Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

یار دلدار

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Love Story یار دلدار

    رات کے کھانے کے بعد وہ پانچوں انس کے ہاتھ کے بنے سبز قہوے سے لطف اندوز ہور ہے تھے ۔ داخلی دروازے اور کھڑکیوں سے آتی ہوا بہت بھلی محسوس ہورہی تھی ، احسن کی طبیعت شرارت پر مائل ہوئی۔ یار انس، بہت دعائیں دیا کرے گی تیری بیوی ہمیں قہوے کی چسکی لیتے ہوۓ احسن بولا ۔ کیوں احسن بھائی ، میں کسی ملنگ پیرنی سے شادی کرنے والا ہوں کیا ….. انس نے معصومیت سے آنکھیں پیپٹاتے ہوۓ پوچھا۔ او نہیں یار ….. جو ہم نے تجھے چاۓ قہوہ ایکسپرٹ بنا دیا ہے نا ، تو ، تو مستقبل میں انتہائی سگھڑ شوہر ثابت ہونے والا ہے۔ بس ساری دعائیں غائبانہ طور پر ہمیں پہنچا کر یں گی۔ پیالی خالی کر کے میز پر رکھتے اس نے وضاحت کی۔ مطلب ، آپ پھوہڑ شوہروں کی بیویوں کی تمام غائبانہ بددعائیں مجھ تک پہنچیں گی ۔ لہجے میں پریشانی اور آنکھوں میں حیرانی سموتے اس نے سوال کیا۔ بہت زبان چلنے لگی ہے تیری، اتنی زبان بیوی کے سامنے چلائے گا نا تو برتن اٹھا اٹھا کر مارے گی سر پر ۔ حیدر نے انس کو آنکھیں دکھاتے ہوۓ کہا۔ ایسا ہوگا…. مارے حیرت کے انس کا منہ پورے کا پورا کھل گیا۔ بالکل ایسا ہی ہوگا …. عادل اپنی بات پر زور دیتا ہوا بولا ۔ ” بھائی! یہ بات اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر کہہ رہا ہے ۔ آنکھوں سے حیدر کی طرف اشارہ کرتے بڑے معنی خیز لہجے میں کہتے اس نے احسن کے ہاتھ پر تالی ماری۔ اور نہیں تو کیا ….. یہ جونشان بھائی کے ماتھے پر آپ کو نظر آرہا ہے نا… ( حیدر نے غیر ارادی طور پر اپنی چوٹ پر ہاتھ پھیرا، جو صبح غنودگی کے عالم میں باتھ روم کی طرف جاتے ہوۓ دیوار سے ٹکرانے کے سبب لگی تھی۔) یہ بھابھی جان نے اس کو بیلن کھینچ کر مارا تھا ۔ احسن دانت نکالتے ہوئے بولا۔ اس کی بات پر جہاں عادل اور انس کا بےساختہ قہقہہ بلند ہوا و ہیں محب اللہ کے چہرے پر بھی مسکراہٹ رینگی۔ میں تم بے چارے کنواروں کے حسد کی وجہ سمجھ سکتا ہوں ۔ دل ہی دل میں تلملاتے بظاہر پرسکون انداز میں کہتے حیدر نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی۔ .حسد…. احسن نے عادل کی طرف دیکھے کر چبا چبا کر دہراتے ہوۓ کہا۔ ہاں ناں ….. جل رہے ہوناں تم لوگ، میری شادی پہلے جو ہوگئی ہے۔ احسن کے تاثرات مزه دے گئے تھے۔ دل پر ایک ٹھنڈی پھواری پڑی تھی ۔ سوبات کو خوامخواہ ہی طول دیا۔ یہاں تک آرہی ہے جلنے کی بو.. حیدر مزید پھیلا۔ اوۓ ، یہ جلنے کی نہیں تیرے موزوں کی بد بو ہے۔ آفس سے واپس آ کر سرف سے غسل دیا کر پیروں اور موزوں کو ۔ احسن بل کھا تا ہوا بولا۔ سرف سے کچھ نہیں بنے گا۔ تیزاب سے غسل دینا۔ تب فرق پڑے گا ۔ عادل نے اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھا۔ چلو، ٹھیک ہے ۔ اب میری ٹھیک ٹھاک تسلی ہوگئی ہے۔ حیدر چوٹ کے نشان کو سہلاتے ہوۓ بولا ۔ یارو، مونا میم نے مجھے نیچے بلوایا تھا آج ۔ عادل اچانک یاد آنے پر بولا۔ وہ اپنی بیٹی اور نواسی کی سہولت کے لیے گاڑی لینا چاہ رہی ہیں۔ غالبا سیکنڈ ہینڈ ، مجھ سے مدد چاہ رہی تھیں ۔اس سلسلے میں ۔ داماد کا گاڑیوں کا شوروم ہے اور وہ گاڑی خریدنے کے لیے پریشان ہورہی ہیں ۔ بڑی عجیب بات ہے ۔ انس حیدر سے بولا ۔ میں آج گیا تھا۔اس کے شوروم ۔ احسن کی بات نے دھماکے کا سا کام کیا۔ سب ہی اپنی اپنی جگہ پر سیدھے ہوکر بیٹھ گئے۔ گاڑی خریدنے کے لیے…. پہلے محب اللہ نے حیرت کے جھٹکے سے سنبھلتے ہوۓ …….؟ سب سےسوال کیا- نہیں اس نے نفی میں سر ہلایا۔ دولہا میاں کی چھان بین کے لیے۔ اوہ بھائی، وہ مونا میم کی بیٹی کا داماد ہے ۔ تیرا نہیں جو تو تفتیش کرتا پھر رہا ہے۔ حیدرا سے جھاڑتے ہوۓ بولا۔ تم لوگوں کو یاد نہیں ہے۔ مونا میم نے ہم لوگوں سے درخواست کی تھی اس کی چھان بین کے لیے احسن نے بروقت یاد دلایا۔ تو، تو ایسے اتاولا ہورہا ہے جیسے لڑکی نے خود تجھ سے درخواست کی ہو۔ عادل کی بات پر احسن سچ مچ چڑ گیا۔ پار،اگر میں اخلاقیات اور انسانی ہمدردی کے تحت ان کی مدد کرنا چاہ رہا ہوں تو تم لوگوں کو کیا تکلیف ہے ۔ تیوری چڑھا کر باری باری اس نے حیدر اور عادل کو گھورا۔ اخلاقیات اور انسانی ہمدردی…. معنی خیزی سے کہتے ہوۓ حیدر ہلکے سے کھنکھارا۔ چکر تو کچھ اور ہی لگ رہا ہے پیارے، عادل نے اس کی گھوریوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوۓ کہا۔ ایک، دو، تین ، چار… انس کے بآواز بلند گنتی گننے پر سب لوگ اس کی جانب متوجہ ہوۓ ۔ جو احسن کی طرف روئے سخن کیے گنتی گننے میں مگن تھا۔ کیا ہے….؟ احسن ڈپٹ کر بولا ۔ انس سہمنے کی ادا کاری کرتا ہوا خاموش ہو گیا۔ کچھ نہیں…… آپ کے ماتھے کے بل گن رہا تھا۔ انس منمناتے ہوئے بولا۔ اس سے پہلے کہ احسن مزید کچھ کہتا۔ محب اللہ بیچ بچاؤ کے انداز میں میدان میں کودا۔ اچھا تو پھر کیا نتیجہ نکلا چھان بین کا ….؟ محب اللہ کے سوال نے سب کی دلچسپی کا رخ احسن کے جواب کی طرف موڑ دیا۔ افسوس ….. صد افسوس … احسن نے نفی میں سر ہلاتے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔ کوئی مشکوک بات معلوم نہ ہوسکی۔ خاصی اچھی عزت ہے احتشام وارثی صاحب کی مارکیٹ میں- کسی طرح کی کوئی قابل گرفت بات سامنے نہ آسکی ۔ اپنی سی کوشش کر لی میں نے احسن نے خاصا تفصیلی جواب دیا۔ اور یہ ساری کوشش ، انسانی ہمدردی کے کھاتے میں جاۓ گی ہے نا…..؟ حیدر نے آنکھیں سکیڑتے ہوۓ سوال کیا۔ اور نہیں تو کیا….؟ بھائی کی نیت پر کوئی شبہ نہ کرے۔ عادل نے شہادت کی انگلی اٹھاتے ہوۓ حیدرکووارن کرنے کے انداز میں آنکھیں دکھائیں۔ یار، زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا کہ کوئی لڑکی مجھے دیکھتے ہی مجھ پر مرمٹی … احسن نے یاسیت بھرے لہجے میں کہتے دیوار سے سر کی پشت ٹکاتے ہوۓ کہا۔ حق کہا …. کے ساتھ حلق سے ایک ٹھنڈی سانس آو کی صورت برآمد ہوئی ۔ باقی چاروں نے آنکھیں آخری حد تک پھاڑ کر اور منہ ممکنہ حد تک کھول کر اس کا انداز اور انداز گفتگو ملاخطہ کیا۔ مجھے دیکھتے ہی میرے ساتھ زندگی گزار نے کے سہانے سپنے آنکھوں میں سجا بیٹھی….. پگلی۔ احسن کی زبان بدستور چلتی رہی۔ ……..بھائی ہوش کر ….. عادل نے اس کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی۔ زبردستی مجھے نیا نکور، پورشن دکھانے لے گئی۔ احسن ان سنی کرتے ہوۓ اپنی کہتا رہا۔ احسن او بھائی…..او میرے یار…… حیدر نے کندھے سے پکڑ کر اسے جھنجھوڑا۔ کہہ رہی تی…..زندگی تو ہم دونوں کو گزارنی ہے نا۔ لہجے میں رقت سی در آئی۔ مجھے لگ رہا ہے ، صدمے سے ان کا دماغ چل گیا ہے۔ انس نے اپنا تجزیہ پیش کیا۔ وہ میرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پر برس گئیں۔ دل بے خبر میری بات سن …… احسن شعر مکمل نہیں کر پایا تھا کہ اچانک اس کے حواس خمسہ نے کچھ غلط ہونے کا سگنل دیا۔ عین وقت پر اس نے عادل کا ہاتھ پکڑا ورنہ ڈنڈا جو اس کے سر کے انتہائی قریب پہنچ چکا تھا۔اس کی کھوپڑی پر بج چکا ہوتا۔ یہ کیا کر رہا تھا تو …. ایک عالم جلال میں اس نے عادل سے سوال کیا۔ ڈنڈا مار کر اس صدے کا اثر زائل کر رہا تھا جو تیرے دماغ پر ہوا ہے ۔ میرا صدمہ تو زائل کر دے گا…… احسن نے کہتے ہوۓ عادل کا ہاتھ چھوڑا۔ دوسرے ہاتھ سے ڈنڈ اسنبھالا۔ اس بے چاری کا دکھ ………..وہ کیسے زائل ہوگا ۔ جو پہلی نظر میں ہی ….. بات مکمل نہ ہونے پائی تھی کہ سب نے مل کر اس پر دھاوا بول دیا۔ ساتھ ہی ساتھ اونچی آواز میں لہک لہک کر شعر مکمل کیا۔ اسے بھول جا…..اسے بھول جا….
    *****

    احتشام کیسا لگا تمہیں …..؟ شہر بانو کے سوال پر اٹیچی کیس کھولے اپنا سامان سیٹ کرتی میری کے ہاتھ ذرا دیر کو رکے۔ نظر اٹھا کر ماں کو دیکھا، اور کندھے اچکا کر دوبارہ سے کام میں مصروف ہوگئی۔ شہر بانو کے چہرے پر کچھ ناگواری کا تاثر ابھرا۔ میں نے کچھ پوچھا ہے میری …..؟ اب کے بولیں تو لہجے میں کچھ سختی تھی۔ ماں کا انداز سمجھ کر میری پوری طرح ان کی جانب متوجہ ہوئی۔ آپ کے اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے ۔ میرے پاس مام ……؟ ڈیڈ کی چوائس ہے تو اچھا ہی ہوگا ۔ ایک ہی جملے میں ساری بات سمیٹ دی- میری، تمہاری اس سے ملاقات کیسی رہی ….؟ اس ملاقات نے اس کا کیا تاثر چھوڑا تم …..؟ وہ کچھ الجھتے ہوۓ بولیں۔ ” اس بات سے اب کوئی فرق پڑتا ہے مام ……؟ وہ سنجیدہ لیجے میں گویا ہوئی۔ مجھے گرینڈ ما کا یہاں بالکل اکیلے رہنا ٹھیک نہیں لگتا تھا اور ڈیڈ کو مجھے یہاں گرینڈ ما کے پاس چھوڑنا۔ سوانہوں نے شادی کی پخ لگا دی ساتھ ۔ دوست کے ساتھ مل کر بالا ہی بالا رشتہ ڈھونڈ بھی لیا۔ طے بھی کر دیا۔ اب کچھ دن میں وہ شادی کے لیے پاکستان پہنچنے والے ہیں۔ سو ، مجھے کیا لگا۔ کیسا لگا …… اس سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بات ختم کر کے وہ خاموشی سے اپنے کیوٹکس سے سجے ناخن دیکھنے لگی۔ مجھے فرق پڑتا ہے میری ….؟ اور تمہاری گرینڈ ما کو بھی….؟ تمہاری راۓ اہم ہے ہمارے لیے شہر بانو آنکھوں میں فکر مندی لیے اس کے پاس آکر بیٹھ گئیں۔ ہماری پون گھنٹے کی مختصری پہلی ملاقات میں اسے میرے بارے میں کچھ بھی جاننے کا کوئی اشتیاق نہیں تھا۔ وہ خوداپنے بارے میں بھی زیادہ بات نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔ مام ، اس کا سارا وقت مجھے یہ سمجھانے میں گزر گیا کہ میں یہاں پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کر کے کتنی بڑی غلطی کر رہی ہوں۔ میں ایک تابناک مستقبل کو ٹھوکر مار کر، ایک پسماندہ ملک میں کبھی بھی نہیں رہ پاؤں گی۔ اور ہم دونوں کو اپنی زندگی یورپ میں ہی شروع کرنی چاہیے۔ کبھی کبھار منہ کا ذائقہ بدلنے کو پاکستان آنے جانے میں البتہ کوئی مضائقہ نہیں۔ ہے تاثر لہجے میں بات مکمل کر کے، اس نے دوبارہ اٹیچی کیس کھول لیا۔ شہر بانو کے چہرے پر پریشانی وہ دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔
    *****

    مونا میم بہت خوش تھیں تیری کارکردگی سے ۔ عادل نے احسن کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ میں نے ورلڈ کپ جیتا ہے….؟ احسن نے ایک کٹیلی نظر اس پر ڈالتے ہوئے دوبارہ دور نظر آتے درختوں پر نظر جما دی۔ او نہیں یار….. ورلڈ کپ جیتنے والی تو شکل ہی نہیں ہے تیری ۔ عادل نے ایک بلند و بانگ قہقہ لگاتے ہوۓ ، اب کی بار ذ را زور سے کندھے کی بینڈ بجائی۔ یہ، جو ظلم میرا کندھا سہہ رہاہے نا ….. اس کا بدلہ تیرے جبڑے کو چکانا پڑے گا۔ احسن نے پہلی نظر اپنے کندھے اور دوسری عادل کی بتیسی پر ڈالتے ہوۓ کہا۔ عادل نے فورا سے پیشتر اپنی بتیسی اندر کی۔ انس اپنی ہی دھن میں سیٹرھیاں چڑھتا اوپرآرہا تھا۔ عادل اور احسن کو ریلنگ کے ساتھ کھڑے باتیں کرتے دیکھا تو بجاۓ اندر جانے کے ان کی طرف آ گیا۔ کیا کر رہے ہیں آپ لوگ ……؟ یونہی بات کا آغاز کرنے کے لیے انس بولا۔ جھولا جھول رہے ہیں.. عادل نے مسکراتے ہوۓ انس کو دیکھا۔ انس نے سر کھجاتے ہوئے دائیں بائیں دیکھنا شروع کر دیا۔ ہاں تو میں تجھے بتا رہا تھا کہ جب میں نے مونا میم کو بتایا کہ اپنا حسن ساری چھان بین کر آیا ہے احتشام صاحب کی۔ ہر چیز سو فیصد او کے ہے۔ آپ اطمینان سے شادی کی تاریخ فائنل کر دیں۔ تو وہ بہت خوش ہوئیں۔ اور تجھے ڈھیروں ڈھیر دعاؤں سے نوازا، جو میں نے نیاز مندی سے سر جھکا کر وصول کیں اور ساتھ ہی ساتھ انہیں یہ بھی باور کرا دیا کہ چونکہ احسن کی اپنی بھی پانچ بہنیں ہیں اس لیے وہ دنیا کی ہرلڑکی کو اپنی بہن ہی سمجھتا ہے۔ اور میرب کے لیے بھی جو کچھ اس نے کیا اپنی بہن…. سمجھ کر ۔ عادل کی زبان کو بریک ….. حسن کے تیور دیکھ کر لگا۔ قریب تھا کہ احسن اس پر جھپٹ پڑتا۔ عادل ….. فورأ دوقدم پیچھے ہٹا۔ تب ہی محبت اللہ کمرے سے باہر آیا اور حیدر نیچے سے اوپرآیا۔ واہ ….. کیا ٹائمنگ ہے۔ عادل ان دونوں کو ایک ہی وقت میں دو مختلف سمتوں سے آتا دیکھ کر بولا۔ یہ تم لوگوں کی ٹائمنگ کیوں خراب ہوتی جارہی ہے۔ محبت اللہ کچھ نا راضی سے بولا- چاۓ تم سب کا انتظار کر رہی ہے۔ اه…… کاش … اس کے بجائے مجھے سنے کو ملتا۔ حیدر بھابھی تیرا انتظار کر رہی ہے ۔ حیدر نے مصنوعی آہ بھری۔ محب اللہ کی تقلید میں وہ سب لوگ اندر آگئے۔ یارو…. ویسے ایک بات ہے۔…… عادل ، . چاۓ کی پیالی اٹھاتے ہوۓ بولا ۔ سب لوگ توجہ سے اس کی بات سننے لگے۔ یہ جو احتشام صاحب ہیں نا…. ان کو دیکھ کر مجھے ایسا لگا تھا جیسے میں نے ان کو بہت قریب سے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔ لیکن کہاں …… یہ یاد نہیں آ رہا- کوئی بات نہیں ۔۔۔۔ حیدر سکون سے بولا۔ تجھے بچپن میں پہاڑے بھی یاد نہیں آتے ہوں گے ٹیچر کے سامنے۔ تو میرے بچپن میں ، میرے ساتھ نہیں تھا۔ عادل تپ کر بولا۔ (یہ الگ بات کہ پہاڑے اس کی دکھتی رگ تھے۔ خوب مار کھائی ان پر سکول میں ) تیری جوانی سے، تیرے بچپن کا اندازہ لگانا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے۔احسن نے بھی حصہ ڈالا ۔ او….. بھائیو، کوئی میرے مسئلے کا حل بتاؤ….. محب اللہ ان سب کو دیکھ کر بولا ۔ تیرا بھی کوئی مسئلہ ہے۔….. عادل نے حیرت سے باقی سب کو دیکھا۔ ہاں ….. اس نے زور وشور سے سر ہلایا۔ مسئلہ ہے اور خاصا گھمبھیر مسئلہ ہے۔ کیا…. سب کے منہ سے ایک ساتھ نکلا۔ اباجی ، اپنی بہن کی بیٹی سے میرا نکاح کروانا چاہتے ہیں۔ محب اللہ نے بولنا شروع کیا۔ لیکن امی جی کی اپنی نند یعنی میری پھپھو سے کبھی نہیں بنی۔ سو ، وہ بالکل راضی نہیں ہیں۔ اب وہ ابا جی سے علی الا اعلان دوٹوک بات کرنے کے بجاۓ ، میرے کندھے پر رکھ کر بندوق چلانا چاہ رہی ہیں۔ مطلب ، امی جی چاہ رہی ہیں کہ تو انکار کر دے۔ حیدر نے سمجھ کر سر ہلایا۔ محب اللہ نے تائیدی انداز میں سر ہلایا۔ تو ، اس میں مسئلہ کیا ہے، کر دے انکار …… اور انکار کرتے ہی بھاگ کر ادھر آ جانا۔ پیچھے سے امی جی سنبھال لیں گی سب ۔ عادل نے منٹوں میں حل پیش کیا۔ یہی تو مسئلہ ہے۔ محب اللہ نے بے بسی سے سر ہلایا۔ انکار ہی تو نہیں کرنا۔ چند لمحے لگے ان سب کو بات سمجھنے میں ۔ اوۓ مولوی ……. یعنی که تو .. مطلب واقعی….؟ مختلف طرح کی آوازیں اس کے کانوں میں گڈمڈ ہوئیں۔ محب اللہ نے اپنا جھکا ہوا سر مزید جھکا لیا۔ بڑا چھپا رستم نکلا تو ، تو یار… عادل نے اس کے پاؤں پر پاؤں مارا۔ وہ نہیں یار…… بس ابا جی کی مرضی ہے- محبت اللہ کچھ گھبراتے ، تھوڑا شرماتے ہوۓ بولا- اچھا… انکار خود نہیں کرنا چاہتا۔ اور مرضی …… ابا جی کیا ہے۔ احسن کے چھیٹر نے پر سر مزید جھک گیا۔ منہ، اوپر اٹھالے بھائی ، اب کیا ہمیں سجدہ کرے گا۔ حیدر نے ٹھوڑی سے پکڑ کر اس کا چہرہ اوپر کیا۔ نہیں نہیں نعوذ باااللہ ….. محب اللہ نے کہتے ہوۓ فورا سراٹھایا۔ اب کوئی حل تو بتاؤ … مدد طلب نظروں سے اس نے باری باری احسن اور عادل کو دیکھا۔ میرا خیال ہے…… خالہ جی کو فون کر کے بتادیتے ہیں کہ آپ کا بیٹا۔۔۔۔ عادل نے ایک ڈرامائی توقف دیا۔ محب اللہ اسے سننے کو بے چین تھا۔ نکل گیا ہاتھوں سے۔۔۔ یا دشمنوں کے قبضے میں …. محب اللہ نے کشن کھینچ کر اس کو مارا۔ جسے عادل نے ہنستے ہوۓ کیچ کیا۔
    *****

    ہوا خاصی خوش گوار محسوس ہورہی تھی ۔ کچھ یہ کہ آج آفس میں سیلری بڑھنے کا مژدہ سنا، پھر اپنی پروموشن سے متعلق کچھ باتیں بھی اڑتی اڑتی کانوں میں پڑیں سوسب کچھ بہت اچھا لگ رہا تھا- گھر تک پہنچنے کے لیے ابھی مزید پندرہ منٹ کی واک تھی ۔ یونہی دل کیا ، واک کو تھوڑا لمبا کیا جاۓ۔ سوموڑ سے واپس گھوم کر آنے کا پروگرام بنایا۔ اردگرد کے مناظر اور ہنستے کھیلتے بچوں کے درمیان سے گزرتے ۔ اپنے نام کی پکار پر وہ بے ساختہ ٹھکا۔ کسی درخت کے پیچھے سے اچا نک ہی سائیکل خان برآمد ہوا۔ احسن بھائی ….. حسن بھائی…. شکر ہے آپ مل گیا۔ تم….مجھے ڈھونڈ نے کے لیے یہاں چھپے بیٹھے تھے۔ احسن نے عین اپنے سامنے رستہ روکے کھڑے سائیکل خان کو دیکھ کر حیرت سے کہا۔ نہیں بھائی …..ام تو ٹیکسی کا انتظار کر رہا ہے اتنی دیر سے- تومیں تمہیں ٹیکسی نظر آ رہا ہوں ؟ احسن نے آنکھیں سکیٹرتے اس کو دیکھا۔ احسن بھائی ….. مذاق نہیں کرو یار ۔ اس نے دانت نکالے۔ امارا مدد کرو۔ اچھا بتاؤ ….. کہاں جانا ہے ٹیکسی میں؟ احسن سنجیدہ ہوا- گھر جانا ہے اور کدر جائے گا۔ سائیکل کچھ برا مان گیا۔ یہ چار قدم پرجانے کے لیے نواب صاب کو ٹیکسی چاہیے۔۔۔۔۔ واہ جی ۔ احسن بس سوچ کر رہ گیا- ٹیکسی کا کیا کرنا ہے۔ چلو، پیدل ہی چلتے ہیں۔ میں بھی گھر ہی جا رہا ہوں۔ …..او صاحب…… سائیکل نے سر پر ہاتھ مار کر گویا اس کی کم عقلی کا ماتم کیا۔ امارا ساتھ میری با جی ہے۔ ۔ اس کا پاؤں میں موچ بھی آ گیا ہے اور اس کا جوتا بھی ٹوٹ گیا ہے اس لیے ٹیکسی کا تلاش تھا۔ سائیکل ایک طرف اشارہ کرتے ہوۓ بولا۔ احسن نے اس سمت دیکھا جدھر سائیکل نے اشارہ کیا تھا۔ وہاں درخت کے نیچے میرب بیٹھی دونوں کی گفتگوسن رہی تھی۔ یہ آج کے دن کا ایک اور خوش گوار واقعہ تھا۔ تب ہی سڑک پار دوسری طرف سائیکل کو ٹیکسی نظر آئی جس میں سے کچھ سواریاں اتر کرغالبا ڈرائیور کو کرایہ وغیرہ دے رہی تھی۔ احسن بھائی، آپ ادر رکو میری باجی کا پاس، ام دہ ٹیکسی لاتا ہے۔ سائیکل بے اختیار اس سمت بھاگا۔ احسن چند قدم آگے بڑھ کر میرب کے قریب ہوا۔ سلام میں پہل میرب نے کی۔ احسن نے مسکرا کر جواب دیا۔ درخت کی اوٹ میں ایک جوتا پہنے، دوسرا ہاتھ میں پکڑے وہ احسن کی جانب متوجہ تھی۔ آپ، اس دن اتنا بوکھلا کیوں گئے تھے۔ نام تک بتاۓ بغیر چلے گئے ۔ وہ شکوہ جو میرب کے دل میں تھا۔ زبان پر آگیا۔ نہیں …… بوکھلایا نہیں تھا۔ بس یونہی ۔ وہ خاموش ہوا۔ پھر اس کے پاؤں کی طرف دیکھا۔ یہ دو، دو حادثات ایک ساتھ ہی پیش آ گئے؟ احسن نے موچ اور جوتے کی طرف اشارہ کیا۔ جی ….. وہ مسکرائی ۔ جوتا نکل گیا تھا مجھے پتا ہی نہیں چلا۔ بس ایک دم ٹھوکر لگی اور پاؤں مڑ گیا۔ اس نے وضاحت کی۔ ویسے آپ نے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے۔ احسن بولا۔ یہاں درخت کے نیچے بیٹھنےکا….؟ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ نہیں…. ایک بے ساختہ سی مسکراہٹ احسن کے ہونٹوں پر رینگ کرسمٹی۔ میں پاکستان میں رہنے کے حوالے سے بات کر رہا ہوں ۔ آپ کی نانی کو یقینا اس عمر میں کسی اپنے کے ساتھ کی ضرورت ہے۔ اچھا…… میرب کچھ سوچتے ہوۓ بولی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ میں ایک برائٹ فیوچر کو لات مار رہی ہوں اپنے پسماندہ ملک میں رہنے کا فیصلہ کر کے ۔۔۔ یہ ، جس کا بھی خیال ہے بالکل غلط ہے۔ مادی اور مالی اعتبار سے چاہے ہمارا ملک اتنا ترقی یافتہ نہ ہو، پر رشتوں ناتوں اور محبتوں میں ہم آج بھی سب سے امیر ہیں۔ میرب نے ذرا کی ذرا نظر اٹھا کر احسن کی سمت دیکھا۔ وہ اس کے ہاتھ میں پکڑے جوتے کو دیکھ رہا تھا۔ آپ کو اچھا لگ رہا ہے تو آپ لے لیں۔ اس نے جوتا احسن کی سمت بڑھایا۔ آنکھوں میں واضح شرارت کی چمک تھی۔ نہیں شکریہ… وہ اس کی شرارت سمجھ کر مسکرایا۔ کسی لڑکی سے جوتا وصول کرنا، پاکستان میں کچھ زیادہ اچھا شگون نہیں سمجھا جاتا۔ اچھا، ایک بات بتائیں۔ میرب بولی۔ پوچھیں ، آپ نے بھی کوشش نہیں کی کسی فارن کنٹری جانے کی؟ نہیں …. بلکہ اس سلسلے میں اگر کسی نے بات کی بھی تو میں نے سوچنے کے لیے دوسرا منٹ نہیں لیا فوراً انکار کیا۔ حالانکہ یہاں تو بہت سے لوگوں کا خواب ہوتا ہے۔ برائٹ فیوچر کے لیے باہر سیٹل ہونے کا۔ اپنوں کے بغیر تو انسان کا کوئی فیوچر ہی نہیں ہوتا، برائٹ ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔ اور ویسے بھی میں اپنے گھر اور گھر والوں سے زیادہ دور نہیں رہ سکتا۔ احسن نے بات ختم کی۔ بہت اچھے خیالات ہیں آپ کے، جان کر خوشی ہوئی مجھے- میرب واقعی متاثر ہوئی تھی۔ میں خود بھی بہت اچھا ہوں۔ اپنے خیالات کی طرح مجھے جان کر آپ کو اور بھی زیادہ خوشی ہوگی۔ وہ شرارت سے کہتا اٹھا کہ سائیکل ٹیکسی لے کر آ گیا تھا۔ میرب خاموشی سے اس کی پشت دیکھتی رہ گئی ۔ جو بہت قریب آ کر دور ہورہا تھا۔
    (ختم شد)
Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

Working...
X