قفس۔۔کی۔ ۔ چڑیا۔
۔پلوہی نےزریاب آفریدی کےلمس پر بہت کرب سے اپنی آنکھیں کھولیں۔
کیسی طبیعت ہے اب۔۔۔۔؟؟وہ انتہائی شرمندگی کے انداز مین بولا۔
زندہ ہون۔۔۔۔
اس طرح سے تو مت کہو نا پلوہی۔۔
نہین ہون مین پلوہی؟؟۔مم .مرر گئی ہے اب پلوہی؟؟۔۔۔
پلیزز پلوشہ مجھے معاف کر دو نا ..پلیزز۔
کس بات کی معافی خان آپ تو حق پرتھے ناں۔۔۔۔وہ بہت طنزیہ انداز سے بولی۔
پلوہی میں مانتا ہوں میں غلط (ساتھ ہی وہ دل مین برابر ہی سوچے جارہے تھا ہان پلوہی میری جان مین حق پر ہو کر بھی تمہارے معاملے مین غلطی کر چکا ہون۔اپنی سچائی تو مین ایک دن تم سب کے سامنے لا کر رہون گا۔مگر تمہارے اور اپنے اس نقصان کا ازالہ کیئسے کر پاؤن گا)تھا۔۔۔۔۔
خان صاحب۔۔اب کیا فائدہ اب تو ہو چکا جو ہونا تھا۔۔۔ویسے بھی جو کچھ بھی ہوا بلکل ٹھیک ہوا۔۔ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔۔۔۔۔میں کونسا یہاں آپ کے پاس خوشیاں سمیٹنے آئی تھی۔
جو یہ خوشیان راس آتی مجھے۔۔۔۔۔
پلوہی میں حقیقتا شرمندہ ہوں تم سے میں نے ہر گز نہیں چاہا تھا کہ ہمارا بچہ۔۔
ہمارا۔۔۔۔۔؟؟؟.۔
ہمارا نہیں زریاب خان صرف میرا۔۔۔صرف میرا بچہ تھا۔۔۔۔اگر آپ کا ہوتا تو آپ وہ سب بلکل نہین کرتے جو کر چکے ہیں۔۔۔۔۔۔وہ زور سے چیخنا چاہتی تھی مگر آنسوؤں کیوجہ سے اسکی آواز گھٹ گھٹ کر نکل رہی تھی۔
میں جان بوجھ کر کیوں کروں گا ایسا پلوشہ یہ سب تو غلطی سے۔۔۔
میں کیوں مان لوں یہ سب غلطی سے ہوا۔۔۔۔وہ اسکی بات کاٹتی بولی
جب میں یہاں چلاتی رہی کہ شمس لالہ نے سہراب خان کا خون جان بوجھ کر کسی دشمنی میں نہیں کیا بلکہ وہ تو غلطی سے ہوا تو آپ نے مانی تھی میری بات جو میں اب آپ کی مانوں۔۔۔۔؟؟
پلوشہ کوئی بھی باپ اپنی ہی اولاد کو یون کیسے مار سکتا ہے۔۔۔۔وہ بے بسی سے کہتا اپنی بے گناہی کا پلوہی کو یقین دلانا چاہ رہا تھا۔
زریاب خان اس دنیا کا کوئی بھی مرد کچھ بھی کر سکتا ہے خان۔صاحب۔۔چاہے وہ کسی کا باپ ہو ،شوہر ہو ،بھائی ہو یا بیٹا ہی کیون نہ ہو۔
وہ کچھ بھی کرسکتا ہےاور اب میں ہر رشتے میں مرد کو جانچ چکی ہوں خان۔۔۔
مجھ سے بہتر کون جان پایا ہو گا آپ مردوں کی اصلیت کیا ہے۔۔۔۔۔۔جس کے سگے باپ نے اسے بیٹے کے جرم میں ونی کر دیا۔۔۔جس کے بھائی نے اسے اپنی غلطی کی سزا بھگتنے بھیج دیا۔۔۔۔۔جس کے شوہر نے اسے خون بہا میں آئی ہوئی لڑکی کے سوا کچھ بھی تو نہ سمجھا۔۔۔۔اور ۔۔۔اور جسکی اولاد اس دنیا میں آ کر نہجانے کیا کرتی اس کے ساتھ آپ نے بہت اچھا کیا۔۔۔۔۔بہت اچھا کیا خان کہ پہلے ہی اسے ختم کر کے مجھے مزید اذیت سہنے سے بچا لیا۔
پلوہی۔۔۔مم۔۔۔مجھے معاف کر دو پلیززز۔۔۔۔وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ کر بولا۔
پلوشہ تکیے میں منہ چھپائے ہچکیوں سے رونے لگی۔
پلوہی۔۔۔۔۔زریاب نے بہت محبت سے اس کو پکارتے ہوئے ساتھ پلوہی کے بالوں میں انگلیاں چلائیں
پلیز خان۔۔صاحب۔۔پلیز مجھے چند دن سوگ منانے کی اجازت دے دیں۔۔۔۔مجھے خود کو اگلے امتحان کے لیے تیار کرنے کی کچھ تو مہلت دیں۔۔۔۔ مجھے اب میرے حال پر چھوڑ دیں خان۔۔۔۔آپ کو خدا کا واسطہ ہے۔۔۔۔چھوڑ دیں مجھے میرے حال پر۔۔۔۔۔۔۔وہ گھٹی گھٹی آواز میں رونے لگی۔،.۔
ابھی پہلی محبت کے بہت سے قرض باقی ہیں ۔۔
ابھی پہلی مسافت کی تھکن سے چور ہیں پاؤں ،۔۔
ابھی ہمارے زخم تازہ ہیں یہ بھر جائیں۔۔
تو سوچیں گے دوبارہ کب پھر سےاجڑنا ہے۔۔۔
زریاب کے پاس اب پیچھے ہٹنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔۔چند منٹ اس نےوہاں بیٹھ کر پلوہی کی پشت کودیکھا اور ایک دکھ بھری نظر اس کے ہچکیاں لیتے وجود پر ڈال کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے نکل گیا۔
کیونکہ اب وہ اسے مزید اذیت نہیں دینا چاہتا تھا
"میری محبتیں بھی عجیب تھیں٬ ساقی۔
میرا فیض بھی تو بہت باکمال تھا۔
کبھی تو صنم ۔۔سب ملا بنا طلب کئے۔
کبھی کچھ بھی نہ ملا سوال پر!!۔
________________
پلوشہ کی طبیعت کافی سنبھل گئی تھی۔۔۔ایک ہفتے سے زیادہ ہو گیا تھا اسے ہوسپٹل سے گھر آئے۔۔۔
اس رات کے بعد پلوہی نے پھر دوبارہ زریاب کو کمرے میں نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔اور نہ ہی کسی سے اس کے بارے میں کچھ پوچھا تھا۔
اب بھی وہ آہستگی سے چلتی ہوئی ہال کمرے میں آئی جہاں بی بی جان اور مہرو موجود تھیں
ارے پلوشہ تم ادھرکیوں آ گئی ہو کچھ چاہیے تھا تو انٹر کام سے بتا دیتی مجھے ۔۔۔۔مہرو اسے دیکھ کر جلدی سے کھڑی ہوئی۔
نہیں بھابھی کچھ نہیں چاہیے تھا میں کمرے میں رہ رہ کر تھک چکی تھی اسی لیے خود ہی باہر آ گئی۔۔۔۔۔وہ آہستگی سے کہتی انکی طرف چلی آئی۔
اچھا آؤ بیٹھو۔۔۔۔مہرو نے اپنے ساتھ جگہ خالی کی۔
اسلام علیکم۔۔بی بی جان۔۔۔
وعلیکم سلام۔۔۔۔کیسی طبیعت ہے اب۔۔۔۔؟؟
اللہ کا شکر ہے بی بی جان ٹھیک ہوں اب۔۔۔۔وہ ہلکا سا مسکرائی۔
ہوں۔۔بیٹا۔۔ہمیں ہر حال میں شکر گزار ہی رہنا چاہیے بچے۔۔۔۔مہرو تم پلوشہ کو اپنے ساتھ ہی لے جانا دل بہل جائے گا اس کا اور واپسی پر ہمارے ساتھ آ جائے گی۔
جی بی بی جان۔۔۔۔میں بھی یہی سوچ رہی تھی اور شاپنگ وہیں سے کر لوں گی جا کر اپنی بھی اور پلوہی کی بھی۔۔۔حدید کے لیے تو زریاب کل بہت کچھ خرید لایا تھا
ہوں جیسے مناسب سمجھو۔۔۔۔وہ مسکرائیں
پلوہی لاتعلق سی بیٹھی اپنے ہاتھوں کو گھور رہی تھی
پلوشہ تم اپنی پیکنگ کر لینا بلکہ میں ہی کر دوں گی۔۔۔۔پھر پرسوں کی شام کو نکلیں گے ہم۔۔۔۔
کہان جانا ہے۔۔۔۔؟؟؟
لال حویلی میرے میکے۔۔۔۔۔وہ میرے چھوٹے بھائی کی شادی طے ہو گئی ہے اگلے ہفتے کی اور ہم ایک ہفتہ پہلے جائیں گے وہاں۔۔۔۔مہرو نے مسکرا کر اطلاع دی
جی۔۔۔۔۔پلوشہ نے صرف سر ہلانے پر اکتفا کیا۔
پلوشہ بیٹا تم چاہو تو کل جا کر اپنے گھر والوں سے جا کر مل آنا۔۔۔۔زریاب کچھ نہیں کہے گا۔۔۔بی بی جان نے اسکی اتنی مرجھائی ہوئی صورت دیکھ کر کہا۔
نہیں بی بی جان میرا دل نہیں جانے کو۔۔۔۔۔میں باہر لان میں جا رہی ہوں وہ آہستگی سے کہتی ہال سے نکل گئی۔
تم نے پوچھا مہرو کے کیسے گری تھی اس رات۔۔۔۔۔
نہین۔۔۔۔بی بی جان۔۔۔
اچھا ابھی مت پوچھنا بھی اب خود ہی سنبھل جائے گی وقت کیساتھ۔۔۔وہ اس کی حالت سے افسردہ ہوئیں۔
جی بی بی نہیں پوچھتی۔۔۔۔۔۔میں چائے لاؤں آپ کے لیے۔۔۔؟؟
ہاں۔۔۔۔۔۔لے آؤ پھر جا کر نماز پڑھوں گی۔
ابھی لاتی ہوں۔۔۔۔۔مہرو مسکراتی ہوئی چائے بنانے کیچن کیطرف چلی گئی
________________
انہیں لال حویلی آئے دو دن ہو گئے تھے۔۔۔مگر وہاں آ کر بھی پلوہی کی حالت پر کچھ خاص اثر نہیں پڑا تھا۔۔۔۔وہ ویسی ہی گم سم سی تھی۔۔۔۔اب بھی وہ اس کمرے میں جو اسے ایز آ گیسٹ دیا گیا تھا اکیلی ہی بیٹھی اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھ رہی تھی جب مہرو کمرے میں آئی۔
پلوشہ یہاں کیوں بیٹھی ہو۔۔۔۔باہر سب لڑکیاں ڈھولک پر گیت گا رہی ہیں اور تم یہاں اپنی ہی ڈیڑھ انچ کی مسجدبنائےبیٹھی ہو۔۔۔۔
وہ۔۔۔مجھے گیت گانے نہیں آتے بھابھی۔۔۔۔
تو کون کہہ رہا ہے تمہین گیت گاؤ ۔۔۔۔۔سنو اور انجوائے کرو بس۔۔۔چلو اب اٹھو جلدی سے میں تمہارے کپڑے نکالتی ہوں چینج کرواوراٹھو باہرچلومیرے ساتھ۔۔۔۔۔
بھابھی آپ میرا اتنا خیال مت رکھا کریں میں اس قابل نہیں ہوں۔۔۔۔وہ افسردہ مسکراہٹ سے بولی۔
میں اچھے سے جانتی ہوں تم کس قابل ہو اور مجھے کیا کرنا ہے سمجھی۔۔۔۔اب اٹھو جلدی سے۔۔۔وہ ڈپٹتی ہوئی کبڈ کی طرف بڑھی
یہ والا سوٹ بہت اچھا لگے گا تم پر کیا خیال ہے۔۔۔۔؟؟مہرو نے ییلو اور ریڈ کنٹراس کا عمدہ سا سوٹ نکالا۔۔۔۔
وہ کل ہی اپنی اور پلوہی کی ساری شاپنگ کرآئی تھی پلوشہ نے جانے سے منع کر دیا تھا اس لیے وہ اپنی پسند سے ہی اس کے لیے بھی مختلف ڈریسز لے آئی تھی۔
اچھا ہے۔۔۔بھابھی۔۔۔
تو پھر اٹھو اور اٹھ کر پہنو اسے۔۔۔۔مہرو نے ہینگر اسکی طرف بڑھایا
پلوہی ہینگر تھام کر چینج کرنے چلی گئی
_________________
بڑے سے ہال کمرے میں لڑکیاں گول دائرے کی شکل میں بیٹھیں تھیں درمیان میں ڈھولک رکھی تھی جسے ایک لڑکی بڑے ماہرانہ انداز میں بجا رہی تھی باقی لڑکیاں اردگرد بیٹھیں ڈھولک کی تھاپ پر تالیاں پیٹتی ہوئیں ۔مختلف قسم کےگیت گانے میں مصروف تھیں۔
پلوشہ بھی کچھ ہی فاصلے پر بیٹھ کر بہت آہستہ آہستہ تالی بجانے لگی۔
اسے شمس لالہ کی شادی یاد آئی ۔جب ان کی حویلی میں کتنی رونق تھی اور پلوہی کو اکلوتی بہن ہونے کے ناطے کچھ ایکسٹرا پروٹوکول دیا گیا تھا
کتنا ہلگا گلا کیا تھا سب لڑکیوں نے مل کر۔۔۔۔۔وہ بجھے دل سے ہلکی ہلکی تالی بجا رہی تھی جب حدید اسکے پاس آ کر بیٹھا
چاچی۔۔۔۔آپ کو کلیپنگ کرنی بلکل نہیں آتی کیا۔۔۔۔۔؟؟
چاچی۔۔۔۔اس نے پلوشہ کی خاموشی پر بازو ہلا کر متوجہ کیا
ہوں۔۔۔ہاں۔۔۔کیا ہوا مجھےکچھ کہا۔۔؟؟پلوہی چونک کر سیدھی ہوئی۔
ارےےآپ کیسے کلیپنگ کر رہی ہیں۔کیا میں سیکھاؤں آپ کو کلیپنگ کرنا۔۔۔۔۔وہ معصومیت سے پوچھ رہا تھا۔
ہوں۔۔۔۔۔پلوشہ نے مسکرا کر سر ہلایا۔
یہ دیکھیں۔۔۔۔۔حدید نے دونوں ہاتھوں کو زور سے ایک دوسرے پے مار کر پرجوش انداز میں تالی بجائی۔
ایئسے۔۔۔۔۔۔اب آپ کرین۔۔۔۔۔
پلوہی نے بھی اسی کے انداز میں دونوں ہاتھ ایک دوسرے پر مارے مگر کچھ خاص جوش سے نہیں۔
اووہو ایسے نہیں۔۔۔۔چاچی ایسے۔۔۔۔اس نے سر پر ہاتھ مار کر پھر سے تالی بجانے کا عمل دوہرایا۔
اوکے۔۔۔اب کی بار پلوشہ نے اس کو مکمل فالو کیا
گڈ۔۔۔۔اب آ گئی آپ کو بھی۔۔۔۔اب ایسے ہی بجائیں آپ۔۔۔۔۔وہ خوش ہوا
اتنے زور سے بجاؤں گی تو میرے ہاتھ دکھنے لگ جائیں گے۔۔۔۔
کوئی بات نہیں میں رات میں آپ کے ساتھ سوؤں گا تو دبا دوں گا۔۔۔حدید نے فورا اسکے خدشے کاحل پیش کیا۔
پلوشہ اسکی بات پر دل سے مسکراتی اسے اپنے ساتھ لگا گئی
میرا بچہ۔۔۔۔۔اس نے جھک کر حدید کے بالوں کا بوسہ لیا
چاچی مجھ سے فرینڈ شپ کریں گی۔۔۔؟؟
ارےےے۔۔ضرور۔۔ کرون۔۔ گی۔۔
چاچو کو مت بتائیے گا پھر۔۔۔۔۔وہ رازداری سے بولا
کیا۔۔۔۔۔۔؟؟
یہی کہ ہم فرینڈز ہیں۔۔۔۔اسنے پلوہی کے کان کے پاس جا کر آہستہ سے بتایا کہ کوئی سن نہ لے۔۔۔
وہ کیوں۔۔۔۔؟؟؟۔۔۔ پلوشہ حیران ہوئی۔۔
انہوں نے مجھے منع کیا ہے فرینڈز بنانے سے سکول میں بھی میرا کوئی فرینڈ نہیں ہے بس کلاس فیلوز ہی ہیں میرے سب۔۔۔۔
آپ نے پوچھا نہیں کہ فرینڈز کیوں نہیں بناتے۔۔۔؟؟
پوچھا تھا مگر انہوں نے کہا ابھی میں چھوٹا ہوں جب بڑا ہو جاؤں گا تب بتائیں گے اور تب تک صرف چاچو ہی میرے فرینڈ رہیں گے۔۔۔۔۔۔
ہون۔۔۔پلوشہ نے سرہلایا۔
تو پھر ہماری فرینڈشپ پکی ہے ناں۔۔۔؟؟؟
بلکل۔۔۔۔۔وہ مسکرائی۔۔۔
چلیں پھر۔۔۔۔حدید نے ہاتھ کو پنچ مارنے کے انداز میں گول کیا۔
یہ۔۔کیا۔؟؟م
یہ ہماری فرینڈشب سائین ہے۔۔۔۔میں اور چاچو بھی ایسے کرتے ہیں۔۔۔
اوکے۔۔۔۔۔پر مجھے کیا کرنا ہو گا اب۔۔۔پلوہی اسکی باتوں میں کافی بہل گئی تھی۔۔
آپ بھی ایسے ہی بنائیں پھر ہم ایک دوسرے کو ہلکا سا پنچ ماریں گے۔۔۔۔
اوہ اچھا۔۔۔پلوشہ نے مسکراتے ہوئے ہاتھ کا مکا بنایا۔۔
دونوں نے اپنا اپنا پنچ مارا اور کھلکھلا کر ہنس پڑے ۔
______________
بھابھی میں اور حدید کچھ دیر کو باہر گھوم پھر آئیں کیا۔۔۔۔۔؟؟پلوہی نے کچن میں مصروف کھڑی مہرو سے پوچھا
چلی جاؤ مگر کسی ملاذمہ کو لے کر جانا ساتھ۔۔۔کافی پیچیدہ راستے ہیں یہان کے بھول ہی نہ جاؤ کہیں۔۔۔
ارےےڈونٹ وری بھابھی انہی پیچیدہ علاقوں کی پیداوار ہوں میں بھی۔۔۔پلوہی لاپرواہی سے مسکرائی۔
ہان ہان جانتی ہوں مگر پھر بھی احتیاط کرنابہت ضروری ہے۔۔۔۔مجھے بھی تو تسلی رہے گئی۔۔۔
چلین پھر بھیج دین کسی کو ہمارے ساتھ۔۔
ہاں میں بانو کو بھیجتی ہوں تم کوئی موٹی سی شال اوڑھو موسم بدل رہا ہے۔۔۔
جی۔۔۔۔پلوہی کو اماں یاد آئیں وہ بھی اسی طرح فکر کرتیں تھیں جس طرح سے مہرو بھابھی۔
ارے کیا ہوا پلوہی۔۔۔۔مہرو اسکی گالوں پر پھسلتے آنسو دیکھ کر آنچ دھیمی کرتی اس کے پاس چلی آئی۔
بھابھی آپ بہت اچھی ہیں۔۔۔وہ کہتی ہوئی اسکے گلے لگ کر رو پڑی۔
چند منٹ بعد مہرو نے اسے خود سے الگ کیا۔
میری چندا تم بھی بہت اچھی ہو۔۔۔اسی لیے تو میں تمہاری پرواہ کرتی ہوں۔۔۔۔مہرو نے اسکے آنسو صاف کیے۔
چلو اب جاؤ پھر اندھیرا پھیل جائے گا
جی۔۔۔۔۔پلوہی دوپٹے سے اپنی آنکھیں رگڑتی ہوئی باہر نکل گئی۔
______________. . . ___
چاچی چھپن چھپائی کھیلتے ہیں۔۔۔۔۔حدید نے اچھلتے ہوئے مشورہ دیا۔
وہ اس وقت حویلی سے کافی آگے نکل آئے تھے۔۔۔۔واقعی وہ کافی پیچیدہ ایریا تھا۔۔۔۔پتھریلا اونچا نیچا سا۔۔۔۔۔سر سبز درختوں میں گھرا۔۔۔۔بلکل جنگل جیسا۔۔۔
ارے چھپن چھپائی تو لڑکیاں کھیلتی ہیں نا۔۔۔پلوہی نے اپنی مسکراہٹ دباتے پوچھا۔
ہاں تو آپ اور بانو لڑکیاں ہی ہیں نا۔۔۔۔
پلوشہ اور بانو اسکی بات پر مسکرا دیں
مگر آپ کیا کریں گے پھر۔۔۔۔؟؟؟
میں بھی آپ لوگوں کو کمپنی دینے کو کھیل لوں گا۔۔۔۔اسکے شرارتی انداز پر پلوہی کھکھلا کر ہنس پڑی۔
بہت چالاک ہو تم پہلے کیوں نہیں ملے مجھے۔۔۔۔
میں تو ملنا چاہتا تھا پر آپ اپنے روم سے ہی نہیں نکلتی تھیں۔۔۔وہ فورا بولا
اوہ سیڈ۔۔۔۔چلو کوئی بات نہیں اب تو مل چکے ہیں ناں۔۔۔پلوشہ نے اسکا ناک کھینچا۔
یس۔۔۔۔۔۔۔چلیں اب گیم شروع کرتے ہیں
اوکے پہلے آپ اور بانو چھپیں میں آپ دونوں کو ڈھنڈوں گی۔۔۔پلوشہ نے پہلے اپنی باری لگائی۔
اوکے چلو بانو ہم چھپتے ہیں۔۔۔۔وہ بانو کا ہاتھ پکڑتا آگے کی طرف بھاگا۔
زیادہ دور نہیں جانا ہے قریب قریب ہی چھپنا۔۔بیٹا۔۔
اوکے چاچی۔۔۔۔وہ بلند آواز سے کہتا کچھ فاصلے پر موجود درخت کی اوٹ میں چھپ کر بیٹھ گیا۔
چند منٹ بعد پلوہی نے دونوں کو ڈھونڈ نکالا۔
پھر جو پہلے پکڑا جاتا وہی اگلی باری دیتا یونہی کافی وقت گزر گیا جب پلوشہ نے گیم کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
نہیں ایک لاسٹ بار پلیز۔۔۔پلیز۔۔۔چاچی آپ فورا ہی مجھے ڈھونڈ نکالتی ہیں اب میں وہ اس طرف چھپوں گا جہاں آپ ڈھونڈ نہیں پائیں گی۔۔۔۔۔حدید نے کچھ فاصلے پر جھاڑیوں کیطرف اشارہ کیا
حدید بیٹااب واپس چلین کافی دیر ہو جائے گی دیکھو اندھیرا ہو رہا ہے۔۔۔
نہیں ہوتا اندھیرابس ایک آخری بار پلیز۔۔۔پلیز۔۔۔پلیز۔۔۔۔وہ اسکا ہاتھ پکڑتا ملتجی ہوا۔
اوکے۔۔۔ دس۔۔ از۔۔ لاسٹ۔۔
اوکے ڈن۔۔۔۔۔وہ پلوہی کے مان جانے پرخوشی سے اچھلا۔
چلو پھر چھپو جلدی سے میں اپنی آنکھیں بند کر رہی ہوں اب۔۔۔۔۔
پلوہی کے کہنے پر وہ اسکو بتائی گئی جگہ کی مخالف سمت بھاگا۔
چند سیکنڈ بعد پلوہی آنکھیں کھولتی اسی طرف گئی جس طرف اس نے اشارہ کیا تھا مگر حدید وہاں نہیں تھا پلوشہ نے قریب قریب سب جگہوں پر دیکھا مگر وہ اس طرف ہوتا تو ملتا۔۔۔اس نے فکرمندی سے اسے آواز دی
حد۔۔۔۔۔حد۔۔ید۔۔۔۔۔
حدید کہاں ہو بیٹا۔۔۔؟؟ میں ہار گئی ہوں تم جہاں بھی ہو آ جاؤ۔۔مگر بے سود۔۔۔۔۔
کیا ہوا پلوہی بی بی۔۔۔؟؟بانو اپنا جوتا لینے گئی تھی جو کھیلتے ہوئے گہرائی میں گر گیا تھا
بانو وہ۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔حدید۔۔۔۔
کیا ہوا حدید بابا کو۔۔۔۔؟؟
پتہ نہیں کہاں چھپ گیا ہے میں اتنی آوازیں دے چکی ہوں مگر کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔۔وہ روہانسی ہوئی
میں دیکھتی ہوں۔۔۔۔بانو کہتی ہوئی آگے کی طرف چل پڑی
پلوشہ نے وہیں کھڑے کھڑے پھر سے کئی آوازیں دیں مگر حدید کا کوئی بھی جواب نہیں آیا۔۔۔۔۔
پھر چند منٹ بعد بانو بھی خالی ہاتھ لوٹ آئی پلوہی بی بی اسطرف تو نہیں ہیں حدید بابا۔۔۔
اوہ میرے مالک اب یہ کیا ہو گیا۔۔۔۔۔وہ فکرمندی سے بولی
بی بی جی حویلی چل کر بتاتے ہیں تاکہ۔۔۔۔۔؟؟
نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔حدید کو لیے بغیر کیسے چلے جائیں تم۔۔۔تم رکو یہاں میں اردگرد پھردیکھتی ہوں۔۔۔
بی بی میں بھی چلوں آپ کے ساتھ۔۔۔۔؟؟
نہیں بانو تم یہیں رکو اگر حدید یہاں آ گیا تو ہمیں نہ پا کر پریشان ہو گا۔۔۔تم ایسا کرنا اگر وہ آ گیا تو مجھے آواز دے دینا
پلوشہ اسے نصیحت کرتی تیز تیز قدم اٹھاتی پھر اسی طرف چلی گئی جس طرف حدید نے اشارہ کیا تھا
وہ اُن جھاڑیوں کو ہٹا ہٹا کر دیکھتی بہت آگے نکل گئی تھی اوپر سے اندھیرا بھی بڑھتا جا رہا تھا
مگر اسے پرواہ کب تھی اس اندھیرے کی وہ تو بس حدید کو تلاش کر لینا چاہتی تھی جسے اپنی ذمہ داری پر ہی وہ ساتھ لائی تھی۔
دل میں آیت الکرسی کا ورد کرتےوہ مزید آگے سے آگےبڑھتی نہجانے کتنی ہی دور آ گئی تھی۔۔۔
مگر حدید پھر بھی نہیں ملا۔۔۔وہ وہیں زمین پر بیٹھ کر سر گھٹنوں پر رکھے اپنی پھولتی ہوئی تیز سانسیں ہموار کرنے لگی ۔
بانو ٹھیک کہہ رہی تھی ہمیں واپس جا کر بتا دینا چاہیے تاکہ وہ لوگ حدید کو ڈھونڈ سکیں کہیں رات۔۔۔۔۔
رات۔۔۔۔!!!! پلوشہ نے لفظ رات پر جھٹکے سے سر اٹھایا۔
رات تو ہو چکی تھی۔۔۔۔ہر طرف گہرا اندھیرا پھیل چکا تھا۔۔پھر پلوہی کی ہارٹ بیٹ بہت تیزی سے مس ہوئی۔
اوہ میرے خدا۔۔۔میں کہاں آ گئی ہوں۔۔۔۔؟؟اس نے کھڑے ہو کر بہت پریشانی سے چاروں طرف دیکھا۔
مم۔۔۔۔۔میں کسطرف سے آئی تھی۔۔۔۔اسے ہر راستہ ایک جیسا ہی لگ رہا تھا۔
چاروں طرف گھنے درخت ، جھاڑیاں اور چھوٹے بڑے پتھر موجود تھے۔
وہ دھڑکن سنبھالتی سامنے کی طرف بھاگی مگر تھوڑا آگے جا کر گہرائی تھی وہ پھر سے واپس پلٹتی اسی جگہ پر چلی آئی جہاں سے بھاگی تھی۔
اسے اپنے پیروں تلے زمین گھومتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔۔
اب۔۔۔اب کس طرف کو۔مین جاؤن۔۔۔؟؟وہ گھبرا کر خود سے کہتی چاروں طرف گھوم کر سیدھی کھڑی ہوئی۔
چند منٹ خاموش رہنے کے بعد وہ التجائیہ نظروں سے آسمان کی طرف دیکھتی دائیں جانب بھاگی کچھ دور جا کہ اسے لگا کہ یہ وہی راستہ ہے جہاں سے وہ آئی تھی۔
اسی بات سے اسکی ہمت بڑھی اور وہ مزید تیز رفتاری سے بھاگنے لگی ۔
پلوہی کے کانوں میں جانوروں کی عجیب و غریب اور بہت خوفناک آوازیں گونج رہیں تھیں۔
میرے مالک رحم کرنا مجھ دکھیاری پر۔۔۔۔وہ با آواز بلند دعا مانگتی سامنے پڑے ایک بڑے پتھر سے زور دار انداز میں ٹکرائی
اس تصادم میں جوتا ٹوٹنے کیساتھ اسکے انگوٹھے کا ناخن بھی اکھڑ چکا تھا۔
وہ تکلیف کی شدت سے پاؤں پکڑ کر فورا ہی زمین پر جا بیٹھی۔
اوئی ماں۔۔۔۔اللہ جی۔۔۔۔۔وہ ہونٹوں پر دانت جمائے تکلیف برداشت کرنے کی کوشش کرنے لگی۔
چند منٹ بعد پلوہی نے اس گھپ اندھیرے میں اپنی پوری آنکھوں کو کھول کر اپنا زخم دیکھنے کی کوشش کی۔
اسکے پاؤں کے انگوٹھے کا آدھا ناخن اکھڑ چکا تھا اور آدھا ہلکا سا ساتھ جڑا لڑھک رہا تھا۔
پلوشہ نے درد کی شدت سہتے ہوئے اس آدھے ناخن کو بھی اکھاڑنا چاہا۔۔۔اس مقصد کے لیے اس نے ہاتھ ناخن کے پاس لے جا کر آنکھیں سختی سے میچ لیں۔
ہونٹ بھینچے وہ ناخن اکھڑنے ہی والی تھی جب اوپر سے کوئی چیز دھم کرتی اس پر آ گری۔۔۔۔۔
آ۔۔آ۔۔آ۔۔آ۔۔آ۔۔آ۔۔۔۔۔پلوشہ کی فلک شگاف چیخ اس ویرانے مین بے ساختہ گونج اُٹھی تھی
_______ ____________
بانو بے چینی سے پلوشہ کی واپسی کا بیصبری سےانتظار کر رہی تھی
مزید کچھ دیر انتظار کے بعد وہ گھبراہٹ سے ہاتھ مسلتی اسی طرف بڑھی جس طرف پلوہی گئی تھی۔۔۔
ابھی وہ جھاڑیوں کے پاس ہی پہنچی تھی جب پیچھے سے حدید کی آواز آئی
بانو۔۔۔بانو۔۔۔۔وہ فاصلے پر کھڑا پکار رہا تھا
بانو اسکی آواز پر خوشی سے واپس پلٹتی اس تک آئی
حدید بابا کہاں تھے آپ۔۔۔۔۔؟؟میں اور پلوشہ بی بی کتنا پریشان تھیں آپ کے لیے۔۔۔۔ہم نے کتناڈھونڈا آپ کو پر آپ نہیں ملے ۔۔۔۔وہ پرجوش سی بولی۔
میں وہاں پتھر کے پیچھے چھپا بیٹھا تھا مجھے چاچی کی آواز آ رہی تھی جب وہ مجھے پکار رہیں تھیں۔۔۔حدید نے فخریہ انداز میں بتایا
تو پھر آپ سامنے کیوں نہیں آئے۔۔۔۔بانو حیرت سے بولی
وہ ہر بار ہی مجھے ڈھونڈ لیتی تھیں میں نے سوچا اس بار مشکل جگہ پر چھپوں گا اور دیکھا وہ خود سے مجھے نہیں ڈھونڈ سکیں۔۔۔۔میں خود ہی آ گیا واپس۔۔۔۔وہ جوش سے اپنی چالاکی بتا رہا تھا
یہ کیا ہو گیا۔۔۔۔اب۔۔۔۔اب پلوشہ بی بی کو کون ڈھونڈے گا۔
چاچی بھی چھپ گئی ہیں کیا۔۔۔؟؟حدید اپنی سمجھ کے مطابق بولا۔
وہ آپ کو ڈھونڈنے گئی تھیں پر اب تک نہیں لوٹیں۔۔۔۔۔بانو فکر مندی سے کہتی بلند آواز میں پلوہی کو پکارنے لگی
پلوہی بی بی۔۔۔۔۔۔۔
پلوشہ بی بی۔۔۔۔۔وہ منہ کے گرد ہاتھوں کا گولا بنا کر پھر سے چلائی
چا۔۔۔چی۔۔۔چا۔۔۔۔چی۔۔۔۔ی۔ی
چاچی۔۔ی۔۔ی۔۔حدید بھی دیکھا دیکھی چلانے لگا۔
کئی بارچلانے کےبعد بھی پلوہی کا کوئی جواب نہ پا کر بانو حدید کاہاتھ تھامتی تیزقدموں سےگبھراہٹ اور پریشانی مین واپس لال حویلی کی طرف چل پڑی۔
۔_________ . . ________
بانو حدید کا ہاتھ پکڑے جب حویلی میں واپس داخل ہوئی تو مؤذن عشاء کی اذان دے رہے تھے۔
وہ تیز تیز قدم بڑھاتی جیسے ہی بڑے کمرے میں آئی تو وہاں موجود افراد کی نظر فورا اس تک پہنچی
چاچو۔۔۔۔۔حدید زریاب کو دیکھ کر بانو سے بازو چھڑواتا اسکی طرف بھاگا
زریاب نے اسے گود میں لیتے ہوئے چٹاچٹ پیار کر ڈالا
زریاب اور بی بی جان شام میں ہی لال حویلی پہنچے تھے۔۔۔
کہاں تھے تم لوگ اتنی دیر کر دی ہم سب پریشان ہو رہے تھے پلوہی کہاں ہے۔۔۔۔؟؟؟ مہرو بانو کی طرف لپکتی ایک ہی سانس میں بولی۔
وہ۔۔۔۔وہ مہرو باجی وہ۔۔۔۔
زریاب بانو کی بوکھلاہٹ پر حدید کو گود سے اتارتا اس تک آیا.۔
کیا وہ وہ لگا رکھی ہے پلوشہ کہاں ہے۔۔۔۔۔؟؟زریاب کی غراہٹ پر بانو بنا رکے ایک ہی سانس میں اے ٹو زیڈ ساری بات بتا گئی۔
سب سے پہلے زریاب کا سکتہ ٹوٹا اور وہ آندھی طوفان بنے وہاں سے نکلا تھا
زریاب۔۔۔۔زریاب۔۔۔۔مہرو پکارتی اسکے پیچھے بھاگی مگر اس کے پہنچنے سے پہلے ہی وہ اپنی جیپ جارحانہ انداز میں ریورس کر چکا تھا۔
مہرو تم اندر چلی جاؤ۔
پلوہی مل جائے گی ان شا اللہ۔۔۔۔ بس یہیں کہیں قریب ہی ہو گی وہ ہم سب دیکھ لیتے ہین ۔۔۔۔زبیر خان (مہرو کا بڑا بھائی ) نے اسکے سر پر تسلی کے انداز میں ہاتھ رکھا۔
جی لالہ۔۔۔۔وہ پریشان سی سر ہلاتی اندر چلی گئی
زبیر خان نے زیاد خان (چھوٹا بھائی) اور کچھ ملازموں کو زور سے بلا کر پھر سب کو ہی ساری بات سمجھائی۔
جسے سمجھتے ہوئے سب سر ہلاتے ایک ساتھ آگے پیچھے اپنی اپنی جیپوں کی طرف بڑھ گئے پلوہی کو ڈھونڈنے کے لیے۔۔۔
زریاب بانو کی بتائی گئی جگہ پر پہنچ چکا تھا جیپ وہ کافی پیچھے چھوڑ آیا تھا کیونکہ درختوں کے جھرمٹ میں جیپ کو مزید آگے لے کر جانا ممکن نہ تھا
پلوہی۔۔۔۔پلوہی۔۔۔۔۔
زریاب نے چاروں طرف نظرین دوڑا کرپوری طاقت لگاتے ہوئے بلند آواز میں کئی بار پلوشہ کو پکارا ۔
مگر واپسی مین کوئی بھی جواب نہ پاکر وہ موبائل ٹارچ کی روشنی میں دائیں جانب بھاگا۔
کیونکہ بانو کے مطابق پلوہی اسی طرف گئی تھی
وہ دیوانوں کی طرح پلوہی۔۔۔۔پلوہی۔۔۔پلوشہ پکارتا آگے سے آگے بڑھتا جا رہا تھا
___________________
پلوہی کے اوپر جب درخت سے وہ سانپ،چھپکلی یا جو کچھ بھی گرا تھا گرنے کےساتھ ہی نیچے لڑھک کر ادھر أدھر رینگ گیا تھا ۔
مگر اب پلوہی کے سارےوجود پر مارے خوف کے کپکپی طاری ہو گئی تھی۔
میرے مالک مجھے اس مصیبت سے نکال دے۔۔۔میں اس جنگل میں موجود ان جانوروں کی خوراک بن کر مرنا نہیں چاہتی پلیز میری مدد فرما۔۔۔۔اس نے اپنے رب سے فریاد کرتے ہوئے کھسک کر درخت سے ٹیک لگائی اور اول آخر درود پاک اور سات بار آیت الکرسی کا ورد کر کے پھونک سے اپنے گرد حصار باندھا۔
اپنے آنسوؤں کو اچھی طرح آستین سے رگڑ کر پلوہی نے پھر سے پاؤں کے ناخن کو اکھیڑنے کی ہمت مجتمع کی ۔
آنکھیں بند کر کے اس نے اللہ کا نام لیا اور پھر جھٹکے سے آدھا اکھڑا ناخن کھینچ لیا۔
تکلیف کی اٹھتی ٹیسوں کو برداشت نہ کرتے ہوئے پلوہی نے ایک دردناک چیخ ماری
نسوانی چیخ پر زریاب اپنی دوڑ کو بریک لگاتا رک کر پلوشہ کی آئی آواز کی سمت کا تعین کرنے لگا۔
_______________________
مہرو بچے بیٹھ جاؤ تھک جاؤ گی۔۔۔۔۔۔بی بی جان نے مہرو کو بے چینی سےادھر اُدھر ٹہلتے دیکھ کر کہا
بی بی جان پلوشہ ناجانے کس حال میں ہوگی۔۔۔۔وہ روہانسی ہوئی
ارےےےے ۔
بیٹا وہ مل جائے گی ان شا اللہ۔۔تم ایئسے پریشان مت ہو۔۔۔۔انہوں نے تسلی دی۔
بی بی آپ کو پتہ ہے نا ہمارے علاقے میں رات کو پہاڑی گیڈر اور آوارہ کتے کتنی کثرت سے باہر نکل آتے ہیں مجھے تو سوچ سوچ کر ہی وحشت ہو رہی ہے بی بی جان۔۔۔۔۔
تم ایئسے پریشان مت ہو اللہ اسے اپنے حفظ و ایمان میں رکھے۔۔۔۔بی بی جان نے ٹہرے ہوئے لہجے میں پلوہی کو اللہ کے سپرد کیا۔
آمین۔۔۔۔۔مہرو نے دل سے آمین کہہ کر صوفے کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں
____________________
پلوشہ کو اپنے قریب ہی کہیں زریاب خان کی پکار سنائی دی
زریاب۔۔۔۔زریاب۔خان کہاں ہیں آپ۔۔۔۔۔وہ درد کی پرواہ کیے بغیر درخت کے سہارے کھڑی ہوئی۔
پلوہی ۔۔۔پلوہی۔۔۔۔۔پھر سے آواز آئی
خان کہاں ہیں آپ۔۔۔مم ۔۔۔میں۔۔۔۔۔میں ادھر۔۔ یہاں ہوں زریاب۔۔خان۔۔۔وہ بھی زور سے چلائی
بلآخر زریاب اس تک پہنچنے میں کامیاب ہو ہی گیا
پلوہی کو اپنے سامنے زندہ و سلامت دیکھ کر زریاب کو اپنے وجود میں ایک عجب سا ہی سکون سرائیت کرتا محسوس ہوا۔
دوسری طرف پلوہی نے اس تک پہنچنے کے چکر میں پاؤں اٹھایا مگر درد کی وجہ سے وہ ایک قدم بھی چل نہیں پائی اور لڑکھڑا کر گرپڑی۔
زریاب نہایت جلدی اور عجلت سے درمیانی فاصلہ عبور کرتا اس تک پہنچا۔
تم ٹھیک تو ہو نا پلوہی۔۔۔۔۔وہ اسے سیدھا کرتا بے قراری سے بولا۔
پلوہی تو ابھی تک شاک میں تھی کہ زریاب واقعی اس کے پاس آ چکا ہے۔۔۔اوپر والے نے اسکی فریاد سن لی ہے۔۔۔
وہ دونوں یک ٹک بنا پلک جھپکائے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔مدھم روشنی ، رات کا سناٹا ، کھلا آسمان ہلکی ہلکی سرد ہوا سب مل کر ان کے آس پاس ایک پرفسوں سا منظر پیش کر رہے تھے
پھر پلوہی نے ٹرانس کی کیفیت میں اپنے امڈتے ہوئے شک کو یقین میں بدلنے کے لیے ہاتھ بڑھا کر زریاب کے چہرے کو چھوا۔
زریاب بھی اس کے لمس کو محسوس کرتے ہی بے اختیار ہو اٹھا۔اور وہ بھی بیقراری سے چھونے لگا۔
پلوہی کے ہاتھوں کو ۔۔ساتھ اسکی من موہنی صورت کے پرکشش ایک ایک نقش کو عجیب دیوانوں سی حالت کے مانند ٹچ کر رہا تھا زریاب خان اسے۔۔۔۔۔۔جو اسکی پہلی اور آخری محبت تھی۔۔۔۔جو اسکی بیوی تھی۔
پلوشہ زریاب خان کے یقین کرنے کے اس عملی تصادم کے مظاہرے پر کسمسا کر پیچھے ہٹی ۔تو
زریاب نے ہوش میں آتے ہوئے اپنے عمل پر نظریں چرا کر سر جھکا دیا۔
دونوں کے بیچ فسوں خیز سی جامد گہری خاموشی چھا گئی۔
چند منٹ بعد اس بولتی ہوئی خاموشی کو زریاب نے توڑنے میں پہل کی۔
تم۔۔۔۔تم ٹھیک ہونا پلوہی۔۔۔۔۔؟؟
خان گھر چلیں پلیز۔۔۔۔وہ مدھم آواز میں بولی
ہوں۔۔۔۔ہاں چلو۔۔۔۔زریاب سر جھٹکتا کھڑا ہوا
پلوشہ کوشش کے باوجود بھی کھڑی نہ ہو پائی۔
کیا ہوا۔۔۔۔۔۔؟؟؟زریاب اس کے چہرے پر کرب کے تاثرات دیکھ کر فکرمندی سے اسکے سامنے گھٹنوں کہ بل بیٹھا۔
پلوہی پاؤں پکڑے درد برداشت کر رہی تھی۔۔۔
زریاب نے موبائل کی روشنی ڈالتے ہوئے تکلیف کی وجہ جاننے کی کوشش کی
یہ۔۔۔۔یہ کیسے ہوا۔۔۔۔؟؟وہ خون سے بھرا پاؤں دیکھ کر فکرمند ہوا
پلوشہ سر جھکائے خاموش رہی وہ زریاب کی کسی بھی بات کا جواب نہیں دے رہی تھی بلکہ یوں خاموش تھی جیسے نہ بولنے کی قسم کھا لی ہو۔۔۔
زریاب نے اسکا جواب نہ پا کر جیب سے رومال نکال کر اسکے انگوٹھے پر باندھنے کے لیے ہاتھ بڑھایا
سسی۔۔ی۔۔ی۔۔ی۔۔ی۔۔۔۔پلوہی نے اسکا ہاتھ جھٹک دیا
پلوشہ دیکھو ابھی بھی خون نکل رہا ہے۔مجھےاس پر رومال باندھنے دو۔۔۔
نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔وہ گھبراتی ہوئی مزید پیچھے ہوئی
کم آن یار۔۔۔کچھ نہیں ہو گا
نہیں۔۔۔نہیں بہت پین ہو رہا ہے پلیز ہاتھ مت لگائیں
نہیں ہو گا پین آئی پرامس۔۔۔۔زریاب نے مزید کچھ سنے بنا اسکا پاؤں سیدھا کر کے انگوٹھے پر رومال باندھ دیا
اہ ۔۔سی۔۔۔سی۔۔۔
پلوہی نے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی چیخ دبائی
چلیں اب۔۔۔۔۔زریاب نے رومال باندھ کر اسکی طرف دیکھتے ہوئے رضامندی لی
ہوں۔۔۔۔۔پلوہی کے ہاں میں سر ہلانے پر زریاب نے جھک کر اسے قیمتی متاع کی طرح احتیاط سے بازؤں میں سمیٹ کر سینے سے لگایا اور واپسی کے لیے چل پڑا
_______________________
وہ پلوہی کو لے کر حویلی کے رہائشی حصے کیطرف آیا
پلوہی۔۔۔پلوشہ۔۔مہرو تیزی سے انکی طرف آئی
یہ۔۔۔۔یہ کیا ہوا ہے پاؤں پر یہ چوٹ کیسے آئی۔۔؟؟وہ پریشانی سے بولی
مہرو کی آواز سنتے ہی حویلی میں موجود سب لوگ کونوں کھردروں سے وہاں آ کر کھڑے ہو گئے شادی والا گھر تھا بہت سے مہمان تھے جو اس وقت گولائی میں پلوہی اور زریاب کے گرد گھیرا ڈالے کھڑے تھے۔۔۔عجیب سا فلمی سین کری ایٹ ہو گیا تھا جہاں ہیرو اپنی ہیروئین کو بانہوں میں لیے سب کے بیچوں بیچ آن کھڑا ہوتا ہے۔
پلوہی سچویشن دیکھتے ہوئے شرمندگی سے زریاب خان کو کمرے میں لے جانے کا کہہ رہی تھی۔
اور زریاب وہ تو جیسے کان بند کیے کھڑا مہرو اور وہاں موجود دیگر بزرگ خواتین کے سوالات کے جوب دے رہا تھا کہ پلوشہ کہاں سے۔۔؟؟۔۔
اور کیسے ملی؟؟۔۔اسےچوٹ کیسے آئی۔۔؟؟
وغیرہ۔
مہرو نے پلوہی کی شکل پر رقم بے بسی کے تاثرات دیکھ کر زریاب کو بلند آواز میں پلوہی کو کمرے میں لے جانے کا کہا
زریاب سر ہلاتا اسے لیے کمرے کی جانب چلا گیا جہاں پلوشہ ٹہری ہوئی تھی۔
کمرے میں آ کر زریاب خان نے بہت احتیاط سے اسے بیڈ پر بیٹھایا
پلوہی تم کو پین تو نہیں ہو رہا اب۔۔۔۔۔۔؟؟فکر مندی سے پوچھا گیا
پلوشہ نے بنا کچھ بھی جواب دیے رخ بدل کر آنکھیں بند کر لیں۔۔۔
مجھے تم سے محبت ہے۔۔۔
ہان تم سے ہی تو محبت ہے!!۔۔
محبت بھی ستارون سے۔۔۔
گلون سی أبشارون سی۔۔
صبح دم۔نکلتی پھولوں سی۔۔
کناروں سے گلے ملتی لہروں سی٬
آسمان پہ بکھرے دھنک کے رنگوں سی،
کسی دلہن کے جوڑے پر سجے جھلمل نگینوں سی،
کسی نازک حنائی کلائی میں چھنکتی چوڑیوں سی۔۔
کناروں سے ٹکراتی سمندر کی موجون تیز لہروں سی,۔
بہار کی دلنشین رم جھم برستی بارش سی۔
پھر آسمان پہ بکھرے دھنک ست رنگوں سی۔
کسی دلہن کے جوڑے پر سجے جھلمل نگینوں سی ۔
کسی نازک کلائی میں چھٹکتی چوڑیوں سی ،۔
مجھے تم سے محبت ہے۔
ہان تجھ سے ہی تو محبت ہے۔
زریاب کچھ دیر بیڈ کے پاس کھڑا اداس نظروں سے اپنی دید کی پیاس بھجاتا رہا اور پھر کمرے سے نکل گیا
_______________________
کچھ دیر بعد زبیر خان ، زریاب اور مہرو سبھی ڈاکٹر کے ساتھ ہی پلوہی کے کمرے میں داخل ہوئے۔
ڈاکٹر نے زخم کا معائنہ کرنے کے بعد بینڈیج کی اور پین کلر دے کر چلا گیا
زریاب یہ ہلدی ملا دودھ ہےتم اپنی نگرانی میں پلوہی کو پلا دو ورنہ دودھ پینے کے معاملے یہ بہت چور ہے میں تب تک مہمانوں کے کھانے کا انتظام وغیرہ دیکھ لوں جا کر۔۔۔۔مہرو نے دودھ کا گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔
جی بھابھی۔۔۔۔زریاب نے سائیڈ ٹیبل سے دودھ کا گلاس اٹھایا اور بیڈ پر پلوشہ کیساتھ ہی جا کر بیٹھ گیا۔۔۔
زریاب کے اتنا پاس بیٹھنے پر پلوہی کےچہرے پرابھرتی ہوئی ناگواری کو دیکھ کر بغیر کچھ کہے مہرو مسکراہٹ دباتی باہر نکل گئی۔
اب کمرے میں صرف وہ دونوں ہی تھے اور ساتھ گہری جامد خاموشی۔۔۔۔
پلوہی۔۔۔ پی لو یہ۔۔۔۔۔زریاب نے گلاس اسکے منہ کے پاس لے جا کر کہا
پی لوں گی مین رکھ دیں آپ اسے۔۔۔۔وہ بہت بے زاری سے ہی بولی۔
بھابھی کہہ کرگئیں ہیں کہ میں تمہین خود پلاؤں۔۔۔۔
میرے ہاتھ سلامت ہیں میں پی سکتی ہوں خود سے۔۔۔۔۔
مگر میں اپنے بڑوں کا کہا نہیں ٹالتا اس لیے پیو اسے۔۔۔۔زریاب نے سیریس ہوتے ہوئے گلاس اسکے ہونٹوں سے لگایا
پلوہی نے ہاتھ کی پشت سے گلاس کو پیچھے جھٹکا جس سے آدھا دودھ نیچے اور آدھا زریاب کے کپڑوں پر جا گرا
واٹس رونگ۔۔۔۔۔؟؟اسکی تیوری چڑھی
رونگ میں نہیں رونگ آپ کر رہے ہیں اپنے مزاج سے خان جی۔۔۔۔۔۔۔
پیو اسے۔۔۔۔۔وہ بھی زریاب تھا اڑیل گھوڑا کیطرح بضد۔۔۔
نہیں پیؤں گی۔۔۔۔وہ بھی ضدی ہوئی
انف از انف پیو یہ جو بچا ہے ورنہ الٹے ہاتھ کا تھپڑ دوں گا۔۔۔۔زیادہ دیر کول رہنا زریاب کی عادت نہ تھی۔
مار لیں تھپڑ۔ آخر کئی دن جو ہو گئے نہ مارے ہوئے اس لیے دل چاہ رہا ہو گا۔۔۔۔ویسے بھی میرا سکون آپ سے برداشت ہی کب ہوتا ہے۔۔۔
میرا ضبط مت آزماؤ پلوشہ۔۔۔۔۔
مت کریں ضبط۔۔۔۔کریں جو کرنا ہے۔۔۔۔وہ گالوں پر پھسلتے آنسو پونچھتی بولی۔
اب کیا کر دیا میں نے جو یون برسات شروع کر دی۔۔۔زریاب اسکے آنسو دیکھ کر چڑا۔
مگر پلوہی نے بنا کوئی جواب دیے اپنی برسات کو جاری رکھا۔۔۔۔۔
اچھا چلو اب بند بھی کر دو رونا۔۔۔۔۔زریاب نے اپنے ایک ہاتھ سے اسکے دونوں ہاتھ ہٹا کر دوسرے ہاتھ سے اسکے آنسو پونچھے اور آگے کو جھک کر ماتھے پر بوسہ دیا۔
یہ تو آدھا گر گیا ہے میں نیا لاتا ہوں۔۔۔۔زریاب دودھ کے آدھے گلاس کو دیکھ کر کہتا باہر نکل گیا
پلوہی تو اسکی ہمت وجُرات پر ششدر تھی یہ۔۔۔یہ کیا کر رہا ہے آج۔۔۔۔۔؟؟؟
اونہہ۔۔۔زبردستی تسلط جمانا چاہ رہے ہیں۔۔۔جب دل چاہا تو سینے سے لگا لیا جب چاہا پرے دھکیل دیا۔۔۔۔وہ کڑھتی ہوئی بڑبڑائی
پانچ منٹ میں زریاب دودھ کا بھرا گلاس لیے پھر سے حاضر تھا۔
یہ پکڑو۔۔۔۔پی لو گی یا میں پلاؤں پھر۔۔۔۔۔؟؟؟
پلوہی نے بہت غصے سے اس کو دیکھتے ہوئے گلاس پکڑ کر ایک ہی سانس میں مکمل خالی کر دیا۔
گڈ۔۔۔۔اب لیٹ کر آرام کرو
زریاب نے اسکے پیچھے تکیہ ٹھیک کیا اور اسے پکڑ کر زبردستی لٹا کر کمبل اوڑھا اور خود چینج کرنے واش روم چل دیا
پلوہی نے آنکھیں بند کیں اور دل کھول کر زریاب کو کوسنے لگی جو زبردستی کمبل ہوا جا رہا تھا۔
______________________
رات کا نہجانے کونسا پہر تھا جب بھوک کی وجہ سے پلوہی کی آنکھ کھلی
اس نے ترچھا سا اٹھ کر سائیڈ لیمپ آن کیا اوربیڈ کی دوسری سائیڈ پر سوئے زریاب پر ایک سرسری نظر ڈالی
اب کیا کروں۔۔۔۔؟؟ صبح ناشتہ کیا تھا اور دوپہر میں بھی تو کچھ نہیں کھایا، رات کو بھی بس صرف دودھ کا گلاس پیا تھا۔۔۔۔یہ سوچ کر اس کی بھوک مزید چمک اٹھی
اب خودہی کچن تک چلی جاتی ہوں۔۔۔۔وہ اٹھنے لگی تھی کہ رک گئی
اگر کسی نے دیکھ لیا تو کیا سوچے گا میں اتنی بھوکی ہوں کہ آدھی رات کو کچن میں کھا پی رہی ہوں۔۔۔۔
ہون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو پھر کیا کروں۔۔۔۔۔۔؟؟؟وہ روہانسی ہوئی
جس نے جو سوچنا ہے سوچے مجھے کیا۔۔؟؟وہ پیٹ میں دوڑرتے چوہوں سے مزید نہ لڑ سکی ۔۔۔
اس نے پھر سے مزے سے سوئے زریاب پر نظر ڈالی۔
ان کو کہ دیتی ہون۔۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اپنی سوچ کو وہ خود جھٹکتی ہوئی کچن تک جانے کا فیصلہ کر کے اٹھی، کمبل ہٹایا اور ٹانگ کو پکڑ کر نیچے رکھا بیڈ کورز کو جکڑ کر اٹھنے کی کوشش کی مگر پاؤں میں اٹھتی ٹیسوں کی وجہ سے کامیاب نہ ہو پائی۔
کچھ دیر بعد پھر کوشش کی مگر سی۔۔۔ی۔۔۔ی۔۔ی کرتی ہوئی پھر سے بیٹھی رہ گئی
کیا ہوا۔۔۔۔۔؟؟؟زریاب نے خمار آلود آنکھوں کو رگڑتے ہوئے پوچھا
وہ روشنی کی وجہ سے جاگا تھا۔۔۔۔اسے کمرے میں مکمل اندھیرا کر کے سونے کی عادت تھی حتی کہ زیرو پاور بلب کی روشنی بھی نہیں۔۔۔۔
وہ ۔۔۔وہ . مجھ کو بھوک لگی ہے۔۔۔۔۔پلوہی اسے دیکھے بنا منمنائی۔
تو مجھے جگا دیتی۔۔۔روکو میں بھابھی کو کہتا ہوں۔۔۔۔زریاب نے سیل اٹھایا
نہیں آپ بھابھی کو کیوں تنگ کریں گے اس وقت۔۔۔۔میں خود ہی چلی جاؤں گی کچن تک ہی تو جانا ہے۔۔۔۔
اوکے۔۔۔۔۔زریاب جانتا تھا وہ پاؤں میں درد کی وجہ سے چل نہیں پائے گی مگر اسکے کہنے پر جان بوجھ کر اوکے کہتا خاموش ہو گیا۔
پلوہی نے دو چار منٹ تک ویٹ کیا کہ زریاب پھر سے روک دے گا مگر وہ چپ ہی رہا۔۔۔
وہ اسے کوستی ہوئی بیڈ کو مضبوطی سے تھامے بمشکل کھڑی ہوئی
پاؤں کو گھسیٹتی ایک قدم آگے بڑھی مگر پاؤن کا پین ناقابل برداشت تھا۔
وہ پھر سے واپس بیڈ پر جا بیٹھی۔۔۔۔
کیوں جانا نہیں ہے کیا کچن تک۔۔۔۔؟؟؟استہزائیہ پوچھا گیا۔
آپ خاموش رہیں جب کچھ کر نہیں سکتے تو پھر منہ بھی بند رکھیں اپنا۔۔۔۔
میں پیار میں بھی بد تمیزی کا قائل نہیں ہوں اس لیے سوچ سمجھ کر بولا کرو۔۔۔
تو کون مانگ رہا ہے آپ سے پیار۔۔۔۔۔؟؟وہ اسکی بات پر سیخ پا ہوتی پیچھے کو مڑی
ضروری نہیں کہ ہر چیز مانگی جائے بعض اوقات بنا مانگے ہی وہ سب مل جاتا ہے جو انسان چاہتا ہے۔۔۔۔وہ رسان سے بولا
مگر میں ایسا کچھ نہیں چاہتی تھی۔۔۔
میں تو چاہتا ہوں ناں پھر تمہارے چاہنے نا چاہنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔۔؟؟زریاب کندھے اچھکا کر کہتا اٹھ بیٹھا
ہاں۔۔۔ہاں آپ مرد جو ہیں جب جو چاہیں گے زبردستی حاصل کر لیں گے۔۔۔
بلکل۔۔۔۔۔وہ اسے چڑانے کے انداز میں مسکرایا
اونہہ مطلب پرست۔۔۔۔پلوہی نے سر جھٹک کر منہ پھیر لیا
اب بھوک نہیں کیا۔۔۔۔؟؟زریاب نے اسے لیٹتے دیکھ کر پھر سے پوچھا
نہیں۔۔۔۔۔لٹھ مار جواب آیا
فائن۔۔تو پھر۔۔لیمپ آف کرو اور دوبارہ مت جلانا سمجھی۔۔۔۔۔
پلوہی نے خاموشی سے لیمپ آف کیا اور پیٹ میں اچھل کود مچاتے چوہوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے زبردستی آنکھیں بند کر لیں۔۔
__________________
پلوشہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اٹھو۔۔وو۔۔۔زریاب نے اسکا کمبل ہٹا کر کہا
مجھے نہیں کھانا ہےاب۔۔۔۔۔۔وہ نروٹھی سی بولی
زریاب اسکے لیٹنے کے بعد اٹھ کر کمرے سے نکل گیا تھا اور اب وہ کھانے کی ٹرے لیے اسکے سرہانے کھڑا تھا
تم سے پوچھا نہیں میں نے کھانا ہے یا نہیں۔۔۔۔زریاب نے اسکے بازو کو پکڑ کر زبردستی اٹھایا اور بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھا دیا
کھاؤ گی یا میں کھلاؤں۔۔۔۔؟؟؟تیوری چڑھا کر پوچھا۔
مجھے بھوک نہین ہےمین۔۔۔۔۔۔
وہ اسکی بات پوری ہونے سے پہلے خود سامنے بیٹھا اور چمچ میں چاول بھر کر اسکے منہ کی طرف بڑھایا۔
پلوہی نے بھی ضدی انداز میں ہونٹوں کو آپس میں مضبوطی سے بھینچ لیا
ٹیک اٹ۔۔۔۔۔
پلوشہ آئی سیڈ ٹیک اٹ۔۔۔۔وہ پھر سے بولا
پلوہی منہ بند کیے اسے دیکھتی رہی۔۔۔
اگر ان نینوں سے قتل کرنے کا ارادہ ہے تو محترمہ یہ کام آپ کچھ سال پہلے کر چکی ہیں۔۔۔۔زریاب نے اسے مسلسل اپنی طرف دیکھتے پا کر چھیڑا اور پھر جھک کر ان خفا خفا نینوں پر محبت کی پہلی مہر ثبت کر دی۔۔۔
آپ۔۔۔۔آپ بہت برے ہیں زریاب خان آفریدی۔۔۔۔آپ سے تو برا انسان میں نےآج تک کبھی نہیں دیکھا۔۔۔۔وہ منہ ہاتھوں میں دئیے رونے لگی۔
میں واقعی بہت برا ہوں اور مجھے مجبور مت کرو کہ میں پھر سے کچھ برا کروں۔۔۔زریاب نے مسکراہٹ دباتے ہوئے اسکے ہاتھ ہٹائے
کیا ہے آپ کو۔۔۔۔۔؟؟وہ چڑچڑی ہو رہی تھی زریاب کی حرکات پر۔۔۔۔
اچھا کچھ دیر کے لیے لڑائی روکتے ہیں تم کھانا کھا لو پھر یہیں سے کانٹی نیو کریں گے رائٹ۔۔۔۔۔وہ اسکا سر تھپتھپا کر کہتا سیگرٹ اور لائٹر اٹھا کر باہر نکل گیا۔۔۔۔جانتا تھا کہ پلوہی اسکی موجودگی میں کبھی نہیں کھائے گی۔
اس کے جانے کے بعد پلوشہ نے کچھ دیر مزید رو کر آنسو رگڑے اور چمچ اٹھا کر اپنا فیورٹ مٹن پلاؤ کھانے لگی۔
پھر وہ چند منٹ کی دیر میں ہی پوری پلیٹ چٹم کر چکی تھی۔۔۔
جاری ہے۔۔