Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

Poetry محسن نقوی

میں جو مہکا تو میری شاخ جلا دی اس نے
سبز موسم میں مجھے زرد ہوا دی اس نے
پہلے ایک لمحے کی زنجیر سے باندھا مجھ کو
اور پھر وقت کی رفتار بڑھا دی اس نے
میری ناکام محبت مجھے واپس کر دی
یوں مرے ہاتھ، میری لاش تھما دی اس نے
جانتا تھا کے مجھے موت سکون بخشے گی
وہ ستمگر تھا سو جینے کی دعا دی اس نے
اس کے ہونے سے تھی سانسیں میری دگنی محسن
وہ جو بچھڑا تو میری عمر گھٹا دی اس نے
 
پاگل آنکھوں والی لڑکی
اتنے مہنگے خواب نہ دیکھو
تھک جاؤ گی
کانچ سے نازک خواب تمہارے
ٹوٹ گئے تو
پچھتاؤ گی
سوچ کا سارا اجلا کندن
ضبط کی راکھ میں گھل جائے گا
کچے پکے رشتوں کی خوشبو کا ریشم
کھل جائے گا
تم کیا جانو
خواب سفر کی دھوپ کے تیشے
خواب ادھوری رات کا دوزخ
خواب خیالوں کا پچھتاوا
خوابوں کی منزل رسوائی
خوابوں کا حاصل تنہائی
تم کیا جانو
مہنگے خواب خریدنا ہوں تو
آنکھیں بیچنا پڑتی ہیں یا
رشتے بھولنا پڑتے ہیں
اندیشوں کی ریت نہ پھانکو
پیاس کی اوٹ سراب نہ دیکھو
اتنے مہنگے خواب نہ دیکھو
تھک جاؤ گی
 
کسی کے دور جانے سے
تعلق ٹوٹ جانے سے
کسی کے مان جانے سے
کسی کے روٹھ جانے سے
مجھے اب ڈر نہیں لگتا
کسی کو آزمانے سے
کسی کے آزمانے سے
کسی کو یاد رکھنے سے
کسی کو بھول جانے سے
مجھے اب ڈر نہیں لگتا
کسی کو چھوڑ دینے سے
کسی کے چھوڑ جانے سے
نا شمع کو جلانے سے
نا شمع کو بجھانے سے
مجھے اب ڈر نہیں لگتا
اکیلے مسکرانے سے
کبھی آنسو بہانے سے
نا اس سارے زمانے سے
حقیقت سے فسانے سے
مجھے اب ڈر نہیں لگتا
کسی کی نارسائی سے
کسی کی پارسائی سے
کسی کی بے وفائی سے
کسی دکھ انتہائی سے
مجھے اب ڈر نہیں لگتا
نا تو اس پار رہنے سے
نا تو اس پار رہنے سے
نا اپنی زندگانی سے
نا اک دن موت آنے سے
مجھے اب ڈر نہیں لگتا
 
وہ تو یوں تھا کہ ہم
اپنی اپنی ضرورت کی خاطر
اپنے اپنے تقاضوں کو پورا کیا
اپنے اپنے ارادوں کی تکمیل میں
تیرہ و تار خواہش کی سنگلاخ راہوں پہ چلتے رہے
پھر بھی راہوں میں کتنے شگوفے کھلے
وہ تو یوں تھا کہ بڑھتے گئے سلسلے
ورنہ یوں ہے کہ ہم
اجنبی کل بھی تھے
اجنبی اب بھی ہیں
اب بھی یوں ہے کہ تم
ہر قسم توڑ دو
سب ضدیں چھوڑ دو
اور اگر یوں نہ تھا تو یوں ہی سوچ لو
تم نے اقرار ہی کب کیا تھا کہ میں
تم سے منسوب ہوں
میں نے اصرار ہی کب کیا تھا کہ تم
یاد آؤ مجھے
بھول جاؤ مجھے
 
یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں
جب آنکھ میں خواب دمکتے تھے
جب دلوں میں داغ چمکتے تھے
جب پلکیں شہر کے رستوں میں
اشکوں کا نور لٹاتی تھیں
جب سانسیں اجلے چہروں کی
تن من میں پھول سجاتی تھیں
جب چاند کی رم جھم کرنوں سے
سوچوں میں بھنور پڑ جاتے تھے
جب ایک تلاطم رہتا تھا
اپنے بے انت خیالوں میں
ہر عہد نبھانے کی قسمیں
خط خون سے لکھنے کی رسمیں
جب عام تھیں ہم دل والوں میں
اب اپنے پھیکے ہونٹوں پر
کچھ جلتے بجھتے لفظوں کے
یاقوت پگھلتے رہتے ہیں
اب اپنی گم سم آنکھوں میں
کچھ دھول ہے بکھری یادوں کی
کچھ گرد آلود سے موسم ہیں
اب دھوپ اگلتی سوچوں میں
کچھ پیماں جلتے رہتے ہیں
اب اپنے ویراں آنگن میں
جتنی صبحوں کی چاندی ہے
جتنی شاموں کا سونا ہے
اس کو خاکستر ہونا ہے
اب یہ باتیں رہنے دیجے
جس عمر میں قصے بنتے تھے
اس عمر کا غم سہنے دیجے
اب اپنی اجڑی آنکھوں میں
جتنی روشن سی راتیں ہیں
اس عمر کی سب سوغاتیں ہیں
جس عمر کے خواب خیال ہوئے
وہ پچھلی عمر تھی بیت گئی
وہ عمر بتائے سال ہوئے
اب اپنی دید کے رستے میں
کچھ رنگ ہے گزرے لمحوں کا
کچھ اشکوں کی باراتیں ہیں
کچھ بھولے بسرے چہرے ہیں
کچھ یادوں کی برساتیں ہیں
یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں
 
محبتوں پہ بہت اعتماد کیا کرنا
بُھلا چکے ہیں اُسے پھر سے یاد کیا کرنا
وہ بے وفا ہی سہی اُس پہ تہمتیں کیسی
ذرا سی بات پہ اتنا فساد کیا کرنا
کچھ اس لیے بھی میں پسپا ہوا ہوں مقتل سے
کہ بہرِ مالِ غنیمت جہاد کیا کرنا
نگاہ میں جو اُترتا ہے دل سے کیوں اُترے
دل و نگاہ میں پیدا تضاد کیا کرنا
میں اس لیے اُسے اب تک چھو نہ سکا "محسن"
وہ آہیٔنہ ہے اُسے سنگ زاد کیا کرنا
 
میں نے اکثر خواب میں دیکھا
خوف تراشے کہساروں کی گود میں جیسے
اک پتھریلی قبر بنی ہے
قبر کی اجلی پیشانی پر
دھندلے میلے شیشے کی تختی کے پیچھے
تیرا نام لکھا ہے
تیرا میرا نام کہ جس میں
شیشے پتھر جیسی کوئی بات نہیں ہے
تیری شہرت میں بھی
میری رسوائی کا ہات نہیں ہے
پھر بھی
سوچو
میں نے اکثر خواب میں دیکھا
 
یہ تیری جھیل سی آنکھوں میں رتجگوں کے بھنور
یہ تیرے پھول سے چہرے پہ چاندنی کی پھوار
یہ تیرے لب یہ دیار یمن کے سرخ عقیق
یہ آئنے سی جبیں سجدہ گاہ لیل و نہار
یہ بے نیاز گھنے جنگلوں سے بال ترے
یہ پھولتی ہوئی سرسوں کا عکس گالوں پر
یہ دھڑکنوں کی زباں بولتے ہوئے آبرو
کمند ڈال رہے ہیں مرے خیالوں پر
تری جبیں پہ اگر حادثوں کے نقش ابھریں
مزاج گردش دوراں بھی لڑکھڑا جائے
تو مسکرائے تو صبحیں تجھے سلام کریں
تو رو پڑے تو زمانے کی آنکھ بھر آئے
مگر میں شہر حوادث کے سنگ زادوں سے
یہ آئنے سا بدن کس طرح بچاؤں‌ گا
مجھے یہ ڈر ہے کسی روز تیرے قرب سمیت
میں خود بھی دکھ کے سمندر میں ڈوب جاؤں گا
 
مری گلی کے غلیظ بچو
تم اپنے میلے بدن کی ساری غلاظتوں کو ادھار سمجھو
تمہاری آنکھیں
اداسیوں سے بھری ہوئی ہیں
ازل سے جیسے ڈری ہوئی ہیں
تمہارے ہونٹوں پہ پیڑھیوں کی جمی ہوئی تہہ یہ کہہ رہی ہے
حیات کی آب جو پس پشت بہہ رہی ہے
تمہاری جیبیں منافقت سے اٹی ہوئی ہیں
سبھی قمیصیں پھٹی ہوئی ہیں
تمہاری پھیکی ہتھیلیوں کی بجھی لکیریں
بقا کی ابجد سے اجنبی ہیں
تمہاری قسمت کی آسمانی نشانیاں اب خطوط وحدانیت کا مقسوم ہو رہی ہیں
نظر سے معدوم ہو رہی ہیں
مری گلی کے غلیظ بچو
تمہارے ماں باپ نے تمدن کا قرض لے کر
تمہاری تہذیب بیچ دی ہے
تمہارا استاد اپنی ٹوٹی ہوئی چھڑی لے کے چپ کھڑا ہے
کہ اس کے سوکھے گلے میں نان جویں کا ٹکڑا اڑا ہوا ہے
مری گلی کے غلیظ بچو
تمہارے میلے بدن کی ساری غلاظتیں اب گئے زمانوں کے ارمغاں ہیں
تمہارے ورثے کی داستاں ہیں
انہیں سنبھالو
کہ آنے والا ہر ایک لمحہ تمہارے جھڑتے ہوئے پپوٹوں سے جانے والے دنوں دنوں کی اتار لے گا
مری گلی کے غلیظ بچو
ضدوں کو چھوڑو
قریب آؤ
رتوں کی نفرت کو پیار سمجھو
خزاں کو رنگ بہار سمجھو
غلاظتوں کو ادھار سمجھو
 
Wah boht khoob or dil ko chone wali poetry zabardast
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top
Chat