Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

جگ تجھ پہ وار دیا

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #81
    Episode_52

    عائلہ نے عینا کو دلہن کا روپ دینے کے لیے اس کے منع کرنے کے بادجود اس کا لائیٹ سا میک اپ کردیا تھا۔۔۔ساتھ تو وہ اپنے کچھ بھی لے کر نہیں آئی تھی اس لیے فجر کی جیولری میں سے ہی میچنگ جیولری ہائمہ خاتون نے اسے پہننے کو لا دی تھی
    کریم کلر کے ڈریس میں ہلکے پھلکے میک اپ کے ساتھ وہ اس وقت احتشام شاہ کو آسمان سے اتری کوئی حور لگ رہی تھی۔۔۔جو الّٰلہ نے اسکی کسی نیکی کے عوض صرف اس کے لیے زمین پہ اتاری تھی۔۔۔جو اسے چاروں شانے چت کر گئ تھی۔۔۔
    وہ بے خود سا ہو کر اس کی طرف بڑھا تھا۔۔۔احتشام شاہ کے اس قدر قریب آنے پہ اور اسکی بےخودی محسوس کرتے اس نے جلدی سے پیچھے کو کھسکنا چاہا مگر اس کا ارادہ بھانپتے ہوئے احتشام شاہ نے فوراً اسے اپنے بائیں بازو کے حصار میں لیتے ایک جھٹکے سے اسے اپنے مزید قریب کیا کہ وہ اس کے سینے سے آ لگی۔۔۔عینا کا شرم و حیا سے سرخ پڑتا چہرہ خون چھلکانے لگا۔۔۔احتشام شاہ نے مدہوش ہوتے اپنے دائیں بازو کو بھی اس کے گرد حائل کرتے اس کی کمر کے گرد اپنی گرفت مضبوط کی۔۔۔تو عینا جھٹپٹاتے ہوئے خود کو اسکی گرفت سے آزاد کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔دروازہ بند ہونے کی وجہ سے اسے یہ سوچ بھی مارے دے رہی تھی کہ باہر کھڑے لوگ کیا سوچتے ہوں گے اس کے بارے۔۔۔اوپر سے احتشام شاہ کے جسم و جان کو سلگا دینے والے انداز۔۔۔
    " پلیززز۔۔۔مجھے چھو کر محسوس کرنے دیں کہ یہ سچ ہے۔۔۔ مجھے یقین کرنے دیں کہ آپ پہ اب صرف میرا حق ہے اب سے آپ صرف میری ہیں۔۔۔مجھے یقین کرنے دیں کہ میں کوئی خواب نہیں دیکھ رہا۔۔۔"
    احتشام شاہ نے مخمور لہجے میں عینا کو مزاحمت سے روکتے اسے خود میں زور سے بھینچتے اس کے وجود کی خوشبو کو پوری شدت سے انہیل کرتے کہا۔۔۔اس قدر قربت پہ عینا کا دل پوری قوت سے دھک دھک کرنے لگا۔۔۔ایسا لگا جیسے ٹانگیں بے جان ہو رہی ہوں۔۔۔محبت کا پہلا انوکھا اچھوتا سا لمس اسکے پورے وجود میں اک عجیب سی سنسنی بھر گیا۔۔۔ایسے جیسے جسم و جان میں کوئی آگ دہک اٹھی ہو۔۔۔
    ان حدوں سے کہ دو
    کہ
    کچھ دیر ہمیں اجازت دے دیں
    رسم دنیا بھی ہے
    دستور بھی اور موقع بھی
    اور اس پہ
    تیرے قرب کا نشہ بھی
    جو
    سر چڑھ کر ہے میرے بول رہا
    کہ تمہیں چھو کر
    محسوس کرنے کو
    کہ تمہیں خود میں
    جذب کرنے کو
    اصول عشق میں تھوڑا
    بے ایمان ہونے کو
    تھوڑا گستاخ ہونے کو
    یہ پاگل دل ہے مچل رہا

    احتشام شاہ نے بے خود ہوتے جذبات سے چور لہجے میں اس کے بائیں کان کے پاس دھیرے سے سرگوشی کی۔۔۔
    " آ۔۔آپ نے و۔۔وعدہ کیا تھا کہ آپ مجھ پہ کوئی ح۔۔حق نہیں جتائیں گے۔۔۔پلیززز۔۔۔۔۔"
    عینا نے اسکی جزبات سے چور آنکھوں کا فوکس اپنے ہونٹوں پہ دیکھ کر سر جھکائے لرزتے کپکپاتے ہوئے احتشام شاہ کو اس کی بات یاد کرواتے کہا۔۔۔احتشام شاہ کی فرمائش اسکی جان نکالے دے رہی تھی۔۔۔
    " مجھے اپنی ہر بات ہر قول یاد ہے جاناں۔۔۔"
    احتشام شاہ نے ایک ٹھنڈی سانس بھرتے خود کو سنبھالتے کہا۔۔۔نکاح جیسے پاکیزہ رشتے میں جڑنے کا خوبصورت احساس احتشام شاہ کے دل میں حق ملکیت جگا رہا تھا۔۔۔اس کا دل مزید گستاخیوں کے لیے اسے اکسا رہا تھا۔۔۔ عینا کے چہرے پہ خوف اور حیا کے ملے جلے رنگ دیکھ کر خود کو با مشکل اس نے کمپوز کیا اور اس کی پیشانی پہ محبت بھرا گہرا لمس چھوڑتے اپنی گرفت ڈھیلی کی مگر اپنے حصار سے آزادی پھر بھی نہیں بخشی۔۔۔جبکہ اس کے "جاناں " کہنے پہ اور محبت کے پہلے بوسے پہ عینا کی روح فنا ہوئی تھی۔۔۔بار حیا سے اپنا جھکا سر وہ مزید جھکا گئ۔۔۔اس کے وجود کی لرزش احتشام شاہ کو بے چین کر گئ۔۔۔
    " احتشام شاہ اپنے وعدے اپنی زبان سے پھرنے والے مردوں میں سے ہرگز نہیں ہے میں اپنا دیا ہر قول اپنی آخری سانس تک نبھاؤں گا۔۔۔
    میں آپ کو چھو کر بس یقین کرنا چاہ رہا تھا کہ میں کوئی خواب نہیں دیکھ رہا۔۔۔مگر پتہ نہیں کیا بات ہے کہ چھو کر بھی یقین نہیں آ رہا۔۔۔
    میرے یہاں چٹکی کاٹنا ذرا۔۔۔"
    اسے آہستہ سے خود سے الگ کرتے احتشام شاہ نے بظاہر سنجیدگی سے کہا۔۔۔اس سے الگ ہوتے ہی اپنے دھک دھک کرتے دل کو سنبھالتے عینا نے دو قدم پیچھے کو ہوتے ہوئے اس کی بات کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتے حیران ہوکر ایک پل کو اس کی طرف دیکھا۔۔۔مگر دوسرے پل احتشام شاہ کی آنکھوں میں ناچتی شرارت دیکھ کر اسکی بات کا مطلب سمجھتے اپنی مسکراہٹ روکتے فوراً اپنی نظریں پھیر گئ۔۔۔اور آگے بڑھ کر ہلکا سا دروازہ کھول دیا۔۔۔
    " آہہہہہ۔۔۔کاش کہ جو آگ اس دل میں لگی ہے وہ آپکے دل میں بھی لگی ہوتی تو آپکو اندازہ ہوتا کہ کس طرح سے جل رہا ہوں میں۔۔۔اتنا پاس آ کر بھی اتنی دوری۔۔۔"
    احتشام شاہ نے اس کے چہرے پہ مسکراہٹ نوٹ کرتے اپنے سینے پہ ہاتھ رکھتے اپنے اور اس کے بیچ میں قائم فاصلے پہ چوٹ کرتے مصنوعی خفگی سے کہا۔۔۔
    " فلحال تو آپ اس آگ سے کہیں کہ وہ ٹھنڈی ہی رہے۔۔۔مجھے اب واپس جانا ہے۔۔۔اس سے پہلے کہ بابا کو ہم سب بہنوں کی غیر موجودگی کا پتہ چلے۔۔۔اور دوسری بات کہ میں آپکی بیوی نہیں ہوں صرف منکوحہ ہوں۔۔۔ابھی میری رخصتی نہیں ہوئی اس کے لیے آپ کو ماما کے ہوش میں آنے کا ویٹ کرنا ہوگا۔۔۔
    عینا باہر نکلنے کے لیے دروازے کی طرف بڑھتے ہو سنجیدگی سے بولی۔۔۔
    " عینا۔۔۔۔"
    احتشام شاہ نے اسے پکارا تو اس کے لہجے میں بشاشت مقفود تھی۔۔۔عینا نے حیران ہو کر پلٹ کر سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھا۔۔۔
    " کیا آپ اس نکاح سے خوش نہیں ہیں۔۔۔"؟
    احتشام شاہ نے عینا کی طرف دیکھتے عجیب سے لہجے میں کہا۔۔۔"
    آپکو ایسا کیوں لگا۔۔۔"؟
    عینا نے تعجبب خیز لہجے میں پوچھا۔۔۔
    " آپ کو پا کر میرے دل میں جس طرح سے سکون مسرت کے احساسات جاگزیں ہیں ایسا لگ رہا جیسے آپ کوئی فرض نبھا رہی ہیں۔۔۔آپ مجھ سے کترا رہی ہیں۔۔نظر انداز کر رہی ہیں۔۔۔"
    احتشام شاہ نے دھیرے سے اس کے پاس آ کر کہا۔۔۔
    " سچ کہوں تو اپنی فیلنگز میں خود نہیں سمجھ پا رہی۔۔۔اس وقت عائلہ آپی کے سوا مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا۔۔۔مگر یہ بھی سچ ہے کہ آپ کے نام کے ساتھ اپنا نام میں نے پورے دل سے دل کی مرضی سے جوڑا ہے میں آپکو نظر انداز کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔میں عائلہ آپی جیسی نہیں ہوں۔۔۔اگر مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی ہوتی تو اس کے لیے مجھے کوئی مجبور نہیں کرسکتا تھا۔۔۔نہ بابا ، نہ آپ۔۔۔کوئی بھی نہیں۔۔۔شائد ہی کسی لڑکی نے آج تک اس طریقے سے نکاح کیا ہو۔۔۔محبت کا تو نہیں پتہ لیکن آپ پہ مان اور بھروسہ تھا جس کی ڈور سے بندھ کر میں چلی آئی۔۔۔بنا یہ سوچے کہ لوگ کیا کہیں گے۔۔۔آپ کے گھر والے کیا سوچیں گے۔۔۔میرے نزدیک محبت سے پہلے آپ کا کسی پہ بھروسہ ہونا ہے۔۔۔یقین اور بھروسہ ہی ہر رشتے کی پہلی سیڑھی ہے۔۔۔محبت کی بھی۔۔۔اور میں نے آپ پہ یقین کیا ہے بھروسہ کیا ہے۔۔۔"
    عینا نے نپے تلے مگر قدرے نرم لہجے میں کہا۔۔۔
    " ہمممم۔۔۔۔میرے لیے آپکا مجھ پہ بھروسہ ہی بہت ہے۔۔۔باقی محبت کرنا آپکو میں سکھا دوں گا میں آپکے وجود میں اپنی محبت اس قدر بھر دوں گا کہ میری سبھی مرضیاں آپکی مرضی بن جائیں گی۔۔۔"
    احتشام شاہ نے اس کے چہرے پہ آئی لٹ کو پھونک مار کر اڑاتے ذو معنی لہجے میں کہا تو حیا کی تپش سے عینا کا چہرہ سرخ ہوا وہ بےاختیار اپنی نظریں جھکا گئ۔۔۔
    " فلحال آپکے حکم کے مطابق آپکے گھر آپکی اجازت کے بنا نہیں آ سکتا اور یہاں اپنے اس گھر آپ رخصتی سے پہلے اب دوبارہ آپ قدم نہیں رکھیں گی ۔۔۔مگر ہم باہر تو مل سکتے ہیں ناں۔۔۔
    آں۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔انکار مت کیجیے گا۔۔۔میری کال کا ویٹ کیجے گا۔۔۔"
    اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی احتششام شاہ نے پرانی جون میں آتے مسکرا کر کہا۔۔۔اور ساتھ ہی اسے جانے کی اجازت بھی دی۔۔۔
    " آپ محبت کے آداب سے بلکل ناواقف ہیں عین۔۔۔کیا آپ نہیں جانتیں کہ رخصت ہونے سے پہلے اپنے محب کو اپنے شوہر کو کوئی سوغات دے کر جاتے ہیں۔۔۔"
    وہ دروازہ کھول کر جیسے ہی باہر نکلنے لگی اسے اپنے پیچھے احتشام شاہ کی آواز سنائی دی۔۔۔تو اس نے وہیں کھڑے کھڑے مڑ کر سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھا جو آنکھوں میں شرارت لیے پرشوق نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔"
    " میرے پاس تو کچھ بھی نہیں آپکو دینے کو۔۔۔آپ جانتے ہیں میں خالی ہاتھ آئی تھی۔۔۔"
    عینا احتشام شاہ کی بات کا مطلب سمجھے بنا معصومیت سے بولی۔۔۔
    " میں کسی مادی چیز کی بات نہیں کر رہا۔۔۔یہ بندہ بڑے بڑے اور مہنگے تحفوں سے نہیں بلکہ آپ کی ایک محبت بھری مسکراہٹ سے ، ایک پیار بھرے ہگ سے ، ایک چھوٹی سی میٹھی سی کس سے ہی خوش ہو جائے گا۔۔۔بے شک آزما لیں۔۔۔"
    احتشام شاہ نے اب کے کھل کر مسکراتے عینا کو وارفتگی سے تکتے کہا۔۔۔تو عینا کا چہرہ حیا آلود ہوا تھا۔۔۔وہ کانوں تک سرخ ہوئی تھی۔۔۔
    " ہمارا ابھی صرف نکاح ہوا ہے اس لیے مجھ پہ حقوق و فرائض کی کوئی شق واجب االعمل نہیں ہوتی۔۔۔البتہ مسکرانے میں کوئی ہرج نہیں۔۔۔یہ لیں۔۔۔"
    عینا سنجیدگی سے کہتے اچانک آخر میں شرارتی لہجے میں کہ کر ہنستے ہوئے فوراً روم سے باہر نکل گئ۔۔۔
    " میری شیرنی۔۔۔یہ تو میں آپ کو بعد میں بتاؤں گا کہ کون کونسی شقیں آپ پہ لاگو ہوتی ہیں۔۔۔"
    احتشام شاہ بڑبڑایا۔۔۔پھر کچھ سوچ کر ایک جاندار مسکراہٹ نے اس کے چہرے کا احاطہ کیا۔۔۔
    " عائلہ ایک بار پھر سوچ لو بیٹا۔۔۔میرا صارم بہت چاہتا ہے تمہیں ۔۔۔اور سچ تو بھی ہے کہ ہم سب کی بھی یہی خواہش ہے۔۔۔اس کا نام تمہارے نام کے ساتھ جڑ جائے گا تو دلاور کیا کوئی بھی کچھ نہیں کر پائے گا۔۔۔
    اب عینا کو ہی دیکھ لو۔۔۔اگر وہ ہمت نہیں کرتی تو شائد آج یہ خوشی ہمارا مقدر نہیں ہوتی۔۔۔بس ایک بار تم ہاں کہ دو۔۔۔باقی سب ہم دیکھ لیں گے۔۔۔"
    ہائمہ خاتون نے عائلہ کو ایک بار پھر سے سمجھانے اور منانے کی کوشش کرتے کہا۔۔۔اس وقت وہ اور عائلہ فجر کے روم میں بیٹھے ہوئے تھے جبکہ صارم شاہ اور شاہ سائیں مردان خانے میں نکاح میں بلائے گئے چند خاص الخاص لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔
    " آنٹی پلیزز۔۔۔بابا نے جہاں میرا رشتہ تہ کیا ہے میں وہاں خوش ہوں اور ضروری نہیں کہ انسان کی ہر خواہش پوری ہو جائے ہر کوئی عینا کی طرح خوش قسمت نہیں ہوتا۔۔۔ اب کچھ نہیں سوچنا مجھے اور نہ کچھ کرنا ہے۔۔۔ جب جب بھی جس جس نے بھی اس فیصلے کے خلاف جانے کی کوشش کی منہ کی کھائی۔۔۔ہمارے حصے میں صرف دکھ درد ہی آیا۔۔۔جو کام جو بات انسانی قدرت سے باہر نظر آئے وہ الّٰلہ پاک پہ چھوڑ دینی چاہیے جو میری قسمت میں لکھا ہے وہ ہر حال میں مجھے مل کر رہے گا میرا دل اس کے لیے راضی ہو یا نہ ہو۔۔۔اس لیے قسمت سے لڑنے کی بجائے میں راضی با رضا ہو گئ ہوں۔۔۔آپ بھی اس بات کو اب چھوڑ دیں۔۔۔اور پلیز چھوٹے شاہ کو سمجھائیں کہ قسمت سے لڑنا چھوڑ دیں اپنا وقت برباد مت کریں اور میرے راستے میں مت آئیں اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔۔۔اگر وہ اپنی ضد پہ قائم رہے تو ایک ایسا طوفان آئے گا جو شائد بہت سے لوگوں کی زندگیاں نگل جائے۔۔۔پلیز۔۔۔۔۔"
    عائلہ نے نگاہیں نیچی کیے دھیرے سے ملتجی لہجے میں کہا اور پلکیں جھپک کر آنکھوں میں آئی نمی دور کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔دلاور کے لہجے ، اس کی باتوں اور اسکے جنون نے اسے خوفزدہ کردیا تھا اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ کسی کا بھی خون بہے اس لیے بہتر یہی تھا کہ وہ چپ چاپ اپنے بابا کے حکم کے آگے سر جھکا کر دلاور کے نام کی مہندی اپنے ہاتھوں لگا لیتی ۔۔۔اس کے لہجے میں ہائمہ خاتون کو ٹوٹے کانچ کی کرچیاں محسوس ہوئی تھیں جن سے وہ سب کو بچا کر بس خود کو زخمی کرنے کی ٹھان چکی تھی۔۔۔بے اختیار انھوں نے دل ہی دل میں الّٰلہ سے اسکی خوشیوں کی دعا کرنے کے ساتھ اپنے بیٹے صارم شاہ کے لیے اسے مانگا تھا۔۔۔
    انکا بس چلتا تو احتشام کے ساتھ ساتھ وہ صارم کا بھی نکاح پڑھوا دیتیں۔۔۔مگر عائلہؤو
    اس موضوع پہ بات کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔۔۔
    " ماما آپکو بابا بلا رہے ہیں۔۔۔"
    صارم شاہ نے دروازے میں کھڑے ہو کر ہائمہ خاتون کو مخاطب کرتے کہا۔۔۔ہائمہ خاتون عائلہ سے اپنے ابھی واپس آنے کا کہ کر باہر نکل گئیں۔۔۔انکے جانے کے بعد صارم شاہ یونہی دروازے میں کھڑا ہو کر شوخ نظروں سے عائلہ کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔عائلہ اسکی نظروں کو خود پہ مرتکز پا کر جزبز ہونے لگی۔۔۔
    " میں عینا کو دیکھ لوں۔۔۔کافی دیر ہو گئ ہے ہمیں اب چلنا چاہیے۔۔۔"
    عائلہ اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولی۔۔۔
    " کیا ہم دو منٹ بات کر سکتے ہیں پلیززز۔۔۔"
    صارم شاہ نے جب دیکھا کہ وہ اسے نظر انداز کرکے بھاگنے کا ارادہ رکھتی ہے تو جلدی سے الجائیہ لہجے میں بولا۔۔۔
    " جی بولیے۔۔۔"
    عائلہ نے مختصر الفاظ میں ہامی بھرتے تقریباً روکھے لہجے میں کہا۔۔۔اس کے لہجے پہ صارم شاہ نے حیران ہوکر اس کی طرف دیکھا۔۔۔جس کے چہرے اور لہجے میں اپنائیت کا شائبہ تک نہیں تھا۔۔۔
    بس اک بار میری آنکھوں میں دیکھ
    اے میری زندگی
    اور کہ دے
    کہ ہم تیرے قابل نہیں
    قسم ہے تیری ان حسین آنکھوں کی
    تیرے اس تابناک چہرے کی
    تیری اس پاکیزگی کی
    کہ جس پہ میں ہوں مر مٹا
    یہ عشق اسی پل
    تیرے قدموں کی خاک بن کر
    خاک میں مل جائے گا
    تیری اس دنیا سے ہی چلا جائے گا


    صارم شاہ انتہائی جزب سے کہتا عائلہ سے کچھ فاصلے پہ آ کھڑا ہوا۔۔۔صارم شاہ کے ادا کیے گئے ہر لفظ میں اس کے دل کا درد پنہاں تھا جس میں دکھ کے ساتھ ہزار شکوے بھی مچل رہے تھے۔۔۔
    بولیے عائلہ جی۔۔۔جواب دیجیے میری بات کا۔۔۔کیوں کیا آپ نے ایسا۔۔۔آپ کو ایک لمحے کو بھی یہ خیال نہیں گزرا کہ میرے سامنے کھڑے ہو کر دلاور کا ہاتھ تھامیں گی تو مجھ پہ کیا گزرے گی۔۔۔
    کیا کبھی ایک لمحے کو بھی میری محبت ، میری تڑپ نے آپکے دل کو نہیں چھوا۔۔۔بولیے۔۔۔ جواب دیجیے میری بات کا۔۔۔"
    صارم شاہ کا لہجہ یکدم تلخ ہوا تھا۔۔۔عجیب بے بسی و بے بسی تھی۔۔۔
    " کتنی بار کہوں کہ نہیں محبت کرتی میں آپ سے۔۔۔کیوں بار بار میرے راستے میں آ رہے ہیں۔۔۔یہ دیکھیں ہاتھ جوڑتی ہوں آپکے آگے چھوڑ دیں پیچھا میرا۔۔۔"
    عائلہ نے باقاعدہ صارم شاہ کے آگے ہاتھ جوڑتے روہانسے لہجے میں کہا۔۔۔
    " محبت تو آپ کرتی ہیں عائلہ جی۔۔۔اور بہت جلد آپ خود اس بات کا مجھ سے اقرار کریں گی۔۔۔رہی بات آپ کا پیچھا چھوڑنے کی تو اس کے لیے دعا کریں کہ میں مر جاؤں۔۔۔کیونکہ جیتے جی تو یہ ہو نہیں سکتا۔۔۔"
    صارم شاہ نے انتہائی ضبط کرتے گھمبیر لہجے میں کہا اور اس پہ ایک جتاتی گہری نظر ڈال کر تیزی سے باہر نکل گیا۔۔۔

    " کیا بات ہے ہائم۔۔۔آپ کچھ پریشان ہیں۔۔۔ آج تو آپکو بہت خوش ہونا چاہیے تھا۔۔۔آپکے ایک بیٹے کا دل ویران ہونے سے بچ گیا۔۔۔ویسے ماننا پڑے گا کہ آپکی بڑی بہو سچ میں بڑی بہو کہلانے کی حقدار ہیں۔۔۔بہت دلیر اور بہادر ہے عینا بیٹی۔۔۔مجھے ہرگز توقع نہیں تھی کہ ان حالات میں وہ اتنا بڑا فیصلہ کر گزریں گی۔۔۔"
    شاہ سائیں نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
    " ٹھیک کہ رہے ہیں آپ مجھے بھی توقع نہیں تھی۔۔۔بس اب صارم بیٹے کی فکر دل کو پریشان کر رہی ہے۔۔۔الّٰلہ ہمارے بچوں کو دونوں جہاں کی خوشیاں عطا فرمائے۔۔۔ہمیشہ انکو اپنی پناہ میں رکھے۔۔۔"
    ہائمہ خاتون نے تائیدی انداز میں سر ہلاتے کہا۔۔۔
    " ویسے دیکھ لیں کہیں ایسا نہ ہو کہ کل کلاں کو آپکی یہ بہادر بہو آپکے بیٹے کو لے اڑے یا پھر یہ گھر کوئی اکھاڑہ بن کر رہ جائے۔۔۔"
    شاہ سائیں ہنستے ہوئے شرارت سے بولے۔۔۔
    " ایسا کبھی نہیں ہوگا۔۔۔جو انسان اپنے رشتوں کی فکر میں انکی محبت میں اپنی جان کی پرواہ نہ کرے ، اپنی خوشیوں سے زیادہ اپنوں کی فکر اسکے دامن گیر ہو ، انکے سکون و خوشی کے لیے اپنی ذات کی نفی کردے وہ انسان ہیرا ہوتا ہے۔۔۔الّٰلہ نے اسے ہیرے جیسا دل دیا ہوتا ہے۔۔۔وہ کہیں بھی چلا جائے اسکی ذات میں دوسروں کے لیے صرف خیر ہی خیر ہوتی ہے۔۔۔اور مجھے اپنے بیٹوں کی پسند پہ فخر ہے جنہوں نے ظاہری حسن و جمال اور دولت کو نہیں کردار کو اہمیت دی ہے۔۔۔
    میری بہو کے آتے ہی اس گھر میں ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی۔۔۔آپ دیکھ لیجیے گا۔۔۔"
    ہائمہ خاتون نے عینا کے لیے اپنے لب و لہجے میں محبت سموئے کہا۔۔۔
    " ہممممم۔۔۔۔۔میں دین محمد سے کہ دیتا ہوں کہ میرا بستر مستقل طور پہ باہر مردان خانے میں لگا دے۔۔۔"
    شاہ سائیں نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
    " ہائیں۔۔۔وہ کس لیے۔۔۔یہ کیا کہ رہے ہیں آپ۔۔۔"
    ہائمہ خاتون نے حیرانگی سے کہا۔۔۔
    " بھئ ابھی آپکی بہو نے اس گھر میں قدم نہیں رکھا اور آپ نے اپنی پارٹی بدل لی ہے۔۔۔جب وہ آ جائے گی تو پھر تو آپ ہماری طرف دیکھیں گی بھی نہیں اور نہ ہماری کچھ سنیں گی ہی۔۔۔اس لیے بہتر ہے کہ وہ وقت آنے سے پہلے ہم خود ہی کنارہ کر لیں۔۔۔"
    شاہ سائیں ٹھنڈی سانس بھر کر دکھی لہجے میں بولے۔۔۔
    " آپ بھی نہ حد کرتے ہیں۔۔۔آج تک آپکو تنہا چھوڑا ہے جو اب چھوڑوں گی۔۔۔مرنے سے پہلے آپکی جان مجھ سے نہیں چھوٹے گی۔۔۔ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔۔۔"
    ہائمہ خاتون خفگی سے بولیں۔۔۔
    " ہائم کتنی بار کہ چکے ہیں کہ ہمارے سامنے اپنے مرنے کی بات مت کیا کریں۔۔۔ہم آپکو چھیڑ رہے تھے۔۔۔اور آپ سنجیدہ ہو گئیں۔۔۔"
    شاہ سائیں اب سچ میں ناراض لہجے میں گویا ہوئے۔۔۔کچھ پل کو انکے بیچ خاموشی کا راج رہا۔۔۔پھر اس خاموشی کو شاہ سائیں نے ہی توڑا۔۔۔
    " فجر بیٹی اور آئمہ کو سب حالات سے آگاہ کردیا تھا کیا آپ نے۔۔۔"
    شاہ سائیں نے پوچھا۔۔۔
    " جی کریا تھا اور ساتھ میں جو کچھ یہاں ہوا وہ سب بھی بتا دیا تھا تاکہ انکے دل میلے نہ ہوں۔۔۔سب جان کر بہت خوش ہو رہی تھیں وہ دونوں۔۔۔کچھ دن تک چکر لگائیں گے وہ سب لوگ۔۔۔"
    ہائمہ خاتون نے کہا۔۔۔
    " افتخار بھائی اور خاندان کے کچھ اور لوگوں کو میں نے بھی آگاہ کردیا تھا۔۔۔اپنی مجبوری اور انکو نہ بلانے کی وجہ سے بھی آگاہ کردیا تھا۔۔۔افتخار بھائی ناراض سے ہو گئے تھے۔۔۔اور یہ کہ ہم نے انکی بیٹی پہ پرائی بچی کوئی ترجیح دی۔۔۔شائد اب خاندان میں ایک نیا محاذ کھلنے والا ہے ہمارے خلاف۔۔۔جس جس کو بھی پتہ چلے گا وہ اس بات کو لے کر چپ نہیں رہے گا۔۔۔بہت سے لوگوں کے دل میں ہمارے بچوں کو لے کر ایک آس تھی۔۔۔اور جب آس ٹوٹے تو بندہ چپ کہاں رہتا ہے پھر۔۔۔"
    شاہ سائیں نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
    " آپ پریشان مت ہوں۔۔۔ہم پہلی فرصت میں افتخار بھائی کی طرف چکر لگائیں گے۔۔۔اور ان سے آمنے سامنے بیٹھ کر بات کریں گے۔۔۔وہ آپکے بھائی ہیں وقتی طور پہ ان کا دل دکھا ہوگا مگر مجھے یقین ہے وہ زیادہ دیر ناراض نہیں رہیں گے۔۔۔باقی لوگوں کے بارے میں سوچ کر آپ پریشان نہ ہوں ہمارے لیے ہمارے بچوں کی خوشی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔۔۔شادی پہ ہم خاندان کے سبھی افراد کو مدعو کریں گے جو ناراض ہیں انکے گھر خود جاکر دعوت دے کر آئیں گے۔۔۔الّٰلہ نے چاہا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔"
    ہائمہ خاتون نے تسلی و تشفی دیتے رسانیت سے کہا۔۔۔
    " اب آپ کدھر جا رہی ہیں۔۔۔"
    ہائمہ خاتون اٹھ کر جانے لگیں تو شاہ سائیں نے پوچھا۔۔۔
    " ہم عشاء کی نماز پڑھ لیں۔۔۔"
    ہائمہ خاتون نے کہا۔۔۔
    " تو ادھر پڑھ لیں۔۔۔باہر کدھر جا رہی ہیں۔۔۔"
    شاہ سائیں حیران ہوتے بولے
    " شاہ آج ہمیں الّٰلہ سے کچھ خاص مانگنا ہے آج ہمیں کچھ خاص مناجات کرنی ہیں۔۔۔آج دل چاہ رہا ہے کہ جب ہم الّٰلہ سے بات کریں تو ہمارے پاس کوئی نہ ہو۔۔۔آپ سو جائیں ہم اپنی عبادت سے فارغ ہو کر آ جائیں گے۔۔۔"
    ہائمہ خاتون نے سنجیدگی سے کہا اور جائے نماز پکڑ کر باہر نکل گئیں۔۔۔آج جہاں اپنے ایک بیٹے کے لیے وہ بے حد خوش اور مطمئین تھیں تو دوسرے بیٹے کے لیے وہ اتنا ہی پریشان۔۔۔

    " اے میرے رب۔۔۔اے دلوں کے مخفی و ظاہری بھید جاننے والے۔۔۔اے مالک کائنات۔۔۔میں تیری ادنیٰ و گنہ گار بندی تیری بارگاہ میں اپنے بیٹے کی خوشیوں کی بھیک مانگتی ہوں۔۔۔
    اے میرے رب تو ہر چیز پہ قادر ہے۔۔۔اے پاک پروردگار رشید احمد کو ہدایت عطا فرما۔۔۔اس کے دل میں اپنی بچیوں اور بیوی کے لیے رحم اور شفقت بھردے۔۔۔اے پاک پروردگار مہرالنساء بہن کو شفائے کاملہ عطا فرما۔۔۔اس کو صحت و تندرستی عطا فرما۔۔۔
    اے پاک پروردگار مہرالنساء بہن کی بیماری کو صحت کی نعمت سے بدل دے۔۔۔اسے ٹھیک کردے۔۔۔
    اے اندھیری راہوں کو روشن کرنے والے۔۔۔دلوں میں موجزن ناامیدی کو ختم کرکے امید کی روشنی بھرنے والے۔۔۔میرے بیٹے صارم شاہ کی زندگی کے سب اندھیرے دور کردے۔۔۔اے پاک روردگار میرے بیٹے کی خوشیاں عائلہ بیٹی سے جڑی ہیں۔۔۔اپنی زندگی کو اپنی سانسوں کو وہ اس سے جوڑ بیٹھا ہے۔۔۔اے پاک پروردگار ان دونوں کے راستے ایک کردے۔۔۔
    اے پاک پروردگار جہاں سے تیرے بندوں کی بے بسی و لاچاری شروع ہوتی ہے وہیں سے تیری رحمت کا آغاز ہوتا ہے۔۔۔یا الّٰلہ ہم تیرے بے بس اور لاچار بندے تجھ سے تیری رحمت کا سوال کرتے ہیں۔۔۔ہم پہ رحم فرما۔۔۔
    اے پاک پروردگار جب جب بھی تیری اس بندی نے تجھ سے سوال کیا تونے اس بندی کے ہزار گناہوں کے باوجود عطا کیا۔۔۔
    اے پاک پروردگار اپنی اس بندی پہ رحم فرما اپنا کرم فرما اپنا فضل فرما۔۔۔اے پاک پروردگار میرے بیٹے صارم شاہ کو اس کی خوشیاں عطا فرما دے۔۔۔
    یاالّٰلہ میرے شوہر کو نازنین سے ملوا دے۔۔۔وہ جہاں کہیں بھی ہے اسے اور اسکی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھنا۔۔۔یاالّٰلہ اس تک پہنچنے کے راستے کھول دے شاہ کو اس تک پہنچا دے یا انکو ہم تک پہنچا دے۔۔۔
    اے پاک پروردگار ہم نے آج تک کبھی کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی۔۔۔کبھی کسی کا حق نہیں مارا۔۔۔کبھی کسی کو دکھ نہیں دیا۔۔۔لیکن اگر انجانے میں ہم نے کسی کا دل دکھایا ہے یا کسی کے ساتھ زیادتی کر بیٹھے ہیں تو ہمیں معاف کردے اور اسکی سزا میرے بیٹے کو اس کی خوشی سے دور رکھ کر نہ دینا۔۔۔یا الّٰلہ ہم پہ وہ بوجھ نہ ڈال جسے ہم اٹھا نہ سکیں۔۔۔اے پاک پروردگار میرے شوہر کی مدد فرما انھیں نازنین سے ملوا دے۔۔۔
    اے پاک پروردگار ہمارے عزیز و اقارب میں جو بھی اپنے گھروں میں پریشان ہے سب کی مدد فرما سب کے رستے آسان فرما۔۔۔
    آمین۔۔۔یا رب العالمین۔۔۔۔
    ہائمہ خاتون جب بھی پریشان ہوتیں تو رات کی نماز ہمیشہ تنہائی میں سب کے سو جانے کے بعد ادا کرتیں۔۔۔ایسا کر کے انکو لگتا تھا کہ ان کے اور الّٰلہ کے بیچ میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی۔۔۔وہ ایسا کرکے خود کو الّٰلہ کے بہت قریب محسوس کرتی تھیں۔۔۔انکو الّٰلہ اپنے بہت قریب محسوس ہوتے تھے۔۔۔اس وقت بھی چھت پہ وہ الّٰلہ سے راز و نیاز میں مشغول تھیں چاند کی مدھم مدھم سی دل دماغ کو تراوت دیتی چاندنی ہر سو پھیلی ہوئی تھی ۔۔۔وہ رو رو کر گڑ گڑا کر الّٰلہ سے اپنے بیٹے اور شوہر کی خوشی کی فریاد کر رہی تھیں۔۔۔
    " ماما۔۔۔۔"
    ہائمہ خاتون دعا سے فارغ ہوئیں تو صارم شاہ نے انھیں پکارا۔۔۔وہ نہ جانے کب سے چھت پہ ایک اندھیرے کونے میں بیٹھا ہوا اپنی ماں کو الّٰلہ کے حضور فریاد کرتا سن رہا تھا۔۔۔
    " صارم۔۔۔آپ ادھر اس وقت۔۔۔ یہاں کیا کر رہے ہو۔۔۔کیا بات ہے سوئے نہیں۔۔۔"
    ہائمہ خاتون نے حیران ہوتے اسکی طرف دیکھتے پوچھا۔۔۔تو صارم شاہ انکی گود میں سر رکھ کر وہیں جائے نماز پہ لیٹ گیا۔۔۔۔
    " ماما نیند نہیں آ رہی تھی تو اس لیے اوپر آ گیا۔۔۔چھت پہ کھڑے ہو کر تازہ کھلی ہوا میں دور تک اس خاموشی میں دیکھنا اچھا لگ رہا تھا۔۔۔
    کچھ دیر یونہی اکیلے رہنے کو دل کر رہا تھا۔۔۔"
    صارم شاہ نے اپنے لہجے میں بشاشت پیدا کرنے کی ناکام کوشش کرتے کہا۔۔۔مگر ہائمہ خاتون ماں تھیں اپنے بیٹے کے لہجے میں ٹوٹ پھوٹ ان سے چھپی نہ رہ سکی۔۔۔
    " صارم۔۔۔۔تم رو رہے ہو۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔میری جان بولو کیا ہوا ہے۔۔ کیا عائلہ نے کچھ کہا ہے۔۔۔"
    ہائمہ خاتون اسکے بالوں میں شفقت سے ہاتھ پھیرنے لگیں اور جیسے ہی انکا ہاتھ اس کے چہرے پہ آیا تو گالوں پہ آنسوؤں کی نمی محسوس کرتے تڑپ کر بولیں۔۔۔
    " ماما۔۔۔مجھ میں کسی چیز کی کمی ہے کیا۔۔۔"
    صارم شاہ نے ٹوٹے لہجے میں پوچھا۔۔۔
    " نہیں میری جان۔۔۔میرے بیٹے میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔۔۔نہ شکل و صورت میں نہ کردار میں۔۔۔"
    ہائمہ خاتون نے محبت سے اس کے سر پہ بوسہ دیتے کہا۔۔۔
    " تو پھر وہ ایسا کیوں کر رہی ہے۔۔۔بار بار میں اسکے سامنے کاسہ محبت لے کر کھڑا ہوتا ہوں۔۔۔اپنی انا اپنی خوداری کو نظر انداز کرکے اس سے محبت کی بھیک مانگتا ہوں۔۔۔اس کے سامنے تڑپتا ہوں۔۔۔اپنا دل کھول کر دکھاتا ہوں۔۔۔مگر وہ پتھر بنی ہوئی ہے۔۔۔میں کیا کروں ماما۔۔۔میں اس سے دور جانے کا سوچتا ہوں تو میری سانس اکھڑنے لگتا ہے۔۔۔دم گھٹنے لگتا ہے۔۔۔
    وہ کہتی ہے میرے راستے میں مت آؤ۔۔۔مگر میں اسے کیسے سمجھاؤں کہ میری زندگی کا ہر راستہ اسی پہ آ کے ختم ہوتا ہے۔۔۔
    ماما جتنی محبت میں اس سے کرتا ہوں۔۔۔وہ مجھ سے کیوں نہیں کرتی۔۔۔اس کو وہ دلاور مجھ سے زیادہ اچھا لگتا ہے کیا۔۔۔"
    صارم شاہ نے بھاری لہجے میں کہا۔۔۔بار بار عائلہ کے انکار پہ وہ بدگمان ہو رہا تھا۔۔۔کبھی اس کا دل کہتا کہ یہ جھوٹ ہے اور کبھی کہتا کہ یہی سچ ہے۔۔۔ورنہ وہ اس کا ہاتھ تھام لیتی۔۔۔بلکل عینا کی طرح جیسے کسی بات کی پرواہ کیے بنا اس نے احتشام کا ہاتھ تھاما تھا۔۔۔
    " وہ پتھر نہیں ہے بیٹا۔۔۔وہ بھی تم سے محبت کرتی ہے۔۔۔مگر تھوڑی سی بزدل ہے۔۔۔ہر لڑکی عینا کی طرح دلیر نہیں ہوتی۔۔۔عائلہ ان لڑکیوں میں سے نہیں ہے بیٹا جن کے لیے انکی محبت ہر رشتے سے بڑھ کر ہوتی ہے۔۔۔نہ ماں باپ کی پرواہ نہ بھائی کی غیرت کی حیا۔۔۔
    وہ ان لڑکیوں میں سے ہے جو اپنے رشتوں کے لیے اپنی ہر خوشی سے اپنی محبت سے دستبردار ہو جاتی ہیں۔۔۔
    ایسی لڑکیوں کا ساتھ قسمت والوں کو ملتا ہے۔۔۔
    عائلہ سے بدگمان مت ہو بیٹا۔۔۔اپنا اور اس کا معاملہ الّٰلہ پہ چھوڑ دو۔۔۔الّٰلہ پہ بھروسہ رکھو۔۔۔اور مجھ سے وعدہ کرو کہ اگر عائلہ کی شادی دلاور سے ہو حاتی ہے تو تم ایسا کوئی قدم نہیں اٹھاؤ گے جو ساری عمر کے لیے تمہارے ماں باپ کی آنکھوں میں آنسو بھر دے۔۔۔مجھ سے وعدہ کرو بیٹا۔۔۔"
    ہائمہ خاتون نے صارم شاہ کے سر میں اپنی انگلیاں پھیرتے ہوئے بڑے مان سے کہا۔۔۔
    " ماما میں اس سے وعدہ کر چکا ہوں کہ میری سانسیں اسکے نکاح سے بندھی ہیں جس دن دلاور سے نکاح ہوا یہ سانسیں بند۔۔۔"
    صارم شاہ نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا اور اپنا چہرہ موڑ گیا۔۔۔
    " صارم شاہ۔۔۔تمہاری ان سانسوں پہ ، تمہارے اس وجود پہ صرف تمہارے ماں باپ کا حق ہے۔۔۔9 ماہ کس طرح سے سینت سینت کر میں نے تمہیں اپنے وجود میں رکھا پھر پیدا کیا۔۔۔اس دوران میری ایک ہلکی سی تکلیف کا بھی اگر تم حق ادا کردو تو میں تمہیں آزاد کرتی ہوں تم عائلہ سے اپنا کیا وعدہ نبھا سکتے ہو۔۔۔
    ہائمہ خاتون کے " صارم شاہ " کہنے پہ اس نے تڑپ کر اپنی ماں کی طرف دیکھا تھا۔۔۔وہ جب بھی اپنے بچوں سے کسی بات پہ ناراض ہوتیں تو " بیٹے " کا لفظ حذف کر کے نام کے ساتھ شاہ لگا کر پکارتیں تھیں اس وقت بھی صارم شاہ کی بات انکو تکلیف دے گئ تھی۔۔۔
    " ایسے مت دیکھو میری طرف۔۔۔میں نے صرف لفظ بیٹا چھوڑا تو تم سے برداشت نہیں ہوا۔۔۔پھر تم نے کیسے جرأت کی کہ ماں کے سامنے بیٹھ کر اپنی سانسیں بند ہونے کی بات کرو۔۔۔اپنی جان لینے کی بات کرو۔۔۔ایک بات یاد رکھنا صارم شاہ اگر تم نے ایسا کچھ بھی کیا تو اس گھر سے ایک نہیں دو جنازے اٹھیں گے۔۔۔تمہاری یہ ماں بھی جی نہیں پائے گی۔۔۔"
    ہائمہ خاتون نے رقت بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
    " ماما۔۔۔معاف کردیں۔۔۔پلیزززز۔۔۔میرے لیے آپ کے حکم سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔۔۔میری زندگی پہ میری ہر سانس پہ صرف آپکا حق ہے۔۔۔میں آج ابھی اسی وقت اپنی زبان سے اپنے وعدے سے پیچھے ہٹتا ہوں۔۔۔
    صارم شاہ نے اپنی ماں کے ہاتھ پکڑ کر چومتے ہوئے کہا۔۔۔مگر ایسا کرتے ایسا کہتے بے آواز آنسو اس کے گالوں پہ بہ رہے تھے۔۔۔
    " جس محبت کو ثابت کرنے کے لیے اپنی جان دینی پڑے وہ محبت نہیں ہوتی بیٹا۔۔۔عشق سچا ہو تو محبوب کے دل میں وہ نقب لگا کر رہتا ہے۔۔۔محبت اپنا رستہ خود بنا لیتی ہے۔۔۔
    اور اگر ایسا نہ ہو تو سمجھ جاؤ بیٹا کہ تم اس محبت کے قابل نہیں یا پھر وہ تمہارے پیار کے لائق نہیں۔۔۔راضی با رضا ہو جاؤ بیٹا۔۔۔جیسے عائلہ ہو گئ ہے۔۔۔"
    ہائمہ خاتون نے اس کے ماتھے پہ بوسہ دیتے کہا۔۔۔
    " ماما کیا عائلہ نے آپ سے کچھ کہا۔۔۔میرا مطلب کوئی ایسی بات جس سے آپکو لگا کہ وہ بھی مجھ سے محبت کرتی ہے۔۔۔"
    صارم شاہ نے آس بھرے لہجے میں پوچھا۔۔۔
    " شرم تو نہیں آتی۔۔۔اپنی ماں سے کیسے بے شرمی سے ایک لڑکی سے محبت کا اظہار کر رہے ہو۔۔۔"
    ہائمہ خاتون نے صارم شاہ کے سر پہ ہلکے سے ایک چپت لگاتے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔
    " میں کونسا ماں سے کہ رہا ہوں۔۔۔میں تو اپنی دوست سے بات کر رہا ہوں۔۔۔جو میری اس دنیا میں واحد بیسٹی ہے۔۔۔"
    صارم شاہ نے بھی ہنستے ہوئے کہا۔۔۔
    " اس نے مجھ سے کچھ نہیں کہا۔۔۔مگر کبھی کبار انسان کا لہجہ سب عیاں کردیتا ہے۔۔۔وہ تم سے محبت کرتی ہے۔۔۔مگر پے در پے عجیب و غریب حالات نے شائد اسے خوفزدہ کردیا ہے۔۔۔
    ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

    " عائلہ بیٹا سب ٹھیک ہے ناں۔۔۔بڑی دیر لگا دی تم لوگوں نے۔۔۔اور عینا کے ہاتھ میں یہ کنگن۔۔۔۔۔"؟
    گھر واپسی پہ سکینہ خالہ انکی والدہ کے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھیں۔۔۔عینا انکو سلام کرنے کے بعد سیدھی اپنے روم میں چلی گئ جبکہ وہ انکے پاس آ کر اپنی والدہ کے سرہانے بیٹھ گئ۔۔۔نکاح کا جوڑا اور میچنگ جیولری عینا وہیں چھوڑ آئی تھی۔۔۔البتہ واپسی پہ ہائمہ خاتون نے اپنی کلائی سے دو سونے کے کنگن اتار کر شگن کے طور پہ اس کی کلائی میں پہنا دئیے تھے۔۔۔جو ابھی بھی اسکے ہاتھ کی زینت بنے ہوئے تھے۔۔۔سکینہ خالہ کی نظروں سے جو چھپے نہ رہ سکے۔۔۔تجسس کے مارے حیران ہو کر وہ عائلہ سے پوچھ بیٹھیں۔۔۔
    عائلہ کو ان سے کچھ بھی چھپانا مناسب نہیں لگا۔۔۔شاہ سائیں کے گھرانے کے بعد وہ واحد عورت تھیں جو انکے ساتھ کھڑی تھیں۔۔۔عائلہ نے کانٹ چھانٹ کر ساری بات سے انکو آگاہ کردیا۔۔۔جسے سن کر وہ بے حد خوش ہوئیں تھیں۔۔۔اور ڈھیروں ڈھیر دعائیں دینے لگیں۔۔۔
    " چلو شکر ہے مہرو کی ایک بیٹی تو اپنے باپ کے نشے کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گئ۔۔۔
    بیٹا کچھ دیر پہلے تمہارے خالو آئے تھے وہ بتا رہے تھے کہ رشید احمد ہماری طرف آیا تھا کہ دو دن بعد جمعہ کو نکاح ہے تمہارا دلاور سے۔۔۔یہ بیٹھے بٹھائے کیا سوجھی اسے۔۔۔مہرالنساء کے ٹھیک ہونے کا تو انتظار کر لیتا ہتھیلی پہ سرسوں جمانے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔عقل گھاس چرنے چلی گئ ہے اس کی۔۔۔کاش کہ میں تمہارے لیے کچھ کر پاتی۔۔۔"
    سکینہ خالہ نے تلخ ہوتے کہا۔۔۔
    " خالہ آپ دعا کردیا کریں ہمارے لیے بس۔۔۔ہمارے لیے یہی بہت ہے۔۔۔عینا کا نکاح احتشام شاہ کے ساتھ ہونے کے بعد اب مجھے کوئی غم کوئی دکھ نہیں ہے۔۔۔میں بہت خوش ہوں۔۔۔ماما ہوش میں ہوتیں تو وہ بھی بہت خوش ہوتیں۔۔۔"
    عائلہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔اپنے سبھی معاملات الّٰلہ پہ چھوڑنے کے بعد وہ سچ میں اب بہت ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگی تھی۔۔۔ذہنی طور پہ وہ دلاور کے ساتھ نکاح کے لیے خود کو تیار کر چکی تھی۔۔۔بس افسوس اس بات کا تھا کہ جب اس کی ماں ہوش میں آئے گی تو ان پہ کیا گزرے گی۔۔۔جہاں ایک بیٹی کے لیے خوش ہوں گی تو دوسری کے لیے رنجیدہ۔۔۔
    " رشید احمد کو عینا کے نکاح کا پتہ چلا تو وہ بہت ادھم مچائے گا بیٹا۔۔۔"
    سکینہ خالہ نے فکرمندی سے کہا۔۔
    " کچھ نہیں کریں گے وہ۔۔۔انکے سامنے عائلہ نہیں بلکہ عینا احتشام شاہ کھڑی ہوگی۔۔۔عینا کو ہلکی سی کھروچ بھی آئی تو جو کہرام احتشام شاہ مچائے گا بابا وہ سہ نہیں پائیں گے اب وہ اس گھر کی بیٹی نہیں رہی حویلی کی بہو انکی عزت احتشام شاہ کی منکوحہ ہے۔۔۔اور احتشام شاہ کو اپنے رشتوں کی حفاظت کرنا خوب آتا ہے۔۔۔"
    عائلہ نے پراعتماد لہجے میں کہا۔۔۔
    " الّٰلہ تم سب پہ رحم کرے اور اس رشید احمد کو ہدایت دے۔۔۔میں اب چلتی ہوں بیٹا۔۔۔بہت دیر سے آئی ہوئی ہوں تمہارے خالو دو بار چکر لگا چکے ہیں۔۔۔"
    سکینہ خالہ نے اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔
    " خالہ عینا کے نکاح والی بات کا ذکر ابھی کسی سے مت کیجیے گا۔۔۔پنچایت کے فوراً بعد عینا کے نکاح کی بات سامنے آنے پہ نہ جانے لوگ کیا باتیں کریں۔۔۔مجھے آپ سے چھپانا مناسب نہیں لگا۔۔۔آپ ہماری بڑی ہیں بلکہ اسی گھر کا فرد ہیں اس لیے آپکو بتا دیا۔۔۔بس جمعے تک رک جائیں دلاور کے ساتھ میرا نکاح ہونے کے بعد عینا کے نکاح کے بارے میں بھی سب کو بتا دیں گے۔۔۔"
    عائلہ نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔تو وہ اثبات میں سر ہلاتے پھر آنے کا کہ کر چلی گئیں۔۔۔
    " ماما آپ نے اپنی بیٹیوں کے لیے جو خواب دیکھے تھے ان میں سے ایک خواب حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔۔۔
    ماما عینا کا نکاح سچ میں ایک شہزادے سے ہوگیا ہے۔۔۔اور جانتی ہیں وہ شہزادہ کون ہے۔۔۔وہ چھوٹے شاہ جی کے بڑے بھائی احتشام شاہ جی ہیں۔۔۔عینا اب حویلی کی بہو ہے ماما۔۔۔
    وہ بہت اچھے ہیں ماما۔۔۔ہماری عینا انکے ساتھ بہت خوش رہے گی۔۔۔آنے والے وقت میں لوگ آپکی بیٹی کو چھوٹی سردارنی کہا کریں گے۔۔۔
    الّٰلہ نے آپکی دعائیں سن لیں ہیں ماما۔۔۔اب بس مجھے ایمن کی فکر ہے۔۔۔مگر میں جانتی ہوں عینا اور احتشام شاہ اس کو سنبھال لیں گے۔۔۔
    آپ دیکھیے گا ماما ایمن پڑھ لکھ کر ایک بڑی افسر بنے گی۔۔۔وہ آپکے سب خواب پورے کرے گی۔۔۔
    ہمارے گھر میں اب خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی۔۔۔نہ کوئی دکھ نہ غم نہ بابا کا کوئی خوف۔۔۔ہر طرف مسکراہٹیں ہوں گی۔۔۔مگر اس سب میں اجالا بہت یاد آئے گی کاش کہ ان مسکراہٹوں میں اس کی مسکراہٹ بھی شامل ہوتی۔۔۔
    مگر میں بھی پتہ نہیں یہ سب دیکھ پاؤں گی یا نہیں۔۔۔میں نے آج دلاور کو بہت قریب سے دیکھا اور سنا ہے ماما۔۔۔میں اسکی ضد بن چکی ہوں۔۔۔میں نے اسکی آنکھوں میں لہجے میں اپنے لیے ایک عجیب سا جنون محسوس کیا ہے۔۔۔وہ بپھرا ہوا طوفان ہے جس کو صرف میری ذات پرسکون کر سکتی ہے۔۔۔مجھے پانے کے لیے وہ ہر حد سے گزر جائے گا جو بھی اس کے راستے میں آیا اسے ختم کردے گا میں نے انکار کیا تو مجھے بھی۔۔۔لیکن مجھے کسی اور کا نہیں ہونے دے گا۔۔۔ہم اس طوفان کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔۔۔
    اسے سن کر اندازہ ہوا کہ وہ جیسا نظر آتا ہے ویسا نہیں ہے وہ بھی دوہری زندگی جی رہا ہے۔۔۔
    اس کے اندر ایک چھوٹا سا معصوم بچہ ابھی بھی زندہ ہے
    وہ اتنا برا بھی نہیں ہے۔۔۔ کم پڑھا لکھا ضرور ہے مگر جانور نہیں ہے۔۔۔بس راہ سے بھٹکا ہوا ہے دنیا سے چوٹ کھایا ہوا ہے۔۔۔میں اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کروں گی۔۔۔شائد وہ بدل جائے۔۔۔
    جمعے کو میرا نکاح ہے اس سے۔۔۔اپنی قسمت کا لکھا مان چکی ہوں اسے۔۔۔
    میں عینا کی طرح خوش قسمت نہیں ہوں ماما کہ جسے من چاہا ساتھی مل جائے۔۔۔
    چھوٹے شاہ جی کی محبت ہمیشہ میرے دل کے ایک کونے میں دفن رہے گی دوہری زندگی جینا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے مگر آہستہ آہستہ میں عادی ہو جاؤں گی۔۔۔
    ماما آپکی اس بیٹی کو آپکی دعاؤں کی بہت ضرورت ہے۔۔۔آپ میرے لیے دعا کرنا کہ میں چھوٹے شاہ جی کو بھول جاؤں۔۔۔اور چھوٹے شاہ جی کے لیے بھی دعا کرنا کہ وہ مجھے بھول جائیں۔۔۔وہ بار بار میرے راستے میں آتے ہیں وہ سمجھتے ہیں میں پتھر کی بنی ہوں میرا دل پتھر کا ہے جس پہ محبت اثر نہیں کرتی۔۔۔مگر وہ نہیں جانتے ماما کہ میں پتھر نہیں ہوں۔۔۔انکی محبت میرے وجود سے آکاس بیل کی طرح لپٹ گئ ہے۔۔۔جس نے میرے پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔۔۔
    مگر چاہ کر بھی میں ان کا ہاتھ نہیں تھام سکتی اگر ایسا کروں گی تو دلاور اور وہ آمنے سامنے کھڑے ہو جائیں گے اور اس کا انجام سوچ کر ہی میں کانپ جاتی ہوں۔۔۔
    چھوٹے شاہ جی سے اپنے نکاح سے پہلے میں ایک بار ضرور ملوں گی ان کی کھائی قسم توڑنے کے لیے۔۔۔جانے سے پہلے زندگی میں پہلی اور آخری بار ان سے کچھ مانگوں گی مجھے یقین ہے وہ انکار نہیں کریں گے۔۔۔"
    سکینہ خالہ کے جانے کے بعد عائلہ اپنی ماں کے ساتھ وہیں بیڈ پہ نیم لیٹ کر سرگوشیانہ انداز میں باتیں کرنے لگی۔۔۔اس کا چہرہ مہرالنساء کے چہرے کو چھو رہا تھا۔۔۔وہ رو رہی تھی۔۔۔اپنی قسمت پہ۔۔۔اپنی مجبت کے بچھڑنے پہ ، اپنی بے بسی پہ۔۔۔حالات کی ستم ظریفی پہ۔۔۔آنسو اس کے گالوں پہ بہ بہ کر مہرالنساء کے چہرے کو بھی نم کر رہے تھے۔۔۔کبھی کبھی بات کرتے اس کی آواز اس کے گلے میں پھنس جاتی۔۔۔وہ پھر سے خود کو سنبھال کر باتیں کرنے لگتی۔۔۔
    اس کے خاموش آنسو اس کے دل کا درد مہرالنساء کو اس حالت میں بھی بے چین کر گیا۔۔۔ایک آنسو ان کے گالوں پہ بھی بہا تھا جس سے عائلہ انجان رہی۔۔۔ان کے لاشعور میں ہلچل پیدا ہونے لگی تھی۔۔۔زندگی کی برق انکے وجود میں دوڑنے لگی تھی۔۔۔عائلہ کو پکارنے کے لیے اسے گلے سے لگا کر سب ٹھیک ہو جائے گا کہنے کے لیے وہ اپنے لاشعور میں ہونے والی ہلچل سے نبرد آزما ہونے لگیں۔۔۔
    " آپی۔۔۔۔آپ نے مجھ سے یہ سچ کیوں چھپایا۔۔۔مجھے اب سمجھ آئی کہ آپ نے جمعہ تک میرے احتشام جی کے ساتھ نکاح کو چھپانے کی بات کیوں کی تھی۔۔۔آپ نے کیوں یہ شرط رکھی تھی۔۔۔"
    عینا روم کے بیچوں بیچ نہ جانے کب سے سے کھڑی تھی۔۔۔جمعہ کو عائلہ کے نکاح کی بات سن کر وہ ہکا بکا رہ گئ تھی۔۔۔
    ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

    سیٹھ اکرام نے آج رضوانہ خاتون کو فیملی سمیت کھانے پہ مدعو کیا تھا۔۔۔مگر اس سے پہلے اپنی تمام فیملی اور گھر کے سب نوکروں کو ہال میں جمع ہونے کو کہا تھا۔۔۔
    " اب پتہ نہیں کونسا نیا شوشہ چھوڑنے والے ہیں یہ۔۔۔میری تو کوئی وقعت ہی نہیں رہی نہ جانے وہ کونسا منحوس دن تھا جب اس عورت اور اس کی بیٹی کو ہم نے اپنے گھر ملازم رکھا۔۔۔اگر ذرا بھی اندازہ ہوتا کہ یہ لوگ ہمارے سر پہ چڑھ کر بیٹھ جائیں گے تو اپنے گھر کی دہلیز بھی نہ پار کرنے دیتی۔۔۔ٹٹ پونجیے نہ جانے کہاں سے اٹھ کر آ گئے ہیں۔۔۔نہ ان کے آگے کے پتہ نہ پیچھے کا۔۔۔
    میں پاگل ہوں۔۔۔دیواروں سے بات نہیں کر رہی میں۔۔۔تم سے کہ رہی ہوں۔۔۔یوں خاموش رہنے سے کچھ نہیں ہوگا اپنے باپ سے کہ دو کہ تم یہ شادی نہیں کر سکتے۔۔۔"
    فرحین بیگم طلحہ کے روم میں بیٹھی کب سے اسے یہ سمجھانے کی کوشش کر رہی تھیں کہ فاطمہ اس کے لائق نہیں۔۔۔اور اگر یہ شادی ہو گئ تو وہ سر اٹھا کر سوسائٹی میں موو نہیں کر سکے گا۔۔۔فاطمہ کا تعارف اس کے لیے شرمندگی کا مقام بن جائے گا۔۔۔جب سے وہ آیا تھا وہ اس کا برین واش کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔۔۔مگر اس نے چپ سادھی ہوئی تھی۔۔۔
    طلحہ کے لگاتار چپ رہنے پہ اور کوئی جواب نہ دینے پہ وہ جزبز ہوتی تقریباً پھاڑ کھانے والے لہجے میں گویا ہوئیں۔۔۔
    " ماما آپ شائد بھول رہی ہیں کہ ہم لوگ بھی جدی پشتی امیر لوگ نہیں تھے۔۔۔
    ایک دن کھانا پکتا تھا اور دو دو دن تک کبھی اچار اور کبھی دھنیے کی چٹنی کوٹ کر آپ اس سے ہمیں روٹی دیا کرتی تھیں۔۔۔ہفتے بعد کبھی سبزی پکتی تھی گھر میں تو وہ دن ہمارے لیے عیاشی کا دن ہوتا تھا
    سکول کی فیس تک دینے کے لیے ہمارے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے۔۔۔اگر بابا کی اپنے دوست سے ملاقات نہیں ہوئی ہوتی وہ بابا کو کاروبار کے لیے پیسے نہیں دیتے تو آج ہم لوگ بھی کسی کے گھر نوکر ہوتے۔۔۔
    میں اور قاسم کسی کے گھر ڈرائیور ہوتے میری بہنیں کسی سیٹھ کے گھر کے کچن میں ان کے گندے برتن دھو رہی ہوتیں۔۔۔
    کسی کو یاد ہو نہ یاد ہو مگر میں اپنا ماضی ، اپنی اوقات کبھی نہیں بھولا۔۔۔جس غربت کی چکی میں آپ پسی ہیں اس کے بعد تو آپ کو ہر غریب سے محبت ہونی چاہیے تھی۔۔۔نفرت کرنی تھی تو غربت سے کرتیں۔۔۔مگر آپ تو غریبوں سے ہی اپنے دل میں نفرت پال بیٹھیں۔۔۔
    رضوانہ بوا برسوں سے ہمارے گھر کام کرتی ہیں ان لوگوں کو بہت قریب سے ابزرو کیا ہے میں نے۔۔۔انتہائی رکھ رکھاؤ والی اور خوددار ماں بیٹی ہیں وہ۔۔۔فاطمہ میں وہ سارے گن موجود ہیں جو کسی بھی گھر کو سکون کا گہوارا بنا سکتے ہیں۔۔۔
    خدا کا واسطہ ہے ماما۔۔۔اپنی آنکھوں سے یہ نفرت کی پٹی اتار کر دیکھیں۔۔۔یقین کریں آپکو فاطمہ میں صرف خوبیاں ہی نظر آئیں گی۔۔۔لوگوں کو دولت کے ترازو میں تولنا بند کردیں۔۔۔"
    طلحہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تھا۔۔۔وہ ہمیشہ سے اپنے باپ کی طرح انھیں سمجھاتا آیا تھا۔۔۔مگر جب دیکھا کہ جب بابا کی کسی بات کا ان پہ اثر نہیں ہو رہا تو وہ بھی اپنی ماں کو ان کے حال پہ چھوڑ کر چپ کر گیا۔۔۔مگر اب جب اس کے بابا نے اس سے فاطمہ کو اپنی بہو بنانے کا ذکر کیا تو اسے فاطمہ میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی جس بنا پہ وہ انکار کرتا۔۔۔اس لیے اس نے اپنے بابا کو اوکے کا سگنل دے دیا تھا۔۔۔مگر فرحین بیگم سے یہ بات برداشت نہیں ہو رہی تھی۔۔۔اپنے اسٹیٹس کو مزید اونچا کرنے کے لیے اور سوسائٹی میں فخر سے سر اٹھا کر چلنے کے لیے انھوں نے شہر کے امیر ترین لوگوں کی بیٹیوں کے لیے بطور بہو سوچ رکھا تھا تاکہ وہ جب بہو بن کر آئیں تو وہ گردن اکڑا کر کہ سکیں کہ فلاں کی بیٹی میری بہو ہے۔۔۔
    مگر طلحہ نے اپنے باپ کی بات پہ سر جھکا کر ان کے سارے خواب چکنا چور کردئیے تھے۔۔۔
    اوپر سے شرمندگی الگ کہ ایک ماسی کی بیٹی انکی بہو بن کر آئے گی تو وہ اپنے سرکل میں کس طرح سر اٹھا کر نکلیں گی۔۔۔
    ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

    Comment


    • #82
      Episode_53
      " آپی۔۔۔آپی۔۔۔۔"
      عینا روم میں کچھ سامان رکھنے آئی تو عائلہ مہرالنساء کے ساتھ لیٹی سوئی ہوئی تھی۔۔۔صبح سے اس کے تھکے اعصاب کچھ ریلیکس ہوئے تو وہ اپنی ماں سے باتیں کرتی کرتی وہیں سو گئ عینا کے آواز دینے پہ وہ ہڑبڑا کر اٹھی تھی۔۔۔
      " آپی میں پہلے بھی آئی تھی مگر آپکی نیند خراب ہونے کے خیال سے آپکو اٹھایا نہیں۔۔۔آپ ادھر آ کر سو جائیں میں نے آپکا بستر لگا دیا ہے۔۔۔"
      عینا نے نارمل لہجے میں کہا تو عائلہ حیران ہو کر اسکی طرف دیکھنے لگی۔۔۔پھر اسے اندازہ ہوا کہ وہ خواب دیکھ رہی تھی دل ہی دل میں شکر ادا کرتی وہ ایک سستی بھری جمائی لے کر اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔
      " اوہ اتنا ٹائم ہو گیا ہے امی جان کو چینج کروانے والا ہوگا۔۔۔"
      عائلہ نے نے سامنے کلاک پہ نظر ڈالتے فکرمندی سے کہا۔۔۔اور تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔
      " میں نے تھوڑی دیر پہلے کروا دیا تھا آپ پریشان نہ ہوں۔۔۔"
      عینا نے ہلکی سی سمائل عائلہ کو پاس کرتے کہا۔۔۔
      " حیرت ہو رہی ہے مجھے میں اتنی بے خبری کی گہری نیند کیسے سو سکتی ہوں۔۔۔"
      عائلہ نے حیران ہوتے کہا اسے یاد نہیں تھا کہ لاسٹ ٹائم کب وہ پرسکون گہری نیند سوئی تھی۔۔۔آج برسوں بعد وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی۔۔۔
      جب انسان اپنے تمام معاملات الّٰلہ پہ چھوڑ دیتا ہے تو وہ یونہی پرسکون ہو جاتا ہے۔۔۔تنے ہوئے اعصاب ریلکیس ہو جاتے ہیں۔۔۔ہر بات سے بے پرواہ بے فکرا ہو جاتا ہے۔۔۔یہی حال عائلہ کا تھا اپنے تمام معاملات الّٰلہ پہ چھوڑنے کے بعد اور عینا کے نکاح نے اسے اندر تک پرسکون کردیا تھا۔۔۔پہلے اس کے دماغ پہ عینا کو لے کر جو بوجھ تھا جو پریشانی تھی اب وہ ختم ہو چکی تھی اب اسے صرف اپنے حصے کی لڑائی لڑنی تھی عینا کو بچانے اس کو تحفظ دینے والے ایک مضبوط کندھے کا سہارا اسے مل چکا تھا اب وہ اکیلی نہیں تھی کمزور بے سہارا نہیں رہی تھی اب وہ کسی کی بہو کسی کی بیوی بن چکی تھی اور جس کی وہ بیوی تھی وہ اپنی عزت کی حفاظت کرنا خوب جانتا تھا۔۔۔اب دلاور عینا کو لے کر اسے ڈرا نہیں سکتا تھا۔۔۔نہ اس کے بابا اسے بلیک میل کرسکتے تھے۔۔۔
      " کیوں آپ کیوں نہیں بے فکر ہو کر سو سکتیں۔۔۔بلکہ اب تو خوب بے فکر ہو کر سویا کریں ہر بات ہر ٹینشن اب مجھ پہ اور احتشام جی پہ چھوڑ دیں آپ۔۔۔"
      عینا نے مسکراتے ہوئے کہا احتشام کے نام کے ساتھ ہی اس کے چہرے پہ لالگی بکھری تھی اس کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی۔۔۔اپنی پیشانی اسے جلتی ہوئی محسوس ہوئی تھی جہاں پہ احتشام شاہ نے بڑے استحقاق سے محبت بھرا اپنا لمس چھوڑا تھا۔۔۔
      " احتشام جیییییی۔۔۔۔۔"
      عینا کے چہرے پہ کھلتے رنگوں کو دیکھ کر اور احتشام شاہ کے نام کے ساتھ جی لگانے پہ عائلہ اس کا ریکارڈ لگاتے اسے چھیڑتے ہوئے جی کو کھینچ کر بولی۔۔۔
      " جی جی۔۔۔احتشام جییییی۔۔۔۔بلکہ میں تو سوچ رہی کہ احتشام جی کہتے یکدم زبان کو جھٹکا لگتا ہے یوں لگتا بندہ کسی کو ڈانٹ کر بلا رہا ہو۔۔۔اس لیے اب انکو صرف شام جی بولا کروں گی۔۔۔"
      عینا نے ہنستے ہوئے منہ پہ ہاتھ رکھتے ہلتے ہوئے پوری طرح سےمصنوعی شرمانے کی ایکٹنگ کرتے کہا۔۔۔
      " باقی سب تو ٹھیک ہے۔۔۔مگر یہ جس طرح سے تم ہل ہل کر شرمانے کی ایکٹنگ کر رہی ہو یہ تم پہ بلکل نہیں جچ رہا۔۔۔اگر یہ سچ ہوتا ناں تو میں یہاں غش کھا کے گری ہوتی۔۔۔شرم اور تم۔۔۔۔"
      عائلہ نے کھل کے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
      " افففف۔۔۔ایکٹنگ تھوڑی کر رہی ہوں۔۔۔میں تو پریکٹس کر رہی ہوں۔۔۔ایویں کبھی ضرورت ہی پڑ سکتی ہے۔۔۔بندے کو ہر فن مولا ہونا چاہیے ناں۔۔۔اب باقی سب تو آتا تھا بس یہ شرمانا ورمانا نہیں آتا تھا۔۔۔میری کسی سہیلی کی بھی ابھی تک شادی یا نکاح نہیں ہوا ورنہ ان کو دیکھ کے ہی کچھ سیکھ لیتی۔۔۔"
      عینا نے ٹھنڈی آہ بھرتے کہا۔۔۔
      " فکر مت کرو۔۔۔یہ پریکٹس اور ایکٹنگ کے چکر میں پڑنے کی تمہیں ضرورت نہیں ہے۔۔۔احتشام تمہیں شادی کے بعد سب سیکھا دیں گے یہ شرمانا بھی اور گھبرانا بھی۔۔۔"
      عائلہ نے عینا کی کمر میں پیار سے ایک دھموکا جڑتے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔
      " کہ تو آپ ایسے رہی ہیں جیسے آپکا بڑا تجربہ ہے۔۔۔"
      عینا نے عائلہ کی طرف جانچتی نظروں سے دیکھتے کہا۔۔۔
      " شرمانے کے لیے تجربے کی ضرورت نہیں ہوتی پاگل۔۔۔یہ شرم حیا فطری طور پہ ہر لڑکی میں ہوتی ہے مگر یہ الگ بات ہے کہ تم میں نہیں۔۔۔تمہیں تو لڑکا ہونا چاہیے تھا۔۔۔ہر کام میں پھڈے بازی ، نہ کوئی ڈر نہ خوف سب لڑکوں والے کام۔۔۔میں تو یہ سوچتی کہ احتشام کا شادی کے بعد کیا بنے گا ایک سیر تو دوسرا سوا سیر۔۔۔"
      عائلہ نے مصنوعی فکر مندی سے کہا۔۔۔اس سے پہلے کہ عینا کوئی جواب دیتی اس کے موبائل پہ رنگ بیل ہونے لگی۔۔۔موبائل عائلہ کے قریب ہی پڑا ہونے سے موبائل پہ جگمگاتے نیم پہ اس کی نظر پڑی تو اس نے معنی خیز نظروں سے عینا کی طرف مسکرا کر دیکھا۔۔۔عائلہ کی نظروں میں چھپی شرارت دیکھ کر عینا کے دل نے ایک بیٹ مس کی۔۔۔اور فوراً اس کے دل نے احتشام شاہ کا نام پکارا۔۔۔عائلہ نے موبائل اٹھا کر عینا کو پکڑایا تو اپنا خیال سچ دیکھ کر مسکرا کر موبائل پکڑے روم سے باہر نکل گئ۔۔۔
      عینا کے باہر نکلتے ہی عائلہ نے ایک گہرا سانس خارج کرتے الّٰلہ سے اسکی تا عمر خوشیوں کی اور خوش رہنے کی دعا مانگی تھی۔۔۔
      " یاالّٰلہ۔۔۔کوئی حال نہیں ہے اس کا بھی۔۔۔پتہ نہیں میرے بعد یہ گھر کو کیسے سمبھالے گی۔۔۔یا الّٰلہ امی کو جلدی ٹھیک کردے۔۔۔انکو پہلے جیسا کردے۔۔۔"
      عائلہ نے جنجھلاتے ہوئے چائے پھر سے گرم کرتے کہا۔۔۔رشید احمد کے کچھ " خاص " دوست آئے ہوئے تھے جو بیٹھک میں بیٹھے اس کے ساتھ کارڈ کھیل رہے تھے۔۔۔رشید احمد نے انکے لیے چائے کا آرڈر دیا تھا۔۔۔عائلہ اس وقت اپنی والدہ کو ڈرپ کے ذدیعے میڈیسن دے رہی تھی۔۔۔اس لیے اس نے عینا سے کہ دیا۔۔۔عینا نے چائے تو بنا دی مگر کپس میں ڈال کر ایمن کے ہاتھ بھجوانے کی بجائے وہیں پڑی رہنے دی تھی۔۔۔
      " رکیں آپی آپ کدھر جا رہی ہیں۔۔۔"
      عینا نے عائلہ کے ہاتھ سے ٹرے پکڑتے کہا جو ٹرے میں چائے کے ساتھ کچھ لوازمات رکھے بیٹھک کی طرف جا رہی تھی۔۔۔
      " چائے دینے جا رہی ہوں یار۔۔۔کب سے بابا نے کہا ہوا ہے غصہ کریں گے وہ کہ اتنی دیر کیوں لگائی۔۔۔تم بھی بنا کر بھول ہی گئ۔۔۔ایمن سو گئ ہے اس لیے اب خود جا رہی پکڑانے۔۔۔"
      عائلہ نے پھر سے عینا کے ہاتھ سے ٹرے پکڑنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھاتے کہا۔۔۔
      " کوئی ضرورت نہیں بابا کے ان جواری دوستوں کے سامنے جانے کی آپکو پتہ کہ وہ کس قسم کے ہوتے ہیں۔۔۔آپ بیٹھیں آرام سے ادھر۔۔۔میں پکڑا آتی ہوں۔۔۔"
      عینا نے ٹرے والا ہاتھ پیچھے کرتے کہا۔۔۔
      " میرا جانا ٹھیک نہیں تو کیا تمہارا جانا ٹھیک ہے اس طرف۔۔۔"
      عائلہ نے پھر سے ٹرے پکڑنے کی کوشش کرتے کہا۔۔۔
      " جی بلکل۔۔۔میرا یا ایمن کا جانا ہی ٹھیک ہے۔۔۔بکاز ایمن ابھی بچی ہے۔۔۔اور رہی میں۔۔۔تو میں عینا رشید احمد نہیں رہی بلکہ عینا احتشام شاہ ہوں۔۔۔بابا کیا اب کوئی اور بھی میرا کچھ بگاڑنا تو دور میری طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔۔۔اس لیے میری فکر چھوڑ دیں میری طرف ہاتھ بڑھانے والے کا ہاتھ روکنا بھی اور توڑنا بھی آتا ہے احتشام جی کو۔۔۔"
      عینا انتہائی مضبوط لہجے میں کہتی بیٹھک کی طرف بڑھ گئ۔۔۔عائلہ اسے جاتے پیچھے سے دیکھتی رہ گئ۔۔۔بہادر اور پراعتماد تو وہ شروع سے ہی تھی مگر اب اس کے لہجے میں اک مان تھا کسی کے ساتھ کا غرور تھا۔۔۔
      سچ کہتے ہیں کہ ایک بہادر اور مضبوط مرد کا ساتھ جس عورت کو بھی مل جائے وہ کسی سے بھی بے خوف ہو کر ٹکرا جاتی ہے اس کے اندر کے سارے ڈر ختم ہو جاتے ہیں کیونکہ اسے پتہ ہوتا ہے کہ اس کو سنبھالنے والا اسے سہارا دینے والا اس کا ساتھ دینے والا دکھ تکلیف میں اس کی ڈھال بننے والا کوئی اس کی پشت پہ ہے۔۔۔جو اسے تنہا نہیں چھوڑے گا۔۔۔جو اسکی خاطر سب سے ٹکرا جائے گا۔۔۔یہ مان یہ بھروسہ عورت کو اندر تک سرشار کردیتا ہے اسکے اندر انجانی سی قوت بھر دیتا ہے۔۔۔اور یہی طاقت اسے عینا کے انداز اور لب و لہجے میں محسوس ہوئی تھی۔۔۔
      " یہ کیا ہے۔۔۔عینا کی بچی میں نے تم سے پانی کا کہا تھا کہ جگ میں لا کے یہاں ٹیبل پہ رکھ دو۔۔۔اور تم نے ہنڈیا لا کے ٹیبل پہ رکھ دی ہے۔۔۔"
      عائلہ نے اپنا سر پیٹتے عینا کے پاس کھڑے ہو کر تقریباً چلا کر قدرے آہستہ آواز میں کہا جو سونے کی تیاری کر رہی تھی۔۔۔
      " ہیںںںںںں۔۔۔۔یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔"
      عینا نے حیران ہوتے گردن گھما کر ٹیبل کی طرف دیکھا تو وہاں پڑی ہنڈیا اس کا منہ چڑا رہی تھی۔۔۔
      " میں نوٹ کر رہی ہوں کہ جب سے احتشام کی کال آئی ہے تم تب سے عجیب و غریب حرکتیں کر رہی ہو۔۔۔کہتی تم سے کچھ ہوں کرتی تم کچھ ہو۔۔۔
      آخر ایسا کیا کہ دیا ہے انھوں نے جو تمہارے ہوش ہی گم ہو گئے ہیں۔۔۔مہربانی فرما کر جب تک آپ اپنے حواسوں میں نہیں آتیں ماما سے اور ان کی میڈیسن سے دور ہی رہنا میں دیکھ لوں گی انکو۔۔۔"
      عائلہ نے عینا کو مصنوعی گھوری سے نوازتے کہا۔۔۔
      " آپ ٹھیک کہ رہی ہیں پتہ نہیں مجھے کیا ہو گیا ہے۔۔۔کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہی۔۔۔ہر طرف بس وہی دکھ رہے ہیں۔۔۔اب بھی جب میں بیٹھک میں چائے دینے گئ تو بابا وہاں نہیں تھے وہ واشروم گئے ہوئے تھے دروازہ ناک کرنے پہ وہاں بیٹھے انکے دوستوں میں سے ایک نے دروازہ کھول کر چائے پکڑی تو میں سمجھی سامنے احتشام جی کھڑے ہیں پھر۔۔۔۔۔۔۔"
      عینا کی بات سن کر عائلہ کا کلیجہ منہ کو آیا۔۔۔وہ پریشانی سے بولی۔۔۔
      " پھر۔۔۔۔پھر کیا ہوا۔۔۔"
      " پھر یہ کہ مجھے غلط فہمی ہوئی تھی مگر اس کو مجھ سے بھی زیادہ ہو گئ۔۔۔اسی غلط فہمی میں اس نے گندی نیت سے میرے ہاتھ کو ٹچ کیا تو میں نے وہی چائے اٹھا کر اس کے منہ پہ دے ماری۔۔۔"
      عینا نے بڑے اطمینان سے کہا تو عائلہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئ۔۔۔
      " جیسا تم کہ رہی ہو اس کے بعد پھر بابا نے ابھی تک کوئی ہنگامہ کیوں نہیں کیا۔۔۔اتنی خاموشی کیسے۔۔۔"
      عائلہ کو ایک نئ فکر لاحق ہوئی تھی۔۔۔جو کچھ عینا نے کیا اس کے بعد تو بابا قیامت اٹھا دیتے مگر اس قدر خاموشی پہ وہ پریشان ہو اٹھی۔۔۔
      " پریشان مت ہوں۔۔۔کردیا ہوگا ان لوگوں نے کوئی بہانہ بابا سے۔۔۔سچ نہیں بتایا ہوگا۔۔۔اب کس منہ سے بتاتا کہ اسے کس جرم کی سزا ملی ہے۔۔۔"
      عینا نے بے فکری سے کہا۔۔۔
      " نہیں۔۔۔بابا کے دوست مروت لحاظ والے ہرگز نہیں ہیں۔۔۔اگر ہوتے تو اپنی بیٹی کی عمر کی لڑکی کے ساتھ ایسی حرکت کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتے۔۔۔یہ خاموشی ٹھیک نہیں ہے۔۔۔"
      عائلہ اپنے باپ سے بھی خوب واقف تھی اور انکے جاننے والے یار دوستوں سے بھی۔۔۔اس لیے اسے یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ عینا نے انکو جو سبق سیکھایا وہ اتنی آسانی سے اسے بھول جاتے۔۔۔
      " آپ کیوں پریشان ہو رہی ہیں۔۔۔چل کریں۔۔۔اور صارم بھائی کے اچھے اچھے خواب دیکھتی سو جائیں۔۔۔"
      عینا نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔صارم شاہ کے نام پہ عائلہ کے چہرے پہ ایک تاریک سایہ لہرایا تھا۔۔۔اس کا دھیان بٹ کر اپنے نکاح کی طرف گیا تھا پرسوں جب اس کا نکاح ہوگا تو کیا ہوگا اتنا تو وہ جانتی تھی کہ کوئی بدمزگی نہ ہو دلاور سارا انتظام کر کے آئے گا۔۔۔مگر عینا پہ کیا بیتے گی جو اس کے اور صارم کے راستے صارف کرنے کے لیے اتنا بڑا قدم اٹھا چکی تھی۔۔۔کیا بیتے گی صارم شاہ پہ جب اس کے نکاح کی خبر اس پہ بجلی بن کر گرے گی۔۔۔وہ مرجائے گا۔۔۔عائلہ کے دل نے کہا تھا۔۔۔
      " نہیں۔۔۔میں اسے مرنے نہیں دوں گی۔۔۔"
      عائلہ زیر لب بڑبڑائی تھی۔۔۔
      " کیا ہوا آپی۔۔۔کس کی بات کر رہی ہیں کون مر جائے گا۔۔۔آپ ایسے پریشان کیوں ہو گئ ہیں۔۔۔"؟
      عینا اٹھ کر سیدھی بیٹھتے ہوئے پریشانی سے بولی۔۔۔وہ حیران تھی کہ اچانک بیٹھے بیٹھے عائلہ کو کیا ہوگیا کس بات نے اسے اتنا پریشان کردیا۔۔۔
      " کک۔۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔کوئی نہیں مرے گا اب۔۔۔ہم سب کی خوشیوں کے لیے اجالا اپنے خون کا خراج دے چکی۔۔۔اب ہم سب جئیں گے۔۔۔خوشیوں بھری زندگی جئیں گے ہم سب اب۔۔۔کسی کو کچھ نہیں ہوگا اب۔۔۔ماما بھی بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گی۔۔۔"
      عائلہ نے بات ٹالتے اپنی آنکھوں میں آئی نمی صاف کرتے بھیگے لہجے میں کہا۔۔۔
      " ٹھیک کہ رہی ہیں آپ۔۔۔اب ہم سب ہمیشہ خوش رہیں گے۔۔۔بہت سی خوشیاں ہمارا انتظار کر رہی ہیں۔۔۔"
      عینا نے اپنی جگہ سے اٹھتے عائلہ کو سائیڈ سے زور سے ہگ کرتے اس کے کندھے پہ اپنا سر رکھتے مسکرا کر کہا۔۔۔بے شک خوشیاں انکے دروازے پہ کھڑی تھیں مگر ابھی عشق کے امتحان باقی تھے۔۔۔وہ امتحان پاس کرنے کے بعد ہی ان خوشیوں کے لیے دروازے کھل سکتے تھے۔۔۔اور یہ کڑے امتحان وہ پاس کر بھی پاتے ہیں یا نہیں یہ کوئی نہیں جانتا تھا سوائے الّٰلہ کے۔۔۔
      ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
      " ویسے جمعہ تک گاؤں میں کسی سے بھی ذکر نہ کرنے کی عجیب و غریب شرط میری سمجھ سے باہر ہے۔۔۔جمعہ تک ایسا کیا ہونا ہے۔۔۔یا ایسا کیا ہے۔۔۔"
      اس وقت سب لوگ رات کا ڈنر کر رہے تھے جب فجر نے حیرانی سے پوچھا۔۔۔کچھ دیر پہلے ہی شرجیل اور فجر حویلی پہنچے تھے احتشام شاہ کے نکاح کی خبر سن کر فجر سے ایک پل بھی اپنے گھر رکنا محال ہو رہا تھا۔۔۔شرجیل اسکی بے چینی اور خوشی کو دیکھتے سب کام چھوڑ کر اسے لے کر حویلی آ گیا تھا۔۔۔
      " معلوم نہیں بیٹا کہ اس میں کیا لوجک تھی مگر جو بھی ہے ہمیں اس بات میں کوئی مذائقہ نہیں لگا اس لیے مان لی۔۔۔"
      ہائمہ خاتون نے کہا۔۔۔
      " تو کل پھر ہم چلیں ادھر۔۔۔میرا بہت دل چاہ رہا ہے عینا سے ملنے کو۔۔۔اگر کسی اور کو بھی ساتھ چلنا ہے تو میں لے چلوں گی۔۔۔"
      فجر نے شرارت سے احتشام شاہ کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔
      " ہرگز نہیں۔۔۔جمعہ تک ادھر کوئی نہیں جائے گا۔۔۔اور دوسری بات کہ اب وہ آپکی دوست کے ساتھ آپکی بھابھی بن چکی ہیں اس لیے بیٹا اب سے آپ انکو عینا بھابھی کہ کر مخاطب کیا کرو گی۔۔۔ہر رشتے کو اس کے مقام کے مطابق عزت دیتے ہیں عزت سے مخاطب کرتے ہیں"
      ہائمہ خاتون نے سختی سے منع کرتے اور سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔
      " سوری ماما۔۔۔اگر بھائی نہیں جا سکتے تو ہم تو جا سکتے ہیں ناں۔۔۔میرا مطلب میں اور شرجیل تو جا سکتے ہیں ناں پلیززز۔۔۔"
      فجر نے منت کرتے کہا۔۔۔
      فجر سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔عائلہ اور عینا کی بس یہی شرط تھی کہ جمعہ تک ادھر کوئی نہیں آئے گا چاہے کچھ بھی ہو جائے۔۔۔"
      ہائمہ خاتون کے کچھ کہنے سے قبل احتشام شاہ نے نرم لہجے میں مگر دوٹوک انداز میں فجر کو سمجھاتے کہا۔۔۔تو فجر منہ بسور کر بیٹھی گئ۔۔۔
      " جورو کے غلام۔۔۔"
      عینا زیر لب دھیمے سے بڑبڑائی مگر اسکی بڑبڑاہٹ پاس بیٹھے احتشام شاہ اور شرجیل نے واضح طور پہ سنی تھی۔۔۔دونوں کے چہرے پہ مسکراہٹ در آئی تھی۔۔۔
      " انکل آپکے سکول کا کام کہاں تک پہنچ گیا ہے۔۔۔"
      شرجیل نے بات بدلنے کو شاہ سائیں سے پوچھا۔۔۔
      " انشاء الّٰلہ ایک ماہ تک سب کمپلیٹ ہو جائے گا۔۔۔اس سے جلدی ہو جاتا مگر گورنمنٹ کی طرف سے کچھ فنڈز رکے ہوئے ہیں۔۔۔انکو اپروو کروانے کے لیے کل مجھے خود جانا ہوگا اسلام آباد۔۔۔"
      شاہ سائیں نے اپنا کھانا ختم کرتے نیپکن سے ہاتھ منہ صاف کرتے کہا۔۔۔
      " بابا میں نے اپنی نیو مل کے لیے چائنہ سے کچھ نئ مشینز منگوائی تھیں۔۔۔کچھ دیر پہلے مجھے اطلاع ملی ہے کہ وہ کراچی پہنچ چکی ہیں۔۔۔ساتھ میں ان مشینز کے کچھ ایکسپرٹ کا وفد بھی آیا ہے جو کہ ہمارے ورکرز کو ٹرینڈ کریں گے۔۔۔اس لیے مجھے کل ارجنٹ بیس پہ جانا ہوگا۔۔۔ "
      احتشام شاہ نے کہا۔۔۔
      " ہمممممم۔۔۔۔۔بیٹا دیکھ بھال کے کرنا جو بھی کرنا ہے۔۔۔بجلی اور پٹرول کے بجائے پانی سے چلنے والی یہ مشین کہیں دھوکا ثابت نہ ہو۔۔۔"
      شاہ سائیں نے فکرمندی سے کہا۔۔۔
      " بابا پریشانی والی کوئی بات نہیں ہے میں اس پہ نہ صرف مکمل سرچ کر چکا ہوں بلکہ فیصل آباد میں جس بندے نے سب سے پہلے یہ کام سٹارٹ کیا تھا اور یہ مشینز منگوائی تھیں اس سے جا کے میں اور طلحہ مل بھی چکے ہیں اور ان مشینز پہ کام ہوتا دیکھ بھی چکے ہیں۔۔۔"
      احتشام شاہ نے جواب دیا۔۔۔
      " چلو ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔الّٰلہ آپکے راستے آسان کرے اور آپکو کامیاب کرے۔۔۔"
      شاہ سائیں نے کہا۔۔۔
      " یہ کیا بات ہوئی بابا میں آپ سب سے ملنے آئی اتنی دور سے اور آپ اور بھیا غائب ہو رہے ہیں۔۔۔"
      فجر منہ بسورتے بولی۔۔۔
      " بیٹا جانی اگر مجبوری نہ ہوتی تو میں ہرگز نہیں جاتا۔۔۔بس ایک دو دن کی بات ہے پرسوں انشاء الّٰلہ میں اپنی بیٹی کے پاس ہوں گا پھر ہم خوب باتیں کریں گے آپ مجھے اپنی ساس کے مظالم بتانا جو جو وہ آپ پہ کرتی ہیں اور شرجیل کی شکایتیں سب سنوں گا۔۔۔"
      شاہ سائیں نے اپنی مسکراہٹ روکتے شرجیل کو آنکھ ونک کرتے کہا۔۔۔
      " باباااااا۔۔۔۔۔۔مجھے نہیں بات کرنی آپ سے۔۔۔اور خالہ جانی دنیا کی سب سے بیسٹ خالہ ہیں۔۔۔اور شرجیل بھی دنیا ک۔۔۔۔۔۔۔"
      فجر روانی میں بولتی یکدم رکی تھی باپ اور بھائیوں کی موجودگی میں شرجیل کی تعریف کرتے اسے بری طرح سے شرم نے آ لیا تھا۔۔۔
      " رک کیوں گئ بیٹا بولو۔۔۔جو کہ رہی تھی۔۔۔"
      شاہ سائیں کے ساتھ ساتھ وہاں بیٹھے سب لوگ مسکرا کر اسکی طرف دیکھنے لگے۔۔۔
      " کک کچھ نہیں بس ایسے ہی۔۔۔"
      فجر نے منہ نیچے کیے کہا۔۔۔
      " کتنی عجیب بات ہے ناں بیٹا کہ جب شوہر کی کوئی بات بری لگے تو ہم ساری دنیا کے سامنے اس کو لے آئیں۔۔۔ایسے ہی جب بیوی کی کوئی بات بری لگے تو تب بھی سب کے سامنے اسکو ذلیل کر کے اپنے مرد ہونے کا ثبوت دیں۔۔۔جانتی ہو بیٹا الّٰلہ کو سب سے برا تب لگتا ہے جب ایک بیوی اپنے شوہر کی سب کے سامنے برائی کرے۔۔۔جب ایک شوہر سب کے سامنے اپنی بیوی کو ذلیل کرے لوگوں میں اسکی برائی کرے۔۔۔
      مگر جب ایک دوسرے میں اچھی بات دیکھیں تو اظہار نہ کریں۔۔۔
      ایک بار ہمارے پیارے آقا حضرَت مُحَمد صَلیَ الّٰلہ عَلِیْہ وَآلہ وَسَلَمْ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے صحابہ اکرام میں سے کسی نے سوال کیا یا رسول الّٰلہ آپکو لوگوں میں سب سے زیادہ محبت کس سے ہے۔۔۔آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا عائشہ سے۔۔۔یہ بات سن کر ساری مجلس کو سانپ سونگھ گیا اس وقت کے معاشرے میں اپنی بیوی کا نام تک لینا معیوب سمجھا جاتا تھا سب کے سامنے محبت کا اظہار کرنے کا تو تصور ہی نہیں تھا۔۔۔اس لیے جس صحابی نے سوال کیا تھا وہ بھی شرمندہ ہوگیا اور سمجھا کہ شائد وہ اپنی بات ٹھیک سے بیان نہیں کر پایا اس لیے انھوں نے دوبارہ سوال کیا۔۔۔
      حضور صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم میرا مطلب تھا کہ مردوں میں سب سے زیادہ کس سے محبت ہے۔۔۔
      آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم پہلی باری میں ہی سمجھ گئے تھے کہ وہ کیا پوچھنا چاہتا ہے مگر آپ صَلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے جان بوجھ کر حضرت عائشہ رضی الّٰلہ تعالیٰ عنہ کا نام لیا تاکہ لوگ بیوی سے محبت کرنے کو اس کا نام لینے کو شرمندگی سمجھنا چھوڑ دیں۔۔۔
      آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم مسکرا دئیے اور فرمایا عائشہ کے باپ سے۔۔۔
      اس واقعہ میں ہمارے لیے بہت عمدہ مثال تھی کہ گھر میں کیسے رہا جاتا ہے بیوی کا کیا مقام ہے۔۔۔دنیا میں سب سے زیادہ شرم و حیا ہمارے نبی پاک صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم میں تھی مگر وہ تو سب کے سامنے اپنی بیوی کا نام لیتے شرمائے نہ بیوی سے محبت کا اظہار کرتے شرمائے۔۔۔افسوس کہ ہم نے نبی کا طریقہ ان کا رستہ چھوڑ دیا کہنے کو ہم سب مسلمان الّٰلہ نبی صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے ماننے والے مگر حرکتیں کافروں سے بھی بدتر۔۔۔جہاں ہمیں شرم کرنی چاہیے ہمیں حیا آنی چاہیے وہاں ہم بے شرمی اور بے غیرتی کے جھنڈے گاڑنے لگے ہیں اور جہاں شرم کا کوئی کام نہیں وہاں پہ شرم محسوس کرنے لگ گئے ہیں۔۔۔
      شاہ سائیں نے گھمبیر لہجے میں کہا۔۔۔
      " بابا شرجیل دنیا کے سب سے بیسٹ شوہر ہیں۔۔۔سب سے اچھے۔۔۔انکے جیسا کوئی نہیں۔۔۔میں انکے بنا کچھ بھی نہیں۔۔۔مجھے شرجیل سے اتنی محبت ہے کہ انکے بنا اب ایک پل بھی نہیں رہ سکتی۔۔۔"
      فجر نے ایک جذب سے کہا۔۔۔تو صارم شاہ بیچ میں ہی بول پڑا۔۔۔
      " اوہ ہیلو۔۔۔بریک لگاؤ بھئ۔۔۔شرجیل کی تعریف کر رہی ہو یا اس پہ کتاب لکھ رہی ہو۔۔۔"
      صارم شاہ کی بات پہ وہاں بیٹھے سب ہی کھلکھلا کر ہنس دئیے۔۔۔
      " میں بھی آپ سے بہت محبت کرتا ہوں فجر۔۔۔آپ میری روح کا سکون میرے دل کا چین ہیں۔۔۔آپکی خوشی کے لیے میں کچھ بھی کر سکتا ہوں۔۔۔"
      شرجیل نے بھی محبت سے فجر کی طرف دیکھتے کہا تو سب لوگوں نے دل میں انکی تاعمر خوش رہنے کی دعا مانگی۔۔۔
      " الّٰلہ میرے بچوں کو ہمیشہ یونہی شاد و آباد رکھے۔۔۔آمین۔۔۔"
      ہائمہ خاتون نے سب کی طرف دیکھتے محبت سے کہا۔۔۔یونہی ہلکی پھلکی گپ شپ کرتے ٹائم گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا اور رات کے 12 بج گئے۔۔۔
      " آپ سب لوگ بھی میرا خیال ہے اب آرام کریں مجھے صبح جلدی نکلنا ہے تو میں اب کچھ دیر آرام کرنا چاہوں گا۔۔۔"
      شاہ سائیں نے اٹھتے ہوئے کہا تو ان کی بات پہ سب سنجیدگی سے سر ہلا کر اپنے اپنے روم میں جانے کو اٹھ کھڑے ہوئے۔۔۔شرجیل کا کچھ دیر احتشام اور صارم شاہ کے پاس بیٹھنے کا ارادہ تھا اس لیے وہ انکے ساتھ چل دیا۔۔۔
      " آپ۔۔۔آپ ادھر کہاں۔۔۔آپ ادھر بھائی کے روم میں جائیں۔۔۔یا دوسرے کمرے میں۔۔۔"
      کچھ دیر بعد شرجیل کو اپنے روم میں دیکھ کر فجر ہڑبڑا کر بیڈ سے اٹھ کر کھڑے ہوتے بولی۔۔۔
      " بھئ خالہ جان نے کہا ہے کہ میرا روم یہی ہے اس لیے میں ادھر آ گیا اپنی روح کے سکون کے پاس۔۔۔اپنے دل کے چین کے پاس۔۔۔ابھی باہر بتایا تو تھا سب کے ساتھ آپکو بھی۔۔۔"
      شرجیل نے ہنستے ہوئے کہا اور دروازہ بند کر کے فجر کا ہاتھ پکڑے اسے اپنے ساتھ لیے بیڈ پہ گرنے کے سے انداز میں لیٹ گیا۔۔۔فجر اس اچانک جھٹکے پہ سنبھل نہ پائی اور اس کے اوپر جا گری۔۔۔شرجیل نے اسی وقت اس کے گرد اپنے بازوؤں کا حالہ بناتے اپنی گرفت سخت کی۔۔۔
      " مجھے شرم آ رہی ہے۔۔۔آپ پلیززز دوسرے روم میں چلے جائیں میں یہاں آپ کے ساتھ روم شئیر نہیں کرسکتی۔۔۔"
      فجر نے شرمائے گھبرائے لہجے میں کہا۔۔۔
      " میرا خیال ہے کہ ابھی خالو جان نے جو اتنا اہم اور خوبصورت واقعہ سنایا وہ ہمارے لیے ہی تھا۔۔۔انھوں نے بھی بڑے خوبصورت انداز میں آپکو یہ سمجھا دیا ہے کہ اب جب بھی میں اپنے سسرال آیا کروں گا تو میں آپکا روم شئیر کیا کروں گا اس لیے فضول خیالات کو اپنے دماغ میں جگہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔"
      شرجیل نے مخمور لہجے میں کہا اور فجر کے گال پہ اپنی ٹھوڑی رب کی۔۔۔"
      " آہہہہہہ۔۔۔۔کتنی بار کہا ہے کہ یہ مت کیا کریں بہت چبھتی ہے یہ۔۔۔"
      فجر یکدم اپنے گال پہ ہاتھ رکھتے منہ بسور کے ہلکی ہلکی بڑھی ہوئی شرجیل کی داڑھی کی طرف اشاہ کرتے چیختے ہوئے بولی۔۔۔
      " یار آہستہ چیخو۔۔۔ابھی تو میں نے کچھ کیا بھی نہیں۔۔۔باہر اگر کسی نے تمہاری چیخ سن لی تو کیا سوچے گا کہ ابھی کچھ دیر پہلے تو بڑا شریف بن رہا تھا اب کمرے میں جا کر پتہ نہیں ہماری بیٹی کے ساتھ کونسی بدمعاشیاں کر رہا ہے جو وہ چیخ رہی ہے۔۔۔"
      شرجیل نے ذومعنی انداز میں کہتے شرارت سے ہنستے ہوئے فجر کی طرف دیکھ کر کہا تو اس کی بات پہ فجر کانوں تک سرخ پڑی تھی۔۔۔بے اختیار اپنی نظریں جھکا کر وہ منہ بسورتے شرجیل کے سینے میں اپنا چہرہ چھپا گئ۔۔۔
      " تو پھر بدمعاشیاں شروع کریں۔۔۔"
      شرجیل نے بے خود ہوتے کہا اور ساتھ ہی فجر کی گردن پہ اپنے لب رکھ دئیے۔۔۔شرجیل نے جیسے ہی اسکی گردن پہ اپنے لب رکھے اسکے پورے وجود پہ مدہوشی چھا گئ۔۔۔نہ جانے کیوں شرجیل کے اسکی گردن پہ لب رکھتے ہی وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو جاتی تھی اس کا وجود ڈھیلا پڑ جاتا تھا۔۔۔اور شرجیل اس کی یہ کمزوری خوب جانتا تھا۔۔۔اس لیے ہمیشہ اسکی بولتی وہ یونہی بند کیا کرتا تھا۔۔۔
      ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
      " تم سوئی نہیں ابھی تک۔۔۔خیر تو ہے تمہارے سیل کی لائٹ آن ہے۔۔۔احتشام سے بات کر رہی ہو کیا۔۔۔"
      رات کے ڈھائی بجے عائلہ کی پیاس سے آنکھ کھلی تو عینا کو جاگتے دیکھ کر وہ پوچھنے لگی۔۔۔
      " جی۔۔۔صبح وہ کراچی جا رہے ہیں تو پوچھ رہے تھے کہ دو منٹ کے لیے صبح گھر آ سکتا ہوں جانے سے پہلے وہ ملنا چاہ رہے تھے۔۔۔"
      عینا نے عائلہ کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے کہا۔۔۔
      " ہممممم۔۔۔۔بلا لو۔۔۔اور ان سے کہو کہ ساتھ میں چھوٹے شاہ کو بھی لیتے آئیں مجھے ان سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔"
      عائلہ نے کچھ دیر سوچنے کے بعد سینجیدگی سے کہا۔۔۔
      " سچ میں۔۔۔آپی آپ صارم بھیا سے بات کریں گی۔۔۔پلیززز پھر کہیے گا مجھے یقین نہیں آ رہا۔۔۔"
      عینا تیزی سے اپنے بیڈ سے اٹھتے ہوئے عائلہ کے قریب بیٹھتے پرمسرت لہجے میں بولی۔۔۔
      " کہا ناں بلا لو۔۔۔"
      عائلہ نے نظریں چراتے کہا۔۔۔کمرے میں مدھم لائیٹ ہونے کی وجہ سے عینا اس کے چہرے کے تاثرات نہیں دیکھ پائی اگر دیکھ لیتی تو اس قدر کبھی خوش نہ ہوتی۔۔۔
      " تھینکس۔۔۔آپی۔۔۔میں بہت خوش ہوں۔۔میں ابھی یہ خوشخبری انکو سناتی ہوں۔۔۔"
      عینا نے خوش ہوتے کہا اور تیز تیز اپنے موبائل پہ میسج ٹائپ کرنے لگی۔۔۔
      " عینا ایک وعدہ کرو گی مجھ سے۔۔۔"
      وہ میسج ٹائپ کر چکی تو عائلہ نے عینا سے کہا۔۔۔
      " بولیے آپی۔۔۔اب تو آپ میری جان بھی مانگیں گی تو وہ بھی دے دوں گی۔۔۔"
      عینا نے پرجوش لہجے میں کہا۔۔۔
      " عینا وعدہ کرو تم ہمیشہ میرا ساتھ دو گی جہاں میں کھڑی ہوں گی تم بھی وہیں کھڑی ہوگی۔۔۔جو میں کہوں گی وہی کرو گی۔۔۔کسی سے کوئی پنگا کوئی لڑائی کوئی جھگڑا نہیں کرو گی بابا سے بھی نہیں۔۔۔"
      عائلہ نے اپنا ہاتھ عینا کی طرف بڑھاتے کہا۔۔۔
      " بس اتنی سی بات۔۔۔پکا وعدہ اب سے سارے جھگڑے بند۔۔۔اب میں بابا سے بھی نہیں لڑوں گی۔۔۔آپ جو کہیں گی وہ کروں گی۔۔۔جہاں آپ کھڑی ہوں گی وہیں میں آپکے ساتھ کھڑی ہوں گی۔۔۔"
      عینا نے بنا کچھ سوچے بنا عائلہ کے لفظوں کی گہرائی میں اترتے فٹ سے عائلہ کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھتے کہا۔۔۔عائلہ کی آنکھوں میں نمی گھلی تھی جسے وہ کمال مہارت سے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے چھپا گئ تھی۔۔۔
      " چلو ٹھیک ہے اب اگر احتشام سے اجازت مل گئ ہو تو سو جاؤ میں بھی سوتی ہوں۔۔۔"
      عائلہ اتنا کہ کر کروٹ لیے لیٹ گئ۔۔۔اس کے دل میں اک آگ جل اٹھی تھی جو اس کی ہستی کو جلا کر راکھ کر رہی تھی مگر چپ چاپ اس آگ میں وہ جلنے لگی۔۔۔عینا کی معصومیت سے اس کے جزباتی پن سے آج اس نے اس کی بے خبری میں فائدہ اٹھایا تھا۔۔۔یہ سوچ بھی اسکی روح کو چھلنی کر رہی تھی کہ جب اس وعدے کی حقیقت عینا پہ کھلے گی تب وہ کس قدر تکلیف سے گزرے گی۔۔۔
      لب چومے زلفیں سنواریں بانہوں میں لیا ہم نے
      مت پوچھ تیرے ساتھ خیالوں میں کیا کیا کِیا ہم نے
      میسج ٹیون بجی تو عینا نے جھٹ سے موبائل اون کیا مگر احتشام شاہ کے کیے گئے اس میسج کو پڑھ کر عینا کو یوں لگا جیسے اس کے کانوں سے دھواں نکلنے لگا ہو۔۔۔اس نے گھبرا کر شرما کر تیزی سے یوں موبائل آف کیا جیسے احتشام شاہ اس میں سے باہر نکل آئے گا اور یہ سب سچ میں کر گزرے گا۔۔۔
      " اففففف۔۔۔۔۔کتنے بے شرم ہیں یہ۔۔۔میسنے کہیں کے۔۔۔ظاہر یوں کرتے تھے جیسے ان سے زیادہ دنیا میں کو شرم حیا والا نہیں۔۔۔اور باتیں۔۔۔اففففف۔۔۔۔ہائے عینا یہ سچ میں ایسے ہیں۔۔۔۔"
      عینا نے شرم سے گلگلوں ہوتے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں ڈھانپتے خود سے سرگوشی میں بڑبڑاتے کہا۔۔۔
      تمہارے ساتھ بتائے وہ چند پل
      میرے کئ سالوں پہ بھاری ہیں
      عین مجھے نیند نہیں آ رہی مجھے اپنے وجود سے آپکی خوشبو ابھی تک آ رہی ہے۔۔۔یوں لگ رہا ہے جیسے آپکے بدن کی خوشبو میرے جسم سے لپٹ گئ ہے کیا آپکو بھی ایسا ہی لگ رہا ہے۔۔۔۔"
      میسج ٹیون پھر سے بجی تھی عینا نے گھبرا کر موبائل کی طرف دیکھا پھر کچھ دیر بعد لرزتے ہاتھوں اور دھک دھک کرتے دل کے ساتھ اون کیا تو احتشام شاہ کے دل کا حال جان کر بے اختیار اس نے خود کو سونگھا تھا۔۔۔
      " افففف۔۔۔یہ خود بھی پاگل ہیں اور لگتا عینا تجھے بھی کردیں گے۔۔۔"
      عینا نے شرمیلی مسکان لیے کہا اور موبائل آف کرکے آنکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کرنے لگی مگر محبت کا خمار اس کے بدن میں بھی پوری طرح سے سرائیت کر گیا تھا کروٹیں بدلنے کے باوجود نیند اس سے روٹھ گئ تھی۔۔۔احتشام کا لمس اسے پوری طرح سے جکڑے ہوئے تھا۔۔۔اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ ابھی بھی احتشام شاہ کے بازوؤں کے گھیرے میں ہے اس کے دل میں سوئی ہوئی خواہشیں بیدار ہونے لگی تھیں
      ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
      سیٹھ اکرام نے سب کے ہال روم میں جمع ہونے کے بعد سب کو اچھے سے آگاہ کردیا تھا کہ رضوانہ بوا کو کوئی بھی اس گھر کا ملازم ہرگز نہ سمجھے۔۔۔اور جو سمجھے گا اس کی اس گھر میں کوئی جگہ نہیں۔۔۔صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یہ بھی کہا کہ رضوانہ بوا انکے لیے بلکل سگی بہنوں کی طرح ہیں۔۔۔سیٹھ اکرام نے رضوانہ خاتون کا سامان گیسٹ روم میں شفٹ کروا دیا تھا۔۔۔
      شام کو کھانے پہ سب لوگ موجود تھے سوائے فرحین بیگم کے انھوں سر میں درد کا کہ کر آنے سے معزرت کر لی تھی۔۔۔سیٹھ اکرام نے بھی فورس نہیں کیا تھا۔۔۔دل تو عدن اور زویا کا بھی نہیں تھا کھانے میں شریک ہونے کا مگر اپنے باپ کے ڈر سے وہ دل پہ پتھر رکھ کر آ گئ تھیں۔۔۔
      ٹی پنک کلر کے ڈریس میں دوپٹے کو سلیقے سے سر پہ جمائے فاطمہ آج خلاف معمول طلحہ کو بہت پیاری لگ رہی تھی آج پہلی بار طلحہ نے اس کا بغور سر تا پیر جائزہ لیا تھا جیولری کے نام پہ کانوں میں ہلکے سے آرٹیفیشل ٹاپس پہنے ہوئے تھے۔۔۔ جبکہ مہدیہ نے میرون کلر کا ڈریس زیب تن کیا تھا دوپٹے سے خود کو اچھے سے کور کیے وہ کوئی حور لگ رہی تھی۔۔۔قاسم کو نہ صرف اپنی نظریں اس سے ہٹانا مشکل ہو رہا تھا بلکہ خود پہ قابو رکھنا بھی دشوار لگ رہا تھا۔۔۔جبکہ فاطمہ طلحہ کو مکمل طور پہ نظرانداز کیے ایمان کے ساتھ باتوں میں مصروف تھی۔۔۔
      طلحہ فاطمہ کے اسے یوں نظر انداز کرنے پہ مسکرا دیا۔۔۔اسے دلی طور پہ ایسی لڑکیاں زہر لگتی تھیں جو مردوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے عجیب عجیب حرکتیں کرتی تھیں جبکہ یہاں فاطمہ کو معلوم تھا کہ اس گیدرنگ کا مقصد کیا ہے پھر بھی اس نے ایک نظر بھی طلحہ کی طرف دیکھنا گوارہ نہیں کیا تھا۔۔۔
      " اکرام بھائی آپ رہنے دیتے ہم ادھر ہی ٹھیک تھے۔۔۔"
      رضوانہ بوا نے شرمسار لہجے میں کہا وہ اچھے سے جانتی تھیں کہ فرحین بیگم انکو پسند نہیں کرتیں اور سر درد صرف ایک بہانہ ہے۔۔۔کھانے سے فارغ ہو کر سب لوگ ہال میں رکھے صوفوں پر آ کر بیٹھ گئے۔۔۔طلحہ ایک دو بار پہلے بھی گھر آیا تھا مگر مہدیہ سے اس کا سامنا نہیں ہوا تھا۔۔۔اب ہوا تو وہ حیران ہو کر ایمان کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔وہ دل پھینک قسم کا لڑکا ہرگز نہیں تھا مگر مہدیہ کی خوبصورتی نے اسے متاثر ضرور کیا تھا۔۔۔سیٹھ اکرام نے طلحہ سے مہدیہ کا تعارف کروایا تو قاسم نے ایک طنزیہ نظر اس پہ ڈالی۔۔۔طلحہ نے مسکرا کر مہدیہ کا حال احوال پوچھا اس کے جواب دینے کے بعد پھر اس نے مہدیہ کی طرف نہیں دیکھا تھا۔۔۔
      " رضوانہ بہن میں نے آپکو بہن مانا ہے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ میری بہن سرونٹ کوارٹر میں رہے۔۔۔آپ اس گھر کے فرد کی طرح ہیں اور جیسے سب رہتے ہیں ویسے ہی آپ بھی یہاں رہیں گی۔۔۔بلکہ ان سب سے زیادہ حق ہے آپکا اس گھر پہ۔۔۔"
      سیٹھ اکرام نے بہت محبت اور اپنائیت سے کہا۔۔۔انکا یہی انداز رضوانہ بوا کو مزید کچھ بھی کہنے سے ہمیشہ روک دیتا تھا۔۔۔
      " رضوانہ بہن آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔۔۔کچھ دن پہلے میں نے آپکے سامنے ایک سوال ڈالا تھا۔۔۔"
      سیٹھ اکرام نے کہا۔۔۔
      " اکرام بھائی مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔مگر کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے بہتر ہوگا بچے ایک دوسرے کو جان لیں سمجھ لیں۔۔۔ہمارے اور آپکے اسٹیٹس کا فرق بھلے آپکو نظر نہ آتا ہو مگر یہ سچ ہے کہ بہت فرق ہے ایسا نہ ہو کہ کل کو یہی فرق اس رشتے کی خرابی کا باعث بنے۔۔۔"
      رضوانہ بوا نے بہت شائستہ لب و لہجے میں جواب دیا تھا کہ انکی بات پہ سیٹھ اکرام تائیدی انداز میں سر ہلا کر رہ گئے۔۔۔۔
      " بابا میرے ذہن میں ایک آئیڈیا ہے اگر سب اس سے ایگری کریں تو اس مسلے کا حل نکل آئے گا بلکہ بہت اچھا نکلے گا۔۔۔ "
      اچانک سے قاسم نے اندر انٹری ماری تھی۔۔۔
      " وہ کیا بیٹا جی۔۔۔"
      سیٹھ اکرام نے مسکراتے پوچھا۔۔۔
      " کیوں ناں ہم کل پکنک کا پروگرام رکھ لیں۔۔۔سب لوگ چلتے ہیں گھومنا پھرنا بھی ہو جائے گا اور جس کو جو جاننا ہے وہ جان لے گا۔۔۔"
      قاسم نے سب کی طرف تائیدی نظروں سے دیکھتے کہا۔۔۔
      " آئیڈیا تو اچھا ہے مگر ایک دو دن بہت بزی ہیں میرے۔۔۔ایکچوئیلی میں نے اور احتشام نے اپنی مل کے لیے کچھ مشینیں منگوائی تھیں وہ پہنچ چکی ہیں اور کل احتشام بھی اسی سلسلے میں کراچی آ رہا ہے۔۔۔کچھ میٹنگز بھی ہمیں اٹینڈ کرنی ہیں اس لیے فلحال کے لیے یہ پروگرام عمل درآمد کے قابل نہیں ہے۔۔۔"
      طلحہ نے سنجیدہ لہجے میں کہا اس کی بات پہ فاطمہ نے سکھ بھرا سانس لیا تھا۔۔۔
      " احتشام بھائی ادھر ہی رکیں گے کیا۔۔۔"
      عدن نے پوچھا۔۔۔
      " ظاہری سی بات ہے پہلے بھی وہ ادھر ہی رکتا رہا ہے۔۔۔اس میں پوچھنے والی کیا بات ہے۔۔۔
      طلحہ نے جواب دیا۔۔۔
      " بات تو کوئی نہیں ہے میں اس لیے پوچھ رہی تھی کہ پہلے گیسٹ روم خالی ہوتا تھا مگر اب۔۔۔۔۔"
      عدن نے جان بوجھ کر رضوانہ بوا اور فاطمہ کو شرمندہ کرنے کے لیے کہا اور انکی طرف دیکھ کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔۔۔
      " اس گھر میں رومز کی کمی نہیں ہے عدن اور نہ ہی گیسٹ روم اتنا چھوٹا۔۔۔اور احتشام میرے ساتھ میرا روم شئیر بھی کرسکتا ہے۔۔۔کیوں بابا۔۔۔"؟
      طلحہ عدن کی بات کا مطلب سمجھتے تھوڑا تلخ لہجے میں بولا۔۔۔پھر سیٹھ اکرام سے پوچھا۔۔۔
      " بلکل بیٹا۔۔۔کوئی مسلہ نہیں ہے۔۔۔احتشام شاہ اس گھر کے فیملی ممبر کی طرح ہے۔۔۔جیسے آپکو بہتر لگے آپ کر لینا۔۔۔"
      سیٹھ اکرام نے خوشدلی سے جواب دیا۔۔۔قاسم اس نئے شوشے پہ سخت کبیدہ خاطر ہوا اس کا سارا پلان چوپٹ ہوگیا تھا۔۔۔
      " ماما آپکی طبیعت ٹھیک ہے۔۔۔"
      قاسم کے ساتھ طلحہ ایمان اور زویا اپنی ماں کے روم میں آئے تو وہ غصے سے روم کے اندر چکر کاٹ رہی تھیں۔۔۔
      " بڑی جلدی خیال آ گیا تم لوگوں کو ماں کا۔۔۔ان دو ٹکے کے لوگوں کے ساتھ ایک ہی ٹیبل پہ بیٹھتے نہیں سوچا کہ مجھے کتنا برا لگ رہا ہوگا۔۔۔"
      فرحین بیگم نے پھاڑ کھانے والے لہجے میں غصے سے کہا اور منہ پھلا کر بیڈ پہ بیٹھ گئیں۔۔۔باقی سب بھی انکے ارد گرد آ کر بیٹھ گئے۔۔۔
      " ماما آپ کیوں فاطمہ کے پیچھے پڑ گئ ہیں۔۔۔وہ بہت اچھی ہے۔۔۔ہماری کلاس کی لڑکیوں سے ہزار گنا زیادہ اچھی ہے۔۔۔ماما کیا پیسہ ہی سب کچھ ہوتا ہے انسان کا کردار اس کا اخلاق کوئی اہمیت نہیں رکھتا آپ ایک بار ٹھنڈے دل سے اس کے بارے سوچ کر تو دیکھیں۔۔۔"
      ایمان نے منت بھرے لہجے میں کہا مگر اس کی بات پہ فرحین بیگم مزید بھڑک اٹھیں۔۔۔
      " دفعہ ہو جاؤ تم سب یہاں سے۔۔۔اکیلا چھوڑ دو مجھے۔۔۔میری ایک بات یاد رکھنا طلحہ میں مر کے بھی فاطمہ کو اپنی بہو نہیں مانوں گی اور نہ تم سے کبھی بات کروں گی اب سوچ لو اچھے سے ماں چاہیے یا فاطمہ۔۔۔"
      فرحین بیگم یکدم طلحہ کے سامنے کھڑے ہوتے پھنکاری تھیں۔۔۔طلحہ پریشان ہو کر اپنی ماں کی طرف دیکھنے لگا فرحین بیگم نے پھر سے اپنے کمرے سے سب کو جانے کا کہا تو باری باری سب نکلتے چلے گئے۔۔۔
      " ماما میرے پاس ایک آئیڈیا ہے آپ کی ان لوگوں سے جان بھی چھوٹ جائے گی اور آپ پہ الزام بھی نہیں آئے گا انفیکٹ بابا خود اس رشتے سے انکار کردیں گے۔۔۔"
      قاسم نے سب کے جانے کے بعد دروازے میں کھڑے ہو کر دھیمی آواز میں کہا تو فرحین بیگم سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھنے لگیں قاسم انکے موڈ میں نرمی دیکھ کر اندر چلا آیا اور ہلکے سے دروازہ بند کردیا۔۔۔
      " جو بھی کرنا ہے کرو۔۔۔مگر یہ لوگ یہاں سے دفعہ ہو جانے چاہیے۔۔۔"
      فرحین بیگم نے انتہائی نفرت سے کہا۔۔۔
      " تو ٹھیک ہے آپ مجھے نیو برینڈ کی گاڑی دلوا دیں ان لوگوں کو یہاں سے نکلوانا میری ذمہ داری۔۔۔"
      قاسم اپنے شیطانی دماغ میں مہدیہ کے گرد جال بنتا خود کو خود ہی دل ہی دل میں داد دینے لگا۔۔۔
      " ٹھیک ہے۔۔۔مگر کام اس طریقے سے ہونا چاہیے کہ نہ صرف میرا بلکہ تمہارا بھی کہیں نام نہ آئے۔۔۔اگر ایسا ہوا تو اس کا انجام جانتے ہو تم۔۔۔تمہارا باپ ایک پل نہیں لگائے گا اس گھر سے بے دخل کرنے میں ہمیں۔۔۔"
      فرحین بیگم نے نخوت سے کہا۔۔۔فرحین بیگم مطمئین تھیں کہ اب ان لوگوں سے جان چھوٹ جائے گی۔۔۔قاسم چہرے پہ مکروہ مسکراہٹ لیے اپنے پلان کی نوک پلک سنوار رہا تھا۔۔۔
      مگر دونوں یہ بھول بیٹھے تھے کہ سب سے بڑا پلانر تو اوپر بیٹھا ہے جس کے ہاتھ میں سب کی ڈوریاں ہیں جس سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں۔۔۔اور یہ کیسے ممکن ہے کہ اپنے بندے کو وہ تکلیف میں دکھ میں تنہا چھوڑ دے۔۔۔
      " اب کیا یوا ہے۔۔۔یہ کیسا شور ہے۔۔۔"
      رات کے ڈھائی بجے کسی کے تیز تیز بولنے اور بھاگم دوڑ کے شور سے فرحین بیگم کی آنکھ کھلی تو وہ اپنا سلیپنگ گاؤن پہن کر باہر آئیں تو سامنے سے تیزی سے گزرتی ایمان سے تلخی سے بولیں۔۔۔
      " ماما فاطمہ کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے۔۔۔اسکی حالت کافی خراب تھی۔۔۔بابا اور طلحہ بھائی رضوانہ خالہ کے ساتھ اسے ہاسپٹل لے کر گئے ہیں میں بھی انکے پیچھے جا رہی ہوں۔۔۔"
      ایمان نے تیز تیز کہا اور بھاگنے کے سے انداز میں باہر نکل گئ فرحین بیگم کا ماتھا ٹھنکا تھا انکا دھیان فوراً قاسم کی طرف گیا تھا۔۔۔
      انکی آنکھوں میں ایک تیز چمک ابھر کر معدوم ہو گئ تھی وہ واپس اپنے روم کی طرف بڑھ گئیں تیار ہوکر ہاسپٹل جانے کے لیے۔۔۔اب اس کھیل میں انھوں نے اپنا حصّٰہ بھی تو ڈالنا تھا۔۔۔
      ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

      Comment


      • #83
        Episode , 54
        " ایک بار پھر سوچ لو۔۔۔ایسا نہ ہو کہ بعد میں پچھتانا پڑے۔۔۔جس راہ پہ تم چلنے کی بات کر رہے ہو تمہیں کوئی چلنے نہیں دے گا۔۔۔بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔۔۔جب تک انسان غلط رستے پہ چلتا ہے اس کے راستے صاف کام آسان ہوتے جاتے ہیں۔۔۔مگر جب صحیح رستے پہ چلتا ہے تو قدم قدم پہ کانٹوں بھری راہگزر سے گزرنا پڑتا ہے۔۔۔کیا یہ سب سہ لوگے۔۔۔"؟
        بلال نے ہوٹل کے " اسپیشل " رومز کو لاک لگا کر ان کی کیز دلاور کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔۔۔ان رومز میں ہر طرح کی غلط سرگرمی سے دلاور نے روک دیا تھا۔۔۔اور ان کو صاف ستھرا کر کے فیملیز کے لیے سیٹ کرنے کو کہا تھا۔۔۔
        " حیرت ہے یار بھولے یہ تو کہ رہا ہے۔۔۔تو بھی تو یہی چاہتا تھا کہ ہم یہ دھندہ چھوڑ کر صاف ستھرا کام کریں۔۔۔اب میں اس رستے پہ چلنا چاہ رہا ہوں تو تو مجھے ڈرا رہا ہے۔۔۔
        میں نے عائلہ جی سے وعدہ کیا ہے کہ ہر برا کام چھوڑ دوں گا بلکل ویسا بن جاؤں گا جیسا وہ چاہتی ہیں۔۔۔اور میں اپنا وعدہ نبھاؤں گا۔۔۔
        جب غلط تھا تب بھی کسی سے نہیں ڈرتا تھا اب جب میں صحیح ہوں تو اب کیسے ڈر سکتا ہوں۔۔۔جو بھی مجھے میرے مقصد سے ہٹانے کے لیے پریشان کرے گا مجھے وہی پرانا دلاور پائے گا۔۔۔
        میں غلط رستہ غلط کام چھوڑ رہا ہوں۔۔۔غلط کو غلط کہنا نہیں۔۔۔"
        دلاور نے پرعزم لہجے میں کہا تو بلال اس کی طرف دیکھ کر رہ گیا۔۔۔وہ حیران بھی تھا اور خوش بھی۔۔۔جس بات کے لیے وہ دلاور کو برسوں تک قائل نہ کر سکا ایک لڑکی کی محبت نے وہ کام منٹوں میں کروا لیا تھا۔۔۔
        " میں تجھے ڈرا نہیں رہا میں بس جاننا چاہ رہا تھا کہ تم اپنی بات میں کتنے سچے ہو۔۔۔میں نے پہلے بھی تمہارا ساتھ نہیں چھوڑا اب بھی نہیں چھوڑوں گا۔۔۔اور مرتے دم تک ساتھ رہوں گا۔۔۔
        اب آگے کیا پلان ہے۔۔۔کیا کرنا ہے۔۔۔کل نکاح پہ کس کس کو بلانا یے۔۔۔"؟
        بلال نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
        " پلان کیا ہے۔۔۔فلحال تو تیری بھابھی کے لیے کچھ شاپنگ کرنی ہے۔۔۔اس کے بعد گاؤں چلتے ہیں۔۔۔فیملی کے نام پہ میرے پاس بس تو ہے اور تیرے گھر والے۔۔۔باقی ایک دو یار دوست ہیں ان کو میں صبح ہی کال کر کے دعوت دے چکا ہوں۔۔۔کل صبح سب لوگ سیدھے گاؤں کے سٹاپ تک پہنچ جائیں گے آگے سے ہمارے بندے ان کو رسیو کر لیں گے۔۔۔رشید احمد کو میں بتا چکا ہوں کہ 15 ، 20 لوگ ہیں گے ٹوٹل۔۔۔"
        دلاور نے بھی سنجیدہ لہجے میں جواب دیا۔۔۔
        " یار بس کردو۔۔۔سارا شہر خریدنا ہے کیا۔۔۔کچھ شاپنگ بھابھی کے لیے بھی رہنے دو۔۔۔انکو جو اچھا لگے گا اپنی پسند سے خرید لیں گی۔۔۔یہ جو تم نے لیا ہے ناں اس میں سے بھی آدھا پڑا رہ جانا ہے۔۔۔کیونکہ مرد اور عورت کی پسند ناپسند میں بہت فرق ہوتا ہے۔۔۔
        چار گھنٹوں سے وہ لوگ شہر کی مارکیٹس کی خاک چھان رہے تھے ایک شاپ سے نکلتے تو دوسری میں گھس جاتے۔۔۔دلاور کو جو ڈریس جو چیز بھی اچھی لگتی وہ عائلہ کے لیے خرید لیتا۔۔۔اب تک وہ انتہائی ایکسپینسو گولڈ کے 5 عدد جیولری سیٹ ، دو عدد ڈائمنڈ سیٹ ، 25 خوبصورت دیدہ زیب ڈریسز ساتھ میں میچنگ شوز ، میک اپ کا امپورٹد سامان ، پرفیومز اور نہ جانے کیا کچھ۔۔۔اس قدر شاپنگ پہ بلال کی ہمت اب جواب دینے لگی تھی۔۔۔
        " جتنا چاہے مرضی فرق ہو۔۔۔مگر اب سے وہ بس وہی پہنیں گی جو مجھے پسند ہوگا۔۔۔میری پسند ہی انکی پسند ہوگی۔۔۔اور یہ بات انھوں نے خود مجھ سے کہی ہے۔۔۔ میرا بس چلے تو ساری دنیا ان کے قدموں میں ڈھیر کردوں۔۔۔یہ تو کچھ بھی نہیں۔۔۔"
        دلاور نے ایک اور ڈریس پیک کرواتے کہا۔۔۔
        " یہی تو مسلہ ہے کہ تم ہر بات دھونس سے منوانا جانتے ہو۔۔۔دل کے معاملات میں زور زبردستی دھونس جما کر نہیں بلکہ پیار محبت سے کام لیا جاتا ہے۔۔۔محبوب کی خوشی کو اپنی خوشی بنایا جاتا ہے۔۔۔"
        بلال نے دلاور کو سمجھانے کی کوشش کرتے کہا۔۔۔
        " میں بس یہ جانتا ہوں کہ عائلہ جی مجھے اچھی لگتی ہیں میں ان سے محبت کرتا ہوں۔۔۔مانتا ہوں کہ میرا طریقہ غلط ہے انکو اپنی زندگی میں زبردستی شامل کر رہا ہوں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ مجھے اور میری محبت کو سمجھنے لگیں گی۔۔۔اگر میں عائلہ جی کے دل کی سنوں گا تو مجھے انکو کھونا پڑے گا وہ مجھ سے کبھی شادی کے لیے نہیں مانیں گی۔۔۔ یہ بھی مانتا ہوں کہ وہ ڈر کی وجہ سے مجھ سے تعلق جوڑ رہی ہیں مگر شادی کے بعد میں انکو اتنی محبت دوں گا کہ وہ دل سے مجھ سے محبت کرنے لگیں گی۔۔۔"
        دلاور نے کندھے اچکاتے لاپرواہ لہجے میں کہا ایک دو مزید چیزیں خریدنے کے بعد وہ لوگ گاڑی میں بیٹھ کر گاؤں کی طرف مڑ گئے۔۔۔
        ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
        صبح کے 6تو بج چکے تھے حویلی میں چہل پہل شروع ہو چکی تھی۔۔۔رشیداں بوا کچن میں اور گھر کی دوسری ملازمائیں اپنے اپنے کام سنبھال چکی تھیں۔۔۔شاہ سائیں کے اسلام آباد جانے کی وجہ سے نہ صرف گھر کے سب لوگ بلکہ سبھی ملازمین بھی خلاف معمول آج جلدی اٹھ گئے تھے۔۔۔
        برسوں سے یہ حویلی کا اصول رہا تھا کہ اگر شاہ سائیں کو کہیں دوسرے شہر جانا ہوتا تو ہائمہ خاتون بچوں کو صبح سویرے ہی جگا دیا کرتی تھیں۔۔۔سب لوگ اس دن بھی مل کر اکٹھے ناشتہ کرتے تھے۔۔۔
        ایسا وہ دو باتوں کی وجہ سے کرتی تھیں ایک تو یہ کہ بچوں کے اندر باپ کی اہمیت اور محبت پیدا ہو۔۔۔دوسرا انکی سوچ کے مطابق اس طرح سے بچے محبت لینا ہی نہیں دینا بھی سیکھتے ہیں انکے اندر رشتوں کی اہمیت انکی قدر پیدا ہوتی ہے۔۔۔بچے اپنا آرام اپنی نیند قربان کر کے رشتوں کو وقت دینا سیکھتے ہیں۔۔۔اور یہ بچپن کی تربیت ہی تھی کہ بچے کہے بنا صبح صبح خود ہی جاگ گئے تھے۔۔۔اور نماز ادا کرنے کے بعد وہ سب لوگ ناشتے کی ٹیبل پہ بیٹھے انکا انتظار کر رہے تھے۔۔۔
        ہائمہ خاتون شاہ سائیں کی ضرورت کے تمام مطلوبہ سامان کی بیگ میں پیکنگ کر کے بیگ کو دین محمد کے ہاتھ گاڑی میں رکھوا چکی تھیں۔۔۔
        " ہائم کیا بات ہے آپ اس قدر خاموش کیوں ہیں۔۔۔ایسی کیا بات ہے جو آپکو پریشان کر رہی ہے۔۔۔"
        شاہ سائیں نے اپنی ضروری فائلز ایک بار پھر سے چیک کر کے تسلی کرتے ہوئے اپنے ہینڈ بیگ میں رکھیں پھر اپنے کپڑے چینج کر کے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے پسندیدہ پرفیوم کا خود پہ سپرے کیا اس دوران وہ گاہے بگاہے ہائمہ خاتون کی طرف بھی دیکھتے رہے جو آج نہ جانے کن سوچوں کے سمندر میں غوطہ زن تھیں۔۔۔انھوں نے ہائمہ خاتون کے سامنے کھڑے ہوتے اب کے فکرمندی سے پوچھا۔۔۔وہ جب بھی سفر پہ روانہ ہوتے تو وہ اداس تو ہوتی تھیں مگر آج انھیں ہائمہ خاتون کے چہرے پہ اداسی کے ساتھ تفکر کے سائے نظر آئے تھے۔۔۔جو وہ کافی دیر سے نوٹ کر رہے تھے۔۔۔
        " پتہ نہیں شاہ جب سے آپ نے اسلام آباد جانے کا ذکر کیا ہے دل کو عجیب سی پریشانی لگی ہوئی ہے۔۔۔آپ پلیززز جتنی جلدی ممکن ہو واپس آنے کی کیجیے گا۔۔۔"
        ہائمہ خاتون خود نہیں سمجھ پا رہی تھیں کہ ان کا دل کس بات کو لے کر پزمردہ ہوا پڑا ہے اس لیے شاہ سائیں کو بھی ٹھیک سے جواب نہ دے پائیں۔۔۔
        " ہائم آپکے دل میں جو بھی بات ہے کہ دیجیے۔۔۔ایسے تو ہم بھی پریشان رہیں گے آپکی پریشان طبیعت کو لے کر۔۔۔"
        ہائمہ خاتون کے کچھ بھی نہ کہنے پر شاہ سائیں کو مزید فکر لاحق ہوئی وہ ہائمہ خاتون کو کندھوں سے تھام کر انکے روبرو کھڑے ہوتے فکرمندی سے بولے۔۔۔
        " آپ پریشان مت ہوں۔۔۔شائد رات کو نیند ٹھیک سے پوری نہیں ہوئی اس لیے طبیعت بوجھل سی ہے۔۔۔"
        ہائمہ خاتون نے بات ٹالی۔۔۔
        " اوکے۔۔۔اپنا بہت سا خیال رکھیے گا ہم کوشش کریں گے جلد از جلد لوٹنے کی۔۔۔آپ جانتی ہیں کہ گاؤں میں سکول کی تعمیر ہمارا برسوں پرانا خواب ہے جو عرصہ دراز سے سیاست کی بھینٹ چڑھا رہا۔۔۔برسوں کی ریاضت کے بعد اب وہ خواب شرمندۂ تعبیر ہونے جا رہا ہے اگر ہم نے اس کام میں دلچسپی لینی چھوڑ دی یا ذرا سا بھی نرم پڑے تو ہمیں ڈر ہے کہ یہ کام کہیں ادھورا نہ رہ جائے۔۔۔اگر ہمارا جانا ضروری نہ ہوتا تو ہم نہیں جاتے۔۔۔
        آپ دعا کیجیے گا کہ ہم جس مقصد کے لیے جا رہے ہیں الّٰلہ اس میں ہمیں کامیابی عطا فرمائے۔۔۔
        چلیے اب ہمیں آپ ناشتہ کروا دیں پھر ہمیں نکلنا بھی ہے لیٹ ہو گئے تو فلائیٹ مس ہو جائے گی۔۔۔"
        شاہ سائیں اتنا کہ کر ہائمہ خاتون کو تسلی دیتے اپنے ایک بازو کے گھیرے میں لیتے روم سے باہر نکل گئے۔۔۔
        " خیر تو ہے بڑے خوش نظر آ رہے ہو سب ٹھیک ہے ناں۔۔۔"
        شرجیل نے صارم شاہ سے پوچھا جو ناشتے کی ٹیبل پہ بیٹھا مسکراتے چہرے کے ساتھ ہلکے ہلکے سے گنگنانے کے ساتھ انگلیوں کی پوروں سے ٹیبل بجا رہا تھا۔۔۔
        " اسکی بینڈ بجنے والی ہے آج۔۔۔"
        صارم شاہ کی بجائے احتشام شاہ نے مسکراتے ہوئے ذو معنی لہجے میں آدھا ادھورا جواب دیا جس پہ فجر اور شرجیل حیران ہو کر انکی طرف دیکھنے لگے۔۔۔جبکہ احتشام کی بات پہ صارم شاہ کی آنکھوں کی چمک مزید گہری ہوئی تھی۔۔۔
        " پلیزززز بھائی سسپنس مت پھیلائیں۔۔۔بتائیں ناں کیا بات ہے۔۔۔"
        فجر دونوں کی طرف باری باری دیکھتے بےصبری و بے چینی سے بولی۔۔۔
        " کل تم کیا کہ رہی تھی کہ عینا کی طرف جانا ہے تو سمجھو تمہاری مراد آج پوری ہونے والی ہے۔۔۔تمہارا یہ بھائی تمہاری یہ خواہش آج پوری کردے گا آج آپ لوگوں کو عینا بھابھی کے درشن کروانے لے کر جائے گا۔۔۔"
        صارم شاہ نے شاہانہ انداز میں سر کو جنبش دیتے کہا۔۔۔
        " کیااااااا۔۔۔۔۔سچی۔۔۔۔کیا بابا مان گئے۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔کیا عینا بھابھی مان گئیں۔۔۔۔"
        فجر خوشی کے مارے اپنی جگہ سے بے ساختہ اچھل کر کھڑے ہوتے بولی۔۔۔اسی وقت شاہ سائیں ہائمہ خاتون کے ساتھ ڈائینگ روم میں داخل ہوئے تو احتشام شاہ نے اشارے سے سب کو چپ رہنے کا کہا۔۔۔
        " کیا بات ہے بیٹا۔۔۔کچھ کہنا ہے کیا۔۔۔"
        شاہ سائیں نے ناشتے کے دوران صارم شاہ کی طرف دیکھتے پوچھا جو وقتاً فوقتاً احتشام شاہ کو کھانے کے دوران کچھ اشارے کر رہا تھا۔۔۔شاہ سائیں کے استفسار پہ وہ جلدی سے نفی میں سر ہلاتے اپنی پلیٹ پہ جھک گیا۔۔۔ہائمہ خاتون اور شاہ سائیں کی تربیت ہما تن انکے ساتھ رہتی تھی۔۔۔ماں باپ کا ادب ان کا لحاظ ، شرم حیا ، مضبوط اور اعلیٰ کردار کی صفات کی وجہ سے بڑے ہو کر بھی آج کل کے بچوں کی طرح ان میں یہ جرأت ہرگز نہیں تھی کہ منہ پھاڑ کر ہر بات منہ سے نکال دیں۔۔۔خاص کر اپنی شادی بیاہ کے معاملات۔۔۔
        " بابا رات کو عینا کا میسج آیا تھا وہ کہ رہی تھی کہ عائلہ صارم سے ملنا چاہتی ہے۔۔۔کوئی ضروری بات کرنا ہے اسے۔۔۔"
        احتشام شاہ اپنی بات گول کرتے اس کا رخ صارم شاہ کی طرف کرتے بولا۔۔۔
        " ہمممم۔۔۔۔ٹھیک ہے چلے جاؤ۔۔۔اور اس بار جب جاؤ تو سر اٹھا کر اپنی شان کے مطابق جانا۔۔۔رشیداں بوا آج شام تک پورے گاؤں میں احتشام اور عینا کے نکاح کی سب کو خبر ہو جانی چاہیے تاکہ سوال کرنے سے پہلے ہی سب کے منہ بند ہو جائیں۔۔۔
        دین محمد سے کہ کر مٹھائی کے ٹوکرے منگوا لو۔۔۔نکاح کی خبر کے ساتھ ہر گھر میں شگن کے طور پہ مٹھائی بھی پہنچ جانی چاہیے۔۔۔اگر اس گھر سے بلاوا آیا ہے تو پھر اب اس نکاح کا چھپانا مناسب نہیں ہوگا اس لیے اب سب کو پتہ چل جانا چاہیے۔۔۔"
        شاہ سائیں نے کچھ پل سوچنے کے بعد بغور دونوں کی طرف دیکھتے اجازت تو دے دی مگر پھر ساتھ ہی رشیداں بوا اور دین محمد کی طرف دیکھ کر کچھ مزہد ہدایات دے کر اٹھ کھڑے ہوئے۔۔۔
        " بابا میں بھی چلی جاؤں ساتھ پلیززز۔۔۔"
        فجر نے جلدی سے اجازت مانگتے کہا۔۔۔
        " نہیں بیٹا۔۔۔فلحال آپ بھائی کو جانے دو۔۔۔اسلام آباد سے واپسی پہ ہم سب چلیں گے پوری شان و شوکت کے ساتھ اور ایک گرینڈ پارٹی ہوگی آپ میرے آنے تک اس کا انتظام دیکھو سارا۔۔۔احتشام بیٹا مٹھائی اور فروٹ لے جانا مت بھولنا ساتھ میں۔۔۔"
        شاہ سائیں نے سہولت سے فجر کو منع کرتے اور احتشام شاہ کو تاکید کرتے کہا اور سب کو خدا حافظ کہ کر باہر نکل گئے۔۔۔فجر منہ پھلا کر اپنی چئیر پہ بیٹھ گئ۔۔۔
        " بیٹا اداس مت ہو۔۔۔آپکے بابا نے ٹھیک کہا ہے ابھی ہم سب کا جانا مناسب نہیں۔۔۔نہیں معلوم کہ عائلہ بیٹی نے کیوں بلایا ہے۔۔۔خدا کرے کہ سب ٹھیک ہو۔۔۔"
        ہائمہ خاتون کے دل کو نئے اندیشوں نے گھیرا تھا انھیں اس طرح سے عائلہ کا صارم کو بلانا کچھ عجیب سا لگا تھا اگر وہ صارم شاہ کے حق میں فیصلہ کر چکی تھی تو اس بات کو وہ عینا کے ذریعے بھی ان تک پہنچا سکتی تھی باقی معاملات وہ خود دیکھ لیتے۔۔۔ مگر عائلہ نے صرف صارم سے ملنے کی بات کی تھی وہ تنگ نظر ماؤں میں سے بھی نہیں تھیں اس لیے فلحال وہ صارم شاہ کے چہرے پہ پھوٹتی خوشی دیکھ کر چپ رہ گئیں۔۔۔
        ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
        " کل کے لیے تیاری ہو رہی ہے لگتا۔۔۔اچھی بات ہے۔۔۔میں شہر جا رہا ہوں کچھ منگوانا ہے تو بتا دو۔۔۔ویسے دلاور نے منع کیا تھا کچھ بھی خریدنے کو۔۔۔مگر باپ ہونے کا کچھ فرض تو مجھے بھی نبھانا ہوگا۔۔۔"
        عائلہ اور عینا اپنے سامنے کپڑوں کا ڈھیر پھیلائے بیٹھی دیکھ رہی تھیں کہ آج کونسا پہننا ہے۔۔۔عائلہ نے نہ صرف عینا کے بلکہ اپنے بھی تقریباً سبھی دیدہ زیب ڈریسز وارڈروب سے نکال کر اس کے سامنے رکھ دئیے تھے مگر کسی کا کلر عینا کو ٹھیک نہیں لگ رہا تھا اور کوئی بہت ہیوی ورک ہونے کی وجہ سے وہ ریجیکٹ کیے جا رہی تھی۔۔۔
        رشید احمد انکے روم کے باہر دروازے میں ہی کھڑا ہو کر انھیں یوں کپڑوں کا پھیلاوا ڈالے دیکھ کر اپنے حساب سے اندازے لگانے لگا۔۔۔
        " نہیں۔۔۔بابا کچھ نہیں چاہیے۔۔۔"
        عائلہ یکدم گھبرا کر بولی۔۔۔تو رشید احمد دونوں پہ ایک اچٹتی نگاہ ڈال کر گردن ہلائے وہاں سے چلا گیا۔۔۔
        " کل کی تیاری۔۔۔۔ کیا مطلب ہے اس بات کا۔۔۔کس بات سے منع کیا تھا دلاور نے۔۔۔"
        رشید احمد کے جاتے ہی عینا آنکھیں سکیڑے اپنی پیشانی پہ بل ڈالے حیرانگی سے بولی۔۔۔
        " کچھ نہیں۔۔۔تم جانتی تو ہو کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں۔۔۔خیر تم اس بات کو چھوڑو۔۔۔یہ دیکھو یہ ڈریس کیسا ہے۔۔۔احتشام کے آنے پہ میرا خیال ہے تم یہی پہنو۔۔۔اسے اچھا لگے گا۔۔۔اسکے ساتھ کی میچنگ جیولری میرے پاس پڑی ہے وہ پہن لینا۔۔۔"
        عائلہ بات کو ٹالتی اس کا دھیان پھر سے احتشام کے آنے اور بکھرے ڈریسز کی طرف لگاتے بولی۔۔۔وہ دل ہی دل میں شکر ادا کر رہی تھی کہ ان لوگوں کے آنے پہ بابا گھر نہیں ہوں گے ورنہ کوئی نہ کوئی بدمزگی ہوجاتی۔۔۔آج کا دن وہ کسی نہ کسی طرح عینا کو اپنے نکاح سے بے خبر رکھنا چاہتی تھی۔۔۔کل کے مطابق وہ عینا سے وعدہ لے چکی تھی یہ سوچ کر کہ بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔۔۔اور سب کچھ اس کی سوچ کے مطانق ہو رہا تھا۔۔۔
        مگر وہ یہ بھول گئ تھی کہ اگر وہ سب کی زندگی سب کے سکھ کو دیکھ رہی تھی تو عینا بھی اسی کی بہن تھی۔۔۔جس نے اپنے وقار اپنی عزت کو ایک طرف رکھ کر صرف اس کے بارے سوچا تھا اور حویلی جا کر کھڑی ہو گئ تھی یہ کہنے کہ احتشام شاہ مجھ سے نکاح کرو۔۔۔
        دنیا چاہے کتنی ترقی کر جائے مگر کسی بھی لڑکی کے لیے یہ بولڈ سٹیپ لینا خود کو گرانے کے مترادف ہوتا ہے۔۔۔اور عینا نے خود کو گرا کر یہ سٹیپ لیا تھا۔۔۔پھر وہ کیسے اس کو دلاور سے نکاح کی اجازت دے سکتی تھی کیسے اس کا ساتھ دے سکتی تھی۔۔۔
        " عینا میرا خیال ہے یہ پہن لو۔۔۔یہ کلر تم پہ بہت سوٹ کرے گا۔۔۔"
        عائلہ نے ایک اورنج کلر کا ڈریس نکال کر اسے تھمایا جس کے پورے دامن پہ ہم رنگ موتیوں کا کام ہوا تھا۔۔۔جھلمل کرتا وہ ڈریس بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔۔۔
        " افففف۔۔۔یہ۔۔۔ہرگز نہیں۔۔۔بہت ہیوی کام ہے اس پہ۔۔۔اور میں کسی شادی کے فنکشن پہ نہیں جا رہی گھر پہ پہننا ہے مجھے۔۔۔کوئی لائٹ سا ٹھیک رہے گا۔۔۔"
        عینا نے فوراً ریجیکٹ کیا تھا۔۔۔اور ڈریس ایک سائیڈ پہ رکھ دیا تھا۔۔۔
        " تم یہی پہنو گی۔۔۔سنا تم نے۔۔۔نکاح کے بعد پہلی بار وہ ہماری طرف آ رہے ہیں۔۔۔بیوی ہو تم انکی۔۔۔اور دوسری بات شوہر سفر پہ جا رہا ہو تو اچھے طریقے سے ویلکم کرتے ہیں پھر اچھی اچھی یادیں سامان سفر کے طور پہ ساتھ باندھ کر بھیجتے ہیں تاکہ سفر اچھا گزرے اور بندہ بھی مٹھی میں رہے۔۔۔"
        عائلہ نے پھر سے اسکے ہاتھ میں وہی ڈریس تھماتے اب کے بڑی بہن کا حق استعمال کرتے ذرا رعب دار لہجے میں مسکراتے کہا۔۔۔
        " اوکے۔۔۔پھر میری بھی ایک شرط ہے۔۔۔ آپ بھی آج اچھے سے تیار ہوں گی کہ صارم بھائی بس آپکو دیکھتے رہ جائیں۔۔۔پھر دیکھیے کیسے آپکی ہر بات مانتے جائیں گے۔۔۔"
        عینا عائلہ کے اچھی اچھی یادوں کے کہنے پہ سرخ پڑی تھی پھر خود کو کمپوز کرتے اس نے بھی اپنی شرط رکھی۔۔۔عینا کی بات پہ عائلہ کے دل کو کچھ ہوا تھا وہ کیا کرنے جا رہی تھی ۔۔صارم شاہ سے وہ کیا کہنے جا رہی تھی۔۔۔اس سے کیا مانگنے جا رہی تھی۔۔۔اس بات سے بے خبر عینا کس قدر خوش تھی۔۔۔
        " ٹھیک ہے۔۔۔جو تم کہو۔۔۔اب جلدی سے چینج کر لو۔۔۔وہ لوگ آتے ہی ہوں گے۔۔۔"
        عائلہ ہار مانتے سر جھٹک کر خود کو سنبھالتے فریش موڈ کے ساتھ جلدی سے بولی اور ایک ڈریس منتخب کر کے چینج کرنے روم سے باہر نکل گئ۔۔۔
        " یہ اتنا شور۔۔۔۔۔دلاور۔۔۔۔۔۔"
        باہر گاڑیوں کے رکنے اور پھر انکے دروازے کھلنے بند ہونے کی بہت سی آوازوں کے ساتھ گلی میں اور لوگوں کے بھی جمع ہونے اور انکے بولنے کی آوازیں گھر کے اندر تک آ رہی تھیں۔۔۔باہر صحن میں کھڑی عائلہ کا دل لرزا تھا وہ زیر لب بڑبڑائی تھی۔۔۔وہ سمجھی کہ شائد باہر دلاور آیا ہے۔۔۔
        " یہ شاہ سائیں نے کیا کیا ہے۔۔۔وہ پنچایت کے فیصلے کے خلاف کیسے جا سکتے ہیں۔۔۔"
        گھر کے باہر جمع گاؤں کے لوگ آپس میں دبی دبی زبان میں سرگوشیاں کرنے لگے۔۔۔
        " بیٹا یہ ٹھیک نہیں ہے۔۔۔آپ کو اس طرف نہیں آنا چاہیے تھا۔۔۔"
        مجمعے میں موجود ایک معمر شخص نے ہمت کرتے احتشام شاہ کے پاس آ کر نرم لہجے میں کہا۔۔۔
        " چاچا۔۔۔یہ میرا سسرال ہے۔۔۔اور میری بیوی کا میکہ ہے یہ۔۔۔اور میرا نہیں خیال کہ پنچایت کا فیصلہ داماد پہ بھی لاگو ہوتا ہے۔۔۔
        آپ سب کے گھر نکاح کی مبارکی پہنچ جائے گی۔۔۔بابا صاحب کے اسلام آباد سے واپس آنے پہ سب کو اس نکاح کی خوشی میں کھانے پہ دعوت دی جائے گی۔۔۔آپ سب آئیےگا ضرور۔۔۔اب آپ سب جا سکتے ہیں۔۔۔"
        احتشام شاہ نے گاڑی سے باہر قدم رکھا تو اسکے ساتھ صارم شاہ اور دوسرے ملازمین بھی باہر نکل کر کھڑے ہو گئے۔۔۔احتشام شاہ نے ایک طائرانہ نگاہ وہاں کھڑے سب لوگوں پہ ڈالی پھر گرجدار آواز میں مخاطب ہوا۔۔۔
        اس کی بات پہ جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔۔۔سب حیران ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔۔۔اس بات کے بعد کسی میں بھی نہ کچھ مزید کہنے کا حوصلہ ہوا نہ کچھ پوچھنے کا۔۔۔سب لوگ دھیرے دھیرے وہاں سے کھسکنے لگے۔۔۔
        " عینا وہ لوگ آ گئے ہیں۔۔۔تم۔۔۔۔واؤ۔۔۔بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔مآشاءالّٰلہ۔۔۔آج تم احتشام بھائی کو بہت مشکل میں ڈالنے والی ہو۔۔۔
        عائلہ احتشام شاہ کی آواز سن کر سکھ کا سانس لیتی عینا کو اطلاع دینے جلدی سے اندر آئی تو عینا پہ نظر پڑتے ہی ستائشی نظروں سے اسکی طرف دیکھتی اس کی بلائیں لیتی شرارتی لہجے میں بولی۔۔اورنج کلر کے ڈریس میں لائٹ سے میک اپ اور میچنگ جیولری پہنے وہ نظر لگنے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی۔۔۔عائلہ کے یوں تعریف کرنے پہ عینا جھینپ کر رہ گئ۔۔۔احتشام شاہ کے آنے کی بات سن کر اس کا دل بہت زور سے سکڑا سمٹا تھا اس کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھیں۔۔۔
        " آپی۔۔۔یہ بہت زیادہ ہے۔۔۔میں اسے ہلکا۔۔۔۔"
        عینا کنفیوز ہونے لگی تھی احتشام شاہ کا سامنا کرنے کے خیال سے ہی اس کی جان سوا ہونے لگی تھی۔۔۔اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کرے اس دشمن جان سے ملنا بھی چاہ رہی تھی اور اس سے چھپنا بھی۔۔۔اس کے دل کی حالت عجیب ہو رہی تھی اس کا دل آج ایک الگ ہی لے پہ دھڑک رہا تھا ۔۔۔ کچھ اوور سا بھی لگ رہا تھا لپ اسٹک ہلکی کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو عائلہ نے سختی سے منع کر دیا۔۔۔
        " ریلیکس رہو۔۔۔کھا نہیں جائیں گے تمہیں۔۔۔یہ اور بات کہ تمہیں دیکھ کر دل کھانے کا ہی کرے گا ان کا۔۔۔ اور یہ بال تم نے پھر کلپ کر لیے ہیں خبردار اب انکو ہاتھ لگایا تو۔۔۔میں دروازہ کھولنے جا رہی ہوں۔۔۔تم تیار ہو کر باہر آ جانا۔۔۔"
        ڈور بیل کی آواز سن کر عینا جلدی جلدی سے اس کے بالوں سے کلپ نکالتی اسے گھرکتی ہوئی باہر دروازہ کھولنے چل دی۔۔۔
        " عائلہ نے دروازہ کھولا تو سامنے احتشام شاہ اور صارم شاہ کی بجائے حویلی کے کچھ ملازموں کو ہاتھوں میں مٹھائی کی ٹوکریاں پکڑے کھڑے پایا جو دروازہ کھلتے ہی یوں اندر چلے آئے جیسے انکا اپنا گھر ہو۔۔۔فروٹ کے کریٹ اور مٹھائی کی بہت سی ٹوکریاں انھوں نے لاکر صحن میں رکھ دیں۔۔۔اسکے بعد احتشام شاہ اور صارم شاہ اندر داخل ہوئے۔۔۔صارم شاہ نے اندر داخل ہوتے شوخ نظروں سے عائلہ کی طرف دیکھا تھا مگر عائلہ بدلے میں مسکرا بھی نہ سکی۔۔۔صارم شاہ کو سامنے دیکھ کر اس کے دل نے دہائی دی تھی کہ وہ اپنے قدم روک لے دروازے پہ آئی محبت کو مت ٹھکرائے۔۔۔مگر اس نے دل کی دہائی کو تھپک کر سلا دیا اور صارم شاہ کی پیام دیتی نظروں کو یکسر نظر انداز کر گئ۔۔۔
        " اس سب کی کیا ضرورت تھی۔۔۔آپ کو یہ سب نہیں لانا چاہیے تھا۔۔۔بابا آ گئے اور انھوں نے ہوچھا تو میں کیا جواب دوں گی۔۔۔"
        عائلہ اتنے سارے کریٹ اور سویٹ دیکھ کر پریشانی سے بولی۔۔۔اور پھر ان لوگوں کو لے کر اپنی والدہ کے روم میں چلی آئی۔۔۔
        " فکر مت کریں کوئی کچھ نہیں کہے گا اب۔۔۔جو سچ ہے وہ بتا دیجیے گا۔۔۔عینا نظر نہیں آرہیں۔۔۔مجھے نکلنا ہے جلدی۔۔۔"
        احتشام شاہ نے صوفے پہ بیٹھتے عائلہ کی بات کو ہوا میں اڑاتے ساتھ ہی عینا کا پوچھا۔۔۔صارم شاہ بھی ایک سائیڈ پہ بیٹھ گیا۔۔۔
        " وہ روم میں ہے۔۔۔میں بلاتی ہوں۔۔۔"
        عائلہ نے کہا اور اسے بلانے کے لیے باہر جانے کو مڑی تھی کہ احتشام شاہ نے اسے منع کردیا کہ وہ خود مل لیتا ہے جا کر۔۔۔
        " آپ لوگ بیٹھ کر بات کریں۔۔۔میں عینا سے مل لوں۔۔۔پلیز روم کا بتا دیں مجھے انکے۔۔۔"
        عائلہ نے اسے عینا کے روم کا بتایا تو وہ مسکرا کر صارم شاہ کو وکٹری کا اشارہ کرتے کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔مہرالنساء کے روم میں اب عائلہ اور صارم شاہ تنہا رہ گئے تھے۔۔۔
        " بہت پیاری لگ رہی ہیں۔۔۔اس دنیا کی ہر لڑکی سے زیادہ خوبصورت۔۔۔"
        احتشام شاہ کے جاتے ہی کمرے میں گہری خاموشی کا راج ہوا جیسے وہاں کوئی موجود نہ ہو۔۔۔عائلہ صارم شاہ کے سامنے نظریں جھکائے بیٹھی تذبذب کا شکار ہوتی اپنی گود میں دھرے ہاتھوں کی انگلیاں چٹخنے لگی۔۔۔صارم شاہ نے ایک بھرپور نظر اس پہ ڈالتے گھمبیر محبت پاش لہجے میں کہا۔۔۔مہندی کلر کے ڈریس میں اسکی دودھیا رنگت خوب چمک رہی تھی۔۔۔دوپٹے کو شانوں پہ پھیلانے کی بجائے اس نے حجاب کی صورت اوڑھا ہوا تھا۔۔۔میک اپ کے نام پہ ہلکی سی لپ اسٹک تھی جنہوں نے شنگرفی لبوں کی خوبصورتی کو مزید بڑھا دیا تھا۔۔۔لرزتی ہوئی لمبی گھنی پلکیں صارم شاہ کو اپنے سحر میں جکڑ رہی تھیں۔۔۔
        محبت کو سراپۂ محبت پا کر عائلہ کا دل چاہا وقت یہیں تھم جائے۔۔۔مگر یہ صرف اسکے دل کی خواہش تھی جو حسرت بن کر رہ جانے والی تھی۔۔۔اس کی آنکھوں میں نمی اتری تھی جسے وہ سر مزید جھکا کر چھپا گئ۔۔۔
        " مجھے آپ سے کچھ کہنا تھا۔۔۔بلکہ کچھ مانگنا تھا۔۔۔"
        عائلہ نے یونہی سر جھکائے کہا۔۔۔
        " جو دل کی سلطنت کے مالک ہوتے ہیں ان کو کچھ کہنے کے لیے تمہید باندھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔۔وہ بس حکم دیتے ہیں۔۔۔اور حکم میں چاہے تو جان مانگ لیں۔۔۔اور آپ جانتی ہیں صارم شاہ اپنی زندگی اپنی جان آپکے نام کر چکا۔۔۔اس سے بڑھ کر اور کچھ بھی قیمتی نہیں میرے پاس جو آپکے نام کر سکوں۔۔۔
        مجھے اپنی قسمت پہ بھروسہ نہیں ہو رہا کہ آپ اس ناچیز پہ مہربان ہو گئیں ہیں۔۔۔ماما ٹھیک کہتیں ہیں کہ محبت میں اگر کھوٹ نہ ہو تو وہ اپنا رستہ خود بنا لیتی ہے۔۔۔میں خدا کا جتنا بھی شکر ادا کروں وہ کم ہے کہ آخر کار آپکے اور میرے دل کے رستے ایک ہوئے۔۔۔"
        صارم شاہ نے عائلہ کو اپنی نظروں کے حصار میں لیتے سیدھا ہو کر بیٹھتے گھمبیر لہجے میں کہا تھا۔۔۔
        " مم۔۔۔میں کچھ اور۔۔۔۔"
        صارم شاہ اپنی دھن میں اپنی خوشی میں سرمست ہوکے بولے گیا اس کی باتوں سے عائلہ کا دل بار بار ڈوب کر ابھرنے لگا۔۔۔اس کی روح اس کے جسم میں قید بین کرنے لگی۔۔۔اپنے اندر ہوتی جنگ سے وہ بے حال ہونے لگی تو وہ بھولنے لگی کہ اسے کیا کہنا تھا۔۔۔
        " پلیززز کچھ مت کہیے۔۔۔میں اس پل صرف آپکو سکون سے دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔جانتی ہیں جب رات کو مجھے یہ پتہ چلا کہ آپ مجھ سے ملنا چاہتی ہیں تو ساری رات پھر یہی سوچتے گزر گئ کہ میں صبح آپ سے ملوں گا تو یہ کہوں گا وہ کہوں گا۔۔۔مگر اب آپ کو سامنے دیکھ کر دل چاہ رہا ہے کہ بس چپ چاپ یونہی آپ کے سامنے بیٹھا آپکو تکتا رہوں۔۔۔
        کبھی یوں بھی ہو میرے ہمدم
        کہ
        میرے پاس جب تو آئے
        تیرے آنے کی خوشی میں
        میرا دل مچل مچل جائے
        تیرے قرب کی خوشبو
        یوں مدہوش کرے مجھ کو
        میں بہک بہک سا جاؤں
        وقت ٹھہر سا جائے
        میری سانس تھم سی جائے
        کبھی یوں بھی ہو میرے ہمدم
        کہ
        میرے پاس جب تو آئے
        میں جاں جاں کے تجھے ستاؤں
        اور تو مجھ سے روٹھ روٹھ جائے
        پھر پاس آ کے تیرے
        گلے سے لگا کے
        پکڑ کر کان اپنا
        تجھے میں مناؤں
        تیرے سبھی ناز اٹھاؤں
        کبھی یوں بھی ہو میرے ہمدم
        کہ
        میرے پاس جب تو آئے
        میری بانہوں میں سمٹ کر
        تجھے یاد رہے نہ کچھ بھی
        ہر سو نظر میں ہی آؤں
        تو ہر بات بھول جائے
        کبھی یوں بھی ہو میرے ہمدم
        اے کاش کہ
        یوں بھی ہو میرے ہمدم
        صارم شاہ نے ہر ہر لفظ کو اس انداز میں کہا تھا جیسے وہ لفظ نہیں کوئی مقدس صحیفہ ہو جسے وہ انتہائی عقیدت سے بہت محبت سے پڑھ رہا ہو۔۔۔
        احتشام شاہ نے عینا کے روم کے باہر کھڑے ہو کر دو پل کو دروازے کو یوں محبت سے دیکھ کر گہرا سانس لیا جیسے وہ دروازہ نہیں بلکہ سامنے عینا کھڑی ہے۔۔۔
        قدموں کی چاپ پہ عینا سمجھی کہ عائلہ اسے بلانے آئی ہے۔۔۔اپنے دھک دھک کرتے دل کو سنبھالتے دوپٹہ درست کرتے ہوئے باہر آنے کے لیے جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا تو اسی وقت احتشام شاہ جو کہ کمرے کے اندر جانے کے لیے اپنا دایاں قدم اٹھا چکا تھا اچانک دروازہ کھلنے پہ سنبھل نہیں پایا اور عینا کو اپنے ساتھ لیتا زمین بوس ہوا۔۔۔احتشام کا سر عینا کے اس زور سے لگا کہ دن میں اسے تارے نظر آنے لگے۔۔۔
        " آہہہہہ۔۔۔۔۔۔آپییییی۔۔۔۔"
        یہ سب اتنا اچانک ہوا تھا کہ عینا سمجھ ہی نہ پائی کہ اس سے عائلہ نہیں احتشام شاہ ٹکرایا ہے۔۔۔وہ یہی سمجھی کہ عائلہ ہے۔۔۔آنکھیں میچے سر پہ ہاتھ رکھے وہ درد سے کراہی۔۔۔
        " آپی نہیں۔۔۔۔پیا۔۔۔۔"
        احتشام شاہ نے اس کے کان کے پاس ہنستے ہوئے سرگوشی کی تو عینا اپنا درد بھول کر پٹ سے آنکھیں کھولے اسے بے یقینی سے دیکھنے لگی جو سچوئیشن کو بھرپور انداز میں انجوائے کرتا عینا کے برابر میں کہنی کے بل تقریباً اس پہ آدھا جھکا یوں زمین پہ لیٹا مسکرا رہا تھا جیسے کسی نرم بستر پہ اپنی محبوبہ کے ساتھ رومینس جھاڑ رہا ہو۔۔۔
        " آ۔۔آپ۔۔۔۔"
        عینا انتہائی تیزی سے اسے پیچھے کرتی فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔شرم سے اس کا چہرہ سرخ ہوا تھا۔۔۔
        " جی میں۔۔۔بتایا تو تھا کہ مابدولت آ رہے ہیں سفر پہ جانے سے پہلے کچھ زاد راہ لینے کے لیے۔۔۔"
        احتشام شاہ نے اٹھ کر اس کے روبرو کھڑے ہوتے کہا اور کپڑے جھاڑ کر دروازہ بند کردیا۔۔۔پھر پلٹ کر سر تا پیر عینا کی طرف بغور دیکھا تو اس کا دو آتشہ روپ احتشام شاہ کو ساکت کر گیا۔۔۔ریشم کی تاروں سی گھنی کالی زلفیں اسکی کمر کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھیں۔۔۔نکاح والے دن حجاب میں ہونے کی وجہ سے وہ اندازہ نہیں کر پایا تھا کہ اس کے بال کس قدر خوبصورت تھے۔۔۔اس دن کی با نسبت آج عینا کے چہرے پہ شرم ، حیا ، گھبراہٹ کے انوکھے رنگ بکھرے ہوئے تھے۔۔۔احتشام کو اپنا دل و ایمان ڈانوا ڈول ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔
        احتشام شاہ کی آنکھوں کی تپش اسکی وارفتگی سے تکتی نظریں عینا کو اپنے جسم کے آر پار ہوتی محسوس ہونے لگیں۔۔۔دل کی دھک دھک کی آواز اسے اپنے کانوں تک سنائی دینے لگی۔۔۔
        " یہ تو بہت زیادتی ہے عینا جی۔۔۔ہمارے بیچ ملنے کی بات ہوئی تھی میری جان لینے کی نہیں۔۔۔"
        احتشام شاہ نے قدم عینا کی طرف بڑھاتے مخمور لہجے میں کہا تھا۔۔۔عینا نے نا سمجھی سے احتشام شاہ کی طرف ایک پل کو دیکھا مگر دوسرے پل اس کی نظروں سے گھبرا کر آنکھیں چرا گئ۔۔۔اسے اپنی طرف قدم بڑھاتے دیکھ کر اس کی سٹی گم ہوئی تھی۔۔۔
        " میں اب تک یہی سمجھتا تھا کہ آپکی بے خوفی نے ، نڈر طبیعت نے مجھے اپنی طرف مائل کیا ہے مگر اب سمجھا کہ آپکی ہر ادا ہی قاتل ہے۔۔۔
        آپکی یہ شرم سے اٹھتی جھکتی ایک نظر ہی بندے کو بے موت مارنے کو کافی ہے۔۔۔
        احتشام شاہ نے جذبات سے چور لہجے میں کہتے عینا کے گرد اپنے بازوؤں کا حصار بناتے اسے خود کے قریب کیا تھا۔۔۔اس قدر نزدیکی اور قربت پہ عینا کا دل دھڑکنا بھول گیا تھا۔۔۔
        احتشام شاہ نے بے خود ہوتے اپنے جلتے ہونٹوں کا لمس عینا کے گال پہ چھوڑا تو عینا کو لگا اس کا پورا وجود دہک اٹھا ہو۔۔۔اس نے بے ساختہ اپنی آنکھیں میچی تھیں اسکے لب تھرتھرا رہے تھے آج اس کی عجیب حالت ہو رہی تھی وہ احتشام شاہ کی آغوش میں پگھلنے لگی تھی۔۔۔اسے احتشام کا چھونا اچھا لگ رہا تھا۔۔۔
        احتشام شاہ یونہی گالوں سے گردن تک کا سفر کرتے اس کے ہونٹوں تک پہنچا تھا انھیں اپنی قید میں لیا تھا تو ہاتھ جسم کے نشیب و فراز میں الجھنے لگے تھے۔۔۔عینا بے بس ہوئی تھی۔۔۔وہ خود پہ کنٹرول کھو رہی تھی۔۔۔اس سے پہلے کہ دونوں ایک دوسرے میں گم ہو کر خود سے جڑی اپنوں کے بھروسے اور اعتبار کی ڈور کو کاٹ ڈالتے احتشام شاہ یکدم پیچھے ہو کر گہرے گہرے سانس لینے لگا تھا۔۔۔عینا اپنے بے ترتیب حلیے کو ٹھیک کرتی اس سے نظریں چرا کر رخ موڑ کر کھڑی ہو گئ۔۔۔اس کی ٹانگیں بے جان ہو رہی تھیں۔۔۔
        " افففف۔۔۔۔بہت مشکل ہے یار۔۔۔۔بہت مشکل۔۔۔۔میں اب آپ سے دور نہیں رہ سکتا۔۔۔کراچی سے واپسی پہ رخصتی کی تیاری کیجیے آپ۔۔۔"
        احتشام شاہ نے دو تین لمبے لمبے سانس اپنے سینے میں قید کرتے پھر انکو ہوا میں خارج کرتے کہا۔۔۔اسکی گہری کالی آنکھیں شدت ضبط سے سرخی مائل ہو چکی تھیں۔۔۔
        " مگر آپ نے وعدہ کیا تھا کہ۔۔۔"
        عینا خود کو سنبھالتے وہی پرانے پراعتماد لہجے میں بولی کہ احتشام نے بیچ میں ہی اس کی بات اچکی۔۔۔
        "میں اپنے وعدے پہ اب بھی قائم ہوں۔۔۔میں نے رخصتی کی بات کی ہے۔۔۔یہ نہیں کہا کہ آپ اپنے سسرال جانے کی تیاری کریں۔۔۔"
        احتشام شاہ نے رسانیت سے کہا۔۔۔
        " ایک ہی بات ہے سسرال جانا ہو یا رخصتی۔۔۔"
        عینا خفا لہجے میں منہ بنا کے بولی۔۔۔
        " ایک بات نہیں ہے عین۔۔۔رخصتی کا مطلب دونوں گھر ہمارے چاہے ادھر رہیں چاہے ادھر۔۔۔سسرال جانے کا مطلب اب سسرال ہی آپکا گھر ہے۔۔۔میں آپکے بنا نہیں رہ سکتا اب۔۔۔اور نہ اس طرح سے روز روز آ سکتا ہوں میں چاہتا ہوں کہ میرے اور آپ کے بیچ میں کوئی فاصلہ کوئی ڈر نہ ہو۔۔۔آپ سے ملے بنا آپکو دیکھے بنا اب دل کو چین نہیں آئے گا۔۔۔آپکی ایک بار رخصتی ہو جائے گی تو پھر میں جب جب دل چاہے گا بلا جھجک آپ سے آ کر مل سکتا ہوں آپکو دیکھ سکتا ہوں۔۔۔رخصتی کے بعد جب تک مہرالنساء خالہ آپکو خود میرے ساتھ نہیں بھیج دیتیں بے شک ادھر رہیے گا۔۔۔مجھے کوئی مسلہ نہیں۔۔۔مگر اس طرح سے بہت مسلے ہوں گے۔۔۔
        میں نے آپکی ہر بات مانی۔۔۔ایک بات آپ میری مان جائیں پلیززز۔۔۔۔"
        احتشام شاہ کے لہجے میں عجیب بے بسی اور تڑپ تھی جسے محسوس کرتے عینا ہار مان کر اثبات میں سر ہلا گئ۔۔۔
        " میرا خیال ہے اب مجھے نکلنا چاہیے۔۔۔اگر مزید رکا تو شائد خود کو روک نہ پاؤں۔۔۔
        اور میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھیے گا میں ہر قدم پہ آپکے ساتھ ہوں۔۔جب بھی جس وقت بھی پکاریں گی چلا آؤں گا۔۔۔"
        احتشام شاہ نے عینا کے گرد اپنی گرفت مضبوط کرتے اسے قریب کر کے بہت نرمی سے اس کی پیشانی پہ اپنے لب رکھتے کہا۔۔۔
        " اب زاد راہ کے طور پہ کچھ نیک شگن عنایت کردیں تاکہ سفر کی تھکان نہ ہو اور جلدی لوٹ آؤں۔۔۔"
        احتشام شاہ نے عینا کا چہرہ ٹھوڑی سے پکڑ کر ذرا سا اوپر کرتے جذبات سے لبریز لہجے میں کہا۔۔۔
        " مطلب۔۔۔"
        عینا حیرانگی سے بولی۔۔۔
        " اففففف۔۔۔۔۔لگتا ساری عمر آپکو عشق کے مطلب سمجھاتے گزر جائے گی۔۔۔میری شیرنی۔۔۔
        میرا مطلب ہے کہ کوئی کس شس۔۔۔کوئی چما شما۔۔۔کوئی محبت کی نشانی کوئی جپھی شپی۔۔۔کہ جس سے ہر پل یوں لگے کہ آپ میرے ساتھ ہو۔۔۔اب اتنے آپشن تو دے دئیے ہیں۔۔۔چوائس از یور۔۔۔"
        احتشام شاہ آنکھوں کے رستے اسے خود میں جذب کرتے بولا۔۔۔
        " ٹھیک ہے۔۔۔میری بھی ایک شرط ہے۔۔آپکو اپنی آنکھیں بند کرنی ہوں گی۔۔۔"
        عینا کو اس فسوں خیز ماحول میں بھی یکدم شرارت سوجھی تھی۔۔۔وہ چہرے پہ سنجیدگی لیے بولی۔۔۔
        عینا کے اتنی جلدی مان جانے پہ احتشام شاہ کو حیرت تو ہوئی مگر پھر مسکراتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کر گیا۔۔۔
        " آہہہہہہ۔۔۔۔۔جنگلی بلی۔۔۔۔یہ کیا تھا۔۔۔"
        احتشام شاہ کے منہ سے ایک کربناک آواز خارج ہوئی تھی۔۔۔
        عینا نے اس کے آنکھیں بند کرتے ہی اسکی گردن پہ اپنے دانت گاڑے تھے۔۔۔احتشام شاہ گردن پہ ہاتھ رکھے چلایا تھا ساتھ ہی اسکے بازوؤں کا گھیرا نرم پڑا تو عینا جلدی سے اس سے دور ہوتے زور زور سے ہنسنے لگی۔۔۔
        " اگر میں آپکی شیرنی ہوں تو پھر آپکو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ شیرنیاں تو ایسے ہی کاٹتی ہیں۔۔۔"
        عینا نے اپنی ہنسی کنٹرول کرتے با مشکل کہا تھا۔۔۔
        " ہمممم۔۔۔۔تو پھر تیار رہنا میری شیرنی۔۔۔اس شیر کی چیر پھاڑ کے لیے بھی۔۔۔"
        احتشام شاہ نے ہنستے ہوئے ذو معنی لہجے میں کہا تو اس کی بات کا مطلب سمجھتے عینا کی ہنسی کو بریک لگی تھی۔۔۔ہنسنے کے باعث لال ہوتے چہرے میں مزید لالگی گھلی تھی۔۔۔۔احتشام شاہ نے اسکے چہرے پہ جا بجا اپنے لمس چھوڑتے اس سے جانے کی اجازت چاہی تو عینا کا دل بے طرح اداس ہوا تھا۔۔۔بے اختیار وہ احتشام شاہ سے لپٹی تھی۔۔۔اسکی آنکھیں نم ہوئیں تھیں۔۔۔
        " مت کریں عین۔۔۔ایسے میں جا نہیں پاؤں گا۔۔۔وعدہ کرتا ہوں پہلی فرصت میں آپکے پاس لوٹ آؤں گا پھر کبھی دور نہ جانے کے لیے۔۔۔"
        احتشام شاہ کا دل بھی بوجھل ہوا تھا دو دن کی دوری بھی اسے صدیوں کی دوری لگ رہی تھی۔۔۔مگر اسے جانا تھا سو دل پہ پتھر رکھ کے وہ چلا گیا۔۔۔
        مگر نہیں جانتا تھا کہ اس کے جانے کے بعد ایک قیامت یہاں آ کر گزر چکی ہو گی۔۔۔
        " عائلہ میں بہت خوش ہوں۔۔۔میں امی جان سے بات کروں گا کہ بابا اور احتشام بھائی کے واپس آتے ہی عینا اور احتشام بھائی کے نکاح کے ساتھ ہماری انگیجمنٹ کا بھی اعلان کردیں۔۔۔"
        صارم شاہ نے چہکتے ہوئے کہا۔۔۔
        " چھوٹے شاہ۔۔۔میری بات سن لیں میں۔۔۔"
        عائلہ نے پھر کوشش کرتے کہا وہ جب بھی صارم شاہ سے بات کرنے کی کوشش کرتی اصل بات کی طرف آتی۔۔۔صارم شاہ اس کی بات کاٹ کر اپنے دل کی بات کرنے لگتا۔۔۔کچھ صارم کے چہرے سے پھوٹتی خوشی کی کرنیں اسے چپ کروا دیتیں کہ اسے خوش ہونے دو۔۔کچھ دیر اور۔۔۔جھوٹ ہی سہی۔۔۔مگر اس جھوٹ میں اسے کچھ دیر اور جینے دو۔۔۔
        " مجھے بھول جائیں۔۔۔"
        یکدم عائلہ چیخنے کے سے انداز میں ہمت کرتے کھڑے ہوتے بولی تھی۔۔۔صارم شاہ کو لگا اس نے غلط سنا ہے۔۔۔اس نے تصدیق کے لیے عائلہ کی طرف غور سے دیکھا۔۔۔
        " میں نے کہا مجھے بھول جائیں۔۔۔میں آپکو آپکے وعدے سے آزاد کرتی ہوں۔۔۔آپ نے کہا تھا کہ آپ اپنی جان میرے نام کر چکے ہیں تو مجھ سے وعدہ کریں کہ اس جان کو کچھ نہیں ہوگا۔۔۔آپ اس کی حفاظت کریں گے۔۔۔آج کے بعد کبھی میرے راستے میں نہیں آئیں گے۔۔۔وعدہ کریں مجھ سے چھوٹے شاہ۔۔۔"
        عائلہ نے اپنی بات پھر سے دہرائی تھی۔۔۔صارم شاہ کا چہرہ دھواں دھواں ہوا تھا۔۔۔اس نے بے یقینی سے عائلہ کی طرف دیکھا تھا۔۔۔
        " میں آپکی بات ضرور مانتا عائلہ جی اگر رتی بھر بھی مجھے شک ہوتا کہ آپ مجھ سے پیار نہیں کرتیں۔۔۔آپ اپنی خوشی سے دلاور سے رشتہ جوڑ رہی ہیں۔۔۔"
        صارم شاہ نے اپنا غصہ کنٹرول کرتے انتہائی درشتگی سے کہا۔۔۔
        " کتنی بار کہوں کہ نہیں کرتی میں آپ سے محبت۔۔۔کیوں پیچھے پڑ گئے ہیں میرے۔۔۔رحم کریں مجھ پہ۔۔۔چھوڑ دیں میرا پیچھا۔۔۔"
        عائلہ نے چلا کر ہاتھ جوڑتے کہا۔۔۔
        " چلیں ٹھیک ہے۔۔۔میں مانوں گا آپکی بات۔۔۔آپ ثابت کریں کہ آپ مجھ سے محبت نہیں کرتیں۔۔۔"
        صارم شاہ نے اسے چیلنج کرتے کہا تھا۔۔۔
        " یہ کیا ہو رہا ہے۔۔۔تم۔۔۔۔بے غیرت بے حیا کیا کر رہی ہو تم اس کے ساتھ کمرے میں اکیلے بیٹھی۔۔۔۔اور آپ۔۔۔ چھوٹے شاہ منع کیا تھا ناں کہ میرے گھر کیا گلی میں بھی قدم مت رکھیے گا۔۔۔
        نکل جائیے میرے گھر سے اس سے پہلے کہ میں گاؤں کے لوگوں کو اکٹھا کروں۔۔۔"
        رشید احمد اچانک انکے سر پہ نمودار ہوا تھا احتشام شاہ کے جانے کے بعد وہ لوگ دروازہ بند کرنا بھول گئیں تھیں اسی وجہ سے اپنے باپ کے آنے کی انکو خبر تک نہ ہوئی۔۔۔کمرے میں آتے ہی ان دونوں کو پاس بیٹھے دیکھ کر رشید احمد کا دماغ گھوما تھا۔۔۔وہ ہزیانی انداز میں چلایا تھا اور ساتھ ہی مختلف لوازمات سے بھری ٹرے جو کہ اُن دونوں کے بیچ میں ٹیبل پہ پڑی تھی اسے اٹھا کر پوری قوت سے سامنے کی دیوار پہ مارا تھا۔۔۔شور شرابے کی آواز پہ عینا بھاگتی ہوئی اپنے کمرے سے اس طرف آئی تھی۔۔۔
        " میری غیر موجودگی میں یہ گل کھلا رہی ہے تو بے غیرت۔۔۔میں تجھے زندہ۔۔۔"
        رشید احمد نے عائلہ کو بالوں سے پکڑ کر زوردار جھٹکا دیا پھر اسکے تھپڑ مارنے کو ہاتھ اٹھایا تو صارم شاہ نے بیچ میں ہی اس کا ہاتھ اچک لیا۔۔۔
        " سوچنا بھی مت۔۔۔کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔۔۔"
        صارم شاہ نے رشید احمد کو خونخوار نظروں سے گھورتے پیچھے کو دھکا دیا تھا۔۔۔اسی پل دلاور بلال کے ساتھ ہاتھ میں بہت سے شاپنگ بیگز پکڑے اندر داخل ہوا تھا۔۔۔
        " تمممم۔۔۔۔۔۔کیا کر رہے ہو تم یہاں۔۔۔ایک بار کی بات سمجھ نہیں آئی تھی کیا۔۔۔آج تم یہاں سے زندہ واپس نہیں جاؤ گے۔۔۔غلطی ہو گئ جو اس دن تمہیں چھوڑ دیا۔۔۔
        دلاور ہاتھ میں پکڑے شاپنگ بیگز زمین پہ پٹختے غصے سے بولا۔۔۔
        دلاور کو دیکھ کر عائلہ کا رنگ سفید پڑا تھا کچھ یہی حال عینا کا ہوا تھا مگر وہ خود کو سنبھال گئ تھی۔۔۔
        " کیا کر رہے ہو سے مطلب۔۔۔یہ کہاں لکھا ہے کہ دیور اپنی بھابھی کے گھر نہیں آ سکتا۔۔۔اگر تمہارے جیسا ایرا غیرا یوں دندناتا ہوا بنا کسی مضبوط رشتے کے ہمارے گھر آ سکتا ہے تو پھر تو صارم بھائی کا حق تو تم سے کہیں زیادہ ہے کہ جب چاہے وہ اپنی بھابھی سے ملنے آئے جائے۔۔۔
        عینا نے انتہائی سکون سے ٹھنڈے ٹھار لہجے میں دلاور کی طرف دیکھتے کہا تھا۔۔۔
        " دیوررر ۔۔۔کیا بکواس ہے یہ۔۔۔"
        رشید احمد کی دیور پہ سوئی اٹکی تھی۔۔۔تو وہیں پہ دلاور کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔۔۔
        " جی۔۔۔دیورررر۔۔۔۔صارم بھائی میرے شوہر کے چھوٹے بھائی ہیں۔۔۔"
        عینا نے صارم شاہ کے پاس کھڑے ہوتے اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک جتاتی نگاہ رشید احمد اور دلاور پہ ڈالتے کہا۔۔۔
        " یہ کیا بک رہی ہے رشید احمد۔۔۔تم مجھے ڈبل کراس کر رہے ہو۔۔۔دھوکا دیا تم نے مجھے۔۔۔راتوں رات ہی میری آنکھوں میں دھول جھونکنے چلے تھے تم۔۔۔ہاں۔۔۔کتنے پیسوں میں سودا کیا ہے تم نے اپنی بیٹیوں کا۔۔۔بولو۔۔۔جواب دو مجھے۔۔۔"
        دلاور طیش میں آتے رشید احمد کی طرف بڑھا تھا اور اسے گلے سے دبوچتے انتہائی کروفر سے بولا تھا۔۔۔
        " مم میں نہیں جانتا۔۔۔الّٰلہ پاک کی قسم میں نہیں جانتا کہ یہ کب ہوا۔۔۔جیسے تمہیں ابھی پتہ چلا ویسے ہی مجھے بھی ابھی علم ہوا۔۔۔"
        رشید احمد اپنا گلا چھڑوانے کی کوشش کرنے کے ساتھ گھگیاتے ہوئے بولا۔۔۔دلاور نے کچھ پل اسکی آنکھوں میں دیکھنے کے بعد اسے چھوڑ دیا۔۔۔
        " اب آپ خود کہیں گی عائلہ جی کہ آپ مجھ سے محبت کرتی ہیں بہت ہوا یہ چوہے بلی کا کھیل۔۔۔جسٹ ویٹ اینڈ واچ۔۔۔آج فیصلہ ہو جائے گا کہ نہ صرف مجھ سے بلکہ خود سے بھی جھوٹ بول رہی ہیں۔۔۔
        صارم شاہ نے اپنے پاس کھڑی عائلہ کے کان میں دھیرے سے سرگوشی کی تھی کہ جسے با مشکل عائلہ سن پائی تھی مگر سمجھ نہیں پائی کہ وہ کیا کرنے والا ہے۔۔۔اس نے پریشان نظروں سے صارم شاہ کی طرف دیکھا تو اسی پل صارم شاہ نے اسے ایک آنکھ ونک کی تھی۔۔۔پھر وہ دلاور کی طرف بڑھا۔۔۔
        کیا کہا تھا تم نے کہ اس گھر کے آس پاس بھی نظر نہ آؤں۔۔۔عائلہ جی کا نام بھی میں نے لیا تو تم برداشت نہیں کرو گے۔۔۔ایک خبر تمہیں عینا بھابھی نے دی ہے اب ایک خبر تمہیں میں دوں گا۔۔۔مگر وہ کیا ہے کہ میں تمہاری طرح بے شرم نہیں ہوں اور نہ ہی بے غیرت اس لیے سب کے سامنے نہیں بتا سکتا۔۔۔ذرا سائیڈ پہ آنا بتاتا ہوں تمہیں۔۔۔۔
        صارم شاہ مسکراتے ہوئے اور لہجے میں طنز کی آمیزش لیے دلاور کے پاس جا کر کھڑا ہو کر بولا اور دلاور کا ہاتھ پکڑ کر سب سے ذرا فاصلے پہ لے گیا۔۔۔کمرے میں موجود سب لوگ حیران ہو کر انکی طرف دیکھنے لگے جبکہ عینا اور عائلہ صارم شاہ کے رویے پہ پریشان ہونے لگیں کہ وہ یہ کیا کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے۔۔۔صارم شاہ کے انداز اور لہجے پہ عائلہ کا نازک دل کانپنے لگا۔۔۔
        " عائلہ بہن یہ ٹھیک نہیں کیا آپ نے۔۔۔دلاور دھوکا برداشت نہیں کرے گا۔۔۔اس سے نکاح نہیں کرنا تھا تو آپکو اسے کوئی آس بھی نہیں دلانی چاہیے تھی۔۔۔بہتر تھا کہ آپ پہلے کی طرح اپنے انکار پہ ڈٹی رہتیں۔۔۔"
        بلال نے پہلی بار عائلہ کو مخاطب کرتے ایک افسوس بھری نگاہ اس پہ ڈالتے کہا تھا۔۔۔
        ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
        " آپ اور یہاں۔۔۔"
        اکرام صاحب فرحین بیگم کو ہاسپٹل میں دیکھ کر حیران ہوتے بولے۔۔۔
        " اب میں اتنی بھی ظالم نہیں کہ کوئی مر رہا ہو تو میں اس کو دیکھنے نہ آؤں۔۔۔"
        فرحین بیگم درشت لہجے میں بولیں۔۔۔
        " الّٰلہ نہ کرے کہ فاطمہ بیٹی کو کچھ ہو۔۔۔ٹھیک ہو جائے گی وہ۔۔۔کبھی تو سوچ سمجھ کر بول لیا کریں فرحین بیگم۔۔۔"
        اکرام صاحب بھی اسی لہجے میں مخاطب ہوئے تھے۔۔۔
        " ویسے کچھ پتا چلا کہ ہوا کیا ہے۔۔۔یوں اچانک بیٹھے بٹھائے کیا ہوگیا اسے۔۔۔"
        فرحین بیگم نے سرسری لہجے میں دریافت کیا۔۔۔
        " کھانے میں کوئی زہریلی چیز کھا لی ہے میں نے ڈرائیور سے کہ دیا ہے کہ وہ رضوانہ بوا کے کچن میں جو بھی پکا پڑا ہے وہ اٹھا لائے۔۔۔لیب سے چیک کروانے کے بعد پتہ چل جائے گا کہ کھایا ہے یا کھلایا ہے کسی نے۔۔۔"
        اکرام صاحب نے فرحین بیگم کی طرف بغور دیکھتے کہا۔۔۔
        " مطلب کیا ہے آپکی اس بات کا۔۔۔آپ مجھ پہ شک کر رہے ہیں۔۔۔"
        فرحین بیگم اکرام صاحب کی نگاہوں میں ہلکورے لیتے شک کا رخ اپنی طرف محسوس کرتے تڑخ کر بولیں۔۔۔
        " میں نے آپ کا نام نہیں لیا۔۔۔اور دھیان سے یہ ہاسپٹل ہے یہاں کوئی تماشہ کھڑا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔"
        اکرام صاحب ڈاکٹر کو اپنی طرف آتا دیکھ کر فرحین بیگم کو وارن کرتے آگے کو بڑھ گئے۔۔۔جبکہ لیب میں چیک کروانے کا سن کر فرحین بیگم کو ایک نئ فکر لاحق ہوئی اور جلدی سے قاسم کو کال ملانے لگیں۔۔۔
        ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

        Comment


        • #84
          Episode , 55
          صارم شاہ جیسے ہی دلاور کو باقی سب سے کچھ فاصلے پہ لے کر گیا سب کی آنکھیں بھی کان بن گئے مگر صارم شاہ دلاور سے کیا کہ رہا ہے کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔۔۔
          " کتنی عجیب بات ہے ناں کہ تم نے عائلہ جی کو حاصل کرنے کے لیے کتنے پاپڑ بیلے اور شائد تمہارا نکاح ان سے ہو بھی جائے۔۔۔
          مگر پتہ کیا ہوگا۔۔۔تمہیں صرف عائلہ جی کا جسم ملے گا۔۔۔ساری عمر بھی ٹکریں مارتے رہو گے تو عائلہ جی کے دل تک رسائی حاصل نہ کر پاؤ گے۔۔۔دل میں جگہ بنانا تو بہت دور کی بات ہے۔۔۔"
          صارم شاہ کی بات پہ دلاور نے انتہائی خشمگیں نظروں سے اس کی طرف دیکھا تھا۔۔۔
          " آں ہاں۔۔۔اپنے دماغ کو ٹھنڈا رکھو دلاور۔۔۔ابھی اصل بات تو میں نے تمہیں بتائی ہی نہیں۔۔۔"
          صارم شاہ نے دھیمے لہجے میں مسکراتے کہا۔۔۔
          " اب مجھے دیکھو میں نے کوئی پاپڑ نہیں بیلے مگر پھر بھی میں عائلہ جی کے دل تک پہنچ چکا ہوں۔۔۔اور میری رسائی انکے دل تک ہی نہیں بلکہ انکے وجود انکے جسم تک ہوئی ہے۔۔۔عائلہ جی کی ہر آتی جاتی سانس میرے نام کا کلمہ پڑھتی ہے۔۔۔صارم صارم صارم
          صارم شاہ نے انتہائی جذب سے اپنا نام دہرایا تھا۔۔۔
          " صارم شاہہہہہہ۔۔۔۔۔زبان کو لگام دو۔۔۔صارم شاہ۔۔۔"
          دلاور اتنی زور سے دھاڑا تھا کہ سب کو یوں لگا جیسے چھت ان پہ آن گری ہو۔۔عائلہ اور عینا نے بے چین ہو کر ان دونوں کی طرف دیکھا تھا۔۔۔
          " میں نے عائلہ جی کو یہاں چھوا ہے ، یہاں ، یہاں اور یہاں۔۔۔"
          صارم شاہ نے آنکھیں بند کیے بےخودی میں اپنی پیشانی ، گال ، آنکھ ، ہونٹ ، پھر دل پہ ہاتھ کی انگلی رکھتے کچھ کہا تھا۔۔۔دور سے سب صارم شاہ کو بس کچھ بڑبڑاتے اور اشارے کرتے دیکھ رہے تھے مگر عائلہ ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں بات کہ تہ تک پہنچی تھی کہ صارم شاہ کیا کر رہا ہے اور کونسے اشارے کر رہا ہے اور ان کا مطلب کیا ہے۔۔۔اس نے بے اختیار صارم شاہ کی طرف دیکھا دونوں کی نظروں کا تصادم ہوا تو عائلہ نے نفی میں سر ہلایا تھا آنکھوں ہی آنکھوں میں صارم شاہ کو باز رہنے کی التجا کی تھی۔۔۔مگر صارم شاہ ان دیکھی کر گیا تھا۔۔۔
          اِدھر دلاور کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تھا۔۔۔اس نے ایک زوردار مکہ صارم شاہ کی ناک پہ جڑا تو صارم شاہ کی ناک سے خون بہنے لگا تھا۔۔۔مگر وہ دلاور کی طرف دیکھ کر ہنستا گیا۔۔۔دلاور نے دوسرا مکہ اس کے پیٹ مںں مارا تھا۔۔۔
          " ہاہاہاہاہاہاہا ۔۔۔۔۔تم ہار گئے دلاور۔۔۔تم ہار گئے۔۔۔"
          صارم شاہ بلند آواز میں قہقہے لگاتا اس پہ ہنسا تھا۔۔۔اس کے بعد تو دلاور جیسے پاگل ہو گیا تھا وہ لگاتار صارم شاہ پہ اٹیک کر رہا تھا مگر حیرت کی بات کہ صارم شاہ اس کا ہاتھ روکنے اس سے لڑنے یا اپنا دفاع کرنے کی بجائے ہنس ہنس کر اس کو اور طیش دلا رہا تھا۔۔۔
          " عائلہ مجھ سے محبت کرتی ہے دلاور۔۔۔تم جیت کر بھی ہار گئے۔۔۔میں نے اسے نہ پاکر بھی پا لیا۔۔۔اور تم اسے پاکر بھی کبھی نہیں پا سکو گے۔۔۔۔ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔تم ہار گئے۔۔۔۔"
          صارم شاہ نے لڑکھڑاتے کہا۔۔۔دلاور نے اسے مکوں اور لاتوں پہ رکھ لیا۔۔۔مگر صارم شاہ نے ایک بار بھی اس کا ہاتھ روکنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اسے مزید طیش دلاتا رہا۔۔۔عینا چھڑوانے کو آگے ہوئی تو دلاور نے انتہائی خونخوار نظروں سے اس کی طرف دیکھتے اسے زور سے پیچھے کو دھکا دیا تھا۔۔۔وہ رول ہوتی دور جا کے گری تھی۔۔۔عائلہ تیزی سے اسے پکڑنے کو آگے بڑھی تھی۔۔۔
          آج تم گئے صارم شاہ۔۔۔آج نہیں چھوڑوں گا تمہیں۔۔۔"
          دلاور نے ہزیانی لہجے میں کہا اور پھر یوں لگا کہ اس کے ہاتھ پیر مشین بن گئے ہیں وہ بنا رکے صارم شاہ کو پیٹنے لگا۔۔۔مگر صارم شاہ کا وہی انداز رہا۔۔۔صارم شاہ مار کھاتے نہیں تھکا تھا وہ اب بھی زمین پہ گرا ہنس رہا تھا۔۔۔مگر دلاور ہانپنے لگا تھا۔۔۔دلاور نے جیب سے پسٹل نکال کے اس کا رخ صارم شاہ کی طرف کیا تو عینا اور عائلہ کی چیخوں سے کمرہ گونج اٹھا۔۔۔بلال نے اسے روکنے کے لیے قدم آگے بڑھائے تو دلاور نے زندگی میں پہلی بار اس پہ بھی گن تان کر اسے اپنی جگہ وہیں کھڑے رہنے کا کہا۔۔۔عائلہ نے بھاگ کر دلاور کے قدموں میں بیٹھ کر اسکی ٹانگ پکڑتے روتے ہوئے صارم شاہ کو چھوڑنے کا کہا۔۔۔دلاور نے یکدم عائلہ کو بالوں سے جکڑا تھا۔۔۔عینا اسے چھڑوانے آگے کو ہوئی تو دلاور نے ایک زوردار تھپڑ عینا کے رخسار پہ جڑا تھا۔۔۔جس سے وہ لہرا کر گری اور بے ہوش ہو گئ دلاور کا زرودار تھپڑ عینا کے رخسار کی بجائے اس کے سر پہ لگا تھا جس سے وہ ہوش کھو بیٹھی تھی۔۔۔عینا کو گرتے اور بے ہوش ہوتے دیکھ کر عائلہ کا دماغ چکرایا تھا۔۔۔اس نے تڑپ کر عینا کو پکارتے تیزی سے اس کی نبض ٹٹولی تھی۔۔۔عائلہ کے دل میں سکون اترا تھا وہ زندہ تھی۔۔۔
          " کہا تھا ناں کہ مجھے دھوکا مت دینا۔۔۔میں دھوکا معاف نہیں کروں گا۔۔۔کتنا چاہا تھا میں نے آپکو۔۔۔آپکی خاطر میں خود کو بدلنے لگا تھا۔۔۔سب برے کام چھوڑ کر آپکی خاطر آپکی خوشی کے لیے ویسا ہی بننے کی کوشش کرنے لگا تھا جیسا آپکو پسند تھا۔۔۔یہ سارا جگ میں آپکی ایک ہنسی پہ وارنے کو تیار تھا۔۔۔مگر دھوکا۔۔۔دھوکا دیا آپ نے۔۔۔چاہے ساری دنیا میں آپ نے اپنی محبت بانٹی ہو۔۔۔مگر میں آپکو نہیں چھوڑوں گا۔۔۔فرق بس اتنا ہوگا کہ پہلے آپ میرے دل پہ حکمرانی کرتی تھیں میں نے دل کی مسند پہ آپکو بٹھایا تھا مگر اب آپ میرے قدموں میں ساری عمر بیٹھی رہیں گی۔۔۔"
          دلاور نے عائلہ کو گلے سے دبوچتے قہر بار نظروں سے اسکی طرف دیکھتے کہا۔۔۔
          " مم۔۔میں بس تم سے محبت کرتی ہوں دلاور۔۔۔چھوٹے شاہ نہ جانے کیوں سمجھتے ہیں کہ میں ان سے محبت کرتی ہوں۔۔۔تت۔۔تم۔چھوڑ دو چھوٹے شاہ کو۔۔۔ہم آج ہی ابھی نکاح کریں گے۔۔۔میں اپنے حق مہر میں تم سے چھوٹے شاہ کی زندگی کی بھیک مانگتی ہوں۔۔۔چھوڑ دو انکو۔۔۔"
          عائلہ نے سسکتے ہوئے دلاور کی منت کرتے کہا۔۔۔دلاور غصے سے صارم شاہ پہ گن تانے کبھی اس کی طرف دیکھتا اور کبھی عائلہ کی طرف۔۔۔صارم شاہ کے چہرے پہ اب بھی وہی مسکراہٹ تھی۔۔۔
          " مجھے عائلہ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔۔۔باہر جاؤ سب۔۔۔۔۔"
          دلاور نے غصے سے چلا کر سب سے کہا تو عائلہ اسکی بات پہ خوفزدہ ہو کر ڈبڈبائی آنکھوں سے اسکی طرف دیکھنے لگی۔۔۔پھر اس نے ایک نظر صارم شاہ کی طرف دیکھا جس کے چہرے پہ بھی کچھ پریشانی در آئی تھی۔۔۔مگر نہ جانے کیوں عائلہ کو صارم شاہ کے وہاں ہونے پہ کچھ ڈھارس بھی تھی۔۔۔
          " دلاور بس کر یار۔۔۔ہوش میں آ۔۔۔وہ کہ تو رہی ہیں کہ وہ تجھ سے ابھی نکاح کریں گی۔۔۔۔کوئی غلط فہمی۔۔۔۔۔"
          بلال نے دلاور کے غصے کو دیکھتے اسے پھر سے سمجھانا چاہا تو دلاور نے بیچ میں ہی اس کی بات کاٹ دی۔۔۔
          " میں نے کہا جاؤ۔۔۔۔باہر جاؤ سب۔۔۔۔"
          دلاور سنی ان سنی کرتا پھر سے چلا کر غصے سے چنگھاڑا تھا۔۔۔۔رشید احمد اور بلال خاموشی سے اب بنا کوئی بات کیے باہر نکل گئے۔۔۔عینا کا بے ہوش وجود یونہی زمین پہ پڑا تھا۔۔۔
          " کس می۔۔۔۔"
          سب کے باہر جاتے ہی دلاور نے عائلہ کی طرف دیکھتے اپنے گال پہ بائیں ہاتھ کی انگلی رکھتے کہا تو عائلہ بے یقینی سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔صارم شاہ کا بھی یہی حال تھا دلاور اس حد تک چلا جائے گا یہ تو اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔۔۔
          دلاور نے صارم شاہ پہ گن تانے پھر سے اپنی بات دہرائی اور ٹریگر پہ اپنی انگلی کا دباؤ بڑھایا۔۔۔یہ دیکھتے عائلہ لرزتی کانپتی اپنی جگہ سے اٹھی تھی۔۔۔
          " کس میں عائلہ۔۔۔"
          دلاور پاگل سا ہوا تھا عائلہ کے ساتھ اس نے " جی " کو حذف کیا تھا۔۔۔صارم شاہ نے ہمت کرتے با مشکل اٹھنے کی کوشش کرتے عائلہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے پیچھے کیا تو دلاور نے گن اس کی پیشانی پہ رکھتے عائلہ سے پھر سے کہا۔۔۔
          " مار ڈالو۔۔۔مگر وہ یہ نہیں کرے گی۔۔۔"
          صارم شاہ نے دلاور کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑے غصے سے کہا۔۔۔دلاور کے چہرے پہ چٹانوں سی سختی دیکھ کر عائلہ نے ایک شکایتی نگاہ صارم شاہ پہ ڈالی تھی وہ دلاور کو نہ غصہ دلاتا اور نہ یہ سب ہو رہا ہوتا۔۔۔عائلہ کے شکایتی نظروں سے دیکھنے پہ صارم شاہ نے اپنی نظریں چرائی تھیں خود پہ شدید غصہ آیا تھا۔۔۔بے آواز روتی وہ دلاور کی طرف بڑھی صارم شاہ نے اس کا ارادہ بھانپتے اسے باز رہنے کو کہا۔۔۔
          مگر وہ سنی ان سنی کرتے بے آواز روتے آنکھیں بند کیے ہوئے دلاور کی طرف یونہی پیش قدمی کرنے لگی۔۔۔
          " رک جائیں عائلہ جی۔۔۔ مجھے منظور ہے۔۔۔آج کے بعد میں کبھی آپ کے راستے میں نہیں آؤں گا۔۔۔کبھی آپ کا نام اپنی زبان پہ نہیں لاؤں گا۔۔۔
          رک جاؤ دلاور۔۔۔بے شک مجھے مار ڈالو۔۔۔مگر یوں عائلہ جی کو میرے سامنے رسوا مت کرو۔۔۔میں ہاتھ جوڑتا ہوں۔۔۔تم سے مافی مانگتا ہوں۔۔۔کہو تو تمہارے پاؤں پڑتا ہوں۔۔۔مگر عائلہ جی کو یہ کرنے کو مت کہو۔۔۔"
          صارم شاہ تیزی سے چلا کر التجائیہ لہجے میں پہلے عائلہ اور پھر دلاور سے بولا تھا۔۔۔اس کو رسوا ہوتے دیکھنے کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا اور وہ جانتا تھا اس وقت وہ یہ رسوائی صرف اس کو بچانے کو جھیل رہی تھی۔۔۔دلاور اسی طرح عائلہ کی طرف دیکھتا رہا کہ اگر وہ رکی یا اس نے اس کی بات نہ مانی تو وہ گولی چلا دے گا۔۔۔عائلہ نے دلاور کے گال پہ اپنے تھرتھراتے ہونٹ رکھ دئیے۔۔۔دلاور نے ایک فاتحانہ نگاہ صارم شاہ پہ ڈالی تھی۔۔۔صارم شاہ اپنی جگہ پہ بت بنا کھڑا رہ گیا تھا۔۔۔
          " کیا کہا تھا تم نے کہ میں ساری عمر ٹکریں مارتا رہوں تو عائلہ کے دل تک رسائی حاصل نہیں کر سکوں گا۔۔۔غور سے دیکھو صارم شاہ وہ تمہارے پاس نہیں میرے پاس کھڑی ہے۔۔۔"
          دلاور نے بلند آواز میں ہنستے ہوئے کہا تھا۔۔۔
          " جانتے ہو اس وقت مجھے تم پہ ترس آ رہا ہے۔۔۔تمہاری مثال اس پتنگے کی مانند ہے جو شمع کو چھونے کے لیے اس کے قریب جانے کے لیے اس کے ارد گرد منڈلاتا رہتا ہے۔۔۔مگر اس کے پاس نہیں جا سکتا جیسے ہی پاس جاتا ہے جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔۔۔مٹی میں مل جاتا ہے۔۔۔تم بھی مٹی میں مل جاؤ گے اور تمہاری آنکھوں کے سامنے شمع میری ہوگی۔۔۔"
          دلاور نے عائلہ کو کھینچ کر اپنے بازو کے گھیرے میں لیتے صارم شاہ کی طرف دیکھتے طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔
          " میں پتنگا نہیں ہوں دلاور۔۔۔۔میں وہ آگ ہوں جو شمع کے اندر رہتی ہے اس کے اندر جلتی ہے اس کے اندر رقص کرتی ہے۔۔۔جس کے بنا شمع ادھوری ہے۔۔۔شمع شمع نہیں کہلاتی۔۔۔آگ اور موم دونوں ایک ساتھ جلتے ہیں اور پھر ایک ساتھ دم توڑ دیتے ہیں۔۔۔
          کاش کہ تم جانتے کہ محبت کسے کہتے ہیں۔۔۔تم آنکھیں رکھ کر بھی اندھے ہو دلاور۔۔۔بینا ہو کر بھی نابینا ہو۔۔۔
          تم نے ابھی جو کھیل کھیلا تم سمجھتے ہو تم جیت گئے۔۔۔مگر افسوس کہ تم جیت کر بھی ہار چکے ہو۔۔۔
          محبت کی جمع تفریق میں انسان کو اپنے محبوب کے لیے اپنی ذات کو نفی کرنا پڑتا ہے۔۔۔اس کی خوشی کے لیے اپنی ہر خوشی ہر چاہ سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔۔۔اپنی انا کو مارنا پڑتا ہے۔۔۔
          انسان جس سے محبت کرتا ہے اس سے جڑے ہر رشتے کو بھی دل سے اپناتا ہے۔۔۔حتیٰ کہ اس کے گھر کے باہر بندھے کتے سے بھی محبت کرتا ہے کہ یہ اس کے محبوب کا کتا ہے۔۔۔مگر تم نے کیا کیا۔۔۔
          جس سے محبت کی جاتی ہے اس کو عزت دی جاتی ہے اس کی عزت کی جاتی ہے اس کو یوں رسوا نہیں کیا جاتا۔۔۔جیسے تم نے کیا ہے۔۔۔تم نے بے شرمی اور بے غیرتی کی ہر حد پار کردی ہے۔۔۔
          تم محبت کو حاصل کرنے اسے پا لینے کو محبت کہتے ہو اور میں محبت میں محبوب کے لیے ہار جانے کو محبت کہتا ہوں۔۔۔
          اس بھول میں مت رہنا کہ مجھ میں تم پہ ہاتھ اٹھانے یا تمہارا ہاتھ روکنے کی سکت نہیں تھی۔۔۔مردانگی دکھانے کا اتنا شوق تھا تو گن کو ایک سائیڈ پہ رکھ کر دکھاتے۔۔۔
          میں نے تم سے مار کھائی۔۔۔کیونکہ میں کھانا چاہتا تھا۔۔۔عائلہ جی کے اندر کا سچ باہر لانا چاہتا تھا۔۔۔اور وہ سچ مجھے دکھا بھی۔۔۔مگر افسوس تم نہیں دیکھ پائے۔۔۔"
          صارم شاہ کے لہجے میں ٹوٹے کانچ سی کرچیاں گھلی تھیں۔۔۔وہ بات کرتے عینا کی طرف بڑھا تھا۔۔۔ بلال اور رشید احمد بھی کمرے میں یکے بعد دیگرے داخل ہو گئے بلال نے ایک افسوس بھری نگاہ دلاور پہ ڈالی تھی صارم شاہ کے بولے گئے آخری الفاظ اس نے بھی سنے تھے۔۔۔صارم شاہ نے عینا کو اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھائے تو بلال اس کی مدد کو آگے بڑھا۔۔۔
          " دورررر۔۔۔۔ہاتھ بھی مت لگانا۔۔۔"
          صارم شاہ چنگھاڑتے ہوئے بولا تھا۔۔۔دلاور کا غصہ ٹھنڈا پڑا تو جو کچھ ہوا اس کے دل نے اسے ملامت کیا مگر سر جھٹک کر وہ بلال کے پاس جا کھڑا ہو۔۔۔بلال نے اس سے نظریں پھیریں تھیں۔۔۔
          صارم شاہ نے عینا کو اپنے دونوں بازوؤں میں اٹھا کر بیڈ پہ لٹا دیا۔۔۔عائلہ نڈھال سی اس کے پاس بیڈ پہ آ کر بیٹھ گئ۔۔۔صارم شاہ نے عینا کے اوپر اچھی طرح سے چادر اوڑھا کر پاس پڑے پانی کے جگ میں سے تھوڑا سا پانی لے کر اس کے چہرے پہ زور زور سے چھینٹے مارے تو کچھ دیر بعد عینا نے کسمسا کر آنکھیں کھول دیں۔۔۔کچھ پل کو سر پہ ہاتھ رکھے وہ یونہی لیٹی رہی۔۔۔
          " صارم بھیا۔۔۔آپ ٹھیک ہیں ناں۔۔۔آپی۔۔۔"
          ہوش میں آتے ہی عینا کو سب یاد آتے دونوں کی فکر لاحق ہوئی تو خود پہ جھکے صارم شاہ سے بے اختیار لپٹ گئ۔۔۔
          " میں ٹھیک ہوں گڑیا۔۔۔کچھ نہیں ہوا مجھے۔۔۔عائلہ جی بھی ٹھیک ہیں۔۔۔سب ٹھیک ہے۔۔۔"
          صارم شاہ نے اسے تسلی دیتے آہستہ سے خود سے الگ کیا تو وہ غور سے صارم شاہ کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔جس کے چہرے پہ جا بجا نیل پڑے ہوئے تھے۔۔۔
          " تم مر جاؤ دلاور۔۔۔الّٰلہ کرے تم مر جاؤ۔۔۔کسی ٹرک کے نیچے آ جاؤ تم۔۔۔الّٰلہ کرے تم برباد ہو جاؤ۔۔۔"
          عینا یکدم اپنی جگہ سے اتنی تیزی سے اٹھ کر دلاوت کی طرف بڑھی تھی کہ کسی کو کچھ پتہ ہی نہ چل سکا۔۔۔دلاور کا گریبان پکڑ کر وہ ہزیانی لہجے میں چیخ چیخ کر اسے بد دعائیں دیتے بولی۔۔۔صارم شاہ نے جلدی سے آگے بڑھ کر اسے بازو سے کھینچتے ہوئے پیچھے کیا تھا۔۔۔رشید احمد ایک سائیڈ پہ یوں چپ چاپ کھڑا تھا جیسے وہاں موجود ہی نہ ہو۔۔۔
          " یہ مرتا کیوں نہیں ہے صارم بھائی۔۔۔یہ مر کیوں نہیں جاتا۔۔۔جب سے یہ ہماری زندگیوں میں آیا ہے ہم کانٹوں پہ لوٹ رہے ہیں۔۔۔
          اس کی وجہ سے۔۔۔اس شخص کی وجہ سے یہ عذاب ہم پہ نازل ہوا ہے۔۔۔الّٰلہ کرے تم دونوں مر جاؤ۔۔۔"
          عینا چلا چلا کر غصے سے بولنے لگی۔۔۔پھر رشید احمد کی طرف بڑھی اور اس کے سامنے کھڑے ہوتے نفرت سے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔
          " بس بہت ہوگیا یہ ڈرامہ۔۔۔رشید احمد ہمارا نکاح کل نہیں آج ہی ہوگا۔۔۔نکاح خواں کا انتظام کرو میں کچھ گواہوں کا کرتا ہوں۔۔۔"
          دلاور ایک غصیلی نگاہ عینا پہ ڈالتا پھر رشید احمد سے مخاطب ہوا۔۔۔
          " ع۔۔ع۔۔عائلہ۔۔۔۔۔ع۔۔عی عینا۔۔۔۔ای۔۔ایم۔۔۔ایمن۔۔۔۔"
          اس سے پہلے کہ رشید احمد باہر نکلتا سب کے کانوں میں مہراالنساء کی آواز پڑی تو سب حیران ہوتے بیڈ پہ پڑے انکے وجود کی طرف دیکھنے لگے جس میں زندگی دوڑنے لگی تھی وہ ہوش کی دنیا میں واپس آ رہی تھیں۔۔۔مہرالنساء کو ہوش آ گیا تھا انھوں نے مندی مندی سی آنکھیں کھولتے اپنی بیٹیوں کو پکارا تھا۔۔۔عینا ، عائلہ اور صارم شاہ تیزی سے انکی طرف بڑھے تھے۔۔۔صارم شاہ نے مہرالنساء کا آکسیجن ماسک اتارا تھا۔۔۔عینا اور عائلہ کی آنکھوں سے خوشی کے مارے آنسو رواں تھے۔۔۔وہ دونوں مہرالنساء کے دائیں بائیں بیٹھی ہوئی اپنی ماں کو اپنے بازوؤں کے گھیرے میں لیے ہوئے تھیں۔۔۔
          " دلاور نے بلال کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا کہ اب کیا کریں تو بلال کندھے اچکا گیا۔۔۔کہ میں کیا کہوں۔۔۔
          " صارم بیٹا یہ۔۔۔۔۔"
          مہالنساء نے صارم شاہ کے چہرے کی نیل کی طرف اشارہ کیا تھا۔۔۔پھر انکی نگاہ سامنے کھڑے دلاور پہ پڑی تو غصے سے اسکی طرف دیکھ کر انھوں نے منہ پھیر لیا۔۔۔
          " اچھا ہوا ساسو ماں آپکو ہوش آ گیا۔۔۔ورنہ آپکی بیٹی ساری عمر مجھ سے گلہ کرتی رہتی کہ میں نے اس کی ماں کے ہوش میں آنے کا انتظار نہیں کیا۔۔۔
          اب جاگ ہی گئ ہیں تو اٹھ کر تیاری کریں اپنی بیٹی کے نکاح کی۔۔۔ہمارا نکاح آج ہی ہوگا۔۔۔
          رشید احمد کچھ کہا ہے میں نے تم سے۔۔۔اور صارم شاہ تم دفع ہو جاؤ یہاں سے ۔۔۔بلال اپنے آدمیوں سے کہو کہ نظر رکھیں اس پہ اگر میرے نکاح تک یہ اس گھر کے آس پاس بھی نظر آئے تو گولی مار دیں اسے۔۔۔باقی میں خود دیکھ لوں گا۔۔۔"
          دلاور نے درشت لہجے میں کہا۔۔۔صارم شاہ نے عائلہ کی طرف دیکھا کہ شائد وہ کچھ بولے۔۔۔کچھ کہے۔۔۔مگر اس کے خاموشی سے سر جھکانے پہ صارم شاہ ایک کاٹ دار نظر اس پہ ڈال کر کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔
          باقی سب بھی ایک ایک کرکے روم سے نکلتے چلے گئے۔۔۔عینا نے بے یقینی سے عائلہ کی طرف دیکھا کہ اس نے صارم شاہ کو روکا کیوں نہیں۔۔۔
          " ماما۔۔۔مجھے آپکو کچھ بتانا ہے۔۔۔"
          عینا نے نظریں چراتے کہا تھا۔۔۔
          " میں سب جانتی ہوں۔۔۔سب کچھ۔۔۔تمہارے نکاح اور عائلہ کے انکار و اقرار۔۔۔سب۔۔۔"
          مہرالنساء نے آنکھیں بند کیے کہا۔۔۔تو وہ حیران ہو کر اپنی ماں کی طرف دیکھنے لگیں۔۔۔پھر انکو ڈاکٹر صاحب کی بات یاد آئی کہ وہ سب سن سکتی ہیں۔۔۔
          " عینا احتشام بیٹے کو فون لگاؤ۔۔۔میری بات کرواؤ اس سے۔۔۔"
          مہرالنساء نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔تو عینا تیزی سے احتشام شاہ کا نمبر ملانے لگی۔۔۔مگر بار بار کال پہ بھی رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا۔۔۔عینا نے جھنجلا کر فون بند کردیا۔۔۔
          " اب کیا کریں۔۔۔"
          عینا فکرمندی سے بولی۔۔۔
          " تم بار بار ٹرائی کرو بیٹا سگنل کا مسلہ ہوگا۔۔۔
          " ماما اگر انکو نکاح خواں ہی نہ ملے تو نکاح کیسے ہوگا۔۔۔"
          عینا نے پراسرار لہجے میں کہا۔۔۔
          " مطلب۔۔۔"
          مہرالنساء حیرانی سے بولیں کہ یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔عائلہ نے دلاور کے خوف سے عینا کو سختی سے منع کیا کہ اب کچھ نہ کرے۔۔۔جو ہو رہا ہونے دے۔۔۔مگر عینا نے کہا کہ وہ آخری دم تک کوشش کرے گی۔۔۔
          عینا نے اس بار احتشام کی بجائے صارم شاہ کا نمبر ملایا تھا۔۔۔دوسری طرف کی بات چپ چاپ وہ خاموشی سے سنتی رہی۔۔۔
          شام کے چار بج چکے تھے۔۔۔گاؤں کا نکاح خواں کہیں اور نکاح پڑھانے گیا ہوا تھا۔۔۔اس کے واپسی کے انتظار میں وقت گزرتا جا رہا تھا۔۔۔
          " آس پاس کے کسی گاؤں سے نکاح خواں کا پتہ کر لو۔۔کوئی تو مل جائے گا۔۔۔"
          دلاور جھنجلا کر رشید احمد سے بولا جو ناکام واپس لوٹ آیا تھا۔۔۔
          " سب پتہ کیا ہے شادیوں کا سیزن ہونے کی وجہ سے کوئی نہیں مل رہا۔۔۔اب صبح ہی کچھ ہو سکتا ہے۔۔۔"
          رشید احمد نے مایوس کن لہجے میں کہا۔۔۔تو دلاور بھنا کر رہ گیا۔۔۔
          ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
          " بیوقوف انسان اسے زہر دینے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔راستے سے ہٹانے کے اور بھی بہت سے طریقے ہوتے ہیں تمہارے باپ نے لیب میں چیک کروانے کے لیے سب بھجوا دیا ہے وہاں۔۔۔اب سارا پول کھل جائے گا اور تمہارے باپ کا پہلا شک مجھ پہ جائے گا۔۔۔میں نے تم سے کہا بھی تھا کہ کام اس طریقے سے ہو کہ کوئی شک پیدا نہ ہو سکے۔۔۔ہم پہ نام نہ آئے۔۔۔اب بتاؤ کیا کروں میں۔۔۔"
          فرحین بیگم کمرے میں ادھر ادھر چکر لگاتے پریشانی سے بولیں۔۔۔یہ سوچ کر ہی ان کا پتہ پانی یو رہا تھا کہ اب وہ لوگ اکرام صاحب کے عتاب سے بچ نہیں پائیں گے۔۔۔
          " ریلیکس ماما۔۔۔کیوں پریشان ہو رہی ہیں۔۔۔کچھ نہیں ہوگا۔۔۔بابا جو مرضی کر لیں ہم پہ شک نہیں آئے گا۔۔۔"
          قاسم نے انتہائی اطمینان سے موبائل پہ گیم کھیلتے لاپرواہی سے کہا۔۔۔
          " تمہارا دماغ خراب ہے۔۔۔کیسے پتہ نہیں چلے گا۔۔۔ڈاکٹر نے کہا ہے کہ کوئی زہریلی چیز کھانے سے طبیعت بگڑی ہے اسکی۔۔۔اور کوئی بندہ جان بوجھ کر زہر نہیں کھاتا۔۔۔کوئی کھلاتا ہے تو وہ اس حال میں پہنچتا ہے۔۔۔"
          فرحین بیگم تنک کر بولیں۔۔۔
          " یہ ضروری تو نہیں۔۔۔بعض دفعہ کوئی زہریلی چیز کھانے میں گر بھی تو جاتی ہے۔۔۔جیسے چھپکلی۔۔۔اب کوئی برتن صحیح سے ڈھانپ کر نہیں رکھے گا تو یہ تو ہوگا ناں۔۔۔"
          قاسم نے کمینگی سے مسکراتے کہا تو اس کی بات کو سمجھتے فرحین بیگم کے تنے چہرے پہ بھی ایک جاندار مسکراہٹ آئی تھی۔۔۔
          " تم اس قدر شارپ ہو گے مجھے ہرگز اندازہ نہیں تھا۔۔۔شکر ہے بچ گئے۔۔۔مگر تم کوئی اور رستہ بھی تو ڈونڈھ سکتے تھے۔۔۔اسے مارنا ضروری تھا کیا۔۔۔"
          فرحین بیگم نے پرسکون ہوتے اس کے پاس بیٹھتے کہا۔۔۔
          " فکر مت کریں۔۔۔مرے گی نہیں وہ۔۔۔"
          قاسم نے بے فکری سے کہا۔۔۔
          " ہیںنننننن۔۔۔۔۔اگر مارنا نہیں تھا تو یہ سب کرنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔"
          فرحین بیگم کو جیسے شاک لگا تھا یہ سن کر۔۔۔
          " ابھی فلحال میں آپکو نہیں سمجھا سکتا۔۔۔بس یہ سمجھ لیں کہ جو آپ چاہتیں ہیں وہ ہو جائے گا۔۔۔"
          قاسم نے اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔اسی وقت دروازے کے باہر کھڑا کوئی تیزی سے وہاں سے غائب ہوا تھا۔۔۔اور دونوں ہی اس بات سے انجان تھے۔۔۔
          " تم نے۔۔۔۔تم نے کیا یہ سب۔۔۔فاطمہ آپی کو تم نے زہر دیا۔۔۔"
          مہدیہ بےیقینی اور غصے کے ملے جلے تاثرات لیے بولی۔۔۔
          " ہاں۔۔میں نے کیا۔۔۔میں نے زہر دیا انکو۔۔۔سچی۔۔۔تمہاری قسم۔۔۔مگر تم فکر مت کرو بہت معمولی سا اثر ہوا ہوگا اس کا۔۔۔بچ جائے گی۔۔۔۔مرے گی نہیں وہ۔۔۔
          قاسم اس وقت گیسٹ روم میں مہدیہ کے سامنے بیٹھا دیدہ دلیری سے اسے اپنا کارنامہ سنا رہا تھا۔۔۔مہدیہ کی نقل اتارتے وہ اسی کے انداز میں خباثت سے ہنستے ہوئے بولا تھا۔۔۔۔
          " مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم اس حد تک گر جاؤ گے۔۔۔"
          مہدیہ روہانسے لہجے میں بولی۔۔۔
          " حیرت ہے۔۔۔تمہیں اب تک اندازہ نہیں ہوا کہ میں کس حد تک جا سکتا ہوں۔۔۔جس شخص کے ہاتھ عورت کے لباس تک پہنچ جائیں اس کی کوئی حد نہیں ہوتی موہنی بائی۔۔۔
          میں آج رات کو آؤں گا۔۔۔اگر اس بار تم نے مجھے خالی ہاتھ لوٹایا تو یاد رکھنا یہ ایک چھوٹی سی جھلک تھی۔۔۔
          ہاسپٹل کے اندر ہوتے ہوئے بھی میں فاطمہ کا وہ حال کروں گا کہ اپنے ہاتھوں سے وہ اپنی جان لے لے گی۔۔۔"
          قاسم مہدیہ کو دھمکاتے ہوئے غصے سے پھنکارتے ہوئے بولا۔۔۔
          " تت۔۔۔تم ایسا کچھ نہیں کرو گے۔۔۔"
          مہدیہ رو دینے کو ہوئی۔۔۔
          " میں ایسا ہی کروں گا اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوگی وہاں کا پورا سٹاف اور ڈاکٹرز اپنے ہاسپٹل کی ساکھ بچانے کے لیے اس بات کو وہیں دبا دیں گے۔۔۔اب تم خود تہ کر لو کہ کیا کرنا ہے آج رات تم دونوں میں سے کون میری پیاس بجھائے گی۔۔۔
          کوئی ایک تو ہوگی۔۔۔یا بڑی۔۔۔۔یا چھوٹی۔۔۔"
          قاسم مہدیہ کے چہرے پہ پھونک مارتے اس کے چہرے پہ آئی لٹ کو اڑاتے مکروہ ہنسی ہنسا تھا۔۔۔
          ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

          Comment


          • #85
            Episode , 56

            " دلاور پریشان مت ہو۔۔۔جہاں اتنا انتظار کیا ہے کچھ گھنٹے اور سہی۔۔۔کیا پتہ اس میں الّٰلہ کی کوئی مصلحت ہو۔۔۔"
            بلال نے دلاور کو پیچ و تاب کھاتے دیکھ کر اسے پرسکون کرنے کی کوشش کرتے کہا۔۔۔دلاور دانت پیس کر برآمدے میں ایک سائیڈ پہ بچھی چارپائی پہ جا کر بیٹھ گیا۔۔۔اور ایک تلخ نظر بلال پہ ڈالی۔۔۔
            " یار مجھے تو ایسا ہی لگ رہا ہے۔۔۔کہ اس میں ضرور الّٰلہ کی کوئی مصلحت پوشیدہ ہے۔۔۔ورنہ کوئی نہ کوئی نکاح خواں تو مل ہی جاتا ہمیں۔۔۔
            واپسی کا کیا پروگرام ہے۔۔۔میرا خیال ہے کہ ہمیں چلنا چاہیے۔۔۔صبح آ جائیں گے۔۔۔اب یہاں رکنے کا کوئی فائدہ بھی نہیں۔۔۔صبح پورے رسم و رواج اور شان و شوکت کے ساتھ آئیں گے۔۔۔"
            بلال نے دلاور کے پاس بیٹھے اسکی گھوری کو نظر انداز کرتے کہا۔۔۔
            " نہیں۔۔۔آج رات ہم ادھر ہی گزاریں گے مجھے ان میں سے کسی پہ بھی بھروسہ نہیں رہا۔۔۔جو لڑکی راتوں رات نکاح کر کے حویلی والوں کے لیے اس گھر میں آنے کے لیے راہ ہموار کر سکتی ہے تمہیں لگتا ہے کہ وہ میرے جانے کے بعد چپ کر کے بیٹھی رہے گی۔۔۔کبھی نہیں۔۔۔ہمارے یہاں سے نکلتے ہی وہ کوئی نئ گیم کھیل ڈالے گی۔۔۔اس لیے اب میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتا۔۔۔یہ لڑکی ہماری سوچ سے کہیں زیادہ تیز ہے۔۔۔"
            دلاور کی بات پہ بلال سر جھکائے کسی گہری سوچ میں گم ہو گیا۔۔۔جبکہ رشید احمد انکے لیے بیٹھک میں بستر لگانے چلا گیا۔۔۔
            " دلاور تو نے عائلہ کو کیا کہا تھا۔۔۔مجھ سے جھوٹ مت بولنا۔۔۔"
            کچھ دیر کی گہری خاموشی کے بعد بلال نے زمین سے ایک تنکا اٹھا کر اسے توڑتے مروڑتے تذبذب کا شکار ہوتے کہا۔۔۔وہ ایسی بات کبھی اس سے نہ پوچھتا اور نہ کبھی کرتا۔۔مگر دلاور اپنا آپا کھو کر جس طرح سے پاگل ہو رہا تھا اس حالت میں انسان رشتوں کا لحاظ بھول جاتا ہے۔۔۔اور بلال کو یہی ڈر تھا کہ کہیں وہ عائلہ کے ساتھ کچھ ایسا نہ کر گیا ہو جس سے یہ رشتہ جڑنے سے پہلے ہی ٹوٹ گیا ہو۔۔۔عائلہ اب تک اس سے خوفزدہ تھی۔۔۔لیکن اگر اس کے دل میں دلاور کے لیے نفرت بیٹھ گئ تو صارم شاہ کی بات سچ ثابت ہو جائے گی وہ ساری عمر بھی سر پٹکتا رہے وہ عائلہ کے دل میں جگہ نہیں بنا پائے گا۔۔۔
            " کچھ نہیں۔۔۔بس اسے تھوڑی سی سزا دی ہے اس کی بے ایمانی کی۔۔۔ اپنے ہونے کا احساس دلایا ہے اسے کہ اس پہ صرف میرا حق ہے۔۔۔"
            دلاور نے نظریں چراتے کہا تھا۔۔۔مگر بلال ہکا بکا اس کی طرف دیکھتا رہا۔۔۔ڈھکے چھپے لفظوں میں دلاور کچھ نہ کہ کر بھی بہت کچھ کہ گیا تھا جس پہ بلال کا یقین کرنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔۔۔وہ ایسا کیسے کر سکتا تھا رشتوں کا احترام بھول کر وہ ایک جانور کیسے بن گیا تھا۔۔۔
            " یہ تم نے کیا کیا ہے۔۔۔پہلی بات کہ نکاح سے پہلے تیری ایسی کوئی بھی حرکت گناہ ہے۔۔۔دوسری بات تو اتنا بے غیرت ہو گیا کہ تجھے یہ بھی خیال نہ رہا کہ وہاں صارم شاہ بھی موجود تھا۔۔۔
            تو نے عائلہ کو یہ نہیں بتایا کہ اس پہ صرف تیرا حق ہے بلکہ تو نے اسے یہ بتایا ہے کہ تیری تربیت کسی مقدس گود میں نہیں بلکہ کسی کوٹھے پہ ہوئی ہے۔۔۔
            تیری رگوں میں جو خون دوڑ رہا ہے وہ نیک ماں باپ کا نہیں بلکہ۔۔۔۔۔۔"
            بلال دلاور کی بات سن کر اس کے نظریں چرانے پہ ٹکٹکی باندھے اس کی طرف کچھ پل کو بے یقینی سے دیکھتا رہا پھر انتہائی تنفر اور غصے سے ہر لفظ چبا چبا کر بولا۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ اس کے ماں باپ کا نام لیتا دلاور نے پاس بیٹھے یکدم اسے کالر سے پکڑ کر ایک جھٹکا دیتے زمین پہ پھینکا تھا۔۔۔
            " بسسس۔۔۔۔۔۔ایک لفظ اور نہیں بھولے۔۔۔اگر یہ بات تیری جگہ کسی اور نے کی ہوتی تو میں اسے دوسرا سانس نہیں لینے دیتا۔۔۔"
            دلاور نے شعلہ بار نظروں سے بلال کی طرف دیکھتے کہا تھا۔۔۔
            " اور اگر یہی حرکت جو تونے عائلہ کے ساتھ صارم شاہ کی موجودگی میں کی میرے سامنے کی ہوتی تو تو بھی دوسرا سانس نہیں لے رہا ہوتا دلاور۔۔۔۔۔"
            بلال تیزی سے کھڑے ہوتے دلاور کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑے بے خوفی سے بولا۔۔۔
            تو جانتا بھی ہے تو نے کیا کیا ہے۔۔۔کچھ احساس بھی ہے تجھے۔۔۔"
            بلال نے دلاور کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے غصے سے اسے پیچھے کو دھکیلتے کہا تو دلاور منہ پھیر گیا۔۔۔
            " ماسو ماں نے تجھے یہ تو نہیں سیکھایا تھا دانی۔۔۔
            تو تو عزتوں کا محافظ تھا۔۔۔ننگے سر کو ڈھانپنے والا سروں سے چادر کھینچنے والا تو کب سے بن گیا۔۔۔تو نے محبت کا نام لے کر محبت کو بیچ بازار میں رسوا کیا ہے دانی۔۔۔موہنی کے ساتھ تو نے جو کیا وہ نشے میں کیا۔۔۔تو اپنے ہوش میں نہیں تھا۔۔۔مگر عائلہ کسی کوٹھے کی پیداوار نہیں تھی جو تو نے اس کے ساتھ یہ سب کیا۔۔۔اسے اس طرح سے ذلیل کیا۔۔۔تو نے اس کی نسوانیت پہ وار کیا ہے دانی جو وہ کبھی نہیں بھولے گی۔۔۔
            صارم شاہ ٹھیک کہتا ہے۔۔تو جیت کے بھی ہار گیا ہے۔۔۔تو ڈرا دھمکا کر بے شک اسے اپنے نکاح میں لے لے۔۔مگر وہ مر کے بھی اب تیری نہیں ہوگی۔۔۔تو نے اس کی روح پہ وار کیا ہے۔۔۔"
            بلال نے گہرے دکھ اور افسوس بھرے لہجے میں دلاور کو مخاطب کرتے کہا۔۔۔
            " میں جانتا ہوں کہ میں نے غلط کیا ہے مگر اس وقت میں بہت غصے میں تھا میں بس صارم شاہ کو یہ دکھانا چاہتا تھا کہ اگر وہ اس کے قریب آیا ہے تو میں بھی آ گیا ہوں۔۔۔اور اس کے دل تک بھی پہنچ جاؤں گا۔۔۔اب بس ایک بار یہ نکاح ہو جائے اس کے بعد میں سب ٹھیک کردوں گا۔۔۔"
            دلاور نے اب کے ذرا نرم پڑتے کہا۔۔۔
            " تو ابھی بھی ہوش میں نہیں ہے اور نہ ہی یہ سمجھ رہا ہے کہ تو نے کیا کیا ہے۔۔۔اور نہ ہی تجھے یہ دکھ رہا ہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو کتنا چاہتے ہیں۔۔۔
            دنیا کی کوئی بھی عورت اپنے حق مہر میں کسی غیر مرد کی زندگی نہیں مانگتی دلاور ملک۔۔۔مگر عائلہ نے اپنے حق مہر میں صارم شاہ کی زندگی مانگی تھی۔۔۔جانتے ہو اس کا مطلب کیا ہے۔۔۔اس کا مطلب یہ ہے کہ عائلہ کے لیے صارم شاہ اس کی اپنی جان سے بھی بڑھ کر ہے۔۔۔مت آ ان کے بیچ۔۔۔مت لے ان لوگوں کی بد دعا۔۔۔"
            بلال نے اپنی سی کوشش کرتے پھر سے دلاور کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔۔۔
            " ان سے پوچھ لے اگر انکو کچھ چاہیے ہو تو۔۔۔جو چاہیے انکو دے دے اور کمرے کو تالا لگا دے"
            دلاور نے سنی ان سنی کرتے کہا۔۔۔
            " تیرا دماغ ٹھیک ہے۔۔۔غلطی پہ غلطی کیے جا رہا ہے تو۔۔۔اس طرح سے ان کو کمرے میں بند کرے گا تو یہ لوگ اور نفرت کرنے لگیں گے تجھ سے۔۔۔بجائے اپنی غلطی کو سدھارنے کے تو اور کام بگاڑ رہا ہے۔۔۔"
            بلال نے جھنجلاتے ہوئے کہا۔۔۔
            " تجھ سے جو کہا ہے وہ کر جاکے۔۔۔اب ساری رات یہاں بیٹھ کر میں ان کا پہرہ دینے سے تو رہا۔۔۔"
            دلاور نے ایک تیکھی نظر بلال پہ ڈالتے کہا اور بیٹھک میں آرام کرنے چلا گیا۔۔۔بلال کچھ دیر تک یونہی کھڑا کسی سوچ میں گم اس کی پشت کو گھورتا رہا۔۔۔پہلی بار اس کا دل اس سے دلاور کے ساتھ بغاوت کرنے کو کہ رہا تھا جو وہ کر رہا تھا وہ بہت غلط تھا۔۔۔پہلی بار کسی سے کیے وعدے کو وہ توڑ رہا تھا کہ وہ ہمیشہ دلاور کے ساتھ رہے گا اس کا ساتھ دے گا۔۔۔کسی سے کیا یہ وعدہ وہ توڑنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔۔۔

            ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

            " شام جی پلیززز پک اپ مائی کال۔۔۔یہاں بہت گڑبڑ ہو گئ ہے۔۔۔ہمیں آپکی ہیلپ چاہیے۔۔۔"
            بار بار کال کرنے پہ بھی جب احتشام شاہ نے عینا کی کال پک نہیں کی تو عینا نے اس کے لیے ایک میسج چھوڑا تھا۔۔۔مہرالنساء نے امید بھری نظروں سے اسکی طرف دیکھا تو وہ نفی میں سر ہلائے انکے پاس آ بیٹھی۔۔۔
            " ماما آپکی طبیعت ٹھیک ہے ناں۔۔۔"؟
            عینا اور عائلہ نے ایک ساتھ اپنی والدہ سے پریشان ہو کر پوچھا تھا جو سر ہاتھوں میں گرائے بیٹھی تھیں۔۔۔
            " میں ٹھیک ہوں بیٹا فکر مت کرو۔۔۔بس سر میں ہلکا سا درد ہے۔۔۔"
            مہرالنساء نے سرسری لہجے میں کہا۔۔۔ہوش کی دنیا میں واپس آتے ہی انکے آس پاس جو بھی باتیں ہوتیں رہیں یا عینا عائلہ ان سے کرتی رہیں دھیرے دھیرے سب ان پہ واضح ہوتی گئ تھیں۔۔۔جسم بوجھل اور سر میں پین ہونے کے باوجود انھوں نے خود کو یوں سنبھالا ہوا تھا جیسے انکو کچھ ہوا ہی نہ ہو۔۔۔مگر اب وہ درد انکی برداشت سے باہر ہو رہا تھا۔۔۔اوپر سے شدید سٹریس فل ماحول۔۔۔
            کچھ یہی حالت عائلہ کی بھی تھی مگر اپنی والدہ کے سامنے وہ سب بھول گئ تھی نہ اسکو کچھ دیر پہلے ہونے والی اپنی ذلت یاد تھی نہ اس بات کی پرواہ کہ کچھ دیر میں اس کی دنیا بدلنے والی ہے۔۔۔
            عینا نے ڈاکٹر کو فون کرکے اپنی والدہ کی موجودہ صورت حال سے آگاہ کیا تو اس نے کچھ ہدایات کے ساتھ تمام میڈیسن روک دینے کا کہا۔۔۔بس ایک دو مخصوس میڈیسن تھیں جو ایک ہفتہ تک انکو دینی تھیں۔۔۔انھی میں سے ایک ٹیبلٹ عینا نے اپنی والدہ کو دی۔۔۔
            " کچھ بہتر فیل ہوا کیا۔۔۔"
            ٹیبلٹ دینے کے کچھ دیر بعد عینا نے اپنی والدہ سے پوچھا۔۔۔
            " ہممم۔۔۔کافی بہتر ہے اب۔۔۔
            نہیں ماما دونوں ہی کال پک نہیں کر رہے۔۔۔صارم بھیا اپنا موب صبح گھر ہی بھول گئے تھے آنٹی سے بات ہوئی تھی تو وہ کہ رہی تھیں کہ صارم بھیا ابھی تک گھر نہیں آئے۔۔۔دین محمد کو بھیجا ہے انھوں نے انکے پیچھے۔۔۔"
            عینا نے پریشانی سے کہا تھا کہ اسی وقت اس کے موب کی سکرین پہ صارم شاہ کا نام جگمگانے لگا۔۔۔اس نے سب کو خاموش رہنے کا اشارہ کر کے کال پک کی تھی۔۔۔
            " صارم بھیا کدھر ہیں آپ میں کب سے آپکو کال کر رہی تھی۔۔۔"؟
            عینا نے کال پک کرتے ہی ایک سانس میں جلدی سے پوچھا۔۔۔
            " میں ٹھیک ہوں گڑیا۔۔۔کیا بات ہے خالہ ٹھیک ہیں ناں۔۔۔"
            صارم شاہ نے فکرمندی سے پوچھا۔۔۔
            " جی بھیا امی جان ٹھیک ہیں۔۔۔وہ عائلہ آپی کے سلسلے میں آپ سے بات کرنا چاہ رہی تھیں۔۔۔"
            عینا نے جلدی سے کہا۔۔۔
            " خالہ سے کہنا کہ ان کے حکم پہ میری جان بھی حاضر ہے مگر اب عائلہ جی کو خود میری طرف قدم بڑھانا ہوگا۔۔۔میں اپنا امتحان دے چکا۔۔۔اب عائلہ جی کی باری ہے۔۔۔"
            صارم شاہ نے ٹھوس لہجے میں کہا۔۔۔
            " مگر صارم بھیا۔۔۔۔۔"
            عینا نے کچھ کہنا چاہا تو صارم شاہ نے بیچ میں ہی اس کی بات کاٹ دی۔۔۔
            " نہیں گڑیا۔۔۔اب نہیں۔۔۔اب عائلہ جی کو میرا ہاتھ تھامنا ہوگا ان کو مجھ پہ بھروسہ کرنا ہوگا۔۔۔بس ایک بار میرا ہاتھ تھام لیں اس کے بعد وعدہ کرتا ہوں ان تک پہنچنے سے پہلے دلاور کو میری لاش سے گزرنا ہوگا۔۔۔اور صارم شاہ اتنا کمزور نہیں ہے جو اس کا مقابلہ نہ کرسکے۔۔۔میری خاموشی میری بزدلی کی وجہ صرف عائلہ جی ہیں۔۔۔انکی چپی نے میرے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں ان سے کہو کہ میرا ہاتھ تھام کر میرے ہاتھ کھول دیں۔۔۔پھر چاہے ایسے دس دلاور بھی آ جائیں کسی کو ان تک نہ پہنچنے دوں گا۔۔۔"
            صارم شاہ نے دو ٹوک لہجے میں کہ کر کال کاٹ دی۔۔۔عینا گم صم موبائل کو تکتی رہ گئ۔۔۔
            " کیا ہوا بیٹا کیا کہا ہے صارم بیٹے نے۔۔۔"؟
            مہرالنساء نے پریشان ہو کر دیکھا عائلہ بھی اس کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔عینا نے صارم شاہ کا کہا ہر لفظ من و عن ان کو بتا دیا۔۔۔جسے سن کر عائلہ نے بے بسی سے انکی طرف دیکھا اور نظریں پھیر کر خود پہ ضبط کے بندھن باندھنے لگی۔۔۔
            " میری چادر دو مجھے میں خود حویلی سے ہو کر آتی ہوں۔۔۔"
            مہرالنساء نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔۔۔
            " ماما پلیزز۔۔۔چھوڑ دیں سب۔۔۔آپ مان کیوں نہیں لیتیں کہ میری قسمت دلاور سے جڑ چکی ہے۔۔۔آپ کو نہیں پتہ کہ وہ کس حد تک گر سکتا ہے۔۔۔ہم میں سے کسی کی جان لینے سے بھی نہیں رکے گا۔۔۔پاگل ہو گیا ہے وہ۔۔۔"
            عائلہ نے اپنی آنسوؤں پہ بند باندھتے روہانسے لہجے میں انھیں روکتے ہوئے کہا۔۔۔
            "عائلہ میری بچی۔۔۔"
            مہرالنساء نے اپنے بازو وا کرتے نم لہجے میں کہا تو عائلہ بے اختیار سسک کر اس ٹھنڈی مہربان آغوش میں سمٹ کر باآواز بلند رونے لگی۔۔۔مہرالنساء اور عینا کی آنکھوں سے بھی اسے یوں روتے دیکھ کر آنسو بہنے لگے۔۔۔
            " آپی جب میں بے ہوش ہوئی تو کیا ہوا تھا۔۔۔دلاور اس طرح سے چیخ کیوں رہا تھا۔۔۔صارم بھائی نے کیا کہا تھا اس سے۔۔۔۔صارم بھائی کی اتنی بری حالت اور دلاور کے جسم پر ایک کھروچ بھی نہیں۔۔۔مجھے جاننا ہے سب۔۔۔پلیززز۔۔۔"؟
            عینا کے دماغ میں عائلہ اور صارم شاہ کے بولے گئے جملوں کی بازگشت ہونے لگی اس نے عائلہ کی طرف غور سے دیکھتے اس سے پوچھا تو عائلہ سیدھے ہو کر بیٹھتے اپنے آنسو صاف کرتے نظریں چرا گئ۔۔۔
            " عائلہ۔۔۔۔۔"؟
            عائلہ کے نظریں چرانے پہ مہرالنساء نے زور سے پکارا۔۔۔
            " عائلہ کیا ہوا تھا۔۔۔کیا دلاور نے تمہارے ساتھ کوئی بدتمیزی کی ہے۔۔۔بولو بیٹا میرا دل ہول رہا ہے۔۔۔"
            مہرالنساء کے لہجے میں وسوسوں کے ناگ پھن پھیلائے محسوس کر کے عائلہ نے نفی میں سر ہلاتے انکو سب بتا دیا۔۔۔پنچایت کا لگنا ، عینا کا نکاح ، دلاور کا اسے نکاح کے لیے دھمکانا ، صارم شاہ کا دلاور کو طیش دلانا ، پھر دلاور کا اس کی ذات کی صارم شاہ کے سامنے تذلیل کرنا سب الف سے ی تک بتاتی چلی گئ۔۔۔
            " آپی ی ی ی ۔۔۔۔۔جمعے تک میرے نکاح کو پوشیدہ رکھنے اور حویلی میں سے کسی کے بھی ادھر نہ آنے کی شرط اس لیے رکھی تھی آپ نے۔۔۔
            اور۔۔۔اور اس رات مجھ سے وہ وعدہ لینا۔۔۔۔میرے خدا۔۔۔۔
            یہ کیا کرنے چلی تھیں آپ۔۔۔۔۔۔؟
            آپ جانتی ہیں میں نے دلاور سے آپ کا نکاح روکنے کے لیے کیا کیا ہے۔۔۔احتشام جی چاہے لاکھ اچھے ہوں مگر اپنی انا اپنی خودداری ایک طرف رکھ کر صرف آپکا سوچا اور آپ نے مجھ سے ہی سچ چھپایا۔۔۔ساری عمر کے لیے میں حویلی میں سر اٹھا کر نہیں چل پاؤں گی کہ مجھے کوئی عزت سے مانگنے نہیں آیا تھا بلکہ میں خود اپنا آپ کسی کو دینے گئ تھی۔۔۔"
            عینا بے یقنی سے عائلہ کی طرف دیکھتے بھاری ہوتے لہجے میں بولی۔۔۔
            " عینا میں ڈر گئ تھی تمہارے لیے۔۔۔ماما کے اور ایمن کے لیے۔۔۔اس نے مجھ سے کہا تھا کہ اس کے اور میرے بیچ میں جو بھی آئے گا وہ اسے مار ڈالے گا۔۔۔میں تم سب کے لیے ڈر گئ تھی۔۔۔میں نے اس کے جنون کو نہ صرف بہت پاس سے دیکھا ہے بلکہ خود پہ سہا ہے عینا۔۔۔میں اسکی ضد بن گئ ہوں۔۔۔وہ ہر حال ہر قیمت پہ مجھے حاصل کرنا چاہتا ہے۔۔۔
            میں تمہیں اس سب سے دور رکھنا چاہتی تھی۔۔۔میں نے سوچا کہ جمعہ تک تم لوگوں کو بےخبر رکھ کر بعد میں کسی نہ کسی طرح سے میں تمہیں اور چھوٹے شاہ کو منا لوں گی۔۔۔اگر عین ٹائم پہ تم لوگوں کو پتہ چل بھی گیا تو تب تک بہت دیر ہو چکی ہوگی۔۔۔
            نہ تم پیچھے ہٹنے کو تیار ، نہ چھوٹے شاہ اور نہ دلاور۔۔۔پھر میں کیا کرتی۔۔۔ایسے میں مجھے جو ٹھیک لگا میں نے وہ کیا۔۔۔
            ایک میرے بیچ میں سے نکلنے سے اور دلاور کے آگے سرنڈر کرنے سے اگر سب کی زندگیاں محفوظ رہتی ہیں کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا تو میرے لیے یہ سودا بہت معمولی ہے۔۔۔"
            بےبسی و لاچاری سے کہتے عائلہ کی آنکھوں سے آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر اسکے گالوں پہ بہے تھے۔۔۔
            " ماما۔۔۔آپ کدھر جا رہی ہیں۔۔۔رک جائیں۔۔۔"؟
            مہرالنساء گم صم بیٹھی سب سننے کے بعد خاموشی سے اٹھ کر چادر اوڑھ کر باہر نکلنے لگیں تو دونوں نے پریشان ہوتے پوچھا۔۔۔
            " اگر قسمت میں مرنا لکھا ہے تو پھر یونہی سہی۔۔۔مگر میں اپنے جیتے جی اپنی بچی پہ یہ ظلم نہیں ہونے دوں گی۔۔۔"
            مہرالنساء نے ایک نظر دونوں کی طرف دیکھا اور پھر روم سے باہر نکل گئیں۔۔۔
            ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

            " بی بی جی ۔۔۔بی بی جی چھوٹے شاہ جی آ گئے ہیں۔۔۔دین محمد اور داماد جی انکو ڈونڈھ لائے ہیں۔۔۔"؟
            حویلی کی نوکرانی ہانپتی ہوئی دوڑنے کے سے انداز میں ہال روم میں داخل ہو کر با آواز بلند پرجوش لہجے میں بولی۔۔فجر اور ہائمہ خاتون کے ساتھ حویلی کے اندروں خانے کی سب نوکرانیاں بھی ہال روم کے دروازے کی طرف بے چینی سے دیکھنے لگیں جدھر سے ان لوگوں نے آنا تھا جب سے عینا کی کال آئی تھی اور حالات کا پتہ چلا تھا تب سے وہ لوگ ہال روم میں بیٹھے بے چینی سے شرجیل اور دین محمد کا انتظار کر رہے تھے جن کو انھوں نے اسے تلاش کرنے بھیجا تھا۔۔۔چند سیکنڈ بعد شرجیل ، صارم شاہ اور دین محمد یکے بعد دیگرے اندر داخل ہوئے۔۔۔صارم شاہ پہ نظر پڑتے ہی ہائمہ خاتون اور فجر کا کلیجہ منہ کو آیا تھا۔۔۔
            " صارم بھیاااا۔۔۔۔میرے بچے۔۔۔۔"
            ہائمہ خاتون اور فجر تیزی سے انکی طرف بڑھیں اور اس سے لپٹ کر رونے لگیں۔۔۔
            " دین محمد۔۔۔اپنے آدمیوں کو تیار کرو۔۔۔اس دلاور سے دو دو ہاتھ کرنے کا اور اسے یہ بتانے کا وقت آ گیا ہے کہ نہ تو شاہوں نے چوڑیاں پہن رکھیں ہیں اور نہ ہی شاہوں کا خون اتنا سستا ہے جسے کوئی بھی گلی کا کتا بلا بہا دے۔۔۔ہماری شرافت ہماری خاموشی کو ہماری بزدلی سمجھ کر صارم شاہ پہ ہاتھ اٹھانے کی جو غلطی وہ کر چکا ہے اب اس کا انجام بھی اسے بھگتنا ہوگا۔۔۔"
            شرجیل قہر بار لہجے میں دین محمد سے مخاطب ہوا۔۔۔تو صارم شاہ نے اسی وقت اسے روک دیا۔۔۔
            " کوئی بھی کچھ نہیں کرے گا۔۔۔خون خرابہ کر کے اس معاملے کو سلجھانا ہوتا تو میں کب کا کر چکا ہوتا۔۔۔ان لوگوں سے کوئی بھی نہیں الجھے گا۔۔۔کوئی بھی نہیں تو مطلب کوئی بھی نہیں۔۔۔
            صارم شاہ نے تنبہی لہجے میں کہا اور نڈھال سا گرنے کے سے انداز میں صوفے پہ بیٹھ گیا۔۔۔شرجیل اس کی بات پہ ہونٹ بھینچے وہیں اس کے پاس بیٹھ گیا۔۔۔
            " رشیداں بوا جلدی سے پانی گرم کرکے ساتھ میں پٹیاں لے آئیے۔۔۔اور دین محمد تم فوراً یٰسین کمپوڈر کو بلا لاؤ۔۔۔" ہائمہ خاتون صارم شاہ کے پاس بیٹھتیں تیز تیز بولیں۔۔۔رشیداں بوا اور فجر تیزی سے کچن کی طرف بڑھیں۔۔۔
            " کیا کروں میں کچھ سمجھ نہیں آ رہی نہ تمہارے بابا گھر ہیں نہ احتشام۔۔۔مجھے عینا کی فکر لگی ہوئی ہے اب وہ اس حویلی کی بہو ہے۔۔۔احتشام کی غیر موجودگی میں اسے کچھ ہوگیا تو میں احتشام کو کیا جواب دوں گی۔۔۔
            ہائمہ خاتون بے بسی سے بولیں۔۔۔
            " ماما پلیز بابا اور بھیا کو کچھ مت بتائیے گا۔۔۔میں ٹھیک ہوں کچھ نہیں ہوا مجھے۔۔۔فکر مت کریں عینا بھابھی کو کچھ نہیں ہوگا۔۔۔حویلی سے تعلق جڑنے کی وجہ سے عینا بھابھی کو کوئی نقصان پہنچانے سے پہلے وہ ہزار دفعہ سوچیں گے۔۔۔"
            صارم شاہ بدقت بولا تھا۔۔۔کچھ دیر بعد دین محمد نے یٰسین کے آنے کی اطلاع دی تو ہائمہ خاتون اٹھ کر پردے میں ہوگئیں۔۔۔یٰسین نے چیک کرنے کے بعد کچھ دوائیاں لکھ کر دیں اور سر جھکائے چلا گیا۔۔۔

            " صارم بھیا اب کیا ہوگا۔۔۔کیا سچ میں عائلہ کا نکاح صبح دلاور سے ہوجائے گا۔۔۔"
            فجر نے بے چینی و بے بسی سے کہا۔۔۔اس کے لہجے میں شدید اداسی اور دکھ ہلکورے لے رہا تھا۔۔۔وہ پریشان تھی مگر صارم شاہ کے چہرے پہ عجیب سا سکون تھا۔۔۔
            " فجر میں نہیں جانتا کہ مجھ سے کہاں کمی رہ گئ جو میں عائلہ کو اپنا مان اور بھروسہ نہ دے سکا۔۔۔کاش کہ وہ مجھ پہ بھروسہ کر کے ایک بار میرا ہاتھ تھام لیتی۔۔۔تو دلاور کو اس کے پاس بھی نہ پھٹکنے دیتا۔۔۔
            میں یہ بھی نہیں جانتا کہ ایسی کیا بات ہے جس کی وجہ سے وہ اتنی خوفزدہ ہے کہ مجھ سے محبت کرنے کے باوجود میرا ہاتھ نہیں تھام سکتی۔۔۔
            ویسے بھی ہر محبت کا انجام ملن یا پا لینا نہیں ہوتا۔۔۔کچھ محبتیں ادھوری رہ کر بھی پوری ہوتی ہیں۔۔۔میری اور عائلہ کی محبت بھی ایسی ہی ہے۔۔۔ہماری روحیں ہمارے دل مل چکے ہیں۔۔وہ چاہے لاکھ انکار کرے مگر میں جانتا ہوں وہ بھی مجھ سے محبت کرتی ہے۔۔۔
            اب رہی بات اس کے نکاح کی تو اگر میرے الّٰلہ کی یہی رضا ہے تو میری کیا اوقات کہ میں رب کے فیصلے سے ٹکر لوں۔۔۔میرا کام کوشش کرنا تھا وہ میں ہر ممکن حد تک کر چکا اب آگے جو میرے رب کی رضا۔۔۔"
            صارم شاہ نے ٹھنڈے ٹھار لہجے میں یوں کہا جیسے اس کے اندر سو سالہ کسی بزرگ کی روح گھسی ہو۔۔۔

            " چھوٹے شاہ باہر عینا بی بی کی والدہ آئی ہیں وہ آپ سے ملنا چاہتی ہیں انھوں نے منع کیا تھا کہ انکے آنے کی آپکے سوا کسی کو خبر نہ ہو۔۔۔اس لیے میں نے انکو مردان خانے میں بٹھا دیا ہے۔۔۔"
            رات کے ساڑھے 8 بج چکے تھے ہائمہ خاتون آج رات صارم شاہ کے روم میں اسکی دیکھ بھال کرنے کے لیے اور کچھ اس خیال سے کہ کہیں وہ اپنے ساتھ کچھ غلط نہ کر لے اس کے پاس سونا چاہتی تھیں مگر صارم شاہ نے انکو منع کر دیا کہ وہ ٹھیک ہے آج رات وہ صرف عائلہ کے تصور اس کی یاد کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا۔۔۔عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ بیٹھا دعا مانگ رہا تھا کہ جب دین محمد اس کے روم میں داخل ہوا۔۔۔اور مہرالنساء کے آنے کا بتایا۔۔صارم شاہ نے حیران ہوتے جلدی جلدی اپنی دعا ختم کی اور مردان خانے کی طرف چل دیا۔۔۔
            " خالہ۔۔۔سب خیریت تو ہے ناں۔۔۔آپ اس وقت۔۔۔"؟
            صارم شاہ مردان خانے میں قدم رکھتے ہی تیزی سے مہرالنساء کی طرف بڑھتے بولا۔۔۔
            " صارم بیٹا میں بہت آس و امید لے کر آئی ہوں۔۔۔اور جو میں کہوں گی مجھے یقین ہے کہ تم انکار نہیں کرو گے۔۔۔"
            مہرالنساء نے تیقن بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
            " خالہ بات کیا ہے۔۔۔آپ کھل کر کہیں جو کہنا ہے۔۔۔"
            صارم شاہ نے کہا۔۔۔
            " بیٹا دلاور کے ساتھ عائلہ کا نکاح روکنے کا اب بس یہی حل ہے کہ تم اسے لے کر یہاں سے بھاگ جاؤ۔۔۔اتنی دور چلے جاؤ کہ دلاور تم تک کبھی نہ پہنچ سکے۔۔۔"
            مہرالنساء کی بات پہ صارم شاہ کو جیسے کوئی جھٹکا لگا تھا۔۔۔
            " دیکھو بیٹا میں جانتی ہوں یہ ٹھیک نہیں ہے مگر تم لوگوں کا یہاں سے دور جانا ہی بہتر رہے گا۔۔۔اگر تم لوگ یہاں رہے تو وہ تم لوگوں کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔۔۔اور ممکن ہے کہ اور بھی بہت سے بے گناہ مارے جائیں۔۔۔تم لوگ اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاؤ گے تو کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔۔۔
            شاہ سائیں اور احتشام بیٹا بھی موجود نہیں ہیں جو ایسی صورت حال میں دلاور کو سنبھال لیتے۔۔۔
            دیکھو بیٹا تمہارے سوا میری کوئی امید کوئی آسرا نہیں اور نہ تمہارے سوا کسی اور پہ میں بھروسہ کر سکتی ہوں۔۔۔
            میں جانتی ہوں کہ میری بیٹی کی وجہ سے تم پہلے ہی بہت کچھ جھیل چکے ہو اور اب جو میں کرنے کو کہ رہی اس سے تم ایک نئ مصیبت میں پڑ جاؤ گے۔۔مگر تم ہی میری پہلی اور آخری امید بھی ہو۔۔۔
            اگر کہتے ہو تو تمہارے پاؤں پڑ جاتی ہوں۔"
            کہنے کے ساتھ ہی مہرالنساء اسکے پاؤں کی طرف جھکی تھیں۔۔۔
            "الّٰلہ کا واسطہ ہے خالہ مجھے گنہگار مت کریں"۔۔۔۔
            کہتے ساتھ ہی وہ نہ صرف تیزی سے پیچھے ہوا تھا بلکہ انکو کندھوں سے تھام کر واپس صوفے پہ بٹھایا تھا۔۔۔
            "خالہ یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔"
            خود بھی واپس صوفے کے ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے وہ بس اتنا ہی بول سکا۔۔۔وہ خود نہیں سمجھ پا ریا تھا کہ اسکو کیا کرنا چاہیے۔۔۔ یا کیا کہنا چاہیے۔؟
            سامنے جو عورت بیٹھی تھی اسکی وہ دل سے عزت کرتا تھا۔۔۔اگر کوئی اور موقع ہوتا تو یہ بات سن کر وہ چیخ چیخ کر اپنی خوشی کا اظہار کرتا سبکو بتاتا کہ اس نے جسے چاہا اسکو پا لیا ہے مگر اب جس رستے پہ اسکو چلنے کا کہا جا ریا تھا اس میں رسوائی تھی بدنامی تھی۔۔۔
            اسکو اپنی پرواہ نہیں تھی۔۔۔مگر عائلہ کی عزت اسکو بے حد عزیز تھی اور اسکو یہ گوارہ نہیں تھا کہ اسکی عزت پہ کوئی حرف آئے یا لوگوں کی نظر میں اسکا کردار مشکوک ہو۔۔۔مگر اسکے ساتھ جو ہونے جا ریا تھا وہ بھی اسکو کسی صورت قبول نہیں تھا۔۔۔
            "ٹھیک ہے خالہ تم جو کہو گی جیسے کہو گی ویسے ہی ہوگا۔۔۔"
            صارم شاہ نے مہرالنساء کو یقین دلاتے ان کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ کر ٹھوس لہجے میں کہا۔۔۔
            اسکے منہ سے ہاں سنتے ہی مہرالنساء کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا تھا۔۔۔
            "میرا دل کہتا تھا بیٹا کہ تم مجھے مایوس نہیں کرو گے میرا مان رکھو گے۔۔۔کہتے ساتھ ہی اس نے آگے بڑھ کر اسکو گلے سے لگا لیا اور اسکے ماتھے پہ بوسہ دیا۔۔۔
            مہرالنساء کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے مگر یہ آنسو تشکو کے، سکون کے اور خوشی کے آنسو تھے نجانے کیوں اسکی آنکھیں بھی نم ہوئی تھیں۔۔۔جب وہ مایوس ہو کر پیچھے ہٹ گیا تھا تو قسمت کیسے اس پہ مہربان ہوئی تھی سچ کہتے ہیں کہ جب انسان اپنے معاملات الّٰلہ پہ چھوڑ دیتا ہے تو الّٰلہ ان جگہوں سے اس کے لیے مدد بھیجتا ہے جن کے بارے میں اس نے تصور بھی نہیں کیا ہوتا۔۔۔
            آنے والے وقت کا سوچ کر صارم شاہ کی گھنی مونچھوں تلے اسکے ہونٹ مسکائے تھے۔۔۔
            "خالہ کیا وہ مان جائے گی۔۔۔آپ جو کہ رہی ہیں وہ یہ سب جانتی ہے کیا۔۔۔؟
            اچانک اس کے دل میں خدشوں کے ناگ نے پھن اٹھایا تھا۔۔۔
            اسی لیے ایک پل کو پریشان ہو کر وہ پوچھ بیٹھا تھا۔۔۔
            "ہاں ہاں۔۔۔تم اُسکی فکر مت کرو بہت کر لی اس نے اپنی من مانی اور بہت ڈر لیا ۔۔۔اب بس۔۔ اب میں کسی کو اپنی بیٹی کی خوشیوں سے نہیں کھیلنے دوں گی۔۔۔
            صارم بیٹا میں رات 10 بجے بڑی مسجد کی ساتھ والی گلی میں اسکو لیکر آ جاؤں گی تم بھی ٹائم پر پہنچ جانا۔۔۔آگے الّٰلہ مالک۔۔۔"
            اسکی بات پر وہ ایک لمحہ سوچ میں تو پڑی تھیں مگر دوسرے لمحے سر جھٹک کر سکون و اطمینان سے بولی۔۔۔
            ُُاُنکی بات سن کر وہ اندر تک پر سکون ہوا تھا۔۔۔ آنکھوں کے سامنے اس پری وش اس کی زندگی کا عکس لہرایا تھا
            اور دل میں خوشی کی ایک لہر اٹھی تھی۔۔۔
            ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

            نیلگوں آسمان میں زردی گھلی تھی اور پھر اس زدری پہ کالی سیاہی حاوی ہونے لگی تھی۔۔۔وقت تھا کہ جو تیزی سے ریت کی مانند مہدیہ کے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا تھا۔۔۔ہر گزرتا لمحہ اس کے اندر کرب و اضطراب کو بڑھائے جا رہا تھا۔۔۔
            وہ سوچ و بچار کے گہرے سمندر میں غوطہ زن تھی کہ کس سے مدد لے ، کیا کرے کہ اس مصیبت سے فاطمہ اور اس کی جان چھوٹ جائے۔۔۔ اس کے موبائل پہ میسج ٹیون بجی تھی۔۔۔مہدیہ نے اپنا موبائل اون کیا تو واٹس ایپ پہ ان نون نمبر سے کسی نے کوئی پک سینڈ کی تھی۔۔۔اس نے جیسے ہی واٹس ایپ اوپن کیا تو موصول ہوئی پک دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو گئے۔۔۔
            وہ پک ہاسپٹل کی تھی۔۔۔قاسم مکروہ ہنسی کے ساتھ فاطمہ کے سرہانے کھڑا تھا۔۔۔
            پک کے ساتھ اس نے ٹیکسٹ بھی کیا تھا۔۔۔
            " میں رات گیارہ بجے تک تمہارے جواب کا انتظار کروں گا۔۔۔اگر تمہارا جواب ہاں میں نہیں آیا تو پھر فاطمہ تو ہے ہی۔۔۔
            اور ہاں کسی سے بھی اگر تم نے ذکر کرنے کی غلطی کی تو یاد رکھنا فاطمہ اپنی عزت تو گنوائے گی مگر اس کے ساتھ اپنی جان سے بھی جائے گی۔۔۔
            اگر تمہارا جواب ہاں میں ہوا تو اپنا دروازہ بند مت کرنا۔۔۔اگر مجھے دروازہ بند ملا تو میں دروازے پہ دستک نہیں دوں گا بلکہ یہیں سے واپس ہاسپٹل چلا جاؤں گا۔۔۔اور پھر ہم میں دوبارہ کوئی بات نہیں ہوگی بلکہ اپنے کہے پہ عمل کروں گا بس۔۔۔"
            ٹک ٹک ٹک ٹک۔۔۔۔تمہارا ٹائم شروع جان من۔۔۔"
            مہدیہ جو ماسو ماں یا ایمان سے بات کرنے کا سوچ رہی تھی قاسم کے میسج کے بعد اپنے اس ارادے کو ترک کر گئ۔۔۔اس کے دماغ میں آندھیاں چلنے لگیں تھیں۔۔۔
            کچھ پل کو ہاتھوں میں سر گرائے وہ ساکت بیٹھی رہی۔۔۔آنسو اس کے گالوں پہ بہ بہ کر اسکے گریبان میں جذب ہو رہے تھے۔۔۔پھر کچھ دیر یونہی بیٹھے رہنے کے بعد وہ اٹھی تھی اس نے وضو کیا اور نماز حاجت کے لیے کھڑی ہو گئ۔۔۔
            " یاالّٰلہ میں کیا کروں۔۔۔میرے مالک میری مدد فرما۔۔۔یاالّٰلہ کوئی معجزہ کردے۔۔۔یاالّٰلہ فاطمہ آپی کو اور مجھے رسوا ہونے سے بچا لے۔۔۔اے زمین و آسمان کے مالک تیری اس بندی میں اتنی سکت نہیں ہے جو اس شیطان کا مقابلہ کر سکے۔۔۔یاالّٰلہ اپنے غیب سے ہماری مدد فرما۔۔۔ہمیں بچا لے۔۔۔"
            مہدیہ نماز کے بعد بیٹھی گریہ زاری کرتی رہی۔۔۔دعا سے فارغ ہوکر اس کی نظر وال کلاک پہ گئ تو گیارہ بجنے میں صرف دس منٹ باقی تھے۔۔۔
            آنکھیں بند کر کے ایک گہرا سانس لیتے اس نے قاسم کو
            " آ جاؤ " کا میسج کیا تھا۔۔۔اور پھر چہرہ ہاتھوں میں دئیے پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔۔۔
            رات کے بارہ بج چکے تھے۔۔۔مہدیہ نے سیاہ لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور دروازہ کھلا چھوڑ کر قاسم کا انتظار کرنے لگی تھی۔۔۔​

            Comment


            • #86
              Episode , 57

              " امی جان آپ آ گئیں۔۔۔آپکی بات ہوئی صارم بھیا سے۔۔کیا کہا انھوں نے۔۔۔"
              میرالنساء جیسے ہی واپس روم میں داخل ہوئیں تو عینا بے چینی سے انکی طرف بڑھی تھی اور پے در پے کئ سوال کر ڈالے۔۔جبکہ عائلہ گم صم ابھی بھی اسی جگہ اسی حال میں بیٹھی تھی جہاں وہ اسے چھوڑ کر گئیں تھیں۔۔۔اس نے بس ایک نظر اپنی ماں کی طرف دیکھا تھا پھر نظریں جھکا گئ تھی۔۔۔
              " تم چھوڑو ان سب باتوں کو۔۔۔اور جلدی سے میری الماری سے میرا سفری بیگ نکالو اور اس میں عائلہ کی ضرورت کی تمام چیزیں اور اس کا سامان پیک کرو۔۔۔جلدی کرو۔۔۔"
              مہرالنساء تیز تیز لہجے میں کہتی خود بھی عائلہ کی ضرورت کی چیزیں دیکھنے لگیں۔۔۔
              " امی جان یہ آپ کیا کہ رہی ہیں۔۔۔کہاں جا رہے ہیں ہم۔۔۔باہر دلاور اور اس کے آدمی کھڑے ہیں انکو بھنک بھی پڑ گئ تو ہم میں سے کسی کو نہیں چھوڑے گا وہ۔۔۔یہ ٹھیک نہیں ہے۔۔۔"
              عائلہ اس جامد خاموشی کو توڑتے حیران ہوتے پریشان لہجے میں بولی۔۔۔عینا بھی سوالیہ نظروں سے اپنی ماں کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔
              " ہم نہیں۔۔۔صرف تم جا رہی ہو۔۔۔صارم سے میری بات ہو چکی ہے۔۔۔10 بجے تک وہ بھی مقرر کردہ جگہ پہ پہنچ جائے گا۔۔۔ہمارے پاس صرف ایک گھنٹہ ہے۔۔۔اس لیے باتوں میں وقت ضائع مت کرو۔۔۔اور جو تمہیں چاہیے وہ پیک کر لو۔۔۔
              اور دلاور کی فکر مت کرو۔۔۔الّٰلہ کی مدد اگر شامل حال ہو تو بند راستے بھی کھلتے جاتے ہیں۔۔۔کسی نہ کسی کو وہ مدد کے لیے بھیج دیتا ہے۔۔۔سمجھ لو کہ ہماری مدد کو بھی الّٰلہ نے کسی کے دل میں رحم ڈال کر اسے ہمارا مدد گار بنا دیا ہے۔۔۔"
              مہرالنساء نے ایسے کہا جیسے اب اس بات سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اب آگے کیا ہوگا یا دلاور کیا کرے گا۔۔۔عینا تیز تیز ہاتھ چلاتی تقریباً عائلہ کی ضرورت کی ہر چیز بیگ میں رکھ چکی تھی۔۔۔ایک آخری نظر سب چیزوں پہ ڈالنے کے بعد اس نے بیگ زپ اپ کیا اور روم ڈور کے پاس رکھ دیا۔۔۔
              " یہ نہیں ہوسکتا۔۔۔میں آپکو دلاور کے اور بابا کے رحم و کرم پہ چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی۔۔۔"
              عائلہ نے خوفزدہ ہوتے قطیعت سے کہا۔۔۔
              " آپی پلیززز پریشان مت ہوں۔۔۔یہ ہمارے پاس آخری موقع ہے۔۔۔اگر اس کو بھی گنوا دیا تو پھر کوئی بھی کچھ نہیں کر پائے گا۔۔۔ہماری فکر مت کریں۔۔۔ماما کا اور میرا وہ اب بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔۔۔آپ نظروں سے ہٹ جاؤ گی تو چیخ چلا کر چلا جائے گا وہ۔۔۔"
              عینا نے عائلہ کو تسلی دیتے کہا۔۔۔
              " مگر ایسے بنا کسی رشتے کے رات کے اندھیرے میں چھوٹے شاہ کے ساتھ میں کیسے جا سکتی ہوں۔۔۔میرا دل نہیں مان رہا ماں۔۔۔"
              عائلہ پریشان ہوتے بولی۔۔۔اسے اس طرح سے رات کے اندھیرے میں غائب ہوجانا بہت عجیب سا لگ رہا تھا اپنی ذات پہ جو ایک مان اک غرور تھا اس کا وزن ردی کاغذ سے بھی ہلکا لگ رہا تھا۔۔۔
              " عائلہ میری بچی میں جانتی ہوں کہ اس طرح سے کسی بھی لڑکی کے لیے رخصت ہونا بہت ےکلیف دہ ہوتا ہے مگر بعض اوقات زندگی میں ہمیں ایسے فیصلے کرنے پڑتے ہیں جس کے لیے دل دماغ راضی نہیں ہوتے مگر ہمیں وہ کرنے پڑتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس کوئی اور چوائس نہیں ہوتی۔۔۔
              ایک عورت چاہے کتنی مضبوط ہو حالات سے لڑنا جانتی ہو مگر ایک کمینی فطرت رکھنے والے مرد کا مقابلہ کبھی نہیں کرسکتی۔۔۔میں تم لوگوں کے لیے اپنی جان تو دے سکتی ہوں مگر یہ بھی سچ ہے بیٹا کہ تمہاری ماں نہ تو دلاور کا مقابلہ کر سکتی ہے نہ تمہارے باپ کا۔۔۔
              بیٹا کیا صارم پہ بھروسہ نہیں ہے تمہیں۔۔۔اس سے محبت کرتی ہو تو اس پہ بھروسہ بھی کرو بیٹا۔۔۔تم جانتی ہو کہ اپنی ہر آزمائش میں وہ پورا اترا ہے اور آگے بھی اترے گا۔۔۔ تم اس کے علاوہ اور کسی کے ساتھ محفوظ نہیں ہو۔۔۔اور میں بھی اس وقت روئے زمین پہ صارم بیٹے کے سوا کسی پہ بھروسہ نہیں کر سکتی۔۔۔ وہ مر تو سکتا ہے مگر ہمارے بھروسے کو کبھی نہیں توڑے گا۔۔۔
              یہاں سے نکلتے ہی پہلی فرصت میں تمہارا اس سے نکاح ہوگا۔۔۔جس کا انتظام اب تک وہ کرچکا ہوگا۔۔۔تمہیں یہاں سے بھیجنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ کسی بے گناہ کا خون نہ بہے۔۔۔ورنہ وہ اتنا کمزور نہیں کہ دلاور کا مقابلہ نہ کرسکے۔۔۔"
              مہرالنساء نے رسانیت سے کہا عینا کے بیگ دروازے کے پاس رکھنے کے بعد انھیں ایسا لگا جیسے کوئی انکا دل مٹھی میں لے رہا ہو۔۔۔اپنی بیٹیوں کے لیے کتنے خواب اپنی آنکھوں میں انھوں نے سجائے تھے۔۔۔
              ایسی رخصتی کا تو انھوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔۔۔مگر دل پہ ہاتھ رکھ کر انھیں اپنی بیٹی کی خوشیوں کے لیے اسے رات کے اندھیرے میں اپنے ہی گھر سے چوری چھپے نکالنا پڑ رہا تھا۔۔۔
              " میں نے تمہیں الّٰلہ کے بعد صارم کی امان میں دیا بیٹا۔۔۔ہمیشہ خوش رہو۔۔۔الّٰلہ تمہیں ہر دکھ تکلیف اور بد نظر سے اپنی پناہ میں رکھے۔۔۔میری دعائیں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہیں گی۔۔۔"
              مہرالنساء نے ایک بڑی سی چادر عینا کو اوڑھاتے ہوئے رقت بھرے لہجے میں اس کو گلے سے لگاتے پھر اس کا منہ ماتھا چومتے کہا۔۔۔عینا اور اور ایمن بھی عائلہ کے گلے ملیں تو عائلہ سسک اٹھی۔۔۔وہ چاروں ایک دوسرے سے لپٹی یونہی اپنے دل کا غبار نکال رہیں تھیں کہ اسی وقت دروازے پہ ہلکی سی دستک ہوئی۔۔۔
              " خالہ جلدی کرو میں نے باہر کھڑے بندوں کو ادھر ادھر کردیا ہے۔۔۔اس سے پہلے کہ کسی کو خبر ہو نکلنے کی کرو۔۔۔"
              بلال نے ذرا سا دروازہ کھول کو منہ اندر نکال کر کہا۔۔۔تو اس کو دیکھ کر عینا عائلہ حیران رہ گئیں کہ یہ تو دلاور کا خاص آدمی تھا پھر انکی مدد کیسے۔۔۔
              " بیٹا یہی ہے وہ الّٰلہ کا بھیجا بندہ جس کے دل میں الّٰلہ نے رحم ڈال کر اسے ہمارا مددگار بنا دیا ہے۔۔۔
              اب جلدی کرو۔۔۔ہمیں نکلنا ہے۔۔۔"
              مہرالنساء نے احسان مند نظروں سے بلال کی طرف دیکھتے کہا اور عائلہ کو لے کر باہر نکل گئیں۔۔۔۔
              ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

              قاسم کے آگے سرنگوں کرنے کو یوں تو مہدیہ کر چکی تھی۔۔۔مگر جب سے اس نے حامی بھرا میسج کیا تھا اسکی روح اس کے جسم میں بین کر رہی تھی۔۔۔دل تھا کہ پھٹنے کو آ رہا تھا۔۔۔
              ساری عمر کوٹھے پر گزارنے کے باوجود خود کو سینت سینت کر رکھنے والی پہلی بار اپنے ہی محبوب کے ہاتھوں رسوا ہوئی۔۔۔
              اور آج پھر سے اسے اسی ذلت کا سامنا تھا۔۔۔
              کوٹھوں پہ جسموں کے سودے روز ہوتے تھے مگر اس نے کبھی خود کو اس گندگی کا حصہ نہیں بننے دیا تھا۔۔۔رقص کے دوران دن رات نہ جانے کتنے مردوں کی ہوس بھری نظروں کا وہ سامنا کرتی تھی مگر جو ذلت وہ آج محسوس کر رہی تھی اس سے پہلے اسے کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔۔۔
              وہ آج تک یہی سمجھتی آئی تھی کہ صرف کوٹھوں پہ جسموں کی بولیاں لگتی ہیں۔۔۔بس یہ دھندہ وہیں ہوتا ہے۔۔۔بس وہیں عزتیں داغدار ہوتی ہیں۔۔۔
              وہ سمجھتی تھی گھر کی چاردیواری میں تو ہر عورت محفوظ ہوتی ہے۔۔۔ایک طوائف بھی۔۔۔
              مگر وہ پگلی یہ نہیں جانتی تھی کہ ماس کے بھوکے کتے ہر جگہ منہ مارتے ہیں ان کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ کوٹھا ہے یا کوٹھی۔۔۔
              قاسم بھی ماس کا بھوکا کتا تھا۔۔۔اتنا بھوکا کہ وہ یہ بھول گیا کہ جس کی طرف میلی نگاہ سے دیکھ رہا ہے اس کے باپ نے اسے بیٹی کہا ہے۔۔۔
              ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مہدیہ کی گھبراہٹ اور بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔
              کئ بار دل میں خیال آیا کہ اٹھ کر دروازہ بند کردے صبح وہ قاسم کی اصلیت سب کے سامنے لے آئے گی۔۔۔جو ہوگا دیکھا جائے گا۔۔۔
              مگر پھر دل میں ہزار وسوسے پیدا ہونے لگتے کہ وہ تو بچ جائے گی اگر اس نے سچ میں فاطمہ آپی کو نقصان پہنچا دیا تو پھر سارے سچ بھی ایک بار کی گئ عزت کو واپس نہیں لا پائیں گے۔۔۔
              اور اس سب کے لیے خود کو وہ کبھی معاف نہیں کر پائے گی۔۔۔اس کا کیا ہے عزت تو اسکی پہلے ہی داغدار ہو چکی ایک بار ہو یا دس بار اب اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔
              ماسو ماں کے اس پہ احسان کا یہ ایک چھوٹا سا بدلہ ہی سہی۔۔۔
              مہدیہ کی آنکھیں رونے کے باعث سوج رہی تھیں۔۔۔ناک سے پانی بہنے کی وجہ سے اور بار بار صاف کرنے کی وجہ سے اس کی ناک سرخ انگارہ ہو رہی تھی۔۔۔دل ہی دل میں وہ ابھی بھی کسی معجزے کے انتظار میں الّٰلہ کو پکار رہی تھی۔۔۔کوئی آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر آیا تھا۔۔۔اور پھر دروازہ بند ہونے کی آواز سنائی دی۔۔۔
              مہدیہ کو یوں لگا جیسے جسم سے جان نکل گئ ہو آنے والا قاسم کے سوا اور کون ہو سکتا تھا۔۔۔مہدیہ نے دھیرے سے سر اوپر کیا تو وہ شیطان اپنی مکروہ ہنسی کے ساتھ کھڑا اسی کو تک رہا تھا۔۔۔
              " مجھے خوشی ہوئی کہ تم نے بلکل درست فیصلہ کیا ہے۔۔۔جانتی ہو اگر تمہارا جواب ہاں میں نہیں آتا تو جو میں فاطمہ کے ساتھ کرتا وہ تم مرتے دم تک نہیں بھول پاتی۔۔۔
              جو لڑکی مجھے پریشان کرتی ہے میری بات نہیں مانتی اپنی عزت سے تو وہ جاتی ہی ہے مگر اس کا وہ حال کرتا ہوں کہ پھر کسی اور کے قابل بھی نہیں رہتی۔۔۔
              مگر تم نے مجھے دو طرح سے خوش کیا ہے ایک تو میری بات مان کر ، اور دوسرا میرا یہ پسندیدہ کلر پہن کر۔۔۔
              اس لیے وعدہ کرتا ہوں کہ میں تم سے اس قدر اور اس طرح سے پیار کروں گا کہ آج تک تمہاری زندگی میں جتنے مرد آئے سب کو بھول جاؤ گی۔۔۔
              تمہاری زبان پہ صرف میرا نام ہوگا۔۔۔تمہیں جب جب بھی کسی مرد کے پیار کی طلب ہوگی تو تمہیں صرف میں یاد آؤں گا۔۔۔اور جب تک۔۔۔
              قاسم دھیرے دھیرے مہدیہ کی طرف قدم بڑھاتے اپنی نظروں سے اس کے جسم کا ایکسرے کرتے غلیظ مسکراہٹ لیے بولا۔۔۔اسکی باتوں سے پریشان ہوتے مہدیہ نے روتے ہوئے بے اختیار اپنے کانوں پہ اپنے دونوں ہاتھ رکھے تھے۔۔۔قاسم کچھ اور بھی کہنے کو تھا کہ وہ یکدم چیخی تھی۔۔۔
              " تم جیسا سوچ رہے ہو میں ویسی نہیں ہوں۔۔۔میں کوٹھے پہ صرف رقص ضرور کیا کرتی تھی۔۔۔مگر کبھی کسی مرد کو میں نے اپنے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیا تھا۔۔۔"
              مہدیہ ہاتھ نیچے کرتے تقریباً چلا کر بولی تھی۔۔۔
              " اگر کوئی مرد تمہارے کبھی قریب نہیں آیا تھا تمہیں چھوا نہیں تھا تو یہ بچہ کیا جنوں بھوتوں کا کا ہے۔۔۔
              میرا موڈ بہت اچھا ہے۔۔۔اس لیے بہتر ہوگا کہ اسے اچھا ہی رہنے دو اور میرا دماغ خراب مت کرو۔۔۔
              قاسم انتہائی تلخی سے طنزیہ لہجے میں سنی ان سنی کرتے بولا تھا۔۔۔
              " قاسم پلیزززز۔۔۔۔۔۔"
              مہدیہ نے اپنی سے کوشش کرتے اس کے سامنے روتے ہوئے ہاتھ جوڑے تھے۔۔۔
              " کیا چاہتی ہو واپس چلا جاؤں فاطمہ کے پاس۔۔۔بولو۔۔۔۔چلا جاؤں کیا۔۔۔"
              قاسم مہدیہ کے انتہائی قریب آ کر مڑنے کی اداکاری کرتے اسے خوفزدہ کرتے بولا۔۔۔
              " نن۔۔۔نہیں۔۔۔"
              اسے مڑتا دیکھ کر مہدیہ نے بے اختیار اس کے بازو کو پکڑ کر اسے روکا تھا اپنی عزت تو وہ گنوا سکتی تھی مگر اسے یہ گوارا نہیں تھا کہ اس کے بدلے میں فاطمہ کو وہ مزید کوئی نقصان پہنچائے۔۔۔مہدیہ کے اس کا بازو پکڑ کر روکنے پہ شیطانی مسکراہٹ لیے وہ کھل کے مسکرایا تھا۔۔۔
              " اس کلر میں بہت ہوٹ لگ رہی ہو جان من۔۔۔ابھی میں نے تمہیں ہاتھ بھی نہیں لگایا مگر تمہارے بدن کی آگ مجھے جھلسائے دے رہی ہے۔۔۔
              یہ کلر شائد ہی اس سے پہلے کسی لڑکی پہ اتنا اٹھا ہو جس قدر تم پہ اٹھ رہا۔۔۔اور تمہارا یہ سوگوار حسن دیکھ کر دل چاہ رہا تمہیں اور زیادہ رولاؤں۔۔۔"
              قاسم نے خباثت سے مسکراتے مہدیہ کے گرد اوڑھا دوپٹہ اتار کر زمین پہ پھینکتے کہا تھا۔۔۔اور اسکی کلائیوں کو دبوچتے اس کے مرمریں ہاتھوں پہ اپنے ہونٹ رکھے تھے۔۔۔مہدیہ اندر تک لرزی تھی۔۔۔اس نے مزاحمت کرتے اپنا آپ چھڑوانا چاہا تو قاسم مزید جنونی ہوا تھا۔۔۔
              " کیوں ڈرامے کر رہی ہو۔۔۔تم جیسی عورتوں پہ یہ شرم حیا ، یہ سمٹنا سمٹانا سوٹ نہیں کرتا موہنی بائی۔۔۔
              چلو شاباش جلدی سے اپنی یہ شرٹ اتارو۔۔۔اس کے ساتھ بلکل بھی مزا نہیں آ رہا مجھے۔۔۔
              قاسم نے اسے چھوڑ کر اپنی شرٹ اتار کر بیڈ پہ پھینکی تھی پھر اس کی طرف اشارہ کرتے خمار زدہ لہجے میں بولا۔۔۔مہدیہ پانی پانی ہوئی تھی۔۔۔آنسو اس کے گالوں پہ بہ رہے تھے۔۔۔
              " قاسم مم۔۔۔میں ماں بننے والی ہوں۔۔۔میرا بچہ۔۔۔خدا کا واسطہ ہے ہماری جان چھوڑ دو۔۔۔ہم پہ یہ ظلم مت کرو۔۔۔الّٰلہ سے ڈرو قاسم۔۔۔"
              مہدیہ یکدم قاسم کے پیروں میں گری تھی۔۔۔اس کے پیروں کو پکڑ کر سسکی تھی۔۔۔اس سے یہ سب سہن نہیں ہو رہا تھا۔۔۔
              " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو ایسے نہیں مانے گی۔۔۔"
              قاسم نے ایک غلیظ گالی سے مہدیہ کو نوازتے زور سے پیچھے کو دھکا دیا تھا۔۔۔
              " میں نے سوچا تھا تیرے ساتھ محبت کا کھیل کھیلوں گا۔۔۔مگر تو اس قابل ہی نہیں ہے۔۔۔اب تو دیکھ تیرے ساتھ کرتا کیا ہوں۔۔۔کب سے پیار سے سمجھا رہا ہوں مگر تیری وہی بک بک۔۔۔"
              قاسم نے غصے سے مہدیہ کو بالوں سے پکڑا تھا اسے کے چہرے پہ ایک زوردار تھپڑ مارنے کے بعد اسے گلے سے پکڑ کر اس پہ اپنے ہاتھ کا دباؤ بڑھانے لگا۔۔۔اپنا آپ اس سے چھڑوانے کی تگ و دو کرتے مہدیہ کا وجود نڈھال ہوا تھا اس کے ہاتھ پیر چھوڑتے ہی قاسم نے اسے اپنے بازوؤں میں اٹھا کر بیڈ پہ لا کے پٹخا تھا مہدیہ کی آنکھوں سے بھل بھل آنسو بہ رہے تھے قاسم نے اس پہ جھکتے ہوئے ایک ہاتھ اس کے چہرے پہ رکھ کر دباؤ ڈالتے دوسرا ہاتھ گریبان پہ ڈالتے اسکی شرٹ کو پیٹ تک پھاڑ ڈالا تھا۔۔۔مہدیہ کے منہ سے ایک کربناک چیخ بلند ہوئی تھی جو رات کے اندھیرے میں خاموشی کی وجہ سے دور تک گئ تھی۔۔۔اپنے کمرے کی بالکونی میں پریشان کھڑے موبائل کانوں سے لگائے کسی اور نے بھی یہ چیخ واضح طور پہ سنی تھی۔۔۔اس نے جلدی سے موبائل پاکٹ میں ڈالتے ادھر ادھر دیکھا تھا۔۔۔پھر تیزی سے اپنے روم سے باہر آیا تھا۔۔۔
              دودھیا وجود کی رعنائیاں قاسم کے سامنے عیاں ہوئیں تو وہ جیسے پاگل ہو اٹھا تھا۔۔۔اس نے مہدیہ کی گردن پہ شدت سے اپنے ہونٹ رکھے تھے پھر اسکے سینے پہ اپنے دانت گاڑ دئیے تو مہدیہ کے منہ سے ایک کربناک سسکاری خارج ہوئی تھی۔۔۔
              " خدا کا واسطہ ہے چھوڑ دو مجھے۔۔۔رحم کرو مجھ پہ۔۔۔"
              مہدیہ کے رونے میں جہاں شدت آئی تھی وہیں اس کی مزاحمت بھی بڑھی تھی۔۔۔تو قاسم کی درندگی میں بھی اضافہ ہوا تھا۔۔۔وہ مہدیہ کی گردن اور سینے پہ اپنے دانتوں کو گاڑنے لگا۔۔۔مہدیہ کی برداشت جواب دینے لگی تو وہ چلانے لگی۔۔۔اسی وقت قاسم نے کسی کے آ جانے کے ڈر سے تیزی سے اسکے منہ پہ ہاتھ رکھا اور ادھر ادھر دیکھا کچھ نظر نہ آنے پہ مہدیہ کو مغلظات بکتے اس کے منہ میں پاس پڑی اپنی بنیان ٹھونسنے لگا۔۔۔پھر اٹھ کر زمین پہ پڑا اس کا دوپٹہ اٹھایا اور بڑی بے دردی سے مہدیہ کے دونوں بازو پکڑ کر اس سے باندھ دئیے
              " کیا تھا اگر تو آرام سے مان جاتی تو کتنا مزا آتا۔۔۔تو بھی خوب انجوائے کرتی اور میں بھی۔۔۔خیر ایسے ہے تو ایسے ہی سہی۔۔۔"
              مہدیہ کے نڈھال وجود کو دیکھ کر قاسم تنفر سے بولا پھر اپنے باقی ماندہ کپڑے اتار کر اس پہ جھک گیا۔۔۔قاسم کے جسم پہ اب صرف ایک انڈروئیر بچا تھا۔۔۔مہدیہ کو مکمل طور پہ بے لباس کرنے کے لیے اس کا ہاتھ مہدیہ کی طرف بڑھا ہی تھا کہ اسی وقت دروازے کو لات مار کر اسے توڑتے ہوئے کوئی تیزی سے اندر داخل ہوا تھا۔۔۔قاسم نے گھبرا کر مڑ کر دیکھا تو ہکا بکا رہ گیا تھا۔۔۔اس کے چہرے کا رنگ سپید پڑا تھا۔۔۔
              " احتشام بھیا آپ۔۔۔۔۔"
              تین چار کمرے چھوڑ کر احتشام بھی گیسٹ روم میں ٹھہرا ہوا تھا۔۔۔جس پارٹی کے ساتھ طلحہ اور احتشام کی میٹنگ فکس تھی وہ اپنے ٹائم سے کچھ دیر پہلے ہی ہوٹل پہنچ گئ تھی۔۔۔
              ساری مشینز کو چیک کر کے اوکے کرنے کے بعد دونوں پارٹیز نے اپنی اپنی شرائط رکھیں جسے دونوں طرف سے مان لیا گیا۔۔۔میٹنگ کے بعد ڈنر کا اہتمام کیا گیا تھا مگر چائنہ سے آئی پارٹی کو ایمرجنسی میں فوری طور پہ واپس جانا پڑا۔۔۔اس لیے وہ لوگ بھی اپنا کام نمٹا کر گیارہ بجے تک واپس آ چکے تھے۔۔۔
              قاسم کا خیال تھا کہ وہ لوگ صبح ہونے سے پہلے نہیں آئیں گے ایمان اور اکرام صاحب پہلے ہی اپنی بہو کی فکر میں لیٹ نائٹ ہی گھر آتے تھے اور آتے ہی سیدھے اپنے اپنے روم کا رخ کرتے تھے اس لیے انکی طرف سے بھی کوئی فکر نہیں تھی اسے۔۔۔باقی سب ملازم بھی اپنے اپنے کوارٹر میں جا چکے تھے۔۔۔اسکے راستے میں آنے والا کوئی بھی نہیں تھا۔۔۔
              مگر وہ یہ بھول گیا تھا کہ جب الّٰلہ کی مدد کسی کے ساتھ شامل حال ہو جائے تو چاہے ساری دنیا بھی اس کے خلاف جمع ہو کر اسے نقصان پہنچانے کے در پہ آ جائے تو تب بھی وہ اس کا ایک بال بھی بیکا نہیں کر سکتے۔۔۔
              طلحہ میٹنگ سے فارغ ہو کر سیدھا ہاسپٹل گیا تھا جبکہ احتشام شاہ ڈرائیور کے ساتھ آ گیا تھا۔۔۔گیسٹ روم میں اس کا کمرہ پہلے سے تیار شدہ تھا اپنے کمرے میں آ کر عینا کی یاد نے ستایا تو اس سے بات کرنے کو دل مچلا تھا مگر جیسے ہی موبائل آن کیا اس کی ان گنت مس کالز اور میسج دیکھ کر پریشان ہو اٹھا۔۔۔
              پھر اس نے بیک کال کی تو موبائل پاوور آف آنے لگا۔۔۔پریشان ہوکر صارم کو کال ملائی تو اس کا بھی بند ملا۔۔۔
              پریشانی میں یونہی ٹہلتے ٹہلتے وہ بالکونی میں آ کر ابھی کھڑا ہی ہوا تھا کہ اسے کسی لڑکی کی چیخ سنائی دی۔۔۔چیخ اتنی واضح تھی کہ اسے وہ اپنا وہم نہیں کہ سکا۔۔۔
              وہ اپنے روم سے باہر نکلا اور ارد گرد کا جائزہ لینے لگا تو اسے پھر سے وہی چیخ سنائی دی۔۔۔جس طرف سے آواز آئی تھی وہ اس طرف چلنے لگا۔۔۔ایک کمرے کے سامنے سے گزرنے لگا تو اندر سے کسی کے سسکنے کی آواز آئی دروازے سے کان لگا کر جو اسکی سماعت نے سنا اس کو سن کر اس کے رونگٹے کھڑے ہوئے تھے۔۔۔
              بنا دیر کیے پھر اس نے زوردار لات مار کے دروازہ توڑ ڈالا تھا مگر سامنے کا منظر دیکھ کر اس نے فوراً اپنی آنکھیں میچی تھیں۔۔۔
              احتشام شاہ نے ایک خونخوار تیز نظر قاسم پہ ڈالتے تیزی سے آگے بڑھ کر قاسم کو بازو سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے مہدیہ سے دور کیا تھا پھر بیڈ کی پائنتی پہ رکھی ایک بڑی سے چادر اس پہ ڈالی تھی پھر مہدیہ کے ہاتھ کھولے تھے۔۔۔مہدیہ نے تشکر بھری نظروں سے اس مہربان شخص کو دیکھا تھا اور اٹھ کر بیٹھتے ہوئے چادر کو مزید کھینچ کر اپنے گلے تک اوڑھا تھا۔۔۔اس سب کے دوران احتشام شاہ نے اپنی نظریں لگاتار زمین میں گاڑے رکھیں تھیں۔۔۔
              " تم اس حد تک گر سکتے ہو میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔۔۔کون ہے یہ۔۔۔کہاں سے لائے ہو اسے اٹھا کر۔۔۔"؟
              احتشام شاہ پلٹ کر غضب ناک ہوتے قاسم کے سامنے کھڑے ہو کر دھاڑا تھا۔۔۔
              " احتشام بھیا غصہ مت کریں یہ کوئی شریف زادی نہیں ہے اور نہ ہی میں اسے اٹھا کر لایا ہوں۔۔۔طوائف ہے یہ۔۔۔کوٹھے پہ رہتی آئی ہے یہ۔۔۔ہمارے گھر میں ایک بوا ملازم ہیں اِس نے پتہ نہیں کیا کہانی سنائی ہے اُسے کہ اُس نے اسے اپنی بیٹی بنا کر اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے۔۔۔
              ایک بار آپ اسے غور سے دیکھو تو سہی۔۔۔قسم سے کیا مست مال ہے کہ بندے کے ہوش بھلا دے۔۔۔دونوں بھائی مل بانٹ کر کھا۔۔۔۔۔۔"
              قاسم کی بات سن کر احتشام شاہ کی آنکھوں سے شعلے نکلنے لگے تھے اس سے پہلے کہ وہ مزید زہر اگلتا احتشام شاہ کا زوردار مکا اسکی ناک پہ پڑا تھا۔۔۔مہدیہ کے قاسم کی بات پہ اوسان خطا ہوئے تھے۔۔۔اپنا رونا بھول کر مہدیہ نے بے اختیار سر اٹھا کر احتشام شاہ کی طرف دیکھا تھا۔۔۔نہیں جانتی تھی کہ آنے والا کوئی مسیحا بن کر آیا تھا یا وہ بھی شیطان کا ہی کوئی دوسرا روپ تھا۔۔۔
              " ہمت کیسے ہوئی تمہاری مجھ سے یہ بات کہنے کی۔۔۔کیا سوچ کر یہ بکواس کی ہے تم نے۔۔۔"
              احتشام شاہ کا زوردار گھونسہ پڑتے ہی قاسم کا ہونٹ پھٹ کر اس میں سے خون رسنے لگا تھا۔۔۔
              احتشام شاہ نے اسی پہ بس نہیں کی بلکہ دو تین تھپڑ اس کے جڑے تھے۔۔۔قاسم نے بپھرتے ہوئے احتشام شاہ کا اٹھا ہوا ہاتھ پکڑا تھا پھر اپنے ہونٹ سے خون صاف کرتے قہر بار نظروں سے احتشام شاہ کی طرف دیکھا تھا۔۔۔جبکہ مہدیہ کی جان میں جان آئی تھی۔۔۔
              " دوبارہ مجھ پہ ہاتھ اٹھانے کی غلطی مت کرنا احتشام شاہ۔۔۔بہت لحاظ کر لیا میں نے تمہارا۔۔۔بہن نہیں ہے یہ تمہاری جس کے لیے تم اتنے باؤلے ہو رہے ہو۔۔۔اگر تمہیں میری بات قبول نہیں تو جا سکتے ہو تم یہاں سے۔۔۔مگر میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔۔۔"
              قاسم نے تیکھے لہجے میں احتشام شاہ کا ہاتھ جھٹکتے کہا تھا۔۔۔احتشام شاہ کو دیکھ کر یکدم جو گھبراہٹ اس پہ چھائی تھی اب اس کا نام و نشان بھی نہیں رہا تھا اس نے سوچ لیا تھا کہ اب پکڑا تو گیا ہے مگر مہدیہ کو کسی صورت نہیں چھوڑے گا۔۔۔جب سب کو وہ بتائے گا کہ وہ ایک طوائف ہے تو کسی کو اس پہ ترس نہیں آئے گا۔۔ اسکے گھر والے خود ہی اسکو گھر سے دھکے مار کر نکال دیں گے۔۔۔
              " یہ چاہے کہیں سے بھی آئی ہو۔۔۔مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔۔۔میرے ہوتے تم اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔۔۔اس لیے بہتر یہی ہے کہ تم دفعہ ہو جاؤ یہاں سے۔۔۔"
              احتشام شاہ اس کے اور مہدیہ کے بیچ آڑ بنا تھا۔۔۔
              " میری بات سنو۔۔۔ٹھنڈے دماغ سے ایک بار اس کی طرف دیکھو تو سہی۔۔۔تمہارا دل بےایمان نہ ہوا تو کہنا۔۔۔"
              قاسم یکدم احتشام شاہ کو پیچھے کرتے مہدیہ پہ جھپٹا تھا مہدیہ کے منہ سے یکدم زوردار چیخ نکلی تھی۔۔۔مہدیہ تک پہنچنے سے پہلے ہی اسی وقت راستے میں ہی احتشام شاہ نے تیزی سے اسے پیچھے کو کھینچا تھا۔۔۔
              " کہا ناں دور رہو اس سے۔۔۔نہیں ہے یہ میری بہن مگر اب ہے۔۔۔اب ہے یہ میری بہن۔۔۔اگر اب تم نے اسے ہاتھ لگایا تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔۔۔"
              قاسم کے دوبارہ مہدیہ پہ جھپٹنے پہ احتشام شاہ نے اپنا آپا کھویا تھا مہدیہ کو وہاں سے دوسرے روم میں جانے کا کہتے ساتھ ہی قاسم کو اس نے لاتوں گھونسوں پہ رکھا تھا۔۔۔دونوں ایک دوسرے سے جانی دشمن بن کر الجھے تھے۔۔۔بیچ بیچ میں جب جب بھی موقع ملتا قاسم اپنا بچاؤ کرتے احتشام پہ وار کر دیتا۔۔۔احتشام شاہ کے زور زور سے دھاڑنے پہ سارے گھر کے کمرے روشن ہونے لگے تھے۔۔۔سب لوگ اپنے اپنے روم سے پریشان ہو کر گیسٹ روم کی طرف تیزی سے بڑھے تھے۔۔۔احتشام شاہ جان بوجھ کر اونچی آواز میں چلا رہا تھا تا کہ سب کو خبر ہو جائے۔۔۔
              " کیا ہو رہا ہے یہ۔۔۔قاسم۔۔۔احتشام۔۔۔۔ہٹو پیچھے۔۔۔"
              سب سے پہلے کمرے میں طلحہ داخل ہوا تھا۔۔۔اس کے بعد گھر کے ایک دو ملازم اور پھر باقی گھر والے۔۔۔
              " کیا ہو گیا ہے تم دونوں کو۔۔۔کس بات پہ یوں پاگلوں کی طرح لڑ رہے ہو۔۔۔"؟
              طلحہ نے حیرانی سے دونوں کی طرف دیکھ کر پوچھا تھا۔۔۔حیرانی سے زیادہ اسکے لہجے میں پریشانی تھی احتشام شاہ کو وہ کئ سالوں سے جانتا تھا وہ انتہائی باوقار شخصیت کا مالک تھا لڑنا جھگڑنا نمود و نمائش ان باتوں سے وہ بہت پرے تھا ہھر اب ایسا کیا ہوگیا تھا کہ ان کے ہی گھر میں کھڑے ہو کر وہ یوں بے دردی سے قاسم کو پیٹ ریا تھا۔۔۔
              " احتشام بیٹے کیا بات ہے۔۔۔رات کے اس وقت رضوانہ بوا کے روم میں کیا کر رہے ہو تم لوگ۔۔۔اور یہ مہدیہ بیٹی کدھر ہے۔۔۔"
              اکرام صاحب نے آگے بڑھتے احتشام شاہ سے پوچھا تھا ساتھ ہی مہدیہ کی تلاش میں نظریں دوڑائی تو سب کا دھیان بھی فوراً اسکی طرف گیا تھا۔۔۔ایمان تیزی سے ساتھ والے روم کی طرف بڑھی تھی۔۔۔
              " تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے میری ہی چھت کے نیچے کھڑے ہو کر میرے ہی بیٹے پہ ہاتھ اٹھانے کی جرأت کیسے کی تم نے۔۔۔"
              فرحین بیگم قاسم کی دگرگوں حاکت دیکھ کر تنتناتی ہوئی احتشام شاہ کی طرف بڑھیں تھیں۔۔۔
              " سوری آنٹی۔۔۔مگر آپکی چھت کیا اگر یہ کسی بادشاہ کا گھر ہوتا اور وہاں پہ کوئی ایسی حرکت کرتا جو اس نے کی ہے تو میں اس کا بھی یہی حال کرتا۔۔۔"
              احتشام شاہ نے قاسم کی طرف دیکھتے تلخ لہجے میں کہا۔۔۔اس کی بات پہ سب اسکی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔۔۔فرحین بیگم نے قاسم کو بیڈ پہ بٹھایا اور وہیں پاس کھڑی یہ سارا تماشہ دیکھتی ملازمہ سے جلدی سے قاسم کے لیے جوس لانے کو کہا۔۔۔حالات کی نزاکت کو دیکھتے اکرام صاحب نے باقی ملازمین کو واپس اپنے کوارٹر پہ جانے کو کہا تو وہ خاموشی سے باہر نکل گئے۔۔۔قاسم نے آہستہ سے اپنی ماں کے کان میں کہا کہ احتشام کو کسی طرح منظر سے غائب کرے ورنہ سارا بھانڈا پھوٹ جائے گا۔۔۔
              " طلحہ کا دوست ہونے کی وجہ سے میں تمہارا لحاظ کر رہی ہوں ورنہ اس غنڈہ گردی پہ تمہیں پولیس کے حوالے کروا دیتی بہتر ہوگا کہ اپنا سامان اٹھاؤ اور نکل جاؤ یہاں سے۔۔۔"
              قاسم کی بات سن کر فرحین بیگم کے چہرے پہ ہوائیاں اڑی تھیں انھوں نے احتشام شاہ کو لتاڑتے اسے جانے کو کہا تو اکرام صاحب نے اسے روک دیا۔۔۔۔
              " ماما حقیقت جاننے سے پہلے احتشام شاہ کہیں نہیں جائے گا۔۔۔"
              طلحہ نے احتشام شاہ کا بازو پکڑ کر اسے جانے سے روکتے ہوئے دو ٹوک لہجے میں کہا۔۔۔اکرام صاحب نے بھی طلحہ کی بات کی تائید کی تو وہ جزبز ہو کر رہ گئیِں۔۔۔
              مہدیہ۔۔۔۔۔۔۔۔"؟
              مہدیہ کے چہرے پہ انگلیوں کے نشان چھپے ہوئے تھے دائیں ہونٹ کا کنارہ پھٹا سوجن زدہ۔۔۔چادر میں لپٹی بکھرے بالوں سمیت اس کا وجود جو کہانی سنا رہا تھا اس نے ایمان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت صلب کر لی تھی۔۔۔ماؤف ہوتے ذہن کے ساتھ وہ مہدیہ کی طرف بڑھی تو مہدیہ یکدم اس کے گلے لگی سسک اٹھی۔۔۔ایمان نے مہدیہ کی چادر پیچھے کر کے اسے دیکھنا چاہا تو مہدیہ نے روتے ہوئے نفی میں سر ہلاتے چادر کو اپنی مٹھیوں میں جکڑا تھا۔۔۔مگر ایمان اس کی مزاحمت کی پرواہ کیے بنا چادر ہٹا گئ۔۔۔
              " کس نے کیا ہے یہ۔۔۔بولو مہدیہ۔۔۔۔کس نے کیا ہے۔۔۔"
              مہدیہ کے پھٹے کپڑے دیکھ کر ایمان پہ غم و غصے سے لرزا طاری ہوا تھا۔۔۔اپنی مٹھیاں بھینچے ضبط کرتے وہ چلا کو بولی تھی۔۔۔
              " قاسم۔۔۔۔"
              مہدیہ نے چادر ٹھیک کرتے سسکتے ہوئے یک لفظی جواب دے کر اپنا چہرہ نیچے کیا تھا۔۔۔اس کی بات سن کر ایمان کو لگا کہ اسے غلط فہمی ہوئی ہے سننے میں۔۔۔مہدیہ کو چینج کرنے کا کہ کر پھر دوسرے لمحے وہ غصے سے روم سے نکلی تھی۔۔۔
              " احتشام شاہ کیا کہ رہا ہے۔۔۔کیا کیا ہے تم نے۔۔۔"
              اکرام صاحب قاسم کے سر پہ کھڑے ہوتے غرا کر بولے۔۔۔
              " یہ کیا کیا ہے تم نے۔۔۔شرم نہیں آئی تمہیں مہدیہ کے ساتھ ایسی گری ہوئی حرکت کرتے۔۔۔نفرت ہو رہی ہے مجھے خود سے۔۔۔یہ سوچ کر کہ تم جیسا جانور میرا بھائی ہے۔۔۔"
              قاسم کے کوئی جواب دینے سے پہلے ہی ایمان اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی اور ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے گال پہ جڑا تھا۔۔۔اپنے گال پہ ہاتھ رکھتے قاسم نے غصے سے اسکی طرف دیکھا تھا۔۔۔
              " دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا۔۔۔کیا کیا ہے اس نے جو تم آپے سے باہر ہو رہی ہو۔۔۔"
              فرحین بیگم نے اسے لتاڑا تھا۔۔۔
              " رئیلی ماما۔۔۔آپکو ابھی بھی سمجھ نہیں آ رہی کیا۔۔۔رات کے ایک بجے یہ گیسٹ روم میں کیا لینے آیا تھا۔۔۔
              مہدیہ کی عزت پہ ہاتھ ڈالا ہے اس نے۔۔۔جائیں جاکے دیکھیں کہ کیا حالت کی ہے اس جانور نے اس کی۔۔۔"
              ایمان نم آنکھیں لیے چلا کر بولی تھی۔۔۔
              اسکی بات پہ سب نے بے یقینی سے قاسم کی طرف دیکھا تھا۔۔۔اکرام صاحب صدمے سے گرنے کے سے انداز میں بیڈ پہ بیٹھ گئے۔۔۔ایمان کی بات سن کر طلحہ نے آگے بڑھ کر قاسم کو جھنجوڑتے ہوئے دو تین تھپڑ اس کے چہرے پہ لگائے تھے۔۔۔
              " بس۔۔۔بہت ہوگیا۔۔۔آپ سب کو جس کے لیے اتنی ہمدردی کا بخار چڑھ رہا ہے جانتے ہیں اس کی اصلیت کیا ہے۔۔۔
              جسے اپنی بھانجی بتا کر رضوانہ بوا نے ہم سب سے متعارف کروایا ہے وہ اصل میں لاہور کی ایک جانی مانی طوائف ہے۔۔۔اور یہ جو اس کے پیٹ میں بچہ پل رہا ہے اس کے شوہر کا نہیں بلکہ کوٹھے سے کسی نشانی لیے پھر رہی ہے۔۔۔
              یہ جب سے یہاں آئی ہے بہانے بہانے سے مجھے بہکانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔میں بھی بندہ بشر ہوں اگر بہک گیا تو اس میں میرا کیا قصور۔۔۔"
              قاسم نے طلحہ کا ہاتھ روکتے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے مبالغہ آرائی سے کام لیتے کہا۔۔۔
              " کیا طوائف۔۔۔۔اتنے دنوں سے رضوانہ بوا ہماری آنکھوں میں دھول جھونک رہی تھیں۔۔۔یقیناً رضوانہ بوا بھی وہیں کی ہوں گی۔۔۔انکی آپس میں رشتے داری ہوگی۔۔۔جبھی تو یہ انکے پاس آئی۔۔۔اور پھر رضوانہ بوا سے اتنے سالوں سے نہ کوئی ملنے آیا نہ یہ کسی سے ملنے گئیں۔۔۔نہ کوئی عزیز نہ رشتے دار۔۔۔
              یاالّٰلہ اتنے سالوں سے کیسا بیوقوف بنایا ان لوگوں نے ہمیں۔۔۔کمبخت ماری۔۔۔ہے کدھر یہ۔۔۔"
              فرحین بیگم اپنا سر پیٹتے خود سے ایک اور نئ کہانی بناتے بولیں۔۔۔قاسم کی بات پہ ایمان سمیت جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔۔۔سب کی اس قدر خاموشی کو محسوس کرتے قاسم نے سکھ کا سانس لیا تھا کہ جان چھوٹ گئ۔۔۔
              " دفعہ ہوجاؤ یہاں سے۔۔۔بد ذات۔۔۔اپنا ضروری سامان اٹھاؤ اور ابھی کے ابھی نکلو یہاں سے۔۔۔تمہارا ناپاک وجود اب ایک منٹ برداشت نہیں کر سکتی اپنے گھر میں۔۔۔"
              فرحین بیگم تن فن کرتی مہدیہ کو اس کے روم سے گھسیٹ کر باہر لائیں اور سب کے بیچ میں زور سے زمین پہ دھکا دیتے کہا۔۔۔
              " کیا کر رہی ہیں آپ۔۔۔آپ ہوش میں تو ہیں۔۔۔جانتی بھی ہیں کہ وہ کس حالت میں ہے پھر بھی۔۔۔"
              اس سے پہلے کہ وہ زمین بوس ہوتی احتشام شاہ نے تیزی سے آگے بڑھ کر اسے تھاما تھا خشمگیں لہجے میں فرحین بیگم کی طرف دیکھتے بولا تھا۔۔۔پھر مہدیہ کو دونوں کندھوں سے تھام کر چئیر پہ بٹھا دیا۔۔۔مہدیہ کو بٹھاتے وقت احتشام شاہ کی نظریں اس کے چہرے پہ پڑیں تو اس کو وہ چہرہ بہت شناسا سا لگا تھا۔۔۔
              " تمہیں ہمدردی کا اتنا بخار چڑھ رہا ہے تو لے جاؤ اسے اپنے ساتھ مگر اس غلاظت کی پوٹلی کو مزید اپنے گھر پہ برداشت نہیں کروں گی میں۔۔۔"
              فرحین بیگم نے نفرت سے مہدیہ کی طرف دیکھتے کہا تھا۔۔۔
              " کہیں نہیں جائے گی یہ۔۔۔"
              کب سے گم صم بیٹھے اکرام صاحب نے چپ کا روزہ توڑتے دو ٹوک لہجے میں کہا۔۔۔
              " میں تم سے ہاتھ جوڑ کر قاسم کے کیے کی معافی مانگتا ہوں بیٹا۔۔۔معاف کردو ہمیں۔۔۔"
              اکرام صاحب نے اٹھ کر مہدیہ کے سر پہ شفقت سے ہاتھ رکھتے دلگیر لہجے میں کہا۔۔۔احتشام شاہ کی نظریں ابھی بھی مہدیہ پہ جمی ہوئی تھیں۔۔۔چھوٹی ماں۔۔۔وہ زیر لب بڑبڑایا تھا۔۔۔اور پھر نظر پلٹنا بھول گیا تھا
              " یہ کیا کہ رہے ہیں آپ۔۔۔آج اس نے قاسم کو بہکایا ہے۔۔۔کل کو طلحہ کے پیچھے پڑ جائے گی۔۔۔پھر آپ کے۔۔۔ان طوائفوں کا تو کام ہی یہی ہے۔۔۔گھروں کو اجاڑنا پیسہ بٹورنا۔۔۔میں یہ سب اپنے گھر نہیں ہونے دوں گی۔۔۔اسے یہاں سے جانا ہوگا۔۔۔"
              فرحین بیگم نے بھی دوٹوک انداز اپنایا تھا۔۔۔مہدیہ اپنی جگ بیٹھی لرز رہی تھی۔۔۔احتشام شاہ کے اندر آندھیاں سی چلنے لگی تھیں۔۔۔اسکا پورا وجود جیسے کسی طوفان کی زد میں آیا تھا۔۔۔
              خوشی ، بے یقینی کے جزبات سے لبریز وہ نم انکھیں لیے مہدیہ کو تک رہا تھا۔۔۔
              " آپ کو یہ کہاں سے طوائف لگتی ہے فرحین بیگم۔۔۔مجھے تو نہیں لگتی۔۔۔کیا طوائفیں ایسی ہوتی ہیں۔۔۔دیکھو غور سے اسے۔۔۔جس دن سے یہاں آئی ہے کبھی اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلی۔۔۔کبھی آج تک اس کے سر سے کسی نے دوپٹہ اترا نہیں دیکھا۔۔۔
              اگر بہکانے کی بات ہوتی تو یہ قاسم کو نہیں اس گھر کے مالک کو مجھے بہکاتی اور پیسہ بٹورتی۔۔۔اس کی حالت دیکھو فرحین بیگم۔۔۔طوائفیں یوں مار نہیں کھاتیں جس طرح سے اپنی عزت بچانے کے لیے اس نے کھائی ہے۔۔۔اور نہ ہی طوائفیں خود کو بچانے کے لیے چیختی چلاتی ہیں۔۔۔
              یہ کیا ہے۔۔۔کہاں سے آئی ہے۔۔۔مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں۔۔۔میرے لیے یہی حوالہ بہت ہے کہ رضوانہ بہن نے اسے اپنی بھانجی کہا ہے۔۔۔
              اور رہی رضوانہ بوا کی بات تو یہ جو آپ گردن اکڑا کر سوسائٹی میں موو کر رہی ہیں اور آپکے بچے عیاشی بھری زندگی گزار رہے ہیں یہ سب رضوانہ بوا کے خاندان کے مرہون منت ہے۔۔۔آپکی کیا اوقات تھی کئ سال پہلے آپ کیا تھیں وہ آپ باخوبی جانتی ہیں۔۔۔
              آپ کو ہمیشہ گلہ رہا کہ میں رضوانہ بوا کو اتنی اہمیت کیوں دیتا ہوں۔۔۔
              جانتی ہیں وہ کون ہیں۔۔۔
              رضوانہ بوا سلطان ملک کی سالی ہیں۔۔۔یاد تو ہوگا آپکو کہ میں کس سلطان ملک کی بات کر رہا ہوں۔۔۔"
              اکرام صاحب نے ہر لفظ چبا چبا کر طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔فرحین بیگم ہق دق آنکھیں پھاڑے اکرام صاحب کی طرف دیکھنے لگیں۔۔۔
              " رضوانہ بوا کے خاندان کی تم اور تمہاری اولاد ساری عمر بھی جوتیاں سیدھی کرتی رہے فرحین بیگم تو انکے اس احسان کا بدلہ نہیں اتار سکو گے جس کی بدولت آج تم سب لوگ سر اٹھا کر جی رہے ہو۔۔۔
              اگر سلطان ملک اس وقت ہماری مدد نہ کرتا تو آج تم سب لوگ سڑکوں پہ بھیک مانگ رہے ہوتے۔۔۔اس عالیشان گھر میں رہنے کی بجائے کسی جھگی میں رہ رہے ہوتے۔۔۔
              جس روز رضوانہ بوا سے پہلی بار میں سر راہ اچانک ملا تھا انکو دیکھ کر مجھے شک ہوا کہ یہ سلطان ملک کی سالی ہیں۔۔۔سلطان ملک کی زندگی میں جب ایک دو بار انکے گھر گیا تو رضوانہ بہن سے وہیں انکے گھر ہی ہمارا آمنا سامنا ہوا تھا وہ تو شائد مجھے پہچان نہیں سکیں مگر میں پہلی نظر میں ہی انکو پہچان گیا تھا۔۔۔اپنے شک کی تصدیق کے لیے پھر ایک دن انکی غیر موجودگی میں انکے گھر گیا تو تلاشی کے دوران میرے ہاتھ ایک پرانا البم لگا جس نے میرے شک کی تصدیق کردی میں کچھ لوگوں سے کہ کر انکے بارے میں معلومات کروائیں تو پتہ چلا کہ میرا دوست میرا ہمدرد میرا یار سلطان ملک اپنی بیوی بچے سمیت ایک ایکسیڈنٹ کا شکار ہو کر اس دنیا سے چل بسا تھا۔۔۔رضوانہ بوا انتہائی خوددار خاتون تھیں میں انکی مالی مدد کرنا چاہتا تو وہ کبھی قبول نہ کرتیں فاطمہ نوکری کے لیے در بدر ہو رہی تھی۔۔۔مجھ سے یہ دیکھا نہ گیا میں یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ انکی عزت نفس مجروح ہو تو ایک دن انکے محلے کے ایک آدمی کے ذریعے انکے کانوں تک اپنے گھر میں پرکشش تنخواہ پہ ایک خانساماں کی ضرورت کی بات پہنچائی۔۔۔تب سے رضوانہ بوا ہمارے گھر پہ کام کر رہی ہیں۔۔۔
              خاندانی لوگ اپنے محسنوں کو کبھی نہیں بھولتے۔۔۔ اور آپ فرحین بیگم۔۔۔کاش کہ آپ نے اپنے ماضی کو یاد رکھا ہوتا۔۔۔خدا نے آپکو کہاں سے اٹھا کر کہاں بٹھا دیا یہ یاد رکھا ہوتا تو آپ ہر دم الّٰلہ کا شکر ادا کرتیں آپکے اندر یہ فرعونیت جنم نہ لیتی۔۔۔
              قاسم میں نے تو مہدیہ اور فاطمہ کو اپنی بیٹی کہا تھا۔۔۔رضوانہ بوا کو سب کے سامنے اپنی بہن مانا تھا۔۔۔کچھ اور نہیں تو اس رشتے کا ہی لحاظ کر لیتے۔۔۔منہ بولا ہی سہی مگر تمہارے باپ نے انکے ساتھ ایک رشتہ جوڑا تھا۔۔۔اس حساب سے تو مہدیہ تمہاری بھی بہن ہوئی۔۔۔
              روز قیامت کیا منہ دکھاؤں گا میں اپنے محسن کو۔۔۔میرے ہی گھر میں اسکے خاندان کے ساتھ ایسا سلوک۔۔۔یاالّٰلہ یہ کیا ہوگیا۔۔۔
              فرحین بیگم آپکی لالچی طبیعت ، نمود و نمائش ، تنگ نظری نے میرے گھر کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔۔۔دیکھیں ذرا اپنے اس بیٹے کی طرف آپ کی ڈھیل نے آپکی تربیت نے آپکے اس بیٹے کو ایک جانور بنا دیا ہے۔۔۔
              اپنی ان بیٹیوں کو دیکھیں آپکے نقش قدم پہ چلتے اپنی زندگیوں کو کیسے برباد کر بیٹھی ہیں۔۔۔
              کاش کہ ان بچوں کی غلطیوں کی پردہ پوشی کرنے کی بجائے انکے غلط کاموں پہ چپ رہ کر انکا ساتھ دینے کی بجائے آپ نے انکے دو تھپڑ لگائے ہوتے۔۔۔
              غلط کو غلط کہا ہوتا تو آج نہ آپکی بیٹیوں کے گھر اجڑے ہوتے نہ آپ کا یہ بیٹا جانور بنا ہوتا۔۔۔
              گھر انسانوں کے رہنے کے لیے بنائے جاتے ہیں جانوروں کے رہنے کے لیے نہیں۔۔۔اس لیے میرے گھر میں کسی جانور کہ کوئی جگہ نہیں ہے۔۔۔اپنے اس بیٹے سے کہو کہ صبح مجھے یہ اس گھر میں نظر نہ آئے۔۔۔آج سے میں اپنا ہر رشتہ اس سے ختم کرتا ہوں۔۔۔
              اور جس کو میرے فیصلے پہ اعتراض ہے وہ بھی اد کے ساتھ جا سکتا ہے۔۔۔"
              اکرام صاحب گلوگیر لہجے میں کہا وہ نہ تو مہدیہ کے سامنے نظر اٹھا پا رہے تھے اور نہ احتشام شاہ کے سامنے۔۔۔۔سچ جان کر رضوانہ بوا پہ کیا گزرے گی یہ سوچ ہی انکو اندر سے مارے دے رہی تھی۔۔۔انکی طبیعت خراب ہونے لگی تو وہ سینے پہ ہاتھ رکھے وہیں بیڈ پہ ڈھے گئے۔۔۔فرحین بیگم کا تو یہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔۔۔
              " بابا۔۔۔بابا کیا ہوا ہے آپکو۔۔۔آپکی طبیعت ٹھیک ہے ناں۔۔۔ڈاکٹر۔۔۔۔کو فون کرو۔۔۔جلدی۔۔۔۔"
              اکرام صاحب کی طبیعت خراب ہوتے ہی کمرے میں کہرام مچا تھا ایمان ، فرحین بیگم اور باقی سب بھی تیزی سے انکی طرف بڑھے تھے۔۔۔
              " ٹھیک ہوں میں۔۔۔کچھ نہیں ہوا مجھے۔۔۔فرحین بیگم اس سے کہو کہ یہ چلا جائے یہاں سے۔۔۔نکل جائے میرے گھر سے۔۔۔"
              اکرام صاحب بدقت بولے تھے۔۔۔انکی طبیعت کے پیش نظر سب نے قاسم کو روم سے فلحال جانے کو کہا تو وہ تھکے تھکے قدموں سے باہر نکلتا چلا گیا۔۔۔
              " احتشام بیٹا میں تمہارا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گا۔۔۔قاسم کی بدتمیزی کے لیے میں تم سے بھی معافی مانگتا ہوں۔۔۔معاف کردو۔۔۔"
              اکرام صاحب نے احتشام شاہ کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے۔۔۔تو احتشام شاہ نے شرمندہ ہوتے انکے ہاتھ تھام کر ان پہ بوسہ دیا تھا۔۔۔بے شک اکرام صاحب ایسے انسان تھے کہ دل سے انکی عزت کی جاتی انکا احترام کیا جاتا۔۔۔
              " ماما۔۔۔۔۔"
              فرحین بیگم اچانک مہدیہ کے سامنے زمین پہ دوزانو بیٹھ گئیں تھیں۔۔۔انھوں نے مہدیہ کے سامنے ہاتھ جوڑے ہوئے تھے۔۔۔سر ندامت سے جھکا ہوا۔۔۔گالوں پہ خاموش آنسو بہ رہے تھے۔۔۔
              انکو اس حال میں دیکھ کر سب بچوں کے منہ سے بے اختیار نکلا تھا۔۔۔جبکہ مہدیہ حیران پریشان انکی طرف دیکھنے لگی۔۔۔فرحین بیگم کے دل سے ہر قسم کی کثافت دھل چکی تھی۔۔۔آج پھر سے فرحین بیگم صاحبہ سے وہ اکرام صاحب کی فری بن چکی تھیں۔۔۔وہی فری جس کے دل میں ہر شخص کے لیے محبت تھی نرمی تھی۔۔۔رحم تھا۔۔۔
              اکرام صاحب نے آج سالوں بعد بہت محبت پاش نظروں سے انکی طرف دیکھا تھا۔۔۔
              ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤​

              Comment


              • #87
                Episode , 58
                " کیا بات ہے بھیا۔۔۔سب ٹھیک تو ہے ناں۔۔۔آپکی طبیعت تو ٹھیک ہے۔۔۔"
                مہرالنساء کے جانے کے بعد صارم شاہ کو ایک نئ فکر لاحق ہوئی تھی۔۔۔تمام حالات کو سوچتے ہوئے اس کا دھیان اپنی فیملی کی طرف گیا کہ اسکے جانے کے بعد کیا ہوگا اگر دلاور حویلی میں آ گھسا تو۔۔ وہ یہ سوچ کر بے چین ہو اٹھا اپنی فیملی کو خطرے میں چھوڑ کر بنا بتائے جانا کسی صورت بھی ٹھیک نہیں تھا۔۔۔اسی بے چینی میں اس نے احتشام شاہ کو کال ملائی تاکہ ساری صورت حال سے اسے آگاہ کرسکے مگر نیٹ پروبلم کی وجہ سے بار بار ٹرائی کرنے کے باوجود بھی وہ رابطہ کرنے میں ناکام رہا۔۔۔
                اب شرجیل کو ساری بات سے آگاہ کرنے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں بچا تھا اس نے شرجیل کے نمبر پہ کال بیل کرنے کے ساتھ میسج کیا تھا کہ اس کے روم میں آؤ جلدی۔۔۔
                صارم شاہ کی کال اور پھر میسج دیکھ کر فجر اور شرجیل پریشان ہو اٹھے اور اسی پریشانی میں اٹھ کر بنا شوز پہنے تیزی سے اس کے کمرے میں تقریباً بھاگتے ہوئے داخل ہوئے جہاں صارم شاہ روم ڈور کھولے بیٹھا ان کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔سب سے پہلے روم میں فجر داخل ہوئی تھی اسکے ساتھ ہی اس کے پیچھے شرجیل اندر آیا تھا۔۔۔فجر نے اندر آتے ہی صارم شاہ کا سر تا پیر جائزہ لیتے فکرمندی سے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے پوچھا تھا۔۔۔پھر صارم شاہ نے مہرالنساء کے آنے کی بابت سب بتایا تو وہ گم صم سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔۔۔
                " صارم یہ ٹھیک نہیں ہے یار۔۔۔اس طرح سے عائلہ کو گاؤں سے لے کر نکلنا اس معاملے کو اور خراب کردے گا۔۔۔اوپر سے تمہاری طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے۔۔۔
                عائلہ کی عزت پہ اس کے کردار پہ جو حرف آئے گا وہ الگ۔۔۔ساری عمر اس کے ماتھے پہ یہ کسی داغ کی صورت چھپ جائے گا کہ وہ اپنی شادی کی رات گھر سے کسی کے ساتھ بھاگ گئ۔۔۔اور یہ بات نسلوں تک جائے گی۔۔۔مت کر یار ایسا۔۔۔
                تم عائلہ کو یہاں حویلی لے آؤ یہاں تم دونوں کا نکاح پڑھوا دیں گے پھر دلاور کچھ نہیں کر پائے گا۔۔۔"
                شرحیل نے اس خاموشی کو توڑتے مدبرانہ لہجے میں صارم شاہ کو سمجھاتے کہا۔۔۔
                " شرجیل تم جتنا اس بات کو ہلکا لے رہے ہو وہ ہے نہیں جتنا میں اب تک اس کو جان پایا ہوں اور جو میں نے اس کے متعلق معلومات کروائیں ہیں ان کے مطابق بہت سے لوگوں کو انتہائی بے دردی سے قتل کر چکا ہے دو سال جیل کاٹ چکا ہے۔۔۔ایک پورا گینگ ہے جسکا وہ سرغنہ ہے۔۔۔ایسے شخص کے منہ سے نوالہ چھیننے سے تمہیں کیا لگتا ہے کہ وہ آرام سے بیٹھے گا۔۔۔کبھی نہیں۔۔۔ہم لوگ منظر سے غائب ہو جائیں گے تو کسی کو کوئی نقصان نہیں پنہچائے گا۔۔۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ الّٰلہ کوئی راہ نکال دے۔۔۔میرے جانے کے بعد جب تک احتشام بھائی نہیں آ جاتے تم یہیں رکنا۔۔۔اور ہر ممکن کوشش کرنا کہ اگر دلاور سے سامنا ہو تو اپنے غصے اور جزبات کو قابو میں رکھنا۔۔۔باقی فون پہ رابطہ رکھوں گا میں تم سے۔۔۔ماما ، فجر اور اس حویلی کے باقی تمام افراد کو تمہارے حوالے کر کے جا رہا ہوں۔۔۔اپنا اور ان سب کا خیال رکھنا۔۔۔"
                صارم شاہ نے اٹھتے ہوئے کہا فجر نم آنکھیں لیے صارم شاہ کو خدا حافظ کہتے اس کے گلے لگی تھی۔۔۔
                " بھیا ماما سے نہیں ملیں گے۔۔۔"؟
                فجر نے حیرانی سے پوچھا کہ اس نے اپنی گفتگو میں کہیں بھی ہائمہ خاتون سے ملنے کا ذکر نہیں کیا تھا۔۔۔
                " نہیں۔۔۔اگر ماما سے ملا تو وہ جانے کی اجازت نہیں دیں گی۔۔۔اور تم جانتی ہو اگر ماما نے منع کردیا اور اجازت نہ دی تو جا نہیں پاؤں گا۔۔۔ماما کے حکم کے آگے مجھے خالہ مہرالنساء سے کیا وعدہ توڑنا پڑے گا۔۔۔اور میں یہ بھی نہیں کرنا چاہتا اس لیے میرے جانے کے بعد ماما کو سب بتا دینا اور یہ بھی کہنا کہ مہرالنساء خالہ دروازے پہ سوالی بن کر آئیں تھیں۔۔۔ان کا بیٹا شاہوں کی روایت کو قائم رکھتے سوالی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹا سکا۔۔۔اس لیے چلا گیا۔۔۔"
                صارم شاہ نے پرملال لہجے میں کہا صارم شاہ کی زندگی کا یہ پہلا دن تھا جب وہ ماں سے ملے بنا کہیں جا رہا تھا۔۔۔آج تک کہیں بھی جانے سے پہلے وہ اپنی ماں کی دعا لیے بنا کبھی نہیں نکلا تھا۔۔۔مگر زندگی کی سب سے بڑی خوشی جب اسے ملنے جا رہی تھی تب نہ ماں ساتھ تھی نہ ماں کی دعائیں۔۔۔
                " مگر جا کہاں رہے ہو۔۔۔یہ تو بتا دو۔۔۔احتشام بھائی یا خالو جان نے آ کر پوچھا تو کیا جواب دوں گا ان کو کہ کہاں گئے ہو تم۔۔۔"؟
                شرجیل نے فکرمندی سے پوچھا۔۔۔
                " فکر مت کرو۔۔۔میرے ایک دوست سے میری بات ہو چکی ہے اسی کے پاس رکیں گے۔۔۔اس کے بعد صبح ہوتے ہی وہ ٹکٹ کروا دے گا اور کراچی اپنے ایک اور دوسرے دوست کے پاس۔۔۔آگے جو الّٰلہ کو منظور۔۔۔"
                صارم شاہ نے رسانیت سے کہا۔۔۔
                " تم ہمارے آبائی گاؤں میں یا اسلام آباد اپنے فارم ہاؤس پہ کیوں نہیں چلے جاتے۔۔۔ایسے کبھی کہیں کبھی کہیں عائلہ کے ساتھ پھرنا ٹھیک نہیں ہے۔۔۔"
                شرجیل نے کہا۔۔۔
                " نہیں جا سکتا یار۔۔۔ہمارے غائب ہوتے ہی وہ سب سے پہلے ہمارے عزیز و اقارب اور ہمارے زیر رہائش جگہوں پہ ہی ہمیں تلاش کروائے گا۔۔۔اور میں نہیں چاہتا کہ ہماری وجہ سے کوئی بھی مصیبت میں آئے۔۔۔"
                شرجیل کو جواب دے کر صارم شاہ اپنی والدہ کے روم میں گیا ایک نظر انکو دیکھنے کے بعد فجر اور شرجیل سے مل کر انکو خدا حافظ کہ کر اپنی گاڑی لے کر حویلی سے نکل گیا۔۔۔
                مہرالنساء خاتون عائلہ کو لے ٹھیک دس بجے مقرر کردہ جگہ پہ موجود تھیں۔۔۔ڈھیروں دعاؤں کے سائے تلے مہرالنساء خاتون نے اپنی بیٹی کو صارم شاہ کے حوالے کیا تو عائلہ پھوٹ پھوٹ کر رودی۔۔۔
                " پریشان مت ہو بیٹا۔۔۔الّٰلہ نے چاہا تو سب ٹھیک ہو جائے گا اور بہت جلد ملیں گے ہم۔۔۔تم دونوں کو میں نے الّٰلہ کی امان میں دیا۔۔۔جاؤ الّٰلہ کے حوالے۔۔۔"
                مہرالنساء خاتون رقت بھرے لہجے میں بولیں باری باری عائلہ اور صارم شاہ کی پیشانی پہ بوسہ دیتے انھیں رخصت کیا۔۔۔صارم شاہ نے عائلہ کے لیے گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولا مگر وہ پچھلی سیٹ پہ جا کر بیٹھ گئ۔۔۔جب تک انکی گاڑی نظروں سے اوجھل نہیں ہوئی ہائمہ خاتون نظریں گڑائے انھیں دیکھتی رہیں۔۔۔
                " عائلہ جی پلیززز چپ کر جائیں۔۔۔آپکا یوں رونا بہت تکلیف دے رہا ہے مجھے۔۔۔آپکو یوں روتے دیکھ کر میں ڈرائیو نہیں کر پا رہا۔۔۔"
                رات کے اس ٹائم سڑکوں پہ ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی اسی وجہ صارم شاہ تیز ڈرائیونگ کرتا بہت جلد گاؤں کو بہت پیچھے چھوڑ آیا تھا۔۔۔اسے ڈرائیو کرتے ایک گھنٹہ ہونے کو تھا مگر عائلہ ابھی تک گاڑی میں بیٹھی سسک رہی تھی۔۔۔صارم شاہ وقتاً فوقتاً اسے چپ کر جانے کی التجا کر رہا تھا۔۔۔مگر عائلہ کے رونے میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔۔۔عائلہ کے آنسو اسے اپنے دل پہ گرتے محسوس ہو رہے تھے۔۔۔
                " عائلہ جی پلیززز آگے آ جائیں۔۔۔سامنے پولیس کا ناکہ لگا ہے رات کے اس ٹائم آپکو پیچھے بیٹھے دیکھ کر اور آپکے رونے کی وجہ سے ہم کسی مصیبت میں نہ پڑ جائیں یہ بھی ممکن ہے کہ دلاور کو ہمارے نکلنے کی خبر ہو چکی ہو اور یہ سب اسی کے کہنے پہ ہو رہا ہو۔۔۔پلیززز آگے آ جائیں۔۔۔"
                وہ لوگ جیسے ہی مین روڈ پہ آئے تو کچھ فاصلے پہ پولیس کا ناکہ لگا ہوا تھا جو ہر گاڑی کی تلاشی کے بعد اسے آگے جانے دے رہے تھے۔۔۔صارم شاہ نے دو منٹ سوچ کر ان سے کافی فاصلے پہ گاڑی روک کر عائلہ کو آگے آنے کا کہا تھا۔۔۔عائلہ ایک نظر سامنے ڈال کر خاموشی سے فرنٹ سیٹ پہ آکے بیٹھ گئ۔۔۔
                " اوئے رات کے اس ٹائم کہاں جا رہے ہو تم۔۔۔اور یہ لڑکی کون ہے۔۔۔"؟
                صارم نے سوچا کہ وہ ایک سائیڈ سے نکل جاتا ہے۔۔۔مگر جیسے ہی انکی گاڑی چیک پوسٹ کے قریب پہنچی ان لوگوں کو بھی گاڑی روکنے کا اشارہ کیا گیا۔۔۔گاڑی رکتے ہی ایک کانسٹیبل ٹارچ کی روشنی میں انکی گاڑی کی تلاشی لینے لگا پھر ٹارچ کی روشنی ان دونوں کے چہروں پہ ڈالی تو اسکی نظر عائلہ کے چہرے پہ پڑی۔۔۔ مکمل حجاب میں ہونے کے باوجود اسکی سوجی ہوئی سرخ آنکھیں اس کے رونے کی چغلی کھا رہی تھیں۔۔۔اس نے مشکوک نظروں سے پہلے صارم شاہ اور پھر عائلہ کی طرف دیکھتے پوچھا تھا۔۔۔
                " بیوی ہے میری۔۔۔کیوں کوئی مسلہ ہے آپکو۔۔۔اور یہ کہاں لکھا ہے کہ رات کے اس وقت کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ نہیں نکل سکتا۔۔۔"
                صارم شاہ کے تیکھے لہجے میں بولنے پہ کانسٹیبل گڑبڑا کر رہ گیا۔۔۔صارم شاہ یہ سوچ کر کہ اگر سچ میں یہ دلاور کے کہنے پہ ناکہ لگا ہوا ہے تو وہ لوگ برے پھنس سکتے ہیں اس لیے چاہ کر بھی اپنا تعارف نہیں کروا پایا۔۔۔جبکہ اس کے بیوی کی حیثیت سے تعارف کروانے پہ عائلہ اپنی سیٹ پہ بیٹھی مزید سمٹ کر رہ گئ۔۔۔
                " منع نہیں ہے بادشاہو۔۔۔یہ رستہ کافی سنسان ہوتا ہے اس وقت۔۔۔اس لیے عورت ذات کے ساتھ نکلنا عقلمندی نہیں ہے۔۔۔ویسے سب ٹھیک ہے ناں۔۔۔میڈم جی کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔۔"؟
                کانسٹیبل نے صارم شاہ کے تلخ لہجے میں جواب دینے پہ اب کے ذرا نرم انداز میں مگر شک سے بھرے لہجے میں عائلہ کی طرف دیکھ کر پوچھا۔۔۔
                " ہاں ٹھیک ہے سب۔۔۔میری بیگم کا ابھی کچھ دن اور رہنے کا موڈ تھا میکے میں مگر میں لے آیا۔۔۔بس اسی بات پہ سارا راستہ روتی آئی ہیں۔۔۔آپکو تو پتہ ہی ہے جی کہ چاہے جتنا مرضی میکے جا کے رہ لیں مگر بیویوں کا دل نہیں بھرتا۔۔۔کیوں بیگم جی میں ٹھیک کہ رہا ہوں ناں۔۔۔"؟
                صارم شاہ نے اپنی بات میں مزاح کا رنگ بھرتے ہلکے پھلکے لہجے میں کہ کر لاسٹ میں عائلہ کو بھی بیچ میں گھسیٹا تو وہ اپنی جگہ پہلو بدل کر رہ گئ اور منہ موڑ کر باہر کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔
                جبکہ وہ کانسٹیبل صارم شاہ کی بات پہ قہقہ مار کر ہنسا تھا۔۔۔
                " ٹھیک کہ رہے ہو جی۔۔۔میری بیگم کا بھی یہی حال ہے۔۔۔مگر کیا کریں جی کہ بیگموں کو خوش رکھنا پڑتا ہے۔۔۔ادھر ذرا سا بیگم کا موڈ خراب ہوا یا ناراض ہوئی تو ادھر بندے کی زندگی بے سکون ہوئی۔۔۔"
                کانسٹیبل کوئی انتہائی باتونی قسم کا شخص تھا وہ اور بھی نہ جانے کیا کیا بول رہا تھا۔۔۔جب اسے پتہ چلا کہ انکی نئ نئ شادی ہوئی ہے تو وہ صارم شاہ کو گھر میں سکون رکھنے اور بیگم کو خوش رکھنے کے آزمودہ طریقے بتانے لگا۔۔۔عائلہ اور صارم شاہ کا دل چاہا کہ اس کانسٹیبل کے منہ پہ ٹیپ لگا دیں۔۔۔
                " جناب اگر آپکی تلاشی مکمل ہو گئ ہو تو کیا ہم جا سکتے ہیں۔۔۔"؟
                صارم شاہ نے اکتائے لہجے میں کہا تو کانسٹیبل نے اپنے باقی ساتھیوں کو ہاتھ سے مخصوص اشارہ کر کے اوکے کا سگنل دیتے انھیں جانے کا کہا صارم شاہ نے گاڑی آگے بڑھا دی۔۔۔صارم شاہ ڈرائیو کرتے کن اکھیوں سے بیچ بیچ میں عائلہ پہ بھی ایک نظر ڈال لیتا۔۔۔جو اپنے ہاتھوں کی انگلیاں چٹخاتے اضطرابی کیفیت میں بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔
                " کیا بات ہے کچھ کہنا ہے کیا۔۔۔جو بھی دل میں بات ہے آپ بلا جھجک کہ سکتی ہیں۔۔۔"
                صارم شاہ نے اسکی طرف دیکھتے مسکرا کر کہا۔۔۔
                " آپ نے کانسٹیبل سے کیوں کہا کہ میں آپکی بیوی ہوں آپ کچھ اور بھی تو کہ سکتے تھے۔۔۔"
                عائلہ نے جزبز ہوتے کہا۔۔۔
                " مثلاً۔۔۔"
                صارم شاہ اس کی کیفیت سے محظوظ ہوتے آنکھیں سکیڑے بولا۔۔۔
                " مثلاً۔۔۔کزن ، رشتے دار کچھ بھی۔۔۔"
                عائلہ صارم شاہ کے اس کی طرف مسکرا مسکرا کر دیکھنے پہ جھنجلا کر بولی۔۔۔
                " اوہ۔۔۔رئیلی۔۔۔جانتی ہیں اگر میں اس قسم کی کوئی بھی بات کرتا تو ہم لوگ اس وقت تھانے میں بیٹھے ہوتے کہ آدھی رات کو کوئی بھی شریف لڑکی تن تنہا کبھی کسی نامحرم کے ساتھ سفر نہیں کرتی چاہے وہ اس کا کزن ہی کیوں نہ ہو۔۔۔اور ویسے بھی یہ جھوٹ تو نہیں ہے۔۔۔فلحال تو نہیں مگر کچھ دیر بعد ہونے والی بیوی تو ہیں ناں۔۔۔"
                صارم شاہ نے اب کے سنجیدگی سے کہا۔۔۔عائلہ اس کی بات پہ لاجواب ہو کر منہ پھیر کر باہر دیکھنے لگی۔۔۔
                " ہم تھوڑی دیر تک پہنچنے والے ہیں۔۔۔پہنچتے ہی سب سے پہلے چند گواہوں کی موجودگی میں ہمارا نکاح ہوگا جس کا انتظام میرا دوست کر چکا ہے ہم لوگ کچھ دیر وہاں رک کر آرام کرنے کے بعد پھر آگے کا سفر کریں گے۔۔۔مہرالنساء خالہ نے آپکو یقیناً سب بتا دیا ہوگا۔۔۔میں اب آگے کا سفر آپکے ساتھ ایک مضبوط رشتے میں بندھ کر کرنا چاہتا ہوں۔۔۔امید ہے آپکو اعتراض نہیں ہوگا۔۔۔"
                کچھ دیر کی خاموشی کے بعد صارم شاہ نے عائلہ کی طرف دیکھتے کہا تاکہ وہ ذہنی طور پہ تیار رہے۔۔۔
                تقریباً ایک گھنٹے کی مزید ڈرائیونگ کے بعد صارم شاہ نے ایک بڑے سے براؤن گیٹ کے سامنے گاڑی روک کر ہارن دیا تو اسی وقت گیٹ کھول دیا گیا۔۔۔رات کے دو بج چکے تھے گیٹ پہ صارم شاہ کے دوست معاذ اور اس کی بیوی شمائل نے ان کا استقبال کیا۔۔۔صارم شاہ کے دوست نے اپنی بیوی کو عائلہ کو اپنے ساتھ اندر لیجانے کو کہا اور وہ خود صارم شاہ کے ساتھ دوسرے روم کی طرف بڑھا جہاں ایک دو لوگ اور بھی موجود تھے۔۔۔
                شمائل نے عائلہ کا ہلکا پھلکا میک اپ کرنا چاہا تو عائلہ نے اسے منع کردیا کہ وہ ایسے ہی ٹھیک ہے۔۔۔عائلہ کا دھیان اپنے گھر والوں کی طرف لگا ہوا تھا نہ جانے دلاور ان کے ساتھ کیا کرے گا۔۔۔ایسے میں کسی چیز کے لیے بھی اس کا دل نہیں مان رہا تھا نکاح کے لیے بھی وہ لگے بندھے تیار ہوئی تھی۔۔۔
                کچھ دیر بعد چند لوگوں کی موجودگی میں نکاح خواں نے ان کا نکاح پڑھا دیا۔۔۔نکاح کے بعد پنک ٹی سے سب کی تواضع کی گئ۔۔۔ان دونوں کو سب نے باری باری مبارک باد دے کر اپنے اپنے گھروں کی راہ لی۔۔۔
                " آ۔۔۔آپ۔۔۔آپ ادھر کیوں آئے ہیں۔۔۔"
                کچھ دیر بعد صارم شاہ اس کے روم میں داخل ہوا تو وہ ہڑبڑا کر اپنی جگہ سے کرنٹ کھا کر کھڑے ہوتے حیرانی سے بولی۔۔۔
                " ادھر نہیں آؤں گا تو اور کدھر جاؤں گا۔۔۔اور ویسے بھی سیچوئیشن کے حساب سے تو مجھے ادھر ہی ہونا چاہیے۔۔۔"
                صارم شاہ نے عائلہ کی طرف گہری نظروں سے دیکھتے مسکراتے لہجے میں کہا۔۔۔اسکی ذو معنی بات پہ اور اپنے اور اس کے درمیان قائم ہوئے اس نئے رشتے کا ادراک اس کے اندر تک ایک سرد لہر دوڑا گیا۔۔۔
                " کک۔۔۔کونسی سیچوئشین۔۔۔پلیززز چھوٹے شاہ میں ابھی کسی نئے رشتے کا بار اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔۔۔آپکے اور میرے بیچ جو رشتہ جڑا ہے اس کو آگے بڑھانے کے لیے مجھے کچھ وقت چاہیے۔۔۔میرا دل اس وقت بہت پریشان ہے۔۔۔میں اس وقت۔۔۔۔"
                عائلہ نے چہرہ جھکائے نظریں زمین میں گاڑے لب کاٹتے بے بس لہجے میں کہا کہ اس کے کانوں میں دروازہ بند ہونے کی آواز پڑی۔۔۔اس نے یکلخت سر اٹھا کر دیکھا تو صارم شاہ روم لاک کرنے کے بعد اسے اپنی نظروں کے حصار میں لیے اسکی طرف بڑھ رہا تھا۔۔۔
                " عائلہ اگر میں باہر گیا تو معاذ اور اس کی بیوی کیا سوچیں گے کہ شائد آپ اس نکاح سے خوش نہیں ہیں۔۔۔آپ اس وقت جس کنڈیشن میں ہیں میں وہ سمجھ سکتا ہوں۔۔۔میرا بھروسہ کریں میں سب ٹھیک کردوں گا۔۔۔مرتے دم تک ہر دکھ سکھ میں آپ کا ساتھ نبھانے کا خود سے عہد کیا تھا۔۔۔اور اب آپ کے سامنے وہ عہد دہرا رہا ہوں کہ آپ کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑوں گا۔۔۔اب صرف موت ہی مجھے آپ سے جدا کر سکتی ہے۔۔۔آج کے بعد آپ کی ہر تکلیف میری تکلیف ہوگی۔۔۔آپ کا ہر دکھ میرا دکھ ہوگا۔۔۔آپ کے سارے دکھ میرے اور میری ساری خوشیاں اب سے آپ کی ہوں گی۔۔۔
                اس لیے اب سے اپنی ہر پریشانی ہر دکھ مجھے دے دیں اور سب بھول جائیں۔۔۔
                رہی بات اس رشتے کو آگے بڑھانے کی تو جب تک آپ نہیں چاہو گی ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔۔"
                صارم شاہ عائلہ کو وارفتگی سے تکتے دھیرے دھیرے اس کی طرف اپنے قدم بڑھانے لگا تو عائلہ اسکی آنکھوں میں جزبات کا سمندر دیکھ کر سراسیمہ ہوتی اپنے قدم پیچھے کو لینے لگی۔۔۔اچانک اسکے مڑتے قدموں کو بریک لگی تھی۔۔۔ پیچھے دیوار آ جانے سے اس کے سب راستے مسدود ہو گئے تو وہ مٹھیاں بھینچے اپنی آنکھیں بند کیے دیوار کے ساتھ لگ گئ۔۔۔اسکی کسی بات کو خاطر میں نہ لاتے صارم شاہ کو آگے بڑھتے دیکھ کر اس کا دل سوکھے پتے کی طرح لرزنے لگا تھا۔۔۔سینے میں دل کی دھک دھک اس قدر بڑھی کہ اس کے ہوش گم ہونے لگے۔۔۔
                صارم شاہ اس کے انتہائی قریب کھڑا ہوکر اس کے دلفریب روپ کو آنکھوں کے رستے دل میں اتارنے لگا۔۔۔پھر اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لے کر اس کے گلابی عارضوں پہ اپنی محبت کی استحقاق بھری مہر لگائی تو عائلہ نے اپنی بند آنکھیں مزید زور سے میچ لیں۔۔۔
                " آپ کو مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔آپ جانتی ہیں میں زبان سے پھرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔۔۔ادھر آ کر کچھ دیر آرام کر لیں۔۔۔معاذ ہماری ٹکٹ کروا چکا ہے۔۔۔صبح 7 بجے کی فلائیٹ ہے ہماری کراچی کے لیے۔۔۔تب تک کچھ دیر ریسٹ کر لیں آ کے۔۔۔"
                صارم شاہ عائلہ کے چہرے پہ خوف کی پرچھائیاں دیکھ کر اس سے دور ہٹ کر بیڈ پہ نیم دراز لیٹ گیا اور اسے بھی ریلیکس ہوکر آرام کرنے کا کہا۔۔۔
                اس کی بات پہ عائلہ کے تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑے تو اس نے دھیرے سے اپنی بند آنکھیں کھول کر ایک نظر دیکھا جو بیڈ کی ایک سائیڈ پہ اس کی طرف سے منہ موڑے لیٹا ہوا تھا۔۔۔
                عائلہ شش و پنج کا شکار ہوتی بیڈ کی طرف دیکھنے لگی جہاں جا کر اسے لیٹنا تھا۔۔۔
                " آ جائیں عائلہ جی۔۔۔ریلیکس رہیں۔۔۔فکر مت کریں کچھ نہیں کروں گا میں۔۔۔ویسے بھی میں نے اپنی ویڈنگ نائٹ کے لیے جو سوچ رکھا تھا نہ یہ جگہ ویسی ہے اور نہ ماحول۔۔۔"
                صارم شاہ نے یونہی پیٹھ موڑے اپنی ہنسی ضبط کرتے کہا تو اس کی اس قدر کھلی بات پہ عائلہ کا چہرہ خون چھلکانے لگا۔۔۔
                وہ آہستہ سے آکر بیڈ کے کنارے ٹک گئ پھر کچھ دیر تک جب دوسری طرف سے کوئی حس و حرکت نہ ہوئی تو وہ اپنی ٹانگیں سمیٹ کر صارم شاہ کی طرف سے کروٹ لے کر لیٹ گئ۔۔۔نیند اس کی آنکھوں سے ابھی کوسوں دور تھی۔۔۔آج جو کچھ ہوا اس سب کے مناظر کسی مووی کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے رواں دواں ہو گئے۔۔۔اسکے دل دماغ پہ پھر سے اداسی ڈیرے جمانے لگی۔۔۔
                ابھی اسے لیٹے بمشکل آدھا گھنٹہ ہی ہوا تھا کہ اسے اپنی کمر پہ انگلیاں رینگتی محسوس ہوئیں۔۔۔
                " عائلہ جی مجھے نیند نہیں آ رہی۔۔۔پلیزز ادھر میری طرف چہرہ کر کے لیٹ جائیں"
                عائلہ نے ہڑبڑا کر فوراً اپنی گردن موڑ کر دیکھا تو صارم شاہ اسکی طرف سائیڈ لیے لیٹا ہوا تھا۔۔۔اس نے اپنا ایک بازو پورا کھولا ہوا تھا۔۔۔جس مطلب کہ وہ اسے اپنے بازو پہ سر رکھ کر لیٹنے کو کہ رہا تھا۔۔۔
                " پلیزززز۔۔۔۔۔۔"
                صارم شاہ نے خمار زدہ لہجے میں کہا اس کی آنکھوں میں تیرتے سرخ ڈورے عائلہ کو نظریں جھکانے پہ مجبور کر گئے۔۔۔منتوں مرادوں سے جس محبوب کو مانگا جائے وہ اس قدر پاس ہو تو نیند کس کافر کو آتی ہے۔۔۔ عائلہ کا مجسم وجود جس کا اب صرف وہی مالک تھا اس کے اتنا قریب اور اتنی ہی بیچ میں دوری تھی اور یہ دوری اس سے سہن نہیں ہو رہی تھی۔۔۔ ملکیت کے احساس نے صارم شاہ کے اندر عجب سرشاری سی بھر دی تھی۔۔۔ہزار کوشش کے باوجود وہ سو نہیں پا رہا تھا۔۔۔اسکی روح عائلہ کے وجود میں گم ہوکر سکون پانے کی متمنی ہو رہی تھی۔۔۔تھک ہار کر صارم شاہ نے عائلہ کو پکارا تھا تھا۔۔۔کچھ وہ اس کا دھیان بھی بھٹکانا چاہتا تھا۔۔۔وہ جانتا تھا کہ اس وقت وہ کس تکلیف دکھ اور پریشانی میں گھری ہوئی تھی۔۔۔اور اس سے نکلنے کا بس ایک ہی طریقہ تھا کہ وہ اس کی ذات میں گم ہو جاتی۔۔۔
                عائلہ نے ایک پل کو اس کی بازو کی طرف دیکھا پھر دھڑکتے دل کے ساتھ اپنے اور اس کے بیچ فاصلہ بنائے صارم شاہ کے بازو پہ اپنا سر رکھ گئ۔۔۔
                " عائلہ جی میں آپ سے کبھی کچھ نہیں مانگوں کبھی کسی بات کے لیے مجبور نہیں کروں گا مگر کبھی بھی یہ برداشت نہیں کروں گا کہ آپ یوں مجھ سے فاصلہ بنا کر لیٹیں۔۔۔میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھیے گا کہ جب بھی میں آپکے پاس ہوں گا آپ اپنا تکیہ استعمال نہیں کریں گی۔۔۔جب آپ بستر پر آئیں گی تو ہمیشہ میرے بازو آپکا تکیہ ہوں گے۔۔۔
                خدا نہ کرے کہ ہم میں جیتے جی کبھی فاصلے آئیں لیکن اگر کبھی کسی بات پہ یا کسی بھی وجہ سے ہمارے بیچ کبھی کوئی ناراضگی ہوئی تو آپ کبھی بھی اپنا بستر الگ نہیں کریں گی۔۔۔آپ ہمیشہ میرے پاس سوئیں گی۔۔۔وعدہ کریں مجھ سے۔۔۔
                جب میاں بیوی اپنے بستر الگ کر لیتے ہیں تو اس وقت صرف انکے بستر الگ نہیں ہوتے بلکہ انکے دل بھی الگ ہو جاتے ہیں۔۔۔انکے درمیان فاصلے پیدا ہونے لگتے ہیں۔۔۔اور میں یہ کبھی نہیں چاہوں گا کہ آپکے اور میرے بیچ کبھی بھی فاصلہ آئے۔۔۔
                عائلہ کے اس کے بازو پہ سر رکھتے ہی صارم شاہ کے اندر تک سکون کی ایک لہر اٹھی تھی۔۔۔یک ٹک وہ اس کے صبیح چہرے کو تکتا رہا۔۔۔پھر نہ جانے کیوں ایک انوکھی فرمائش کر گیا۔۔۔
                " اور اگر کسی دن آپ نے بازو سمیٹ لیا تو۔۔۔"؟
                بے اختیار عائلہ کے منہ سے نکلا تھا۔۔۔پھر اپنی بات پہ شرمندہ ہوتے سختی سے اپنے ہونٹ بھینچ گئ۔۔۔صارم شاہ اس کی بات پہ کھل کے مسکرایا تھا۔۔۔
                " ایسا کبھی نہیں ہوگا۔۔۔آپ میری متاع حیات ہو۔۔۔اور اپنی متاع حیات سے بھلا کون دور رہ سکتا ہے۔۔۔البتہ
                آپ مجھ سے دور ہونا چاہیں گی تو میں ہونے نہیں دوں گا۔۔۔اگر کبھی مجھ سے ناراض ہو کر الگ بستر لگایا تو میں اس بستر کو آگ لگا دوں گا۔۔۔
                نہ خود دور ہوں گا آپ سے اور نہ آپ کو ہونے دوں گا۔۔۔میری یہ بات ہمیشہ یاد رکھیے گا۔۔۔
                صارم شاہ جذبات سے چور لہجے میں عائلہ کی پیشانی پہ بوسہ دیتے بولا تھا۔۔۔اسی وقت اچانک لائٹ آف ہوئی تھی اور عائلہ خوفزدہ ہو کر اسکے ساتھ چمٹی تھی۔۔۔
                " مم۔۔۔مجھے اندھیرے سے ڈر لگتا ہے۔۔۔میں اندھیرے میں نہیں سو پاتی۔۔۔"
                اپنی اس حرکت پہ شرمندہ ہوتے عائلہ روہانسی آواز میں اپنی طرف سے صفائی دیتے بولی تھی۔۔۔
                " یا الّٰلہ تیرا شکر ہے۔۔۔"
                صارم شاہ نے عائلہ کے یوں اس کے ساتھ چمٹنے پہ اسکے گرد اپنے بازوؤں کا گھیرا تنگ کرتے اسے زور سے اپنے سینے میں بھینچتے شوخ لہجے میں ذرا بلند آواز میں کہا تو اسکی بات کا مفہوم سمجھتے عائلہ کے دل کی دھڑکن حد سے سوا ہوئی تھی۔۔۔پورے جسم میں ایک سنسنی سی دوڑی تھی۔۔۔اسکی دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگی تھیں۔۔۔
                " چھ۔۔۔چھوٹے ش شاہ۔۔۔جی۔۔۔پلیززز۔۔۔۔"
                صارم شاہ اس کے وجود کی خوشبو میں مدہوش ہونے لگا اس کے ہاتھ عائلہ کے وجود پر گستاخیاں کرنے لگے تھے۔۔۔تاریک کمرے کی خاموشی میں صرف انکی سانسوں کا شور تھا جسے دونوں باخوبی سن رہے تھے۔۔۔صارم شاہ کا دماغ چیخ چیخ کر اسے خود پہ قابو کرنے کا کہ رہا تھا جبکہ دل باغی ہوکر عائلہ کی قربت میں مزید مدہوش ہو رہا تھا۔۔۔عائلہ نے صارم شاہ کے ہاتھ شرٹ کے نیچے سے اپنی کمر پہ رینگتے پاکر اپنی بےترتیب دھڑکنوں کو سنبھالتے اسے پکارا تھا۔۔۔
                " پریشان مت ہوں مجھے خود کو سنبھالنا آتا ہے۔۔۔میں بس آپکو پیار کرنا چاہتا ہوں۔۔۔اور آپ سے پیار نہ کرنے کا وعدہ نہیں کیا تھا میں نے۔۔۔"
                صارم شاہ نے مخمور لہجے میں عائلہ کی مزاحمت کو نظر انداز کرتے کہا تھا عائلہ نے اس کو پیچھے نہ ہٹتا دیکھ کر اپنا جسم ڈھیلا چھوڑ دیا تھا۔۔۔صارم شاہ اس کے وجود پہ بہت نرمی سے قابض ہوا تھا مگر اپنا وعدہ ہرگز نہیں بھولا تھا۔۔۔
                ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
                صبح کی سپیدی چار سو پھیلی تھی۔۔۔دلاور ایک جاندار انگڑائی لے کر اٹھا تھا۔۔۔
                دیوار پہ لگی گھڑی صبح کے پانچ بجا رہی تھی۔۔۔اس نے اپنے ساتھ والی چارپائی پہ نگاہ ڈالی تو بلال اور رشید احمد اپنے اپنے بستر سے غائب تھے۔۔۔وہ اٹھ کر باہر آیا تو بلال برآمدے میں رکھے تخت پہ سو رہا تھا۔۔۔
                پھر اسکی نظر سامنے مہرالنساء کے روم پہ پڑی جس کا دروازہ ہلکا سا کھلا ہوا تھا۔۔۔اس نے حیران ہو کر دروازے کی طرف دیکھا جسے اس نے رات بلال سے لاک کرنے کو کہا تھا۔۔۔
                اس کے دماغ میں بجلی کی سی تیزی سے ایک کوندا لپکا۔۔۔وہ جلدی سے مہرالنساء کے روم کی طرف بڑھا اور بنا دستک دئیے چوپٹ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔۔۔
                مہرالنساء ، عینا اور ایمن نماز پڑھ رہی تھیں اس نے روم کے چاروں اور نگاہ دوڑائی اسے عائلہ کہیں نظر نہیں آئی۔۔۔پھر وہ غصے سے جھنجلاتا عینا اور عائلہ کے مشترکہ روم کی طرف بڑھا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو خالی کمرہ اس کا منہ چڑا رہا تھا۔۔۔
                " بلاااال۔۔۔۔رشید احمد۔۔۔"
                دلاور برآمدے میں کھڑا ہو کر انتہائی غصے سے چنگھاڑا تھا۔۔۔بلال ہڑبڑا کر اٹھا تھا۔۔۔ایک کمرے سے رشید احمد تقریباً بھاگنے کے سے انداز میں پریشان سا اس کے پاس آ کے کھڑا ہو کر سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھنے لگا کہ صبح صبح کیا قیامت آ گئ ہے۔۔۔دلاور نے ایک پل کو قہر بار نظروں سے انکی طرف دیکھا پھر کچھ سوچ کر دوبارہ سے مہرالنساء کے روم میں داخل ہوا۔۔۔
                " عائلہ کہاں ہے۔۔۔"
                مہرالنساء ، عینا اور ایمن اپنی نماز ادا کر چکی تھیں جب انھوں نے دلاور کی چنگھاڑ سنی تھی۔۔۔آنے والے حالات کے لیے خود کو وہ پہلے سے ہی تیار کر چکی تھیں۔۔۔دلاور کے یو چنگھاڑنے کا رتی بھر بھی نہ تو اثر عینا نے لیا نہ مہرالنساء نے۔۔۔البتہ ایمن خوفزدہ ہو کر عینا کے ساتھ چمٹی تھی۔۔۔
                " میں نے پوچھا عائلہ کہاں ہے۔۔۔"
                دلاور اب کے ان کے سروں پہ کھڑا انکے قریب جا کر غصے سے چلایا تھا۔۔۔
                " وہ وہیں ہے جہاں اسے ہونا چاہیے تھا۔۔۔اب دفعہ ہو جاؤ یہاں سے۔۔۔جس کی وجہ سے تم دندناتے ہوئے آ گھستے تھے وہ جا چکی ہے یہاں سے۔۔۔نفرت کرتی تھی وہ تم سے۔۔۔نہیں کرنا چاہتی تھی وہ تم سے یہ نکاح۔۔۔"
                مہرالنساء نے بھی دلاور کے انداز میں ہی چیختے ہوئے کہا۔۔۔دلاور کچھ پل کو بے یقینی سے انکی طرف دیکھتا رہا۔۔۔
                " بدذات عورت ساری عمر تو نے ہمیشہ میری نافرمانی کی۔۔ مجھے ذلیل کروایا۔۔۔کبھی میرے ماں باپ کے ہاتھوں اور کبھی لوگوں کے ہاتھوں۔۔۔مگر آج میں تجھے نہیں چھوڑوں گا۔۔۔میرے کیے کرائے پہ اتنی آسانی سے میں تجھے پانی نہیں پھیرنے دوں گا۔۔۔بول کدھر گئ ہے وہ۔۔۔کہاں بھیجا ہے اسے۔۔۔بول ورنہ میں تیری جان لے لوں گا۔۔۔"
                رشید احمد مہرالنساء کی بات سن کر طیش میں آیا تھا وہ یکدم مہرالنساء پہ جھپٹا تھا اور مہرالنساء کو گلے سے دبوچا تھا۔۔۔بلال اور دلاور ایک سائیڈ پہ کھڑے یہ سب تماشہ دیکھنے لگے بلال کے چہرے پہ پریشانی اور فکر کے بادل چھائے تھے جبکہ دلاور مہرالنساء اور عینا کی طرف کینہ توز نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔
                " اگر اب آپ نے میری ماں کو ہاتھ بھی لگایا تو قسم خدا کی میں بھول جاؤں گی کہ میرا آپ سے کیا رشتہ ہے۔۔۔دفعہ ہوجاؤ تم سب لوگ یہاں سے۔۔۔"
                اپنے باپ کو اپنی ماں کا گلا گھونٹتے دیکھ عینا بجلی کی طرح اپنے باپ کی طرف بڑھی تھی اور پورے زور سے اسے پیچھے کو دھکا دیتے سارے ادب آداب بالائے طاق رکھتے چیخی تھی۔۔۔
                " رشید احمد دھکا لگتے دور زمین پہ گرا تھا۔۔۔
                " کیا کرے گی تو۔۔۔بول۔۔۔کیا کر سکتی ہے تو۔۔۔مجھے عائلہ کا پتہ بتا دو ورنہ۔۔۔اس گھر سے پھر ایک جنازہ اٹھے گا۔۔۔"
                رشید احمد انتہائی کرخت لہجے میں بولا تھا۔۔۔
                " ورنہ کیا۔۔۔ہاں۔۔۔کیا ورنہ۔۔۔آپ ہاتھ تو لگاؤ ماں کو۔۔۔پھر دیکھنا میں کرتی کیا ہوں۔۔۔اجالا کی موت میں بھولی نہیں ہوں۔۔۔ٹھیک کہا آپ نے آج پھر اس گھر سے ایک جنازہ اٹھے گا مگر فرق یہ ہے کہ اب کی بار وہ آپ کا ہو گا۔۔۔"
                عینا نے رشید احمد کی آنکھوں میں دیکھتے لال انگارہ ہوتے چہرے کے ساتھ دو بدو جواب دیا تو رشید احمد دانت پیس کر رہ گیا۔۔۔احتشام شاہ کا نام اس کے نام کے ساتھ جڑنے کے بعد اب وہ اس کی بیٹی نہیں رہی تھی جس کے ساتھ وہ جو چاہے مرضی سلوک کرتا۔۔۔بے خوف اور نڈر تو وہ شروع سے ہی تھی مگر اب ایک مضبوط سہارا ملنے کے بعد اس کے رویے میں مزید بے خوفی پیدا ہوئی تھی۔۔۔
                رشید احمد قہربار نظروں سے مہرالنساء اور عینا کی طرف دیکھنے لگا کہ اس کا سر بری طرح سے چکرایا تھا وہ سر ہاتھوں میں تھامے وہیں زمین پہ بیٹھ گیا اس نے اٹھنے کی کوشش کی تو اسکی آنکھوں کے گرد اندھیرا چھانے لگا۔۔۔بلال بھاگ کر اس کے لیے پانی لے آیا۔۔۔
                " بہت بڑی غلطی ہو گئ مجھ سے۔۔۔مجھے سب سے پہلے تیرا سر کچلنا چاہیے تھا سارے فساد کی جڑ ہی تو ہے۔۔۔"
                پانی پی کر اسکی طبیعت سنبھلی تو وہ گہرے گہرے سانس لیتا بولا۔۔۔دلاور ایک طرف کب کا خاموش کھڑا تھا۔۔۔اس کا کسی قسم کا بھی ردعمل نہ دیکھ کر دل ہی دل میں بلال پریشان ہونے لگا۔۔۔نہ جانے اب دلاور کیا کرنے والا تھا ابھی بلال یہ سوچ ہی رہا تھا کہ دلاور یکدم ایمن پہ جھپٹا تھا اور اسے بازو سے دبوچ کر اپنی طرف کھینچا تھا۔۔۔
                " یہ کیا کر رہے ہو۔۔۔چھوڑو اسے۔۔۔"
                عائلہ کو تم لوگوں نے بھگا دیا۔۔۔تم بھی احتشام شاہ سے نکاح کرچکی تو پھر میرا کیا۔۔۔؟ مجھے بھی تو اب کسی نہ کسی سے بیاہ کرنا ہی ہے ناں۔۔۔اب عائلہ نہیں تو یہ ایمن ہی سہی۔۔۔"
                دلاور نے سرد اور سپاٹ لہجے میں تلخی سے کہا تو اس کی بات پہ سب بے یقینی سے اس کی طرف دیکھنے لگے۔۔۔ایمن خوف سے چیخنے لگی۔۔۔بلال دلاور کی بات پہ ہکا بکا ہوا تھا وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ اس حد تک چلا جائے گا۔۔۔وہ سچ میں ایک جانور بنتا جا رہا تھا۔۔۔
                " چھوڑ دو میری بیٹی کو۔۔۔شرم آنی چاہیے تمہیں ایسی گھٹیا بات کرتے ہوئے۔۔۔"
                مہرالنساء نے غصے سے ایمن کو چھڑوانے کی کوشش کرتے کہا مگر دلاور نے ایمن کو کھینچ کر اپنے پیچھے کیا تھا۔۔۔اور اسے گھسیٹ کر روم سے باہر لیجانے لگا۔۔۔مہرالنساء اور عینا ایمن کو پنی طرف کھینچتے اسے چھڑوانے کے ساتھ دلاور کو کوسنے لگیں۔۔۔مگر دلاور پہ رتی بھر اثر نہ ہوا۔۔۔
                " دلاور چھوڑ دے بچی کو۔۔۔"
                بلال نے انتہائی غصے سے کہا تھا دلاور نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا جو ہاتھ میں گن لیے اس کا رخ دلاور کی طرف کیے کھڑا تھا۔۔۔
                " تو مارے گا مجھے گولی۔۔۔ہاں۔۔۔چل چلا پھر۔۔۔میں بھی دیکھتا ہوں تو کیسے مارتا ہے مجھے۔۔۔"
                دلاور نے ایمن کا بازو جکڑے بلال کی طرف سیدھے ہوتے استہزائیہ انداز میں کہا تھا۔۔۔
                " میں سچ کہ رہا ہوں دلاور۔۔۔بچی کو چھوڑ دے۔۔۔میں سچ میں چلا دوں گا۔۔۔"
                بلال نے بے بسی سے دلاور کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔مگر دلاور اسی طرح پرسکون کھڑا تھا وہ جانتا تھا کہ بلال مر کے بھی اس پہ گولی نہیں چلائے گا۔۔۔اور پھر سب کے اوسان خطا ہوئے تھے سب پھٹی پھٹی آنکھوں سے بلال کی طرف دیکھنے لگے تھے۔۔۔بلال نے گن کا رخ اپنی طرف کیے گولی چلا دی تھی۔۔۔سب کو جیسے سکتہ ہو گیا تھا۔۔۔
                " یہ کیا کیا ہے تو نے۔۔۔پاگل ہوگیا ہے تو۔۔۔ڈاکٹر کو بلاؤ جلدی۔۔۔۔"
                دلاور ہوش میں آتا ایمن کو چھوڑ کر بلال کی طرف بھاگا تھا جو زمین پہ گرا تھا۔۔۔کمرے کا فرش اس کے خون سے رنگنے لگا تھا۔۔۔دلاور چیخ کر رشید احمد سے ڈاکٹر کو لانے کے لیے بولا تھا۔۔۔بلال کو زخمی دیکھ کر وہ سب بھول بیٹھا تھا۔۔۔
                " میں تجھے نہیں مار سکتا تو جانتا ہے۔۔۔مگر میں خود کو تو مار سکتا ہوں۔۔۔یہ بہت اچھ چھے ل لوگ ہیں۔۔۔ مم معاف کر دے ان کو۔۔۔ چھ چھوڑ دے ان ک کا پی چھا۔۔۔"
                بلال نے تکلیف برداشت کرتے ہونٹ بھینچے کہا تھا۔۔۔
                مہرالنساء ، عینا اور ایمن ہراساں کھڑی بلال کی طرف دیکھ رہی تھیں۔۔۔رشید احمد یٰسین کمپوڈر کو بلا لایا تھا۔۔۔دلاور نے بلال کو سہارا دے کر باہر لا کے برآمدے میں بچھی چارپائی پہ لٹا دیا۔۔۔
                یٰسین نے بلال کا زخم دیکھ کر اسکے پٹی باندھ دی۔۔۔گولی کندھے کو چھو کر گزر گئ تھی۔۔۔دلاور نے ایک غصیلی نگاہ بلال پہ ڈالی تھی۔۔۔
                " یہ کیا حرکت تھی۔۔۔اگر گولی کہیں اور لگ جاتی تو پھر کیا ہوتا۔۔۔"
                دلاور نے یٰسین کے جانے کے بعد بلال سے پھاڑ کھانے والے انداز میں کہا تھا۔۔۔
                " اور جو تو کر رہا تھا وہ کیا حرکت تھی۔۔۔تجھے کیا ہوگیا ہے۔۔۔تو کیوں جانور بنتا جا رہا ہے۔۔۔کم از کم اپنے جیتے جی تو میں تجھے ایسا کوئی کام نہیں کرنے دوں گا۔۔۔"
                بلال نے نقاہت زدہ لہجے میں کہا۔۔۔دلاور کچھ پل کو اس کی طرف غصے سے دیکھتا رہا پھر باہر نکل گیا۔۔۔
                " صارم شاہ۔۔۔باہر آؤ صارم شاہ۔۔۔بڑے مرد بنے پھرتے تھے تم۔۔۔وار کرنا تھا تو سامنے آ کر کرتے۔۔۔رات کے اندھیرے میں وار کرنے والے مرد نہیں کہلاتے۔۔۔بزدل انسان۔۔۔میرے سامنے سامنے کچھ نہ کر سکے تو رات کے اندھیرے میں میری ہونے والی بیوی کو بھگا لے گئے۔۔۔آہہہہ۔۔۔۔۔تف ہے تمہاری مردانگی پہ۔۔۔"
                دلاور حویلی کے گیٹ پہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھڑا اونچی اونچی آواز میں صارم شاہ کو للکارنے لگا۔۔۔
                " کیا بات ہے۔۔۔کیوں شور مچا رہے ہو۔۔۔"؟
                دلاور کے چیخنے چلانے پہ حویلی کے دو ملازم باہر آئے اور دلاور سے استفسار کرنے لگے۔۔۔
                " اوئے نکالو باہر اسے۔۔۔چھپ کے حویلی میں بیٹھا سمجھتا ہے کہ میں اس کا کچھ بگاڑ نہیں پاؤں گا۔۔۔صارم شاہ۔۔۔باہر آؤ صارم شاہ۔۔۔"
                دلاور نے ایک ملازم کو گریبان سے پکڑ کر ایک طرف دھکا دیتے چلا کر کہا تھا۔۔۔دلاور کے شور و غل پہ گاؤں کے لوگ آہستہ آہستہ حویلی کے گرد جمع ہونے لگے۔۔۔
                " گھر پہ کوئی نہیں ہے۔۔۔نہ بڑے شاہ جی اور نہ انکے بیٹے۔۔۔دوسرے ملازم نے تنک کر جواب دیا تھا۔۔۔
                " واہ کیا بات ہے۔۔۔باپ بیٹوں نے پوری پلاننگ کے ساتھ واردات کی ہے۔۔۔
                بڑے شاہ جی یہ۔۔۔بڑے شاہ جی وہ۔۔۔بڑے شاہ جی ایسے ہیں۔۔۔بڑے شاہ جی ویسے ہیں۔۔۔
                سب دھوکا۔۔۔سب فراڈ۔۔۔منافق گھٹیا لوگ۔۔۔
                وہ جہاں بھی چھپے ہیں ان سے کہ دینا کہ اگر وہ زمین کی پاتال میں بھی چھپے ہوں گے تب بھی میں انھیں ڈونڈھ نکالوں گا۔۔۔"
                دلاور نے دونوں ہاتھوں سے تالی بجاتے طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔
                " اپنی زبان کو لگام دو دلاور۔۔۔ہمارے شاہ جی ایسے نہیں ہیں۔۔۔اور نہ ہی ان کے بیٹے ایسے ہیں۔۔۔"
                دین محمد حویلی سے باہر آ کر انتہائی غصے سے دلاور کو مخاطب کرتے بولا۔۔۔
                اور ساتھ ہی ایک ملازم کو اشارہ کیا کہ اپنے سب بندوں کو بلا لائے۔۔۔
                " اگر نہ کروں چپ تو۔۔۔ہاں۔۔۔کیا کرو گے۔۔۔ایک تو دھوکا کیا میرے ساتھ اوپر سے آنکھیں دکھا رہے ہو تم لوگ۔۔۔"
                دلاور نے دین محمد کے جبڑے پہ زوردار مکہ جڑا تھا۔۔۔دلاور کی دیکھا دیکھی اس کے باقی بندے بھی اس پہ پل پڑے یہ دیکھ کر حویلی کے باقی ملازم بھی اس لڑائی میں کود پڑے۔۔۔حویلی کے سامنے عجب دنگل شروع ہو گیا تھا۔۔۔دلاور کے آدمی چھٹے ہوئے بدمعاش تھے جس کی وجہ سے ان کا پلہ بھاری ہونے لگا۔۔۔حویلی کی چھت پہ کھڑے ہوکر کب سے یہ تماشہ دیکھتے شرجیل کا صبر برداشت جواب دے گیا۔۔۔
                پوری فضا گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اٹھی تھی۔۔۔گولی کی آواز پہ سب نے آواز کا تعاقب کرتے یکدم سر اٹھا کے دیکھا تو شرجیل چار پانچ لوگوں کے ساتھ حویلی کی چھت پہ ہاتھوں میں گنز لیے کھڑے تھے۔۔۔
                " اگر اب تم نے یا تمہارے کسی بھی آدمی نے کوئی حرکت کی تو میں بنا ایک پل دیر کیے اسی وقت گولی چلا دوں گا۔۔۔جب تم سے کہا ہے کہ صارم شاہ حویلی میں موجود نہیں ہے تو پھر یہ سب فساد کھڑا کرنے کی کوئی تک نہیں بنتی۔۔۔بہتر ہوگا کہ اپنے آدمیوں کے ساتھ اس گاؤں سے نکل جاؤ۔۔۔دوسری صورت میں انجام کے ذمہ دار تم خود ہوگے۔۔۔"
                شرجیل نے چھت سے اونچی آواز میں دوٹوک انداز میں کہا۔۔۔اس وقت دلاور اور اس کے تمام آدمی شرجیل کی بندوق کی نوک پہ تھے جس مقام پہ اس وقت شرجیل کھڑا تھا اس سے الجھنا کسی صورت مناسب نہیں تھا۔۔۔
                " جب تک میری شاہ سائیں سے بات نہیں ہوجاتی میں یہیں رہ کر ان کا انتظار کروں گا اس کے لیے چاہے مجھے ساری عمر یہیں رہنا پڑے۔۔۔اس لیے اپنے دماغ سے نکال دو کہ میں کہیں جاؤں گا۔۔۔"
                دلاور نے تیکھے سخت لہجے میں جواب دیا۔۔۔
                " آپکو بڑی بی بی جی اندر بلا رہی ہیں۔۔۔آپکے باقی آدمی باہر ہی رکیں گے آپ میرے ساتھ آ جائیں۔۔۔
                ایک ملازم نے باہر آ کر دلاور سے کہا تو وہ اپنے آدمیوں کو وہیں رکنے کا بول کر حویلی کے اندر داخل ہوگیا۔۔۔حویلی کے کچھ ملازم دین محمد اور دوسرے زخمی ملازموں کو سہارا دے کر حویلی کے اندر لے گئے۔۔۔
                " کیا چاہتے ہو۔۔۔"
                ملازم نے دلاور کو مردان خانے میں بٹھا دیا تھا۔۔۔کچھ دیر بعد ہائمہ خاتون ایک بڑی سی چادر اوڑھے روم میں داخل ہوئیں۔۔۔دلاور بڑی رعونت سے صوفے پہ ٹانگ پہ ٹانگ رکھے اکڑ کر بیٹھا ہوا تھا۔۔۔ہائمہ خاتون نے کچھ دیر سر تا پیر اس کا جائزہ لیا پھر دھیرے سے نرم لہجے میں پوچھا۔۔۔
                " آپ جانتی ہیں کہ میں کیا چاہتا ہوں۔۔۔آپکے بیٹے نے میری عزت پہ ہاتھ ڈالا ہے۔۔۔جس لڑکی سے میری شادی ہونے والی تھی اس کو بھگا کر لے گیا ہے۔۔۔"
                دلاور نے نظریں نیچی کیے ہائمہ خاتون سے شکایتی لہجے میں کہا۔۔۔
                " شکر ہے تم نے یہ نہیں کہا کہ میرا بیٹا عائلہ کو اغوا کر کے لے گیا ہے۔۔۔
                کوئی شخص تبھی کسی کو بھگاتا ہے جب دوسرا بھاگنا چاہتا ہے۔۔۔
                رشتے زور زبردستی سے ڈرا دھمکا کر نہیں جوڑے جاتے بیٹا۔۔۔وہ بچی پہلے دن سے تم سے نکاح نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔
                وہ کوئی بھیڑ بکری نہیں تھی جس کی ایک نے بولی لگائی دوسرے نے خرید لیا۔۔۔اگر تم سچ میں اصلی مرد ہوتے تو عائلہ کے دل میں اپنی جگہ بناتے۔۔۔اپنی محبت کا اسے اسیر کرتے۔۔۔مگر تم نے جانوروں والا چیر پھاڑ کرنے والا طریقہ اپنایا۔۔۔اسے ڈرا دھمکا کر خوفزدہ کر کے اس سے نکاح کرنا چاہا۔۔۔
                الّٰلہ نے عورت کو محبت کے خمیر سے گوندھا ہے۔۔۔عورت کا پور پور محبت ہے۔۔۔اور وہ محبت کے سوا کوئی دوسری زبان نہیں سمجھتی۔۔۔
                تم اگر اس کے ساتھ شرافت سے انسانوں کی طرح محبت سے پیش آئے ہوتے تو آج وہ تمہیں چھوڑ کر کسی اور کا ہاتھ کبھی نہ تھامتی۔۔۔
                تم نے جو کچھ عائلہ اور اس کی فیملی کے ساتھ کیا اگر یہی سب کوئی تمہاری بہن کے ساتھ کرتا تو تمہیں کیسا لگتا۔۔۔تم یقیناً اس شخص کے ٹکڑے کر دیتے۔۔۔
                دلاور کی آنکھوں کے سامنے یکدم اس کا ماضی لہرایا تھا جن لوگوں نے فاطمہ کی طرف میلی نظر سے دیکھا تھا اس نے ان کے ٹکڑے ہی تو کیے تھے۔۔۔
                کتنی عجیب بات ہے بیٹا کہ جب اپنی بہن کی باری ہو تو ہمیں سب قانون سب اصول و ضوابط یاد آ جاتے ہیں۔۔۔مگر جب دوسرے کی بہن بیٹی کی بات ہو تو ہم جانور بن جاتے ہیں۔۔۔
                میں نہیں جانتی تمہاری فیملی میں کون کون ہے۔۔۔کوئی ہے بھی یا نہیں۔۔۔مگر ماں تو ہوگی ناں۔۔۔جس نے تمہیں پیدا کیا جس کا تم نے دودھ پیا ہوگا۔۔۔ہر عورت چاہے بہن ہو بیٹی ہو اس کا اصل " ماں " ہی ہوتا ہے۔۔۔
                جب کوئی مرد کسی عورت کی تذلیل کرتا ہے۔۔۔اسے بے آبرو کرتا ہے۔۔۔یا اسے رسوا کرتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ " اس " عورت کو کر رہا ہے جس سے اس کا کوئی رشتہ نہیں۔۔۔مگر سچ تو یہ ہے کہ وہ اصل میں اپنی ماں کو رسوا کر رہا ہوتا ہے۔۔۔اپنی ماں کی تربیت کو رسوا کر رہا ہوتا ہے۔۔۔اور تم نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔۔۔
                تم نے بھی عائلہ کو رسوا کردیا ہے۔۔۔جن بچیوں کے کردار کی گواہی سارا زمانہ دیتا تھا آج لوگ ان کے کردار پہ انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔۔۔
                شاہ سائیں پہ لگایا تمہارا ہر الزام غلط ہے۔۔۔میں انکے بارے میں کچھ کہوں گی تو تمہیں لگے گا کہ ایک بیوی اپنے شوہر کی سائیڈ لے رہی۔۔۔
                کچھ دن انتظار کر لو۔۔۔شاہ سائیں اسلام آباد گئے ہوئے ہیں وہ واپس آ جائیں تو اب انکا انصاف تمہیں بتائے گا کہ وہ کیسے ہیں۔۔۔
                میری تم سے بس ایک التجا ہے بیٹا کہ تب تک کے لیے سکون رکھو۔۔۔نہ عائلہ کی فیملی کو اور نہ ہی گاؤں کے کسی شخص کو تمہاری طرف سے کوئی تکلیف پہنچے۔۔۔اگر شاہ سائیں کے آنے کے بعد تمہیں لگے کہ انھوں نے انصاف سے کام نہیں لیا تو پھر بے شک جو دل میں آئے وہ کرنا۔۔۔"
                ہائمہ خاتون نے دلاور سے بات کرتے کبھی اپنے لہجے میں نرمی رکھی تو کبھی سختی۔۔۔اور کبھی انتہائی شفقت کا معاملہ رکھا۔۔۔دلاور سر جھکائے سکون سے ہائمہ خاتون کی بات سنتا رہا۔۔۔ہائمہ خاتون کی شخصیت اسے ماسو ماں کی یاد دلا گئ تھی۔۔۔چاہ کر بھی انکے سامنے وہ ایک لفظ تک نہ بول پایا تھا۔۔۔وہ چپ چاپ خاموشی سے وہاں سے اٹھ کر باہر نکل گیا۔۔۔
                پورے گاؤں میں یہ بات جنگل میں آگ کی طرح پھیل چکی تھی کہ عائلہ چھوٹے شاہ جی کے ساتھ اپنے نکاح والی رات بھاگ گئ ہے۔۔۔
                ہر کوئی تھو تھو کر رہا تھا۔۔۔سب کی زبان پہ بس ایک ہی بات تھی کہ مہرالنساء کی بیٹیوں نے شاہوں کے نیک سیرت شریف بیٹوں کو اپنے جال میں پھانس کر انھیں خراب کردیا ہے۔۔۔
                ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
                " ماما یہ آپ کیا کر رہی ہیں۔۔۔اٹھیں پلیززز۔۔۔قاسم نے جو کچھ بھی کیا ہے اس میں آپ کا کیا قصور ہے۔۔۔"
                طلحہ ، ایمان ، زویا اور عدن اپنی والدہ کو یوں ٹوٹا بکھرا مہدیہ کے سامنے زمین پہ دوزانوں بیٹھے ہاتھ جوڑے دیکھ کر تڑپ اٹھے۔۔۔
                " نہیں۔۔۔سب میرا قصور ہے۔۔۔نہ میں اچھی بیوی بن سکی نہ اچھی ماں۔۔۔تم لوگ نہیں جانتے میں نے کیا کیا ہے۔۔۔میں بہت گنہ گار ہوں۔۔۔مجھے معاف کردو بیٹی۔۔۔جب میں خود انسانیت اور رشتوں کا احترام ان کا تقدس بھول گئ تو اپنی اولاد کو کیا سیکھاتی۔۔۔معاف کردو۔۔۔احتشام بیٹے تم بھی مجھے معاف کردو۔۔۔قاسم کی بدتمیزی کے لیے میں تم سے بھی معافی مانگتی ہوں۔۔۔"
                فرحین بیگم نے بھرائے لہجے میں کہا۔۔۔اپنا ماضی بھول کر وہ آج تک گردن اکڑائے چلتی آئیں تھی۔۔۔جن لوگوں کو حقیر سمجھ کر ان سے دل میں بیر پالے بیٹھی تھیں اسی خاندان کی وہ سر تا پیر مقروض نکلی تھیں۔۔۔قسمت نے ایسا تھپڑ انکے چہرے پہ مارا تھا کہ انکی ساری اکڑ غبارے سے ہوا کی مانند نکل گئ تھی۔۔۔
                " بیٹا اپنی ماما کو انکے روم میں لے جاؤ۔۔۔اور ایمان آپ مہدیہ کے ساتھ رہو گی۔۔۔جب تک رضوانہ بہن واپس نہیں آ جاتیں تب تک مہدیہ آپکی ذمہ داری میں ہوگی۔۔۔اب جاؤ سب۔۔۔جا کے آرام کرو۔۔۔"
                اکرام صاحب نے سب سے باری باری کہا۔۔۔ایمان مہدیہ کو اپنے روم میں اپنے ساتھ لے گئ تھی۔۔۔احتشام اس سب منظر سے بے نیاز مہدیہ کے چہرے میں کھویا ہوا تھا۔۔۔
                " یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔ناممکن۔۔۔"
                احتشام شاہ اپنے روم میں آیا تو اس نے تیزی سے موبائل اون کرتے گیلری میں سے نازنین کی پک زوم کی تھی۔۔۔بار بار ہر ہر زاویے سے اس نے دیکھا تھا کہ شائد اس کی آنکھوں کا دھوکا ہو۔۔۔مگر نازنین مہدیہ کی ہوبہو کاپی تھی۔۔۔یا پھر یہ کہ لیں کہ مہدیہ نازنین کی کاپی تھی۔۔۔موبائل ایک سائیڈ پہ رکھے وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا تھا۔۔۔اس کے دل میں ہزاروں سوال اٹھنے لگے تھے۔۔۔زیر لب بڑبڑاتے اس نے پھر سے نازنین کی تصویر کو بغور دیکھا تھا۔۔۔
                قاسم کے الفاظ اس کے دماغ میں بجلی کی طرح کوندے تھے۔۔۔
                " چھوٹی ماں کا تعلق بازار حسن سے تھا۔۔۔قاسم نے کہا کہ مہدیہ کوٹھے کی مشہور طوائف۔۔۔ ناجائز بچہ۔۔۔ میری بہن۔۔۔۔چھوٹی ماں یہ آپ نے کیا کیا۔۔۔کیوں کیا۔۔۔کیوں۔۔۔؟
                نہیں۔۔۔یہ نہیں ہو سکتا۔۔۔بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ دو بلکل الگ خون کے الگ نسل کے انسان ایک دوسرے کے ہمشکل نکل آتے ہیں۔۔۔مہدیہ بھی ایسی ہوگی۔۔۔چھوٹی ماں یہ نہیں کر سکتیں۔۔۔"
                احتشام شاہ موبائل سکرین پہ نازنین کی تصویر پہ نظریں گڑائے خود سے سوال جواب کرنے لگا۔۔۔اس بات کی نفی کرنے کے باوجود اس کا دل بہت مضطرب تھا۔۔۔اسے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا تو ٹیرس پہ کھڑے ہو کر گہرے گہرے سانس لینے لگا۔۔۔
                ایمان نے مہدیہ کو اپنی وارڈروب سے اپنا ایک ڈریس پہننے کے لیے نکال کر دیا۔۔۔مہدیہ خاموشی سے وہ ڈریس لے کر واش روم میں گھس گئ۔۔۔
                " مہدیہ میں نے مسز خان کو کال کی ہے انکا کلینک گھر کے پاس ہی ہے وہ پانچ منٹ تک آ کر تمہارا چیک اپ کر لیں گی۔۔۔"
                مہدیہ واش روم سے باہر آئی تو ایمان نے اسے ڈاکٹر کے آنے کا بتایا۔۔۔
                " اس کی کیا ضرورت تھی۔۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔۔"
                مہدیہ نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
                " ضرورت تھی۔۔۔تمہاری طبیعت کو لے کر میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتی۔۔۔جو کچھ بھی ہوا اس کے بعد یہ ضروری ہے کہ ایک بار تمہارا چیک اپ کروا لیا جائے۔۔۔"
                ایمان نے مہدیہ سے نظریں چراتے کہا تھا۔۔۔تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر نے آ کر مہدیہ کو چیک کیا اور کچھ میڈیسن اور کچھ احتیاط کا بتا کر چلی گئ۔۔۔
                " نجمہ بوا آپ۔۔۔اس وقت۔۔۔کچھ چاہیے تھا کیا۔۔۔"
                ایمان اپنی نئ خانساماں کو دروازے پہ کھڑے دیکھ کر حیران ہوتے بولی۔۔۔
                " چھوٹی بیبی مجھے آپکو کچھ بتانا تھا جی۔۔۔مگر سمجھ نہیں آ رہی کیسے کہوں۔۔۔"
                بجمہ بوا آپ بولیں کیا بات ہے۔۔۔کچھ مدد چاہیے کیا۔۔۔بے فکر ہو کر کہیں مجھ سے جو ہو سکا میں کروں گی۔۔۔"
                ایمان نے نجمہ بوا کو تسلی دیتے لہجے میں نرمی لیے کہا۔۔۔
                " بیبی جی فاطمہ بیٹی کی طبیعت ایسے ہی خراب نہیں ہوئی تھی قاسم بابا نے انکے کھانے میں زہر ملایا تھا جی۔۔۔"
                نجمہ بوا نے ڈرتے ڈرتے کہا پھر اس دن کی ساری بات جو فرحین بیگم اور قاسم کے بیچ ہوئی ایمان کو بتانے لگی۔۔۔جسے سن کر ایمان کے رونگٹے کھڑے ہوئے تھے وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس ماں فاطمہ سے نفرت میں اس حد تک جا سکتی ہیں۔۔۔
                ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

                Comment


                • #88
                  Episode , 59

                  " ج جج جھوٹ۔۔۔جھوٹ ہے یہ۔۔۔ماما ایسا نہیں کر سکتیں۔۔۔وہ تھوڑی غصے کی تیز ہیں مگر کسی کی جان لینا۔۔۔یا کسی لڑکی کی عزت سے کھیلنا۔۔۔۔"
                  ایمان بے یقینی سے نجمہ بوا کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔
                  " نجمہ بوا سچ کہ رہی ہیں ایمان آپی۔۔۔"
                  مہدیہ نے ایمان کی بے یقینی پہ سچ کی مہر لگائی تھی۔۔۔پھر اپنا موبائل نکال کر قاسم کے میسجز اوپن کر کے موبائل ایمان کے ہاتھ پہ رکھا۔۔۔ایمان جیسے جیسے قاسم کے مہدیہ کو سینڈ کیے دھمکی آمیز میسجز پڑھتی گئ اس کا دماغ ماؤف ہوتا گیا۔۔۔موبائل اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پہ جاگرا تھا وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھامے بیڈ پہ گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گئ اس کی پلکوں کی باڑ توڑ کر خاموش آنسو اس کے گالوں پہ بہ کر زمین میں جذب ہونے لگے۔۔۔نجمہ بوا ایمان کی حالت دیکھ کر افسوس سے سر ہلاتی دروازہ بند کر کے چلی گئ تھیں مہدیہ کچھ پل کو ایمان کی طرف دیکھتی رہی پھر آگے بڑھ کر اس کے پاس بیٹھتے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتے گلوگیر لہجے میں اسے پکارا تھا۔۔۔ایمان بے ساختہ مہدیہ کے گرد اپنے بازو حائل کیے زارو قطار رونے لگی۔۔۔مہدیہ کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ جس تکلیف جس اذیت سے گزری اس کا ماتم کرے یا ایمان جیسی رحم دل ، نرم خو پیاری لڑکی اپنے بھائی کی حقیقت آشکار ہونے پر جس کرب سے گزر رہی اس پہ مرہم رکھے۔۔۔
                  " مہدیہ میرے پاس نہ تو کوئی ایسا مرہم ہے نہ کوئی ایسا لفظ کہ جس کے ادا کرنے سے تمہاری اذیت کا مداوا ہوسکے مگر جس نے تمہیں یہ اذیت دی فاطمہ کی جان لینے کی کوشش کی میں اسے معاف نہیں کروں گی۔۔۔اسے حساب دینا ہوگا۔۔
                  کچھ دیر رونے کے بعد اتنا کہتے وہ یکدم اپنی جگہ سے اٹھ کر روم سے باہر نکل گئ۔۔۔مہدیہ اسے پیچھے سے پکارتی رہ گئ مگر وہ سنی ان سنی کر گئ تھی۔۔۔

                  " فری جان بس کرو چپ ہو جاؤ پلیززز"
                  اکرام صاحب فرحین بیگم کو اپنے بازوؤں کے گھیرے میں لیتے انتہائی محبت سے بولے۔۔۔تو فرحین بیگم حیران ہوتے رونا بھول کر بھیگی آنکھوں سے انکی طرف دیکھنے لگیں۔۔۔
                  " کیا ہوا۔۔۔"
                  اکرام صاحب نے فرحین بیگم کی نظروں میں حیرت کا جہاں دیکھتے اپنی بھنوئیں اچکاتے سوالیہ نظروں سے پوچھا۔۔۔
                  " آ آپ نے کتنے عرصے بعد مجھے ایسے پکارا ہے۔۔۔مگر میں آپکی فری نہیں رہی۔۔۔میں بہت بری ہوں۔۔۔بہت بری۔۔۔"
                  فرحین بیگم پھر سے رونا سٹارٹ کرتے ہاتھوں میں اپنا چہرہ چھپائے بولیں۔۔۔
                  " صبح کا بھولا شام کو واپس آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔۔۔اس دنیا کا سب سے مشکل کام اپنی غلطی کو ماننا ہوتا ہے۔۔۔اس کا احساس ہو جانا ہوتا ہے۔۔۔اور یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی نہ ہی ہر کسی کو اس بات کی توفیق ملتی ہے۔۔۔اس دنیا میں بہت سے لوگ نہ جانے روزانہ کتنی بار دوسرے لوگوں کا دل دکھاتے ہیں ان کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں جائز و ناجائز کی پرواہ کیے بنا دوسروں کا حق مارتے ہیں مگر پھر بھی مرتے دم تک خود کو صحیح سمجھتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔۔۔نہ ان کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوتا ہے نہ اپنی ان غلطیوں گناہوں کے لیے دوسروں سے معافی مامگنا نصیب ہوتا ہے۔۔۔
                  روز قیامت سب سے زیادہ کڑا حساب حقوق العباد کا ہوگا۔۔۔
                  الّٰلہ پاک کا فرمان ہے کہ میں اپنے حقوق تو معاف کردوں گا مگر اپنے بندوں کے حقوق معاف نہیں کروں گا۔۔۔
                  اور مجھے فخر ہے آپ پہ کہ آپ کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوگیا ہے۔۔۔اور الّٰلہ کا شکر ہے کہ جس نے مجھے میری فری واپس کردی۔۔۔
                  " اکرام صاحب نے فرحین بیگم کے آنسو اپنے انگوٹھے کی پور سے صاف کرتے کہا تھا۔۔۔
                  " مم مجھے آپکو کچھ بتانا ہے۔۔۔"
                  فرحین بیگم نے اکرام صاحب کے بازو پیچھے کرتے نظریں چراتے کہا۔۔۔
                  " سن رہا ہوں۔۔۔آپ کہیے جو کہنا ہے۔۔۔"
                  اکرام صاحب نے انھیں تذبذب کا شکار ہوتے دیکھ کر فرحین بیگم کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے اسے آہستہ آہستہ سہلاتے پرسکون نرم لہجے میں کہا۔۔۔
                  " وہ فف فاطمہ کو۔۔۔قق قاسم نے زہر دیا تھا۔۔۔"
                  فرحین بیگم نے اٹک اٹک کر اپنی آنکھیں میچے گلوگیر لہجے میں کہا تھا اکرام صاحب پھٹی پھٹی نگاہوں سے فرحین بیگم کی طرف دیکھنے لگے۔۔۔انھیں ایسے لگا جیسے چھت ان پہ آن گری ہو۔۔۔
                  " کیا آپ اس میں ملوث تھیں۔۔۔اور قاسم نے مہدیہ کے ساتھ جو کیا آپ جانتی تھیں کہ اسکے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔۔۔"؟
                  اکرام صاحب کچھ دیر بعد سرد و سپاٹ لہجے میں بولے تھے۔۔۔اپنے غصے اور طیش کو ضبط کرتے وہ اپنی مٹھیاں بھینچ گئے تھے۔۔۔
                  " نن نہیں۔۔۔خدا کی قسم میں نہیں جانتی تھی۔۔۔میں بس یہ چاہتی تھی کہ فاطمہ کی شادی طلحہ سے نہ ہو مگر اس کی جان لینے کا میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔۔۔قاسم نے سب کرنے کے بعد مجھے بتایا۔۔۔اور نہ ہی مجھے اس بات کا علم تھا کہ مہدیہ کے لیے وہ کیا سوچ رہا ہے۔۔۔قاسم نے ہر بات کے لیے مجھے اندھیرے میں رکھا تھا۔۔۔میرا قصور بس اتنا ہے کہ فاطمہ والے معاملے سے باخبر ہونے کے بعد بھی میں نے اسے روکا نہیں چپ رہی۔۔۔
                  پلیززز مجھ سے نارض مت ہوئیے گا۔۔۔میں رضوانہ آپا اور فاطمہ سے بھی معافی مانگ لوں گی مگر اب آپکی ناراضگی نہیں سہ پاؤں گی۔۔۔میں وعدہ کرتی ہوں کہ میں بہت چاؤ سے محبت اور عزت سے فاطمہ کو اپنی بہو بناؤں گی۔۔۔میں سب ٹھیک کردوں گی۔۔۔بس آپ مجھ سے ناراض مت ہونا۔۔۔مجھے فرحین بیگم نہیں آپکی فری بن کے رہنا ہے۔۔۔پلیزز اکرام مجھ سے ناراض مت ہونا۔۔پلیززز۔۔۔۔"
                  فرحین بیگم نے اکرام صاحب کے آگے ہاتھ جوڑتے سسکتے ہوئے کہا تھا۔۔۔
                  " آپ سو جائیں۔۔۔صبح بات کریں گے۔۔۔میں فلحال تنہا رہنا چاہتا ہوں پلیزز۔۔۔"
                  اکرام صاحب خود کو نارمل کرتے فرحین بیگم سے بولے اور انکو تسلی دلاسہ دے کر کہ وہ ناراض نہیں ہیں اٹھ کر اپنے روم سے ملحقہ سٹڈی روم میں چلے گئے۔۔۔فرحین بیگم تکیے میں چہرے چھپائے دھیمی آواز میں رونے لگیں۔۔۔

                  ایمان غصے میں بپھری سیدھی قاسم کے روم میں گئ تھی۔۔۔جو راکنگ چئیر پہ بیٹھا آنکھیں موندے جھول رہا تھا۔۔۔روم ڈور کھلنے کی آواز پہ اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو ایمان کو اپنے روم میں پاکر ایک گہرا سانس بھرتے اس کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔
                  " فاطمہ آپی کو تم نے زہر دیا تھا کیا۔۔۔اور ماما جانتی تھیں اس بارے کیا تم نے جو بھی فاطمہ اور مہدیہ کے ساتھ کیا۔۔۔"؟
                  ایمان اسکے سامنے کھڑے ہوتے نم لہجے میں بولی تھی قاسم اس کے سوال پہ نظریں چراتا اٹھ کر کھڑا ہوتے اپنا رخ موڑ گیا۔۔۔
                  " میں نے کچھ پوچھا ہے قاسم۔۔۔ہاں یا ناں۔۔۔"
                  مہدیہ دانت پیستے تلخی سے لفظ چبا چبا کر بولی۔۔۔
                  " ہاں۔۔۔مگر ماما کو بعد میں علم ہوا میں نے اپنا ہر پلان چھپایا تھا ان سے۔۔۔مہدیہ کے معاملے میں وہ ٹوٹلی ناواقف تھیں۔۔۔
                  قاسم نے یونہی رخ موڑے یک لفظی جواب دیا تھا۔۔۔اور دوسرے لمحے قاسم کے چہرے پہ ایمان کا طمانچہ پڑا تھا۔۔۔
                  " میں آج تک یہی سمجھتی آئی تھی کہ تم ذرا بگڑے ہوئے ہو۔۔۔اور باقی عام بگڑے لڑکوں کی طرح نظر بازی ، لڑکیوں کو تاڑنا ، ان پہ فقرے کسنا یہ سب تمہارے گھٹیا دوستوں کی بدولت ہے اور جس دن ان لوگوں سے دور ہوگے سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔مگر میں یہ نہیں جانتی تھی کہ تمہارے اندر کی تو انسانیت ہی مر چکی ہے۔۔۔تم برائی کی دلدل میں اس قدر دھنس چکے ہو کہ صحیح غلط کی پہچان تک کھو چکے ہو۔۔۔فاطمہ کو زہر دیتے ایک بار بھی تمہارا ہاتھ نہیں لرزا۔۔۔تمہیں ایک بار بھی تمہارے ضمیر نے نہیں جھنجھوڑا کہ تم جس لڑکی کو مارنے کی کوشش کر رہے ہو وہ تمہارے بھائی کی بیوی بننے جا رہی ہے۔۔۔اور لڑکی بھی وہ جس کو سب کے سامنے بابا نے اپنی بیٹی بولا تھا۔۔۔"
                  ایمان ایک ہاتھ قاسم کے کندھے پہ رکھتے اسے پیچھے کو پش کرتے تلخ لہجے میں بولی۔۔۔
                  " گھر میں جوان بہنوں کے ہوتے ہوئے تم مرد لوگ کیسے کسی دوسری لڑکی کی طرف میلی نگاہ سے دیکھ لیتے ہو۔۔۔باہر کی لڑکیوں کے ساتھ ایسا کیا خاص لگا ہوتا ہے جس کے لیے تم لوگ پاگل ہو جاتے ہو۔۔۔باہر کی لڑکیوں میں اور گھر میں موجود تم لوگوں کی بہنوں میں کیا فرق ہوتا ہے۔۔۔۔۔بولو۔۔۔۔جواب دو میری بات کا۔۔۔
                  میں تمہیں دکھاتی ہوں آج کہ باہر کی لڑکی اور گھر میں بیٹھی بہن کے وجود میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔۔۔آج کے بعد جب جب بھی تم کسی لڑکی کی طرف میلی نظروں سے دیکھو گے تب تب تمہیں میں یاد آؤں گی۔۔۔
                  مہدیہ نے لفظ لفظ چبا چبا کر تلخ لہجے میں نم آنکھیں لیے قاسم کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔اس کے چہرے پہ سخت کرب و اذیت کے رنگ چھانے لگے تھے۔۔۔جو وہ کرنے لگی تھی اس کے بعد شائد خود سے بھی کبھی نظر نہیں ملا پاتی۔۔۔قاسم چہرہ جھکائے ہونٹ بھینچے اسکی باتیں چپ چاپ سن رہا تھا۔۔۔پھر اسکے لفظوں پہ دھیان گیا تو یکدم اس نے اپنا سر اٹھایا تھا۔۔۔
                  " دماغ خراب ہوگیا ہے آپ کا۔۔۔یہ کیا کر رہی ہیں آپ۔۔۔"
                  ایمان نے اپنی آنکھیں بند کیے اپنی شرٹ کے اوپر کے ابھی دو بٹن ہی کھولے تھے کہ قاسم نے ایک جھٹکے سے فوراً اس کے ہاتھوں پہ اپنے ہاتھ رکھتے کہا تھا۔۔۔
                  " کیوں۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔شرم آ رہی ہے۔۔۔تمہاری غیرت جاگ رہی ہے۔۔۔برا لگ رہا ہے۔۔۔
                  یہ شرم تمہیں تب کیوں نہیں آئی جب تم نے مہدیہ کی طرف ہاتھ بڑھایا اسے بے لباس کیا۔۔۔تمہیں برا تب کیوں نہیں لگا جب وہ تم سے رحم کی بھیک مانگ رہی تھی۔۔۔
                  جانتے ہو میرا کیا دل کر رہا ہے کہ میں مر جاؤں۔۔۔الّٰلہ مجھے موت دے دے۔۔۔
                  کہتے ہیں کہ گھر کے مردوں کے گناہوں کا کفارہ ہمیشہ اس گھر کی عورتیں ادا کرتی ہے۔۔۔
                  دنیا میں جتنی بھی لڑکیوں کے یا بچیوں کے ریپ ہوتے ہیں اگر ان سب کے خاندان کی ہسٹری نکال کر دیکھیں تو انکے خاندان میں کوئی نہ کوئی ایسا مرد ضرور ہوتا ہے جس نے کسی دوسرے کی بہن بیٹی کو بے آبرو کیا ہوتا ہے۔۔۔گناہ کر کے وہ خود تو بھول جاتا ہے مگر وقت بڑا ظالم ہے وہ نہیں بھولتا۔۔۔کسی نہ کسی شکل میں ہمارے ماضی کو ہمارے سامنے لا کر کھڑا کردیتا ہے۔۔۔
                  تم یہ بات کیوں بھول گئے قاسم کہ تم تین تین بہنوں کے بھائی ہو۔۔جن کے بھائی تمہارے جیسے ہوتے ہیں ان بہنوں کے نصیب کالی سیاہی سے لکھ دئیے جاتے ہیں۔۔۔انکے بھائیوں کے گناہوں کا کفارہ انکی بہنیں ادا کرتی ہیں۔۔۔اس خاندان کی بیٹیاں ادا کرتی ہیں اور کبھی کبھی انکی بیویاں بھی۔۔۔
                  میں ڈر گئ ہوں قاسم۔۔۔مجھے خوف آنے لگا ہے۔۔۔اپنی قسمت سے اور اس بات سے کہ اگر کل کو میری بیٹی ہوئی تو کہیں اس کو بھی اپنے ماموں کا کیا نہ کاٹنا پڑے۔۔۔
                  کیوں کیا تم نے ایسا قاسم۔۔۔کیوں کیا۔۔۔کیوں کیا۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔"؟
                  ایمان روتے سسکتے قاسم کا گریبان ہاتھوں میں جکڑے آہ و زاری کرتی زمین پہ نیم دراز ہو گئ۔۔۔
                  " آپی۔۔۔م معاف کردیں۔۔۔پلیززز۔۔۔۔ایسے مت روئیں۔۔۔مجھے معاف کردیں۔۔۔میں مہدیہ سے فاطمہ سے سب سے معافی مانگ لوں گا۔۔۔پلیززز۔۔۔چپ کر جائیں۔۔۔۔پلیززز آپی۔۔۔"
                  شرمندگی و ندامت کے مارے قاسم کا برا حال تھا ایمان کی باتوں نے اس کے ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا اس کا دل چاہ رہا تھا کہ کاش زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔۔۔مہدیہ کے آنے سے کچھ دیر قبل طلحہ بھی اسکی خوب کلاس لے کر گیا تھا۔۔۔ابھی وہ طلحہ کی باتیں نہیں بھولا تھا کہ ایمان کی باتوں نے اور اس کی اس حرکت نے اس کے ضمیر پہ مزید کاری وار کیے تھے۔۔۔

                  صبح سے گھر کی فضا آج عجیب سوگوار سی تھی۔۔۔صبح کے دس بج چکے تھے ابھی تک نہ تو کوئی اپنے روم سے باہر آیا تھا نہ کسی نے ناشتہ ہی کیا تھا۔۔۔گھر کے تقریباً سبھی لوگوں کی رات جاگ کر کٹی تھی اکرام صاحب فرحین بیگم کے انکار کرنے کے باوجود کہ انھیں بھوک نہیں ہے زبردستی ان کو اٹھا کر اپنے ساتھ ناشتہ کی ٹیبل پہ لے آئے تھے۔۔۔ساری رات وہ ذہنی طور پہ بہت ڈسٹرب رہی تھیں۔۔۔انھوں نے جو کچھ کیا بے شک وہ ناقابل معافی تھا مگر اس میں خوشی کی بات یہ تھی کہ انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا۔۔۔اور اگر ایسے میں اکرام صاحب اپنی بیوی کو تنہا چھوڑ دیتے اور معاف نہ کرتے تو یہ اور بڑی غلطی ہوتی۔۔۔اور اکرام صاحب نہیں چاہتے تھے کہ سوچ سوچ کر انکی طبیعت بگڑ جائے اس لیے ضروری تھا کہ وہ پہلے کی طرح عام روٹین میں کھائیں پئیں بات چیت کریں اور باقی تمام کام بلکل ویسے ہی سرانجام دیں جیسے پہلے دیتی تھیں وہ فرحین بیگم کو تو لے آئے تھے مگر بچوں میں سے ابھی تک کوئی بھی باہر نہیں آیا تھا۔۔۔
                  " نجمہ بوا سب لوگ اٹھے نہیں ہیں کیا ابھی تک۔۔۔جائیں بلا کر لائیں سب کو۔۔۔اور ان سے کہیں کہ سب لوگ پانچ منٹ میں ناشتے کی ٹیبل پہ پہنچ جائیں۔۔۔اور احتشام شاہ کو بھی بلا لائیے ان سے کہیں کہ وہ ناشتہ ہمارے ساتھ کریں گے۔۔۔"
                  اکرام صاحب نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔۔۔فرحین بیگم سر جھکائے چپ چاپ بیٹھی خیالوں میں گم فورک کے ساتھ ٹیبل پہ آڑھی ترچھی لکیریں بنا رہی تھیں۔۔۔اکرام صاحب کا دو ٹوک پیغام ملتے ہی سب لوگ ناشتے کی ٹیبل پہ موجود تھے سوائے ایمان اور مہدیہ کے۔۔۔اکرام صاحب نے مہدیہ کی ذہنی کیفیت کو سمجھتے ہوئے نجمہ بوا کو ایمان اور مہدیہ کا ناشتہ ان کے روم میں پہنچانے کا کہ دیا تھا۔۔۔
                  قاسم کے روم کا دروازہ دو تین بار کھٹکھٹانے کے باوجود جب نہیں کھلا تو نجمہ بوا واپس آ گئیں۔۔۔اکرام صاحب نے نجمہ بوا کو اب دوبارہ اسے بلا کر لانے سے منع کردیا وہ خود بھی فلحال قاسم کی شکل نہیں دیکھنا چاہ رہے تھے۔۔۔
                  " انکل اگر آپ اجازت دیں تو مجھے مہدیہ سے ملنا ہے۔۔۔پلیززز۔۔۔"
                  احتشام شاہ نے برائے نام کھانا کھاتے کہا تو اکرام صاحب حیران ہو کر اس کی طرف دیکھنے لگے سرخ سوجی ہوئی آنکھیں اس کے تمام رات جاگنے کی گواہی دے رہی تھیں۔۔۔وہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ اب کس مقصد کے تحت وہ مہدیہ سے ملنا چاہتا ہے۔۔۔
                  " بیٹا کوئی خاص بات ہے کیا۔۔۔میرا نہیں خیال کہ ابھی فلحال ہم میں سے کسی کو بھی اس سے ملنا چاہیے۔۔۔"
                  اکرام صاحب نے احتشام شاہ کو حالات کی نزاکت کا احساس دلانا چاہا۔۔۔
                  " انکل آپ بلکل ٹھیک کہ رہے ہیں مگر پلیززز میرا مہدیہ سے ملنا بہت ضروری ہے۔۔۔میری آج واپسی کی فلائیٹ ہے۔۔۔اور جانے سے پہلے مجھے مہدیہ سے کچھ پوچھنا ہے۔۔۔پلیزز۔۔۔۔۔
                  احتشام شاہ نے اتنی لجاجت سے کہا کہ اکرام صاحب انکار نہیں کر سکے۔۔۔انھوں نے نجمہ بوا سے کہا کہ وہ ایمان اور مہدیہ کو مطلع کرے مگر احتشام شاہ نے اسی وقت منع کردیا کہ اطلاع دے کر ملنے سے ممکن ہے مہدیہ انکار کردے اس لیے وہ بنا اطلاع کیے ملنا چاہتا ہے۔۔۔اکرام صاحب احتشام شاہ کے نہ ٹلنے والے انداز پہ بغور اسکی طرف دیکھتے اثبات میں سر ہلا گئے۔۔۔احتشام شاہ کے اخلاق و کردار کی وجہ سے اس کی وہ پہلے بھی بہت عزت کرتے تھے مگر رات والے واقعے کے بعد وہ اس پہ اندھا بھروسہ کرنے لگے تھے۔۔۔
                  " آپ برا نہ مانیں تو مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے۔۔۔پلیززز مہدیہ جی کل آپکو دیکھ کر میں ساری رات سو نہیں پایا۔۔۔مجھے کسی اپنے کی تلاش ہے۔۔۔جس کے بارے میں شائد آپ کچھ جانتی ہوں۔۔۔پلیززز میری مدد کردیں۔۔۔"
                  احتشام شاہ ایمان کے روم پہ دستک دے کر اندر آنے کی اجازت طلب کرنے کے بعد روم ڈور کے بیچ میں ہی کھڑے کھڑے اپنے آنے کا مقصد بتاتے مہدیہ کی طرف دیکھ کر بولا۔۔۔اس کے پیچھے اس کے ساتھ طلحہ بھی کھڑا تھا۔۔۔
                  مہدیہ اور ایمان نے حیرانی سے احتشام شاہ کی طرف دیکھا کہ وہ بھلا اس کی کیا مدد کر سکتی ہے۔۔۔مگر پھر کچھ سوچ کر مہدیہ نے اثبات میں سر ہلاتے احتشام شاہ کو اندر آنے کا اشارہ کیا۔۔۔احتشام اور طلحہ روم کے اندر رکھے صوفوں پہ جا بیٹھے۔۔۔
                  " آپ انھیں جانتی ہیں کیا۔۔۔یا کہیں دیکھا ہو۔۔۔"
                  احتشام شاہ نے اپنے موبائل کی گیلری اون کرتے نازنین کی پک مہدیہ کے سامنے کرتے بڑی آس سے پوچھا تھا۔۔۔کچھ پل غور سے دیکھنے کے بعد مہدیہ نے نفی میں سر ہلایا تھا مگر اس کی اپنی نظریں بھی نازنین کی پک پہ جم کر رہ گئیں تھیں جو ہو بہو اس کی ہم شکل تھی۔۔۔
                  " یہ تو بلکل مہدیہ کی کاپی ہیں۔۔۔بس آئیز کا کلر ڈفرنٹ ہے۔۔۔"
                  ایمان نے بے یقینی کی کیفیت میں کہا تھا۔۔۔طلحہ بھی اس قدر مماثلت پہ حیرانی سے پک کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔
                  " کون ہے یہ۔۔۔اور آپ مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں۔۔۔میں کیسے جانتی ہوں گی انکو۔۔۔"
                  مہدیہ نے حیرانی سے کہا۔۔۔مہدیہ کی بات پہ احتشام شاہ کو ایک جھٹکا لگا تھا مگر اُس کے چہرے کے تاثرات کہ رہے تھے کہ وہ سچ کہ رہی ہے۔۔۔اپنی ماں کو پہچاننے سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے۔۔۔
                  " احتشام بھیا یہ کون ہیں۔۔۔آپ مہدیہ سے ہی کیوں پوچھ رہے ہیں۔۔۔"؟
                  ایمان نے احتشام شاہ سے پوچھا تو سب سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھنے لگے۔۔۔
                  " یہ۔۔۔یہ میری چھوٹی ماں ہیں۔۔۔بابا کی سیکنڈ وائف۔۔۔ان کا نام نازنین ہے۔۔۔برسوں سے بابا انکی تلاش میں ہیں۔۔۔نہ جانے کہاں ہیں کس حال میں ہیں کوئی نہیں جانتا۔۔۔
                  میں نے بابا سے وعدہ کیا تھا کہ چھوٹی ماں چاہے کہیں بھی ہوں میں انھیں ڈونڈھ نکالوں گا۔۔۔مگر ابھی تک تلاش نہیں کر پایا۔۔۔جہاں حہاں بھی ان کے ہونے کا امکان تھا سب جگہیں دیکھ چکا ہوں مگر ان کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔۔۔"
                  احتشام شاہ نے ایک ٹھنڈی سانس بھرتے موبائل آف کر کے پاکٹ میں رکھتے کہا۔۔۔
                  " اوہ۔۔۔۔یار پریشان مت ہو الّٰلہ نے چاہا تو وہ مل جائیں گی۔۔۔خلوص نیت سے جو کام کیا جائے اور لگن سچی ہو تو الّٰلہ کی طرف سے راستے خود باخود کھلتے جاتے ہیں۔۔بس ٹھوڑی ہمت اور صبر سے کام لینا پڑتا ہے۔۔۔"
                  طلحہ نے احتشام شاہ کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر اسکی ہمت بندھاتے کہا۔۔۔
                  " مگر میرا سوال ابھی بھی وہیں ہے۔۔۔کہ مہدیہ ہی کیوں۔۔۔آپ کو کیوں لگا کہ مہدیہ جانتی ہوگی۔۔۔"
                  ایمان نے جانچتی نظروں سے احتشام شاہ کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔
                  " جب چھوٹی ماں اور بابا ایک دوسرے سے الگ ہوئے تب وہ امید سے تھیں۔۔۔مگر اس بارے میں بابا بلکل لا علم تھے۔۔۔جب مہدیہ کو دیکھا تو لگا کہ شائد یہ میری۔۔۔ب بہن ہے۔۔۔چھوٹی ماں کا جس نے چہرہ چرایا ہے۔۔۔
                  چھوٹی ماں کا تعلق بھی اسی جگہ سے تھا جہاں سے مہدیہ کا ہے۔۔۔بابا نے ان سے نکاح کیا تھا۔۔۔"
                  احتشام شاہ نے نظریں چراتے لب بھینچتے کہا تھا۔۔۔احتشام شاہ کی بات پہ جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔۔۔مہدیہ بے یقینی کی کیفیت میں احتشام شاہ کی طرف یک ٹک دیکھے جا رہی تھی۔۔۔اس کی آنکھیں پانیوں سے بھری تھیں۔۔۔
                  کتنی عجیب بات ہے کہ جن کی تلاش میں وہ نکلی تھی در در بھٹک رہی تھی۔۔۔وہ ان سے ملی بھی تو کس حال میں۔۔۔الّٰلہ نے زمین کو سمیٹ کر اس کی تلاش کیسے ختم کی تھی۔۔۔اس کے سامنے اس کی ماں کے مجرموں کو لا کھڑا کیا تھا۔۔۔
                  " آ۔۔۔آپ کے ب بابا کا نام۔۔۔کیا ہے۔۔۔"؟
                  مہدیہ نے نم آنکھوں سے رقت بھرے لہجے میں پوچھا تھا۔۔۔اس کے انداز اور چہرے کے تاثرات پہ سب اس کی طرف دیکھنے لگے۔۔۔احتشام شاہ کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی۔۔۔
                  " حشمت شاہ۔۔۔"
                  احتشام شاہ نے بغور مہدیہ کی طرف دیکھتے کہا تھا۔۔۔مہدیہ کو لگا جیسے اس کا وجود زلزلوں کی زد میں آ گیا ہو۔۔۔زمین جیسے گھومنے لگی ہو۔۔۔وہ اپنا سر پکڑے اپنی آنکھیں زور سے میچ گئ۔۔۔
                  " مہدیہ تم ٹھیک ہو ناں۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔"
                  ایمان فکرمند ہوتی بولی تھی۔۔۔مہدیہ نے کچھ دیر بعد اپنا سر اٹھایا اور احتشام شاہ کے روبرو جا کھڑی ہوئی۔۔۔احتشام شاہ فوراً اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔۔
                  " اگر میری آپکی چھوٹی ماں سے شکل نہیں ملتی ہوتی تو کیا تب بھی آپ مجھے بچاتے۔۔۔"
                  مہدیہ نے احتشام شاہ کے سامنے کھڑے ہوتے دھواں دھواں ہوتے چہرے کے ساتھ عجیب سوال پوچھا تھا۔۔۔
                  " ہاں۔۔۔خدا کی قسم اگر آپکی شکل چھوٹی ماں سے نہ ملتی ہوتی تب بھی بچاتا۔۔۔آپ کی جگہ کسی غیر مسلم کی بیٹی ہوتی اور اسے میری مدد کی ضرورت ہوتی تو تب بھی بنا سوچے میں اس کی مدد کرتا۔۔۔آپ تو پھر مسلمان ہیں۔۔۔اور اب سے تو آپ میری بہن ہیں۔۔۔آپکو بہن مانا ہے میں نے۔۔۔کبھی بھی کسی وقت بھی میری مدد کی ضرورت پڑی تو بس ایک بار پکارنا۔۔۔میں اسی وقت چلا آؤں گا۔۔۔
                  اب میں چلتا ہوں۔۔۔مجھے آج واپس اپنے گاؤں جانا ہے۔۔۔الّٰلہ نے چاہا تو پھر ملاقات ہوگی۔۔۔اپنا بہت خیال رکھنا۔۔۔"
                  احتشام شاہ نے انتہائی مضبوط لہجے میں مہدیہ کے سوال کا جواب دیا تھا پھر اس کے سر پہ شفقت سے ہاتھ رکھ کر اس سے جانے کی اجازت چاہی۔۔۔مہدیہ سے اپنے جزبات پہ قابو رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔۔۔اک انوکھا عجیب سا احساس تھا۔۔۔تحفظ کا احساس۔۔۔یہ احساس آج زندگی میں دوسری بار اس کے دل میں جاگا تھا۔۔۔بھائی۔۔۔اس کا بھائی۔۔۔اس کا محافظ۔۔۔دل ہمک ہمک کر اپنے اس باپ جائے کے سینے سے لگنے کو مچل رہا تھا۔۔۔
                  " مرے ہوئے لوگوں کو تلاش نہیں کیا جاتا۔۔۔ان کے لیے فاتحہ کی جاتی ہے۔۔۔اپنی چھوٹی ماں کو تلاش کرنا چھوڑ دیں۔۔۔وہ اب آپکو نہیں ملیں گی۔۔۔"
                  احتشام شاہ جانے کے لیے مڑا تھا مگر جیسے ہی اس نے اپنا ایک قدم روم سے باہر رکھا اس کے کانوں میں پیچھے سے مہدیہ کی رندھی ہوئی آواز پڑی۔۔۔احتشام شاہ نے پھٹی پھٹی نگاہوں سے مڑ کر اس کی طرف دیکھا تھا۔۔۔یہی حال وہاں موجود باقی لوگوں کا تھا۔۔۔
                  " بھیا۔۔۔۔"
                  احتشام شاہ کے مڑ کر دیکھنے پہ مہدیہ چہرہ جھکائے سسکی تھی۔۔۔جس حال میں احتشام شاہ نے اسے دیکھا تھا وہ یاد آتے ہی اس کا دل کٹ کر رہ گیا۔۔۔احتشام شاہ کی طرف اس کے بڑھتے قدم تھمے تھے۔۔۔احتشام شاہ اس کی اندرونی کیفیت نوٹ کرتے خود ہی تیزی سے اس کی طرف بڑھا تھا۔۔۔
                  " مہدیہ۔۔۔گڑیا۔۔۔بابا کی گڑیا۔۔۔میری بہن۔۔۔چھوٹی ماں۔۔۔"
                  احتشام شاہ کے گالوں پہ آنسو بہ نکلے تھے۔۔۔فرط جذبات سے لفظ ٹوٹ ٹوٹ کر اس کی زبان سے پھسلے تھے۔۔۔مہدیہ نے اثبات میں سر ہلاتے روتے ہوئے اس کے کہے ہر لفظ کی تصدیق کی تھی۔۔۔احتشام شاہ نے بے اختیار اپنے بازو وا کیے تھے۔۔۔مہدیہ اس مہربان مضبوط پناہ میں پناہ گزیں ہوئی تھی۔۔۔احتشام شاہ اور مہدیہ ایک دوسرے کے گلے لگے رونے لگے۔۔۔ایمان اور طلحہ کی آنکھوں سے بھی یہ جذباتی منظر دیکھ کر آنسو رواں تھے۔۔۔ایمان سب کو یہ خبر دینے تیزی سے کمرے سے نکل گئ تھی۔۔۔
                  " میری بہن۔۔۔ہماری گڑیا۔۔۔تم مل گئ ہمیں۔۔۔یاالّٰلہ تیرا شکر ہے۔۔۔
                  احتشام شاہ نے مہدیہ کے سر پہ شفقت سے بوسہ دیا تھا۔۔۔
                  مہدیہ گڑیا۔۔۔چھوٹی ماں۔۔۔چھوٹی ماں کب۔۔۔کیسے۔۔۔"؟
                  احتشام شاہ کا دھیان چھوٹی ماں کی طرف گیا تو اپنے آنسو صاف کرتے بولا۔۔۔مہدیہ نے مختصراً اسے بتا دیا۔۔۔احتشام شاہ کے لیے یہ خبر جتنی تکلیف دہ تھی اس کے بابا کے لیے یہ خبر اس سے کہیں بڑھ کر اذیت ناک تھی۔۔۔وہ کیسے انکو بتائے گا کہ جس کا انتظار وہ برسوں سے کر رہے ہیں۔۔۔جس کو سالوں سے تلاش کر رہے ہیں وہ اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔۔۔یہ سوچ ہی اسے پریشان کر گئ تھی۔۔۔مگر مہدیہ کے مل جانے کی خوشی شائد اس کے بابا کی تکلیف کا کچھ مداوا کر پائے اس دوسری سوچ نے اسے کچھ مطمئین کر ڈالا تھا۔۔۔
                  " بہت بہت مبارک ہو بیٹا۔۔۔بہت خوشی ہوئی یہ سن کر۔۔۔"
                  اکرام صاحب نے احتشام شاہ اور مہدیہ کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔ایمان کے اس دھماکے پر سب لوگ ایمان کے روم میں آ گھسے تھے جن میں گھر کے ملازم بھی تھے۔۔۔ مہدیہ کو وہ سب یوں دیکھنے لگے جیسے وہ کوئی عجوبہ ہو۔۔۔مہدیہ خود کو سب کی نظروں کا محور پاتے کنفیوز سی ہونے لگی۔۔۔سب لوگ باری باری دونوں کو مبارک باد دینے لگے۔۔۔
                  " انکل میں مہدیہ کو اپنے ساتھ اپنے گاؤں لے جانا چاہتا ہوں۔۔۔امید ہے آپکو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔۔۔"
                  احتشام شاہ نے مہدیہ کی طرف دیکھتے کہا تو اکرام صاحب مہدیہ کی طرف دیکھنے لگے جس کے چہرے پہ پریشانی کے اثرات در آئے تھے۔۔۔
                  " میں آپکے ساتھ نہیں جا سکتی۔۔۔میں ماسو ماں کی اجازت کے بنا کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی اور نہ ہی ان کو اور فاطمہ آپی کو چھوڑ کر کہیں جاؤں گی۔۔۔"
                  مہدیہ نے دھیمے مگر مضبوط لہجے میں کہا تھا اس کے انکار کرنے پہ اکرام صاحب کندھے اچکا کر رہ گئے۔۔۔
                  " آج فاطمہ بیٹی کو ہاسپٹل سے ڈسچارج کر دیا جائے گا۔۔۔میں انکو لے آتا ہوں۔۔۔پھر ان سے مشورہ کر لینا جیسے وہ کہیں۔۔۔اور پلیززز گھر واپسی پہ کوئی بھی یہاں جو کچھ ہوا اس کا تذکرہ ان سے نہیں کرے گا۔۔۔مجھے جب مناسب لگے گا میں خود انکو بتا دوں گا۔۔۔"
                  اکرام صاحب نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔۔۔تو انکی بات پہ سب نے سر ہلا کر اقرار کیا۔۔۔طلحہ ، مہدیہ ، احتشام شاہ اور ایمان نے بھی اکرام صاحب کے ساتھ ہاسپٹل جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو وہ بنا کسی رد و کد کے مان گئے۔۔۔فرحین بیگم ، زویا اور عدن نے گھر پہ رہ کر ہی انکا بھرپور طریقے سے استقبال کرنے کا کہا تو اکرام صاحب اثبات میں سر ہلا کر باقی سب کے ساتھ ہاسپٹل کے لیے نکل گئے۔۔۔
                  کل کی اذیت ناک رات گزرنے جانے کے بعد آنے والی صبح سب کے چہروں سے درد و کرب کے سائے سمیٹ کر انکے چہروں پہ خوشیاں بکھیر گئ تھی۔۔۔سب خوش تھے مسرور تھے۔۔۔
                  مگر اس خوشی میں یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ موت کا فرشتہ اس گھر کی دہلیز پہ کسی کو اپنے ساتھ لیجانے کے لیے پہنچ چکا تھا۔۔۔
                  ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

                  " یہ کیا کیا آپ نے۔۔۔کیوں اسے جانے دیا۔۔۔اسے روکا کیوں نہیں آپ نے۔۔۔آپ نے جانتے کہ اس طرح سے پنچایت کے فیصلے کے خلاف جانے اور گھر سے یوں بھاگنے کا کیا انجام نکلے گا۔۔۔"
                  شاہ سائیں کو جب حویلی میں آئی قیامت کا پتہ چلا تو وہ ضروری کام نمٹا کر باقی کا کام اپنے کچھ بھروسے مند ساتھوں کے سپرد کر کے رات ہی اسلام آباد سے نکل پڑے تھے۔۔۔فجر کے بعد وہ اپنے گاؤں اپنی حویلی میں پہنچ چکے تھے۔۔۔راستہ بھر وہ جس گلی میں سے بھی گزرتے لوگ ان کی طرف پریشان نظروں سے دیکھنے لگتے۔۔۔دین محمد اور باقی ملازموں کی حالت دیکھ کر ان کو معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا۔۔۔
                  زندگی میں پہلی بار ان کا دل چاہا کہ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیں۔۔۔دلاور اور اس کے ساتھیوں کو بتائیں کہ وہ کون ہیں اور کیا ہیں۔۔۔
                  مٹھیاں بھینچے وہ کتنی دیر خود سے لڑتے خود پہ ضبط کے بندھن باندھتے رہے۔۔۔خود کو سمجھاتے رہے کہ وہ انسان ہیں اور اپنے ہر عمل کے لیے الّٰلہ کے آگے جوابدہ ہیں۔۔۔ان کو جانور نہیں بننا۔۔۔شیطان کے بہکاوے میں نہیں آنا۔۔۔اور کچھ دیر بعد وہ اپنے اندر کے جانور پہ قابو پانے میں کامیاب ہو چکے تھے۔۔۔اور بے شک الّٰلہ کے بندوں کی یہی خاصیت ہے کہ وہ رنج و غم میں ، دکھ کی انتہا سے گزرتے ہوئے بھی اپنے جذبات اپنے غصے اپنے خیالات پہ قابو رکھتے ہیں۔۔۔اور کوئی ایسا کام نہیں کرتے جس سے انسانیت شرمندہ ہو کر رہ جائے۔۔۔
                  تمام ملازم اسلحہ سنبھالے ان کے پاس کھڑے انکے ایک اشارے کا انتظار کرنے لگے۔۔۔کچھ دیر بعد خود کو نارمل کرتے انھوں نے سب کو جانے کا اشارہ کیا کہ وہ بعد میں بتاتے ہیں کہ کیا کرنا ہے۔۔۔
                  ملازموں سے ملنے اور انکی زبانی تمام حالات جاننے کے بعد وہ حویلی کے اندروں خانہ آئے تھے۔۔۔جہاں شرجیل فجر اور ہائمہ خاتون انکے روم میں بیٹھے ان کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔سب پہ ایک سرسری نظر ڈالنے کے بعد وہ شرجیل سے گویا ہوئے تھے۔۔۔
                  " میں نے اور فجر نے اسے روکنے کی پوری کوشش کی تھی مگر حالات ایسے تھے کہ مجھے صارم کا فیصلہ ٹھیک لگا۔۔۔"
                  شرجیل نے اپنی طرف سے صفائی دیتے کہا۔۔۔
                  " یہ فیصلہ ٹھیک نہیں تھا بیٹا جی۔۔۔آپ یہاں کے قوانین اور پنچایت کے معاملات کو نہیں جانتے۔۔۔اگر جانتے ہوتے تو کبھی بھی صارم کا ساتھ نہیں دیتے۔۔۔
                  جو قدم وہ لوگ اٹھا چکے ہیں اب ان کے لیے پنچایت کی طرف سے رحم کی امید رکھنا صرف بیوقوفی ہوگا۔۔۔اب کل پنچایت میں کیا فیصلہ ہوتا ہے رب جانے۔۔۔
                  کاش کہ اس ساری صورت حال کا مجھے تم لوگ وقت پہ بتا دیتے۔۔۔"
                  شاہ سائیں نے سخت زنجیدہ لہجے میں افسوس سے سر ہلاتے کہا تھا۔۔۔صارم شاہ جب سے عائلہ کے ساتھ گاؤں سے نکلا تھا ہائمہ خاتون کو چپی لگی ہوئی تھی۔۔۔
                  " کوئی رابطہ ہوا اس سے کیا۔۔۔"
                  شاہ سائیں نے پوچھا۔۔۔
                  " میں رات سے ٹرائی کر رہی ہوں مگر صارم بھیا سے رابطہ ہو پا رہا ہے نہ احتشام بھیا سے۔۔۔"
                  فجر نے فکرمند ہوتے کہا۔۔۔
                  فجر کی بات پہ شاہ سائیں اپنا سر تھام کر رہ گئے۔۔۔

                  " پورے گاؤں میں شاہ سائیں کے واپس آ جانے کی خبر پھیل چکی تھی۔۔۔لوگوں میں چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں کہ اب کیا ہوگا۔۔۔
                  آج پنچایت نہ جانے کیا فیصلہ کرنے والی تھی۔۔۔دلاور رشید احمد کے ساتھ اپنا معاملہ پنچایر میں لے گیا تھا۔۔۔
                  ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

                  " بیٹا تم نے ایسا کیوں کیا۔۔۔اگر تمہارا ہاتھ ہلکا سا بھی چوک جاتا تو کیا بنتا۔۔۔"
                  مہرالنساء خاتون بلال کے لیے زخم پہ لگانے کے لیے لیپ بنا کر لائی تھیں۔۔۔بلال کے پاس بیٹھتے انھوں نے وہ لیپ اس کے لگاتے ہوئے ہمدردانہ لہجے میں کہا۔۔۔
                  " خالہ اس وقت دلاور جس طرح سے پاگل ہو رہا تھا اس کا دھیان بٹانا بہت ضروری تھا۔۔۔میں اسے روکتا تو وہ میری بھی نہ سنتا۔۔۔اس لیے مجھے ایسا کرنا پڑا۔۔۔میں جانتا تھا وہ کتنا ہی آپے سے باہر کیوں نہ ہو رہا ہو وہ میری تکلیف کبھی برداشت نہیں کرے گا
                  اور بلکل ویسا ہی ہوا۔۔۔"
                  بلال نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
                  " تم بہت اچھے ہو۔۔۔الّٰلہ تمہیں لمبی عمر عطا فرمائے تمہیں سیدھے راستے پہ چلائے۔۔۔آج کل کون کسی بیگانے کے لیے مرتا ہے۔۔۔
                  مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آئی بیٹا کہ تم دلاور جیسے انسان کے ساتھ کیسے پھنس گئے۔۔۔وہ جتنا بے رحم تم اتنے نرم دل۔۔۔وہ جتنا برا تم اتنے اچھے۔۔۔"
                  مہرالنساء خاتون نے اپنی حیرت ظاہر کرتے کہا۔۔۔
                  " خالہ دلاور ہرگز برا انسان نہیں ہے۔۔۔وہ جتنا آج آپکو بے رحم اور پتھر دل لگ رہا ہے کبھی وہ اتنا ہی نرم دل اور رحمدل ہوا کرتا تھا۔۔۔ہیرے جیسا دل تھا اس کا۔۔۔"
                  بلال نے جواب دیا پھر دلاور کی زندگی کے پنے مہرالنساء کے سامنے پڑھنے لگا۔۔۔مہرالنساء جیسے جیسے دلاور کے ماضی کے بارے میں جانتی گئیں ان کے دل میں اس کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوتا گیا۔۔۔

                  " منہ ہاتھ دھو کر ناشتہ کر لو۔۔۔"
                  دلاور اور رشید احمد کے واپس آنے پہ مہرالنساء نے رشید احمد کو مکمل طور پہ نظر انداز کرتے دلاور سے کہا۔۔۔دلاور نے حیرانی سے انکی طرف دیکھا۔۔۔صبح جو کچھ ہوا اس کے بعد اسے ان سے ایسے نرم رویے کی ہرگز امید نہ تھی۔۔۔
                  " زہر ملا کر لائی ہیں ناں اس کے اندر۔۔۔جب تک عائلہ مجھے واپس نہیں مل جاتی میں مروں گا نہیں۔۔۔یہ یاد رکھنا تم لوگ۔۔۔"
                  دلاور نے ٹیبل پہ پڑے گرما گرم پراٹھے اور آملیٹ کی طرف دیکھتے تنک کر کہا۔۔۔
                  " ہاں زہر ملایا ہے میں نے اس میں۔۔۔کہ شائد یہ تمہارے اندر کے زہر کو کاٹ دے۔۔۔"
                  مہرالنساء نے ایک نوالہ توڑ کر اس کے ساتھ تھوڑا سا آملیٹ لگا کر منہ میں ڈالتے اسے باور کراتے کہا کہ وہ کھا سکتا ہے اس میں زہر نہیں ہے۔۔۔دلاور نے بلال کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا کہ یہ کیا ماجرا ہے مگر بلال کندھے اچکا کر ناشتہ کرنے لگا۔۔۔کچھ دیر بعد مہرالنساء چائے بنا کر لے آئیں۔۔۔
                  " کیوں کر رہی ہیں آپ یہ سب۔۔۔جبکہ آپ جانتی بھی ہیں کہ میں آپکی بیٹی کو اپنا بنائے بنا نہیں چھوڑوں گا۔۔۔میں ان لوگوں کو سکون سے جینے نہیں دوں گا چاہے کہیں بھی چھپ کر بیٹھ جائیں۔۔۔"
                  دلاور نے مہرالنساء کے رویے پہ جھنجلا کر کہا تھا اس نے اپنی زندگی میں ایسی عورت نہیں دیکھی تھی جو اپنے دشمن کی خاطر مدارات کرنے میں لگی ہو۔۔۔ہائمہ خاتون سے مل کر اس کا دل عجیب بے چین سا تھا اسے رہ رہ کر ماسو ماں کی یاد ستانے لگی تھی اور اب یہ مہرالنساء کا رویہ بھی اسے پریشان کر گیا تھا۔۔۔
                  " اپنی اولاد کی خوشی اور اس کی بہتری کے لیے میں نے جو کرنا تھا میں وہ کر چکی۔۔۔اس سب کے بعد بھی اگر میری بیٹی کا نصیب تم سے جا کے جڑ جاتا ہے تو میں اسے الّٰلہ کی رضا سمجھ لوں گی۔۔۔
                  پھر تم سے میرا جھگڑنا بنتا ہی نہیں۔۔۔تم جو کر سکتے ہو کر لو۔۔۔اگر میری بیٹی کا نصیب تم سے نہیں جڑا تو تم جو مرضی کر لو الّٰلہ ان کے لیے ہزار راستے کھول دے گا۔۔۔
                  اب سے نہ تو تمہاری لڑائی مجھ سے ہے نہ میری بیٹی سے نہ ہی صارم شاہ سے۔۔۔ہم لوگ اپنے حصے کی لڑائی لڑ چکے اور اب اپنا معاملہ الّٰلہ پہ چھوڑ دیا۔۔۔تم لڑو اگر لڑ سکتے ہو۔۔۔لڑو اپنی قسمت سے۔۔۔لڑو خدا کی رضا سے۔۔۔جبکہ تم ساری دنیا کی فوج بھی اکٹھی کر لو تب بھی الّٰلہ کی رضا کے آگے ہار جاؤ گے۔۔۔
                  تو پھر میں تم سے ناراض کیوں ہوں۔۔۔میں کیوں تمہارے کھانے میں زہر ملاؤں گی۔۔۔اپنی بیٹی کو تم سے بچانے کے لیے میں جو جو کرسکتی تھی میں نے کیا۔۔۔میں اپنا آخری داؤ بھی کھیل چکی۔۔۔سب امتحان دے چکی۔۔۔اب تو مجھے رزلٹ کا انتظار ہے۔۔۔اب مجھے اپنے رب کے فیصلے کا انتظار ہے۔۔۔
                  میں نے تمہیں اجازت دی دلاور ملک۔۔۔تم جو کر سکتے ہو کر گزرو۔۔۔مجھ میں اب نہ تو تم سے لڑنے کی سکت ہے نہ اپنی بیٹی کی قسمت سے۔۔۔اس سب کے بعد اب میرے رب کا جو فیصلہ ہوگا مجھے منظور ہوگا۔۔۔چاہے وہ تمہارے حق میں آئے چاہے صارم شاہ کے حق میں آئے۔۔۔
                  مہرالنساء نے ٹھنڈے ٹھار لہجے میں کہا اور اپنے روم کی طرف بڑھ گئیں۔۔۔مہرالنساء کی کہی باتوں نے دلاور کا سر گھما دیا تھا وہ بنا چائے پئیے بلال کے پکارنے کے باوجود گھر سے باہر نکل گیا۔۔۔

                  پنچایت نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔۔۔اور اس فیصلے کے مطابق صارم شاہ اور عائلہ کو گنہگار قرار دیا گیا تھا۔۔۔پنچایت نے حکم دیا کہ دونوں کو ڈونڈھ کر گاؤں نہ صرف واپس لایا جائے بلکہ صارم شاہ اور عائلہ اگر نکاح کرچکے ہوئے تو یہ پنچایت اس نکاح کو باطل قرار دیتی ہے۔۔۔ دونوں کو تلاش کر کے گاؤں سے بھاگنے کی سخت سے سخت سزا دی جائے۔۔۔
                  پنچایت نے اپنا فیصلہ سناتے یہ بھی کہا کہ اگر آج ان لوگوں کو معاف کردیا گیا تو ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی لڑکا لڑکی گاؤں سے بھاگ جایا کریں گے جو کہ نہ تو اس گاؤں کی روایات کے حساب سے کسی صورت قابل قبول ہے اور نہ ہی یہ شرعی طور پہ قابل قبول ہے۔۔۔اس بات کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ اپنے ماں باپ کی عزت کو گھر سے بھاگ کر مٹی میں رول دیں۔۔۔
                  پنچایت کے حکم پہ کچھ لوگوں کو فی الفور انکی تلاش میں روانہ کردیا گیا تھا۔۔۔ان لوگوں میں صادق کا باپ نواز بھی شامل تھا۔۔۔جس کا دل بغض اور کینے سے بھرا ہوا تھا۔۔۔اہنے بیٹے سے جدائی کا بدلہ لینے کا ایک نادر موقع قسمت نے اسے دیا تھا پھر وہ کہاں پیچھے ہوتا۔۔۔

                  " شاہ میرے بیٹے کو کچھ نہیں ہونا چاہیے۔۔۔اگر اسے کچھ ہوا تو میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔"
                  پنچایت سے واپسی پہ شاہ سائیں حویلی لوٹے تو ہائمہ خاتون بے چینی سے ان کا انتظار کر رہی تھیں۔۔۔پنچایت میں ہوئے فیصلے کے بارے میں جان کر انھوں نے اپنی خاموشی کو توڑتے شاہ سائیں سے دو ٹوک انداز میں بھرائے لہجے میں کہا تھا۔۔۔
                  " آپ جانتی ہیں ہائم پنچایت کا قانون سب کے لیے یکساں ہے۔۔۔ہم چاہ کر بھی اب صارم بیٹے کو بچا نہیں پائیں گے۔۔۔یہ سب ان کو بھاگنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔۔۔
                  اب سے آپ یہی سمجھ لیں کہ آپ کا بس ایک ہی بیٹا ہے۔۔۔"
                  شاہ سائیں نے دھیمے مگر سخت لہجے میں کہا تھا شاہ سائیں کے لہجے کی سختی محسوس کرتے ہائمہ خاتون اندر تک لرز گئ تھیں۔۔۔وہ ماں تھیں رو پیٹ کر اپنے دل کا درد آنسوؤں کے رستے بہا رہی تھیں مگر شاہ سائیں تو رو بھی نہیں سکتے تھے۔۔۔ان کا دل اپنے بیٹے کا انجام سوچ کر بے قرار ہو اٹھا تھا مگر وہ اس کا اظہار نہیں کرسکتے تھے کہ وہ صرف ایک باپ ہی نہیں اس گاؤں کے سردار بھی تھے۔۔۔جو انصاف جو قانون آج تک سب کے لیے قائم کیے ہوئے تھے اب خود کی باری وہ اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے تھے۔۔۔
                  ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

                  " میں تجھے پورے گاؤں میں تلاش کر رہا ہوں اور تو یہاں بیٹھا ہے۔۔۔وہ بھی اس وقت۔۔۔"
                  صبح سے شام ہونے کو آئی تھی مگر دلاور کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔۔۔اپنے کسی آدمی کو بھی وہ اپنے ساتھ لے کر نہیں گیا تھا۔۔۔انتظار کرتے کرتے جب شام ہونے کو آئی تو بلال اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔۔۔گاؤں میں وہ لوگ بلکل اجنبیوں کی طرح تھے۔۔۔نہ کوئی گھر گھاٹ نہ عزیز رشتے دار ایسے میں اتنی دیر سے دلاور کا غائب ہونا عجیب بات تھی۔۔۔
                  بلال اپنے ساتھیوں کی ساتھ ہر ممکنہ جگہ دیکھ چکا تھا مگر اس کا کچھ پتہ نہ چلا۔۔۔پھر ایک خیال کے تحت وہ قبرستان کی طرف آیا تو دلاور کو وہیں بیٹھے پایا۔۔۔بلال بھی ہاتھ سے جگہ صاف کرکے اس کے پاس ہی بیٹھ گیا۔۔۔
                  " تجھے ڈر نہیں لگ رہا۔۔۔شام کا وقت۔۔۔اس پہ دور تک پھیلی خاموشی۔۔۔اور ہر طرف قبریں ہی قبریں۔۔۔"
                  بلال نے قبروں کی طرف دور تک دیکھتے ایک جھرجھری لیتے کہا۔۔۔
                  " جب انسان کے اپنے اندر ویرانی چھائی ہو تو باہر کا ویرانہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔۔۔تب انسان کو صرف یہی جگہ پرسکون کر سکتی ہے۔۔۔یہاں آ کر انسان کو اپنی اوقات کا پتہ چلتا ہے۔۔۔
                  ایک بات تو بتا بھولے۔۔۔کیا میں واقع جانور بن گیا ہوں۔۔۔میں تجھے جانور لگتا ہوں۔۔۔۔۔"؟
                  دلاور نے سر جھکائے رنجیدہ لہجے میں بلال سے سوال کیا ہائمہ خاتون سے ملنے کے بعد اور مہرالنساء کی باتیں سننے کے بعد اس کے اندر ایک جنگ چھڑ چکی تھی جس سے کب سے بیٹھا وہ لڑ رہا تھا کہیں سکون نہ ملا تو قبرستان چلا آیا۔۔۔اس کی بات پہ بلال تڑپ کر رہ گیا۔۔۔
                  " ہرگز نہیں یار۔۔۔ہم جس قسم کی اب تک زندگی گزارتے آئے ہیں برائی کی جس راہ پہ چلتے آئے ہیں اس میں دور تک نکل جانے کے بعد بھی مجھے تیرے اندر ایک معصوم بچہ ایک اچھا انسان ہمیشہ نظر آتا رہا۔۔۔اگر ہم نے کسی کے ساتھ برا کیا تو بہت سے لوگوں کے ساتھ اچھا بھی کیا ان کے کام آئے۔۔۔
                  مگر عائلہ کے معاملے میں تو بہت غلط کر گیا یار۔۔۔ہم نے ان کے ساتھ برا کیا جو برے تھے۔۔۔مگر عائلہ اور اس کی فیملی کا کیا قصور۔۔۔ہماری وجہ سے وہ لوگ کس قدر اذیت میں ہیں۔۔۔ہماری وجہ سے عائلہ آج در در نہ جانے کہاں بھٹک رہی ہے۔۔۔
                  تجھے یاد ہے ایک بار ماسو ماں نے کہا تھا کہ جو انسان الّٰلہ کے بندوں کو پریشان کرتا ہے۔۔۔ان کے راستے میں مشکلیں کھڑی کرتا ہے۔۔۔ان کا دل دکھاتا ہے الّٰلہ اس انسان کے لیے بھی زمین تنگ کر دیتا ہے۔۔۔اس کے ملنے جلنے والے ، دوست ، رشتےدار اور عزیزو اقارب سب کے دل سے اس کے لیے محبت عزت احترام کو ختم کر دیتا ہے۔۔۔
                  اور کبھی کبار جو چیز جو شخص اسے دنیا میں سب سے زیادہ عزیز ہوتا ہے اسے اس انسان سے دور کر دیتا ہے۔۔۔
                  اس دنیا میں رہ کر جو بوؤ گے وہ کاٹنا تو پڑے گا۔۔۔الّٰلہ کے بندوں کے لیے آسانیاں پیدا کرو گے ، دکھ درد میں انکے کام آؤ گے، کوئی مشکل میں ہو تو اس کی مشکل اس کی پریشانی دور کرو گے تو الّٰلہ تمہارے راستے کے سارے کانٹے ساری پریشانیاں دور کردے گا۔۔۔لوگوں کے دلوں میں تمہارے لیے محبت عزت اور احترام پیدا فرما دے گا۔۔۔تمہارے بچھڑے ہوؤں کو تم سے ملا دے گا۔۔۔زندہ ہوں تو دنیا میں ہی اور اگر وہ مر چکے ہوں تو جنت میں ان سے ملائے گا۔۔۔
                  دوسروں کا سکون چھینو گے تو الّٰلہ تمہارا سکون چھین لے گا۔۔۔دوسروں کو پریشان کرو گے تو الّٰلہ تمہیں ان گنت پریشانیوں میں جکڑ دے گا۔۔۔
                  تم نے کبھی سوچا ہے دلاور کہ تم آخری بار سکون کی نیند کب سوئے تھے۔۔۔
                  تم آخری بار کب کھل کر مسکرائے تھے ہنسے تھے۔۔۔
                  جانتے ہو جب عینا تمہیں بد دعائیں دے رہی تھی تو میں اس کی ہر بد دعا پہ کانپ رہا تھا مجھے اس کی بد دعا سے ڈر لگنے لگا تھا۔۔۔اسی لیے میں نے عائلہ کو بھگانے میں ان لوگوں کی مدد کی تھی۔۔۔"
                  چپ چاپ سر جھکائے بلال کی باتیں سنتے دلاور نے اس کے اعتراف پہ یکدم سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تھا۔۔۔بے یقینی ، دکھ افسوس شکوہ کیا کچھ نہیں تھا اس کی نظروں میں۔۔۔
                  " دھوکا دیا تو نے مجھے۔۔۔کیوں۔۔۔تو نے کیوں کیا ایسا۔۔۔
                  ایک محبت ہی تو کی تھی میں نے اس سے۔۔۔زندگی میں بس ایک ہی چاہ کی تھی۔۔۔اور میرے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے تو ان لوگوں کے ساتھ جا کھڑا ہوا۔۔۔پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے تو نے میری۔۔۔یار کہ کر یار کی جان نکال دی تو نے تو۔۔۔"
                  دلاور نے لب بھینچے نم آلود لہجے میں کہا۔۔۔
                  " میں نے جو بھی کیا تیرے بھلے کے لیے کیا۔۔۔تو اسے چاہتا تھا مگر وہ تجھے نہیں چاہتی تھی۔۔۔یہ بات تجھے سمجھ کیوں نہیں آ رہی۔۔۔ہم کبھی بھی کسی کے دل میں اپنے لیے زبردستی محبت پیدا نہیں کروا سکتے۔۔۔یہ تو ایسا جذبہ ہے جو خود باخود دلوں میں پروان چڑھتا ہے۔۔۔ایک دل سے دوسرے دل تک اپنا راستہ خود باخود بناتا ہے۔۔۔
                  یکطرفہ محبت کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔۔۔اگر کسی طریقے سے زورزبردستی حاصل ہو بھی جائے تو بھی ساری عمر انسان محبت کی لذت سے محروم رہتا ہے۔۔۔
                  تو جہاں کھڑا ہے اپنے ارد گرد نگاہ دوڑا کے دیکھ۔۔۔ان مٹی کے ڈھیروں کو دیکھ۔۔۔ان کے اندر جو مردہ وجود پڑے ہیں اپنی زندگی میں نہ جانے ان کے اندر بھی کتنی خواہشات تھیں اور ان خواہشات کو پورا کرنے کے لیے نہ جانے کتنے لوگوں کا دل دکھایا ہو گا۔۔۔کس کس کا حق مارا ہوگا۔۔۔کتنے ظلم کیے ہوں گے۔۔۔
                  مگر آج دیکھ مٹی کے نیچے دفن ہیں۔۔۔ساری کی ساری چاہتیں سب خواہشات دوست عزیز رشتے دار اپنا مال اولاد بیوی بچے سب کے سب اپنے پیچھے چھوڑ کر خالی ہاتھ خالی دامن یہاں پڑے ہیں۔۔۔
                  دو دلوں کو الگ کرنا گناہ ہے یار۔۔۔اور میں نہیں چاہتا تھا کہ تو یہ گناہ کرے اور عائلہ کے گھر والوں کی بد دعائیں لے۔۔۔تو تو ابھی تک موہنی کی بد دعاؤں کے حصار سے نہیں نکلا۔۔۔اپنے اوپر اس قدر گناہ کا بار مت چڑھا کہ بعد میں تو جب آئینے میں اپنی شکل دیکھے تو تجھے اپنا چہرہ نظر نہ آئے۔۔۔
                  میں نے جو کیا اگر اس کو دوست کی پیٹھ میں چھرا گھونپنا کہتے ہیں تو یہی سہی۔۔۔
                  لے بیٹھا ہوں تیرے سامنے یہیں اسی قبرستان میں بے شک مجھے مار کے دفنا دے۔۔۔خدا کی قسم اففف تک نہیں کروں گا۔۔۔"
                  بلال نے ایک گہرا سانس خارج کرتے اپنی آنکھیں بند کرتے کہا دلاور اسکی طرف کچھ پل یونہی دیکھتا رہا پھر اچانک اس کے گلے لگ کر رونے لگا۔۔۔آج برسوں بعد کسی بچے کی طرح وہ رو رہا تھا ساری دنیا کو ڈرانے والا کسی سے نہ ڈرنے والا آج کسی معصوم بچے کی طرح بلک رہا تھا۔۔۔
                  " اس نے ایسا کیوں کیا۔۔۔کتنا چاہا تھا میں نے اسے۔۔۔تو جانتا ہے ناں میں بلکل ویسا بن رہا تھا جیسا وہ پسند کرتی تھی۔۔۔اس کے لیے سب چھوڑ تو دیا تھا میں نے۔۔۔تو جانتا ہے ناں۔۔۔پھر کیوں کیا اس نے ایسا۔۔۔اس نے کہا تھا کہ وہ مجھ سے نکاح کرے گی۔۔۔پھر کیوں دھوکا دیا مجھے۔۔۔کیوں۔۔۔جب سے وہ گئ ہے مجھے لگ رہا ہے جیسے کسی نے میرے جسم سے میری روح کھینچ لی ہو۔۔۔میں اس کے بنا نہیں رہ سکتا۔۔۔بلال اسے ڈونڈھ لا۔۔۔کہیں سے بھی۔۔۔پلیززز بلال۔۔۔اسے ڈونڈھ لا۔۔۔نہیں رہ سکتا میں اس کے بنا۔۔۔"
                  دلاور ہچکیاں لے لے کر روتے ہوئے کسی بچے کی طرح اپنے من پسند کھلونے کے لیے بلکنے لگا۔۔۔بلال سے اس کا رونا برداشت نہیں ہو رہا تھا وہ کب اسے اس حال میں دیکھ سکتا تھا۔۔۔
                  " میری ایک بات مانے گا۔۔۔"
                  کچھ دیر بعد جب دلاور کا من کچھ ہلکا ہوا تو بلال نے اس کا کندھا سہلاتے کہا دلاور سر اٹھا کر بھیگی نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔
                  " چل امام صاحب سے ملنے چلتے ہیں۔۔۔پتہ نہیں میرا دل کہتا ہے کہ تیرے دل کو ان سے مل کے سکون ملے گا۔۔۔تو بہتر فیل کرے گا۔۔۔"
                  بلال نے شفیق لہجے میں دلاور سے کہا تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔۔
                  ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
                  " تم لوگوں کو کچھ دن یہیں رکنا پڑے گا یار۔۔۔ائیر پورٹس ، بس سٹینڈز ، اسٹیشن غرض ہر جگہ پہ تم دونوں کو تلاش کیا جا رہا ہے۔۔۔ایسے میں تم دونوں کا باہر نکلنا کسی صورت مناسب نہیں ہے۔۔۔"
                  معاذ نے پریشان کن لہجے میں کہا۔۔۔وہ ابھی ابھی ائیر پورٹ سے حالات کا جائزہ لینے کے بعد واپس آیا تھا۔۔۔ائیر پورٹ کے بعد کسی اور راستے سے نکلنے کا سوچ کر وہ بس سٹینڈ اور پھر اسٹیشن پہ گیا تو وہاں بھی اسے کچھ لوگ نظر آئے جو ہر آتے جاتے کو صارم شاہ کی تصویر دکھا کر اس کا پوچھ رہے تھے۔۔۔
                  " یہ تم کیا کہ رہے ہو۔۔۔مجھے فوری طور پہ گھر رابطہ کرنا ہوگا۔۔۔احتشام بھائی۔۔۔بابا یا شرجیل۔۔۔کسی نہ کسی سے ساری صورت حال معلوم کرنی ہوگی۔۔۔ہو سکتا کہ نہ صرف تمہارا بلکہ تمہارے ہر جاننے والے کا فون چیک کیا جا رہا ہو۔۔۔"
                  صارم شاہ نے پریشان ہوتے کہا۔۔۔
                  " میرا خیال ہے کہ اگر یہ سب دلاور کروا رہا ہے تو پھر تم اپنا موبائل پاور آف کردو۔۔۔اپنے سیل سے کسی کو بھی کال مت کرو اور نہ اٹینڈ کرو۔۔۔
                  میں کسی کو گاؤں بھجوا کر وہاں سے حالات کا پتی کرواتا ہوں۔۔۔جب تک سارا معاملہ کلئیر نہیں ہو جاتا بہت سوچ سمجھ کر تمہیں ہر قدم اٹھانا ہوگا۔۔۔"
                  معاذ نے صارم شاہ کو فوراً منع کیا تھا۔۔۔صارم شاہ پریشان ہو اٹھا تھا۔۔۔​

                  Comment


                  • #89
                    Episode , 60

                    رضوانہ خاتون فاطمہ کے ساتھ ہاسپٹل سے گھر آ گئ تھیں۔۔۔گھر واپسی پہ انکا بہت شاندار استقبال کیا گیا تھا گھر کے ہر فرد نے فرداً فرداً فاطمہ کو ٹھیک ہو کر گھر واپس آنے کے لیے مبارک باد دی تھی۔۔۔ جسے دیکھ دیکھ کر رضوانہ خاتون اور فاطمہ حیران ہونے کے ساتھ ساتھ اس کایا پلٹ پہ الجھن زدہ بھی تھیں فرحین بیگم انتہائی محبت سے پیش آ رہی تھیں فاطمہ کی ایسے کئیر کر رہی تھیں جیسے وہ کوئی چھوٹی سی بچی ہو۔۔۔سب کچھ بدلا بدلا سا تھا۔۔۔اس بدلے ماحول میں مہدیہ انھیں بہت الجھی الجھی سی اور کچھ پریشان سی محسوس ہوئی تھی ایک دو بار انکے اشاروں کنایوں میں پوچھنے پہ وہ بات کو ٹال گئ کہ گھر جا کے بات کرتے ہیں۔۔۔
                    سب کے بیچ میں ایک نیا چہرہ بھی تھا جو گاہے بگاہے مہدیہ سے یوں بات کر رہا تھا جیسے برسوں کی جان پہچان ہو۔۔۔اس ساری صورت حال کو سمجھنے کے لیے مہدیہ سے بات کرنے کا انکو کوئی موقع نہیں مل رہا تھا۔۔۔اور اب ان سب لوگوں کی اس قدر محبت اور پروٹوکول کی وجہ سے گھر آ کر سیدھے اپنے پورشن میں جانا بھی مینرز کے خلاف لگ رہا تھا۔۔۔
                    آج تک رضوانہ خاتون احتشام شاہ کے نام اس کے کردار سے غائبانہ طور پہ واقف تھیں مگر اسے روبرو دیکھنے کا اتفاق پہلی بار ہوا تھا مگر اس کا مہدیہ سے فرینکلی بات کرنا اس کی طرف محبت پاش نظروں سے دیکھنا اور سونے پہ سہاگہ کہ وہ مہدیہ کے بہت قریب بیٹھا ہوا تھا اور یہی بات نہ فاطمہ کو ہضم ہو رہی تھی نہ ہی رضوانہ خاتون کو۔۔۔
                    " میں کچھ دیر آرام کرنا چاہ رہی ہوں اگر آپ سب کی اجازت ہو تو۔۔۔"؟
                    فاطمہ نے اپنے ساتھ مہدیہ کو بھی اٹھنے کا اشارہ کرتے سب کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔مگر اکرام صاحب نے اسے کچھ دیر اور بیٹھنے کا کہنے کے ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ کچھ ضروری بات کرنا چاہتے ہیں۔۔۔مجبوراً فاطمہ کو وہاں بیٹھنا پڑا۔۔۔
                    احتشام شاہ بار بار کبھی گھر پہ اور کبھی عینا کے نمبر پہ کال ملانے کی ٹرائی کر رہا تھا مگر نیٹ پرابلم کی وجہ سے کل رات سے اس کا رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا۔۔۔احتشام شاہ کے دل میں عجیب عجیب وسوسے سر اٹھانے لگے۔۔۔وہ مہدیہ کو لے کر اب جلد از جلد واپس جانا چاہ رہا تھا مگر مہدیہ کی شرط کی وجہ سے وہ کچھ دیر مزید وہاں رکنے پہ مجبور ہو گیا تھا۔۔۔
                    طلحہ دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ گاہے بگاہے فاطمہ کو دیکھ لیتا نظروں کے تصادم پہ وہ کنفیوز سی ہو کر فوراً اپنی نظریں پھیر لیتی۔۔۔اس نے طلحہ کو کوئی امید نہیں دی تھی مگر طلحہ کے انداز ایسے تھے جیسے دونوں طرف سے بات فائنل ہو گئ ہو۔۔۔اسکی نظروں سے گھبرا کر وہ منظر سے غائب ہونا چاہتی تھی دوسرا مہدیہ کو اپنے ساتھ روم میں لے جا کر اس سے پوچھنا چاہتی تھی کہ اس کے پیچھے دو دن میں ایسا کیا ہوا کہ سب بدل گئے خاص کر فرحین بیگم کا رویہ۔۔۔
                    اس وقت گھر کے سب لوگ ہال روم میں موجود تھے سوائے قاسم کے۔۔۔فرحین بیگم قاسم کی غیرموجودگی کو محسوس کرتے بے چین ہوئیں تھیں مگر دوسرے لمحے وہ سر جھٹک گئیں ۔۔۔
                    " آپا مجھے آپ سے کسی کو ملوانا ہے۔۔۔"
                    اکرام صاحب نے احتشام شاہ کی رضوانہ خاتون سے بات کرنے کی مشکل آسان کرتے گلا کھنکارتے سب کو خاموش ہونے کا اشارہ کرتے رضوانہ خاتون سے کہا تھا۔۔۔رضوانہ خاتون نے انکے یوں تمہید باندھنے پہ سوالیہ نظروں سے اس انکی طرف دیکھا تھا۔۔۔جبکہ باقی سب بھی انکی طرف دیکھنے لگے مگر سب کے چہروں پہ مسکراہٹ تھی جسے واضح طور پہ رضوانہ خاتون نے محسوس کیا تھا۔۔۔
                    " آپا یہ احتشام شاہ ہے۔۔۔مہدیہ بیٹی کے بڑے بھائی۔۔۔"
                    اکرام صاحب کی بات پہ رضوانہ خاتون کا چہرہ سپید پڑا تھا فاطمہ کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہوئی تھی جیسے کسی کی عین موقع پہ چوری پکڑی جائے۔۔۔
                    " مم مہدیہ کا بھائی۔۔۔"
                    رضوانہ خاتون کے چہرے پہ یہ سوچ کر ہوائیاں اڑیں تھیں کہ مہدیہ کا سچ سب کے سامنے آ چکا ہے جس کے لیے وہ فلحال ذہنی طور پہ تیار نہیں تھیں۔۔۔انکی آواز جیسے دور کنوئیں سے آتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔
                    " جی آپا۔۔۔مہدیہ بیٹی کے بڑے بھائی۔۔۔حشمت شاہ کے بڑے بیٹے ہیں یہ۔۔۔حشمت شاہ مہدیہ کے والد ہیں۔۔۔"
                    اکرام صاحب نے رضوانہ خاتون کو جتائے بنا کہ انھوں نے مہدیہ کا سچ ان سے چھپایا ہے بہت رسانیت سے مہدیہ اور احتشام شاہ کے رشتے کے بارے میں انھیں بتایا بلکہ رات جو کچھ ہوا اس سب سے بھی بہت ڈھکے چھپے انداز میں رضوانہ خاتون کو آگاہ کیا کہ مہدیہ کا سچ کیسے انکے سامنے آیا اور کس طرح سے الّٰلہ پاک نے احتشام شاہ کو مہدیہ کے سامنے لا کھڑا کیا۔۔۔ساری بات سن کر وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے یک ٹک مہدیہ کی طرف دیکھنے لگیں۔۔۔جبکہ فرحین بیگم نظریں زمین میں گاڑے بیٹھی رہیں۔۔۔
                    " قاسم کی اس حرکت پہ میں آپ سے اور مہدیہ بیٹی سے معافی مانگتی ہوں آپا۔۔۔یہ سب میرا ہی قصور ہے کہ میں اپنی اولاد کو صحیح غلط کی پہچان نہ کروا سکی۔۔۔انکی اچھی تربیت کر کے انکو ایک اچھا انسان نہ بنا سکی۔۔۔کاش کہ میں نے اکرام کی بات سنی ہوتی سمجھی ہوتی تو آج یہ سب نہیں ہوتا۔۔۔
                    جب ماں باپ اولاد کی ہر جائز و ناجائز بات مانتے چلے جاتے ہیں اور انکی غلطیوں پہ انکو سمجھانے کی بجائے ان کا ساتھ دیتے ہیں یا چپ رہتے ہیں تو وہ بچے بڑے ہوکر صحیح غلط کی پہچان کھو دیتے ہیں نہ انکو چھوٹے بڑے کا لحاظ رہتا ہے نہ اپنے پرائے کا اور نہ ہی رشتوں کے تقدس کا خیال رکھتے ہیں
                    انکے نزدیک بس وہی صحیح ہوتا ہے جو انکے دل کو ٹھیک لگے۔۔۔
                    فرحین بیگم نے نمی گھلے لہجے میں نظریں نیچے کیے کہا تھا شرمندگی کے مارے ان سے سر اٹھانا مشکل ہو رہا تھا۔۔۔شرمندگی اور افسوس کے آنسو انکی پلکوں کی باڑ پہ جھلملانے لگے تھے۔۔۔ انکے بچوں نے آگے بڑھ کر اپنی ماں کے گرد اپنے بازوؤں کا محبت بھرا گھیرا قائم کیا تھا انکو سب ٹھیک ہو جانے کی تسلی دی تھی۔۔۔
                    " جو کچھ بھی ہوا اس میں آپ کا کیا قصور بہن۔۔۔الّٰلہ کا شکر ہے جس نے ہم سب کی عزت رکھی۔۔۔
                    کبھی کبار ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو بات جو واقعہ ہمارے لیے بہت تکلیف دہ ہوتا ہے الّٰلہ پاک اسی شر میں سے خیر کا ایسا پہلو ہمارے سامنے لے آتے ہیں کہ پھر ہم کہتے ہیں کہ جو ہوا اچھا ہی ہوا۔۔۔
                    قاسم کی یہ لغزش یہ غلطی اپنی جگہ مگر اس میں کچھ شک نہیں کہ احتشام بیٹے اور مہدیہ کو الّٰلہ پاک نے ایسے ہی ایک دوسرے کے سامنے لا کر کھڑا کرنا تھا۔۔۔مہدیہ کا ہم سے ملنا پھر ہمارے ساتھ ہمارے گھر میں ہمارے گھر کے فرد کی حثیت سے ہمارے ساتھ رہنا اور پھر ہمارے ذریعے احتشام بیٹے سے آپکے گھر میں ملنا یہ سب پہلے سے الّٰلہ کے ہاں تہ شدہ تھا۔۔۔
                    الّٰلہ کی مصلحتیں ہم ناقص العقل بندوں کی سمجھ سے بہت بالا تر ہیں۔۔۔جو کچھ ہوا آپ خود کو اس سب کا ذمہ دار نہ ٹھہرائیں قاسم کی رگوں میں آپ کا ہی خون ہے۔۔۔غلط صحبت کی وجہ سے وہ بھٹک گیا ہے مگر مجھے یقین ہے کہ اگر اسے طریقے سلیقے سے سمجھایا جائے تو وہ راہ راست پہ آ جائے گا۔۔۔
                    باقی میں بھی مہدیہ کا سچ آپ سے چھپانے کے لیے شرمندہ ہوں۔۔مگر میرا الّٰلہ گواہ ہے کہ میرا مقصد آپکو دھوکا دینا نہیں تھا اور نہ ہی کوئی بری نیت تھی۔۔۔
                    مجھے لگا کہ جب یہ معاشرہ ہم جیسے غریب لوگوں کو قبول نہیں کرتا تو مہدیہ کا سچ سامنے آنے پہ کون اسے قبول کرے گا۔۔۔اور یہ بچی جس حال میں ہم سے ملی میرے ضمیر نے گوارا نہیں کیا کہ اسے اس دنیا کے جنگل میں تنہا چھوڑ دوں جہاں ہر طرف انسان نما جانور بستے ہوں۔۔۔میں نے آپ سے سچ صرف اس بچی کو تحفظ دینے کے لیے چھپایا تھا ہو سکے تو آپ بھی مجھے معاف کردیں۔۔۔"
                    اکرام صاحب اور انکی فیملی نے قاسم کی اس گھٹیا حرکت کا ہر طرح سے نہ صرف مداوا کرنے کی کوشش کی تھی بلکہ سب شرمندہ بھی تھے۔۔۔ایسے میں ان سب اچھے لوگوں کو ایک غلط انسان کی غلطی اور گناہ کا ذمہ دار ٹھہرا کر مزید شرمندہ کرنا رضوانہ خاتون کو مناسب نہیں لگا تھا۔۔۔اس لیے انھوں نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے بہت سوچ سمجھ کر لفظوں کا چناؤ کیا کہ وہ لوگ مزید شرمندہ نہ ہوں۔۔۔
                    رضوانہ خاتون کے اس قدر مدلل انداز میں بات کرنے پہ احتشام شاہ کے ساتھ باقی سب بھی تائیدی انداز میں سر ہلا کر رہ گئے۔۔۔فرحین بیگم کو فاطمہ اور رضوانہ خاتون کے ساتھ کیا گیا اپنا ناروا سلوک یاد آیا تو وہ لب بھینچ کر رہ گئیں رضوانہ خاتون کی اعلیٰ ظرفی پہ انکا جھکا سر مزید جھک گیا۔۔۔
                    " آنٹی اگر آپ برا نہ مانیں تو میں آپکو اور اپنی گڑیا کو اپنے ساتھ لیجانا چاہتا ہوں۔۔۔گاؤں میں کچھ ایسے مسلے مسائل چل رہے ہیں کہ جن کی وجہ سے میرا جلد از جلد وہاں پہنچنا بہت ضروری ہے۔۔۔مگر مہدیہ کا کہنا ہے کہ وہ آپکے بنا میرے ساتھ نہیں جائے گی اور مہدیہ کی اس بات سے میں بھی متفق ہوں مجھے بہت خوشی ہوگی اگر آپ میری بات کا مان رکھیں گی تو۔۔۔"
                    احتشام شاہ نے رضوانہ خاتون سے بہت شائستہ اور اپنائیت بھرے لہجے میں کہا تو سب لوگ رضوانہ خاتون کی طرف انکے جواب کے انتظار میں دیکھنے لگے۔۔۔
                    " بیٹا آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ مہدیہ کو اس کے حقیقی رشتوں کے مل جانے کی مجھے کس قدر خوشی ہے۔۔۔مگر میں آپکے ساتھ نہیں جا سکتی۔۔۔اور مہدیہ کو بھی آپ کے ساتھ بھیجنے سے پہلے مجھے کچھ پوائنٹس پہ آپ سے بات کرنی ہے اس کے بعد پھر آپ کا جو بھی فیصلہ ہو اسی حساب سے اگلا قدم اٹھایا جائے گا۔۔۔"
                    رضوانہ خاتون نے نپے تلے لہجے میں نہ تو ہاں میں جواب دیا تھا اور نہ ہی مہدیہ کو احتشام کے ساتھ بھیجنے کے لیے انکار کیا تھا۔۔۔رضوانہ خاتون کے مہدیہ کے ساتھ جانے پہ انکار کرنے پہ مہدیہ خفا نظروں سے رضوانہ خاتون کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔
                    " جی میں آپکے ہر سوال کا جواب دینے کے لیے حاضر ہوں آپ پوچھیں جو بھی پوچھنا ہے یا جو کہنا ہے کہ سکتی ہیں۔۔۔"
                    احتشام شاہ نے نظریں نیچی کیے فرمانبرداری سے جواب دیا۔۔۔رضوانہ خاتون نے بغور احتشام شاہ کی طرف دیکھا تھا جب سے وہ وہاں بیٹھا ہوا تھا انھوں نے ایک بار بھی اسے اپنے سے بڑوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے نہیں دیکھا تھا خاص کر جب وہ ان سے بات کر رہا تھا تو اس نے ایک بار بھی انکے چہرے کی طرف دیکھ کر بات نہیں کی تھی بلکہ احتراماً اسکی نظریں جھکی رہی تھیں۔۔۔روشن چہرے اور فراخ پیشانی والا یہ نوجوان جس کی نظروں سے ہی حیا ٹپک رہی تھی انھیں بے حد پسند آیا تھا۔۔۔مہدیہ کی فیملی کو لے کر انکے دل میں جو وسوسے جاگزیں تھے احتشام شاہ کے لب و لہجے کی وجہ سے ان میں قدرے کمی آئی تھی مگر پھر بھی اپنے دل کی تسلی کے لیے وہ اس سے کچھ باتیں پوچھنا چاہتی تھیں اسے کچھ بتانا چاہتی تھیں تاکہ مہدیہ کے لیے بعد میں مسلہ نہ ہو۔۔۔فاطمہ کچھ نقاہت فیل کر رہی تھی تو رضوانہ خاتون نے مہدیہ سے اسے کمرے میں لے جانے کو کہا۔۔۔دونوں اٹھ کر اپنے پورشن کی طرف چلی گئیں۔۔۔
                    " آپا مجھے بھی آپ سے کچھ پوچھنا تھا۔۔۔"
                    اکرام صاحب نے انکے جانے کے بعد رضوانہ خاتون سے کہا تو رضوانہ خاتون سوالیہ نظروں سے انکی طرف دیکھنے لگیں۔۔۔جیسے کہ رہی ہوں کہ پوچھو کیا بات ہے۔۔۔
                    " آپا میں دلاور سے ملنا چاہتا ہوں۔۔اس کا کوئی اتا پتہ یا کچھ جانتی ہوں اسکے بارے میں۔۔۔"
                    اکرام صاحب نے گویا ایک اور دھماکہ کیا تھا۔۔۔رضوانہ خاتون کے لیے آج کا دن سرپرائز ڈے ثابت ہو رہا تھا۔۔۔جبکہ احتشام شاہ بھی دلاور کے نام پہ چونکا تھا
                    " آپ دلاور کو کیسے جانتے ہیں۔۔۔"؟
                    رضوانہ خاتون حیرت زدہ لہجے میں بولیں تو انکی بات پہ اکرام صاحب مسکرا دئیے۔۔۔پھر انھوں نے مختصر الفاظ میں رضوانہ خاتون کو سلطان ملک سے اپنی دوستی سے لے کر پھر ان سے اپنے پہلے ٹکراؤ اور ان کا سچ سامنے آنے پہ سب کہ سنایا۔۔۔جیسے جیسے وہ بتاتے گئے رضوانہ خاتون کے دماغ کی سبھی گتھیاں سلجھتی گئیں وہ بھی اکثر اس بات پہ حیران ہوتی تھیں کہ اکرام صاحب اس قدر ان پہ مہربان کیوں ہیں ان کا رویہ انکے ساتھ کبھی بھی نوکر اور مالک کا نہیں رہا تھا۔۔۔
                    " بھائی صاحب میں خود نہیں جانتی کہ میرا دانی کہاں ہے میری آنکھیں ترس گئ ہیں اسکو دیکھنے کو۔۔۔بس اتنا سنا ہے کہ وہ لاہور میں ہوتا ہے۔۔۔کہاں رہتا یہ نہیں معلوم۔۔۔"
                    رضوانہ خاتون نے بھرائے لہجے میں کہا اور پھر اکرام صاحب کے پوچھنے پہ وہ دانی کا ماضی انکے سامنے کھول گئیں۔۔۔جسے سن کر وہاں بیٹھے ہر شخص کی آنکھیں نم ہو گئیں۔۔۔
                    " آپا آپ فکر مت کریں۔۔۔دلاور جہاں کہیں بھی ہوگا میں اسے ڈونڈھ نکالوں گا میں اپنے یار اپنے محسن کے بیٹے کو ان گلیوں کی خاک نہیں بننے دوں گا اس کے لیے چاہے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے۔۔۔
                    آپ مجھے بس دلاور کی کوئی پک دے دیں پلیززز۔۔۔"
                    اکرام صاحب نے رضوانہ خاتون کو تسلی و تشفی دیتے پر عظم لہجے میں کہا۔۔۔
                    " کیا میں دلاور کی پک دیکھ سکتا ہوں شائد میں آپکی اس سلسلے میں مدد کر سکوں۔۔۔"
                    نام اور شہر ایک ہی ہونے کی وجہ سے اور جو کچھ رضوانہ خاتون نے اس کے بارے میں بتایا اس سے احتشام شاہ کا شک یقین میں بدلنے لگا کہ یہ وہی دلاور ہے۔۔۔اب صرف اسکی تصویر دیکھنی باقی تھی اسی لیے احتشام شاہ نے رضوانہ خاتون سے اس کی پک دیکھنے کی بات کی تو وہ مان گئیں اور دانی کی تصویر لانے اٹھ کر اپنے روم کی طرف بڑھ گئیں۔۔۔

                    " مہدیہ تم ٹھیک ہو۔۔۔؟ مجھے تو پہلے ہی شک تھا کہ اس قاسم کی نیت میں فتور ہے اسی وجہ سے میں یہاں شفٹ ہونے کے بھی حق میں نہیں تھی میرا دل نہیں مانتا تھا۔۔۔مگر ماں کی وجہ سے چپ رہنا پڑا۔۔۔
                    کب سے تنگ کر رہا تھا وہ تمہیں۔۔۔تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا۔۔۔؟
                    اپنے روم میں آتے ہی فاطمہ نے روم ڈور بند کرتے مہدیہ کو کندھوں سے تھام کر اس کا سر تا پیر جائزہ لیتے شکوہ کیا تھا۔۔۔
                    " پریشان مت ہوں آپی میں ٹھیک ہوں الّٰلہ نے احتشام بھائی کو فرشتہ بنا کر میری مدد کو بھیج دیا تھا۔۔۔میں نے بہت کوشش کی تھی کہ آپکو یا ایمان آپی کو سب بتا دوں مگر اس نے مجھے دھمکی دی تھی کہ اگر میں نے کسی کو کچھ بھی بتایا تو وہ ہاسپٹل میں آپکے ساتھ۔۔۔۔۔"
                    مہدیہ نے نظریں چراتے فقرہ ادھورا چھوڑا تھا۔۔۔
                    " میرے ساتھ مطلب۔۔۔۔۔؟ مجھے ایک ایک بات جاننا ہے مہدیہ ہمارے پیچھے جو بھی ہوا۔۔۔ہر بات۔۔۔کب سے تنگ کر رہا تھا وہ تمہیں۔۔۔
                    فاطمہ نے حیرانگی سے بھنوئیں اچکاتے دو ٹوک لہجے میں کہا تو مہدیہ نے قاسم کی دھمکیوں سے لے کر فاطمہ کو زہر دینے اور پھر قاسم کی بات نہ ماننے کے جرم میں فاطمہ کو ہاسپٹل میں بے آبرو کرنے کی دھمکی سب کہ سنایا۔۔۔جسے سن کر فاطمہ بے یقینی سے پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسکی طرف دیکھنے لگی پھر اپنے چکراتے سر کو ہاتھوں میں لیے بیڈ پہ بیٹھتی چلی گئ۔۔۔مہدیہ بھی آہستہ سے اس کے پاس آ کر خاموشی سے سر جھکائے بیٹھ گئ۔۔۔
                    " تم جانتی ہو اگر احتشام بھائی تمہاری چیخ نہ سنتے اور وہ وقت پہ نہ پہنچتے تو کیا ہوتا۔۔۔مجھے بچانے کے لیے تم خود کو دان کرنے چلی تھی۔۔۔ایسا کون کرتا ہے۔۔۔تم نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اگر تمہارے بچے کو کچھ ہو جاتا تو۔۔۔۔"؟
                    کچھ دیر بعد فاطمہ نے نم لہجے میں غصے سے مہدیہ سے کہا۔۔۔اسے حیرت ہو رہی تھی کہ کوئی آپسی رشتہ نہ ہونے پہ بھی وہ کیا کرنے چلی تھی ایک چھوٹے سے احسان کا بدلہ وہ اپنی عزت دے کر چکانے چلی تھی۔۔۔
                    " جو بھی ہوتا اس سے کہیں کم برا ہوتا جو اگر وہ یہ سب آپ کے ساتھ کرتا۔۔۔ہم کوٹھے پہ رہنے والی لڑکیوں کا دن میں نہ جانے کتنی بار لوگ کبھی اپنی نظروں سے تو کبھی اپنے لفظوں سے اور کبھی فزیکلی طور پہ ریپ کرتے ہیں کسی ٹشو پیپر کی طرح ہوتی ہیں ہم انکے لیے جس سے وہ اپنا گند صاف کرتے ہیں۔۔۔ہم عادی ہوتی ہیں اس سب کی۔۔۔اور ویسے بھی عزت ایک بار جائے یا دس بار۔۔۔جو ایک بار چلی گئ سو چلی گئ۔۔۔میرا وجود کونسا پاک رہا تھا کہ جسے پاک رکھنے کے لیے میں اس آگ میں آپ کو گرنے دیتی۔۔۔
                    میں نے ایسا کچھ نہیں کیا جو کوئی نہیں کرتا۔۔۔
                    ہاں البتہ ماسو ماں نے ایک طوائف کو اس کا سچ جان کر بھی اپنے گھر پناہ دی۔۔۔ یہ کوئی نہیں کرتا۔۔۔
                    ایک طوائف کو ساری دنیا کے سامنے اپنی بیٹی کے طور پہ متعارف کروایا۔۔۔ یہ بھی کوئی نہیں کرتا۔۔۔"
                    مہدیہ نے مضبوط لہجے میں کہا تو فاطمہ اس کی طرف دیکھتی رہ گئ۔۔۔
                    " تو تم ہمارے احسان کا بدلہ چکانے چلی تھی۔۔۔"
                    فاطمہ نے تیکھے لہجے میں مگر شکایتی انداز میں کہا۔۔۔
                    " نہیں۔۔۔آج تک کبھی کوئی کسی کے احسان کا بدلہ اتار پایا ہے کیا۔۔۔؟ احسانوں کے بدلے کوئی نہیں چکا سکتا۔۔۔البتہ قرض چکائے جاتے ہیں۔۔۔
                    اور میں نے بھی قرض کی چھوٹی سی قسط چکانے کی کوشش کی تھی۔۔۔
                    ماسو ماں نے مجھ پہ جو احسان کیا اس کا بدلہ میں ہزار بار مر کے بھی نہیں چکا سکتی آپی۔۔۔نہ میں نہ آپ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ میرا آپ سے نہ کوئی خونی رشتہ ہے نہ کوئی رشتہ داری۔۔۔مگر پھر بھی ماسو ماں نے مجھ پہ یقین کیا۔۔۔مجھ پہ اپنے گھر کے دروازے اس وقت کھولے جب سب در بند تھے۔۔۔
                    ہم طوائفوں کو یہ معاشرہ کس نگاہ سے دیکھتا ہے کون نہیں جانتا۔۔۔ہمیں اپنے گھر میں جگہ دینا تو دور ہم شریفوں کے گھر کے کسی برتن کو ہاتھ لگا دیں تو اس کو باہر پھینک دیا جاتا ہے یا پھر اپنے گھر کے کتوں کو اس میں پانی پلانے کے لیے رکھ لیا جاتا ہے۔۔۔
                    آپ کے لیے ، ماسو ماں کے لیے اگر ہزار بار بھی مجھے اپنی جان دینی پڑے یا کسی قاسم کی ہوس کا شکار ہونا پڑے تو میں کر گزروں گی۔۔۔"
                    مہدیہ نے اک جذب سے کہا تھا۔۔۔
                    " آج کے بعد اگر پھر سے تم نے کبھی بھی خود کو طوائف بولا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا اور نہ ہی خود کو ناپاک کہا کرو۔۔۔جو حادثہ تمہارے ساتھ ہوا وہ تو نہ جانے کتنی شریف زادیوں کے ساتھ ہوا ہوگا مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ انکے وجود ناپاک ہو گئے ہیں یا ریپ ہونے کے بعد اب وہ طوائف کہلائی جائیں گی۔۔۔
                    خود کو طوائف کہ کر گالی مت دیا کرو۔۔۔اگر تمہارے دل میں رتی بھر بھی امی جان کے لیے یا میرے لیے جگہ ہے تو دوبارہ کبھی تمہارے منہ سے یہ لفظ نہ سنوں۔۔۔شکر کرو کہ امی جان نے تمہارے منہ سے یہ لفظ نہیں سنا اگر تم یہ بات انکے سامنے کہتی تو وہ برداشت نہیں کرتیں۔۔۔بلکہ ایک تھپڑ تمہارے پڑ چکا ہوتا۔۔۔
                    مہدیہ تم طوائف نہیں ہو۔۔۔طوائفیں اپنے جسم کا اپنی مرضی سے سودا کرتی ہیں۔۔۔انکا کوئی خاندان کوئی فیملی نہیں ہوتی۔۔۔
                    مگر اس غلاظت میں رہ کر بھی تم نے خود کو بچایا۔۔۔اس گند کا حصہ نہیں بنی۔۔۔تمہارا ایک پورا خاندان ہے۔۔۔اس لیے اپنے دل سے یہ بات نکال دو۔۔۔
                    اور مجھ سے وعدہ کرو کہ آج کے بعد تم کبھی بھی یہ لفظ زبان پہ نہیں لاؤ گی۔۔۔کبھی نہیں۔۔۔اور نہ ہی کبھی مجھ سے کچھ چھپاؤ گی۔۔۔"
                    فاطمہ نے مہدیہ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے تنبیہی لہجے میں کہا تو وہ اثبات میں سر ہلا گئ۔۔۔
                    " اچھا یہ بتاؤ احتشام بھائی سے مل کر کیسا لگ رہا ہے۔۔۔میرا نہیں خیال کہ وہ تمہیں یہاں چھوڑ کر جائیں گے۔۔۔"
                    فاطمہ نے موضوع بدلتے کہا۔۔۔
                    " سچ پوچھیں تو کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔انکے ملنے سے پہلے آج تک یہی سوچتی آئی کہ جب ان لوگوں سے سامنا ہوگا تو خوب لڑوں گی۔۔۔اپنی ماں کے ایک ایک آنسو کا حساب لوں گی میرے دل میں جو ہزار سوال تھے ان سب کا جواب مانگوں گی۔۔۔مگر تقدیر نے عجیب کھیل کھیلا۔۔۔انکو اس وقت میرے سامنے لا کھڑا کیا کہ جب میں الّٰلہ سے مدد مانگ رہی تھی الّٰلہ نے انکو فرشتہ بنا کر مجھے بچانے کے لیے بھیج دیا اب سمجھ نہیں آ رہی کہ اس فرشتے سے لڑوں یا اسے گلے لگاؤں۔۔۔
                    دماغ کہتا ہے کوئی سوال مت کرو مگر دل کہتا ہے ہر سوال کا جواب مانگوں۔۔۔"
                    مہدیہ نے بے بسی سے لب کچلتے کہا۔۔۔
                    " میری مانوں تو پہلے اپنے بابا سے ملو انکی سنو۔۔۔احتشام بھائی پہلے بھی کافی بار یہاں طلحہ کے ساتھ آ چکے ہیں انکی اور انکی فیملی کی کافی تعریفیں سنی ہیں اور اب جو ہوا اسکے بعد احتشام بھائی کا اخلاق و کردار تمہارے سامنے ہے جب انھوں نے تمہیں بچایا تب وہ نہیں جانتے تھے کہ تم کون ہو مگر پھر بھی ایک انجان لڑکی کے لیے انھوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ جس کو مار رہے ہیں وہ اسی کے گھر پہ کھڑے ہیں پھر اس کے بھائی کے ساتھ انکی پارٹنر شپ بھی تھی۔۔۔اس بات سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ پیسے کو نہیں بلکہ رشتوں کو اور اقدار کو ترجیح دینے والے بلند اخلاق و کردار کے حامل شخص ہیں اور جیسا کہ انھوں نے کہا کہ اس کے بابا برسوں سے تم لوگوں کو تلاش کر رہے ہیں۔۔۔اس کا مطلب کہیں نہ کہیں کچھ ایسا ہے جو تم انکے بارے میں نہیں جانتی اور جو جانتی ہو وہ آدھا ادھورا ہے۔۔۔اس لیے پہلے پورا سچ جان لو۔۔۔ایسا نہ ہو کہ تمہیں اپنے کسی بھی بولے گئے لفظ پہ یا ان سے کیے گئے کسی بھی سوال پہ بعد میں شرمندگی ہو۔۔۔"
                    فاطمہ نے مدبرانہ لہجے میں مہدیہ کو سمجھاتے کہا۔۔۔

                    " بیٹا کیا بات ہے۔۔۔کیا تم میرے دانی کو جانتے ہو۔۔۔۔"؟
                    رضوانہ خاتون نے البم سے دانی کی تصویر لا کر ایک سیٹھ اکرام اور دوسری احتشام شاہ کو لا کر پکڑائی تو احتشام شاہ پہلی نظر میں ہی اسے پہچان گیا۔۔۔اس کا شک صحیح ثابت ہوا تھا وہ دلاور ملک ہی تھا جس نے ان کا جینا حرام کیا ہوا تھا۔۔۔دلاور کی تصویر پہ احتشام شاہ کو نظریں گڑائے دیکھنے پہ رضوانہ خاتون نے بہت آس سے پوچھا۔۔۔
                    " جی میں جانتا ہوں۔۔۔"
                    احتشام شاہ نے ایک گہرا سانس خارج کرتے دلاور کی تصویر رضوانہ خاتون کو واپس پکڑاتے کہا احتشام شاہ کی بات پہ رضوانہ خاتون اور سیٹھ اکرام کے چہرے مسرت سے کھل اٹھے۔۔۔
                    " کک۔۔۔کیسے۔۔۔کہاں ملے تم اس سے۔۔۔کیسا ہے وہ۔۔۔"
                    رضوانہ خاتون نے بڑی بے چینی سے پر مسرت لہجے میں پوچھا۔۔۔ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ابھی اڑ کر اپنے دانی کے پاس پہنچ جائیں۔۔۔
                    احتشام شاہ کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کہے انکو کیسے بتائے کہ انکے دانی کی وجہ سے وہ اور عینا کے گھر والے کس قدر تکلیف سے گزر رہے ہیں۔۔۔پھر یہ سوچ کر کہ اس وقت رضوانہ خاتون ہی وہ واحد ہستی ہیں جو دلاور کو لگام ڈال سکتی ہیں۔۔۔وہ الف سے ی ساری بات سے ان کو آگاہ کر گیا جسے سن کر رضوانہ خاتون سخت رنجیدہ ہوئیں افسوس دکھ ملال نے انکو اپنے گھیرے میں لے لیا۔۔۔کیا کچھ سوچا تھا انھوں نے اپنے دانی کے لیے مگر حالات نے اسے کیا سے کیا بنا دیا تھا۔۔۔
                    " آنٹی میرا خیال ہے کہ اب آپ اپنا فیصلہ بدل لیں پلیز مہدیہ کے ساتھ آپ بھی میرے ساتھ چلیں مجھے یقین ہے کہ وہ آپکی بات نہیں ٹالے گا۔۔۔اس وقت صرف آپ ہی ہیں جو اسے روک سکتی ہیں سمجھا سکتی ہیں۔۔۔"
                    احتشام شاہ نے ملتجی لہجے میں کہا تو رضوانہ خاتون نے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔۔احتشام سچ کہ رہا تھا دلاور سے فوری طور پہ ان کا ملنا بہت ضروری ہو گیا تھا رضوانہ خاتون نے سیٹھ اکرام سے جانے کی اجازت چاہی تو انھوں نے باخوشی اجازت دینے کے ساتھ خود بھی بہت جلد اپنے وہاں آنے کا کہا۔۔۔

                    " بیٹا مہدیہ آپکی بہن ہے اس پہ آپکا پورا حق ہے مگر وہ جس جگہ پلی بڑھی جوان ہوئی اسے بازار حسن کہا جاتا ہے اس جگہ سے وابستہ لوگوں کو ہمارے معاشرے میں کسی گالی کی طرح لیا جاتا ہے گالی سمجھا جاتا ہے۔۔۔مہدیہ اس بازار میں موہنی بائی کے نام سے جانی جاتی تھی۔۔۔
                    اسے ایک دنیا جانتی ہے پہچانتی ہے کیا آپ میں اتنا حوصلہ ہے کہ آپ سب کے سامنے اسے اپنی بہن کے طور پہ متعارف کروا سکو جبکہ قدم قدم پہ آپکا واسطہ موہنی بائی کے جاننے والوں سے اس کے چاہنے والوں سے پڑے گا ممکن ہے کہ آپکی غیرت یہ گوارا نہ کرے تب ایسا نہ ہو کہ آپ کا جوش میں اٹھایا گیا یہ قدم بعد میں آپکو پچھتانے پہ مجبور کردے۔۔۔اور غیرت کے نام پہ میں نے بہت سے بھائیوں کو صرف شک کی بنیاد پہ اپنی بہنوں کی جان لیتے دیکھا ہے اور یہاں تو شک کی گنجائش ہی نہیں۔۔۔موہنی کا نام معاشرے میں اسکی پہچان آپ سے سر اٹھا کر جینے کا حق چھین لے گی۔۔۔اگر آپ مہدیہ کو ساتھ لیجانا چاہتے ہو تو آپ مجھے بس مہدیہ کی زندگی کی ضمانت دے دو۔۔۔"
                    رضوانہ خاتون احتشام شاہ کے ساتھ اپنے پورشن میں چلی آئیں۔۔۔فاطمہ اور مہدیہ سر جوڑے باتوں میں مگن تھیں رضوانہ خاتون نے اشارے سے انکو دوسرے روم میں جانے کا کہا تو وہ اٹھ کر چلی گئیں پھر احتشام شاہ کو پرکھنے مزید جاننے اور اپنے دل کی تسلی کے لیے وہ کچھ سوال جواب کرنے لگیں۔۔۔مہدیہ اور فاطمہ دوسرے روم میں بیٹھی سب سن رہی تھیں۔۔۔احتشام شاہ ہونٹ بھینچے خود پہ ضبط کے بندھن باندھتے چپ چاپ رضوانہ خاتون کی ہر بات سنتا رہا۔۔۔چھوٹی ماں کا سچ جاننے کے بعد یوں تو وہ ہر طرح کی سیچوئیشن کے لیے تیار تھا اور جانتا تھا کہ یہ سب بھی ممکن ہے۔۔۔مگر پھر بھی انکے بولے ہر ہر لفظ پہ اس کا دل کٹ رہا تھا دل چاہ رہا تھا وہ کانوں میں انگلیاں ٹھونس لے یا رضوانہ خاتون کو چپ کروا دے۔۔۔مگر اسے یہ سب بہت حوصلے سے سننا تھا اور سہنا بھی تھا۔۔۔رضوانہ خاتون تو بہت شائستہ انداز میں مہدیہ کے ماضی سے اسے آگاہ کر رہی تھیں باہر کی دنیا سے نہ جانے اسے کیا کیا ابھی سننا تھا اگر وہ اپنا آپا کھونے لگا تو زندگی نہ صرف ان پہ بلکہ مہدیہ پہ بھی تنگ ہو جاتی۔۔۔اس لیے صبر کے گھونٹ پیے وہ سب خاموشی سے سنتا رہا۔۔۔
                    " آنٹی آج سے پہلے میری بہن کہاں رہی کس پہچان سے رہی اور کیا کرتی رہی مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں اور نہ ہی میں جاننا چاہتا ہوں۔۔۔
                    میں بس اتنا جانتا ہوں کہ مہدیہ میری بہن ہے۔۔۔اور جو بھی میری بہن کی طرف میلی نظر سے دیکھے گا میں اسکی آنکھیں نکال کے ہتھیلی پہ رکھ دوں گا۔۔۔جو منہ سے غلط لفظ نکالے گا اس کی زبان کاٹ ڈالوں گا۔۔۔ہم شاہ ہیں اور شاہوں کو اپنی عزت کی حفاظت کرنا خوب آتا ہے۔۔۔
                    اب سے آج سے مہدیہ کا حوالہ صرف یہ ہے کہ وہ حشمت شاہ کی بیٹی ہے صارم شاہ اور احتشام شاہ کی بہن ہے۔۔۔مہدیہ نہ صرف میرے لیے بلکہ ہماری ساری فیملی کے لیے ویسے ہی معتبر ہے جیسے گھر میں بیٹھی میری والدہ اور میری چھوٹی بہن فجر ہیں۔۔۔
                    رہی مہدیہ کی زندگی کی ضمانت کی بات تو آپ شائد ٹھیک سے مجھے سمجھ نہیں پائیں۔۔۔
                    اگر جان جاتیں تو مجھ سے یہ بات کبھی نہ کہتیں۔۔۔باقی آپکو آپکے ہر سوال کا جواب بابا سے مل جائے گا۔۔۔"
                    احتشام شاہ نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد نپے تلے مضبوط لہجے میں کہا تو رضوانہ خاتون اسکے لفظوں میں چھپی سچائی جان کر پرسکون ہو کر مسکرا دیں۔۔۔
                    " مجھے ایک اور سچ سے آپکو آگاہ کرنا ہے۔۔۔وہ یہ کہ۔۔۔۔مہدیہ امید سے ہے"
                    جی میں جانتا ہوں۔۔۔میں نے آپ سے کہا ناں کہ مجھے نہیں جاننا کہ مہدیہ کا ماضی کیا تھا وہ کیا کرتی رہی۔۔۔اگر وہ بچہ مہدیہ کو عزیز ہے تو مجھے بھی اتنا ہی عزیز ہوگا جتنا مہدیہ کو۔۔۔اور مجھے نہیں جاننا کہ اس کا باپ کون ہے۔۔۔میرے لیے اس بچے کا اتنا تعارف ہی کافی ہے کہ اس کی ماں مہدیہ ہے۔۔۔"
                    احتشام شاہ نے اب بھی اسی لہجے میں جواب دیا۔۔۔
                    " میرے خیال میں تمہارا یہ جاننا ضروری ہے کہ مہدیہ کے بچے کا باپ کون ہے۔۔۔
                    مہدیہ کے بچے کا باپ کوئی اور نہیں بلکہ دلاور ہے میرا دانی ہے۔۔۔"
                    رضوانہ خاتون نے پہلی بار احتشام شاہ سے نظریں چرائی تھیں۔۔۔جبکہ انکی بات پہ احتشام شاہ نے بے یقینی سے انکی طرف دیکھا تھا۔۔۔پھر رضوانہ خاتون نے محتاط الفاظ کا چناؤ کرتے مہدیہ کے ماضی اور دلاور کے اسکی زندگی میں کسی حادثے کی صورت آنے کے بارے میں کہ سنایا۔۔۔
                    " آپ اپنی پیکنگ کر لیں۔۔۔چند ضروری چیزوں کے علاوہ اور کچھ مت رکھیے گا۔۔۔میں مہدیہ اور آپکی سیٹ کنفرم کروا کے آتا ہوں کچھ دیر تک۔۔۔"
                    احتشام سر جھکائے سب سنتا رہا اک عجیب سی گھبراہٹ نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا تھا اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے کیا کہے اس کا حوصلہ اس کا صبر جواب دے رہا تھا وہ فوری طور پہ اس سارے منظر سے غائب ہونا چاہ رہا تھا۔۔۔
                    رضوانہ خاتون سے بامشکل پیکنگ کرنے کا کہ کر وہ وہاں سے طلحہ کی گاڑی لے کر نکل گیا۔۔۔اس کے یوں چپ چاپ اٹھ کر جانے پہ رضوانہ خاتون کا دل پریشان ہو اٹھا۔۔۔دوسری طرف دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سنتی مہدیہ بھی وسوں میں گھر گئ فاطمہ اسے تسلی دینے لگی کہ وہ کچھ غلط مت سوچے کیونکہ ایک بھائی ہونے کے ناتے احتشام شاہ کے لیے یہ سب برداشت کرنا بہت اذیت ناک ہے۔۔۔خود کو بھی اور اسے بھی نہ صرف تھوڑا وقت دے بلکہ آنے والے حالات کے لیے بھی خود کو تیار رکھے۔۔۔
                    احتشام شاہ کچھ دیر یونہی سڑکوں پہ رش ڈرائیونگ کرتا رہا۔۔۔کسی پل سکون نہ ملا تو ایک قدرے ویران جگہ پہ گاڑی روک کر گاڑی کے اندر ہی کچھ دیر یونہی ضبط کیے بیٹھا رہا پھر یکدم زور زور سے چلانے لگا۔۔۔آنسو اس کے گال بھگونے لگے۔۔۔
                    بے شک وہ بہت بلند اخلاق و کردار کا حامل ایک اعلیٰ ظرف انسان تھا مگر اپنی بہن کا ایسا تکلیف دہ اور سیاہ ماضی کسی بھی عزت دار اور غیرت مند بھائی کی برداشت سے باہر تھا۔۔۔احتشام شاہ بھی اس وقت اسی اذیت سے گزر رہا تھا اس کا من چاہ رہا تھا کہ اس ساری دنیا کو آگ لگا دے۔۔۔ چیخے چلائے۔۔۔دلاور کے ٹکڑے کر کے کسی ندی نالے میں بہا دے۔۔۔
                    یا پھر اپنے دادا کو قبر سے اٹھا کر ان سے پوچھے سوال کرے کہ انھوں نے چھوٹی ماں پہ یہ ظلم کیوں کیا۔۔۔حویلی میں ہر ایرے غیرے کے لیے جگہ تھی مگر اپنی ہی بہو اور اپنے ہی خون کے لیے وہ جگہ کم کیسے پڑ گئ۔۔۔۔نہ وہ چھوٹی ماں کو گھر سے نکالنے کے لیے ایسا گھناؤنا کھیل کھیلتے نہ انکے خاندان کا خون یوں کسی بازار کی زینت بنتا۔۔۔
                    انکی ایک غلطی سے ایک غلط فیصلے کی وجہ سے انکے خاندان پہ لکھی گئ شاندار تاریخ میں ایک سیاہ باب کا اضافہ ہوگیا تھا ایک ایسا باب جسے انھیں سب سے چھپا کر رکھنا تھا۔۔۔
                    اس سے یہ سب برداشت نہیں ہو رہا تھا تو بابا یہ سب جان کر کیسے برداشت کریں گے۔۔۔یہ سوچ بھی اسے مزید پریشان کر رہی تھی۔۔۔
                    ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

                    شاہ سائیں کے آدمیوں کے علاوہ پنچایت کے حکم پہ چار چار لڑکوں کی دو تین ٹیمیں بنا کر انکو صارم شاہ اور عائلہ کو تلاش کر کے گاؤں واپس لانے کے لیے روانہ کردیا گیا تھا جنہوں نے صارم شاہ کے نہ صرف سبھی دوستوں بلکہ انکی زیر رہائش تمام جگہوں کو کھنگال ڈالا تھا مگر انکا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔۔۔
                    " بابا بھیا نے کچھ غلط نہیں کیا ان پہ عائلہ کو بھگانے کا الزام لگانا غلط ہے آپ جانتے ہیں بابا کہ بھیا نے ہر ممکن کوشش کی کہ اس سب سے دور رہیں اپنی خواہش کا گلا گھونٹ کر وہ آپکے حکم سے باہر نہیں گئے۔۔۔
                    مگر جب کوئی عورت رات کے وقت فریادی بن کر دروازے پہ آ جائے کہ اسکی مدد کی جائے تو کیا وہ انکار کر دیتے یہاں فرق صرف اتنا ہے کہ جس لڑکی کی انھوں نے مدد کی وہ انکی اپنی محبت تھی۔۔۔
                    بابا اگر عائلہ کی مرضی نہیں ہوتی تو بھیا کبھی بھی اسے یوں لے کر غائب نہیں ہو سکتے تھے۔۔۔اپنی پسند سے شادی کرنے کا اختیار تو ہمارا مذہب بھی ہمیں دیتا ہے پھر بھیا نے ایسا کیا تو یہ ان کا جرم کیوں بنا رہے ہیں سب لوگ۔۔۔بابا بھیا کو کچھ نہیں ہونا چاہیے اگر کسی نے بھائی کو ہاتھ بھی لگایا تو میں اپنی جان دے دوں گی۔۔۔۔۔بابا۔۔۔۔آپ چپ کیوں ہیں۔۔۔کچھ تو بولیں پلیززز۔۔۔"
                    شاہ سائیں باہر سے تھکے تھکے سے آکر خاموشی سے ہال روم میں رکھے گئے صوفے پہ ڈھے گئے۔۔۔جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا انکے بیٹے کے لیے مشکلات بڑھتی جا رہی تھیں مگر اس کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا انھوں نے کئ بار فون پہ رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر صارم شاہ کا فون ہر بارسوئچ آف آ رہا تھا جب سے پنچایت نے اپنا فیصلہ سنایا تھا ہائمہ خاتون کمرہ بند ہو گئیں تھیں نہ وہ کسی سے بات کرتیں نہ اپنے کمرے سے باہر نکلتیں۔۔۔فجر کسی کام سے وہاں سے گزری تو شاہ سائیں کو وہاں بیٹھے دیکھ کر انکے پاس چلی آئی۔۔۔
                    اپنے باپ کی اصول پسند اور انصاف پسند طبیعت سے وہ باخوبی آگاہ تھی اس لیے بھی وہ پریشان تھی کہ صارم شاہ کے ساتھ جو بھی سلوک ہوگا یا جو سزا دی جائے گی شاہ سائیں ہلکا سا بھی اس کا بچاؤ کرنے کی کوشش نہیں کریں گے اسی لیے صارم شاہ کی طرف سے وہ نہ صرف انکا دل صاف کرنے کی کوشش میں تھی بلکہ اسکی طرف سے خود سے صفائی بھی پیش کر رہی تھی۔۔۔
                    " کاش کہ اس پریشانی کا مظاہرہ آپ نے تب کیا ہوتا جب آپکی آنکھوں کے سامنے وہ جا رہا تھا اسے روکتیں۔۔۔وہ نہیں رکتا تو اپنی ماما کو خبر کرتیں گارڈز کی مدد لے لیتیں شریک جرم تو آپ بھی ہیں۔۔۔
                    صارم کا فیصلہ پنچایت کے قوانین کے مطابق ہی ہوگا۔۔۔میں نے اس معاملے میں اگر ذرا بھی لچک دکھائی تو دنیا تمہارے بابا کو بے انصاف بے ایمان کہے گی دنیا تو دنیا میں الّٰلہ کے حضور کس منہ سے کھڑا ہوں گا جب مجھ سے پوچھا جائے گا کہ تم نے یہ کیا معاملہ کیا کہ جب لوگ یہ غلطی کرتے تو تم روایات کے مطابق سزا دیتے مگر جب اپنے بیٹے کی باری آئی تو تم بے ایمانی کر گئے تب تمہارے اندر کا باپ جاگ گیا اور تم ناانصافی کر گئے۔۔۔
                    دنیا کا سب سے آسان کام دوسروں کو کٹہرے میں کھڑا کرنا ہوتا ہے ان کی غلطیوں پہ قانون نافذ کرنا ہوتا ہے۔۔۔اور دنیا کا سب سے مشکل کام کسی اپنے کو سزاوار ٹھہرانا ہوتا ہے۔۔۔
                    آپ نہیں جانتی بیٹا کہ میں کس اذیت سے گزر رہا ہوں۔۔۔میرا دل کر رہا ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر میں کہیں دور بھاگ جاؤں جہاں نہ کوئی جرگہ ہو اور نہ میں سر پنچ۔۔۔بلکہ ایک عام آدمی ہوں جو اپنی اولاد کو بچانے کے لیے ہر حد سے گزر جاتا ہے۔۔۔
                    مگریہ سب میں صرف سوچ سکتا ہوں صرف سوچ کی حد تک۔۔۔
                    زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ہائم ہم سے بات نہیں کر رہیں وہ شدید کرب میں ہیں مگر ہم چاہ کر بھی تسلی کا ایک لفظ انکو نہیں کہ سکتے۔۔۔کاش کہ آپ نے ہمیں وقت پہ اطلاع کردی ہوتی۔۔۔"
                    شاہ سائیں نے تھکے ہارے لہجے میں کہا انکے لہجے کی ٹوٹ پھوٹ محسوس کرتے فجر کی آنکھیں نم ہو گئیں۔۔۔وہ شاہ سائیں کے گھٹنوں پہ سر رکھ کر سسک پڑی۔۔۔
                    " بیٹا چپ کر جائیں اس وقت رونے دھونے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا صارم کے ملنے میں جتنی دیری ہوگی اس قدر ہی وہ مصیبت میں پھنستا جائے گا۔۔۔
                    یاد کریں سوچیں کہ کوئی ایسی بات جو اس نے جاتے وقت کہی ہو یا اس نے کسی دوست کا ذکر کیا ہو جس سے ہمیں اسے تلاش کرنے میں مدد مل سکے۔۔۔"
                    شاہ سائیں نے فجر کا سر شفقت سے سہلاتے کہا۔۔۔
                    " بابا میں نہیں جانتی۔۔۔شرجیل نے اس سے ہوچھا تھا کہ کہاں جا رہے ہو کس کے پاس جا رہے مگر بھائی نے کچھ نہیں بتایا۔۔۔البتہ یہ ضرور کہا تھا کہ وہ بہت جلد باہر نکل جائیں گے اور جب تک حالات ٹھیک نہیں ہوتے واپس نہیں آئیں گے۔۔۔"
                    فجر نے کچھ پل سوچنے کے بعد کہا اسکی بات سن کر شاہ سائیں پریشان ہو گئے اور فوری طور پہ دین محمد کو بلا کر اسے تمام فلائیٹس کو نہ صرف چیک کرنے بلکہ پیسنجر لسٹ چیک کر کے پتہ کرنے کو کہا کہ صارم باہر گیا ہے یا نہیں۔۔۔
                    ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

                    " کچھ پتہ چلا یار۔۔۔کیا معاملہ ہے۔۔۔"؟
                    معاذ کافی دیر بعد واپس آیا تو اسے دیکھتے ہی صارم شاہ بے چینی سے آگے بڑھ کر بولا۔۔۔
                    " کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے یار۔۔۔میں نے اپنے ملازم کو بھیجا تھا تمہارے گاؤں۔۔۔مگر وہ جو معلومات لے کر آیا ہے اس کے بعد میرا نہیں خیال کہ تم لوگ اتنی آسانی سے یہاں سے نکل سکو گے۔۔۔"
                    معاذ نے پریشان کن لہجے میں صوفے پہ بیٹھتے کہا۔۔۔
                    " پہیلیاں مت بھجواؤ۔۔۔بات کیا ہے۔۔۔کیا کہا ہے تمہارے ملازم نے۔۔۔"؟
                    صارم شاہ اسکے چہرے کے تاثرات دیکھ کر اور بات سن کر پریشان ہوتے بولا تو معاذ نے لفظ با لفظ سارا قصہ کہ سنایا۔۔۔
                    " ہرگز نہیں۔۔۔میں مر کے بھی عائلہ کو نہیں چھوڑوں گا چاہے جو مرضی سزا سنا دیں۔۔۔
                    مجھے احتشام بھائی سے ملنا ہوگا۔۔۔"
                    صارم شاہ نے قطعی لہجے میں کہا اور پھر اپنا موبائل اون کر کے احتشام شاہ کو کال ملانے لگا مگر بار بار ٹرائی کے باوجود وہ کنٹیکٹ نہیں کر سکا۔۔۔
                    " معاذ مجھے گاؤں واپس جانا ہوگا۔۔۔بابا سائیں واپس آ چکے ہوں گے میرا ان سے ملنا بہت ضروری ہے۔۔۔مجھے لگ رہا ہے کہ گاؤں چھوڑ کر میں بہت بڑی غلطی کر بیٹھا ہوں مجھے وہیں رہ کر حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے تھا۔۔۔"
                    صارم شاہ نے کچھ پل سوچنے کے بعد کہا۔۔۔
                    " دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا۔۔۔اب واپس جاؤ گے تو مارے جاؤ گے۔۔۔کوئی نہیں بچائے گا تمہیں۔۔۔تمہارے بابا بھی نہیں۔۔۔کچھ دن آرام سے یہیں بیٹھے رہو جیسے ہی موقع ملا میں تم لوگوں کو یہاں سے نکال دوں گا۔۔۔"
                    معاذ سختی سے صارم شاہ کو منع کرتے بولا۔۔۔اس کے گاؤں کے اصول اسکی روایات کے بارے میں کافی حد تک وہ آگاہ تھا اس لیے وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اب واپس جا کے اپنی شامت کو آواز دے۔۔۔
                    " موت سے نہ پہلے کبھی ڈرا ہوں نہ اب ڈروں گا۔۔۔میں وہاں سے صرف اس لیے بھاگا تھا کہ میری وجہ سے کوئی خون خرابہ نہ ہو کوئی بے گناہ نہ مارا جائے۔۔۔اس لیے نہیں بھاگا تھا کہ مجھے اپنی جان کا کوئی خوف تھا۔۔۔"
                    صارم شاہ نے تنک کر جواب دیا۔۔۔اس سے پہلے کہ معاذ کچھ کہتا کہ باہر سے شور و غل کی آوازیں آنے لگیں۔۔۔معاذ صارم شاہ کو اندر ہی رکنے کا اشارہ کر کے باہر جا کے دیکھنے کے لیے جیسے ہی دروازے کی طرف بڑھا کوئی دھڑام سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔۔۔
                    " صاحب جی۔۔۔صاحب جی باہر بہت سے لوگ جمع ہیں جنہوں نے پورے گھر کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔۔۔وہ صارم شاہ کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔۔۔"
                    معاذ کا ایک ملازم حواس باختہ سا اندر داخل ہوا تھا اور تیز تیز گھبرائے لہجے میں بولا۔۔۔
                    " اوہ تو تم لوگ یہاں چھپے بیٹھے ہو۔۔۔اسے کہتے ہیں بچہ بغل میں ڈنڈھورا شہر میں۔۔۔
                    اوئے کمالے چل اندر دیکھ جا کے اور نکال کے لا اس شریف زادی کو۔۔۔"
                    نواز چند آدمیوں کے ساتھ اندر داخل ہوتے انتہائی بدتمیزی سے صارم شاہ اور معاذ کی طرف دیکھ کر مخاطب ہوا۔۔۔
                    " سوچنا بھی مت کمالے۔۔۔اگر کسی نے میری بیوی یا اس گھر کی کسی عورت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو میں جان لے لوں گا اس کی۔۔۔میں خود گاؤں واپس آ ریا تھا۔۔۔اس لیے ہنگامہ کرنے یا بدتمیزی کرنے کی جرأت مت کرنا۔۔۔"
                    صارم شاہ نوازے کی بات پہ بھڑک کر غصے سے بولا۔۔۔کمالا تذبذب کا شکار ہوتے کبھی صارم شاہ اور کبھی نوازے کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔
                    " سنا نہیں کیا کہا میں نے۔۔۔بھول جاؤ کہ یہ چھوٹے شاہ ہیں۔۔۔اس وقت یہ صرف ایک مجرم ہیں اور کوئی بھی مجرم عزت احترام کا حق دار نہیں ہوتا۔۔۔جاؤ جاکے لے کے آؤ اسے۔۔۔"
                    نوازے نے پھاڑ کھانے والے لہجے میں کہا۔۔۔کمالا جیسے ہی باہر نکلنے لگا۔۔۔صارم شاہ نے پیچھے سے یکدم اس پہ حملہ کردیا اس کی دیکھا دیکھی معاذ بھی ان سے الجھ پڑا۔۔۔
                    صارم شاہ اور معاذ نے مار مار کر دونوں کا بھرکس نکال دیا۔۔۔
                    ان دونوں کا حشر دیکھ کر باہر کھڑے کسی شخص کو بھی صارم شاہ اور معاذ سے الجھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔۔۔
                    " اگر کسی اور کے دماغ میں یا ہاتھ میں کھجلی ہو رہی ہے تو وہ آگے آ کر اپنے بازوؤں کا زور آزما سکتا ہے۔۔۔"
                    صارم شاہ نے باہر آ کر نوازے کے ساتھ آئے باقی لوگوں پہ ایک قہر بھری نظر ڈالتے کہا۔۔۔سب لوگ سر جھکا کر کھڑے ہو گئے۔۔۔صارم شاہ اور معاذ دوسرے روم کی طرف بڑھ گئے جہاں عائلہ اور معاذ کی بیوی موجود تھیں۔۔۔
                    ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

                    دلاور اور بلال جب امام صاحب کے حجرے میں داخل ہوئے تو وہ قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔۔۔انکی سحر انگیز رعب دارانہ آواز ان دونوں کو اپنے سحر میں جکڑ گئ وہ گم صم سے بنا کسی آہٹ کے آہستہ سے امام صاحب کے پیچھے زمین پہ دوزانو بیٹھ گئے۔۔۔
                    " لو پانی پیئو۔۔۔۔"
                    کچھ دیر بعد تلاوت مکمل کر کے امام صاحب نے قرآن پاک غلاف بند کر کے ایک سائیڈ پہ بنی مخصوص اونچی جگہ پہ رکھا پھر پیالے پہ میں پانی بھر کر دونوں کو پیش کیا۔۔۔دلاور غٹا غٹ ایک ہی سانس میں سارا پیالہ خالی کر گیا جیسے وہ برسوں کا پیاسہ ہو۔۔۔بلال نے بھی پانی پی کر شکریہ ادا کرتے پیالہ واپس پکڑا دیا۔۔۔
                    " اب بولو کیا پریشانی ہے۔۔۔کس بات نے اتنا بے چین کیا ہے تمہیں۔۔۔"
                    امام صاحب نے بغور دلاور کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔انکی بات سن کر دونوں نے حیرانگی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا کہ انکو کیسے پتہ چلا کہ ہم کسی پریشانی کی وجہ سے ان سے ملنے آئے ہیں۔۔۔
                    " بابا جی آپ سے دعا کے لیے حاضر ہوئے ہیں آپ الّٰلہ سے ہمارے لیے دعا فرما دیں کہ ہمیں سکون مل جائے بہت تھک گئے ہیں چلتے چلتے مگر سفر ختم ہی نہیں ہو رہا۔۔۔"
                    بلال نے رنجیدہ لہجے میں کہا۔۔۔
                    " کیسا سکون چاہتے ہو تم لوگ۔۔۔وہ سکون کہ جس میں تمہاری ہر خواہش پوری ہو جائے یا وہ سکون کہ جس میں الّٰلہ راضی ہو جائے۔۔۔"
                    امام صاحب نے مسکرا کر پوچھا۔۔۔
                    " الّٰلہ کو تو سب راضی کرنا چاہتے ہیں مگر اس دنیا میں رہتے انسان کے ساتھ کچھ خواہشات بھی لگی ہیں جو اس کو سکون دیتی ہیں۔۔۔ان کا کیا۔۔۔"
                    دلاور نے لب کشائی کی۔۔۔
                    " الّٰلہ اور دنیا ایک ہی دل میں نہیں رہ سکتے۔۔۔الّٰلہ کو راضی کرنے کے لیے اپنے من کو مارنا پڑتا ہے بہت سی نفسانی خواہشات سے منہ موڑنا پڑتا ہے جبکہ دنیا کی چاہ رکھنے والا انسان بے لگام گھوڑا بن جاتا ہے۔۔۔
                    الّٰلہ کے بندوں کا سکھ چھین کر چاہتا ہے کہ اسے سکون ملے۔۔۔یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔
                    الّٰلہ کے بندوں کو تکلیف دے گا ان کا چین و سکون چھینے گا تو اس سے بھی تو بدلے میں کچھ چھینا جائے گا ناں۔۔۔
                    دنیا کی محبت دل میں رکھ کر اپنی خواہشات کے غلام بن جانے والے الّٰلہ کی محبت سے محروم رہ جاتے ہیں الّٰلہ ان سے ناراض ہو جاتا ہے اور جس سے الّٰلہ ناراض ہو اسے نہ دل کا سکون حاصل ہوتا ہے نہ روح کا۔۔۔ہر وقت طرح طرح کی پریشانیوں میں گھرا رہتا ہے سو الگ۔۔۔
                    ایک طرف دنیا کی چاہ ہو اور دوسری طرف الّٰلہ کی چاہ یہ تو سراسر منافقت ہوئی ناں۔۔۔
                    " بابا جی کیا رب کو راضی کرنے سے بندے کو وہ سب مل جاتا ہے جو وہ چاہتا ہے جس کی خواہش کرتا ہے۔۔۔"؟
                    دلاور نے کسی ٹرانس میں پوچھا تھا۔۔۔امام صاحب اس کی بات پہ مسکرا دئیے۔۔۔
                    " ایک رب کو راضی کرنے سے ہی تو سب ملتا ہے پگلے۔۔۔وہ بھی جو وہ خواہش رکھتا ہے اور وہ بھی جو اس نے مانگا نہیں ہوتا۔۔۔"
                    امام صاحب نے مسکرا کر کہا۔۔۔
                    " بابا جی الّٰلہ راضی کیسے ہوتا ہے۔۔۔میں بھی رب کو راضی کرنا چاہتا ہوں مگر سمجھ ہی نہیں آتی کہ ایسا کیا کروں جس سے الّٰلہ مجھ سے راضی ہو جائے۔۔۔"
                    دلاور نے کہا۔۔۔
                    " دنیا کا سب سے آسان کام رب کو راضی کرنا ہے رب تو ہمارے اخلاص سے کیے ایک چھوٹے سے عمل سے راضی ہو جاتا ہے پتر۔۔۔رب کو راضی کرنے کے لیے پہاڑ نہیں توڑنے پڑتے۔۔۔"
                    امام صاحب نے کہا۔۔۔
                    " اور اگر کسی نے بہت گناہ کیے ہوں تو وہ کیا کرے۔۔۔"؟
                    " وہ توبہ کرے پتر توبہ کا در تو مرتے دم تک کھلا رہتا ہے۔۔۔الّٰلہ کو ایسے شخص کی توبہ بہت پسند ہے جو گناہوں سے تائب ہو کر بس اس کا بندہ بن جاتا ہے اور الّٰلہ کا بندہ نہ کسی کو دکھ دیتا ہے نہ کسی کے دکھ کی وجہ بنتا ہے الّٰلہ کا بندہ ہر دم راضی با رضا رہتا ہے۔۔۔جو مل گیا اس پہ شکر ادا کرتا ہے جو نہ ملے اسے اپنے رب کی رضا سمجھ کر دوسروں سے چھیننے کی کوشش نہیں کرتا ہے۔۔۔
                    پھر الّٰلہ اسے ایسی ایسی جگہوں سے نوازتا ہے جس کا اس نے سوچا بھی نہیں ہوتا۔۔۔"
                    امام صاحب نے رسانیت سے کہا۔۔۔
                    " چلو آؤ بیٹا ظہر کی نماز کا وقت ہوا چاہتا ہے تم لوگ بھی وضو کر کے آ جاؤ۔۔۔کچھ رازو نیاز اس سوہنے رب سے بھی کرتے ہیں۔۔۔"
                    امام صاحب نے اٹھتے ہوئے کہا دلاور اور بلال بھی اٹھ کر انکے پیچھے پیچھے چل دئیے۔۔۔
                    آج برسوں بعد دلاور الّٰلہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تھا نماز سے فارغ ہو کر اسے سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے دعا کے لیے اس کے اٹھتے ہاتھ لرز رہے تھے بے بسی کی حالت میں آنسو تواتر سے اس کے گالوں پہ بہنے لگے کچھ سمجھ نہ آئی تو وہ پھر سے سجدے میں چلا گیا۔۔۔
                    وہ کسی بچے کی طرح رو رہا تھا الّٰلہ کے سامنے اپنے ہر گناہ کا اعتراف کر رہا تھا پھر روتے روتے وہ پرسکون ہو گیا تھا الّٰلہ نے اسے ایسا سکون عطا کیا تھا جو صرف الّٰلہ کی رضا پہ راضی ہونے والوں کو ملتا ہے اس کی خطائیں بخش دی گئ تھیں۔۔۔اس کے اندر کی ساری کثافت اس کے آنسوؤں کے رستے بہ گئ تھی آج پھر وہ وہی پرانا دانی تھا۔۔۔ماسو ماں کا دانی۔۔۔ایک معصوم بچہ۔۔۔
                    ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤​

                    Comment


                    • #90
                      Episode , 61
                      رضوانہ خاتون فاطمہ اور مہدیہ کو لے کر احتشام شاہ کے ساتھ چلی آئیں تھیں چند ضروری چیزوں کے سوا احتشام شاہ نے انھیں باقی سب وہیں چھوڑنے کا کہا تھا اسکی بات انکے دل کو بھی لگی تھی اس لیے اپنا باقی رہ جانے والا تمام سامان وہ وہاں کے ملازمین میں بانٹ آئی تھیں۔۔۔لاہور ائیر پورٹ سے باہر نکلتے ہی احتشام شاہ نے کیب کروائی تھی اس سے پہلے وہ جب بھی کسی وزٹ سے واپس آتا تو دین محمد کو ایک دن پہلے اطلاع کر دیتا اور دین محمد ٹھیک ٹائم پہ ائیر پورٹ سے احتشام شاہ کو رسیو کر لیتا۔۔۔ مگر اس بار احتشام شاہ پہلی بار بنا اطلاع کے واپس آ رہا تھا وہ سب کو سرپرائز دینا چاہتا تھا مگر اسے نہیں معلوم تھا کہ اسے خود بہت بڑا سرپرائز ملنے والا ہے۔۔۔
                      کیب کی فرنٹ سیٹ پہ ڈرائیور کے ساتھ احتشام شاہ بیٹھا ہوا تھا جبکہ رضوانہ خاتون ، مہدیہ اور فاطمہ بیک سیٹ پہ موجود تھیں۔۔۔احتشام شاہ نے پورا رستہ سنجیدگی کا لبادہ اوڑھے رکھا تھا۔۔۔انسان چاہے کتنا ویل ڈریس ہو مگر خوشی یا غم کی حالت میں آنکھیں انسان کے اندر کے سب بھید کھول دیتی ہیں احتشام شاہ نے آنکھوں پہ کلرڈ گلاسز لگا رکھے تھے جنکی وجہ سے رضوانہ خاتون اسکی اندرونی حالت کا اندازہ نہیں لگا سکیں کہ وہ کس ابتر حالت میں واپس لوٹا تھا مگر اس کی اس قدر خاموشی پہ نہ صرف وہ بلکہ مہدیہ بھی گھٹن سی فیل کر رہی تھی۔۔۔اس کا ذہن انجانے وسوسوں کی آماہ جگاہ بنا ہوا تھا احتشام شاہ نے اس سے مل کر جس طرح سے خوشی کا اظہار کیا تھا اس کے برخلاف اب اسکے چہرے پہ گہری سنجیدگی کے بادل چھائے ہوئے تھے۔۔۔مگر اس سنجیدگی میں بھی وہ ان سے غافل ہرگز نہیں تھا پورا راستہ وہ گاہے بگاہے ان سے کسی بھی چیز کی ضرورت کے لیے پوچھتا رہا تھا انکے منع کرنے کے باوجود راستے میں ایک جگہ کیب رکوا کر وہ منرل واٹر ، کوک اور کافی سارے اسنیکس لے آیا تھا اور لاکر رضوانہ خاتون کو پکڑا دئیے تھے۔۔۔
                      " بیٹا اور کتنی دیر لگے گی پہنچنے میں۔۔۔"
                      رضوانہ خاتون نے اس خاموشی کو توڑا تھا۔۔۔
                      " بس آنٹی ایک گھنٹہ اور لگے گا۔۔۔اگر آپ تھک گئ ہیں تو ہم کچھ دیر کہیں سٹے کر سکتے ہیں۔۔۔"
                      احتشام شاہ نے گردن موڑ کر انکی طرف دیکھتے کہا تھا مگر انھوں نے سہولت سے منع کردیا۔۔۔ اس نے ایک نظر مہدیہ کے چہرے پہ ڈالی جو سب سے لاتعلق سی باہر کے بھاگتے دوڑتے مناظر میں یوں مگن تھی جیسے یہ اس کا دلپسند مشغلہ ہو۔۔۔مگر اس کے چہرے پہ رقم تحریر اور اتار چڑھاؤ کوئی ناسمجھ بھی پڑھ سکتا تھا کہ اس وقت وہ شدید ڈپریس ہے۔۔۔پورا راستہ اس نے احتشام شاہ سے کوئی بات نہیں کی تھی نہ کوئی سوال کیا تھا۔۔۔احتشام شاہ اسکی خاموشی کو نوٹ کرتے پشیمان ہو گیا مہدیہ کے اپنے خول میں سمٹنے کی وجہ کہیں نہ کہیں اس کا رویہ بھی تھا۔۔۔
                      " مہدیہ آپ نے پوچھا نہیں کہ گھر میں کون کون ہے کوئی سوال نہیں کیا۔۔۔کیا ہم سب سے اتنا خفا ہو۔۔۔"؟
                      احتشام شاہ نے خود کو ریلیکس کرتے اپنائیت بھرے لہجے اسکی طرف دیکھتے شفقت سے پوچھا۔۔۔
                      " آپ نے اس موضوع پہ بات ہی نہیں کی ، تو میں سمجھی آپ۔۔۔۔۔۔۔"
                      مہدیہ نے احتشام شاہ کے سوال پہ حیرانی سے اسکی طرف دیکھ کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔۔۔تین چار گھنٹوں کے سفر میں یہ پہلی مکمل بات تھی جو اس نے اس سے کی تھی۔۔۔احتشام اسکی آنکھوں میں نمی ٹھہری دیکھ کر مزید شرمندہ ہوا تھا۔۔
                      " ہمممم۔۔۔۔ٹھیک کہا بٹ میرا خیال تھا کہ آپ خود پوچھیں گی میں تو اسی انتظار میں تھا۔۔۔خیر کوئی بات نہیں۔۔۔
                      گھر میں آپکی بڑی ماں ہیں، بابا ہیں ، اور آپ سے چھوٹے آپکے بھائی صارم شاہ اور بہن فجر حشمت شاہ ہیں۔۔۔اور سب کے سب بہت بے چینی سے آپکے آنے کا ویٹ کر رہے ہیں۔۔۔باقی باتیں ہم گھر چل کر کریں گے۔۔۔آپ کو جو پوچھنا ہے پوچھیے گا بابا سے ، ماما سے بلکہ ان سے خوب لڑئیے گا۔۔۔اور ڈرئیے گا مت میں آپکے ساتھ کھڑا ہوں گا۔۔۔"
                      احتشام شاہ کو اچانک گاڑی میں ایک اجنبی کی موجودگی کا خیال آیا تو بات گول مول کر کے مسکرا کر لہجے میں بشاشت لاتے بولا اپنی بات سے وہ مہدیہ کو ریلیکس کرنا چاہ رہا تھا کہ کچھ بھی الٹا سیدھا مت سوچے کہ نہ جانے سب کا اسے دیکھ کر کیا ری ایکشن ہونا ہے۔۔۔
                      اور ایسا ہی ہوا مہدیہ کے تنے ہوئے اعصاب کچھ ڈھیلے پڑے تھے فاطمہ اور رضوانہ خاتون نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں سب ٹھیک ہونے کا اشارہ کیا تھا۔۔۔مگر ریلیکس ہونے کے باوجود اس کا دل جیسے کسی طوفان کی زد میں تھا۔۔۔کبھی اسکی سوچیں ان خونی رشتوں کی طرف چلی جاتیں جن کو اس نے نہ پہلے کبھی محسوس کیا نہ انکو کبھی دیکھا اسے ان رشتوں کو لے کر اپنے دل میں کسی بھی قسم کے کوئی جزبات محسوس نہیں ہو رہے تھے اسے ایسا لگ رہا تھا احتشام شاہ اسے اسکی فیملی کے بارے میں نہیں بلکہ کسی اجنبی لوگوں کے بارے میں بتا رہا ہو جن سے اس کو کوئی تعلق نہیں اپنے دل کی اس کیفیت کو وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔۔۔ کبھی اسکی سوچوں کے تانے بانے بھٹک کر اس دشمن جاں کو سوچنے لگتے جس کو اس نے ساری دنیا سارا جگ چھوڑ کر چنا تھا جو اس کے روم روم میں بستا تھا جیسے جیسے فاصلہ سمٹ رہا تھا اس کی حالت عجیب ہو رہی تھی۔۔۔اس کا ذہنی تناؤ بڑھتا جا رہا تھا۔۔۔کبھی اس کا دل سکڑ جاتا اور کبھی عجیب لے پہ دھڑکنے لگتا۔۔۔اور کبھی لگتا اس کا دل ڈوب رہا ہے۔۔۔
                      فاطمہ کی حالت بھی اس سے کچھ الگ نہیں تھی دلاور کے ساتھ ایک اور نام بھی تھا جس کی سلامتی کی اس نے دن رات دعائیں مانگیں تھیں۔۔۔جسکی محبت کو اس نے اپنے دل کے نہاں خانوں میں ساری دنیا سے چھپائے رکھا تھا کہ الّٰلہ کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ سالوں سے کس کے انتظار میں بیٹھی ہے کس کی راہ تکتی ہے۔۔۔
                      احتشام شاہ گاؤں کی حدود میں داخل ہوا تو پاس سے گزرتے لوگوں کے اسے دیکھ کر عجیب عجیب اشارے اسے الجھن کا شکار کرنے لگے اس کا شارپ ذہن کسی انہونی کا الارم بجانے لگا آج سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا جیسے ہی لوگوں کی ان پہ نظر پڑتی تو خوشدلی سے سلام کرتے۔۔۔سلام تو وہ اب بھی کر رہے تھے مگر سب کے چہروں پہ اسے واضح طور پہ پریشانی محسوس ہوئی تھی احتشام شاہ نے تیز لہجے میں ڈرائیور کو گاڑی کی سپیڈ مزید تیز کرنے کا کہا تھا۔۔۔
                      حویلی کے سامنے گاڑی رکوا کر جیسے ہی وہ اترا تو دو ملازم دوڑ کر اس کی طرف آئے ان کے چہرے پہ بھی اسے وہی تحریر ملی جو وہ باہر لوگوں کے چہروں پہ پڑھتا آیا تھا۔۔۔احتشام شاہ کے اترتے ہی باقی لوگ بھی باری باری گاڑی سے نیچے اتر آئے۔۔۔مہدیہ اور فاطمہ نے خود کو ایک بڑی سی چادر سے کور کیا ہوا تھا۔۔۔احتشام شاہ کے ساتھ خواتین کو دیکھ کر دونوں ملازم نظریں جھکائے سلام کرنے کے بعد جلدی سے ان کا سامان اتارنے لگے۔۔۔احتشام شاہ نے کیب والے کو اس کا کرایہ ادا کیا اور خواتین کے ساتھ حویلی کے اندر داخل ہو گیا۔۔۔
                      " شبیر کیا بات ہے۔۔۔سب ٹھیک تو ہے ناں۔۔۔اور حویلی میں اتنا سناٹا کیوں ہے باقی کے سب ملازم اور چاچا دین محمد نظر نہیں آ رہے۔۔۔"؟
                      احتشام شاہ نے ایک طائرانہ نظر ارد گرد ڈالی تھی۔۔۔تین چار ملازم حویلی کے گیٹ کے باہر اور کچھ اندر ہر وقت موجود رہتے تھے مگر اندر قدم رکھتے ہی اسے ہو کا عالم محسوس ہوا تھا۔۔۔دونوں ملازم ہاتھوں میں سامان تھامے انکے پیچھے پیچھے چل رہے تھے جب احتشام شاہ نے ان سے استفسار کیا تھا۔۔۔
                      " وہ سائیں۔۔۔بڑے سائیں دین محمد اور باقی ملازمین کے ساتھ چھوٹے سائیں کو لینے گئے ہیں۔۔۔آپکے جانے کے بعد حویلی میں قیامت ٹوٹ پڑی۔۔۔"
                      احتشام شاہ کے سوال پہ دونوں ملازموں کو اندازہ ہوا کہ وہ ہر بات سے اب تک بے خبر ہے۔۔۔اس لیے ذرا جھجک کر جواب دیا۔۔۔
                      " کیا بکواس کر رہے ہو۔۔۔کیسی قیامت۔۔۔کہاں سے لینے گئے ہیں صارم کو۔۔۔"؟
                      احتشام شاہ انکے جواب پہ ہکا بکا ہوتے تیزی سے دو قدم انکی طرف بڑھاتے غصے سے بولا تھا۔۔۔رضوانہ خاتون کے ساتھ مہدیہ اور فاطمہ بھی پریشان ہوئیں تھیں احتشام شاہ نے ایک نظر انکی طرف دیکھا پھر سر جھٹک کر انکو اپنے ساتھ لیتا تیز تیز قدم اٹھاتا حویلی کے اندرون خانہ کی طرف بڑھتا چلا گیا۔۔۔ہال روم میں داخل ہوا تو سامنے ہی فجر صوفے پہ نیم دراز بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔
                      " احتشام بھیا۔۔۔۔بھیا آپ کہاں تھے۔۔۔کتنی کالز کیں آپکو میں نے ، بابا نے ماما نے ہم سب نے۔۔۔بھیا۔۔۔صارم بھیا۔۔۔۔
                      احتشام شاہ پہ نظر پڑتے ہی فجر اسکی طرف دیکھ کر تیزی سے اٹھ کر روتی ہوئی بھاگ کر اس کے گلے لگ کر سسکنے لگی۔۔۔وہ اس وقت اس قدر پریشان تھی کہ احتشام شاہ کے ساتھ تین انجان عورتوں کو دیکھ کر بھی اسے کوئی نظر نہیں آیا۔۔۔
                      " گڑیا کیا ہوا ہے۔۔۔کہاں ہے صارم۔۔۔کیا کیا ہے اس نے۔۔۔"؟
                      فجر کو اس طرح سے پریشان اور سسکتے دیکھ کر احتشام شاہ کو صحیح معنوں خوفناک صورت حال کا ادراک ہوا تھا۔۔۔خود کو سنبھالتے اس نے فجر کے گرد اپنے بازوؤں کا حصار باندھتے اسکے آنسو صاف کرتے ہوئے اسے اپنے ساتھ یونہی لگائے صوفے پہ بیٹھتے نرمی سے پوچھا۔۔۔ساتھ ہی اس نے رضوانہ خاتون کو اشارہ کیا تھا کہ وہ بھی ریلیکس ہو کر بیٹھ جائیں۔۔۔فجر نے اپنے آنسو صاف کرتے اس کے جانے کے بعد پیش آنے والے تمام حالات دلاور کے حویلی پہ اٹیک اور پھر پنچایت کے فیصلے کی بابت اسے بتایا تو وہ سب سن کر پریشان ہوتے اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔۔۔
                      " یا الّٰلہ۔۔۔میرے پیچھے اتنا کچھ ہو گیا اور مجھے پتہ تک نہیں چلا۔۔۔کہاں گئے ہیں وہ لوگ۔۔۔صارم کس کے پاس رکا ہے۔۔۔ ؟ مجھے ابھی انکے پیچھے جانا ہوگا "
                      احتشام شاہ یکدم اٹھتے ہوئے تیزی سے بولا۔۔۔
                      " کسی کو نہیں معلوم بھیا کہ بابا کہاں گئے ہیں اور صارم کس کے پاس ٹھہرا ہے۔۔۔ہم لوگ صبح ناشتہ کر رہے تھے جب کسی کی کال آئی اور بابا کال سنتے ہی بنا ناشتہ کیے اور کچھ بتائے بنا فوراً یہ کہ کر چلے گئے کہ صارم کا پتہ چل گیا ہے اسے لینے جا رہے ہیں۔۔۔
                      ہمارے پاس گھر بیٹھ کر ان لوگوں کا انتظار کرنے کے سوا اب کوئی چارہ نہیں بھیا۔۔۔
                      فجر نے بھیگے لہجے میں کہا تو احتشام شاہ نڈھال سا واپس بیٹھ گیا۔۔۔
                      " ماما۔۔۔ماما کیسی ہیں۔۔۔کہاں ہیں وہ۔۔۔"
                      احتشام شاہ کا دھیان ہائمہ خاتون کی طرف گیا تو یہ سوچ اسے بے چین کر گئ کہ اس وقت ماما کے دل پہ کیا گزر رہی ہوگی وہ کس قدر تکلیف میں ہوں گی۔۔۔اس نے پریشان ہو کر کرب زدہ لہجے میں پوچھا تھا۔۔۔
                      " بھیا جب سے پنچایت نے اپنا فیصلہ سنایا ہے ماما روم سے باہر نہیں نکلیں۔۔۔ہر وقت صارم بھیا کے لیے دعائیں مانگتی رہتی ہیں۔۔۔بابا سے ہم سے کسی سے بھی ٹھیک سے بات نہیں کرتیں اور نہ ہی کچھ ٹھیک سے کھا پی رہی ہیں۔۔۔"
                      فجر نے اپنی پلکوں تک آئے آنسو با مشکل روکتے کہا۔۔۔احتشام کے لیے یہ سب برداشت کرنا بہت مشکل ہو رہا تھا مٹھیاں بھینچے ضبط کے مراحل سے گزرتے وہ کتنی دیر یونہی بیٹھا رہا۔۔۔
                      " احتشام بیٹا حوصلہ کرو۔۔۔ہمت سے کام لو۔۔۔الّٰلہ نے چاہا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔جو لوگ دوسروں کے ساتھ برا نہیں کرتے انکا دل نہیں دکھاتے الّٰلہ پاک انکے ساتھ بھی کبھی برا نہیں ہونے دیتے۔۔۔اسے الّٰلہ کی طرف سے الّٰلہ کی آزمائش سمجھ کر الّٰلہ کے بندے ہونے کا حق ادا کرو بیٹا۔۔۔اور اس آزمائش میں ثابت قدم رہو۔۔۔"
                      رضوانہ خاتون نے اس ساری صورت حال میں پہلی بار لب کشائی کی۔۔۔احتشام شاہ نے انکی بات پہ ایک گہرا سانس بھر کے خود کو ریلیکس کیا تھا۔۔۔
                      اس رات عینا کی ان گنت کالز کی وجہ اسے اب سمجھ میں آئی تھی۔۔۔مگر وہ خود ایسے چکرویو میں اس وقت پھنسا ہوا تھا کہ اس کو کچھ اور دھیان نہیں رہا۔۔۔رضوانہ خاتون دلاور کی حرکتوں کے بارے سن کر دل ہی دل میں شرمندہ ہو رہی تھیں دانی کے اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی احتشام شاہ ان سے ایسے محبت اور احترام سے پیش آ رہا تھا جیسے دلاور کا ان سے کوئی تعلق واسطہ نہ ہو۔۔۔عائلہ کے پیچھے دلاور کے اس قدر پاگل پن کے بارے جان کر مہدیہ کے دل پہ جیسے کوئی گھونسا پڑا تھا اسکے دل و دماغ میں جیسے جھکڑ چلنے لگے تھے۔۔۔کتنی عجیب بات تھی جس کے پیچھے وہ پاگل تھی وہ کسی اور کے لیے پاگل ہوا پڑا تھا اس کے دل میں بے اختیار عائلہ سے ملنے کی اسے دیکھنے خواہش پیدا ہوئی تھی۔۔۔وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ عائلہ میں ایسا کیا ہے جو دلاور کو اس میں کبھی نظر نہیں آیا۔۔۔فاطمہ اسکی حالت کو سمجھتے پزمردہ ہوئی تھی۔۔۔اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ انکا دانی کسی لڑکی کی زندگی یوں اجیرن کر سکتا ہے۔۔۔
                      " بھیا مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے اگر بابا بھیا تک نہ پہنچ سکے تو۔۔۔۔۔۔۔"؟
                      فجر پریشان ہوتی بولی تھی۔۔۔
                      " فکر مت کرو۔۔۔الّٰلہ نے چاہا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔اور جب تک میں زندہ ہوں میں کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دوں گا کہ وہ میرے بھائی کو ہاتھ بھی لگائے۔۔۔مجھ پہ یقین ہے ناں۔۔۔"؟
                      احتشام شاہ نے فجر کے گرد اپنے بازو کا حالہ بناتے مضبوط لہجے میں پوچھا تو فجر اسکی بات پہ سر ہلا گئ اپنے بھائی کے سامنے اپنا دل ہلکا کرنے کے بعد اور اس کا مضبوط سہارا محسوس کرتے ہوئے وہ کچھ ریلیکس ہوئی۔۔۔احتشام شاہ کے آتے ہی اسے یوں لگا جیسے اب سب ٹھیک ہو جائے گا اس کا دل پرسکون ہو گیا تھا کچھ ریلیکس ہوئی تو اس کا دھیان رضوانہ خاتون کی طرف گیا رضوانہ خاتون کے پاس بیٹھی مہدیہ پہ فجر کی نظریں جیسے ٹک سی گئ تھیں اس کا چہرہ چادر میں تھوڑا سا ڈھکا ہونے کے باوجود اسکے چہرے کی غیر معمولی تابناکی کوئی بھی محسوس کر سکتا تھا وہ سوالیہ نظروں سے احتشام شاہ کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔
                      " مہدیہ یہاں آؤ۔۔۔ میرے پاس آ کر بیٹھو۔۔۔"
                      احتشام شاہ نے فجر کی بات کا جواب دینے کی بجائے مہدیہ کو مخاطب کیا تو اس کے یوں بے تکلفی پہ ایک غیر لڑکی کو بلانے پہ اسکی آنکھوں میں حیرت سمٹ آئی۔۔۔
                      مہدیہ آہستہ سے اپنی جگہ سے اٹھ کر احتشام شاہ کے برابر میں دائیں طرف آ بیٹھی۔۔۔احتشام شاہ نے انتہائی نرمی سے مہدیہ کے چہرے سے چادر ہٹا دی تو فجر الجھن زدہ اسے تکتی اس کا چہرہ بغور دیکھنے لگی اس قدر حسین چہرہ اس نے آج تک اپنی زندگی میں نہیں دیکھا تھا وہ اس چہرے کی کشش میں کھو گئ تھی اسے وہ چہرہ جانا پہچانا لگا ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ کہاں دیکھا کہ احتشام شاہ نے اس کے کانوں کے پاس جیسے بم پھینکا تھا۔۔۔
                      " فجر یہ ہماری بہن ہے۔۔۔آپکی بڑی آپی۔۔۔چھوٹی ماں کی بیٹی۔۔۔مہدیہ حشمت شاہ۔۔۔"
                      احتشام نے اپنے دائیں بازو کے حلقے میں مہدیہ کو لیتے بہت محبت اور شفقت سے مہدیہ کا تعارف کروایا۔۔۔فجر یقین و بے یقینی کی کیفیت میں مہدیہ کی جانب دیکھنے لگی وہ اپنی جگہ پہ ساکت رہ گئ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کس قسم کے ری ایکشن کا اظہار کرے۔۔
                      ایک ایسا انسان جسے آپ نے نہ کبھی دیکھا ہو نہ کبھی اس کا نام سنا ہو بلکہ اس کے وجود سے بھی انجان ہوں پھر اچانک وہ انتہائی مضبوط رشتے کی صورت میں آپکے سامنے آ کھڑا ہو تو انسان کی سوچنے سمجھنے کی سب صلاحیتیں منجمند ہو کر رہ جاتی ہیں۔۔۔سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ کس قسم کے ردعمل کا اظہار کرے۔۔۔
                      مہدیہ بھی اس وقت پتھر کا بت بنی بس فجر کو تک رہی تھی۔۔۔فجر کے رویے پہ کنفیوز سی ہوتی وہ بھی اپنی جگہ ساکت و صامد بیٹھی رہی دونوں میں سے آگے بڑھنے کی پہل کسی نے بھی نہیں کی تھی۔۔۔
                      " مہدیہ۔۔۔ہماری بہن۔۔۔۔۔۔۔"
                      فجر بے یقینی سے وہیں ساکت بیٹھی زیرلب بڑبڑائی تھی۔۔۔
                      احتشام شاہ نے فجر کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے اسکا کندھا ہلا کر مہدیہ کی طرف اشارہ کیا تو فجر ہڑبڑا کر اپنے حواسوں میں واپس آئی۔۔۔پھر اپنی جگہ سے اٹھ کر مہدیہ کے پاس آ کے بیٹھ گئ اور اس کا ہاتھ تھام کر بہت محبت سے اسکے چہرے کو چھو کر دیکھنے لگی جیسے یقین کرنا چاہ رہی ہو کہ کہیں جھوٹ تو نہیں۔۔۔
                      " فجر یہ سچ ہے۔۔۔اور شائد ہمیں ہماری بہن کبھی نہ ملتی اگر رضوانہ آنٹی اسے نہ ملی ہوتیں۔۔۔"
                      احتشام شاہ نے رضوانہ خاتون کی طرف مشکور نظروں سے دیکھتے کہا پھر انکا مختصر سا تعارف کروایا جس میں دلاور کا کہیں ذکر نہیں تھا۔۔۔
                      " بھیا یہ تو بلکل چھوٹی ماں جیسی ہیں۔۔۔"
                      فجر کے لب و لہجے میں حیرانی و خوشی کے ملے جلے تاثرات تھے۔۔۔اس قدر مشابہت اس نے پہلی بار کسی کی دیکھی تھی۔۔۔مہدیہ فجر کے محبت بھرے انداز پہ حیران ہونے لگی۔۔۔احتشام شاہ سے اس کا رویہ قطعی مختلف نہیں تھا جیسے احتشام شاہ بہت محبت سے پیش آیا تھا ویسے ہی فجر کے ہر ہر انداز سے اپنائیت ظاہر ہو رہی تھی جس میں دکھاوے کا نام ونشان بھی نہیں تھا۔۔۔مہدیہ کا ذہن مزید الجھنے لگا تھا یہ سوچ کر کہ اگر انکے دلوں میں اتنی محبت تھی تو ماما کو اب تک ڈونڈھا کیوں نہیں۔۔۔کیوں ان سے غافل رہے۔۔۔اسے اپنے ہر سوال کا جواب چاہیے تھا مگر جس سے جواب چاہیے تھا وہ منظر سے غائب تھا۔۔۔
                      " ہممممم۔۔۔۔ایسا ہی ہے۔۔۔فجر آپ رضوانہ آنٹی اور مہدیہ کو انکے روم میں لے چلو اور رشیداں بوا سے کہو کہ انکے کھانے پینے کا فوراً انتظام کریں۔۔۔
                      احتشام شاہ نے ہنکارا بھرتے کہا۔۔۔پھر رضوانہ خاتون سے معزرت کرنے لگا اسے ہرگز توقع نہیں تھی کہ گھر واپسی پہ اسے اس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا مہدیہ کو اپنے سامنے یوں اچانک پا کر اپنے باپ کے چہرے پہ مسرت کے کھلتے رنگ دیکھنے کی بجائے اسے گھر کا ہر فرد ماتم زدہ ملا تھا۔۔۔اس وقت پریشان ہونا پریشانی کو مزید بڑھا دیتا اسے نہ صرف اپنے بھائی کو بچانا تھا بلکہ اپنے گھر کو بھی سنبھالنا تھا رضوانہ خاتون سے وہ بار بار معزرت کرنے لگا تو وہ شرمندہ سی ہونے لگیں کہ اس قدر ٹینشن زدہ صورت حال میں بھی اسے انکی فکر تھی۔۔۔احتشام شاہ کی شخصیت سے وہ مزید متاثر ہوئیں تھیں۔۔۔یقیناً وہ ایک مضبوط اعصاب کا مالک شخص تھا ورنہ آتے ہی جس قسم کے حالات کا اسے سامنا ہوا تھا وہ اپنا آپا کھو دیتا۔۔۔فجر رضوانہ خاتون مہدیہ اور فاطمہ کو اپنے ساتھ لے کر روم میں چلی گئ۔۔۔
                      " ماما۔۔۔۔میں اندر آ سکتا ہوں کیا۔۔۔۔"
                      احتشام شاہ نے ہائمہ خاتون کے روم کے سامنے کھڑے ہوتے آہستہ سے دروازہ ناک کرتے پکارا تھا۔۔۔ہائمہ خاتون اپنے روم میں جائے نماز پہ بیٹھی اپنے بیٹے صارم شاہ کی سلامتی کے لیے وظائف میں مشغول تھیں۔۔۔احتشام شاہ کی آواز پہ انکو لگا کہ شائد انکا وہم ہے پھر جب دوبارہ دستک کے ساتھ احتشام شاہ نے پکارا اور اندر آنے کی اجازت چاہی تو انکا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا تھا وہ بے تابانہ اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھیں تھیں۔۔۔
                      " تم آ گئے بیٹا۔۔۔ کہاں رہ گئے تھے تم۔۔۔کتنی کالز کیں تمہیں ہم نے۔۔۔
                      دیکھو تمہارے جاتے ہی یہاں کیسی قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔۔۔وہ۔۔۔وہ مار ڈالیں گے تمہارے بھائی کو۔۔۔صارم کو بچا لو احتشام۔۔۔وہ مار دیں گے اسے۔۔۔"
                      ہائمہ خاتون دروازہ کھولتے ہی کسی معصوم چھوٹے سے بچے کی مانند احتشام شاہ کے سینے سے جا لگیں۔۔۔بیٹے جوان ہو جائیں تو شوہر کے بعد وہ عورت کو کسی مضبوط سائبان کی طرح محسوس ہوتے ہیں آج کتنے دنوں بعد انکے اندر کا طوفان باہر آیا تھا ہر قسم کی صورت حال کا ڈٹ کر سامنا کرنے والی ہائمہ خاتون آج زندگی میں پہلی بار اپنا آپا کھو گئ تھیں وہ زندگی میں پہلی بار اس طرح سے بکھری رو رہی تھیں۔۔۔اس دنیا میں کسی بھی ماں باپ کے لیے یہ سب سے زیادہ خوش بختی کی علامت ہوتی ہے کہ ان کا بیٹا انکا تابعدار اور صالحہ بیٹا ہو ایسا بیٹا جیسے جیسے جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھتا جاتا ہے ماں باپ کا سر فخر سے بلند ہونے لگتا ہے انکو اپنے اندر اک انوکھی سی طاقت محسوس ہوتی ہے جیسے دکھوں کا سامنا کرنے ان سے لڑنے کے لیے ایک مضبوط تلوار انکے ہاتھ میں ہو ایسی تلوار جو ہر تکلیف کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔۔۔
                      احتشام شاہ بھی ہائمہ خاتون کے لیے ایسی ہی تلوار تھا وہ جانتی تھیں کہ اس وقت اگر شاہ سائیں کے سامنے کوئی کھڑا ہو سکتا ہے تو وہ صرف احتشام شاہ ہی ہے۔۔۔احتشام شاہ کو اپنے سامنے دیکھ کر خود پہ اتنے دنوں سے جو ضبط کے بندھن انھوں نے باندھے تھے وہ اک جھٹکے سے ٹوٹ گئے تھے اس وقت وہ صرف ایک ماں تھیں جسے اپنے بچے کے سوا کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔
                      " ماما۔۔۔۔پلیززز۔۔۔۔پلیززز ماما چپ کر جائیں۔۔۔کچھ نہیں ہوگا صارم کو۔۔۔صارم نے کچھ ایسا نہیں کیا جس کی اسے اتنی بڑی سزا دی جائے۔۔۔"
                      احتشام شاہ اپنی ماں کے چہرے پہ ہلکی سی شکن بھی برداشت نہیں کر پاتا تھا کہاں اس طرح سے انکا رونا۔۔۔اس کا دل پھٹنے کو ہو رہا تھا ہائمہ خاتون کو اپنے مضبوط بازوؤں کے حصار میں لیے وہ بھیگے لہجے میں انکو سب ٹھیک ہونے کا یقین دلانے لگا پھر اپنے ساتھ یونہی لگائے بیڈ پہ بیٹھ گیا۔۔۔
                      " مگر تمہارے بابا۔۔۔۔تمہارے بابا۔۔۔۔"
                      ماما بابا سرپنچ ہونے کی وجہ سے مجبور ہیں۔۔۔وہ اگر ذرا سا بھی صارم کے حق میں یا حمایت میں بات کریں گے تو لوگ کہیں گے کہ جب دوسروں کے بیٹوں کے فیصلے کرنے ہوتے تھے تو شاہ سائیں اصول پرست انصاف پسند بن جاتے تھے مگر جب اپنے بیٹے کی باری آئی تو وہ ایک باپ بن گئے۔۔۔ماما آپ جانتی ہیں صارم میں بابا کی جان ہے۔۔۔وہ انکا کتنا لاڈلا ہے۔۔۔اس وقت ہم جس تکلیف جس پریشانی سے گزر رہے ہیں بابا اس سے ہزار گنا زیادہ سہ رہے ہیں۔۔۔ماما آج سے پہلے جس طرح سے آپ اب تک بابا کے ساتھ کھڑی رہی ہیں اب بھی آپکو انکے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔۔۔اس طرح سے روم میں بند ہو جانے سے بابا سے اور باقی سب سے بات چیت چھوڑ دینے سے بابا کی تکلیف مزید بڑھے گی۔۔۔میں ، آپ ، فجر ہم سب ایک دوسرے سے بات کر کے اپنے اندر کا غبار نکال رہے ہیں مگر بابا اندر ہی اندر سب اکیلے سہ رہے ہیں۔۔۔اس لیے ماما پلیززز سنبھالیں خود کو۔۔۔ماما میں نے آج تک آپکو آئرن وومن کے روپ میں ہی دیکھا ہے اور مجھے اپنی ماما کا یہ روپ سب سے بیسٹ روپ لگتا ہے۔۔۔یوں روتی ہوئی ماما مجھے بلکل اچھی نہیں لگ رہیں۔۔۔"
                      احتشام شاہ نے ہلکے پھلکے لہجے میں ہائمہ خاتون کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا تو ہائمہ خاتون بھی دھیرے سے اپنے آنسو صاف کر کے مسکرا دیں۔۔۔
                      " آپ پریشان مت ہوں۔۔۔میں آگیا ہوں ناں۔۔۔میں دیکھ لوں گا سب۔۔۔کچھ نہیں ہو گا صارم کو۔۔۔
                      بابا مجبور ہیں مگر آپکا یہ بیٹا مجبور نہیں ہے میرا یقین کریں میرے بھائی کی ہوا کو بھی کوئی چھو نہیں پائے گا۔۔۔"
                      احتشام شاہ نے بہت رسانیت سے ٹھہر ٹھہر کر کہا اس کا بولا ہر لفظ نہ صرف ہائمہ خاتون کے اندر طمانیت بھرا سکون بن کر اتر رہا تھا بلکہ انھیں اس بات کا بھی احساس ہوا تھا کہ ماں کا رشتہ نبھاتے نبھاتے وہ ایک بیوی کا رشتہ نظر انداز کر گئ تھیں۔۔۔
                      " بہت بڑے ہو گئے ہو تم۔۔۔ہاں۔۔۔اپنی ماں کو سمجھا رہے ہو۔۔۔جیسے تم میرے بابا ہو۔۔۔"
                      ہائمہ خاتون نے سیدھے ہو کر بیٹھتے اور ساتھ ہی احتشام شاہ کا کان کھینچتے کہا۔۔۔
                      " الّٰلہ توبہ ماما جان۔۔۔میری کیا مجال کہ میں آپکو سمجھاؤں۔۔۔میں تو بس اپنے دل کی بات کر رہا تھا جو محسوس کر رہا تھا وہ آپ سے کہ دیا۔۔۔
                      ماما جان مجھے آپ سے کسی کو ملوانا ہے۔۔۔سوچا تھا کہ سب کو سرپرائز دوں گا۔۔۔پھر اس سرپرائز کے ملنے کی خوشی میں سب کے چہروں پہ مسکراہٹوں اور خوشیوں کا اک جہاں دیکھوں گا مگر میں تو خود سرپرائزڈ رہ گیا ہوں۔۔۔"
                      احتشام شاہ نے تمہید باندھتے کہا اس کی بات پہ ہائمہ خاتون حیران سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھنے لگیں۔۔۔
                      " کیا صارم اور عائلہ تمہارے ساتھ ہیں۔۔۔"؟
                      ہائمہ خاتون کے دماغ میں کلک ہوا تو وہ بے تابی سے بولیں۔۔۔
                      " نہیں ماما۔۔۔صارم اور عائلہ نہیں۔۔۔بلکہ۔۔۔۔
                      بلکہ کیا۔۔۔صارم اور عائلہ نہیں تو اور کون۔۔۔کسکی بات کر رہے ہو تم۔۔۔"
                      ہائمہ خاتون احتشام شاہ کی بات کاٹ کر تیزی سے بولیں۔۔۔
                      " ماما۔۔۔آپ چلیں میرے ساتھ۔۔۔خود چل کر دیکھیں آپ۔۔۔"
                      احتشام شاہ نے ہائمہ خاتون کو کندھوں سے پکڑ کر اٹھاتے ہوئے کہا تو وہ حیران حیران سی اس کے ساتھ فجر کے روم کی طرف بڑھ گئیں۔۔۔
                      " نازو۔۔۔۔۔نازنین۔۔۔۔۔"
                      ہائمہ خاتون فجر کے روم میں داخل ہوئیں تو سامنے بیٹھی مہدیہ کے چہرے پہ نظر پڑتے ہی وہ ساکت رہ گئیں۔۔۔یہ چہرہ وہ کیسے بھول سکتی تھیں اس چہرے کا ایک ایک نین نقش ان کو صدیوں سے ازبر تھا۔۔۔اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے شاہ سائیں کے آنکھوں میں اسی چہرے کا عکس وہ دیکھتی آ رہی تھیں کبھی کبھی انکو نازنین کی قسمت پہ رشک آتا تھا جو دور جا کر بھی ہمیشہ شاہ سائیں کے دل میں آباد رہیں۔۔۔
                      مہدیہ کو ہائمہ خاتون سے کم از کم ایسے ری ایکشن کی ہرگز توقع نہیں تھی اپنے ہاتھوں کی انگلیاں مروڑتی اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑی ہوتی وہ ہائمہ خاتون کی طرف بغور دیکھتے انکے اصل اور نقل چہرے کو کھوجنے لگی دنیا کی کوئی بھی عورت اتنی اپنائیت سے اتنی محبت سے کبھی اپنی سوتن کا نام نہیں پکارتی جیسے ہائمہ خاتون نے پکارا تھا۔۔۔اب تک جو کچھ وہ ان سب کے بارے میں سوچتی آئی تھی ایک ایک کر کے سب غلط ثابت ہو رہا تھا وہ مزید الجھ گئ تھی کہ یہ چہرے جھوٹے تھے یا وہ سب جھوٹ تھا جو اسے رحمو بابا اور اسکی خالہ نیلم بائی نے بتایا تھا۔۔۔
                      رضوانہ خاتون اور فاطمہ بھی اس وقت فجر کے روم میں ہی موجود تھیں۔۔۔ہائمہ خاتون کو دیکھ کر انکو صحیح معنوں میں اندازہ ہوا تھا کہ انکے بچے اپنی ماں کا عکس تھے وہی بردباری اور وہی محبتیں دوسرا رنگ نظر نہیں آیا تھا۔۔
                      ہائمہ خاتون دھیرے دھیرے قدم بڑھاتی اک ٹرانس میں مہدیہ کے بلکل سامنے جا کھڑی ہوئیں اور اسکے چہرے کے نقوش کو چھو چھو کر حیرت زدہ لہجے میں بولیں۔۔۔
                      " ماما یہ چھوٹی ماں نہیں ہیں۔۔۔یہ مہدیہ ہے۔۔۔چھوٹی ماں کی بیٹی۔۔۔"
                      احتشام شاہ سمجھا کہ شائد اسکی طرح شائد اسکی ماما بھی دھوکا کھا رہی ہیں۔۔۔اس لیے آگے بڑھ کر انکی غلط فہمی دور کرنے کی خاطر بولا۔۔۔
                      " جانتی ہوں کہ یہ نازو نہیں ہے۔۔۔مگر یہ نازو ہی ہے۔۔۔ہو بہو وہی چہرہ۔۔۔وہی نقوش۔۔۔
                      تمہیں اندازہ نہیں بیٹا کہ تمہارے بابا نے کتنا تلاش کیا تم لوگوں کو۔۔۔کتنا تڑپے ہیں تم لوگوں کے لیے۔۔۔"
                      ہائمہ خاتون نے مہدیہ کا چہرہ ہاتھوں میں لیتے اسکی پیشانی پہ بوسہ دیا پھر اسے گلے لگاتے کہا۔۔۔مہدیہ کو لگا جیسے کسی نے اس کی جلتی ہوئی پیشانی پہ برف کا ٹکڑا رکھ دیا ہو جسکی ٹھنڈک نے اس کے پورے وجود میں سکون کی لہرا دوڑا دی تھی مگر دوسرے پل یہ سوچ کر درد کی ایک تیز لہر اس کے دل میں اٹھی تھی کہ جب انکو پتہ چلے گا کہ میں کہاں سے آئی ہوں اور جہاں سے آئی ہوں وہاں پہ نہ صرف اپنی عزت گنوا چکی ہوں بلکہ ایک ناجائز بچے کی ماں بننے والی ہوں تو پھر انکا ردعمل کیا ہوگا۔۔۔ہائمہ خاتون اور فجر کے رویے پہ جو ایک نرم گوشہ اس کے دل میں پیدا ہوا تھا اس خیال کے آتے ہی وہ پھر سے اپنے خول میں سمٹ گئ تھی اس نے ہائمہ خاتون کے محبت بھرے انداز پہ کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔۔۔اسکا سرد تاثر سبھی نے نوٹ کیا تھا۔۔۔
                      نازو۔۔۔نازنین کہاں ہے۔۔۔وہ نہیں آئی کیا۔۔۔بہت ناراض ہے وہ ہم سب سے۔۔۔میں جانتی ہوں۔۔۔اسے ہونا بھی چاہیے۔۔۔جو کچھ اس کے ساتھ اس حویلی میں ہوا اس کے بعد اس کا حق بنتا ہے کہ وہ ہم سے ناراض ہو غصہ کرے۔۔۔مگر مجھے یقین ہے جب میں خود جا کر بہت عزت سے اسے اس کے اس گھر میں واپس لانے کے لیے جاؤں گی تو وہ مجھے انکار نہیں کرے گی۔۔۔"
                      ہائمہ خاتون بہت مان سے بولیں انکی بات پہ مہدیہ کے چہرے پہ گہرے کرب کے تاثرات نمودرار ہوئے تھے آنکھوں میں نمی اتری تو اسے چھپانے کو وہ چہرہ موڑ گئ۔۔۔
                      احتشام شاہ نے مہدیہ کی کیفیت نوٹ کرتے ہائمہ خاتون کا دھیان بٹانے کو رضوانہ خاتون اور فاطمہ سے ان کا تعارف کروایا۔۔۔تو ہائمہ خاتون ان سے بھی بہت گرمجوشی سے ملیں۔۔۔
                      " احتشام بیٹا تم نازنین کو ساتھ میں کیوں نہیں لائے تم نے اسے بتانا تھا سب کہ تمہارے بابا نے کتنا تلاش کیا اسے۔۔۔اور جو کچھ بھی انکی غیر موجودگی میں ہوا اس سب سے وہ لا علم تھے۔۔۔بیٹا یہ مت کہنا کہ یہاں سے نکالے جانے کے بعد نازو پھر سے اپنے ماضی کا حصّٰہ بن گئ تھی تمہارے بابا یہ بات سہ نہیں پائیں گے۔۔۔
                      ہائمہ خاتون کو نازنین کے انکے ساتھ نہ آنے پہ بہت رنج ہو رہا تھا انکو لگ رہا تھا کہ نازو پھر سے اپنی پرانی زندگی میں لوٹ گئ تھی اسی وجہ سے مہدیہ کو اس ماحول سے بچانےکے لیے رضوانہ خاتون کے پاس چھوڑ دیا اور اب مہدیہ کو تو بھیج دیا مگر خود نہیں آئی لیکن احتشام شاہ اگر ہر بات اسے بتاتا تو وہ ضرور انکے ساتھ آتی۔۔۔
                      " ماما۔۔۔۔چھوٹی ماں اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔۔۔"
                      احتشام شاہ نے افسردگی سے دھیمے لہجے میں کہا تو ہائمہ خاتون بے یقینی سے کبھی مہدیہ کی طرف اور کبھی احتشام شاہ کی طرف دیکھنے لگیں۔۔۔
                      " ک کب۔۔۔کب ہوا یہ۔۔۔"؟
                      ہائمہ خاتون سراسیمہ لپجے میں بدقت بولیں تھیں۔۔
                      " مہدیہ اس وقت چند سال کی تھی جب چھوٹی ماں کی ڈیتھ ہوئی۔۔۔اور ماما چھوٹی ماں نے حویلی سے دھتکارے جانے کے بعد اس خاندان کی اور بابا کی عزت پہ آنچ نہیں آنے دی۔۔۔انھوں نے اپنے ماضی کو نہیں اپنایا تھا۔۔۔باقی کا سارا سچ آپکو مہدیہ اور رضوانہ آنٹی بتا دیں گی۔۔۔میں ذرا عینا کی طرف سے ہو آؤں نہ جانے ادھر کیا حالات ہیں اور پھر گاؤں کا چکر بھی لگا کر آتا ہوں تاکہ صورت حال کا کچھ پتہ چلے پھر اسی حساب سے ہم کوئی فیصلہ کریں گے۔۔۔"
                      احتشام شاہ کی ہمت نہیں ہوئی تھی کہ وہ مہدیہ کی گزری زندگی کے بارے میں اپنی ماں کو کچھ بتاتا۔۔۔مہدیہ کے ساتھ جس مقدس رشتے میں وہ جڑا تھا اس رشتے نے اسکی زبان کو تالا لگا دیا تھا۔۔۔اسی لیے وہ وہاں سے اٹھ کر باہر نکل گیا۔۔۔
                      ہائمہ خاتون سوالیہ نظروں سے مہدیہ اور رضوانہ خاتون کی طرف دیکھنے لگیں کہ کون انھیں سب بتائے گا۔۔۔مہدیہ کے خاموش رہنے پہ رضوانہ خاتون نے لب کھولے تھے۔۔۔
                      پھر جو کچھ مہدیہ نے اپنے ماضی کے بارے میں انھیں بتایا تھا دھیرے دھیرے سب ہائمہ خاتون کو بتانے لگیں۔۔۔
                      نازنین کو حویلی سے دھتکارے جانے کے بعد اس کا پریگنینسی کی حالت میں در در ٹھوکریں کھانا ، پھر نیلم بائی سے ملنا ، مہدیہ کی پیدائش کے بعد اسے لے کر حویلی آنا اور پھر سے بے عزت کر کے حویلی سے نکالے جانا ، پھر نازنین کی درد ناک موت ، اسکے بعد مہدیہ کا کوٹھے پہ پرورش پانا ، اور اس غلیظ جگہ پہ رہ کر بھی اپنی عزت کو بچائے رکھنا ، اور پھر دلاور کا مہدیہ کی زندگی میں آنا ، دلاور کے ہاتھوں مہدیہ کا بے آبرو ہونا اور اس کے بچے کی ماں بننا، سیٹھ شجاع سے مہدیہ کو بچانے کے لیے نیلم بائی کا اسے کوٹھے سے بھگانا ، پھر اس پاداش میں نیلم بائی کا سیٹھ شجاع کے ہاتھوں بے رحمی سے قتل ہونا ، اور پھر مہدیہ کا رضوانہ خاتون کے دروازے پہ آنا ، قاسم کی خباثت اور احتشام شاہ کا مہدیہ کو بچانا اور اسے پہچاننا سب حرف با حرف کہ سنایا۔۔۔
                      ہائمہ خاتون اور فجر پتھر کے بت کی مانند اپنی جگہ پہ بیٹھی ہوئیں تھیں۔۔۔مہدیہ کے زندگی کے ان اذیت ناک لمحوں کے پنے جیسے جیسے رضوانہ خاتون پڑھتی جا رہی تھیں وہاں موجود ہر کسی کا دل پھٹنے کو آ رہا تھا۔۔۔سب دم سادھے سانس روکے نہ صرف سب سن رہے تھے بلکہ سب کی آنکھوں سے بے آواز آنسو بارش کی مانند گالوں پہ بہ رہے تھے۔۔۔
                      لگاتار شدید سٹریس کی وجہ سے مہدیہ کی طبیعت خراب ہو رہی تھی اپنی سسکیوں کا اپنے اندر گلا گھونٹتی وہ ضبط کی انتہا سے گزر رہی تھی۔۔۔فجر نے مہدیہ کو اپنے بازوؤں کے گھیرے میں لیتے اسے خود میں زور سے بھینچا تھا اور پھر اسکے گالوں پہ بہنے والے آنسو اپنے ہاتھ سے صاف کرتے اسے چپ کروانے کی ناکام کوشش کی۔۔۔مگر اس کوشش میں وہ مہدیہ سے بھی زیادہ رو رہی تھی۔۔۔
                      " مہدیہ۔۔۔میری بچی۔۔۔ہمیں معاف کردو۔۔۔تمہیں الّٰلہ کا واسطہ ہے بیٹا معاف کردو۔۔۔ہم سب کو ، اپنے بابا کو۔۔۔خدا کی قسم بیٹا تمہارے بابا ہر بات سے انجان تھے۔۔۔
                      تمہارے دادا جان نے اپنے خاندان کی پگ اونچی رکھنے کے لیے تمہارے بابا کو بھی اندھیرے میں رکھا۔۔۔پوری پلاننگ کے تحت انھیں نازنین سے الگ کیا گیا۔۔۔تمہارے بابا کے بعد سب سے زیادہ انھیں مجھ سے خطرہ تھا۔۔۔میں نازو کی کسی قسم کی کوئی مدد نہ کر سکوں اس کے لیے تمہارے دادا نے میرے بابا کا ایکسیڈنٹ کروا دیا۔۔۔ پھر جیسے ہی ہم لوگ منظر سے غائب ہوئے نازنین پہ ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔۔۔
                      سب کچھ اس طرح سے پلان کیا گیا تھا کہ ہم میں سے کسی کو بھی رتی بھر بھی شک نہیں ہوا۔۔۔
                      اپنے ملک واپسی پہ تمہارے بابا کو من گھڑت جھوٹی کہانی سنائی گئ۔۔۔تمہارے بابا نے کسی بات پہ یقین نہیں کیا اور نازنین کو خاموشی سے تلاش کرتے رہے۔۔۔
                      پھر تقدیر کو تمہارے بابا پہ رحم آیا تو سارا سچ انکے سامنے انکی اپنی ماں نے کھول کر رکھ دیا۔۔۔
                      اسکے بعد تمہارے بابا نے کسی کی پرواہ نہیں کی۔۔۔ہر جگہ جہاں بھی نازنین کے ہونے کی امید ہوتی دیوانوں کی طرح اسے تلاش کرنے نکل جاتے۔۔۔کوئی جگہ کوئی شہر ایسا نہیں جہاں نازنین کو تمہارے بابا نے تلاش نہ کیا ہو۔۔۔مگر وہ کہتے ہیں ناں کہ جب تک الّٰلہ کی رضا شامل حال نہ ہو تب تک انسان چاہے ساری دنیا الٹ پلٹ کر رکھ دے جو نہیں ملنا وہ نہیں ملنا۔۔۔
                      جیسے جیسے وقت گزرتا گیا تمہارے بابا مایوس ہونے لگے مگر نازنین کی تلاش پھر بھی نہیں چھوڑی۔۔۔
                      راتوں کو اٹھ اٹھ کر اپنے ناکردہ گناہ کے لیے الّٰلہ سے رو رو کر معافی مانگتے تمہارے بابا کی تڑپ کی میں گواہ ہوں بیٹا۔۔۔
                      نیند کی حالت میں بھی نازنین کی یاد ، اسکی فکر کہ وہ کس حال میں ہوگی تمہارے بابا کو بے چین کیے رکھتی۔۔۔
                      مجھے کبھی کبھی نازنین پہ رشک آتا تھا کہ وہ دور جا کر تمہارے بابا کے اس قدر قریب تھی اور میں پاس رہ کر بھی انکے اس طرح سے پاس نہیں تھی جیسے نازنین تھی۔۔۔
                      اپنے بابا کے لیے اپنے دل میں کسی قسم کی غلط فہمی مت پالنا بیٹا۔۔۔اور نہ یہ سوچنا کہ تمہارا مقام تمہاری عزت اس خاندان کے باقی بچوں سے کم ہوگی۔۔۔
                      جو کچھ بھی تمہارے ساتھ ہوا اسے ایک ڈراؤنا خواب سمجھ کر بھول جاؤ۔۔۔
                      تم کہاں رہی ، کہاں سے آئی ، یہ بچہ جائز ہے یا ناجائز ہم میں سے کسی کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔ہم بس اتنا جانتے ہیں کہ تم حشمت شاہ کی بیٹی اور احتشام شاہ صارم شاہ کی بہن ہو۔۔۔"
                      ہائمہ خاتون کی باتوں سے مہدیہ کو اپنے ہر سوال کا جواب مل چکا تھا۔۔۔اب نہ شکوہ رہا نہ شکایت۔۔۔اور جس نے یہ سب کیا وہ منوں مٹی تلے جا سوئے۔۔۔
                      اب وہ سوال کرتی بھی تو کس سے کرتی۔۔۔
                      ہائمہ خاتون نے آگے بڑھ کر شفقت سے مہدیہ کو کھلے دل سے سینے سے لگایا تو وہ انکی بانہوں میں ٹوٹ کر ایسے روئی کہ شائد کبھی ایسے بارش برسی ہو۔۔۔سب لوگ اسے سمبھالتے ہلکان ہونے لگے اور کچھ ہی دیر میں وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو کر ہائمہ خاتون کی بانہوں سے پھسلتی گئ۔۔۔
                      ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
                      " دانی واپس نہیں چلنا کیا۔۔۔صبح ہو گئ ہے۔۔۔"
                      بلال نے دلاور کے کندھے کو آہستہ سے ہلا کر کہا جو ساری رات الّٰلہ سے گریہ زاری کرتے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے فرش پہ بچھی جائے نماز پہ ہی ابھی کچھ دیر پہلے ہی سویا تھا۔۔۔

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X