیا، بہت شہرت سنی تھی آپ کی۔ اب ایک بات اور بتادیں۔“
”جو پوچھنا ہے پوچھ لو۔ پھر تمہیں کہاں موقع ملے گا۔“ وہ ہنسا۔
”اس مرتبہ آپ کس ملک کے لیے کام کررہے ہیں۔“
”انشارجہ کے لیے…. ویسے میں زیادہ تر انشارجہ کے لیے ہی کام کرتا ہوں۔“
”خوب بہت خوب میرا بھی یہی اندازہ تھا۔ یہ انشارجہ ہی تو ہے جو ہر ملک کو غلام بنانے کی فکر میں رہتا ہے۔ وہ بھی بلتان جیسے لوگوں کے ذریعے۔“
”بس ہوگئیں تم لوگوں کی باتیں ختم۔ اب ہم اپنا کام کریں گے۔“
”میری ایک خواہش تھی۔“ انسپکٹر جمشید کی آواز ابھری۔
”کیا مطلب؟کیسی خواہش؟‘ ‘ وہ چونکا۔
”دو بے چارے ساحل پر رہ گئے۔ اس معاملے میں واقعی ان کا کوئی قصور نہیں وہ بلاوجہ پھنس گئے۔ میں چاہتا تھا آپ انہیں بھی یہاں بلالیں جو کچھ ہوان کے سامنے ہوجائے۔ اس طرح اس واقعے کے گواہ بھی ہوں گے۔“
”ان گواہوں کا تم لوگوں کو کیا فائدہ ہوگا بھلا؟“
”بات فائدے اور نقصان کی نہیں۔ میں تو بس ان کا خیال کرتے ہوئے کہہ رہا ہوں۔ وہ بھی دیکھ لیتے اپنے دین اور ملک کے لیے کس طرح زندگیاں قربان کی جاتی ہیں۔“
”اگرچہ اس کی ضرورت نہیں پھر بھی میں اس کو آپ کی آخری خواہش سمجھ کر پوری کیے دیتا ہوں۔ پروفیسر سام اور کپتان صاحب! آپ دونوں تک میری آوز پہنچ رہی ہے نا۔“
”جج….جی ہاں پہنچ رہی ہے۔“
”بس تو پھر آپ بھی آگے چلے آیئے۔ آپ دونوں کو خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچایاجائے گا۔ بس آپ ان لوگوں کی موت کا منظر دیکھیں گے۔“
”نن نہیں…. ہم یہ خوفناک منظر نہیں دیکھ سکتے ۔“ پروفیسر سام کی لرزتی آواز سنائی دی۔
”میں نے کہا نا آپ کو ڈرنے کی ضرورت نہیں …. بس چلے آیئے۔ ورنہ پھر ہم آپ لوگوں کو جزیرے پر چھوڑ کر چلے جائیں گے۔“
”ن…. نہیں…. ایسا نہ کیجیے۔“ ڈرائیور خوف زدہ آواز میں چلا اٹھا۔
”تو پھر چلیں آئیں ناک کی سیدھ میں آکر ان کی موت کا منظر دیکھ لیں۔ پھر ہم یہاں سے چلیں گے۔“
”چلیے پروفیسر صاحب! اب تو چلنا پڑے گا۔“
”ہاں …. بالکل۔“
اور پھر وہ انتظار کرنے لگے۔ یہاں تک کہ دونوں درختوں کے دائرے میں داخل ہوتے نظر آئے۔ ان کے چہروں پر خوف طاری تھا۔
”آیئے پروفیسر صاحب! آیئے۔“ بلتان چہکا۔
”پروفیسر صاحب! میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ آپ تو جانتے ہی ہیں۔ یہ ہمارا آخری وقت ہے۔ کیا آپ میری بات سننا پسند کریں گے۔“
”آ پ لوگوں ہی نے تو ہمیں اس مصیبت میں پھنسایا ہے۔ ہم آپ کی بات کیوں سنیں۔“
”شاید وہ بات آپ کے حق میں ہو۔“
”اچھی بات ہے سن لیتا ہوں۔“ پروفیسر سام نے برا سا منہ بنایا اور ان کی طرف دیکھنے لگا۔
پروفیسر سام کے قدم ان کی طرف اٹھنے لگے۔ ان کی نظریں پروفیسر پر جم کر رہ گئی تھیں۔ ایسے میں محمود نے دبی آوا ز میں کہا۔
”ابا جان! آپ پروفیسر صاحب سے کیا کہنا چاہتے ہیں؟“
”بس دیکھتے جاﺅ۔“ وہ بولے۔
”جی…. کیا دیکھتے جائیں؟“
”یہ کہ میں ان سے کیا کہنا چاہتا ہوں۔“
”آپ کہتے ہیں تو دیکھ لیتے ہیں، ہمارا کیا جاتا ہے۔“ فاروق نے منہ بنایا۔
اور وہ مسکرانے لگے۔ اگرچہ موت کے دہانے پر مسکرانا آسان کام نہیں تھا، لیکن ان کی زندگیوں میں ایسے لمحات آتے ہی رہتے تھے، لہٰذا مسکراسکتے تھے۔ آخر پروفیسر سام ان کے بالکل نزدیک پہنچ گئے۔
”ہاں انسپکٹر جمشید آپ مجھ سے کیا کہنا چاہتے ہیں؟“
”میں آپ کے کان میں کہنا چاہتا ہوں۔ مہربانی فرما کر اور نزدیک آجائیں۔“
”اوہو…. وہ ایسی کیا بات ہے آخر۔“
”آپ سن کر حیرت زدہ رہ جائیں گے۔“
”چلیے مان لیامیں سن کر دھک سے رہ جاﺅں گا، لیکن بات ہے کیا۔“
”وہ تو میں کان میں بتاسکتا ہوں۔“
”اچھی بات ہے، میں نزدیک آجاتا ہوں۔“
اس کے قدم اٹھنے لگے یہاں تک کہ وہ ان کے بالکل نزدیک پہنچ گیا۔
”لیجیے آگیا نزدیک کہیے کیا کہنا چاہتے ہیں؟“
”کان قریب کیجیے نا۔“ انہو ں نے منہ بنایا۔
پروفیسر سام نے بھی منہ بنایا تاہم وہ ان سے اور نزدیک ہوگیا اور اپنا کا ن ان کے منہ کی طرف کردیا۔
عین اس وقت انسپکٹر جمشید نے ایک عجیب حرکت کی۔
وہ عجیب حرکت یہ تھی کہ انسپکٹر جمشید نے پروفیسر سام کی گردن کے گرد اپنا دایاں بازو کس دیا تھا اور بایاں ہاتھ اس کے سر پر اس طرح رکھا کہ جونہی ذرا سا جھٹکا دیں تو اس کی گردن ٹوٹ جائے اور یہ انسپکٹر جمشید کا ایک خاص انداز تھا۔ ایک عجیب داﺅ تھا۔ اس داﺅ سے وہ بڑے سے بڑے ماہر لڑاکے کو قابو میں کرچکے تھے۔ ان کے اس داﺅد کے جواب میں ان کا شکار اگر ذرا بھی حرکت کرنے کی کوشش کرتا تو اس کی گردن ٹوٹ جاتی تھی۔ شکار فوراً محسوس کرلیتا تھا کہ وہ بہت بری طرح پھنس گیا ہے۔
”یہ…. یہ کیا انسپکٹر جمشید ؟ تم نے اپنے ساتھی کو اس طرح کیوں پکڑلیا۔“ بلتان کی حیرت زدہ آواز گونجی۔
”یہ ہمارا ساتھی نہیں، البتہ ہمارے ساتھ یہاں تک آیا ضرور ہے۔ اب یہ اس حالت میں ہے کہ اس کے جسم کو ذرا بھی حرکت ہوئی تو اس کی گردن ٹوٹ جائے گی۔ یہ خود حرکت کرے یا میں حرکت کروں ، ایک ہی بات ہوگی بلکہ تم میں سے کوئی کسی طرح بھی ہم پر وار کرے، اس کی گردن پہلے ٹوٹے گی۔ اگر یقین نہیں تومسٹر ساکا خود اس سے پوچھ لو۔“
”کیا …. کیا کہا مسٹر ساکا؟“ وہ بری طرح اچھلا۔
”ہاں! تم بلتان نہیں ہو ساکا ہو۔ ہمارے ملک کا ایک بڑا جرائم پیشہ تم سے میری ملاقات ایک کیس کے سلسلے میں ہوچکی ہے، لیکن تم میرے ہاتھ سے بچ کر نکل گئے تھے۔ میں چونکہ اس وقت تمہاری آوا ز سنتا رہا ہوں، اس لیے اب جب میں نے تمہاری آواز سنی تو میرے دماغ میں ایک جھماکا سا ہوا۔ میرے دماغ نے مجھے فوراً بتایا کہ یہ شخص بلتان نہیں ساکا ہے۔ ایک مقامی جرائم پیشہ کیوں میں غلط تو نہیں کہہ رہا؟“
”نہیں! تم بالکل ٹھیک سمجھے۔“ اس نے ہنس کر کہا۔
”خوب! تم نے اتنی بات تو مانی۔ اب اپنے ساتھیوں کو حکم دو، وہ درختوں سے نیچے آجائیں لیکن نیچے آنے سے پہلے اپنے پستول اور رائفلیں گرادیں۔“
”کیا آپ پاگل ہوگئے ہیں انسپکٹر جمشید۔“ ساکا غرایا۔
”نہیں البتہ تم لوگوں کو پاگل کردینے کا ارادہ ہے اور وہ تم آج ضرور ہوگے۔“
”کیا اِدھر اُدھر کی ہانک رہے ہو؟ پروفیسر سام کو چھوڑ دو۔ تم لوگ پوری طرح ہماری زد پر ہو۔ ایک پل میں سب کے سب تڑپتے نظر آﺅگے۔“
”اس میں شک نہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے ساتھ پروفیسر سام بھی تڑپتے نظر آئیں گے۔“
”تو کیا ہوا ہماری بلا سے۔ آجائیں تڑپتے نظر۔“ساکا بولا۔
”تب پھر اپنے ساتھیوں کو حکم دوکہ وہ ہم پر فائرنگ شروع کریں۔ ہم پوری طرح ان کی زد پر ہیں نا؟فائرنگ شروع کرنا ان کے لیے کیا مشکل ہے شروع کریں۔“
”لگتا ہے آپ واقعی پاگل ہوگئے ہیں۔ بھلا ہمیں پروفیسر سام کی کیا پروا؟ تم لوگو ںکے ساتھ یہ بھی مرتے ہیں تو ہمیں کیا۔“
”اسی لیے تو کہہ رہا ہوں اپنے ساتھیوں سے کہو ہم پر فائرنگ کریں۔“
”یہ حکم تو خیر مجھے دینا ہی ہے، لیکن….“ ساکا کہتے کہتے رک گیا۔
”لیکن کیا…. یہ لیکن اٹک کیوں گیا؟“ فاروق کی شوخ آواز سنائی دی۔ اب صورت حال ان کی سمجھ میں بہت تیزی سے آرہی تھی۔
”لیکن…. میں سوچتا ہوں بلاوجہ پروفیسر سام کیوں مارے جائیں؟ آپ انہیں چھوڑ دیں تاکہ ہم فائرنگ شرو ع کرسکیں۔ انہیں ساحل کی طرف جانے دیں۔“
”اب میں اتنا بھی پاگل نہیں۔“ انسپکٹر جمشید ہنسے۔
”کتنے بھی جمشید؟“ خان عبدالرحمن نے حیران ہوکر کہا۔
”یار سمجھا کرو۔“ وہ جھلا کر بولے۔
”اچھی بات ہے، اب سمجھا کروں گا۔“ خان عبدالرحمن نے فوراً کہا۔
”کیا سمجھا کروگے؟“ انسپکٹر جمشید بولے۔ جب کہ ان کی پوری توجہ پروفیسر سام کی طرف تھی۔ وہ ذرا بھی اِدھر اُدھر نہیں دیکھ رہے تھے۔
”جج…. جو تم کہوگے بس وہی سمجھا کروں گا۔“
”انسپکٹر جمشید تم بھی اپنے بچوں کی طرح اِدھر اُدھر کی باتوں میں لگ گئے۔ ہے کوئی تک…. تم پروفیسر سام کو چھوڑتے ہو یا میں فائرنگ کا حکم دوں۔“
”یہی تو میں کہہ رہا ہوں تم فائرنگ کا حکم دے دو۔“
”ضرور تم پاگل ہوگئے ہو۔“ ساکا گرجا۔
”تو پھر تمہیں اس سے کیا؟ میں پاگل ہوگیا ہوں، تمہاری بلا سے۔ میں تو تمہارا دشمن ہوں، تمہارے قابو میں ہوں اور پروفیسر سام کوئی تمہارے سگے رشتے دار بھی نہیں ہیں کہ تمہیں ان کی زندگی کی کوئی پروا ہوگی، تو پھر حکم دو اپنے ساتھیوں کو وہ ہم پر فائرنگ کریں۔“
”اب یہی کرنا ہوگا۔ میں تو بس اس لیے رک گیا تھا کہ بے چارے پروفیسر سام بلاوجہ مارے جائیں گے جب کہ ان کا کوئی قصور نہیں ہے اور ہمیں ان سے کوئی دشمنی نہیں، لہٰذا میں آخر ی بار کہہ رہاہوں پروفیسر سام کو چھوڑ دیں۔“
”اور میں بھی تمہیںآخری بار کہہ رہاہوں کہ فائرنگ کا حکم دو۔“ انسپکٹر جمشید گرجے۔
ان کی گرج نے ان سب کو ہلا کر رکھ دیا، لیکن خود انسپکٹر جمشید نہیں ہلے تھے، اس لیے کہ اگر وہ ہلتے تو پروفیسر سام کی گردن ٹوٹ جاتی۔
”اچھی بات ہے انسپکٹر جمشید! آپ جیت گئے۔ آپ پروفیسر کو چھوڑدیں، ہم آپ سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔“ ساکا نے ڈھیلی ڈھالی آواز میں کہا۔
”انسپکٹر جمشید نے اپنے بال دھوپ میں سفید نہیں کیے۔“انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”کیا کہہ رہے ہیں ابا جان؟ آپ کے بال تو ابھی سفید ہوئے ہی نہیں۔“ فاروق نے حیران ہوکر کہا۔
”اوہ…. معاف کرنا محاورہ درمیان میں ٹپک پڑا۔“
”کیا کہنا چاہتے ہیں انسپکٹر جمشید؟“ ساکا نے جھلائے ہوئے اندا ز میں کہا۔
”با ت تو جتنی بھی ہوگی اسی حالت میں ہوگی یعنی پروفیسر سام کو چھوڑے بغیر۔“
”اوکے…. آپ کیا چاہتے ہیں؟“ساکا کی آواز اور ڈھیلی ہوگئی۔
”ہاں! اب آپ آئے سیدھے راستے پر…. درختوں پر جتنے لوگ موجود ہیں ان سب سے کہو اپنی رائفلیں اور پستول نیچے گرادیں۔ اگر کسی کے پاس بھی پستول یا رائفل نظر آئی تو ہم اسے نہیں چھوڑ یں گے۔“
”گرادو بھئی….نیچے۔“ ساکا بولا۔
”یہ کیا؟ یہ صاحب توپروفیسر سام کو بچانے کے لیے آپ کی ہر بات ماننے کے لیے تیار ہوگئے کمال ہے۔“ محمود نے حیران ہوکر کہا۔
”اسی کو کہتے ہیں انقلاب زمانہ۔“ انسپکٹر جمشید ہنسے۔
”یہ تو کمال ہوگیا جمشید…. لیکن یہ ہو کیسے گیا؟“ پروفیسر داﺅد کے لہجے میں حیرت تھی۔
”ساکا کے چہرے کی طرف دیکھ لیں۔“
”ساکا کے چہرے کی طرف دیکھ لوں کیا وہاں پر لکھا ہے کہ یہ کیسے ہوگیا۔“
”کچھ نہ کچھ تو لکھا نظر آ ہی جائے گا۔“
”اچھی بات ہے جمشید تم کہتے ہو تو دیکھ لیتا ہوں۔ ورنہ اس کی طرف دیکھنے کو جی نہیں چاہتا۔ ارے یہ کیا؟ اس کے چہرے پر تو سیاہی ہی سیاہی نظر آرہی ہے۔“
”بلکہ یوں کہیں کہ کالک ملی نظر آرہی ہے۔“ خان عبدالرحمن بولے۔
”اوہو! سوال تو یہ ہے کہ کیوں؟ پروفیسر سام کی ان لوگوں کے نزدیک کیا اہمیت ہے؟“ فاروق نے جھلائے ہوئے اندا ز میں کہا۔
”ابھی تک رائفلیں نہیں گرائی گئیں۔“ انسپکٹر جمشید کی سرد آواز لہرائی۔
”گراتے کیوں نہیں۔“ ساکا چلایا۔
رائفلیں اور پستول نیچے گرنے لگے۔
”تم لوگ حرکت میں آجاﺅ۔ تمام رائفلوں اورپستولوں کو خالی کرکے دور پھینک دو۔ اس قدر دور کہ اس سے زیادہ دور نہ پھینک سکو۔“
”جی اچھا۔“ وہ بولے۔
اور انہوں نے اپنا کام شروع کردیا۔ جلد ہی میدان رائفلوں اور پستولوں سے پاک ہوگیا۔
”اب ان لوگوں سے کہو کہ نیچے آجائیں۔“
”نیچے آجاﺅ۔“ ساکا بولا۔
ان لوگوں نے درختوں سے رسیوں کی سیڑھیاں لگائی ہوئی تھیں۔ فوراً ہی وہ ان کے ذریعے نیچے اترتے نظر آئے۔
”فاروق ان رسیوں کو کاٹ کر نیچے گرادو۔“
”جی اچھا۔“
فاروق نے وہ چاقو اٹھالیاجو میدان میں پڑا تھا اور اس کو لے کر درخت پر چڑھ گیا۔ اس طرح اس نے رسیاں کاٹ ڈالیں۔
”اب ان رسیوں سے ان لوگوں کو باندھنا شروع کردو۔“
وہ اس کام میں لگ گئے۔ جب سب کو باندھ لیا گیا تو انسپکٹر جمشید نے کہا:
”مسٹر ساکا! اب تم خود کو بندھوالو۔“
”اچھی بات ہے۔“
انہوں نے اسے بھی باندھ دیا۔
”میں اس کی گردن پکڑے رہوں گا۔تم لوگ اسے بھی رسیوں سے باندھ دو۔“
”آپ کا مطلب ہے پروفیسر سام کو ۔“ مارے حیرت کے محمود کے منہ سے نکلا۔
”ہاں! پروفیسر سام کو۔“
”تت…. تو یہ بھی ان کا ساتھی ہے۔“ فاروق چلا اٹھا۔
”بہت دیر بعد سمجھے…. جب میں نے خان عبدالرحمن کی گاڑی اڑنے کی خبر سنی تھی، تو میں اس وقت چونکا تھا۔ پھر جب لانچ اڑی تو مجھے یقین ہوگیا کہ یہ سب پروفیسر سام کررہا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ یہ بھی ان کا ساتھی ہے۔ اسی لیے تو ایک ایسے جزیرے کو منتخب کیا گیا جس کے بارے میں ہمیں اس سے رابطہ کرنا پڑا۔ اب کیوں نہ میں تمہیں اس کا اصل نام بھی بتادوں؟“
”جج…. جی …. اصل نام…. آپ…. آپ کامطلب ہے …. جیفر سام اس کا اصل نام نہیں ہے۔“
”نہیں…. جیفر نام کا آدمی تو اس وقت بھی اپنے گھرمیں موجود ہے۔ یہ تو اس کے میک اپ میں ہے۔“
”کیا؟“ مارے حیرت کے ان کے منہ سے نکلا۔
”ہاں ! بالکل یہی بات ہے۔ یہ جیفر سام نہیں ہے۔ اس کے میک اپ میں ہمارا اصل مجرم ہے۔“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”آپ….آپ کا مطلب ہے یہ بلتان ہے۔“ وہ چلا اٹھے۔
”ہاں بالکل…. دراصل ہمارا سب سے بڑا دشمن انشارجہ ہمارے ملک کی اہم ترین جگہوں پر اسلامی ذہن کے لوگ پسند نہیں کرتا۔ اس بار اس نے بلتان کے ذمے کچھ لوگوں کو ٹھکانے لگانے کا کام لگایا تھا۔ ان میں پہلا نمبر نصیر الدین شاہ کا تھا۔ بلتان جیسے لوگ دور بیٹھ کر اپنا کام کرنا پسند کرتے ہیں، لہٰذا اس نے یہ کام دوسروں سے لینے کا منصوبہ بنایا تھا۔ آٹھ دس خاص خاص آدمیوں کو یہ اسی قسم کی سازشوں کے ذریعے ٹھکانے لگاتا اور فتح کے شادیانے بجاتا انشارجہ چلا جاتا۔ منصوبہ تو بس اتنا سا تھا۔ اب اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ اس کا پہلا ہی شکار ا س کے ہاتھوں سے پھسل جائے گا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ حاجو خان اس کا سارا منصوبہ چوپٹ کردے گا جہاں تک میرا خیال ہے اس نے اس شہر میں پروفیسر جیفر سام کے گھر کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنایاتھا…. جیفر سام انہی کا کارندہ ہوگا، لہٰذا اسی کے مشورے سے اس جزیرے کا نام ہمیں دیا گیا تاکہ ہم اس کے بارے میں معلوم کرنے کے لئے اس کے پاس جائیں اور وہاں سے جیفر سام کے روپ میں بلتان ہمارے ساتھ ہولے۔ جب ہماری گاڑی ساحل سمندر پر بھک سے اڑ گئی تو مجھے بہت حیرت ہوئی کیونکہ پروفیسر داﺅد پہلے ہی گاڑی کو چیک کرچکے تھے اور اس وقت کوئی چیز اس میں نہیں ملی تھی۔ پھر گاڑی میں دھماکا کرنے کا سامان کب رکھا گیا؟ یہ بات مجھے اس وقت سوجھی جب لانچ بھی اسی طرح اُڑ گئی۔ اس وقت مجھے قطعاً کوئی شک نہیں رہ گیا تھا کہ بلتان خود ہمارے ساتھ ہے۔ نتیجہ یہ کہ اس وقت بلتان کا پورا منصوبہ خاک میں مل چکا ہے۔ اس کے تمام ساتھی ہماری قید میں ہیں اور خود یہ موت کے دہانے پر کھڑا ہے۔ لو میں اس کا بھی کانٹانکالے دے رہا ہوں۔“
”واہ! کیا انصاف ہے۔“ایسے میں بلتان نے اپنے جسم کو حرکت دیے بغیر کہا۔
”انصاف…. گو یا تم مجھے ناانصافی کا طعنہ دے رہے ہوبھلا وہ کیسے؟“
”دھوکے سے مجھے قابو میں کرلیا۔یہ کیا بہادری ہے؟ مزہ تو تب تھا جب مجھے مقابلے کے لیے للکارتے۔ میری تمہاری جنگ ہوتی پھر میں تمہیں بتاتا، تم کتنے پانی میں ہو۔“
”یہ بات وہ شخص کہہ رہا ہے جس نے اس وقت تک صرف اور صرف دھوکے سے کام لیاہے۔ ہماری گاڑی اڑا دی، لانچ اڑادی اور اس سے پہلے حاجوخان کو دھوکا دیا۔ اب یہ صاحب مجھ سے مطالبہ کررہے ہیں کہ میں انہیں باقاعدہ مقابلہ کرکے شکست دوں۔ واﺅ کیا خوب۔“
”گویا تم مجھے اسی طرح ہلاک کردینا چاہتے ہو۔“
”ہاں بالکل! میں دشمن کو بلاوجہ موقع دینے کے حق میں نہیں۔ تم میرے ذاتی دشمن نہیں ہو میر ے ملک کے دشمن ہو ، میری قوم کے دشمن ہو۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اسلام کے دشمن ہو۔ اب دیکھو نا میں بہادری کے گھمنڈ میں تمہاری گردن چھوڑ دوں اور تم سے کہوں آﺅ کرو مجھ سے مقابلہ اور مقابلے میں جیت جاﺅ تم، تو یہ نقصان کس کا ہوگا؟ مجھے تو یہ نقصان پہنچے گا کہ میں تمہارے ہاتھوں مارا جاﺅں گا یا شدید زخمی ہوجاﺅں گا اور میرے بچے تمہارے ہاتھوں مارے جائیں گے۔ میرے ساتھی بھی مارے جائیں گے۔ غرض ہم سب ختم ہوجائیں گے۔ بات صرف یہاں تک ہوتی، تو بھی میں تمہاری خواہش پوری کرتااور تم سے دو دو ہاتھ کرتا، لیکن خطرہ بس یہ نہیں اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ ہے کہ تم اسلام کے دشمن ہو۔ ہمارے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرتے ہو، لہٰذایہ تم جاری رکھوگے اور اگر ایسا ہوا تو یہ میری اس بہادری کے گھمنڈ کا نتیجہ ہوگا۔ بات یہ ہے کہ میں دشمن کو مہلت دینے کا قائل نہیں۔ ہاں اس کی ایک صورت ہے۔“
”ایک صورت…. اور وہ کیا؟“ بلتان کی آواز میں تجسس تھا۔
”وہ یہ کہ تم میرے ایک سوال کا جواب دے دو۔“
”کک…. کیسا سوال؟“
”بالکل آسان سا سوال ہے۔ یہ بتادو کہ ہم سب کو ختم کرنے کی صورت میں تم لوگ یہاں سے کس طرف جاتے؟ ظاہر ہے اس جزیرے پر تو رہنے کے لیے انتظام نہیں ہے۔“
بلتان کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزر گیا، وہ کچھ نہ بول سکا۔
”مسٹر بلتان ! تم نے جواب نہیں دیا۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
وہ اب بھی خاموش رہا۔
”واہ جمشید …. تم نے تو کمال کردیا اِسے گنگ کردیا۔
”میں اب اس کی گردن توڑ رہا ہوں کیونکہ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔“
”ٹھیک ہے جمشید…. یہی بہتر ہے۔ سانپ کو چھوڑ دینا عقل مندی نہیں۔“
”ٹھہرو انسپکٹر جمشید ! میں تمہارے سوال کا جواب دے رہا ہوں۔ یہاں پاس ہی ایک اور جزیرہ ہے وہاں میرے بہت سے ماتحت موجود ہیں۔ ان کے پاس ایسی کئی لانچیں ہیں۔“
”خوب بہت خوب! آپ نے دیکھا پروفیسر صاحب۔“ انسپکٹر جمشید چہکے۔
”کک…. کیادیکھا۔“ پروفیسر ہکلائے۔
”یہ کہ ادھر میرا اور اس کا مقابلہ شروع ہوتا، ادھر اس کے ساتھی ہمیں پکڑلیتے اور رائفلیں ہم پہلے ہی یہاں سے بہت دور پھینک چکے ہیں اور وہ سب ان کے ہاتھ لگ جاتیں اور ہم بہت آسانی سے ان کے ہاتھوں مارے جاتے۔ بازی پھر بلتان کے ہاتھ میں رہتی۔“
”ارے باپ رے۔“ پروفیسر داﺅد اور خان عبدالرحمن بوکھلا اٹھے۔ وہ مسکرادیے۔
”پھر اب کیا کرنا ہے جمشید؟“
”بس دیکھتے جاﺅ۔“
”اچھا دیکھتے جائیں گے،ہمارا کیا جاتا ہے۔“پروفیسر داﺅد نے منہ بنایا۔
”چلو بھئی بلتان اپنے ساتھیوں سے کہو وہ ادھر ہی آجائیں۔ وہ بھی یہ مقابلہ دیکھیں گے۔“
”ٹھیک ہے۔“ بلتان نے فوراً کہا۔
”تو دو نا پیغام۔“
”میری جیب سے موبائل نکال کر مجھے دیں۔“ وہ بولا۔
”نمبر بتاﺅ میں دائل کرتا ہوں۔ کیا نام ہے؟ اس ماتحت کا جسے تم ہدایات دوگے۔“
”راجر بوم۔“ وہ بولا۔
”محمود بہت احتیاط سے اس کی جیب سے موبائل نکال لو۔ خود کو اس کی زد سے بچائے رکھنا۔“
”کیا اِس حالت میں یہ صاحب مجھ پر حملہ کرسکتے ہیں؟“
”نہیں…. لیکن ہوشیار رہنا اچھا ہے۔“
”جی اچھا۔“
محمود نے موبائل اس کی جیب سے نکال لیا۔ پھر اس سے نمبر پوچھا۔ اس نے جونہی نمبربتایا۔ انسپکٹر جمشید نے اس کے جسم کو زو ر دار جھٹکا دیا…. اس کے منہ سے ایک دل دوز چیخ نکل گئی۔
”یہ …. یہ آپ نے کیا کیا؟ اسے ختم کردیا۔“ فاروق بول اٹھا۔
”نہیں ! بے ہوش کیا ہے۔“
اب وہ خان عبدالرحمن کی طرف مڑے اور بولے۔
”خان عبدالرحمن حرکت میں آجاﺅ۔“
”کیا کہا…. حرکت میں آجاﺅں…. کیسے؟“
”سب لوگ ان رائفلوں کو تلاش کرلیں۔ ان میں میگزین بھرلیں اور درختوں کی بہترین انداز میں اوٹ لے لیں۔ دشمن کے ساتھی سیدھے ادھر آئیں گے۔ ان کا نشانہ لینا بھلا کیا مشکل ہوگا۔“
”بہت خوب جمشید!“
اور پھر اس ہدایت پر کام شروع ہوگیا۔ جلد ہی وہ درختوں کے پیچھے پوزیشن لے چکے تھے۔ اب انسپکٹر جمشید نے پروفیسر داﺅ دسے کہا۔
”جن لوگوں کو ہم نے رسیوں سے باندھا ہے، انہیں آپ کوئی چیز سونگھا کر بے ہوش کردیں تاکہ یہ شور وغیرہ کرکے آنے والوں کو خبردار کرنے کی کوشش نہ کریں۔“
”اچھی بات ہے جمشید۔“ وہ مسکرا دیے ۔
جب سب لوگ بے ہوش ہوگئے تو انسپکٹر جمشید نے راجر بوم کے نمبرملائے جونہی اس کی آواز ابھری۔ انہوں نے حلق سے بلتان کی آواز نکالی۔
”راجر بوم۔“
”یس سر!“ دوسری طرف سے فوراً کہا گیا۔
”ہم نے ان سب کو قابو کرلیا ہے۔ اب تم بے فکر ہوکر آجاﺅ۔“
”اوکے سر۔“
انہوں نے فون بند کیا ہی تھا کہ فاروق نے پریشانی کے عالم میں کہا۔©
”ہم ایک بات نظر انداز کرگئے ابا جان۔“
”اور وہ کیا؟“
ان سب کے منہ سے نکلا۔
”ہم یہ بات نظر انداز کرگئے ہیں کہ ہمارا مقابلہ بلتان سے ہے۔“ محمو د مسکرایا۔
”حد ہوگئی بھلا یہ بات بھی کوئی بھولنے والی ہے؟ بلتان ہمارے سامنے پڑ اہے۔“ فاروق نے منہ بنایا۔
”کیا کہنا چاہتے ہو محمود؟“ انسپکٹر جمشید الجھن کے عالم میں بولے۔
”بلتان نے بھی آخر اپنے منصوبے کا ہر طرح جائزہ لیا ہوگا۔ اس نے یہ اندازہ لگایا ہوگا کہ آپ نے اس کے بارے میں بھانپ لیا تو اس صورت میں وہ کیا قدم اٹھائے گا۔ ایک قدم تو آپ سمجھ گئے لیکن میرا خیال ہے اس نے کوئی اور قدم بھی سوچا ہے یعنی یہ راجر بوم اور اس کے آدمیوں کو ختم کردیتے ہیں۔ بلتان پر بھی قابو پالیتے ہیں تو اس صورت میں آخری داﺅ کے طور پر وہ کیا قدم اٹھائے گا۔“
”ہوں…. تمہارا خیال ٹھیک ہے محمود۔ بلتان نے اس مقام پر شکست کے بعد ضرو رکوئی اور پہلو بچا رکھا ہے۔“
”اور ابا جان ! وہ پہلو یہ ہے کہ جب ہم بلتان اور اس کے ساتھیوں کو لے کر لانچ پر سوار ہوجائیں گے تو اس وقت وہ آخر ی وار ہوگا۔“
”ہوں…. ضرور یہی بات ہے۔“
”بس تو پھر بلتان کو آپ اسی طرح پھر سے قابو میں کرلیں۔“ محمود نے تجویز پیش کی۔
”لیکن جمشید اسے ختم ہی کیوں نہ کردیا جائے۔“پروفیسر داﺅد بولے۔
”ہوں ٹھیک ہے اس کا کانٹانکال ہی دیتے ہیں۔ پھر ہم راجر بوم اور اس کے ساتھیوں کا انتظار کریں گے۔ وہ زد میں آگئے تو ان کا کام بھی تمام کردےں گے۔ اس کے بعد ہم یہیں اسی طرح انتظار کریں گے۔ ان کی لائی ہوئی لانچوں میں ہر گز سفر نہیں کریں گے۔“
”یہ ٹھیک رہے گا۔ بلتان والا موبائل اب ہمارے پاس ہے۔ ہم اس کے ذریعے آئی جی صاحب کو فون کرکے یہاں لانچیں منگوا سکتے ہیں۔“
”ٹھیک ہے جمشید بسم اللہ کرو اور بلتان کاکام تمام کردو۔“
انسپکٹر جمشید اس کی طرف بڑھے ہی تھے کہ بلتان کے جسم میں بجلی کی سی حرکت پیدا ہوئی اور وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ بری طرح چونکے اب ان کے چہروں پر حیرت ہی حیرت تھی۔
”تم سے چوک ہوگئی جمشید۔ میں پوری طرح تمہارے قابو میں تھا۔ مجھے بے ہوش کرنے کے بجائے ختم کردینا چاہیے تھا۔“ وہ ہنسا۔
”اللہ مالک ہے جس نے مجھے تم پر پہلے قابو دیا تھا۔ وہ اب پھر دے دے گا۔“
”اس وقت اور بات تھی میں تمہارے دھوکے میں آگیا تھا۔“
”کوئی بات نہیں آﺅ دو دو ہاتھ بھی ہو ہی جائیں کہ یہی تمہاری خواہش ہے۔ خان عبدالرحمن …. تم اپنا کام کرو۔ راجر بوم اور اس کے ساتھی کم از کم بلتان کی مدد کو نہ پہنچیں۔“
”ٹھیک ہے جمشید ! تم فکر نہ کرو۔“ خان عبدالرحمن کی پرسکون آواز سنائی دی۔
”تم لوگ بھی اپنے انکل کے ساتھ جاﺅ۔“
”یہ…. یہ کیسے ممکن ہے ابا جان!یہاں آپ کے اور بلتان کے دود و ہاتھ ہونے والے ہیں۔“ محمود نے پریشان ہوکر کہا۔
”اور ادھر دشمن آنے والا ہے۔ اگر آنے والوں کو نہ روکا گیا تو بلتان کی طاقت کئی گناہ بڑھ جائے گی، لہٰذا تم دشمن کی طرف توجہ دو۔ پروفیسر صاحب آپ بھی خان صاحب کی مدد کریں۔“
”ٹھیک ہے جمشید ہم چاروں پوزیشن لے لیتے ہیں، لیکن جب تک لانچیں نظر نہیں آجاتیں، اس وقت تک تو ہم رخ پھیر کر لڑائی دیکھ سکتے ہیں۔“ فاروق نے مارے بے چینی کے کہا۔
”ہاں ! اتنی اجازت ہے، لیکن تم خود لڑائی میں دخل اندازی نہیں کروگے۔ یہ مقابلہ صرف میرے اور بلتان کے درمیان ہوگاسمجھ گئے۔“
”جی ہاں ! وہ ایک ساتھ بولے۔
”چاہے میری پوزیشن کچھ بھی کیوں نہ ہوجائے۔ تم اپنی جگہ سے نہیں ہلوگے….تم نے سنا …. میں نے کیا کہا ہے۔“
”جی ….جی ہاں ۔“ وہ بولے۔
ایسے میں انہوں نے بلتان کو ہوا میں اڑ کر ان کی طرف آتے دیکھا۔
”سنبھل کر۔“ وہ چلا اٹھے۔
لیکن ان کے چیخنے سے بھی پہلے انسپکٹر جمشید ایک طرف گرکر لڑھک چکے تھے۔ گویا وہ پوری طرح ہوشیار تھے۔ ادھر بلتان اپنی جھونک میں سیدھا ایک درخت کی طرف آیا اور اگر وہ دونوں ہاتھ آگے نہ کردیتا تو بری طرح درخت سے ٹکرا گیا تھا۔ ساتھ ہی وہ ان کی طرف مڑا۔ اس کے چہرے پر حیرت نظر آئی اوریہ حیرت ضرور وار خالی جانے پر تھی۔
”ابا جان ! لانچیں نظر آرہی ہیں۔“
”بس ٹھیک ہے۔ اب تم لوگوں کی پوری توجہ حملہ آوروں کی طرف ہونی چاہیے۔ ادھر کوئی نہ دیکھے بلکہ خان عبدالرحمن تم ان لوگوں کے ساتھ کافی آگے چلے جاﺅ۔“
”لیکن جمشید….“
”خان عبدالرحمن ! یہاں کسی لیکن کی گنجائش نہیں ہے۔ سنا تم نے۔“ وہ تیز آواز میں بولے۔
”اچھی بات ہے جیسا تم کہوگے ، ہم کریں گے۔“
اور پھر وہ لڑائی کے اس مقام سے آگے بڑھتے چلے گئے۔ اگر چہ ان میں سے ایک کا جی بھی آگے جانے کو نہیں چاہ رہاتھا، لیکن مجبوری تھی۔ حملہ آوروں کو نہ روکا جاتا، تو پھر وہ سب کے سب مارے جاتے۔
”آﺅ بھئی رک کیوں گئے ۔“ انسپکٹر جمشید دونوں بازو پھیلاتے ہوئے بولے۔
”آرہا ہوں لوسنبھالو میرا وار۔“ یہ کہتے ہوئے بلتان پرسکون انداز میں ان کی طرف قدم اٹھانے لگا۔ انسپکٹر جمشید اس پر نظر جمائے اپنی جگہ کھڑے رہے۔پھر جونہی وہ نزدیک پہنچا تو یک دم اونچا اُچھلا۔ اس کے دونوں پاﺅں ان کے سینے کی طر ف آتے نظر آئے۔ وہ فوراً ترچھے ہوگئے اور ساتھ ہی دو ہتڑ چلادیا ۔ ان کے دونوں ہاتھ اس کی کمر پر لگے اور وہ اوندھے منہ گرا۔
”دو وار خالی ہوچکے ہیں۔ بس ایک کی اور مہلت دوں گا۔ تاکہ تم یہ نہ کہومیں نے مقابلہ نہیں کیا۔“
”ٹھیک ہے میرا بھی تیسرا وار فیصلہ کن ہوگا۔ اگر میں اس میں بھی کامیاب نہ ہوسکا، تو اپنی ہار مان لوں گا۔“
یہ کہتے ہی وہ زمین پر گرگیا اور بلا کی رفتار سے ان کی طرف آیا۔ نزدیک آتے ہی اس نے ایک ہاتھ زمین پر رکھا اور پورا جسم گھمادیا۔ انسپکٹر جمشید اس کے اس وار سے بچنے کے لیے اوپر اُچھل گئے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح اس کا جسم نیچے سے نکل جائے گا، لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ اس کے دونوں پیرا ِن کی پنڈلیو ں سے ٹکراگئے۔ انہیں یوں جیسے ان کے جسم سے جان نکل گئی ہو۔ وہ بے دم سے ہوکر زمین پر اوندھے منہ گرے۔
”انسپکٹر جمشید آپ تو گئے کام سے۔ اب آپ کے باقی ساتھیوں کو ٹھکانے لگانا میرے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہوگا۔“بلتان ہنسا۔
”گویا…. گویا تم مجھے موقع نہیں دوگے جب کہ میں نے تمہیں تین مواقع دیے ہیں۔ جب تم درخت سے ٹکرائے تھے اس وقت میں چاہتا تو ایک ہی وار میں تمہارا کام تمام کرسکتا تھا۔ پھر دوسرے وار کے بعد بھی میرے پا س حملہ کرنے کا وقت تھا اور تیسرا وار تمہارا کارگر رہا۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ تم بھی مجھے تین مواقع دو۔“
”نہیں ! میں ایسا نہیں کروں گا۔ اس حالت میں آپ کی گردن مروڑ دینا میرے لیے آسان ہے۔“
یہ کہتے ہوئے وہ ان کی طرف بڑھا۔ اس کے دونوں ہاتھ ان کی گردن کی طرف آئے۔ انہوںنے اپنی قوت کو جمع کیا اور دائیں ہاتھ کو گھمادیا۔ وہ اس وقت تک پوری طرح ان پر جھک چکا تھا۔ دائیں ہاتھ کا مکا اس کے چہرے پر پوری قوت سے لگا۔ اس کے منہ سے ایک دل دو زچیخ نکل گئی۔وہ بری طرح لڑکھڑایا اور دھڑام سے گرا۔ ساتھ ہی انسپکٹر جمشید اس پر جا پڑے اور اس کی گردن بازو کی گرفت میں لے لی۔ بالکل ایسی طرح جیسے وہ پہلی با رقابو میں آیا تھا۔
”بلتان! اب کیا کہتے ہو؟“
اس کے منہ سے کچھ نہ نکل سکا۔ دوسرے ہی لمحے انہوں نے اس کی گردن کو جھٹکا دیا۔ اس کے منہ سے آخری چیخ نکلی اور وہ ساکت ہوگیا۔ وہ اسے اسی طرح پکڑے بیٹھے رہے کہ کہیں مکر نہ کررہا ہو اور زندہ نہ ہو، لیکن اس کی گردن ٹوٹ چکی تھی۔ آخر اس کی موت کا یقین ہوجانے پر وہ اسے چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے ۔ ایک نظر اس کے بے جان جسم پر ڈالی۔ اس کی کھلی آنکھوں سے وحشت ٹپک رہی تھی۔
وہ مڑے اور اپنے ساتھیوں کی طرف چل پڑے۔ دور سے انہیں لانچیں صاف نظر آئیں۔ اپنے ساتھیوں کے نزدیک پہنچ کر انہوں نے ایک درخت کی اوٹ لے لی کہ کہیں ان کے ساتھی انہیں دشمن خیال کرتے ہوئے فائر نہ کردیں۔ پھر وہ پرسکون آواز میں بولے۔
” میں بھی اب تمہارے ساتھ موجود ہوں۔“
”بلتان کا کیا بنا؟“ وہ ایک ساتھ بولے۔
”اللہ کی مہربانی سے مارا گیا۔“
”یا اللہ تیرا شکر ہے۔“
آخر لانچیں ساحل سے آلگیں ۔ بلتان کے ماتحت ساحل پر اترنے لگے۔ پھر بے فکری سے آگے بڑھنے لگے کیونکہ انہیں تو یہی معلوم تھا کہ ان کا راستہ صاف ہے جونہی وہ زد میں آئے۔ انہوں نے فائر کھول دیا۔
دیکھتے ہی دیکھتے وہ خاک اور خون میں تڑپتے نظر آئے۔ ان میں سے ایک بھی نہ بچ سکا۔
دو گھنٹے بعد پولیس کی لانچیں جزیرے کو گھیر چکی تھیں او ر وہ ایک لانچ پر ساحل کا رخ کررہے تھے۔
”اللہ کا شکر ہے ایک سازشی سے تو نجات ملی۔“ محمود کی آواز سنائی دی۔
”لیکن ہمارے ملک میں ایسے سازشیوں اور غداروں کی کیا کمی ہے۔ جلد ہی کسی اور سے ملاقات ہوجائے گی۔“ فاروق نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا۔
اور وہ مسکرانے لگے۔
٭….٭….٭