Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

قفس . . کی . . چڑیا

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #31
    Originally posted by Micky View Post
    ساقی بھائی کیا زبردست ٹوسٹ لیکر آئے ہیں جنابِ اب دیکھیں کیا ہوتا ہے
    شکریہ دوست۔
    ٹوسٹ پر ٹوسٹ یہی تو اپنا فیورٹ ہے۔
    ابھی اگے دیکھیے گا۔۔
    Vist My Thread View My Posts
    you will never a disappointed

    Comment


    • #32
      قفس کی چڑیا۔
      ۔۔خان۔۔۔۔۔آپ کا مطلب ہے آپ مجھے چھوڑ دیں گے۔۔۔۔؟؟۔
      پلوہی حیرانگی اور گبھراہٹ سے لرزتی آواز میں بولی
      میں نے ایسا کب کہا۔۔۔؟؟؟ زریاب اسکے پانیوں سے بھرے نین کے کٹورے دیکھ کر نرم پڑا۔
      ابھی کہا آپ نے کہ اگر ایسا ہوا تو میری بھی یہاں کوئی جگہ نہیں رہے گی۔۔۔۔پانی پلکوں کی باڑ توڑ کر پلوشہ کی گال پر پھسل آیا۔
      "جھانکیے مت ان آنکھوں میں جناب،صنم۔۔۔۔۔
      ان کی گہرائیون مین خطرہ ہے ڈوب جانے کا۔۔۔۔!"
      ارے کیا ہوا۔۔۔۔؟؟زریاب نے اسکا بازو تھام کر اس کو اپنے قریب کیا اور مسکراتے ہوئے پلوسہ کے چھلکتے ہوئےآنسو پونچھ کر پرنم آنکھوں کو لبوں سے چھوا۔
      وہ غصے میں کہہ دیا یار تم تو سیریس ہی ہو گئی۔۔۔۔میں ایسا کر سکتا ہوں کبھی۔۔۔؟؟وہ پیار سے بولا
      پلوہی جانتی تھی زریاب کو جب اس پر ٹوٹ کر پیار آتا تھا تو تب ہی وہ اسکی آنکھوں کو چھوتا تھا۔۔۔اسلئیے وہ ریلیکس ہوتی سیدھی ہو بیٹھی۔
      آج کے بعد اگر غصے سے بھی ایسا کچھ کہا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔۔۔
      تم سے برا کوئی ہے بھی نہیں۔۔۔زریاب نے مسکراتے ہوئے اسکی ستواں ناک کھینچی۔
      تم بیویاں بہت چالاک ہوتی ہو ذرا بھنک لگ جائے کہ شوہر کی کمزوری ( پلوہی کے آنسو ) کیا ہے ہر بات پر اسی سے بلیک میل کرتی ہو۔۔۔۔پھر۔
      ہاں تو آپ شوہروں کو بھی تو چاہیے کہ ایسی بات ہی نہ کریں کہ بیویوں کو بلیک میل کرنا پڑے۔۔۔۔وہ ناز سے اٹھلائی۔
      اچھا اٹھو کھانے کو لاؤ کچھ بھوک لگ گئی ہے۔۔۔۔
      پہلے میری پوری بات بنا غصے اور ٹوکنے کے سنیں پھر جاتی ہوں کھانا لینے۔۔۔
      بولو۔۔۔۔۔زریاب نے ریلیکس ہو کر بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کر ٹانگیں سیدھی کیں وہ جانتا تھا پلوہی ایسے نہیں ٹلے گی
      زریاب اگر ایسا ہو جائے تو کوئی حرج بھی نہیں۔۔۔۔۔مہرو بھابھی اتنی ینگ ہیں ساری زندگی بیوگی کی چادر اوڑھ کر تو نہیں گزار سکتی حدید تو بہت چھوٹا ہے ابھی۔۔۔۔۔بھابھی کے دل مین بھی کچھ ارمان ہوں گے۔ خواہشات ہوں گی جو سہراب لالہ کے چلے جانے سے ادھورے رہ گئے ہیں تو کیا ہمارا فرض نہیں کہ انکی ادھوری خواہشات اور خوشیاں ان کو لٹا دیں۔۔۔کیونکہ اب ان کے بارے میں مجھے آپکو اور باقی گھروالوں کو ہی سوچنا ہے ناں۔۔۔۔۔۔۔وہ رسان سے بولی
      ارےے مجھ بھابھی کی شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہے پلوشہ۔۔۔۔۔
      تو پھر۔۔۔۔۔۔
      مگر یہ کہ مجھے انکی شمس خان سے شادی پر اعتراض ہے۔۔۔
      زریاب۔۔۔۔آپ نے ہی مجھ سے کہا تھا ناں کہ پلوشہ ماضی میں جو بھی ہو چکا اس سب کو بھلا کرنئی زندگی کی شروعات کرتے ہیں تو پھر اب خود کیوں گزرے ماضی میں جھانک رہے ہیں۔۔۔۔
      دیکھیں میں مانتی ہوں شمس لالہ سے سہراب خان کا خون ہوا مگر آپ جانتے ہیں کہ یہ سب کسی دشمنی کے تحت نہیں بلکہ غلطی سے ہوا تھا۔۔۔۔۔۔آپ کا رویہ لالہ کیساتھ کیسا ہے میں جانتی ہوں مگر میں نے کبھی بھی آپ سے اس بات کی شکایت نہیں کی۔۔۔۔پھر کیوں آپ سب بھلاتے نہیں ہیں۔۔۔۔
      لالہ میں کس چیز کی کمی ہے خان۔۔۔وہ پڑھے لکھے ہیں۔۔۔اچھی شکل وصورت کے مالک ہیں۔۔۔اتنی بڑی جاگیر کے اکلوتے وارث ہیں۔۔۔۔کچھ دیر کو اس بات کو بھول جائیں کہ لالہ سے آپ کے بھائی کا خون ہوا تھا۔۔۔۔پھر سوچ کر بتائیں کہ کیا وہ ایک مکمل انسان نہیں جس کو ہم مہرو بھابھی کو سونپ سکیں۔۔۔۔۔۔۔
      ایک منٹ۔۔۔زریاب پلیز میری بات مکمل ہونے دیں پہلے۔۔پلوہی نے اسے منہ کھولتے دیکھ کر روکا۔
      مہرو بھابھی بمشکل ہی تیس کی ہوں گی ابھی تو بہت لمبی زندگی پڑی ہے زریاب جسے وہ تنہا نہیں گزار سکتی ہیں۔۔۔۔کسی سہارے کی ضرورت ہے جو ان کو سنبھال سکے انکی خوشیاں لوٹا سکے انہیں مان دے سکے۔۔۔۔اور مجھے پورا یقین ہے شمس لالہ انکے لیے ایک اچھا سہارا ثابت ہوں گے زریاب۔۔۔۔وہ دونوں ایک جیسے غم سے گزر چکے ہیں اسلئیے آسانی سے ایک دوسرے کو سمجھ سکیں گے۔۔۔۔۔۔وہ پراثر انداز میں اسے قائل کر رہی تھی۔
      تمہیں کیا لگتا ہے بھابھی کے لیے سب کچھ بھلا کر اپنے شوہر کے قاتل کیساتھ زندگی گزارنا آسان ہو گا۔۔۔؟؟
      آسان نہیں تو مشکل بھی نہیں ہو گا میں جانتی ہوں بھابھی اپنے بڑوں کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں کریں گے بس آپ چپ رہیں اس معاملے میں۔۔۔
      ہم مہرو بھابھی کیساتھ کوئی زور زبردستی نہیں کریں گے زریاب۔۔۔اگر وہ مان جاتی ہیں تو پھر آپ کوئی ایشو کری ایٹ نہیں کریں گے اس معاملے کو لے کر۔۔۔۔آپ کو میری قسم۔۔۔پلوشہ نے زریاب کا ہاتھ تھام کر اپنے سر پر رکھا۔
      پلوہی جان۔پوری بلیک میلر ہو گئی ہو تم۔۔
      خان بس آپکے ساتھ رہ رہ کرہو گئی ہوں۔۔۔۔وہ مسکرائی۔
      فائن نہیں کروں گا کوئی ایشو کری ایٹ۔۔۔اب خوش۔۔۔
      بہت خوش۔۔۔۔مننه او ستا سره مینه لرم ډیر خان صاحب۔۔۔۔
      ( تھینکس اینڈ لو یو آ لوٹ خان صاحب)۔۔۔۔۔۔وہ شرارت سے پشتو میں کہتی بیڈ سے نیچے اتری۔
      اب جا کہاں رہی ہو جواب تو لیتی جاؤ اپنی بات کا۔۔۔۔۔زریاب نے اسے باہر کیطرف جاتے دیکھ کر آواز لگائی۔
      آ کر لوں گی جناب۔۔۔۔۔وہ مسکرا کر ہاتھ ہلاتی کمرے سے نکل گئی۔
      ____________
      زریاب قائل تو لال حویلی سے ہی ہو کر آیا تھا کہ اب مہرو بھابھی کی شادی کر دینی چاہیے مگر دل شمس خان سے شادی پر راضی نہیں تھا
      سمندر خان سے پوچھ گچھ کرنے پر اس سے سارا واقعہ اور پھر وہثبوت دیکھنے کے بعد وہ یہ بات تو اچھے سے جان چکا تھا کہ شمس سے کسی دشمنی کی بنا پر سہراب خان کے ساتھ وہ حادثہ(ہان البتہ یہ ضرور واضع ہوگیا تھا کہ اس حادثہ کا فائدہ کوئی اٹھا کر سہراب کا قتل کر گیا تھا) پیش نہیں آیا۔ کیونکہ ان لوگوں کی کبھی کسی بھی قبیلے سے کوئی دشمنی نہ رہی تھی۔۔۔۔خاقان آفریدی صلح جو اور نرم طبیعت کے مالک تھے لہذا انکی نہ ماضی میں کوئی دشمنی تھی اور نہ ہی حال میں۔۔۔۔۔تو پھر شمس سہراب لالہ کا خون کیوں کر کرتا۔۔۔۔؟؟
      کیونکہ زبیر خان نے ٹھیک ہی کہا تھا۔۔۔۔
      اگر شمس ارادتا سہراب کو قتل کرتا تو پھر اسکی ڈیڈ باڈی لے کر خود حویلی نہ آتا۔۔۔اور نہ ہی زبیر خان کو فون کر کے بتاتا کہ اس کے ہاتھوں سے اتفاقیہ طور پر سہراب خان آفریدی کو گولی لگ گئی ہے۔۔۔۔
      یہ سب اچانک ہوا تھا جس میں شمس کا کوئی قصور نہیں تھا زریاب۔۔۔تو پھر کیونکر اس بات کو لے کر انکار کیا جائے۔۔۔۔۔زبیر نے زریاب کو سمجھاتے ہوئے کہا
      وہ سب اس وقت لال حویلی کے دالان میں بیٹھے شمس کے پرپوزل پر بات کر رہے تھے۔۔۔۔
      اور ویسے بھی میں شمس کو ایک عرصے سے جانتا ہوں ہم کلاس فیلوز رہ چکے ہیں وہ دوست تھا میرا۔۔۔۔ایک اچھا اور سلجھا ہوا انسان ہے وہ۔۔۔۔۔
      یونیورسٹی کے زمانے میں وہ اکثر حویلی آتا جاتا رہتا تھا اماں بھی مل چکی ہیں شمس سے۔۔۔۔زبیر خان نے اماں کی طرف اشارہ کیا
      ہاں زریاب بچے۔۔۔۔شمس اچھا اور سلجھا ہوا لڑکا ہے زبیر ٹھیک کہہ رہا ہے۔۔۔اماں نے بھی شمس خان کی حمایت کی۔
      اس گھر کے بڑے اور مہرو کے بھائی ہونے کے ناطے مجھے اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں ہے زریاب۔۔۔۔۔انہوں نے بھی اپنی بیٹی تمہیں دے رکھی ہے پھر اس رشتے کے پیچھے ان لوگوں کی بری نیت نہیں ہو سکتی۔۔۔۔تم میری بات کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچو۔۔۔۔۔زبیر نے بات مکمل کر کے زریاب کا کندھا تھپکا۔
      مجھے بھابھی کی شادی پر کوئی مسلہ نہیں ہے لالہ میں شمس خان کو انکے شوہر کے روپ میں نہیں دیکھنا چاہتا بس۔۔۔۔کوئی اور اچھا رشتہ بھی تو مل سکتا ہے ہمیں۔۔۔۔زریاب شکستہ سا بولا
      مل سکتا ہے۔۔۔۔۔
      مگر۔۔۔۔۔۔
      مگر کچھ نہیں زبیر۔۔۔۔یہ یہاں کا بڑا نہیں ہے کہ اس کے فیصلے کو ترجیع دی جائے۔۔۔۔مجھے تمہیں اور بھرجائی (مہرو کی امی) کو جب کوئی اعتراض نہیں تو پھر زریاب کا اعتراض کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔۔۔۔خاقان آفریدی نے بھی زبیر خان کے فیصلے کی حامی بھری۔
      جب میرا انکار یا اقرار کوئی اہمیت نہیں رکھتا تو پھر اس محفل کا حصہ کیوں بنا رکھا ہے مجھے۔۔۔۔آپ لوگوں کا جو دل کرے وہ فیصلہ کریں۔۔۔میں صرف مہرو بھابھی کے فیصلے کو ہی ترجیع دوں گا اگر ان کو کوئی مسلہ ہوا تو میں ان کے ساتھ کھڑا ہوں گا بابا جان۔۔۔۔
      میں گاڑی میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔۔۔۔وہ سپاٹ چہرے سے کہتا باہر نکل گیا۔
      وہاں تو سب راضی تھے شمس خان کے رشتے پر سوائے زریاب کے۔۔۔۔۔
      جب میں مہرو بھابھی کے فیصلے کیساتھ ہوں تو پھر مزید اس معاملے پر کچھ اور سوچنے کو باقی نہیں بچتا۔۔۔زریاب نے لال حویلی میں ہوئی بات چیت کو سوچ کر لمبی سی سانس خارج کی اور خود کو ریلیکس کرتا تکیے پر سر رکھ کر لیٹ گیا۔۔
      _____________
      میں زریاب کو تو ٹھنڈا کر چکی ہوں اس معاملے پر مگر مہرو بھابھی کو کیسے قائل کروں گی۔۔۔۔؟؟
      زریاب نے ٹھیک ہی کہا تھا۔۔۔
      مہرو بھابھی کے لیے ہر گز آسان نہیں ہو گا شمس لالہ کو اپنے شوہر کے روپ میں قبول کرنا۔۔۔۔وہ سوچتی ہوئی سیڑھیاں اتر رہی تھی جب گل نے بی بی جان کا پیغام دیا وہ پلوہی کو اپنے کمرے میں بلا رہیں تھیں۔۔۔
      پلوشہ بلاوے پر انکے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔
      بی بی جان آپ نے بلایا۔۔۔۔۔؟؟اس نے بی بی جان کے کمرے میں آ کر پوچھا۔
      ہاں بیٹا آؤ بیٹھو یہاں مجھے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔
      پلوہی جانتی تھی کہ ضروری بات کیا ہو گی اسلیئے سر ہلاتی انکے سامنے بیٹھ گئی۔
      خان نے مجھے بتایا کہ لال حویلی والوں نے کیوں بلوایا تھا انہیں۔۔۔۔بی بی جان نے گلا کھنکار کر بات شروع کی۔
      جی۔۔۔۔۔۔
      تم جانتی تھی پہلے سے یہ بات۔۔۔۔۔؟؟انہوں نے سوالیہ نظروں سے پلوشہ کو دیکھا
      نہیں بی بی جان اماں اور بابا نے مجھ سے پوچھے بغیر ہی بھابھی کہ گھر والوں سے بات کر لی تھی مجھے بھی کل ہی بتایا اماں نے۔۔۔۔۔اگر مجھے علم ہوتا تو میں آپ لوگوں سے اجازت کے بعد ہی مہرو بھابھی کہ گھر والوں سے بات کرنے کا کہتی انہیں۔۔۔۔۔
      ہوں۔۔۔۔۔۔بی بی جان مطمعن ہوئیں۔۔
      آپ کو برا لگا بی بی جان۔۔۔۔؟؟
      نہیں بچے مجھے کیوں برا لگے گا مہرو میری بھتیجی بھی ہے میں بھی چاہتی ہوں کے وہ ایک خوشگوار زندگی گزارے۔۔۔اس رشتے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے لال حویلی میں۔۔۔۔یہاں۔
      بھی صرف زریاب اور مہرو کو ہی اعتراض ہے۔۔۔۔۔
      بی بی جان زریاب سے بات ہو گئی ہے میری انہوں نے کہا کہ اگر بھابھی راضی ہوئی تو انکو بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔۔۔۔بھابھی سے بات کر لی آپ نے۔۔۔۔؟؟؟
      ہاں ابھی تمہارے آنے سے پہلے کی تھی بھابھی ( مہرو کی امی )کا فون آیا تھا کہہ رہی تھی کہ وہ زبیر کو بھیج رہی ہیں مہرو کو لینے کے لیے اس لیے ایک دفعہ میں بات کر لوں اس سے۔۔۔۔
      پھر کیا کہا بھابھی نے۔۔۔؟؟پلوہی پرجوش ہوئی۔
      کہہ رہی ہے اسے شادی ہی نہیں کرنی۔۔۔۔وہ حدید کیساتھ ہی زندگی گزار لے گی۔۔۔۔اسے اب کسی سہارے کی ضرورت نہیں رہی ہے۔۔۔۔
      بی بی جان کی بات پر پلوہی کا منہ لٹک گیا۔
      میں نے تمہیں اسی لیے بلایا ہے پلوشہ بچے مہرو سے بات کرو جا کر کہ زندگی بغیر کسی مرد کے سہارے کے گزارنا آسان نہیں ہے۔۔۔۔اس لیے ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچے اس بارے میں۔۔۔۔
      جی بی بی جان میں کرتی ہوں بات۔۔۔۔
      ہوں۔۔۔۔زبیر کے آنے سے پہلے ہی بات کر لینا شاید شام تک وہ آ جائے مہرو کو لینے۔۔۔۔
      جی میں جاتی ہوں ابھی۔۔پلوہی سر ہلاتی کمرے سے باہر نکلی اور بات کرنے کے لیے مناسب الفاظ ترتیب دیتی مہرو کے کمرے کیطرف چل پڑی
      _______________
      پلوشہ جب مہرو کے کمرے میں داخل ہوئی تو مہرو صوفے پر گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی۔۔
      بھابھی۔۔۔۔۔اس نے پاس آ کر پکارا۔۔
      ہوں۔۔۔۔مہرو آنسو پونچھتی سیدھی ہوئی۔
      آپ رو رہی ہیں۔۔۔۔؟؟؟پلوہی نے اسکی سرخ آنکھوں کو دیکھ کر پوچھا۔۔
      نہیں۔۔۔۔بس ایسے ہی تم آؤ بیٹھو۔۔۔۔وہ افسردہ سا مسکرا کر بولی۔
      پلوشہ اسکے ساتھ ہی صوفے پر ٹک گئی۔
      بھابھی وہ میں۔۔۔۔اب پلوہی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیسے بات شروع کرے۔۔۔۔
      بھابھی وہ میں آپ سے ضروری بات کرنے آئی تھی۔۔۔۔وہ ہچکچا کر بولی۔
      اگر تمہیں بی بی جان نے یہاں بھیجا ہے تو میں اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتی پلوہی۔۔۔۔۔۔
      بھابھی پلیز ایک دفعہ میری بات تو سن لیں۔۔۔وہ ملتجی ہوئی۔
      پلوشہ پلیز میرے لیے یہ سب آسان نہیں ہے۔۔۔۔
      بھابھی شمس لالہ بہت اچھے ہیں۔۔۔
      پلوہی کی بات پر مہرو نے پرشکوہ نظروں سے اسے دیکھا
      لالہ نے سہراب خان کو جان بوجھ کر بلکل نہیں مارا تھا بھابھی۔۔۔۔پلوشہ نے وضاحت دی۔
      مین جانتی ہون۔۔۔۔
      تو پھر اس بات کو سوچنے میں کیا برائی ہے بھابھی۔۔۔۔
      کوئی برائی نہیں ہے پر میں شادی ہی نہیں کرنا چاہتی تو پھر سوچ کر کیا کروں گی۔۔۔۔؟؟مہرو دکھی لہجے میں بولی۔
      بھابھی آپ لالہ کیساتھ بہت اچھی زندگی گزاریں گی مجھے پورا یقین ہے۔۔۔۔ایک بار۔۔۔۔صرف ایک بار سب کچھ بھلا کر اس بارے میں سوچیں تو۔۔۔۔
      سوچ لوں گی۔۔۔۔وہ کہہ کر کھڑی ہوئی۔
      بھابھی پلیز ہم سب آپ کے اچھے کے لیے ہی کہہ رہے ہیں۔۔۔۔
      میں جانتی ہوں پلوہی۔۔۔۔سب میری بھلائی چاہتے ہیں۔۔۔۔
      آپ خفا ہو گئی ہیں مجھ سے۔۔۔۔؟؟
      میں کیوں خفا ہوں گی تم سے پلوہی۔۔۔۔
      بھابھی میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی پہلے ۔کل ہی اماں نے بتایا کہ بابا زبیر لالہ سے رشتے کی بات کر چکے ہیں۔
      میں تم سے بلکل خفا نہیں ہوں پلوہی۔۔۔۔تم بہت اچھی ہو اور میں تم سے کبھی خفا نہیں ہو سکتی۔۔۔۔مہرو نے اسکے گال پر ہاتھ رکھے پیار سے کہا۔
      تو پھر میری بات مان لیں ناں بھابھی۔۔۔پلوشہ نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔
      کہا ہے ناں سوچوں گئی۔۔
      آپ مجھےھٹال رہی ہین۔۔۔
      نہیں ٹال رہی ہوں۔۔۔ابھی لال حویلی جاؤں گی تو وہاں بھی سب یہی بات کریں گے جیسے صبح بی بی جان اور بابا جان نے کی۔۔۔۔اور اب تم۔۔۔۔
      سب کے بار بار کہنے سے مجھے ماننا پڑے گا پلوشہ۔۔۔۔کیونکہ میں ایک عورت ہوں نا۔
      میری اپنی کوئی مرضی ہو نہ ہو پر مجھے اپنے گھر والوں کی مرضی کے مطابق ہی چلنا پڑے گا
      یہی زندگی ہے ہم عورتوں کی ڈگڈگی بن کر زندگی گزارتے جاؤ۔۔۔۔وہ تلخی سے کہتی کبڈ کیطرف بڑھی
      تم بھی تو جانتی ہو۔۔۔۔تمہارے ساتھ ایک عورت ہونے کے ناطے جو ہو چکا ہے وہ سب بھولا تو نہیں ہو گا تمہیں۔۔۔؟؟مہرو نے کبڈ کا ایک پٹ کھولتے ہوئے کہا
      مجھے یاد ہے سب بھابھی شاید چاہ کر بھی بھول نہیں پاؤں گی مگر اسکے بدلے مجھے اتنا کچھ مل چکا ہے کہ میں اس سب کو خود ہی یاد نہیں کرنا چاہتی۔۔۔۔۔
      آپ کو یاد ہے ایک دفعہ آپ نے ہی کہا تھا کہ پلوہی صبر سے برداشت کر لو ایک نہ ایک دن تمہیں اس صبر کا پھل ضرور ملے گا۔۔۔۔تو بھابھی مجھے وہ پھل مل چکا ہے۔۔۔اس لیے میں چاہتی ہوں آپ بھی دل میں کوئی خوف، وہم یا زبردستی رکھے بغیر سوچیں۔۔۔
      ہم عورتوں کی واقعی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی ہم اپنے باپ، بھائیوں اور شوہروں کی خواہشات کے آگے سر جھکاتی آئی ہیں اور آگے بھی جھکاتی رہیں گی۔۔۔
      مگر اس بات پر بھی انکار نہیں کہ ایک عورت کو زندگی گزارنے کے لیے مرد کے سہارے کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔۔چاہے وہ سہارا باپ کی صورت میں ہو بھائی یا پھر شوہر کے۔۔۔۔ان سہاروں کے بغیر ہم عورتیں کچھ بھی نہیں ہیں بھابھی۔۔۔۔پلوہی رسان سے کہتی مہرو کو قائل کر لینا چاہتی تھی
      میں مانتی ہوں یہ بات کہ مرد کا سہارا ایک عورت کے لیے بہت ضروری ہے پلوشہ۔۔۔اس لیے میں سوچوں گی اس بارے میں۔۔۔
      آپ یہ مت سوچئیے گا بھابھی کہ شمس لالہ میرے بھائی ہیں میں اس لیے آپ کو فورس کر رہی ہوں۔۔۔میں صرف اتنا چاہتی ہوں بھابھی کہ اب آپ بھی ایک اچھی سی زندگی گزاریں ہماری طرح۔۔۔۔پلوہی کہتی ہوئی اسکے پیچھے ہی کبڈ تک آئی۔
      ہوں۔۔۔۔مجھے تمہارے خلوص پر کوئی شک نہیں ہے پلوہی۔۔۔مہرو نے اسکے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں لیا۔
      بھابھی آپ شمس لالہ کیساتھ بہت خوش رہیں گی۔۔۔۔اس لیے میری ریکویسٹ ہے کہ آپ اس بارے میں ضرور سوچئیے گا کسی بھی دباؤ کے بغیر۔۔۔۔پلوہی نے اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر دبائے ۔
      میری خواہش ہے کہ آپ میری بھابھی بنیں۔۔۔۔۔وہ مسکرا کر بولی
      ہوں سوچوں گی ضرور۔۔۔۔مہرو نے مدھم سا مسکرا کر پلوہی کو مطمعن کیا۔
      مگر وہ ابھی خود مطمعن نہیں تھی۔۔۔۔
      _____________
      زبیر خان مہرو اور حدید کو آ کر لے گیا تھا۔۔۔۔
      پلوہی کافی بے چینی سے مہرو کے فیصلے کی منتظر تھی۔۔۔۔
      مہرو کو لال حویلی گئے دو ہفتے ہونے والے تھے مگر ابھی تک وہاں سے ہاں یا ناں میں کوئی جواب نہیں دیا گیا تھا۔۔۔
      پلوشہ کی بات مہرو سے ہر دو ، چار دن بعد ہو جاتی تھی مگر اس بارے میں دوبارہ انکے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔۔۔
      پلوشہ کی اب بے چینی آوٹ آف کنٹرول ہوئی تو وہ بی بی جان کے پاس آ بیٹھی۔
      بی بی تخت پر بیٹھین تسبیح کر رہی تھیں۔۔۔
      مہرو بھابھی کب تک آ رہی ہیں بی بی جان آپ کی بات ہوئی ان سے۔۔۔۔؟؟وہ دوپٹہ انگلی پر لپٹتی بے چینی سے بولی
      ہوں۔۔۔ہوئی تھی بات کہہ رہی تھی ابھی کچھ دن اور رکے گی وہاں۔۔۔۔۔
      جی۔۔۔۔۔پلوہی نے اثبات میں سر ہلایا اب وہ اگلی بات پوچھنا چاہ رہی تھی مگر سمجھ نہیں آ رہا تھا کیسے پوچھے۔۔۔۔۔
      بی بی جان نے اسے بے چینی سے پہلو بدلتے دیکھ کر خود ہی پوچھ لیا
      پلوشہ بچے کوئی اور بات کرنی ہے کیا۔۔۔۔؟؟؟
      جج جی۔۔۔بی بی جان۔۔۔
      تو پھر پوچھو ہچکچا کیوں رہی ہو۔۔۔۔۔وہ مسکرائیں۔
      وہ۔۔۔۔۔۔۔بی بی جان مہرو بھابھی نے کیا فیصلہ کیا پھر۔۔۔۔۔۔؟؟؟دل کی بات زبان پر آئی۔
      کیا تمہاری بات نہیں ہوئی مہرو سے۔۔۔۔۔؟؟؟
      ہوئی تھی مگراس بارے میں بات نہیں ہوئی۔۔۔۔
      ہوں۔۔۔۔بھابھی سے بات ہوئی تھی انہوں نے ہی بتایا کہ مہرو نے وقت مانگا ہے سوچنے کے لیے۔۔۔۔۔وہ لوگ تو راضی ہیں مگر بھابھی کہہ رہی تھیں زبیر نے کہا ہے کہ مہرو کو فورس نہ کیا جائے اس معاملے پر وہ جو بھی فیصلہ کرے گی وہ ہی جواب دلاور خان تک پہنچا دیا جائے گا۔۔۔۔۔اب دیکھو مہرو کب فیصلہ کرتی ہے۔۔۔۔۔بی بی جان نے تفصیلا پلوہی کو آگاہ کیا۔
      ہوں۔۔۔۔میں بھی منتظر ہوں بھابھی کے فیصلے کی۔۔۔وہ مایوسی سے بولی۔
      زریاب نہیں آیا پشاور سے ابھی۔۔۔۔؟؟؟
      کل شام تک آئیں گے ابھی بات ہوئی تھی میری ان سے۔۔۔۔۔آپ کے لیے چائے لاؤں بی بی جان۔۔۔۔۔
      ہوں لے آؤ۔۔۔۔۔۔سردی بڑھ رہی ہے اب تو ہر دو گھنٹے بعد چائے پینے کو دل کرتا ہے۔۔۔۔۔بی بی جان مسکرا کر بولیں ۔
      میں ابھی لاتی ہوں۔۔۔۔پلوشہ بھی مسکراتی ہوئی باہر نکل گئی۔
      _______________
      بی بی جان سے بات کرنے کے بعد پلوہی کی بے چینی میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔۔۔۔مہرو بھابھی نہجانے کیا فیصلہ کریں گی پہلے تو امید تھی کہ انکے گھر والے راضی ہیں اس رشتے پر اب تو زبیر خان بھی فیصلہ بھابھی کو سونپ چکا ہے۔۔۔اور بھابھی۔۔۔۔۔؟؟؟ وہ پریشانی سے ٹہلتی سوچ رہی تھی۔
      میں بھابھی سے بات کروں پھر سے۔۔۔؟؟
      نہیں۔۔۔وہ کیا سوچیں گی میرے بارے میں کہ میں نے اسکا اتنا خیال رکھا اور یہ صرف اپنے بھائی کے بارے میں ہی سوچ رہی ہے۔۔۔۔مجھے خاموشی سے انتظار کرنا ہو گا۔۔۔زندگی تو انہوں نے گزارنی ہے بہتر ہے کہ وہ خود ہی بنا دباؤ کے فیصلہ کریں۔۔۔۔
      کیا سوچ رہی ہو اسطرح اسٹیچو بن کر۔۔۔۔۔زریاب ابھی کمرے میں آیا تھا پلوہی کو ایک ہی جگہ سٹل دیکھ کر اسکے پاس آ کر بولا
      آپ۔۔۔۔آپ کب آئے۔۔۔۔۔؟؟پلوہی زریاب کی آواز پر چونک کر سیدھی ہوئی۔۔
      ابھی آیا ہوں۔۔۔۔آپ کس مراقبے میں مصروف ہیں۔۔۔۔وہ مسکرایا
      کسی مراقبے میں بھی نہیں۔۔۔اور آپ تو کل آنے والے تھے ناں۔۔۔؟؟
      تو واپس چلا جاؤں کیا۔۔۔۔؟؟زریاب جیکٹ اتارتا خفگی سے بولا
      ارے نہیں میں نے تو ایسے ہی پوچھ لیا۔۔۔اچھا بتائیں میری ساری چیزیں لائے ہیں ناں۔۔۔۔۔؟؟
      نہ کوئی خیر خیریت نہ کھانا پینا۔۔۔بس اپنی چیزوں کی پڑی ہے۔۔۔۔بہت مطلب پرست ہو گئی ہو۔۔۔۔۔وہ خفا ہوا۔۔
      پلوشہ اسکی بات پر کھلکھلا اٹھی۔۔۔۔
      اچھا بتائیں کیسے ہیں۔۔۔۔؟؟پورے دو دن میرے بغیر کیسے گزرے۔۔۔۔؟؟ اور کیا کھانا پینا پسند کریں گے خان صاحب۔۔۔۔وہ شرارت سے کہتی دل پر ہاتھ رکھے جھکی۔
      زریاب اسکی حرکت پر مسکرا دیا۔۔۔۔
      دو دن بہت خراب گزرے تمہارے بغیر تم جیسی چڑیل مجھے اپنا عادی ہی اس قدر بنا چکی ہے کہ اب تمہارے بغیر ایک دن بھی گزارنا مشکل ہے۔۔۔زریاب خان بات کرتے اسکی طرف بڑھ رہا تھا۔۔
      میں ہوں ہی ایسی کہ لوگ جلد ہی میرے اسیر ہو جاتے ہیں۔۔۔وہ اترا کر بولی۔
      بلکل۔۔۔۔زریاب مسکراہٹ دباتا اس تک پہنچا۔
      زریاب کیا کر رہے۔۔۔۔پلوہی اس کی گرفت میں مچلی۔
      اب دو دن کا رومینس بھی تو کرنا ہے جو ڈیو ہے۔۔۔۔۔وہ آنکھ دباتا بولا
      بہت خراب ہیں آپ۔۔۔۔پہلے شاور لے کر فریش ہوں کچھ کھا پی لیں پھر رومینس کیجئے گا۔۔۔۔لہذا اب مجھے چھوڑیں۔۔۔۔۔وہ کاموں کو ترتیب دے کر بولی
      تم ایسا کرو ایک رومینس چارٹ بنا کر کمرے میں دروازے کے پاس لگا دو۔۔۔ جس پر رومینس کرنے کا دن اور ٹائم لکھا ہو۔۔۔۔تاکہ مجھے آسانی ہو سکے۔۔۔۔سارے موڈ کو خراب کر دیتی ہو۔۔۔۔زریاب چڑتا خفگی سے بولا۔۔
      اچھا بس اتنے معصوم مت بنیں جیسے میں تو آپ کو جانتی نہیں۔۔۔پلوہی مسکراتے ہوئے اسکی گرفت سے نکلی۔۔
      میں آپ کے لیے چائے لینے جا رہی ہوں تب تک فریش ہو جائیں۔۔۔۔ہری اپ۔۔۔۔۔
      چائے تمہارے ہاتھ کی نہ ہو تو چلے گی ورنہ رہنے دو چائے۔۔۔۔زریاب بدمزا منہ بنا کر بولا۔۔
      اب اتنی بھی بری نہیں بتاتی۔۔۔وہ خفا ہوئی۔
      یہ تو ان سے پوچھو جو تمہارے ہاتھ کی جوشاندہ نما چائے پینے کا شرف حاصل کر چکے ہیں۔۔۔۔۔
      اونہہ۔۔۔۔خود تو ہل کر ایک گلاس پانی تک نہیں پی سکتے اور دوسروں کی بنی چیزوں میں سے نقص نکالتے ہیں۔۔۔۔وہ ناک چڑھا کر بولی۔۔
      بہت چالاک ہوتی جا رہی ہو تم۔۔۔۔۔
      پھر بھی آپ سے کم ہی ہوں۔۔۔۔وہ بھی بدلہ چکاتی باہر کو بھاگی کیونکہ زریاب اسے پکڑنے کو آگے بڑھا تھا پر پلوہی نے بروقت باہر نکل کر دروازہ بند کر دیا تھا۔۔
      __ _________
      مہرو اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑی تھی۔۔۔اسے لال حویلی آئے دو ہفتوں سے اوپر ہو گیا تھا۔۔۔۔وہ جب یہاں آئی تھی تو اماں نے زبیر لالہ کی موجودگی میں ہی اس سے شمس خان کے پرپوزل پر بات کی تھی۔۔۔۔اسکی ہچکچاہٹ کو دیکھتے ہوئے زبیرخان نے یہ کہہ کر اسے مطمعن کر دیا تھا کہ اسکے ساتھ کوئی زبردستی نہیں ہو گی وہ جو بھی فیصلہ کرے گی وہی سب کو قبول ہو گا۔۔۔۔جسکی وجہ سے مہرو کافی حد تک پرسکون ہو گئی تھی ۔
      مگر اب وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کیونکہ زبیر لالہ نے جو دوسرا آپشن اس کے سامنے رکھا تھا اس سے وہ پھر سے بہت زیادہ اپ سیٹ ہو گئی تھی۔۔۔
      اس دن تو انہوں نے صرف شمس کے پرپوزل پر اسکا ذاتی ڈسیزن مانگا تھا مگر اس سے اگلے دن وہ مہرو کے کمرے میں آ کر اس کے لیے آئے دوسرے رشتہ کا پرپوزل بھی بتا گئے تھے۔۔۔۔جس سے مہرو بے چین ہو گئی تھی کیونکہ زبیر لالہ نے فیصلہ کرنے کی آزادی تو اسے دے دی تھی مگر ساتھ پر کاٹ کر۔۔۔۔۔۔۔
      انکا کہنا تھا کہ مہرو کو ان دو پرپوزلز میں سے ہی ایک کو فائنل کرنا ہے۔۔۔۔شطرنج کا صرف ایک پتہ ہی مہرو کہ ہاتھ میں دیا تھا انہوں نے۔۔۔۔۔
      پلوشہ نے ٹھیک ہی کہا تھا ہم عورتیں اپنے مردوں کے لیے قربانی دیتی آئی ہیں اور دیتی رہیں گی۔۔۔۔
      دوسرا پرپوزل مہرو کے تایا زاد ابرار خان کا تھا جس کے تین بچے تھے۔۔۔بڑا بیٹا دس سال کا تھا۔۔۔۔بیوی چند ماہ پہلے چل بسی تھی اور اب پھر سے ابرار خان کو شادی کرنے کی سمائی تھی۔۔
      مہرو ابرار خان کے رنگین مزاج کو بھی برسوں پہلے سے جانتی تھی۔۔۔جانتے تو سب ہی تھے پھر بھی زبیر لالہ نے نہجانے کیوں ان لوگوں کو منع کیے بغیر پرپوزل مہرو کے سامنے رکھ دیا تھا۔۔۔۔
      اب مہرو کے پاس صرف دو آپشن تھے شمس خان۔۔۔یا۔۔۔۔۔۔ابرار خان۔۔۔۔
      اسے ان دونوں میں سے کسی ایک کو سلیکٹ کرنا تھا انکار کا آپشن زبیر خان اس سے واپس لے چکا تھا۔
      وہ کوئی بھی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی۔۔۔۔اسی لیے اس نے واپس جانے کا سوچا تھا تاکہ وہاں جا کر زریاب سے مشورہ کر سکے۔۔۔۔۔وہ بھابھی دیور اور کزنز کے علاوہ اچھے دوست بھی تھے جو بلا جھجھک اپنے پرسنلز ایک دوسرے سے شئیر کر لیا کرتے تھے۔۔ اسی لیے مہرو نے زریاب سے مشورہ کرنے کا سوچ کر خود کو مطمعن کر لیا تھا۔
      مہرو جانے سے پہلے شہربانو سے ملنے آئی تھی۔۔۔۔شہربانو مہرو کی خالہ زاد اور ابرار خان کی چھوٹی بھابھی تھی۔
      وہ کافی دیر شہربانو سے باتیں کرنے کے بعد واپس آنے کے لیے راہداری میں سے گزر رہی تھی جب سامنے سے ابرار خان آتا دیکھائی دیا۔۔۔
      مہرو نے اسے دیکھ کر سر جھکا لیا اور بڑے بڑے قدم اٹھانے لگی تاکہ جلدی سے باہر نکل جائے۔۔۔
      مگر ابرار خان مہرو کو بازو سے پکڑ کر أپنی طرف کھینچنے۔ لگا۔
      اور مہرو بےبسی اور لاچاری سے ابرار خان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر خود کو چھڑانے کی سخت جہد وجہد کرنے لگی۔
      مگر کہاں نازک سی مہرو بی بی اور کہاں ابرار خاں اڑیل پٹھان؟؟؟۔
      ابرار مہرو کو اٹھا کر اپنے کمرے مین لیجانا چا ہتا تھا۔
      جہان پر وہ؟؟؟۔۔
      جاری ہے ۔
      Vist My Thread View My Posts
      you will never a disappointed

      Comment


      • #33
        قفس کی چڑیا۔
        سیکنڈ لاسٹ۔

        مہرو نے ایک تیز سخت جھٹکے سے خود کو چھڑایا اور ابرار خان پر چلا اُٹھی۔
        کیا بدتمیزی ہے یہہ۔۔ابرار لالہ۔۔؟؟؟مہروسر اٹھا کر بہت ناگواری سے بولی تھی۔
        ارےے ۔میں نے تو اپنارشتہ بھجوایا تھا۔تم سےشادی کرنا چاہتا ہون مگر زبیر خان نے مجھے کوئی جواب ہی نہیں دیا۔۔۔وہ گردن اکڑا کر بولا ۔
        تو۔۔۔۔۔۔؟؟؟
        تو یہ کہ کب تک جواب ملے گا۔۔تم ہی بتا دو ؟؟۔۔وہ کلف لگی گردن اکڑائے کھڑا تھا۔
        ابرار لالہ ابھی بھابھی کو مرے صرف تین ماہ ہوئے ہیں اور آپ کو پھر سےشادی کی پڑ گئی۔۔۔۔مہرو نے شرم دلانا چاہی۔
        مہروکی بات پر وہ اپنی مونچھوں کو بل دیتا مسکرایا۔
        ارےےے مہرو ڈارلنگ مین۔ میں مرد ہوں۔۔۔۔مرد۔۔۔۔
        مہرو بی بی۔۔۔۔؟
        مرد ہیں تو مرد بنیں یوں اپنے گھر کی بہن بیٹیوں کا راستہ روکنا۔۔یہہ کہاں کی مردانگی ہے۔۔۔۔
        مہرو نے اسکی طرف دیکھا اور ابرار خان کی آنکھوں میں ہمیشہ والی گندگی دیکھ کر وہ بات ادھوری چھوڑتی سائیڈ سے ہو کر آگے بڑھ گئی۔۔
        اونہہ۔۔۔چیپ گھٹیا۔انسان۔۔۔وہ بڑبڑاتی ہوئی باہر نکلی۔
        مہرو تو وہان سے نکل گئی مگر پیچھےکھڑا ابرار خان سوچے جا رہا تھا۔مہرو بی بی تمہین پانے کیلیے نہجانے مجھے کیا کیا کرنا پڑ رہا ہے۔پہلے اپنی بیوی کا خود گلا گھونٹ کر تمہارے آنے کا راستہ کلئیر کیا اور پھر۔۔۔؟؟؟
        مجھے لگتا ہے مہرو بی بی تمہین حاصل کرنے کیلئے کچھ اور پلاننگ بھی کرنا پڑے گئی۔

        مہرو نے جب سے جوانی میں قدم رکھا تھا تب سے ہی اسنے ابرار خان سے کترانا شروع کر دیا تھا۔۔۔۔
        ایک تو وہ بہت رنگین مزاج مرد تھا کلی کلی منڈلانے والا شوقین بھونرا۔اور دوسرا مہرو کو ہمیشہ اسکی بے باک نظروں سے عجب الجھن ہوتی تھی۔۔۔۔۔۔۔ جب کبھی مہرو کی نظریں اسکی نظروں سے ملتیں تھیں تو مہرو کا دل چاہتا تھا کہ وہ کہیں چھپ جائے کسی ایسی جگہ پر جہاں ابرار خان کی گندی اور بےباک نظریں اس تک نہ پہنچ پائیں۔۔۔حالانکہ وہ مہرو سے چودہ، پندرہ سال بڑا تھا پھر بھی مہرو اس کے سامنے آنے سے ہمیشہ کتراتی تھی شادی سے پہلے تو وہ تایا کے گھر آتے ہوئے بانو کو ہمیشہ اپنے ساتھ لاتی تھی ابرار خان سے متعلق اپنے دل میں چھپے ڈر اور خوف کی وجہ سے اس کا سامنا کرنے سے بھی گریز کرتی تھی۔۔۔۔۔
        اور اب وہ کیونکر اس شخص کے حق میں فیصلہ دے دے گی جس کی نگاہوں کی بےپردہ تپش سے ایک عرصہ اس نے کتراتے اور چھپتے ہوئے گزارا تھا۔
        مہرو نے واپسی کہ چند منٹوں میں ہی فیصلہ کر لیا تھا۔۔۔ابرار خان سے یہہ تھوڑی دیر کی ملاقات ہی اسکے ڈسیزن لینے میں بہت مددگار ثابت ہوئی تھی۔
        _________________
        اوووف۔۔۔ف۔۔۔ف۔۔۔۔زریاب خان مجھے یقین نہیں آ رہا کہ ایسا ہو چکا ہے۔۔۔۔پلوہی خوشی سے بھرپور آواز میں چہک اٹھی تھی۔
        جبکہ زریاب ہاتھوں میں سر گرائے بیٹھا تھا۔۔۔ابھی کچھ دیر پہلے لال حویلی سے فون آیا تھا کہ مہرو بھابھی نے شمس خان کہ حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔۔۔
        جب سے یہ خبر سنی تھی پلوشہ کے تو قدم ہی زمین پر نہیں ٹک رہے تھے اسکے برعکس زریاب سنجیدہ اور خاموش سا ہو چکا تھا۔۔۔۔
        زریاب نے پلوہی کی بات پر سر اٹھا کر اسکے خوشی سے جگمگاتے چہرے کو دیکھا اور لمبی سی سانس لیتا اٹھ کر پلوہی کی طرف آیا۔۔
        میں ابھی ایک تھپڑ سے یقین دلا دیتا ہوں تمہیں کہ ایسا ہو چکا ہے۔۔۔۔زریاب نے اسے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے پیچھے سے حصار میں لے کر بولا۔
        ویری فنی۔۔۔۔۔۔پلوہی نے ناک چڑھایا۔
        اٹس ناٹ فنی۔۔یو ناؤ۔۔آئی کین ڈو۔۔۔۔
        ارےے خان صاحب میں جانتی ہوں آپ ایسا کر سکتے ہیں ماضی میں بھی کافی تھپڑ کھا چکی ہوں۔۔۔۔
        پلوہی بھول بھی جاؤنا ماضی کو۔۔۔۔زریاب نے اسکی لٹ انگلی پر لپیٹی۔
        خان صاحب بھول چکی ہون۔۔۔۔۔
        پھر بھی ہمیشہ طعنے دیتی رہتی ہو۔۔۔۔۔
        کبھی کبھار دینے پڑ جاتے ہیں۔۔۔۔پلوہی معصومیت سے بولی
        مت دیا کرو کبھی کبھار بھی مجھے وہ سب یاد آ جاتا ہے جو میں تمہارے ساتھ کر چکا ہوں۔۔۔۔۔وہ افسردگی سے بولا
        ارےےےمیں مذاق کر رہی تھی خان۔۔جی۔پلوہی نے اسکے سنجیدہ سے تاثرات پر آئینے میں نظر آتے اسکے عکس کو دیکھ کر مسکرا کر کہا۔
        ہوں۔۔۔۔جانتا ہوں۔۔۔۔زریاب اسکی لٹ کھینچتا ہوا پھر پیچھے ہٹ گیا۔
        خان آپ اتنے سیریس کیوں ہو رہے ہیں۔۔۔۔ مہرو بھابھی کا فیصلہ آپ کو اچھا نہیں لگا کیا۔۔۔؟؟پلوہی نے پوچھتے ہوئے زریاب سے سیگرٹ چھینی جو وہ منہ میں لے چکا تھا۔
        نہیں پلوہی مجھے بھابھی کے اس ڈسیزن پر کوئی اعتراض نہیں ہے میں ہمیشہ انکے ساتھ ہوں۔۔۔۔زریاب نے سنجیدگی سے کہا
        یہی بات مسکرا کر بھی تو کہ سکتے ہیں۔۔۔۔۔
        یہ سیگرٹ واپس کرو اور جاؤ جا کر کچھ کام وام کرو دن بدن پھیلتی ہی جا رہی ہو اور مجھے موٹی لڑکیاں بلکل پسند نہیں۔۔۔۔
        او ہیلو مسٹر۔۔۔۔میں لڑکیاں نہیں آپکی بیوی ہوں۔۔۔۔موٹی، بھدی ،کالی، پیلی جیسی بھی ہو جاؤں آپکی بیوی ہی رہوں گی سمجھے۔۔۔۔۔پلوہی انگلی اٹھا کر بولی۔
        سمجھ گیا۔۔جانم۔۔زریاب نے اسکی انگلی پکڑ کر ہلکی سی مڑوری۔
        اوئی ماں۔۔۔۔کسقدر جلاد صفت انسان ہیں خان آپ۔۔۔ وہ انگلی سہلاتی چیخی۔
        جلاد صفت کےعلاوہ ساتھ بہت رومینٹک بھی تو ہوں۔۔۔۔زریاب نے آنکھ ماری۔
        اونہہ۔۔۔۔اس نے ناک چڑھایا۔۔
        میں جا رہی ہوں نیچے بی بی جان نے بلوایا تھا مجھے۔۔۔۔۔آپ بھی آ جائیں۔۔۔۔
        تم جاؤ۔۔۔۔مجھے کچھ کام ہے وہ کر کے آتا ہوں۔زریاب نے لیپ ٹاپ اٹھاتے ہوئے کہا۔ پھر ساتھ ہی۔
        یہ تو دیتی جاؤ۔۔۔۔اس نے سیگرٹ کی ڈبی کیطرف اشارہ کیا جو پلوہی جاتے ہوئے ہاتھ میں پکڑ چکی تھی۔
        اونہہ۔۔۔۔اسکے بغیر تو سانس بھی نہیں آئے گی محترم کو۔۔۔اسنے بڑبڑاتے ہوئے ڈبی زریاب کی طرف اچھالی۔
        جسے زریاب نے کیچ کر کے پھر وکٹری کا نشان بنایا اور پلوہی کی طرف ساتھ ہوائی کس بھی اچھالی۔
        پلوشہ بھی مسکراتی ہوئی باہر نکل گئی۔
        ____________________
        مہرو کے اقرار کرنے کے بعد دلاور خان اور خدیجہ۔ لال حویلی جا کر شادی کی تاریخ لے آئے تھے۔
        چونکہ اس شادی کو عام روایتی انداز میں نہیں کیا جانا تھا لہذا سادگی سے نکاح کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔
        خاقان آفریدی کی خواہش تھی کہ مہرو انکی حویلی سے ہی رخصت ہو۔۔۔۔مگر زریاب کو یہ گوارا نہیں تھا کہ شمس خان اسکی حویلی میں اسکے بھائی کی بیوہ کو بیاہنے آئے۔۔۔۔لہذا اس نے بابا جان کو منع کر دیا تھا۔۔
        اب مہرو کو لال حویلی سے ہی رخصت ہو کر شمس خان کی حویلی میں جانا تھا۔۔۔۔
        وہ اب نہ تو خوفزدہ تھی اور نہ ہی کنفیوزڈ صرف خاموش تھی۔۔۔۔
        کیونکہ بسا اوقات انسان ایسی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے جہاں نہ تو کوئی خوشی اثر کرتی ہے اور نہ ہی تسلی ، ،نہ باہر بسنے والی دنیا اور نہ ہی اندر کا موسم۔۔۔بس ایک عجیب سی خاموشی طبیعت پرچھائی رہتی ہے ۔۔۔۔۔
        ایسی ہی کیفیت مہرو کی تھی وہ بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی سب کچھ ہوتے دیکھ رہی تھی۔۔۔
        پلوشہ زریاب کیساتھ لال حویلی مہرو سے ملنے آئی تھی۔۔۔وہ بہت خوش تھی کہ مہرو نے شمس خان کے حق میں فیصلہ کیا۔۔۔۔اسنے مہرو کو یقین دلایا تھا کہ وہ شمس خان کیساتھ بہت خوش رہے گی۔
        مگر مہرو تو زریاب کی بات پر ہی اڑی ہوئی تھی۔۔۔
        زریاب نے باتوں باتوں میں مہرو سے کہا تھا کہ وہ حدید کو اپنے پاس ہی رکھے گا۔۔
        مہرو تب تو چپ رہی مگر اب جیسے جیسے نکاح کا دن قریب آ گیا تھا وہ فکرمند ہو گئی تھی ۔
        زریاب کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا میں ماں ہوں حدید کی۔۔۔۔میں مانتی ہوں وہ اس حویلی کا وارث ہے مگر اسکا یہ مطلب نہیں کہ حدید کو مجھ سے دور کر دیا جائے۔۔۔۔حدید کو میں اپنے ساتھ ہی لے کر جاؤں گی۔۔۔۔۔اس نے بڑبڑاتے ہوئے زریاب کا نمبر ملایا ۔
        زریاب لیپ ٹاپ پر بزی تھا جب اسکا سیل وائبریٹ ہوا۔
        بھابھی کالنگ لکھا دیکھ کر اس نے کال اوکے کی۔
        اسلام وعلیکم بھابھی۔۔۔
        وعلیکم السلام۔۔زریاب۔۔۔کیسے ہو۔۔۔۔۔؟؟
        میں ٹھیک ہوں آپ سنائیں کیسے یاد کیا مجھ نا چیز کو۔۔۔۔
        خفا ہو مجھ سے۔۔۔۔۔
        کیا ہو سکتا ہوں۔۔۔۔؟؟؟زریاب نے الٹا اسی سے سوال پوچھا
        نہین۔۔۔۔۔۔
        ایگزیٹلی۔۔۔۔حدید کیسا ہے۔۔۔.؟؟وہ مصروف سا بولا۔
        وہ ٹھیک ہے زریاب۔۔۔۔مجھے حدید کے بارے میں ہی تم سے بات کرنی تھی۔۔۔۔مہرو آہستگی سے بولی۔۔
        کیسی بات۔۔۔۔۔۔
        اس دن تم کہہ گئے تھے کہ حدید کو تم اپنے پاس رکھو گے۔۔۔۔
        جی۔۔۔۔۔زریاب نے سر ہلاتے ہوئے لیپ ٹاپ پر سینڈ کو کلک کیا اور لیپ ٹاپ آف کر کے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی۔
        زریاب تم جانتے ہو میں اسکی ماں ہوں۔۔۔؟؟
        جانتا ہون۔۔۔۔۔
        پھر تم نے ایسا کیوں کہا۔۔۔۔؟؟
        کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ سہراب خان کا خون شمس خان کی حویلی میں پرورش پائے۔۔۔
        پھر تو سہراب خان کی بیوہ کو بھی اس حویلی میں جانا سوٹ نہیں کرتا۔۔۔
        بھابھی مجھے اس شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔آپ نے ابرار خان کے مقابلے میں شمس خان کا پرپوزل ایکسیپٹ کر کے اچھا فیصلہ کیا ہے۔۔۔پر حدید کا وہاں رہنا میں مناسب نہیں سمجھتا۔۔۔۔وہ رسان سے بولا۔۔
        پلوہی نے تم سے کچھ کہا ہے اس بارے میں۔۔۔۔؟؟؟مہرو مشکوک ہوئی کہ شاید پلوشہ کے گھر والوں نے منع کیا ہو حدید کو ساتھ لانے سے۔۔
        نہیں بھابھی وہ کیوں کہے گی کچھ۔۔۔۔مجھے ہی یہ مناسب نہیں لگا تھا۔۔
        زریاب میں حدید کو ساتھ لے کر ہی جاؤں گی۔۔۔۔تمہیں لگتا ہے میں اس کے بغیر رہ سکتی ہوں یا پھر وہ میرے بغیر۔۔۔۔؟؟؟وہ روہانسی ہوئی۔۔
        بھابھی آپ زیادہ دور نہیں ہوں گی میں حدید کو ملوا لایا۔ کروں گا۔۔۔۔زریاب اسے قائل کر لینا چاہتا تھا۔۔
        بلکل نہیں۔۔۔۔حدید میرے ساتھ ہی جائے گا زریاب میں تمہاری یہ بات بلکل نہیں مانوں گی۔۔۔۔۔
        جیسے آپ کی مرضی۔۔۔۔۔۔زریاب نے کہہ کر کھٹاک سے کال بند کی۔۔
        کس سے بات کر رہے تھے۔۔۔۔۔؟؟پلوشہ نے کمرے میں داخل ہو کر زریاب کا سرخ چہرہ دیکھا
        کسی سے نہیں۔۔۔۔۔وہ غصے سے کہتا کشن کو لات مار کر کیز اٹھاتا باہر نکل گیا
        پلوشہ نے افسردگی سے زریاب کی پشت کو دیکھا۔۔۔۔۔۔جب سے مہرو بھابھی نے لالہ کے حق میں فیصلہ کیا تھا زریاب کافی سے زیادہ سنجیدہ رہنےلگا تھا۔۔۔
        زریاب کا رویہ کچھ برا بھی نہیں تھا۔۔۔۔پلوہی نے خود کو اس کی جگہ پر رکھ کر سوچا تھا۔۔۔اس کا اکلوتا بھائی جوانی میں ہی چلا گیا تھا یہ دکھ بہت بڑا تھا اور اب اپنے بھائی کی بیوہ کو اسی شخص کے حوالے کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل نظر آ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
        __________________
        مہرو کو زریاب سے بات کرنے کے بعد یوں لگ رہا تھا جیسے اس نے کوئی غلط فیصلہ کر لیا ہو۔۔۔۔وہ افسردہ سی بیٹھی تھی جب اماں اسٹک کے سہارے چلی آئیں__
        ایسے کیوں بیٹھی ہو مہر۔۔۔۔۔؟؟وہ پاس آ کر تخت پر بیٹھیں۔
        کچھ نہیں بس ایسے ہی۔۔۔۔۔۔مہرو مسکرا کر سیدھی ہوئی۔
        پریشان ہو۔۔۔۔۔
        نہیں۔۔۔۔۔مہرو نے اپنے پیر کے انگوٹھے کو دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔۔
        شمس اچھا لڑکا ہے۔۔۔۔۔زبیر کے ساتھ پڑھتا رہا ہے اس لیے زبیر بھی مطمعن ہے۔۔۔۔مجھے بھی ابرار کے مقابلے میں وہ ہی مناسب لگا تھا۔۔۔تم پریشان مت ہو وقت کیساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا میری بچی۔۔۔۔۔انہوں نے مہرو کے جھکے سر پر ہاتھ پھیرا۔۔
        مہرو ان کا لمس پا کر بے قابو ہوتی انکی گود میں سر رکھ کر رو پڑی۔۔
        اماں بہت مشکل ہے میرے لیے یہ سب قبول کرنا۔۔۔۔۔ایسا مت کریں آپ لوگ اماں۔۔۔۔۔۔مم میں کہیں نہیں جاؤں گی۔۔مم۔۔مجھے۔۔۔۔۔مجھے یہ شادی نہیں کرنی ہے۔۔۔وہ روتی ہوئی کہہ رہی تھی۔
        میں سہراب کے قاتل کو شوہر کے روپ میں کیسے قبول کروں گی اماں۔۔۔۔۔مجھ سے یہ سب نہیں ہو گا۔۔۔۔روک دیں سب۔ اب بھی انکار کر دیں ان لوگوں کو۔۔۔۔۔
        ایسا مت کہہ میری بچی۔۔۔۔اللہ تجھے وہ ساری خوشیاں دے جنکی تجھے خواہش ہے۔۔۔۔۔میں ماں ہوں تیری ۔۔مجھ سے تیری یہ اجاڑ زندگی نہیں دیکھی جاتی مہر۔۔۔ایسا مت کہہ جو ہو چکا اور جو ہو رہا ہے وہ سب اوپر والے کی مرضی ہے اسے اللہ کی رضا جان کر قبول کر لے میری جان۔۔۔۔۔۔میں مرنے سے پہلے تجھے خوش وخرم دیکھنا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔
        اماں ایسا تو اب مت کہیں پلیز۔۔۔۔مہرو ماں کی بات پر تڑپ کر پیچھے ہٹی۔
        اللہ آپ کو میری بھی زندگی لگا دے اماں آپ ہمیشہ ہمارے سر پر سلامت رہیں۔۔۔۔مہرو نے انکے ہاتھوں کو ہونٹوں سے لگایا۔۔
        میں اپنی زندگی گزار چکی ہوں مہر اور اب پاک پروردگار سے اپنے بچوں کی خوشیوں کے لیے دعا گو ہوں۔۔۔۔وہ پاک ذات میرے بچوں کو خوش رکھے مجھے اور کیا چاہیے۔۔۔۔انہوں نے پیار سے مہرو کے بال سنوارے۔
        ماما۔۔۔واٹ ہیپنڈ آپ رو کیوں رہی ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟حدید پھولے سانس سے وہاں کھڑا فکر مندی سے مہرو کو آنسو پونچھتے دیکھ رہا تھا۔۔۔وہ باہر بچوں کیساتھ کھیل رہا تھا اور ابھی وہاں آیا تھا۔
        کچھ نہیں میری جان میں رو نہیں رہی تھی۔۔۔گیم ختم ہو گیا آپ سب کا۔۔۔۔؟؟؟مہرو نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
        یس پھوپھو۔۔۔۔گیم ختم ہو گیا اب جلدی سے ہم سب کو نوڈلز بنا کر دیں۔۔۔۔۔زیان (زبیر خان کا بیٹا )نے حدید سمیت اپنے دوسرے دونوں بھائیوں کیطرف اشارہ کیا۔
        اوکے میں ابھی بنا کر دیتی ہوں۔۔۔۔تم لوگ دادو کے پاس بیٹھو۔۔۔۔۔مہرو مسکراتی ہوئی ان سب کے لیے نوڈلز بنانے کچن کیطرف چلی گئی۔۔۔۔
        _______________________
        آج جمعہ کا دن تھا اور جمعہ کے دن ہی شمس اور مہرو کا نکاح رکھا گیا تھا۔
        بابا جان ،بی بی جان اور پلوشہ کل ہی لال حویلی آ چکے تھے زریاب کو آج آنا تھا نکاح سے پہلے۔۔۔۔۔
        پلوشہ اپنے گھر جا کر خدیجہ کیساتھ ساری تیاریاں کروا آئی تھی اور اب اسنے مہرو کی طرف سے ہی شادی مین شامل ہونا تھا۔
        جمعے کی نماز کے بعد نکاح کا ٹائم مقرر ہوا تھا اور اب سب مرد لوگ نماز پڑھنے گئے ہوئے تھے
        پلوہی کے گھر والے بھی چند ایک مہمانوں کیساتھ آ چکے تھے مگر زریاب کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا ۔
        پلوشہ نے اسے کال کی مگر زریاب کا سیل آف تھا۔
        کہاں رہ گئے ہیں زریاب۔۔۔؟؟؟وہ بے چینی سے ٹیرس پر ٹہلتی اسکا انتظار کر رہی تھی۔جب مہرو اس کے پاس چلی آئی۔
        مہرو نے آف وائٹ کلر کی فراک پہنی تھی جس پر گولڈن کلر کا کام ہوا تھا پلوشہ ہی یہ ڈریس اسکے لیے لائی تھی اپنی پسند سے۔۔۔بالوں کو چوٹیا میں قید کر رکھا تھا جس میں سے چند ایک لٹیں ادھر أدھر بکھری ہوئی تھیں ہلکے میک اپ اور جیولری کے ساتھ کچھ سوگوار سی وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔
        وہ نہیں آئے گا۔۔۔۔مہرو آہستگی سے بولی۔
        پلوہی نے مہرو کی بات پر پلٹ کے اسے دیکھا۔۔
        میری صبح بات ہوئی تھی ان سے بھابھی کہہ رہے تھے کہ وہ نکاح سے پہلے ضرور آ جائیں گے۔۔۔
        نکاح سے پہلے نہیں نکاح کے بعد آئے گا وہ۔۔۔۔۔مہرو لمبی سی سانس لے کر کہتی باہر دیکھنے لگی۔۔
        بھابھی آپکی بات ہوئی تھی ان سے کیا۔۔۔۔؟؟؟
        نہیں۔۔مگر اس کو۔۔میں جانتی ہوں۔۔۔۔
        آپ انکی وجہ سے پریشان مت ہوں بھابھی۔۔۔۔پلوہی نے اسکی افسردہ شکل دیکھ کر تسلی دی۔۔
        پلوہی وہ مجھ سے کبھی خفا نہیں ہوا تھا مگر اب ہو چکا ہے۔۔۔۔
        زریاب آپ سے خفا نہیں ہو سکتے ہیں بھابھی وہ آپکی بہت عزت کرتے ہیں۔۔۔وہ تسلی آمیز انداز سے بولی۔۔
        ہاں میں جانتی ہوں پر وہ مجھ سے آج خفا ہے حدید کے معاملے پر۔۔۔۔
        حدید کے معاملے پر۔۔۔۔۔کیسا معاملہ۔۔۔۔؟؟پلوہی حیران ہوئی
        وہ چاہتا ہے میں حدید کواپنے ساتھ نہ لے کر جاؤں بلکہ اس کے پاس چھوڑ دوں۔۔۔۔مہرو افسردگی سے بولی۔
        ایسا کیسے ہو سکتا ہے بھابھی حدید بہت چھوٹا ہے کیسے رہے گا آپ کے بغیر۔۔۔۔۔وہ زریاب نے ایسے ہی کہہ دیا ہو گا آپ پریشان مت ہوں میں بات کر لوں گی ان سے۔۔۔۔
        نہیں پلوہی۔۔۔۔اسنے ٹھیک ہی کہا تھا حدید سہراب خان کا خون ہے۔۔۔۔۔وارث ہے اس خاندان کا پھر کیسے وہ کسی اور کے گھر میں پرورش پا سکتا ہے۔۔۔۔۔
        وہ کسی اور کا گھر نہیں بھابھی آپ کا گھر ہو گا۔۔۔حدید کی ماں کا گھر۔۔۔پلوہی نے مہرو کو محبت سےکہا۔
        مہرو پلوشہ کی اس بات پر افسردگی سے مسکرا دی۔
        پلوشہ تم بہت اچھی ہو۔۔
        اور آپ مجھ سے زیادہ اچھی ہیں بھابھی۔۔۔۔پلوہی نے اسکے ہاتھ تھامے۔
        پلوہی تم۔۔۔۔تم حدید کا خیال رکھنا۔۔۔۔میں اسے ساتھ لے کر نہیں جاؤں گی وہ اب اپنے باپ کے گھر میں ہی رہ کر پرورش پائے گا۔
        مگر بھابھی وہ کیسے رہے گا آپ کے بغیر۔۔۔۔ وہ فکرمند ہوئی۔
        رہ لے گا وہ جیسے باپ کے بغیر رہ رہا ہے۔۔۔۔وہ افسردہ ہوئی۔
        ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا بھابھی حدید آپ کے ساتھ ہی جائے گا میں زریاب کو منا لوں گی آپ ٹینشن مت لیں پلیز۔۔۔
        تم زریاب سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرو گی پلوہی میں نے حدید کو سمجھا دیا تھا رات کہ وہ تم لوگوں کیساتھ رہے گا۔۔۔۔
        ایسا کیوں کیا آپ نے وہ بچہ ہے ابھی۔۔۔۔پلوشہ پریشان ہوئی۔
        کل وہ بچہ بڑا ہو گا اور جب وہ مجھ سے پوچھے گا کہ ماما آپ نے میرے بابا کے قاتل کے ساتھ شادی کیوں کی تو میں اس کو کیا جواب دوں گی پلوشہ۔۔۔۔۔مہرو کے آنسو گالوں پر پھسلے۔
        بچے تو پیار کے بھوکے ہوتے ہیں بھابھی جہاں سے پیار ،، محبت اور توجہ ملے وہیں کے ہو جاتے ہیں۔۔۔۔پر آپ کہہ رہی ہیں کہ وہ اپنے باپ کے قاتل کے گھر پرورش نہیں پا سکتا تو ٹھیک ہی کہہ رہی ہوں گی۔۔۔۔۔میں حدید کا خیال رکھوں گی مجھے بہت عزیز ہے وہ آپ فکر مت کریں۔۔۔۔پلوہی سپاٹ سے انداز میں کہہ کر وہاں سے چلی آئی۔۔
        نہجانے کب تک لالہ قاتل ہی کہلاتے رہیں گے۔۔۔وہ افسردگی سے سوچتی نیچے ہال میں آ گئی۔۔
        ___________________
        پہلے وہ زریاب کے نہ آنے سے پریشان تھی اور اب بھابھی کی باتوں نے اسے مزید پریشان کر دیا تھا۔۔
        _______________
        نکاح ہو چکا تھا اور مہرو کے کہنے کے مطابق زریاب واقعی نہیں آیا تھا۔
        پلوشہ بھی ٹھیک سے خوش نہیں ہو پا رہی تھی۔۔۔۔پہلے جتنی وہ خوش تھی مہرو اور شمس کی شادی سے اب اتنی ہی افسردہ بیٹھی تھی۔
        نکاح کے بعد کھانے کا انتظام تھا۔۔۔۔کھانے سے فارغ ہونے کے بعد دلاور خان نے ان لوگوں سے واپسی کی اجازت چاہی تھی۔۔
        پلوہی اور شہربانو مہرو کو وہیں ہال میں لے آئیں تھیں جہاں مہمان خواتین بیٹھیں تھیں۔۔
        پلوشہ زریاب ابھی بھی نہیں آیا۔۔۔۔مہرو نے اس کے کان کے پاس سرگوشی کی۔
        اسکا چہرہ گھونگھٹ نکال کر چھپایا گیا تھا۔۔
        نہین۔۔۔۔۔
        ہوں۔۔۔۔مہرو نے افسردگی سے سر ہلا دیا۔
        پلوشہ بچے چلو مہرو کو لے کر وہ لوگ باہر انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔بی بی جان نے ہال میں داخل ہو کر کہا۔۔
        جی بی بی جان۔۔۔۔پلوہی نے سر ہلا کر مہرو کا بازو تھاما اور باہر کی جانب چل پڑی۔۔
        راہداری میں کھڑیں سب رشتے دار عورتیں باری باری مہرو سے ملتی اور دعائیں دیتی جا رہی تھیں۔۔
        کچھ آگے جا کر مہرو نے پلوہی کا ہاتھ تھاما جو اسکے بازو پر تھا۔۔
        پلوشہ ۔۔تم۔۔زریاب سے کہنا اب۔۔میں بھی اس سے خفا ہوں۔۔۔۔لہذا میرے سامنے وہ اب کبھی بھی مت آئے ۔۔۔۔
        مگر بھابھی میں آپ کے سامنے آ چکا ہوں۔۔۔۔۔زریاب کی آواز پر جہاں پلوہی پلٹی وہیں مہرو نے بھی چادر پیچھے سرکائی اور پرشکوہ نگاہوں سے زریاب کو دیکھا۔۔
        آپ مجھ سے خفا ہو کر مت جائیں کیونکہ میں آپ سے خفا نہیں ہوں۔۔۔۔۔وہ سنجیدگی سے بولا۔۔
        تو پھر کہاں تھے اب تک جانتے ہو میں نے اور پلوشہ نے تمہارا کتنا انتظار کیا۔۔۔۔۔مہرو کے آنسو پلکوں سے نیچے گرے۔۔
        پلیز روئیں مت آپ ( آج وہ مہرو کو بھابھی کی بجائے آپ کہہ کر بات کر رہا تھا )۔۔زریاب نے اسکے کندھوں کے گرد بازو پھیلایا۔۔
        بہت برے دوست ثابت ہوئے ہو تم ۔۔۔۔مہرو نے اسکے بازو پر مکا جڑا۔
        برا تو میں ہوں ہی اپنی نند سے پوچھ لیں۔۔۔۔زریاب نے مسکرا کر پلوہی کی ناک کھینچی۔
        جوابا پلوشہ نے زور سے اسکا ہاتھ جھٹک دیا جو خفگی کی علامت تھا۔
        اور کتنی دیر ہے بھئی۔۔۔باہر سب انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔زبیر خان نے انکی طرف آتے پوچھا۔
        جی بس آ رہے ہیں۔۔۔۔پلوشہ نے مہرو کو دیکھا۔۔
        مہرو نے ایک خاموش نظر پاس کھڑے زریاب پر ڈالی ۔
        ہمیشہ خوش رہیں۔۔۔۔زریاب نے مہرو کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی اور باہر جانے کی بجائے اندر کیطرف چلا گیا۔
        پلوہی نے مہرو کی چادر کو درست کیا اور اسے ساتھ لیے باہر نکل گئی۔
        ____________
        مہرو سب بڑوں ، بزرگوں کی دعاؤں تلے رخصت ہو کر شمس خان کی حویلی آ چکی تھی۔۔۔پلوشہ بھی اسکے ساتھ آئی تھی۔۔۔چند روایتی رسموں کے بعد پلوہی مہرو کو اسکے کمرے میں لے آئی تھی۔یہ کمرہ پلوشہ نے ہی ڈیکوریٹ کروایا تھا وہ مہرو کو شمس اور پروشہ کے کمرے میں نہیں لے جانا چاہتی تھی ۔۔
        اسی لیے اس نے مہرو اور شمس کے لیے نیا کمرہ سیٹ کروا دیا تھا۔۔۔۔
        پلوہی نےمہرو کو کمرے میں لا کر بیڈ پر بیٹھایا۔
        یہ آپ کا کمرہ ہے بھابھی۔۔۔۔اسکی ہر چیز آپکی ملکیت ہے بلکہ یہ حویلی یہ گھر بھی آج سے آپ ہی کا ہے۔۔۔۔امید ہے آپ بنا کسی تکلف کے یہاں کی ہر چیز کو یہاں کے مکینوں سمیت اپنا سمجھیں گی۔۔۔۔میری دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کو بہت سی خوشیوں سے نوازے۔۔۔۔وہ سب خوشیاں جو آپ کا حق ہیں۔۔۔۔۔
        میں اب چلتی ہوں۔۔۔۔آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دیں۔۔۔پلوہی نے تفصیلی بات کر کے پو چھا
        نہیں۔۔۔۔۔مہرو نے نفی میں سر ہلایا
        ٹھیک ہے میں جاتی ہوں آپ بلکل ریلیکس ہو کر بیٹھیں۔ بھابھی۔۔۔۔۔۔حدید کو میں اپنے ساتھ ہی سلاؤں گی۔
        پلوشہ حدید کوبھی اپنے ساتھ ہی لے کر آئی تھی۔
        بیسٹ آف لک۔۔۔۔۔وہ مسکرا کر کہتی کمرے سے چلی گئی۔
        پیچھے مہرو بے چینی سے انگلیاں چٹخانے لگی۔۔۔۔دل بہت زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔۔۔ہتھیلیاں بار بار پسینے سے بھیگتیں جنہیں وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کپڑوں سے رگڑ کر صاف کر لیتی۔۔۔۔عجیب سی ہیزیٹیشن تھی حالانکہ نکاح سے پہلے وہ بلکل بھی کنفیوز نہ تھی پھر اب کیوں ایسا ہو رہا تھا۔۔۔۔۔؟؟
        مہرو نے دل کی دھک دھک سے بے چین ہو کر پاس پڑے جگ سے پانی گلاس میں انڈیلا اور پینے لگی۔۔۔۔پانی پی کر وہ سیدھی ہوئی تھی جب آہستگی سے کمرے کا دروازہ کھلا اور شمس اندر داخل ہوا۔۔۔۔مہرو نے اسے دیکھے بغیر ہی سر جھکا دیا۔۔۔۔
        شمس چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا بیڈ کے قریب آ کھڑا ہوا۔
        مہرو بیڈ سے ٹانگیں نیچے لٹکا کر ہاتھوں کو مضبوطی سے دبوچے سر جھکائے بیٹھی تھی ۔
        شمس نے ایک نظر اسکے جھکے سر کو دیکھ کر آہستگی سے سلام کیا۔
        مہرو نے سر کی ہلکی سی جنبش سے اسکے سلام کا جواب دیا۔
        میں جانتا ہوں یہ سب آپ کے لیے اتنا آسان نہیں تھا۔۔۔۔۔۔میں سہراب کا قاتل ہوں اور اسکے قاتل کو کسی بھی رشتے میں قبول کرنا یقینا آپ کے لیے بہت تکلیف دہ ہو گا۔۔۔۔۔۔
        بے شک میں نے سہراب خان کو جان بوجھ کرنہیں مارا تھا مگر اسے گولی تو میرے ہاتھوں ہی لگی تھی۔۔۔۔۔جس کا پچھتاوا مجھے آج تک ہے اور شاید مرتے دم تک رہے گا۔۔۔۔شمس نے افسردگی سے اپنے ہاتھوں کو دیکھتے کہا۔
        بابا زبیر کو اچھے سے جانتے تھے اسی لیے انہوں نے مجھ سے مشورہ کیے بغیر ہی اس سے رشتے کی بات کر لی۔۔۔۔اگر مجھے انکے فیصلے کا علم ہوتا تو میں بلکل بھی انہیں اس بات کی اجازت نہ دیتا کیونکہ جس طرح یہ سب آپ کے لیے مشکل ہے اسی طرح میرے لیے بھی۔۔۔۔۔میں خود کو آپ کا مجرم تصور کرتا تھا اور شاید آگے بھی کرتا رہوں۔۔۔۔مجھ سے جو ہو چکا اسکی کوئی معافی نہیں ہے میں جانتا ہوں لیکن پھر بھی آپ سے معافی مانگتا ہوں۔۔۔۔ہو سکے تو مجھے معاف کر دیجئے گا۔۔۔وہ سانس لینے کو رکا۔
        مہرو دم سادھے شمس کو سن رہی تھی۔۔
        آپکے گھر والوں کے دل بہت بڑے ہیں میں انکی بڑائی کی دل سے قدر کرتا ہوں جنہوں نے مجھے اس قابل جانا کہ اپنی پھولوں جیئسی بیٹی میرے حوالے کی۔۔۔۔۔
        یہ گھر آپ کا ہے۔۔۔۔۔۔آپ جس طرح چاہیں یہاں رہ سکتی ہیں۔
        میں کسی بھی معاملے میں آپ کو اپ سیٹ نہیں کرنا چاہتا۔۔۔۔۔آپ کو میری ذات سے کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں ہو گی۔۔۔۔۔وہ پھر سے رک کر سانس لینے لگا۔
        مجھے کسی چیز کی کوئی جلدی نہیں ہے۔۔۔۔اس لیے آپ ریلیکس ہو کر رہیں۔۔۔۔۔میں خود کو اور آپ کو وقت دینا چاہتا ہوں اس رشتے کو قبول کرنے کا۔۔۔۔۔۔کیونکہ وقت ہی ہر زخم،، ہر دکھ کا بہترین مرہم ثابت ہوتا ہے۔۔۔۔
        آپ جتنا چاہیں وقت لے سکتیں ہیں۔۔۔۔۔میں آپکے ہر عمل ہر فیصلے کی دل سے قدر کروں گا۔۔۔لہذا آپ ریلیکس ہو جائیں۔
        شمس اپنی بات مکمل کر کے ایک اچٹتی نظر مہرو کے جھکے سر اور انگلیاں چٹخاتے ہاتھوں پر ڈال کر اسٹڈی کی طرف چلا گیا۔
        اور وہ واقعی ریلیکس ہو چکی تھی۔۔۔۔مہرو نے سر اٹھا کر شمس کی پشت کو دیکھا اور پرسکون ہو کر سر بیڈ کی بیک سے ٹکا دیا۔۔۔۔۔
        وہ جس بات سے کنفیوز تھی اس بات کے لیے شمس اسے وقت دے چکا تھا
        اور مہرو کو وقت ہی تو چاہیے تھا۔۔۔۔۔
        __________________
        اگلے دن چند ضروری مہمانوں کی موجودگی میں ولیمے کا چھوٹا سا فنکشن ارینج کیا گیا تھا۔
        لال حویلی اور آفریدی حویلی سے سب آئے تھے سوائے زریاب کے۔۔۔۔۔
        پلوشہ کی زریاب سے ناراضگی کا گراف مزید اونچا ہو گیا تھا۔۔۔۔وہ فنکشن کے بعد واپس نہیں جانا چاہتی تھی مگر پھر بی بی جان کے کہنے پر وہ انکار نہ کر سکی تھی اسلئیے انکے ساتھ ہی واپس آ گئی۔۔۔۔۔۔
        مہرو بھی حدید کو لیے ایک ، دو دن رہنے اپنے گھر والوں کیساتھ لال حویلی واپس چلی گئی تھی۔
        وہ لوگ جب حویلی پہنچے تو زریاب گھر پر نہیں تھا۔
        پلو ہی نے چینچ کرنے کے بعد عشاء کی نماز پڑھی اور بیڈ پر آ کر لیٹ گئی۔۔۔۔کافی دن کی تھکان تھی اسلیے کب اسکی آنکھ لگی اسے پتہ ہی نہ چلا۔
        زریاب جب کمرے میں داخل ہوا تو پلوہی کے سوئے ہوئے وجود کو دیکھ کر اسے کافی خوشگوار حیرت ہوئی۔۔۔۔وہ تو سوچ رہا تھا محترمہ چار ، پانچ دن تک واپس نہیں آنے والی ہیں۔۔۔۔مگر اب اسے دیکھ کر وہ مسکراتا ہوا اسکی طرف بڑھا۔
        پلوشہ گہری نیند میں تھی زریاب نے مسکراہٹ دبا کر اسکی چہرے پر آئی لٹ کو پکڑ کر زور سے کھینچا۔
        کیا ہوا۔۔۔۔کون۔۔۔۔۔؟؟پلوہی ڈر کر اٹھ بیٹھی۔
        سامنے زریاب کو اس طرح سے مسکراتے دیکھ کر وہ غصے سے چیخی۔
        خان ۔۔۔جی۔۔۔یہ کیا بدتمیزی تھی۔۔۔۔۔؟؟؟؟
        بدتمیزی۔۔۔۔کیسی بدتمیزی۔۔۔؟؟وہ انجان بنا۔
        اتنی اچھی نیند آئی تھی مجھے اور آپ نے جگا دیا شیم آن یو مسٹر۔۔۔۔اب کھڑے ہو کر دانت کیوں نکل رہے ہیں۔۔۔۔۔وہ چڑ کر بولی۔
        چڑیل لگ رہی ہو۔۔۔۔۔۔زریاب نے اسکے بکھرے بالوں کی طرف اشارہ کیا۔
        اور آپ بھی بھوت لگ رہے ہیں یوں ہنستے ہوئے۔۔۔۔
        اچھا بتاؤ اتنی جلدی کیسے واپسی ہو گئی۔۔۔۔؟؟
        میں آپ کو جواب دینے کی پابند نہیں لہذا مجھے سونے دیں۔۔۔۔پلوہی نے کمبل میں منہ چھپایا
        پابند تو ہو تم میری۔۔۔۔مگر ہوا کیا ہے جانانه (ڈارلنگ) ۔۔۔۔؟؟؟زریاب نے چھیڑتے ہوئے اسکا کمبل ہٹایا۔
        خان کیا ہے۔۔۔
        کیا ہوا خفا کیوں ہو۔۔۔؟؟
        آپ تو ننھے کاکے ہیں ناں جو جانتے نہیں کیا ہوا ہے۔۔۔۔؟؟؟
        ہاہاہاہا۔۔۔۔۔زریاب اسکے یون لفظ ننھے کاکے کہنے پر دل کھول کر ہنسا۔
        مگر پلوشہ غصیلی نظروں سے اسے گھور رہی تھی۔
        اچھا سوری نا۔۔۔چلو ساری خفگی ختم کر کے پھر سے دوستی کرتے ہیں۔۔۔۔وہ مسکراہٹ دباتا ہاتھ بڑھا کر اسکے سامنے بیٹھا۔
        مجھے کوئی دوستی ووستی نہیں کرنی آپ سے آپ جانتے ہیں آپ نے کیا کیا ہے۔۔۔۔؟؟؟
        سوری فار دیٹ۔۔۔۔
        کتنا آسان ہے آپ کے لیے کچھ بھی کر کے سوری کہہ دینا۔۔۔وہ ابھی بھی خفا تھی۔
        مسئلہ کیا ہے سوری کر تو رہا ہوں اب اور کیا کروں۔۔۔۔۔؟؟
        مجھ سے بات مت کرین۔۔۔
        یہ تو ہو نہیں سکتا۔۔۔۔زریاب نے اسکی ناک کھینچی۔
        میرا نہیں تو بھابھی کا خیال کر لیتے وہ بار بار آپ کا پوچھ رہی تھیں۔۔۔میں نے کتنی کالز کیں آپ کو۔۔۔۔کیا یہی ویلیو ہے میری آپکی نظر میں کہ آپ میری کال کاٹ کر اپنا سیل آف کر دیں۔۔۔وہ خفگی سے بولی۔
        سوری۔۔۔۔۔
        آج کے فنکشن میں بھی نہیں آئے آپ۔۔۔۔؟؟
        سوری۔۔۔۔۔۔
        اور بھابھی سے آپ نے یہ کیوں کہا کہ حدید انکے ساتھ نہیں جائے گا بلکہ یہاں ہمارے پاس رہے گا۔۔۔۔۔پلوشہ بات یاد آنے پر گھور کر بولی ۔
        میں نے کہا تھا ان سے مگر اب میں اپنی بات سے پیچھے ہٹ چکا ہوں۔۔۔۔حدید بہت چھوٹا ہے اور اسے ماں کی ضرورت ہے۔۔۔۔باپ تو مر چکا ہے اور اب میں اسے ماں سے جدا کر کے ماں کی ممتا سے محروم نہیں کرنا چاہتا لہذا میں اپنی یہ بات واپس لے چکا ہوں تم انہیں بتا دینا۔۔۔۔۔۔
        انہیں۔۔۔کنہیں۔۔۔۔؟؟پلوہی نے ابرو اٹھائے۔
        مسز شمس دلاور خان کو۔۔۔۔۔وہ سنجیدگی سے کہتا اٹھ کر ڈریسنگ روم میں چلا گیا۔
        اونہہ۔۔۔مسز شمس۔۔۔بھابھی بھی تو کہہ سکتے تھے۔۔۔۔پلوہی نے ناک چڑھایا۔
        اسے زریاب کا مہرو کو بھابھی کی بجائے مسز شمس کہنا اچھا نہیں لگا تھا۔
        _______________________
        دو دن بعد شمس مہرو کو لینے لال حویلی گیا تھا۔۔۔۔مہرو حدید کو وہیں چھوڑ آئی تھی۔۔۔۔اس نے زبیر لالہ سے کہہ دیا تھا کہ وہ حدید کو آفریدی حویلی چھوڑ آئیں۔۔۔۔۔زبیر خان نے جواب میں کیا۔۔۔۔؟؟۔
        کیوں۔۔۔۔؟؟۔
        جیسے سوال پوچھنے کی بجائے اچھا کہہ کر اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔
        شمس حدید کو جانتا تھا۔۔۔وہ اس سے مل بھی چکا تھا اسلیے واپسی پر وہ مہرو سے پوچھنا چاہتا تھا کہ وہ حدید کو ساتھ کیوں نہیں لائی۔۔۔۔۔۔؟؟۔
        مگر عجیب سی ہچکچاہٹ آڑے آ رہی تھی اسی لیے وہ خاموشی سے ڈرائیونگ کرتا رہا اور مہرو کو حویلی چھوڑ کر خود ڈیرے پر چلا گیا۔۔۔
        زبیر خان اگلے ہی دن حدید کو آفریدی حویلی چھوڑ گیا تھا۔۔۔۔۔جب بی بی جان اور بابا جان کو زریاب کی یہہ بات پتہ چلی تھی کہ۔
        وہ حدید کو مہرو کی بجائے اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے تو بابا جان نے پھر زریاب کو اچھی خاصی سنائیں تھیں۔
        جسے زریاب سر جھکائے خاموشی سے سنتا رہا تھا۔۔۔۔کچھ فاصلے پر کھڑی پلوہی جانتی تھی یہ خاموشی کا لاوا اسی پر پھٹے گا کیونکہ پلوشہ نے ہی بی بی جان اور بابا جان کو زریاب کی حدید سے متعلق بات بتائی تھی مگر خلاف توقع زریاب نے پلوہی سے بازپرس کرنے کی بجائے اسے یہ کہا کہ کل وہ جا کر حدید کو مہرو کے پاس چھوڑ آئے۔۔۔۔پلوشہ نے زریاب کو بھی ساتھ جانے کا کہا تھا مگر وہ نہیں مانا۔۔۔۔یوں پلوشہ اگلے دن بی بی جان کو ساتھ لے کر حدید کو مہرو کے پاس چھوڑ آئی تھی۔۔۔۔
        مہرو جہاں خوش تھی حدید کے آنے پر وہیں تھوڑی اپ سیٹ بھی تھی کہ شاید وہاں کے مکینوں کو حدید کا وہاں آنا اچھا نہ لگے۔۔۔۔۔۔مگر وہ غلط تھی۔۔۔۔
        _____________
        وقت کسی کی پرواہ کیے بغیر گزرتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔مہرو کو وہاں آئے ایک ماہ ہو چکا تھا۔۔۔۔۔اس ایک ماہ میں اس کے اور شمس کے درمیان کچھ نہیں بدلا تھا وہ آج بھی پہلے دن کی طرح ایک ہی کمرے میں دو اجنبی بن کر رہ رہے تھے۔۔۔۔
        مہرو کے لیے صرف شمس خان ہی اجنبی تھا اب تک کیونکہ حویلی کہ باقی مکین جن میں دلاور خان ،، خدیجہ اور حویلی کی چار ، پانچ ملازمیں شامل تھیں وہ ان سب سے اپنی خوش مزاجی کے باعث گھل مل گئی تھی۔۔۔۔
        مہرو آفریدی حویلی کی طرح یہاں بھی بہو ہونے کا پورا پورا حق ادا کر رہی تھی۔۔۔۔۔اس نے حویلی کی بہت سی ذمہ داریاں اپنے سر لے لیں تھیں۔۔۔۔جنہیں وہ بہت خوش اسلوبی سے انجام دے رہی تھی۔۔۔۔۔
        خدیجہ مہرو کے اس رویے پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہیں تھیں جنہیں مہرو کی شکل میں اتنی اچھی بہو مل گئی تھی اچھی تو خیر پروشہ بھی تھی۔
        مگر تھوڑی نخرے والی تھی جبکہ مہرو میں نام کا بھی نخرہ نہ تھا۔۔۔۔
        اس لیے خدیجہ بھی خوشی خوشی ہر کام کو مہرو کے مشورے سے ہی کرتی تھیں۔۔۔۔یوں ساس ،، بہو کی اچھی بن گئی تھی۔۔
        اس وقت مہرو روتی ہوئی دعا کو گود میں لیے بہلا رہی تھی جب حدید وہاں آیا۔
        ماما یہ کیوں رو رہی ہے لائیں اسے مجھے دیں میں چپ کرواتا ہوں۔۔۔
        نہیں اسے بھوک لگی ہے ابھی دودھ پی کر چپ ہو جائے گی۔۔۔۔مہرو نے رحیمہ سے فیڈر پکڑ کر دعا کے منہ کو لگائی۔۔
        جسے وہ چپ ہو کر پینے لگی۔۔۔
        ماما آپ کو پتہ ہے بابا کہہ رہے تھے وہ کچھ دنوں تک اسلام آباد جائیں گے تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے کر جائیں گے۔۔۔حدید خوشی سے بولا۔
        بابا۔۔۔۔؟؟؟باباکون۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟
        شمس بابا اور کون۔۔۔۔۔
        یہ انکل بابا کب ہوئے۔۔۔۔؟؟مہرو حیران تھی۔۔۔حدید تو شمس کو انکل کہتا تھا پھر اب بابا کیسے۔۔۔۔۔؟؟۔
        وہ شاکڈ تھی۔
        وہ انکل ہیں آپ کے بابا نہیں۔۔۔۔۔مہرو نے تحمل سے سمجھایا۔۔
        وہ آپکے ہزبینڈ ہیں ماما تو میرے بابا ہی ہوئے ناں۔۔۔۔۔حدید سمجھداری سے بولا۔۔
        مہرو اسکے منہ سے اتنی گہری بات سن کر ساکت تھی۔۔
        حدید بیٹا یہ کس نے کہا ہے تمہین۔۔۔۔۔۔؟
        کسی نے نہیں۔۔۔۔میں جانتا ہوں ان کی اور آپ کی شادی ہو چکی ہے۔۔۔۔وہ آپ کے ہزبینڈ ہیں اور میرے بابا۔۔۔۔
        میری ان سے شادی ہو چکی ہے مگر وہ تمہارے بابا نہیں ہیں حدید۔۔۔۔مہرو غصے سے بولی۔
        مما آپ نے ہی تو کہا تھا حدید بیٹا ۔۔دعا آپ کی بہن ہے۔۔۔۔۔دعا تو شمس انکل کی بیٹی ہے پھر میری بہن کیسے ہوئی۔۔۔؟؟حدید سوالیہ نظروں سے ماں کو دیکھتا پوچھ رہا تھا۔
        وہ انسان کا بچہ تھا یا شیطان کا مہرو حیران تھی اسکی بات پر۔۔۔۔۔
        دعا آپکی بہن ہے مگر شمس آپکے بابا نہیں ہیں وہ آپکے انکل ہیں اور آپ انہیں انکل ہی کہیں گے۔۔۔۔اب کے مہرو نے پیار سے سمجھایا۔
        نو۔۔۔۔میں انہیں بابا ہی کہوں گا۔۔۔۔وہ بضد تھا۔۔
        اسکی بات پر مہرو نے غصے سے اسے تھپڑ مارنے کو ہاتھ اٹھایا مگر پیچھے سے کوئی اسکا ہاتھ تھام کر روک چکا تھا۔۔
        مہرو نے گردن موڑی اور پیچھے کھڑے شمس پر ایک غصیلی نظر ڈال کر جھٹکے سے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے کھینچا۔
        حدید بیٹا میں آپکی وڈیو گیم لے آیا ہوں۔۔۔۔جا کر چیک کرو وہی ہے جو آپ نے کہی تھی۔۔۔۔۔۔شمس نے مسکرا اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔
        اوکے بابا۔۔۔۔۔وہ اچھل کر کہتا نیچے بھاگ گیا۔
        بچے پر ہاتھ اٹھا رہیں تھیں آپ۔۔۔۔؟؟چند منٹ کی خاموشی کو شمس کی آواز نے توڑا۔
        بچے جب غلطی کریں تو سدھارنے کے لیے ایسا کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔
        بلکل۔۔۔۔مگر صرف غلطی پر۔۔۔۔۔شمس نے تصیح کی۔
        مہرو نے اسکی بات پر سوالیہ نظریں اٹھائیں۔۔
        حدید کچھ غلط نہیں کہہ رہا تھا اگر وہ مجھے انکل کی بجائے بابا کہنا چاہتا ہے تو اس میں برا کیا ہے۔۔۔۔؟؟
        آپ اسکے بابا نہیں ہیں۔۔۔۔
        میں جانتا ہوں۔۔۔۔۔مگر میں بھی چاہتا ہوں کہ وہ مجھے بابا کہے مجھے اچھا لگے گا۔۔۔۔۔اور ویسے بھی دعا بھی تو آپکی بیٹی نہیں ہے پھر بھی آپ اسے ایک ماں ہی کی طرح ٹریٹ کر رہی ہیں میں نے تو آپ کو ایسا کرنے سے نہیں روکا۔۔۔
        دعا ابھی چھوٹی ہے۔۔۔۔۔مہرو آہستگی سے بڑبڑائی۔
        حدید بھی اتنا بڑا نہیں ہوا کہ اسے باپ کی ضرورت نہ رہے۔۔
        مجھے آپ سے بحث نہیں کرنی۔۔۔۔وہ چڑ کر بولی۔۔
        شمس اسکےیون چڑنےپر مسکرا دیا۔
        فائن۔۔۔۔مجھے بھی اس بارے میں مزید کچھ نہیں کہنا۔۔۔۔حدید مجھے بابا ہی کہے گا اور آپ اسے اس بات سے. نہیں روکیں گی۔۔۔شمس کہہ کر جھکا۔
        مہرو اسکے جھکنے پر سانس روک چکی تھی۔
        شمس نے جھک کر مہرو کی گود میں لیٹی دعا کے گال پر بوسہ لیا اور مہرو کے اردگرد اپنی خوشبوئیں بکھیرتا واپس مڑ گیا
        _________________
        اس دن کے بعد مہرو نے حدید کے شمس کو بابا کہنے پر نہیں ٹوکا تھا۔۔۔۔حدید شمس سے کافی اٹیچ ہو چکا تھا۔۔۔۔جسکی بڑی وجہ شمس کیطرف سے اس کو ملنے والی توجہ اور محبت تھی۔
        مہرو بھی شمس کی حدید سے محبت پر خاموش اور مطمعن ہو گئی تھی۔۔۔۔اب اکثر اسکے اور شمس کے درمیان حدید اور دعا ڈسکس ہونے لگے تھے۔۔۔۔۔جس سے یہ ہوا تھا کہ دونوں کی ایک دوسرے سے بات کرنے کی ہچکچاہٹ کافی کم ہو گئی تھی۔
        پلوہی اکثر وہاں آتی رہتی تھی مگر زریاب کے بغیر۔۔۔۔زریاب خان مہرو سے ہفتے دو ہفتے بعد فون پر بات کر لیتا تھا البتہ حدید کو وہ حشمت کو بھیج کر بلوا لیتا۔۔۔یوں حدید پورا دن زریاب کیساتھ گزار کر شام میں واپس آ جاتا۔۔۔
        دن نارمل روٹین کے مطابق گزرتے جا رہے تھے۔۔۔
        _____________________
        مہرو اور خدیجہ تخت پر بیٹھیں باتیں کر رہیں تھیں۔۔۔۔۔قریب ہی دعا باکر میں بیٹھی اسے آگے پیچھے گھسیٹ رہی تھی جبکہ حدید کچھ فاصلے پر راہداری میں اپنی نئی سائیکل دوڑا رہا تھا جو شمس خان کل ہی اسکے لیے لایا تھا۔۔۔۔
        رحیمہ۔۔۔۔رحیمہ۔۔۔۔۔مہرو نے وہیں بیٹھے بیٹھے رحمیہ کو آواز دی
        جی مہرو باجی۔۔۔۔۔وہ بوتل کے جن کیطرح حاضر ہوئی۔
        یہ دعا کے فیڈر کو گرم پانی سے اچھی طرح دھو کر رکھو پھر میں فیڈر بناتی ہوں۔
        بی بی جی۔۔۔میں یہ خان سائیں کے لیے چائے لے جا رہی تھی یہ دے آؤں آ کر دھوتی ہوں۔۔۔۔رحیمہ نے ہاتھ میں پکڑی ٹرے آگے کی۔
        یہ میں لے جاتی ہوں تم جلدی سے یہ فیڈر دھو دو۔۔۔۔مہرو نے چائے کی ٹرے اسکے ہاتھ سے پکڑی۔
        اماں میں یہ چائے انہین دے آؤں۔۔کیا۔۔۔؟؟
        ہوں۔۔۔۔جاؤ۔۔۔۔۔خدیجہ مسکرا کر بولیں۔
        مہرو چائے لیے کمرے میں آئی پر کمرہ خالی تھا شمس شاید اسٹڈی میں تھا۔
        وہ اسٹڈی میں گئی مگر وہ بھی خالی تھی پر شمس کی چیزیں وہیں پڑیں تھی جسکا مطلب تھا وہ وہیں تھا مگر اب شاید باہر نکلا ہو۔۔
        مہرو ٹرے اسٹڈی ٹیبل پر رکھ کے جیسے ہی مڑی اسکی نظر کتاب میں رکھی مخملی ڈبیا پر پڑی جو آدھی سے زیادہ کتاب کے اندر تھی صرف ایک سرا نظر آ رہا تھا۔۔۔
        یہ کیا ہے۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو کو تجسس ہوا۔
        مجھے کیا جو بھی ہو۔۔۔۔وہ کندھے اچکا کر واپس مڑی۔
        دیکھ ہی لیتی ہوں مین۔۔اسےدیکھنے میں کیا حرج ہے۔۔۔۔۔؟؟وہ دل میں موجود تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر واپس ٹیبل تک آئی۔۔۔۔
        اس نے کتاب کو کھولا تو بیچ میں واقعی میرون مخملی ڈبیا تھی مگر وہ ڈبیا لمبی تھی جیسے کسی بریسلٹ کی ہوتی ہے۔۔۔۔۔
        مہرو نے ایک نظر اسٹڈی کے بند دروازے پر ڈالی اور جلدی سے ڈبی کھول دی۔
        یہ کیا۔۔۔۔۔؟؟؟وہ ڈبی میں موجود پائل دیکھ کر ساکت تھی۔
        وہ اور نہجانے کتنی دیر ساکت رہتی کہ شمس کی آواز پر چونک کر مڑی۔
        آپ کیا کر رہیں ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟
        وہ۔۔۔۔۔۔۔۔
        وہ میں۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔یہ پائل آپ کے پاس کیسے آئی۔۔۔۔؟؟مہرو کے ساکن لبوں نے ہلکی سی جنبش کی تھی۔
        یہ پائل۔۔۔۔شمس نے اسکے ہاتھ میں پکڑی پائل کیطرف اشارہ کیا۔۔
        جی۔۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔پائل۔۔۔۔۔"میری پائل"۔۔؟؟۔۔۔
        مہرو نے لفظ میری پائل پر زور دے کر سپاٹ نظروں سے شمس کو دیکھتے ہوئے سردوسپاٹ انداز میں پوچھا تھا۔
        مجھے بتائین آپ کے پاس کیئسے آئی۔۔۔ میری پائل۔۔۔
        شمس خان؟؟؟۔
        جاری ہے۔
        Vist My Thread View My Posts
        you will never a disappointed

        Comment


        • #34
          لگتا ہے کہ سہراب کا قاتل ابرار ہے

          Comment


          • #35
            Sir. Jee
            Kya khafa ho gaye koi update hi nahi hai
            Ab kya is ki update bhi ramazan k bad aye gi?

            Comment


            • #36
              Originally posted by insght View Post
              Sir. Jee
              Kya khafa ho gaye koi update hi nahi hai
              Ab kya is ki update bhi ramazan k bad aye gi?
              ارے ارے نہین دوست۔
              خفا ہونے والی کوئی بات نہین ہے۔
              بس ایک چھوٹا سا ٹوئیسٹ خود کیساتھ ہو گیا تھا۔
              یعنی اکسیڈینٹ(حادثہ) بور مجھے کچھ ریسٹ کیلئے گھر مین ہی رہنا پڑھ گیا۔
              بس اب آج کل مین اس کی لاسٹ اپڈیٹ پوسٹ ہو جائے گئی۔
              اور عید پر ؟؟؟؟؟۔
              ​​​​​​​پوسٹ ھو ں گئی۔
              Vist My Thread View My Posts
              you will never a disappointed

              Comment


              • #37
                قفس کی چڑیا۔
                لاسٹ اپڈیٹ۔
                پارٹ ون۔

                ۔مہروجی۔درآصل یہ پائل آپ کی ہے۔۔۔۔شمس نے گلا کھنکارتے ہوئے کہا۔
                یہ تو میں بھی اچھی طرح سے جانتی ہوں کہ یہ بائل میری ہی ہے۔۔۔۔مگر یہ آپ کے پاس کیسے آئی۔۔۔۔؟؟؟مہرو نے پھر سوالیہ نظریں شمس خان کے سنجیدہ مگر فق ہوتے چہرے پر فوکس کرتے پوچھا۔
                درآصل وہ۔۔آپ کویاد ہو گا جب زبیر نے MBA کے تھرڈ سمیسٹر میں کلاس میں سب سے زیادہ نمبر لیے تھے تو اسنے ہم سبھی کلاس فیلوز کو پارٹی دی تھی اپنی حویلی میں۔۔۔۔۔۔
                اوہ۔۔ہ۔۔ہ۔۔ہ۔۔۔۔۔مہرو نے لمبی سی سانس لی اسے وہ دن یاد تھا ۔
                ___________________
                جب شمس لالہ نے اپنے تھرڈ سمیسٹر میں کلاس میں ٹاپ کیا تھا پیچھلے دو سمیسٹرز میں وہ تیسرے نمبر پر تھے پر اس بار انہوں نے بتایا تھا کہ وہ اپنے دوستوں سے بیٹ لگا چکے ہیں کہ اس سمیسٹر میں وہ اگلے دونوں بوائز کولازما کراس کریں گے اور پھر ایسا ہی ہوا تھا۔۔۔وہ واقعی انہیں کراس کر گئے تھے۔۔۔۔جس پر لالہ نے اپنی کلاس کے سولہ سترہ جتنے بھی بوائز تھے سب کو حویلی میں ٹریٹ دی تھی۔۔۔
                اس پارٹی وقت مہرودالان میں میگزین گود میں رکھے بےزار سی بیٹھی تھی جب شہربانو اسکے پاس آئی۔
                ارے تم ایسے کیوں بیٹھی ہو مہر۔۔۔۔؟؟؟
                کچھ نہیں بس ویئسے ہی بور ہو رہی ہوں مین۔۔۔۔۔مہرو کچھ سیدھی ہوئی۔
                ارے بھئی یہ کیا اتنی اونچی میوزک کو سن کر بھی بور ہو رہی ہو۔۔۔
                (یہ اونچی میوزک مردانے میں زبیر خان اور اسکے دوستوں نے اپنی پارٹی میں لگا رکھا تھا)۔
                خالی خولی میوزک سے کیا خاک انجوائے کروں گی میں۔۔۔انجوائے تو وہ سب لڑکے کر رہے ہوں گے ادھرناچ کود کر۔۔۔۔مہرو چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں لے کر حسرت سے بولی۔
                اونہہ۔۔۔۔کس قدر واہیات ناچتے ہیں یہ لڑکے۔۔۔؟؟؟بانو نے ناک چڑھایا۔تمہیں یاد نہیں ابرار لالہ کی شادی میں ان کے دوستوں نے مل کر کسقدر گندا اور واہیات ڈانس کیا تھا۔۔۔۔بانو وہ ڈانس یاد کرکے سخت بدمزا ہوئی۔
                ہاں اور ہم سب لڑکیاں اسی واہیات ڈانس کو دیکھنے کیلئے رات 2 بجے تک چھت پر رہیں تھیں۔۔۔۔۔مہرو نے ابرو چڑھا کر بانو کا مذاق اڑایا۔
                وہ تو تمہیں اور زرکا کو شوق تھا دیکھنے کا اور ہم باقی سب کزنین مفت میں ہی پس گئی تھیں۔۔۔۔۔۔بانو کو اس رات زبیر خان سے پڑنے والی ڈانٹ اچھی طرح یاد تھی۔
                ارےے یار شوق تو مجھے اب بھی ہے۔۔۔۔۔مہرو نے مسکراہٹ دبا کر اُسے آنکھ ماری۔
                شہربانو اسکی بات سمجھ کر اچھلی۔۔۔ نہ بابا نہ۔۔۔۔۔میں ایسا کچھ نہیں کرنے والی۔۔۔۔۔اس نے ہاتھ کانون کو لگا کر فورا منع کیا۔
                مان جاؤ ناں پلیز۔۔۔۔۔میری جان۔پلیزززززز۔۔۔۔۔پلیز بانو۔۔۔۔۔ جانو
                ہر گز نہیں۔۔۔اگر خالو ( مہرو کے بابا) کو یا پھر زبیر لالہ کوپتہ چل گیا تو۔۔۔۔۔؟؟؟شہربانو ابھی بھی رضامند نہ تھی۔
                نہیں چلے گا ناں ان کو پتہ وہ ڈیرے پر ہیں میں نے گل کو بھیج کر پتہ کروا لیا تھا اور لالہ اپنے دوستوں میں بزی ہیں۔۔۔۔۔بس تھوڑی دیر کے لیے۔۔۔۔مجھے بس یہ دیکھنا ہے کہ پڑھے لکھے لڑکے کیسا ڈانس کرتے ہیں۔۔۔
                تف ہے تم پر۔۔۔۔۔۔بانو نے اسکے منہ پر ہاتھ سیدھا کیا۔
                چھوڑو یہ لعن طعن آ کر کر لینا فلحال چلو جلدی کرو۔۔۔۔۔اری چلوووووو۔۔۔بھی ۔۔۔مہرو اسکا بازو گھسیٹتی زبردستی ساتھ لے کر مردانے کی طرف چل پڑی۔
                وہاں پہنچ کر مہرو نے آگے جا کر ساری راہداری چیک کی اور راستہ کلئیر دیکھ کر کافی پیچھے کھڑی شہربانو کو ہاتھ ہلا کر آگے آنے کو کہا۔
                شہربانو اسکے اشارے پر ادھر أدھر دیکھتی ڈرتی جھجھکتی اس تک آئی ۔
                شکر ہے بانو یار ہال کا دروازہ کھلا ہے۔۔۔۔مہرو نے ایکسائیٹڈ ہو کر سرگوشی کی۔
                تم جلدی سے دیکھو جو بھی دیکھنا ہے۔۔۔۔شہربانو اکتا کر بولی۔
                تم نیچے بیٹھ کر دیکھنا میں اوپر سے دیکھو گی اوکے۔
                ہوں۔۔۔۔شہربانو نے مروت میں ہلکا سا سر ہلا دیا ورنہ اسے یہ سب دیکھنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔
                مہرو نے ہال کے پاس پہنچ کر دیوار سے لگ کر ہلکا سا سر آگے کو جھکایا اور اندر جھانکا
                اووئے۔۔۔۔واہ۔۔۔۔۔بانو وہ دیکھو کالی شرٹ والا بریک ڈانس کر رہا ہے بلکل ویسا ہی جیسا اس دن ٹی وی میں۔۔۔۔
                بانو دیکھ رہی ہونا۔۔بانو۔۔۔مہرو نے آگے کو جھکے جھکے ہی نیچے اور پیچھے ہاتھ مار کر بانو کو تلاشہ مگر بانو وہاں ہوتی تو ملتی۔۔۔۔۔
                کہاں گئی۔۔۔۔۔؟؟وہ مشکوک ہوتی سیدھی ہو کر پیچھے پلٹی۔
                اور پیچھے کھڑے مسکراہٹ دباتے لڑکے کو دیکھ کر اسکا سانس رک چکا تھا۔
                چند لمحے منہ کھول کر اسے دیکھنے کے بعد مہرو نے جلدی سے چادر کے پلو سے منہ ڈھانپا جیسے پہلے شمس وہاں آنکھیں بند کیے کھڑا ہو۔۔
                شمس اسکی حرکت پر کھل کر مسکرا دیا۔۔
                وہ۔۔۔وہ آپ پلیز زبیر لالہ کو مت بتائیے گا کہ آپ نے مجھے یہاں دیکھ لیا ہے۔۔۔۔مہرو زبان تر کر کے بولی۔
                مگر آپ زبیر لالہ کی لگتی کیا ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟شمس نے مسکراہٹ دبا کر پوچھا۔
                مم۔۔۔۔مین۔۔۔۔
                جی آپ۔۔۔۔۔۔وہ ابھی بھی اپنی مسکراہٹ دبائے ہوئے تھا۔
                میں انکی کچھ نہیں لگتی۔۔۔۔مہرو اسکی ابھرتی مسکراہٹ پر کنفیوز ہو کر کہتی بھاگ کھڑی ہوئی۔
                شمس پلٹ کر اسے بھاگ کر جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔
                مہرو بھاگتی ہوئی راہداری کے اینڈ پر پڑے گملے میں اڑ کرزور کیساتھ دھڑام سے زمین بوس ہوئی ۔
                شمس اسے اسطرح سے گرتے دیکھ کر ادھر بڑھا۔
                مہرو نے منہ موڑ کر پیچھے دیکھا اور شمس کو آتے دیکھ کر پھرتی سے اٹھی اور جلدی سے راہداری مڑ کر مردانے سے نکل کر حویلی کے رہائشی حصے میں داخل ہوئی۔۔۔
                شمس جب وہاں پہنچا تو مہرو تو جا چکی تھی مگر گملے کے پاس اسکی پائل گری تھی۔ جسے شمس نے جھک کر اٹھایا اور ہتھیلی پر پھیلا کر مسکرا دیا۔۔۔۔
                میری ساجن"کیا سوچ کہ تم باندھتی ہو پیروں میں پائل،۔
                ان کی چھن چھن سے ساقی ہزاروں ہو چکے ہونگے گھائل۔۔۔
                ۔۔۔۔۔۔______
                اوہ۔۔۔۔ہ۔۔۔۔یہ تو نو دس سال پہلے کی بات ہے اور آپ نے اتنی پرانی چیز کو ایئسے سنبھال رکھا تھا۔مہرو۔ان حسین لمحات کی میٹھی چبھن سے حال میں لوٹتی حیران سی پوچھ رہی تھی۔
                میں آپ کو تب ہی لوٹا دینا چاہتا تھا مگر کس کے ہاتھ لوٹاتا۔۔۔۔زبیر کو بتانے سے آپ نے منع کیا تھا اور میں کسی ملازم کے ہاتھ بھی نہیں بھجوا سکتا تھا کہ نہجانے پھر وہ کیا سمجھتا۔۔۔۔
                اسی لیے آپکی پائل کو آپکی امانت کے طور پر سنبھال لیا تھا۔۔۔۔شمس ایک بہت گہری پرسکون سانس ہوا کے سپرد کرتا بولا۔
                مگر اب میں اس کا کیا کروں گی۔۔۔؟؟یہ تو ایک ہے۔۔۔مہرو پائل کو ہاتھ میں اُدھر ادھر جھلاتی بولی۔
                دوسری کہاں گئی جو آپ کے پاس تھی۔۔۔؟؟
                وہ تو میں نے شہربانو کو دے دی تھی کیونکہ وہ ایک پائل پہنتی تھی اور میں دو۔۔۔۔میری جب اسکے ساتھ کی گم ہو گئی تو میں نے وہ ایک اسے دے دی۔۔۔
                اسکا بھی حل ہے میرے پاس۔۔۔آپ رکیں ذرا میں آتا ہوں ابھی۔۔۔۔۔شمس اسے کہہ کر خود اسٹڈی روم سے باہر نکل گیا۔
                کیسا حل۔۔۔۔یہ کہاں گئے اب۔۔۔۔۔؟؟مہرو حیران سی کھڑی سوچ رہی تھی۔
                جب شمس ویسی ہی مخملی ڈبیا لیے وہاں آیا۔
                اس میں کیا ہے۔۔۔۔۔؟؟مہرو حیران ہوئی۔
                کھول کر دیکھ لین۔۔۔۔۔۔۔۔
                مہرو نے ہچکچاتے ہوئے ڈبیا پکڑ کر کھولی اندر بلکل مہرو کی پائل کے جیسی دو پائلز تھیں۔
                یہ۔۔۔۔۔؟؟مہرو نے ابرو اٹھا کر شمس کو دیکھا۔
                یہ بھی تب ہی بنوائیں تھیں۔۔۔۔جب آپکی پائل ملی تھی۔۔۔۔میں نے سوچا تھا ہوسکتا ہے دوسری پائل بھی وہیں کہیں گر کر گم ہو گئی ہو اسلئیے یہ دو لیں تھیں۔۔۔
                پر میں اب ان کا کیا کروں گی۔۔۔؟؟وہ ابھی بھی کنفیوز تھی۔
                جو پہلے کرتی تھین۔۔۔۔
                مگر میں تو اب پائلیں نہیں پہنتی۔۔۔
                تو اب پھر سے پہننا شروع کر دیں مجھے اچھا لگے گا۔۔۔وہ سنجیدگی سے اپنی پسند بتا رہا تھا۔
                مہرو نے ایک نظر شمس کی طرف دیکھا اور اسکے چہرے پر نظر آتے انوکھے رنگوں کو دیکھ کر جلدی سے وہاں سے نکل آئی۔
                ارےے یہ۔اب۔۔۔یہ ان کو کیا ہو گیا اچانک۔۔۔۔؟؟
                مجھے اچھا لگے گا۔۔اونہہ۔۔مہرو اسکی نقل اتارتی سر جھٹک کر سیڑھیاں اتر گئی۔
                _____________________
                شمس کے فقرے "مجھے اچھا لگے گا" نے مہرو میں بہت کچھ بدل دیا تھا۔۔۔۔وہی مہرو جو ہر وقت سمپل اور گھریلو حلیے میں رہتی تھی اب بن سنور کر رہنے لگی تھی ۔۔
                نہجانے کیوں۔۔۔۔؟؟
                خدیجہ مہرو کی اس تبدیلی سے بہت خوش تھیں وہ تو مہرو کو کہہ کہہ کر تھک چکیں تھیں کہ بن سنور کر رہا کرے مگر مہرو جی اچھا کہہ دیتی مگر عمل نہیں کرتی تھی۔۔۔۔۔اور اب اسکی تبدیلی پر خدیجہ بہت خوش اور مطمعن تھیں۔۔
                خوش تو شمس بھی تھا مہرو کی اس کایا پلٹ دیکھ کر مگر فلحال خاموشی سے صرف جج کر رہا تھا۔۔
                کل شمس نے مہرو سے اپنے کسی دوست کے گھر جانے کا کہا تھا اور اب مہرو اسی کے لیے تیار ہو رہی تھی جب شمس کمرے میں آیا ۔
                مہرو پاؤں چئیر پر رکھے پائل کا لاک کھولنے کی کوشش کر رہی تھی مگر لاک تھا کہ کھلنے میں ہی نہیں آ رہا تھا۔۔۔۔۔
                کیا بکواس ہے یہ کھل کیوں نہیں رہا۔۔۔۔وہ اکتا کر بڑبڑائی
                لائیں میں کھول دیتا ہوں۔۔۔۔شمس نے پاس آ کر فورا اپنی خدمات پیش کیں۔
                مہرو نے خاموشی سے پائل اسے پکڑادی۔اور اپنی لٹوں کو کانوں کے پیچھے اڑس کر دوپٹہ سیٹ کیا۔۔
                یہ لیں کھل گئی ہے میں پہنا دوں۔۔۔۔؟؟؟
                "چھوئے تو نہیں کسی کے پاؤں میں نے لیکن !!اۓساقی۔۔
                وہ پائل باندھنے کا بولے تو پھر مین سوچ سکتا ہوں۔۔۔!!"
                نن۔۔۔۔نہیں میں پہن لوں گی۔۔۔مہرو نے بوکھلاتے ہوئے جلدی سے پائل واپس پکڑ لی۔
                ہوں۔۔۔۔شمس سر ہلاتا ڈریسنگ روم چلا گیا۔۔۔۔۔چند منٹ بعد وہ گولڈن کلر کا خوبصورت سا باکس لیے واپس آیا ۔
                یہ سیٹ پہن لیں۔۔۔۔شمس نے باکس مہرو کی طرف بڑھایا۔
                جو پہنا ہے وہ اچھا نہیں لگ رہا۔۔۔۔۔؟؟اس نے تیز نظروں سے شمس کو دیکھا۔
                وہ بھی اچھا ہے مگر اب یہ والا پہن لیں۔۔۔۔مہرو نے مزید بحث کیے بنا سر ہلا کر باکس پکڑ کر کھولا
                ہمممم۔۔چوائس تو ان کی اچھی ہے۔۔۔۔اس نے سوچتے ہوئے ائیر رنگز اور چین باہر نکالی اور پہلے سے پہنا سیٹ اتارنے لگی شمس انتہائی انہماک سے آئینے میں نظر آتے اسکے سراپے کو نظروں کے حصار میں لیے کھڑا تھا۔
                مہرو اسکے ٹکٹکی باندھنے پر تھوڑا کنفیوز ہوئی مگر جلدی جلدی کر کے اسنے شمس کا دیا سیٹ پہنا اور پیچھے پلٹی۔
                اچھی لگ رہی ہیں۔۔۔۔۔۔انتہائی سنجیدہ تاثرات سے تعریف کی گئی۔
                میں جانتی ہوں۔۔۔۔۔مہرو کھٹاک سے جواب مارتی اپنا پاؤچ اور چادر لیے باہر نکل گئی۔
                اونہہ۔۔۔مسکرانا تو گناہ سمجھتا ہے یہ شخص۔۔۔وہ بڑبڑاتی ہوئی حدید اور دعا کے کمرے کیطرف بڑھ گئی۔
                شمس اسکے جواب پر مسکرا کر سر جھٹکتا پیچھے ہی باہر آ گیا
                ______________
                ارے واہ بھابھی آپ تو پہچانی ہی نہیں جا رہیں۔۔۔۔۔۔پلوشہ نے مہرو کے سامنے آ کر اسکی بلائیں لیں۔
                آپ مہرو ہی ہیں ناں۔۔۔۔؟؟؟ یا میں ہی کسی غلط جگہ آ گئی ہوں۔۔۔۔۔؟؟
                اب بلاوجہ تو مکھن مت لگاؤ بدتمیز۔۔۔۔مہرو کے ہونٹوں پر شرمیلی مسکان ابھری۔
                واہ۔۔۔واہ۔۔۔ما شا اللہ۔۔۔۔کیا شرمیلی ہنسی ہے لالہ دیکھیں گے تو فورا لٹو۔۔۔۔
                کیا دیکھیں گے لالہ۔۔۔۔؟؟؟شمس نے اندر داخل ہو کر پلوہی کی آدھی بات پکڑی۔
                میری بھابھی کو۔۔۔۔۔۔۔پلوشہ کی بات پر مہرو نے اسکی کمر پر مکا جڑا۔
                شمس مسکرا کر سامنے موجود صوفے پر بیٹھااور مہرو کو اپنی نظروں میں جکڑ لیا۔
                جو ہلکے پنک کلر کے ڈریس کیساتھ میچنگ لپ اسٹک اور چوڑیاں پہنے جھجھکتی ہوئی نکھری نکھری اور پیاری لگ رہی تھی۔
                میں چائے لاتی ہوں۔۔۔۔مہرو کنفیوز ہوتی جلدی سے کھڑی ہوئی۔
                کوئی چائے وائے نہیں پینی ابھی۔۔۔بس آپ آرام سے ادھر بیٹھیں۔۔۔۔پلوہی نے اسے پکڑ کر پھر سے بیٹھا دیا۔
                اور تم سناؤ کب آئی۔۔۔۔؟؟گھر میں سب کیسے ہیں۔۔۔۔۔؟؟شمس نے ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر پلوہی سے پوچھا۔
                میں کچھ دیر پہلے آئی ہوں۔۔۔۔گھر میں بھی سب ٹھیک ہیں۔۔۔۔آپ سنائیں کیا چل رہا ہے آج کل۔۔۔۔؟؟پلوشہ نے شرارتی انداز میں آنکھوں کو گھمایا اور ساتھ مہرو کے چٹکی لی۔
                شمس اسکی حرکت پر مسکرا دیا جبکہ مہرو اسے گھور کر کھڑی ہوئی۔
                مین ابھی آتی ہون۔۔۔۔
                ارے نہیں بھابھی بیٹھیں تو ابھی میں آئی ہوں وہ بھی تھوڑی دیر کے لیے شام تک چلی جاؤں گی۔۔۔۔۔وہ آنکھیں پٹ پٹا کر معصومیت سے بولی۔
                شام تک تو ہو ناں یہاں۔۔۔۔۔مہرو دانت پیس کرکہتی ہاتھ چھڑوا کر ہال سے نکل گئی۔۔۔
                وہ جانتی تھی پلوہی شمس کیوجہ سے جان بوجھ کر اسے تنگ کر رہی تھی۔۔
                اب پلوشہ بھی مسکراتی ہوئی اٹھ کر شمس کیساتھ آ کر بیٹھ گئی۔۔
                بڑے دانت نکل رہے ہیں لالہ خیریت۔۔۔۔۔؟؟اس نے شمس کی مسکراہٹ پر چھیڑا۔
                ہان۔۔بلکل۔۔۔خریت۔۔وہ پھر سے مسکرایا
                آپ نے بھابھی کو سب بتا دیا کیا۔۔۔۔۔؟؟
                اوں ہوں۔۔۔۔۔شمس نے نفی میں سر ہلایا۔
                تو بھابھی میں یہ تبدیلی کب آئی۔۔۔۔؟؟؟
                پوچھ لیتی۔۔۔تمہاری تو کافی دوستی ہے ان سے۔۔۔۔
                پھر کب بتائیں گے اُسے أپ لالہ۔۔۔۔۔۔؟؟؟پلوشہ سنجیدہ ہوئی۔
                بتا دوں گا اب جلدی بھی کیا ہے۔۔۔۔۔؟؟
                جلدی۔۔۔۔؟؟؟محترم آپ لوگوں کے نکاح کو پانچ ماہ ہونے والے ہیں۔۔۔۔پلوہی ناک پھلا کر بولی
                ارے بتا دوں گا۔۔۔۔۔تم فکر مت کرو۔۔۔۔مائی سویٹ ڈول۔۔۔۔شمس نے مسکرا اسکے پھولے ناک کو کھینچا۔
                لالہ اب مزید وقت ضائع مت کریں۔۔۔۔۔اتنے سال کافی نہیں ہیں کیا۔۔۔۔؟؟؟
                کہا ہے ناں بتا دوں گا۔۔۔اب چھوڑو اس بات کو۔۔۔۔یہ بتاؤ زریاب کیسا ہے۔۔۔۔؟؟؟
                وہ ٹھیک ہیں آجکل الیکشن کا بھوت سوار ہے ان پر۔۔۔۔۔۔وہ برا سا منہ بنا کر بولی۔
                الیکشن۔۔۔۔۔۔
                ہوں کہہ رہے ہیں اس بار اپنے علاقے سے الیکشن لڑیں گے۔۔۔بابا جان نے بھی روکا ہے میں نے بھی مگر وہ زریاب آفریدی ہی کیا جو کسی کی بات مان جائیں۔۔۔۔وہ چڑی۔
                شمس اسکے چڑنے پر مسکرا دیا
                چلو کرنے دو اسے شوق پورا۔۔۔ایک بار میں ہی عقل آ جائے گی تمہارے نالائق شوہر کو۔۔۔۔
                اوہ۔لالہ یہ کیا۔۔میرا نالائق شوہر۔۔۔۔؟؟؟پلوشہ کو صدمہ ہوا
                ہاں تمہارا نالائق شوہر۔۔۔۔شمس مسکراہٹ دباتا کھڑا ہوا۔
                آپ کو پتہ ہے زریاب لندن کے ڈگری ہولڈر ہیں۔۔۔۔
                ایسی ڈگری کا کیا فائدہ جب بندہ عقل سے ہی پیدل ہو۔۔۔۔۔
                لالہ۔۔۔لہ۔۔۔لہ۔۔۔لہ۔۔۔لہ۔۔۔لہ۔۔۔۔پلوہی کے چیخنے پر وہ قہقہہ لگاتا ہال سے نکل گیا۔۔
                کہہ تو بھیا ویسے ٹھیک ہی رہے ہیں۔۔۔۔۔پلوشہ زریاب کے چہرے کو تصور میں لا کر مسکرا کر سوچتی اماں کے کمرے کی طرف چلی گئی۔
                ______________
                مہرو عشاء کی نماز پڑھ رہی تھی جب شمس کمرے میں داخل ہوا۔
                ایک نظر مہرو کو دیکھ کر وہ چینچ کرنے چل دیا۔۔۔۔
                مہرو آخری رکعتوں میں تھی جب وہ چینج کر کے واپس آیا اور بیڈ کے پاس پڑے صوفے پر بیٹھ کر مہرو کی پشت کو محویت سے دیکھنے لگا۔۔۔۔۔
                "حسرت سے دیکھتے رہے ماضی کو اسطرح۔۔۔صنم
                جیسے کہ لوٹ آئیں گے وہ دن جو گزر گئے۔۔۔"
                مہرو نے آخری سلام پھیرا اور تسبیح پڑھنے لگی۔۔۔۔۔وہ شمس کی طرف منہ کیے بغیر بھی اسکی نظریں خود پر ٹکی ہوئی محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔
                اب تو ایسا اکثر ہونے لگا تھا۔۔۔۔۔۔شمس ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھتا۔۔۔۔ رہتا
                شروع شروع میں جب کبھی ایسا ہوتا تو مہرو کو دیکھتے پا کر شمس فورا اپنی نظریں جھکا لیتا تھا مگر اب مہرو کے دیکھنے پر بھی وہ بنا شرمندہ ہوئے اسے دیکھتا رہتا۔۔۔مجبورا مہرو ہی کنفیوز ہو کر ادھر أدھر ہو جاتی تھی۔۔۔۔یہ نہیں تھا کہ مہرو کو اسکی نظروں سے الجھن ہوتی تھی مگر وہ شمس کے اسطرح تسلسل سے دیکھنے پر ٹھٹھک ضرور جاتی تھی۔۔۔۔یوں جیسے شمس کی نظروں میں ایسا کچھ خاص ہو۔۔۔کچھ بہت خاص۔۔۔۔پر مہرو ہر دفعہ اسے اپنا وہم سمجھ کر جھٹلا اٹھتی۔۔۔
                تسبیح کے بعد اسنے ہاتھ اٹھائے اور دعا مانگنے لگی۔۔۔۔شمس ابھی بھی بنا پلک جھپکائے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
                مہرو نے دعا کے بعد ہاتھ چہرے پر پھیرے ، جائے نماز تہہ کر کے رکھا۔
                اور اپنے وہم کو یقین میں بدلنے کا فیصلہ کرتی شمس کی طرف چلی آئی۔
                ____________________
                زریاب پلیز مان جائیں ناں۔پلوہی نے زریاب کے سامنے بکھری فائلوں کو اٹھا کر اسکی پہنچ سے دور کیا۔
                پلوہی۔۔ہی۔۔یی۔۔۔۔تنبیہہ ہوئی۔۔
                پلیززززز۔۔۔۔۔۔۔
                اب کچھ نہیں ہو سکتا میرا اتنا پیسا لگ چکا ہے اب تمہارے کہے میں آ کر سارا پیسہ ڈبو دوں کیا۔۔۔۔؟؟؟زریاب ہر روز کی اس بحث سے تنگ آ چکا تھا جس میں پلوشہ اسے الیکشن سے ڈراپ آوٹ کرنے پر اکسا رہی تھی۔
                پیسہ مجھ سے زیادہ اہم ہے۔۔۔۔وہ روہانسی ہوئی
                میں ایموشنل بلیک میلنگ میں نہیں آنے والا۔۔۔۔۔زریاب نے ہاتھ اٹھائے
                ارےے خان جی پلیز۔۔۔۔میری خاطر۔۔۔۔مان جائین نا۔۔
                کہا ہے ناں نہین۔۔۔۔۔۔
                مطلب پیسہ زیادہ ضروری ہے مجھ سے۔۔۔۔آپ کے نزدیک میں بکواس کر رہی ہوں اتنے دن سے۔۔۔۔۔
                کم آن۔۔۔۔پلوہی آخر تمہیں میرے الیکشن لڑنے سے مسلہ کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟؟
                مجھے پولیٹیشنز پسند نہیں۔۔۔۔وہ ناک چڑھا کر بولی۔
                وہ کیوں۔۔۔۔؟؟زریاب نے اپنی مسکراہٹ دبا کر پوچھا۔
                کیونکہ وہ کرپٹ ہوتے ہیں۔۔۔۔وہ معصومیت سے بولی....
                مگر میں تو نہیں ہوں ناں کرپٹ۔۔۔۔؟؟
                تو ہو جائیں گے جب سیاست میں آئیں گے۔۔۔۔مجھے پسند نہیں ہے زریاب آپ ختم کریں ناں یہ قصہ۔۔۔کیا ضروری ہے ہم روز اس بات پر بحث کریں۔
                کر دیا ختم اور کچھ۔۔۔زریاب نے سیگرٹ اور لائٹر اٹھایا۔
                میں سیریس ہوں محترم۔۔پلوہی نے دانت رگڑے۔
                ارےےے میں بھی سیریس ہوں محترمہ۔۔۔
                تو خان آپ میرے سر کی قسم کھائیں۔۔۔۔
                یہ ہر چھوٹی بڑی بات پر اپنا سر کیوں بیچ میں لے آتی ہو اور پھر زبردستی اسکی قسم بھی اٹھواتی ہو۔۔۔زریاب پلوہی کی اس عادت سے باخوبی آگاہ تھا اسلیے چڑ کر بولا۔
                کیونکہ آپ کا کیا بھروسہ زبانی کلامی بات پر مکر جائیں۔۔۔۔اس نے کندھے اچکائے۔
                اور اگر قسم سے بھی مکر جاؤں تو۔۔۔۔؟؟؟
                نہیں۔۔۔میں جانتی ہوں آپ میرے سر کی قسم سے کبھی نہیں مکریں گے چاہے کچھ بھی ہو جائے۔۔۔
                زریاب اسکے پریقین انداز پر مسکرا دیا
                تو پھر کھائیں قسم۔۔۔پلوشہ نے اسکا ہاتھ تھام کر اپنے سر پر رکھا۔
                تمھاری قسم۔۔۔۔
                پورا کہیں۔۔۔پلوہی تمہاری قسم میں الیکیشنز میں حصہ نہیں لوں گا پیسے کی مجھے پرواہ نہیں۔۔۔اور اگر کسی کے کہے میں آ کر مکر جاؤں تو پلوہی کا مرا ہوا منہ دیکھوں۔۔۔
                زریاب مسکراتے ہوئے حلف نامہ سن رہا تھا اسکی آخری بات پر مسکراہٹ روک کر سیریس ہوا۔
                سوچ سمجھ کر بولا کرو جو منہ میں آتا ہے بنا سوچے سمجھے بول دیتی ہو۔۔۔۔وہ خفگی سے بولا
                جو بھی ہے آپ کو میری پوری بات کے بعد ہی رہائی ملے گی۔۔۔
                زریاب نے اسکا اٹل انداز دیکھ کر آخری بات چھوڑ کر باقی حلف نامہ مکمل کیا اور اسکے ہاتھ ہٹا کر اٹھ گیا جس سے پلوہی نے اسکے بازو دبوچ کر قید کر رکھا تھا ۔
                بہت برے ہیں آپ۔۔۔۔؟؟وہ خفا خفا سی بولی۔
                یشب نے مسکرا کر اسکی چوٹیا کو ہلکا سا جھٹکا دیا اور اسکے پیچھے سے فائلز اٹھا کر اسٹڈی چلا گیا
                اسکے جانے کے بعد پلوشہ بھی مطمعن ہوتی نماز پڑھنے اٹھ گئی۔۔۔۔وہ پورے ایک ماہ کی کوشش کے بعد یہ معرکہ سر کر چکی تھی زریاب کو منا کر اس لیے شکرانے کے نوافل ادا کرنا تو بنتا تھا۔۔
                _______________________
                چائے لاؤں۔۔۔۔مہرو نے کھڑے کھڑے شمس سے پوچھا۔
                نہیں۔۔۔۔۔۔۔شمس نے نفی میں سر ہلایا۔
                مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔
                جی کریں۔۔۔۔شمس اسکی بات پر سیدھا ہوا
                مگر مہرو سر ہلاتی اسٹڈی میں چلی گئی۔
                شمس اسکے مشکوک انداز پر حیران تھا۔
                چند منٹ بعد مہرو ایک درمیانے سائز کا ڈبہ لیے وہاں آئی۔۔۔۔۔وہ ڈبہ جیولری باکس کے مشابہ تھا۔۔۔۔ڈبے کے بیرونی ڈیزائن سے وہ کافی یونیق اور ایکسپینسیو لگ رہا تھا۔۔
                مہرو نے پاس آ کر ڈبہ شمس کے سامنے موجود ٹیبل پر رکھا۔
                شمس سانس روکے بلکل ساکت تھا۔۔۔۔
                مہرو نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ڈبہ کھولا اور اس میں موجود چھوٹی مخملی ڈبیوں کو باہر نکالنے لگی۔
                اس نے ایک ایک کر کے ساری ڈبیاں باہر نکالیں اور آخر میں دل کی شیپ کا بنا کارڈ بھی باہر نکالا۔
                ساری ڈبیاں نکال لینے کے بعد اب وہ باری باری ان ڈبیوں کو کھول کر ان میں سے پائلیں نکال کر ٹیبل پر رکھنے لگی۔۔۔وہ تقریبا پچاس سے زیادہ ڈیزائنز کی گولڈ ، ڈائمنڈ ، چاندی اور نہجانے کس کس سٹف کی بنی پائلز تھیں۔۔۔۔۔
                مہرو نے سب کو نکال دیا۔۔۔۔ٹیبل بلکل کسی جیولری شاپ کا منظر پیش کر رہا تھا۔
                پائلوں کا ڈھیر لگانے کے بعد مہرو نے وہ ہارٹ شیپ کا کارڈ اٹھایا اور اس پر بندھا ربن کھول دیا
                It's all For My L❤ve “ Meher ”
                مہرو نے با آواز بلند اس میں لکھی عبارت پڑھی
                شمس اب بھی سانس روکے ساکت تھا۔۔۔
                کون ہے۔۔۔۔یہ مہر۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو نے شمس کو دیکھتے ہوئے بمشکل تحمل سے پوچھا۔اسے جو شک تھا جو وہم تھا وہ آج اسے یقین میں بدل دینا چاہتی تھی۔۔
                میں نے آپ سے پوچھا کون ہے یہ مہر۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو اسکی خاموشی پر بلند آواز سے پھر چلائی
                میری بات۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                یہ مہر کون ہے۔۔۔۔۔؟؟مہرو نے چبھتے ہوئے شمس کی بات کاٹی۔
                آپ ہیں یہ مہر۔۔۔۔۔!! شمس نے اعتراف کر کے کسی مجرم کی مانند آپنے جھکے سر کو مزید جھکا۔۔۔دیا۔۔
                آپ۔ شمس کے مدھم سے اقرار پر مہرو کٹے پتنگ کی مانند گرنے کے انداز میں صوفے پر جا بیٹھی۔
                کیا۔۔۔کب۔۔۔۔کیسے۔۔۔۔کہاں۔۔۔۔؟؟ایسے بہت سے سوالات مہرو کے اردگرد ہلچل مچا رہے تھے۔
                مگر وہ اس انکشاف پر دنگ سی بیٹھی تھی۔۔۔۔یہ کیا کہہ دیا تھا شمس نے۔۔۔۔؟ نو ، دس سال پہلے اسکی پائل شمس کو ملی تھی تو کیا یہ شخص تب سے۔۔؟؟
                اوف۔۔ف۔۔ف۔۔ف۔۔۔اتنے سال۔۔۔اس سے آگے مہرو سوچ نہیں پائی تھی۔
                وہ پوچھنا چاہ رہی تھی مگر الفاظ زبان کا ساتھ نہیں دے رہے تھے
                دوسری طرف شمس سر جھکائے اپنے پاؤں کے انگوٹھے کو محویت سے تکے جا رہا تھا
                چند لمحے یونہی خاموشی کے نذر ہو گئے۔۔۔
                کچھ دیر بعد مہرو خود کو بولنے کے قابل بناتی سر اٹھا کر شمس کیطرف متوجہ ہوئی۔
                کب سے۔۔۔؟؟ اسکے ہونٹوں سے مدھم سرگوشی نما آواز ابھری
                شمس نے ایک لمبی سی سانس ہوا کے سپرد کی۔۔۔آج نہیں تو کل یہ بات ہونی تھی پھر آج ہی کیوں نہیں۔۔۔وہ خود کو ہمت دلاتا ساری بات کو تفصیلا کرنے کا فیصلہ کر کے سیدھا ہو بیٹھا
                شاید تب سے جب آپ کو پہلی بار دیکھا تھا یاپھر شاید دوسری بار۔۔۔
                پہلی۔۔۔۔؟؟؟
                ہوں۔۔۔پہلی بار۔۔۔۔آج سے گیارہ سال پہلے ابرار خان کی مہندی کی رات۔۔۔۔۔
                مہندی کی رات کہاں پر۔۔۔؟؟مہرو نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔
                ایکچوئیلی میں اس دن ہرن کے شکار پر اس ایریے میں گیا تھا۔۔۔مجھے بچپن سے ہی ہرن کے شکار کا بہت ہی شوق تھا میرے چچا۔۔۔شمس رکا۔
                میرے چچا سے ہی یہ شوق مجھ میں منتقل ہوا تھا وہ اکثر ہرن کے شکار پر مجھے اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔۔۔۔۔
                میں اس دن اسی مقصد سے وہاں گیا تھا واپسی پر لیٹ ہو گیا تو سوچا زبیر کی طرف رات گزار کر صبح واپسی کے لیے نکل جاؤں گا۔۔۔۔وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ زبیر کے تایا زاد کی مہندی تھی۔۔۔اور زبیر مجھے زبردستی اپنے ساتھ فنکشن میں لے گیا جہاں ابرار کے دوست یار ناچنے گانے میں مگن تھے۔۔۔
                وہیں پر میں نے آپ کو دیکھا تھا۔۔۔۔
                چونکہ ہمارے ہاں مردوں کے فنکشنز علیحدہ ہوتے ہیں مردانے میں جہاں عورتوں کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی اسی لیے آپ اور آپ کی دیگر کزنز چھت سے یہ منظر دیکھنے میں مگن تھیں۔۔۔۔سب لڑکیاں چہرے ڈھانپ کر کھڑی تھیں مگر آپ بنا چہرہ چھپائے گرل پر گرنے کے انداز میں جھک کر اس فضول سے ناچ گانے کو انجوائے کر رہی تھیں۔۔۔۔۔مجھے آپ لوگوں کا چھپ کر اس واہیات سے ڈانس کو دیکھنا مناسب نہیں لگا تھا اور میں نے وہاں زبیر کو بھیجا تھا تاکہ وہ آپ سب کو وہاں سے ہٹا سکے۔۔۔۔۔وہ سانس لینے کو رکا۔
                اوہ۔۔۔ہ۔۔۔ہ۔۔۔۔۔شمس کی بات پر مہرو کے ہونٹ سکڑے تو اس رات ان صاحب کے کہنے پر ہی زبیر لالہ نے وہاں چھاپہ مارا تھا۔۔۔۔اوف خدا کس قدر ڈانٹ پڑی تھی اس رات ہم سب کو۔۔۔۔مہرو نے اس رات زبیر خان سے پڑنے والی ڈانٹ پر جھرجھری لی۔
                اور دوسری بار جب آپ کی پائل مجھے ملی تھی۔۔۔۔۔شمس نے اسکی خاموشی پا کر اگلی بات بتائی۔
                مگر اتنے سال۔۔۔۔چند لمحوں بعد مہرو نے پھر سے مدھم سی آواز سے سرگوشی کی۔
                جی ہاں اتنے سال۔۔۔شمس صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر ریلیکس ہو کر بیٹھا اسکے سر سے پہاڑ جتنا بوجھ اتر چکا تھا اسی لیے اب وہ مطمعن ہو گیا تھا۔
                کیا ملا آپ کو اس سب سے۔۔۔؟؟
                صبر کرنے کا درس اور پھر اس صبر کا پھل۔۔۔۔شمس پرسکون سا بولا۔
                اونہہ۔۔۔۔صبر۔۔۔۔مہرو استہزائیہ ہوئی
                آپ جانتے ہیں صبر میں کہیں کسی کو پانے کے لیے کسی کا خون کرنے کا درس نہیں ملتا شمس دلاور خان۔۔۔۔وہ چبا چبا کر کہتی کھڑی ہوئی۔
                ​​​​​​​جاری ہے۔
                Vist My Thread View My Posts
                you will never a disappointed

                Comment


                • #38
                  Nawazish update k liye
                  Or han koi serious accident tu nahi tha?

                  Comment


                  • #39
                    Originally posted by insght View Post
                    Nawazish update k liye
                    Or han koi serious accident tu nahi tha?
                    شکریہ دوست۔
                    بس بچت ہی ہو گئی۔
                    اوپر والے کے کرم سے پاؤن کے فیکچر پر ہی بات ٹل گئی ہے۔
                    فی الحال۔
                    Vist My Thread View My Posts
                    you will never a disappointed

                    Comment


                    • #40
                      Sir jee
                      Aakhir Qafas ki chirya qafas mai hi rah gai na?

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X