Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

Poetry مرزا غالب

بزم شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
رکھیو یا رب یہ در گنجینۂ گوہر کھلا
شب ہوئی پھر انجم رخشندہ کا منظر کھلا
اس تکلف سے کہ گویا بت کدے کا در کھلا
گرچہ ہوں دیوانہ پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب
آستیں میں دشنہ پنہاں ہاتھ میں نشتر کھلا
گو نہ سمجھوں اس کی باتیں گو نہ پاؤں اس کا بھید
پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا
ہے خیال حسن میں حسن عمل کا سا خیال
خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا
منہ نہ کھلنے پر ہے وہ عالم کہ دیکھا ہی نہیں
زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے منہ پر کھلا
در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا
جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا
کیوں اندھیری ہے شب غم ہے بلاؤں کا نزول
آج ادھر ہی کو رہے گا دیدۂ اختر کھلا
کیا رہوں غربت میں خوش جب ہو حوادث کا یہ حال
نامہ لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا
اس کی امت میں ہوں میں میرے رہیں کیوں کام بند
واسطے جس شہہ کے غالبؔ گنبد بے در کھلا
 
ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب
خون جگر ودیعت مژگان یار تھا
اب میں ہوں اور ماتم یک شہر آرزو
توڑا جو تو نے آئنہ تمثال دار تھا
گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو کہ میں
جاں دادۂ ہوائے سر رہ گزار تھا
موج سراب دشت وفا کا نہ پوچھ حال
ہر ذرہ مثل جوہر تیغ آب دار تھا
کم جانتے تھے ہم بھی غم عشق کو پر اب
دیکھا تو کم ہوے پہ غم روزگار تھا
کس کا جنون دید تمنا شکار تھا
آئینہ خانہ وادی جوہر غبار تھا
کس کا خیال آئنۂ انتظار تھا
ہر برگ گل کے پردے میں دل بے قرار تھا
جوں غنچہ و گل آفت فال نظر نہ پوچھ
پیکاں سے تیرے جلوۂ زخم آشکار تھا
دیکھی وفاۓ فرصت رنج و نشاط دہر
خمیازہ یک درازی عمر خمار تھا
صبح قیامت ایک دم گرگ تھی اسدؔ
جس دشت میں وہ شوخ دو عالم شکار تھا
 
آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
قاصد کو اپنے ہاتھ سے گردن نہ ماریے
اس کی خطا نہیں ہے یہ میرا قصور تھا
ضعف جنوں کو وقت تپش در بھی دور تھا
اک گھر میں مختصر بیاباں ضرور تھا
اے وائے غفلت نگۂ شوق ورنہ یاں
ہر پارہ سنگ لخت دل کوہ طور تھا
درس تپش ہے برق کو اب جس کے نام سے
وہ دل ہے یہ کہ جس کا تخلص صبور تھا
ہر رنگ میں جلا اسدؔ فتنہ انتظار
پروانۂ تجلی شمع ظہور تھا
شاید کہ مر گیا ترے رخسار دیکھ کر
پیمانہ رات ماہ کا لبریز نور تھا
جنت ہے تیری تیغ کے کشتوں کی منتظر
جوہر سواد جلوۂ مژگان حور تھا
 
کیا بات ہے مزہ آگیا اچھی شاعری ہے
 
Boht aala or seharangez shaheri
 
Shukriya dosto
 
دکھ دے کر سوال کرتے ہو
تم بھی غالب کمال کرتے ہو

دیکھ کر پوچھ لیا حال میرا
چلو کچھ تو میرا خیال کرتے ہو

شہرِ دل میں یہ اداسیاں کیسی
یہ بھی مجھ سے سوال کرتے ہو

مرنا چاہیں تو مر نہیں سکتے
تم بھی جینا محال کرتے ہو

اب کس کس کی مثال دوں تم کو
ہر ستم بے مثال کرتے ہو​

کیا بات غالب صاحب کی
 
یہ نہیں ہو سکتا کہ ملک کو دستور سےرکھ کر محروم
بدقسمت ملک کو پہلےبقاوسلامتی سےدور کردیا جائے
پھر بےضابطہ ومن مانی آئینی اس میں ردوبدل کرکے
باقیات ملک کو بہ مطابق دستور چکناچور کردیا جائے
 
محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا
رنگ شکستہ صبح بہار نظارہ ہے
یہ وقت ہے شگفتن گل ہائے ناز کا
تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز
میں اور دکھ تری مژہ ہائے دراز کا
صرفہ ہے ضبط آہ میں میرا وگرنہ میں
طعمہ ہوں ایک ہی نفس جاں گداز کا
ہیں بسکہ جوش بادہ سے شیشے اچھل رہے
ہر گوشۂ بساط ہے سر شیشہ باز کا
کاوش کا دل کرے ہے تقاضا کہ ہے ہنوز
ناخن پہ قرض اس گرہ نیم باز کا
تاراج کاوش غم ہجراں ہوا اسدؔ
سینہ کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top Bottom
Chat