Cute
Well-known member
Online
- Thread Author
- #1
نیہا اور علینا بہنیں تھیں۔ نیہا 18 سال کی جب کہ علینا 22 سال کی تھی۔ نیہا ایک دبلی پتلی اور خوبصورت نین نقش والی لڑکی تھی جبکہ علینا بھرے ہوئے گداز جسم کی مالک تھی۔اس کے جسم کی غضب کی تراش خراش اس کی دلکشی میں اضافہ کرتی تھی، اس کی پتلی کمر، بھاری چھاتی اور کولہے مردوں کی نگاہوں کو لبھاتے تھے۔ نیہا بھی خوبصورت تو تھی مگر اپنی بہن کی طرح اس میں وہ بےتحاشا جنسی کشش نہ تھی۔ یہ بات نیہا بڑی شدت سے محسوس کرتی تھی کہ اس کی بہن کے سراپے کے آگے اس کی تمام تر رعنائی ماند پڑ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ جو چیز دونوں میں مختلف تھی وہ تھی مزاج، سوچ اور عادات۔ نیہا کسی قدر بولڈ اور خود غرض لڑکی تھی مگر علینا خاموش طبع، نرم فطرت اور باکردار لڑکی تھی۔ اپنی اس قدر جسمانی خوبصورتی سے آگاہی کے باوجود وہ خاصی شریف لڑکی تھی۔ کسی بھی مرد کو اس نے کبھی کوئی حوصلہ افزا رسپانس نہیں دیا تھا۔ جوانی کی ابتدا سے ہی وہ مردوں کی نگاہوں میں چھپی طلب جان چکی تھی اور اس سے بچتی آئی تھی۔ نیہا خود تو خیر بہن کے جسم سے متاثر تھی ہی، جب اسے یہ پتہ چلا کہ اس کے اردگرد کا ہر لڑکا بس علینا کے ہی خواب دیکھتا ہے تو وہ حسد کرنے لگی۔
نیہا نے جوانی میں قدم رکھا تو اس نے بڑی شدت سے اپنے اندر جنسی طلب محسوس کی۔ اس کی تسکین کے لئے اس نے نیٹ پر ایسا مواد دیکھنا شروع کر دیا۔نیٹ پر وہ سب موجود ہے جو کنوریوں کو بیاہتاؤں سے زیادہ آگاہی دیتا ہے۔ مگر جلد ہی اس سے اکتا گئی اور اب خود بھی اس تجربے سے گزرنے کے لئے تڑپنے لگی۔ گھر میں دو دو جوان بیٹیوں کے ہوتے ہوئے گھر والے بےحد محتاط تھے، کوئی بھی جوان رشتہ دار یا مرد ان کے گھر نہیں آتا تھا۔ مگر چور راستے ہر جگہ ہوتے ہیں۔ ان کی ایک کزن اسی شہر میں بیاہی تھی، وہ کبھی کبھار ان سے ملنے چلی آتی۔ عام طور پر اس کے ساتھ اس کا دیور جمال ہوتا۔ جمال ایک خاصا خوش شکل اور فلرٹ قسم کا لڑکا تھا۔اس کی عمر 29 سال تک ہو گئی تھی مگر وہ ابھی تک غیرشادی شدہ تھا جس کی وجہ اس کی بری عاداتیں تھیں۔ اس کی رال علینا کو دیکھ عرصے سے ٹپک رہی تھی مگر علینا اور اس کے گھر والے دونوں ہی ایسے حالات نہ آنے دیتے کہ جمال اس پر ڈورے ڈال سکتا۔ جمال کی یہ فطرت نیہا سے چھپی نہ رہ سکی کیونکہ وہ خود اسی کشتی کی مسافر تھی۔ اس نے جمال سے راہ و رسم بڑھائے اور کسی قدر بےتکلفی قائم کر لی۔ عام حالات میں اگر نیہا ایسا کرتی تو جمال پھولا نہ سماتا مگر یہاں وہ چنبیلی کے ان کھلے پھول کی نہیں گلاب کے کھلے پھول کی آس میں تھا۔ جمال فطرتا" بزدل تھا اور اسی لئے کبھی کسی کنواری پر ہاتھ نہیں ڈالتا تھا۔ ویسے بھی وہ زیادہ تر شادی شدہ عورتوں کو اپنا نشانہ بناتا تاکہ مزہ پورا ہو، کوئی شک نہ ہو اور بچے کا باپ بننے کے لئے کوئی اور موجود ہو۔ وہ نیہا کو علینا کی بہن کے طور پر خوش کرنے لگا، مگر اس کی زیادہ تر باتیں ایسی ہوتیں جو نیہا سے علینا کی پسند نا پسند پر مبنی ہوتیں۔ بہت جلد ہی نیہا سمجھ گئی کہ وہ علینا تک پہنچنے کی سیڑھی ہے، جمال کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں۔ انھی دنوں علینا کا رشتہ طے ہوا اور چند ہی دنوں میں شادی طے ہو گئی۔ گھر میں افراتفری مچ گئی۔ جمال بھی اپنی بھابھی کے ساتھ اب قریبا" روز آنے لگا اور کئی کاموں کو نمٹانے کے بہانے بہت سا وقت ان کے بیچ بتانے لگا۔ شادی کے دن قریب آ گئے۔ گھر میں کافی مہمان اکٹھا ہو گئے جس میں لڑکیاں اور لڑکے بھی شامل تھے۔ ایک رات نیہا کسی کام سے گھر کے سٹور میں آئی تو ایک سرگوشی سے چونک گئی۔ کنواری ہونے کے باوجود وہ اتنا جانتی تھی کہ ایسی سرگوشی جنسی تعلق کے دوران ہوتی ہے۔کوئی سٹور میں سامان کے پیچھے تھا، وہ دبے پاؤں پہنچی تو دھک رہ گئی۔ سٹور کے آخری کونے میں جمال، نیہا کی کزن ریما جو جمال کی بھابھی کی چھوٹی بہن بھی تھی کے ساتھ تھا۔ ریما دیوار کی طرف منہ کئے جھکی کھڑی تھی، اس کی شلوار گھٹنوں تک اتری تھی، جمال اس کے کولہے تھامے، پیچھے سے اس کوچودرہا تھا۔ جمال کا لمبا اور موٹالن۔ڈ ریما کی کالی اور کھلی سی چو۔ت میں آرام سے جا رہا تھا۔ نیہا کے دل میں ٹیس سی اٹھی، باہر سب لڑکیاں گابجا رہی تھیں، اور 25 سالہ ریما جسے آئے دو دن نہیں ہوئے تھے، شادی شدہ ہو کر جمال سے یوں چد۔وارہی تھی۔ نیہا سمجھ گئی کہ ریما اور جمال کا یہ تعلق نیا نہیں ہے، ریما اپنی بہن کے دیور کے ساتھ بہت عرصے سے منہ کالا کر رہی ہے۔ نینا خاموشی سے لوٹ آئی۔ جمال اسے اپنے لئے ہر لحاظ سے موزوں لگا کیونکہ وہ بعد میں بھی اس کی چو۔ت مار سکتا تھا۔ رات کو سب ہنگامہ ختم ہو گیا تو نیہا نے جمال کو بلایا کہ وہاں سٹور میں آؤ کچھ کام ہے۔ جمال کوئی کام سمجھ کر آ گیا، مگر سٹور میں نیہا کے تیور دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ نیہا نے اپنے قمیض کا گریبان کھول کر قمیض سینے تک نیچے کر دی اور اپنے سینے کی لکیر جمال کے سامنے کر کے بولی:
کیا ہے ریما میں جو مجھ میں نہیں؟۔
جمال سب سمجھ گیا اور بولا:" ریما میں جو ہے وہ تم میں واقعی نہیں۔ ریما ایک بھرپور عورت کا جسم رکھتی ہے جبکہ تم ابھی بچی ہی ہو۔ اس کے علاوہ ریما اکیلی نہیں ہے، اس کے ساتھ اس کی دو دو نندیں بھی ہیں، جو میرے ساتھ مزے کرتی ہیں۔ یہ سب ریما ارینج کرتی ہے، بدلے میں میں اسے بچے دیا ہے جو اس کا شوہر نہیں دے پایا۔"
نیہا کے لئے یہ سب حیران کن تھا کہ ریما کے بچے کا باپ جمال ہے، اور اس کی دونوں شادی شدہ نندیں بھی جمال سے چد۔واتی ہیں۔ وہ خاموش رہی پھر بولی:
تم چاہتے کیا ہو۔
جمال بولا: چاہتا جو تھا وہ کسی اور کا ہو گیا ہے، تم کبھی بھی وہ جگہ نہیں پا سکتی جو علینا کی ہے۔ علینا جب تک یہاں تھی کوئی تمہاری طرف متوجہ نہیں ہوا اور جب وہ چلی جائے گی تو اس کے بعد بھی لوگ اس کا مقابلہ تم سے کریں گے اور تم ہمیشہ اسی طرح رہو گی۔ شراب کے سامنے پانی کون پیتا ہے، شراب نہ ہو تو لوگ اسے یاد کر کر مزے لیں گے مگر پانی کو نہیں چھوئیں گے۔ نینا یہ سب جانتی تھی، اس کے اندر ایک آگ جلنے لگی۔ زندگی میں پہلی بار اسے احساس ہوا کہ وہ کنواری ہو کر خود ایک مرد کو اپنا جسم دے رہی ہے مگر وہ اس کو اس کی بہن کی وجہ سے ہاتھ نہیں لگا رہا۔علینا کے دل میں نیہا کے لئے نفرت پیدا ہوئی۔ وہ سوچنے لگی کہ کیا میں اتنی گئی گزری ہوں کہ ننگی ہو کر بھی مرد کو نہ لبھا سکی۔
جمال بولا: اب کپڑے صحیح کرو اور باہر چلو، میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ تمھیں چو۔دوں گا، اگر کبھی تم اس قابل لگیں تو ٹھیک ہے تمھاری آگ بھی بجھا دونگا۔
جمال باہر کی طرف مڑا تو نیہا بولی: ٹھہرو! تمھیں علینا کو چو۔دنا ہے، ٹھیک ہے میں تمھیں علینا کی لے کر دوں گی، اس کے بعد تم مجھے ہمیشہ چو۔دتے رہو گے۔ بولو منظور۔
جمال ہکا بکا رہ گیا اور بولا:
تم لے کے دو گی مگر کیسے، پرسوں تو اس کی شادی ہے میرا مطلب۔ ۔ ۔
نیہا بولی: ہاں یا نہ۔
جمال بولا: ہاں۔ہاں بالکل
نیہا بولی: ٹھیک ہے تم پہلے مجھے ابھی چو۔دو پھر میں علینا کی کوشش کرتی ہوں۔
جمال بولا: نہیں ڈیل از ڈیل، میں تمھیں علینا کی چو۔ت مارنے کے بعد ہی چو۔دوں گا، مگر یاد رہے، یہ کام تم اپنی ذمہ داری پر کرو گی۔میں تمہارے یا تمہارے بہن کے پیٹ کا ذمہ دار نہیں ، نینا نے اپنی قمیض صحیح کی اور باہر نکل گئی۔
جب اپنا ہی دشمن ہو تو انسان کیسے بچ سکتا ہے۔ علینا کو کیا پتہ تھا، کہ اس کی سگی بہن نے اپنی چو۔ت مروانے کے لئے اس کی چو۔ت بیچ دی ہے۔ رات کو علینا کے دودھ میں نیہا نے نشہ آور گولی ملا دی اور اسی کے کمرے میں سو گئی۔ آدھی رات کو نیہا نے جمال کو کمرے میں بلا لیا۔ جمال کمرے میں آیا تو اسے علینا بےہوش پڑی نظر آئی۔
نیہا بولی: لو اب تم ساری رات اپنی من مرضی کر سکتے ہو یا کوئی شک ہے۔
جمال جو خوشی سے بےقابو ہوا جا رہا تھا، بولا: ہاں ہاں کوئی شک نہیں اور علینا کے جسم کو ٹٹولنے لگا تو نیہا نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا اور بولی: علینا یہیں ہے صبح تک، تم پہلے میری چو۔ت مارو، پھر علینا کو ہاتھ لگانا۔ جمال سمجھ گیا کہ نیہا کو چو۔دے بغیر وہ اپنی خواہش پوری نہیں کر سکتا۔ وہ بولا؛
ٹھیک ہے، مگر تم علینا کو پہلے پورا ننگا کرو، میں اسے چوموں گا مگرچوت تمہاری ماروں گا۔ تھوڑی پس و پیش کے بعد نیہا مان گئی اور علینا کا پیلا مایوں کا جوڑا اتار دیا۔ کپڑے اترتے ہی وہ جسم جو کپڑوں میں آگ لگاتا تھا آزاد ہو گیا۔ جمال دیوانگی سے اس کے موموں کو چوسنے لگا۔ نیہا نے اپنے کپڑے بھی اتار دئیے اس کا اندازہ صحیح نکلا جمال سے صبر کرنا مشکل ہو گیا۔ جمال نے جلدی سے اپنے کپڑے اتارے اور نیہا کو لیٹنے کو کہا۔ جمال اوپر لیٹ کر اس کے ہونٹوں اور گالوں کو چومنے لگا۔ جمال کا لمبالنڈجو نیہا پہلے بھی ریما کی چو۔ت میں دیکھ چکی تھی نیہا کی چو۔ت پر پڑا تھا۔ جمال نے جلد ہی لن۔ڈ ڈالنے کی کوشش کی تو نینا بولی:
ایڈیٹ میں کنواری ہوں، مجھے مارنا ہے کیا۔ جمال اس کے گورے مگر علینا کی نسبت چھوٹے موموں کو چوسنے لگا اور دل میں بینا کے موموں کا سوچنے لگا۔ تھوڑی دیر میں جمال کو بھی مزا آنے لگا۔ وہ بھی اب دل سے نیہا کو چومنے لگا۔ نینا کو جمال کےلنڈکا اپنی چو۔ت کے لبوں سے ٹکرانا اچھا لگ رہا تھا، وہ کافی انجوائے کر رہی تھی۔ نیہا کے بالکل بغل میں علینا بےہوش پڑی تھی۔ نیہا کو معلوم تھا کہ جمال علینا کی خاطر اسےچودرہا ہے۔ ایک بار وہ علینا کو چودلیتا تو شاید اپنی بات سے مکر جاتا۔ جمال نے نیہا سے کہا: اب توچوت گیلی ہو گئی ہے، اب لنڈڈالوں کیا۔ نیہا بولی: ہاں ڈالو، مگر یاد رہے جان چھڑانے کے انداز میں مت چو۔دنا۔
جمال ہنس کر بولا: میری جان ایسا چو۔دوں گا کہ یاد کرو گی، تمہیں بھی اور تمھاری بہن کو بھی۔ نینا نے اپنی ٹانگیں کھول دیں، جمال اس کی چھوٹی اور کنواری گلابی چو۔ت دیکھ کر مسکرایا اور بولا:
آج تک اتنی چھوٹی چو۔ت کبھی نہیں ماری، ہر لڑکی میری ہم عمر ہی تھی۔ بس آج دونوں مجھ سے 5 اور 9 سال چھوٹی لڑکیاں ہیں۔ مزا آجائے گا۔ جمال نےلنڈ اس کی چو۔ت پر رگڑا اور بولا: واہ آج تو خون کی ندیاں بہیں گی۔
چو۔ت کے سوراخ پرلنڈ کی ٹوپی رکھی۔ ٹوپی سوراخ سے کہیں بڑی تھی۔نینا ڈر رہی تھی، چو۔ت مروانے کے درد کا اس نے سنا تھا، آج تجربہ کرنا تھا، جبکہ جمال کا لن۔ڈ کافی بڑا تھا۔ جمال اپنا غصہ اس کی چو۔ت پر نکالتا تو کیا ہوتا۔ وہ جمال سے آرام سے ڈالنے کا بھی نہیں کہہ سکتی تھی۔ اس کی چو۔ت دیکھ کر جمال بھی ذرا پریشان ہو گیا۔ وہ کچھ بھی کرتا مگر نینا کو بہت درد ہوتا، ویسے بھی وہ اسے پوری طاقت سےچودناچاہتا تھا۔جمال بولا:
نیہا بہت درد ہو گا، چیخنا مت کوئی آ جائے گا۔ نیہا نے سر ہلا دیا۔ جمال نے اپنی انگلی سے نیہا کی چو۔ت کا بہتا پانی ذرا اکٹھا کیا، لن کی ٹوپی پر لگایا اور آرام سے لن۔ڈ گھسایا۔ لن۔ڈ گیلا ہو گیا تھا، مگر گیا نہیں، نینا بولی:
اسے میرے منہ میں دو میں اسے گیلا کرتی ہوں۔ جمال نے لن۔ڈ اس کے منہ میں ڈال دیا، وہ کسی منجھی ہوئی رنڈی کی طرح چوسنے لگی۔ لن۔ڈ اتنا بڑا تھا کہ منہ میں آدھا ہی جا سکا۔ جمال اپنے لن۔ڈ کی لمبائی پر خوش تھا مگر نیہا کا ڈر بڑھتا جا رہا تھا۔ 5 منٹ بعد بولی:
اب ڈالو۔ ٹوپی کا سرا جاتے ہی نیہا تڑپ اٹھی، درد بہت زیادہ تھا، ٹوپی کی موٹائی سےچوت کی دیواریں کھل رہی تھیں۔ نیہا نے بستر کی چادر جکڑ لی، جمال نے اس کی کمر پکڑ اور کندھے پکڑ کر زوردار جھٹکا دیا تو نیہا کی چیخ نکل گئی۔ خاموشی میں چیخ زور سے سنائی دی۔ جمال سہم گیا اور کچھ وقت انتظار کیا۔ کسی کو نہ پا کر دوبارہ نیہا کی طرف متوجہ ہوا۔ لن۔ڈ اندر چلا گیا تھا مگر تنگ چو۔ت میں لن۔ڈ پھنس گیا تھا۔جمال نے لن۔ڈ باہر کھینچا، تو خون کے چند قطرے بستر کی چادر پر ٹپک گئے۔ نیہا کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔ وہ شدید درد کے باوجود کسی طور پر چدا۔ئی سے دستبردار ہونا نہیں چاہتی تھی، جمال بھی کنواری اور کم عمر لڑکی کوچودکر خوش تھا اور مزے لے کرلنڈ کو ہلانے لگا۔ تنگ اور جوان گرم گرم چو۔ت کا مزہ اسے باقیوں سے بہت بہتر لگا۔ جمال تیزی سے نیہا کی چو۔ت میں لن۔ڈ اندر باہر کرنے لگا۔ نیہا شدید درد سے بےحال ہوئی جا رہی تھی مگر پورالنڈ اندر لئے برداشت کر رہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ یہ درد جلد ختم ہو جائے گا پھر یہی کام مزہ دے گا۔ جمال نیہا کو تکلیف دینے کے لئے اس کی ٹانگیں اٹھا کر چو۔دنے لگا۔ خون اور نیہا کی چو۔ت کا پانی مل کر ہر جھٹکے سے باہر بہتا جا رہا تھا اور ٹانگیں اٹھانے کی وجہ سےگانڈکے سوراخ کی طرف جانے لگا۔ جمال نے نینا کو موموں کو مٹھی میں پکڑا اور انھیں کے سہارےچوت مارنے لگا۔ جمال کے ہاتھوں میں نینا کے مومے پورے آگئے تھے، اور اس طرح نوچنے سے نیہا کو بہت تکلیف ہونے لگی۔ جمال اس کی تکلیف محسوس کر کے بولا:
بیٹا ! اگر چاہو تو کہہ دو میں تمہاری بہن کی چو۔ت مار لوں۔ نیہا جو درد اور تکلیف سے رونے والی ہو چکی تھی پھنسی ہوئی آواز میں بولی:
پہلے تم میری تو صحیح طرح چود ، علینا کی بات بعد میں کرنا، ابھی میں برداشت کر سکتی ہوں۔ اگر جمال اسے نہ چھیڑتا تو شاید وہ جلد ہی رو پڑتی اور لن۔ڈ نکالنے کا کہتی۔ جمال نے تکیہ رکھ کر اس کے کولہے اونچے کئے اور چو۔ت کا رخ اوپر کر لن۔ڈ گہرائی تک پہنچانے لگا۔ پہلے دو تین جھٹکوں پر نیہا درد سے چلائی مگر پھر اتنے لمبے لن۔ڈ نے چو۔ت کو آخری حد تک کھول دیا۔ جتنا درد ہونا تھا ہو چکا تھا، نیہا کی چو۔ت اب سن ہو گئی تھی اور اسے اب اچھا لگنے لگا۔ تنگ چو۔ت اور زوردار چدا۔ئی سے جمال بھی کسی حد تک فارغ ہونے کی کنڈیشن میں تھا۔ نیہا کو اب لن۔ڈ گہرائی میں اچھا لگنا لگا، وہ مزے سے چد۔وانے لگی، جبکہ جمال اب چھوٹنے والا تھا۔ نیہا کو مزا آنے لگا تو اس نے چو۔ت کو سکیڑنا شروع کر دیا، جس سے جمال کی ٹوپی زیادہ رگڑ کھانے لگی، وہ ذرا سا رکا تو نیہا نے نیچے لیٹے لیٹے چو۔ت آگے پیچھے ہلائی، اس سے پہلے کہ جمال روکتا، نیہا نے لن۔ڈ کوچوت میں زور سے بھینچا اور چو۔ت آگے پیچھے کی، جمال کا لن۔ڈ ایک جھٹکے سے چھوٹ گیا۔ جمال نے روکنے کے لئے لن باہر کھینچا مگر منی کا فوارہ نیہا کے موموں پر جا گرا۔جمال نیہا کے پہلو میں جا گرا اور گہری سانسیں لینے لگا۔ جمال کو دوبارہ لن۔ڈ کھڑا کرنے میں ایک گھنٹا لگ گیا۔ اس نے بینا کی جسم کو دیکھا، اس نے سوچا کہ بینا کی صرف چو۔ت مار دیتا ہوں باقی پھر کبھی موقع ملا تو کروں گا ابھی اتنی سکت نہیں، حرامزادی نے اپنی چو۔ت مروانے میں ساری جان نکال دی۔ نیہا کی چو۔ت پھوڑے کی طرح دکھ رہی تھی، اس نے پہلے پانی سے چو۔ت کو اچھی طرح دھویا پھر پین کلر اور مانع حمل گولی کھائی۔ نہا دھو کر بستر پر آئی تو جمال دوبارہ لن۔ڈ کو کھڑا کر چکا تھا، وہ جونہی علینا کی طرف جھکا نیہا بولی:
ٹھہرو! ابھی میں پوری طرح مطمئن نہیں ہوئی۔ جمال غصے سے پلٹا اور بولا:
سالی کتنی چوت مروائے گی۔
نیہا بھی غصے سے بولی: چیخو مت اگر میں چیخی تو مہنگا پڑے گا۔
جمال فورا" ہی سہم گیا اور بولا: دیکھو ایک بار میں اس کی چو۔ت میں بس لن۔ڈ ڈال دوں پھر تمہیں دوبارہ چو۔دتا ہوں۔
نیہا بولی: ٹھیک ہے مگر پہلے میں چوسوں گی پھر تم ڈالنا۔ نیہا نے جمال کو لن۔ڈ منہ میں لے لیا اور اسے زور سے چوسنے لگی، جمال ایک بار پھر بیوقوف بن گیا۔ نینا نے ایک ہاتھ لن۔ڈ کو پکڑ رکھا تھا اور دوسرے ہاتھ سے اس کےٹٹےاور اس نے لن۔ڈ کو اس وقت نہیں چھوڑا جب تک وہ چھٹنے کے قریب نہ ہوگیا حالانکہ جمال نے چھڑانے کی بہت کوشش کی اور جب نیہا نے چھوڑا جونہی لن۔ڈ منہ سے نکلا جمال چھوٹ گیا، ساری منی نیہا کے موموں پر گری۔ نیہا کھکھلا کر ہنس پڑی اور بولی: اب چو۔دو میری بہن کو، کیا ہوا۔
جمال کھڑا ہو گیا۔ اب وہ کم از کم آج کی رات تو بینا کو نہیں چودسکتا تھا۔ اس نے خوشامندانہ انداز میں نیہا سے کہا: کل کی رات ہے، کیوں نہ کل بھی اسی طرح۔ ۔
نیہا بولی: بس جمال، اب اور نہیں۔ تم نے علینا کی وجہ سے مجھے انکار کیا، لو میں تم سے چد۔وا بھی لیا اور اتنے پاس آ کر بھی تم علینا کی چو۔ت نہ مار سکے۔ اگر تم ایک بار مجھے چودکر کہتے تو میں خود علینا کو تم سے چدواتی ،مگر مجھے منع کر کے تم نے میری بےعزتی کی یہ اس کا بدلہ ہے۔ جمال نیہا کو گالیاں دینے لگا اور پھر مرے مرے قدموں سے باہر جانے لگا اور نیہا علینا کو کپڑے پہنانے لگی۔
نیہا نے جوانی میں قدم رکھا تو اس نے بڑی شدت سے اپنے اندر جنسی طلب محسوس کی۔ اس کی تسکین کے لئے اس نے نیٹ پر ایسا مواد دیکھنا شروع کر دیا۔نیٹ پر وہ سب موجود ہے جو کنوریوں کو بیاہتاؤں سے زیادہ آگاہی دیتا ہے۔ مگر جلد ہی اس سے اکتا گئی اور اب خود بھی اس تجربے سے گزرنے کے لئے تڑپنے لگی۔ گھر میں دو دو جوان بیٹیوں کے ہوتے ہوئے گھر والے بےحد محتاط تھے، کوئی بھی جوان رشتہ دار یا مرد ان کے گھر نہیں آتا تھا۔ مگر چور راستے ہر جگہ ہوتے ہیں۔ ان کی ایک کزن اسی شہر میں بیاہی تھی، وہ کبھی کبھار ان سے ملنے چلی آتی۔ عام طور پر اس کے ساتھ اس کا دیور جمال ہوتا۔ جمال ایک خاصا خوش شکل اور فلرٹ قسم کا لڑکا تھا۔اس کی عمر 29 سال تک ہو گئی تھی مگر وہ ابھی تک غیرشادی شدہ تھا جس کی وجہ اس کی بری عاداتیں تھیں۔ اس کی رال علینا کو دیکھ عرصے سے ٹپک رہی تھی مگر علینا اور اس کے گھر والے دونوں ہی ایسے حالات نہ آنے دیتے کہ جمال اس پر ڈورے ڈال سکتا۔ جمال کی یہ فطرت نیہا سے چھپی نہ رہ سکی کیونکہ وہ خود اسی کشتی کی مسافر تھی۔ اس نے جمال سے راہ و رسم بڑھائے اور کسی قدر بےتکلفی قائم کر لی۔ عام حالات میں اگر نیہا ایسا کرتی تو جمال پھولا نہ سماتا مگر یہاں وہ چنبیلی کے ان کھلے پھول کی نہیں گلاب کے کھلے پھول کی آس میں تھا۔ جمال فطرتا" بزدل تھا اور اسی لئے کبھی کسی کنواری پر ہاتھ نہیں ڈالتا تھا۔ ویسے بھی وہ زیادہ تر شادی شدہ عورتوں کو اپنا نشانہ بناتا تاکہ مزہ پورا ہو، کوئی شک نہ ہو اور بچے کا باپ بننے کے لئے کوئی اور موجود ہو۔ وہ نیہا کو علینا کی بہن کے طور پر خوش کرنے لگا، مگر اس کی زیادہ تر باتیں ایسی ہوتیں جو نیہا سے علینا کی پسند نا پسند پر مبنی ہوتیں۔ بہت جلد ہی نیہا سمجھ گئی کہ وہ علینا تک پہنچنے کی سیڑھی ہے، جمال کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں۔ انھی دنوں علینا کا رشتہ طے ہوا اور چند ہی دنوں میں شادی طے ہو گئی۔ گھر میں افراتفری مچ گئی۔ جمال بھی اپنی بھابھی کے ساتھ اب قریبا" روز آنے لگا اور کئی کاموں کو نمٹانے کے بہانے بہت سا وقت ان کے بیچ بتانے لگا۔ شادی کے دن قریب آ گئے۔ گھر میں کافی مہمان اکٹھا ہو گئے جس میں لڑکیاں اور لڑکے بھی شامل تھے۔ ایک رات نیہا کسی کام سے گھر کے سٹور میں آئی تو ایک سرگوشی سے چونک گئی۔ کنواری ہونے کے باوجود وہ اتنا جانتی تھی کہ ایسی سرگوشی جنسی تعلق کے دوران ہوتی ہے۔کوئی سٹور میں سامان کے پیچھے تھا، وہ دبے پاؤں پہنچی تو دھک رہ گئی۔ سٹور کے آخری کونے میں جمال، نیہا کی کزن ریما جو جمال کی بھابھی کی چھوٹی بہن بھی تھی کے ساتھ تھا۔ ریما دیوار کی طرف منہ کئے جھکی کھڑی تھی، اس کی شلوار گھٹنوں تک اتری تھی، جمال اس کے کولہے تھامے، پیچھے سے اس کوچودرہا تھا۔ جمال کا لمبا اور موٹالن۔ڈ ریما کی کالی اور کھلی سی چو۔ت میں آرام سے جا رہا تھا۔ نیہا کے دل میں ٹیس سی اٹھی، باہر سب لڑکیاں گابجا رہی تھیں، اور 25 سالہ ریما جسے آئے دو دن نہیں ہوئے تھے، شادی شدہ ہو کر جمال سے یوں چد۔وارہی تھی۔ نیہا سمجھ گئی کہ ریما اور جمال کا یہ تعلق نیا نہیں ہے، ریما اپنی بہن کے دیور کے ساتھ بہت عرصے سے منہ کالا کر رہی ہے۔ نینا خاموشی سے لوٹ آئی۔ جمال اسے اپنے لئے ہر لحاظ سے موزوں لگا کیونکہ وہ بعد میں بھی اس کی چو۔ت مار سکتا تھا۔ رات کو سب ہنگامہ ختم ہو گیا تو نیہا نے جمال کو بلایا کہ وہاں سٹور میں آؤ کچھ کام ہے۔ جمال کوئی کام سمجھ کر آ گیا، مگر سٹور میں نیہا کے تیور دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ نیہا نے اپنے قمیض کا گریبان کھول کر قمیض سینے تک نیچے کر دی اور اپنے سینے کی لکیر جمال کے سامنے کر کے بولی:
کیا ہے ریما میں جو مجھ میں نہیں؟۔
جمال سب سمجھ گیا اور بولا:" ریما میں جو ہے وہ تم میں واقعی نہیں۔ ریما ایک بھرپور عورت کا جسم رکھتی ہے جبکہ تم ابھی بچی ہی ہو۔ اس کے علاوہ ریما اکیلی نہیں ہے، اس کے ساتھ اس کی دو دو نندیں بھی ہیں، جو میرے ساتھ مزے کرتی ہیں۔ یہ سب ریما ارینج کرتی ہے، بدلے میں میں اسے بچے دیا ہے جو اس کا شوہر نہیں دے پایا۔"
نیہا کے لئے یہ سب حیران کن تھا کہ ریما کے بچے کا باپ جمال ہے، اور اس کی دونوں شادی شدہ نندیں بھی جمال سے چد۔واتی ہیں۔ وہ خاموش رہی پھر بولی:
تم چاہتے کیا ہو۔
جمال بولا: چاہتا جو تھا وہ کسی اور کا ہو گیا ہے، تم کبھی بھی وہ جگہ نہیں پا سکتی جو علینا کی ہے۔ علینا جب تک یہاں تھی کوئی تمہاری طرف متوجہ نہیں ہوا اور جب وہ چلی جائے گی تو اس کے بعد بھی لوگ اس کا مقابلہ تم سے کریں گے اور تم ہمیشہ اسی طرح رہو گی۔ شراب کے سامنے پانی کون پیتا ہے، شراب نہ ہو تو لوگ اسے یاد کر کر مزے لیں گے مگر پانی کو نہیں چھوئیں گے۔ نینا یہ سب جانتی تھی، اس کے اندر ایک آگ جلنے لگی۔ زندگی میں پہلی بار اسے احساس ہوا کہ وہ کنواری ہو کر خود ایک مرد کو اپنا جسم دے رہی ہے مگر وہ اس کو اس کی بہن کی وجہ سے ہاتھ نہیں لگا رہا۔علینا کے دل میں نیہا کے لئے نفرت پیدا ہوئی۔ وہ سوچنے لگی کہ کیا میں اتنی گئی گزری ہوں کہ ننگی ہو کر بھی مرد کو نہ لبھا سکی۔
جمال بولا: اب کپڑے صحیح کرو اور باہر چلو، میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ تمھیں چو۔دوں گا، اگر کبھی تم اس قابل لگیں تو ٹھیک ہے تمھاری آگ بھی بجھا دونگا۔
جمال باہر کی طرف مڑا تو نیہا بولی: ٹھہرو! تمھیں علینا کو چو۔دنا ہے، ٹھیک ہے میں تمھیں علینا کی لے کر دوں گی، اس کے بعد تم مجھے ہمیشہ چو۔دتے رہو گے۔ بولو منظور۔
جمال ہکا بکا رہ گیا اور بولا:
تم لے کے دو گی مگر کیسے، پرسوں تو اس کی شادی ہے میرا مطلب۔ ۔ ۔
نیہا بولی: ہاں یا نہ۔
جمال بولا: ہاں۔ہاں بالکل
نیہا بولی: ٹھیک ہے تم پہلے مجھے ابھی چو۔دو پھر میں علینا کی کوشش کرتی ہوں۔
جمال بولا: نہیں ڈیل از ڈیل، میں تمھیں علینا کی چو۔ت مارنے کے بعد ہی چو۔دوں گا، مگر یاد رہے، یہ کام تم اپنی ذمہ داری پر کرو گی۔میں تمہارے یا تمہارے بہن کے پیٹ کا ذمہ دار نہیں ، نینا نے اپنی قمیض صحیح کی اور باہر نکل گئی۔
جب اپنا ہی دشمن ہو تو انسان کیسے بچ سکتا ہے۔ علینا کو کیا پتہ تھا، کہ اس کی سگی بہن نے اپنی چو۔ت مروانے کے لئے اس کی چو۔ت بیچ دی ہے۔ رات کو علینا کے دودھ میں نیہا نے نشہ آور گولی ملا دی اور اسی کے کمرے میں سو گئی۔ آدھی رات کو نیہا نے جمال کو کمرے میں بلا لیا۔ جمال کمرے میں آیا تو اسے علینا بےہوش پڑی نظر آئی۔
نیہا بولی: لو اب تم ساری رات اپنی من مرضی کر سکتے ہو یا کوئی شک ہے۔
جمال جو خوشی سے بےقابو ہوا جا رہا تھا، بولا: ہاں ہاں کوئی شک نہیں اور علینا کے جسم کو ٹٹولنے لگا تو نیہا نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا اور بولی: علینا یہیں ہے صبح تک، تم پہلے میری چو۔ت مارو، پھر علینا کو ہاتھ لگانا۔ جمال سمجھ گیا کہ نیہا کو چو۔دے بغیر وہ اپنی خواہش پوری نہیں کر سکتا۔ وہ بولا؛
ٹھیک ہے، مگر تم علینا کو پہلے پورا ننگا کرو، میں اسے چوموں گا مگرچوت تمہاری ماروں گا۔ تھوڑی پس و پیش کے بعد نیہا مان گئی اور علینا کا پیلا مایوں کا جوڑا اتار دیا۔ کپڑے اترتے ہی وہ جسم جو کپڑوں میں آگ لگاتا تھا آزاد ہو گیا۔ جمال دیوانگی سے اس کے موموں کو چوسنے لگا۔ نیہا نے اپنے کپڑے بھی اتار دئیے اس کا اندازہ صحیح نکلا جمال سے صبر کرنا مشکل ہو گیا۔ جمال نے جلدی سے اپنے کپڑے اتارے اور نیہا کو لیٹنے کو کہا۔ جمال اوپر لیٹ کر اس کے ہونٹوں اور گالوں کو چومنے لگا۔ جمال کا لمبالنڈجو نیہا پہلے بھی ریما کی چو۔ت میں دیکھ چکی تھی نیہا کی چو۔ت پر پڑا تھا۔ جمال نے جلد ہی لن۔ڈ ڈالنے کی کوشش کی تو نینا بولی:
ایڈیٹ میں کنواری ہوں، مجھے مارنا ہے کیا۔ جمال اس کے گورے مگر علینا کی نسبت چھوٹے موموں کو چوسنے لگا اور دل میں بینا کے موموں کا سوچنے لگا۔ تھوڑی دیر میں جمال کو بھی مزا آنے لگا۔ وہ بھی اب دل سے نیہا کو چومنے لگا۔ نینا کو جمال کےلنڈکا اپنی چو۔ت کے لبوں سے ٹکرانا اچھا لگ رہا تھا، وہ کافی انجوائے کر رہی تھی۔ نیہا کے بالکل بغل میں علینا بےہوش پڑی تھی۔ نیہا کو معلوم تھا کہ جمال علینا کی خاطر اسےچودرہا ہے۔ ایک بار وہ علینا کو چودلیتا تو شاید اپنی بات سے مکر جاتا۔ جمال نے نیہا سے کہا: اب توچوت گیلی ہو گئی ہے، اب لنڈڈالوں کیا۔ نیہا بولی: ہاں ڈالو، مگر یاد رہے جان چھڑانے کے انداز میں مت چو۔دنا۔
جمال ہنس کر بولا: میری جان ایسا چو۔دوں گا کہ یاد کرو گی، تمہیں بھی اور تمھاری بہن کو بھی۔ نینا نے اپنی ٹانگیں کھول دیں، جمال اس کی چھوٹی اور کنواری گلابی چو۔ت دیکھ کر مسکرایا اور بولا:
آج تک اتنی چھوٹی چو۔ت کبھی نہیں ماری، ہر لڑکی میری ہم عمر ہی تھی۔ بس آج دونوں مجھ سے 5 اور 9 سال چھوٹی لڑکیاں ہیں۔ مزا آجائے گا۔ جمال نےلنڈ اس کی چو۔ت پر رگڑا اور بولا: واہ آج تو خون کی ندیاں بہیں گی۔
چو۔ت کے سوراخ پرلنڈ کی ٹوپی رکھی۔ ٹوپی سوراخ سے کہیں بڑی تھی۔نینا ڈر رہی تھی، چو۔ت مروانے کے درد کا اس نے سنا تھا، آج تجربہ کرنا تھا، جبکہ جمال کا لن۔ڈ کافی بڑا تھا۔ جمال اپنا غصہ اس کی چو۔ت پر نکالتا تو کیا ہوتا۔ وہ جمال سے آرام سے ڈالنے کا بھی نہیں کہہ سکتی تھی۔ اس کی چو۔ت دیکھ کر جمال بھی ذرا پریشان ہو گیا۔ وہ کچھ بھی کرتا مگر نینا کو بہت درد ہوتا، ویسے بھی وہ اسے پوری طاقت سےچودناچاہتا تھا۔جمال بولا:
نیہا بہت درد ہو گا، چیخنا مت کوئی آ جائے گا۔ نیہا نے سر ہلا دیا۔ جمال نے اپنی انگلی سے نیہا کی چو۔ت کا بہتا پانی ذرا اکٹھا کیا، لن کی ٹوپی پر لگایا اور آرام سے لن۔ڈ گھسایا۔ لن۔ڈ گیلا ہو گیا تھا، مگر گیا نہیں، نینا بولی:
اسے میرے منہ میں دو میں اسے گیلا کرتی ہوں۔ جمال نے لن۔ڈ اس کے منہ میں ڈال دیا، وہ کسی منجھی ہوئی رنڈی کی طرح چوسنے لگی۔ لن۔ڈ اتنا بڑا تھا کہ منہ میں آدھا ہی جا سکا۔ جمال اپنے لن۔ڈ کی لمبائی پر خوش تھا مگر نیہا کا ڈر بڑھتا جا رہا تھا۔ 5 منٹ بعد بولی:
اب ڈالو۔ ٹوپی کا سرا جاتے ہی نیہا تڑپ اٹھی، درد بہت زیادہ تھا، ٹوپی کی موٹائی سےچوت کی دیواریں کھل رہی تھیں۔ نیہا نے بستر کی چادر جکڑ لی، جمال نے اس کی کمر پکڑ اور کندھے پکڑ کر زوردار جھٹکا دیا تو نیہا کی چیخ نکل گئی۔ خاموشی میں چیخ زور سے سنائی دی۔ جمال سہم گیا اور کچھ وقت انتظار کیا۔ کسی کو نہ پا کر دوبارہ نیہا کی طرف متوجہ ہوا۔ لن۔ڈ اندر چلا گیا تھا مگر تنگ چو۔ت میں لن۔ڈ پھنس گیا تھا۔جمال نے لن۔ڈ باہر کھینچا، تو خون کے چند قطرے بستر کی چادر پر ٹپک گئے۔ نیہا کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔ وہ شدید درد کے باوجود کسی طور پر چدا۔ئی سے دستبردار ہونا نہیں چاہتی تھی، جمال بھی کنواری اور کم عمر لڑکی کوچودکر خوش تھا اور مزے لے کرلنڈ کو ہلانے لگا۔ تنگ اور جوان گرم گرم چو۔ت کا مزہ اسے باقیوں سے بہت بہتر لگا۔ جمال تیزی سے نیہا کی چو۔ت میں لن۔ڈ اندر باہر کرنے لگا۔ نیہا شدید درد سے بےحال ہوئی جا رہی تھی مگر پورالنڈ اندر لئے برداشت کر رہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ یہ درد جلد ختم ہو جائے گا پھر یہی کام مزہ دے گا۔ جمال نیہا کو تکلیف دینے کے لئے اس کی ٹانگیں اٹھا کر چو۔دنے لگا۔ خون اور نیہا کی چو۔ت کا پانی مل کر ہر جھٹکے سے باہر بہتا جا رہا تھا اور ٹانگیں اٹھانے کی وجہ سےگانڈکے سوراخ کی طرف جانے لگا۔ جمال نے نینا کو موموں کو مٹھی میں پکڑا اور انھیں کے سہارےچوت مارنے لگا۔ جمال کے ہاتھوں میں نینا کے مومے پورے آگئے تھے، اور اس طرح نوچنے سے نیہا کو بہت تکلیف ہونے لگی۔ جمال اس کی تکلیف محسوس کر کے بولا:
بیٹا ! اگر چاہو تو کہہ دو میں تمہاری بہن کی چو۔ت مار لوں۔ نیہا جو درد اور تکلیف سے رونے والی ہو چکی تھی پھنسی ہوئی آواز میں بولی:
پہلے تم میری تو صحیح طرح چود ، علینا کی بات بعد میں کرنا، ابھی میں برداشت کر سکتی ہوں۔ اگر جمال اسے نہ چھیڑتا تو شاید وہ جلد ہی رو پڑتی اور لن۔ڈ نکالنے کا کہتی۔ جمال نے تکیہ رکھ کر اس کے کولہے اونچے کئے اور چو۔ت کا رخ اوپر کر لن۔ڈ گہرائی تک پہنچانے لگا۔ پہلے دو تین جھٹکوں پر نیہا درد سے چلائی مگر پھر اتنے لمبے لن۔ڈ نے چو۔ت کو آخری حد تک کھول دیا۔ جتنا درد ہونا تھا ہو چکا تھا، نیہا کی چو۔ت اب سن ہو گئی تھی اور اسے اب اچھا لگنے لگا۔ تنگ چو۔ت اور زوردار چدا۔ئی سے جمال بھی کسی حد تک فارغ ہونے کی کنڈیشن میں تھا۔ نیہا کو اب لن۔ڈ گہرائی میں اچھا لگنا لگا، وہ مزے سے چد۔وانے لگی، جبکہ جمال اب چھوٹنے والا تھا۔ نیہا کو مزا آنے لگا تو اس نے چو۔ت کو سکیڑنا شروع کر دیا، جس سے جمال کی ٹوپی زیادہ رگڑ کھانے لگی، وہ ذرا سا رکا تو نیہا نے نیچے لیٹے لیٹے چو۔ت آگے پیچھے ہلائی، اس سے پہلے کہ جمال روکتا، نیہا نے لن۔ڈ کوچوت میں زور سے بھینچا اور چو۔ت آگے پیچھے کی، جمال کا لن۔ڈ ایک جھٹکے سے چھوٹ گیا۔ جمال نے روکنے کے لئے لن باہر کھینچا مگر منی کا فوارہ نیہا کے موموں پر جا گرا۔جمال نیہا کے پہلو میں جا گرا اور گہری سانسیں لینے لگا۔ جمال کو دوبارہ لن۔ڈ کھڑا کرنے میں ایک گھنٹا لگ گیا۔ اس نے بینا کی جسم کو دیکھا، اس نے سوچا کہ بینا کی صرف چو۔ت مار دیتا ہوں باقی پھر کبھی موقع ملا تو کروں گا ابھی اتنی سکت نہیں، حرامزادی نے اپنی چو۔ت مروانے میں ساری جان نکال دی۔ نیہا کی چو۔ت پھوڑے کی طرح دکھ رہی تھی، اس نے پہلے پانی سے چو۔ت کو اچھی طرح دھویا پھر پین کلر اور مانع حمل گولی کھائی۔ نہا دھو کر بستر پر آئی تو جمال دوبارہ لن۔ڈ کو کھڑا کر چکا تھا، وہ جونہی علینا کی طرف جھکا نیہا بولی:
ٹھہرو! ابھی میں پوری طرح مطمئن نہیں ہوئی۔ جمال غصے سے پلٹا اور بولا:
سالی کتنی چوت مروائے گی۔
نیہا بھی غصے سے بولی: چیخو مت اگر میں چیخی تو مہنگا پڑے گا۔
جمال فورا" ہی سہم گیا اور بولا: دیکھو ایک بار میں اس کی چو۔ت میں بس لن۔ڈ ڈال دوں پھر تمہیں دوبارہ چو۔دتا ہوں۔
نیہا بولی: ٹھیک ہے مگر پہلے میں چوسوں گی پھر تم ڈالنا۔ نیہا نے جمال کو لن۔ڈ منہ میں لے لیا اور اسے زور سے چوسنے لگی، جمال ایک بار پھر بیوقوف بن گیا۔ نینا نے ایک ہاتھ لن۔ڈ کو پکڑ رکھا تھا اور دوسرے ہاتھ سے اس کےٹٹےاور اس نے لن۔ڈ کو اس وقت نہیں چھوڑا جب تک وہ چھٹنے کے قریب نہ ہوگیا حالانکہ جمال نے چھڑانے کی بہت کوشش کی اور جب نیہا نے چھوڑا جونہی لن۔ڈ منہ سے نکلا جمال چھوٹ گیا، ساری منی نیہا کے موموں پر گری۔ نیہا کھکھلا کر ہنس پڑی اور بولی: اب چو۔دو میری بہن کو، کیا ہوا۔
جمال کھڑا ہو گیا۔ اب وہ کم از کم آج کی رات تو بینا کو نہیں چودسکتا تھا۔ اس نے خوشامندانہ انداز میں نیہا سے کہا: کل کی رات ہے، کیوں نہ کل بھی اسی طرح۔ ۔
نیہا بولی: بس جمال، اب اور نہیں۔ تم نے علینا کی وجہ سے مجھے انکار کیا، لو میں تم سے چد۔وا بھی لیا اور اتنے پاس آ کر بھی تم علینا کی چو۔ت نہ مار سکے۔ اگر تم ایک بار مجھے چودکر کہتے تو میں خود علینا کو تم سے چدواتی ،مگر مجھے منع کر کے تم نے میری بےعزتی کی یہ اس کا بدلہ ہے۔ جمال نیہا کو گالیاں دینے لگا اور پھر مرے مرے قدموں سے باہر جانے لگا اور نیہا علینا کو کپڑے پہنانے لگی۔