Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

آرزوؤں کی فصل

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Classic Story آرزوؤں کی فصل

    وقت کے ساتھ حالات بدلتے رہتے ہیں۔ آنے والے کل کے بارے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ دادا، دادی کے فوت ہوتے ہی ہمارے پیار کی دنیا میں بھی بھونچال آ گیا، گویا جن دھاگوں میں رشتوں کے موتی پروئے ہوئے تھے وہ ٹوٹ گئے اور خاندان کا شیرازہ بکھر گیا۔ اب جائیداد کے تنازعے نے سر اٹھایا۔ والد صاحب اور چچا جان میں تبھی جدائی پڑ گئی اور ہمارا گھر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ صحن کے بیچ دیوار اٹھا دی گئی۔ بڑوں کے اختلاف کی سزا ہم بچوں کو ملنے لگی۔ ہم جو بچپن سے ایک صحن میں کھیل کر جوان ہوئے تھے ، جدا کر دیئے گئے۔ جائیداد کا تنازعہ برسوں چلا۔ اس دوران میں ، شمل بھائی اور نازو، دکھ اور اذیت کی سولی پر لٹکتے رہے۔ ہمیں آپس میں بات کرنے تک کی اجازت نہ تھی۔ بھائی شمل کی منگنی نازو سے ہو چکی تھی۔ تنازعے کو سولہ سال ہو گئے تو والدہ نے بیٹے کی شادی کسی اور لڑکی سے کرنا چاہی، مگر بھائی کسی صورت راضی نہ ہوئے۔ ہمیں ایک کر دینے کے منصوبے بھی بزرگوں نے بنائے تھے اور اب ہمارے پیار کی جوت کو بجھانے میں بھی وہی پیش پیش تھے۔ نازو نے گھر والوں کی ہر زیادتی جبر اور دبائو کو برداشت کیا لیکن ہتھیار نہ ڈالے ، وہ کسی اور سے شادی پر آمادہ نہ ہوئی۔ اسے یقین تھا کہ تنازعہ ختم ہو جائے گا اور ہم ایک ہو جائیں گے۔ ہماری دعائیں قبول ہوئیں ، سارے جھگڑے سمٹ گئے۔ قدرت نے خود ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ ٹوٹے ہوئے رشتے تجدید پاگئے اور ناز و اور شمل بھائی کی شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ سوکھے دھانوں پانی پڑ گیا۔ امیدوں کی خزاں رسیدہ کھیتی لہلہانے لگی۔ نازو بھا بھی بن کر ہمارے گھر آگئی۔ برسوں کی اذیت ختم ہوئی اور بھائی کی زندگی حسین سپنے میں ڈھل گئی۔ نازو کی قسمت اچھی تھی کہ اس سے شادی ہونے کے بعد شمل بھائی کے کاروبار میں خوب ترقی ہوئی۔ ہم نے بنگلہ بنالیا اور گاڑیاں بھی خرید لیں۔ نازو کی زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں تھیں، کوئی کمی تھی تو بس یہ کہ ہمارا آنگن کسی معصوم بچے کی کلکاریوں کے بغیر سونا سونا تھا لیکن ہم قدرت سے نا امید نہ تھے کہ اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں ۔ چار سال تو انتظار میں نکل گئے۔ اب امی بہو کو لے کر ڈاکٹروں کے پاس پھرنے لگیں، علاج معالجے ہوئے، سبھی ڈاکٹر ز کہتے کہ ان میں کوئی طبی نقص نہیں ہے۔ اللہ کی طرف سے دیر ہے۔ کسی نہ کسی دن آپ لوگوں کی امید بر آئے گی اور ان کی گود ہری ہو جائے گی۔ہم بھی اسی امید پر جی رہے تھے ، یہاں تک کہ بھائی کی شادی کو سات برس گزر گئے اور آرزوؤں کی فصل خشک ہی رہی۔ نازو بھابھی نے بھی امید کا دامن چھوڑ دیا۔ کہتیں، انعم اتنے برس اولاد نہ ہوئی تو اب کیا ہو گی۔ شاید یہ خوشی ہماری قسمت میں نہیں… اس نے علاج معالجہ کرانا بھی ترک کر دیا۔ جب سے وہ ناامید ہوئی، اس کو گھن لگ گیا۔ ہر وقت چپ چپ رہتی۔ اولاد کی کمی تو بھائی بھی محسوس کرتے تھے لیکن وہ مرد تھے ، ان کے لئے باہر کی بھری پری دنیا موجود تھی۔ وہ سارا دن باہر گزار کر گھر آتے ، کھانا کھاتے اور نیند کی آغوش میں چلے جاتے لیکن نازو گھر میں اکیلی رہنے کی وجہ سے تنہائی کے عذاب سے دوچار تھی۔ وہ اب گھر کی دیواروں سے باتیں کرتی تھی۔ میری شادی ہو گئی تھی میں اپنے گھر اور بال بچوں میں مصروف تھی۔ اولاد کی پیاس بھی کیا چیز ہے یہ تو کوئی ممتا سے پوچھے جبکہ امی جان کو بھی آنگن کا سونا پن کا کاٹنے کو دوڑتا تھا۔ نازو کو گھل گھل کر مرتے دیکھ شمل بھائی بھی فکر مند رہنے لگے۔ سوچا اس کا کوئی حل نکالنا چاہئے۔ میں نے کہا۔ آپ لوگ کسی بچے کو گودے لے لیں۔ اس پر ناز و بولی۔ کس کا بچہ ؟ کون ماں ہو گی جو اپنی گود خالی کر کے میری جھولی بھر دے۔ اس کا کہنا درست تھا۔ ہم کافی دن تک اسپتالوں، یتیم خانوں اور لاوارثوں کے نشیمن میں مارے مارے پھرے مگر ہمیں کوئی ایسا بچہ نہ ملا جس کو ہم گود لے سکتے۔ اس روز ہم نازو کی خالہ کے گھر جارہے تھے، جنہوں نے نویں بچی کو جنم دیا تھا۔ ان کے میاں کی تنخواہ اتنی کم تھی کہ وہ اپنے بچوں کو پیٹ بھر کھانا نہیں کھلا سکتی تھیں۔ غربت کے سبب آدھے پیٹ بھو کے رہتے تھے۔ یہ قدرت کی شان کہ جہاں بچوں کی ضرورت نہ تھی، وہاں یہ نعمت برس رہی تھی اور ایک ہم تھے کہ ہمارے بھائی اور بھا بھی ایک بچے کو ترس رہے تھے۔ صبح کا وقت تھا۔ ٹریفک کا ہلکا ہلکارش تھا۔ ہماری گاڑی آہستہ رفتار سے چل رہی تھی۔ نازو میرے ساتھ بیٹھی تھی۔ اچانک سامنے والی گلی سے دو بچے نکلے اور سڑک پر آگئے۔ صبح کے وقت ہر کسی کو اپنی منزل پر پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے لیکن اس ویگن والے کو کچھ زیادہ جلدی تھی، اس نے ہماری گاڑی کو اوور ٹیک کیا اسی لمحے بچے دوڑتے ہوئے ویگن کے عین سامنے آگئے۔ میری بھابھی ان بچوں کی معصوم صورتوں کو دیکھ رہی تھی۔ وہ ان کی معصومیت میں کھوئی ہوئی تھی کہ اچانک ان کی خوفزدہ چیخیں فضا میں بلند ہوئیں۔ نازو نے اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ لئے۔ وہ یہ نظارہ نہیں دیکھ سکیں ۔ ویگین ان پھولوں کو روند کر جا چکی تھی اور اب سڑک پر خون ہی خون بکھر اہوا تھا۔ لمحہ بھر کو شمل بھائی نے گاڑی روکنا چاہی مگر اطراف سے لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہونے لگا تو انہیں گاڑی آگے بڑھانا پڑی۔ میں جانتی تھی کہ نازو اس معاملے میں کتنی حساس ہے لہذا بھائی نے یہی مناسب سمجھا کہ جائے حادثہ کے قریب رکنے سے بہتر ہے ، گاڑی کو آگے لے جائیں۔ وہ وہاں ٹھہر جاتے تو یقین تھا نازو ہی کو اسپتال میں داخل کروانا پڑتا۔ اس کی آنکھوں سے ابھی تک آنسو بہہ رہے تھے اور وہ بڑ بڑارہی تھی۔ آہ! کتنے پیارے بچے تھے ، کتنے پیارے ، خوبصورت تھے۔ ماں نے چائو سے ، بال سنوار کر اور اجلے یونیفارم پہنا کر انہیں اسکول روانہ کیا تھا۔ اس روز ہم خالہ کے گھر جانے کی بجائے رستے سے ہی مڑ کر واپس آگئے کیونکہ اس بھیانک حادثے کو دیکھ کر ہم لوگوں کی حالت نارمل نہ رہی تھی۔ ناز و تو گھر آتے ہی بستر پر گر گئی تھی۔ اس کے بعد بھی کافی دن افسردہ رہی۔ اس کی نگاہوں میں انہی بچوں کی شکلیں گھومتی رہتی تھیں۔ یہ جمعہ کا دن تھا۔ اس روز چھٹی تھی۔ میں نے پوچھا۔ تم خالہ کی بچی کو گودے لے رہی تھیں ، اس پروگرام کا کیا بنا؟ وہ بولی۔ چلو آج چلتے ہیں، ہم سب تیار ہو کر خالہ کے گھر چل دیئے۔ ان کی پیاری سی منی کو گود میں بھر کر وہ اتنی مسرور ہوئی کہ دنیا کا ہر غم بھول گئی۔ خالہ آپ کیا کہتی ہیں، میں آج لے جائوں اس کو ؟ آج نہیں نازو۔ آج اس کو بخار چڑھا ہے ، اس کی طبیعت اچھی نہیں، تم سے سنبھالی نہ جائے گی۔ ذرا اس کی طبیعت ٹھیک ہو جائے پھر لے جانا۔ نازو بجھ گئی۔ اس نے پوچھا۔ پھر کب خالہ ! ایک ماہ بعد ۔ خالہ نے جواب دیا۔ واپسی میں نازو ٹوٹے ہوئے لہجے میں مجھ سے پوچھ رہی تھی۔ اللہ جانے ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ کہیں تو اتنے بچے کہ ماں باپ انہیں پیٹ بھر کھلا نہیں سکتے اور نہیں ہم جیسے ترس رہے ہیں۔ نازو صبر کرو۔ خدا بہتر کرے گا۔ بس دعا کرو کہ وہ ہم کو کسی آزمائش میں نہ ڈالے۔ ہم ایسے ہی ٹھیک ہیں۔ میں نے اس کا ہاتھ نرمی سے اپنے ہاتھ میں لے کر دبایا۔ اس کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ ہیں اس کے دل کی کسک کو محسوس کر سکتی تھی۔ میں نے کہا۔ تم افسردہ مت رہا کرو۔ میں تم کو اداس دیکھ کر بے چین ہو جاتی ہوں۔ وہ بولی۔ میں چھوٹی سی تھی، تب بھی اداس رہتی تھی۔ تم بہنیں آپس میں کھیلتیں، تو سوچتی تھی کہ کاش میری بھی کوئی بہن ہوتی۔ تب ہی سے میری اداس رہنے کی عادت بن چکی ہے۔ میں تب بھی تنہا تھی اور آج بھی تنہا ہوں۔ چھوٹے بہن بھائی کو وہی جھولا جھلانے کی آرزو ہے جو نہیں ملتی۔ نازو چچی کی اکلوتی بچی تھی وہ شروع سے تنہا رہی اور اب اس کا کڑھنا بجا تھا۔ پہلے میں ، پھر شمل بھائی اس کی تنہائی کے ساتھی بنے لیکن اس کے ممتا بھرے ارمانوں کی تسکین ابھی باقی تھی۔ میں نے اس کی جانب دیکھا وہ آنچل سے اپنے آنسو صاف کر رہی تھی شاید خالہ کے گھر سے خالی ہاتھ لوٹ آنے کا اس کو بہت دکھ پہنچا تھا۔ میں نے کہا۔ ناز و میری جان! اس قدر دل شکستہ نہ ہو، اللہ سے اچھی امید رکھو۔ یہ دنیا امید پر قائم ہے۔ اس واقعہ کے پندرہ دن بعد خالہ اور خالو منی کو لے کر ہمارے گھر آ گئے۔ اس روز نازو کتنی خوش ہوئی تھی کیا بتائوں، جیسے اس کے لئے عید کا دن ہو۔ وہ خوشی سے پھولی نہیں سماتی تھی۔ منی کو اپنی بانہوں میں بھر کے سارے گھر میں ایسے گھوم رہی تھی، جیسے تمام جہان کی نعمتیں اسے مل گئی ہوں۔ خالہ کچھ ہدایتیں اور بیٹی نازو کے حوالے کر کے چلی گئیں ۔ اب نازو بیگم کو ہماری پرواہ کب رہی تھی۔ سارا دن وہ منی میں کھوئی رہتی۔ اس کا نام اس نے جانم رکھ دیا تھا۔ یہ گڑیا تھی چھوٹی سی ، مگر آفت کی پر کالا تھی۔ نازو فیڈر دھو کر دودھ بناتی، اس کے منہ کو لگاتی وہ دو گھونٹ لے کر فیڈر پرے کر دیتی اور زور زور سے چلانے لگتی، جیسے اسے پتا چل جاتا ہو کہ یہ ہاتھ اس کی ماں کے نہیں ہیں۔ تمام دن وہ نازو کے ساتھ یو نہی آنکھ مچولی کھیلتی اور بھا بھی جی کی سمجھ میں کچھ نہ آتا کہ اس بچی کو بھوک لگی ہے یاں پیٹ درد سے بے حال ہے منٹ منٹ پر نیکن گیلے کر دیتی جانے ، دن میں کتنے کپڑے گندے کرتی۔ کبھی الٹی کر دیتی، کبھی کبھی تو نازو کو ابکائیاں آجاتیں لیکن کیا کرتی، جب بچی گود لی تھی تو اس کو پالنا ہی تھا۔ کوئی اچھی ، کام کی آیا بھی نہ مل رہی تھی۔ ایک ماہ اسی طرح گزر گیا خالہ بچی کو دیکھنے آگئیں۔ آتے ہی ہائے ہائے کرنے لگیں۔ ارے یہ کیا کر دیا اور یہ کیا کر رہی ہو۔ بچے ایسے پالے جاتے ہیں بھلا؟ غرض خالہ تو ٹھہریں بچوں کے معاملے میں ایکسپرٹ ، انہوں نے بچاری اناڑی بھانجی کو بوکھلا کر رکھ دیا۔ وہ شام تک رہیں، جب تک کہ نازو کا ان کی ہدایتوں سے سانس نہیں پھول گیا۔ اب خالہ دوسرے تیسرے دن کسی انسپکٹر کی طرح معائنہ کرنے اچانک ہی ہمارے گھر وارد ہونے لگیں۔ ایک تو سارے کھر کا کام ، اوپر سے اس ننھی منی سی جان کی پرورش اور خالہ کی چیکنگ، نازو چند ماہ میں سوکھ کر کانٹا ہو گئی۔ اس کی پہلی جیسی صورت نہ رہی۔ رات بھر بچی کے ساتھ جاگتی تو صبح آنکھوں میں حلقے پڑے ہوتے۔ شمل بھائی بھی اپنی بیوی کے بارے پریشان رہنے لگے لیکن نازو گڑیا سے اتنی مانوس ہو چکی تھی کہ اس سے جدا ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ رات کو سونے کے لئے لیٹتی تو جوڑ جوڑ دکھ رہا ہوتا۔ صبح چار بجے ہی بچی جاگ پڑتی اور رونا شروع کر دیتی۔ اس دن تو غضب ہو گیا۔ خالہ کے سامنے ہی منی کسی طرح کھسکتی کھسکتی پلنگ سے نیچے لڑھک گئی۔ ہلکی سی ٹھاہ ہوئی اور منی کی فلک شگاف چیخ بلند ہو گئی۔ نازو بھابھی باورچی خانے میں خالہ کے لئے چائے بنارہی تھی۔ حالانکہ خالہ گڑیا سے چند قدم کے فاصلے پر ہی براجمان تھی مگر گرتے ہوئے بچی نے کسی کو مہلت ہی نہ دی۔ خالہ نےلپک کر بچی کو قالین پر سے اٹھایا کلیجے سے لگایا اور دھاڑنے لگیں۔ تم میری پھول کی بیٹی کی کیسی پرورش کرتی ہو۔ یہ تک تم کو خبر نہیں کہ اتنے چھوٹے بچوں کو پلنگ۔ ک کے کنارے پہ نہیں لٹاتے ۔ ہائے روزانہ یہ معصوم جانے کتنی بار کرتی ہو گی۔ منی بھی ایسی استاد کہ گلا پھاڑ کر چلارہی تھی حالانکہ قالین پر گرنے سے چوٹ کم لگتی ہے مگر اس بچی کا مزاج بھی شاید اپنی ماں پر گیا تھا، جو رائی کو پہاڑ بنانے میں استاد تھیں۔ خالہ یہ روز تو نہیں گرتی ، بس آج ہی گری ہے۔ وہ بھی میں آپ کی خاطر چائے لینے گئی تھی۔ سوچ رہی تھی کہ آپ کمرے میں موجود ہیں ورنہ میں اس کو یوں اکیلا تو نہیں چھوڑتی۔ نازو کسی مجرم کی طرح صفائی پیش کر رہی تھی۔ اس نے لاکھ سمجھایا لیکن خالہ کسی طرح نہ مانیں۔ میں کچھ نہیں جانتی ،اب میں اپنی بچی کو لے کر ہی جائوں گی۔ اس کے بہن بھائی بھی اس کو یاد کرتے ہیں۔ ایسا غضب نہ کیجئے خالہ ، اگر آپ نے اس کو واپس ہی لینا تھا تو دیاہی کیوں تھا۔ بہن غلطی ہو گئی ، بس معاف کر دو، غربت امارت تو اللہ کی دین ہے مگر اپنی اولاد کو کوئی اس طرح نہیں پھینک دیتا۔ جس نے بچی دی ہے ، وہی اس کا رزق بھی دے گا۔ خالہ نے اک ذرا مہلت نہ دی اور بچی کو کلیجے سے لگائے چلتی بنیں۔ نازو بیچاری منہ دیکھتی رہ گئی۔ جب شمل بھائی گھر آئے تو فیڈر گود میں رکھے بھابھی نازو زار و قطار رو رہی تھیں۔ خالہ بچی لے گئیں۔ وہ دھاڑیں مارنے لگیں۔ بھائی نے تسلی دی سمجھایا کہ خالہ بڑی سیانی عورت ہے۔ چھ ماہ بچی کو تم سے پلوایا، صحت مند ہو گئی تو بیٹی کو لے گئیں۔ ان کا ارادہ شروع سے ہی ایسا تھا۔ تم رومت، صبر کرو ۔ کب تک صبر کروں ؟ اس نے رونا بند نہ کیا تو انہوں نے بھی اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا کہ خوب رو دھو لے گی تو جی ہلکا ہو جائے گا پھر یہ خود ہی چپ ہو جائے گی۔ آخر کار نازو چپ ہو گئی ۔ شاید اُس کا جی ہلکا ہو گیا تھا مگر دل کا بوجھ بڑھ گیا تھا۔ اب اس کی صحت تیزی سے گرنے لگی اور وہ بیمار رہنے لگی تب شمل بھائی ایک روز زبردستی اس کو اسپتال لے گئے ۔ لیڈی ڈاکٹر نے خوش خبری سنائی کہ آپ کی مسسز امید سے ہیں، تاہم ان کو کافی احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ ان کا کیس غیر معمولی نوعیت کا ہو گا جس میں بعض دفعہ عورت کی جان کو بھی خطرہ ہوتا ہے۔ اب نازو کے ماں بننے کی خوشی سے زیادہ سب کو اس بات کی فکر تھی کہ خدا اس کی جان کو سلامتی دے کیونکہ اسے یکدم بلڈ پریشر ہائی رہنے لگا تھا۔ نازو البتہ بہت خوش تھی اور پھولے نہیں سماتی تھی اس کا چہرہ ، ان دنوں آفتاب کی طرح چمکتا تھا۔ وہ دن بھی آگیا جس کا سارے خاندان کو انتظار تھا۔ ہمارے آنگن میں طویل اور تر سا دینے والی مدت کے بعد خاندان بھر کی آرزو کا پھول کھلنے والا تھا۔ نازو کو ایک ہفتہ پہلے ہی ڈاکٹر ز نے اسپتال میں داخل کر لیا تھا۔ وہ کسی قسم کا رسک لینا نہیں چاہتے تھے۔ وہ اس کو زیر نگرانی رکھے ہوئے تھے۔ تمام تر نگہداشت کے باوجود قدرت نے میرے بھائی کو منتوں مرادوں کے بعد بیٹے جیسی نعمت سے نوازا مگر میری جان سے پیاری بھابی نازو کو ہم سے چھین لیا۔ وہ بچے کو جنم دینے کے بعد چل بسی۔ میرے بھائی کی محبت کا تاج محل چور چور ہو گیا۔ جس نعمت کا اس نے اتنی شدت سے انتظار کیا وہ اس کو ملی بھی تو کس طرح کہ وہ اپنے بچے کو بانہوں میں لینے سے پہلے اس دنیا سے چل بسی۔ نرس نے مجھے اور میرے بھائی کو روتے دیکھا تو وہ بھی رو دی۔ قدرت کے کھیل نیارے ہوتے ہیں۔ آج سوچتی ہوں شاید اسی لئے خدا نے ہمیں اتنے عرصے تک اولاد نہیں دی تھی کہ ناز و کچھ عرصہ اور جی لے پھر تو اس کو چلے ہی جانا تھا۔ اس کی موت شاید اس کی زچگی میں واقع ہو نا تھی ، اسی لئے اللہ تعالی نے اس کے نصیب کی اولاد دینے میں تاخیر سے کام لیا تھا۔ دعا کرتی ہوں خدا میرے اکلوتے بھتیجے اور نازو کی نشانی کو سلامت رکھے ، جسے میں نے گود لے لیا تھا کیونکہ اس کی سوتیلی ماں اسے بہت دکھ دیتی تھی۔ شمل بھائی ہر ہفتہ آتے ہیں اور اپنے بیٹے سے مل جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ میری محبوب بیوی کی نشانی ہے۔ مجبورا والدین کے لئے دوسری شادی کی ہے ورنہ میں تو نازو کے بعد سے خود کو اکیلا ہی محسوس کرتا ہوں۔ خدا سے جنت میں جگہ دے وہ یہاں بھی اکیلی تھی اور کیا جانوں کہ وہاں بھی اکیلی ہو۔(ختم شد)

  • #2

    دلچسپ اور بہت ہی زبردست کہانی ۔​

    Comment


    • #3
      اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے
      بہترین تحریر

      Comment


      • #4
        ALLAH k faislay hain. kissi ko dayta hai kissi ko nhai dayta. Allah k her kaam main koi na koi hikmat our sabaq posheeda hai.

        Comment


        • #5
          اللہ تعالی کے فیصلوں کی حکمت کوئی نہیں جان سکتا

          Comment


          • #6
            Nazo na b kya kismat paye bachon kye lye tarasti rahi mgr jab Allah ka karam hua Allah na bacha dya to is duniya ma na rahi bs yeh Allah ki hikmat hye or Allah hi behtar jante han

            Comment


            • #7
              افسردہ کر دیا۔۔

              Comment


              • #8
                اچھی سبق آموز اسٹوری تھی

                Comment


                • #9
                  Aik sabaq aamoz aur maasharti Kahani bohat hi aala

                  Comment


                  • #10
                    Unda kahani hai

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X