Love Story | گہری چال | Urdu Story World
What's new

Welcome!

Welcome to the World of Dreams! Urdu Story World, the No.1 Urdu Erotic Story Forum, warmly welcomes you! Here, tales of love, romance, and passion await you.

Register Now!
  • Notice

    فورم رجسٹریشن فری کردی گئی ہے----پریمیم ممبرشپ فیس 95 ڈالرز سالانہ----وی آئی پی پلس 7000 روپے سالانہ----وی آئی پی 2350 روپے تین ماہ اور 1000 روپے ایک ماہ

    Whatsapp: +1 631 606 6064---------Email: [email protected]

Love Story گہری چال

Love Story گہری چال
justcool Çevrimdışı

justcool

Well-known member
Dec 26, 2022
463
7,038
93
Pakistan
کافی عرصہ پہلے میں نے ایک اور فورم پر یہ کہانی اردو میں پڑھی تھی۔ اب مجھے یہ دوبارہ رومن اردو میں ملی ہے تو میں اس کو اردو میں تبدیل کر کے یہاں شیئر کر رہا ہوں۔

---------------------------------------------------------------------------------------------------------
گہری چال
"تمام شواہد اور گواہوں کے بیانات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ملزم مسٹر ڈی.کے. جعفری بےقصور ہیں اور اصل مجرم ہے سلیم خان جو کہ مرحوم وسیم خان کا بھائی ہے، اس لیے یہ عدالت سلیم خان کو مجرم قرار دیتے ہوئے اسے چودہ سال کی عمر قید کی سزا سناتی ہے۔"، لاہور ہائی کورٹ کے جج کے اس فیصلے کے ساتھ مشہور وکیل سائمہ گیلانی نے ایک اور کیس جیت لیا تھا۔

"میڈم، میں آپ کا کیسے شکریہ ادا کروں، میری سمجھ میں نہیں آتا! آپ تو میرے لیے فرشتہ ہیں، سائمہ جی۔"، عدالت کے باہر جعفری ہاتھ جوڑے سائمہ کے سامنے کھڑا تھا۔ لاہور کا ہی نہیں بلکہ ریاست کا ایک اتنا رئیس بزنس مین اس کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑا تھا پر سائمہ کے چہرے پر غرور کی ایک جھلک بھی نہیں تھی۔

"یہ کیا کر رہے ہیں جعفری جی! میں نے تو صرف اپنا فرض نبھایا ہے۔ پھر آپ بےگناہ تھے، وہ سلیم خان آپکو پھنسا رہا تھا اور گنہگار کو ہمیشہ سزا ملتی ہے۔ چلیے، گھر جائیے اور اپنے خاندان کو یہ خوشخبری سنائیے۔"، سائمہ اس سے اجازت لے کر اپنے دفتر کے چیمبر جانے کے لیے اپنی کار کی طرف بڑھ گئی جس کا دروازہ کھولے اس کا ڈرائیور کھڑا تھا۔

دیر شام گھر لوٹتی سائمہ کے چہرے پر وہ جیت کی خوشی نہیں تھی، جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ پہلے کی تو بات ہی اور تھی، پہلے تو کیس جیتنے کے بعد سب سے پہلے وہ شیراز کو یہ خبر سناتی تھی۔ جب بھی شیراز یا وہ کوئی کیس جیتتے تو اس روز شام کو پہلے کسی اچھے سے ریستوران میں جا کے بہترین کھانا کھاتے اور پھر گھر لوٹ کے ایک دوسرے کے ساتھ پوری رات جی بھر کے خوشی مناتے۔

اسے یاد آ گئی لاء کالج کے فائنل ایئر کی وہ پہلی کلاس جب شیراز سب سے آخر میں کلاس میں بھاگتا ہوا داخل ہوا اور اس کی بغل کی خالی سیٹ پہ بیٹھ گیا۔ دونوں پچھلے ۲ سالوں سے ایک ہی بیچ میں تھے پر دونوں کے دوستوں کا گروپ الگ ہونے کے کارن، دونوں کے بیچ کوئی خاص بات چیت نہیں تھی۔ اس دن پہلی بار دونوں نے دھنگ سے ایک دوسرے سے بات کی تھی اور وہی ان کی دوستی کا پہلا دن تھا۔

اور یہ دوستی کب پیار میں بدل گئی، دونوں کو پتا بھی نہ چلا۔ لاء کی ڈگری حاصل کرتے ہی دونوں نے ایڈووکیٹ احسان پنجوتا کے پاس اسسٹنٹ کے لیے درخواست دی اور انہوں نے دونوں کی ہی عرضیاں منظور کر لی۔ احسان پنجوتا صرف لاہور کے ہی نہیں بلکہ پاکستان کے ایک مانے ہوئے وکیل تھے جنہیں سبھی کافی عزت کی نظر سے دیکھتے تھے۔

پہلے دن پنجوتا صاحب نے دونوں کو ایک ہی کیس کی بریف تیار کرنے کو کہا مگر الگ الگ۔ دونوں نے کافی محنت سے سوچ-سمجھ کے اپنی اپنی بریف تیار کی اور پھر انہیں دکھائی۔ بریف پڑھتے ہی پنجوتا صاحب نے ۵ منٹ کے اندر ہی دونوں کی بریفس میں ۴-۵ ایسے پوائنٹس نکال دیے جن کا استعمال سامنے اپوزیشن کا وکیل کر سکتا تھا، "بیٹا، اگر کیس جیتنا ہے تو ہمیشہ اپنی opposing party کی طرح سوچو۔ وہ یا تو تم سے بچنا چاہتی ہے یا پھر تمہیں گمراہ کرنا اس کا مقصد ہوتا ہے۔ اگر اس کی طرح سوچوگے تو تمہیں اس کی دلیلوں کا توڑ خود بخود سمجھ میں آ جائے گا۔ آگے سے جب بھی میں تمہیں بریف بنانے کہو اس بات کا خیال رکھنا اور ہاں، ہمیشہ اپنی اپنی بریفس ایک دوسرے کو دکھا لینا۔ اس سے تم دونوں ایک دوسرے کی غلطیاں پکڑ لوگے۔"

ایسی اور نہ جانے کتنی نصیحتیں پنجوتا صاحب نے انہیں دی تھیں۔ کبھی کبھی تو سائمہ کو لگتا کہ دونوں ہمیشہ ان کے اسسٹنٹ ہی بنے رہتے تو کتنا اچھا ہوتا، شاید زندگی ابھی بھی پہلے کی طرح خوشنما ہوتی!

کتنی کھٹی میٹھی یادیں جڑی تھیں پنجوتا سر کے آفس کے ساتھ! دونوں نے وکالت کے لگ بھگ سارے گر وہیں تو سیکھے تھے اور وہی وہ جگہ تھی جہاں سائمہ ایک معصوم کلی سے پھول بنی تھی۔

کالے، گھنے، لمبے بالوں سے گھرا سائمہ کا خوبصورت چہرہ ایسا لگ رہا تھا جیسے کالی رات کو روشن کرتا چودھویں کا چاند۔ گوری چٹی سائمہ کا چہرہ بڑا معصومیت بھرا تھا، پر اس کے چہرے میں جو چیز سب سے پہلے مردوں کا دھیان اپنی اور کھینچتی تھی، وہ تھی اس کے ہونٹ۔ انار کے دانوں کے رنگ کے، سنترے کی پھانکوں جیسے اس کے رسیلے ہونٹ ایسے لگتے تھے مانو چومنے کا بلاوا دے رہے ہوں۔

پر اس خوبصورت لڑکی سے نظریں ملانے کی ہمت ہر کسی میں نہیں تھی۔ 5 فٹ 8 انچ قد کی سائمہ آج کے زمانے کی لڑکی تھی جو کہ مردوں کے کندھے سے کندھا ملا کر چلنے میں نہیں، ان سے دو قدم آگے چلنے میں یقین رکھتی تھی۔ اس کے حوصلے، ہمت اور خود اعتمادی سے بھری نگاہوں سے نگاہ ملانے کی کووت ہر مرد میں نہیں تھی۔

شیراز اکیلا مرد تھا جس کی نظریں نہ صرف سائمہ کی نظروں سے ملیں بلکہ اس کے دل میں بھی اتر گئیں۔ کار میں بیٹھے بیٹھے سائمہ کو تہوار کا وہ دن یاد آ گیا اور اس کے اداسی بھرے چہرے پر ہلکی سی مسکان کھل گئی۔ لگا مانو چودھویں کے چاند پر جو اداسی کی بدلی چھا گئی تھی، اسے ایک خوشنما ہوا کے جھونکے نے اڑا دیا تھا۔

تہوار کے ٹھیک اگلے دن ایک کیس کی تاریخ تھی اور پنجوتا صاحب نے دونوں کو کیس کی ساری تیاری پہلے ہی پوری کر لینے کو کہا تھا کیونکہ پھر تہوار کے دن تو دفتر آنا ناممکن تھا، اس لیے دونوں آفس میں بیٹھے کام کر رہے تھے۔ گھڑی نے 10 بجائے تو سائمہ نے ہاتھ سر کے اوپر اٹھاکر نگدائی لی، اس کا کام تو پورا ہو گیا تھا، شیراز ابھی بھی لگا ہوا تھا۔ دفتر میں ان دونوں کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔

سامنے پانی کا گلاس دیکھ کر سائمہ کو شرارت سوجھی، اس نے اس میں سے پانی اپنے ہاتھ میں لیا اور شیراز کے منہ پر دے مارا۔ شیراز نے غصے اور خیج سے اس کی طرف دیکھا۔

"تہوار ہے!" سائمہ ہنس پڑی۔ شیراز بھی مسکرا دیا اور گلاس اٹھا کر باقی بچا پانی سائمہ پر پھینکا پر وہ بڑی صفائی سے اس کا وار بچ گئی۔

"ابھی بتاتا ہوں سائمہ کی بچی!"، شیراز اسے پکڑنے کو اٹھا تو سائمہ بھاگ کر ڈیسک کی دوسری طرف ہو گئی۔ شیراز بھی بھاگ کر اس کی طرف آیا اور ہاتھ بڑھا کر اس کے کندھے کو پکڑا پر سائمہ اس کی پکڑ سے نکل کر خلخلاتی ہوئی آفس کیبن سے منسلک باتھروم میں گھس گئی۔ اس کے پیچھے پیچھے شیراز بھی گھسا تو سائمہ نے واش بیسن کا نل چلا کر اسے اپنی انگلیوں سے دبا پانی کی ایک تیز دھار اس کے اوپر چھوڑ دی۔

شیراز کی کمیز پوری گیلی ہو گئی تو وہ باتھروم سے باہر بھاگا اور پانی کا ایک بھرا جگ لے کر واپس آیا اور سائمہ کے ہاتھوں کو پکڑ کر پورا کا پورا جگ اس کے اوپر خالی کر دیا۔ سائمہ نے جھک کر بچنے کی ناکام کوشش کی اور اس نے جو سفید سلوار-قمیص پہنی تھی اس کی قمیص بھی پوری گیلی ہو اس کے گورے بدن سے چپک گئی۔ سائمہ سیدھی کھڑی ہوئی تو اس نے دیکھا کہ شیراز اپنی بھیگی ہوئی شرٹ اتار رہا ہے۔

شیراز 6 فٹ کا گٹھیلے بدن کا جوان لڑکا تھا اور جب اس نے اپنی شرٹ نکال لی تو اس کے بالوں بھرے گیلے سینے کو ننگا دیکھ کر سائمہ کو شرم آ گئی۔ اس نے اپنی نظریں نیچی کر لیں اور جھک کر اپنے گیلے کرتے کے کونے کو پکڑ کر اسے نچوڑنے لگی۔ نچوڑتے ہوئے اس نے ہولے سے اپنی نظریں اوپر کی تو دیکھا کہ صرف پینٹ میں کھڑا شیراز اسے گھور رہا ہے۔ جھکے ہونے کی وجہ سے اس کی چھاتیوں کا بڑا سا حصہ، جس پہ پانی کی بوندیں موتیوں سی چمک رہی تھیں، کرتے کے گلے میں سے جھلک رہا تھا۔

سائمہ فوراً سیدھی کھڑی ہو گئی تو شیراز کی نظریں اس کے سینے سے نیچے اس کے گیلے کرتے سے نمایاں ہو رہے اس کے گول، سپاٹ پیٹ پہ آ جمی۔ شرم سے سائمہ کے گلابی گال اور لال ہو گئے اور گھوم کر اس نے شیراز کی اور اپنی پیٹھ کر لی۔ شیراز نے آگے بڑھ کر اس کے کندھوں کو تھام اسے اپنی طرف گھمایا اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔ اس کی اچانک کی گئی اس حرکت سے سائمہ لڑکھڑا گئی اور اس نے سہارے کے لیے اپنے پریمی کو تھام لیا۔ شیراز کی ننگی پیٹھ پہ ہاتھ رکھتے ہی سائمہ کے بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی۔

یوں تو وہ کئی بار شیراز کے گلے لگی تھی اور شرٹ سے جھانکتے اس کے سینے کو چھوا تھا، چوما تھا لیکن یہ پہلی بار تھا کہ وہ اس کے ننگے اوپری بدن کو چھو رہی تھی - چھو کیا رہی تھی، اس سے چپکی ہوئی تھی۔ شیراز نے نیچے جھک کر اس کے رسیلے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں کی گرفت میں لے لیا اور دونوں ایک دوسرے کو چومنے لگے۔ تھوڑی دیر میں شیراز نے اس کے ہونٹوں کو کھول اپنی زبان سے اس کی زبان کو چھوا تو جواب میں سائمہ نے گرمجوشی سے اپنی زبان اس کی زبان سے لڑا دی۔
"
زززززپپپپپ...", سائمہ جیسے نیند سے جاگی، شیراز نے اس کے کرتے کی زپ کھول دی تھی اور ہاتھ اندر گھسا اس کی کمر پر پھیر رہا تھا۔

"نہیں!", کس توڑ وہ کسمسانے لگی۔

"کیوں?"

"پلیز، شیراز نہیں کرو۔"

"اچھا بابا!", شیراز نے واپس اس کا زپ لگا دیا، "اب خوش?", سائمہ مسکرائی اور دونوں پھر ایک دوسرے کو چومنے لگے۔ اس بار شیراز نے ہاتھ نیچے سے اس کے کرتے میں ڈالا اور اس کی کمر کو سہلانے لگا۔

"اُممم..", سائمہ پھر کسمسائی۔

"اب کیا ہوا؟ یہاں کوئی پہلی بار تھوڑے ہی چھو رہا ہوں!", ٹھیک ہی کہا تھا شیراز نے، یہاں پہ تو وہ روز ہی ہاتھ پھیرتا تھا اور جب کبھی سائمہ ساڑی پہنتی تب تو اس کی شامت ہی آ جاتی۔ شیراز کے ہاتھ تو اس کے پیٹ یا کمر کو چھوڑنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے!

شیراز اس کے ہونٹوں کو چھوڑ نیچے سائمہ کی لمبی گردن پہ آ گیا تھا اور چوم رہا تھا۔ سائمہ مست ہو اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرا رہی تھی کہ تبھی شیراز اس کی گردن سے چومتے ہوئے اوپر آیا اور اس کے کان کے پیچھے چومنے لگا۔ یہ جگہ سائمہ کی کمزور نس تھی، شیراز کے وہاں اپنے ہونٹ لگاتے ہی سائمہ کی آنکھیں بند ہو گئیں اور ہونٹ کھل گئے اور وہ جیسے بےہوش سی ہو گئی۔ اس کی انگلیاں اور شدت سے اس کے عاشق کے بالوں میں گھومنے لگیں۔ شیراز نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پھر سے اس کی زپ کھول دی اور ہاتھ گھسا اس کی پیٹھ سہلانے لگا۔ اب اس کے ہاتھ سائمہ کی کمر اور پیٹھ کو پوری طرح سے مسل رہے تھے۔

جوش میں ڈوبی سائمہ کی ٹانگیں جواب دینے لگیں اور وہ گرنے ہی والی تھی کہ شیراز نے اسے تھام لیا اور اپنی باہیں اس کی مست گانڈ کے نیچے لپیٹ کر اسے اٹھا لیا۔ سائمہ جھک کر اس کے چہرے کو چومنے لگی، شیراز اسے اٹھا کر آفس میں لے آیا اور وہاں رکھے بڑے سے سوفے پہ اسے بٹھا دیا اور پھر اس کی بغل میں بیٹھ کر اسے باہوں میں بھر کر چومنے لگا۔

اس کے چہرے سے نیچے وہ اس کی گردن پہ آیا اور پھر اس کے زپ کھلے کرتے کو نیچے کر اس کی گردن اور چھاتیوں کے بیچ کے حصے کو چومنے لگا۔ آج سے پہلے دونوں نے اس طرح پیار نہیں کیا تھا۔ اب تک تو بس گلے لگ کے چومنا اور کپڑوں کے اوپر سے ہی سہلانا ہوتا رہا تھا۔ سائمہ نے ابھی تک ایک بار بھی شیراز کو اپنی چھاتیوں یا کسی اور نازک حصے کو چھونے نہیں دیا تھا۔

کمرے کا ماحول دھیرے دھیرے اور گرم ہو رہا تھا۔ سائمہ بیچینی سے اپنی ٹانگیں رگڑنے لگی تھی۔ شیراز اس کے کرتے کو نیچے کر کے اس کے کندھوں کو باری باری سے چوم رہا تھا۔ کرتے کو بازوں سے نیچے کر کے وہ اس کی اوپری بازو کو چومنے لگا۔ اس کے ہاتھ نیچے سے کرتے کے اندر گھس کر اس کی پتلی کمر کو مسل رہے تھے۔ اچانک شیراز نے سائمہ کو صوفے پہ لٹا دیا اور اس کے کرتے کو اوپر کر کے اس کے پیٹ کو چومنے لگا۔

"اوہہ... شیراز..... پل... ایز... نہیں کر... اوہہہہہہ...", شیراز نے اس کی باتیں انسنی کرتے ہوئے اس کے پیٹ کو چومتے ہوئے اپنی زبان اس کی گہری، گول ناف میں اتار دی تھی اور پاگلوں کی طرح پھیرانے لگا تھا۔ سائمہ اس کے سر کو تھام کر بے بسی سے آہیں بھرتی ہوئی چھٹپٹا رہی تھی۔ شیراز کافی دیر تک اس کی ناف سے کھیلتا رہا اور پھر تھوڑا اور نیچے آکر اس کی ناف اور شلوار کے بیچ کے حصے کو چومنے لگا۔ سائمہ کا برا حال تھا، اس کی چوت پوری گیلی ہو چکی تھی اور اس کے دل میں گھبراہٹ، مزے اور مستی کے ملے-جلے احساسات امڈ رہے تھے۔

"نہیں..!", شیراز نے جیسے ہی اپنے ہاتھ میں لے کر اس کی سلوار کی ڈور کھینچنی چاہی۔ وہ صوفے پہ اٹھ بیٹھی اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ شیراز نے اس کے ہاتھ میں اپنے ہاتھ کی انگلیاں پھنسا دی اور اس کے ہاتھوں کو اپنے ہونٹوں تک لا کر چومنے لگا، سائمہ کی آنکھیں پھر مستی سے بند ہو گئیں۔ شیراز اس کے ہاتھوں کو چوم کر اس کی کلائی سے ہوتا ہوا اس کی بازو کو چومنے لگا، اور اوپر جانے پر اس کے ہونٹ کرتے کی بازو سے آ لگے تو اس نے اسے کھینچ کر سائمہ کی بازو سے الگ کر دیا۔ سائمہ بس کمزور سی آواز میں نہیں نہیں کرتی رہی اور اس نے دوسری بازو کو بھی اتار دیا۔ اب کرتا اس کی کمر کے گرد پڑا ہوا تھا اور سفید برا میں قید، بھاری سانسوں سے اوپر-نیچے ہوتی ہوئی، اس کی بڑی بڑی چھاتیاں شیراز کی نظروں کے سامنے تھیں۔

شیراز نے بیٹھی ہوئی سائمہ کو اپنی باہوں میں بھر لیا اور اس کے چہرے کو چومنے لگا، "آئی لو یو، سائمہ.. آئی لو یو، ڈارلنگ!", وہ اس کی پیٹھ سہلاتے ہوئے اس کے کانوں کے پیچھے چوم رہا تھا۔

"آئی لو.. وی یو.. ٹو، شیراز...!.... ہممم...!", سائمہ اور زیادہ مست ہو رہی تھی۔ شیراز پاگلوں کی طرح اس کی پیٹھ پہ ہاتھ پھیر رہا تھا اور ایسا کرنے سے اس کا ہاتھ سائمہ کے برا سٹریپ میں پھنس گیا اور جب اس نے نکالنے کی کوشش کی تو پٹ سے اس کے برا کے ہکس کھل گئے۔ شیراز نے سر اس کے چہرے سے اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ سائمہ کی آنکھیں نشے سے بھری ہوئی تھیں اور اس کی سانسیں دھونکنی کی طرح چل رہی تھیں۔ سینے پہ برا بس لٹکا ہوا سا تھا۔

شیراز نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس کے کندھوں سے برا کو سرکا دیا۔ اس بار سائمہ نے اسے نہیں روکا۔ وہ جانتی تھی اس بار وہ بلکل نہیں مانے گا۔ برا سرک کر نیچے اس کی گود میں آ گری۔ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے شیراز نے برا کو نیچے زمین پہ پھینک دیا اور اپنی نظریں نیچی کر کے اپنی پریمیکا کی مست چھاتیوں کا پہلی بار دیدار کیا۔ سائمہ کی آنکھیں شرم سے بند ہو گئیں۔

"تم کتنی خوبصورت ہو، سائمہ... میں نے تو خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ تم اتنی خوبصورت ہوگی۔", شیراز کی نظروں کے سامنے سائمہ کی بھاری بھاری، کسی چھاتیان اوپر-نیچے ہو رہی تھیں۔ ان پہ سجے ہلکے گلابی رنگ کے نپلز بالکل سخت ہو چکے تھے۔ شیراز نے بہت ہلکے اپنا ہاتھ ان پہ رکھ کر انہیں چھوا مانو وہ شفاف گولیاں اس کے ہاتھ لگانے سے میلی ہو جائیں گی۔ سائمہ کے پورے بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی۔

وہ ہلکے-ہلکے انہیں سہلانے لگا اور دھیرے دھیرے اس کے ہاتھ اس کی چوچیوں پہ کسنے لگے۔ سائمہ نے اس کے ہاتھ پکڑ لیے پر شیراز کو اب ان مست گیندوں سے کھیلنے میں بہت مزہ آ رہا تھا۔

"اوووو...!". شیراز نے اپنے دونوں ہاتھوں میں بھر کر دونوں چوچیوں کو زور سے دبا دیا۔ کافی دیر تک وہ انہیں دباتا، مسلتا رہا۔ پھر اس نے ان کے نپلز کا رخ کیا اور انہیں اپنی انگلیوں میں لے کر مسلنے لگا۔ دفتر میں سائمہ کی آہیں گونجنے لگیں۔ شیراز جھکا اور اس کی چوچی پہ اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ سائمہ کا سر پیچھے جھک گیا اور اس نے شیراز کا سر پکڑ لیا۔ شیراز چھاتیوں کو منہ میں بھر کر چوسنے لگا تو سائمہ کا بدن جھٹکے کھانے لگا۔ اس کی گیلی چوت اب اور برداشت نہیں کر پا رہی تھی اور جھڑ گئی تھی۔

سائمہ نڈھال ہو کر صوفے پہ گر گئی تو ساتھ ساتھ شیراز بھی نیچے جھک گیا اور اس کے اوپر لیٹ کر اس کی چھاتیوں سے کھیلنے لگا۔ کبھی وہ انہیں دباتا تو کبھی بس ہلکے ہلکے سہلاتا، کبھی اپنے ہونٹوں میں بھر کر اتنی زور سے چوستا کہ ان پہ نشان پڑ جاتے تو کبھی بس اپنی زبان سے اس کے نپلز کو چاٹتا رہتا۔ شیراز کا آدھا بدن صوفے پہ اور آدھا سائمہ کے اوپر تھا اور سائمہ کو اپنی ٹانگ کے سائیڈ میں اس کا کھڑا لنڈ چبھتا محسوس ہو رہا تھا۔

شیراز اس کی چوچیوں کو چومتا ہوا ایک ہاتھ نیچے لے گیا اور اس کی شلوار کی ڈور کو کھینچ دیا، پھر اس کی چوچیوں کو چھوڑ کر اس کے پیٹ کو چومتے ہوئے نیچے آیا اور اس کی شلوار کھولنے لگا، "نہیں... مت کرو نا!"

شیراز پھر سے اوپر ہوا اور اسے چومنے لگا مگر اس کا ہاتھ نیچے ہی رہا اور ڈھیلی ہو چکی شلوار میں گھس کر پینٹی کے اوپر سے ہی سائمہ کی چوت کو سہلانے لگا۔ سائمہ اپنی ٹانگیں بینچتی ہوئی چھٹپٹانے لگی اور کھینچ کر اس کا ہاتھ ہٹانے لگی پر وہ نہیں مانا اور ویسے ہی ہاتھ پھیرتا رہا۔ پھر ایک جھٹکے سے اٹھا اور اس کے شلوار کو نیچے کر اس کی پینٹی کے اوپر اس نے بوسوں کی بوچھار کر دی۔ سائمہ زور زور سے آہیں بھرتے ہوئے تڑپنے لگی۔ اسی بیچ اس نے اس کی شلوار کو اس کے بدن سے الگ کر دیا۔

سائمہ کی پینٹی گیلی ہوکر اس کی چوت سے چپکی ہوئی تھی۔ شیراز بیٹھا ہوا اس کے بدن کو گھور جا رہا تھا۔ شرما کر سائمہ نے کروٹ لے کر صوفے کی بیک میں اپنا منہ چھپا لیا اور شیراز کی طرف اپنی پیٹھ کر دی۔ سائمہ کی مست ۳۶ انچ کی گانڈ اب اس کے سامنے تھی۔ دونوں کے بدن کی رگڑاہٹ سے اس کی پینٹی اس کی گانڈ کی درار میں پھنسی ہوئی تھی اور گانڈ کی دونوں کسی ہوئی پھانکیں شیراز کے سامنے تھیں۔

اس نے اپنے ہاتھوں سے انہیں مسلا تو سائمہ چیخ اٹھی۔ اس کی ۲۸ انچ کی کمر کے نیچے اس کی چوڑی، بھاری، مست گانڈ نے شیراز کو پاگل کر دیا تھا۔ اس نے جھٹ سے اس کی پینٹی کو اس کے بدن سے الگ کیا اور جھک کے کروٹ لی ہوئی سائمہ کی گانڈ چومنے لگا۔ اس کی اس حرکت سے سائمہ چونک پڑی اور سیدھی ہو گئی اور اپنے پریمی کو اپنی انچھوئی، بنا بالوں کی، چکنی، گلابی چوت کا دیدار کرا دیا۔ شیراز کی سانسیں تیز ہو گئیں۔ شرم کے مارے سائمہ کا برا حال تھا، زندگی میں پہلی بار وہ کسی مرد کے سامنے پوری ننگی ہوئی تھی۔ شیراز نے جھک کر سائمہ کی ٹانگوں کو پھیلایا اور اپنا چہرہ اس کی چوت میں گھسا دیا۔

سائمہ تو پاگل ہی ہو گئی۔ شیراز اس کی چوت کو اپنی انگلیوں سے پھیلا کر چاٹ رہا تھا۔ جب وہ اس کے دانے کو اپنی انگلی یا زبان سے چھیدتا تو سائمہ کے جسم میں بجلی دوڑ جاتی۔ کوئی ۵-۷ منٹ تک اس کی زبان سائمہ کی چوت کو چاٹتی رہی۔ پھر وہ اٹھ کھڑا ہوا، اب وہ اور نہیں روک سکتا تھا اپنے آپ کو۔ اس نے اپنی پینٹ اور انڈرویئر کو فوراً اتار پھینکا۔ سائمہ نے آدھ کھلی آنکھوں سے پہلی بار ۱ مرد کے خڑے لنڈ کو دیکھا۔

شیراز کا کالی جھانٹوں سے گھرا ۶ انچ کا لنڈ پریکم سے گیلا تھا اور اس کے نیچے ۲ بڑے سے انڈے لٹک رہے تھے جوکی اس وقت بلکل ٹائٹ تھے۔ وہ اپنے ہاتھ میں لنڈ کو تھام کر ہلا رہا تھا۔ اس نے اپنی محبوبہ کی ٹانگوں کو پھیلایا اور ان کے بیچ اپنے گھٹنوں پہ بیٹھ گیا۔ دونوں ہی کنوارے تھے اور دونوں کے لیے ہی یہ چدائی کا پہلا موقع تھا۔ شیراز نے چوت پہ لنڈ رکھ کے دھکا دیا تو وہ پھسل گیا۔ اس نے ۲-۳ بار اور کوشش کی پر نتیجہ وہی رہا۔ سائمہ کو ڈر بھی لگ رہا تھا اور ساتھ ہی انتظار بھی تھا کہ اس کا پریمی اس کے کنوارےپن کو توڑ کر اس کی جوانی کو کھلا دے۔

شیراز کو لگ رہا تھا کہ وہ سائمہ کی چوت کے باہر ہی چھوٹ جائے گا۔ پھر اس نے پینترا بدلا اور ۱ ہاتھ سے اس کی چوت کی فانکے پھیلائے اور دوسرے ہاتھ سے اپنے لنڈ کو پکڑ اس کی چوت کے منہ پہ رکھ کر اندر تھیلا۔ اس بار اسے کامیابی ہوئی اور لنڈ کا سپاڑا اندر گھس گیا۔ اس نے لنڈ سے ہاتھ ہٹایا اور بےچینی سے ۲-۳ دھکے لگائے تو لنڈ اور اندر چلا گیا۔

"اوچ..!". سائمہ کو چبھن سی محسوس ہوئی اور شیراز کو لگا جیسے کچھ اس کے لنڈ کو اندر جانے سے روک رہا تھا۔ وہ اپنے گھٹنوں کو سیدھا کر اپنی کہنیوں پہ اپنے بدن کا وزن رکھا اور سائمہ کے اوپر جھک گیا اور ۱ بہت زور کا دھکا دیا۔

"اوئی...مااااننن...!..", سائمہ کی چیخ نکل گئی، اس کے کنوارےپن کی جھلی کو شیراز کے لنڈ نے پھاڑ دیا تھا۔ سائمہ کے چہرے پہ درد کی لکیریں کھنچ گئیں تو شیراز اس کے اوپر لیٹ گیا اور اسے چومنے لگا۔ بڑی مشکل سے اس نے اپنی کمر کو ہلنے سے روکا۔ وہ اس کے کانوں میں پیار بھرے بول بولتے ہوئے اسے ہولے ہولے چوم کر سکون دینے لگا۔ تھوڑی دیر بعد سائمہ کا درد کم ہوا تو اس نے شیراز کی پیٹھ پہ ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔ شیراز نے اس کے ہونٹ چھوڑ کر نیچے منہ لے جا کر اس کی چوچیوں کو منہ میں بھر لیا اور زور زور سے دھکے لگانے لگا۔ سائمہ کو بھی اب مزہ آ رہا تھا، اپنے پریمی کے سر کو اس نے اپنی چھاتیوں پہ بھینچ لیا اور اپنے گھٹنے موڑ کر نیچے سے کمر ہلاتے ہوئے اس کے دھکوں سے لے ملا کر چدائی کرنے لگی۔

شیراز کے لنڈ کی رگڑ اسے جنت کی سیر کرا رہی تھی۔ اس کی چوت میں جیسے ۱ تناو سا بن رہا تھا اور اس نے اپنی ٹانگیں موڑ کر اپنے پریمی کی کمر کو لپیٹ لیا تھا۔ اس کے ناخن اس کی پیٹھ میں دھنس گئے اور اس کے بدن میں جیسے مزے کا طوفان پھوٹ گیا۔ آہیں بھرتے ہوئے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں سے چپکا کر صوفے سے اٹھا وہ اس سے چپک سی گئی۔ وہ زندگی میں پہلی بار ۱ لنڈ سے جھڑ رہی تھی۔

شیراز کے صبر کا بندھ بھی اب ٹوٹ گیا اور اس کا بدن جھٹکے کھانے لگا اور منہ سے آہیں نکلتا ہوا اس نے اپنے انڈوں میں ابال رہے لاوے کو اپنی پریمیکا کی چوت میں خالی کر دیا۔

اس رات سائمہ اپنے پیئنگ گیسٹ اکوموڈیشن پہ نہیں گئی، بلکہ شیراز کے ساتھ اس کے فلیٹ پہ گئی جسے وہ ۳ اور دوستوں کے ساتھ شیئر کرتا تھا۔ وہ تینوں تہوار کے موقع پہ اپنے اپنے گھر گئے ہوئے تھے، سو فلیٹ پورا خالی تھا۔ ویسے یہ تہوار سائمہ نے کبھی نہیں منایا تھا اور آگے نہ پھر کبھی منایا۔
جاری ہے​​
 
Back
Top