Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

محسن نقوی

Baht awala kamal ki shairy ha
 
Baht he asha ha ya saction
 
خمار موسم خوشبو حد چمن میں کھلا
محسن نقوی

خمار موسم خوشبو حد چمن میں کھلا
مری غزل کا خزانہ ترے بدن میں کھلا
تم اس کا حسن کبھی اس کی بزم میں دیکھو
کہ ماہتاب سدا شب کے پیرہن میں کھلا
عجب نشہ تھا مگر اس کی بخشش لب میں
کہ یوں تو ہم سے بھی کیا کیا نہ وہ سخن میں کھلا
نہ پوچھ پہلی ملاقات میں مزاج اس کا
وہ رنگ رنگ میں سمٹا کرن کرن میں کھلا
بدن کی چاپ نگہ کی زباں بھی ہوتی ہے
یہ بھید ہم پہ مگر اس کی انجمن میں کھلا
کہ جیسے ابر ہوا کی گرہ سے کھل جائے
سفر کی شام مرا مہرباں تھکن میں کھلا
کہوں میں کس سے نشانی تھی کس مسیحا کی
وہ ایک زخم کہ محسنؔ مرے کفن میں کھلا
 
ہوا کا لمس جو اپنے کواڑ کھولتا ہے
محسن نقوی


ہوا کا لمس جو اپنے کواڑ کھولتا ہے
تو دیر تک مرے گھر کا سکوت بولتا ہے
ہم ایسے خاک نشیں کیا لبھا سکیں گے اسے
وہ اپنا عکس بھی میزان زر میں تولتا ہے
جو ہو سکے تو یہی رات اوڑھ لے تن پر
بجھا چراغ اندھیرے میں کیوں ٹٹولتا ہے
اسی سے مانگ لو خیرات اپنے خوابوں کی
وہ جاگتی ہوئی آنکھوں میں نیند گھولتا ہے
سنا ہے زلزلے آتے ہیں عرش پر محسنؔ
کہ بے گناہ لہو جب سناں پہ بولتا ہے
 
مری گلی کے غلیظ بچو

​​​​​​
و
مری گلی کے غلیظ بچو
تم اپنے میلے بدن کی ساری غلاظتوں کو ادھار سمجھو
تمہاری آنکھیں
اداسیوں سے بھری ہوئی ہیں
ازل سے جیسے ڈری ہوئی ہیں
تمہارے ہونٹوں پہ پیڑھیوں کی جمی ہوئی تہہ یہ کہہ رہی ہے
حیات کی آب جو پس پشت بہہ رہی ہے
تمہاری جیبیں منافقت سے اٹی ہوئی ہیں
سبھی قمیصیں پھٹی ہوئی ہیں
تمہاری پھیکی ہتھیلیوں کی بجھی لکیریں
بقا کی ابجد سے اجنبی ہیں
تمہاری قسمت کی آسمانی نشانیاں اب خطوط وحدانیت کا مقسوم ہو رہی ہیں
نظر سے معدوم ہو رہی ہیں
مری گلی کے غلیظ بچو
تمہارے ماں باپ نے تمدن کا قرض لے کر
تمہاری تہذیب بیچ دی ہے
تمہارا استاد اپنی ٹوٹی ہوئی چھڑی لے کے چپ کھڑا ہے
کہ اس کے سوکھے گلے میں نان جویں کا ٹکڑا اڑا ہوا ہے
مری گلی کے غلیظ بچو
تمہارے میلے بدن کی ساری غلاظتیں اب گئے زمانوں کے ارمغاں ہیں
تمہارے ورثے کی داستاں ہیں
انہیں سنبھالو
کہ آنے والا ہر ایک لمحہ تمہارے جھڑتے ہوئے پپوٹوں سے جانے والے دنوں دنوں کی اتار لے گا
مری گلی کے غلیظ بچو
ضدوں کو چھوڑو
قریب آؤ
رتوں کی نفرت کو پیار سمجھو
خزاں کو رنگ بہار سمجھو
غلاظتوں کو ادھار سمجھو
 
میں سوچتا ہوں
محسن نقوی
فراق صبحوں کی بجھتی کرنیں
وصال شاموں کی جلتی شمعیں
زوال زرداب خال و خد سے اٹے زمانے
یہ ہانپتی دھوپ کانپتی چاندنی سے چہرے
ہیں میرے احساس کا اثاثہ
بہار کے بے کنار موسم میں کھلنے والے
تمام پھولوں سے پھوٹتے رنگ
وحشتوں میں گھرے
لبوں کے کھلے دریچوں سے بہنے والے حروف میری نشانیاں ہیں
 
وہ شاخ مہتاب کٹ چکی ہے
محسن نقوی




بہت دنوں سے
وہ شاخ‌ مہتاب کٹ چکی ہے
کہ جس پہ تم نے گرفت وعدہ کی ریشمی شال کے ستارے سجا دیئے تھے
بہت دنوں سے
وہ گرد احساس چھٹ چکی ہے
کہ جس کے ذروں پہ تم نے
پلکوں کی جھالروں کے تمام نیلم لٹا دیئے تھے
اور اب تو یوں ہے کہ جیسے
لب بستہ ہجرتوں کا ہر ایک لمحہ
طویل صدیوں کو اوڑھ کر سانس لے رہا ہے
اور اب تو یوں ہے کہ جیسے تم نے
پہاڑ راتوں کو
میری اندھی اجاڑ آنکھوں میں
ریزہ ریزہ بسا دیا ہے
کہ جیسے میں نے
فگار دل کا ہنر‌ اثاثہ
کہیں چھپا کر بھلا دیا ہے
اور اب تو یوں ہے کہ
اپنی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کر
مرے بدن پر سجے ہوئے آبلوں سے بہتا لہو نہ دیکھو
مجھے کبھی سرخ رو نہ دیکھو
نہ میری یادوں کے جلتے بجھتے نشاں کریدو
نہ میرے مقتل کی خاک دیکھو
اور اب تو یوں ہے کہ
اپنی آنکھوں کے خواب
اپنے دریدہ‌ دامن کے چاک دیکھو
کہ گرد احساس چھٹ چکی ہے
کہ شاخ‌ مہتاب کٹ چکی ہے
 
مرا ہونا نہ ہونا
محسن نقوی

مرا ہونا نہ ہونا منحصر ہے
ایک نقطے پر
وہ اک نقطہ
جو دو حرفوں کو آپس میں ملا کر
لفظ کی تشکیل کرتا ہے
وہ اک نقطہ سمٹ جائے تو
ہونے کا ہر اک امکاں
نہ ہونے تک کا سارا فاصلہ
پل بھر میں طے کر لے
وہی نقطہ بکھر جائے
تو ہر اک شے
نہ ہونے کے قفس کی تیلیوں کو توڑ کر رکھ دے
وہ ایک نقطہ مری آنکھوں میں اکثر
روشنی کے ساتھ رنگوں کو اگاتا ہے
مرے ادراک میں شبنم کی صورت
یا ستارے کی طرح لوح یقیں پر جگمگاتا ہے
وہی نقطہ مجھے تشکیک کے جنگل میں
جگنو بن کے منزل کی طرف رستہ دکھاتا ہے
مجھے اکثر بتاتا ہے
مرا ہونا نہ ہونے کا عمل سے
مرے ہونے کی بھی تکمیل ہوتی ہے
وہ اک نقطہ کہاں ہے
کون ہے
کس کے لبوں میں چھپ کے ہر اثبات کو
انکار میں تبدیل کرتا ہے
جو دو حرفوں کو آپس میں ملا کر لفظ کی تشکیل کرتا ہے
یہ نکتہ بھی اسی نقطے میں مضمر ہے
وہ ایک نقطہ کہ اب تک جس کے ہونے کا امیں ہوں میں
وہ افشا ہو تو میں سمجھوں
کہ ہوں بھی یا نہیں ہوں میں
 
مری اداسی کا زرد موسم
محسن نقوی

مری اداسی کا زرد موسم
اگر کسی دن
مری بجھی آنکھ کے کنارے
بھگو بھگو کر
انا کے پاتال کی کسی تہہ میں
ایک پل کو ٹھہر گیا تو
مجھے یقیں ہے
کہ ٹوٹتے دل میں خواہشوں کا
کوئی چھناکا
مرا بدن بھی نہ سن لے
 
میں نے اکثر خواب میں دیکھا
محسن نقوی
146
میں نے اکثر خواب میں دیکھا
خوف تراشے کہساروں کی گود میں جیسے
اک پتھریلی قبر بنی ہے
قبر کی اجلی پیشانی پر
دھندلے میلے شیشے کی تختی کے پیچھے
تیرا نام لکھا ہے
تیرا میرا نام کہ جس میں
شیشے پتھر جیسی کوئی بات نہیں ہے
تیری شہرت میں بھی
میری رسوائی کا ہات نہیں ہے
پھر بھی
سوچو
میں نے اکثر خواب میں دیکھا
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top
Chat