Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

نہلے پہ دہلا

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Life Story نہلے پہ دہلا

    نہلے پہ دہلا۔
    ۔(ذہانت و چالاکی کی نہایت حسین کشمکش)۔
    جوابی حملہ​​​​​​​۔

    وہ اس وقت وہان سڑک پہ تن تنہا سی کهڑی تهی _.۔
    آسمان کو کالی رات نے اپنی چادر میں لپیٹ رکها تها.ستارے بھی اپنی خوبصورت رنگ برنگی روشنی دکهانے میں ناکام تهے کیونکہ ان کا راستہ سیاہ بادلوں نے روک رکها تها.وہ دس منٹ سے ادھر کهڑی تهی اسی وجعہ سے ہی اب اسکے پاوں بھی درد کرنے لگے تهے ۔ساتھ اس کے چہرے پہ مایوسی سی چهائی ہوئی تهی..۔
    بڑی بے چارگی کا عالم تها...وہ پر امید نگاہوں سے سڑک کو دیکھ رہی تھی ماتهے پہ آیا پسینہ اس نے اپنی چادر سے پونچها جو اس نے اپنے پورے جسم پہ لپیٹ رکهی تهی.یہ پسینہ گرمی کی وجہ سے نہیں آ رہا تها ..پسینے کی وجہ وہ گهبراہٹ تهی جو وہ اس سنسان سڑک پہ اکیلا کھڑے ہونے پر محسوس کر رہی تهی.وہ ٹی وی پہ اغوا اور زبردستی کے کئی واقعات روزانہ سنتی آ رہی تهی اور آج خود کو وہ اسی گرداب میں دهنسا ہوا محسوس کرنے لگی تهی.....۔
    شام چھ بجے وہ گهر سے نکلی تهی آئمہ کے گهر فنکشن اٹینڈ کرنے کے لیے اور اس وقت رات کے آٹھ بج رہے تھے۔خیر وقت ویسے اتنا بھی زیادہ نہیں ہوا تها لیکن ایک ایسی لڑکی جو زندگی میں کبهی تنہا رات کو گهر سے باہر نہ نکلی ہو اس کے لیے یہ دو گهنٹے دو صدیوں کے مترادف تهے .....۔
    آئمہ اس کے بچپن کی سہیلی تهی .ان دونوں کا تعلق ندی اور کنارے جیسے تها .ہر خوشی ہر غم میں ایک دوسرے کے ساتھ ہوتیں .آج آئمہ کی سالگرہ تهی اور اسی خوشی میں اس نے اپنےگهر میں ایک خوبصورت سا فنکشن ارینج کیا ..۔
    ظاہر ہے اسے تو آنا ہی تها وہ تو بچپن کی سہیلی اور سب سے اچهی دوست ہونے کا دعویٰ کرتی تهی..ایسا نہیں تها کہ اس نے بالکل منع نہیں کیا اس بیچاری نے تو بہت احتجاج بھی کیا کہ وہ رات کے کسی بھی فنکشن میں نہیں آئے گی .۔
    مگر وہاں اس کی مزاحمت سننے والا کوئی نہیں تها آئمہ ایک نمبر کی ضدی لڑکی تهی جب اسے لگا کہ وہ اس کی بات نہیں مان رہی تو وہ سیدھا دادی کے سر پہ پہنچ گئی.آئمہ چونکہ اس کی بہترین سہیلی تهی اور ان کے ایک دوسرے کے گهر بہت آنا جانا تها اس لیے وہ دادی سے کافی بے تکلف ہو چکی تهی یا بے تکلف کہنا شاید درست نہیں ہوگا وہ دادی کی بہت اچهی دوست بن گئی تهی اب دادی اس کی بات تو نہیں ٹال سکتی تهیں.دادی تو ویسے بھی اکثر اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی رہتی تهیں.کہ اسے اپنی عمر کے لوگوں کے ساتھ انجوائے کرنا نہیں آتا.پرانے خیالات ہیں..اس عمر میں خود کو بڈهی بنائی ہوئی ہو .اصل میں وہ آج کے دور کی لڑکیوں سے بالکل مختلف تهی میک اپ، فیشن، پارٹیز فنکشن ان سب چیزوں کا اسے بالکل بھی شوق نہیں تها .وہ بہت زیادہ سادہ تهی. اس وجہ سے اسے دادی سے خوب جهڑپیں سننے کو ملتیں کہ وہ اتنی خوبصورت ہونے کے باوجود سادگی کے ساتھ کیوں رہتی ہے اور یہی حال آئمہ کا بھی تها وہ بھی ہمیشہ اس کے پیچھے پڑی رہتی. ...۔
    آج چونکہ دادی جی نے بذات خود حکم صادر کیا تها تو اسے مجبوراً فنکشن میں آنا ہی پڑا..۔

    دادی اس کی کل کائنات تهیں والدین اس کے بچپن میں ہی ایک حادثے میں گزر گئے.تو ان سب کی کمی دادی ہی پوری کرتیں. وہ بھی والدین نہ ہونے کی وجہ سے دادی کے بہت ہی قریب آ گئی تهی ..۔
    والد کے غیر معمولی پینشن سے دونوں دادی پوتی کا گزر بسر اچهے سے ہو رہا تها...۔
    اس لیے ہی وہ فنکشن میں آ گئی .اب تقریباً فنکشن ختم ہی ہو چکا تها لیکن آئمہ اسے روکتی رہی وہ جو جانے کی رٹ لگائے ہوئے تهی آئمہ کی ساری منتوں کو نظر انداز کر گئی .اور اپنےگهر جانے کے لیے گهر سے باہر نکل آئی..۔
    باہر تو آ گئی لیکن اسے کوئی ٹیکسی کوئی رکشہ نظر نہیں آ رہا تها یہ کوئی دن تو تها نہیں جو رکشوں کی لائن لگی ہوئی تهی .اس اندهیری رات میں اب کوئی فرشتہ ہی اس کی مدد کو آ سکتا تها....۔
    اس نے بے ساختہ بے بسی سے آسمان کی طرف دیکها .اور بے آواز خدا کو پکارنے لگی شاید وہ قبولیت کی گهڑی تهی جو.......۔
    ایک خوبصورت سفید رنگ کی نئی نویلی لمبی گاڑی اس کے بالکل قریب آ کر رک گئی . ڈرائیونگ کرتا وہ ہینڈسم شخص ونڈو سے باہر جهانک کر اسے مخاطب کرنے لگا...۔
    ایکسکیوزمی میڈیم کیا مین آپ کی مدد کر سکتا ہونُ۔
    وہ کچھ نہیں بولی بس حیرت اور الجهی ہوئی نگاہوں سے اسے دیکهنے لگی. اس شخص کی عمر تیس کے قریب تو ہوگی لیکن وہ اپنی عمر سے کافی چهوٹا نظر آتا تها..اس کے پاس زیادہ سوچنے کے لیے وقت نہیں تها خدا نے جب مدد کے لیے کسی کو بهیج ہی دیا ہے تو وہ اسے ٹکرا کر کفران نعمت تو نہیں کر سکتی تهی . وہ تو کب سے کسی مسیحا کے انتظار میں تهی جو اسے اس کی منزل تک اس کے گهر تک لے جاتا...
    لیکن اس سب کے باوجود وہ گهبرا بھی رہی تهی انجان آدمی اور اتنی رات کو اس کے ساتھ اکیلے..وہ شکل سے تو شریف مہذب پڑها لکها لگ رہا تها لیکن کسی کی شکل پہ تهوڑی لکها ہوتا ہے کہ وہ اب اندر سے کس قسم کا ہے....بہرحال اس کے علاوہ کوئی راستہ بھی نہیں تها اس کے پاس ........؟۔
    ۔" جی وہ مجھے گهر تک جانا ہے یہیں پاس ہی ہے میرا گهر"ساتھ ہی وہ اڈریس بھی بتانے لگی۔وہ مدهم مگر پر اعتماد آواز میں....۔ اس سے بولی تھی۔
    " نو پرابلم . ..میں بهی اسی طرف ہی جا رہا ہوں آئیے بیٹهے. "۔
    وہ ابھی تک ہاں اور ناں کےفیصے کی کشمکش میں تهی. .۔
    وہ اسے الجهن میں دیکھ کر بولا. ..۔اگر أپ کا ارادہ نہین تو بیشک مت بیٹھے۔
    اور جانا ہے پھرتو آئیے۔۔ تو۔
    ...وہ بسم اللہ پڑھ کر ڈرایئونگ سائیڈ سیٹ پہ بیٹھ گئی. اندر آ کر اسے احساس ہوا باہر کتنی گرمی تهی..اس کے بیٹهنے کے بعد اس خوش شکل آدمی نے گاڑی اسٹارٹ کر دی.اس کی ساری تهکان دور ہو چکی تهی ..وہ پرس گود میں رکھ کر اپنے ناخنوں کے ساتھ کهیلنے لگی.۔
    کار والے نےابھی تک اس سے کوئی فالتوبات نہیں کی تهی.ہائی وے پہ پہنچنے کے بعد کار کی رفتار میں مزید اضافہ ہو گیا..اس نے اس شخص کا شکریہ بھی ادا نہیں کیا وہ پورے انہماک کے ساتھ گاڑی چلا رہا تھا.اس کے دل میں جو ایک ڈر تها وہ بدستور برقرار تها...۔پھر اچانک
    آپ کا کیا نام ہے ۔۔
    ...اس شخص نے پانچ منٹ کے وقفے کے بعد اس سے پہلا سوال پوچھا. ..وہ چونک گئی..۔
    " جی ..حورین.....حورین اظفر..".وہ نگاہیں گود پہ جمائے بولی........۔
    نائس نیم۔۔ اورمجھ کو وقعاص چوہدری کہتے ہین۔۔
    اس نے خود ہی اپنا تعارف کرایا ..وہ کافی خوش اخلاق معلوم ہو رہا تها..لیکن چہرے پہ سنجیدگی تهی.کار میں ایک بار پھر خاموشی چها گئی ہوا کی سرسراہٹ کے علاوہ کوئی اور آواز نہیں تها...۔
    " کیا کرتی ہیں آپ..".....اس نے ایک اور سوال پوچها...
    " میں بی ایس سی کر رہی ہوں".......۔
    " عمر کتنی ہے آپ کی..."...؟ وہ اس سوال کا سیاق و سباق نہیں سمجھ سکی...۔.مگر پھر بھی بتانے لگئی۔
    بیس سال۔۔۔۔۔
    " اتنی کم عمر لگتی تو نہیں آپ.."..
    اس بار وہ کچھ نہیں بولی.....۔
    شادی ہو گئی ہے أپ کی۔۔۔اس سوال پہ وہ کهانسنے لگی...پتا نہیں وہ کیا اخذ کرنے والا تها.اس عمر میں اور شادی.. حد ہے...نا..۔
    جج۔۔۔ جہ۔۔۔ نہین۔۔۔۔۔۔؟؟؟
    اس وقت" سڑک پہ آپ اکیلی کیا کر رہی تهیں." ....۔
    وہ تهوڑا گهبرا کر اس شخص کو دیکهنے لگی پتا نہیں کیا سوچ کر اس نے یہ سوال پوچها تها..۔
    " جی وہ میں اپنی سہیلی کی سالگرہ پہ آئی تهی اور واپسی کے لیے کوئی سواری نہیں مل رہی تهی."...۔
    وہ کافی جهجکتے ہوئے کچھ دیر بعد بولی..۔
    ." اتنی رات کو اکیلے ڈر نہیں لگ رہا تها آپ کو.؟۔
    ..وہ بیک ویومر سے دیکهتے ہوئے بولا .....۔
    جی لگ تو رہا تھا۔۔؟۔۔
    " پهر بھی اکیلے آ گئیں."...؟
    اب" مجبوری تهی تو آنا ہی پڑا " ..۔
    ۔" اور اگر اس وقت اکیلی سنسان سڑک پہ کوئی جن بهوت آ جاتا تو.".....؟
    " میں جن بهوتوں پہ یقین نہیں کرتی" ..۔
    کیاٹی وی وغیرہ دیکھتی ہین۔؟؟۔۔
    ....وہ ایک بار پھر اس سوال کا جواب نہیں سمجھ سکی..اس کو ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ محسوس ہوئی اسے اس شخص کے عجیب و غریب سوال پہ حیرت ہوئی.....۔
    جج ۔۔جی۔۔۔؟؟۔۔
    ......اس ' جی ' میں سوال زیادہ اور جواب کم تها...
    " ساس بہو والے ڈراموں کے علاوہ کبهی خبریں دیکهی ہیں"کیا۔
    ......اس نے اثبات میں گردن ہلا دیا وہ تو آگے دیکھ رہا تها اس لیے وہ اس کا گردن ہلانا تو ظاہر ہے نہیں دیکھ سکا...اس لیے اسے اپنا سوال دہرانا پڑا اس بار اس نے باقاعدہ ۔
    ' ہاں ' ۔
    کہہ کر جواب دیا.۔
    " خبروں میں اغوا کے بهی کئی کیس آتے ہیں ناں. وہ سنے ہین۔۔آپ نے کبهی."...؟.۔
    " جی.."...وہ تهوک نگل کر بولی.اور ساتھ ہی بڑے غور سے اس شخص کو دیکهنے لگ پڑی. . ...۔
    " اغوا کار بڑی بڑی گاڑیوں میں آتے ہیں اور معصوم لڑکیوں کو لفٹ کے بہانے ان کا پھر اغوا کر لیتے ہیں".۔
    . وہ کافی عجیب سے انداز میں بولا..تھا....۔
    اب اس کا جسم باقاعدہ کانپنے لگا. .وہ چادر سے ماتهے کا پسینہ صاف کرنے لگی..ڈر کی ایک شدید لہر اس کے جسم میں دوڑ گئی.ساتھ ہونٹ بھی کپکپانے لگے..۔
    وہ کپکپاتے ہونٹوں کے ساتھ جی بولی. ......۔
    " تو میرے ساتھ بیٹهتے ہوئے ڈر نہیں لگا..ہو سکتا ہے میں کوئی اغوا کار ہوں".وہ مسکراتے ہوئے بولا...۔
    وہ محسوس کر رہی تهی اپنےخون کی گردش کو رکتے ہوئے ..اور دل بھی عجیب بے چینی سے دهڑکنے لگا. .وہ جواب میں کچھ نہیں بول پائی...آنسو تیار کهڑے تهے جو کسی بھی پل اس کی آنکھوں سے نیچے لڑهک سکتے تهے...وہ حواس باختہ ہو کر اس انسان کو دیکهنے لگی.
    جو اسے کہہ رہا تها.." کہ میں ایک اغوا کار ہوں ..اور مجھے افسوس کے ساتھ آپ کو بتانا پڑ رہا ہے محترمہ حورین اظفر کہ آپ اس وقت اغوا ہو چکی ہیں". ..۔
    اپنی بات مکمل کر وہ شخص بہت مکروہ شیطانی انداز میں ہنسا......۔
    اور اسے لگا جیسے اچانک گاڑی کهائی میں گر گئی ہو..اور اس کا وجود ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ہے...جس سے خون خشک ہونے لگا. ..وہ بڑی حیران اور افسوس بهری نگاہوں سے اس شخص کو دیکھ رہی تھی. افسوس اسے اس شخص پہ نہیں اپنی بے وقوفی اور جلد بازی پہ آنے لگا اور صرف افسوس ہی تو نہیں آنسو بھی آنکهوں سے بہہ نکلے..۔۔
    گاڑی روکین۔؟؟۔
    گاڑین روکین أپ۔۔؟۔۔
    اس نے جیسے سنا ہی نہیں. .۔
    " میں نے کہا گاڑی روکیں."۔
    ...اس بار زرا زور سے وہ چلا کر بولی..۔
    اس نے اب بھی کوئی جواب نہیں دیا....۔
    پلیزز گاڑی روکین..نا...وہ بهرائی ہوئی آواز میں بولی. .سارا اعتماد اڑ چکا تها...۔
    " یہ گاڑی تو اپنی منزل پہ ہی جا کر رکے گی"...وہ مکروہ سے انداز میں بولا ....۔۔
    "آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں. .پلیز گاڑی روکیں.."۔
    .اب وہ باقاعدہ چیخ چیخ کر رو رہی تهی...اس شخص نے کہیں سے اسے ٹشو نکال کر اسے دے دیا....اس نے وہ ٹشو پکڑ کر غصے سے پهینک دیا...۔۔
    " میں آپ پہ بهروسہ کر کے گاڑی میں بیٹهی.اور آپ یہ کیا کر رہے ہیں. دیکهیں آپ میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے۔ "
    " میں ایسا کر چکا ہوں....اب آپ بتائیں۔ آپ اب کیا کر سکتی ہیں. ""...۔
    " میں. ..میں. ..میں. .چلاوں گی.."....۔۔
    ہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔
    ...وہ آدمی عجیب انداز میں ہنسا ...
    " تو چلائیں..اور۔۔۔جی بهر کے چلائیں. .یہاں اس سنسان سڑک پہ آپ کی چیخ سننے والا کوئی نہیں ہے. ..ہ۔
    اہاہاہاہا"..۔
    " دیکهیں..پلیز مجهے جانے دیں..میری دادی میرا انتظار کر رہی ہے.."۔۔.....وہ بے بسی سے اس کے سامنے ہاتھ جوڑنے لگی لیکن اس ظالم پہ کسی بات کا اثر ہی نہیں ہو رہا تها.....پتا نہیں وہ اسے کہاں لے جا رہا تها..کیا کرنے والا تها اس کے ساتھ. ..وہ کسی چڑیا کی مانند کانپنے لگی....دل کی دهک دهک اسے باہر سے بھی سنائی دینے لگی تهی....۔
    " آئم سوری....آپ ایسے روتی ہوئی میرے ساتھ نہیں جا سکتیں.اپنا موڈ ٹھک کرین اور..یہ ٹشو لیں."..۔
    وہ اسے ایک اور ٹشو نکال کر دینے لگا..اس نے وہ ٹشو نہیں پکڑا اور سر ہاتھ کے پشت پہ ٹیک کر بے آواز مسلسل رونے لگی. ..اسے اس وقت جتنی سورتیں جتنی آیات یاد تهیں...وہ پڑهنے لگی. ..اس کی زندگی اس کی آبرو خطرے میں تهی..خود کو خطرے میں کون دیکھ سکتا ہے چاہے وہ انسان ہو یا حیوان....اسے رہ رہ کر اپنے آپ پہ غصہ آ رہا تها..
    " کیوں وہ کسی اجنبی کی کار میں بیٹهی.."...تھی۔
    " کیوں وہ اتنی جلدی لوگوں پہ بهروسہ کرتی ہے.".
    " کیوں اسے انسانوں کو سمجهنا نہیں آتا..."....۔
    " کیوں وہ اس قدر معصوم ہے. .".....۔
    ..اسے آئمہ کی ایک بات یاد آئی.جو وہ ہمیشہ اس سے کہا کرتی تهی...
    " تم تو اتنی بے وقوف اور سادہ ہو ایک دن ضرور کوئی تیری اس سادگی کافائدہ اٹهائے گا تب پتا چلے گا تمہیں. "...۔
    اس وقت وہ رونے دهونے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتی تهی. اس شخص کا مقابلہ اس کے بس کی بات نہیں تهی.وہ ایک لڑکی تهی اور وہ ایک توانا مرد وہ کسی بھی طرح اس پہ حاوی تهاوہ اس سے کبهی نہیں جیت سکتی تهی...وہ اس کے آنسو اور رونے دهونے سے بے نیاز گاڑی چلانے میں مصروف تها..۔
    اس کا دل اچهل کر حلق میں آ رہا تها..اس کے ہاتھ پاوں پهول چکے تهے وہ سوچنے لگی اسے کار سے نیچے کود جانا چاہیے لیکن وہ کار اتنی تیز چلا رہا تها ایسے میں کودنا خود موت کو دعوت دینے کے برابر تها...
    اس نے آنسو پونچھ کر ایک بار پھر اس پتهر دل انسان سے منت کرنے کی کوشش کی.۔
    " پلیز خدا کے لیے مجھ پہ رحم کریں..کیا ملے گا آپ کو مجهے اغوا کر کے.. میری دادی کا میرے علاوہ کوئی بھی نہیں ہے. ..پلیز.مم مجهے چهوڑ دیں.".....نا۔
    وہ روتے ہوئے التجا کرنے لگی...لیکن وہ مسکرا دیا اس کے آنسو سے پتهر بھی پگل سکتا تها لیکن وہ شخص نہیں پگل رہا تها..وہ تو پتهر سے بھی زیادہ سخت اور سنگدل تها...اسے اپنا آپ ڈوبتا ہوا محسوس ہوا ...اس کا پورا وجود جیسے کانٹوں کی لپیٹ میں ہو..۔
    مجھے افسوس ہے کہ یہ تو ہو نہین سکتا۔" یہ تو نہیں ہو سکتا .بٹ ڈونٹ وری...آپ اکیلی نہیں ہیں اس سفر میں آپ کی ایک ساتھی اور بھی ہے.".۔
    ...وہ حیران ہو کر اس شخص کو دیکهنے لگی....۔
    " مجھے نہیں ..پیچھے مڑ کر دیکهیں..."..
    اس نے ایک جهٹکے سے گردن موڑ کر پیچھے دیکها تو جیسے شاکڈ ہو گئی....۔
    اسے پہلی بار احساس ہوا گاڑی میں ایک تیسرا وجود بھی ہے اس نے غور سے دیکها تو اس کی آنکھیں خوف اور حیرت سے پهیل گئیں...
    گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ ایک نہایت خوبصورت لڑکی بیہوش لیٹی ہوئی تهی....اس نے اپنی چیخ دبانے کے لیے بے ساختہ منہ پہ ہاتھ رکها. ...۔
    " یہ ....یہ..یہ کون ہے....اس نے اٹکتے ہوئے پوچها.۔
    " یہ بیچاری بھی ہمارا شکار ہو چکی ہے اسے بھی اغوا کیا گیا ہے...اب یہ بے ہوش ہے.."...وہ اطمینان سے بولا....۔
    تو یہ کوئی معمولی گینگ نہیں تها ایک بہت بڑا ..بنا بنایا منصوبہ تها..صرف وہ نہیں اس جیسی ایک اور معصوم لڑکی ایک اور معصوم بیٹی بھی اغوا ہو چکی ہے...وہ بڑی ترس بهری نگاہوں سے اس لڑکی کو دیکهتی رہ گئی دونوں کی قسمت ایک جیسی تهی..پتا نہیں کہاں کی ہو گی بیچاری اور یہ ظالم شخص کہاں لے کے جا رہا تها ان دونوں کو....وہ اتنی شاکڈ تهی کہ رونا بھی بهول گئی.........۔
    وہ لڑکی بے سدھ پڑی ہوئی تهی ایسا لگ رہا تها اسے بے ہوشی کی بڑی سخت دوائی دی گئی تهی...اس نے آنکهیں بند کر کے پهر سے گاڑی کے ڈیش بورڈ سے ٹیک لگا دی...ایک بار سرسری سے آنکهیں کهول کر اس شخص کو دیکھا ۔
    جس کے چہرے پہ ایک مکروہ شیطانی مسکراہٹ کهیل رہی تهی جیسے کوئی شکاری اپنے شکار کو دیکهتا ہے یا ایک کهلاڑی فتح ہونے کے بعد مسکراتا ہے وہ بھی بالکل ویسے ہی مسکرا رہا تها........۔
    " آ...آ....آ...آپ مجهے کہاں لے جا رہیں "؟...وہ مری ہوئی آواز میں بولی. ...۔
    "جہاں اس لڑکی کو لے جا رہے ہیں. ."..۔
    اسے کہاں لے جا رہے ہیں آپ...۔
    " جہاں پہلے سے ہی ہم نے کافی لڑکیوں کو قید کر رکھا ہے وہیں..."۔.سادہ سا جواب دیا گیا. ...۔
    " کہ..کہ..کہ...کیا کرتے ہیں آپ ان لڑکیوں کے ساتھ". ...اس نے ڈرتے ہوئے پوچها ...۔
    " ہم انہیں ملک سے باہر بیچ دیتے ہیں بدلے میں ہمیں پھر کروڑوں روپے ملتے ہیں. .."۔
    " پیسہ کیا انسانوں سے زیادہ قیمتی ہے "...۔
    " ہاں ہمارے لیے تو پیسہ ہی سب کچھ ہے"۔. وہ بے نیازی سے بولا. ....۔
    کتنی عجیب بات تهی وہ اس سفر کے اختتام پہ بکنے جا رہی تهی ..کسی اجنبی ملک اجنبی لوگوں میں. .سات سمندر پار...اور یہ ظالم شخص اسے کیا فرق پڑنے والا تها ان کا تو کاروبار یہی ہے...۔
    " کیا آپ مجھے بھی بیچ دیں گے..."۔
    اس نے ایک مبہم سی امید سے پوچھا. .اس شخص نے مڑ کر پہلے اسے بڑے غور سے دیکها پھر بولا.۔
    " ظاہر ہے ...."اس نے جواب دیا....۔
    اور اس کا دل کانپنے لگا..کبهی سوچا نہیں تها زندگی میں ایک ایسا موڑ آئے گا اور کبهی نہیں سوچا تها آج کی رات اس شہر میں اس ملک میں اس کی آخری رات ہے.....آنسو کا سیلاب پهر سے جاری ہو گیا...۔
    اس نے پھر سے آنکهیں بند کر دیں..اسے اپنی پچھلی ساری زندگی اپنے گرد گهومتی نظر آئی جہاں وہ اب کبهی نہیں لوٹ سکتی...۔
    دادی آئمہ...گهر...وہ سب کچھ پیچھے چهوڑ چکی تهی وہ...اسے پہلی بار اپنی بے وقوفانہ طبعیت پہ جی بهر کے پچهتاوا ہونے لگا تها..کاش وہ دادی اور آئمہ کی بات مان کر تهوڑا ہوشیار اور چالاک بنتی تو یہ سب نہیں ہوتا..لیکن اب کیا ہو سکتا تها..اسے زندگی میں احساس ہوا بھی توکب. .زندگی کے ان آخری لمحوں میں. ۔
    " یا اللہ پلیز اس ظالم شخص کے دل میں تهوڑی رحم ڈال دیں..اور مجھ پہ رحم کریں پلیز. ..."
    اس نے دل ہی دل میں خدا کو پکارا.....۔
    " آپ کا گهر یہاں سے کتنی دور رہ گیاہے"........۔
    وہ اس شخص کی آواز پہ چونکی اور اس کا سوال نہیں سن سکی یا پھر سمجھ نہیں سکی..اس لیے اسے اپنی بات ایک بار پھر سے دہرانی پڑی. ....
    مین نے پوچھا آپ کا گهر اب کتنی دور ہے" ...۔
    ...وہ سمجھ تو اب بهی نہ سکی..کیا خدا نے اس کی دعا میں رحم ڈال دی ہے..ہو سکتا ہے یہ شخص اسے گهر چهوڑنے والا ہو..مگر اس لڑکی اس کا کیا ہوگا...۔.
    وہ بهرائی ہوئی آواز میں بولی....وہ "....جہاں موڑ مڑتا ہے اسی موڑ پر."..وہ نا بھی سمجهتے ہوئے بولی..۔
    اس شخص نے اسے بڑی عجیب نگاہوں سے اسے دیکها وہ بھی اس شخص کی آنکھوں میں دیکهنے لگی...تب اس شخص نے ایک جاندار قہقہہ لگایا. ۔
    ہاہاہاہاہاہا۔۔
    وہ اس قہقہے کا سیاق و سباق نہیں سمجھ سکی....۔
    ارےےے محترمہ۔مجھے بہت افسوس ہے کہ" میں نے آپ کو بہت تنگ کیا..اور بہت رلایا..دراصل میرا نظریہ یہی ہوتا ہے کہ آپ لڑکیاں دنیا کی سب سے بے وقوف مخلوق ہو جنہیں آسانی سے بے وقوف بنایا جا سکتا ہے..اور آپ نے یہ ثابت کر دیا..مجهے لڑکیوں کے ساتھ مذاق کرنا انہیں تنگ کرنے میں بہت مزا آتا ہے اور وہی میں نے آپ کے ساتھ کیا..اگر میں یہ نہیں کرتا تو میرا سفر بور گزرتا."....۔
    وہ یک ٹک اسے دیکهے جا رہی تهی...کیسا عجیب انکشاف کر رہا تها وہ. ۔
    " اور آپ تو بڑی آسانی سے میرا شکار بن گئیں..آپ تو جب کار میں بیٹهیں تبهی سے مجهے بے وقوف لگیں . میں آپ کو جان چکا تها.اس لیے آپ کو تنگ کرنے کے لیے میرے ذہن میں ایک ڈرامہ تیار ہوا ..اور اس میری سوچ کے مطابق آپ بالکل ایک معصوم بچے کی طرح خوفزدہ ہو گئیں..مجهے نہیں معلوم تها آپ اتنی ڈرپوک ہوں گی...۔
    ہاہاہاہاہاہاہاہا".۔
    " دراصل میں ایک بینک مینجر ہوں..اور یہ پیچهے جولیٹی ہوئی ہیں یہ میری مسز ہیں..۔
    ساریہ وقاص .ہم دونوں اپنے ایک دوست کی شادی سے واپس ہو کر آ رہے تهے..لیکن میری مسسز نیند کی بہت کچی ہیں کہیں پہ بھی لڑهک جاتی ہیں.تو اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے یہاں بھی لڑهک گئیں..اتنا لمبا سفر تها میں اکیلے گاڑی چلاتے بور ہو جاتا اس لیے مجبوراً مجهے آپ کو لفٹ دینی پڑی باقی اس مذاق کے لیے سوری.....اہاہاہاہاہاہاہا."....۔
    وہ شاکڈ ہو کر اس شخص کو دیکهنے لگی اسے اس انسان پہ سخت غصہ آیا..اس کی جان نکل گئی تهی اور وہ شخص صرف مذاق کے لیے اپنی بوریت دور کرنے کے لیے اس کا کتنا غلط استعمال کر چکا تها...۔
    اس نے نفرت بهری نگاہ سے اس شخص کو دیکھا اور پیچھے لیٹی ہوئی اس لڑکی کو...جو بڑے مزے سے خراٹے لے رہی تهی.اس نے اچانک خود کو کهائی میں گرنے سے بچتے ہوئے محسوس کیا.. ....۔
    " آپ نے تو واقعی میری جان نکال کر رکھ دی مسٹر وقاص صاحب..آپ کو یہ عجیب و غریب عادت کب سے پڑ گئی..."۔
    بظاہر وہ سادگی سے مگر دل ہی دل میں جل کر بولی.
    "ہاہاہاہاہاہا ۔
    بس کیا بتاوں یہ عادت تو بہت پرانی ہے اب تو سیکڑوں لڑکیوں کو ایسے بے وقوف بنا چکا ہوں..اور آپ ان میں سے ایک ہیں...."۔
    وہ جیسے اپنا کوئی کارنامہ سنا رہا ہو جسے سن کر مقابل متاثر ہو..مگر وہ زرا بھی متاثر نہیں ہوئی الٹا اسے اس انسان پہ حد سے زیادہ نفرت محسوس ہوئی جو لڑکیوں کے بارے میں یہ سوچ رکهتا تها..اس نے ناگواری سے اسے دیکها..پهر چالیس سکینڈ گاڑی میں خاموشی رہی...۔
    اس نے ایک گہرا سانس لیا. ..وہ گهر کے پاس پہنچ چکی تهی. ..اس نے تیزی سے چلاتے ہوئے اچانک اسے گاڑی روکنے کو کہا...گاڑی چونکہ فل سپیڈ سے چل رہی تهی اس لیے بریک لگنے سے جهٹکا کها کر روک گئی..جهٹکا اتنا زور کا تها کہ ۔
    پیچھے لیٹی ہوئی وہ لڑکی بھی انگڑائی لے کر بیدار ہوئی...۔
    اور جمائی لیتی ہوئی اٹھ بیٹهی. ..اچانک اس کی نظر اپنے سے آگے والی سیٹ پہ بیٹهی اس لڑکی پہ پڑی جو سفر کے شروع میں ان کے ساتھ بالکل نہیں تهی..۔
    وہ بھی حیرت سے اس لڑکی کو دیکهنے لگی. ...۔
    ارےے۔وقعاص یہ لڑکی کون ہے ۔
    حورین نے اس شخص کو دیکھا جو کوئی جواب دینے کے لیے منہ کهولنے ہی والا تها کہ اچانک سکینڈ کے ہزارویں حصے میں اس کے شیطانی دماغ نے کام کر کے اس کا موقع پہ ساتھ دیا اور ایک پراسرار سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پہ آ گئی.۔
    ارےےے" یہ موٹی عورت کون ہے وکی جانو...."...۔
    اس نے عجیب مسکراہٹ کے ساتھ اس شخص کی طرف دیکها...جو اس کے اس رویے سے بالکل شاکڈ تها..۔
    وہ شخص حیرت سے اسے دیکهنے لگا. ..جبکہ اس کی بیوی جو اب پوری طرح بیدار ہو چکی تهی..خود کو موٹی کہے جانے پہ بہت غصہ آیا اور حیران بھی تهی....۔
    " اے لڑکی کون ہو تم...اور میرے وقاص کو تم جانو کیوں کہہ رہی ہو...."۔
    ..اس کی بیوی نے حورین سےسوال کیا...۔
    " میں. ..میں. ..میں. .؟۔مگر آپ کون ہیں.".مجھ سے...یہ پوچھنے والی؟؟؟
    " میں اس کی بیوی ہوں اب تم بتاو تم کون ہو ."....؟اس لڑکی نے غصے سے کہا ...
    جبکہ حورین نے اپنے منہ پہ ایئسےہاتھ رکها جیسے یہ اس کے لیے کوئی بہت ہی حیرت انگیز بات تهی...۔
    " بیوی..؟؟...وکی جانو.....آپ نے دوسری شادی کب کی..."؟؟۔
    وقاص جو ان دونوں کی باتوں سے پہلے ہی بہت حیران تها مزید حیران ہو گیا...۔
    دوسری شادی۔؟۔۔.....اس کی بیوی نے چلاتے ہوئے غصے سے وقاص کی طرف دیکها......۔
    وہ حیرت و گبھراہٹ سے کچھ نہیں بول سکا.....۔
    " وقاص ۔تت تم نے مجھ دهوکہ دیا ..دهوکے باز..تم نے دوسری شادی کر لی.".۔...حورین جان بوجھ کر رونے لگی. ۔
    وہ پہلی بار جهوٹے آنسو بہا رہی تهی....۔
    وقاص بوکهلا گیا اور کچھ حدتک سنبهل بهی ساتھ ہی گیا....۔" ڈارلنگ یہ ..یہ..لڑکی جهوٹ بول رہی ہے .ایسا کچھ نہیں..یہ تو بس"..؟۔
    " میں جهوٹ بول رہی ہوں.اچھا تو تم وہ سب وعدے وہ قسمیں بهول گئے اور اپنی چار ماہ کی گڑیا کو بھی بهول گئے جو اس وقت امی کے گهر پہ ہے.:"۔
    اس کی بیوی نے شاکڈ سی کیفیت سے وقاص کی طرف دیکها جو اب بری طرح سےبوکهلا چکا تها...۔
    " ساریہ تم اس کا یقین مت کرنا یہ..یہ...یہ.سب۔۔بکواس کر رہی ہے."...۔
    .وہ اپنی بیوی کو یقین دلانے لگا.مگر..وہ کچھ نہیں بول رہی تهی بس حیرت اور غصے سے وقاص کو دیکھ رہی تھی. ...۔
    "..اوکے..گیٹ لاسٹ. .اب دوبارہ مجهے سے کبهی بات مت کرنا.اور مجھ سے ملنا بھی مت۔۔.اوکے..".۔
    حورین ایک جهٹکے سے کار کا دروازہ کھول کر باہر نکل آئی.....۔
    اور آخری بار ونڈو سکرین پہ بیوی سے الجهتے وقاص کی طرف دیکها....وہ بھی حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا. .اس نے مسکراتے ہوئے وقاص کو آنکھ ماری اور گهر کی طرف روانہ ہو گئی...۔
    یہ سوچ کر صبح ہوتے ہی اپنا یہ نمایاں اور انوکها کارنامہ دادی اور آئمہ کو سنائے گی..اور ان سے خوب داد بهی وصول کرے گی.اسے غصہ آیا اس شخص پہ جس نے صرف اپنی بوریت دور کرنے کے لیے اس کی جان نکال کر رکھ دی تهی اور ساتھ اسے ترس بھی آیا اس شخص پہ جسے باقی کی زندگی اپنی بیوی کے سامنے اپنی پارسائی ثابت کرتے رہنا ہوگا....۔
    اسے پیچھے سے ان دونوں میاں بیوی کے لڑنے کی آوازیں آ رہیں تهیں..وہ جانتی تهی یہ مذاق اس مذاق سے زیادہ دردناک نہیں ہوگا ۔
    جو اس شخص نے اس کے ساتھ کیا تها اب وہ زندگی بھر کسی لڑکی کو بے وقوف نہیں کہے گا اور یوں پهر کبهی کسی کا مذاق نہیں اڑائے گا..اسے یقین تها اس انسان کو اس جیسی لڑکی سے اس طرح کی جوابی کاروائی کی توقع نہیں تهی. .اور یہ جوابی حملہ وہ آخری سانس تک نہیں بهولے گا......۔
    ادھر وقعاص اب بھی حیرت سے اس لڑکی کو دیکھ رہا تها جو گهر کے دروازے سے اندر داخل ہو رہی تهی..یہ اس کی زندگی کا عجیب اور بهیانک سفر تها اور یہ لڑکی اسے ملنے والی سب سے انوکھی مسافر تهی .۔
    وہ ہمیشہ سے خود کو بہت شاطر اور لڑکیوں کو بے وقوف سمجهتا آیا تها.وہ چہرے پڑھ لینا کا دعوی وہ لڑکیوں کو چٹکیوں میں سمجهنے کا دعوی تو بہت پیچھے کہیں رہ گیا.وہ ظاہر اور باطن میں فرق ایک پل میں سمجھ گیا...کچھ چہروں کو پہچاننے میں انسان غلطی کر جاتا ہے...ٰ.وہ لڑکیوں کے بارے میں مختلف نظریات رکهتا تها اور چہرہ شناسی کا بہت بڑا دعویٰ تها اس کا کسی زمانے مین . ۔
    لیکن اس اندهیری رات میں اس سنسان سڑک پہ اس نے اعتراف کیا کہ وہ زندگی میں اس ایک لڑکی کو نہیں سمجھ سکا. وہ دراصل اس ایک لڑکی کو نہیں پہچان سکا.وہ اپنی پوری زندگی میں اس ایک لڑکی کو سمجهنے میں غلطی کر گیا۔
    ہائے صد افسوس۔۔۔
    اختتام۔
    Vist My Thread View My Posts
    you will never a disappointed

  • #2
    زبردست ساقی بھائی ادلے کا بدلہ

    Comment


    • #3
      Wah kya zabardast nahlay pe dahla mara hai.

      Comment


      • #4
        بہت ہی انوکھی اور دلچسپ موضوع پر لکھی اسٹوری مختصر مگر پر اثر

        Comment


        • #5
          Buhat hi aala .. zabardast

          Comment


          • #6
            عمدہ اور سبق آموذ کہانی۔۔۔۔ ادلے کا بدلہ

            Comment


            • #7
              bohat he zabardast . iss tara k logo k sath issi tara hona zaroori hai jo khud k hekeem luqman samjtay hain

              Comment


              • #8
                بہت ھی سنسنی خیز اور دلچسپ کہانی ھے

                Comment


                • #9
                  Ise khte hain 100 sunar ki aik lohar ki horain na sare hisab bfrabr kr dye

                  Comment


                  • #10
                    بہت کمال کی کہانی ہے سبق آموز واقعہ
                    واقعی میں لڑکیاں ہم جیسے شیطانوں پر جلدی اعتبار کر لیتی ہیں
                    اور اپنا سب کُچھ بنا سوچے سمجھے لُٹا دیتی ہیں ۔۔۔۔
                    ​​​​​اور حوریں نے صحیح مزہ چکھایا ہے

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X