Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

سامنے کچھ دکھتا کچھ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Life Story سامنے کچھ دکھتا کچھ

    وہ چاہتوں کا سمندر ہو یا بارشوں کا پانی مجھے اس سے کوئی لینا دینا نہیں سعمیہ تم پلیز اس کی وکیل بن کر میرے پاس مت آیا کرو۔ اس کی بہترین دوست اور شیراز کی محبتوں میں گندی بہن سعمیہ آج پھر اپنے اکلوتے بھائی کا رشتہ لے کر آئی تھی اور اس پر ایک امتحان کی سی کیفیت تھی وہ پچھلے چھ ماہ سے بار ہا انکار کر رہی تھی مگر شیراز تھا کہ ہر حال میں اسے پانے کی ضد کیے ہوۓ تھا ایسے میں وہ اس کے انکار کو کوئی اہمیت دے ہی نہیں رہا تھا اس کا کہنا تھا کہ سبین یونیورسٹی کے دنوں میں اسے شدید محبت کرتی تھی اور اس کی محبت کبھی ختم نہیں ہوسکتی….نہ ہی سبین کی محبت اتنی عارضی تھی کہ اس کے ذرا سے برے رویے اسے ختم کردیں. سبین کے ہر بار کے انکار کے باوجود سعمیہ بھائی کے بار بار مجبور کرنے پر چلی آتی تھی اور آج بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ اپنے بھائی کو کہ دیں وہ جس محبت کے لیے امید لگائے بیٹھا ہے وہ کہیں دفن ہوگئی ہے، پلیز پھر اس بارے میں بات کرنے مت آنا یہ میری تم سے گزارش ہے۔ سبین کا لہجہ بہت تھکا ہوا سا تھا۔ سعمیہ اس کی حالت سمجتھی تھی مگر بھائی کی ضد کے آگے بھی مجبورتھی۔ میں جانتی ہوں میری باتیں اس کے لیے اذیت کا سبب بنتی ہیں لیکن مجھے اس سے محبت نہیں رہی… زرد لہجے میں کہتی وہ رخ موڑ گئی۔ سبین پلیز سوچ لوشاید کوئی گنجائش نکل ہی آۓ کیونکہ تم دونوں کی زندگی کا سوال ہے۔ سعمیہ نے اپنی سی آخری کوشش کی۔ گنجائش؟ رشتے بچانے کے لیے تو گنجائش نکالی جاسکتی ہے مگر محبت ختم ہونے کے بعد گنجائش نہیں نکالی جاسکتی اور جب گنجائش نکالی تھی ناں سعمیہ اس وقت تمہارا بھائی منہ موڑ گیا تھا اس کی محبت وقتی ثابت ہوئی تھی تب اسے میرے آنسو، میرا دکھ نظر نہیں آیا تھا، اب تم کہتی ہو کہ میں گنجائش نکالوں ممکن ہی نہیں ہے ایسا، محبت میرے دل میں اب رہی ہی نہیں، وہ جذبہ جو کبھی مجھے بے اختیار کر دیا کرتا تھا اب وہ مجھ میں ہے ہی نہیں۔ وہ آہستہ سے کہتی سعمیہ کوکسی اور ہی دنیا میں کھوئی ہوئی لگی- سمیہ نے آزردگی سے اس کو دیکھا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ اذیت کی نئی لہر دل میں سرایت کر رہی تھی شیراز وہ تھا جس کی وہ کبھی شدید خواہش کیا کرتی تھی- جو اس کی سب سے پہلی اور آخری دعا ہوا کرتا تھا- وہ اسے نظر انداز کرتا تھا اور اب وہی انسان تھا جو شدت سے اس کا خواہش مند تھا اور اس کو باعزت طریقے سے اپنانا چاہتا تھا اور اس کے لیے اب ایسا ممکن نہ رہا تھا۔ اب جب تم میری محبت کے طلب گار ہوتو میرا دل خاموش ہے، کوئی جذبہ دل میں سر اٹھاتا ہی نہیں، کوئی خواہش ، کوئی خواب تم سے جڑا ہواہی نہیں ہے تو پھر میں تم پر نگاہ ڈالوں تو کیوں؟ تم جو کبھی دل کی اولین خواہش تھے اب اس کے لیے اجنبی ہو اور میرے لیے کسی اجنبی کی سمت دیکھنا مناسب نہیں اور نہ ہی کسی اجنبی کے جذبات کی تسکین کرنا میرے اصولوں میں شامل رہا ہے۔ سبین سمیعہ کے جانے کے بعد آیئنہ کے سامنے کھڑی سوچ رہی تھی مگر پہلی محبت کی یہ خامی ہوتی ہے کہ وہ دل سے محو نہیں ہوتی ،آپ چاہے لاکھ جدائی چاہتے ہوں مگر اس کی آہٹ ہمیشہ آپ کے دل کے کسی کونے سے اٹھتی ضرور ہے۔ پہلی محبت کی چاہت کے رنگ بھی نہیں اترتے ہیں پر یہ باتیں وہ نہیں جانتی تھی یا شاید جاننا نہیں چاہتی تھی۔ وہ تھکے ہوئے انداز میں بیڈ پر لیٹ گئی اور آنکھیں بند کیں تو ماضی بند آنکھوں میں اتر آیا تھا اور اسے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر گیا تھا۔
    ☆☆☆

    یہ یونیورسٹی کا دور تھا یعنی اس کی محبت کا خوب صورت دور جب وہ شیراز کے عشق میں پور پور ڈوبی ہوئی تھی پر شیراز کے دل میں اس کے لیے محبت جیسا جذبہ کہیں کسی کونے میں بھی موجود نہ تھا اگر موجود بھی تھا تو وہ اسے پہچان نہ پایا تھا وہ ان لوگوں میں سے تھا جو چاہے جانا پسند کرتے ہیں، لوگوں کی نظروں میں رہنا جن کی پہلی چاہ ہوتی ہے، وہ خوبرو اور وجیہہ شخصیت کا مالک تھا، پوری یونیورسٹی میں اس کے چرچے تھے۔ وہ شیراز کو لے کرکسی نشے کا شکار بھی نہیں ہوئی تھی کہ اس کی محبت عبادت جیسی تھی لیکن پہلی بار وہ کرب سے تب گزری جب اس نے شیراز کو کالج کینٹین میں فائنل کی لڑکی کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف دیکھا اور پھر وہ اس کے ساتھ مصروف نظر آنے لگا وہ خود کے بناۓ گئے خوابوں کے محل کو کرچی کرچی ہوتے دیکھتی رہی اور شیراز کے قہقے اس کے خوابوں کی توہین کرتے رہے ۔ آج کل یونیورسٹی میں یہ جوڑی ہاٹ کپل کے نام سے مشہور تھی اور سبین تھی کہ دل ہی دل میں خون کے آنسو بہا رہی تھی، اس کے دل میں شیراز کے لیے صرف اور صرف محبت تھی مگر شیراز شاید سمجھ نہیں پایا تھا اور اس کو اپنی ذات کی توہین کسی طور منظور نہ تھی- خاموش رہی اور شیراز سے بہت دور رہنے لگی اور شیراز چند دن بعد اس کے پاس لوٹ آیا تھا۔ کیا ہوا، آج وہ لڑکی کہاں ہے؟ وہ سبین کے پاس آیا سبین نے نادانستہ پوچھا جبکہ اس کا ایسا ارادہ نہیں تھا، وہ اس پراپنے احساسات ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔ بور ہوگیا ہوں یار شیراز کے لہجے میں بیزاریت تھی اسے شدید دکھ پہنچا۔ تم ایسا کیسے کر سکتے ہو شیراز؟ لڑ کی کوئی گیم تھوری نہ ہے جس سے تم کھیل کر بور ہو جاؤ گے۔ اس نے انتہائی دکھ سے کہا تھا اور شیراز اسے سنجیدہ دیکھ کر مسکرا دیا۔ دیکھو سبی یہاں کی لڑکیاں بھی مطلب پرست ہیں ان کے فیشن پورے کرواتے رہو تو ساتھ چلتی ہیں ورنہ نئی راہوں کی سمت سفر شروع کر دیتی ہیں- سولڑکوں کے لیے بھی وہ ایک سگریٹ سے زیادہ نہیں ہوتیں کہ جب تک ان کا ذائقہ منہ کو ملتا رہے وہ پیتے رہتے ہیں اور جب ختم ہوجائے تو پھینک دیتے ہیں اب ہر لڑکی تمہارے جیسی تو نہیں ہوتی نہ منزل مقصود جیسی. جس کے پاس تھک ہار کر جب چاہو چلے آؤوہ صرف آپ کی امانت ہوتی ہے۔ شیراز اس کی آنکھوں میں دیکھتا کہہ رہا تھا اس کے اس انداز پر وہ ہنس دی۔ شیراز کیا رشتہ صرف ایک لڑکی بناتی ہے، مرد کا اس میں ہاتھ نہیں ہونا چاہیے؟ وہ اسے اشاروں میں کچھ سمجھانا چاہتی تھی لیکن وہ فی الحال سمجھنے سمجھانے کے موڈ میں نہیں تھا۔ چھوڑو… شادی تو میں تم سے ہی کروں گا اور مجھے پتا ہے تم مجھے ہمیشہ سنبھال لوگی۔ وہ ایک آ نکھ دبا کر شرارت سے بولا تھا اور سبین کی روح تک میں سکون اتر گیا تھا پھر اسے کوئی بات یاد نہیں رہی تھی۔
    ☆☆☆

    وہ ایک بے وقوف عورت تھی ، وہ تھی ہی ایسی کہ شیراز اگر غلطی کر کے معافی مانگ لیتا اس کی اہمیت بتاتا تو وہ فوراً پگھل جاتی ، دل میں محبت کی آنچ کچھ ہی پل میں جلنے لگتی ۔ وہ بھی ہر عورت کی طرح چاہتی کہ وہ جس مرد سے محبت کرتی ہے اسے کسی طرف جانے نہ دے اور اگر وہ جاتا ہے تو یہ اس کی سب سے بڑی شکست ہوگی۔ شیراز نے اس کے ساتھ محبت کے کئی وعدے کیے اور وہ اس کی محبت میں سب بھول گئی، اس کی تمام تر غلطیاں بھی اور شیراز کو دیوتا کا درجہ دے دیا وہ جو بھی کہتا اس کا کہا حرف آخر ہوتا اور جو اس کی پہنچ سے دور ہوتا وہ شیراز حق جتا کر، ز بر دیتی بس وصول لیا کرتا تھا اور وہ محبت کے نام پر سب کیے جاتی ، سب دیے جاتی کہ شیراز کا اسے حق جتانا اچھا لگتا تھا. کچھ وقت اور سرکا اور شیرازکسی اور لڑکی کی زلفوں کا اثیر ہوگیا ایسے میں سبین نے ہر وہ ممکن کوشش کی جو شیر از کواس کی سمت لاسکتی تھی مگر وہ اڑیل گھوڑا بنا رہا اور اس کو نظر انداز کرتارہا تھا۔ اسے شیراز کے رویئے سے تکلیف پہنچی تھی اور اس رات وہ اس کی باتوں کو یاد کر کے دیر تک روتی رہی تھی۔ وہ نماز فجر کی ادائیگی کے بعد اللہ پاک کے حضور دعا کرنے لگی تو گرم سیال آنکھوں سے بے اختیار رواں ہوگئے تھے۔ میرے مالک کیا تو نہیں جانتا کہ اب مجھ میں سکت باقی نہیں رہی؟ ایک لڑکی محبت ایک ہی بار کرسکتی ہے یہ تو، تو جانتا ہے ناں؟ پھر کیوں مجھے عذاب میں مسلسل رکھا ہوا ہے کوئی شخص میری زندگی کوامتحان گاہ کیسے بنا سکتا ہے، مان لیتی ہوں اللہ جی کہ مجھ سے غلطی ہوئی پر میں وہ غلطی اب دہرانہ نہیں چاہتی۔ پلیز اللہ جی شیراز کو مجھ سے دور کر دیں- کبھی اس کی دعا مانگی تھی آج اسی سے دوری کی دعا مانگ رہی ہوں، اللہ جی پلیز مجھے اس اذیت سے نکال لیں ۔ پلیز اللہ جی۔ روتے ہوۓ اس کی ہچکی بندھ گئی تھی اور پھر سبین کو جیسے سکون مل گیا تھا اور وہ دیر تک یوں ہی روتی رہی تھی۔
    ☆☆☆

    سبین بخاری- پھر کیا سوچا ہے تم نے کیا تم مجھے ایک موقع دو گی کہ میں تمہاری زندگی میں خوشیاں اور تمہارے چہرے پر مسکان لاسکوں؟ حمزہ مما کی کزن کا اعلی عہدے پر فائز پڑھا لکھا بیٹا جسے سبین کی اداسی میں ڈوبی صورت سے محبت ہوگئی تھی لیکن اب سبین کو اس کی محبت کی ضرورت نہیں تھی۔ اسے حمزہ قابل اعتبار لگا تھا، وہ دنیا سے بہت الگ تھا۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی جس کی بنا پرسبین زیادہ دیر تک اس کی آنکھوں میں نہیں دیکھے سکی تھی۔اس کے چہرے پرسنجیدگی کی جگہ شرارت تھی۔ وہ خاموشی سے اس کے سامنے سے ہٹ گئی تھی۔ وہ کب تک گھر میں رہا اور مما بابا سے کیا باتیں کرتا رہا اس کو خبرنہیں ہوئی تھی لیکن یہ لڑ کے جال بچھانے کو یوں ہی معصوم بن جایا کرتے ہیں اپنا ماضی کھول کر سامنے رکھ دیتے ہیں کہ دھوکہ تو دے رہا ہوں مگر سچائی کی بنیاد پردوں گا- سبین کو چاہے وہ لاکھ معصوم لگتا ہومگر وہ اسے ایک بھی موقع نہیں دینا چاہتی تھی وہ جب جب گھر آتا تھا وہ اپنے کمرے میں چھپ جایا کرتی تھی ،وہ اس سے بات کرنا نہیں چاہتی تھی- کہ اس کا موڈ کسی بھی اجنبی سے بات کر کے خراب ہوجایا کرتا تھا۔ شیراز جب تک اس کے ساتھ تھا وہ سب سے ہنسی مذاق کرتی تھی مگر اس کے بعد اس کا دل ہر چیز سے اچاٹ ہوگیا تھا اور پھر وہ اتنی لا چارتو نہیں تھی کہ کوئی اور اسے خوش رکھنے کی کوشش کرنے کی اجازت مانگے وہ کب خود کوکسی پر پرت در پرت کھلنے دینا چاہتی تھی- وہ بھلا اپنے غموں کی تشہیر کب کرنا چاہتی تھی لیکن وہ بے بس تھی- جو بھی ہوا تھا بہت اچا تک تھا شدید محبت کے جواب میں ملنے والی بے اعتنائی و بے رخی آپ کی ذات کو زہر زہر کرگئی تھی ،خود پسندی پھر آپ کا پسندیدہ کھیل ہو جایا کرتا ہے- مگروہ اپنوں کے لیے خود کو کوئی تکلیف نہیں دے رہی تھی مگر ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ کھل کر مسکرارہی تھی۔ حمزہ کے جانے کے بعد مما اس کے کمرے میں آئیں تو وہ بیڈ پر نیم دراز تھی۔ مما نے اس سے حمزہ سے شادی کا ذکر کیا تھا، وہ خاموش رہی۔ حمزہ سب جانتا تھا لیکن وہ سمجھتا تھا کہ کسی کے ماضی کو دیکھ کر اس کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے اگر آپ اس قابل ہیں کہ کسی کو اپنے ساتھ لے کر چل سکیں تو اس کا مطلب واضح ہے کہ اس کا مستقبل آپ کے ساتھ ہوگا ماضی کی جھلک یقینا مستقبل قریب میں نہیں ہوگی ساتھ ہی وہ یہ بھی جانتا تھا کہ بکھرے ہوۓ لوگ جب سمیٹنے پر آتے ہیں جہاں بھر کے غم سمیٹ لیتے ہیں- وہ خود بکھرنے سے ڈرتا تھا سوسبین کا انتخاب کیا تھا جسے سبین نے کوئی اہمیت نہیں دی تھی- آج پھر مما نے رات کے کھانے پران کی فیملی کومدعوکیا تو وہ بھی ساتھ ہی چلا آیا تھا۔ سبین سب کو ایک جگہ جمع دیکھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔ مما کے اشارے پر حمزہ اس کے پیچھے آیا تھا۔ حمزہ میں تمہاری زندگی کو مشکل نہیں بنانا چاہتی کیا یہ بہتر نہیں تم سکون کی زندگی گزارو؟ اس نے بے بسی سے پوچھا تو حمزہ نے نفی میں گردن ہلا کر چہرے کے نقوش معصوم سے بناۓ وہ سر جھٹک کر رہ گئی۔ تو میں ہاں سمجھوں؟ حمزہ بھنویں چڑھائے مسکرا رہا تھا، وہ گردن نفی میں ہلا گئی۔ حمزہ ایک نگاہ سبین پر ڈال کر واپس چلا گیا اس رات پھر وہ بہت دیر وہیں کھڑی ماضی سے حال تک کا سفر کرآئی لیکن اب اس کی سوچوں میں حمزہ بھی تھا جس کے لیے اس کے دل میں کوئی جگہ نہیں نہیں تھی-وہ اول روز سے اسے پسند تھا لیکن ایسے نہیں جیسا حمزہ اسے پسند کرتا تھا اس کے دل میں شیراز کے سوا اور کوئی نہ تھا اس کے جانے کے بعد بھی۔
    ☆☆☆

    میں نہیں مل سکتی ۔ وہ مختصرکہ کرفون بند کر دینا چاہتی تھی پر شیراز نے عاجزی سے فورا کہا۔ پلیز آخری بارمل لو میں اس کے بعد بالکل بھی تنگ نہیں کروں گا تمہاری قسم سبین۔ اور وہ پگھل گئی تھی اتنی سنگ دل تھوڑی تھی، شیراز جانتا تھا وہ بے قوف سی تھی وہ اس کے سامنے ہوگا تو وہ انکار کی جرات ہی نہیں کر پائے گئی۔ ٹھیک ہے میں کل آ رہی ہوں ۔ وہ کہ کرفون بند گئی وہ جانتی تھی اسے کہاں جانا ہے اس لیے جگہ کا نہیں پوچھا تھا۔ سبین اس سے ملنے کے کا سوچ کر ہی خوف زدہ ہوگئی تھی وہ جانتی تھی کہ وہ کمزور پڑ جائے گی لیکن وہ ایک بار پھر اسے موقع نہیں دینا چاہتی تھی۔ لیکن اگر وہ ازالہ کر گیا تو؟ وہ تمہارے سامنے ہاتھ جوڑ کر بیٹھ گیا تو، تو تم فرارکی راہیں ڈھونڈ پاؤ گی؟ وہ ہمیشہ ہی ایسا کرتا آیا تھا اور اس باربھی ایسا کر گیا سامنے آنے پر تم پھل گئی تو کیا پھراسے اپنی محبت بخشوگی؟ کسی نے اس کے اندرسے سوال کیا۔ محبت تو وہ جذبہ ہے جو عمر گزر جانے کے بعد بھی پکارے تو دل اس کی سمت پلٹنے کو للچانے لگتا ہے۔ پھر وہ تو عشق تھا میرا- لیکن مجھے آخر تک ہمت بناۓ رکھنی ہے، میں جھک نہیں سکتی، پلٹ نہیں سکتی ۔ وہ خود ہی سے جرح کر رہی تھی ، خود ہی جوابات بھی تیار کر رہی تھی۔ وہ مما کوبتا کر گھر سے نکل آئی تھی۔انہوں نے کوئی سوال نہیں کیا تھا کیونکہ انہیں سبین پر پورا بھروسا تھا۔
    ☆☆☆

    راستے میں ہزار خدشے دل میں پناہ لیتے رہے، وہ سب کو نظر انداز کرتی بلآخر کیفے تک پہنچ ہی گئی تھی۔ وہ ابھی گاڑی کا دروازہ کھول کر نکلی ہی تھی کہ شیراز مسکرا تا ہوا اس تک آیا تھا۔ وہ خاموش رہی مسکرا بھی نہ سکی جبکہ سبین کے مقابلے میں شیراز بہت پر جوش تھا اسے سامنے دیکھ کر اس کی باچھیں کھل گئی تھی، شیراز اس کا ہاتھ تھامے اب کیفے کی جانب بڑھ رہا تھا باہر کی سردی سبین کو محسوس نہیں ہورہی تھی۔ اس کے دل میں کوئی ہلچل نہیں ہوئی تھی۔ اس نے ایک میز تک پہنچ کرکرسی کھینچ کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ خاموشی سے بیٹھ گئی اور وہ بھی اس کے سامنے بیٹھ گیا تھا۔ تم سوچ بھی نہیں سکتی تمہیں یہاں اپنے ساتھ دیکھ کر میں کتنا خوش ہوں- اتنا خوش میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ وہ قدرے توقف کے لیے خاموش ہوا۔ تم میں جادو ہے جب جب ساتھ ہوتی ہو دنیا بھلا دیتی ہو۔ اس نے کہا تو وہ مسکرا دی کس جذبے کے تحت وہ نہیں جانتی تھی لیکن شیراز کو یک گونہ سکون ملا تھا۔ تمہاری مسکراہٹ آج بھی ویسی ہی ہے کہ مدمقابل کو چاروں شانے چت کر دے، یہ کشش بہت خاص لڑکیوں میں ہوتی ہے اور میں جانتا ہوں میری سبی بہت خاص ہے۔ وہ دل و جان ہتھیلی پر نکال کر رکھ دینا چاہتا تھا۔ مرداس وقت عورت کے سامنے اپنی ذات فنا کر دینے کو تیار ہوتا ہے ، جب وہ لڑکی بری طرح اس کے عشق میں الجھ گئی ہو، اور جب وہ اس کو حاصل کر لیتا ہے بے پروائی سے اپنی سمت پلٹ جاتا ہے۔ بھی کی کہی شیراز کی بات سبین کے ذہن کے پردے پر نمودار ہوئی تو استہزائی مسکراہٹ اس کے لیوں پر ٹہر گئی ایسا کچھ نہیں ہوا تھا جیسا وہ سوچ کر یہاں آئی تھی کہ محبت نئی انگڑائی لے لے گی- سبین نے کافی کا گلیوں سے لگا کر اسے بغور دیکھا۔ تم بھی بولوناں کب سے میں ہی بول رہا ہوں- تمہیں سننے کو ترس گیا ہوں ، یار یہ عشق بری بلا ہے اس بار لگتا ہے جان نہیں چھوڑے گا۔ وہ کہ کر خود ہی ہنس دیا- سبین نے پرسوچ نگاہیں شیراز پر جمائی کافی کا مگ میز پر رکھتے ہوۓ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پیوست کر دیں۔ مجھے لگا تھا کہ میں تم سے ملوں گی تو میرے جذبات کا شور میرے اندر کے سکون میں طلاطم بپا کر دے گا ،مگر شیراز یہاں موت کا سکون ہنوز طاری ہے مطلب جانتے ہو ناں؟ محبت تم پر اب بھی عنایت کرنے کا دل نہیں رکھتی ۔ وہ بہت خاموشی سے سیاہ شیشوں کے پار باہر کی سمت دیکھتے ہوۓ بولی۔ اپنی غلطیوں کی معافی مانگ چکا ہوں تا عمرازالہ کرنے کو تیار ہوں، باخدا اب کبھی کوئی غلطی سرزرد نہیں ہوگی۔ وہ اس کی آنکھوں میں مثبت جواب تلاش کر رہا تھا اور وہ خاموش تھی، لبوں سے مگ لگا کر کافی کا آخری گھونٹ بھرا اور مگ میز پر رکھ کر اسے دیکھتے ہوۓ گویا ہوئی۔ کچھ غلطیوں کے ازالے ممکن نہیں ہوتے شیراز ، وقت ان پر مرہم تو رکھ دیتا ہے مگر ان رشتوں کو بحال نہیں کیا جاسکتا کیونکہ دل کے رشتے صرف اعتماد اور بھروسے پرہی جڑے ہوتے ہیں۔ سبین نے بغور شیراز کی آنکھوں میں دیکھ کر بات کی تو وہ تڑپ گیا اور فورا سبین کے ہاتھ تھام کر شدت سے جکڑ لیے تھے۔ یقین مانوسبین تمہارا عشق اب انتہاؤں کو چھو رہا ہے- تم میری آنکھوں میں دیکھ سکتی ہو، میں مجنوں بن گیا ہوں، شاعری کرنے لگا ہوں، یار پلیز ایک بار تو لوٹو میری جانب- ہرگلہ دور کر دوں گا۔ اس نے کہا تو سین کو کوفت سی ہونے لگی ، وہ یہ سب سننا نہیں چاہتی تھی ۔ جس شخص کو میری آنکھوں میں آنسو دیکھنے سے نفرت ہوگئی تھی، جسے زندگی جینے کے لیے ہر آزادی میں دینے کو تیار تھی، جو میرے ہزار وعدوں کے باوجود مجھے بے بسی میں چھوڑ گیا تھا تو اب میں کیسے یقین کرلوں کہ اب اس شخص کو مجھے سے عشق ہوگیا ہے، وہ شاعری کرنے لگا ہے وہ بھی میرے لیے؟ کیسے یقین کرلوں شیراز اور فرض کروگر یقین کر بھی لوں تو کیا حاصل؟ میرے بس میں اب تم سے محبت کرنا ہے ہی نہیں۔ وہ اڑیل بنی ہر بات کے آخر میں بس یہی کہتی تھی کہ محبت اب باقی نہیں رہی اور شیراز اس کے لہجے کی تلخی محسوس کرتے ہوۓ ایک بار پھر مایوس ہو گیا تھا لیکن وہ ابھی ہارنا نہیں چاہتا تھا، وہ آس پاس بغور نگاہیں دورا رہی تھی تب ہی اسے مطلوب شخص نظر آیا تو اس نے ہاتھ کا اشارہ کیا- شیراز اسے اشارہ کرتے دیکھ کر چونکا وہ ایک خوبرو نوجوان تھا جواب مسکراتے ہوۓ انہی کی سمت آ رہاتھا۔ شیراز ان سے ملو یہ حمزہ ہیں- اگلے ہفتے ہماری منگنی ہے اور حمزہ آپ تو جانتے ہی ہیں انہیں۔ سبین نے مسکرا کر تعارف کا مرحلہ طے کیا۔ انہیں کون نہیں جانتا- ان کی تو بہت شہرت ہے ماشاء اللہ شیراز اس یونیورسٹی کا گولڈ میڈلسٹ تھا- حمزه بھی اسے اس حوالے سے جانتا تھا- حمزہ نے آگے بڑھ کر سلام کیا تو وہ مسکرا کر ملا۔ سبین نے دیکھا کہ حمزہ کے لہجے میں بہت نرمی تھی وہ اسے شیراز کے ساتھ دیکھ کر بالکل بھی غیرمعمولی انداز میں پیش نہیں آیا تھا وہ حیران ہوئی تھی یہی حمزہ کا امتحان لینے کا اس کا ایک طریقہ تھا اور وہ اس میں کامیاب رہا تھا۔ ایک محبت کے بعد دوسری محبت پر طبع آزمائی کر رہی ہویقینا اس بار کامیاب رہوگی ۔ ایک سلگتا ہوا جملہ شیراز اس کی طرف پھینک کر چلا گیا تھا اور وہ ہنس دی. یہ اس کی حقیقت تھی۔ وہ حمزہ سے کہتی مسکرارہی تھی- حمزہ اب خاموش تھا سبین پھر سے میز پر بیٹھ کر کافی کا آرڈر کر رہی تھی حمزہ بھی ساتھ ہی بیٹھ گیا تھا۔ آپ کو کیا لگتا ہے سبین- کیا ایسا ہوتا ہے جیسا شیراز نے کہا۔ حمزہ کے چہرے پراب بھی سنجیدگی تھی۔ پہلی ناکام محبت دوسری کامیاب محبت کی ضمانت نہیں ہوتی کیونکہ محبت ہر بار اپنے اسلوب بدل لیا کرتی ہے، یہ نئے انسان کے ساتھ نئی فہرست بھی تیار رکھتی ہے، محبت میں کبھی بھی ایک سا تجربہ نہیں ہونا چاہے- تم نے جان بوجھ کر میراساتھ مانگا تھا اگر تمھیں ابھی یا بعد میں کوئی بھی مسئلہ ہوتا تو اس کے ذمہ دار صرف تم ہوگے مجھے اب کسی بھی شے سے فرق نہیں پڑتا لیکن شاید تمہاری عزت مجھے تم سے محبت کرنا بھی سکھا دے لیکن کوئی وعدہ نہیں کر رہی- تمہارے اورماما کے لیے میں اتنا کر رہی ہوں کہ اپنے ماضی سے باہرنکل کر ایک نئی زندگی کی شروعات کرنا چاہتی ہوں، تم جانتے ہو شیراز کس قدر پیچھے پڑا ہوا ہے لیکن میں اس کی سمت نہیں پلٹ رہی جبکہ اب یہ ایک اچھا تجربہ بھی ہوسکتا ہے ۔ جب تک کافی آئی وہ کہتی رہی اور حمزہ اپنا مگ اٹھاتے ہوۓ اسے بغورسن رہا تھا۔ سبین تم نے شیراز کی بات مان کیوں نہیں لی صرف انا کی خاطر ؟ اس نے پوچھا تو سبین نے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔ کھوکھلی ہوگئی ہے اس کی محبت کسی طوراب میرے اندر نہیں پنپ سکتی- عورت اپنی محبت اور اپنی ذات کی انتہا درجے کی تذلیل کرنے والے کو کبھی بھول کر بھی پھر سے محبت نہیں کرسکتی، پھر سمجھوتا ہوتا ہے جبکہ میرے پاس اس سے بہتر آپشن موجود تھا سو میں سمجھوتا کیوں کرتی؟ اور کہتے ہیں ناں حمزہ کہ اگرمرد پلٹنا چاہے تو اس کا ہاتھ تھام کر روکا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر عورت پلٹنا چاہے تو اسے نہیں روکا جاسکتا کہ وہ پلٹے سے پہلے ہی جا چکی ہوتی ہے تو یہ بات سو فیصد درست ہے- سبین نے کچھ بے پروائی اور کچھ سنجیدگی سے کہا تو وہ ن کے اس بچپنے سے کہنے پرمسکرا دیا۔ جب انٹی نے مجھے کہا تھا کہ سبین نے تمہیں بلایا ہے گڈ نیوز ہے وہ اگلے ہفتے منگنی کے لیے کے لیے ہاں کر چکی ہے اور ابھی شاپنگ کے لیے جانا ہے اور آپ کو کیفے سے لینا ہے تو یقین جانیے تب میں بوکھلا گیا تھا سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ جو پاؤں میں پہنتے ہیں اسے جوتا کہتے ہیں یا جراب، جس سے بال بناتے ہیں اسے برش کہتے ہیں یا پالش- مما کوشک تھا کہ میں پاگل ہونے کے قریب ہوں خوشی سے۔ وہ موضوع بدل کراسے مسکراتے دیکھنے کی چاہ میں بونگیاں مارنے لگا تو سبین آج پہلی باردل سے مسکرائی تھی۔ جب آپ نے مجھے شیراز کے ہمراہ دیکھا تو کسی قسم کا ردعمل کیوں نہیں ظاہر کیا؟ وہ نہ جانے کیا جاننا چاہ رہی تھی، حمزہ مسکرا دیا۔ جب آپ نے میرا تعارف اس سے کروایا تو سارے شکوے دھل گئے ۔ وہ کچھ پل کے لیے رکا اور پھر گویا ہوا۔ اور مجھے یقین تھا کہ آپ میری طرف بڑھی ہیں تو ماضی کو پیچھے چھوڑ کر ہی بڑھی ہوں گی ۔ وہ مسلسل مسکراہٹ لبوں پر سجاۓ ہوۓ تھا، وہ اس لڑکے کے اعتماد پر مسکرادی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ میری محبت تمہارے اندر مرجھاتے ہوۓ محبت کے پودے میں نئی اور مضبوط کونپیلیں پھوٹنے کی وجہ بنے گی ۔ حمزہ نے اس کی سیاہ جھیل سی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ کہا تو وہ شرارتا ہنس دی۔ اور جتنے یقین سے آپ کہہ رہے ہیں ناں مجھے یقین ہے کہ سچ کہ رہے ہیں۔ وہ سنجیدگی سے کہ کر حمزہ کو گنگنانے پرمجبور کرگئی تھی۔ تم ہی ہو محبوب میرے، میں کیوں نا تمہیں پیار کروں۔ وہ جھینپ کر گاڑی میں جا بیٹھی اور اس کے لبوں پر آسودہ سی مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔(ختم شد)
Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

Working...
X