Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

مشکل وقت گزر گیا

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Life Story مشکل وقت گزر گیا

    ہمارے گھر کے برابر میں ایک چھوٹا سا پختہ مکان تھا، جس میں ایک اسکول ٹیچر ارشد میاں رہتے تھے ۔ کچھ عرصہ بعد وہ ریٹائر ڈ ہو گئے۔ جب تک ماسٹر صاحب کی صحت نے ساتھ دیاوہ بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر گزر اوقات کرتے رہے پھر جب بیمار ہو گئے تو ٹیوشن پڑھانا چھوڑ کر بستر پر پڑ گئے۔ دمے کے مریض تھے۔ بیماری نے زور پکڑا اور راہی ملک عدم ہو گئے۔ عدت تک بیوی گھر سے نہ نکلیں لیکن یہ سفید پوش لوگ تھے۔ جمع پونجی نے تھوڑا عرصہ ساتھ دیا، اب گزر اوقات کا مسئلہ تھا۔ ان کا کوئی ایسار شتہ دار نہیں تھا، جو بُرے وقت میں آڑے آتا یا ان کی کفالت کا ذمہ لے لیتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فاقوں تک نوبت آ پہنچی۔ ارشد میاں کی بیوی نیک اطوار ، سگھڑ اور خاموش طبع لیکن ان پڑھ تھیں۔ گھریلو کام کاج کے سوا کوئی دوسرا ہنر نہ جانتی تھیں۔ بیٹی گل رخ کو بھی پڑھنے لکھنے سے کچھ ایسا شغف نہیں تھا۔ باپ کی ڈانٹ اور ماں کی پھٹکار سے مارے باند ھے آٹھویں تک پڑھا اور نویں میں اسکول چھوڑ دیا۔ جب نوبت فاقوں تک پہنچ گئی تو نصرت بی بی نے قدم باہر نکالا۔ سب سے پہلے ہمارے گھر آئیں، اپنی مجبوری بتا کر گھر کا کام کرنے کے لئے عندیہ ظاہر کیا۔ امی نے انہیں رکھ لیا۔ وہ سگھڑ تو تھیں۔ امی جان کو ان کے آجانے سے بہت آرام ملا۔ انہوں نے گھر کا سارا کام ہی ان پر چھوڑ دیا۔ ہمیں بھی گویا خالہ نصرت کے آجانے سے سکون مل گیا۔ وہ صبح سات بجے آجاتیں اور چار بجے تک ہمارے گھر ہی رہتیں۔ ناشتہ ، کھانا، کچن ، سب انہی کے ذمے تھے۔ تمام کام سمیٹ کر اپنے گھر جاتیں۔ دوپہر کا کھانا ہمارے گھر کھا لیتیں اور بیٹی مادر رخ کے لئے امی انہیں کھانا ساتھ کر دیتیں۔ تنخواہ کے علاوہ بھی وہ خالہ جی کو ضروریات زندگی کے لئے کافی کچھ دے دیا کرتی تھیں تا کہ اس شریف عورت کو کسی دوسرے گھر نہ جانا پڑے۔ وقت گزرتا رہا۔ سردی ہو یا گرمی ، وہ وقت مقررہ پر آجاتی تھیں، کبھی چھٹی نہ کر تھیں۔ طبیعت ٹھیک نہ ہو تو تب بھی آ جاتیں ، تب امی ان کو زبردستی چھٹی دے کر گھر بھیج دیتیں۔ چند سال تک وہ باقاعدگی سے کام پر آتی رہیں لیکن اب کچھ دنوں سے ان کی طبیعت خراب رہنے لگی تھی۔ ان سے کام نہیں ہوتا تھا۔ ایک دن ان کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تو امی جان ان کو گاڑی میں اسپتال لے گئیں۔ وہ دودن اسپتال میں رہ کر فوت ہو گئیں۔ ہم سب کو ان کی اچانک وفات کادُ کھ ہوا۔ تجہیز و تکفین بھی ہو گئی لیکن اب مسئلہ تھا ان کی لڑکی گل رخ کا ، اس کی عمر ان دنوں سترہ سال ہو گی۔ وہ دنیا میں اکیلی رہ گئی تھی۔ خدا جانے ننھیال اور ددھیال والے کیوں نہیں پوچھتے تھے ؟ اب اس لڑکی کا ہم لوگوں کے سوا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ وہ اکیلی گھر میں نہیں رہ سکتی تھی لہذا امی اس کو اپنے ساتھ لے آئیں اور کرائے کا گھر مکان مالک نے واپس لے لیا۔ گل رخ نے ہمارے گھر آتے ہی ماں کی کمی کو پورا کر کے تمام کام سنبھال لیا۔ ہم سب اس کے ساتھ پیار بھرا سلوک رکھتے تھے۔ جانتے تھے کہ ہمارے سوا اس کا کوئی نہیں ہے۔ جب ہمار املازم چھٹی کر لیتا تو گل چادر اوڑھ کر خود سامنے اسٹور سے ضرورت کی چیزیں لے آتی، حالانکہ امی منع بھی کرتی تھیں کہ باہر مت نکلا کر وہ زمانہ ٹھیک نہیں۔ وہ جواب دیتی۔ خالہ جی، میں اچھی طرح چادر اوڑھ کر اور منہ ڈھانپ کر جاتی ہوں۔ کسی کو کیا پتا کون ہے ؟ سودا بھی تو لانا ہوتا ہے۔ ایک دن نمک ختم ہو گیا۔ وہ ہانڈی پکا رہی تھی، تبھی اس نے چادر اوڑھی اور امی سے پیسے لے کر اسٹور کو چلی گئی۔ واپسی پر جب وہ سڑک پار کر رہی تھی، ایک گاڑی نے گل کو ٹکر مار دی۔ وہ سڑک پر گر گئی۔ گاڑی والے نے فورا گاڑی روک لی اور گل رخ کو سہارا دے کر اٹھایا۔ اتفاق سے وہ میڈیکل کالج کا طالب علم تھا۔ اس نے دیکھا کہ لڑکی کی چادر پر خون لگا ہوا ہے ، وہ زخمی ہے، فورا سے گاڑی میں بیٹھا کر اسپتال لے گیا۔ گل رخ ہوش میں تھی۔ اس کو زیادہ چوٹ نہیں آئی تھی لیکن اس کی کلائی میں کانچ کی چوڑیاں تھیں جو سڑک پر گر جانے کی وجہ سے بازو میں چبھ گئی تھیں اور بازو سے خون نکل رہا۔ تھا۔ اس طالب علم کا نام ممتاز تھا۔ اس نے دیکھا کہ لڑکی نے اچھا لباس پہنا ہوا ہے اور حلیے سے شریف گھرانے کی لگتی ہے۔ اس نے گھر کا پتا پوچھا اور مرہم پٹی کرانے کے بعد اسے ہمارے گھر کے دروازے پر چھوڑا اور جاتے ہوئے بولا کہ کل پھر پٹی کرانی ہے۔ میں کل شام کو آئوں گا، تم تیار رہنا اور چاہو تو گھر سے کسی کو ساتھ لے لینا۔ اگلے روز وہ آگیا ہم نے دیکھا کافی مہذب اور خوبصورت نوجوان تھا۔ بھائی نے اس کو گھر میں بٹھایا، امی نے چائے وغیرہ دی پھر اس کی گاڑی میں گل رخ اسپتال چلی گئی، ساتھ میں میرا چھوٹا بھائی بھی گیا۔ چار بار اسی طرح پٹی کرانی پڑی۔ ہر بار ممتاز خود آتا اور گل اس کے ساتھ اسپتال جاتی رہی، یہاں تک کہ زخم بالکل ٹھیک ہو گیا۔ پٹی کرانے کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ ممتاز پھر نہ آیا لیکن ہم نہیں جانتے تھے کہ ایک زخم ٹھیک ہوا ہے مگر ایک دوسر از خم ان کے دلوں کو گھائل کر چکا ہے۔ کچھ دن گزرے کہ ایک روز گل رخ پڑوس میں جانے کا کہہ کر کچھ دیر کے لئے غائب ہو گئی۔ امی کو پتا نہ چلا کہ وہ ڈاکٹر ممتاز کے پاس گئی ہے۔ امی تو اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گئیں اور ہم سب اسکول کالج چلے گئے تھے۔ ممتاز کو پہلی نظر میں ہی گل پسند آگئی تھی۔ جب اسے پتا چلا کہ یہ ایک عزت دار گھرانے کی بیٹی ہے ، ماں باپ مر چکے ہیں، اس لئے ہمارے ساتھ رہتی ہے تو اس کو گل رخ سے ہمدردی ہو گئی۔ اب وہ سوچنے لگا کہ میں کیسے اس لڑکی سے شادی کروں۔ ایک دن وہ امی کے پاس آیا امی نے کہا۔ بیٹا نہیں کوئی اعتراض نہیں۔ اگر گل راضی ہے تو یہ ہمارے لئے خوشی کی بات ہے لیکن ہماری ایک شرط ہے تم ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کر لو اور اپنی والدہ کو ہمارے پاس لے آئو تو ہم اس کا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں دے دیں گے۔ یہ ایک عزت دار باپ کی بیٹی ہے۔ تبھی ہم تسلی کر کے عزت سے بیاہنا چاہتے ہیں۔ ممتاز جانتا تھا اس کے والدین اس رشتے پر راضی نہیں ہوں گے ، لہذا اس نے سوچا کہ ان کو درمیان میں ڈالنا مسئلے کو الجھانا ہو گا۔ اس کی ایک بہن فاطمہ ملتان میں رہتی تھی۔ ممتاز نے اسے فون کر کے اپنا مدعا بتایا۔ اس کی بہن نے کہا۔ جب تک میں لڑکی کو نہ دیکھ لوں، تمہار ا ساتھ نہیں دے سکتی اور یہ بھی کہ وہ کیسے لوگوں میں رہتی ہے۔ فاطمہ نے اپنے والدین کو بھی فون پر بتادیا کہ ممتاز بھائی کو ایک لڑکی پسند آگئی ہے جس کے والدین حیات نہیں ہیں۔ یہ یتیم لڑکی اپنے پڑوسی کی فیملی کے ساتھ ان کی کوٹھی میں رہتی ہے اور کو ٹھی کی مالکہ جس نے لڑکی کو بیٹی بنالیا ہے ، کی شرط ہے کہ رشتہ تبھی دیں گے جب ممتاز کے بہن بھائی اور والدین رشتہ لینے آئیں گے۔ فاطمہ کے باپ نے سختی سے بیٹی کو خبر دار کیا کہ تم ہر گز وہاں مت جانا کیونکہ ممتاز کی شادی میں اپنی بھتیجی ثریا سے کروں گا۔ ہم نے بچپن میں اس کے ساتھ بات پکی کر دی تھی۔ یہ ہم بڑوں کا فیصلہ ہے۔ تم یا تمہارے شوہر کو درمیان میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ باپ کے ڈر سے فاطمہ ، گل کو دیکھنے نہ آسکی، تبھی ممتاز نے گل رخ کو فون کیا کہ تم کسی طرح دو تین گھنٹے کے لئے میرے ساتھ ملتان چلو اور میری بہن سے مل لو۔ اس فون کے بارے گل نے ہمیں نہ بتایا اور ایک دو پہر جب سب کھانا کھا کر اپنے اپنے کمروں میں سونے کے لئے چلے گئے تو وہ مظفر گڑھ سے ملتان ممتاز کے ساتھ اس کی گاڑی میں بیٹھ کر چلی گئی۔ بتاتی چلوں کہ مظفر گڑھ شہر ملتان سے آدھ گھنٹے سے بھی کم کے فاصلے پر ہے۔ فاطمہ ہر صورت اپنے بھائی ممتاز کی خوشی چاہتی تھی وہ اس سے بہت پیار کرتی تھی۔ اس نے گل کے ساتھ کچھ دیر باتیں کیں اور لڑکی کو پسند کر لیا۔ بولی۔ میں تمہارا رشتہ لینے اپنے شوہر اور ساس سسر کے ساتھ ضرور آتی لیکن والد صاحب کی وجہ سے نہیں آسکتی ، البتہ جب انہوں نے مجھ سے پوچھا تو میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ تم اور بھائی خود ہمارے پاس آگئے تھے۔ اس طرح میں تمہارا ساتھ دے سکتی ہوں۔ گل رخ کے لئے یہ کڑی آزمائش تھی لیکن وہ ہر صورت ممتاز سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ یہ اچھا بھی تھا کہ اس غریب لڑکی کی شادی ڈاکٹر سے ہو جاتی تو اس کی زندگی بدل جاتی۔ اس نے اس وقت اپنے طور ایک ایسا فیصلہ کر لیا جس میں اس نے ہمیں شامل نہیں کیا تا کہ بعد میں ہم ممتاز کے والد کے ہاتھوں پھنس نہ جائیں۔ اس نے صرف فون کر کے ہم کو اطلاع دی کہ آپ لوگ پریشان نہ ہوں میں ممتاز کی بڑی بہن کے گھر ملتان میں ہوں اور میرا نکاح وہ اور اس کے شوہر ممتاز سے کروا رہے ہیں۔ یہ کہہ کر اس نے فون رکھ دیا۔ اُدھر فاطمہ نے بھائی اور گل کو اپنے کمرے میں بٹھا لیا اور اپنے والد کو فون کیا کہ بھائی ممتاز لڑکی میرے گھر لے آئے ہیں اور بضد ہیں کہ وہ یہاں نکاح کریں گے ، بہتر ہے آپ اجازت دے دیں تاکہ ہم طریقے سے ان کی ضد کو پورا کر دیں ورنہ یہ کورٹ جا کر شادی کر لیں گے تو ہماری کیا عزت رہ جائے گی۔ یہی بات فاطمہ کے شوہر نے بھی سسر کو سمجھانا چاہی۔ سسر نے کہا کہ ان کو بٹھائو ، میں خود آرہا ہوں اور اپنی موجودگی میں اس فرئضہ کو سرانجام دیئے دیتا ہوں ۔ وہ گاڑی میں ملتان پہنچ گئے۔ ممتاز کو اس کے والد دوسرے کمرے میں لے گئے اور پوچھا۔ آخر تم کیوں اس اجنبی لڑکی سے شادی پر بضد ہو ؟ وہ بولا۔ یہ لڑکی یتیم ہے لیکن ایک استاد کی بیٹی ہے اور شریف گھرانے سے ہے اور جس گھر رہتی ہے بے شک آپ ان لوگوں سے بھی مل لیں ، وہ بھی شریف لوگ ہیں۔ ہم ان کو اس لئے بتا کر نہیں آئے کیونکہ ان کی بھی یہی شرط تھی کہ میں اپنے والدین کو لائوں تو ہی وہ اپنی اس منہ بولی بیٹی کا رشتہ مجھے دیں گے اور آپ وہاں آنے پر تیار نہ تھے۔ بابا جان یہ لڑکی یتیم ہونے کی وجہ سے ہمدردی کی مستحق ہے اور ہم اس کو دُنیا کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ میں اسی لڑکی سے ہی شادی کروں گا۔ باپ کو بیٹے کی اس گستاخی پر غصہ آگیا اور اس نے بیٹے کو تھپڑ رسید کر دیا۔ کہا کہ ان شریف لوگوں کو بتائے بغیر تو ان کے گھر سے لڑکی کو اغوا کر کے لے آیا ہے تاکہ ہم بُرے پھنسیں یا ان کی بدنامی ہو۔ کیا میں نے اسی دن کے لئے تم کو میڈیکل میں داخلہ دلوایا تھا اور اتنا پڑھایا کہ تم کسی کی لڑکی کو بھگا کر لے آئو۔ اور یہ لڑکی کیسی ہے ، جو تمہارے کہنے پر اپنے محسنوں کو بتائے بغیر گھر سے نکل پڑی؟ اب سیدھے طریقے سے اس کو وہاں پہنچا آئو، ورنہ مجھ سے بُرا کوئی نہ ہو گا۔ ابھی اس لڑکی کو گھر سے نکلے پانچ گھنٹے ہوئے ہوں گے ، ابھی کچھ نہیں بگڑا۔ یہ رات سے پہلے اس گھر واپس پہنچ جانی چاہئے۔ چاہے تو فاطمہ اور اس کا شوہر تم لوگوں کے ساتھ چلے جائیں اور اس کو ان کے گھر چھوڑ آئیں، لیکن فاطمہ کے شوہر نے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ لڑکی خود کوئی بہانہ بنالے گی کہ کسی سہیلی کے گھر چلی گئی تھی یا جو اس کی مرضی کہے۔ میں جائوں گا اور نہ ہی اپنی بیوی کو بھیجوں گا۔ نجانے وہ ہمارے ساتھ کس طرح پیش آئیں ! تو یا درکھنا ! ممتاز کی شادی میں ثریا سے ہی کروں گا۔ یہ کہہ کر باپ تو چلا گیا۔ بیٹی باپ کا منہ تکتی رہ گئی۔ شور کی آواز سُن کر دوسرے کمرے میں بیٹھی گل رخ بھی سہم گئی۔ سوچنے لگی کہ اب وہ واپس اس گھر کیسے جاسکتی ہے کہ جہاں سے بغیر اجازت نکل آئی تھی۔ وہ اب مجھے نہیں رکھیں گے۔ اس نے فاطمہ سے کہا۔ اب آپ بھی نہیں رکھیں گی تو میں کدھر جائوں گی۔ ممتاز نے سمجھ لیا کہ باپ کے حکم کے آگے فاطمہ اور اس کا شوہر بے بس ہیں ، پس اس نے گل رخ کو گاڑی میں بٹھایا اور اپنے ایک دوست کے گھر لے گیا۔ دوست نے والدین کو بتایا کہ یہ ممتاز کی بیوی ہے۔ انہوں نے ایک دن یہاں ٹھہر کر کل گائوں چلے جانا ہے۔ وہ بچارے سیدھے سادے لوگ تھے۔ انہوں نے بیٹے کے دوست کی بیوی جان کر اس کی خاطر مدارات کی۔ وہ رات یہ وہاں رہے۔ اگلے دن ممتاز ، گل کو لے کر وکیل کے پاس گیا اور کورٹ میں نکاح کر لیا۔ نکاح کے بعد دو دن یہ ایک ہوٹل میں رہے۔ تیسرے دن ممتاز نے میرے ابو کو فون کر کے کہا کہ ہم نے نکاح کر لیا ہے، جس میں میری بہن اور بہنوئی میری طرف سے شریک ہوئے ہیں۔ آپ مہربانی سے چند دن گل رخ کو اپنے گھر میں رکھ لیں تا کہ اس دوران میں اپنے والد اور والدہ کو منا کر آپ کے پاس لا سکوں۔ اس طرح میں گل کو اپنے گھر لے جائوں گا۔ پہلے تو والد صاحب راضی نہ ہوئے لیکن جب ڈاکٹر ممتاز نے اپنے وکیل سے بات کروائی تو اس کی مجبوری کو سمجھتے ہوئے والد صاحب نے کہا۔ ٹھیک ہے ہمیں ماسٹر ارشد اور ان کی مرحومہ بیوی کا لحاظ ہے۔ آپ گل کو چھوڑ جائیں لیکن نکاح نامے کی ایک کاپی بھی ساتھ لیتے آئیں۔ ممتاز اپنے وکیل کے ساتھ نکاح نامے کی کاپی بھی لایا۔ وکیل نے گواہی دی کہ میں نے کورٹ میں ان کا نکاح ان کے بہنوئی کی موجودگی میں کروایا ہے۔ نکاح نامے کی کاپی ابو نے لے کر گل کو گھر میں رہنے کی اجازت دے دی۔ ممتاز چند دنوں کی مہلت مانگ کر چلا گیا۔ گل پہلے کی طرح ہمارے پاس رہنے لگی لیکن اب وہ پر سکون نہیں تھی اور ہم بھی اس کے بارے فکر مند تھے۔ ممتاز بظاہر اچھا انسان نظر آتا تھا لیکن ابھی وہ اپنی تعلیم کے آخری سال میں تھا۔ اپنے اخراجات کے لئے بھی والدین کا محتاج تھا، اسی لئے والدین سے یہ شادی خفیہ رکھنا چاہتا تھا۔ وہ باپ سے کسی طور مقابلہ کرنا بھی نہ چاہتا تھا ورنہ وہ اس کا خرچہ بند کر دیتے تو تعلیم ادھوری رہ جاتی۔ ممتاز نے فائنل کا امتحان پاس کر لیا، ہائوس جاب بھی مکمل کر لی۔ اس دوران گل نے بیٹے جنم دیا۔ وہ اب بھی ہمارے پاس رہتی تھی کیونکہ ممتاز ابھی تک اس کو اپنے ساتھ رکھنے کے قابل نہ ہوا تھا۔ اس کا کہنا تھا جو نہی میری آمدنی شروع ہو گی، میں آکر گل اور اپنے بیٹے کو لے جاؤں گا۔ وہ دن میں صرف پندرہ میں منٹ یا آدھ گھنٹے کے لئے آتا تھا وہ بھی ماہ، دو ماہ بعد لیکن وہ فون پر بیوی سے رابطہ رکھتا تھا اور بیٹے کے خرچے کے لئے جو بن پڑتا دے جاتا تھا۔ ایک دن ممتاز کے والد نے اُسے بلوایا کہ جلدی پہنچو، تمہاری ماں بیمار ہے۔ وہ گائوں گیا تو اس کی شادی کی تاریخ طے کر دی گئی تھی۔ بہت پریشان ہوا کیونکہ شادی تو وہ کر چکا تھا، دوسری کیونکر کرتا۔ اس نے باپ سے کہا کہ میں آپ کی بھتیجی سے شادی نہیں کرنا چاہتا، اس لئے واپس جارہا ہوں۔ باپ نے غصے سے کہا کہ کیا تمہیں میری عزت کی کوئی پروا نہیں ؟ اور نہ اپنی بہن کی پروا ہے جو تمہارے چچا کی بہو ہے۔ اگر تم نے ان کی لڑکی کو ٹھکرایا تو بتائو تمہاری بہن کا کیا بنے گا ؟ اگر آج تم نے میری عزت رکھ لی تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہاری دوسری شادی میں خود کرواؤں گا۔ آج میری بات مان جائو۔ غرض ایسی باتیں کر کے برادری نے ممتاز سے بات منوالی اور جو تاریخ مقرر کی گئی تھی ، اسی پر اس کی شادی ثریا سے کرادی گئی۔ شادی کے بعد اسے والد اور چچا نے کافی دن گائوں سے باہر نہ جانے دیا۔ کہا کہ تین ماہ تک تم کو اپنی دُلہن کے ساتھ رہنا ہے بعد میں شہر چلے جانا۔ ادھر فاطمہ نے فون کر کے گل کو بتادیا کہ ممتاز بھائی کو والد اور تایا چانے مجبور کر کے اس کی شادی اس کی منگیتر سے کروادی ہے۔ وہ ابھی جلد تمہارے پاس نہیں آسکتا لیکن کچھ ماہ بعد ضرور آئے گا۔ تم تسلی رکھو اور گھبرانا نہیں۔ ہمارے خاندان میں ایک سے زیادہ شادیوں کا رواج ہے لہذا تمہاری شادی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ تمہاری سوتن اپنی جگہ اور تم اپنی جگہ رہو گی۔ ہاں کچھ عرصہ تم کو صبر سے انتظار کرنا ہو گا، جب تک کہ حالات معمول پر نہیں آجاتے۔ گل رخ بہت روئی لیکن سوائے صبر چارہ کیا تھا۔ اسی ابو نے بھی اس کی دلجوئی کی۔ کہا کہ تم پہلے بھی اس گھر میں رہ رہی تھیں، اب بھی رہتی رہو۔ سڑک پر تو نہیں بیٹھیں، صبر سے کام لو۔ مردوں کی ایسی مجبوریاں ہو جاتی ہیں۔ بیوی صبر کرلے تو حالات ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ جب ممتاز کے حالات ٹھیک ہوں گے وہ تمہیں لے جائے گا۔ اس کے بعد دو سال میں صرف چار بار ممتاز کا فون آیا، لیکن وہ خود نہ آسکا۔ اس طرح تین سال کا عرصہ گزر گیا۔ ہم نے بھی اس ختم کر دی۔ ابو گل کو سمجھاتے۔ بیٹی غم نہ کرو، تمہارا لڑکا بڑا ہو جائے گا۔ اگر تمہارا شوہر تمہارا نہیں بن سکا ، ہم تو ہیں۔ یوں سمجھو کہ تم اپنے ماں باپ کے گھر میں ہو۔ ممتاز کا بیٹا پانچ سال کا تھا۔ وہ ہو بہو اپنے باپ کی شکل پر گیا تھا۔ ہم حیران تھے کہ کیا ممتاز کو اپنے بیٹے کی بھی یاد نہیں آتی ؟ گل رخ تو مر جھا کر رہ گئی تھی۔ اس نے ہمارے گھر کو ہی اپنا نصیب سمجھ لیا۔ وہ سارا دن گھر کا کام کرتی اور رات کو سرونٹ کوارٹر میں جا کر سو جاتی۔ ایک ڈاکٹر کا بیٹا سرونٹ کوارٹر میں پل رہا تھا اور اس کی ماں کہنے کو منہ بولی بیٹی لیکن اصل میں تو اب بھی ہماری ملازمہ تھی، لیکن ممتاز کو اس بات کا بھی احساس نہیں تھا۔ جب گل نے اس زندگی کو اپنا نصیب سمجھ کر حالات سے سمجھوتہ کر لیا۔ اس نے بظاہر ممتاز کا انتظار کرنا چھوڑ دیا تو ایک دن اچانک وہ آگیا۔ اس نے میرے والد کے قدم چھو کر معافی مانگی اور بتایا کہ میں اب مجبوریوں سے نکل آیا ہوں۔ میرے سسر جو میرے سگے چچا تھے ، ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ میرا ذاتی اسپتال بھی سیٹ ہو گیا ہے جو میرے والد اور سسر کے مشترکہ سرمائے سے بنایا گیا ہے اور میری بیوی نے بھی اجازت دے دی ہے کہ میں گل کو گھر لے آئوں تا کہ میرا بچہ کسی کے گھر پلنے کی بجائے ، ہمارے اپنے گھر میں پہلے اور پڑھ لکھ کر کچھ بن پائے۔ ثریا ایک خاندانی عورت ہے۔ وہ میرے بیٹے کی خاطر سوتن کو بھی قبول کرنے پر تیار ہے۔ ہم گائوں کے لوگ ہیں، ہماری عورتوں کی سوچ شہری لوگوں سے مختلف ہے۔ میں نے اپنے والد کو بھی بتایا ہے کہ میں نے گل رخ سے نکاح کیا تھا اور میرا پانچ برس کا بیٹا بھی ہے۔ میرے والد بھی نہیں چاہتے کہ ان کا پوتا کسی کے سرونٹ کوارٹر میں پلے بڑھے۔ اللہ تعالی نے مہربانی کی ہے اور حالات ہمارے حق میں کر دیئے ہیں۔ یہ گل کے صبر کا نتیجہ ہے۔ والد صاحب نے ہی ایک کو ٹھی شہر میں خرید کر مجھے دی ہے جو میرے کلینک کے پاس ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کو ٹھی میں نے اپنے پوتے کے لئے لی ہے۔ ممتاز کی باتوں کے جواب میں آبو نے کہا۔ اپنے والدین کو پہلے اپنے پوتے کے پاس لے کر آئو تو میں گل کو تمہارے حوالے کر دوں گا۔ ممتاز بولا۔ جی باکل ، یہی اجازت لینے آیا ہوں کہ میرے والدین بھی پوتے کو لینے میرے ساتھ آئیں گے ۔ آپ گل رخ کی رخصتی کی تیاری کرلیں کیونکہ میں آپ کو ہی اپنی بیوی کے والد کی جگہ سمجھتا ہوں۔ گل کو بتایا گیا تو اس کے تن مردہ میں زندگی دوڑ گئی۔ وہ دن بھی آگیا۔ جب گل کے ساس سسر اور ڈاکٹر ممتاز اس کو لینے آگئے۔ روتی ہنستی گل رخ ان کے ساتھ چلی گئی۔ بعد میں ہم اس کے گھر گئے۔ وہ اداس ہوتی تو ہمارے گھر اس طرح آجاتی جیسے کوئی بیٹی اپنے میکے آتی ہے۔ اب اس کے تین بچے ہیں – بڑا بیٹا بیرون ملک پڑھنے گیا ہوا ہے – گل نے بہت دکھ اٹھاۓ لیکن اب وہ اپنے گھر میں آسودہ زندگی گزار رہی ہے ۔(ختم شد) –

  • #2
    کہانی بہت ہی شاندار ہے

    Comment


    • #3

      دلچسپ اور بہت ہی زبردست کہانی ۔​

      Comment

      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

      Working...
      X