Man moji
VIP+
Offline
سکینڈل گرل*
*بہت ہی درد ناک اور سبق آموز کہانی ہے کیسے ایک معصوم بچی جس نے کبھی گھر سے باہر قدم نہیں رکھا تھا کیسے وہ فیس بک کی اندھی محبت میں پھنس گئی اور پھر کیسے اس معصوم کا ایک درد ناک انجام ہوا
..بہت دکھ بھری اور دلچسپ اور سبق آموز کہانی ہے.. لازمی پڑھیں..*
*قسط نمبر 1*
رات کو دو بجے اچانک سر میں شدید درد کے احساس سے میری آنکھ کھل گٸی
درد اتنا شدید تھا کہ سانس لینا دشوار ہو رہا تھا۔
مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق اٹھ بیٹھا۔۔
کچھ دیر سانس بحال کرتا رہا پھر جیکٹ پہنی اور بیڈ روم سے باہر نکل آیا۔۔
جیسے ہی صحن میں قدم رکھا ہوا کے ایک ٹھنڈے جھونکے نے احساس دلایا کہ سردی ابھی باقی ہے۔۔۔
اکیلے ہونا جہاں ایک نعمت ہے وہی بہت زیادہ تکلیف دہ بات بھی ہے انسان جب بیمار ہوتا ہے تو کوٸی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔۔۔
پوری رات بندہ بخار سے تپتا رہتا ہے کوٸی پرسان حال نہیں ہوتا یہی سوچتے ہوٸے میں صحن میں کھڑی اپنی کھٹارا مہران تک پہچ گیا۔۔۔
جس کے لٸے میں تو گرل فرینڈ والی فیلنگ رکھتا تھا لیکن وہ ہمیشہ مجھ سے لڑاکا بیوی جیسا برتاٶ کرتی تھی۔۔
موڈ ہوا تو سٹارت ہو گٸی نا موڈ ہوا تو جواب دے دیا۔۔۔
اب بھی میں نے ڈور کھولنے سے پہلے آیت الکرسی پڑھ کے پھونک مارا اور دروازہ کھول کے آہستہ سے سیٹ پہ آ بیٹھا
انداز ایسا تھا کہ گویا گاڑی کو نہیں بیوی کو جگانے
لگا ہوں
کلمہ پڑھ کے سٹارٹ کرنے کے لٸے چابی گھماٸی پہلے تو زرہ سا غصہ کرتے ہوٸے غراٸی پھر سٹارٹ ہو گٸی۔۔
بس پھر کیا تھا میں نے بھی فل ایکسی لیٹر دے دیا کہ اچھے سے گرم ہو جاٸے۔۔۔۔
دو منٹ ایسے ہی گاڑی کو تپانے کے بعد میں اترا اور گیٹ کھولا۔۔
جب میں گھر سے نکلا تو سر درد عروج پہ تھا
کوٸی اور وقت ہوتا تو میں رات کا یہ پہر بہت انجوٸے کرتا غلام علی کی کوٸی غرل سنتا۔۔۔
لیکن اِس وقت سر درد کر رہا تھا اس لٸے نصیبو لال سننا مجھے زیادہ بہتر لگا۔۔۔۔
نصیبو کے گانے بھلے جیسے بھی ہیں لیکن ان کا ایک فاٸدہ ہے انسان نصیبو کے گانے سنتے ہوٸے کچھ اورسوچ ہی نہیں سکتا۔۔۔
کیوں کے نصیبو کے گانوں میں شاعروں نے ایسی ایسی ساٸنس لڑاٸی ہوتی ہے کہ بندہ سن کے خود کو بھی نکا نکا شاعر سمجھنے لگتا ہے۔۔۔
ہسپتال کی ایمرجنسی میں ڈاکٹر نے میرا بی پی چیک کر کے مجھے ایک نرس کے حوالے کر دیا۔۔۔
جس نے بڑی قاتلہ مسکراہٹ کے ساتھ بتایا کہ آپ کو ٹیکا لگے گا۔۔۔
میں نے بھی اُسی کی طرح ڈبل قاتلانہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا
مجھے پتہ ہے ٹیکا ہی لگنا ہے ہور تسی کہڑا گولی مارنی لاٶ ٹیکا تسی
لیکن اس وقت چراغوں میں روشنی نہ رہی جب نرس نے کہا لیٹ جاٸیں
سر درد کا انکشن لگوا کے میں نے پارکنگ کا رخ کیا جہاں مہران میرا ویٹ کر رہی تھی۔۔۔۔
ہسپتال کے سروس روڈ سے جیسے ہی میں نے مین روڈ پہ گاڑی کو ٹرن کیا۔۔
ایک لڑکی نے ہاتھ کے اشارے سے لفٹ مانگی۔۔۔
پہلے تو سوچا رہنے دیتا ہوں۔۔
کیوں کہ اس وقت کسی لڑکی کو لفٹ دینا خطرے سے خالی نہیں تھا۔۔
دوسرا اب ایک اور دھندہ بڑے عروج پہ تھا کال گرل پروواٸڈر عورتیں رات کو کسی گاڑی والے سے لفٹ لے لیتی اور باتوں باتوں میں اسے بتاتی کہ ہماری جاننے والی بہت مجبور ہو کے جسم فروشی کا کام کر رہی ہے۔۔۔
اب جن کو ضرورت ہوتی وہ آگے سے دلچسپی لے لیتے اُن کی بات میں۔۔
اور وہ سمجھ جاتی کہ یہ ہمارا کسٹمر ہے جسے دلچسپی نہیں ہوتی وہ اگنور کر دیتا تو وہ چپ چاپ اپنے اگلے سٹاپ پہ اتر جاتی۔۔۔۔
خیر نا چاہتے ہوٸے بھی میں نے گاڑی اُس لڑکی کے پاس روک لی کیونکہ کے میں شک کی بنیاد پر کسی کی ہیلپ نہیں چھوڑ سکتا تھا۔
گاڑی رکتے ہی لڑکی نے بڑے مزہب انداز میں السلام علیکم کہا۔۔
اور میرے وعلیکم سلام کا انتظار کیٸے بنا اس نے بہت میٹھی آواز میں کہا سر آپ مجھے موتی محل اتار دیں گے۔۔۔
جی اتار تو دوں گا لیکن۔۔۔۔
لیکن کو چھوڑیں آپ اتار دینا بس اور اگر آپ چاہیں گے تو آپ کو اتارنے کا رینٹ بھی مل جاٸے گا ۔۔۔
اُس نے بے تکلفی سے فرنٹ ڈور کھول کے سیٹ پہ بیٹھتے ہوٸے معنی خیز لہجے میں کہا۔۔۔۔
مجھے سمجھ آ گٸی تھی کہ میں نے لفٹ غلط بندی کو دے دی ہے لیکن اب کیا ہو سکتا تھا اب تو وہ گاڑی میں بیٹھ چکی تھی۔۔۔
میں نے اس کی بات کا کوٸی جواب نہ دیا اور گاڑی گیٸر میں ڈال دی۔
شاید میری چپ میں چھپی ناگواری اُس نے بھی محسوس کر لی تھی
کچھ دیر بعد اس کی آواز نے سکوت کو توڑا سوری سر
مجھے آپ سے ایسے بات نہیں کرنی چاہیٸے تھی۔
میں نے جسٹ اٹس اوکے کا جواب دیا۔۔
تب تک موتی محل آ چکا تھا میں نے سٹاپ پہ گاڑی روکی۔۔۔
میرا خیال تھا کہ وہ خود ہی اپنا سٹاپ دیکھ کے اتر جاٸے گی لیکن دو منٹ گزرنے کے بعد بھی وہ ہنوز بیٹھی رہی۔۔
مجھے بہت شدید غصہ آ رہا تھا دل تو چاہا کہ اُسے ایک تھپڑ ماروں اور کہوں دفع ہو جاٶ۔۔
لیکن اپنی ماں کی نصیحت یاد آ گٸی کہ عورت کس بھی کردار کی ہو اُس کی عزت کرنا کیونکہ اُس کا کردار رب کا اور اس کا معاملہ ہے۔۔
تمہیں بس یہ ثابت کرنا ہے تم بھی عورت کے پیدا کردہ ہو
میں نے سٹاپ پہ لگی لاٸٹ کی روشنی میں اس کے چہرے کو پہلی بار دیکھا۔۔۔باٸیس تیٸیس سال کی خوبصورت نقوش والی لڑکی تھی لیکن لگتا تھا کہ وقت نے بہت ظلم کیا ہے اُس پہ
اُسے گم سم پا کے میں نے آرام سے کہا میم آپ کا سٹاپ آ گیا ہے
ایک دم سے وہ چونک گٸی جیسے کسی خواب سے باہر آٸی ہو۔
جی بہت شکریہ آپ کا سر
اس نے کپکپاتی آواز میں کہتے ہوٸے دروازہ کھولنے کی کوشش کی۔۔۔
اُس کا پورا جسم کانپ رہا تھا۔
سردی تو تھی لیکن گاڑی میں اتنی سردی نہیں تھی کہ انسان سردی سے کانپنے لگتا۔۔۔
ایسے پیشے کی عورتیں بہت تیز طرار اور بہت بولڈ ہوتی ہیں لیکن اُس لڑکی نے جو دو تین جواب دیٸے تھے بہت مہزب انداز میں دیٸے تھے۔
آپ ٹھیک تو ہیں میم آپ کو اگر ٹھنڈ لگ رہی ہے تو
ایسا کریں آپ میری جیکٹ لے لیں۔۔۔
میں نے از راہ ہمدرری کہا
اس نے ایک نظر میری طرف دیکھا جیسے سوچ رہی ہو کہ کچھ کہے یا نہ کہے۔
میں نے دوبارہ نرمی سےکہا اگر آپ کو ٹھنڈ لگ رہی ہے تو جیکٹ لے لیں
اب کی بار اُس کی آنکھوں میں نمی تھی اور اس کے اگلے الفاظ نے میرے ہوش اڑا دیٸے۔۔۔
اُس نے بھیگی اور کانپتی آواز میں کہا۔۔
کیا آپ مجھے کچھ کھانے کے لٸے خرید کے دے سکتے ہیں میں نے تین دن سے پانی کے سوا نہ کچھ کھایا ہے نہ پیا۔۔۔
ایک پل کو تو میری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی ختم ہو گٸی۔۔
تین دن سے کھانا نہ کھانے کا مطلب تھا 72 گھنٹے بھوکا رہنا۔۔۔
اف خدایا اب مجھے سمجھ آٸی کہ اس کا جسم اور آواز کیوں کپکپا رہی تھی۔
جب انسان حد سے زیادہ بھوک برداشت کرتا ہے یاچوبیس گھنٹے تک کچھ نہیں کھاتا تو یہ نوبت آتی ہے۔۔
اس کا جسم بھوک کی شدت سے کپکپانے لگتا ہے۔۔
میں نے موباٸل میں ٹاٸم دیکھا ساڑھے چار بج رہے تھے
اس کا کردار جو بھی تھا اس وقت اُس کی مدد کرنا اِس چیز سے زیادہ اہم تھا۔۔
ہو سکتا تھا کہ لوگ اُسے میرے ساتھ دیکھ کہ یہ بھی سمجھتے کہ میں اُس کے ساتھ رات گزار کے اب ڈراپ کرنے جا رہا ہوں یا ناشتہ کروا رہا ہوں۔۔۔۔
لیکن مجھے اِس وقت اِن باتوں کی پرواہ نہیں تھی اِس وقت عزت سے زیادہ انسانیت نبھانا ضروری تھا۔۔۔
میں نے اُس کی بات کا جواب دیٸے بنا گاڑی سٹارٹ کی اور سہراب گوٹھ کی طرف موڑ دی کیونکہ اِس وقت وہاں ہی ناشتہ مل سکتا تھا۔۔۔۔
جاری ہے۔
*بہت ہی درد ناک اور سبق آموز کہانی ہے کیسے ایک معصوم بچی جس نے کبھی گھر سے باہر قدم نہیں رکھا تھا کیسے وہ فیس بک کی اندھی محبت میں پھنس گئی اور پھر کیسے اس معصوم کا ایک درد ناک انجام ہوا

*قسط نمبر 1*
رات کو دو بجے اچانک سر میں شدید درد کے احساس سے میری آنکھ کھل گٸی
درد اتنا شدید تھا کہ سانس لینا دشوار ہو رہا تھا۔
مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق اٹھ بیٹھا۔۔
کچھ دیر سانس بحال کرتا رہا پھر جیکٹ پہنی اور بیڈ روم سے باہر نکل آیا۔۔
جیسے ہی صحن میں قدم رکھا ہوا کے ایک ٹھنڈے جھونکے نے احساس دلایا کہ سردی ابھی باقی ہے۔۔۔
اکیلے ہونا جہاں ایک نعمت ہے وہی بہت زیادہ تکلیف دہ بات بھی ہے انسان جب بیمار ہوتا ہے تو کوٸی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔۔۔
پوری رات بندہ بخار سے تپتا رہتا ہے کوٸی پرسان حال نہیں ہوتا یہی سوچتے ہوٸے میں صحن میں کھڑی اپنی کھٹارا مہران تک پہچ گیا۔۔۔
جس کے لٸے میں تو گرل فرینڈ والی فیلنگ رکھتا تھا لیکن وہ ہمیشہ مجھ سے لڑاکا بیوی جیسا برتاٶ کرتی تھی۔۔
موڈ ہوا تو سٹارت ہو گٸی نا موڈ ہوا تو جواب دے دیا۔۔۔
اب بھی میں نے ڈور کھولنے سے پہلے آیت الکرسی پڑھ کے پھونک مارا اور دروازہ کھول کے آہستہ سے سیٹ پہ آ بیٹھا
انداز ایسا تھا کہ گویا گاڑی کو نہیں بیوی کو جگانے
لگا ہوں
کلمہ پڑھ کے سٹارٹ کرنے کے لٸے چابی گھماٸی پہلے تو زرہ سا غصہ کرتے ہوٸے غراٸی پھر سٹارٹ ہو گٸی۔۔
بس پھر کیا تھا میں نے بھی فل ایکسی لیٹر دے دیا کہ اچھے سے گرم ہو جاٸے۔۔۔۔
دو منٹ ایسے ہی گاڑی کو تپانے کے بعد میں اترا اور گیٹ کھولا۔۔
جب میں گھر سے نکلا تو سر درد عروج پہ تھا
کوٸی اور وقت ہوتا تو میں رات کا یہ پہر بہت انجوٸے کرتا غلام علی کی کوٸی غرل سنتا۔۔۔
لیکن اِس وقت سر درد کر رہا تھا اس لٸے نصیبو لال سننا مجھے زیادہ بہتر لگا۔۔۔۔
نصیبو کے گانے بھلے جیسے بھی ہیں لیکن ان کا ایک فاٸدہ ہے انسان نصیبو کے گانے سنتے ہوٸے کچھ اورسوچ ہی نہیں سکتا۔۔۔
کیوں کے نصیبو کے گانوں میں شاعروں نے ایسی ایسی ساٸنس لڑاٸی ہوتی ہے کہ بندہ سن کے خود کو بھی نکا نکا شاعر سمجھنے لگتا ہے۔۔۔
ہسپتال کی ایمرجنسی میں ڈاکٹر نے میرا بی پی چیک کر کے مجھے ایک نرس کے حوالے کر دیا۔۔۔
جس نے بڑی قاتلہ مسکراہٹ کے ساتھ بتایا کہ آپ کو ٹیکا لگے گا۔۔۔
میں نے بھی اُسی کی طرح ڈبل قاتلانہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا
مجھے پتہ ہے ٹیکا ہی لگنا ہے ہور تسی کہڑا گولی مارنی لاٶ ٹیکا تسی
لیکن اس وقت چراغوں میں روشنی نہ رہی جب نرس نے کہا لیٹ جاٸیں
سر درد کا انکشن لگوا کے میں نے پارکنگ کا رخ کیا جہاں مہران میرا ویٹ کر رہی تھی۔۔۔۔
ہسپتال کے سروس روڈ سے جیسے ہی میں نے مین روڈ پہ گاڑی کو ٹرن کیا۔۔
ایک لڑکی نے ہاتھ کے اشارے سے لفٹ مانگی۔۔۔
پہلے تو سوچا رہنے دیتا ہوں۔۔
کیوں کہ اس وقت کسی لڑکی کو لفٹ دینا خطرے سے خالی نہیں تھا۔۔
دوسرا اب ایک اور دھندہ بڑے عروج پہ تھا کال گرل پروواٸڈر عورتیں رات کو کسی گاڑی والے سے لفٹ لے لیتی اور باتوں باتوں میں اسے بتاتی کہ ہماری جاننے والی بہت مجبور ہو کے جسم فروشی کا کام کر رہی ہے۔۔۔
اب جن کو ضرورت ہوتی وہ آگے سے دلچسپی لے لیتے اُن کی بات میں۔۔
اور وہ سمجھ جاتی کہ یہ ہمارا کسٹمر ہے جسے دلچسپی نہیں ہوتی وہ اگنور کر دیتا تو وہ چپ چاپ اپنے اگلے سٹاپ پہ اتر جاتی۔۔۔۔
خیر نا چاہتے ہوٸے بھی میں نے گاڑی اُس لڑکی کے پاس روک لی کیونکہ کے میں شک کی بنیاد پر کسی کی ہیلپ نہیں چھوڑ سکتا تھا۔
گاڑی رکتے ہی لڑکی نے بڑے مزہب انداز میں السلام علیکم کہا۔۔
اور میرے وعلیکم سلام کا انتظار کیٸے بنا اس نے بہت میٹھی آواز میں کہا سر آپ مجھے موتی محل اتار دیں گے۔۔۔
جی اتار تو دوں گا لیکن۔۔۔۔
لیکن کو چھوڑیں آپ اتار دینا بس اور اگر آپ چاہیں گے تو آپ کو اتارنے کا رینٹ بھی مل جاٸے گا ۔۔۔
اُس نے بے تکلفی سے فرنٹ ڈور کھول کے سیٹ پہ بیٹھتے ہوٸے معنی خیز لہجے میں کہا۔۔۔۔
مجھے سمجھ آ گٸی تھی کہ میں نے لفٹ غلط بندی کو دے دی ہے لیکن اب کیا ہو سکتا تھا اب تو وہ گاڑی میں بیٹھ چکی تھی۔۔۔
میں نے اس کی بات کا کوٸی جواب نہ دیا اور گاڑی گیٸر میں ڈال دی۔
شاید میری چپ میں چھپی ناگواری اُس نے بھی محسوس کر لی تھی
کچھ دیر بعد اس کی آواز نے سکوت کو توڑا سوری سر
مجھے آپ سے ایسے بات نہیں کرنی چاہیٸے تھی۔
میں نے جسٹ اٹس اوکے کا جواب دیا۔۔
تب تک موتی محل آ چکا تھا میں نے سٹاپ پہ گاڑی روکی۔۔۔
میرا خیال تھا کہ وہ خود ہی اپنا سٹاپ دیکھ کے اتر جاٸے گی لیکن دو منٹ گزرنے کے بعد بھی وہ ہنوز بیٹھی رہی۔۔
مجھے بہت شدید غصہ آ رہا تھا دل تو چاہا کہ اُسے ایک تھپڑ ماروں اور کہوں دفع ہو جاٶ۔۔
لیکن اپنی ماں کی نصیحت یاد آ گٸی کہ عورت کس بھی کردار کی ہو اُس کی عزت کرنا کیونکہ اُس کا کردار رب کا اور اس کا معاملہ ہے۔۔
تمہیں بس یہ ثابت کرنا ہے تم بھی عورت کے پیدا کردہ ہو
میں نے سٹاپ پہ لگی لاٸٹ کی روشنی میں اس کے چہرے کو پہلی بار دیکھا۔۔۔باٸیس تیٸیس سال کی خوبصورت نقوش والی لڑکی تھی لیکن لگتا تھا کہ وقت نے بہت ظلم کیا ہے اُس پہ
اُسے گم سم پا کے میں نے آرام سے کہا میم آپ کا سٹاپ آ گیا ہے
ایک دم سے وہ چونک گٸی جیسے کسی خواب سے باہر آٸی ہو۔
جی بہت شکریہ آپ کا سر
اس نے کپکپاتی آواز میں کہتے ہوٸے دروازہ کھولنے کی کوشش کی۔۔۔
اُس کا پورا جسم کانپ رہا تھا۔
سردی تو تھی لیکن گاڑی میں اتنی سردی نہیں تھی کہ انسان سردی سے کانپنے لگتا۔۔۔
ایسے پیشے کی عورتیں بہت تیز طرار اور بہت بولڈ ہوتی ہیں لیکن اُس لڑکی نے جو دو تین جواب دیٸے تھے بہت مہزب انداز میں دیٸے تھے۔
آپ ٹھیک تو ہیں میم آپ کو اگر ٹھنڈ لگ رہی ہے تو
ایسا کریں آپ میری جیکٹ لے لیں۔۔۔
میں نے از راہ ہمدرری کہا
اس نے ایک نظر میری طرف دیکھا جیسے سوچ رہی ہو کہ کچھ کہے یا نہ کہے۔
میں نے دوبارہ نرمی سےکہا اگر آپ کو ٹھنڈ لگ رہی ہے تو جیکٹ لے لیں
اب کی بار اُس کی آنکھوں میں نمی تھی اور اس کے اگلے الفاظ نے میرے ہوش اڑا دیٸے۔۔۔
اُس نے بھیگی اور کانپتی آواز میں کہا۔۔
کیا آپ مجھے کچھ کھانے کے لٸے خرید کے دے سکتے ہیں میں نے تین دن سے پانی کے سوا نہ کچھ کھایا ہے نہ پیا۔۔۔
ایک پل کو تو میری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی ختم ہو گٸی۔۔
تین دن سے کھانا نہ کھانے کا مطلب تھا 72 گھنٹے بھوکا رہنا۔۔۔
اف خدایا اب مجھے سمجھ آٸی کہ اس کا جسم اور آواز کیوں کپکپا رہی تھی۔
جب انسان حد سے زیادہ بھوک برداشت کرتا ہے یاچوبیس گھنٹے تک کچھ نہیں کھاتا تو یہ نوبت آتی ہے۔۔
اس کا جسم بھوک کی شدت سے کپکپانے لگتا ہے۔۔
میں نے موباٸل میں ٹاٸم دیکھا ساڑھے چار بج رہے تھے
اس کا کردار جو بھی تھا اس وقت اُس کی مدد کرنا اِس چیز سے زیادہ اہم تھا۔۔
ہو سکتا تھا کہ لوگ اُسے میرے ساتھ دیکھ کہ یہ بھی سمجھتے کہ میں اُس کے ساتھ رات گزار کے اب ڈراپ کرنے جا رہا ہوں یا ناشتہ کروا رہا ہوں۔۔۔۔
لیکن مجھے اِس وقت اِن باتوں کی پرواہ نہیں تھی اِس وقت عزت سے زیادہ انسانیت نبھانا ضروری تھا۔۔۔
میں نے اُس کی بات کا جواب دیٸے بنا گاڑی سٹارٹ کی اور سہراب گوٹھ کی طرف موڑ دی کیونکہ اِس وقت وہاں ہی ناشتہ مل سکتا تھا۔۔۔۔
جاری ہے۔