Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

فنکار ڈاکو

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • فنکار ڈاکو

    میں پوری قوت سے بھاگ رہا تھا پولیس کے دو سپاہی صرف دو قدم کے فاصلے پر میرے پیچھے اسی سپیڈ سے بھاگ رہے تھے ایک سپاہی گندی گالیاں نکال رہا تھا اور کہہ رہا تھا رُک جا تُو بچ جائے تجھے کچھ نہیں کہوں گا
    لیکن مجھے پتہ تھا پولیس والوں کا وعدہ کتے کی دم جیسا ہوتا ہے جسے چھوڑیں تو فطرت کے مطابق مُڑ جاتی ہے
    اگر آج میں موقع واردات سے پکڑا گیا توپولیس والوں نے سب سے پہلے مجھے مارمار کر ادھ مووا کر دینا ہے کیونکہ میں اُن سےایک شکاری کے ہاتھ سے پھسلی ہوئ مچھلی کی طرح نکل کے بھاگا تھا
    میں انتہائ دبلا پتلا تھا پر وہ دونوں سخت جان پینڈو تھے پچھلے دس بارہ منٹ سے مسلسل تیز سپیڈ سے میرے پیچھے بھاگ رہے تھے تھک ہی نہیں رہے تھے
    اچانک میرے سر پر انتہائ زور سے کوئ سخت اور بھاری چیز لگی شدید درد کی اک لہر میرے جسم میں سرائیت کر گئ میری آنکھوں کے سامنے ایک لمحے کیلئے اندھیرا چھا گیا لیکن میں رکا نہیں اور پوری قوت سے اپنے اعصاب کو قابو کیا اور بھاگتا رہا
    تھوڑا آگے جاکر مجھے بوٹوں کی آواز آنی بند ہوگئ میں نے رفتار تھوڑی کم کرکے مڑ کر پیچھے دیکھا تو ایک پولیس والا زمین پر گرا پڑا ہےتھا اور دوسرا اُسے اُٹھنے میں مدد دینے کیلئے پاس بیٹھا تھا
    ساتھ ہی مجھے سر میں کھجلی سی ہوئ جیسے بہت ساری چیونٹیاں رینگ رہی ہوں میں نے بھاگتے ہوئے سر پر ہاتھ لگایا تو میرا ہاتھ خون سے بھر گیا
    دراصل پولیس والے نے بھاگتے ہوئے اپنی رائفل کا بٹ میرے سر پردے مارا تھا بٹ تونشانے پہ لگ گیا لیکن وہ خود اپنا توازن کھو بیٹھا اور پھسل کر گر گیا
    میرے لئے اتنا وقت کافی تھا تھوڑا آگے جاکر دائیں طرف پرانا گنجان علاقہ تھا جہاں بیچوں بیچ درجنوں باریک گلیوں کا ایک جال سا تھا میں اُن گلیوں میں جا گُھسا
    آٹھ دس گلیاں دائیں اور بائیں مڑنے کے بعد ایک مکان جسکا باہر والا دروازہ کُھلا تھا اسکے اندر گھس گیا اندر جاتے ہی دائیں طرف سیڑھیاں تھیں میں اوپر دوسری منزل کی چھت پر چڑھ گیا اُس علاقے میں ساری چھتیں ساتھ ساتھ جڑی ہوئیں تھیں صرف پانچ پانچ فیٹ کی دیواریں تھیں میں دیوارپھلانگ کر دوسری چھت پر جانے کیلئے دیوار پر چڑھا ہی تھا کہ مجھے چکر آگئے اور میں واپس اُترگیا
    پاس ہی ایک پرانی لیڈیز کاٹن کی قمیض کا گلا سڑا ٹکڑا پڑا تھا میں نے اُٹھایا اور سر پر زخم والی جگہ پر رکھ لیا
    اور چھت کے کونے پر اینٹوں سے بنی پکی پانی کی ٹینکی تھی میں نے اس پر سے سلیب ہٹا کر ٹھنڈا پانی پیا تو تھوڑا بہتر محسوس ہوا اور میں وہیں ٹینکی کے پاس بیٹھ گیا
    ابھی بیٹھے چند لمحے ہی ہوئے تھے نیچے سے بہت ساری آوازیں آئیں
    اوپر گیا ہے
    اوپر گیا ہے
    مُجھے جلدی میں کچھ سمجھ نہ آیا
    میں پانی کی ٹینکی کے اندر گھس کر بیٹھ گیا اور سیمنٹ اور بجری کی بنی سلیب کو دوبارہ اوپر سیٹ کردیا
    میں حیران تھا پولیس والوں نے مجھے اتنی جلدی کیسے ڈھونڈ لیا
    چار پولیس والے چھت پر آگئے
    مجھے سلیب کے نیچے سے تھوڑا سا نظر آرہا تھا
    وہ میرے سر سے بہنے والے خون کےقطروں کو دیکھ دیکھ کر چھت تک پہنچے تھے ان میں سے ایک سیانا پولیس والا بولا یہ دیکھو دیوار پر خون لگا ہوا ہے یہاں سے اُس نے دیوار پھلانگی ہے
    ہمیں ہمسائیوں کے گھر جاکر تلاش کرنا چاہئے
    پر حوالدار بولا یہاں تو درجنوں گھرو ں کی چھتیں ساتھ ملی ہوئ ہیں کس کس گھر میں اُسے تلاش کریں گے
    آجاؤ چلیں ڈھونڈ لیں گے اس حرامی کو
    بچ کر کہاں جائے گا باہر تو نکلے گا ہی
    اس کے بعد وہ سب واپس چلے گئے
    لیکن میں اگلا ایک گھنٹہ ٹینکی کے ٹھنڈے پانی میں ہی بیٹھا رہا اس خوف سے کے کہیں واپس نا آجائیں
    پھر میں سلیب ہٹا کر ٹینکی سے باہر نکلا
    میں حیران تھا کہ گھر کا کوئ فرد ابھی تک نظر نہیں آیا تھا
    میں ابھی گھر سے باہر نکلنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا کیونکہ پولیس والے پاگلوں کی طرح مجھے ڈھونڈ رہے تھے
    مجھ پر کپکپی طاری تھی کچھ تو خون زیادہ بہہ جانے کی نقاہت تھی اور دوسرے فروری کے مہینے میں ٹھنڈے پانی میں بیٹھا رہا
    پچھلے چوبیس گھنٹے سے سویا بھی نہیں تھا
    میں ڈرتا ہوا سیڑھیاں اتر کر نچلی منزل پر آیا تو وہاں دو کمرے تھے دونوں پر تالے لگے ہوئے تھے مجھے چُھپنے اور چند گھنٹے آرام کرنے کیلئے جگہ چاہئے تھی
    مجھے مسلسل چکر آرہے تھے
    میں جلدی سے نچلی سیڑھیوں سے گراؤنڈ فلور پر اُترا تو سامنے برآمدے کے آگے موٹے پردے لَثک رہے تھے میں نے پردہ ہٹایا تو سامنے صوفہ تھا میں بڑی مشکل سے صوفے تک پہنچا اور مجھ میں سر گھما کر ادھر اُدھر دیکھنے کی بھی ہمت نہ تھی
    صوفے پر لیٹتے ہی میری آنکھیں خودبخود بند ہو گئیں
    پتہ نہیں سوگیا تھا یا بے ہوش ہو چکا تھا
    جب مجھے ہوش آیا تو میری آنکھیں ابھی بند تھیں لیکن دماغ جاگ چکا تھا
    کسی کا انتہائ نرم و ملائم ہاتھ میرے ماتھے پر تھا جیسے کسی کا بخار دیکھنے کیلئے رکھتے ہیں بڑی ہی سحر انگیز اور میٹھی سی دھیمی سی کسی امپورٹڈ پرفیوم کی خوشبو بھی آرہی تھی
    ساتھ ہی مجھے سب یاد آگیا
    میں ڈر گیا کہ کہیں میں مر تو نہیں چکا
    میں نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں
    واہ کیا منظر تھا
    ایک انتہائ حسین اور خوبصورت جوان لڑکی
    نرم و نازک بل کھاتا جسم
    چمکتا ہوا گندمی گورا رنگ جو کہ
    بے انتہا پُرکشش تھا
    بڑی بڑی کالی غزالی آنکھیں گُھنگھریالے بال
    انتہائ باریک سلک کا سوٹ پہنے
    میرے پاس بیٹھی تھی
    مجھے یقین ہوگیا
    کہ میں مر چکا ہوں اور
    حُور میرے پہلو میں بیٹھی ہے
    میں اپنی اس خوبصورت موت پہ راضی تھا اور رب کا شکر ادا کیا
    پھر وہ بولی اور اسکے ہونٹ ہلے تو ایسے لگا جیسے گلاب کی پنکھڑیاں کِھل رہی ہوں
    اس نے دھیمے لہجے میں پوچھا
    تم کہاں ڈاکہ ڈال کر آئے ہو ؟
    میں نے یہ سُنا تو مجھے احساس ہوا کے میں تو ابھی زندہ ہوں میں اُسے بتانا چاہتا تھا کہ میں ڈاکو نہیں ہوں
    میں نے بولنے کی کوشش کی لیکن کمزوری کی وجہ سے میری آواز نہ نکل سکی
    میرا دل بتانے کو بے چین تھا کہ میں ڈاکو تو نہیں ہوں پر ۰۰۰۰۰
    اِس وقت تم پر ڈاکا ڈالنے کو دل کررہا ہے
    وہ بولی اوہ معاف کرنا ابھی رہنے دو بعد میں باتیں کرلیں گے ابھی میں تمہارے لیئے گرم دودھ لیکر آتی ہوں
    اور ہاں تمہارے سر پر چوٹ لگی ہے اس لئے آرام سے لیٹے رہو
    میں نے غور کیا تو میں ابھی بھی اُسی صوفے پر لیٹا ہوا تھا جہاں آکر گرا تھا
    میں اس لڑکی کے بے باکی اور اعتماد پر حیران تھا اور سوچ رہا تھا کہ وہ میرے لئے یہ سب کیوں کررہی ہے
    وہ دودھ گرم کرکے لے آئ اور مجھے سہارا دیکر بٹھایا
    میں آدھا تو اُسکے چھونے سے ٹھیک ہوگیا تھا
    میں نے پیالہ پکڑا اور دودھ پینا شروع کردیا
    میں نے دودھ پیا تو تھوڑے اوسان بحال ہوئے
    جب تک میں دودھ پیتا رہا وہ خاموشی سے انتہائ محبت بھری نظروں سے مجھے دیکھتی رہی اس کے چہرے پر
    مونا لیزا جیسی چُھپی ہوئ کمال کی مسکراہٹ تھی
    میں نے دودھ کا پیالہ واپس کیا اور شکریہ کہا تو اس نے مجھے بتایا کہ میں سات گھنٹے بعد اُٹھا تھا
    اس نے پوچھا کیا تم پٹھان ہو میں نے جواب دیا نہیں میں پنجابی ہوں میرا رنگ گورا اس لئے ہے کہ میری ماں کشمیری تھی میرا نام عاصم ہے
    میں نے پوچھا تم کون ہو ؟
    وہ بولی میرا نام رانو ہے میں اس گھر میں رہتی ہوں
    میں نے پوچھا تم اکیلی رہتی ہو
    رانو نے کہا ہاں نیچے میں اکیلی رہتی ہوں اوپر والا حصہ ایک فیملی کو کرایہ پر دے رکھا ہے جو کچھ ہفتوں کےلئے شہر سے باہر گئے ہوئے ہیں صبح جب تم اندر آئے تھے تو میں اندر کمرے میں تھی میں نے تمہیں اُوپر جاتے ہوئے نہیں دیکھا میں نے باہر کا دروازہ دودھ والے کیلئے کھلا رکھا تھا لیکن جب پولیس والے آئے تو انہوں نے دروازے پر دستک دی جب میں باہر نکلی تو اُنہوں نے بتایا
    وہ ایک ڈاکو کا پیچھا کر رہے ہیں اور وہ ڈاکو گھر کے اندر داخل ہوا ہے
    میں نے اُن سے کہا میں نے کسی کو اندر آتے نہیں دیکھا تو اُنہوں نے خون کے قطرے دیکھائے جو سیڑھیوں کیطرف جا رہے تھے
    وہ بول رہی تھی اور میں اُسکی آواز کے ترنم میں مست تھا دل کررہا تھا کہ وہ بس بولتی رہے اور میں سنتا رہوں
    کہہ رہی تھی کہ جب تم نیچے آئے تو میں کچن میں تھی اور تمہیں دیکھ کر بہت ڈر گئ تھی پر تم صوفے پر گرتے ہی بے ہوش ہو گئے
    میں کافی دیر کھڑی تمہیں دیکھتی رہی
    لیکن تم ساکت پڑے رہے پہلے میں پولیس کو فون کرنے لگی تھی پھر میں نے تھوڑی ہمت کی اور پاس آکر دیکھا تو تمہارے خوبصورت اور معصوم چہرے کو دیکھ مجھے لگا کے تم ڈاکو نہیں ہو سکتے
    میں نے کہا بڑی دلیر ہو تم ایک ڈاکو کے پاس آگئ اور ڈاکو کے چہرے پر بھی تمہیں معصومیت نظر آئ
    وہ بولی مجھے ہر طرح کے بندے کی پہچان ہے کیونکہ میں وکیل ہوں
    میں نے کہا اچھا وکیل ہو ُ••• پھر تو تم بھی ڈاکو ہوئ نا
    وہ سُن کر تھوڑا سا شرما گئ
    میں نے پوچھا تم اکیلی کیوں رہتی ہو تمہاری فیملی کہاں ہے
    وہ بولی میری ماں میرے باپ کی دوسری بیوی تھی اور میرا باپ بہت امیر آدی تھا اور باپ کے مرنے بعد ساری جائیداد پر پہلی بیوی اور اسکے بچوں نے قبضہ کرلیا اور ہمیں گھر سے نکال دیا
    یہ مکان پہلے سے میری امی کو نانا سے وراثت میں ملا تھا ھم واپس یہاں پر شفٹ ہو گئے دو سال پہلے میری ماں کا بھی انتقال ہو گیا اسوقت سے میں اکیلی یہاں رہتی ہوں
    رانو بولی تم نے ابھی تک اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا
    میں نے کہا
    میں انجنئیرنگ یونیورسٹی میں پڑھتا ہوں اور میرا ایک جگری دوست تمہارے علاقے میں رہتا ہے وہ بہت پریشان تھا اس نے بتایا اسکے گھر پراس علاقے کے ایک بدمعاش نے قبضہ کر رکھا تھا اور وہ اس گھر میں جواء کرواتا ہے
    میں یونیورسٹی میں سٹوڈنٹ یونین کا صدر ہوں اس لئے میرے پاس اسلحہ اور لڑکوں کی کمی نہیں تھی ھم نےمل کر پلان بنایا کہ ہم اس جوئے کے اڈے پر دھاوا بولیں گے
    اور اس جگہ کو خالی کروا لیں گے
    پر کل رات جب ھم نے وہاں پر حملہ کیا تو اس علاقے کا ڈی ایس پی بھی وہاں پر بیٹھا جوا کھیل رہا تھا دراصل یہ جوئے کا اڈا چل ہی اس کی سرپرستی میں رہا تھا
    ہم نے جاکر چار گن مین جو باہر بیٹھے تاش کھیل رہے تھے اُن کو قابو کیا اور اُن سے اسلحہ چھین لیا اورانہیں مارنا شروع کردیا شور سن کر اندر سے کچھ بندے باہر کیطرف آئے تو ہم نے اندھا دھند ہوائ فائرنگ شروع کردی ہم پچیس کے قریب لڑک تھے ہر ایک کے پاس جدید اسلحہ تھا ہماری اندھا دھند فائرنگ سے وہ سب کے سب پچھلے دروازے سے اور دیواریں پھلانگ کر بھاگ گئے ھم اندر ہال میں گئے تو ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں وہاں پیسے کے ڈھیر لگے تھے
    ہال کے آخر میں ایک دروازہ تھا میں دروازہ کھول کر اندر گیا تو اندر ایک دفتر تھا اس دفتر کی پچھلی طرف بھی ایک دروازہ تھا جو باہر پچھلی سڑک پر کھلتا تھا
    شائید اسی دروازے سے ان میں سے کچھ لوگ بھاگے تھے کیونکہ وہ دروازہ کھلا ہوا تھا
    دفتر میں ایک ٹیبل تھا جس پر پندرہ کے قریب ٹیلی فون پڑے تھے اور ایک دیوار کے ساتھ بہت بڑی لوہے کی الماری تھی جس نے تقریباً پوری دیوار کو چھپایا ہوا تھا
    میں نے الماری کے ہینڈل کو گھما کر الماری کھولنے کی کوشش کی تو وہ لاک تھی
    میں وہاں سے مُڑا تو ٹیبل کی ٹانگ کے پاس چابیوں کا ایک گچھا پڑا تھا جو شائید بھاگتے وقت ان سے گر گیا تھا میں نے جلدی سے چابیاں اُٹھائیں مجھے الماری کھولنے کا تجسس تھا میں نے ایک ایک کرکے چابیاں آزمائیں تو تیسری چابی لگ گئ اور لاک کھل گیا میں نے جلدی سے الماری کا دروازہ کھولا تو میری آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ گئیں
    الماری کے چار بڑے خانےتھے تین خانے نوٹوں سے بھرے ہوئے تھے چوتھا خانہ پانچ پانچ تولے کی سونے کی اینٹوں سے بھرا تھا جو اندازاً ہزار سے بھی زیادہ تھیں
    میں نے اِتنا پیسہ زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ابھی میں اس قارون کے خزانے کے سحر میں کھڑا ہی تھا کہ پولیس کے سائیرن کی آواز آنے لگی
    مجھے اچانک ہوش آیا میں نے جلدی سے پاس پڑی ہوئ ردی کی ٹوکری کو خالی کیا اور سونے کی اینٹیں اس میں بھریں تقریباً آدھی اس میں سما گئیں
    پولیس سائیرن کی آواز مسلسل آرہی تھی
    میں ٹوکری اُٹھا کر واپس ہال کیطرف بھاگا وہاں گیا تو نوٹ پورے فرش پے بکھرے پڑے تھے اور وہاں پر میرے ساتھ آنے والے لڑکوں میں سے کوئ بھی نہیں تھا وہ سب شائید پولیس سائیرن کی آواز آتے ہی اپنا اپنا مال مال ِغنیمت سمجھ لُوٹ کربھاگ چکے تھے
    مجھے خیال آیا سارے اسطرف بھاگے ہیں مجھے ادھر نہیں جانا چاہئے
    میں ٹوکری لے کر پچھلے دروازے کیطرف بھاگا دروازے سے باہر نکلا تو میں نے دائیں بائیں دیکھا پولیس سائیرن کی آواز تو آرہی تھی لیکن ابھی کہیں دور تھی
    میرے دائیں طرف دیوار کے ساتھ ایک پرانی ٹوٹی پھوٹی زنگ آلود آسکریم کی سائیکل والی ریڑھی کھڑی تھی جس کی حالت بتا رہی تھی کئ سال سے وہیں کھڑی تھی میں نے اسکے آئسکریم والے باکس کا ڈھکن زور لگا کے کھولا ساری اینٹیں اس میں پھینک کر ٹوکری کو خالی کیا اور ٹوکری کو ایک طرف پھینک کر بھاگنے ہی لگا تھا کہ اچانک میرے دل میں لالچ آگیا کیونکہ پولیس سائیرن کی آواز تو کہیں قریب سے آرہی تھی لیکن ابھی تک کوئ گاڑی نظر نہیں آرہی تھی میں نے جلدی سے ٹوکری دوبارہ اٹھائ اور اندر جاکر باقی سونے کی اینٹیں بھی اس میں بھریں اور باہر آکر آئیس کریم باکس میں ڈال دیں اور ڈھکن دوبارہ بند کردیا اور ٹوکری کو واپس آفس کے اندر پھینک کر سڑک کے ساتھ ساتھ ایک طرف کو دوڑ لگا دی رات کا آخری پہر تھا سڑک کے دوسری طرف لڑکیوں کا سکول تھا اس وجہ سے زیادہ پیدل آمدورفت نہیں تھی
    تقریباً آدھا کلو میٹر آگے چوک تھا میں چوک پر پہنچ کر ایک رکشہ میں بیٹھ گیا میں جلد از جلد اس علاقے سے نکل جانا چاہتا تھا میں نے رکشہ والے سے کہا ایمرجینسی ہے جلدی ہاسپیٹل چلو
    لیکن رکشہ کے حرکت میں آنے سے پہلے ہی ایک پولیس موبائیل سائیرن بجاتی ہوئ رکشے کے آگے آن کھڑی ہوئ
    میں نے جلدی سے اپنا پسٹل نکال کر رکشہ کی گدی جس پر میں بیٹھا تھا
    اس کے نیچے بنے بکس میں پھینک دیا
    پولیس موبائیل میں سے ساتھ آٹھ جوانوں نے چھلانگیں لگائ اور رکشہ پر اپنی گنیں تان کر ہمیں گھیر لیا ان میں سے ایک سپاہی نے کہا کے اپنے ہاتھ اوپر اُٹھاؤ اور باہر آجاؤ
    میں نے جلدی سے ہاتھ اُٹھائے اور باہر آگیا میں کوئ پھُرتی نہیں دیکھانا چاہتا تھا
    کیونکہ اسوقت کسی بھی پھرتی کا مطلب سیدھی گولی تھا
    میں نے باہر نکلتے ہی کہا سر آپ لوگوں کو کوئ غلط فہمی ہوئ ہے میں نے کیا کِیا ہے ؟
    سب انسپکٹر جو پیچھے کھڑا تھا آگے بڑھا اور بولا تم نے ڈی ایس پی صاحب کی پراپرٹی پر ڈاکا ڈالا ہے ہم نے تمہیں اس گلی سے نکل کر بھاگتے ہوئے دیکھا ہے جہاں واردات ہوئ ہے
    جلدی سے میرے ذہن میں جو کہانی بنتی گئ میں بولتا گیا
    میں نے کہا میرا تو گھر اُدھر ہے
    اور بھاگ میں اس لئیے رہا تھا کہ میرا بھائ ہسپتال میں داخل ہے اور اس کی حالت بہت تشویشناک ہےمجھے ابھی ہسپتال سے فون آیا تھا میں جلدی ہسپتال پہنچنا چاہتا تھا آپ رکشہ والے سے پوچھ سکتے ہیں
    سب انسپکٹر نے رکشہ والے کی طرف دیکھا تو اُس نے کہا جی صاحب جی اس نے رکشہ میں بیٹھتے ہی مجھے کہا تھا جلدی ہسپتال چلو
    سب انسپکٹر نے ایک سپاہی سے کہا اسکی تلاشی لو
    مجھے پتہ تھا میرے پاس تو انہیں کچھ نہیں ملے گا لیکن ڈر تھا کہیں رکشہ کی تلاشی نہ لے لیں
    پولیس والے نے تسلی سے تلاشی لینے کے بعد کہا اس کے پاس کچھ نہیں ہے
    یہ سُن کر پولیس والے جو اپنی بندوقیں مجھ پر تانیں کھڑے تھے تھوڑے ریلیکس ہوگئے لیکن سب انسپکٹر بولا اس کو گاڑی میں بیٹھاؤ
    میں نے احتجاج کیا مہربانی کرکے مجھے جانے دو میں نے جلدی ہسپتال پہنچنا ہے میرا بھائ شدید بیمار ہے میرا وہاں پہنچنا بہت ضروری ہے
    سب انسپکٹر بولا ہم تمہیں نہیں چھوڑ سکتے تمہیں ہمارے ساتھ پولیس سٹیشن چلنا ہوگا ڈی ایس پی صاحب نے کچھ حملہ آور ڈاکوؤں کی شکلیں دیکھ لیں تھی تم سے تفتیش اور تمہاری شناخت پریڈ کروانے کے بعد اگر تم بے قصور ہوئے تو تمہیں چھوڑ دینگے
    مجھے اندازہ ہوگیا کے یہ مجھے نہیں چھوڑیں گے کچھ اور جُگاٹ کرنا پڑے گا میں تابع داری کے ساتھ پولیس ڈالے میں بیٹھ گیا دو پولیس والے میرے دائیں اور بائیں بیٹھ گئے
    چار میرے سامنے بیٹھ گئے گاڑی چلتے ہی انہوں نے میرے ساتھ باتیں شروع کردیں
    ایک کہنے لگا تم تو ایک پڑھے لکھے اور سمجھدار لگتے ہو اور عادی مجرم بھی نہیں لگتے تم نے یہ کام کیوں کیا ؟
    میں بالکل ریلیکس ہو کر بیٹھا تھا تاکہ وہ سب میری طرف سے مطمئن ہو جائیں
    میں نے کہا مجھے تو پتہ بھی نہیں آپ کس کام کی بات کر رہے ہیں مجھے تو اپنے بھائ کی ٹینشن ہے اس لئے بھاگ رہا تھا
    اگلی سیٹ پر بیٹھے سب انسپکٹر نے اپنی وائیرلیس پر اطلاع کردی کہ ہم نے ایک مشتبہ ملزم پکڑ لیاہے
    ساتھ ہی کسی نے وائرلیس پر جواب دیا ڈی ایس پی صاحب کا حکم ہے اسکو ہر حالت میں زندہ لے کر آنا ہے
    میں پیچھے بیٹھا سن رہا تھا یہ خبر میرے لئے حوصلہ افزا تھی میں آرام سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا لیکن ذہنی طور پر پورا مستعد اور تیار تھا تقریباًدس منٹ کے بعد آگے سبزی منڈی تھی وہاں گدھا گاڑیوں اور ٹریکٹر ٹرالیوں کیوجہ سے ٹریفک بہت سست تھی
    ایک لمحے کے لئے گاڑی رکی مجھے اسی لمحے کا انتظار تھا
    میں نے انتہائ پُھرتی سے پولیس ڈالے سے باہر چھلانگ دی اور باہر توازن برقرار نہ رکھ سکا میں سڑک پر کندھے کہ بل گر گیا لیکن خوش قسمتی سے کوئ چوٹ نہیں آئ اور ابھی میں اُٹھ ہی رہا تھا کہ پیچھے سے دو پولیس والوں نے چھلانگیں لگا دیں میں نے اُٹھ کر دور لگا دی راستے میں ایک پولیس والے نے میرے سر پر اپنی رائفل کا بٹ مارا اور خود گر گیا اور دوسرا اسکو اُٹھانے کیلئے رک گیا اور میں بھاگتے ہوئے یہاں تک پہنچ گیا
    آگے سب تمہیں معلوم ہی ہے
    رانو نے انتہائ توجہ اور محبت سے میری بات سنی اور بولی میں تمہاری بات پہ کیسے یقین کرلوں اور اگر تم ڈاکہ ڈالنے نہیں گئے تھے تو تمہیں سونا اُٹھانے کی کیا ضرورت تھی
    میں نے کہا رانو یقین کرو میں نے اتنا پیسہ زندگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا اس سونے کی قیمت پچاس کروڑ روپے بنتی ہے جس سے میری زندگی کی کایا پلٹ سکتی ہے اس لیے مجھ سے رہا نہیں گیا
    رانو بولی تم نے مجھے سونے کے بارے میں کیوں بتایا میں بھی تو تمہیں دھوکہ دے سکتی ہوں
    میں نے کہا رانو میں تمہاری آنکھوں میں اپنے لئے بے انتہاء پیار اور چاہت دیکھ چکا ہوں
    تم اگر مجھے دھوکہ دے بھی دو میں خوشی سے اس دھوکے کو قبول کرلوں گا
    اور میں بھی پہلی نظر میں ہی تمہارا دیوانہ ہوچکا ہوں مجھے تم اس سونے سے کہیں زیادہ عزیز ہو
    رانو نے نظریں اُٹھا کر مجھے حیرت اور محبت سے دیکھا اُس کی آنکھوں کی حیرت بتا رہی تھی کہ میں نے اسکے دل کو پڑھ لیا تھا
    وہ کچھ دیر اسی حیرت اور محبت میں بیٹھی رہی اور پھر اچانک اُٹھی اور میرے بہت پاس آگئ اور اپنے دونوں ہاتھوں میں میرا ہاتھ لے لیا اُس کے ہاتھوں میں ہلکی سی کپکپاہٹ تھی اور بولی عاصم کیا تم یہ سب سچ کہہ رہے ؟
    میری کیفیت بھی عجیب ہو چکی تھی میرے دل کی دھڑکن انتہائ تیز ہو چکی تھی مجھے لگ رہا تھا جیسے میں کہیں آسمانوں میں اُڑ رہا ہوں اس کے ہاتھوں کی حرارت اور لمس نے مجھ پر اک جادو سا کردیا تھا
    میں نے اپنا دوسرا ہاتھ بھی اپنے اور رانو کے ہاتھوں پر رکھ کر کہا رانو کیا تمہیں میرے الفاظ اور جزبات کی صداقت محسوس نہیں ہورہی ؟
    رانو بولی یہ بات نہیں تمہاری سچائ مجھے تمہارے چہرے سے ہی نظر آگئ تھی جب تم یہاں صوفے پر بیہوش پڑے تھے میں چار گھنٹے تک تمہارے پاس بیٹھی تمہیں تکتی رہی تھی
    میں تم میں کھو سی گئ تھی
    مجھے تم میں اپنائیت ، پیار اور معصومیت نظر آئ تم مجھے اپنے اپنے سے لگ رہے تھے
    میرا دل چاہ رہا تھا میں تمہیں ساری زندگی اسطرح بیٹھی تکتی رہوں یہ کہہ کر رانو نے اپنا ماتھا میرے گھٹنے پر رکھ دیا اور رونے لگی
    وہ رو رہی تھی اور مسلسل بول رہی
    کہہ رہی تھی مجھے زندگی میں تم پہلے شخص ملے ہو جس نے مجھے پیسے پر فوقیت دی ہے میرا مرحوم باپ اور سوتیلے بہن بھائ سب پیسے کی حوص میں مبتلا تھے رشتے اور تعلق اُن کیلئے کوئ اہمیت نہیں رکھتے تھےعاصم مجھے تمہارا سونا دولت یا پیسہ نہیں چاہیئے خدارا مجھے دھوکہ نا دینا مجھے صرف تمہارا ساتھ چاہیئے
    میں بہت اکیلی ہوں
    اور میں اکیلی اس دنیا سے نہیں لڑ سکتی
    یہ شائیدقسمت نے ہمیں ملایا ہے
    اُس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ میرا دل بھی دُکھی ہو گیا میں نے دونوں ہاتھوں سے اُس کا سر اپنے گھٹنوں سے اُٹھایا اور اس کے آنسو پونچھے اور میں نے کہا رانو میں وعدہ کرتا ہوں جب تک زندہ ہوں تمہارا ہوں تم پر کوئ آنچ نہیں آنے دونگا
    تم بھی میری زندگی میں اک حسین خواب کی تعبیر بن کر آئ ہو
    رات ہو چکی تھی اور ابھی ہماری اُلفت کے عہدوپیمان جاری تھے کہ اچانک دروازے پر کسی نے بڑے زور سے دستک دی
    ہم دونوں گبھرا گئے رانو بولی اس وقت پولیس کے علاوہ کوئ نہیں ہو سکتا
    تم اسطرح کرو فوراً کمرے کے اندر چلے جاؤ میں باہر دیکھتی ہوں
    مجھے ہوش میں آئے پانچ گھنٹے ہو چکے تھے کافی بہتر محسوس کررہا تھا میں ہمت کرکے اُٹھا اندر کمرے میں چلا گیا
    رانو باہر دروازے پر گئ اور اندر سے ہی پوچھا کون ؟
    باہر سے آواز آئ پولیس ہے دروازہ کھولیے آپ سے کوئ بات کرنی ہے
    رانو نے دروازہ کھولا تو پولیس والے نے ایک پرچی تھماتے ہوئے کہا ہم اس علاقے کے ہر گھر کو اطلاع کررہے ہیں کہ یہاں ایک ڈاکو چھپا ہوا ہےجو ابھی تک پکڑا نہیں گیا اس کے سر پر گہری چوٹ لگی ہے اگر اس کے بارے میں آپکو کوئ بھی اطلاع ملے تو اس پرچی پر لکھے نمبر پر اطلاع کردیں
    رانو نے پرچی لی اور دروازہ بند کرکے اندر آگئ
    میں نے رانو سے کہا رانو تم میری وجہ سے کسی بڑی مصیبت میں پھنس سکتی ہو
    میں کسی طرح ایک دفعہ اپنی یونیورسٹی کے ہاسٹل میں پہنچ جاؤں
    ہماری یونیورسٹی کی حدود میں پولیس داخل نہیں ہو سکتی
    اور میں حکومتی پارٹی کی سٹوڈنٹ یونین کا صدر ہوں وزیرِاعلی تک میری ڈائریکٹ رسائ ہے
    میں نے اس کے بہت سے کام کئے ہیں مجھے یقین ہے اگر میں پکڑا بھی گیا تو وہ مجھے اس مسئلے سے نکال لے گا ویسے بھی چند پولیس والوں نے مجھے دیکھا ہے ان میں سے کسی نے بھی مجھے پہچانا نہیں
    رانو بولی آج تازہ تازہ یہ واقعہ ہوا ہے ہر طرف پولیس گھوم رہی ہے تم کم از کم آج کی رات تو یہاں سے نہیں نکل سکتے
    صبح میں باہر جاؤں گی اور صورتحال دیکھ کر آؤں گی پھر چلے جانا
    یہ کہتے ہوئے رانو نہ جانے کیوں تھوڑا سا شرما گئ
    اس لئے مجھ سے بھی انکار نہ ہو سکا
    میں اُس رات وہیں سوگیا وہ زندگی کی سب سے حسین رات گزارنے کے بعد صبح ہم اُٹھے تو ناشتہ کروانے کے بعد رانو باہر جاکر صورتحال دیکھ کر آئ تو اُس نے بتایا پورے علاقے میں پولیس گھوم رہی ہے کچھ اہلکار سادہ کپڑوں میں پھر رہے تھے میں یہاں کئ سال سی رہ رہی ہوں اس لئے محلے والوں کی شکلوں سے واقف ہوں کچھ نئے چہرے جگہ جگہ کھڑے ہیں
    پھر اگلی رات بھی میں وہیں سویا
    اور پھر اگلے دس دن تک یہی ہوتا رہا
    رانو روزانہ مجھے ڈراتی رہی اور میں ڈرتا رہا
    سچ پوچھیں تو میرا بھی ڈرنے کو دل کرتا رہا دل چاہتا تھا دنیا یہیں رُک جائے
    بس ہر طرف رانو ہی رانو ہو اور کچھ نہ ہو
    میں یہ خوبصورت لمحے کھونا نہیں چاہتا تھا
    دس دن بعد میں نے رانو سے کہا مجھے ہر حال میں یہاں سے نکلنا ہوگا
    لیکن تم فکر نہ کرو ہم ملتے رہیں گے اس مسئلے کے حل ہوتے ہی میں تمہیں یہاں سے لے جاؤنگا اور ھم شادی کرلیں گے
    رانو پریشان ہوگئ وہ بولی میرا اب تمہارے بغیر رہنا ممکن نہیں مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو ابھی
    میں نے رانو کو سمجھایا ابھی میں خود خطرے میں ہوں اور میں تمہاری زندگی خطرے میں نہیں ڈال سکتا
    لیکن تم پریشان نہ ہو میں تمہیں روزانہ فون کرونگا اور ھم رابطے میں رہینگے
    میں تو اس علاقے میں آ نہیں سکتا لیکن ہم کہیں اور مل لیا کریں گے
    رانو نے کہا اگر تم نے جانے فیصلہ کرلیا ہے تو ابھی مت جاؤ رات کو چلے جانا
    پچھلے چھ یا سات گھروں کے بعد ایک قدیم مغلیہ دور کا مقبرہ ہے جو کافی عرصہ سے آثارِقدیمہ والوں نے مرمت کیلئے بند کر رکھا ہے تم چھتیں پھلانگ کر وہاں تک جا سکتے ہو اوروہ مین روڈ پر ہے
    میں نے یہی کیا میں رات کا اندھیرا ہوتے ہی چھت پر جاکے وہاں سے اُس مقبرہ کے اندر تک جا پہنچا
    مقبرہ کی باہر والی دیوار کافی اونچی تھی لیکن پرانی ہونے کی وجہ سے کئ جگہ سے اینٹیں اُکھڑی ہوئیں تھیں اس لئے اس پر چڑھنا آسان تھا اگلے چند منٹ میں باہر سڑک پر تھا آبادی گنجان ہونے کیوجہ سے سڑک پر کافی ٹریفک تھی لیکن شکر ہے مقبرہ کی طرف اندھیرا ہونے کی کی وجہ سے کسی نے مجھے نہیں دیکھا میں سڑک پر آتے ہی ریلوے سٹیشن جانے والی بس پر بیٹھ گیا
    رکشہ یا ٹیکسی لینے میں خطرہ زیادہ تھا
    ریلوے سٹیشن پہنچ کر میں نے ٹیکسی لی اور یونیورسٹی پہنچ گیا
    جب سب لڑکوں کو پتہ چلا تو سب ملنے آگئے بہت خوش تھے کسی نے بھی اُس دن دس لاکھ سے کم نہیں اُٹھائے تھے
    میں نے کسی کو سونا چھپانے اور رانو پانے والی بات نہیں بتائ
    بس یہی بتایا کہ میں دوسرے راستے سے بھاگا تھا
    اس لئے پولیس کے قابو آگیا لیکن پولیس سے بھاگ نکلا اور ایک دوست کے ہاں چُھپا رہا
    اب میری زندگی کے دو ہی مقصد تھے وہاں سے سونا نکالنا اور رانو کو لے کر اس شہر سے دور جاکر نئ زندگی شروع کرنا
    مگر یہ آسان نہیں تھا
    میں رانو سے روزانہ بات کرتا تھا میں نے رانو سے کہا کہ جب تک میں وہاں سے سونا نکال نہیں لیتا تم روزانہ وہاں جاؤ
    رانو روزانہ اُسطرف سے گزرتی اور مجھے بتاتی رہی کہ وہ وہاں پچھلے دروازے پر ہر وقت دو پولیس والے پہرہ پر ہیں
    وہاں سارا دو نمبر پیسہ پڑا تھا اس لئیے وہاں زیادہ شور نہیں مچا کے کتنی مالیت کا سونا یا نقدی غائب ہوئ ہے
    رانو سے اس دوران ملاقاتیں بھی ہوئیں میرے ایک دوست کے گھر پر۔
    ہم نے اپنے ہنی مون کیلئے جگہیں بھی فائنل کرلیں ہمارا پروگرام تھا کہ ہم شادی کے بعد پوری دنیا گھومیں گے
    ہم دونوں ایک دوسرے کی محبت میں پاگل ہوچکے تھے
    ایک مہینہ گزر چکا تھا میں نے رانو سے کہا معاملہ ٹھنڈا ہوچکا ہے اب ہمیں وہاں سے سونا نکال لینا چاہئیے
    میں گاڑی لے کر آؤں گا اتوار کی صبح چار بجے سونا نکال کر تمہاری طرف آوُنگا تم تیار رہنا پھر ہم اسلام آباد نکل جائیں گے
    رانو کے ساتھ پروگرام طے ہونے کے بعد میں نے فون بند کردیا
    اتوار کا دن آنے میں ابھی چار دن تھے میں نے کچھ کام نپٹانے تھے
    اگلے دن شام کو میں نے حسب عادت رانو کو فون کیا تو اُس کا فون بند تھا جب سے ہم ملے تھے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا
    میں اگلے تین چار گھنٹے تک باربار کوشش کرتا رہا لیکن اُسکا فون بند جا رہا تھا
    میں پریشان ہو گیا کہیں رانو کسی مصیبت
    میں نہ پھنس گئ ہو
    میں جلدی سے تیار ہوا اور رانو کے گھر جا پہنچا دروازہ بند تھا میں نے گھنٹی بجائ
    توایک تقریباً پینسٹھ سالہ شخص نے دروازہ کھولا اور سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا
    میں نے اندازہ لگایا کہ یہ کرایہ دار ہوگا
    میں نے جلدی سے سلام کیا اور کہا انکل مجھے گھر کی مالکن سے ملنا ہے
    انکل نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور اندر آواز دی سکینہ تم سے باہر کوئ ملنے آیا ہے ساتھ ایک ساٹھ سالہ آنٹی باہر دروازے پر آئ اور پوچھا جی بیٹا !
    مجھے بہت غصہ آیا میں نے پوچھا آپ لوگ کون ہیں میں رانو کے بارے میں پوچھ رہا ہوں جس کا یہ گھر ہے
    وہ شخص آگے بڑھا اور بولا بیٹا آپ کو کوئ غلط فہمی ہوئ ہے آپ اندر آجاؤ بیٹھ کر بات کرتے ہیں اور مجھے لے کر اسی برآمدے آگیا جہاں سے میری اور رانو کی محبت کا آغاز ہو ا تھا
    پتہ نہیں دل ڈر سا گیا تھا میں دُکھی سا ہوگیا میرے دل سے بے اختیار دعا نکلی
    یا رب سارا سونا مالکان کو واپس کر دونگا
    یا تیری راہ میں خرچ کر دونگا
    پر رانو کو کچھ نہ ہوا ہو
    اس نے مجھے اسی صوفے پر بیٹھا دیا جہاں میں پہلی دفعہ گرا تھا
    وہ شخص بولا بیٹا آپ شائید اُس لڑکی کی بات کررہے ہو جو یہاں رہتی تھی
    میں نے اثبات میں سر ہلایا
    وہ بولا بیٹا وہ ہماری کرایہ دار تھی اور ہم میاں بیوی اس گھر کے مالک ہیں
    ہمارا بیٹا اور بہو کراچی رہتے ہیں ہم ایک ماہ اُن کے پاس کراچی جا کر رہتے ہیں اس لئے ہمیں ایسے کرایہ دار کی ضرورت تھی جو ہمارے ساتھ رہے اور ہمارے کراچی جانے کے بعد ہمارے گھر کا خیال رکھے
    تو انہی دنوں یہ لڑکی کرایہ کا گھر ڈھونڈتی ہمارے گھر آگئ
    اس لڑکی نے ہمیں بتایا تھا کہ وہ راولپنڈی کی رہائیشی ہے اور یہاں کسی اکیڈمی میں ایکٹنگ سیکھ رہی ہے ہم نے پتہ کروایا تو وہ واقعی اکیڈمی میں سٹوڈنٹ تھی اس لئے ہم نے اسے اس شرط پر مفت رکھ لیا کے ہمارے جانےکے بعد وہ گھر کا خیال رکھے گی
    اور پچھلے تین سال سے ہمارے ساتھ رہ رہی تھی اس کا نام نازیہ تھا
    ایک ہفتہ پہلے گھر چھوڑ کر چلی گئی کہہ رہی تھی واپس راولپنڈی اپنے گھر جارہی ہوں
    وہ شخص بول رہا تھا اور مجھے لگ رہا تھا جیسے پوری دنیا گھوم رہی ہے میرے پاؤں تلے سے زمین نکل چکی ہے اور میں کہیں خلاء میں جُھول رہا ہوں
    وہ شخص مجھ سے کچھ پوچھ رہا تھا لیکن مجھے کوئ بات سمجھ نہیں آرہی تھی آنٹی شائید میری حالت کو بھانپ کر پانی کا گلاس میرے لئے لے آئ
    میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا بیٹا پانی پیو۔
    مجھے ساری صورتحال سمجھ آچکی تھی
    مزید کچھ سننے کا مجھ میں حوصلہ نہیں تھا
    میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں کہیں اکیلے بیٹھ کر خوب روؤں تاکہ میرا دل ہلکا ہو جائے دنیا کی ہر چیز میرے لئے بے معنی ہو
    چکی تھی اسی لمحے میں نے سوچ لیا تھا میں رانو یا سونے کے پیچھے نہیں جاؤنگا
    کیونکہ مجھے یقین تھا وہ سونا بھی ساتھ لے کے گئ تھی میں نے انکل اور آنٹی سے معافی مانگی اور اُٹھ کر چل دیا
    یونیورسٹی پہنچ کر میں نے اپنا کمرہ اندر سے لاک کیا اور خوب رویا اور روتا رہا تین گھنٹے ہر طرح سے رویا دھاڑیں مار کر بھی اور سِسکیاں لے کر بھی میں اتنا رویا کہ
    میں نے رانو عرف نازیہ کو اپنے دل سے نکال کر آنسوؤں میں بہا دیا تھا میں بالکل ہلکا پھلکا ہو چکا تھا
    چار سال بعد میں ملتان اپنے دفتر میں بیٹھا کام کر رہا تھا
    دوبئ سے میرے نام پرایک پارسل آیا
    میں نے کھولا تو اس میں دوبئ کا بزنس کلاس ٹکٹ اورایک بینک کا ڈرا فٹ تھا اور ایک خط تھا میں نے خط کھولا
    جس میں لکھا تھا

    سلام
    عاصم مجھے معاف کر دینا
    میرا بچپن سے خواب تھا کہ میں اپنا ایک پروڈکشن ہاؤس بناؤں
    خود ڈرامے پروڈیوس کروں اور اور ان میں خود ایکٹنگ کروں آج میں دوبئ میں بہت بڑے پروڈکشن ہاؤس کی مالک ہوں
    جس کی مالیت پانچ ارب روپے ہے یہ سب میں تمہارے ساتھ رہ کر بھی کرسکتی تھی
    لیکن میں ڈرتی تھی کیونکہ میں راولپنڈی کی ایک اداکارہ کی نا جائیز بیٹی ہوں مجھے ڈر تھا کہ اگر تمہیں پتہ چلے گا تو تم مجھے قبول نہیں کرو گے اس لئے میں نے تم سے جھوٹ بولا
    اور پھر میرے دل میں لالچ آگیا تھا کہ میں تمہارے پیسے سے اپنے سارے خواب پورے کرسکتی ہوں اور کیئے بھی لیکن ایک بات تمہیں بتانا چاہتی ہوں کہ
    میں تم سے آج بھی بے حد پیار کرتی ہوں میں نے ہر مقام پر تمہیں بہت یاد کیا
    اور اس مقام تک بھی تمہاری وجہ سے ہی پہنچی ہوں
    تمہارے پاس دونوں آپشن ہیں پہلا یہ ہے
    اگر تم مجھے قبول کرلو تو میں تمہیں اپنے سارے کاروبار میں برابر کا پارٹنر بنا لونگی اور ہم دونوں مل کر سارا بزنس سنبھالیں گے تم فوراً دوبئ کی فلائٹ پکڑو اور آجاؤ
    اور دوسرا آپشن یہ ہے کے اگر تم نہیں آنا چاہتے میں نے پچاس کروڑ کا بینک ڈرا فٹ بھیجا ہے یہ تمہارا ہے جسے تم اپنے اکاؤنٹ میں جمع کروا سکتے ہو
    اور مجھے یقین ہیکہ تم پہلی آپشن قبول کروگے
    میں تمہارا انتظار کرونگی
    تمہاری ۔۔ رانو “
    میں نے اگلے دن بینک جاکر ڈرا فٹ اپنے اکاؤنٹ میں جمع کروا دیا ۔
    کیونکہ ایک سال پہلے میری شادی ہو چکی تھی اور میں انتہائ مطمئن اور پُر سکون زندگی گزار رہا تھا بس پیسے کی تھوڑی کمی تھی اوراب وہ بھی پوری ہوگئ​

  • #2
    واہ زبردست کیا کمال کی سٹوری بہت اعلی

    Comment


    • #3
      Fankar k sath fankari hogaye.. zabardast

      Comment


      • #4

        دلچسپ اور بہت ہی زبردست کہانی ۔​

        Comment

        Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

        Working...
        X