Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

ن م راشد

"آپ" کے چہرے - از ن م راشد

"آپ" ہم جس کے قصیدہ خواں ہیں
وصل البتّہ و لیکن کے سوا
اور نہیں
"آپ" ہم مرثیہ خواں ہیں جس کے
ہجر البتّہ و لیکن کے سوا اور نہیں
"آپ" دو چہروں کی ناگن کے سوا اور نہیں!

روز "البتّہ" مرے ساتھ
پرندوں کی سحر جاگتے ارمانوں
کے بستر سے اٹھا
سیر کی، غسل کیا
اور مرے ساتھ ہی صبحانہ کیا،
بے سرے گیت بھی گائے ۔۔۔۔۔۔۔۔

یونہی "لیکن" بھی مرے ساتھ
کسی بوڑھے جہاں گرد کے مانند
لڑھکتا رہا، لنگڑاتا رہا ۔۔۔۔۔۔
شام ہوتے ہی وہ ان خوف کے پتلوں کی طرح
جو زمانے سے، کسی شہر میں مدفون چلے آتے ہوں
ناگہاں نیندوں کی الماری میں پھر ڈھیر ہوئے
ان کے خرّانٹوں نے شب بھی مجھے سونے نہ دیا ۔۔۔
"آپ" البتّہ و لیکن کے سوا اور نہیں

بارہا ایک ہی وہ چہرہ ۔۔۔۔ وہ "البتّہ"
جسے جانتے ہو
دن کی بیہودہ تگ و تاز میں،
یا شور کے ہنگام ِمن و توئی میں
نوحہ گر ہوتا ہے "لیکن" پہ کہ موجود نہیں

بارہا ایک ہی وہ چہرہ ۔۔۔۔۔ وہ "لیکن"
جسے پہچانتے ہو
اپنے سنّاٹے کے بالینوں پر
اپنی تنہائی کے آئینوں میں
آپ ہی جھولتا ہے
قہقہے چیختا ہے
اپنے البتہ کی حالت پہ کہ موجود نہیں ۔۔۔۔۔۔

آؤ، البتّہ و لیکن کو
کہیں ڈھونڈ نکالیں پھر سے
ان کے بستر پہ نئے پھول بچھائیں
جب وہ وصل پہ آمادہ نظر آئیں
تو (ہم آپ) کسی گوشے میں چپ چاپ سرک جائیں!​
 
چلا آ رہا ہوں سمندروں کے وصال سے - از ن م راشد


چلا آ رہا ہوں سمندروں کے وصال سے
کئ لذّتوں کا ستم لئے
جو سمندروں کے فسوں میں ہیں
مرا ذہن ہے وہ صنم لیے
وہی ریگ زار ہے سامنے
وہی ریگ زار کہ جس میں عشق کے آئینے
کسی دست غیب سے ٹوٹ کر
رہ تار جاں میں بکھر گئے!
ابھی آ رہا ہوں سمندروں کی مہک لیے
وہ تھپک لیے جو سمندروں کی نسیم میں
ہے ہزار رنگ سے خواب ہائے خنک لیے
چلا آرہا ہوں سمندروں کا نمک لیے

یہ برہنگی عظیم تیری دکھاؤں میں
(جو گدا گری کا بہانہ ہے)
کوئی راہرو ہو تو اس سے راہ کی داستاں
میں سنوں، فسانہ سمندروں کا سناؤں میں
(کہ سمندروں کا فسانہ عشق کی گسترش کا فسانہ ہے)

یہ برہنگی جسے دیکھ کر بڑہیں دست و پا، نہ کھلے زباں
نہ خیال ہی میں رہے تواں
تو وہ ریگ زار کہ جیسے رہزن پیر ہو
جسے تاب راہزنی نہ ہو
کہ مثال طائر نیم جاں
جسے یاد بال و پری نہ ہو
کسی راہرو سے امّید رحم و کرم لیے
میں بھرا ہوا ہوں سمندروں کے جلال سے
چلا آرہا ہوں میں ساحلوں کا حشم لیے
ھے ابھی انہی کی طرف مرا در ِدل کھلا
کہ نسیم خندہ کو رہ ملے
مری تیرگی کو نگہ ملے
وہ سرور و سوز صدف ابھی مجھے یاد ہے
ابھی چاٹتی ہے سمندروں کی زباں مجھے
مرے پاؤں چھو کے نکل گئ کوئی موج ساز بکف ابھی
وہ حلاوتیں مرے ہست و بود میں بھر گئ
وہ جزیرے جن کے افق ہجوم سحر سے دید بہار تھے
وہ پرندے اپنی طلب میں جو سر کار تھے
وہ پرندے جن کی صفیر میں تھیں رسالتیں
ابھی اس صفیر کی جلوتیں مرے خوں میں ہیں
ابھی ذہن ہے وہ صنم لیے
جو سمندروں کے فسوں میں ہے
چلا آ رھا ہوں سمندروں کے جمال سے
صدف و کنار کا غم لیے​
 
اظہار اور رسائی -- از ن م راشد

مو قلم، ساز، گل تازہ، تھرکتے پاؤں
بات کہنے کے بہانے ہیں بہت

آدمی کس سے مگر بات کرئے

بات جب حیلہء تقریب ملاقات نہ ہو
اور رسائی کہ ھمیشہ سے ھے کوتاہ کمند
بات کی غایت غایات نہ ہو!

ایک ذرّہ کف خاکستر کا
شرر جستہ کے مانند کبھی
کسی انجانی تمنّا کی خلش سے مسرور
اپنے سینے کے دہکتے ھوئے تنّور کی لو سے مجبور
ایک ذرّہ کہ ہمیشہ سے ھے خود سے مہجور،
کبھی نیرنگ صدا بن کے جھلک اٹھتا ہے
آب و رنگ و خط و محراب کا پیوند کبھی
اور بنتا ھے معانی کا خداوند کبھی
وہ خداوند جو پابستہ آنات نہ ہو!

اسے اک ذرّے کی تابانی سے
کسی سوئے ہوئے رقّاص کے دست و پا میں
کانپ اٹھتے ہیں مہ و سال کے نیلے گرداب
اسی اک ذرّے کی حیرانی سے
شعر بن جاتے ہیں اک کوزہ گر پیر کے خواب
اسے اک ذرّہ لا فانی سے
خشت بے مایہ کو ملتا ھے دوام
بام و در کو وہ سحر جس کی کبھی رات نہ ہو!
آدمی کس سے مگر بات کرئے

مو قلم، ساز، گل تازہ، تھرکتے پاؤں
آدمی سوچتا رہ جاتا ہے،
اس قدر بار کہاں، کس کے لیے، کیسے اٹھاؤں
اور پھر کس کے لیے بات کروں​
 
حَسَن کوزہ گر- 1 -- از ن م راشد

جہاں زاد، نیچے گلی میں ترے در کے آگے
یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ہوں!
تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطّار یوسف
کی دکّان پر میں نے دیکھا
تو تیری نگاہوں میں وہ تابناکی
تھی میں جس کی حسرت میں نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں
جہاں زاد، نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں!
یہ وہ دور تھا جس میں میں نے
کبھی اپنے رنجور کوزوں کی جانب
پلٹ کر نہ دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کوزے مرے دست چابک کے پتلے
گل و رنگ و روغن کی مخلوق بے جاں
وہ سر گوشیوں میں یہ کہتے
"حسن کوزہ گر اب کہاں ھے
وہ ہم سے خود اپنے عمل سے
خداوند بن کر خداؤں کے مانند ہے روئے گرداں!"
جہاں زاد نو سال کا دور یوں مجھ پہ گزرا
کہ جیسے کسی شہر مدفون پر وقت گزرے
تغاروں میں مٹی
کبھی جس کی خوشبو سے وارفتہ ہوتا تھا میں
سنگ بستہ پڑی تھی
صراحی و مینا و جام و سبو اور فانوس و گلداں
مری ہیچ مایہ معیشت کے، اظہار فن کے سہارے
شکستہ پڑے تھے

میں خود، میں حسن کوزہ گر پا بہ گِل خاک بر سر برہنہ
سر چاک ژولیدہ مو، سر بزانو
کسی غمزدہ دیوتا کی طرح واہمہ کے
گل و لا سے خوابوں کے سیّال کوزے بناتا رہا تھا
جہاں زاد، نو سال پہلے
تو ناداں تھی لیکن تجھے یہ خبر تھی
کہ میں نے، حسن کوزہ گر نے
تری قاف کی سی افق تاب آنکھوں
میں دیکھی ھے وہ تابناکی
کہ جس سے مرے جسم و جاں، ابرو مہتاب کا
رہگزر بن گئے تھے
جہاں زاد بغداد کی خواب گوں رات
وہ رود دجلہ کا ساحل
وہ کشتی وہ ملّاح کی بند آنکھیں
کسی خستہ جاں رنج بر کوزہ گر کے لیے
ایک ہی رات وہ کہربا تھی
کہ جس سے ابھی تک ھے پیوست اسکا وجود
اس کی جاں اس کا پیکر
مگر ایک ہی رات کا ذوق دریا کی وہ لہر نکلا
حسن کوزہ گر جس میں ڈوبا تو ابھرا نہیں ہے!
جہاں زاد اس دور میں روز، ہر روز
وہ سوختہ بخت آکر
مجھے دیکھتی چاک پر پا بہ گِل سر بزانو
تو شانوں سے مجھ کو ہلاتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(وہی چاک جو سالہا سال جینے کا تنہا سہارا رہا تھا!)
وہ شانوں سے مجھ کو ہلاتی
حسن کوزہ گر ہوش میں آ"
حسن اپنے ویران گھر پر نظر کر
یہ بچّوں کے تنّور کیونکر بھریں گے
حسن، اے محبّت کے مارے
محبّت امیروں کی بازی،
"حسن، اپنے دیوار و در پر نظر کر
مرے کان میں یہ نوائے حزیں یوں تھی جیسے
کسی ڈوبتے شخص کو زیرگرداب کوئی پکارے!
وہ اشکوں کے انبار پھولوں کے انبار تھے ہاں
مگر میں حسن کوزہ گر شہر اوہام کے ان
خرابوں کا مجذوب تھا جن
میں کوئی صدا کوئی جنبش
کسی مرغ پرّاں کا سایہ
کسی زندگی کا نشاں تک نہیں تھا!

جہاں زاد، میں آج تیری گلی میں
یہاں رات کی سرد گوں تیرگی میں
ترے در کے آگے کھڑا ہوں
سرد مو پریشاں
دریچے سے وہ قاف کی سی طلسمی نگاہیں
مجھے آج پھر جھانکتی ہیں
زمانہ، جہاں زاد وہ چاک ہے جس پہ مینا و جام و سبو
اور فانوس و گلداں
کے مانند بنتے بگڑتے ہیں انساں
میں انساں ہوں لیکن
یہ نو سال جو غم کے قالب میں گزرے!
حسن کوزہ گر آج اک تودہ ِخاک ہے جس
میں نم کا اثر تک نہیں ہے
جہاں زاد بازار میں صبح عطّار یوسف
کی دکّان پر تیری آنکھیں
پھر اک بار کچھ کہہ گئی ہیں
ان آنکھوں کی تابندہ شوخی
سے اٹھی ہے پھر تودہ خاک میں نم کی ہلکی سی لرزش
یہی شاید اس خاک کو گِل بنا دے!

تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ھے جہاں زاد لیکن
تو چاھے تو بن جاؤں میں پھر
وہی کوزہ گر جس کے کوزے
تھے ھر کاخ و کو اور ہر شہر و قریہ کی نازش
تھے جن سے امیر و گدا کے مساکن درخشاں

تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن
تو چاھے تو میں پھر پلٹ جاؤں ان اپنے مہجور کوزوں کی جانب
گل و لا کے سوکھے تغاروں کی جانب
معیشت کے اظہار ِ فن کے سہاروں کی جانب
کہ میں اس گل و لا سے ، اس رنگ و روغن
سے پھر وہ شرارے نکالوں کہ جن سے
دلوں کے خرابے ھوں روشن!​
 
شاعر ِ درماندہ - از ن م راشد

زندگی تیرے لیے بستر ِ سنجاب و سمور
اور میرے لیے افرنگ کی دریوزہ گری
عافیت کوشئ آبا کے طفیل،
میں ہوں درماندہ و بے چارہ ادیب
خستہء فکر ِ معاش!
پارہء نان ِ جویں کے لیے محتاج ہیں ہم
میں، مرے دوست، مرے سینکڑوں ارباب وطن
یعنی افرنگ کے گلزاروں کے پھول!
تجھے اک شاعر درماندہ کی امّید نہ تھی
مجھ سے جس روز ستارہ ترا وابستہ ہوا
تو سمجھتی تھی کہ اک روز مرا ذہن رسا
اور مرے علم و ہنر
بحر و بر سے تری زینت کو گہر لائیں گے!
مرے رستے میں جو حائل ہوں مرے تیرہ نصیب
کیوں دعائیں تری بے کار نہ جائیں
تیرے راتوں کے سجود اور نیاز
(اس کا باعث مرا الحاد بھی ہے !)

اے مری شمع شبستان ِ وفا،
بھول جا میرے لیے
زندگی خواب کی آسودہ فراموشی ہے!
تجھے معلوم ہے مشرق کا خدا کوئی نہیں
اور اگر ہے، تو سرا پردہء نسیان میں ہے
تو "مسرّت" ہے مری، تو مری "بیداری" ہے
مجھے آغوش میں لے
دو "انا" مل کے جہاں سوز بنیں
اور جس عہد کی ہے تجھ کو دعاؤں میں تلاش
آپ ہی آپ ہویدا ہو جائے!​
 
بیکراں رات کے سنّاٹے میں - از ن م راشد


تیرے بستر پہ مری جان کبھی
بیکراں رات کے سنّاٹے میں
جذبہء شوق سے ہو جاتے ہیں اعضا مدہوش
اور لذّت کی گراں باری سے
ذہن بن جاتا ہے دلدل کسی ویرانے کی
اور کہیں اس کے قریب
نیند، آغاز ِ زمستاں کے پرندے کی طرح
خوف دل میں کسی موہوم شکاری کے لیے
اپنے پر تولتی ہے، چیختی ہے
بیکراں رات کے سنّاٹے میں!

تیرے بستر پہ مری جان کبھی
آرزوئیں ترے سینے کے کہستانوں میں
ظلم سہتے ہوئے حبشی کی طرح رینگتی ہیں!

ایک لمحے کے لیے دل میں خیال آتا ہے
تو مری جان نہیں
بلکہ ساحل کے کسی شہر کی دوشیزہ ہے
اور ترے ملک کے دشمن کا سپاہی ہوں مَیں
ایک مدّت سے جسے ایسی کوئی شب نہ ملی
کہ ذرا روح کو اپنی وہ سبک بار کرے!
بے پناہ عیش کے ہیجان کا ارماں لے کر
اپنے دستے سے کئی روز سے مفرور ہوں مَیں!
یہ مرے دل میں خیال آتا ہے
تیرے بستر پہ مری جان کبھی
بیکراں رات کے سنّاٹے میں!​
 

میں اسے واقف الفت نہ کروں - از ن م راشد

سوچتا ہوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ
میں ابھی اس کو شناسائے محبت نہ کروں
روح کو اس کی اسیر ِغم ِالفت نہ کروں
اس کو رسوا نہ کروں، وقفِ مصیبت نہ کروں

سوچتا ہوں کہ ابھی رنج سے آزاد ہے وہ
واقفِ درد نہیں، خوگر ِآلام نہیں
سحر عیش میں اس کی اثر ِشام نہیں
زندگی اس کے لیے زہر بھرا جام نہیں!

سوچتا ہوں کہ محبّت ہے جوانی کی خزاں
اس نے دیکھا نہیں دنیا میں بہاروں کے سوا
نکہت و نور سے لبریز نظاروں کے سوا
سبزہ زاروں کے سوا اور ستاروں کے سوا

سوچتا ھوں کہ غم ِدل نہ سناؤں اس کو
سامنے اس کے کبھی راز کو عریاں نہ کرو
خلش دل سے اسے دست و گریباں نہ کروں
اس کے جذبات کو میں شعلہ بداماں نہ کروں

سوچتا ھوں کہ جلا دے گی محبّت اس کو
وہ محبت کی بھلا تاب کہاں لائے گی
خود تو وہ آتش جذبات میں جل جائے گی
اور دنیا کو اس انجام پہ تڑپائے گی
سوچتا ھوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ
میں اسے واقف الفت نہ کروں ______​
 
بات کر -- از ن م راشد

بات کر مجھ سے
مجھے چہرہ دکھا میرا کہ ہے
تیری آنکھوں کی تمازت ہی سے وہ جھلسا ہوا

بات کر مجھ سے
مرے رخ سے ہٹا پردہ
کہ جس پر ہے ریا کاری کے رنگوں کی دھنک
پھیلی ہوئی
وہ دھنک جو آرزو مندی کا آیئنہ نہیں
بامداد شوق کا زینہ نہیں!

(تو نے دیکھا تھا کہ کل میں (اک گداگر
صبح کی دیوار کے سائے تلے
ٹھٹھرا ہوا پایا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیری آنکھیں، تیرے لب تکتے رہے
ان کی گرمی پر یقیں کیسے مجھے آتا کہ میں
اپنے دل کے حادثوں کی تہہ میں تھا
یادوں سے غزلایا ہوا!

بات کر مجھ سے
کہ اب شب کے سحر بننے میں
کوئی فاصلہ باقی نہیں

بات کر مجھ سے کہ تیری بات
خطّ نسخ ہو بر روئے مرگ
اب اتر جا چشم و گوش و لب کے پار
اجڑے شہروں کی گزرگاہوں پہ
آوازوں کی قندیلیں اتار

راز کی لہریں
ابھر آئیں قطار اندر قطار!​
 
حَسَن کوزہ گر (٢)

حَسَن کوزہ گر (٢)

اے جہاں زاد،
نشاط اس شبِ بے راہ روی کی
میں کہاں تک بھولوں؟
زور ِ مَے تھا، کہ مرے ہاتھ کی لرزش تھی
کہ اس رات کوئی جام گرا ٹوٹ گیا _____

تجھے حیرت نہ ہوئی!
کہ ترے گھر کے دریچوں کے کئ شیشوں پر
اس سے پہلے کی بھی درزیں تھیں بہت __
تجھے حیرت نہ ہوئی!

اے جہاں زاد،
میں کوزوں کی طرف، اپنے تغاروں کی طرف
اب جو بغداد سے لوٹا ہوں،
تو مَیں سوچتا ہوں _____
سوچتا ہوں: تو مرے سامنے آئینہ رہی
سر ِ بازار، دریچے میں، سر ِبستر ِ سنجاب کبھی
تو مرے سامنے آئینہ رہی،
جس میں کچھ بھی نظر آیا نہ مجھے
اپنی ہی صورت کے سوا
اپنی تنہائی ِ جانکاہ کی دہشت کے سوا!
لکھ رہا ہوں تجھے خط
اور وہ آئینہ مرے ہاتھ میں ہے
اِس میں کچھ بھی نظر آتا نہیں
اب ایک ہی صورت کے سوا!
لکھ رہا ہوں تجھے خط
اور مجھے لکھنا بھی کہاں آتا ہے؟
لوح آئینہ پہ اشکوں کی پھواروں ہی سے
خط کیوں نہ لکھوں؟

اے جہاں زاد،
نشاط اس شبِ بے راہ روی کی
مجھے پھر لائے گی؟
وقت کیا چیز ہے تو جانتی ہے؟
وقت اِک ایسا پتنگا ہے
جو دیواروں پہ آئینوں پہ،
پیمانوں پہ شیشوں پہ،
مرے جام و سبو، میرے تغاروں پہ
سدا رینگتا ہے

رینگتے وقت کے مانند کبھی
لوٹ آئے گا حَسَن کوزہ گر ِ سوختہ جاں بھی شاید!

اب جو لوٹا ہوں جہاں زاد،
تو میں سوچتا ہوں:
شاید اس جھونپڑے کی چھت پہ یہ مکڑی مری محرومی کی___
جسے تنتی چلی جاتی ہے، وہ جالا تو نہیں ہوں مَیں بھی؟
یہ سیہ جھونپڑا مَیں جس میں پڑا سوچتا ہوں
میرے افلاس کے روندے ہوئے اجداد کی
بس ایک نشانی ہے یہی
ان کے فن، ان کی معیشت کی کہانی ہے یہی
مَیں جو لوٹا ہوں تو وہ سوختہ بخت
آکے مجھے دیکھتی ہے
دیر تک دیکھتی رہ جاتی ہے
میرے اس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں ____
کھیل اِک سادہ محبّت کا
شب و روز کے اِس بڑھتے ہوئے کھوکلے پن میں جو کبھی
کھیلتے ہیں
کبھی رو لیتے ہیں مل کر، کبھی گا لیتے ہیں،
اور مل کر کبھی ہنس لیتے ہیں
دل کے جینے کے بہانے کے سوا ___
حرف سرحد ہیں، جہاں زاد، معانی سرحد
عشق سرحد ہے، جوانی سرحد
اشک سرحد ہیں، تبسّم کی روانی سرحد
دل کے جینے کے بہانے کے سوا اور نہیں ____
(دردِ محرومی کی،
تنہائی کی سرحد بھی کہیں ہے کہ نہیں؟)

میرے اِس جھونپڑے میں کتنی ہی خوشبوئیں ہیں
جو مرے گرد سدا رینگتی ہیں
اسی اِک رات کی خوشبو کی طرح رینگتی ہیں ____
در و دیوار سے لپٹی ہوئی اِس گرد کی خوشبو بھی ہے
میرے افلاس کی، تنہائی کی،
یادوں، تمنّاؤں کی خوشبو ئیں بھی،
پھر بھی اِس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں ___
یہ مرا جھونپڑا تاریک ہے، گندہ ہے، پراگندہ ہے
ہاں، کبھی دور درختوں سے پرندوں کے صدا آتی ہے
کبھی انجیروں کے، زیتونوں کے باغوں کی مہک آتی ہے
تو مَیں جی اٹھتا ہوں
تو مَیں کہتا ہوں کہ لو آج نہا کر نکلا!
ورنہ اِس گھر میں کوئی سیج نہیں، عطر نہیں ہے،
کوئی پنکھا بھی نہیں،
تجھے جس عشق کی خو ہے
مجھے اس عشق کا یارا بھی نہیں!

تو ہنسے گی، اے جہاں زاد، عجب بات
کہ جذبات کا حاتم بھی مَیں
اور اشیا کا پرستار بھی مَیں
اور ثروت جو نہیں اس کا طلب گار بھی مَیں!
تو جو ہنستی رہی اس رات تذبذب پہ مرے
میری دو رنگی پہ پھر سے ہنس دے!
عشق سے کس نے مگر پایا ہے کچھ اپنے سوا؟
اے جہاں زاد،
ہے ہر عشق سوال ایسا کہ عاشق کے سوا
اس کا نہیں کوئی جواب
یہی کافی ہے کہ باطن کے صدا گونج اٹھے!

اے جہاں زاد
مرے گوشہء باطن کی صدا ہی تھی
مرے فن کی ٹھٹھرتی ہوئی صدیوں
کے کنارے گونجی
تیری آنکھوں کے سمندر کا کنارا ہی تھا
صدیوں کا کنارا نکلا
یہ سمندر جو مری ذات کا آئینہ ہے
یہ سمندر جو مرے کوزوں کے بگڑے ہوئے،
بنتے ہوئے سیماؤں کا آئینہ ہے
یہ سمندر جو ہر اِک فن کا
ہر اِک فن کے پرستار کا
آئینہ ہے​
 
Boht behtareen pehli bar in ki shaheri phar raha hun boht aala or manikhez
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top
Chat