Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

سونا چاندی اور تانبا

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Life Story سونا چاندی اور تانبا

    تیسری دفعہ بھی دستک دینے پر جب کوئی جواب نہ آیا تو شجاعت نے واپسی کے لیے قدم بڑھا لیے۔ اچانک سامنے سے گڈو بھاگتا ہوا آیا۔
    شجو بھیا واپس کیوں جارہے ہیں؟ آئے نا…. یہ کہ کر گڈو نے ایک زور دار لات دروازے کو رسید کی۔ دروازہ شاید کسی اینٹ سے بند کیا گیا
    تھا۔ اس کے دونوں پٹ ایک ہی جھٹکے سے کھل گئے ۔ سامنے ہی سلمی زور شور سے برآمدے میں جھاڑو لگا رہی تھی ۔ اس پر نظر پڑتے ہی فورا دو پٹہ درست کیا اور دھیرے سے بولی ۔ السلام علیکم – شجاعت بھیا۔ تشریف لائیں ۔
    شام کے چار بجے صفائی کا یہ کون سا ٹائم ہے ۔ شجاعت نے اس کے سلام کا جواب دیتے ہوۓ کوفت سے سوچا- یہ سامنے کمرے میں تائی حمیداں پلنگ پر تشریف فرما تھیں ۔ شجاعت کو دیکھتے ہی وہ گرم جوشی سے آگے بڑھیں ، اس کا حال چال پوچھا اوراپنے پاس ہی بیٹھنے کے لیے جگہ بنائی۔ شجاعت سعادت مندی سے ان کے قریب بیٹھ گیا۔ اس نے ایک طائرانہ نظر کمرے پر ڈالی ۔ کمرہ صاف ستھرا اور ہر چیز قرینے سے سیٹ تھی ۔ مگر نیچے چھوٹی سی چٹائی پر شا پنگ بیگز اور کپڑوں کا ڈھیر رکھا تھا-
    تھوڑی دیر بعد سلمیٰ کمرے میں داخل ہوئی ۔ اس کے ہاتھ میں چھوٹی سی ٹرے تھی جس میں ایک گلاس مشروب اور ایک پیالی میں نمکو رکھی تھی۔ اس نے ٹرے شجاعت کے سامنے کی تو اس نے ہاتھ بڑھا کر گلاس تھام لیا۔ شکریہ-
    سلمیٰ آج تم کام کر رہی ہو؟ اس نے مسکرا کر دریافت کیا-
    میں آج کل بی اے فائنل کی تیاری کر رہی ہوں ۔ سلمی نے دھیمے لہجے میں جواب دیا۔ اور شجو بھیا میں نے پانچویں میں وظیفہ لیا ہے ۔ ننھا گڈو کمرے میں داخل ہوتے ہوئے چہکا۔ واہ بھئی گڈو- تم نے تو کمال کر دیا۔ شجاعت نے اس کو پیٹھ تھپکتے ہوۓ داد دی۔
    تائی حمیداں اس سے باقی گھر والوں کا حال چال دریافت کرنے لگیں۔ وہ چونکہ پچھلے سال سے مسقط میں تھا۔ اس لیے جب سال دوسال بعد پاکستان کا چکر لگاتا تو تمام رشتے داروں کے ہاں ملنے ملا نے ضرور جاتا ۔ پہلی دفعہ جب وہ آیا تھا تو آتے ہی ڈینگی بخار نے گھیر لیا۔ واپس جانے کے دن تک وه با مشکل صحت یاب ہو پایا۔ اس لیے کہیں بھی نہیں جا پایا۔ مگر اس دفعہ اس نے دل میں یہ عہد کیا تھا کہ وہ تمام عزیزوں سے ضرور مل کر آئے گا۔ تانی حمیداں کا گھر اس کے لیے اس وجہ سے بھی زیادہ مانوس تھا کیونکہ سارا بچپن اس نے ان کے آنگن میں گلی ڈنڈا اور آنکھ مچولی کھیلتے گزارا تھا۔ سلمی پے بڑے آفاق بھائی کے ساتھ اس کی گاڑھی چھنتی تھی۔ پھر اچانک ایک حادثے میں آفاق اللہ کو پیارے ہو گئے تو اس آنگن سے اس کو بے حد خوف آنے لگا ۔اس نے تائی حمیداں کے گھر آنا ہی چھوڑ دیا-
    وقت سب سے بڑا مرہم ہے۔ آہستہ آہستہ اس کیفیت میں کمی آتی گئی اس دوران اس کی مسقط میں
    جاب ہوگئی۔ اس نے سر ہلا کر تمام سوچوں کو ذہن سے جھٹکا اور تائی حمیداں کی طرف متوجہ ہوا جو اس سے وہاں کے حالات اور نوکری کی بابت دریافت کر رہی تھیں ۔ نیچے چٹائی پرسلمیٰ اور گڈو بیٹھے کپڑوں کو شاپنگ بیگزمیں سیٹ کر رہے تھے۔ آپ لوگوں نے اتنی خریداری کرلی ہے اس نے حیرت سے مسکرتے ہوۓ پوچھا۔
    ارے نہیں بیٹا- یہ تو ہم لوگ اجرت پر پیک کرتے ہیں۔ کچھ اضافی آمدنی ہو جاتی ہے ۔ تائی حمیداں نے ہچکچاتے ہوۓ بے حد پست آواز میں بتایا-
    اس کو حیرت اور صدمے نے کنگ کر دیا۔ وہ یہ تو جانتا تھا کہ تائی حمیداں کے حالات کچھ خراب ہیں کیونکہ ایک عرصے سے ان کی زمینوں کا مقدمہ چل رہا تھا مگر اتنے زیادہ خراب ہیں۔ یہ وہ ہرگز نہیں جانتا تھا۔ اس کو اپنی بے خبری اور بے حسی پر سخت غصہ آیا۔
    تائی حمیداں نے اس کو کھانے پر روکنے کی بہت کوشش کی مگر وہ بوجھل دل کے ساتھ وہاں سے اٹھ آیا-
    ********


    ابھی اپریل کیا وسط تھا مگر گرمی اور دھوپ میں اچھی خاصی شدت تھی ۔ سڑک کے کنارے کنارے جو چند ایک ٹنڈ منڈ درخت تھے وہ نا کافی سایہ فراہم کر رہے تھے ۔ وہ پچھلے چالیس منٹ سے شہر جانے والی بس کا انتظار کر رہی تھی ۔ یہ کوٹ باغاں والی کا بے رونق سا اسٹاپ تھا۔ چند ماہ پہلے یہاں کے واحید ھائی اسکول میں اس کی تقرری بطور لیب اسٹنٹ ہوئی تھی ۔ اسکول میں اس سمیت کل پانچ خواتین ملازم تھیں ۔ جن میں سے تین تو اس گاؤں کی رہائشی تھیں ۔ ایک قریبی گاؤں سے آئی تھی ۔ سب سے زیادہ فاصلے پراسی کا گھر تھا۔ اور نوکری سے زیادہ اس آنے جانے کی مشقت نے اس کو نڈھال کر رکھا تھا۔ اگر چہ رکشے وغیرہ کی سہولت سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا اور وہ کبھی کبھار ایسا کر بھی لیتی تھی۔ مگر روز روز رکشہ افورڈ نہیں کرسکتی تھی۔ کیونکہ اگر ایسا کرتی تو پھر اس کا کرایہ اس کی ماہانہ تنخواہ کے نصف سے ہی زیادہ بنتا جبکہ فی الحال وہ اتنی عیاشی کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی۔
    خدا خدا کر کے بس کی آمد ہوئی۔ وہ اپناسیاہ عبایا سنبھالتی ہوئی آگے بڑھی اور بس میں سوار ہوگئی۔آج چونکہ جمعہ تھا اس لیے بس میں رش بہت کم تھا۔ کیونکہ جمعہ کے روز بازار بند ہوتے تھے اس لیے گاؤں کے بہت کم لوگ شہر جانے کے لیے نکلتے تھے ۔ ورنہ عام دنوں میں با مشکل ہی سیٹ ملتی تھی۔ آج سے ایک ڈیڑھ سال پہلے زندگی اتنی مشکل تھی۔ وہ اپنی دوعدد چھوٹی بہنوں اور اماں ابا کے ہمراہ ایک سادہ مگر پرسکون زندگی گزار رہی تھی۔ ابا جان ایک پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ وہ تینوں بہنیں زیرتعلیم تھیں ۔ جس دن وہ بی اے فائنل کا آخری پیپر دے کر گھر لوٹی تو سامنے صحن کے بیچوں بیچ ابا کا بے جان لاشہ پڑا تھا۔ وہ اسکول میں ہی چکرا کر گرے تھے اور پھر کسی بھی طبی امداد ملنے سے پہلے ہی اس جہان فانی سے کوچ کر گئے ۔ وہ اماں اور دونوں بہنوں کے ساتھ کئی دنوں تک صدمے سے بت بنی رہی ۔مستبقل ایک سوالیہ نشان کی طرح سامنے کھڑا تھا۔ پھر پتا نہیں کس طرح ان سب نے مل کر ایک دوسرے کو سنبھالا اور ایک دوسرے کے سہارے سے زندگی کا سفر شروع کیا۔ مالک مکان اچھے لوگ تھے۔ ابا جان کے گزر جانے کے بعد انہوں نے کئی ماہ کا کرایہ نہ لیا پھر اس کو
    ابا جان کے محکمے میں ہی ملازمت مل گئی ۔
    بس ایک جھٹکے سے رکی تو وہ اپنی سوچوں کے گرداب سے باہر آتے ہوۓ اترنے لگی ۔ لمبی پتلی گلی سے گزرتے ہوئے اس کا سامنا شجاعت سے ہوا۔ وہ اس کے مالک مکان کا بیٹا تھا۔ وہ دل ہی دل میں اس کی شرافت اور متانت کی قائل تھی ۔ایک ہی گھر کے دو پورشن میں اوپر نیچے رہتے ہوۓ بھی بھی سواۓ ایک آدھ جملے کے ان کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی ۔ پھر یوں براہ راست سلام دعا کا تو قطعی رواج نہ تھا اس لیے دونوں اجنبیوں کی طرح ایک دوسرے کے پاس سے گزر گئے۔
    *********
    جونہی شجاعت گھر میں داخل ہوا تو سامنے ہی برآمدے میں اس کی ماموں زاد نائلہ اور چھوٹی بہن حمنہ سر جوڑے گفتگو میں مصروف تھیں ۔ کیا بتاؤں حمنہ- پتا نہیں کس طرح تیل کے چھینٹے اڑ کر میرے سوٹ پر پڑے اور تین ہزار کا سوٹ غارت ہو گیا۔ نائلہ نے افسردہ لہجے میں بتایا۔ زیادہ پریشان نہ ہو کسی اچھے ڈرائی کلین والے کو دکھا کر دیکھ لو ۔ حمنہ نے ہمدردی سے مشورہ دیا-
    آپی کی شادی سر پر ہے اور میرے دو دوپٹے ابھی تک رنگ ساز کے پاس ہیں، سینڈل میچ ہونی باقی ہیں ۔ حمنہ نے بھی اپنا دکھڑا رویا۔


    جو بھی سوٹ دل سے بناؤں ۔اس کے ساتھ پیشہ ہی کوئی نہ کوئی گڑ بڑ ہو جاتی ہے ۔ نائلہ نےغمگین لہجے میں بتایا۔ کیا ہورہا ہےلڑکیوں- کیوں پریشان ہو؟ شجاعت نے قریب رکھی کرسی پر بیٹھتے ہوۓ پوچھا۔ کیا بتا ئیں شجاعت بھائی- بس ٹینشن ہی ٹینشن ہے۔ ہمارے کپڑے جوتے سب ادھورے ہیں ۔ نائلہ نے اپنی نازک کی ناک چڑھا کر کہا۔ تم لوگ اپنی چھوٹی سی بات پر پریشان ہو جاتی ہو۔ خیر یہ بتاؤ کہ اماں جان کدھر ہیں؟ اس نے ادھر ادھر دیکھتے ہوۓ کہا۔
    وہ پچھلے کمرے میں موجود ہیں ۔ اور تھوڑی دیر پہلے آپ کو ہی یاد کر رہی تھیں ۔ حمنہ نے اطلاع دی-
    شجاعت جب پچھلے کمرے میں داخل ہوا تو اماں کافی سامان پھیلائے بیٹھی تھیں۔ ایک طرف زیورات کے ڈبے بکھرے تھے اور دوسری طرف چمکتے دمکتے ملبوسات پلنگ پر قرینے سے رکھے تھے۔اماں نہایت احتیاط سے سب کچھ سمیٹ رہی تھیں ۔ اس کو آتا دیکھ کر شفقت سے مسکرائیں۔ دیکھو- شجاعت – عالیہ کی شادی قریب ہے اور ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ سمدھن کے سوٹ لانے ہیں ۔ سوطرح کے اور بھی کام ہیں۔
    آپ پریشان نہ ہوں ۔ مجھے کام بتائیں۔ میں آج کل فارغ ہوں ۔ شجاعت نے پرخلوص پیشکش کی۔ جیتے رہو بیٹا- تم خودسال دو سال بعد تھکے ہارے نوکری سے آتے ہو۔ چند دن آرام کرلو۔ اماں نے ممتا بھری فکر مندی سے کہا۔ اور ہاں عالیہ کی شادی کے بعد میں تمہارے
    بارے میں بھی کوئی فیصلہ کرنا چاہتی ہوں خاندان اور خاندان سے باہر کتنے ہی لوگ ہیں۔ اگر تمہارا جھکاؤ کسی طرف ہے تو بلا جھجک بتادو۔ میں تمہارے انتخاب کوہی ترجیح دوں گی ۔ اماں نے دوستانہ انداز
    میں کہا۔
    شجاعت نے ایک طائرانہ نظر کمرے پر ڈالی تو سامنے ہی زیورات کے ڈبے کھلے نظر آۓ ۔ سونے ، چاندی ، اور مصنوعی زیورات جگمگارہے تھے اور دیکھنے والے کی نظروں کو خیرہ کر رہے تھے۔ زیورات سونے کے بھی تھے چاندی کے بھی اور کچھ مصنوعی بھی جو سونے چاندی سے بھی زیادہ پرکشش لگ رہے تھے۔ شجاعت نے ان زیورات کی چمک کو آنکھوں میں سموتے ہوۓ سوچا کہ انسان بھی تو ان زیورات کی طرح ہی ہوتے ہیں۔ سونے جیسے، چاندی سے جیسے یا پھر بالکل مصنوعی ، اس کی نظروں کے سامنے ثریا اور تائی حمیداں کے محنت کش چہرے لہراۓ جو اپنی عزت نفس کوکسی قیمتی متاع کی طرح سنبھالے دن رات مشقت کی چکی میں پیستے ہیں اور ساتھ ہی اسکول سے تھکی ہاری واپس آتی سیاہ عبایا میں ملبوس لڑکی کا سراپا بھی جوتن تنہا اپنی اور اپنے خاندان کی بقا کی جنگ
    لڑ رہی تھی۔
    اس کے خیال کی پرواز حمنہ اور نائلہ تک بھی گئی جوانتہائی معمولی باتوں پر پریشان تھیں۔ جن کو کبھی گرم ہوا نے بھی نہ چھوا تھا۔ وہ ٹینشن، کا لفظ اتنی بے تکلفی سے استعمال کرتی تھیں حالانکہ ان کو ٹینشن کے معنی بھی معلوم نہیں تھے ان کو تو حقیقت میں پتا بھی نہیں تھا کہ ٹینشن کہتے کسے ہیں۔
    یہ قدرت کی تقسیم ہے۔ کسی کے لیے زیادہ آزمائش اور کسی کے لیے کم ۔ان آزمائشوں سے گزرکرہی انسان سونا، چاندی، پیتل اور تانبا بنتے ہیں ۔اور اس سے بھی بڑی آزمائش ان کا انتخاب۔ یہ اب انسان کی مرضی ہے کہ وہ اپنے لیے سونا چنے ، چاندی یا پھر تانبا انتخاب کا حق اس کا اپنا ہے ۔ اور بہترین انتخاب اس کی ذہانت اور قسمت دونوں سے ملتا ہے۔(ختم شد)



  • #2

    دلچسپ اور بہت ہی زبردست کہانی ۔​

    Comment

    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

    Working...
    X