Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!
  • پریمیم ممبرشپ

    سالانہ ممبرشپ ۔۔۔۔ 95 ڈالرز

    وی آئی پی پلس ممبرشپ

    سالانہ ممبرشپ ۔۔۔۔ 7000

    وی آئی پی ممبر شپ

    تین ماہ ۔۔۔۔ 2350

    نوٹ: صرف وی آئی پی ممبرشپ 1000 ماہانہ میں دستیاب ہے

    WhatsApp رابطہ

    +1 540 569 0386

میاں ، بیوی اور نوکر

Jawad

Banned
Banned
Joined
Feb 21, 2023
Messages
28
Reaction score
374
Points
48
Location
Pakistan
Offline
میاں ، بیوی اور نوکر
اسلام اعلیکم دوستو۔ کیسے ہیں آپ سب؟ میری پچھلی کہانی "شہوت زادیوں کا سفر" کو پسند کرنے اور سراہنے کے لئے شکریہ۔ اس کہانی کے اختتام پر میں نے وعدہ کیا تھا کہ بہت جلد میں ایک اور مختصر کہانی آپ کے لئے پیش کروں گا۔ تو جناب حا ضر ہے میری اگلی مختصر کہانی "میاں، بیوی اور نوکر" کے نام سے۔ امید ہے یہ بھی آپ کو پچھلی کہانی کی طرح پسند آئے گی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ


میرا نام سلیم ہے۔ عمر 30 سال، اسلام آباد میں رہائش ہے۔ میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہوں۔ میرے والدین فوت ہو چکے ہیں۔ ابو پانچ سال پہلے فوت ہوگئے تھے جبکہ امی دو سال پہلے فوت ہوئیں ہے۔ امی ابو نے ساری عمر گاوں میں گزار دی تھی۔ وفات کے بعد ان کی تدفین بھی ہمارے گاوں میں ہی کر دی گئی تھی۔ گاوں میں میرے کچھ رشتے دار ہیں لیکین میرا ان سے کوئی میل ملاپ نہیں رہا۔ جب تک امی ابو زندہ تھے تو وہ رشتہ داریاں اورتعلق داریاں نبھاتے رہے۔ ان کے جانے کے بعد یہ سلسلہ ٹوٹ گیا۔ وجہ یہ تھی کہ میں کئی سال پہلے تعلیم کے لئے اسلام آباد آیا تھا ۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں نے یہیں پر نوکری کر لی تھی۔ اور یوں میں اسلام آباد کا ہو کر رہ گیا۔ کبھی کبھار سالوں بعد گاوں کا چکر لگ جاتا اور امی ابو سے مل لیتا تھا۔ لیکین ان کی وفات کے بعد یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا تھا۔


یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران مجھے اپنی کلاس فیلو ماہم سے محبت ہوگئی تھی۔ ڈگری مکمل ہونے کے بعد ہم دونوں نے شادی کر لی۔ میرے والدین تو چاہتے تھے کہ میں اپنے گاوں کی کسی لڑکی سے شادی کر لوں لیکین آخر کار انہوں نے میری محبت کے آگے ہتھیار ڈال دئے اور میری اور ماہم کی شادی کے لئے راضی ہو گئے۔ ماں باپ کے گزرنے کے بعد اب اس دنیا میں میری کل کائینات میری بیوی ماہم ہی تھی۔



میری بیوی ماہم اس وقت 26 سال کی ہے۔ وہ مجھ سے چار سال چھوٹی ہے۔ ماہم اسلام آباد میں پلی بڑی ماڈرن لڑکی ہے۔ اس کا باپ یورپ میں بزنس کرتا یے اور ماہم کی امی بھی یورپ میں ہی ہوتی ہے۔ ماہم کو پاکستان، خاص کر اسلام آباد میں رہنا اچھا لگتا تھا۔ اسی لئے وہ یہاں رہتی تھی۔ کبھی کبھار اپنے مام ڈیڈ سے ملنے انگلینڈ چلی جاتی تھی۔ ماہم کا بڑا بھائی جنید اپنے والد کے ساتھ ہی بزنس میں ہاتھ بٹاتا ہے۔ خوشحالی کے اثرات ماہم کے انگ انگ میں واضع تھے۔ اس پر بھرپور شباب آیا ہوا تھا، سڈول چھاتیاں، صاف شفاف رنگت، کھسی ہوئی لچکیلی گانڈ، یہ سب مل کر میری بیوی ماہم کو سیکس بم بناتے تھے۔ یونیورسٹی میں کئی لڑکے ماہم کی الہڑ جوانی کو دیکھ دیکھ کر آہیں بھرتے تھے۔ لیکین ماہم کو مجھ سے محبت ہوگئی تھی۔


پہلے پہل کلاس فیلوز کے ناتے ہماری جان پہچان بنی، پر کبھی پڑھائی تو کبھی کسی پارٹی کے بہانے ہمارا ملنا جلبا شروع ہوا، اور دیکھتے ہی دیکھتے ہماری یہ دوستے محبت میں بدل گئی۔ پڑھائی کے دو سال ہم نے بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کے تعلق میں گزارے اور پڑھائی کے بعد ہم نے شادی کر لی۔ پڑھائی کے دوران میں یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہتا تھا۔ ماہم کو اس کے ڈیڈ نے الگ فلیٹ لے کر دیا تھا جس میں وہ اکیلی رہتی تھی۔ میں اس سے ملنے اس کے فلیٹ جایا کرتا تھا اور وہیں سے ہمارا جنسی تعلق قائم ہوا۔ ماہم میرے سات انچ کے سخت اور جاندار لوڑے پر فدا ہو گئی تھی اور اس کی شہوت بجانے کے لئے میں اس کے فلیٹ جاتا رہتا تھا۔


ماہم کے جنسی شوق مجھ سے بھی زیادہ تھے۔ وہ ہر بار کچھ نیا کرنے کا مطالبہ کرتی تھی، اور میں اس کے شوق کے لئے ہر حد سے گزرتا گیا۔ اسے فیمڈم (Femdom) کا شوق تھا۔ وہ سیکس کے دوران مجھ پر حکم چلاتی تھی، مجھے گالیاں دیتی تھی، مجھے ذلیل کرتی تھی۔ ابتدا میں مجھے اس کی یہ حرکتیں نا صرف عجیب لگتی تھیں بلکہ اکثر مجھے بُری لگتی تھیں۔ لیکین محبت کے ہاتھوں مجبور میں اس کے شوق پورے کرتا تھا۔ اس کا غلام بن کر اس کی جنسی تسکین کرتا تھا۔


پھر وقت کے ساتھ ساتھ جیسے مجھے اس سب کی عادت سی ہوگئی تھی۔ اب مجھے بھی ماہم کے ہاتھوں ذلیل ہونے میں مزہ آنے لگا تھا۔ وہ مختلیف انداز اپناتی تھی۔ کبھی وہ استانی بن جاتی اور میں اس کا شاگرد اور پھر وہ مجھے سزا دیتی، اور سزا کے بہانے ہم چودائی کرتے۔ کبھی وہ لیڈی پولیس بن جاتی اور میں چور۔ ہم ایسے ہی نئے نئے انداز میں چودائی کرتے تھے۔


یہ سلسلہ شادی کے بعد بھی ایسے ہی چلتا رہا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ سہاگ رات اس وقت منائیں گے جب سب گھر والے جاچکے ہوں گے اور ہم دونوں گھر میں اکیلے ہوں۔ میری نوکری لگ چکی تھی اور ہم ایک چھوٹے مگر خوبصورت گھر میں شفٹ ہوگئے تھے۔


جس رات ہماری سہاگ رات تھی، تو اس شام کو ماہم نے مجھے ایک بند لفافہ دیا۔ میں نے اکیلے میں جا کر لفاجہ کھولا تو اس میں اس کی فینٹیسی نما فرمائش تھی کہ وہ ہماری سہاگ رات کیسے منانا چاہتی ہے۔


ماہم چاہتی تھی کہ ہماری سہاگ رات پر اس کے بجائے میں دلہن بنوں۔ میں سیج پر سج دھج کر بیٹھوں اور وہ دلہے کی طرح آ کر میرا گھنگھٹ اٹھائے اور چدائی شروع کرے۔ اس کی فرمایش سن کر مجھے اچھا لگا۔ وہ ایسے ہی ہے۔ دنیا سے ہٹ کر۔ اپنی دنیا آپ بنانے والی۔


پھر اس کی فرمائش کے مطابق میں نے زنانہ میک اپ کیا۔ ماہم نے اپنا شادی کا جوڑا اتار کر لٹکا دیا تھا۔ میں نے اسے بھی پہن لیا۔ ماہم کی جسامت مجھ سے چھوٹی تھی لیکین اس کا شادی کا جوڑا بہت بڑا تھا۔ کسی نہ کسی طرح میں نے پہن لیا۔ ماہم کی جیولری، اس کی سونے کی چوڑیاں، اس کی بالیاں اور باقی سب بھی میں نے پہن لی اور سیج پر گھونگھٹ نکال کر بیٹھ گیا۔ پر وہ آئی اور جیسے ایک دلہا دلہن کے ساتھ پیش آتا ہے وہ میرے ساتھ وہی کرتی رہی۔ تو ایسی تھی ہماری سہاگ رات۔


ہماری شادی کو کئی سال ہو چکے ہیں۔ ہم دونوں کو فلحال بچوں کی خواہش نہیں ہے اس لئے اولاد پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ابھی ہم اپنی زیندگیوں کو بھرپور انجوائے کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ہنی مون پر یورپ گئے۔ ہمارے ہنی مون کا سارا خرچ میرے سسر نے برداشت کیا۔ یورپ کے سب ملکوں میں خوب گھومے پھرے۔ نیوڈ ساحل سمندر پر بھی گئے، جہاں باقی لوگوں کی طرح ہم دونوں بھی مکمل ننگے پھرتے رہے، اور کھلے عام سیکس بھی کیا۔


فرانس کے مشہور نیوڈ بیچ پر تو یہ صورتحال تھی کہ ساحل کی ریتیلی زمین پر ایک طرف ہم دونوں سیکس کر رہے تھے تو کئی دیگر جوڑے ہمارے آس پاس چدائی میں مشغول تھے۔ سب اپنے اپنے پارٹنر میں مگن تھے۔ کسی کو کسی اور کی پروا نہیں تھی۔ ہوٹل میں بھی ہم کھلے عام سیکس کرتے تھے۔ ویٹر اور روم سروس کے لئے لڑکیاں اور لڑکے کمرے میں آتے تھے تو وہ لوگ اپنا کام کرتے اور ہم ان کے سامنے ہی اپنی چدائی جاری رکھتے۔


پاکستان واپس آنے کے بعد بھی ہمارا یہی معمول جاری رہا۔ ہم نے گھر کے کام کرنے کے لئے ایک نوکر رکھ لیا تھا جس کا نام فراز تھا۔ وہ باہر کا سودا سلف بھی لے آتا تھا اور چوکیداری بھی کرتا تھا۔ کھانا پکانے اور صفائی کے لیے ایک عورت رکھ لی تھی جو اپنا کام کر کے چلی جاتی تھی۔ لیکین فراز ہمارے ساتھ ہی رہتا تھا۔ گیٹ کےساتھ اس کے لئے ایک کمرہ موجود تھا جس میں وہ رہتا تھا۔ فراز 26 سال کا نوجوان تھا۔ اس کا تعلق سندھ سے تھا۔ رنگت تھوڑی سی سیاہ تھی لیکین انتہائی مضبوط جسم کا مالک تھا۔


ماہم کی جنسی خواہشات شادی کے بعد بھی کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی رہی۔ اسے شوق تھا کہ اسے ایک ساتھ ایک سے زیادہ مرد چودیں۔ پھر ہم نے فیصلہ کیا کہ فراز کو اپنے اس کھیل میں شامل کیا جائے۔ فراز کو اس کھیل میں شامل کرنے کی ذمہ داری ماہم نے لی۔ اس نے فراز کو اپنے جوان جسم کی طرف مائل کیا اور پھر اس نے فراز سے اپنی چوت چدوائی۔ میں چپ کر ان کی چدائی دیکھا کرتا تھا۔ کئی بار کی چدائی کے بعد ہم نے فراز کو اس پر رازی کیا کہ وہ میرے ساتھ مل کر ماہم کو چودے۔ اب اکثر میں اور فراز مل کر ماہم کی چدائی کرتے اور اس کا شوق پورا کرتے تھے۔


ایسی ہی ایک رات میں اور ماہم چدائی کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔

​​
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
Back
Top