Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

مشعل ِ مہتاب

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Classic Story مشعل ِ مہتاب

    آج کی شام کچھ عجیب سی ہی تھی بادل ایسے گرج رہے تھے جیسے کسی پہ غصّہ نکال رہے ہوں ۔۔بارش کی ہر بوندمیں ایک درد چھپا تھا شاید آسمان آج بھی کسی کی بےبسی پر رورہا تھا۔۔۔ یہ منظر ہے دوبئی انٹرنیشنل ائیرپورٹ کا جہاں تیز بارش کی وجہ سے کافی ساری فلائٹس کینسل ہو گئ تھیں۔۔ لوگ پریشانی سے اِدھر اُدھر گھوم رہے تھے ایسے میں صرف ایک وہی تھا جو سکون سے کھڑا تھا جیسے اُسے کسی بات کا ڈر ہی نا ہو شاید اس نے اپنی زندگی میں اتنے توفان دیکھ لیے تھے کے اب اسکے اندر سے سارے ڈر نکل گئے تھے
    ..زمان!!...
    زمان بیٹا!!.... (زمان جو بیگز اٹھا رہا تھا بی جان کی آواز پر انکے پاس آجاتا ہے)۔

    زمان: جی بی جان۔۔؟
    بی جان: زمان بیٹا میرا سفید والا بیگ نہی مل رہا ہے I
    زمان: آپ فکر نہ کریں بی جان.. میں دیکھتا ہوں۔۔

    (بی جان کے اتنا پریشان ہونے پے پاس کھڑا ارحم انسے پوچھتا ہے)
    ارحم:ویسے بی جان اس بیگ میں ایسا بھی کیا تھا جو آپ اتنا پریشان ہورہی ہیں??..کہیں دادا جان کی تصویر تو نہی تھی۔۔(ارحم اپنا سامان اٹھائے بی جان کے پاس آکے شرارت سے کہتا ہے)۔

    بی جان: میں نے جوتی اتار لینی ہے اپنی..چل پرے ہٹ۔۔!۔
    ارحم!! کیوں پریشان کر رہے ہو بی جان کو...
    ( عباس صاحب ارحم کو ڈانٹتے ہیں)

    ...عباس!!..میرے بچے کو نہ ڈانٹا کریں!..
    (امبرین بیگم جلدی سے آگے بڑھکے بولتی ہیں)

    عباس صاحب: جی! جی! آپ ہی کا بیٹا ہے میرا تو کچھ نہی لگتا یہ!؛
    (عباس صاحب تنظیہ انداز میں کہتے ہیں)

    امبرین بیگم: آپ جو ہیں نہ.... (اس سے پہلے امبرین بیگم اور کچھ بولیں بی جان بولتی ہیں)۔
    بی جان: ارے بس بھی کرو تم دونو..اور عباس تم جاؤ اور زمان کی مدد کرو وہ بیگ ڈھونڈنے میں۔۔
    نائلہ: بی جان! پریشان نہ ہوں زمان بھائی گئے ہیں نہ ڈھونڈ لینگے بیگ۔۔(نائلہ انہیں پُرسكون کرنے کے لئے بولتی ہے..تبھی ہی زمان بھی واپس آتا ہے)۔
    بی جان: کیا ہوا بیٹا ملا بیگ؟؟؟
    زمان: نہی بی جان!۔۔۔
    ارحم: ارے بی جان چھوڑیں نہ بیگ کو اس میں کونسا خزانہ تھا۔..
    بی جان: بیٹا اس بیگ میں سب کے پاسپورٹس تھے۔۔

    ...کیا!!!!!!??????.... (سب ایک ساتھ بولتے ہیں) بی جان: ارے ہان بھئ تبھی تو میں پریشان ہورہی ہوں بیٹا..
    عباس صاحب: اور امی وہ جو میں نے آپکو پاسپورٹس کے ساتھ ایک بیگ دیا تھا..وہ بھی کیا اسی بیگ میں
    تھا؟؟
    بی جان: ہاں بیٹا۔۔۔
    عباس صاحب: اف خدایا!! اس بیگ میں پیسے تھے!۔

    زمان: کیا!!.. اچھا ٹھیک ہے کوئی بات نہی آپ لوگ فکر نہ کریں۔۔کچھ کرتے ہیں!۔۔سب سے پہلے پیسے ایکسچینج کرنے ہیں..ارحم میرا والٹ دو!!۔۔

    ارحم: ہہں.مہ..والٹ؟؟؟۔
    .!زمان: ہاں والٹ
    ارحم: بھائی وہ..وہ ..والٹ تو میں نے...بی جان کے پاس..رکھوایا تھا..انکے بیگ میں..?(وہ ڈرتے ڈرتے زمان کو بتاتا ہے)۔

    زمان: تمہارا دماغ ٹھکانے پے ہے میں نے والٹ تمھے اسی لئے دیا تھا تاکے تم کھانے کے پیسے دے سکو اور تم نے وہ والٹ بی جان کو پکڑا دیا !!حد ہے یار!!!!۔
    وہ بہت غصے میں چلاتا ہے)۔).

    ارحم: بھائی آپ ہی تو کہتے ہو کے میں کوئی چیز سمبھال نہی سکتا اگر وہ میرے سے کہیں چھٹ جاتا تو آپ تو مجھ پے ہی غصّہ کرتے نا۔اسی لئے میں نے وہ بی جان کو دے دیا۔
    (ارحم کی اس بیوقوفی پے زمان کا دل چاھتا ہے کے وہ اپنا سر پیٹ لے)۔۔

    زمان: اف !!.. چاچو اپ کا کریڈٹ کارڈ کہاں ہے?? عباس صاحب: بیٹا وہ تو میرے پاس ہی ہے لیکن اس میں اتنے پیسے نہی ہیں کے ہم اتنے دن یہاں گزار سکیں اور ہمارے پاسپورٹس بھی نہی ہیں کے ہمیں کسی ہوٹل میں جگہ مل سکے۔!۔
    زمان: شیٹ یار!!!۔

    ....نینی پھوپو.. (زیان جو کافی دیر سے چپ بیٹھا تھا نائلہ سے کہتا ہے)
    نائلہ: جی پھپو کی جان۔
    زیان: اب ہم کا کلینگے?? (وو اپنی ہی لینگویج میں نائلہ سے پوچھتا ہے)۔

    نائلہ: زیان بیبی پریشان ہونے کی ضرورت نہی ہے آپکے بابا ہیں نہ وہ سب ٹھیک کردینگے!!.. ہمم!!
    ارحم: لو..بھئ ایسا تو ہونا ہی تھا!!.. آخر لودھی فیملی کا پہلا فیملی ٹریپ ہے..خراب تو ہونا ہی تھا!!۔..
    زمان: ارحم تو تھوڑی دیر چپ کرکے کھڑا
    رہے گا پلیز!!.. سوچنے دو۔۔ اب کرنا کیا ہے۔۔
    نائلہ: بھائی! دبئی میں اپکا کوئی جاننے والا نہی رہتا؟؟
    زمان: نہی نائلہ!کوئی نہی ہے۔۔
    ارحم: نہی ہیں نہ زنیرہ باجی۔۔۔۔۔ (ارحم کے موں سے ایک دم نکلتا ہے اور پھر وہ اپنے آپ کو ہی کوس رہا ہوتا ہے کے یہ اسنے یہ کیا کہ دیا)۔

    (وہ نام سنتے ہی زمان کو بہت کچھ یاد آتا یے۔۔وہ وہاں سے غصے میں با ہر چلا جاتا ہے)
    عباس صاحب: تمہاری زبان کے آگے کوئی سپیڈ بریکر ہے کے نہیں!؟!؟ ہر وقت فضول بولنا ہوتا ہے.. دلا دیا نہ غصّہ اسسے۔۔
    بی جان: ویسے بچے نے کوئی غلط بات بھی نہی کہی ہے عباس!۔
    ارحم: چلو کوئی تو ہے جو مجھے سمجھتا ہے
    نائلہ: ارحم چپ ہوجاؤ تم تھوڑی دیر!!۔

    عباس صاحب: بی جان آپ جانتی ہیں وہ کبھی نہیں مانے گا وہاں جانے کے لئے۔۔
    بی جان: دیکھو عباس اس وقت ہمارے پاس کوئی اور چارہ بھی نہیں ہے۔۔۔اب کیا پوری رات بچوں کو سڑک پے رکھیںگے..بات کو سمجھو اور زمان کو بھی سمجھاؤ.. مجھے یقین ہے وہ سمجھ جائیگا!!۔..

    عباس صاحب: میں بات کرتا ہوں امی اس سے!!.. (عباس صاحب ائیرپورٹ سے با ہر آتے ہیں جہاں سامنے ہی انھیں زمان کھڑا دیکھتا ہے۔۔۔ وہ بھی وہیں آجاتے ہیں اسکے پاس)۔
    زمان: چاچو اگر آپ مجھے وہاں جانے کے لئے کہنے آئے ہیں تو یاد رکھیں ہم وہاں کبھی نہی جائیں گے.. عباس صاحب: کب تک یہاں بیٹھے رہینگے بیٹا!؟
    ذرا سوچو ہمارے ساتھ پوری فیملی ہے..میری بات مانو چلتے ہیں..ہم کل صبح ہوتے ہی وہاں سے نکل جائیں گے۔۔

    زمان: چاچو! آپکو جانا ہے آپ جائیں بلکےسب کو لے کے جائیں۔۔۔۔لیکن میں وہاں نہی جاؤنگا!۔
    عباس صاحب: ٹھیک ہے تو ہم سب بھی یہی رہینگے..یہیں ائیرپورٹ پے سوینگے۔۔۔
    زمان: اب آپ زد کر رہے ہیں چاچو!!!۔۔
    عباس صاحب: ارے زد تم کر رہے ہو میاں!!..میں مانتا ہوں 8 سال پہلے جو کچھ بھی ہوا وہ نہی ہونا چاہئے تھا..لیکن اب وقت بدل گیا ہے!۔..
    زمان: وقت بدلہ ہے حالات بدل گئے ہیں لیکن لوگ تو وہی ہیں نہ چاچو!!۔
    عباس صاحب: for Allah sake Zamaan change your self now!!
    ….!ہمارے لئے! زیان کے لئے!!.. اور سب سے بڑی بات خود کے لئے!!..پلیز!!.

    (وہ یہ بولکے خاموش ہوتے ہیں اور پھر ایک لمبی سانس لے کے اس سے کہتے ہیں)
    عباس صاحب: وقت کا پیّہ کبھی روکتا نہیں ہے زمان لوگ روک جاتے ہیں اور تم ابھی تک 8 سال پہلے کے لمحوں میں روکے ہو۔۔ اب وقت آگیا ہے کے تم اب آگے بڑھو۔۔رک جانے والوں کی وقت بھی قدر کرنا چھوڑ دیتا ہے زمان یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا۔۔۔۔۔! میں اندر جارہا ہوں تمہیں آنا ہو تو آجانا۔۔
    (عباس صاحب مُڑ کے جانے ہی لگتے ہیں جب زمان کی آواز ان تک آتی ہے)
    زمان: چاچو!۔
    عباس صاحب: ہمم
    زمان: ..چلتے ہیں!!۔
    عباس صاحب: یہ ہوئی نہ میرے بیٹے والی بات..تم ٹیکسی کراؤ جب تک میں اندر جاکے سب کو بولتا ہوں ویسے ہی سب بہت تھک چکے ہیں۔۔
    زمان: تھک تو میں بھی بہت گیا ہوں!۔(وہ کچھ سوچتے ہوئے کہتا ہے)۔
    (تھوڑی دیر بعد سب جلدی سے اپنا اپنا سامان پکڑکے باہر آتے ہیں)۔
    عباس صاحب: ارحم تمہیں بھائی جان کے گھر کا پتا ہے نہ؟؟
    ارحم: جی بابا یہیں پاس میں ہی ہے۔۔
    عباس صاحب : چلو پھر ڈرائیور کو پتا بتاؤ!

    ۔(زمان کار میں بیٹھ کے بھی یہی سوچ رہا تھا کے وہ یہ کیا کر رہا ہے۔۔۔8 سال پہلے جو ہوا تھا وہ زخم آج بھی تازہ تھا..اس ایک واقعے نے زمان کو بدل کے رکھ دیا تھا۔۔آخر ایسا کیا ہوا تھا ٨ سال پہلے؟؟)۔



    (زمان کار میں بیٹھ کے بھی یہی سوچ رہا تھا کے وہ یہ کیا کر رہا ہے۔۔۔٨ سال پہلے جو ہوا تھا وہ زخم آج بھی تازہ تھا..اس ایک واقعے نے زمان کو بدل کے رکھ دیا تھا)۔
    ( ٨ سال پہلے)
    ( لودھی ہاؤس)
    ....زمان!!.. زمان!!...ادھر آؤ..تم!! ..
    ( زائدہ بیگم ہاتھ میں چپّل لئے پورے گھر میں زمان کے پیچھے گھوم رہیں تھیں..)

    زمان: کیا کر رہی ہیں امی لگ جائیگی!
    زائدہ بیگم: تمہارے ابّا نے کیا کہا تھا زمان؟! کے تم محّلے میں کرکٹ نہی کہیلوگے لیکن تم نے پھر بھی کھیلا اور سونے پے سُہاگا پڑوسیوں کا شیشہ بھی توڑ دیا..اب تمہارے ابّا آینگے تو کیا کہونگی میں ان سے!!؟؟۔۔۔

    زمان: تو میری پیاری امی جان کہدیجئے گا لودھی صاحب سے کے انکے سب سے بڑے اور نالائق بیٹے نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے..سمپل!۔
    زائدہ بیگم: ایک تو میں نے تمہیں کتنی دفع منہ کیا ہے کے اپنے ابّا کو لودھی صاحب نہ کہا کرو.. تمہیں تو آج میں چھوڑونگی نہی!!۔

    زمان: ارے!! ارے امی کیا کر رہی ہیں لودھی فیملی کا چشم و چراغ ہوں میں۔۔
    ....ہاں اور اسی چراغ نے پورے گھر کو آگ لگا کے رکھی ہے۔۔(زنیرہ جو ابھی گھر میں آئی تھی زمان کی ہرکتیں دیکھ کر ایک تانا اس کو دے مارتی ہے)۔
    زمان: لو...آگئی امی آپکی چمچی!!!۔
    زنیرہ: ہو!... تم نے مجھے چمچی کہا!؟؟
    زمان: ہاں کہا تو کیا کرلوگی تم؟
    زنیرہ: امی!!! دیکھیں نہ اسے۔۔
    زائدہ بیگم: زمان تنگ نہ کرو میری بیٹی کو!۔
    زمان: بس ہوگیا مجھے یقین کے میں آپکی سگّی اولاد نہی ہوں..سچ سچ بتائیں کہاں سے اٹھا کے لائیں تھی آپ مجھے!؟
    زنیرہ: اب کچرے کو کچرے کے ڈبّبے سے ہی اٹھائینگے نہ!۔
    ( زنیرہ زمان کی فل بیستی کرتے ہوئے)

    زمان: اے!!.. ہو کون تم ہاں.. ہر وقت چھپکلی کی ترحان ہمارے گھر میں چپکی رہتی ہو۔۔اور تو اور میری امی کو اپنی امی بنالیا۔۔
    زنیرہ: پتا ہے کیا تم مجھ سے جلتے ہو..یو جیلس پیپل!!
    زمان: ہ!.. جیلس میں؟!..وہ بھی تم سے؟..مس زنیرہ لودھی جیلسی کا بھی نہ ایک لیول ہوتا اور میرے ابھی اتنے بھی بُرے دن نہیں آ
    ۓ کے میں تم سے جیلس ہوں!. آئ بڑی چھپکلی کہیں کی…!!۔

    زنیرہ:میں چھپکلی...اور تم کیا ہو کالے بندر!!۔(اور جی ہاں زمان کو کوئی کچھ بھی بول دے اسے فرق نھہیں پڑتا لیکن اگر اسے کوئی غلطی سے بھی کالا کہ دے تو اس کی بہت ہٹتی ہے)۔
    زمان: کالا!! یہ کا کالا کس کو بولا تم نے ہاں..اچھا خاصا ہینڈسم ہوں میں!!۔۔
    زنیرہ: ہینڈسم۔۔۔ رہنےدو! رہنےدو!.. پتا نہی اپنے آپکو کونسی سلطنت کا بادشاہ سمجھتے ہیں..لاڈ صاحب!!ہن..
    زمان: اچھا بیٹا..روکو ذرا آج تو تم گئی۔!!۔(زمان کے کڑے تیور دیکھ کے زنیرہ بھاگ نے لگتی ہے)


    زنیرہ: امی بچائیں!۔!۔
    زمان: آج اس چھپکلی کوانجام تک پوچھا کر ہی رہوں گا!! (زمان بھی اسکے پیچھے بھاگتا ہے)۔

    زائدہ بیگم: ارے زنیرہ!! زمان کیا کر رہے ہو..!!تم دونوں۔۔؟؟(زمان اور زنیرہ ایک دوسرے کے پیچھے دوڑ رہے ہوتے ہیں)۔
    زنیرہ: دیکھو زمان اگر تم نے مجھے کچھ بھی کیا نہ.. تو.. تو میں تایا ابّا کو بتا دونگی!۔
    زمان:ہاں تو بتادو ڈرتا نہی ہوں میں لودھی صاحب سے.. آج تو مجھے کوئی نہی روک سکتا..

    زنیرہ:اسلام علیکم تایا ابّا!۔(این اسی وقت جمیل صاحب بھی گھر میں تشریف لے آتے ہیں.. زنیرہ انھیں دیکھ کے سیدھی کھڑی ہوجاتی ہے جبکے زمان انھیں نہی دیکھتا کیونکے وہ زنیرہ کی طرف مڑکے کھڑاہوتا ہے)۔
    زمان: ہاں ابّا کا نام لیکر مجھے ڈرانے کی کوشش کر رہی ہو!!..میں ڈرتا ورتا نہی ہوں ان سے..
    جمیل صاحب:وعلیکم السلام!۔
    (پیچھے کھڑے لودھی صاحب کی کڑک دار آواز آتی ہے جسے سنتے ہی زمان تیر کی ترحاں سیدھا ہوتا ہے)
    زمان: ا…..سلام علیکم ابّا!۔
    جمیل صاحب: وعلیکم سلام یہ کیا حال بنا رکھا ہے تم نے گھر کا کوئی خیال ہے تمہیں کے ماں کا ہاتھ ہی بٹالو...اور آج پھر تم شاپ پے نہی آ
    ۓ.. کتنی بار تمہیں بولا ہے کے کالج سے آکے شاپ پے بیٹھا کرو میرے ساتھ ۔۔۔۔لیکن صاحب زادے کو آوارہ گردی سے فرصت ہی کہاں ملتی ہے

    زمان: سوری ابّا!!.. لائیں ابّا یہ سامان مجھے دے دیں.. (لودھی صاحب کے ہاتھ میں سامان دیکھ کے کہتا ہے)۔
    جمیل صاحب:ارے رہنے دو! .. بہت جلدی خیال آگیا تمہں!..کام کا نہ کاچ کا دشمن اناج کا!۔(لودھی صاحب تھوڑا آگے ہوتے ہیں تبھی پیچھے کھڑی زنیرہ زمان کو موں چڑا کے بھاگ جاتی ہے جب کے زمان ادھر کھڑا غصّہ پیتا رہتا ہے)۔
    جمیل صاحب: اور ہاں کل سے شاپ پے آجانا تم شرافت سے۔۔
    زمان: جی بہتر!۔
    جمیل صاحب: ہن!!۔(جمیل صاحب کے اندر جاتے ہی زمان زمین پے پڑا تکیہ اٹھاکے دوبارہ زور سے زمین پے مارتا ہے)
    زمان: اف یار!!...مروادیا اس چھپکلی نے!۔

    .................................................. ....
    (سعید لودھی ہاؤس)*
    زونیرا!!.. زونیرا جلدی سے نیچے آجاؤ..میں کب سے انتظار کر رہی ہوں.. (وہ نیچے سے چّلا کے زونیرا کو آواز دیتی ہے)۔
    زنیرہ: بس آئی زویا!!! (وہ بھی اپنے روم سے چلا کے جواب دیتی ہے)۔
    (زویا نیچے کھڑی انتظار کر رہی ہوتی ہے تب زمان وہاں آتا ہے)
    زمان: ارے زویا یہاں کیسے؟؟
    زویا: زنیرہ کے ساتھ شاپنگ پے جارہی ہوں
    زمان: پھر شاپنگ!!؟ ابھی پچھلے ہفتے ہی تو گئے تھے تم لوگ...مطلب کے پھر چچا کا اکاؤنٹ خالی کرنے جارہے ہو۔۔ویسے ایک بات بتاؤ تم لڑکیوں کے پاس اتنے کپڑے ہوتے ہیں پھر بھی ہر ہفتے شاپنگ کرنے چل دیتے ہو۔۔۔

    زویا: ایسا آپ کو لگتا ہے زمان!!.. کیونکے آپ لڑکے صرف وہی دن یاد رکھتے ہیں جس دن ہم لڑکیاں شاپنگ پے جاتی ہے۔۔اور آپکی انفارمیشن میں تھوڑا اور اضافہ کردوں ہم پچھلے ہفتے نہی بلکے پچھلے مہینے شاپنگ پے گئے تھے!۔۔
    زمان: اوہ سوری!... ویسے زویا یہ بتاؤ.. تم اتنی کیوٹ اتنی سوئٹ اتنی پیاری ہو ماشاللہ سے پھراس چھپکلی کی دوست کیسے بن گئی؟!؟
    زویا: آپ فلرٹ کر رہے ہیں؟

    زمان: اف! ایک تو تم لڑکیوں کی ذرا سی تعریف کیا کردو تم لوگ تو فورن ہی سانتھویں آسمان پے چڑھ جاتی ہو..ہنن! اچھا چھوڑو میں ذرا چچی کو حلوہ دیکے آتا ہوں امی نے خاص انہی کے لئے بنایا ہے..نہی دیا تو جان لے لیلنگی امی میری۔۔۔
    (زمان جانے کے لئے موڑتا ہے تو زویابولتی ہے)
    زویا: آ زمان! ویسے میں مذاق کر رہی تھی۔۔

    زمان: لیکن میں بہت سیریس ہوں!۔(زمان پیچھے دیکھتے وے آگے جارہا ہوتا ہے کے سامنے سے آتی زنیرہ سے زور سے ٹکراتا اور اسکے ہاتھ سے سارا حلوہ زنیرہ کے اپر گر جاتا ہے)۔
    زنیرہ:اف!!آنکھیں ہیں یا ٹچ بٹن!! یہ کیا کیا تم نے؟؟؟!
    زمان: 0o بی بی!! دنیا مرتی ہے ان آنکھوں پے!۔
    زنیرہ: یہ جو دنیا مرتی ہے نہ ان آنکھوں پے..مر ہی جائے تو اچھا ہے.. سارے کپڑے خراب کردیے میرے..میں جل جاتی تو اپر سے تم نے یہ با
    ٶل بھی میرے پاؤں پر توڑ دیا اگر میرا پاؤں کٹ جاتا تو!؟

    زمان: ہاں تو کچھ ہوا تو نہی نہ!..ویسے کیا ہی اچھا ہوتا کے یہ ڈھائی غز کی زبان کٹ جاتی!۔۔۔
    زنیرہ: یہی تمہاری بدتمیزی زہر لگتی ہے مجھے۔۔
    زمان: ہاں جیسے مجھے تو تمہاری اس شیریں بیانی سے عشق ہے نہ!؟!۔۔
    زنیرہ:تمہاری ہمّت کیسے ہوئی مجھ سے اس ترحان بات کرنے کی۔۔؟؟

    زمان: بیٹا ہمّت تو میرے میں بہت ہے... (وہ اسکا کولر پکڑ لیتی ہے تو زویا اسے روکتی ہے)
    زویا: زونیرا کیا کر رہی ہو.. لگ جائیگی..چھوڑو اسے!
    زنیرہ: میں تمہارا سر پھاڑ دونگی!۔
    زمان: ارے لے کے جاؤ اسے کوئی پاگل خانے!۔(ارحم جو ابھی گھر میں آیا تھا زمان کو ڈھونڈنے..زمان کو اسے لڑتا دیکھ فورن سے زمان کو پکڑ کے پیچھے کرتا ہے

    ارحم: بھائی!! بھائی کیا کر رہے ہیں آپ چلیں گھر
    زنیرہ: ارے لے کے جاؤ اس پہاڑی بکرے کو یہاں سے ورنہ میں اسے چورونگی نہی!۔۔
    زمان: پہلے پکڑ تو لو ٹیڈی بکری۔۔
    زنیرہ: ہو.. تم نے مجھے ٹیڈی بکری کہا.؟؟
    زمان: اوہ بےبی کو بُرا لگ گیا...ٹیڈی بکری ...! زنیرہ:ارحم!!لے کے جائو اپنے بھائی کو یہاں سے!! ورنہ زایا ہوجائیگا یہ میرے ہاتھوں۔!۔

    زمان: جارہا ہوں! جارہا ہوں! مجھے بھی کوئی شوق نہی ہے یہاں رہنے کا..اور ہاں میرے پاس پاگل خانے کا ایڈریس ہے چاہیے ہو تو لے لینا..
    زنیرہ: تمہیں میں۔۔۔۔۔
    زمان : کیا میں.?ہاں کیا؟؟
    زویا: زمان پلیز آپ ہی بس کردیں ختم کرو بات کو.. ارحم لے کے جائو انھیں۔۔

    زمان: صرف تمہارے کہنے پے جارہا ہوں زویا ورنہ آج اس چوءیا کو مار ہی دیتا میں
    زنیرہ: پہلے سہی سلامت اپنے گھر تک تو پہچ جاؤ
    زویا: زنیرہ اب تم بھی بس کرو!!.. آپ جائیں زمان.!!..

    (ارحم زمان کو تقریبن کھینچتا ہوۓ باہر لے کے آتا ہے..)
    ارحم: بھائی کیا کر رہے تھے آپ؟؟
    زمان: بیٹا آنے دو چچا کو دبئی سے..بتاتا ہوں میں اس چھپکلی کو.. مار نہ پٹوائ تو میرا نام بھی زمان نہی!۔

    ارحم:فلحال تو آپ اپنی فکر کریں تائی جان کے جہیز کا باٶل توڑ دیا ہے اپ نے!!..چھورینگی نہی وہ آپکو..
    زمان: ہاں یار!.. چلو آؤ مارکیٹ سے ایک نیا با
    ٶل لے کے آیں ورنہ آج تو میرے نام کا وارنٹ نکل جائیگا..
    ارحم: ہمم چلیں۔۔!!۔۔

    ۔(زمان اور زنیرہ کے جھگڑے کے بعد زنیرہ غصے میں اپر چلی جاتی ہے پیچھے پیچھے زویا بھی جاتی ہے..روم میں گھستے ہی وہ زور سے اپنا دوبٹا بیڈ پے پہنکتی ہے)۔
    زنیرہ: آخر سمجھتا کیا ہے اپنے آپ کو یہ چھچُندر ؟؟!۔۔
    زویا: وہ زمان لودھی ہے اور اپنے آپکو وہی سمجھتا ہے!!.. چھوڑو اب اس بات کو.. چلو اٹھو شاپنگ پے چلتے ہیں...
    زنیرہ: میں نے نہیں جانا اب کہیں بھی!۔
    زویا: زنیرہ۔۔!۔
    زنیرہ: سارا موڈ خراب کردیا اس زمان کے بچّے نے!!...اس کو تو میں ایسا سبق سکھاونگی کے ساری زندگی یاد رکھےگا
    زویا: کیا چل رہا ہے تمہارے دماغ میں؟؟
    زنیرہ: بہت آکڑ ہے نہ اس میں.. اچھے سےسکھاونگی میں اسے تمیز!۔۔
    زویا: زنیرہ تمہیں جو کرنا ہے کرو..لیکن کچھ ایسا مت کرنا جس سے تمھے بعد میں پچھتاوا ہو..
    زنیرہ: کچھ نہی ہوگا فکر نہ کرو تم!

    .................................................. .....
    (ارحم اور حمزہ زمان کے روم میں بیٹھے اسسے ٹھنڈہ کر رہے ہوتے ہیں)
    زمان: دیکھا حمزہ تمہاری بہن کی کتنی لمبی زبان ہے!!
    حمزہ: بھائی ایسا تو نہ کہیں بہن ہے میری
    زمان: بہن..!! اب میرا موں مت کھول وانا
    ارحم: ویسے زمان بھائی آپ بھی تو چوڑھتے نہیں ہیں انکا پیچھا..
    زمان: ہان تو وہ مجھے چھیڑتی کیوں ہے..میری ہٹ جاتی ہے!!..
    حمزہ: اچھا نہ زمان بھائی ریلیکس کریں
    زمان: میں.. ( زمان ابھی کچھ بولنے ہی والا ہوتا ہے جب اسکا فون بجتا ہے)۔

    زمان موبائل اٹھا کے دیکھتا ہے تو کسی آن نون نمبر سے میسج آیا ہوا ہوتا)۔
    میسج:۔
    اسسلام و علیکم جناب!! امید ہے آپ خیریت سے ہونگے۔۔۔۔
    زمان: وعلیکم سلام! آپکی تعریف؟؟.. (زمان رپلائے کرتا ہے)
    ۔۔۔تعریف اس خدا کی جس نے آپکو بنایا!! ۔۔۔
    زمان: میرا مطلب ہے.. آپ کون بات کر رہی ہیں محترمہ؟؟
    ...آپ ہمیں نہی جانتے لیکن ہم آپکو اچھے سے جانتے ہیں!۔۔
    زمان: کیوں? ..آپ کوئ ڈیٹیکٹیو ہیں؟؟

    ...جی نہی!! لیکن ہم آپکو بہت اچھی ترحان سے جانتے ہیں..
    زمان: اچھا اگر اتنا اچھے سے جانتی ہو تو کچھ ایسا بتاؤ جو صرف مجھے یا میری فیملی کو پتا ہو۔۔
    ہمم!... ...آپکے سیدھے ہاتھ کی پہلی انگلی کے نیچے ایک چھوٹا سا تل ہے
    ..
    زمان:..what tha Hell!!!
    (زمان زور سے بولتا ہے جس سے ارحم اور حمزہ بھی سنتے ہیں)

    حمزہ: کیا ہوا بھائی؟؟
    زمان: کچھ۔۔ نہی!۔
    ارحم: اچھا چلیں بھائی کرکٹ کھلتے ہیں
    زمان: تم لوگ چلو میں آتا ہوں۔۔

    ۔(ارحم اور حمزہ ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھتے ہیں اس سے پہلے کبھی زمان کے سامنے کرکٹ کے بارے میں بات بھی ہوتی تھی تو زمان سارا کام چھوڑ چھاڑ کے کرکٹ کھیلنے چلا جاتا تھا اور آج جب یہ لوگ خود بولا رہے تھے تو ابھی تک بیٹھا تھا)۔


    زمان: کیا ہوگیا ہے?? جاؤ نا
    حمزہ: بھائی آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا ؟؟
    زمان: میری طبیعت کو کیا ہوگا بلکل ٹھیک ہوں میں!۔۔
    ارحم: ہاں..ہم چلتے ہیں.. چل حامی!! (حمزہ اور ارحم کے جانے ک بعد زمان پھر سے فون اٹھا لیتا ہے)

    میسج:۔
    زمان: تمہیں یہ کیسے پتا چلا..گھر میں بھی کافی کم کو یہ بات پتا ہے۔۔۔؟؟؟.
    ..میں نے کہا نہ میں آپکو بہت اچھے سے جانتی ہوں!!

    زمان: یہ بتاؤ کے کیا ہم مل چکے ہیں..؟؟
    ...جی بلکل!!.. یوں کہلیں کے تقریبن روز ہی ملتے

    زمان: روز ملتے ہیں!؟ دیکھو مجھ سے یہ کون بنےگا کروڑپتی مت کھیلو..بہتر ہوگا کہ تم مجھے اپنا نام بتادو..!
    ..وہ تو آپکو خود ہی پتا لگانا پڑھےگا...اچھا میں آپ سے رات میں بات کرونگی ابھی مجھے کچھ کام ہے..

    زمان: نہی ایک سیکنڈ پہلے مجھے اپنا نام بتاؤ
    (زمان کے اس میسج کا کوئی ریپلاۓ نہی آتا..وہ ایک گہری سوچ میں پڑھ جاتا ہے)

    زمان: ایسی کونسی لڑکی ہے جسے میں جانتا ہوں لیکن نہی جانتا..جس سے میں روز ملتا ہوں..جس کو میرے بارے میں مجھ سے بھی زیادہ پتا ہے..میری انگلی کے نیچے تل ہے یہ بات صرف امی کو ہی پتا ہے تو اسے کیسے پتا چلی یہ بات؟؟۔۔آخر کون ہو تم!؟ اس بات کا پتا تو میں لگا کر ہی رہونگا!!
    (یہ سوچتے سوچتے اسکی آنکھ لگ جاتی ہے..اور تب کھولتی ہے جب ارحم اسکے موں پر کھڑا چیلّا رہا ہوتا ہے..)

    ارحم: بھائی!!!.. بھائی اٹھ جائیں یار!!!.. کب تک سوینگے!!
    زمان: ارحم چلا جا یہاں سے ورنہ میں تیرا موں توڑ دونگا.. سونے دے مجھے!!!

    ارحم: میرا موں بعد میں توریئے گا فلحال تو تایا ابّا آپکو نیچے بولا رہے ہیں...
    زمان: ہیں!!..کیوں??!!.. اب میں نے کیا کردیا؟

    (زمان جلدی سے اٹھکے اسے پوچھتا ہے)
    ارحم: ارے کچھ نہی ہوا وہ سعید چاچو آگئے ہیں دبئی سے اسی لئے وہ اور فردوس چچی آئے ہیں اپنی آل اولادوں کو لے کے۔۔۔
    زمان: یار یہ شاہی سواری یہاں کیوں آئ ہے؟؟؟
    ارحم: پتا نہی آکے خود ہی پوچھ لیں!!..لیکن خدا کا واسطہ اٹھ جائیں میں ٢٠ منٹس سے آپکو اٹھانے کی کوشش کر رہا ہوں.. اب نہی آونگا!۔
    زمان: اچھا جا! میں آرہا ہوں
    ارحم: آجائے گا!
    زمان: بولا نا آراہا ہوں۔۔۔(ارحم کے جاتے ہی زمان اپنا موبائل اٹھا کے چیک کرتا ہے لیکن اس میں کوئی میسج نہی آیا ہوتا اسے اب واقعی کریوسیٹی ہونے لگی تھی ۔۔۔وہ موبائل سائیڈ پے رکھتا ہے اور چینج کرنے چلا جاتا ہے)

    .................................................. ......
    (سب سکون سے بیٹھ کے کھانا کھا رہے ہوتے ہیں جمیل صاحب گھر کے سربراہ کی کرسی پے بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں انکے بلکل سامنے والی کرسی پر سعید صاحب بیٹھے ہوئے تھے..انکے ایک طرف والی کرسی پے زاہدہ بیگم انکے برابر میں فردوس بیگم اور انکے برابر میں زنیرہ بیٹھتی تھی)۔
    ۔(دوسری طرف کی پہلی کرسی پے ارحم دوسری پے حمزہ اور تیسری پے زمان بیٹھا تھا..اس ترحاں زمان اور زنیرہ آمنے سامنے بیٹھے تھے۔۔۔۔ دونوں ایک دوسرے کو ایسے اگنور کر رہے تھے جیسے جانتے ہی نہ ہوں ایک دوسرے کو۔۔)
    زمان: امی چٹنی نہیں بنائی اپنے؟؟
    زائدہ بیگم: ارے وہ کچن میں ہی رہ گئی..زنیرہ بیٹا زمان کو وہ چٹنی لادو ذرا۔۔۔۔ (زاہدہ بیگم کے کہنے پے زنیرہ زمان کو دیکھتی جو اسے دبی دبی ہسسی سے دیکھ رہا ہوتا ہے)۔

    زہر نہ لادوں اسے!*۔۔۔زنیرہ بس سوچ کے ہی رہجاتی ہے*
    زنیرہ: جی امی!! لادیتی ہوں۔۔(زنیرہ اوٹھ کے کچن میں جاتی جہاں سامنے ہی ٹیبل پے چٹنی کا باول رکھا ہوتا ہے)
    زنیرہ: چٹنی کھا نی ہے جناب کو..ہن!!!..ابھی بتاتی ہوں میں اسکو...چٹنی کھا نی ہے نہ بلکل کھلائیں گے...ایسی چٹنی کھلاونگی کے پھر کبھی نہیں مانگے گا.. (زنیرہ کیبنٹ کھول کے اس میں سے لال مرچ پاؤڈر نک لتی ہے اوراس میں موجود سارا مصالہ اس چٹنی میں ڈال دیتی ہے)
    زنیرہ: اب پتا چلیگا جناب ِآلی کو..مجھ سے پنّگا لینے کا انجام۔۔۔(وہ باٶل لے کے کچن سے باہر آتی ہے اور زمان کے سامنے رکھ دیتی ہے..اور پھر اپنی کرسی پے آکےآرام سے بیٹھ جاتی ہے... زمان اپنی پلیٹ میں چٹنی نکلتا ہے جیسے ہی وہ پہلا نوالہ موں میں رکھتا ہے اسکے موں میں آگ لگ جاتی ہے...وہ کھاتے ہی اسے ہچکیاں شروع ہوجایی ہیں)۔
    فردوس بیگم: کیا ہوا زمان بیٹا؟؟
    زمان: سسس.آہ...سسس..!! اتنی..اتنی... مرچیں!

    زائدہ بیگم: مرچیں؟..میں نے تواتنی مرچیں نہی ڈالیں اس میں۔۔
    زنیرہ: مرچیں تو لگینگی بیٹا!....میرا مطلب ہے کے اب یہ اتنا بھر بھر کے کھائے گا تو مرچیں تو لگینگی نہ امی!!.. (اس بات پر حمزہ اور ارحم کی حسسی
    چھوٹتی ہے لیکن دونوں اسے جلدی سے دبا لیتے ہیں)

    زنیرہ: آ..پانی دیجئے نہ اسکو.. حمزہ پانی دو اسے!! (زمان اپنی لال آنکھوں سے مسلسل اسے ہی دیکھتا رہتا ہے کیونکے وہ جانتا تھا کے یہ کام زنیرہ کے علاوہ کوئی نہی کرسکتا۔۔دوسری طرف وہ
    اسے ایسا اشارہ کرتی ہے کے جیسے کہ رہی ہو کے پتا چلا مجھسے پنّگا لینے کا نتیجہ)۔

    ۔(کھا نے کے بعد چائے کی محفل لگتی ہے.. سب سٹنگ ایریا میں بیٹھے چائے پی رہے ہوتے ہیں تب زمان بھی وہاں آتا ہے اب جاکے اسکے موں میں مرچیں لگنا کم ہویں تھی)۔
    زائدہ بیگم: زنیرہ زمان کو بھی چائے دیدو
    زنیرہ: جی امی ضرور!!

    (وہ ابھی آکے بیٹھتا ہی ہے کے زنیرہ اسکے سر پے پہچ جاتی ہے)
    زنیرہ: جی چینی کتنی لینگے آپ!! (زنیرہ کے ایسے آپ بولنے پے ارحم حمزہ سمیتھ زمان خود بھی شوکڈ ہوجاتا ہے)۔
    زمان:آپ؟؟!؟؟

    زنیرہ: جی آپ!! (اس سے پہلے زمان کچھ بولے اسکے دماغ میں تھوڑی دیر پہلے والا واقعہ کلک ہوتا ہے)۔
    زمان تھنکنگ, کہیں اس نے پھر کچھ تو نہی ملا دیا چائے میں..
    زمان: نہی موجھے چائے نہی پینی!
    زنیرہ: نہی پینی! لیکن کیوں؟؟
    زمان: نہی پینی تو نہی پینی نہ کیوں مجھے فورس کر رہی ہو..
    (زمان اٹھکے جانے لگتا ہے کے زنیرہ اسکے پاؤں کے آگے اپنا پاؤں اڑاتی ہے جس سے الجھ کے زمان موں کے بل زمین پر گرتا ہے)

    زمان: آہھہ!!۔۔
    سعید صاحب: ارے زمان سمبھال کے بیٹا
    زنیرہ: چچ! کیا ہوا?? لگ تو نہیں گئی آپکو؟
    زمان: تم!!..تمہاری وجہ سے ہوا ہے یہ سب!!۔۔
    زنیرہ: آپکو ایسا کیوں لگتا ہے کے آپکے ہر نقصان کی زمیدار میں ہوتی ہوں..
    زمان: کیونکہ اس گھر میں میرا تمہارے علاوہ کوئی دشمن نہیں ہے نہ۔۔
    زنیرہ: تایا ابّو دیکھیں نہ زمان کو!۔

    جمیل صاحب: زمان!! کیوں تنگ کر رہے ہو اسے!!
    زمان: ابّو میں...
    جمیل صاحب: زمان!! بیٹھ جائو چپ کر کے تم!

    زمان تھنکنگ, قسم سے اس سے زیادہ میٹھی چُہوری میں نے اپنی زندگی میں نہی دیکھی
    زمان: چھوڑونگا نہی میں تمہیں(زمان آہستے مگر غصے سے اسے کہتا ہے)۔
    زنیرہ: پہلے پکڑ تو لو (زینرہ بھی اسے ایسے ہی جواب دیتی ہےاور وہاں سے چلی جاتی ہے)۔

    جمیل صاحب: سعید تمہاری عباس سے بات ہوئی..کب آرہے ہیں وہ لوگ واپس؟
    سعید صاحب: جمیل بھائی جمّعے کی صبح کی فلائٹ ہے انکی انشاللہ شام تک وہ لوگ یہیں ہونگے۔۔
    جمیل صاحب: انشاللہ!! اور میں چاہتا ہوں انکے استقبال میں کوئی کمی نہ رہے آخر عمرہ کرکے آرہے ہیں وہ لوگ۔۔۔
    سعید صاحب: جی بھائی جیسا آپ کہیں!! (باتوں کے بعد سعید صاحب اپنی فیملی کو لیکر اپنے گھرچلے جاتے ہیں جبکے باقی سب اپنے اپنے کمرے میں آکے سو جاتے ہیں)۔


    (جمعے کے دن.. صبح ہی صبح زنیرہ زمان کے گھر پے آتی ہے جہاں سب ناشتے کی ٹیبل پیےبیٹھے ناشتہ کر رہے ہوتے ہیں)۔
    زنیرہ:اسسلام علیکم تایا ابو!۔
    جمیل صاحب: وعلیکم سلام!.. کیسا ہے میرا بیٹا.. زنیرہ: میں تو بلکل ٹھیک ہوں تایا ابّو۔۔
    زائدہ بیگم: زنیرہ بیٹا بلکل سہی ٹائم پے آئ ہو۔۔آجاؤ ناشتہ کرو ہمارے ساتھ
    زنیرہ: نہیں امی میں تو زمان کو بولا نے آئ تھی..ابّو نے اسے کچھ کام کہا ہے وہ آج بی جان وغیرہ آنے والےہیں نہ اسی لئے...
    جمیل صاحب: بیٹا وہ نالائق تو ابھی تک سو رہا ہے.. کچھ خیال ہی نہیں ہے اُسکو.. (تبھی زمان نیچے آتا ہے)

    زمان: ابّو اب اتنا بھی غیر زمیدار نہیں ہوں میں چاچو کا کام میں نے رات میں ہی کر لیا تھا..اور تم زیادہ میرے ابّو کو میرے خلاف بھڑکانے کی ضرورت نہی ہے..
    زنیرہ:..دیکھا تایا ابّو کیسے بدتمیزی کر رہے ہیں یہ میرے ساتھ..
    جمیل صاحب: زمان تمہیں کتنی دفع کہا ہے تمیز میں رہا کرو.. چھوٹی بہن ہے تمہاری۔۔..
    زمان: بہن!!.. بہن وہن نہیں ہے یہ میری..اور تم اپنے گھر جانے کے کتنے پیسے لوگی..اب چلی بھی جائو!۔۔

    جمیل صاحب: زمان!۔!۔
    زنیرہ: میں تو جاہی رہی ہوں.. ناشتہ ہو جائے آپ جناب کا تو گھر تشریف لے آئے گا..ابّو انتظار کر رہے ہیں...ہن۔!۔

    (زنیرہ جانے لگتی ہے لیکن پھر پیچھے مورکے کہتی ہے)
    زنیرہ: تایا جان آج آپ باہر زرا دیہان سے جائے گا سنا ہے شہر میں کوئ جنگلی جانور گھس آیا ہے...

    ۔(زنیرہ یہ بات زمان کو دیکھتے وے کہتی ہے جس کا مطلب یہ تھا کے وہ زمان کو ہی جنگلی جانور کہ رہی ہے۔۔اور یہ زمان اچھے سے سمجھ جاتا ہے..وہ تو بس دانت پیس کر ہی رہجاتا ہے)
    ………...............................................
    ۔(شام ہوتے ہی گھر میں سب مہمان آنے لگتے ہیں.. تھوڑی دیر میں ہی کار پورچ میں آکے روکتی ہے جس میں سے عباس صاحب, امبرین بیگم, بی جان اور نائلہ اترتے ہیں)۔
    اسسلام علیکم!.. (جمیل صاحب اور سب ملکے سلام کرتے ہیں۔۔۔۔سلام دعا کے بعد سب ایک ساتھ ڈرائنگ روم میں بیٹھے چائے پی رہے ہوتے ہیں)۔
    سعید صاحب: بی جان کیسا رہا اپکا سفر؟؟
    بی جان: بیٹا سفر تو بہت اچھا تھا لیکن تھکان بڈی ہوگئی ہے
    عباس صاحب: بھئ میں تو کم سے کم تین چار دن سونگا!...اپنے بستر کے بغیرنیندہ کہاں آتی ہے مجھے

    امبرین بیگم: بس رہنے ہی دیں آپ تو وہاں بھی خوب سوئے ہیں آپ!
    بی جان: اچھا بس اب تم لوگ پھر مت شروع ہوجانا....بھئ زنیرہ کہاں ہے میری گڑیا نظر نہی آرہی؟
    زمان: بی جان گڈیا نہیں آفت کی پڑیا کہیں اُسسے!
    بی جان: زمان!...
    فردوس بیگم: بی جان وہ کچن میں ہے زائدہ بھابی کے ساتھ!۔۔۔
    بی جان: ہمم! ویسے ایک بات کافی عرصے سے میرے دل میں ہے ۔۔بُرا نا مانو تو بولوں ؟


    جمیل صاحب: بی جان آپ ہماری بڑی ہیں۔۔آپ کو پوچھنے کی کیا ضرورت ہے..
    بی جان: مجھے… زنیرہ زمان کے لئے بہت اچھی لگتی ہے! (بی جان کی بات سنتے ہی زمان جو چائے پی رہا تھا اسکے موں سے چائے باہر آجاتی ہے..اور زنیرہ جو ابھی ابھی ٹرے لے کے ڈرائنگ روم میں اینٹر ہوئی تھی اسکے ہاتھ سے ٹرے چھوٹ تی ہے.. اور باکی سب کا تو موں کھولا کا کھولا ہی رہجاتا ہے)۔

    بی جان: ارے بھئ کیا ہوگیا.. میں نے کوئی انوکھی بات کی ہے؟
    ارحم: بی جان انوکھی نہی!. نہ ممکن بات کی ہے۔۔۔
    ۔(زمان کی تو کھانسی روک ہی نہیں رہی تھی اور زنیرہ تو ایسا لگ رہا تھا کے سکتے میں ہی چلی گئی ہے زائدہ بیگم اور فردوس بیگم جلدی سےبات سمبھالنے کے لئے بولتی ہیں)۔

    زائدہ بیگم: اررے بی جان ابھی شادی وادی کی کیا بات .. ابھی تو بچے ہیں یہ دونوں..
    فردوس بیگم: ہاں اور ہوسکتا ہے بچوں کو کوئی اور پسندہ ہو۔۔
    بی جان: اررے بہو رہنے بھی دو!.. اس عمر میں بچوں کو ایک آدھی محبّت تو ہو ہی جاتی ہے لیکن اسکا یہ مطلب تو نہی ہے کے ہم بھی بچوں والے فیصلے لیں ویسے بھی میرا تو ایک خیال ہی تھا باقی تم لوگوں کی مرضی!

    زائدہ بیگم: میں نے! کھانا لگا دیا ہے چلیں سب کھانا کھاتے ہیں...
    ۔(زائدہ بیگم کے کہنے پے سب کھانے کے لئے چلے جاتے ہیں اور بات رفع دفع ہوجاتی ہے.. کھانے کے بعد سعید صاحب لوگ اپنے گھر چلے جاتے ہیں اور باقی کے سارے مہمان بھی۔۔۔۔جبکے زمان کی سُوین تو بی جان کی بات پر ہی اٹکی ہوئی تھی وہ اپنے کمرے میں اِدھر سے اُدھر گھوم رہا تھا)۔

    ارحم: یار زمان بھائی اب بس کردیں..اب تو سینچری ہونے والی ہے..آپکو دیکھ دیکھ کے مجھے چکّر آرہے ہیں!
    زمان: ارے چکّر میں تو بی جان نے ڈال دیا ہے مجھے!.. ابّے میری اور اس چھپکلی کی شادی! Noways...!!
    مجھے تو سوچ سوچ ک کچھ ہورہاہے

    ارحم: ویسےزمان بھائی زنیرہ باجی اتنی بھی بُری نہیں ہیں۔۔
    زمان: چپّل سے مارونگا میں تجھے اگر ایسی کوئی بھی بقواس تُو نے بی جان کے سامنے کی تو!!.. ارے چاچو کی بیٹی کوئی فرینڈ لسٹ میں شامل نا کرے اور تو کہ رہا ہے میں اسے اپنی زندگی میں شامل کرلوں۔۔(تبھی زائدہ بیگم روم میں آتی ہیں)۔

    زائدہ بیگم: ہاں تو اپنی دور کی پھوپو کی بیٹی سے کرلو شادی!۔۔
    زمان: ارے پھوپو اور چاچو کی بیٹیوں کے لئے کیا ہم ہی رہگئے ہیں؟؟
    ارحم: ویسے بھائی تاریخ گواہ ہے یہ جو پھوپو خالہ چاچو کی جو جھّلی سی بیٹیاں ہوتی ہیں انکے لئے خاندان کے لڑکے ہی قربان ہوتے ہیں…
    زمان: اے تُو چپ کر ایک تو ویسے ہی مجھے ٹینشن
    ہورہی ہے اپُر سے تُو اسپے مرچیں چھڑکے جارہا ہے
    زائدہ بیگم: ہاں تو پھر کس سے کرنی ہے آپ جناب نے شادی؟؟
    زمان: کسی سے نہیں اور ابھی تو بلکل نہی..جب میں نے کرنی ہوگی میں آپ لوگوں کو بتادونگا.. فلحال میری جان بکش دیں آپ لوگ..پلیز!!۔!!

    (یہ کہ کے وہ اپنا فون اٹھاکے گارڈن میں آجاتا ہے..اور جلدی سے چیٹ کھولتا ہے)۔
    زمان: سنو!.. جاگ رہی ہو کیا?? ....مجھے تم سے بات کرنی ہے۔۔

    (زمان میسج کرنے کے بعد کافی دیر انتظار کرتا ہے لیکن اسکا کوئی ریپلائے نہی آتا)
    زمان تھنکنگ, لگتا ہے سو گئی ہے.. صبح بات کرتا ہوں!۔
    .................................................. .....
    (زمان گہری نیندہ میں سو رہا ہوتا ہے کے تبھی کوئی اسکے موں پے پانی پہکدیتا ہے)۔
    زمان: آآہ...بارش!.. پانی!.. طوفان!!۔۔
    (زمان ہڑبڑا کے اٹھتا ہے لیکن سامنے زنیرہ کو دیکھ کے اسکا دماغ گھوم جاتا ہے)۔

    زمان: کیا پاگلوں والی حرکت ہے یہ!!؟؟؟
    زنیرہ: شکر کرو صرف پانی ہی پھیکا ہے..چلو اب اٹھو اور مجھے کالج چھوڑ کے آٶ۔۔
    زنیرہ: کس خوشی میں..میں نہی جارہا کہیں سونے دو مجھے…
    زنیرہ: اٹھو زمان!!..خود تو جاتے نہی ہو تم!.. مجھے تو چھوڑ کے آجاؤ۔۔

    زمان: میں نہی جارہا!.. سونے دو مجھے!!. (وہ واپس موں پے تکیہ لیکر سو جاتا ہے)
    زنیرہ: اٹھو یار زمان!!۔
    زمان: حمزہ کے ساتھ جاؤ نا۔۔۔۔
    زنیرہ: حمزہ الریڈی جا چکا ہے..اور حکم ہے کے تم مجھے کالج چھوڑ کے آؤگے۔۔

    (زمان تکیہ سے سر اٹھا کے بولتا ہے)
    زمان: کس کا حکم!؟؟ میں نہی مانتا کسی کا بھی حکم!..
    زنیرہ: تایا ابّو کا!!
    زمان: کیا!??!. (وہ فورن سے اٹھکے بیٹھ جاتا ہے

    زنیرہ: جی!. اسی لئے شرافت سے 10 منٹس میں
    نیچے ملو!!..میں انتظار کر رہی ہوں!.. (وہ یہ کہکے روم سے چلی جاتی ہے)

    زمان: کیا مصیبت ہے یار!! (زمان زمین پے تکیہ پھکتے ہوے کہتا ہے۔۔۔۔۔وہ جلدی سے تیّار ہوکے نیچے آتا ہے جہاں اسے زنیرہ اپنی بائیک کے پاس کھڑی دیکھتی ہے)۔
    زنیرہ: بہت جلدی نہی آگئے تم؟!؟
    زمان: شکر کرو آگیا!! اب موں دیکھتی رہوگی کے بیٹہوگی بھی؟(زنیرہ کے بیٹھتے ہی زمان بائیک روڈ پے نکال لیتا ہے)۔

    زنیرہ: زمان تھوڑا تیز چلا لو یار..دیر ہورہی ہے مجھے..
    زمان: Oo بی بی!! یہ بائیک ہے ہوائی جہاز نہی ہے جو اُوڑھ کے پہنچ جائیں.. صبر رکھو!..
    زنیرہ: تایا جان سہی کہتے ہیں تم ہو ہی نالائق!
    زمان: ہیلو میڈم!..یہ نخرے نا کس کو دکھا رہی ہو ہاں.. میں.. میں بتا رہا ہوں اگر زیادہ بک بک کی تو یہیں چھوڑ دونگا تمہیں..
    زنیرہ: ہاں تو مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے تمہارے ساتھ جانے کا۔۔
    زمان: ہاں تو چلی جاتی نہ کس نے روکا تھا تمہیں!!.. مجھے کیوں زحمت دی
    زنیرہ: میں چلی ہی جاتی اگر تایا جان نہ بولتے تمہارے ساتھ جانے کے لئے..ورنہ میں تو مر کے بھی تمہارے ساتھ نہیں آتی

    زمان: اُترو! اترو جلدی کرو!.. (زنیرہ کی بات سنکے اسے غصّہ آتا ہے وہ بائیک سائیڈ پے روک کے کہتا ہے)۔
    زنیرہ: کیا کر رہےہو تم؟
    زمان: اب خود ہی چلی جانا کالج..خدا حافظ.!!۔
    زنیرہ: پاگل تو نہی ہوگئے تم.. زمان!.. زم۔۔۔۔(وہ چلا جاتا ہے اور زنیرہ بیچاری وہیں کھڑی رہجاتی ہے)۔

    ۔(زمان جب شام میں گھر آتا ہے تو اسے سعید صاحب اور فردوس بیگم گھر میں ہی دیکھتے ہیں)۔
    زمان: خیریت ہے آپ لوگ یہاں؟؟
    سعید صاحب: بیٹا خیریت ہی تو نہیں ہے!.. زنیرہ کا کچھ پتا نہی چل رہا..زنیرہ کی دوست نے بتایا کے وہ تو آج کالج آئی ہی نہی۔۔
    زمان: کیا مطلب پتا نہی چل رہا میں خود اسے صبح کالج۔۔۔۔
    (زمان کو یاد آتا ہے اسنے تو زنیرہ کو سڑک پے ہی اتار دیا تھا)

    زمان تھنکنگ,اوہ شٹ!!۔۔۔۔شٹ! یہ میں نے کیا کردیا..مینے یہ کیا کردیا یار!!...اسے کچھ ہو تو نہیں گیا۔۔نہی نہی۔۔ اگر اسے کچھ ہوا تو میں اپنے آپ کو کبھی معاف نہیں کر پاؤنگا!..
    (زمان جلدی سے مڑتا ہے باہر جانے کے لئے کے تبھی اسے گھر کےدروازے سے زنیرہ حمزہ کے ساتھ اندر آتی دکھتی ہے)

    فردوس بیگم: زنیرہ میری بچی کہاں چلی گئی تھی بیٹا!
    زنیرہ: امی وہ صبح کالج کے باہر طبیت خراب ہوگئی تھی تو کالج والے ہسپتال لے گئے تھے میں نے حمزہ کو فون کرکے بولا لیا تھا۔۔
    حمزہ: میں آپ لوگوں کو بتانے والا تھا لیکن میرے فون کی بیٹری ختم ہوگئی تھی..
    بی جان: چلو کوئی بات نہی.. بچی سہی سلامت گھر تو آگئی نہ چلو اب جاؤ کچھ کھیلا
    ٶ پلاؤ اسے..
    فردوس بیگم: جی بی جان آؤ زونی!!..
    (فاردوس بیگم اور سعید صاحب زنیرہ کو گھر لے جاتے ہیں انکے جاتے ہی زمان اپنے روم میں آتا ہے..)

    زمان تھنکنگ, اس چھپکلی نے سب کو سچ کیوں نہی بتایا؟؟! کیا چل رہا ہے اسکے دماغ میں؟! (زمان ابھی سوچوں میں گھم ہوتا ہے جب اسکا موبائل بجتا ہے)
    میسج:
    سوری رات سوگئی تھی میں اسی لئے بات نہں کرپائی اپ نے مجھ سے کچھ کہنا تھا؟؟
    زمان: ہاں لیکن ابھی نہی پھر کبھی بول دونگا!
    ...کیا ہوا آپ پر یشان ہیں کیا?!
    زمان: زراصل وہ۔۔۔۔(زمان اس سے سب بتاتاہے)۔
    ...ہمم!..تواب آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہے؟

    زمان : off course ہے!.

    ...تو پھر بول دیں نا اسے!..
    زمان: کیا؟؟
    ....سوری اور کیا…
    زمان: کیا!.میں اور اس چھپکلی کو سوری بولوں..Never!!

    ۔۔۔ظاہر ہے زمان غلطی آپکی تھی تو سوری بھی آپ ہی بولینگے نہ... ...زمان!!..سوری بولنے سے کوئی چھوٹا نہی ہوجاتا..اور ویسے بھی غلطی اپ نے کی ہے تو سوری بھی آپ ہی بولینگے!اور اب میں بھی آپ سے تب ہی بات کروگی جب آپ زنیرہ کو سوری بولدینگے۔۔
    .
    زمان: what! نہی یار..!..اچھا ok فائن.. !..i'll try !!....

    بولنے کے بعد مجھے بتائیے گا..
    زمان:۔۔۔۔ ویسے مجھے ایک بات سمجھ نہیں
    آرہی.. زنیرہ نے آخر سب کو سچ کیوں نہی بتایا..کے میں نے اس سے روڈ پے چھوڑدیا تھا.. اسے تو یہ بتانا چاہیے تھا..ویسے تو ہر چھوٹی چھوٹی بات بابا کو بتادیتی ہے۔۔
    .....اب اس بات کا جواب تو وہی دے سکتی ہے!.

    ۔(زمان بڈی ہمّت کرکے زنیرہ کے گھر پوھچتا ہے وہ جو سٹیرز سے اتر رہی ہوتی ہے زمان کو دیکھ کے واپس مڑ جاتی ہے.. زمان اسکے پیچھےپیچھے سٹیرر چڑھتا ہے)۔
    زمان: زنیرہ!!.. زنیرہ یار ایک بار بات تو سنو میری ..
    زنیرہ: مجھے نہی سنی تمہاری کوئی بھی بات جاؤ یہاں سے!۔۔
    زمان: کہے بغیر تو میں یہاں سے جاؤنگا نہی!!..
    زنیرہ: کہو!..کیا کہنا ہے تم نے؟؟
    زمان: وہ..وہ میں مجھے.. یہ کہنا تھا..کے .کے
    میں نے آج تک تمھارے ساتھ جو بھی کیا اس کے لے Iam sorry!!!!

    زنیرہ: ہیں؟؟..تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نہ؟؟
    زمان: بلکل ٹھیک ہے میری طبیعت!!.. اور میری ایک بات کا جواب دو.. تم نے یہ چاچو لوگوں کو کیوں نہی بتایا کے میں نے تمہیں روڈ پے چھوڑ دیا تھا!۔۔
    زنیرہ: کیونکہ میں تمہاری ترحان نہی ہوں نہ..اور ویسے بھی بہت ہوگیا یہ سب.. میں سوچ رہی تھی کیوں نہ ہم دوست بن جائیں!!..۔

    زمان: دوست وہ بھی ہم دونوں.. چوہے بلّی کو کبھی دوست بنا دیکھا ہے کیا؟؟
    زنیرہ:تم اپنے آپ کو چوہا کہرہے ہو?! ..۔
    زمان: تمھیں بلّی بھی کہا ہے۔!

    زنیرہ:تم!!....دیکھو اگر ہم ایسے ہی لڑتے رہے نہ تو ہماری فیملی والے مل کے ہماری شادی کرا دینگے..اسی لئے بہتر ہے کے ہم مل جول کے ایک پارٹی بن کے رہیں۔۔
    زمان: بات میں تمہاری پوائنٹ تو ہے!۔ویسے تم سے مجھے اس سمجھداری کی امید تھی نہیں
    زنیرہ: آپکو مجھ سے کب امیدیں رہی ہیں مسٹر زمان لودھی صاحب!!.. (اس سے پہلے زمان اس بات کا جواب دےاس کا موبائل بجتا ہے.. زمان نے جو سوری کی ویڈیو اسے سینڈ کی تھی اس پے رپلائے آیا تھا)

    میسج:
    ....بندا اگر سوری بولتا رہے تو بندا بُرا نہیں ہے!!۔۔
    زمان: ۔

    (زمان اسے رپلائے کرکے زنیرہ کو کہتا ہے)

    زمان: چلو میری نئ نویلی دوست! تمہیں آئیس کریم کہلاتا ہوں!!..
    زنیرہ: نیکی اور پوچھ پوچھ!.. چلو۔۔۔

    ۔(زمان اسے آیس کریم دلاکے واپس آرہا ہوتا جب راستے میں ارحم ٹکرا جاتا ہے)۔
    ارحم: یہ فوجیں ایک ساتھ کیسے?خداناخاستہ آپ لوگ دوست تو نہیں بن گئے.. ویسے وہ بھی کیا تاریخی دن ہوگا جس دن آپ لوگ دوست بنیگے۔۔
    زمان: تو پھر جا اور تاریخ میں یہ دن لکھ کے آ..
    ارحم: کیا مطلب؟؟
    زنیرہ: ارحم تمہارے پاس اور کوئی کام نہیں ہے کیا جب دیکھو گیٹ پے چوکیداری کرتے رہتے ہو..کبھی پڑھائی بھی کرلیا کرو۔۔زمان تم بات کرکے اندر آجانا میں جا رہی ہوں
    زمان: ٹھیک ہے!.. (ارحم کا موں کھولا کا کھولا ہی رہجاتا ہے زنیرہ کے اندر جاتے ہی زمان کہتا ہے)

    زمان: موں بندہ کرلے ورنہ مکھی گھُس جائیگی
    ارحم: بھائی!.. کیا یہ سچ ہے.. اپ دونوں واقعی دوست بنگۓ ہیں؟؟

    زمان: پاگل ہے کیا?!!۔
    ارحم: تو پھر یہ سب??!۔
    زمان: بھئ زنیرہ سے نہ دشمنی اچھی نہ دوستی اسی لئے بہتر ہے کے اس سے دور ہی رہا جائے۔۔
    ارحم:ہمم.. سمارٹ ہاں بھائی !۔۔
    زمان: بیٹا میں پیدائشی سمارٹ ہوں.. اب چل بی جان کی دوائیں لے کے آتے ہیں۔۔

    .................................................. ....
    ۔(آج اسے زمان سے بات کرتے ہوئے ایک مہینہ ہوگیا تھا۔۔ دونوں میں کافی اچھی دوستی ہوگئی تھی.. ابھی بھی وہ اسی سے بات کر رہی ہوتی ہے کے روم کا دروازے پر نوک ہوتا ہے اور حمزہ روم کے اندر آتا ہے)
    حمزہ: دی ابّو آپکو بولا رہے ہیں... (حمزہ اسے بولتا ہے لیکن وہ کوٸ رسپونس نہیں دیتی)
    حمزہ: زونی دی..زونی دی!!!!۔(وہ چلّا کےبولتا ہے)
    زونیرا: کیا ہے حمزہ؟؟؟..جاؤ یہاں سے!!۔
    حمزہ: میں دیکھ رہا ہوں آج کل آپ موبائل میں بہت گھم رہتی ہیں..
    زونیرا: ہاں تو تمھیں کیا پرابلم ہےجاؤ کام کرو اپنا!۔۔
    حمزہ: وہی کر رہا ہوں!..ویسے ایک بات بتائیں آج کل آپ زمان بھائی کو تنگ کرنے کے لئے کوئی منصوبے نہی بنارہی ...خیریت تو ہے؟؟
    زونیرا: سب اپنی جگہ پر ہے حمزہ شکل گُھم کرو تم اپنی اب یہاں سے!
    حمزہ: ویسے اتفاق کی بات ہے ارحم بتارہا تھا کے
    زمان بھائی بھی آج کل فون میں کچھ زیادہ ہی بزی رہتے ہیں..
    ۔(یہ بات سنکے زونیرا نظرے اٹھاکے حمزہ کو دیکھتی ہے)۔

    زونیرا: ہاں۔۔۔ہاں۔۔ تو ضروری نہی ہےکے اگر ہم دونو فون میں بزی رہتے ہیں تو ایک دوسرے سے ہی بات کر رہے ہونگے۔۔
    حمزہ: میں نے ایسا تو نہی کہا تھا دی!!?...کہیں عشق وشق تو نہی چل رہا اب دونوں کے بیچ؟؟!

    (حمزہ اسے تشویشی نظرو سے اسُسے دیکھتا ہے)
    زونیرہ :ای...ایسا ویسا کچھ نہی ہے سمجھ آئی.. جارہی ہوں میں تم تو جاؤگےنہی یہاں سے
    ( وہ جلدی سے اٹھکے باہر بھاگ جاتی ہے)۔

    حمزہ: ہمم..کچھ تو گڑبڑ ہے بیٹا..پتا کرنا پڑھےگا۔۔۔
    حمزہ کی بات سنکے وہ پریشان ہوگی تھی...تو کیا واقعی اسے زمان سے محبّت ہوگی تھی..لیکن اسنے تو یہ سب زمان کو سبق سکھانے کے لئے کیا تو اسے زمان سے محبت کیسے ہوسکتی ہے ۔۔۔اسکے دماغ میں ایک طوفان سا مچا تھا ہزار باتیں چل رہی تھی اسکے دماغ میں..اسُے سمجھ نہی آرہا تھا کے اسے ہو کیا رہا ہے... یہ اسکے دل کا کوئی دھوکا تھا یا زمان کے لیے محبت۔۔وہ یہ سمجھ نہیں پارہی تھی ۔(ختم شد)

  • #2
    اسٹوری کے چلتے چلتے بیچ میں ختم شد کہا سے آگیا رائتر اسپر نظر ثانی کریں شکریہ

    Comment


    • #3
      Originally posted by Sakht londa View Post
      اسٹوری کے چلتے چلتے بیچ میں ختم شد کہا سے آگیا رائتر اسپر نظر ثانی کریں شکریہ
      کہانی یہاں تک ہی تھی ..آگے کی اقساط کبھی ملی تو پوسٹ کردوں گی

      Comment


      • #4

        دلچسپ اور بہت ہی زبردست کہانی ۔​

        Comment

        Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

        Working...
        X