قفس کی چڑیا۔۔
خان۔۔۔۔۔۔۔پلوشہ نے اسکے بازو پر سر رکھ کر پکارا .۔
ہوں۔۔۔۔زریاب نے اسکی طرف کروٹ لی۔
وہ آپ نے کبڈ کے تھرڈ۔۔ ڈراڑ میں میرے لیے کیا خرید کر رکھا تھا جسے پہننے کا کہہ رہے تھے اس روز۔۔مجھے۔۔
کیاتم نے دیکھا نہیں۔۔اسے۔۔؟؟زریاب حیران ہوا۔
نہیں جس روز دیکھنا تھا اس روز ایمرجنسی مین مجھے گھر جانا پڑ گیا۔۔۔۔۔وہ اس دن کو یاد کر کےافسردہ ہوئی۔
تو اب دیکھ لو۔بلکہ چلو پہن کر بھی دیکھا دو مجھے۔۔۔۔۔۔
اب۔۔۔۔۔؟؟
ہاں نا ابھی۔۔۔۔
مگر ہے کیا اس مین۔۔۔۔؟؟
خود دیکھ لو جا کر۔۔۔۔زریاب نے اسے اٹھایا۔
پلوشہ نے جا کر کبڈ کھولی اور وہاں پر موجود اتنے بڑے ڈبے میں موجود میرون اورگولڈن برائیڈل ڈریس دیکھ کر فورا پلٹ کر واپس چلی آئی۔
خان جی وہاں پر تو برائیڈل ڈریس پڑا ہے۔۔۔۔؟؟وہ حیرانگی سے بولی۔
ہاں تو۔۔۔۔زریاب نے مسکراتے ہوئے سیگرٹ سلگائی۔
وہ پہنوں۔۔۔۔؟؟؟
ہاں جلدی سے پہن کر آؤ۔۔۔۔
میں نہیں پہنوں گی۔۔اسے۔۔۔پلوہی بلش کرتی شرمائی۔
زریاب خان اسے شرماتے دیکھ کر پاس کھینچا چلا آیا۔
کم آن یار۔۔۔جلدی سے پہن کر آؤ میں تمہارا ویٹ کر رہا ہوں۔اب جاؤ بھی ہری اپ۔۔۔۔۔۔زریاب اسے پکڑ کر ڈریسنگ روم لایا اور اسے اندر چھوڑ کر خود باہر نکل گیا۔
پلوشہ پھر چاروناچار وہ بھاری بھر کم ڈریس کو پہن کر کچھ۔دیر کےبعد جھجھکتی شرماتی باہر چلی ہی آئی۔
زریاب خان نے دروازہ کھلنے پر پلٹ کر دیکھا پلوشہ کو دیکھا تو پھر دیکھتا ہی رہ گیا۔۔۔
وہ بنا کسی بناؤ سنگھار کے اتنی حسین لگ رہی تھی اگر ذرا سج سنور جاتی تو پھر کیا ہوتا۔۔۔۔۔؟؟
بہت بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔۔جاناں۔۔اس نے پلوشہ کے پاس آ کر سرگوشی کی۔
جس سےپلوہی شرماتی ہوئی مزید سمٹ گئی۔
زریاب نے اسے کندھوں سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا۔
یو۔۔آر لوکنگ ویری نائیس۔۔۔۔۔آؤ۔۔۔۔نا میرے ساتھ وہ اسکا ہاتھ پکڑتا ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے لایا۔
پلوشہ نے آئینے میں نظر آتے اپنے دلفریب عکس کو دیکھ کر نظریں جھکا دیں۔
زریاب اسے شرماتے دیکھ کر مسکرایا۔
تم ذرا ادھر ہی رکو میں آتا ہوں ابھی۔۔۔۔وہ اسے وہیں چھوڑ کر خود تیزی کے ساتھ ڈریسنگ روم مین چلا گیا۔
چند منٹ بعد وہ ایک مخملی ڈبہ لیے واپس آیا۔۔۔۔زریاب نے ڈبہ کھول کر نیکلس باہر نکالا اور پلوہی کے پیچھے کھڑے ہو کربہت محبت وپیاراور احتیاط سے نیکلس اسکے گلے میں پہنا دیا۔
پلوہی جاناں یہ تمہارے لیے میں نے تب خریدا تھا جب تم مجھے پہلی بار جھیل پر ملی تھی ۔
تم جانتی ہو پلوشہ تم ،، تمہاری باتیں ،، تمہاری آنکھیں ان سب نے مل کر مجھے پہلی ملاقات میں لوٹ لیا تھا تب۔۔۔۔وہ ہلکا سا مسکرایا۔
مجھے سمجھ مین نہیں آ رہا۔کہ مین کونسے الفاظ میں اب تمہاری تعریف کروں۔۔۔
زریاب اسے ساتھ لیے کمرے کے بیچوں بیچ آیا۔۔۔پلوہی جانو تم مجھے دل سے معاف کر چکی ہو ناں۔۔۔۔؟؟؟
جی۔۔۔۔۔پلوشہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
پلوشہ کو ایک کتاب میں پڑھی ہوئی یہ بات یاد تھی کہ آپ "زندگی میں کبھی اس انسان کو مت کھونا جو غصہ کر کے بھی پھر خود تمہارے پاس آ جائے"اس لیےوہ سب کچھ بھلا کر زریاب کو دل سے معاف کر چکی تھی۔
تھینکس آ لوٹ فار دس۔۔۔تم جانتی ہو پلوہی تم بہت عظیم ہو۔۔۔تم نے ناحق اتنے مظالم مجھ سے سہے۔۔۔۔میں۔۔۔۔میں بہت شرمندہ ہوں مگر اب وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں بےپناہ۔۔ پیار دوں گا۔۔۔اپنی ساری زیادتیوں کا ازالہ کر دوں گا٬٬
پلوشہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔۔
میں نے تمہیں بہت رلایا ہے پلوہی۔۔۔مگر اب نہیں۔۔۔۔اب صرف محبتیں،، پیار چاہت اور مسکراہٹیں ہوں گی۔۔۔بس!وہ مسکرایا
ساتھ دو گی ناں میرا۔۔۔۔؟؟پریقین لہجے میںاس سے سوال ہوا۔
جی۔۔۔۔۔پلوہی نے اثبات میں سر ہلا کر اس کو ساتھ دینے کا یقین دلایا۔
تو پھر ایک بات مانو گی میری۔۔۔۔؟؟پیار سے پوچھا گیا۔
جی۔۔۔۔پلوہی نے پھر سے سر ہلایا۔
تو پھر کہو۔۔۔۔۔
کیا۔۔۔؟؟؟
آئی لو یو۔۔۔۔۔ زریاب مسکراہٹ دبا کر بولا
نہین۔۔۔۔۔
بات تو ماننا ہو گی اب تم حامی بھر چکی ہو۔۔۔زریاب نے اسے نفی میں سر ہلاتے دیکھ کر قریب کیا ۔
چلو کہو جلدی سے یار ٹائم ویسٹ ہو رہا۔۔۔۔وہ کلاک کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔
میں نہیں کہوں گی۔۔۔۔پلوشہ ہچکچاتی پیچھے ہوئی۔۔
کیوں نہیں کہو گی جلدی کہو ورنہ۔۔۔
اچھااااکہتی ہوں نا۔۔۔۔زریاب کے تیوروں پر وہ مصنوعی ڈر کر بولی۔مگر۔۔۔
پہلے ہاتھ ہٹائیں۔۔۔زریاب نے اسے کندھوں سے تھام رکھا تھا
تم کہوگی تو پھرہی ہاتھ ہٹاؤں گا۔۔۔
زه ستا سره مینه لرم (آئی لو یو)۔۔۔۔پلوشہ جلدی سے بولی۔
زریاب نے اسکے پشتو میں کہنے پر ہنستے ہوئے اسے ساتھ لگا لیا ۔
اب ہم اپنی اس گولڈن ویڈنگ نائٹ کو آج دونون مل کر ایک ساتھ سلبریٹ کرینگے۔
زریاب نے اسکے کانوں پر ہونٹ رکھ کر سر گوشی میں کہا۔
اسکی بات پر پلوہی نے بلش کرتے ہوئے مطمعن ہو کر مکمل محبت وچاہت سے رضامند ہو کر زریاب کے کندھے سے اپنا سر ٹکا دیا۔
زریاب نے پلوشہ کی رضامندی پر پرسکون ہوتے ہوئے اس کے گرد اپنی بانہوں کا مضبوط حصار باندھ دیا۔
بے شک ایک لمبے اور تکلیف دہ انتظار کے بعد پلوہی کو اسکے صبر کا پھل مل ہی گیا تھا
_______ __________
کہاں تھے آپ۔۔۔۔؟؟پوری دس کالز کی میں نے سیل کدھر تھا آپکا۔۔۔۔۔؟؟؟پلوہی نے زریاب کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر چھوٹتے ہی پوچھا۔
ارے یار نہ کوئی سلام نہ دعا سیدھا ہی کلاس لینی شروع کر دی۔۔۔۔
اسلام علیکم۔۔۔پلوشہ نے غلطی مان کر جھٹ سلام کیا۔
ہوں۔۔۔۔۔۔زریاب نے سر ہلا کر جواب دیا ۔۔
ہاں اب بتاؤ کیوں کیں مجھے دس کالز۔۔۔۔؟؟زریاب صوفے پر بیٹھ کر شوز اتارنے لگا۔
آپ کو یاد نہیں کیا۔۔۔۔۔؟؟وہ حیران ہوئی
ارے بھئی یاد ہوتا تو پھر تم سے پوچھتا کیوں۔۔۔۔؟؟
مطلب آپکو واقعی یاد نہیں کہ آج ہم نے۔۔۔۔
آج ہم کہیں نہیں جا رہے۔۔۔۔زریاب اسکی بات کو فورا ہی اچکتا ہوا ڈریسنگ روم میں جا گھسا۔
مطلب یاد ہے آپ کو پھر بھی اتنی دیر کر دی۔۔۔اور ہمیں جانا ہے آج اور ابھی میں چائے لاتی ہوں تب تک آپ چینج کر لیں۔۔۔۔وہ بات کرتی زریاب کے پیچھے ہی ڈریسنگ روم میں آئی
مجھے تمہارا جوشاندہ نہیں پینا۔۔۔گل سے کہہ دو۔۔ وہ بنا دے گی چائے۔۔۔
زریاب اب بھی پلوشہ کی بنی چائے کو جوشاندہ ہی کہتا تھا
اونہہ۔۔۔۔مت پئیں۔۔۔وہ سر جھٹکتی انٹرکام کی طرف بڑھی
مگر گھر آج ہی جانا ہے مجھے۔ کہہ دیا میں نے بس۔۔س۔۔س۔۔۔!! وہ وہیں کھڑی کھڑی چیخ کر بولی تاکہ آواز زریاب تک پہنچ جائے۔
ٹھیک ہے چلتے ہیں پر صرف دو گھنٹے کے لیے۔۔۔۔۔وہ اسکی چیخ نما آواز سن کر باہر آیا۔
یہ کیا بات ہوئی۔۔۔۔؟؟میں رات آپ کو بتا چکی تھی کہ اس بار میں دو دن رہ کر آؤں گی ادھر گھر۔۔۔۔
رات گئی بات گئی۔۔۔۔۔۔۔زریاب کندھے اچکا کر کہتا پھر واپس مڑا اور کھٹاک سے واش روم کا دروازہ بند کر گیا۔۔۔
اونہہ۔۔رات گئی۔۔بات گئی میں بھی دیکھتی ہوں کیسے جاتی ہے رات کی بات۔۔۔۔وہ بڑبڑاتی ہوئی خود ہی چائے لینے چلی گئی۔
زریاب شاور لے کر نکلا تو اس کیلئے پلوشہ چائے لا چکی تھی۔۔۔۔
جلدی کریں اب۔۔۔۔۔وہ زچ ہو کر بولی زریاب جان بوجھ کر ادھر أدھر چیزیں الٹتا ٹائم ویسٹ کر رہا تھا۔
کہا تو ہے کہ کہیں نہیں جا رہے ہم۔۔۔۔۔۔وہ آرام سے کہتا چائے کا کپ تھام کر سیدھا کاؤچ پر جا ڈھیر ہوا۔
آپ کو مسئلہ کیا ہے آخر مجھے میرے مام ڈیڈ کے گھر لے جانے سے۔۔۔۔۔
مسئلہ لے جانے سے نہیں سویٹ ہارٹ وہاں چھوڑ کر آنے سے ہے مجھے۔۔۔۔
ہاں تو صرف دو دن ہی تو ہیں۔۔۔۔
تمہارے لیے یہ صرف دو دن ہیں پر یہ دودن مجھ پربہت ہمیشہ بھاری ہوتے ہیں۔۔۔۔اسنے کپ منہ کو لگایا۔
ویسے ایک بات ہے چائے بنانی آ گئی ہے تمہیں۔۔۔زریاب جانتا تھا چائے اس نے نہیں بنائی اسی لیے جان بوجھ کر پلوہی کو چھیڑ کر اُسے آنکھ ماری۔
میں نے نہیں بنائی چائے۔۔۔۔اس لیے فضول باتوں میں میرا وقت ضائع مت کریں مجھے آج ہی جانا ہے بس۔۔۔چاہے دو گھنٹے کے لیے ہی سہی۔۔۔۔وہ خفا خفا سی دو گھنٹے کے لیے جانے پر مان گئی ۔
____. . . ____. . ____.
تو چلو پھر دیر کس بات کی۔۔۔۔۔زریاب اسکی خفگی پر مسکراتا ہوا کیز اٹھا کر باہر نکل گیا
_______________________
اماں یہ تو بلکل میرے جیسی ہوتی جا رہی ہے۔۔۔۔ہیر نے دعا کو گود میں لے کر جھنجھوڑا
خدیجہ مسکرا دیں۔۔۔۔تمہارے بابا بھی یہی کہہ رہے تھے کہ پلوشہ کی بچپن کی کاپی ہے بلکل۔۔۔۔اچھا بیٹھو تم لوگ میں ذرا کھانے کا بتا آؤں۔۔۔وہ اٹھنے لگیں
ارے نہیں آنٹی۔۔۔۔ہم نکل رہے ہیں بس۔۔۔زریاب گھڑی دیکھ کر بولا
جی اماں زریاب کو کام ہے حویلی میں اسلیے آج صرف میں ہی رکوں گی اور میرے لیے خاص اہتمام کی کیا ضرورت بھلا۔۔۔۔وہ مسکرا کر کہتی دعا کے گال پر جھک گئی
زریاب نے دانت پیستے ہوئے اسے گھوری دی مگر پلوشہ متوجہ ہوتی تو دیکھتی۔۔
زریاب بیٹا تم بھی کبھی رک جایا کرو گھڑی دو گھڑی کے لیے ہی آتے ہو بس۔۔۔۔
جی ضرور رکوں گا آنٹی۔۔۔۔پر ابھی کے لیے تو اجازت دیں۔۔۔۔وہ سیل اٹھا کر خدا حافظ کہتا بنا پلوہی کی طرف دیکھے باہر نکل گیا
وہ اگر تمہیں چھوڑنا نہیں چاہ رہا تھا تو چلی جاتی ساتھ خفا ہو کر گیا ہے شاید۔۔۔۔خدیجہ بیگم نے زریاب کے سرد تاثرات نوٹ کر لیے تھے۔
ارے رہنے دیں اماں۔۔۔۔۔دو ماہ بعد دو دن رک جاؤں گی تو کچھ نہیں ہونے والا اور خفگی کی پرواہ کسے ہے۔۔۔وہ لاپرواہی سے بولی۔
کیوں پرواہ نہیں اسکی خفگی کی۔وہ شوہر ہے تمہارا۔۔۔۔۔
شوہر ہے ماں تو نہیں جو خفگی کی پرواہ ہو۔۔۔۔
پلوہی۔۔یی۔۔ی۔۔ خدیجہ کی گھوری پر پلوشہ کھکھلا اٹھی
وہیں واپس داخل ہوتے زریاب نے انتہائی ناگواری سے پلوہی کی کھلکھلاہٹ دیکھی۔۔۔۔
وہ میں کیز بھول گیا تھا زریاب نے واپس آنے کی وجہ بتائی اور جھک کر ٹیبل سے کیز اٹھا کر تیزی سے نکل گیا۔
اسے پکڑیں اماں میں ابھی آئی۔۔۔۔پلوہی دعا کو انہین تھما کر جلدی سے باہر نکلی۔
زریاب۔۔۔خان ۔۔۔خان جی۔۔وہ پکارتی پیچھے دوڑتی آئی۔
زریاب جو گاڑی کا لاک کھول چکا تھا پلوہی کی آواز پر فورا پلٹا۔
خان مجھے بھی آپ کے ساتھ ہی جانا ہے۔آپ ٹہرین مین بھی آتی ہون۔
کیون جانا ہے اب تمہین۔۔۔۔؟؟
آپ مجھ سے خفا جو ہو کر جا رہے ہیں۔۔۔۔؟؟
تمہیں کونسا پرواہ ہے میری خفگی کی۔۔۔وہ خفا خفا انداز مین بولا ۔
خان اگر آپ کی پرواہ نہ ہوتی تو کیا ایئسے پیچھے بھاگی بھاگی چلی آتی میں۔۔۔۔ پلوشہ بھی منہ پھلا کر بولی۔
اچھا چلو رک جاؤ تم۔۔مگر یاد رکھنا صرف دو دن بس۔؟؟؟
یہی بات مسکرا کر کہیں ذرا۔۔۔۔
بہت چالاک ہوتی جا رہی ہو۔۔۔۔زریاب نے اسکی ناک پکڑ کر کھینچی
آپکی صحبت ہی کا اثر ہے جناب۔۔۔وہ کھلکھلائی۔
ابھی اور بہت سے اثرات دکھانے ہیں تمہیں۔۔۔زریاب آنکھ مارتا مسکرایا۔
اچھا بس۔۔۔اب جائیں اور جا کر مجھے فون کر دیجئیے گا ورنہ فکر رہے گی مجھے۔۔۔۔
فکر ہوتی تو یوں اکیلے نہ جانے دیتی مجھے بلکہ خود بھی ساتھ چلتی۔۔۔
صرف دو دن ہی تو ہیں زریاب اب اتنا سا تو کر سکتے ہیں ناں میرے لیے۔۔۔۔
ضرور کر سکتے ہیں بلکہ اس سے زیادہ بھی کر سکتے ہیں۔۔۔۔ وہ فدویانہ گویا ہوا۔
اچھا چلیں اب جائیں خیریت سے گاڑی دھیان سے چلائیے گا۔۔۔۔پلوہی نے فکرمندی سے نصیحت کی۔
جو حکم۔۔۔۔زریاب جھک کر کہتا گاڑی میں آ بیٹھا۔۔۔
پلوہی نے ہاتھ ہلا کر خدا حافظ کیا ۔۔
زریاب گاڑی ریورس کر کے ہاتھ ہلاتا گیٹ کیطرف لے گیا۔۔۔
زریاب کے اوجھل ہونے پر پلوشہ پلٹی ہی تھی جب اسے شمس لالہ مردانے سے آتا ہوا دیکھائی دیا۔
ارےےےزریاب کیوں چلا گیا کھانے کا وقت ہونے والا ہے روک لیتی اسے۔۔۔۔۔۔شمس نے پاس آ کر کہا
انہیں کام تھا اس لیے نہیں روکا۔۔۔۔آپ آئیں۔۔۔۔میرے ساتھ بھی تو بیٹھ جائیں لالہ میں آپ کے لیے ہی رکی ہوں اس بار۔۔۔۔۔وہ لاڈ سے بولی
شمس پلوشہ اور زریاب کو ایکساتھ ہنستے مسکراتے دیکھ کر خوش تھا کہ زریاب کا رویہ اسکے اپنے ساتھ جیسا بھی سہی پر پلوہی کے ساتھ وہ سیٹ ہے اسکی بہن خوش تھی شمس کو بھلا اور کیا چاہیے تھا۔۔اس نے مطمعن ہو کر پلوہی کے کندھے پر بازو پھیلائے اور اسے لے کر اندر بڑھ گیا
______________________
پلوہی خدا کے لیے تم اپنے میکے رہنے مت جایا کرو۔۔۔۔مہرو نے میگزین پلٹتے ہوئے کہا
پلوشہ آج ہی دو دن رہ کر واپس آئی تھی ۔
وہ کیوں۔۔۔۔؟؟؟وہ حیران ہوئی
تمہارے مجنوں کی اتنی سی شکل دیکھنے کو ملتی ہے ہمین قسم سے۔۔۔۔۔مہرو محظوظ ہوئی
اب دو دن زیادہ تو نہیں ہوتے نا بھابھی۔۔۔۔
تم ساتھ جا کر ساتھ ہی واپس آ جایا کرو کون سا زیادہ دور جانا ہے۔۔۔۔۔مشورہ آیا
اچھا آئندہ سوچؤن گئی۔۔بھابھی۔۔
کون کیا سوچے گا بھئی۔۔۔؟؟زریاب کی فریش سی آواز آئی
دیکھو ذرا آج کیسا چہک رہا ہے دو دن تو آواز بھی نہیں آئی اسکی۔۔۔۔
چلیں آج تو آ گئی ناں۔۔۔۔زریاب مہرو کی بات پر مسکرا دیا۔
میں کمرے میں ہوں چائے بھیجوا دو۔۔۔وہ پلوہی سے کہتا سیڑھیاں پھلانگ گیا۔
جاؤ بلوا آ چکا ہے تمہارا۔۔۔چائے تو صرف بہانا ہے تمہیں کمرے میں بلانے کا۔۔۔۔مہرو نے آنکھ مارتے ہوئے پلوشہ کو چھیڑا۔
آپ کو بڑا تجربہ ہے ایسے بلاوں کا۔۔۔۔پلوہی کی بات پر مہرو کے مسکراتے لب سکڑ گئے۔
سوری بھابھی میرا مطلب آپ کو ہرٹ کرنا نہیں تھا۔۔۔۔پلوشہ اپنی جلدبازی میں کہی گئی بات پر شرمندہ ہوئی۔۔
میں جانتی ہوں تم جاؤ۔۔۔۔۔وہ مسکرا کر بولی
ہوں۔۔۔۔۔۔پلوہی سر ہلاتی اپنی بات پر خود کو کوستی کمرے کی طرف چلی گئی۔
مہرو نے افسردگی سے نظریں اپنے ہاتھوں کی لکیروں پر ٹکا دیں۔
کتنی جلدی ساتھ چھوڑ گئے میرا آپ سہراب۔۔خان۔۔۔ایک آنسو چپکے سے اسکی ہتھیلی پر گرا۔۔۔
"آنسو اٹھا ہی لیتے ہیں میرے دکھون غموں کا بوجھ،
یہ وہ دوست ہیں ساقی جو احسان جتایا نہیں کرتے۔۔!! "
مہرو نے جلدی سے آنکھوں کو رگڑ کر صاف کیا اور اٹھ کر حدید کے کمرے کی طرف چلی گئی
_________________. . .
زریاب۔۔۔خان۔۔۔زریاب اٹھ جائیں اب۔۔۔۔پلوشہ زور زور سے اسکا کندھا ہلاتے چلائی۔۔
ارےے کیا مصیبت ہے یار۔۔۔۔وہ جھنجھلاتا اٹھ بیٹھا
کتنی دفعہ کہا ہے تمہیں یوں اسطرح سوتے کو مت جگایا کرو مگر اتنی سی بات سمجھ میں نہیں آتی تمہارے۔۔۔۔۔۔وہ تیوری چڑھا کر چلایا
پلوہی اسکے چلانے پر آنکھوں کو پانی سے بھرتی ہوئی واپس پلٹی۔
اب جگا کر کہاں جا رہی ہو واپس آؤ۔۔زریاب اسکی بھیگتی آنکھیں دیکھ چکا تھا۔
پلوشہ۔انہی قدمون سے واپس چلی آؤ ورنہ تم جانتی ہو نا مجھے۔۔۔۔۔
ہاں جانتی ہوں آپ بہت برے ہیں۔۔۔۔
کم آن ڈارلنگ یہاں آؤ۔۔۔۔وہ پچکارتا ہوا سیدھا ہوا۔
خان خود کو سمجھتے کیا ہیں آپ۔۔۔۔جب اپنا جی چاہا تو جو مرضی کرتے پھریں اور اگر میں کچھ کہہ دوں تو۔۔۔۔پلوہی غصے سے پلٹتی اس تک آئی۔
زریاب نے آگے کو جھک کر اسے پکڑ کر سامنے بیٹھایا۔
یہ غصہ آپ پر بلکل سوٹ نہیں کرتا مسز۔۔۔۔
ہاں ہر بات پر غصہ کرنے کو آپ جو پیدا ہوئے ہیں۔۔۔۔وہ نروٹھی سی بولی
ایگزیٹلی۔۔۔۔۔زریاب نے مسکراتے ہوئے پلوہی کے سر سے اپنا سر ٹکرایا
اچھا اب بتاؤ کیوں جگایا۔۔۔۔۔؟؟
مجھے جھیل پر جانا ہے۔۔۔
واٹ جھیل۔۔۔۔۔؟؟ ابھی کل ہی تو گئے تھے۔۔۔۔وہ حیران ہوا۔۔
کل نہین۔۔۔تین دن پہلے گئے تھے ہم۔۔
تو ہر تین دن بعد وہاں جانا ضروری ہے کیا۔۔۔۔؟؟؟
بلکل ضروری ہے۔۔۔۔۔وہ اٹھلائی
تم کچھ زیادہ ہی سر پر نہیں چڑھتی جا رہی۔۔۔۔بیوی ہو تو بیوی بن کر رہو بس۔ محبوبہ بننے کی کوشش مت کیا کرو۔۔۔۔سمجھی۔
آپ بھی شوہر ہیں توپھر شوہر ہی بن کر رہیں ۔میرے محبوب بننے کی کوشش مت کیا کریں سمجھے ۔۔۔وہ بھی اسی کے انداز میں بولی۔
میں تو شوہر کیساتھ محبوب بھی ہوں۔۔۔زریاب نے اپنے کالر پر موجود اسکے دونوں ہاتھ تھامے۔
تو میں بھی بیوی کہ ساتھ محبوبہ بھی ہوں۔۔۔۔وہ دوبدو بولی۔
اس کا مطلب پھر یہ ہوا کہ تم ٹلنے والی نہیں۔۔۔۔
بلکل بھی نہیں۔۔بلکہ اب کبھی بھی نہین۔۔۔۔وہ مسکرائی
تو پھر چلو ظالم محبوبہ۔۔۔۔زریاب نے اٹھتے ہوئے اسکے گال پر بوسہ لیا اور چنج کرنے چلا گیا۔۔۔۔اسے اپنی محبوبہ + بیوی کو جھیل پر جو لے کر جانا تھا۔۔۔
مجھے تم سے محبت ہے ۔۔
ہاں. ہاں جانم تم سے ہی محبت ہے۔
محبت بھی ستارون سی۔
گلون سی أبشارون سی۔۔
صبح طلوع دم نکلتے پھولون سی۔
سمندر کےکناروں سے گلے ملتی لہروں سی٬
رم جھم مین ساون برستی بارش سی۔۔
آسمان پہ بکھرےمختلف دھنک رنگوں سی،
کسی دلہن کے جوڑے پر سجے جھلمل نگینوں سی،
کسی نازک حنائی کلائی میں چھنکتی چوڑیوں سی،۔
چاند کی چاندنی مین ناچتے مست چکور سی۔۔
گگن پر لپکتے ہوئے مدہوش مور سی۔
مجھے تم سے ہی اب محبت ہے۔۔
ائے جاناں ہان صرف تم سی محبت ہے۔
______________________
پلوہی۔۔۔یی۔۔۔یی۔۔۔۔۔۔۔زریاب تیز سی گھوری دے کر بولا
آپ یہاں میرے ساتھ آئے ہیں نہ کہ اپنی دوسری بیوی کے ساتھ۔۔۔۔۔وہ نروٹھے پن سے بولی
وہ دونوں جھیل پر آمنے سامنے موجود پتھروں پر بیٹھے تھے زریاب مسلسل سیل پر بزی تھا پلوہی نے اسے یون بزی دیکھ کر چڑتے ہوئے پانی مٹھی میں بھرکر زریاب خان پر دے پھینکا تھا۔
زریاب اسکی بات پر مسکرا دیا۔۔۔۔پلوشہ اکثر اسکے سیل اور لیپ ٹاپ کو دوسری بیوی کہتی تھی
تم بولو نا میں سن رہا ہوں۔۔۔۔
آپ میری طرف دیکھیں گے تو بولوں گی میں۔۔۔
ارےے میں کانوں سے سنتا ہوں مسز۔۔۔۔۔وہ مسکرایا
پر مجھے کانوں کیساتھ آنکھیں بھی اپنی ہی طرف متوجہ چاہیں۔۔۔۔
کچھ دیر ویٹ کرو یار ضروری میل کر رہا ہوں گھر میں تو تم ٹک کر کوئی کام کرنے نہیں دیتی مجھے۔۔۔۔
میں اب بھی ٹک کر کام کرنے نہیں دوں گی ہم یہاں انجوائے کرنے آئے ہیں نہ کہ اس موئے موبائل سے میلز کرنے۔۔۔۔پلوہی نے چڑ کر کہتے دونوں ہاتھوں میں پانی بھر کر زریاب پر پھر سے اچھالا۔
اس بار پانی کی مقدار کچھ زیادہ تھی جس سے زریاب کے کپڑوں سمیت سیل کی سکرین بھی اچھی خاصی بھیگ گئی۔
وہ جھکا سر جھٹکے سے اٹھاتا کھڑا ہوا۔
پلوہی جانتی تھی وہ اب کیا کرے گا اس لیے جلدی سے پتھر سے اچھل کر پیچھے کی جانب کو بھاگی۔۔۔۔
رک جاؤ پلوشہ تم ورنہ اچھے سے جانتی ہو مجھے۔۔۔۔۔زریاب اسکے پیچھے آتے بلند آواز سے بولا
ہاہاہاہا۔۔۔اچھے سے جانتی ہوں اسی لیے تو بھاگی ہوں ورنہ۔۔۔۔
زریاب کو رفتار تیز کرتے دیکھ کر پلوہی اپنی بات چھوڑتی مزید تیزی سے بھاگی
پلوشہ۔۔۔۔شہ۔۔۔۔زریاب بھی اسے پکڑنے کو بھاگا
پلوہی آگے اور زریاب اسکے پیچھے بھاگ رہا تھا
اردگرد لمبے لمبے درختوں کے جھرمٹ تھے جن کے پیچھے اونچے نیچے پہاڑ ان دونوں کو گھاس کے سبزہ زار پر ایک دوسرے کے آگے پیچھے بھاگتے دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔۔۔۔دور دور تک زریاب اور پلوہی کے علاوہ کوئی ذی روح موجود نہ تھا۔۔۔۔۔۔جھیل کے پانی کی آواز کیساتھ پلوہی کے ہنسنے اور زریاب کی اسے پکارنے کی آوازیں گونج رہیں تھیں
پلوشہ اٹس ٹو مچ انف رک جاؤ اب۔۔۔۔۔۔زریاب نے اس سے کچھ فاصلے پر رک کر کہا
اچھا۔۔۔اچھا۔۔۔رکتی ہوں۔۔۔۔۔وہ پھولا سانس درست کرتی درخت سے پشت لگا کر لمبے لمبے سانس لینے لگی ۔
زریاب اسکے سامنے آیا۔۔۔۔۔اب بتاؤ کیا کر رہی تھی۔۔۔۔
کک کچھ۔۔۔کچھ نہیں زریاب ذرا رکیں تو۔۔۔۔۔وہ سینے پر ہاتھ رکھے اپنی سانس کو ہموار کرنے کی کوشش کر رہی تھی
زریاب نے آنکھوں کے درمیان بل ڈالتے ہوئے اسے گھورا۔
میں تو انجوائے کرنے کا کہہ رہی تھی۔۔۔۔پلوہی اپنی سانس درست کرتی معصومیت سے بولی.
اچھاا تو پھر کرتے ہیں نا اب ادھر ہی مل کر پھر دونون انجوائے۔۔۔۔۔وہ تیزی سے آگے بڑھا۔
زریاب۔۔زریاب۔۔خان پلیز۔۔پلوہی اسکے بچھرتے تیور دیکھ کر وہ چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا گئی۔
ہاتھ ہٹاؤ۔۔۔۔
نن۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔پلیز سوری۔۔۔۔۔وہ منمنائی
زریاب نے اسکی منمناہٹ پر مسکراتے ہوئے اسکے ہاتھ ہٹائے اور آگے کو جھک کر لب اسکے ماتھے پر رکھے پھر ناک پر اور پھر تھوڑی پر۔۔۔۔۔ پھر آنکھون پر۔پھر ۔۔۔۔۔۔؟؟؟
یہ۔۔۔یہ کیا کر رہے ہیں۔۔۔۔وہ سرخ چہرے لیے خودکو چھڑاتے ہوئے چلائی۔
انجوائے۔۔۔یار۔۔۔زریاب مسکراہٹ دباتا کندھے۔اچکا کر بولا
ہٹیں پیچھے زریاب۔۔۔۔کوئی آ جائے گا ۔ارےے شرم کریں کچھ تو۔۔۔۔۔
پہلی بات زریاب آفریدی کسی سے ڈرتا نہیں۔۔۔۔دوسری بات تم میری شرعی بیوی ہو۔۔۔۔اور تیسری بات تم نے ہی مجھے انجوائے کرنے پر اکسایا۔۔۔۔۔وہ شرارت سے بولا
بہت خراب ہیں آپ۔۔۔۔۔میں نے اس قسم کا انجوائے کرنے کو تو نہیں کہا تھا نا۔۔۔ وہ نروٹھے پن سے بولتی واپس جھیل کی طرف بڑھی زریاب بھی اسکے پیچھے ہی واپس پلٹا۔
تو کس طرح کا انجوائے کرنا چاہتی ہو۔۔۔۔؟؟؟
پلوشہ نے پلٹ کر اسے گھوری دی جس پر زریاب ڈرنے کی ایکٹنگ کرتا ہوا مسکرا اٹھا
اونہہ۔۔وہ سر جھٹکتی ہوئی آگے چلتی گئی
اب واپس چلتے ہیں پلوہی مجھے کچھ ضروری میلز کرنی ہیں۔۔۔۔زریاب جھیل کنارے واپس پتھر کے پاس پہنچ کر بولا
تو جائیں آپ میں ابھی کہیں نہیں جا رہی۔پلوشہ اپنی جگہ پر بیٹھتی بولی
کم آن یار پھر سے تین دن بعد حاضری دینے آئیں گے ناں ہم اب چلو اٹھو شاباش۔۔۔۔زریاب نے پچکارتے ہوئے اسکا کندھا ہلایا
نہین۔۔۔۔۔۔
پلوشہ۔۔۔شہ۔۔۔جانی ضد مت کرو نا۔۔۔۔۔
کچھ دیر اور خان۔۔۔۔
پھر آئیں گے ناں۔۔۔۔۔سینڈل پہنو شاباس۔۔۔۔وہ بمشکل ضبط سے بولا
نہیں۔۔۔۔بلکل نہیں پہنوں گی سینڈل۔۔۔۔۔ پلوہی نے پھر نفی میں سر ہلایا
زریاب ایک تیز نظر اس پر ڈالتا گھٹنوں کے بل اسکے سامنے بیٹھا اور پاؤں پکڑ کر گود میں رکھا اب وہ سر جھکائے سینڈل پلوہی کے پاؤں میں پہنا کر اسکا اسٹریپ بند کر رہا تھا جو اس سے بلکل بھی نہیں ہو پا رہا تھا
اچانک پلوہی کو مہرو بھابھی کی سرگوشی یاد آئی۔۔۔۔عنقریب وہ تمہارے قدموں میں ہو گا بچے۔۔۔۔وہ یاد کر کے مسکرا دی
کیا مصیبت ہے یہ۔۔۔۔زریاب نے جھنجھلا کر سر اٹھایا اور پلوہی کو مسکراتے دیکھ کر سیخ پا ہوتا کھڑا ہوا
میں اس منحوس سینڈل کے اسڑیپ سے لڑ رہا ہوں اور محترمہ کے دانت نکل رہے ہیں۔۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔میں آپ کو دیکھ کر نہیں ہنس رہی تھی مجھے تو مہرو بھابھی کی بات یاد آ گئی تھی۔۔۔۔پلوہی پھر سے مسکرائی
بند کرو سینڈل اور اٹھو ہری اپ۔۔۔۔زریاب پلوشہ کو سختی سے کہہ کر سیل کان سے لگا کر بات کرنے لگا
جی شاہ صاحب۔۔۔۔جی جی میں کچھ بزی ہوں ایک آدھ گھنٹے تک میل کر دوں گا۔۔۔اوکے جی ٹھیک ہے اللہ حافظ۔۔۔۔۔زریاب نے کال بند کر کے پلوہی کو دیکھا جو لاپرواہی سے انگلی پر بالوں کی لٹ لپیٹتی پھر سے مسکرا رہی تھی
اب کیا ہوا۔۔۔۔۔؟؟وہ چڑتا پھر سے نیچے بیٹھ کر اسکا سینڈل بند کرنے لگا
بتاؤ مجھے اس کو کیسے بند کرنا ہے۔۔۔۔اس نے اسٹریپ پکڑ کر ابرو اٹھائے۔
اسٹریپ کو یہ جو ہول ہے اس میں سے گزار دیں بند ہو جائے گا۔۔۔۔
انتہائی بدتمیز ہو تم۔۔۔۔زریاب اسکی مسکراہٹ دیکھ کر جل کر بولا
آپ سے کم۔۔۔۔۔۔وہ پھر سے مسکرا کر کہتی زریاب کے بال بکھیر گئی
چلو اٹھو اب ورنہ ایک تھپڑ کھاؤ گی مجھ سے۔۔۔۔زریاب نے سینڈل بند کر کے اسکا بازو پکڑ کر کھڑا کیا
چل رہی ہوں۔۔۔بازو تو چھوڑیں کس طرح دبوچ رکھا ہے۔۔۔۔پلوہی نے تیز جھٹکے سے بازو زریاب کے ہاتھ سے چھڑوایا اور خفگی سے ناک پھلائے آگے بڑھ گئی
زریاب اسکی پھولی ناک دیکھ کر مسکراتا ہوا تیزی سے اسکے پیچھے ہی واپسی کے لیے چل پڑا
"تمہیں دیکھوں توصنم مجھے پیار بہت آتا ہے،
زندگی اتنی حسین پہلے تو نہیں لگتی تھی۔
جاری ہے!!۔