Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

ن م راشد

Buht hi alag aur lajwab poetry ha
pehli dafa parhi ha bht hi hat k shaer o shairi ha
 
حَسَن کوزہ گر (٣)

جہاں زاد،
وہ حلب کی کارواں سرا کا حوض، رات وہ سکوت
جس میں ایک دوسرے سے ہم کنار تیرتے رہے
محیط جس طرح ہو دائرے کے گرد حلقہ زن
تمام رات تیرتے رہے تھے ہم
ہم ایک دوسرے کے جسم و جاں سے لگ کے
تیرتے رہے تھے ایک شاد کام خوف سے
کہ جیسے پانی آنسوؤں میں تیرتا رہے

ہم ایک دوسرے سے مطمئن زوالِ عمر کے خلاف
تیَرتے رہے
تو کہہ اٹھی؛ “حَسَن یہاں بھی کھینچ لائی
جاں کی تشنگی تجھے!“
(لو اپنی جاں کی تشنگی کو یاد کر رہا تھا مَیں
کہ میرا حلق آنسوؤں کی بے بہا سخاوتوں
سے شاد کام ہو گیا!)
مگر یہ وہم دل میں تَیرنے لگا کہ ہو نہ ہو
مرا بدن کہیں حلب کے حوض ہی میں رہ گیا ___
نہیں، مجھے دوئی کا واہمہ نہیں
کہ اب بھی ربطِ جسم و جاں کا اعتبار ہے مجھے
یہی وہ اعتبار تھا
کہ جس نے مجھ کو آپ میں سمو دیا ___
مَیں سب سے پہلے “آپ“ ہُوں
اگر ہمیں ہوں ___ تُو ہو او مَیں ہوں ___ پھر بھی مَیں
ہر ایک شے سے پہلے آپ ہوں!
اگر مَیں زندہ ہوں تو کیسے “آپ“ سے دغا کروں؟
کہ تیری جیسی عورتیں، جہاں زاد،
ایسی الجھنیں ہیں
جن کو آج تک کوئی نہیں “سلجھ“ سکا
جو مَیں کہوں کہ مَیں “سلجھ“ سکا تو سر بسر
فریب اپنے آپ سے!
کہ عورتوں کی وہ ساخت ہے وہ طنز اپنے آپ پر
جواب جس کا ہم نہیں ____

(لبیب کون ہے؟ تمام رات جس کا ذکر
تیرے لب پہ تھا ____
وہ کون تیرے گیسوؤں کو کھینچتا رہا
لبوں کو نوچتا رہا

جو مَیں کبھی نہ کر سکا
نہیں یہ سچ ہے ____میں ہوں یا لبیب ہو
رقیب ہو تو کس لیے تری خود آگہی کی بے ریا نشاطِ ناب کا
جو صدا نوا و یک نوا خرام ِ صبح کی طرح
لبیب ہر نوائے سازگار کی نفی سہی!)
مگر ہمارا رابطہ وصالِ آب و گِل نہیں، نہ تھا کبھی
وجودِ آدمی سے آب و گِل سدا بروں رہے
نہ ہر وصالِ آب و گِل سے کوئی جام یا سبو ہی نہ بن سکا
جو اِن کا ایک واہمہ ہی بن سکے تو بن سکے!

جہاں زاد،
ایک تو اور ایک وہ اور ایک مَیں
یہ تین زاویے کسی مثلثِ قدیم کے
ہمیشہ گھومتے رہے
کہ جیسے میرا چاک گھومتا رہا
مگر نہ اپنے آپ کا کوئی سراغ پا سکے ____
مثلثِ قدیم کو مَیں توڑ دوں، جو تو کہے، مگر نہیں
جو سحر مجھ پہ چاک کا وہی ہے اِس مثلثِ قدیم کا
نگاہیں میرے چاک کی جو مجھ کو دیکھتی ہیں
گھومتے ہوئے
سبو و جام پر ترا بدن، ترا ہی رنگ، تیری نازکی
برس پڑی
وہ کیمیا گری ترے جمال کی برس پڑی
مَیں سَیل ِ نُور ِ اندروں سے دھُل گیا!
مرے دروں کی خلق یوں گلی گلی نکل پڑی
کہ جیسے صبح کی اذاں سنائی دی!
تمام کوزے بنتے بنتے “تُو“ ہی بن کے رہ گئے
نشاط اِس وصالِ رہ گزر کی ناگہاں مجھے نگل گئی ___
یہی پیالہ و صراحی و سبو کا مرحلہ ہے وہ
کہ جب خمیر ِ آب و گِل سے وہ جدا ہوئے
تو اُن کو سمتِ راہِ نَو کی کامرانیاں ملیں ____
(مَیں ایک غریب کوزہ گر
یہ انتہائے معرفت
یہ ہر پیالہ و صراحی و سبو کی انتہائے معرفت
مجھے ہو اس کی کیا خبرِ؟)

جہاں زاد،
انتظار آج بھی مجھے ہی کیوں وہی مگر
جو نو برس کے دور ِ نا سزا میں تھا؟

اب انتظار آنسوؤں کے دجلہ کا
نہ گمرہی کی رات کا
(شبِ گُنہ کی لذّتوں کا اتنا ذکر کر چکا
وہ خود گناہ بن گئیں!)
حلب کی کارواں سرا کے حوض کا، نہ موت کا
نہ اپنی اس شکست خوردہ ذات کا
اِک انتظار ِ بے زماں کا تار ہے بندھا ہوا!
کبھی جو چند ثانیے زمانِ بے زماں میں آکے رک گئے
تو وقت کا یہ بار میرے سر سے بھی اُتر گیا
تمام رفتہ و گزشتہ صورتوں، تمام حادثوں
کے سست قافلے

مِرے دروں میں جاگ اُٹھے
مرے دروں میں اِک جہانِ بازیافتہ کی ریل پیل جاگ اُٹھی
بہشت جیسے جاگ آُٹھے خدا کے لا شعور میں!
مَیں جاگ اٹھا غنودگی کی ریت پر پڑا ہُوا
غنودگی کی ریت پر پڑے ہوئے وہ کوزے جو
___مرے وجود سے بروں____
تمام ریزہ ریزہ ہو کے رہ گئے تھے
میرے اپنے آپ سے فراق میں،
وہ پھر سے ایک کُل بنے (کسی نوائے ساز گار کی طرح)
وہ پھر سے ایک رقص ِ بے زماں بنے
وہ روئتِ ازل بنے!​
 
زندگی میری سہ نیم

میں سہ نیم اور زندگی میری سہ نیم
دوست داری، عشق بازی، روزگار
زندگی میری سہ نیم!
دوستوں میں دوست کچھ ایسے بھی ہیں
جن سے وابستہ ہے جاں،
اور کچھ ایسے بھی ہیں، جو رات دن کے ہم پیالہ، ہم نوالہ
پھر بھی جیسے دشمنِ جانِ عزیز!
دوستی کچھ دشمنی اور دشمنی کچھ دوستی
دوستی میری سہ نیم!

عشق محبوبہ سے بھی ہے اور کتنی اور محبوباؤں سے،
ان میں کچھ ایسی بھی ہیں
جن سے وابستہ ہے جاں
اور کچھ ایسی بھی ہیں جو عطرِ بالیں، نورِ‌بستر
پھر بھی جیسے دشمنِ جانِ عزیز!
اِن میں کچھ نگرانِ دانہ اور کچھ نگرانِ دام
عشق میں‌کچھ سوز ہے، کچھ دل لگی، کچھ "انتقام"
عاشقی میری سہ نیم!

روزگار اِک پارہء نانِ جویں کا حیلہ ہے
گاہ یہ حیلہ ہی بن جاتا ہے دستورِ حیات
اور گاہے رشتہ ہائے جان و دل کو بھول کر
بن کے رہ جاتا ہے منظورِ حیات
پارہء ناں کی تمنّا بھی سہ نیم
میں سہ نیم اور زنگی میری سہ نیم!‌​
 
ظلمِ رنگ

"یہ میں ہوں!"
"اور یہ میں ہوں!" ۔۔۔۔۔۔۔
یہ دو میں‌ ایک سیمِ‌نیلگوں کے ساتھ آویزاں
ہیں شرق وغرب کے مانند،
لیکن مِل نہیں سکتے!
صدائیں رنگ سے نا آشنا
اک تار ان کے درمیاں‌حائل!

مگر وہ ہاتھ جن کا بخت،
مشرق کے جواں سورج کی تابانی
کبھی اِن نرم و نازک، برف پروردہ حسیں باہوں
کو چھو جائیں،

محبّت کی کمیں‌گاہوں کو چھو جائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ناممکن! یہ ناممکن!
کہ "ظلمِرنگ" کی دیوار ان کے درمیاں حائل!

"یہ میں‌ہوں!"
انا کے زخم خوں آلودہ، ہر پردے میں،
ہر پوشاک میں‌عریاں،
یہ زخم ایسے ہیں‌جو اشکِ ریا سے سِل نہیں سکتے
کسی سوچے ہوئے حرفِ وفا سے سِل نہیں‌سکتے!​
 
حرفِ ناگفتہ

حرفِ ناگفتہ کے آزار سے ہشیار رہو
کوئے و برزن کو،
دروبام کو،
شعلوں کی زباں چاٹتی ہو،
وہ دہن بستہ و لب دوختہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے گنہ گار سے ہشیار رہو!

شحنہء شہر ہو، یا بندہء سلطاں ہو
اگر تم سے کہے: "لب نہ ہلاؤ"
لب ہلاؤ، نہیں، لب ہی نہ ہلاؤ
دست و بازو بھی ہلاؤ،
دست و بازو کو زبان و لبِ گفتار بناؤ
ایسا کہرام مچاؤ کہ سدا یاد رہے،
اہلِ دربار کے اطوار سے ہشیار رہو!

اِن کے لمحات کے آفاق نہیں -
حرفِ ناگفتہ سے جو لحظہ گزر جائے
شبِ وقت کا پایاں ہے وہی!
ہائے وہ زہر جو صدیوں کے رگ و پے میں سما جائے
کہ جس کا کوئی تریاق نہیں!
آج اِس زہر کے بڑھتے ہوئے
آثار سے ہشیار رہو
حرفِ ناگفتہ کے آزار سے ہشیار رہو!​
 
مجھے وداع کر


مجھے وداع کر
اے میری ذات، مجھے وداع کر
وہ لوگ کیا کہیں گے، میری ذات،
لوگ جو ہزار سال سے
مرے کلام کو ترس گئے؟

مجھے وداع کر،
میں تیرے ساتھ
اپنے آپ کے سیاہ غار میں
بہت پناہ لے چُکا

میں اپنے ہاتھ پاؤں
دل کی آگ میں تپا چکا!

مجھے وداع کر
کہ آب و گِل کے آنسوؤں
کی بے صدائی سُن سکوں
حیات و مرگ کا سلامِ روستائی سن سکوں!

مجھے وداع کر
بہت ہی دیر _______ دیر جیسی دیر ہوگئی ہے
کہ اب گھڑی میں بیسوی صدی کی رات بج چُکی ہے
شجر حجر وہ جانور وہ طائرانِ خستہ پر
ہزار سال سے جو نیچے ہال میں زمین پر
مکالمے میں جمع ہیں
وہ کیا کہیں گے؟ میں خداؤں کی طرح _____
ازل کے بے وفاؤں کی طرح
پھر اپنے عہدِ ہمدمی سے پھر گیا؟
مجھے وداع کر، اے میری ذات

تو اپنے روزنوں کے پاس آکے دیکھ لے
کہ ذہنِ ناتمام کی مساحتوں میں پھر
ہر اس کی خزاں کے برگِ خشک یوں بکھر گئے
کہ جیسے شہرِ ہست میں
یہ نیستی کی گرد کی پکار ہوں ____
لہو کی دلدلوں میں
حادثوں کے زمہریر اُتر گئے!
تو اپنے روزنوں کے پاس آکے دیکھ لے
کہ مشرقی افق پہ عارفوں کے خواب ____
خوابِ قہوہ رنگ میں _____
امید کا گزر نہیں
کہ مغربی افق پہ مرگِ رنگ و نور پر
کِسی کی آنکھ تر نہیں!

مجھے وداع کر
مگر نہ اپنے زینوں سے اُتر
کہ زینے جل رہے ہیں بے ہشی کی آگ میں ____
مجھے وداع کر، مگر نہ سانس لے
کہ رہبرانِ نو
تری صدا کے سہم سے دبک نہ جائیں
کہ تُو سدا رسالتوں کا بار اُن پہ ڈالتی رہی
یہ بار اُن کا ہول ہے!
وہ دیکھ، روشنی کے دوسری طرف
خیال ____ بھاگتے ہوئے
تمام اپنے آپ ہی کو چاٹتے ہوئے!
جہاں زمانہ تیز تیز گامزن
وہیں یہ سب زمانہ باز
اپنے کھیل میں مگن
جہاں یہ بام و دَر لپک رہے ہیں
بارشوں کے سمت
آرزو کی تشنگی لیے
وہیں گماں کے فاصلے ہیں راہزن!

مجھے وداع کر
کہ شہر کی فصیل کے تمام در ہیں وا ابھی
کہیں وہ لوگ سو نہ جائیں
بوریوں میں ریت کی طرح _____
مجھے اے میرے ذات،
اپنے آپ سے نکل کے جانے دے
کہ اس زباں بریدہ کی پکار ____ اِس کی ہاو ہُو ___
گلی گلی سنائی دے
کہ شہرِ نو کے لوگ جانتے ہیں
(کاسہء گرسنگی لیے)
کہ اُن کے آب و نان کی جھلک ہے کون؟
مَیں اُن کے تشنہ باغچوں میں
اپنے وقت کے دُھلائے ہاتھ سے
نئے درخت اگاؤں گا
میَں اُن کے سیم و زر سے ____ اُن کے جسم و جاں سے ____
کولتار کی تہیں ہٹاؤں گا
تمام سنگ پارہ ہائے برف
اُن کے آستاں سے مَیں اٹھاؤں گا
انہی سے شہرِ نو کے راستے تمام بند ہیں ____

مجھے وداع کر،
کہ اپنے آپ میں
مَیں اتنے خواب جی چکا
کہ حوصلہ نہیں
مَیں اتنی بار اپنے زخم آپ سی چُکا
کہ حوصلہ نہیں _____​
 
کمال عمدہ زبردست اپڈیٹ
 
Boht undah shaheri
 
پہلی کرن

کوئی مجھ کو دُور زمان و مکاں سے نکلنے کی صورت بتا دو
کوئی یہ سجھا دو کہ حاصل ہے کیا ہستیِ رائیگاں سے؟
کہ غیروں کی تہذیب کی استواری کی خاطر
عبث بن رہا ہہے ہمارا لہو مومیائی
میں اُس قوم کا فرد ہوں جس کے حصے میں محنت ہی محنت ہے، نانِ
شبینہ نہیں ہے
اور اس پر بھی یہ قوم دل شاد ہے شوکتِ باستاں سے
اور اب بھی ہے امیدِ فردا کسی ساحرِ بے نشاں سے
مری جاں، شب و روز کی اس مشقت سے تنگ آ گیا ہوں
میں اس خشت کوبی سے اُکتا گیا ہوں
کہاں ہیں وہ دنیا کی تزئین کی آرزوئیں
جنھوں نے تجھے مجھ سے وابستہ تر کر دیا تھا؟
تری چھاتیوں کی جوئے شیر کیوں زہر کا اک سمندر نہ بن جائے
جسے پی کے سو جائے ننھی سی جاں
جو اِک چھپکلی بن کے چمٹی ہوئی ہے تیرے سینۂ مہرباں سے
جو واقف نہیں تیرے درد ِ نہاں سے؟
اسے بھی تو ذلت کی پایندگی کے لیے آلۂ کار بننا پڑے گا
بہت ہے کہ ہم اپنے ابا کی آسودہ کوشی کی پاداش میں
آج بے دست و پا ہیں
اس آئیندہ نسلوں کی زنجیر پا کو تو ہم توڑ ڈالیں

مگر اے مری تیرہ راتوں کی ساتھی
یہ شہنائیاں سُن رہی ہو؟
یہ شاید کسی نے مسرت کی پہلی کرن دیکھ پائی
نہیں، اس دریچے کے باہر تو جھانکو
خدا کا جنازہ لیے جا رہے ہیں فرشتے
اُسی ساحرِ بے نشاں کا
جو مغرب کا آقا تھا مشرق کا آقا نہیں تھا
یہ انسان کی برتری کے نئے دور کے شادیانے ہیں، سُن لو
یہی ہے نئے دور کا پرتوِ اولیں بھی
اٹھو اور ہم بھی زمانے کی تازہ ولادت کے اس جشن میں
مل کے دھومیں مچائیں
شعاعوں کے طوفاں میں بے محابا نہائیں​
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top
Chat