Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

Poetry مرزا غالب

ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
شرع و آئین پر مدار سہی
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی
چال جیسے کڑی کمان کا تیر
دل میں ایسے کے جا کرے کوئی
بات پر واں زبان کٹتی ہے
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
نہ سنو گر برا کہے کوئی
نہ کہو گر برا کرے کوئی
روک لو گر غلط چلے کوئی
بخش دو گر خطا کرے کوئی
کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند
کس کی حاجت روا کرے کوئی
کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی
جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
 
لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جا دے مجھے
میرا ذمہ دیکھ کر گر کوئی بتلا دے مجھے
کیا تعجب ہے جو اس کو دیکھ کر آ جائے رحم
واں تلک کوئی کسی حیلے سے پہنچا دے مجھے
منہ نہ دکھلاوے نہ دکھلا پر بہ انداز عتاب
کھول کر پردہ ذرا آنکھیں ہی دکھلا دے مجھے
یاں تلک میری گرفتاری سے وہ خوش ہے کہ میں
زلف گر بن جاؤں تو شانے میں الجھا دے مجھے
 
تا ہم کو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جا
سن لیتے ہیں گو ذکر ہمارا نہیں کرتے
غالبؔ ترا احوال سنا دیں گے ہم ان کو
وہ سن کے بلا لیں یہ اجارا نہیں کرتے
 
میں اور بزم مے سے یوں تشنہ کام آؤں
گر میں نے کی تھی توبہ ساقی کو کیا ہوا تھا
ہے ایک تیر جس میں دونوں چھدے پڑے ہیں
وہ دن گئے کہ اپنا دل سے جگر جدا تھا
درماندگی میں غالبؔ کچھ بن پڑے تو جانوں
جب رشتہ بے گرہ تھا ناخن گرہ کشا تھا
 
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا
مے وہ کیوں بہت پیتے بزم غیر میں یا رب
آج ہی ہوا منظور ان کو امتحاں اپنا
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے ادھر ہوتا کاش کے مکاں اپنا
دے وہ جس قدر ذلت ہم ہنسی میں ٹالیں گے
بارے آشنا نکلا ان کا پاسباں اپنا
درد دل لکھوں کب تک جاؤں ان کو دکھلا دوں
انگلیاں فگار اپنی خامہ خونچکاں اپنا
گھستے گھستے مٹ جاتا آپ نے عبث بدلا
ننگ سجدہ سے میرے سنگ آستاں اپنا
تا کرے نہ غمازی کر لیا ہے دشمن کو
دوست کی شکایت میں ہم نے ہم زباں اپنا
ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالبؔ دشمن آسماں اپنا
 
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
آج ہم اپنی پریشانی خاطر ان سے
کہنے جاتے تو ہیں پر دیکھیے کیا کہتے ہیں
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو
جو مے و نغمہ کو اندوہ ربا کہتے ہیں
دل میں آ جاے ہے ہوتی ہے جو فرصت غش سے
اور پھر کون سے نالے کو رسا کہتے ہیں
ہے پرے سرحد ادراک سے اپنا مسجود
قبلے کو اہل نظر قبلہ نما کہتے ہیں
پائے افگار پہ جب سے تجھے رحم آیا ہے
خار رہ کو ترے ہم مہر گیا کہتے ہیں
اک شرر دل میں ہے اس سے کوئی گھبرائے گا کیا
آگ مطلوب ہے ہم کو جو ہوا کہتے ہیں
دیکھیے لاتی ہے اس شوخ کی نخوت کیا رنگ
اس کی ہر بات پہ ہم نام خدا کہتے ہیں
وحشتؔ و شیفتہؔ اب مرثیہ کہویں شاید
مر گیا غالبؔ آشفتہ نوا کہتے ہیں
 
Bohat hi aala collection hai ghalib ki shayri kosamjhna her aik ke bas ki BAAT NAHI hai
 
شاندار مرزا غالب کی شاعری
بہت اعلئ
 
شاندار مرزا غالب کی شاعری
بہت اعلئ

شُکریہ
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top Bottom
Chat