Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

قفس . . کی . . چڑیا

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #21
    Hmm, ab pata chalay ga haqeeqat kya jai, or woh call kis ki thi.
    Aane walay lamho ka be sabri se intizar hai.

    Comment


    • #22
      قفس کی چڑیا۔
      آج سنڈے تھا پلوہی کے فیصلہ سنانے کا دن اور وہ فیصلہ کر چکی تھی۔۔۔۔۔
      مگر دل نہجانے کیوں بے چین سا تھا صبح سے۔۔۔۔اب بھی وہ حویلی کے پچھلے احاطے میں درخت کے نیچے بنائے گئے پتھر کے بینچ پر بیٹھی اسی اداسی اور بیچینی کے بارے میں ہی سوچے جا رہی تھی جب حدید کی آوازاسےحقیقت میں کھینچ لائی۔
      چاچی۔۔۔۔۔۔۔اس نے چہکتے ہوئے پیچھے سے بازو پلوشہ کے گلے میں ڈالے۔
      ارے چاچی کی جان۔۔۔آپ کب آئے۔۔۔۔؟؟پلوہی نے خوشگوار حیرت سے کہتے ہوئے اسے اپنے سامنے کیا۔
      ابھی ابھی۔۔کہتے ہوئے وہ ساتھ شرارت اور خوشی سے اچھلا۔
      تم نے پہلے کیون نہین بتایا اپنے آنے کا۔۔۔۔؟؟
      میں نے ممی سے کہا تھا کہ آپ کو سرپرائز دیں گے۔
      ہوں۔۔۔بہت اچھا سرپرائز دیا بھئی۔۔۔پلوہی نے مسکراتے ہوئے اسکے گال چومے۔
      ممی کہان ہین۔۔۔؟؟
      ہال میں بی بی جان کے پاس۔۔۔۔
      تو چلو پھر ہم بھی وہیں چلتے ہیں۔۔۔وہ حدید کا بازو پکڑ کر کھڑی ہوئی
      چلیں۔۔۔۔۔وہ اچھلتا کودتا آگے بڑھ گیا۔۔۔۔
      کاش کہ شمس لالہ سے سہراب خان کا خون نہ ہوا ہوتا تو حدید اتنی سی عمر میں اپنے باپ کی شفقت اور سائے سے محروم نہ ہوتا۔۔۔۔۔پلوشہ حدید کو دیکھتے ہوئے افسردگی سے سوچتی اسکے پیچھے پیچھے ہی ہال میں آئی۔
      اسلام وعلیکم۔۔۔۔۔پلوہی مسکرا کر کہتی مہرو کے گلے لگی۔
      میں صبح سے ہی بہت اداس تھی شکر ہے آپ لوگ آ گئے۔۔۔۔
      ارے بھئی اداسی کی وجہ۔۔۔۔۔مہرو نے رازداری سے پوچھا۔
      کوئی خاص وجہ نہیں۔۔بس ویئسے ہی۔۔وہ مسکراتی ہوئی بی بی جان کے تخت پر بیٹھی۔
      اچھا آپ سنائیں وہاں پر سب کیسے تھے۔۔۔۔؟؟
      پلوہی کے پوچھنے پر مہرو انہیں وہاں کی باتیں سنانے لگی
      _________________. . .
      زریاب خان ڈیرے پر تھا جب اسکا سیل بجا۔
      بابا جان کا نام دیکھ کر اس نے کال اوکے کی
      زریاب بیٹا کہان ہو تم۔۔۔
      میں ڈیرے پر ہوں باباجان خیریت۔۔۔۔۔
      تم جلدی سے حویلی پہنچو۔۔۔۔۔وہ عجلت میں بولے۔
      کیا ہوا سب ٹھیک ہے ناں۔۔۔۔۔۔زریاب فکر مند ہوا۔
      تم آو پھر بتاتا ہوں۔۔۔۔۔بابا جان نے کہہ کر کال کاٹ دی
      زریاب پریشان ہوتا اپنی جیپ کی طرف بڑھا۔۔۔۔۔
      اگلے دس منٹ میں وہ ان کہ سامنے تھا۔
      کیا بات ہے بابا جان آپ پریشان لگ رہے ہیں۔۔۔۔؟؟؟
      ہوں۔۔۔۔۔۔انہوں نے اثبات میں سر ہلایا
      دلاور خان نے بندہ بھجوایا تھا پیغام دے کر۔۔۔۔۔۔
      کیسا پیغام۔۔۔۔؟؟زریاب انکی بات پر چونکا۔
      پلوشہ کی بھرجائی کا انتقال ہو گیا ہے۔۔۔۔۔شمس خان کی بیوی کا۔۔۔۔
      اوہ۔ہ۔ہ۔۔۔۔۔کیسے۔۔۔۔۔؟؟؟وہ حیران ہوا۔
      یہ تو وہاں جانے پر ہی پتہ چلے گا تم ایسا کرو پلوہی کو لے کر فورا نکلو کیونکہ عصر کے بعد جنازہ ہے اور دو تو بج چکے ہیں۔۔۔۔۔میں بھی تمہاری بی بی جان کو لے کر جنازے سے پہلے ہی آ جاؤں گا۔
      جی۔۔۔۔۔زریاب سر ہلاتا اٹھ کر ہال کیطرف آیا جہاں پلوشہ مہرو کی کسی بات پر ہنس رہی تھی۔۔۔۔۔زریاب نے اسکے مسکراتے چہرے کو پہلے دل میں اتارا اور پھر آہستگی سے اندر داخل ہوا۔
      اسلام و علیکم بھابھی آپ کب آئیں۔۔۔؟؟وہ سنجیدہ سا مہرو سے پوچھ رہا تھا۔
      ابھی کچھ دیر پہلے تم سناؤ کہاں سے آ رہے ہو۔۔۔۔۔۔؟؟مہرو خوش مزاجی سے بولی۔
      میں ڈیرے پر تھا۔۔۔۔۔پلوہی تم جا کر چادر اوڑھ آؤ ہمیں نکلنا ہے ابھی۔۔۔۔۔۔
      نکلنا ہے مگرکہاں کے لیے۔۔۔۔۔؟؟پلوشہ کے سوال کو مہرو نے زبان دی۔
      پلوہی کے گھر جانے کے لیے۔۔۔۔۔۔
      پلوشہ زریاب خان کے کہے گئے الفاظ پر دھڑام سے نیچے جا گری تھی۔۔۔۔
      میرے گھر۔۔۔۔پر خان آپ نے تو مجھے فیصلے کا اختیار دیا تھا پھر کیوں۔۔۔۔۔؟؟وہ پریشان سی دل میں سوچ رہی تھی۔
      پلوشہ تم کھڑی کیوں ہو جاؤ۔۔ ہری اپ۔۔۔۔۔۔وہ گھڑی دیکھتا عجلت سے بولا۔
      خیریت ہے ناں۔۔۔۔۔۔پلوہی کے وہاں سے چلے جانے کے بعد مہرو نے زریاب کے چہرے پر پراسرار گھمبگیر سنجیدگی کو دیکھ کر پوچھا۔
      شمس خان کی بیوی کی ڈیتھ ہو گئی ہے۔۔۔۔
      اوہ ۔۔۔وہ کیئسے۔۔۔۔۔؟؟؟
      پتہ نہیں کچھ بھی۔۔۔۔۔بندہ آیا تھا پیغام لے کر عصر کے بعد جنازہ ہے۔۔۔۔زریاب نے مختصر بتایا۔
      مین بھی چلون ساتھ۔۔۔۔۔؟؟
      آپ باباجان لوگوں کیساتھ آ جائیے گا۔۔۔
      ہوں۔۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔مہرو نے سر ہلا دیا
      اتنے میں پلوشہ چادر لپیٹے وہاں آئی۔۔۔
      اوکے بھابھی۔۔۔۔آپ بی بی جان کو بتا دیجئے گا۔۔۔۔وہ مہرو سے کہتا پلوہی کو چلنے کا اشارہ کرتا آگے بڑھ گیا۔۔۔۔
      پلوشہ نے افسردہ نظروں سے مہرو کو دیکھا اور کچھ بھی کہے بغیر باہر کی جانب چل پڑی۔۔۔۔۔۔۔
      _____________________
      پلوشہ کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا وہ اب کیا کرے۔۔۔؟؟اور کیا کہے زریاب خان سے۔۔۔۔۔۔؟؟
      آخر خان ایسا کیوں کر رہا تھا۔۔۔۔جب فیصلہ میں نے سنانا تھا تو پھر مجھے میرے گھر لے جانے کا مقصد۔۔۔۔؟؟وہ بھی آج ہی۔۔۔۔۔آخر معاملہ کیا ہے۔۔۔۔؟؟وہ دل میں ہمکلام تھی کیونکہ زریاب کے سرخ چہرے کو دیکھ کر اس میں کچھ بھی پوچھنے کی ہمت نہ تھی۔۔۔
      پندرہ منٹ بعد وہ لوگ پلوہی کے گاؤں جانے والی سڑک پر چڑھ چکے تھے
      پلوشہ دھک دھک کرتے دل کو سنبھالتی خاموشی سے باہر دیکھنے لگی۔۔۔
      مگر یہ کیا۔۔۔۔؟؟؟جیسے ہی پراڈو۔۔ ان کی حویلی کی طرف مڑی تھی گاڑیوں کی ایک لمبی قطار تھی جو حویلی تک جا رہی تھی۔۔۔
      کافی رش تھا وہاں مردوں کا۔۔۔۔کوئی آ رہا تھا تو کوئی جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔پلوہی کو کسی انہونی کا احساس ہوا وہ فورا پلٹتی زریاب کا اسٹئیرنگ پر موجود ہاتھ پکڑ چکی تھی
      خا۔۔۔۔۔خان کک۔۔۔۔کیا ہوا یہاں؟۔۔۔۔آپ مجھے کیوں لائے ہیں یہاں۔؟۔۔۔۔وہ کپکپاتی آواز میں پوچھ رہی تھی۔
      زریاب جو گاڑی پارک کرنے کی مناسب جگہ دیکھ رہا تھا۔۔ پلوہی کے ہاتھ پکڑنے پر متوجہ ہوا
      کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔تم پریشان مت ہو۔۔۔زریاب نے اسکے اڑئے حواس دیکھ کرابھی کچھ بتانا مناسب نہ سمجھا۔
      خان پلیز۔۔۔بتائیں کیا ہوا ہے۔۔۔۔؟؟وہ خوفزدہ سی بولی
      گاڑی آگے نہیں جائے گی اس لیے تم یہیں سے حویلی تک چلی جاؤ۔۔۔میں گاڑی پارک کر دوں۔۔۔۔۔زریاب اسکی بات نظرانداز کرتے ہوئے بولا
      نن۔۔۔۔نہیں مجھے نہیں جانا آپ۔۔۔۔۔آپ مجھے واپس لے جائیں میں حویلی نہیں جاؤں گی۔
      کم آن پلوہی۔۔۔۔چلو میں بھی چلتا ہوں تمہارے ساتھ۔۔۔زریاب اپنی سائیڈ کا دروازہ کھول کر باہر نکلا اور
      پلوہی کیطرف آ کر اس کا ۔۔ڈور۔۔ اوپن کیا۔۔۔۔آؤ۔۔۔
      میں۔۔۔نہیں۔۔۔۔اسکے مزید بولنے سے پہلے ہی زریاب اسے باہر نکال چکا تھا۔
      وہ پلوشہ کا ہاتھ تھام کر ساتھ چلتا ہوا حویلی کے گیٹ تک گیا
      اب جاؤ تم میں بھی یہیں ہوں۔۔۔۔۔پلوشہ نے دونوں ہاتھوں سے زریاب کے بازو کو زور سے پکڑا۔۔۔۔۔جیسے کوئی ننھا بچہ کسی اپنے کے دور جانے سے خوفزدہ ہوتا ہے۔۔
      زریاب نے اسے دیکھ کر اندر جانے کا اشارہ کیا۔۔۔۔مگر پلوہی اسکا بازو تھامے وہیں کھڑی رہی۔۔۔۔
      زریاب اپنے بازو سے اسکے ہاتھ ہٹا کر اندر کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔چاروناچار پلوشہ بھی خوفزدہ سی پاؤں گھسیٹتی اندر داخل ہوئی اور وہاں عورتوں کا جھمگٹا دیکھ کر وہ جان چکی تھی کہ اس کا کوئی پیارا اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جا چکا ہے۔۔۔۔
      مگر کون۔۔۔۔؟؟فلحال وہ یہ جان نہیں پائی تھی۔
      _________۰_________
      پلوشہ جب دس دن پہلے اپنی حویلی آئی تھی تو تب اسے پھوپھی بننے کی خوشخبری ملی تھی۔۔۔
      شمس اور پروشہ کی شادی کے چھ سال بعد ان کو اولاد کی نوید ملی تھی۔۔۔۔حویلی میں خوب صدقے و خیرات کیے گئے تھے۔۔۔۔۔جہاں ہر کوئی اس خبر پر خوش تھا وہیں سب پلوہی کی غیرموجودگی پر افسردہ بھی تھے۔۔۔۔۔۔
      خدا خدا کر کے یہ وقت گزرا تھا اور آج وہ خوشی جسکا پچھلے کئی ماہ سے بے چینی سے انتظار کیا گیا تھا اپنے ساتھ غم بھی لے آئی تھی۔
      پروشہ ڈلیوری کے دوران ہی بیٹی کو جنم دے کر اس دنیا سے رخصت ہو گئی تھی۔۔۔
      ہر آنکھ پرنم تھی ہر دل دکھی تھا پروشہ کی جواں موت پر۔۔۔۔۔۔۔
      پر قدرت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے بھلا۔۔۔۔؟؟
      _________________________
      چار دن ہو گئے تھے پروشہ کو اس دنیا سے گئے۔۔۔۔
      مہرو ، بی بی جان ، زریاب اور خاقان آفریدی اسکے جنازے کے بعد واپس آفریدی حویلی آ گئے تھے
      پلوہی کو وہین چھوڑ گئے تھے وہ۔۔۔بہت۔بیچین سی افسردہ تھی۔۔۔بہت بڑی قیامت ٹوٹی تھی انکی حویلی پر۔۔۔
      پلوشہ چار دن کی بھتیجی کو چپ کرواتی خود بھی رونے لگی تھی۔۔۔۔یہ کیا ہو گیا تھا ان کیساتھ۔۔۔۔۔وہ معصوم سی بچی ہمیشہ کے لیے ماں سے محروم گئی تھی یہیں سوچ پلوہی کا کلیجہ کاٹ رہی تھی۔۔۔وہ ابھی شمس لالہ کے کمرے سے ہو کر آئی تھی۔۔۔۔۔۔
      جو بھابھی کے جانے کے بعد سے بلکل خاموش ہو گئے تھے۔۔لالہ پر ۔وہی خاموشی چھائی تھی جس خاموشی سے آٹھ ، نو سال پہلے انہوں نے خود بہت مشکل سے باہر نکالا تھا پلوشہ کو۔۔۔۔
      پلوہی اب بہت ہی مشکل سے انہیں چند نوالے کھلا کر آئی تھی۔۔۔۔۔
      وہ بچی کو گود میں لیے بیٹھی رو رہی تھی جب رحیمہ کمرے میں آئی۔
      پلوہی بی بی اسے مجھے دیں آپ سے چپ نہیں ہو گی۔۔۔۔رحمیہ نے بچی کو اسکی گود سے لیا اور جھلاتے ہوئے لوری دینے لگی۔۔۔۔چند منٹ بعد ہی بچی سو گئی
      پلوشہ بی بی کیا اسے یہیں لیٹا دوں۔۔۔۔۔؟؟
      ہاں لیٹا دو۔۔۔۔۔پلوہی نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا اور اٹھ کر وضو کرنے چل دی
      _____________________. .
      پلوشہ کو دیکھے آج چار دن ہو گئے تھے اور یہی بات زریاب کو ڈسٹرب کر رہی تھی وہ اسے اس دن جس حالت میں چھوڑ کر آیا تھا اسے سوچ سوچ کر پچھلے چار دن سے وہ بے چین تھا۔۔۔۔
      مہرو اسے چائے دینے آئی تھی۔۔۔جب زریاب کو کسی غیر مرئی نکتہ کو گھورتے پایا۔
      ارےےے یہ کیا حالت بنا لی ہے زریاب۔۔۔۔خدانخواستہ پلوشہ وہاں ہمیشہ کے لیے تو نہیں گئی جو تم یون مجنوں بنے بیٹھے ہو۔۔۔۔
      بھابھی۔۔۔۔۔مجھے پلوہی کی طرف سے بہت پریشانی ہو رہی ہے۔۔۔
      کیسی پریشانی۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو پاس پڑے کاؤچ پر آ بیٹھی۔
      وہ درآصل اسکی حالت بلکل بھی ٹھیک نہیں تھی اس دن۔۔۔۔۔
      صدمہ بھی تو اتنا بڑا ملا تھا ناں۔۔۔۔مہرو افسردہ ہوئی۔
      ہوں۔۔۔۔۔مگر ہم میں سے کوئی بھی دوبارہ وہاں نہیں گیا۔
      تو روکا کس نے ہے دیور جی جب چاہیں چلے جائیں دیدار یار کی خاطر۔۔۔۔۔۔مہرو نے اس کی بیچینی پر چھیڑا۔
      بھابھی آپ بھی ناں۔۔۔زریاب جھینپ کر مسکرا دیا۔۔۔
      اچھا چلو جلدی سے یہ چائے ختم کرو اور جا کر پلوشہ سے مل آؤ تاکہ تمہاری شکل پر کچھ تو فریشنیس دیکھنے کو ملے۔۔۔مہرو اسکے بال بکھیرتی مسکراتی ہوئی کمرے سے نکل گئی۔
      زریاب نے جلدی سے چائے ختم کی اور چینج کرنے کے بعد پلوہی کے گاؤں روانہ ہو گیا اس سے ملنے کے لیے۔۔۔۔۔
      _______________. . ____
      زریاب مردانے میں دلاور خان کے پاس ہی بیٹھا تھا۔۔۔۔
      جب وہ آیا تھا تو شمس خان بھی وہیں موجود تھا۔۔۔۔۔۔اس دوران زریاب اور شمس کے درمیان کوئی بات نہ ہوئی۔۔۔نہ ہی شمس کچھ بولا اور نہ ہی زریاب نے اس سے افسوس کیا۔۔۔۔کچھ دیر بعد شمس خاموشی سے اٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔اسکے جانے کے بعد زریاب نے ہچکچاتے ہوئے دلاور خان کو پلوشہ سے ملنے کا کہا تھا۔۔۔
      ہاں ضرور ملو بیٹا۔۔۔۔میں ابھی سمندر خان سے کہتا ہوں تمہیں وہاں چھوڑ آئے۔۔۔۔دلاور خان اسکا کندھا تھپتھپا کر باہر نکل گئے۔
      چند منٹ بعد سمندر خان اس کے پاس آکر بولا چلین خان صاحب۔۔۔۔۔۔مین آپ کو اندر چھوڑ آتا ہون۔۔
      زریاب نے جیئسے ہی سمندر خان کی آواز سنی وہ بہت ہی گہری سوچ مین ڈوب گیا۔وہ سمندر خان سے کچھ پوچھنے ہی لگا تھا۔مگر فورا ہی زریاب کو یہ وقت اس سوال کے لئے مناسب نہین لگا۔
      اس لیے زریاب فورأ ہی چپ چاب سمندر خان کیساتھ حویلی کے رہائشی حصے کی طرف چلا آیا۔۔۔۔۔۔۔
      ___ ______________ ___
      پلوہی ظہر کی نماز پڑھ کر نیچے آ گئی تھی جہاں پر کافی عورتیں بیٹھیں یسین پڑھ رہیں تھیں۔۔۔۔پلوشہ بھی ان سب کے درمیان آ کر بیٹھی یسین پڑھنے لگی۔۔۔۔
      عصر کی اذان کے بعد وہ یسین رکھتی اٹھی اور نماز پڑھنے کے لیے کمرے کی طرف بڑھی۔۔۔۔وہ راہداری میں تھی جب اسکی نظر سامنے سے آتے زریاب آفریدی پر پڑی۔۔۔
      پلوہی جہاں تھی وہیں رک گئی۔۔۔۔زریاب بھی اسے دیکھ چکا تھا۔۔۔۔۔وہ آہستگی سے چلتا پاس آیا۔۔۔۔
      کیسی ہو۔۔۔۔۔؟؟مدھم سرگوشی ہوئی
      پلوشہ نے اسکی طرف دیکھا اور اسکی نظروں میں اپنے لیے فکر دیکھتی خود پر کنٹرول کھو کر اسکے سینے سے لگ گئی۔۔۔
      سب ختم ہو گیا خان۔۔۔۔۔میرے لالہ کا گھر اجڑ گیا۔۔۔۔وہ اکیلے رہ گئے خان۔۔۔۔۔۔ہمارے گھر کی خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئی۔۔۔۔وہ اسکا گریبان پکڑے بے تحاشہ روتی ہوئی بول رہی تھی
      کچھ دیر اسے روتے رہنے دینے کے بعد زریاب نے اسے کندھوں سے پکڑ کر سامنے کیا۔۔۔۔۔۔
      مت روؤ پلیززز۔۔۔۔تمہیں یاد ہے پلوشہ۔۔۔۔ایک بار میں نے تم سے کہا تھا کہ مجھے عورتوں کے رونے سے نفرت ہے۔۔۔۔تب میرا مطلب صرف تمہیں رونے سے منع کرنا تھا۔۔۔۔
      میں۔۔۔۔میں تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا تھا پلوہی مگر پھر بھی بہت سا رولایا ہے تمہیں۔۔۔۔۔
      مگر اب۔۔۔۔۔اب مزید نہیں۔۔۔۔۔۔میں ان آنکھوں میں مزید آنسو نہیں دیکھ سکتا پلوشہ۔۔۔۔۔زریاب نے اسکے گال پر پھسلتے آنسو کو انگلی کے پوروں پر لیا۔۔۔۔
      اب اور نہیں میری جاں۔۔۔۔۔زریاب نے اسکی سرخ سوجی آنکھوں کو لبوں سے چھو کر سرگوشی کی
      اسکی حرکت پر پلوہی ہچکچاتی خود میں سمٹ گئی
      میں تمہیں دیکھنے آیا تھا دیکھ لیا اب چلتا ہوں۔۔۔۔وہ پیچھے ہٹتا بولا
      کچھ دیر تو رک جائیں خان۔۔۔۔پلوہی بھاری آواز میں بولی رو رو کر اسکا گلا بیٹھ چکا تھا
      زریاب نے اسے ساتھ لگا کر سر پر بوسہ دیا۔۔۔میں پھر آؤں گا۔۔۔۔ہوں۔۔۔؟؟
      جی۔۔۔گھر میں سب کیسے ہیں۔۔۔۔؟؟
      ٹھیک ہیں مگر تمہارے بغیر اداس ہیں۔۔۔
      میں کچھ دن اور رکنا چاہتی ہوں۔۔۔۔پلوشہ نے سوالیہ نظروں سے زریاب کو دیکھا۔
      رہ لو۔۔۔۔جب تک چاہو مگر۔۔۔۔وہ رکا۔
      مگر کیا۔۔۔۔؟؟؟
      مگر یہ کہ تم رو کر ان نینوں پر مزید ستم نہیں کرو گی ہاں۔۔۔۔۔
      "ہائے رے تیرے جھیل سے نین !
      ان نینوں میں ڈوبنے کو دل کرتا ہے،"
      جی۔۔۔۔۔پلوہی نے آہستگی سے سر ہلایا۔
      اپنا خیال رکھنا میرے لیے۔۔۔۔۔زریاب نے محبت سے کہہ کر اسکا ہاتھ چوما اور خداحافظ کہتا پلٹ گیا۔
      پلوہی اسکے اوجھل ہونے تک اسکی پشت کو بغور دیکھتی رہی۔۔۔۔۔۔
      اس روز پلوہی نے زریاب کو یہی فیصلہ سنانا تھا کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلیے اس کے ساتھ اسکی محرم،،،اسکی بیوی بن کر رہنا چاہتی ہے مگر اس روز وقت نے مہلت ہی نہ دی تھی کہ پلوہی زریاب کو اپنا فیصلہ سنا پاتی۔۔۔۔۔۔
      مرد چاہے جو بھی کرے جو بھی کہے مگر ایک وفا شعار عورت ہمیشہ اپنے مرد کی محبت کی پجاری ہوتی ہے۔۔۔۔آپ اس پر جتنے بھی ظلم کرتے رہیں مگر محبت کی ایک نگاہ پڑتے ہی وہ سارے ظلم، سارے زخم بھلا کر پلٹ آتی ہے۔۔۔یہ ہے عورت کی عظمت۔۔۔
      اور پلوشہ ایک عظیم عورت تھی۔۔۔۔۔۔
      _______________________
      اماں میں دعا(شمس کی بیٹی)کو اپنے ساتھ ہی لے جاتی ہوں۔۔۔پلوشہ نے کچھ فاصلے پر کاٹ میں لیٹی اس معصوم پری کو دیکھ کر کہا۔
      (پروشہ کی موت کے دس دن بعد پلوشہ کو ہی بچی کا نام رکھنے کا خیال آیا تھا۔۔۔۔اس نے شمس کو کہا مگر شمس پلوہی پر چھوڑتا سائیڈ پر ہو گیا۔۔تب پلوشہ نے بچی کا نام دعا شمس خان رکھا تھا )
      کیسی باتیں کر رہی ہو پلوہی۔بیٹا۔۔۔دعا کو تم کیوں لے جاؤ گی بھلا۔۔۔؟؟خدیجہ حیران ہوئیں
      مما ۔۔یہاں کون کرے گا اسکی دیکھ بھال۔۔۔؟؟
      تم اپنے گھر اپنے سسرال میں خوش رہو ہمارے لیے یہی بہت ہے۔۔۔۔دعا تمہاری ذمہ داری نہیں ہے میری جان۔۔۔میں ابھی زندہ ہوں اس کی دیکھ بھال کے لیے۔۔۔۔
      مگر اماں یہ اتنی چھوٹی سی ہے۔۔۔۔۔پلوہی فکرمند ہوئی
      تم بھی اتنی سی تھی جب تمہیں بھی میں نے ہی سنبھالا تھا۔۔۔۔وہ مسکرائیں۔
      ہوں۔۔۔۔پلوہی بھی انکی بات پر مسکرا دی۔
      اماں۔۔۔۔مجھ سے لالہ کی اداسی دیکھی نہیں جا رہی اب۔۔۔۔اب آگے کیا ہو گا۔۔۔۔؟؟چند منٹ بعد وہ پھر سے افسردہ ہوتی بولی
      تم پریشان مت ہو۔۔۔جو زخم دیتا ہے وہ مرہم بھی رکھ دیتا ہے۔۔۔۔وقت کیساتھ وہ بھی سنبھل جائے گا۔۔۔۔تم بس اپنے گھر کی فکر کرو۔۔۔۔میں تمہارے بابا سے کہتی ہوں وہ خود جا کر چھوڑ آئیں تمہیں۔۔۔۔
      نہیں اماں۔۔۔۔میری زریاب سے بات ہو گئی ہے وہ کل صبح آئیں گے مجھے لینے۔۔۔۔
      چلو اچھا ہے۔۔۔۔خدا میری بچی کو سدا سہاگن رکھے آباد رکھے۔۔۔۔انہوں نے پلوہی کا ماتھا چوم کر ساتھ لگایا
      آمین۔۔۔۔۔پلوہی نے کہہ کر سر اماں کی گود میں رکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔
      اگلی صبح وہ سب کی دعاؤں تلے پورے ایک ماہ بعد زریاب کیساتھ واپس آ گئی تھی
      اس ایک ماہ میں مہرو اور زریاب ایک ،دو بار اس سے آ کر مل گئے تھے۔۔
      پلوشہ کچھ دیر بی بی جان اور مہرو کے پاس بیٹھ کر کمرے میں چلی آئی۔۔
      زریاب کمرے میں موجود نہ تھا۔۔۔۔اس نے چادر اتاری اور بیڈ پر بیٹھ کر سینڈل اتارنے لگی جب زریاب سیل کان سے لگائے بات کرتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔۔۔۔
      پلوہی نے اسے دیکھ کر پاس پڑی چادر پھر سے اوڑھ لی۔۔۔
      زریاب نے پلوہی کو دیکھ کر کال بند کی اور اسکے سامنے آ کھڑا ہوا۔
      ویلکم بیک ٹو مائی لائف۔۔۔۔۔۔وہ مسکرایا
      پلوشہ نے اسکی شوخ نظروں سے بچنے کو سر جھکا کر سائیڈ سے نکلنا چاہا مگر زریاب نے اسکا ارادہ بھانپتے ہوئے دونوں طرف بازو پھیلا کر راستہ بند کیا۔
      پلیز خان۔۔۔۔۔مجھے چینج کرنے دیں نماز کا وقت نکلا جا رہا ہے۔۔۔۔۔پلوہی نے ٹھوس جواز پیش کیا
      اوکے پڑھ لینا نماز۔۔۔۔مل تو لو پہلے مجھے۔۔۔میں تو ترس گیا تھا تم سے ملنے کو۔۔۔زریاب نے اسکے سرخ پڑتے گالوں کو دیکھ کر قریب کیا۔۔۔۔
      پلیز خان تنگ تو مت کریں اب پلیزز۔۔۔۔۔وہ منمنائی
      ارے تنگ میں نہیں تم کر رہی ہو مجھے۔۔۔۔زریاب نے محظوظ ہوتے ہوئے اسے سینے سے لگا کر کان کے پاس سرگوشی کی۔۔
      آئی لو یو میری جان۔۔۔۔۔۔۔
      خان میری نماز۔۔۔۔۔پلوہی زریاب کی گرفت میں کسمسائی۔
      اوہ یس۔۔۔۔۔نماز زیادہ ضروری ہے۔۔۔۔وہ ہنستا ہوا فورا سے پیچھے ہٹا۔
      یار اب مسکرا تو دو یوں لگ رہا ہے جیسے میں گن پوائنٹ پر رومینس کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔۔۔
      پلوہی اسکی بات پر بے اختیار مسکرا دی
      ڈیٹس گڈ۔۔۔۔۔اب جاؤ اس پہلے کہ میرا دل پھر سے بے ایمانی پر اکسائے۔۔۔۔زریاب نے آنکھ دبائی۔
      پلوشہ نے اسکی بات سن کر فورا ہی بھاگنے کے انداز میں ڈریسنگ روم میں جا کر دروازہ بند کر لیا۔
      زریاب کا بلندوبالا قہقہہ اسے بند دروازے سے بھی باخوبی سنائی دیا۔
      جاری ہے۔
      Vist My Thread View My Posts
      you will never a disappointed

      Comment


      • #23
        بہت ہی کمال اور لاجواب کہانی ہے کیا کہانی کا پلاٹ اور کیا ہی اس میں جاندار الفاظ کا چناؤ آپ کو ایک بہترین لکھاری ثابت کرتا ہے خوش رہیں آباد رہیں

        Comment


        • #24
          قفس کی چڑیا۔۔
          خان۔۔۔۔۔۔۔پلوشہ نے اسکے بازو پر سر رکھ کر پکارا .۔
          ہوں۔۔۔۔زریاب نے اسکی طرف کروٹ لی۔
          وہ آپ نے کبڈ کے تھرڈ۔۔ ڈراڑ میں میرے لیے کیا خرید کر رکھا تھا جسے پہننے کا کہہ رہے تھے اس روز۔۔مجھے۔۔
          کیاتم نے دیکھا نہیں۔۔اسے۔۔؟؟زریاب حیران ہوا۔
          نہیں جس روز دیکھنا تھا اس روز ایمرجنسی مین مجھے گھر جانا پڑ گیا۔۔۔۔۔وہ اس دن کو یاد کر کےافسردہ ہوئی۔
          تو اب دیکھ لو۔بلکہ چلو پہن کر بھی دیکھا دو مجھے۔۔۔۔۔۔
          اب۔۔۔۔۔؟؟
          ہاں نا ابھی۔۔۔۔
          مگر ہے کیا اس مین۔۔۔۔؟؟
          خود دیکھ لو جا کر۔۔۔۔زریاب نے اسے اٹھایا۔
          پلوشہ نے جا کر کبڈ کھولی اور وہاں پر موجود اتنے بڑے ڈبے میں موجود میرون اورگولڈن برائیڈل ڈریس دیکھ کر فورا پلٹ کر واپس چلی آئی۔
          خان جی وہاں پر تو برائیڈل ڈریس پڑا ہے۔۔۔۔؟؟وہ حیرانگی سے بولی۔
          ہاں تو۔۔۔۔زریاب نے مسکراتے ہوئے سیگرٹ سلگائی۔
          وہ پہنوں۔۔۔۔؟؟؟
          ہاں جلدی سے پہن کر آؤ۔۔۔۔
          میں نہیں پہنوں گی۔۔اسے۔۔۔پلوہی بلش کرتی شرمائی۔
          زریاب خان اسے شرماتے دیکھ کر پاس کھینچا چلا آیا۔
          کم آن یار۔۔۔جلدی سے پہن کر آؤ میں تمہارا ویٹ کر رہا ہوں۔اب جاؤ بھی ہری اپ۔۔۔۔۔۔زریاب اسے پکڑ کر ڈریسنگ روم لایا اور اسے اندر چھوڑ کر خود باہر نکل گیا۔
          پلوشہ پھر چاروناچار وہ بھاری بھر کم ڈریس کو پہن کر کچھ۔دیر کےبعد جھجھکتی شرماتی باہر چلی ہی آئی۔
          زریاب خان نے دروازہ کھلنے پر پلٹ کر دیکھا پلوشہ کو دیکھا تو پھر دیکھتا ہی رہ گیا۔۔۔
          وہ بنا کسی بناؤ سنگھار کے اتنی حسین لگ رہی تھی اگر ذرا سج سنور جاتی تو پھر کیا ہوتا۔۔۔۔۔؟؟
          بہت بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔۔جاناں۔۔اس نے پلوشہ کے پاس آ کر سرگوشی کی۔
          جس سےپلوہی شرماتی ہوئی مزید سمٹ گئی۔
          زریاب نے اسے کندھوں سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا۔
          یو۔۔آر لوکنگ ویری نائیس۔۔۔۔۔آؤ۔۔۔۔نا میرے ساتھ وہ اسکا ہاتھ پکڑتا ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے لایا۔
          پلوشہ نے آئینے میں نظر آتے اپنے دلفریب عکس کو دیکھ کر نظریں جھکا دیں۔
          زریاب اسے شرماتے دیکھ کر مسکرایا۔
          تم ذرا ادھر ہی رکو میں آتا ہوں ابھی۔۔۔۔وہ اسے وہیں چھوڑ کر خود تیزی کے ساتھ ڈریسنگ روم مین چلا گیا۔
          چند منٹ بعد وہ ایک مخملی ڈبہ لیے واپس آیا۔۔۔۔زریاب نے ڈبہ کھول کر نیکلس باہر نکالا اور پلوہی کے پیچھے کھڑے ہو کربہت محبت وپیاراور احتیاط سے نیکلس اسکے گلے میں پہنا دیا۔
          پلوہی جاناں یہ تمہارے لیے میں نے تب خریدا تھا جب تم مجھے پہلی بار جھیل پر ملی تھی ۔
          تم جانتی ہو پلوشہ تم ،، تمہاری باتیں ،، تمہاری آنکھیں ان سب نے مل کر مجھے پہلی ملاقات میں لوٹ لیا تھا تب۔۔۔۔وہ ہلکا سا مسکرایا۔
          مجھے سمجھ مین نہیں آ رہا۔کہ مین کونسے الفاظ میں اب تمہاری تعریف کروں۔۔۔
          زریاب اسے ساتھ لیے کمرے کے بیچوں بیچ آیا۔۔۔پلوہی جانو تم مجھے دل سے معاف کر چکی ہو ناں۔۔۔۔؟؟؟
          جی۔۔۔۔۔پلوشہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
          پلوشہ کو ایک کتاب میں پڑھی ہوئی یہ بات یاد تھی کہ آپ "زندگی میں کبھی اس انسان کو مت کھونا جو غصہ کر کے بھی پھر خود تمہارے پاس آ جائے"اس لیےوہ سب کچھ بھلا کر زریاب کو دل سے معاف کر چکی تھی۔
          تھینکس آ لوٹ فار دس۔۔۔تم جانتی ہو پلوہی تم بہت عظیم ہو۔۔۔تم نے ناحق اتنے مظالم مجھ سے سہے۔۔۔۔میں۔۔۔۔میں بہت شرمندہ ہوں مگر اب وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں بےپناہ۔۔ پیار دوں گا۔۔۔اپنی ساری زیادتیوں کا ازالہ کر دوں گا٬٬
          پلوشہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔۔
          میں نے تمہیں بہت رلایا ہے پلوہی۔۔۔مگر اب نہیں۔۔۔۔اب صرف محبتیں،، پیار چاہت اور مسکراہٹیں ہوں گی۔۔۔بس!وہ مسکرایا
          ساتھ دو گی ناں میرا۔۔۔۔؟؟پریقین لہجے میںاس سے سوال ہوا۔
          جی۔۔۔۔۔پلوہی نے اثبات میں سر ہلا کر اس کو ساتھ دینے کا یقین دلایا۔
          تو پھر ایک بات مانو گی میری۔۔۔۔؟؟پیار سے پوچھا گیا۔
          جی۔۔۔۔پلوہی نے پھر سے سر ہلایا۔
          تو پھر کہو۔۔۔۔۔
          کیا۔۔۔؟؟؟
          آئی لو یو۔۔۔۔۔ زریاب مسکراہٹ دبا کر بولا
          نہین۔۔۔۔۔
          بات تو ماننا ہو گی اب تم حامی بھر چکی ہو۔۔۔زریاب نے اسے نفی میں سر ہلاتے دیکھ کر قریب کیا ۔
          چلو کہو جلدی سے یار ٹائم ویسٹ ہو رہا۔۔۔۔وہ کلاک کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔
          میں نہیں کہوں گی۔۔۔۔پلوشہ ہچکچاتی پیچھے ہوئی۔۔
          کیوں نہیں کہو گی جلدی کہو ورنہ۔۔۔
          اچھااااکہتی ہوں نا۔۔۔۔زریاب کے تیوروں پر وہ مصنوعی ڈر کر بولی۔مگر۔۔۔
          پہلے ہاتھ ہٹائیں۔۔۔زریاب نے اسے کندھوں سے تھام رکھا تھا
          تم کہوگی تو پھرہی ہاتھ ہٹاؤں گا۔۔۔
          زه ستا سره مینه لرم (آئی لو یو)۔۔۔۔پلوشہ جلدی سے بولی۔
          زریاب نے اسکے پشتو میں کہنے پر ہنستے ہوئے اسے ساتھ لگا لیا ۔
          اب ہم اپنی اس گولڈن ویڈنگ نائٹ کو آج دونون مل کر ایک ساتھ سلبریٹ کرینگے۔
          زریاب نے اسکے کانوں پر ہونٹ رکھ کر سر گوشی میں کہا۔
          اسکی بات پر پلوہی نے بلش کرتے ہوئے مطمعن ہو کر مکمل محبت وچاہت سے رضامند ہو کر زریاب کے کندھے سے اپنا سر ٹکا دیا۔
          زریاب نے پلوشہ کی رضامندی پر پرسکون ہوتے ہوئے اس کے گرد اپنی بانہوں کا مضبوط حصار باندھ دیا۔
          بے شک ایک لمبے اور تکلیف دہ انتظار کے بعد پلوہی کو اسکے صبر کا پھل مل ہی گیا تھا
          _______ __________
          کہاں تھے آپ۔۔۔۔؟؟پوری دس کالز کی میں نے سیل کدھر تھا آپکا۔۔۔۔۔؟؟؟پلوہی نے زریاب کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر چھوٹتے ہی پوچھا۔
          ارے یار نہ کوئی سلام نہ دعا سیدھا ہی کلاس لینی شروع کر دی۔۔۔۔
          اسلام علیکم۔۔۔پلوشہ نے غلطی مان کر جھٹ سلام کیا۔
          ہوں۔۔۔۔۔۔زریاب نے سر ہلا کر جواب دیا ۔۔
          ہاں اب بتاؤ کیوں کیں مجھے دس کالز۔۔۔۔؟؟زریاب صوفے پر بیٹھ کر شوز اتارنے لگا۔
          آپ کو یاد نہیں کیا۔۔۔۔۔؟؟وہ حیران ہوئی
          ارے بھئی یاد ہوتا تو پھر تم سے پوچھتا کیوں۔۔۔۔؟؟
          مطلب آپکو واقعی یاد نہیں کہ آج ہم نے۔۔۔۔
          آج ہم کہیں نہیں جا رہے۔۔۔۔زریاب اسکی بات کو فورا ہی اچکتا ہوا ڈریسنگ روم میں جا گھسا۔
          مطلب یاد ہے آپ کو پھر بھی اتنی دیر کر دی۔۔۔اور ہمیں جانا ہے آج اور ابھی میں چائے لاتی ہوں تب تک آپ چینج کر لیں۔۔۔۔وہ بات کرتی زریاب کے پیچھے ہی ڈریسنگ روم میں آئی
          مجھے تمہارا جوشاندہ نہیں پینا۔۔۔گل سے کہہ دو۔۔ وہ بنا دے گی چائے۔۔۔
          زریاب اب بھی پلوشہ کی بنی چائے کو جوشاندہ ہی کہتا تھا
          اونہہ۔۔۔۔مت پئیں۔۔۔وہ سر جھٹکتی انٹرکام کی طرف بڑھی
          مگر گھر آج ہی جانا ہے مجھے۔ کہہ دیا میں نے بس۔۔س۔۔س۔۔۔!! وہ وہیں کھڑی کھڑی چیخ کر بولی تاکہ آواز زریاب تک پہنچ جائے۔
          ٹھیک ہے چلتے ہیں پر صرف دو گھنٹے کے لیے۔۔۔۔۔وہ اسکی چیخ نما آواز سن کر باہر آیا۔
          یہ کیا بات ہوئی۔۔۔۔؟؟میں رات آپ کو بتا چکی تھی کہ اس بار میں دو دن رہ کر آؤں گی ادھر گھر۔۔۔۔
          رات گئی بات گئی۔۔۔۔۔۔۔زریاب کندھے اچکا کر کہتا پھر واپس مڑا اور کھٹاک سے واش روم کا دروازہ بند کر گیا۔۔۔
          اونہہ۔۔رات گئی۔۔بات گئی میں بھی دیکھتی ہوں کیسے جاتی ہے رات کی بات۔۔۔۔وہ بڑبڑاتی ہوئی خود ہی چائے لینے چلی گئی۔
          زریاب شاور لے کر نکلا تو اس کیلئے پلوشہ چائے لا چکی تھی۔۔۔۔
          جلدی کریں اب۔۔۔۔۔وہ زچ ہو کر بولی زریاب جان بوجھ کر ادھر أدھر چیزیں الٹتا ٹائم ویسٹ کر رہا تھا۔
          کہا تو ہے کہ کہیں نہیں جا رہے ہم۔۔۔۔۔۔وہ آرام سے کہتا چائے کا کپ تھام کر سیدھا کاؤچ پر جا ڈھیر ہوا۔
          آپ کو مسئلہ کیا ہے آخر مجھے میرے مام ڈیڈ کے گھر لے جانے سے۔۔۔۔۔
          مسئلہ لے جانے سے نہیں سویٹ ہارٹ وہاں چھوڑ کر آنے سے ہے مجھے۔۔۔۔
          ہاں تو صرف دو دن ہی تو ہیں۔۔۔۔
          تمہارے لیے یہ صرف دو دن ہیں پر یہ دودن مجھ پربہت ہمیشہ بھاری ہوتے ہیں۔۔۔۔اسنے کپ منہ کو لگایا۔
          ویسے ایک بات ہے چائے بنانی آ گئی ہے تمہیں۔۔۔زریاب جانتا تھا چائے اس نے نہیں بنائی اسی لیے جان بوجھ کر پلوہی کو چھیڑ کر اُسے آنکھ ماری۔
          میں نے نہیں بنائی چائے۔۔۔۔اس لیے فضول باتوں میں میرا وقت ضائع مت کریں مجھے آج ہی جانا ہے بس۔۔۔چاہے دو گھنٹے کے لیے ہی سہی۔۔۔۔وہ خفا خفا سی دو گھنٹے کے لیے جانے پر مان گئی ۔
          ____. . . ____. . ____.
          تو چلو پھر دیر کس بات کی۔۔۔۔۔زریاب اسکی خفگی پر مسکراتا ہوا کیز اٹھا کر باہر نکل گیا
          _______________________
          اماں یہ تو بلکل میرے جیسی ہوتی جا رہی ہے۔۔۔۔ہیر نے دعا کو گود میں لے کر جھنجھوڑا
          خدیجہ مسکرا دیں۔۔۔۔تمہارے بابا بھی یہی کہہ رہے تھے کہ پلوشہ کی بچپن کی کاپی ہے بلکل۔۔۔۔اچھا بیٹھو تم لوگ میں ذرا کھانے کا بتا آؤں۔۔۔وہ اٹھنے لگیں
          ارے نہیں آنٹی۔۔۔۔ہم نکل رہے ہیں بس۔۔۔زریاب گھڑی دیکھ کر بولا
          جی اماں زریاب کو کام ہے حویلی میں اسلیے آج صرف میں ہی رکوں گی اور میرے لیے خاص اہتمام کی کیا ضرورت بھلا۔۔۔۔وہ مسکرا کر کہتی دعا کے گال پر جھک گئی
          زریاب نے دانت پیستے ہوئے اسے گھوری دی مگر پلوشہ متوجہ ہوتی تو دیکھتی۔۔
          زریاب بیٹا تم بھی کبھی رک جایا کرو گھڑی دو گھڑی کے لیے ہی آتے ہو بس۔۔۔۔
          جی ضرور رکوں گا آنٹی۔۔۔۔پر ابھی کے لیے تو اجازت دیں۔۔۔۔وہ سیل اٹھا کر خدا حافظ کہتا بنا پلوہی کی طرف دیکھے باہر نکل گیا
          وہ اگر تمہیں چھوڑنا نہیں چاہ رہا تھا تو چلی جاتی ساتھ خفا ہو کر گیا ہے شاید۔۔۔۔خدیجہ بیگم نے زریاب کے سرد تاثرات نوٹ کر لیے تھے۔
          ارے رہنے دیں اماں۔۔۔۔۔دو ماہ بعد دو دن رک جاؤں گی تو کچھ نہیں ہونے والا اور خفگی کی پرواہ کسے ہے۔۔۔وہ لاپرواہی سے بولی۔
          کیوں پرواہ نہیں اسکی خفگی کی۔وہ شوہر ہے تمہارا۔۔۔۔۔
          شوہر ہے ماں تو نہیں جو خفگی کی پرواہ ہو۔۔۔۔
          پلوہی۔۔یی۔۔ی۔۔ خدیجہ کی گھوری پر پلوشہ کھکھلا اٹھی
          وہیں واپس داخل ہوتے زریاب نے انتہائی ناگواری سے پلوہی کی کھلکھلاہٹ دیکھی۔۔۔۔
          وہ میں کیز بھول گیا تھا زریاب نے واپس آنے کی وجہ بتائی اور جھک کر ٹیبل سے کیز اٹھا کر تیزی سے نکل گیا۔
          اسے پکڑیں اماں میں ابھی آئی۔۔۔۔پلوہی دعا کو انہین تھما کر جلدی سے باہر نکلی۔
          زریاب۔۔۔خان ۔۔۔خان جی۔۔وہ پکارتی پیچھے دوڑتی آئی۔
          زریاب جو گاڑی کا لاک کھول چکا تھا پلوہی کی آواز پر فورا پلٹا۔
          خان مجھے بھی آپ کے ساتھ ہی جانا ہے۔آپ ٹہرین مین بھی آتی ہون۔
          کیون جانا ہے اب تمہین۔۔۔۔؟؟
          آپ مجھ سے خفا جو ہو کر جا رہے ہیں۔۔۔۔؟؟
          تمہیں کونسا پرواہ ہے میری خفگی کی۔۔۔وہ خفا خفا انداز مین بولا ۔
          خان اگر آپ کی پرواہ نہ ہوتی تو کیا ایئسے پیچھے بھاگی بھاگی چلی آتی میں۔۔۔۔ پلوشہ بھی منہ پھلا کر بولی۔
          اچھا چلو رک جاؤ تم۔۔مگر یاد رکھنا صرف دو دن بس۔؟؟؟
          یہی بات مسکرا کر کہیں ذرا۔۔۔۔
          بہت چالاک ہوتی جا رہی ہو۔۔۔۔زریاب نے اسکی ناک پکڑ کر کھینچی
          آپکی صحبت ہی کا اثر ہے جناب۔۔۔وہ کھلکھلائی۔
          ابھی اور بہت سے اثرات دکھانے ہیں تمہیں۔۔۔زریاب آنکھ مارتا مسکرایا۔
          اچھا بس۔۔۔اب جائیں اور جا کر مجھے فون کر دیجئیے گا ورنہ فکر رہے گی مجھے۔۔۔۔
          فکر ہوتی تو یوں اکیلے نہ جانے دیتی مجھے بلکہ خود بھی ساتھ چلتی۔۔۔
          صرف دو دن ہی تو ہیں زریاب اب اتنا سا تو کر سکتے ہیں ناں میرے لیے۔۔۔۔
          ضرور کر سکتے ہیں بلکہ اس سے زیادہ بھی کر سکتے ہیں۔۔۔۔ وہ فدویانہ گویا ہوا۔
          اچھا چلیں اب جائیں خیریت سے گاڑی دھیان سے چلائیے گا۔۔۔۔پلوہی نے فکرمندی سے نصیحت کی۔
          جو حکم۔۔۔۔زریاب جھک کر کہتا گاڑی میں آ بیٹھا۔۔۔
          پلوہی نے ہاتھ ہلا کر خدا حافظ کیا ۔۔
          زریاب گاڑی ریورس کر کے ہاتھ ہلاتا گیٹ کیطرف لے گیا۔۔۔
          زریاب کے اوجھل ہونے پر پلوشہ پلٹی ہی تھی جب اسے شمس لالہ مردانے سے آتا ہوا دیکھائی دیا۔
          ارےےےزریاب کیوں چلا گیا کھانے کا وقت ہونے والا ہے روک لیتی اسے۔۔۔۔۔۔شمس نے پاس آ کر کہا
          انہیں کام تھا اس لیے نہیں روکا۔۔۔۔آپ آئیں۔۔۔۔میرے ساتھ بھی تو بیٹھ جائیں لالہ میں آپ کے لیے ہی رکی ہوں اس بار۔۔۔۔۔وہ لاڈ سے بولی
          شمس پلوشہ اور زریاب کو ایکساتھ ہنستے مسکراتے دیکھ کر خوش تھا کہ زریاب کا رویہ اسکے اپنے ساتھ جیسا بھی سہی پر پلوہی کے ساتھ وہ سیٹ ہے اسکی بہن خوش تھی شمس کو بھلا اور کیا چاہیے تھا۔۔اس نے مطمعن ہو کر پلوہی کے کندھے پر بازو پھیلائے اور اسے لے کر اندر بڑھ گیا
          ______________________
          پلوہی خدا کے لیے تم اپنے میکے رہنے مت جایا کرو۔۔۔۔مہرو نے میگزین پلٹتے ہوئے کہا
          پلوشہ آج ہی دو دن رہ کر واپس آئی تھی ۔
          وہ کیوں۔۔۔۔؟؟؟وہ حیران ہوئی
          تمہارے مجنوں کی اتنی سی شکل دیکھنے کو ملتی ہے ہمین قسم سے۔۔۔۔۔مہرو محظوظ ہوئی
          اب دو دن زیادہ تو نہیں ہوتے نا بھابھی۔۔۔۔
          تم ساتھ جا کر ساتھ ہی واپس آ جایا کرو کون سا زیادہ دور جانا ہے۔۔۔۔۔مشورہ آیا
          اچھا آئندہ سوچؤن گئی۔۔بھابھی۔۔
          کون کیا سوچے گا بھئی۔۔۔؟؟زریاب کی فریش سی آواز آئی
          دیکھو ذرا آج کیسا چہک رہا ہے دو دن تو آواز بھی نہیں آئی اسکی۔۔۔۔
          چلیں آج تو آ گئی ناں۔۔۔۔زریاب مہرو کی بات پر مسکرا دیا۔
          میں کمرے میں ہوں چائے بھیجوا دو۔۔۔وہ پلوہی سے کہتا سیڑھیاں پھلانگ گیا۔
          جاؤ بلوا آ چکا ہے تمہارا۔۔۔چائے تو صرف بہانا ہے تمہیں کمرے میں بلانے کا۔۔۔۔مہرو نے آنکھ مارتے ہوئے پلوشہ کو چھیڑا۔
          آپ کو بڑا تجربہ ہے ایسے بلاوں کا۔۔۔۔پلوہی کی بات پر مہرو کے مسکراتے لب سکڑ گئے۔
          سوری بھابھی میرا مطلب آپ کو ہرٹ کرنا نہیں تھا۔۔۔۔پلوشہ اپنی جلدبازی میں کہی گئی بات پر شرمندہ ہوئی۔۔
          میں جانتی ہوں تم جاؤ۔۔۔۔۔وہ مسکرا کر بولی
          ہوں۔۔۔۔۔۔پلوہی سر ہلاتی اپنی بات پر خود کو کوستی کمرے کی طرف چلی گئی۔
          مہرو نے افسردگی سے نظریں اپنے ہاتھوں کی لکیروں پر ٹکا دیں۔
          کتنی جلدی ساتھ چھوڑ گئے میرا آپ سہراب۔۔خان۔۔۔ایک آنسو چپکے سے اسکی ہتھیلی پر گرا۔۔۔
          "آنسو اٹھا ہی لیتے ہیں میرے دکھون غموں کا بوجھ،
          یہ وہ دوست ہیں ساقی جو احسان جتایا نہیں کرتے۔۔!! "
          مہرو نے جلدی سے آنکھوں کو رگڑ کر صاف کیا اور اٹھ کر حدید کے کمرے کی طرف چلی گئی
          _________________. . .
          زریاب۔۔۔خان۔۔۔زریاب اٹھ جائیں اب۔۔۔۔پلوشہ زور زور سے اسکا کندھا ہلاتے چلائی۔۔
          ارےے کیا مصیبت ہے یار۔۔۔۔وہ جھنجھلاتا اٹھ بیٹھا
          کتنی دفعہ کہا ہے تمہیں یوں اسطرح سوتے کو مت جگایا کرو مگر اتنی سی بات سمجھ میں نہیں آتی تمہارے۔۔۔۔۔۔وہ تیوری چڑھا کر چلایا
          پلوہی اسکے چلانے پر آنکھوں کو پانی سے بھرتی ہوئی واپس پلٹی۔
          اب جگا کر کہاں جا رہی ہو واپس آؤ۔۔زریاب اسکی بھیگتی آنکھیں دیکھ چکا تھا۔
          پلوشہ۔انہی قدمون سے واپس چلی آؤ ورنہ تم جانتی ہو نا مجھے۔۔۔۔۔
          ہاں جانتی ہوں آپ بہت برے ہیں۔۔۔۔
          کم آن ڈارلنگ یہاں آؤ۔۔۔۔وہ پچکارتا ہوا سیدھا ہوا۔
          خان خود کو سمجھتے کیا ہیں آپ۔۔۔۔جب اپنا جی چاہا تو جو مرضی کرتے پھریں اور اگر میں کچھ کہہ دوں تو۔۔۔۔پلوہی غصے سے پلٹتی اس تک آئی۔
          زریاب نے آگے کو جھک کر اسے پکڑ کر سامنے بیٹھایا۔
          یہ غصہ آپ پر بلکل سوٹ نہیں کرتا مسز۔۔۔۔
          ہاں ہر بات پر غصہ کرنے کو آپ جو پیدا ہوئے ہیں۔۔۔۔وہ نروٹھی سی بولی
          ایگزیٹلی۔۔۔۔۔زریاب نے مسکراتے ہوئے پلوہی کے سر سے اپنا سر ٹکرایا
          اچھا اب بتاؤ کیوں جگایا۔۔۔۔۔؟؟
          مجھے جھیل پر جانا ہے۔۔۔
          واٹ جھیل۔۔۔۔۔؟؟ ابھی کل ہی تو گئے تھے۔۔۔۔وہ حیران ہوا۔۔
          کل نہین۔۔۔تین دن پہلے گئے تھے ہم۔۔
          تو ہر تین دن بعد وہاں جانا ضروری ہے کیا۔۔۔۔؟؟؟
          بلکل ضروری ہے۔۔۔۔۔وہ اٹھلائی
          تم کچھ زیادہ ہی سر پر نہیں چڑھتی جا رہی۔۔۔۔بیوی ہو تو بیوی بن کر رہو بس۔ محبوبہ بننے کی کوشش مت کیا کرو۔۔۔۔سمجھی۔
          آپ بھی شوہر ہیں توپھر شوہر ہی بن کر رہیں ۔میرے محبوب بننے کی کوشش مت کیا کریں سمجھے ۔۔۔وہ بھی اسی کے انداز میں بولی۔
          میں تو شوہر کیساتھ محبوب بھی ہوں۔۔۔زریاب نے اپنے کالر پر موجود اسکے دونوں ہاتھ تھامے۔
          تو میں بھی بیوی کہ ساتھ محبوبہ بھی ہوں۔۔۔۔وہ دوبدو بولی۔
          اس کا مطلب پھر یہ ہوا کہ تم ٹلنے والی نہیں۔۔۔۔
          بلکل بھی نہیں۔۔بلکہ اب کبھی بھی نہین۔۔۔۔وہ مسکرائی
          تو پھر چلو ظالم محبوبہ۔۔۔۔زریاب نے اٹھتے ہوئے اسکے گال پر بوسہ لیا اور چنج کرنے چلا گیا۔۔۔۔اسے اپنی محبوبہ + بیوی کو جھیل پر جو لے کر جانا تھا۔۔۔
          مجھے تم سے محبت ہے ۔۔
          ہاں. ہاں جانم تم سے ہی محبت ہے۔
          محبت بھی ستارون سی۔
          گلون سی أبشارون سی۔۔
          صبح طلوع دم نکلتے پھولون سی۔
          سمندر کےکناروں سے گلے ملتی لہروں سی٬
          رم جھم مین ساون برستی بارش سی۔۔
          آسمان پہ بکھرےمختلف دھنک رنگوں سی،
          کسی دلہن کے جوڑے پر سجے جھلمل نگینوں سی،
          کسی نازک حنائی کلائی میں چھنکتی چوڑیوں سی،۔
          چاند کی چاندنی مین ناچتے مست چکور سی۔۔
          گگن پر لپکتے ہوئے مدہوش مور سی۔
          مجھے تم سے ہی اب محبت ہے۔۔
          ائے جاناں ہان صرف تم سی محبت ہے۔
          ______________________
          پلوہی۔۔۔یی۔۔۔یی۔۔۔۔۔۔۔زریاب تیز سی گھوری دے کر بولا
          آپ یہاں میرے ساتھ آئے ہیں نہ کہ اپنی دوسری بیوی کے ساتھ۔۔۔۔۔وہ نروٹھے پن سے بولی
          وہ دونوں جھیل پر آمنے سامنے موجود پتھروں پر بیٹھے تھے زریاب مسلسل سیل پر بزی تھا پلوہی نے اسے یون بزی دیکھ کر چڑتے ہوئے پانی مٹھی میں بھرکر زریاب خان پر دے پھینکا تھا۔
          زریاب اسکی بات پر مسکرا دیا۔۔۔۔پلوشہ اکثر اسکے سیل اور لیپ ٹاپ کو دوسری بیوی کہتی تھی
          تم بولو نا میں سن رہا ہوں۔۔۔۔
          آپ میری طرف دیکھیں گے تو بولوں گی میں۔۔۔
          ارےے میں کانوں سے سنتا ہوں مسز۔۔۔۔۔وہ مسکرایا
          پر مجھے کانوں کیساتھ آنکھیں بھی اپنی ہی طرف متوجہ چاہیں۔۔۔۔
          کچھ دیر ویٹ کرو یار ضروری میل کر رہا ہوں گھر میں تو تم ٹک کر کوئی کام کرنے نہیں دیتی مجھے۔۔۔۔
          میں اب بھی ٹک کر کام کرنے نہیں دوں گی ہم یہاں انجوائے کرنے آئے ہیں نہ کہ اس موئے موبائل سے میلز کرنے۔۔۔۔پلوہی نے چڑ کر کہتے دونوں ہاتھوں میں پانی بھر کر زریاب پر پھر سے اچھالا۔
          اس بار پانی کی مقدار کچھ زیادہ تھی جس سے زریاب کے کپڑوں سمیت سیل کی سکرین بھی اچھی خاصی بھیگ گئی۔
          وہ جھکا سر جھٹکے سے اٹھاتا کھڑا ہوا۔
          پلوہی جانتی تھی وہ اب کیا کرے گا اس لیے جلدی سے پتھر سے اچھل کر پیچھے کی جانب کو بھاگی۔۔۔۔
          رک جاؤ پلوشہ تم ورنہ اچھے سے جانتی ہو مجھے۔۔۔۔۔زریاب اسکے پیچھے آتے بلند آواز سے بولا
          ہاہاہاہا۔۔۔اچھے سے جانتی ہوں اسی لیے تو بھاگی ہوں ورنہ۔۔۔۔
          زریاب کو رفتار تیز کرتے دیکھ کر پلوہی اپنی بات چھوڑتی مزید تیزی سے بھاگی
          پلوشہ۔۔۔۔شہ۔۔۔۔زریاب بھی اسے پکڑنے کو بھاگا
          پلوہی آگے اور زریاب اسکے پیچھے بھاگ رہا تھا
          اردگرد لمبے لمبے درختوں کے جھرمٹ تھے جن کے پیچھے اونچے نیچے پہاڑ ان دونوں کو گھاس کے سبزہ زار پر ایک دوسرے کے آگے پیچھے بھاگتے دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔۔۔۔دور دور تک زریاب اور پلوہی کے علاوہ کوئی ذی روح موجود نہ تھا۔۔۔۔۔۔جھیل کے پانی کی آواز کیساتھ پلوہی کے ہنسنے اور زریاب کی اسے پکارنے کی آوازیں گونج رہیں تھیں
          پلوشہ اٹس ٹو مچ انف رک جاؤ اب۔۔۔۔۔۔زریاب نے اس سے کچھ فاصلے پر رک کر کہا
          اچھا۔۔۔اچھا۔۔۔رکتی ہوں۔۔۔۔۔وہ پھولا سانس درست کرتی درخت سے پشت لگا کر لمبے لمبے سانس لینے لگی ۔
          زریاب اسکے سامنے آیا۔۔۔۔۔اب بتاؤ کیا کر رہی تھی۔۔۔۔
          کک کچھ۔۔۔کچھ نہیں زریاب ذرا رکیں تو۔۔۔۔۔وہ سینے پر ہاتھ رکھے اپنی سانس کو ہموار کرنے کی کوشش کر رہی تھی
          زریاب نے آنکھوں کے درمیان بل ڈالتے ہوئے اسے گھورا۔
          میں تو انجوائے کرنے کا کہہ رہی تھی۔۔۔۔پلوہی اپنی سانس درست کرتی معصومیت سے بولی.
          اچھاا تو پھر کرتے ہیں نا اب ادھر ہی مل کر پھر دونون انجوائے۔۔۔۔۔وہ تیزی سے آگے بڑھا۔
          زریاب۔۔زریاب۔۔خان پلیز۔۔پلوہی اسکے بچھرتے تیور دیکھ کر وہ چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا گئی۔
          ہاتھ ہٹاؤ۔۔۔۔
          نن۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔پلیز سوری۔۔۔۔۔وہ منمنائی
          زریاب نے اسکی منمناہٹ پر مسکراتے ہوئے اسکے ہاتھ ہٹائے اور آگے کو جھک کر لب اسکے ماتھے پر رکھے پھر ناک پر اور پھر تھوڑی پر۔۔۔۔۔ پھر آنکھون پر۔پھر ۔۔۔۔۔۔؟؟؟
          یہ۔۔۔یہ کیا کر رہے ہیں۔۔۔۔وہ سرخ چہرے لیے خودکو چھڑاتے ہوئے چلائی۔
          انجوائے۔۔۔یار۔۔۔زریاب مسکراہٹ دباتا کندھے۔اچکا کر بولا
          ہٹیں پیچھے زریاب۔۔۔۔کوئی آ جائے گا ۔ارےے شرم کریں کچھ تو۔۔۔۔۔
          پہلی بات زریاب آفریدی کسی سے ڈرتا نہیں۔۔۔۔دوسری بات تم میری شرعی بیوی ہو۔۔۔۔اور تیسری بات تم نے ہی مجھے انجوائے کرنے پر اکسایا۔۔۔۔۔وہ شرارت سے بولا
          بہت خراب ہیں آپ۔۔۔۔۔میں نے اس قسم کا انجوائے کرنے کو تو نہیں کہا تھا نا۔۔۔ وہ نروٹھے پن سے بولتی واپس جھیل کی طرف بڑھی زریاب بھی اسکے پیچھے ہی واپس پلٹا۔
          تو کس طرح کا انجوائے کرنا چاہتی ہو۔۔۔۔؟؟؟
          پلوشہ نے پلٹ کر اسے گھوری دی جس پر زریاب ڈرنے کی ایکٹنگ کرتا ہوا مسکرا اٹھا
          اونہہ۔۔وہ سر جھٹکتی ہوئی آگے چلتی گئی
          اب واپس چلتے ہیں پلوہی مجھے کچھ ضروری میلز کرنی ہیں۔۔۔۔زریاب جھیل کنارے واپس پتھر کے پاس پہنچ کر بولا
          تو جائیں آپ میں ابھی کہیں نہیں جا رہی۔پلوشہ اپنی جگہ پر بیٹھتی بولی
          کم آن یار پھر سے تین دن بعد حاضری دینے آئیں گے ناں ہم اب چلو اٹھو شاباش۔۔۔۔زریاب نے پچکارتے ہوئے اسکا کندھا ہلایا
          نہین۔۔۔۔۔۔
          پلوشہ۔۔۔شہ۔۔۔جانی ضد مت کرو نا۔۔۔۔۔
          کچھ دیر اور خان۔۔۔۔
          پھر آئیں گے ناں۔۔۔۔۔سینڈل پہنو شاباس۔۔۔۔وہ بمشکل ضبط سے بولا
          نہیں۔۔۔۔بلکل نہیں پہنوں گی سینڈل۔۔۔۔۔ پلوہی نے پھر نفی میں سر ہلایا
          زریاب ایک تیز نظر اس پر ڈالتا گھٹنوں کے بل اسکے سامنے بیٹھا اور پاؤں پکڑ کر گود میں رکھا اب وہ سر جھکائے سینڈل پلوہی کے پاؤں میں پہنا کر اسکا اسٹریپ بند کر رہا تھا جو اس سے بلکل بھی نہیں ہو پا رہا تھا
          اچانک پلوہی کو مہرو بھابھی کی سرگوشی یاد آئی۔۔۔۔عنقریب وہ تمہارے قدموں میں ہو گا بچے۔۔۔۔وہ یاد کر کے مسکرا دی
          کیا مصیبت ہے یہ۔۔۔۔زریاب نے جھنجھلا کر سر اٹھایا اور پلوہی کو مسکراتے دیکھ کر سیخ پا ہوتا کھڑا ہوا
          میں اس منحوس سینڈل کے اسڑیپ سے لڑ رہا ہوں اور محترمہ کے دانت نکل رہے ہیں۔۔۔۔۔
          نہیں۔۔۔۔میں آپ کو دیکھ کر نہیں ہنس رہی تھی مجھے تو مہرو بھابھی کی بات یاد آ گئی تھی۔۔۔۔پلوہی پھر سے مسکرائی
          بند کرو سینڈل اور اٹھو ہری اپ۔۔۔۔زریاب پلوشہ کو سختی سے کہہ کر سیل کان سے لگا کر بات کرنے لگا
          جی شاہ صاحب۔۔۔۔جی جی میں کچھ بزی ہوں ایک آدھ گھنٹے تک میل کر دوں گا۔۔۔اوکے جی ٹھیک ہے اللہ حافظ۔۔۔۔۔زریاب نے کال بند کر کے پلوہی کو دیکھا جو لاپرواہی سے انگلی پر بالوں کی لٹ لپیٹتی پھر سے مسکرا رہی تھی
          اب کیا ہوا۔۔۔۔۔؟؟وہ چڑتا پھر سے نیچے بیٹھ کر اسکا سینڈل بند کرنے لگا
          بتاؤ مجھے اس کو کیسے بند کرنا ہے۔۔۔۔اس نے اسٹریپ پکڑ کر ابرو اٹھائے۔
          اسٹریپ کو یہ جو ہول ہے اس میں سے گزار دیں بند ہو جائے گا۔۔۔۔
          انتہائی بدتمیز ہو تم۔۔۔۔زریاب اسکی مسکراہٹ دیکھ کر جل کر بولا
          آپ سے کم۔۔۔۔۔۔وہ پھر سے مسکرا کر کہتی زریاب کے بال بکھیر گئی
          چلو اٹھو اب ورنہ ایک تھپڑ کھاؤ گی مجھ سے۔۔۔۔زریاب نے سینڈل بند کر کے اسکا بازو پکڑ کر کھڑا کیا
          چل رہی ہوں۔۔۔بازو تو چھوڑیں کس طرح دبوچ رکھا ہے۔۔۔۔پلوہی نے تیز جھٹکے سے بازو زریاب کے ہاتھ سے چھڑوایا اور خفگی سے ناک پھلائے آگے بڑھ گئی
          زریاب اسکی پھولی ناک دیکھ کر مسکراتا ہوا تیزی سے اسکے پیچھے ہی واپسی کے لیے چل پڑا
          "تمہیں دیکھوں توصنم مجھے پیار بہت آتا ہے،
          زندگی اتنی حسین پہلے تو نہیں لگتی تھی۔

          جاری ہے!!۔
          Vist My Thread View My Posts
          you will never a disappointed

          Comment


          • #25
            So Nice
            Lagta hai HAPPY ENDING honay wali jai.
            Lekin Samandar Khan ka kya hoga, mujhe lagta ha zaryab ko SK ne hi phone kiya tha.

            Comment


            • #26
              اسٹوری بہت ہی جاندار ہے رائٹر کی ہر کردار پر گرفت مضبوط ہے جو بھی اب تک پوسٹ کرا ہےسب کا سب کمال ہے

              Comment


              • #27
                Originally posted by insght View Post
                So Nice
                Lagta hai HAPPY ENDING honay wali jai.
                Lekin Samandar Khan ka kya hoga, mujhe lagta ha zaryab ko SK ne hi phone kiya tha.
                ۔۔شکریہ لائکس اور کمنٹ کیلئے۔۔
                Vist My Thread View My Posts
                you will never a disappointed

                Comment


                • #28
                  Originally posted by Sakht londa View Post
                  اسٹوری بہت ہی جاندار ہے رائٹر کی ہر کردار پر گرفت مضبوط ہے جو بھی اب تک پوسٹ کرا ہےسب کا سب کمال ہے
                  شکریہ دوست۔
                  پسند اور لائک کیلئے۔ اور سٹوریز مین جو کچھ بھی فیل کرتے ہین یہ سب ہی أپ سبھی دوستؤن کی چا ہت اور خلوص کے ساتھ ہی ممکن ہے۔
                  Vist My Thread View My Posts
                  you will never a disappointed

                  Comment


                  • #29
                    قفس کی چڑیا۔۔
                    ایک ضروری نوٹس۔
                    دوستو اور ساتھیو۔
                    اگر سب لوگ چاہو تو یہ سٹوری اپنے مخصوص منورنجن سے عید کے بعد دوبارہ بھی پوسٹ ہوسکتی ہے؟؟۔
                    کیونکہ رمضان کے بابرکت مہینےکی ریزن سے اس سے زیادہ مصالہ لگانا ممکن نہین۔

                    زریاب پلیز مان جائیں ناں صرف دو یا تین دن آئی سوئیر پھر اگلے چار ماہ تک میں پھر سے وہان جا کر رہنے کی بات کبھی نہیں کروں گی۔۔۔
                    پلوشہ زریاب خان کے پاس کھڑی اسے گھر جا کر رہنے کی بات کر رہی تھی۔
                    پلوہی میں تم سے ہزار دفعہ کہہ چکا ہوں کہ مجھ سے وہاں جا کر رہنے کی تم بات مت کیا کرو۔۔۔۔۔۔اتنی چھوٹی سی بات تمہاری سمجھ میں کیوں نہیں آتی۔۔۔۔۔۔؟؟؟وہ پلوشہ پر اب خفا ہوا۔
                    مگر کل تو آپ نے مہرو بھابھی سے مجھے چھوڑ کر آنے کی ہامی بھری تھی۔۔۔۔
                    میں بھابھی کی کوئی بات نہیں ٹالتا اس لیے انہین ہاں کہا تھا مگر تم سے۔۔۔
                    اورمجھ پر تو رعب ڈالنے کی پرانی عادت جو ہے آپ کو۔۔۔۔
                    پلوشہ سمجھا کر بات کو۔۔۔۔
                    فائن میں نہیں جا رہی لیکن آپ
                    پھر کبھی بھی مجھ سے بات کرنے کی اب کوشش بھی مت کرئیے گا۔۔۔۔پلوشہ خفگی سے بولی
                    وہ کیوں۔۔۔۔؟؟؟زریاب نے ابرو اچکائے
                    جب آپ کو میری پرواہ نہیں تو تو پھر مجھے بھی نہیں۔۔۔۔
                    اچھا اوکےمیرے پاس ٹائم نہیں ہے۔تم ایئسے کرو حشمت کے ساتھ چلی جاؤ۔ وہان۔۔وہ اسکی اتری شکل دیکھ کر دھیما پڑا۔
                    آپ کے پاس میرے لیے ٹائم نہیں ہے۔۔۔۔پلوہی کو بہت صدمہ ہوا۔
                    ارےےےے تمہارے لیے نہیں تمہارے ان بے جا چونچلوں کے لیے۔۔۔۔
                    تو اب میرے چونچلے حشمت اٹھائے گا کیا۔۔۔۔۔۔؟؟؟ وہ ناک پھلا کر چیخی۔
                    تم کچھ سوچ سمجھ کر بولا کرو پلوشہ ۔۔۔زریاب خان بہت زیادہ ہی ناگواری سے بولا۔
                    آپ بھی مجھے سوچ سمجھ کر ڈانٹا کریں۔۔۔
                    چلو چھوڑ آتا ہوں تمہیں اب وہاں دو دن رہنا یا دو ہفتے مجھے کوئی پرابلم نہیں۔۔۔وہ ناراضگی سے کہتا گاڑی کی چابی اٹھا کر باہر نکل گیا.
                    پھر جب تین گھنٹون کے بعد زریاب پلوشہ کو چھوڑ کر واپس آرہا تھا تو۔۔
                    دونون گاؤن کے درمیانی چوک مین اسے سمندر خان سڑک پر پیدل چلتا ہوا کہین جاتا ہوا دکھائی دیا۔
                    زریاب خان نے کچھ سوچ کر پجارو سمندر خان کے قریب لے جا کر روکی۔
                    سمندر خان نے جیئسے ہی زریاب کو دیکھا تو تیزی سے قریب آ کر بولا۔
                    اسلام علیکم خان صاحب۔۔کیئسے مزاج ہین ؟؟۔۔
                    وعلیکم سلام۔ ارےےے تم اس طرح سے کدھر۔۔۔؟؟
                    خان صاحب وہ مین گھر جا رہا تھا۔ ویئسے زریاب صاحب کوئی کام تھا مجھ سے کیا۔؟؟؟
                    ہاں نا یار۔۔۔۔زریاب فورا دل مین ایک پلان بناتے ہوئے۔۔ وہ ابھی پلوشہ کو ادھر چھوڑ کر مین واپس أ رہا ہون۔اور وہ جلدی جلدی مین کچھ اپنا سامان پرس کپڑے وغیرہ ادھر ہی بھول گئی ہے۔
                    تو سمندر خان ایئسا ہے کہ تم اب میرے ساتھ چلو۔ واپسی مین تم حشمت خان کیساتھ جا کر وہ سب چیزین ادھر دلاور خان کے گھر پہنچا دینا۔
                    ادھر سے فارغ ہو کر پھر حشمت خان تمہین گاؤن بھی چھوڑ آئے گا۔
                    سمندر خان کو کچھ عجیب سا فیل ہو رہا تھا۔اس کے دل مین بہت سے وہم اور خیالات ڈگمگا رہے تھے۔مگر زریاب خان نے کچھ اس انداز سے سمندر خان کو گھیرا تھا کہ وہ انکار کرنے کی کنڈیشن مین بھی نہین رہا تھا۔
                    اس کو اچھی طرح سے معلوم تھا کہ زریاب خان اس سے لازمأ
                    سہراب کے ساتھ ہوئے حادثے کے بارے مین ساری تفصیلات ضرور پوچھے گا۔
                    وہ دل ہی دل مین خود کو زریاب کےسوالون کیلئےتیار کرتا ہوا۔بظاہر بہت خوشگوار لہجے مین بولا۔
                    جی زریاب صاحب کیون نہین مین ضرور آپ کے ساتھ چلتا ہون۔ مگر پلیزز خان صاب مجھے کچھ جلدی واپس بیجھیے گا۔وہ گاؤن مین میرا وائف کا تھوڑا طبیعت خراب ہے۔اسی لئے مین ادھر جا رہا تھا۔
                    زریاب خان جو سمندر کو ڈیرے یاگھر کے تہخانے مین لیجا کررکھنے کے بارے مین مسلسل سوچے جا رہا تھا۔
                    سمندر کے ساتھ جانے کی بات سنتے ہی اس کو گاڑی مین بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
                    ______________________
                    اماں میں لالہ کی وجہ سے بہت پریشان ہوں۔۔۔۔کتنے کمزور ہو گئے ہیں اور بہت کم کم بولنے لگے ہیں۔۔۔۔پلوہی دعا کو گود میں بیٹھائے کافی فکرمند سی خدیجہ سے کہہ رہی تھی۔۔۔۔
                    زریاب دو دن پہلے اسے چھوڑ گیا تھا۔
                    ہاں میں اور تمہارے بابا بھی بہت پریشان ہیں شمس کیوجہ سے۔۔۔خدیجہ بھی افسردہ ہوئیں
                    اماں لالہ کے بارے میں آگے کا کیا سوچا ہے آپ نے۔۔۔۔۔؟؟
                    اسکی شادی کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔۔۔۔۔
                    مما میرا بھی یہی خیال ہے۔۔۔ویئسے دیکھی ہے کوئی لڑکی آپ نے۔۔۔۔؟؟؟ ہمارے سارے خاندان میں تو ایئسی کوئی نہیں ہے جو اپنے دل ودماغ کی رضامندی سے دعا سمیت شمس لالہ کو قبول کرے۔۔۔۔سب ہی نک چڑی اور من پھٹ مغرور سی ہیں۔۔۔پلوہی نے برا سا منہ بنایا۔
                    ہوں۔۔۔۔تمہاری چچی سے بات کی تھی میں نے وہ الٹا خفا ہونے لگی کہ میری بیٹی کو مرے ابھی دس ماہ ہوئے ہیں اور آپ شمس کی دوسری شادی کا کہہ رہی ہیں۔
                    مگر آج یا کل شادی تو کرنی ہی ہے ناں لالہ کی۔۔۔۔۔ویسے بھی اب ہی مناسب وقت ہے۔۔۔۔ لالہ کی اجڑی حالت دیکھ کر میرا دل بہت دکھتا ہے اماں آپ جلد از جلد کوئی اچھی سی لڑکی دیکھ کر شادی کر دیں کچھ تو سنبھلیں گے وہ۔۔۔۔
                    ویسے اماں کوئی بھی لڑکی ہو وہ دعا کو بیٹی کے روپ میں بہت مشکلون سے ہی قبول کرے گی۔۔۔۔۔۔پلوشہ افسردہ ہوئی
                    مگر جو لڑکی ہم۔نے سوچی ہے اگر وہاں سے ہمین ہاں ہو جائے تو دعا کو ماں بھی مل جائے گی اور شمس کو اچھی بیوی بھی۔۔۔۔
                    ایک منٹ اماں۔۔۔۔آپ نے لڑکی سوچ کر رشتہ بھی پوچھ لیا اور مجھے بتایا بھی نہیں میں دو دن سے یہاں ہوں۔۔۔پلوہی انکی بات پکڑ کر بولی ۔
                    میں بتانے ہی والی تھی تمہیں بس وہ۔۔۔۔
                    مما کون لڑکی ہے۔۔وہ۔۔؟؟پلوہی ماں کے انداز سے کافی مشکوک ہوئی۔
                    پلوشہ بیٹا تم تحمل سے سننا میری بات۔۔۔۔انہوں نے تمہید باندھی۔۔
                    ممی بولیں بھی تو۔۔۔۔وہ کچھ گڑبڑ جانچتی ہوئی پریشانی سے بولی۔
                    پلوشہ بیٹا میں نےاور تمہارے بابا نے شمس کے لیے۔۔۔۔۔۔۔وہ ہم۔۔۔۔۔۔ نے۔۔۔درآصل۔۔مہرو کا سوچا ہے۔۔۔۔۔خدیجہ نے اٹک اٹک کر بات کرکے پلوہی کے پاس دھماکا کیا
                    کک کیا۔کہا۔ ہے آپ نے۔۔۔؟؟مہرو بھابھی۔۔۔۔۔پلوشہ بیٹھے سے ایکدم کھڑی ہوئی۔
                    اور اماں۔ کیا آپ لوگوں نے وہاں سے رشتہ پوچھ بھی لیا۔۔۔وہ کافی صدمے سے دوبارہ بولی۔
                    پلوشہ بیٹا وہ ہم نے مہرو کی اماں اور بھائیوں سے بات کی ہے۔۔۔۔۔۔
                    ارے ےےاماں آپ مجھ سے تو پوچھ لیتیں پہلے۔۔۔غضب خدا کا یہ۔۔۔۔یہ کیا کر دیا آپ لوگوں نے۔۔۔۔۔پلوشہ پریشانی گبھراہٹ سے سر پکڑ کر بولی۔
                    پلوہی بیٹاتمہیں کوئی اعتراض ہے کیا۔۔۔؟؟
                    اعتراض۔۔۔۔؟؟اماں میں اسی گھر میں رہتی ہوں جہاں مہرو بھابھی ۔ بیوہ ہوئی ہین۔اور اس کو وہ لوگ اب بھی سگی بیٹی کی طرح چاہتے اورسراہتے ہین۔ہمارا سسرال ایک ہے۔امان آپ زریاب خان کو اچھی طرح سے جانتی ہیں پھر بھی آپ نے مہرو بھابھی کے گھر والوں سے رشتہ مانگ لیا وہ بھی مجھے بتائے بغیر ۔۔۔۔۔وہ انتہائی صدمے میں تھی۔
                    اگر آپ پہلے مجھ سے پوچھ لیتیں تو میں۔۔۔۔۔۔۔
                    پلوشہ کیا تم نہیں چاہتی کہ تمہارے لالہ کو کوئی خوشی ملے۔۔۔۔۔؟؟؟خدیجہ اسکی بات کاٹ کر بہت سنجیدگی سے بولیں۔
                    میں بھلا ایسا کیوں چاہوں گی اماں (شمس لالہ اورأپ لوگوں کی خوشی کیلئے مین نے وہاں پر کیا کیا برداشت کیا ہے ہو سب کیئسے بتاؤن اور اب پھر سے )۔۔مگر بظاہر نارمل انداز سے بولی۔۔آپ نے لالہ سے پوچھا تھا کیا۔۔۔۔؟؟
                    اس سے بھی پوچھ لوں گی وہ انکار نہیں کرے گا ہمارے اس فیصلے سے۔۔۔۔
                    اووووف۔۔۔۔یعنی کے یہ صرف آپ دونوں میاں بیوی کی ملی بھگت ہے۔۔۔۔
                    پلوہی تمہیں کس چیز کی فکر ہے اگر اس رشتے پر کسی کو اعتراض ہوا تو صرف ایک زریاب کو ہی ہو گا اور اسے تم سنبھال لینا۔۔۔۔
                    اونہہ۔۔۔۔تم سنبھال لینا آپ جانتی نہیں ہیں انہیں اسی لیے اتنی بے فکری سے کہہ رہی ہیں بس۔آپ کو پتہ تھا لالہ کیساتھ زر یاب کا رویہ۔۔۔وہ تو بات تک نہیں کرتے لالہ سے کجا کہ مہرو بھابھی کی لالہ سے شادی۔۔۔۔۔۔پلوہی نے زریاب کے غصے سے سرخ چہرے کو سوچ کر ہی جھرجھری لی۔۔۔۔ میری ایک بات یاد رکھیں اماں اگر زریاب نے میرے ساتھ اب کچھ بھی غلط کیا تو اسکے ذمےدار آپ لوگ ہوں گے۔۔۔۔۔وہ چلا کر کہتی سیڑھیاں پھلانگ گئی۔۔
                    خدیجہ کو پلوہی سے اس قسم کے شدید رویے کی امید نہیں تھی۔۔۔۔وہ پریشان سی بیٹھیں تھیں جب شمس خان ہال میں آیا۔۔
                    اماں یہ پلوشہ کو کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔؟؟؟
                    کیوں کچھ کہا اس نے تم سے۔۔۔۔خدیجہ شمس کی بات سن کر کھڑی ہوئیں۔
                    نہیں کہاتوکچھ نہیں مگر کافی غصے میں نکلی ہے ابھی یہاں سے۔۔۔۔۔شمس نے اسے غصے سے سرخ چہرے سمیت سیڑھیاں چڑھتے دیکھا تھا۔
                    ایسے ہی وہ بس ذرا سی بات پر۔۔۔۔۔
                    یہ ذرا سی بات نہیں ہے اماں۔۔۔۔میں سن چکا ہوں أپ دونوں کی سب۔۔باتین۔۔۔شمس نے دکھ اور غصے کے ملے جلے تاثرات سے کہا۔
                    ہم نے تو بھلا ہی سوچا تھا مگر۔۔۔۔
                    کس کا بھلا۔۔۔۔؟؟؟میرا یا پھر پلوشہ کا۔۔۔۔۔؟؟؟وہ طنزیہ بولا
                    اماں آپ لوگ نہین جانتے ہماری گڑیا نے اس زنداں مین کیئسے وقت گزارہ ہو گا۔مگر زریاب کا رویہ تو جانتے تھے نا میرے ساتھ اس کے باوجود آپ لوگوں نے مجھ سے پلوشہ سے پوچھے بغیر اتنا بڑا قدم اٹھا لیا۔۔۔۔وہ بےیقین تھا
                    شمس ہم نے کچھ غلط نہیں کیا۔۔۔۔مجھے اور تمہارے بابا کو لگا کہ اسطرح کچھ تو کفارہ ادا ہو جائے گا اس سب کا جو انجانے میں تم سے ہو چکا ہے۔۔۔۔۔
                    ہوں۔۔۔۔۔وہ استہزائیہ ہنسا
                    آپ کو کیا لگتا ہے زریاب اپنی بھرجائی کو اپنے بھائی کے قاتل کیساتھ باخوشی رخصت کر دے گا
                    زریاب وہاں کا بڑا نہیں ہے شمس اور ہم نے تو بس مہرو کے گھر والوں سے بات کی ہے۔۔۔۔۔
                    جو بھی ہے اماں بس ٹھیک نہیں ہوا ہے۔۔اب۔۔میں پلوشہ سے بات کرتا ہوں وہ خود ہی منع کر دے گی ان لوگوں کو یا پھر میں خود زبیر خان (مہرو کا بھائی) سے بات کر لوں گا۔۔۔۔۔۔شمس سنجیدگی سے کہتا واپس مڑا۔
                    شمس۔۔۔بات سنو۔۔۔۔تم پلوہی سے کچھ نہیں کہو گے اس بارے میں اور نہ ہی زبیر خان سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شمس۔۔۔س۔۔س۔۔۔ بات سنو میری۔۔۔۔۔خدیجہ پکارتی رہ گئیں مگر وہ ان سنی کرتا پلوہی کے کمرے کی طرف بڑھ گیا
                    ______________________
                    پلوشہ جلے پیر کی بلی بنے کمرے میں ادھر سے أدھر چکر کاٹ رہی تھی۔۔۔۔اس نے دو دفعہ زریاب کو کال کی تھی پر زریاب نے کال کاٹنے کے بعد سیل آف کر دیا جو آج سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔۔
                    کہیں زریاب تک بات پہنچ تو نہیں گئی۔۔۔۔اوف میرے اللہ رحم کرنا۔۔۔۔۔وہ پریشانی سے بولی۔
                    مجھے۔۔۔۔مجھے مہرو بھابھی کو کال کرنی چاہیے۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔پلوہی نے خودکلامی کرتے ہوئے جلدی سے مہرو کا نمبر ڈائل کر کے سیل کان سے لگایا۔۔
                    اسلام علیکم۔۔۔۔۔مجھے کیسے یاد کر لیا۔۔۔مہرو کی فریش سی آواز پر پلوہی کو کچھ حوصلہ ہوا کہ بھابھی انجان ہیں اس بات سے۔۔۔۔۔
                    یاد ان کو کیا جاتا ہے جو بھول جائیں۔۔۔پلوشہ بھی بظاہر شوخی سے بولی۔
                    ارےے بہت پرانا ڈائیلاگ مارا ہے۔۔۔۔مہرو نے چھیڑا۔
                    اچھا بتائیں بھابھی آپ کیا کر رہی تھیں۔۔۔۔؟؟؟
                    کچھ نہیں کبڈ کو سیٹ کر رہی ہوں۔۔وہ کچھ مصروف سی بولی ۔
                    زریاب گھر پر ہیں کیا۔۔۔۔؟؟پلوہی نے بیچینی اور بیقراری سے پوچھا۔
                    نہین۔۔۔۔
                    کہاں ہیں پھر وہ اصل میں ان کا سیل بھی بند ہے۔۔۔۔۔
                    تمہیں بتا کر نہیں گیا۔۔۔۔؟؟؟
                    کہاں بھابھی۔۔۔۔؟؟؟ہیر کے گرد خطرے کی گھنٹی بجی۔۔
                    لال حویلی۔۔۔۔
                    کیا لال حویلی۔۔۔۔پر کب۔۔۔۔کیا کرنے۔۔۔۔؟؟
                    وہ دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھ کر بولی۔
                    پتہ نہیں زبیر لالہ کا فون آیا تھا کوئی ضروری بات کرنی تھی۔اور بابا جان بھی ساتھ گئے ہیں۔
                    کونسی ضروری بات۔۔۔؟؟وہ گھٹی گھٹی آواز میں بولی۔
                    ابھی تو پتہ نہیں ہے بابا جان اور زریاب آئیں گے تو پتہ چلے گی۔۔۔۔
                    کب تک آئیں گے وہ لوگ۔۔۔۔۔؟؟؟
                    صبح گئے تھے شام کو واپس آنے کا کہا تھا دیکھو کب تک آتے ہیں۔۔۔۔۔
                    اچھا بھابھی میں بعد میں بات کرتی ہوں آپ سے۔۔۔۔پلوشہ نے شمس کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر خدا حافظ کہہ کر فون بند کیا۔
                    آئیں لالہ۔۔۔۔۔وہ خود کو کمپوز کرتی بولی۔
                    شمس آہستگی سے چلتا اسکے پاس آ کھڑا ہوا۔۔۔۔پلوہی بیٹا تم پریشان مت ہو ایسا کچھ نہیں ہو گا۔۔۔میں زبیر سے معذرت کر لوں گا۔۔۔۔اماں اور بابا کو بات کرنے سے پہلے پوچھ لینا چاہیے تھا ہم سے۔۔۔۔۔شمس نے بہت سنجیدگی سے کہا۔
                    لالہ آپ مجھے حویلی چھوڑ آئیں گے ابھی کیا۔۔۔۔پلوہی اسکی بات مکمل ہونے پر بولی۔
                    ابھی۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟۔وہ کچھ حیران ہوا۔۔۔
                    جی مجھے ابھی واپس جانا ہے۔۔۔۔
                    اس بات پر خفا ہو کر جا رہی ہو۔۔۔۔؟؟؟
                    نہیں لالہ۔۔۔۔۔میری مہرو بھابھی سے بات ہوئی ہے مہرو بھابھی کے گھروالوں نے زریاب اور بابا جان کو بلوایا تھا آج اس لیے میں واپس جانا چاہتی ہوں تاکہ مجھے ان لوگوں کے فیصلے کے بارے مین علم ہو سکے۔۔۔۔۔۔
                    مگر پلوشہ میں نے کہا ہے نا تم سے میں زبیر خان سے بات کر لوں گا وہ میری بات سمجھ جائے گا۔۔۔زریاب خان کی طرح اس نے مجھے اپنے بہنوئی کا قاتل سمجھ کر قطع کلامی نہیں کی تھی۔۔۔۔
                    ( زبیر خان اور شمس خان اچھے کلاس فیلوز اور دوست رہ چکے تھے ماضی میں )
                    نہیں لالہ آپ کسی سے کچھ نہیں کہیں گے اور اگر فیصلہ آپ کے حق میں ہوا تو بھی انکار نہیں کریں گے آپ کو میری قسم۔۔۔۔۔پلوہی نے شمس کا ہاتھ تھام کر پیار سے اپنے سر پر رکھا۔
                    یہ۔۔۔یہ کیا کہہ رہی ہو پلوہی میں ہر گز یہ شادی نہیں کروں گا۔۔۔۔۔
                    آپ یہ شادی کریں گے اور ضرور کریں گے لالہ۔۔۔میں آپ کو اپنی قسم دے چکی ہوں اور اگر آپ نے قسم توڑی تو پھر میں ساری زندگی آپ کو اپنی شکل نہیں دکھاؤں گی۔۔۔۔
                    آپ اب مجھے وہاں چھوڑ آئیں واپس۔۔۔۔وہ کہتی مڑ کر الماری سے اپنی چادر اور پرس نکال لائی۔۔
                    چلیں۔۔۔۔۔پلوشہ نے شمس کو کھڑے دیکھ کر کہا۔
                    پلو۔۔شہ۔۔۔۔تم۔۔۔۔
                    لالہ پلیز میں زریاب کو سنبھال لوں گی انکی فکر مت کریں۔۔۔۔۔مہرو بھابھی بہت اچھی ہیں اور مجھے پورا یقین ہے وہ آپ کو دعا سمیت قبول کر لیں گی میں انکی بڑائی دیکھ چکی ہوں۔۔۔۔۔بس آپ کو خاموش رہ کر اور جو ہو چکا وہ سب بھلا کر اپنا دل بڑا کرنا ہو گا۔۔۔۔۔اب چلیں مجھے دیر ہو رہی ہے۔۔۔۔پلوہی اسکا بازو پکڑ کر کہتی باہر نکل گئی
                    _________________________
                    شمس اسے باہر سے ہی چھوڑ کر جا چکا تھا پلوشہ نے بھی اسے اندر آنے کا نہیں کہا۔۔۔۔۔
                    وہ بی بی جان سے ملکر جلدی سے کچن میں مہرو کہ پاس چلی آئی جو اسے دیکھ کر حیران تھی ۔
                    تم تو زیادہ دن کے لیے گئی تھی ناں پھر دو دن میں ہی پلٹ آئی خیریت۔۔۔۔اور نہ ابھی فون پر واپسی کا بتایا۔۔۔۔مہرو ہاتھ صاف کرتی اسکی طرف آئی
                    آپ کو برا لگا میرا آنا۔۔۔۔۔؟؟ پلوہی مسکرائی۔
                    ویری فنی۔۔۔۔۔مہرو نے منہ بگاڑ کر پلوشہ کی بات کا مذاق اڑایا۔
                    اب بتاؤ مجھے کیا چائے بناؤں تمہارے لیے اور کس کے ساتھ آئی ہو۔۔۔؟؟
                    لالہ کیساتھ۔۔۔۔۔چائے نہیں پیوں گی ابھی حدید کہاں ہے۔۔۔۔؟؟؟
                    مولوی صاحب کے پاس سیپارہ پڑھنے۔۔۔۔
                    اچھا میں آتی ہوں ابھی چینج کر کے۔۔۔۔وہ کہہ کر اپنے کمرے میں آ گئی۔
                    پلوہی بظاہر تو ریلکیس تھی مگر اندر سے وہ زریاب کو سوچ کر خوفزدہ تھی وہ آئی بھی اسی لیے تھی تاکہ زریاب کے غصے کو ٹھنڈا کر سکے۔۔۔۔۔شمس کو تو کہہ آئی تھی کہ زریاب کو سنبھال لے گی مگر اب وہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہی تھی کہ زریاب کو لالہ کے معاملے میں کیسے ہینڈل کرے گی۔۔۔۔زریاب کا رویہ پلوہی کے ساتھ بلکل ٹھیک ہو چکا تھا مگر وہ اب بھی پلوشہ کے منہ سے شمس کے بارے میں کبھی کوئی بھی بات نہیں سنتا تھا۔
                    وہ کافی دیر سوچنے کے بعد زریاب سے بات کرنے کے لیے مختلف الفاظ ترتیب دے کر کمرے سے نکل آئی۔۔۔۔
                    اب وہ زریاب کی واپسی کی منتظر تھی
                    _______________________
                    پلوشہ اور مہرو ہال میں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں اور حدید کچھ فاصلے پر بیٹھا گیم کھیل رہا تھا۔۔۔۔پلوہی گاہے بگاہے کلاک کیطرف بھی دیکھ لیتی۔۔۔۔۔ڈیڑھ گھنٹے کے کھٹن انتظار کے بعد زریاب کی پجارو کا ہارن بجا۔۔۔
                    پلوہی نے بہت بیچینی سے پہلو بدلا۔۔۔۔
                    لگتا ہے آ گئے مہرو اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔میں دیکھتی ہوں وہ پلٹی ہی تھی جب سامنے سے زریاب لال بھبھوکا چہرہ لیے اندر داخل ہوا اور کسی کی طرف بھی دیکھے بنا سیڑھیاں پھلانگ گیا
                    اسے کیا ہوا۔۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو اسکا سرخ چہرہ دیکھ کر پریشان ہوئی
                    میں دیکھتی ہوں جا کر آپ پریشان مت ہوں۔۔۔۔پلوشہ اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہتی سیڑھیاں چڑھ گئی۔
                    وہ دھڑ دھڑ کرتے دل کیساتھ آہستگی سے دروازہ کھولتی اندر اینٹر ہوئی۔۔۔۔۔
                    زریاب سیل کان سے لگائے ونڈو پین کیطرف منہ کیے بات کرنے میں بزی تھا۔۔پلوشہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی بیڈ کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔
                    زریاب نے مزید پانچ منٹ بات کر کے سیل بند کیا اور پلٹ کر جیکٹ اتارتا واش روم چلا گیا۔۔۔پندرہ منٹ بعد شاور لے کر نکلا۔۔۔بالوں میں برش کیا۔۔۔بیڈ سائیڈ ٹیبل کی طرف آ کر لائیٹر اور سیگرٹ کی ڈبی اٹھائی اور بالکنی میں نکل گیا۔۔۔۔زریاب نے اس سارے عمل میں پلوشہ کو مکمل طور پر اگنور کیا تھا۔۔۔وہ بھی خاموش کھڑی رہی۔۔۔زریاب کے جانے کہ بعد وہ لمبی سی سانس لیتی ہمت مجتمع
                    کر کے بالکنی کیطرف آئی۔۔۔۔
                    زریاب سیگرٹ سلگائے کش لے رہا تھا۔۔۔۔پلوہی تیزی سے پاس چلی آئی۔۔۔۔
                    زریاب چائے لاؤں آپ کے لیے یا پھر کھانا ہی کھائیں گے اب۔۔۔۔
                    جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔زریاب نے منہ سے دھواں نکالتے ہوئے روکھے سے انداز میں کہا۔۔۔۔
                    کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔؟؟؟
                    آئی سیڈ گو فرام ہئیر۔۔۔۔۔
                    زریاب۔۔۔خان۔۔
                    تمہیں سنائی نہیں دیا کیا۔۔۔۔۔؟؟وہ اپنے پرانے انداز میں دھاڑا۔
                    ہوا کیا ہے زریب۔۔۔اسطرح سے کیوں بات کر رہے ہیں۔۔۔۔۔وہ روہانسی ہوئی۔
                    میں فلوقت تم سے کوئی بھی بات نہیں کرنا چاہتا اسلئیے جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔بس دفع ہو جاؤ ادھر سے۔۔۔۔۔ کہنے کی کسر رہ گئی تھی۔
                    پلوہی ایک نظر اسکے سرد و سپاٹ چہرے کو دیکھ کر پلٹ گئی۔
                    زریاب نے اسکے جانے کے بعد غصے سے گرل پر مکا مارا اور سیگرٹ پیروں تلے مسل کر اسٹڈی میں چلا گیا۔۔
                    _______________________
                    کیا ہوا زریاب کو وہ غصے میں کیوں تھا اتنا اور کیا بات ہوئی وہاں۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو نے پلوشہ کو کچن میں داخل ہوتے دیکھ کر پوچھا۔
                    پتہ نہیں مجھ سے کوئی بات نہیں کی ۔بلکہ مجھے بھی کہہ رہے ہیں فلوقت وہ کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔۔۔۔۔ پلوشہ ڈبڈبائی أنکھون سے دلگرفتہ انداز مین بولی۔۔
                    ایسا کیا ہوا ہو گا وہاں۔۔۔۔میں ابھی لالہ سے بات کرتی ہوں۔۔۔۔مہرو کیچن سے باہر نکلی۔
                    ارے نہیں بھابھی اگر وہاں کوئی ایسی ویسی بات ہوئی ہوتی تو زریاب ضرور بتا دیتے ویسے بھی باباجان بھی جانتے ہوں گے ہم ان سے پوچھ لیں گے۔۔۔۔
                    ابھی تو کھانا لگوائیں بہت بھوک لگی ہے۔۔۔زریاب ابھی نہیں کھائیں گے ہم کھا لیتے ہیں بابا جان کا بھی بھجوا دیں مردانے میں۔۔۔۔پلوہی نے مسکرا کر کہتے ہوئے بات بدلی تاکہ مہرو زبیر سے کچھ نہ پوچھ سکے اور حدید کو آواز دیتی پلٹ گئی
                    مہرو بھی سر ہلاتی واپس کیچن میں مڑ گئی کھانا لگوانے۔۔۔
                    _________________________
                    رات کے ڈیڑھ بج چکے تھے اور زریاب ابھی تک اسٹڈی سے نہیں نکلا تھا پلوہی اسکے انتظار میں کروٹیں لے لے کر تھک چکی تھی۔۔
                    مزید کچھ دیر انتظار کے بعد وہ اٹھنے کا سوچ رہی تھی جب کلک کی آواز سے اسٹڈی کا دروازہ کھول کر زریاب خان باہر آیا۔۔
                    وہ خاموشی سے آ کر بیڈ پر اپنی سائیڈ پر لیٹا اور کروٹ بدل لی۔۔
                    کھانا لاؤں آپکے لیے۔۔۔۔۔۔پلوہی نے اسکی پشت کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔
                    تم سوئی نہیں اب تک۔۔۔۔۔زریاب اسکی طرف پلٹا ۔
                    بس آپ کا ہی انتظار کر رہی تھی۔۔۔۔۔
                    بھوک نہیں ہے مجھے دوپہر میں کھا لیا تھا۔۔۔
                    زریاب۔۔۔۔خان۔۔۔
                    ہون۔۔۔۔۔۔۔
                    مہرو بھابھی کہہ رہی تھی کہ زبیر لالہ نے کوئی ضروری بات کرنی تھی اس لیے آپ کو اور بابا جان کو بلوایا تھا کیا بات ہوئی وہاں۔۔۔۔۔۔؟؟؟
                    زریاب اسکی طرف دیکھ کر استہزائیہ ہنسا
                    میکے سے آ رہی ہو کیا وہاں تمہیں کسی نے کچھ نہیں بتایا۔۔۔۔۔۔۔
                    کس بارے مین۔۔۔۔
                    اوہ۔۔ہ۔۔ہ۔۔۔اسٹاپ دس۔۔۔۔۔وہ غصے سے کہتا ہوا ساتھ ہی اٹھ بیٹھا۔
                    اس قدر اب تم معصوم بننے کی کوشش مت کرو پلوشہ دلاور خان جیسے کچھ جانتی نہ ہو۔۔۔۔۔ایک دفعہ صرف ایک دفعہ تم مجھ سے تو بات کر سکتی تھی۔ناں بھابھی کے گھر والوں سے بات کرنے سے پہلے مگر۔۔۔۔۔نہیں محترمہ کو اپنا بھائی جو عزیز ہے ہر رشتے پر سے۔۔۔۔۔۔۔زریاب غصے اور طنز سے پھنکارا۔
                    زریاب مجھ سے چاہے جو قسم لے لیں میں کچھ نہی جانتی تھی اس بارے میں۔۔۔۔ آج ہی اماں نے بتایا کہ وہ اور بابا زبیر خان سے رشتے کی بات کر چکے ہیں انہوں نے نہ مجھ سے پہلے پوچھا اور نہ ہی شمس لالہ سے کوئی بات کی آپ ۔۔۔۔یقین کریں میرا۔۔۔۔۔وہ زریاب خان کے غصے پر روہانسی ہوتی بولی۔
                    کر لیا یقین۔۔چلو ۔۔سو جاؤ اب تم۔۔۔۔زریاب نے گھور کر کہتے ہوئے لیٹ کر آنکھوں پر پھر سے بازو رکھ لیا۔
                    آپ کو مجھ پر یقین نہیں ہے کیا زریاب۔۔۔۔؟؟
                    پلوشہ سو جاؤ اب۔۔
                    خان میں آپ سے جھوٹ کیوں بولوں گی۔۔۔۔
                    پلوہی میں نے کہا سو جاؤ۔۔۔۔۔
                    اگر ایسا ہو جائے تو کچھ برا نہیں شمس لالہ اور مہرو بھابھی کی شادی۔۔۔۔
                    انفف۔۔۔۔ف۔۔۔ف۔۔۔ف۔۔۔۔زریاب غراتا ہوتا پھر جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔
                    تم سے کچھ کہہ نہیں رہا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو جی میں آئے بکواس کرتی رہو۔۔۔۔ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا اور نہ ہی میں ایسا کچھ ہونے دوں گا سمجھی۔۔۔۔
                    کیوں نہیں ہونے دیں گے آپ ایسا۔۔۔۔جب آپ اور میں ہنسی خوشی زندگی گزار سکتے ہیں تو پھر مہرو بھابھی اور شمس لالہ کابھی اس زندگی کو ہنسی خوشی گزارنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا میرا اور آپ کا۔۔۔۔۔پلوہی بھی اب کافی اونچی آواز سے چلائی۔
                    پلوشہ آواز نیچی رکھو۔۔۔
                    میں آپ کو اب آپ کے لہجے میں ہی جواب دوں گی زریاب خان آفریدی۔۔۔۔۔وہ بے خوفی سے زریاب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔
                    تو پھر پلوشہ بی بی اپنی تیاری رکھو کیونکہ اگر ایسا کچھ ہوا تو تمہاری بھی اس حویلی میں کوئی جگہ نہیں رہے گی۔۔۔مہرو بھابھی اگر یہاں سے رخصت ہوں گی تو تم بھی انکے ساتھ ہی جاؤ گی یہاں سے اپنے لاڈلے شمس لالہ کے پاس رہنے۔۔۔۔زریاب نے اپنی لال ہوتی انگارہ آنکھوں کو پلوہی کے رنگ اڑے چہرے پر فوکس کرتے ہوئے اسے غصے سے دھمکی دی ڈالی۔۔
                    پلوسہ کو زریاب خان سے اس قسم کی دھمکی کی امید نہ تھی وہ دکھ اور حیرانگی سے بس زریاب کو دیکھتی ششدر سی بیٹھی تھی۔۔۔
                    کچھ لوگ دل توڑتے وقت اتنا بھی نہیں سوچتے کہ سامنے والے پر کیا گزرے گی اور زریاب خان ۔۔۔وہ تو دل توڑنے اور توڑ کر پھرجوڑنے کا پرانی کھلاڑی تھا
                    "ثواب سمجھ کر وہ ہمارا دل توڑتے ہیں اے ساقی۔۔
                    اور ہم گناہ سمجھ کر شکوہ بھی نہیں کر پاتے۔۔
                    جاری ہے۔
                    Vist My Thread View My Posts
                    you will never a disappointed

                    Comment


                    • #30
                      ساقی بھائی کیا زبردست ٹوسٹ لیکر آئے ہیں جنابِ اب دیکھیں کیا ہوتا ہے

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X