Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

Poetry مرزا غالب

حسن مہ گرچہ بہ ہنگام کمال اچھا ہے
اس سے میرا مہہ خورشید جمال اچھا ہے
بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ
جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
ساغر جم سے مرا جام سفال اچھا ہے
بے طلب دیں تو مزا اس میں سوا ملتا ہے
وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال اچھا ہے
ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
ہم سخن تیشہ نے فرہاد کو شیریں سے کیا
جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال اچھا ہے
قطرہ دریا میں جو مل جاے تو دریا ہو جائے
کام اچھا ہے وہ جس کا کہ مآل اچھا ہے
خضر سلطاں کو رکھے خالق اکبر سرسبز
شاہ کے باغ میں یہ تازہ نہال اچھا ہے
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
 
میں انہیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
چل نکلتے جو مے پیے ہوتے
قہر ہو یا بلا ہو جو کچھ ہو
کاش کے تم مرے لیے ہوتے
میری قسمت میں غم گر اتنا تھا
دل بھی یارب کئی دیے ہوتے
آ ہی جاتا وہ راہ پر غالبؔ
کوئی دن اور بھی جیے ہوتے
 
کبھی نیکی بھی اس کے جی میں گر آ جائے ہے مجھ سے
جفائیں کر کے اپنی یاد شرما جائے ہے مجھ سے
خدایا جذبۂ دل کی مگر تاثیر الٹی ہے
کہ جتنا کھینچتا ہوں اور کھنچتا جائے ہے مجھ سے
وہ بد خو اور میری داستان عشق طولانی
عبارت مختصر قاصد بھی گھبرا جائے ہے مجھ سے
ادھر وہ بد گمانی ہے ادھر یہ ناتوانی ہے
نہ پوچھا جائے ہے اس سے نہ بولا جائے ہے مجھ سے
سنبھلنے دے مجھے اے نا امیدی کیا قیامت ہے
کہ دامان خیال یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے
تکلف بر طرف نظارگی میں بھی سہی لیکن
وہ دیکھا جائے کب یہ ظلم دیکھا جائے ہے مجھ سے
ہوئے ہیں پاؤں ہی پہلے نبرد عشق میں زخمی
نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے
قیامت ہے کہ ہووے مدعی کا ہم سفر غالبؔ
وہ کافر جو خدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مجھ سے
 
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
تجھ سے قسمت میں مری صورت قفل ابجد
تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا
دل ہوا کشمکش چارۂ زحمت میں تمام
مٹ گیا گھسنے میں اس عقدے کا وا ہو جانا
اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم اللہ اللہ
اس قدر دشمن ارباب وفا ہو جانا
ضعف سے گریہ مبدل بہ دم سرد ہوا
باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا
دل سے مٹنا تری انگشت حنائی کا خیال
ہو گیا گوشت سے ناخن کا جدا ہو جانا
ہے مجھے ابر بہاری کا برس کر کھلنا
روتے روتے غم فرقت میں فنا ہو جانا
گر نہیں نکہت گل کو ترے کوچے کی ہوس
کیوں ہے گرد رہ جولان صبا ہو جانا
بخشے ہے جلوۂ گل ذوق تماشا غالبؔ
چشم کو چاہیے ہر رنگ میں وا ہو جانا
تا کہ تجھ پر کھلے اعجاز ہوائے صیقل
دیکھ برسات میں سبز آئنے کا ہو جانا
 
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
نالہ پابند نے نہیں ہے
کیوں بوتے ہیں باغباں تونبے
گر باغ گدائے مے نہیں ہے
ہر چند ہر ایک شے میں تو ہے
پر تجھ سی کوئی شے نہیں ہے
ہاں کھائیو مت فریب ہستی
ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے
شادی سے گزر کہ غم نہ ہووے
اردی جو نہ ہو تو دے نہیں ہے
کیوں رد قدح کرے ہے زاہد
مے ہے یہ مگس کی قے نہیں ہے
ہستی ہے نہ کچھ عدم ہے غالبؔ
آخر تو کیا ہے کیا نہیں ہے
 
عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے
کہ اپنے سائے سے سر پانو سے ہے دو قدم آگے
قضا نے تھا مجھے چاہا خراب بادۂ الفت
فقط خراب لکھا بس نہ چل سکا قلم آگے
غم زمانہ نے جھاڑی نشاط عشق کی مستی
وگرنہ ہم بھی اٹھاتے تھے لذت الم آگے
خدا کے واسطے داد اس جنون شوق کی دینا
کہ اس کے در پہ پہنچتے ہیں نامہ بر سے ہم آگے
یہ عمر بھر جو پریشانیاں اٹھائی ہیں ہم نے
تمہارے آئیو اے طرہ ہاۓ خم بہ خم آگے
دل و جگر میں پرافشاں جو ایک موجۂ خوں ہے
ہم اپنے زعم میں سمجھے ہوئے تھے اس کو دم آگے
قسم جنازے پہ آنے کی میرے کھاتے ہیں غالبؔ
ہمیشہ کھاتے تھے جو میری جان کی قسم آگے
 
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا
تجاہل پیشگی سے مدعا کیا
کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا
نوازش ہائے بے جا دیکھتا ہوں
شکایت ہائے رنگیں کا گلہ کیا
نگاہ بے محابا چاہتا ہوں
تغافل ہائے تمکیں آزما کیا
فروغ شعلۂ خس یک نفس ہے
ہوس کو پاس ناموس وفا کیا
نفس موج محیط بے خودی ہے
تغافل ہائے ساقی کا گلہ کیا
دماغ عطر پیراہن نہیں ہے
غم آوارگی ہائے صبا کیا
دل ہر قطرہ ہے ساز انا البحر
ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا
محابا کیا ہے میں ضامن ادھر دیکھ
شہیدان نگہ کا خوں بہا کیا
سن اے غارت گر جنس وفا سن
شکست شیشۂ دل کی صدا کیا
کیا کس نے جگر داری کا دعویٰ
شکیب خاطر عاشق بھلا کیا
یہ قاتل وعدۂ صبر آزما کیوں
یہ کافر فتنۂ طاقت ربا کیا
بلائے جاں ہے غالبؔ اس کی ہر بات
عبارت کیا اشارت کیا ادا کیا
 
کب وہ سنتا ہے کہانی میری
اور پھر وہ بھی زبانی میری
خلش غمزۂ خوں ریز نہ پوچھ
دیکھ خونابہ فشانی میری
کیا بیاں کر کے مرا روئیں گے یار
مگر آشفتہ بیانی میری
ہوں زخود رفتۂ بیدائے خیال
بھول جانا ہے نشانی میری
متقابل ہے مقابل میرا
رک گیا دیکھ روانی میری
قدر سنگ سر رہ رکھتا ہوں
سخت ارزاں ہے گرانی میری
گرد باد رہ بیتابی ہوں
صرصر شوق ہے بانی میری
دہن اس کا جو نہ معلوم ہوا
کھل گئی ہیچ مدانی میری
کر دیا ضعف نے عاجز غالبؔ
ننگ پیری ہے جوانی میری
 
کیونکر اس بت سے رکھوں جان عزیز
کیا نہیں ہے مجھے ایمان عزیز
دل سے نکلا پہ نہ نکلا دل سے
ہے ترے تیر کا پیکان عزیز
تاب لائے ہی بنے گی غالبؔ
واقعہ سخت ہے اور جان عزیز
 
تپش سے میری وقف کشمکش ہر تار بستر ہے
مرا سر رنج بالیں ہے مرا تن بار بستر ہے
سرشک سر بہ صحرا دادہ نور العین دامن ہے
دل بے دست و پا افتادہ بر خوردار بستر ہے
خوشا اقبال رنجوری عیادت کو تم آئے ہو
فروغ شمع بالیں طالع بیدار بستر ہے
بہ طوفاں گاہ جوش اضطراب شام تنہائی
شعاع آفتاب صبح محشر تار بستر ہے
ابھی آتی ہے بو بالش سے اس کی زلف مشکیں کی
ہماری دید کو خواب زلیخا عار بستر ہے
کہوں کیا دل کی کیا حالت ہے ہجر یار میں غالب
کہ بیتابی سے ہر یک تار بستر خار بستر ہے
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top Bottom
Chat