Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

بےگناہ سکھی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Life Story بےگناہ سکھی

    تعلیم کی چاہ نے سکھی کو رسوا کر دیا غلطی نہ ہوتے ھوے بھی اس کو مورد الزام ٹہرایا گیا – اتنی ترقی ہونے کے باوجود نجانے ہمارے گاؤں میں رہنے والے کیوں نہیں بدلے- جہالت اور سوچ کی پسماندگی یقینا بہت سی لڑکیوں کی زندگی تباہ کر چکی ہے آخر سکھی کے ساتھ ہوا کیا آپ کو بتاتی ہوں- میرے تایا کی بیٹی سکھی بہت اچھی لڑکی تھی۔ وہ ماں ،باپ کی اتنی فرمانبردار تھی کہ سب رشتے دار اپنی بچیوں کو اس کی مثالیں دیا کرتے تھے۔ اگرچہ غریب گھرانے سے اس کا تعلق تھا مگر وہ نہ لالچی تھی اور نہ کسی شہزادے کے خواب دیکھتی تھی۔ وہ بس کہتی کہ کاش! مجھے میرے والد پڑھنے کی اجازت دے دیں تو میری زندگی سنور جائے۔ بتاتی چلوں کہ ہم ایک گائوں میں رہا کرتے تھے جہاں لڑکیوں کو پڑھانا برائی تصور کیا جاتا تھا۔ سارے گائوں کے لوگ پرانے خیالات کے تھے، آج کے زمانے سے صدیوں پیچھے تھے۔ وہ ایسے رسم و رواج کے پابند تھے جن کا ترقی یافتہ دور میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ سکھی کا باپ ٹرک چلاتا تها. وه ٹرک پر فروٹ لاد کر دوسرے شہروں میں لے جاتا تھا۔ اس طرح وہ حلال کی روزی کما کر اپنے بچوں کا پیٹ پال رہا تھا۔ غربت کے باوجود میرے تایا کی گائوں میں بہت عزت تھی کہ وہ غلط طریقوں سے دولت کمانے کو برا جانتا تھا۔ کافی عرصے سے بڑے شہروں میں آنے جانے سے اس کے ذہن میں کافی تبدیلی آگئی تھی۔ اب وہ لڑکیوں کی تعلیم کو برا نہیں سمجھتا تھا لیکن برادری کے اعتراضات سے بچنے کے لئے سکھی کو اسکول نہیں بھیجتا تھا۔ ایک دن اس نے دیکھا کہ اس کی بیٹی پڑوس کی لڑکی کی منت سماجت کررہی ہے کہ وہ اسے پڑھنا لکھنا سکھا دے یہاں تک کہ اس نے پڑوسن لڑکی کے پائوں کو بھی ہاتھ لگائے جس پر تایا کو غیرت آئی اور اس نے بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ میری بچی! تم میری لاج رکھنا۔ میں تمہاری خواہش ضرور پوری کروں گا۔ میں تمہیں اپنے گائوں کے اسکول میں مڈل تک تعلیم دلوائوں گا۔ چونکہ ہمارے گائوں میں لڑکیوں کا اسکول مڈل تک ہی تھا لہذا سکھی نے اپنے باپ سے وعدہ کیا کہ وہ ان کی عزت کی لاج رکھے گی۔ ہرگز ایسا موقع نہ دے گی کہ باپ کو دنیا کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے۔ یوں تایا نے اسے اسکول میں داخل کروا دیا۔ اس کی کلاس میں ایک امیر باپ کی بیٹی حسن بانو بھی پڑھتی تھی جس نے سکھی کی اچھی عادات اور نرم مزاجی کے سبب اسے پسند کرلیا اور دونوں کی دوستی ہوگئی۔ وہ کار میں آتی جبکہ سکھی پیدل اسکول جاتی تھی۔ حسن بانو کا بھائی اکثر گاڑی پر اپنی بہن کو اسکول چھوڑنے اور لینے آتا تھا۔ اس کا نام زمان خان تھا۔ وہ حسن پرست نوجوان تھا۔ جب اس نے سکھی کو دیکھا تو اس پر فریفتہ ہوگیا۔ چاہتا تھا کہ یہ لڑکی مجھ سے کلام کرے لیکن وہ چھٹی کے وقت جب اپنے گھر کی سمت رواں دواں ہوتی تو ہر شے سے ہے نیاز ہوکر چلتی۔ اسے زمانے کی ہوا نہ لگی تھی۔ کئی بار حسن بانو نے کہا کہ آئو سکھی! میں تمہیں تمہارے گھر تک چھوڑ دوں۔ ہم ایک ہی راستے سے آتے جاتے ہیں۔ تم میری گاڑی میں بیٹھ جائو مگر سکھی نے انکار کردیا۔ کہا کہ جب مجھے پیدل ہی جانا ہے تو پھر کسی کی گاڑی میں بیٹھنے کا کیا فائدہ! میرے والد کی بھی اجازت نہیں ہے کہ میں کسی کی گاڑی میں بیٹھوں۔ میری چھوٹی بہن کو بھی تایا نے والد سے کہہ کر اسکول میں داخل کرا دیا تھا۔ اس طرح یہ دونوں اکٹھے آتی جاتی تھیں۔ میرے والد بھی کافی سخت مزاج آدمی تھے۔ یہ دونوں وقت پر اسکول جاتیں اور وقت پر گھر آجاتیں۔ کبھی کسی سہیلی کے گھر یا ادھر ادھر نہیں جاتی تھیں۔ اسی طرح وقت تیزی سے گزرتا رہا اور یہ آٹھویں کلاس تک پہنچ گئیں۔ تایا خوش تھے کہ سکھی بہت اچھے نمبر لائی تھی۔ اسکول کی استانیاں اس کی تعریف کرتی تھیں۔ انہیں امید تھی سکھی بورڈ کے امتحان میں پوزیشن لے گی اور ان کے اسکول کا نام روشن کرے گی۔ ہوا بھی ایسا ہی! مڈل کے سالانہ امتحان میں اس نے نمایاں کامیابی حاصل کی۔ ٹیچر نے گھر آکر اس کے والدین کو مبارکباد دی۔ تایا بہت خوش تھے۔ انہیں اپنی بیٹی پر فخر محسوس ہوتا تھا۔ ہم سب اس کی شاندار کامیابی پر خوش تھے۔ خوش نہیں تھا تو ایک زمان کیونکہ وہ ابھی تک سکھی سے بات کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا۔ اس کے دل میں یہ آرزو شدید ہوتی جارہی تھی کہ وہ سکھی کو اپنی جانب مائل کرلے تاہم اپنی بہن سے یہ بات نہیں کہہ سکتا تھا کیونکہ یہ ایک معیوب بات تھی۔ پہلے وہ اسکول آتے جاتے اس کا دیدار کرلیتا تھا، اب سکھی نے اسکول آنا بند کردیا تھا اور گھر بیٹھ گئی تھی تبھی مجبور ہوکر اس نے حسن بانو سے کہا کہ تم اس لڑکی سے دوستی کا رشتہ قائم رکھو کیونکہ میں سکھی سے شادی کرنے کا خیال رکھتا ہوں۔ حسن بانو نے سمجھایا کہ یہ بات ممکن نہیں ہوگی کیونکہ ہمارے والد دولت کے پجاری ہیں، وہ ہرگز ایک غریب کی بیٹی کو اپنی بہو بنانا پسند نہ کریں گے۔ تم اس خیال کو ذہن سے نکال دو۔ زمان کو مگر چین نہ تھا۔ وہ ہر حال میں سکھی سے رابطہ کرنا چاہتا تھا۔ انہی دنوں سیل فون نیا نیا آیا تھا۔ سکھی کے والد کو بھی دو سیل فون اس کے مالک نے دیئے کہ ایک اپنے پاس رکھو تاکہ جب تم گھر میں ہو تو میں تم سے رابطہ کرسکوں، دوسرا اپنی بیوی کو دے دو تاکہ جب تم ڈیوٹی پر دوسرے شہروں میں قیام کرو تو وہ تم سے رابطہ کرسکے۔ تایا جی نے ایسا ہی کیا۔ ایک فون خود رکها، دوسرا بیوی کو دے کر کہا کہ اس بات کا خیال رکھناکہ تمہارے سوا اس فون کو گھر میں کوئی اور استعمال نہ کرے۔ ہاں! میں بہت خیال رکھوں گی اور کسی کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دوں گی۔ تائی نے جواب دیا۔ واقعی انہوں نے ایسا ہی کیا۔ وہ فون اپنے پاس رکھتیں لیکن وه پڑهی لکهی نہیں تھیں۔ جب نمبر ملانا ہوتا، انہیں سکھی سے کہنا پڑتا کہ نمبر ملا کر دو اور وہ ماں کو نمبر ملا دیا کرتی۔ تایا اور تائی مطمئن تھے کہ ہماری بیٹی ایسی نہیں ہے کہ موبائل فون کو استعمال کرے۔ پہلے تائی فون ہر وقت اپنی نگرانی میں رکھتیں لیکن پھر انہوں نے اس کی پروا چھوڑ دی کہ فون کہاں رکھا ہے کیونکہ سکھی کسی کو فون کرتی تھی اور نہ ہم لڑکیوں میں سے کسی کے پاس سیل فون تھے سوائے حسن بانو کے! بات کرنی ہوتی تو پہلے وہ سکھی کی ماں سے بات کرتی، اجازت مانگتی تو تائی اس کی بات سکھی سے کروا دیتی تھیں۔ کسی طرح زمان نے سکھی کی والدہ کا نمبر معلوم کیا اور ایک دن اپنی ایک رشتے دار لڑکی کے ذریعے فون ملا کر سکھی سے بات کی۔ جب سکھی نے ہیلو کہا تو لڑکی نے فون زمان کو دے دیا۔ اس نے سکھی سے بات کی کہ میں کئی سال سے تم سے بات کرنا چاہتا تھا۔ تم مجھے پسند ہو۔ تمہارے والد جو مانگیں گے، ہم وہ دے دیں گے۔ میں تمہیں اپنی دلہن بنائوں گا۔ تم کبھی کبھی فون پر مجھ سے بات کرلیا کرو۔ یہ الفاظ سن کر سکھی کو بہت غصہ آیا۔ اس نے فوراً فون بند کردیا۔ اب باربار تائی کا فون بجتا۔ جب وہ اٹھاتیں، بند ہوجاتا۔ وہ سمجھتیں کہ رانگ نمبر ہے، کوئی تنگ کررہا ہے لیکن سکھی کو علم تھا یہ کوئی اور نہیں زمان ہے۔ اس نے کسی طرح حسن بانو سے ۔ رابطہ کیا اور کہا کہ اپنے بھائی کو سمجھائو ایسا نہ کرے۔ اگر میرے بابا جان کو علم ہوگیا تو میرے ساتھ ہی نہیں، اس کے ساتھ بھی بہت برا ہوگا۔ زمان مگر کہاں سمجھنے والا تھا۔ وہ ایک ضدی لڑکا تھا۔ اس نے کوشش جاری رکھی۔ اتفاق سے انہی دنوں اس کے گھر کا کوئی شیشہ ٹوٹا جس سے اس کی کلائی زخمی ہوگئی۔ اس نے فوراً اپنے خون سے سکھی کو خط تحریر کیا کہ اگر تم نے مجھ سے فون پر بات نہیں کی تو میں جان دے دوں گا۔ میں نے یہ خط اپنی کلائی کاٹ کر تحریر کیا ہے۔ اس نے خط موقع دیکھ کر ایک بچے کے ہاتھ بھیج دیا جو اسے حفاظت سے مل گیا۔ اس نے خط کھول کر پڑها تو بہت پریشان ہوئی کیونکہ خط خون سے لکھا ہوا تھا اور زمان کا نام بھی تحریر تھا۔ اگر تم نے جواب نہیں دیا تو میں اپنی شہ رگ کاٹ لوں گا۔اس کی دھمکی سے وہ بچاری ڈر گئی- اتفاق کہ وہ ہمارے گھر آئی تو حسن بانو بھی اپنی والدہ کے ہمراہ آئی ہوئی تھی کیونکہ اس کی ماں سے میری امی کی بھی سلام دعا تھی۔ سکھی نے حسن بانو کی خیریت پوچھی۔ وہ بولی۔ خیر نہیں ہے کیونکہ میرے بھائی کی کلائی بری طرح زخمی ہوگئی تھی اور اب وہ اسپتال میں داخل ہے۔ یہ سن کر سکھی پریشان ہوگئی تبھی حسن بانو نے کہا۔ تم جانتی ہو کہ یہ سب کچھ تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔ اب اگر تم اس کی زندگی چاہتی ہو تو ایک بار میرے بھائی کو اسپتال دیکھ آئو تاکہ وہ جلد صحت یاب ہوجائے۔ وہ سادہ دل لڑکی ایسے جھمیلوں میں نہیں پڑنا چاہتی تھی لیکن یہ بھی نہ چاہتی تھی کہ اس کی وجہ سے کسی کی جان چلی جائے۔ اس نے کہا کہ تم اپنے بھائی کو سمجھائو، ایسا نہیں ہوسکتا۔ میں اس کے ساتھ رابطہ نہیں رکھ سکتی کیونکہ اپنے والد سے وعدہ کیا ہے کہ ان کی عزت کی لاج رکھوں گی۔ وہ بولی۔ میں کب کہتی ہوں کہ تم اس کے ساتھ محبت کرو، میں یہ چاہتی ہوں کہ تم ایک بار مل کر اسے سمجھا دو تاکہ وہ دوبارہ ایسی کوئی حرکت نہ کرے جس سے تم لوگوں یا ہماری عزت میں فرق آئے۔ یوں کہہ سن کر حسن بانو نے اسے راضی کیا اور ہمارے گھر سے اسے اسپتال لے گئی۔ سکھی نے کہا۔ اگر میری ماں پوچھے کہ کہاں گئی ہے تو کوئی بہانہ کردینا، میں صرف پانچ منٹ وہاں رکوں گی اور زمان کو خدا کا واسطہ دے کر سمجھائوں گی کہ وه ان حرکتوں سے باز آجائے۔ اللہ کی مرضی اس کی ماں نے تو نہ پوچھا، وہ سمجھی کہ ہمارے گھر میں بیٹھی ہے لیکن اس کے والد نے سکھی کو اسپتال میں زمان سے بات کرتے دیکھ لیا۔ وہ اپنے ایک بیمار دوست کی عیادت کو اسپتال گئے تھے۔ گهر آکر بیٹی کی خوب خبر لی ساتھ ہی بیوی کو بھی مارا کہ تم نے دھیان کیوں نہیں دیا کہ یہ اسپتال اس لڑکے کی عیادت کو چلی گئی۔ اس کے ساتھ اس کا کیا واسطہ ہے۔ تایا ا نے یہیں پر بات ختم نہیں کی بلکہ بیوی سے کہا کہ اب میں سکھی کو زندہ نہیں چھوڑوں گا، کسی دن مار دوں گا۔ بیوی ڈر گئی کیونکہ یہاں ایسی باتوں پر لڑکیوں کے قتل ہوتے رہتے تھے۔ تائی کو بھی یقین ہوگیا کہ سکھی کے باپ نے محض دھمکانے کے لئے ایسا نہیں کہا، وہ بیٹی کی جان بھی لے سکتا ہے۔ تائی نے تایا کے آگے ہاتھ جوڑے کہ بیٹی کو مت مارنا۔ تم نے اسے پڑھایا لکھایا ہے تو اس پر یقین رکھو کہ اس نے کوئی غلط حرکت نہیں کی ہوگی۔ اور غلط حرکت کیا ہوسکتی ہے، میں نے خود اپنی آنکھوں سے مردوں کے وارڈ میں اس لڑکے سے باتیں کرتے دیکھا ہے۔ میرے لئے بس اتنا ہی کافی ہے۔ تم کیا چاہتی ہو کہ میں سکھی کو زندہ رکھ کر اس سے زیادہ سنگین جرم کا ارتکاب کروں اور اس لڑکے کے ساتھ اس کے خاندان کو بھی ختم کردوں؟ تائی بہت ڈری ہوئی تھیں۔ انہوں نے شوہر کے قدموں کو چھو کر کہا۔ کیا اس کے علاوہ کوئی حل نہیں…؟ ہوسکتا ہے اگر لڑکے کا باپ ہمیں سو بھیڑیں دے کر ہماری لڑکی کا رشتہ مانگ لے کیونکہ وہ پیسے والا ہے، اتنی بھیڑیں دے سکتا ہے۔ یہاں بہت سے قبیلوں میں اب بھی یہی رواج ہے کہ لڑکی کا رشتہ طے کرتے وقت کچھ رقم نقد یا مال مویشی کی صورت میں لڑکے والوں سے لے کر رشتہ دیا جاتا ہے اور یہ رقم بیٹی کی شادی پر خرچ کردی جاتی ہے۔ اسے ایک رسم کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اس طرح لڑکی والوں کی عزت ہوتی ہے۔ میرے تایا جی چونکہ نگری نگری گھومتے تھے لہذا وہ بیٹی کو سزا نہیں دینا چاہتے تھے جو یہاں کا رواج تھا کہ اگر لڑکی کسی غیر لڑکے سے رابطہ رکھے تو اسے یا دونوں کو ہی جان سے مار دیا جائے۔ تائی نے کہا۔ ٹھیک ہے میں جاکر حسن بانو کی والدہ سے کرتی ہوں۔ مجھے امید ہے وہ میری بات مان مان لے گی اور شوہر کو راضی کرلے گی۔ یوں وہ زمان کے گھر میری امی کے ساتھ گئیں۔ معاملے کی سنگینی بتا کر منت سماجت کی کہ اگر تمہارا لڑکا چاہتا ہے تو شوہر کو راضی کرو۔ وہ عزت سے رشتہ مانگ کر میری لڑکی کو بہو بنالے ورنہ میرا شوہر سکھی کو مارنے کی قسم کھا چکا ہے۔ خدا کے واسطے مجھ پر رحم کرو۔ عورت کا دل تائی کے آنسو دیکھ کر پسیج گیا۔ حسن بانو نے بھی اپنی ماں سے کہا کہ زمان کب سے سکھی سے رابطے کی کوششوں میں تھا مگر وہ اس کو موقع نہ دیتی تھی تو میں ہی سکھی کو اسپتال لے گئی تھی کہ وہ بھائی کو سمجھائے۔ خاتون نے شوہر سے بات کی۔ وہ دولت مند آدمی غرور کا مارا ہوا تھا۔ اس نے نہ صرف انکار کیا بلکہ بیوی سے کہا کہ آئندہ مزدور کی یہ عورت ہمارے گھر نہ آئے، اپنی اوقات میں رہے۔ بیوی نے سمجھایا کہ تمہارا بیٹا ہی مسئلہ پیدا کررہا ہے۔ کسی دن وہ بھی سکھی کے ساتھ مارا جائے گا پھر تم کیا کرو گے؟ یہ دولت تمہارے کس کام آئے گی۔ ہمارا ایک ہی بیٹا ہے۔ زمان کے والد نے کچھ دیر سوچا پھر کہا۔ میں زمان سے بات کرتا ہوں۔ اگر وہ ہاں کردے گا تو ہم رشتہ لے لیں گے۔ باپ نے بیٹے سے بات کی تو حیرت کی بات ہے کہ اس نے صاف انکار کردیا۔ کہا کہ سکھی کو میں اس قابل نہیں سمجھتا کہ ہمارے گھر کی بہو کہلائے۔ آپ اس کی ماں کو انکار کردیں۔ ماں مجبور ہوگئی کیونکہ باپ اور بیٹے دونوں نے سکھی کا رشتہ قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ تایا نے بیوی سے کہا۔ وہ لوگ عزت کے ساتھ رشتہ لینے پر راضی ہیں؟ جواب ملا کہ نہیں! انہیں دولت کا گھمنڈ ہے۔ یہ رشتہ ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے ہمیں کمتر سمجھ کر انکار کردیا ہے۔ اب تم کیا کرو گے، کیا سکھی کو واقعی مار دو گے؟ میں یہ نہیں کرسکتا مگر بھابی کو ہمراہ لے کر زمان کے والدین کے پاس گئیں، یہ تم نے غلطی کی۔ اب بات کھل جائے گی۔ وہ اپنے میکے میں ضرور یہ بات بتلائے گی۔ اس لئے مجھے سکھی کو اپنے گھر سے روانہ کرنا پڑے گا۔ یوں تایا نے بیٹی کی جاں تو بخش دی لیکن اسے دوردراز کے گائوں میں ایک شخص کے ہاتھ فروخت کردیا تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری! جس شخص نے اسے خریدا، اس نے اپنے بیٹے کا گھر بسانا تھا۔ وہ ایک بزرگ آدمی تھا۔ سکھی کا نکاح بیٹے سے کیا اور اسے بہو بنا کر اپنے گھر میں رکھ لیا۔ عموماً ایسی خریدی گئی لڑکی کی نہ سسرال میں عزت ہوتی ہے اور نہ شوہر اس کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے لیکن اللہ نے سکھی کی بے گناہی اور مظلومیت پر رحم کھایا اور اسے شہباز کی صورت میں ایک نیک شوہر عطا کر دیا جس نے اس کے ساتھ حسن سلوک سے زندگی گزارنے کا ارادہ کرلیا۔ اس طرح میری کزن کی قسمت بدل گئی۔ وہ موت کے منہ سے نکلی اور ایک فرشتہ صفت انسان کی شریک زندگی بن گئی جس نے نہ صرف عزت دی بلکہ جنت جیسا گھر بھی دیا۔ یہ اللہ تعالی کا کرم ہوتا ہے جس پر ہوجائے وہ فرش سے عرش پر پہنچ جاتا ہے ورنہ ہمارے گائوں میں ایسی لڑکی کا بچ جانا بھی ایک معجزہ تھا، جس پر کوئی اس طرح کا الزام ہو، وہ اگر موت سے ہمکنار نہ کی جائے تو فروخت ہوتی ہے تب بھی اس کی زندگی کسی جہنم سے کم نہیں ہوتی۔ سسرال والے بدچلن سمجھتے ہیں اور اس کے کردار پر طعنہ زنی کرتے ہیں مگر سکھی. سکھی رہی۔ اس کے ساتھ ایسا کچھ نہ ہوا۔ اللہ نے اسے بہترین سوچ رکھنے والا شوہر اور خوشیوں بھری زندگی عطا کردی۔ زمان نے تو سکھی کی زندگی تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی وہ تو اس کی قسمت اچھی تھی کے وو اچھے لوگوں میں چلی گئی – ورنہ زندگی بھر سکھی طعنے سنتی اور اس کے ماں باپ زمانے کے سامنے عزت کا بھرم رکھنے کے لیے خاموش تماشائی بنے رهتے – سکھی کی نیک نیتی نے اسے انعام میں اچھا شوہر دیا – سکھی نے اپنے باپ کی لاج رکھی تو پھل اسے بھی ملا – سکھی سکھی ہی رہی ۔(ختم شد) –

  • #2

    دلچسپ اور بہت ہی زبردست کہانی ۔​

    Comment

    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

    Working...
    X