Story Lover
VIP+
Online
- Thread Author
- #1
میں جس محلے میں رہتا تھا، وہاں اکثر لوگ مجھ سے نالاں تھے، جس کی وجہ میری آوارہ گردی تھی، لیکن میں بہت چالاک تھا۔ اپنے آپ کو محلے کے بزرگوں کی نظروں میں ہمیشہ اچھا بنا کر پیش کرتا تھا، اس لئے اگر کوئی نوجوان مجھ سے لڑائی جھگڑا مول لیتا، تو اس کی کافی بے عزتی ہوتی اور میں باوجود غلطی کے بچ جایا کرتا تھا۔ میری شکل و صورت اچھی تھی، میں کافی اسمارٹ تھا، پھر کچھ دولت کی فراوانی نے بھی مجھ کو بے حس اور مغرور بنا دیا تھا۔ لڑکیوں کے چکروں میں رہا، تو تعلیم میں پیچھے رہ گیا۔ عشق و عاشقی میں اپنا قیمتی وقت برباد کرتا رہا۔ محلے کے پڑھا لکھا لڑکا مجھے قطعی منہ نہیں لگاتا تھا۔ میں ان میں خاصا بدنام اور برا لڑکا سمجھا جاتا تھا، لیکن میں بزرگوں کا حکم مانتا، دوڑ دوڑ کر ان کے کام کرتا، جب وہ سامنے سے گزرتے، تو میں انہیں نہایت ادب سے جھک کر سلام کرتا۔ اس وجہ سے وہ سب مجھ کو نیک سمجھتے تھے، لیکن جو لوگ میرے مشاغل سے واقف تھے، وہ مجھ سے اوپری دل سے ملتے اور اندر سے نفرت کرتے تھے۔ ہمارے محلے میں ایک گھرانہ ایسا بھی تھا، جو نہایت غیرت مند مشہور تھا۔ ایک دفعہ جب میں کسی لڑکی کے ساتھ ان کی گلی سے گزرا، تو اس گھر کے نوجوان لڑکوں نے میرا راستہ روک کر مجھے برا بھلا کہا۔ نوبت ہاتھا پائی سے بڑھ کر خون خرابے تک جا پہنچی، پھر اس دن سے میں اس خاندان کا دشمن ہو گیا۔ اب میں ہر وقت اس منصوبے میں لگا رہتا کہ کسی طرح ان سے اپنی بے عزتی کا بدلہ لے سکوں، پھر اس دشمنی میں ان کے ساتھ سارا محلہ شریک ہو گیا۔ محلے کے اور لڑکے بھی مجھ کو کھلم کھلا برا کہنے لگے، لیکن ان تمام لوگوں کو اپنے دماغ پر سوار نہیں ہونے دیا۔ مجھے تو صرف اس خاندان سے بدلہ لینا تھا، جو اپنے رعب دبدبے اور نیک نامی کے باعث مشہور تھے۔ ایک سال گزر گیا، مگر مجھ سے کچھ نہ بن سکا۔ دل میں انتقام کی دھیمی دھیمی آنچ سلگتی رہی۔ میں اکثر سوچتا کہ وہ میری بے عزتی کر کے خوش ہوئے ہوں گے کہ میں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ طاقت میں وہ مجھ سے زیادہ تھے۔ اب ان کو نیچا دکھانے کا ایک ہی رستہ تھا کہ میں اس گھرانے کی نیک نامی کسی طرح خاک میں ملا کر ان کی خاندانی شرافت پر دھبہ لگا دوں۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ کسی طرح اس گھرانے کی کسی لڑکی کو دوست بنا کر انہیں خوار کر دوں، لیکن مشکل یہ تھی کہ وہ لوگ اپنی لڑکیوں کو گھر میں بٹھائے رکھتے تھے اور بغیر برقعہ ان کا گھر سے باہر نکلنا سخت منع تھا۔ یہ ماہ رمضان کی سولہویں تاریخ تھی۔ مغرب سے ذرا پہلے کا وقت تھا اور میں اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ سامنے دشمن کا گھر صاف نظر آ رہا تھا۔ دوستوں سے باتیں کرتے کرتے اچانک میری نظر اس مکان کی بالکونی پر پڑی، جہاں ایک لڑکی کچھ کام کرنے آئی تھی۔ میں سمجھ گیا کہ یہ وہی لڑکی ہے، جو کبھی کبھار اپنی ماں کے ساتھ باہر نکلتی ہے۔
میں نے اپنے راز داں دوست سے کچھ مشورہ کیا، پھر اچانک دھڑام سے زمین پر گر گیا۔ ایک دوست نے مجھے سنبھالا اور دوسرا ادھر اُدھر دیکھنے لگا، جیسے مدد چاہتا ہو۔ میرے دوست لڑکوں نے شور کیا کہ بیچارہ روزے دار ہے اور روزے کی وجہ سے بے ہوش ہو گیا ہے۔ لڑکی نے بالکونی سے جھک کر یہ منظر دیکھا، پھر دوڑ کر اندر گئی اور اپنی ماں کو بلالایا۔ اسی دوران میرے دوست نے ان کے دروازے پر دستک دی۔ ایک نے مجھے جھلنے کے لیے پنکھا مانگا اور تھوڑا سا پانی بھی۔ گھر کی مالکہ نے نوکر کے ہاتھ شربت کا جگ اور پنکھا دیا اور کہلوایا کہ اگر محلے کا کوئی لڑکا ہے، تو اس کو بیٹھک میں لے آئو۔ افطار کا وقت قریب ہے، اس کا روزہ کھلواؤ۔ میں افطاری بھیجتی ہوں۔ دوستوں نے پتا کر لیا تھا کہ گھر پر مرد موجود نہیں ہیں، لہذا انہوں نے میرے کان میں کہا کہ ان کی بیٹھک میں چلو، میں نے انکار کر دیا۔ بالکونی سے وہ لڑکی ہمدردی سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ میرے دوست مجھے پنکھا جھلتے رہے اور باہر ہی میرا روزہ افطار کرایا۔ اس طرح میرا پہلا تعارف دور سے اس کے ساتھ ہوا، وہ بھی اس طرح کہ اس کے دل میں میرے لئے ہمدردی کے جذبات تھے، پھر ہم وہاں سے کھسک آئے کیونکہ ان کے مرد نو بجے شب اپنا کاروبار بند کر کے گھر آجاتے تھے۔ اب میرا اکثر وقت اس مکان کے ارد گرد منڈلاتے ہوئے گزرتا، لیکن پھر کوئی موقع میسر نہ آیا کہ میں لڑکی سے ہم کلام ہوتا۔ ایک بار وہ بالکونی میں نظر آئی تو میں نے شکریے کے طور پر ہاتھ باندھے، تو وہ گھر کے اندر چلی گئی۔ کچھ دن بعد پتا چلا کہ لڑکی کی ماں اسپتال میں داخل ہے۔ لڑکی بھی ماں کے ساتھ اسپتال میں تھی۔ میں اسپتال کا پتا کر کے وہاں پہنچا اور نوٹس کیا کہ گھر والے کب عیادت کو آتے تھے۔ مجھے ان اوقات کے علاوہ وقت منتخب کرنا تھا۔ لڑکی اور اس کی ماں یہ نہیں جانتی تھیں کہ میں وہی لڑکا ہوں، جس کی بے عزتی اس کے گھر کے نوجوان کر چکے تھے۔ وہ مجھ کو محلے کا ہی کوئی لڑکا سمجھ رہی تھیں۔ پہلی بار جب میں عیادت کے بہانے گیا، تو میں نے یہی بتایا کہ میری ماں آپ کی عیادت کو آنا چاہتی تھی، لیکن کسی مجبوری کی وجہ سے نہ آ سکی، مجھے بھیج دیا۔ پھر میں نے موقع نکال کر لڑکی سے بات کی، جب وہ کمرے سے نکل کر نرس کے پاس جا رہی تھی۔ میں نے اس کو بتایا کہ میں دراصل تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا کہ اس دن تم نے میری جان بچائی، جب میں بے ہوش ہو کر تمہارے گھر کے سامنے گر گیا تھا۔ لڑکی کا نام روزینہ تھا۔ وہ مجھے پہچان گئی تھی اور میری باتوں سے شرم مار رہی تھی۔
اس کے بعد میں ٹائم نوٹ کر کے اس وقت جاتا، جب وہ ماں کے پاس اکیلی ہوتی۔ میں برآمدے میں کھڑا ہو کر اس کو اشارہ کرتا۔ وہ کمرے کی کھڑکی سے مجھے دیکھ لیتی۔ میں پوچھتا کہ کسی چیز کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں۔ اس طرح میں نے شریفانہ انداز اختیار کر کے اس کا دل جیت لیا۔ وہ بیچاری، ظاہر ہے میری آمد کا ذکر اپنے گھر کے کسی فرد سے ڈر کی وجہ سے نہیں کرتی تھی۔ بہر حال میں ایسے معاملات کا ماہر تھا۔ کئی لڑکیوں کو پہلے بھی بے وقوف بنا چکا تھا۔ روزینہ کو بیوقوف بنانا کون سی بڑی بات تھی۔ جس روز اس کی ماں کی اسپتال سے چھٹی ہوئی تھی، اس نے مجبور ہو کر مجھے اپنے گھر کا فون نمبر دیا اور وقت بتایا کہ کب میں اسے فون کروں۔ میں نے اس سے وعدہ لیا کہ مجھے خط ضرور لکھنا اور اس نے وعدہ کر لیا۔ میرے دل میں خوشی کے پھول کھل گئے۔ جس کام کو میں بہت دشوار سمجھ رہا تھا، وہ بہت ہی آسان نکلا۔ روزینہ بھی عام لڑکیوں جیسی کم عقل اور بے وقوف نکلی۔ اس نے مجھ پر بڑی جلدی بھروسہ کر لیا، جبکہ میں سمجھ رہا تھا کہ شاید وہ مجھ سے بات تک کرنا پسند نہ کرے گی۔
اب میں روز شام کو خوب بن سنور کر اس کی بالکونی کے نیچے کھڑا ہو جاتا۔ وہ بالکونی میں آ جاتی۔ میں اشارے سے کہتا کہ مجھے خط لکھو، تو وہ گھبرا کر بھاگ جاتی۔ دو چار روز بعد ایک رقعہ بالکونی سے گرا اور میرے قدموں میں آپڑا۔ یہ میری کامیابی کا پہلا مرحلہ تھا۔ اس کے ہاتھ کا لکھا ہوا ثبوت میری جیب میں آ چکا تھا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔ پہلے میں نے احتیاط کی کہ کوئی دیکھ نہ لے اور جب پختہ یقین ہو گیا کہ وہ میرے دام میں آ چکی ہے تو احتیاط کا دامن چھوڑ دیا تاکہ محلے والے بھی دیکھ سکیں کہ وہ بالکونی میں میری خاطر آتی ہے۔ مجھے کوئی خوف نہیں تھا۔ میں چاہتا تھا کہ اس گھر کے نوجوانوں کے دل پر گھومنے لگوں اور وہ غیرت کی آگ میں جل کر خاک ہو جائیں۔ میرا کیا تھا، میں تو بس ایک بد نام لڑکا تھا۔ اس معاشرے میں مرد کا تو کچھ نہیں بگڑتا۔ فون پر میں نے روزینہ کو بتا دیا تھا کہ میرا ایک دوست ہے مشرف، تم صرف اسی پر اعتبار کر سکتی ہو۔ صرف یہی ایک میرا رازدار ہے۔ اس کے علاوہ میں نے بہت بار اس کو ملنے آنے کا کہا، مگر اس نے جواب دیا کہ طاہر، میں مجبور ہوں۔ اکیلی گھر سے باہر قدم نہیں نکال سکتی۔ اب میں نے ایک اور اسکیم بنائی۔ کئی دن تک میں نے اس سے کوئی رابطہ نہ رکھا۔ وہ بیچاری پریشان ہوتی رہی، پھر مشرف نے اس کو فون کر کے کہا کہ طاہر زندگی موت کی کشمکش میں گرفتار ہے۔ تم اس کو دیکھنے نہ آئیں تو شاید وہ مر ہی جائے۔ روزینہ گھبرا گئی۔ اس نے کہا، میں گھر سے نہیں نکل سکتی، لیکن دو پہر کو امی کھانا کھانے کے بعد دو تین گھنٹے کے لئے سو جاتی ہیں۔ اس وقت میں سے آ جاؤں گی، مگر مجھے جلد واپس پہنچا دینا۔ ایسا نہ ہو کہ امی جاگ جائیں اور میری شامت آ جائے۔
دوسرے دن مشرف اس کے گھر کی دوسری گلی کے نکڑ پر موٹر سائیکل لیے اس کا منتظر تھا۔ وہ بیچاری ڈری سہمی، برقعہ اوڑھے، دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر گھر سے نکل آئی اور مشرف کی موٹر سائیکل پر بیٹھ گئی۔ وہ اس کو میرے پاس لے آیا۔ میں ایک دوست کے خالی مکان میں بیمار بنا ہوا، بستر پر لیٹا تھا۔ وہ آ کر میرے سامنے صوفے پر بیٹھ گئی۔ وہ بہت گھبرائی ہوئی تھی۔ ایک لمحے کے لیے تو مجھے اس پر ترس بھی آیا، لیکن اگلے لمحے ہی اپنی بے عزتی یاد آ گئی۔ وہ میری خیر خیریت پوچھ ہی رہی تھی کہ مشرف نے کھڑکی سے میرا اور اس کا فوٹو کھینچ لیا، پھر جلد ہی وہ اس کو واپس اس کے گھر چھوڑ آیا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے فون کیا تو روزینہ نے بتایا کہ خدا کا شکر ہے میں بخیریت گھر پہنچ گئی، مگر آئندہ ایسی غلطی کبھی نہیں کروں گی۔ اس واقعے کے بعد روزینہ یہی سمجھی کہ کسی کو اس کے جانے کے بارے میں کچھ پتا نہیں چلا۔ میرے لیے مسئلہ یہ تھا کہ میں اب اس کو کس طرح بدنام کروں۔ اگر اس کے گھر والوں کو خط اور تصویر دکھاتا تو ممکن ہے کہ وہ اپنی لڑکی کو ختم کرنے سے پہلے مجھے ہی ٹھکانے لگا دیتے یا پولیس کے حوالے کر دیتے۔ پس میں نے یہ کیا کہ محلے کے لڑکوں کو کھلے عام یہ کہنا شروع کر دیا کہ روزینہ تو مجھ کو چاہتی ہے۔ بالکونی سے خطوط لکھ کر مجھے بھیجتی اور مجھ سے ملتی بھی ہے۔ میں نے تصویر اور خطوط ایک ایک کر کے محلے کے تمام لڑکوں کو دکھا دیے۔ ہر ایک نے مجھ سے یہی کہا کہ یہ نا ممکن ہے، وہ تو بہت شریف لوگ ہیں۔ جب میں نے انہیں کہا کہ قریبی پارک کے کسی درخت کی اوٹ میں چھپ کر تماشا دیکھو، تو دو چار نے ہامی بھر لی۔ میں مقررہ وقت پر گلی میں کھڑا ہو گیا۔ جب گلی میں آتا جاتا نظر نہ آیا تو روزینہ نے خط نیچے پھینکا اور بھاگ کر کمرے میں چلی گئی۔ میں نے خط اٹھا لیا۔
یہ منظر محلے کے کچھ لڑکوں نے پارک سے دیکھا اور میرے قریب آ کر خط بھی پڑھا۔ یوں وہ محلے بھر میں بدنام ہو گئی۔ انہی دنوں میں ویزے کی کوششوں میں لگا ہوا تھا۔ آخر مجھے ویزا مل گیا اور میں دبئی چلا آیا، لیکن میرا مشن ابھی نامکمل تھا۔ میں روزینہ کے خط اور تصویر ساتھ لے کر آیا تھا۔ یہ کام میں نے مشرف کے ذمہ لگایا تھا کہ جب اس لڑکی کی شادی ہو جائے تو ذرا اس کے سسرال کا پتا کر کے مجھے لکھنا۔ میرے دبئی آنے کے ایک سال بعد روزینہ کی شادی ہو گئی اور وہ بیاہ کر سسرال چلی گئی۔ جب اس کے شوہر کا ایڈریس مجھے موصول ہوا، اس وقت وہ صرف دس روز کی دلہن تھی۔ میں نے ایڈریس موصول ہوتے ہی اس کے خطوط اور تصویر اس کے دولہا کو ارسال کر دیے اور مشرف کے خط کا انتظار کرنے لگا کہ دیکھیں اب اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ یہ سب کرنے کا میرا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ اس کے غیرت مند بھائیوں کی غیرت کا جنازہ نکل جائے۔ بہن کے کرتوت جب ان پر کھلیں، تو وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں۔ آہ! اگر میں جانتا کہ روزینہ اپنے آپ کو ختم کر ڈالے گی تو شاید میں ایسا کبھی نہ کرتا، اس نے بہت نادانی سے کام لیا۔ وہ اس صدمے کو نہ سہ سکی۔ جب اس کے شوہر نے میرے بھیجے ہوئے خط اور ہماری اکٹھی تصویر اس کے سامنے رکھی تو اس نے اپنی صفائی میں ایک لفظ بھی نہ کہا۔ نجانے اس کا شوہر اس کو کیا سزا دیتا، ہو سکتا ہے معاف کر دیتا، مگر اس نے اس کو کسی قسم کے رد عمل کے اظہار کی مہلت نہ دی۔ غسل خانے میں خود کو بند کیا اور کیڑے مار دوا پی کر اپنی جان، میرے انتقام کی بھینٹ چڑھا دی۔
میں نے اپنے راز داں دوست سے کچھ مشورہ کیا، پھر اچانک دھڑام سے زمین پر گر گیا۔ ایک دوست نے مجھے سنبھالا اور دوسرا ادھر اُدھر دیکھنے لگا، جیسے مدد چاہتا ہو۔ میرے دوست لڑکوں نے شور کیا کہ بیچارہ روزے دار ہے اور روزے کی وجہ سے بے ہوش ہو گیا ہے۔ لڑکی نے بالکونی سے جھک کر یہ منظر دیکھا، پھر دوڑ کر اندر گئی اور اپنی ماں کو بلالایا۔ اسی دوران میرے دوست نے ان کے دروازے پر دستک دی۔ ایک نے مجھے جھلنے کے لیے پنکھا مانگا اور تھوڑا سا پانی بھی۔ گھر کی مالکہ نے نوکر کے ہاتھ شربت کا جگ اور پنکھا دیا اور کہلوایا کہ اگر محلے کا کوئی لڑکا ہے، تو اس کو بیٹھک میں لے آئو۔ افطار کا وقت قریب ہے، اس کا روزہ کھلواؤ۔ میں افطاری بھیجتی ہوں۔ دوستوں نے پتا کر لیا تھا کہ گھر پر مرد موجود نہیں ہیں، لہذا انہوں نے میرے کان میں کہا کہ ان کی بیٹھک میں چلو، میں نے انکار کر دیا۔ بالکونی سے وہ لڑکی ہمدردی سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ میرے دوست مجھے پنکھا جھلتے رہے اور باہر ہی میرا روزہ افطار کرایا۔ اس طرح میرا پہلا تعارف دور سے اس کے ساتھ ہوا، وہ بھی اس طرح کہ اس کے دل میں میرے لئے ہمدردی کے جذبات تھے، پھر ہم وہاں سے کھسک آئے کیونکہ ان کے مرد نو بجے شب اپنا کاروبار بند کر کے گھر آجاتے تھے۔ اب میرا اکثر وقت اس مکان کے ارد گرد منڈلاتے ہوئے گزرتا، لیکن پھر کوئی موقع میسر نہ آیا کہ میں لڑکی سے ہم کلام ہوتا۔ ایک بار وہ بالکونی میں نظر آئی تو میں نے شکریے کے طور پر ہاتھ باندھے، تو وہ گھر کے اندر چلی گئی۔ کچھ دن بعد پتا چلا کہ لڑکی کی ماں اسپتال میں داخل ہے۔ لڑکی بھی ماں کے ساتھ اسپتال میں تھی۔ میں اسپتال کا پتا کر کے وہاں پہنچا اور نوٹس کیا کہ گھر والے کب عیادت کو آتے تھے۔ مجھے ان اوقات کے علاوہ وقت منتخب کرنا تھا۔ لڑکی اور اس کی ماں یہ نہیں جانتی تھیں کہ میں وہی لڑکا ہوں، جس کی بے عزتی اس کے گھر کے نوجوان کر چکے تھے۔ وہ مجھ کو محلے کا ہی کوئی لڑکا سمجھ رہی تھیں۔ پہلی بار جب میں عیادت کے بہانے گیا، تو میں نے یہی بتایا کہ میری ماں آپ کی عیادت کو آنا چاہتی تھی، لیکن کسی مجبوری کی وجہ سے نہ آ سکی، مجھے بھیج دیا۔ پھر میں نے موقع نکال کر لڑکی سے بات کی، جب وہ کمرے سے نکل کر نرس کے پاس جا رہی تھی۔ میں نے اس کو بتایا کہ میں دراصل تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا کہ اس دن تم نے میری جان بچائی، جب میں بے ہوش ہو کر تمہارے گھر کے سامنے گر گیا تھا۔ لڑکی کا نام روزینہ تھا۔ وہ مجھے پہچان گئی تھی اور میری باتوں سے شرم مار رہی تھی۔
اس کے بعد میں ٹائم نوٹ کر کے اس وقت جاتا، جب وہ ماں کے پاس اکیلی ہوتی۔ میں برآمدے میں کھڑا ہو کر اس کو اشارہ کرتا۔ وہ کمرے کی کھڑکی سے مجھے دیکھ لیتی۔ میں پوچھتا کہ کسی چیز کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں۔ اس طرح میں نے شریفانہ انداز اختیار کر کے اس کا دل جیت لیا۔ وہ بیچاری، ظاہر ہے میری آمد کا ذکر اپنے گھر کے کسی فرد سے ڈر کی وجہ سے نہیں کرتی تھی۔ بہر حال میں ایسے معاملات کا ماہر تھا۔ کئی لڑکیوں کو پہلے بھی بے وقوف بنا چکا تھا۔ روزینہ کو بیوقوف بنانا کون سی بڑی بات تھی۔ جس روز اس کی ماں کی اسپتال سے چھٹی ہوئی تھی، اس نے مجبور ہو کر مجھے اپنے گھر کا فون نمبر دیا اور وقت بتایا کہ کب میں اسے فون کروں۔ میں نے اس سے وعدہ لیا کہ مجھے خط ضرور لکھنا اور اس نے وعدہ کر لیا۔ میرے دل میں خوشی کے پھول کھل گئے۔ جس کام کو میں بہت دشوار سمجھ رہا تھا، وہ بہت ہی آسان نکلا۔ روزینہ بھی عام لڑکیوں جیسی کم عقل اور بے وقوف نکلی۔ اس نے مجھ پر بڑی جلدی بھروسہ کر لیا، جبکہ میں سمجھ رہا تھا کہ شاید وہ مجھ سے بات تک کرنا پسند نہ کرے گی۔
اب میں روز شام کو خوب بن سنور کر اس کی بالکونی کے نیچے کھڑا ہو جاتا۔ وہ بالکونی میں آ جاتی۔ میں اشارے سے کہتا کہ مجھے خط لکھو، تو وہ گھبرا کر بھاگ جاتی۔ دو چار روز بعد ایک رقعہ بالکونی سے گرا اور میرے قدموں میں آپڑا۔ یہ میری کامیابی کا پہلا مرحلہ تھا۔ اس کے ہاتھ کا لکھا ہوا ثبوت میری جیب میں آ چکا تھا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔ پہلے میں نے احتیاط کی کہ کوئی دیکھ نہ لے اور جب پختہ یقین ہو گیا کہ وہ میرے دام میں آ چکی ہے تو احتیاط کا دامن چھوڑ دیا تاکہ محلے والے بھی دیکھ سکیں کہ وہ بالکونی میں میری خاطر آتی ہے۔ مجھے کوئی خوف نہیں تھا۔ میں چاہتا تھا کہ اس گھر کے نوجوانوں کے دل پر گھومنے لگوں اور وہ غیرت کی آگ میں جل کر خاک ہو جائیں۔ میرا کیا تھا، میں تو بس ایک بد نام لڑکا تھا۔ اس معاشرے میں مرد کا تو کچھ نہیں بگڑتا۔ فون پر میں نے روزینہ کو بتا دیا تھا کہ میرا ایک دوست ہے مشرف، تم صرف اسی پر اعتبار کر سکتی ہو۔ صرف یہی ایک میرا رازدار ہے۔ اس کے علاوہ میں نے بہت بار اس کو ملنے آنے کا کہا، مگر اس نے جواب دیا کہ طاہر، میں مجبور ہوں۔ اکیلی گھر سے باہر قدم نہیں نکال سکتی۔ اب میں نے ایک اور اسکیم بنائی۔ کئی دن تک میں نے اس سے کوئی رابطہ نہ رکھا۔ وہ بیچاری پریشان ہوتی رہی، پھر مشرف نے اس کو فون کر کے کہا کہ طاہر زندگی موت کی کشمکش میں گرفتار ہے۔ تم اس کو دیکھنے نہ آئیں تو شاید وہ مر ہی جائے۔ روزینہ گھبرا گئی۔ اس نے کہا، میں گھر سے نہیں نکل سکتی، لیکن دو پہر کو امی کھانا کھانے کے بعد دو تین گھنٹے کے لئے سو جاتی ہیں۔ اس وقت میں سے آ جاؤں گی، مگر مجھے جلد واپس پہنچا دینا۔ ایسا نہ ہو کہ امی جاگ جائیں اور میری شامت آ جائے۔
دوسرے دن مشرف اس کے گھر کی دوسری گلی کے نکڑ پر موٹر سائیکل لیے اس کا منتظر تھا۔ وہ بیچاری ڈری سہمی، برقعہ اوڑھے، دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر گھر سے نکل آئی اور مشرف کی موٹر سائیکل پر بیٹھ گئی۔ وہ اس کو میرے پاس لے آیا۔ میں ایک دوست کے خالی مکان میں بیمار بنا ہوا، بستر پر لیٹا تھا۔ وہ آ کر میرے سامنے صوفے پر بیٹھ گئی۔ وہ بہت گھبرائی ہوئی تھی۔ ایک لمحے کے لیے تو مجھے اس پر ترس بھی آیا، لیکن اگلے لمحے ہی اپنی بے عزتی یاد آ گئی۔ وہ میری خیر خیریت پوچھ ہی رہی تھی کہ مشرف نے کھڑکی سے میرا اور اس کا فوٹو کھینچ لیا، پھر جلد ہی وہ اس کو واپس اس کے گھر چھوڑ آیا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے فون کیا تو روزینہ نے بتایا کہ خدا کا شکر ہے میں بخیریت گھر پہنچ گئی، مگر آئندہ ایسی غلطی کبھی نہیں کروں گی۔ اس واقعے کے بعد روزینہ یہی سمجھی کہ کسی کو اس کے جانے کے بارے میں کچھ پتا نہیں چلا۔ میرے لیے مسئلہ یہ تھا کہ میں اب اس کو کس طرح بدنام کروں۔ اگر اس کے گھر والوں کو خط اور تصویر دکھاتا تو ممکن ہے کہ وہ اپنی لڑکی کو ختم کرنے سے پہلے مجھے ہی ٹھکانے لگا دیتے یا پولیس کے حوالے کر دیتے۔ پس میں نے یہ کیا کہ محلے کے لڑکوں کو کھلے عام یہ کہنا شروع کر دیا کہ روزینہ تو مجھ کو چاہتی ہے۔ بالکونی سے خطوط لکھ کر مجھے بھیجتی اور مجھ سے ملتی بھی ہے۔ میں نے تصویر اور خطوط ایک ایک کر کے محلے کے تمام لڑکوں کو دکھا دیے۔ ہر ایک نے مجھ سے یہی کہا کہ یہ نا ممکن ہے، وہ تو بہت شریف لوگ ہیں۔ جب میں نے انہیں کہا کہ قریبی پارک کے کسی درخت کی اوٹ میں چھپ کر تماشا دیکھو، تو دو چار نے ہامی بھر لی۔ میں مقررہ وقت پر گلی میں کھڑا ہو گیا۔ جب گلی میں آتا جاتا نظر نہ آیا تو روزینہ نے خط نیچے پھینکا اور بھاگ کر کمرے میں چلی گئی۔ میں نے خط اٹھا لیا۔
یہ منظر محلے کے کچھ لڑکوں نے پارک سے دیکھا اور میرے قریب آ کر خط بھی پڑھا۔ یوں وہ محلے بھر میں بدنام ہو گئی۔ انہی دنوں میں ویزے کی کوششوں میں لگا ہوا تھا۔ آخر مجھے ویزا مل گیا اور میں دبئی چلا آیا، لیکن میرا مشن ابھی نامکمل تھا۔ میں روزینہ کے خط اور تصویر ساتھ لے کر آیا تھا۔ یہ کام میں نے مشرف کے ذمہ لگایا تھا کہ جب اس لڑکی کی شادی ہو جائے تو ذرا اس کے سسرال کا پتا کر کے مجھے لکھنا۔ میرے دبئی آنے کے ایک سال بعد روزینہ کی شادی ہو گئی اور وہ بیاہ کر سسرال چلی گئی۔ جب اس کے شوہر کا ایڈریس مجھے موصول ہوا، اس وقت وہ صرف دس روز کی دلہن تھی۔ میں نے ایڈریس موصول ہوتے ہی اس کے خطوط اور تصویر اس کے دولہا کو ارسال کر دیے اور مشرف کے خط کا انتظار کرنے لگا کہ دیکھیں اب اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ یہ سب کرنے کا میرا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ اس کے غیرت مند بھائیوں کی غیرت کا جنازہ نکل جائے۔ بہن کے کرتوت جب ان پر کھلیں، تو وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں۔ آہ! اگر میں جانتا کہ روزینہ اپنے آپ کو ختم کر ڈالے گی تو شاید میں ایسا کبھی نہ کرتا، اس نے بہت نادانی سے کام لیا۔ وہ اس صدمے کو نہ سہ سکی۔ جب اس کے شوہر نے میرے بھیجے ہوئے خط اور ہماری اکٹھی تصویر اس کے سامنے رکھی تو اس نے اپنی صفائی میں ایک لفظ بھی نہ کہا۔ نجانے اس کا شوہر اس کو کیا سزا دیتا، ہو سکتا ہے معاف کر دیتا، مگر اس نے اس کو کسی قسم کے رد عمل کے اظہار کی مہلت نہ دی۔ غسل خانے میں خود کو بند کیا اور کیڑے مار دوا پی کر اپنی جان، میرے انتقام کی بھینٹ چڑھا دی۔