- Banned
- #1
Offline
اسلام علیکم دوستو۔
یہ کہانی اس سے پہلے میں ایک اور فورم پر شئیر کر چکا ہوں۔ مگر وہ فورم اب بند ہو چکا ہے ، اور یہ کہانی اب آن لائن دستیاب نہیں۔ اس لئے سوچا کہ اردو کے جنسی کہانیوں کے شوقین حضرات اور خواتین کے لئے اسے اردو سٹوری ورلڈ پر دوبارہ شئیر کر دوں۔ یہ ایک لیسبین اور گروپ سیکس کی مختصر سٹوری ہے۔ سہیلیوں کے ایک دن کے سفر کی داستان ہے اور اس داستان میں ام شہوت ذادیوں کی رنگ رلیوں کی کہانی ہے۔ امید ہے آپ سب کو پسند آئے گی۔اگر آپ کو میری یہ کہانی پسند آئے تو حوصلہ افزائی میں کنجوسی مت کیجئے۔ تو آئیے ا ب اس کہانی کو باقاعدہ شروع کرتے ہیں۔
----------------------------------------
شہوت ذادیوں کا سفر- پہلی قسط
دن دو بجے کا وقت تھا۔ سڑک پر کافی رش تھا۔ ھلکی پھلکی بارش کی وجہ سے مری ایکسپریس وے پر تھوڑی سی پھسلن بھی تھی، جس کی وجہ سے ڈرائیور گاڑیاں احتیاط سے چلا رہے تھے۔ لیکین بلیک کلر کیہنڈہ سیویک کار رش میں تیزی سے آگے نکل رہی تھی۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی رُباب کی ساری توجہ اپنی ڈرائیونگ پر تھی اور وہ مہارت سے کار کو مری کی جانب دوڑا رہی تھی۔ 24 سال کی عمر میں رُباب کا جسم کسی سیکسی ماڈل سے کم نہ تھا۔ اُوپر سے اُس نے ٹایٹ ٹی شرٹ اور جینز پہن رکھی تھی۔ ہلکے میک اپ اور کھلے بال، رباب کے حسن کو دوآتشہ کر رہے تھے۔کار میں ہلکی انگلش میوزک چل رہی تھی، لیکین رباب اس سے بے نیاز اپنی ڈرائیونگ انجوائے کر رہی تھی
لیکین رباب کے برعکس، اُس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی نائیلہ کی ساری توجہ انگلش دُھن پر تھی۔ اور گانے کی لے کے ساتھ نایلہ آھستہ آھستہ سیٹ پر بیٹھے بیٹھے تھرک رہی تھی۔ ٹایٹ جینز میں اُس کی 23 سالہ جوان کولہے مست جھوم رہے تھے۔ اور اُس کے 36 کے ممے برا نہ ہونے کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی اُچھل رہے تھے اور اُنھیں فُل بازو لیکین کھلے گلے والی شرٹ بھی قابو نہیں کر پا رہی تھی۔ بارش کی وجہ سے باہر کا موسم بہت سہانہ ہو چکا تھا، مری کے سیزن کے دِن تھے اور لوگ ویک اینڈ کے لئے مری کا رُخ کر رہے تھے
گاڑی کے اندر کا موسم خشگوار تھا اور کار میں موجود جوان حسیناوں کے بدن سے اُٹھنے والی مسحور کُن خوشبو ماحول کو اور ھوشرُبا بنا رہی تھی۔ لیکین اس سارے ماحول سے بے نیاز نازیہ پیچھلی سیٹ پر اُکھتائی بیٹھی تھی۔ وہ کافی دیر سے اپنے میک اپ کو آخری ٹچز دینے کی کوشش کر رہی تھی مگر رُباب کی تیز درائیونگ اور مری کے پیچدار راستے کی وجہ سے اُسے بڑی مشکل پیش آرہی تھی۔ آخر اُس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور رُباب کے گورے سڈول شانے پر چپت لگاتے ہوے چلائی
نازیہ: رُباب کی بچی گاڑی تھوڑی سلو چلاو۔ مجھے میک اپ کرنے دو
نازیہ کی بات سُن کر رُباب نے بیک مرر سے پیچھے بیٹھی نازیہ کو مُسکرا کر دیکھا۔ اور گاری کی سپیڈ تھوڑی سی کم کر دی۔ زُباب کو اس وقت نازیہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔ جس نے ٹایٹ پاجامہ کے اوپر پھولدار کاٹن کا کُرتا پہن رکھا تھا اور اُس کے دلکش ممے پہت سیکسی لگ رہے تھے۔ رُباب ھمشہ سے نازیہ کے جسم پر مرتی تھی۔ اگر چہ نازیہ اُن سب میں سب سے چھوٹی تھی مگر 22 سال کی عمر میں بھی اُس کا جسم باقی سب سے بھرا بھرا تھا۔ نازیہ کے بغل میں بیٹھی افشاں، نازیہ کی بات پر مُسکرا رہی تھی، اور جب نازیہ نے رُباب سے گاڑی آھستہ کرنے کو کہا تو افشاں نے اُسے چھیڑتے ہوئے کہا
افشاں: اچھی تو لگ رہی ہو۔ چھوڑو میک اپ کی جان اور ماحول کو انجوائے کرو۔ دیکھو تو باہر کتنا سہانہ موسم ہے۔ اِس ہلکی بارش نے تو مری کی پہاڑیوں کو نکھار دیا ہے۔ چھوڑو اس میک اپ کو اور انجوائے کرو۔ تم تو ایسے تیار ہو رہی ہو جیسے مری میں تیری شادی ہونے والی ہے۔
افشاں کی بات سُن کر آگے بیٹھی نایلہ نے پیچھے مُڑکر دونوں کی طرف دیکھ کر کہا
نایلہ: ہایے کاش مجھے کوئی ہینڈسم دولہا مری میں مل جائے میں تو وہیں اُس سے شادی کر کے سہاگ رات منا لوں گی
نایلہ کی باتھ پر سب لڑکیاں مسکرا دی۔ نازیہ نے بھی اب میک اپ ختم کر دیا تھا۔ اور باقی سہیلیوں کے ساتھ سفر کو انجوائے کر رہی تھی
نازیہ: اچھا تو پر تمہارے اُس عامر کا کیا ہو گا۔۔ کیا اُسے ڈھمپ کر دو گی
نایلہ: ہائے نہیں میری جان۔۔ اب وہ ساتھ نہیں ہے تو کوئی تو چاہیے نا
افشاں: بے فکر رہو، عامر کی کمی میں پُوری کر دوں گی
افشاں کی باتھ پر سب لڑکیاں مُسکرا دیں
نازیہ: ہائے کاش آج شہزاد ساتھ ہوتا تو کتنا مزہ آ جاتا
رُباب: یار تجھے ہر وقت اپنے بوایے فرینڈ کی پڑی رہتی ہے۔ کبھی ہمیں بھی وقت دیا کرو جان۔ مرہ نہ آیے تو، وہ کیا کہتے ہیں، ہاں مزہ نہ آئے تو پیسے واپس
رُباب کی بات پر تینوں لڑکیاں ہنسنے لگی
نازیہ: اچھا تم ڈرائیونگ پر توجہ دو۔ کہیں گاڑی ٹھونک ہی نہ دو، نازیہ کی اواز میں مصنوعی غصے کے ساتھ ساتھ شوخی بھی تھی
رُباب: بے فکر رہو میری جان۔ میں گاڑی نہیں صرف تمہیں ٹھوکوں گی
رُباب نے بیک مرر میں نازیہ کو دیکتھے ہوے انتہائی لوفرانہ انداز میں کہا۔ رُباب کی بات سُن کر سب لڑکیوں نے قہقہہ لگایا
نازیہ: چلو مری پہنچنے دو پر دیکھتے ہیں تمہاری ٹھونکنے کو بھی
نازیہ کی آواز میں واضع شوخی اور دعوت تھی جِسے سب نے محسوس کیا
رُباب: آہا، لگتا ہے آج میری قسمت کھلنے والی ہے۔ مزہ آ جائے گا قسم سے میری جان
رُباب نے پہلے کی طرح لوفروں کے انداز میں چہکتے ہووے کہا
نازیہ: قسم سے رُباب تم بہت کونی ہو۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے جیسے تیرے اندر کوئی مرد چھُپا بیٹا ہے
نازیہ کی باتھ سُن کر سب نے زور کا قہقہہ لگایا
نایلہ: ویسے تیری بات میں وزن ہے، آج صبح مُجھے ایسے کس کر رہی تھی جیسے عامر بھی نہیں کر پائے گا، بلکل مردانہ کسنگ کر رہی تھی
افشاں: شکر ہے صرف کس کر رہی تھی۔ یہ تو چودنے پہ آ جائے تو ڈلڈو کو ایسے یوز کرتی ہے جیسے مرد کا لوڑا
افشاں کی بات پر نازیہ نے ہنستے ہوے افشاں کے ہاتھ پر ہاتھ مارا
رُباب: اچھا خیر اب ایسی بھی کوئی بات نہیں، لیکیں کیا کروں، تم سب سے مجھے پیار بھی تو بہت ہے
نایلہ: ویسے رُباب، ہم سب کے بوائے فرینڈ ہیں لیکین تیرا کوئی نہیں، کہیں مکمل لیسبین تو نہیں بن گئی ہو
سب اس باتھ پر ہنسنے لگے
رُباب: ارے یار ابھی 10 دن تو ہووے ہیں احتشام سے علیحدہ ہووے۔۔ جب تک کوئی اور نہیں مل جاتا تب تک تم لوگوں کے سہارے گزارہ چلاوں گی، کیا خیال ہے
اُس نے بیک مرر میں نازیہ کو دیکھ کر آنکھ مارتے ہوے کہا
نازیہ: وہ تو خیر بوائے فرینڈ ہو یا نا ہو۔۔۔ ہم چاروں کا پیار تو چلتا رہے گا۔۔ لیکین کوئی ہاٹ مُنڈہ دیکھ بھی رکھا ہے کہ نہیں؟
نازیہ نے بیک مرر میں رُباب کو شوخی سے گھورتے ہوے پوچھا، وہ اور باقی سب بھی جانتی تھیں کہ رُباب نازیہ پر مرتی ہے
رُباب: ہائے جان، دِل تو کرتا ہے تجھے ہی اپنا بوائے فرینڈ بنا لوں، لیکیں کیا کروں تیری جان تو شہزاد میں اٹھکی ہے۔
نازیہ: ہایے میرا شہزاد
اُس نے رُباب کو جلانے کے انداز میں اپنے سینے پر ہاتھ مارتے ہووے کہا۔
افشاں: ویسے واقعی رُباب تم بغیر بوائے فرینڈ کے کیسے گزارہ کرتی ہو۔۔ میں تو شاہد کے بغیر ایک ویک سے زیادہ نہیں گزار سکتی
رُباب: ویسے نظر میں ایک لڑکا ہے تو صحیح، لیکیں پتہ نہیں وہ مجھے اپنی گرل فرینڈ بنائے گا بھی یا نہیں؟
اُس نے ایک بار پر نازیہ کو بیک مرر میں گھورتے ہووے کہا
نایلہ: ہائے کون ہے وہ ۔ ہمیں بھی تو بتاو
رُباب: ہے بس ایک میرے دِل کے قریب
افشاں: ویسے تیرا دل تو نازیہ میں ہے
افشاں نے شوخ انداز میں کہا
رُباب: وہی تو
نازیہ:کیا مطلب، اُس نے رُباب کو گھورتے ہووے کہا
افشاں: مطلب میں سمجھاتی ہوں۔، اسے نازیہ کے بھائی سے پیار ہو گیا ہے، ہے نا رُبی؟
افشاں نے پیار سے رُباب سے کہا
نازیہ: کیا واقعی رُباب، ہہ افشاں کی بچی سچ کہہ رہی ہے؟
رُباب: تیری قسم، ہایے کیا فیس ہے ظالم کا، کیاحسن ہے، اُف اُس کی مست باڈی، ہایے جب بھی اُسے دیکھتی ہوں میری تو گیلی ہونے لگتی ہے
رُباب نے بہت ہی فحش انداز میں اپنے سینے اور ٹانگوں کے بیچ ہاتھ پھیرتے ہووے کہا۔ اور اُس کے اس انداز پر ساری لڑکیوں نے قہقہہ لگایا سوائے نازیہ کے
نازیہ: جھوٹ، تم جھوٹ بول رہی ہو نا
رُباب: تیری قسم میری جان۔۔۔ تم دونوں بھائی بہن میں میری جان اتکی ہوئی ہے
رُباب کی آواز میں بےباکانہ پن تھا
نایلہ: تم تھوڑی ہیلپ کر دو نا نازیہ رُباب کی، اپنے بھائی سے اس کی سیٹنگ کرا دو
نازیہ: وہ تو کر دوں لیکیں کونسے والے سے، کامران سے یا عمران سے۔
رُباب: میری جان، عمران۔ میرے دل کا ارمان، میری راتوں کا شہزادہ، اُف میرے عمران۔۔۔ ہائے کیا مست ہے وہ۔ کامران تو مجھ سے چھوٹا ہے۔ ویسے اُس کی اپنی کوئی گرل فرینڈ تو نہیں ہے؟
رباب کسی ٹھیٹ عاشق کی طرح اپنے سینے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نازیہ کے بھائی عمران کے نام کی مالا جھپ رہی تھی اور ساری لڑکیان اس کے انداز سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔
نازیہ: پتہ نہیں ویسے میں پتہ کرا لوں گی
رُباب: بس تم صرف یہ پتہ کروا لو باقی میں خود ہی کر لوں گی
رُباب کی بات پر سب نے قہقہہ لگایا
افشاں: اُف مری کب پہنچیں گے، میں تو بیٹھے بیتھے تھک گئی ہوں
رُباب: بس 10 15 منٹ کا فاصلہ رہ گیا ہے، اور پھر ہم ہوٹل میں ہوں گی
نایلہ: ہوٹل کونسا ہے۔۔ ہے تو اچھا نا
اُس نے رُباب سے پوچھا
رُباب: ہاں اچھا ہے۔ 5 سٹار تو نہیں ہے۔ 4 سٹار ہے، پورا سویٹ بُک کرایا ہے بابا نے
افشاں: واہ رانا انکل زندہ باد
اور افشاں کے نعرے پر سب نے کہا رانا انکل زندہ باد
اور پر کوئی 15 منٹ بعد وہ ہوٹل میں پہنچ گئیں۔ سویٹ واقعی شاندار تھا۔ دو بیڈ روم اورسٹنگ روم کے ساتھ ہر سہولت دستیاب تھی۔ ساری لڑکیاں سویٹ میں پہنچتے ہی سِٹنگ روم میں صوفوں پر ڈھیر ہو گئیں۔ ویٹر نے اُن کا سامان بھی وہیں رکھ دیا
ویٹر: اور کچھ میڈم
رُباب: نو تھینکس، اور یہ کہہ کر اُس نے ویٹر کو ٹِپ دے کر فارغ کر دیا۔ ویٹر کے جانے کے بعد نازیہ اُتھی اور اندر جانے لگی۔۔ اندر جاتے ہوے اُس نے رُباب کی طرف دیکھ کر معنی خیز انداز میں کہا۔
نازیہ: میں تو فریش ہونے جا رہی ہوں ۔
نایلہ: ہاے گھومنے باہر نہیں جانا کیا؟
رُباب نازیہ کو اندر بیڈ روم میں جاتے ہوے دیکھ رہی تھی۔ اُس نے نایلہ کی بات پر شوخی سے کہا
رُباب: اتنی بھی کیا جلدی، ابھی تو سارہ دن پڑا ہے، ابھی سب فریش ہوتے ہیں
افشاں: ویسے بات صحیح ہے۔ تھوڑا فریش ہو کر شام کو باہر جاییں کے۔ مری کا ماحول ویسے بھی شام کو ہی گرم ہوتا ہے
افشاں کی بات سُن کر رُباب بھی کھڑی ہو گئی۔ اور جس بیڈ روم میں نازیہ گئی تھی اُس طرف دیکتھے ہوے کہا
رُباب: میں بھی تھوڑی فریش ہو کر آتی ہوں
اور یہ کہہ کر وہ اُسی بیڈ روم کی طرف چھل دی جدھر نازیہ گئی تھی۔ اُس کی بات پر نایلہ اور افشاں معنی خیز انداز میں ایک دوسری کو دیکھتے ہوے مُسکُرا دیں
افشاں: ہم بھی چلیں کیا؟
نایلہ: اُن کے پاس؟
افشاں: نہیں یار اُن کو انجوائے کرنے دو۔ ہم دوسرے روم میں چلتے ہیں
ابھی افشاں کی بات ختم ہی ہوئی تھی کہ نایلہ کا فون بجنے لگا۔ نایلہ نے فون اُتھا کر دیکھا تو اُس کے ڈیڈ کی کال تھی
نایلہ: گھر سے کال ہے یہ اٹینڈ کر لوں پر چلتے ہیں۔
افشاں: ٹھیک ہے میری جان
جاری ہے