Urdu Story World No.1 Urdu Story Forum
Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

Welcome to Urdu Story World!

Forum Registration Fee is 1000 PKR / 3 USD

Register Now!
  • فورم رجسٹریشن فیس 1000لائف ٹائم

    پریمیم ممبرشپ 95 ڈالرز سالانہ

    وی آئی پی پلس ممبرشپ 7000 سالانہ

    وی آئی پی ممبر شپ 2350 تین ماہ

    نوٹ: صرف وی آئی پی ممبرشپ 1000 ماہانہ میں دستیاب ہے

    WhatsApp: +1 540 569 0386

    ای میل: [email protected]

Hardcore ضدی_ایک_پریم_کتھا

Bosses

VIP+
Joined
Dec 24, 2022
Messages
253
Reaction score
5,041
Location
Lahore
Gender
Male
Offline
#ضدی_ایک_پریم_کتھا
#قسط_نمبر_1
”اٹھ جا بیٹا۔۔ انٹر ویو کے لیے جانا ہے نا آج تجھے۔۔“ حبیبہ بیگم نے معاز کو اٹھاتے ہوئے کہا پر شاید اسکے کان پر جوں بھی نہیں رینگی
”اٹھ جا بیٹا دیر ہو جائے گی“ اس بار حبیبہ بیگم نے اسے بازو سے پکڑ کے ہلاتے ہوئے کہا
”امی سونے دو نا بہت نیند آرہی ہے۔۔“ معاز نے کروٹ بدلتے ہوئے کہا اور منہ تک چادر اوڑھ لی
”ٹھیک ہے بھئی سو تو آرام سے۔۔ میں بھی خالہ سے بولتی ہوں رمشا کی شادی کردو کسی سے بھی ہمارے بیٹے نے تو کام وام کرنا نہیں ہے۔۔“ حبیبہ بیگم کی اس بات پہ معاز نے چادر سے منہ نکال کر امی کو دیکھا جس پر حبیبہ بیگم نے شفقت بھری مسکراہٹ کے ساتھ اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ”چل اب اٹھ جا جلدی سے شاباش۔۔“
حبیبہ بیگم کے جانے کے بعد معاز کو بالآخر اٹھنا ہی پڑا۔ معاز اپنی خالہ رافیعہ بیگم کی اکلوتی بیٹی رمشا سے بہت پیار کرتا تھا اتنا ہی نہیں خود رمشا بھی اسکی محبت میں گرفتار تھی۔۔ پہلے محبت دو دلوں کے درمیان چلتی رہی لیکن جب بات کھلی اور پورے خاندان میں پھیلی تو معاز اور رمشا کے گھر والوں نے آپس میں ملنا جلنا بند کر دیا لیکن محبت پھر بھی جاری رہی اور آخر کو رافیعہ بیگم کو اپنی بیٹی کی ضد کے آگے سر جھکانا ہی پڑا لیکن انہوں نے بھی رمشا کے آگے اپنی شرط رکھ دی کے اگر معاز اگلے دو سال میں اس قابل نا بن سکا کہ تمہارا بوجھ اٹھا سکے تو جس سے میں چاہوں گی تمہیں شادی کرنی پڑے گی۔۔ رمشا کے پاس کوئی اور راستہ بھی نہیں تھا اسے اپنی امی کی یہ شرط ماننی پڑی۔
اس بات کو تین مہینے ہو چکے تھے اور معاز اب تک صرف انٹرویو ہی دیتا آرہا تھا۔ اس نے بی کام کر رکھا تھا پر اب اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ اگر وہ پڑھنے کی جگہ کسی ہنر کو سیکھنے کا فیصلہ کرتا تو آج اسے اس طرح در در کی ٹھوکریں نا کھانی پڑتی۔ آج بھی اسے کسی مال میں انٹرویو کے لیے جانا تھا۔
معاز کو اپنے بستر پر موبائیل کی وائبریٹ محسوس ہوئی۔ اس نے موبائیل دیکھا تو رمشا کے 34 میسجز آئے ہوئے تھے جن میں اس نے ہر طرح سے معاز کو اٹھنے کے لیے کہا ہوا تھا۔ سارے میسجز پڑھ کے معاز نے ایک میسج کر کے اسے اپنے اٹھنے کی نوید سنا دی۔
”کیا کرہا ہے معاز دیر ہو رہی ہے بیٹا“ باہر سے امی کی آواز آئی
”جی امی آیا۔۔“ اس نے موبائیل رکھا اور باہر آ کے واشروم میں چلا گیا
”امی واشروم میں کون ہے؟“ کمرے سے نکلتے ہوئے معاز کے بڑے بھائی امتیاز نے کہا
”معاز ہے بیٹا“ امی نے کچن سے کہا
”معاز باہر نکل یار مجھے کام پر جانا ہے۔۔“ امتیاز نے زور زور سے واشروم کا دروازہ پیٹنا شروع کر دیا
”آرہا ہوں بھائی منہ دھو رہا ہوں۔۔“ معاز نے اندر سے کہا
”گیا کیوں تھا یار؟؟ تجھے نہیں پتا مجھے جاب پہ جانا ہوتا ہے۔۔“ امتیاز نے دوبارہ دروازہ پیٹنا شروع کر دیا ”نکل جا یار۔۔“
”ارے بیٹا منہ دھو لینے دے اسے انٹر ویو کے لیے جانا ہے آج۔۔“ حبیبہ بیگم نے کچن سے نکلتے ہوئے کہا
”کیا۔۔۔ انٹر ویو ہے آج اسکا۔۔؟“ امتیاز نے آرام سے صحن میں بچھی چارپائی پر بیٹھتے ہوئے کہا ”مجھے تو نہیں بتایا اسنے۔۔“
”ہاں بیٹا کسی مال میں سی وی دی تھی اسنے وہاں سے بلایا ہے اسے۔۔“ حبیبہ بیگم نے واپس کچن میں جاتے ہوئے کہا ”ناشتہ بنا دوں تیرا؟؟“
”جی امی بنا دیں۔۔“ امتیاز نے کہا اور اطمنان سے بیٹھ گیا
”سوری بھائی مجھے جانا تھا تبھی میں واشروم چلا گیا تھا۔۔“ معاز نے واشروم سے نکلتے ہوئے کہا
”ارے کوئی بات نہیں میرے شیر۔۔“ امتیاز نے اٹھ کر معاز کے کندھے پر ہاتھ مارا اور واشروم میں چلا گیا
معاز آج بہت ٹینشن میں تھا۔ گزشتہ سبھی انٹرویو میں اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔۔ انٹرویو میں اسے اچھا رزلٹ ملتا تھا لیکن نوکری کے لیے اسے کوئی نہیں بلاتا تھا۔ اسکی نوکری کسی سفارشی یا رشوت دینے والے کو مل جاتی تھی۔ کئی جگہ پر اسکی جی ایم سے جھڑپ بھی ہوئی پر کوئی فائدہ نہیں۔ آج بھی اسکے دل میں بہت خدشات تھے۔ ناجانے انٹرویو میں پاس ہو سکوں گا یا نہیں۔ پاس ہوگیا تو بھی جاب کے لیے بلایا جاٶں گا یا ہمیشہ کی طرح کسی اور کو جاب مل جائے گی۔۔
معاز اپنی سوچوں میں گم تھا جب کے امتیاز واشروم سے نکل کر اسکے برابر میں بیٹھا تولیہ سے منہ پونچھ رہا تھا۔
”کیا سوچ رہا ہے بیٹا۔۔؟“ امتیاز نے معاز کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا
”ہم۔۔۔۔۔ کچھ۔۔ کچھ نہیں بھائی۔۔“ معاز نے چونک کر امتیاز کو دیکھتے ہوئے کہا
”مجھے پتہ ہے ٹینشن میں ہے تو۔۔” امتیاز نے اسکے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ”ٹینشن مت لے جاب ملنا ہوگی مل جائے گی۔ رزق کا وعدہ اللہ نے کر رکھا ہے بس تو کوشش کر اپنی۔۔“
”جی بھائی۔۔“ معاز نے کہا
”ہاں بس اللہ کا نام لے کر جاؤ۔۔“ امی نے کچن سے ناشتہ لے کر نکلتے ہوئے کہا اور ان کے سامنے رکھ دیا ”یہ لو ناشتہ کرو تم دونو۔۔“
”ہم دونو مطلب؟؟ آپ نہیں کریں گی ناشتہ؟“ معاز نے کہا
”میں نے تمہارے پاپا کے ساتھ کر لیا ناشتہ اب تم لوگ کرو۔۔“ امی نے کہا
”ہاں امی۔۔ پاپا کہاں ہیں نظر نہیں آرہے؟؟“ امتیاز نے پوچھا
”وہ تو سبزی منڈی گئے ہیں آج سبزی ختم ہو گئی تھی نا انکی۔۔“ امی نے کہا
”امی کتنی بار کہا ہے مجھے اٹھا دیا کرو اکیلے جانا پڑتا ہے انہیں۔۔“ امتیاز نے کہا
”ارے بیٹا وہ کہتے ہیں خواہ ما خواہ تم لوگ پریشان ہوگے۔۔“ حبیبہ بیگم نے ایک ساتھ دونوں بچوں کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ”تم دونو آرام سے ناشتہ کرو بس۔۔“
”اچھا اور فضا کہاں ہے؟“ معاز نے پوچھا
”بیٹا وہ تو سو رہی ہے۔۔ پیپر ہیں نا تو رات دیر تک پڑھتی ہے آج کل۔۔“ حبیبہ بیگم نے کہا اور کمرے میں چلی گئیں
”چل بھئی میرا تو ہو گیا۔۔ مجھے جانا ہے۔۔“ امتیاز نے اٹھتے ہوئے کہا اور جوتے پہن کے باہر جانے لگا لیکن پھر کچھ سوچ کے جیب میں ہاتھ ڈالا اور ہزار کا نوٹ نکال کر واپس معاز کی طرف آیا اور اسے نوٹ دیتے ہوئے کہا ”یہ لے یہ رکھ ضرورت پڑے گی۔۔“
”ارے بھائی اسکی کیا ضرورت تھی۔۔“ معاز نے نوٹ لے کر جیب میں رکھتے ہوئے کہا
”اچھا ضرورت نہیں تھی پھر بھی فوراً رکھ لیا۔۔ چل میں جارہا ہوں۔۔“ امتیا نے کہا اور واپس باہر کی طرف مڑ گیا لیکن پھر کچھ سوچ کے واپس معاز کی طرف گھوما اور جیب سے چابی نکال کے اسے دیتے ہوئے کہا ”یہ لے بائیک لے جانا۔۔“
”ارے بھائی پھر آپ کیسے جاٶگے؟؟؟“ معاز نے چابی پکڑتے ہوئے کہا
”میری فکر مت کر میں دوست کے ساتھ چلا جاٶں گا۔۔ تو لے جا۔۔“ امتیاز نے کہا اور گھر سے باہر نکل گیا
اب معاز کمرے میں گیا الماری کھولی اور لائٹ بلیو شرٹ جو اسے رمشا نے گفٹ کی تھی نکالی اور ساتھ میں بلیک پینٹ اور ٹائی نکال کر چینج کرنے لگا۔ کپڑے پہن کے اسنے شیشے میں بال سنوارے اور فضا کی کریم نکال کے لگالی۔ باہر نکلا تو امی چارپائی پر بیٹھی تھیں۔
”ہائے میرا بچا کتنا پیارا لگ رہا ہے۔۔“ امی نے اسکی بلائیں لیتے ہوئے کہا اور کچھ پڑھنے لگیں
معاز نے جوتے نکالے اور پہن کے پوری طرح تیار ہوگیا ”اچھا امی میں جارہا ہوں۔۔“
امی اٹھیں اور ایک بھرپور پھونک اس پہ ماری ”جا بیٹا اللہ تجھے کامیاب کرے۔۔“
معاز نے اللہ حافظ کہا اور باہر آگیا۔ بائیک اسٹارٹ کی اور اپنی منزل کی جانب چلا گیا۔
معاز کا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے تھا۔ گھر میں کل پانچ افراد تھے جن میں پاپا اشرف علی جو کہ الگ ہی سوچ رکھتے تھے۔ بلا کہ خود دار تھے اپنے بیٹوں سے بھی پیسے مانگنا پسند نہیں کرتے تھے۔ عمر کے اس حصے میں بھی وہ ٹھیلا لے کر گلی گلی سبزی بیچا کرتے تھے۔
معاز کی امی حبیبہ بیگم جو انتہائی پرہیزگار خاتون تھیں۔ نماز روزے کی خود بھی پابند تھیں اور گھر کے ہر فرد کو تلقین بھی کرتی تھیں۔
معاز کا بھائی امتیاز علی جو کے غربت کی وجہ سے پڑھ لکھ نہیں سکا تھا اور چھوٹی عمر سے ہی کام کرنے لگا تھا۔ وہ کسی گارمنٹس فیکٹری میں جاب کرتا تھا۔ لیکن اپنے دونوں چھوٹے بہن بھائی سے بہت پیار کرتا تھا۔ معاز کو تو بچپن میں مار مار کے اسکول بھیجا کرتا تھا اسی کا نتیجہ تھا جو آج معاز بی کام پاس کر سکا تھا۔ فضا کو بھی اسی نے پڑھایا تھا اور آج وہ بی اے کے امتحان دے رہی تھی۔
معاز کی چھوٹی بہن اور گھر کی لاڈلی فضا۔ گھر بھر میں اس سے رونق لگی رہتی تھی۔
معاز کا گھر نیو کراچی میں واقع تھا جہاں یہ لوگ دو کمروں کے ایک گھر میں کرائے پر رہتے تھے۔
گھر میں داخل ہوتے ہی صحن تھا جب کے ایک طرف کچن اور واشروم وغیرہ بنا تھا۔ جبکہ سامنے کی طرف دو کمرے برابر برابر میں بنے تھے۔۔
معاز بچپن سے ہی اپنی خالہ رافیعہ بیگم کی اکلوتی بیٹی رمشا کو پسند کرتا تھا لیکن کبھی اس سے کہنے کی ہمت نہیں کر پایا۔ جب معاز میٹرک میں تھا تب اسے پتہ لگا خالہ نے رمشا کو موبائیل دلایا ہے۔ بس تب سے معاز کے دل میں کھلبلی مچ گئی تھی کہ کسی طرح رمشا کا نمبر مل جائے۔ کافی کوشش کی پر نمبر نہیں ملا۔ کئی بار رمشا سے سامنا بھی ہوا پر اسکے سامنے آتے ہی معاز پر عجیب کیفیت طاری ہوجاتی تھی کچھ کہا نہیں جاتا تھا۔
ایک دن فضا نے امی کو بتایا ”امی رمشا کا میسج آیا ہے۔۔ کہہ رہی ہے مما نے بلایا ہے آپکو۔۔“
معاز کے کان کھڑے ہو گئے فضا کے پاس رمشا کا نمبر ہے اور اسے آج تک نہیں پتا۔
”ارے پوچھ تو سہی کیوں بلایا ہے رافیعہ نے؟“ امی نے کہا
”وہ امی۔۔ ماموں کا رشتہ لے کے جانا ہے شاید۔۔ اتوار کو۔۔“ فضا نے بتایا
”ہیں۔۔۔۔ رافیعہ نے عادل کا رشتہ ڈھونڈ لیا اور مجھے بتایا بھی نہیں۔۔“ حبیبہ بیگم نے غصہ میں کہا ”بول دے اسے امی نہیں آئیں گی شادی بھی خود ہی کر دو عادل کی۔۔“
”جی امی بول دیتی ہوں“ فضا نے کہا اور میسج ٹائپ کرنے لگی ”بول دیا۔۔“
معاز کو کھلبلی مچ گئی تھی۔ بس کسی طرح فضا کا موبائیل مل جائے۔
شام کے ٹائم فضا واشروم گئی تو معاز کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ وہ فوراً کمرے میں گیا اور فضا کا موبائیل اٹھا کر کانٹیکٹس میں چلا گیا۔ وہ فضا سے موبائیل مانگتا تو بھی مل جاتا لیکن اس کے دل میں ڈر تھا۔ اسنے رمشا لکھ کے سرچ کیا تو دو دو نمبر نمودار ہو گئے۔ اب وہ سوچ میں پڑ گیا کہ رمشا کا نمبر کونسا ہے۔ اسنے پھر دونوں ہی نمبر سیو کر لیے۔ اسکا موبائیل واپس رکھ کر دوسرے کمرے میں آگیا۔
آتے ہی اسنے دونوں نمبرز پر ایک ساتھ ہیلو رمشا لکھ کر سینڈ کر دیا۔
کافی دیر بعد ایک نمبر سے رپلائی آیا ”آپ کون؟“
”جی یہ رافیعہ خالہ کا نمبر ہے نا؟“ معاز نے لکھ کر بھیجا
”جی نہیں۔۔“ رپلائی آیا جسے پڑھ کے معاز کا دل بیٹھ گیا لیکن فوراً ہی دوسرا میسج بھی آیا ”یہ انکی بیٹی کا نمبر ہے۔۔ آپ کون ہیں؟؟“
معاز خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا ”ہاں ہاں وہی۔۔ تم رمشا ہو نا؟؟“
”ہاں۔۔۔۔۔۔۔ بٹ آپ کون ہیں؟؟“ رپلائی آیا
”میں معاز ہوں رمشا۔۔“ معاز نے جواب دیا
کون۔۔۔ خالہ جان کے بیٹے؟؟“ رمشا نے کہا
”ہاں۔۔ مجھے تم سے کچھ کہنا ہے۔۔“ معاز نے ہمت کر کہ کہا
”ہاں بولو۔۔“ رمشا نے جواب دیا
چھوڑو۔۔ کیسی ہو؟؟“ معاز نے بات گھماتے ہوئے کہا اسکی ہمت نہیں تھی رمشا سے اپنے دل کی بات کہنے کی۔۔
”ٹھیک ہوں۔۔ تم سناٶ۔۔“ رمشا نے کہا
کافی دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد بالآخر معاز نے اپنی پوری ہمت مجتمع کرتے ہوئے ایک میسج کیا ”آئی لو یو رمشا۔۔“
لیکن اس بار کوئی جواب نہیں آیا۔ کافی دیر بعد معاز نے پھر میسج کیا ”کیا ہوا رمشا بولو نا۔۔“
لیکن پھر کوئی جواب نہیں آیا۔ اب معاز کو ٹینشن ہونے لگی تھی کہ کہیں رمشا نے خالہ کو نا بتا دیا ہو۔ اس نے پھر میسج کیا ”رمشا بولو نا پلیز۔۔“
پر رمشا کی طرف سے کوئی جواب نا آیا
”پلیز رمشا بولو نا کچھ۔۔“
”پلیز کسی کو بتانا نہیں یہ بات پلیز۔۔“
”تم بھلے منع کر دو پر کسی سے کچھ کہنا نہیں پلیز“
معاز نے ایک ساتھ کئی میسجز کیے۔ وہ ڈر گیا تھا اگر خالہ تک یہ بات گئی تو دونوں گھروں میں بہت جھگڑا ہوگا۔ ٹینشن میں ہی سوگیا وہ۔
صبح ناشتہ کرتے ہوئے اچانک مرکزی دروازے سے رافیعہ بیگم نمودار ہوئیں اور معاز انہیں دیکھتے ہی پسینے سے شرابور ہو گیا۔ اس نے سوچا شاید رمشا نے خالہ کو بتا دیا سب کچھ اب بہت لڑائی ہوگی۔
”السلام و علیکم۔۔ آئیں خالہ ناشتہ کر لیں۔۔“ معاز نے اپنا ڈر چھپاتے ہوئے خالہ سے کہا
”نہیں میں کر کہ آئی ہوں۔ امی کہاں ہیں تمہاری مجھے انسے بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔“ خالہ نے دو ٹوک انداز میں بات کرتے ہوئے کہا وہ بہت سنجیدہ لگ رہی تھیں۔۔ معاز سمجھ گیا کیا بات کرنے آئی ہونگی۔۔
”جی امی اندر ہیں کمرے میں“ معاز نے کہا اسکے لہجے میں ڈر صاف ظاہر تھا
خالہ اندر امی کے پاس چلی گئیں۔
معاز کا گھبراہٹ سے برا حال تھا اس نے اندر سے آواز سننے کی کوشش کی پر کیا فائدہ کوئی بات سمجھ نہیں آئی۔
کافی دیر بعد رافیعہ بیگم واپس چلی گئی۔ معاز کہ ہاتھ میں چائی کا کپ تھا لیکن چائی سے زیادہ گرم اس وقت اسکا خون تھا اس پر پاگلوں سی کیفیت طاری تھی نا جانے اب کیا ہوگا۔۔
اچانک کمرے سے امی کی آواز آئی ”معاز۔۔ معاز کہاں ہے بیٹا ادھر آ۔۔۔“
معاز پر کپکپی طاری ہوگئی ناجانے اب کیا ہوگا
وہ اٹھا اور کمرے میں چلا گیا ”جی امی بولیں۔۔“
”مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔ تم نے کل جو کیا اچھا نہیں کیا۔۔“ امی کے لہجے میں بلا کی سنجیدگی تھی۔ اتنا سننا تھا کہ چائے کا کپ معاز کے ہاتھ سے چھوٹا اور زمین پر گر کہ کرچی کرچی ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔
.......................جاری ے
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
Back
Top