پشیمان
قسط نمبر1
ریاض عاقب کوہلر
” پاگل تو نہیں ہو۔ “رباب نے اسے سختی سے جھڑکا۔
” پاگل پن کیسا؟“اسوہ نے منہ بنایا۔
”بے چارے نے ایسا کیا کر دیا کہ، تم نے اتنی زیادہ توہین کر دی۔“
” لڑکیوں کو گھورنے والے بے شرم مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتے۔پھر موصوف کا مقام دیکھو۔ ایک کلرک کا بیٹا،اسوہ اسلم شکورخان سے عشق فرمانے چلا ہے۔“
رباب مزاحیہ لہجے میں بولی۔” کیا کہتے ہیں ....
عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب
جو لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بجھے
اسوہ نے قہقہہ لگایا۔”اس کی آتش پر تو ایسا پانی پھینکا ہے چنگاری بھی باقی نہیں رہی ہو گی۔“
رباب بھی بے ساختہ ہنس پڑی۔” بڑی ظالم ہو یار !اتنا خوبروو پرکشش نوجوان ہے، پڑھائی میں بھی نمایاں ہے،کیا ہوا جو غریب ہے۔“
اسوہ نے آنکھیں نکالیں۔” بہتر ہوگا خود اسے اپنا لو۔“
” میری منگنی ہو چکی ہے۔یوں بھی اسوہ شکور کی موجودی میں کسی اور کی دال کہاں گلتی ہے۔“
”نفرت ہے مجھے مرد ذات سے۔“
رباب نے پوچھا۔”تو کیا ساری زندگی کنواری بیٹھی رہو گی ؟“
” حرج ہی کیا ہے ؟“اسوہ نے کندھے اچکائے۔
رباب نے فلسفیانہ لہجے میں کہا۔” فطرت سے مفر مشکل ہے۔“
اسوہ ہنسی۔”فطرت سے کون بھاگ رہا ہے،میں تو مردوں سے دور ہونے کی بات کر رہی ہوں۔“
” شادی فطرت ہی ہوتی ہے محترمہ۔“
” ضرورت محسوس ہوئی تو دیکھا جائے گا،فی الحال تو موڈ خراب نہ کرو۔“اسوہ نے ناک بھوں چڑھائی۔
رباب نے طنزیہ لہجے میں کہا۔”امیر زادیوںکی طبیعت کی تو کیا بات ہے۔“
وہ اس کے طنز کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بولی۔”تم کون سامفلس ہو۔“
” مگر تمھاری طرح اکلوتی نہیں ہوں۔“
اسوہ نے موضوع تبدیل کیا۔”لڑائی چھوڑو اور اپنے منگیتر کی سناﺅ؟“
”وہی پیسا کمانے کی مشین بنا ہوا ہے۔“رباب نے منہ بنایا۔
”اب کال نہیں کرتا؟“
”کرتا ہے،مگر اس کے پاس گپ شپ کا وقت نہیں ہوتا۔ خیریت پوچھ کر ایک دو رسمی جملے کہنا اور پھر وقت کی کمی کوکوس کر خدا حافظ۔“
”تو یہ کم ہے؟“اسوہ نے طنزکیا۔
”پہلے گھنٹا بھر لمبی کالیں کیا کرتا تھا،اب دو تین منٹ سے زیادہ بات نہیں کرتاہو سکتی۔شاید ٹیلی فون کا بل محترم سے برداشت نہیں ہوتا۔“
”تمھارے لیے ہی کما رہا ہے محترمہ۔“
” کہتی تو ٹھیک ہو۔“رباب نے قہقہ لگایا۔” جب مردہمارے لیے دن رات خوار ہوں، تو بہت اچھے لگتے ہیں۔“
”مجھے تو کسی صورت نہیں بھاتے۔“اسوہ نے منہ بنایا۔
”اپنے پاپا بھی اچھے نہیں لگتے۔“
اسوہ برہم ہوئی۔”بکو مت،میں عام مردوں کی بات کر رہی تھی۔“
رباب نے وارفتگی سے بولی۔”انھی عام مردوںمیں جب کوئی خاص بنتا ہے پھر اس جیسا اپنا کوئی نہیں رہتا۔“
اس کافلسفہ اسوہ کو مزید تپا گیا تھا۔”تمھاری سوئی اب تک اسی کمینے پر اٹکی ہوئی ہے۔“
”نہیں جی۔“رباب نے تردید میں سرہلایا۔”میں اپنے کامی کو یاد کر رہی تھی۔“
اسوہ نے دھمکی دی۔”خبردار جو تم نے اس کی بات کی۔“
رباب چڑتے ہوئے بولی۔”میں تو نہیں، البتہ تم بار بار اسی کا ذکر چھیڑ دیتی ہو۔“
”کمینے کاذکرکیا اور وہ پہنچ گیا۔“اسوہ کے چہرے پر بیزاری پھیل گئی تھی۔ دونوں یونیورسٹی کنٹین میں بیٹھی تھیں۔رباب نے مڑ کر دیکھا، عمار نے حسبِ عادت ایسی جگہ پسند کی تھی جہاں وہ براہ راست اسوہ کا چہرہ دیکھ سکتا تھا۔اوربیٹھتے ہی اس کی آنکھوں نے اسوہ کے چہرے کا طواف شروع کردیا تھا۔
”یہ ایسے باز نہیں آئے گا۔“اسوہ نے دانت پیستے ہوئے نشست چھوڑی، مگر رباب نے جلدی سے اس کی کلائی تھا م لی۔
”پاگل مت بنو،کیوں خود کو بدنام کرنے پر تلی ہو۔اور پھر کسی کو یونیورسٹی کی کنٹین میں بیٹھنے سے منع تونہیں کیا جا سکتا۔“
وہ غصے سے بولی۔”میں کسی کے بیٹھنے پر نہیں دیدے پھاڑ کر گھورنے پر معترض ہوں۔“
رباب اسے سمجھاتے ہوئے بولی۔”تھوڑی دیر پہلے تم نے اسے گیلری میں جھڑکا،بلکہ اچھی خاصی بے عزتی کی۔ جبکہ اس بے چارے کا قصور صرف اتنا تھا کہ کھڑا محترمہ کا دیدار کر رہا تھا۔ اور میرے خیال میں یہ اتنا بڑا جرم بھی نہیں ہے۔ کسی کاگھورنا اگر اتنا ہی برا لگتا ہے تو نقاب اوڑھنا شروع کر دو،ثواب بھی ملے گا اور گندی نظروں سے چھٹکارابھی۔“
” کچھ زیادہ ہی اس کی طرف داری کر رہی ہو۔“وہ رباب پربرس پڑی۔
رباب کا سر نفی میں ہلا۔”تمھیں سمجھا رہی ہوں۔کسی کے گھورنے سے تمھارا کیا بگڑتا ہے۔“
”تو کوئی گھورے کیوں ؟“اسوہ پیر پٹختی ہوئی کنٹین سے باہر نکل گئی۔اور رباب افسوس سے سر ہلاتی ہوئی کاﺅنٹر کی طرف بڑھ گئی۔بل کی ادائی کے بعد وہ عمار کی ٹیبل کی طرف بڑھ گئی۔ اب تک وہ دروازے کی طرف متوجہ تھا جہاں سے اسوہ باہرنکلی تھی۔
قریب جاکر رباب نے اسے متوجہ کیا۔” آپ کے دو منٹ لے سکتی ہوں مسٹر عمار۔“
”کیوں نہیں مس!....“اس کا لہجہ حیرانی سے پر تھا۔
نشست سنبھالتے ہوئے رباب شائستہ لہجے میں بولی۔”عمار صاحب! اگر میری کوئی بات بری یا توہین آمیزلگے تو براہ مہربانی مجھے معاف کر دینا۔ میرا مقصد آپ کی دل آزاری نہیں ہے۔“
”آپ اسوہ کی سہیلی ہیں اس لیے میں آپ کو بہن سمجھتا ہوں اور بہنیں کبھی بھائیوں کا برا نہیں چاہتیں۔“
”شکریہ عمار بھائی!“وہ ممنونیت سے بولی۔”میں یہ بتانے آئی ہوں کہ اسوہ کے دل میں آپ کے لیے رتی بھر بھی محبت نہیں ہے۔اور اس کی وجہ شکل و صورت یا کردار کی کوئی خامی نہیں ہے۔آپ کا شماریونیورسٹی کے چند خوش شکل لڑکوں میں کیا جا سکتا ہے۔ عادات و اطوار بھی ٹھیک ہیں۔لیکن معاشی لحاظ سے آپ دونوں کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ وہ اسلم شکورخان کی اکلوتی بیٹی ہے،جو خان گروپ آف کمپنیز کا مالک ہے۔اور آپ ایک کلرک کے بیٹے ہیں۔با لفرض وہ آپ سے شادی پر راضی ہو بھی جاتی ہے تو اس کے باپ کو کون راضی کرے گا،کیا انھیں مخمل میں ٹاٹ کا پیوند گوارا ہو گا؟یا اسوہ بغاوت کر کے شادی کر لے تو کیا آپ اسے وہ سہولیات،وہ عیش آرام مہیا کر سکتے ہیںجن کی وہ بچپن سے عادی ہے۔جانتے ہو اس کے ہینڈ بیگ کی قیمت پچاس ہزار ہے، سینڈلوں کی قیمت بیس پچیس ہزار سے زیادہ ہوگی۔ لباس سے لے کر میک اپ کے سامان تک وہ امپورٹڈ اوراتنا مہنگاسامان خریدتی ہے کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اس کی ایک بار کی شاپنگ سے سفید پوش طبقے کی دس پندرہ لڑکیوں کا جہیز آسانی سے تیار ہو سکتا ہے۔وہ ہر ماہ شاپنگ کے لیے کنیڈا،برطانیہ،فرانس،ابو ظہبی کاچکر لگاتی ہے۔شاید تعلیم کی تکمیل بھی وہ آکسفورڈ،کیمرج جیسی کسی یونیورسٹی میں کرتی، مگر اکلوتا ہونے کی وجہ سے لاڈلی ہے اور والدین سے دور نہیں رہنا چاہتی۔“
عمار پھیکی مسکراہٹ سے بولا۔” یقینا آپ میرے احساسات سے ناواقف ہیں۔کسی کو چاہنا اختیار سے باہر ہوتا ہے۔خواب دیکھنے والے کی نظراپنی اوقات پر نہیں خدا کی رحمت پر ہوتی ہے اور اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ خواب ہوتا ہی وہی ہے جو امکان سے باہر ہو۔باقی جانتا ہوں وہ مجھے نہیں مل سکتی۔نہ میرا ارادہ اس سے اظہار محبت کرنے کا ہے۔ البتہ اسے دیکھنا میری مجبوری ہے۔نہ چاہتے ہوئے بھی میری نظریں اس پر گڑی رہتی ہیں یقین مانو میں بے بس ہوں۔کاش میں اس قابل ہوتاکہ اپنے خوابوں کو سچا کر سکتا۔“
” ناممکن الحصول کی تمنا کرنا بے وقوفی ہی کہلائے گا۔اور ستم تو یہ ہے کہ وہ آپ سے محبت بھی نہیں کرتی،بلکہ برا نہ مانو تو کہوں گی سخت نفرت کرتی ہے۔ ابھی مجھ سے اس لیے جھگڑ کر کے گئی ہے کہ میں نے اسے آپ کی توہین کرنے سے کیوں روکا۔“
”اس کی نفرت میرے لیے دکھ کا باعث سہی، مگر یوں میری محبت تو کم نہیں ہو سکتی ناں۔“
”چلتی ہوں۔“رباب جانتی تھی کہ اس بحث کا کوئی نتیجا نکلنے والا نہیں تھا۔
”آپ شاید خفا ہو گئی ہیں۔“
”بس افسوس ہے کہ آپ جان بوجھ کر اپنا وقار اور عزت خراب کرنے پر تُلے ہیں۔“
”شکریہ بہن،آپ کا خلوص بھرا رویہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔“
رباب ہونٹوں پر زبردستی کی مسکراہٹ سجائے واپس مڑ گئی۔عمار نے اسے مایوس کیا تھا۔اس کا خیال تھا کہ وہ اسے قائل کر لے گی،مگر بھول گئی تھی کہ وہ مہلک مرض ناقابل علاج ہوتاہے۔
٭٭٭
” آج عمار بھائی سے بات کی تھی۔“ پارکنگ کی طرف جاتے ہوئے وہ اسوہ کو مخاطب ہوئی۔
”کس سلسلے میں ؟“اس نے حیرانی سے پوچھا۔”اور وہ تمھارا بھائی کب بنا؟“
” سوچا اسے برا بھلا سمجھا دوں اور تمھارے مابین طبقاتی فرق کی طرف اس کی توجہ مبذول کر ا دوں۔“
”تو ....“
”بس تاویلیں کرنے لگا۔“
اسوہ طنزیہ انداز میں بولی۔”حالانکہ تم نے اسے بھائی بھی بنا دیا پھر بھی نہ مانا۔“
” بہن تو خیر مجھے اس نے بنایا ہے،باقی کہہ رہاتھا تمھیں نہ دیکھنا اس کے بس سے باہر ہے۔ باوجود یہ کہ وہ اپنی اور تمھاری حیثیت سے خوب واقف ہے۔بہ قول اس کے نہ تو اس نے کبھی اسوہ کے ساتھ محبت کا اظہار کیا ہے اور نہ وہ ایسا ارادہ رکھتا ہے۔البتہ کسی کو چاہنا غیر ارادی فعل ہے اس لیے وہ خود کو بے بس سمجھتا ہے۔“
اسوہ بھڑکتے ہوئے بولی۔”اگر کبھی ایسی کوشش کی تواس کی زبان کٹوا دوں گی۔“
” جانے دو یار !تم نے تو ہر وقت مرچیں چبائی ہوتی ہیں۔محبت ہی کرتا ہے ناں۔ اور یہ جرم نہیں ہے کہ اسے دشمن سمجھا جائے۔“
”وہ مجھے اچھا نہیں لگتا۔یقین مانو میں نے اس بارے پاپاجانی کو کچھ نہیں بتایا، ورنہ اب تک اس کی ہڈیوں کا سرما بن چکا ہوتا۔“
”ذرا میں بھی سنوں تم انھیں کیا بتاﺅ گی؟یہی کہ ایک لڑکا تمھاری طرف دیکھتا ہے۔“
” غیر عورت کو گھورنا چھوٹا جرم ہے ؟“اسوہ تلخ ہونے لگی۔
رباب طنزیہ انداز میں بولی۔” اچھا لگنے پر تم اسے نہ گھورتیں؟“
”اس میں اچھا لگنے والی کیا بات ہے۔“
رباب مصر ہوئی۔” فرض کرلو....“
”پتا نہیں۔“اسوہ نے منہ بنایا۔
”اسما ءکوجانتی ہو ؟“رباب نے اچانک غیر متعلق سوال پوچھا۔
اسوہ نے تصدیق چاہنے والے انداز میں کہا۔”اپنی کلاس فیلو۔“
”ہاں۔“رباب نے اثبات میں سر ہلایا۔
” اسے کیا ہوا؟“اسوہ کے لہجے میں حیرانی تھی۔
”یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم کہ اسے کیا ہوا،مگر کبھی کلاس روم میں بیٹھے ہوئے اس کا جائزہ لینا۔“
”یار !سیدھی طرح پھوٹ دینے سے تمھارا بل نہیں آئے گا۔“
رباب ہنس پڑی۔ دونوں اسوہ کی کار کے ساتھ رک کر محو گفتگو تھیں۔ ڈرائیور اسے دیکھ کر کار کے عقبی دروازے کے ساتھ اٹن شن کھڑا ہو گیاتھا۔
”پچھلے چار پانچ دنوں سے وہ بھی کسی کو ایسے ہی گھورتی ہے جیسے کوئی تمھیں گھورتا ہے۔“
”کس کو ؟“
”جو تمھیں گھورتا ہے۔“
”تم نے پہلے تو ذکر نہیں کیا۔“
”آج ہی عاصمہ سے پتا چلاہے۔“
”احمقوں کے سینگ تو نہیں ہوتے۔“اسوہ نے نفرت سے ہونٹ سکیڑے۔
”کسی کا اچھا لگنا اختیار کے تابع نہیں ہوتا،حالاں کہ وہ اچھی طرح جانتی ہے عمار خود کسی دوسرے کی محبت میں مبتلا ہے۔“
اسوہ نے بے پرواہی سے کندھے اچکائے۔”پھر؟“
”پھرعمار کو کیا کرنا چاہیے۔اسے جھاڑ پلادے،بے عزت کرے یا اس کے منہ پر تھپڑ مارے۔“
اسوہ نے طنزیہ لہجے میںکہا۔”تمھارا عمار بھائی لڑکی تو نہیں ہے نا۔“
رباب تلخی سے بولی۔”مس اسوہ اسلم شکورخان !....اپنے لینے اور دینے کے باٹ ایک ہی رکھو۔ ایک طرف مردوں کے ساتھ برابری کا دعوا۔اور دوسری جانب صنف نازک ہونے کاواویلا۔ہم کسی لڑکے کو گھوریں تو خیر ہے، وہ ہمیں دیکھے تو کمینہ اور خبیث ہوا۔ واہ....“
”بلا شبہ لڑکیاں ہی تو ہیں نا ہم۔“
” لڑکیوں کے لیے جو پردے کا حکم ہے پہلے اسے پورا کرو تاکہ کسی مرد کو کمینگی کا موقع نہ ملے ورنہ کسی گھورنے والی کی خباثت میں آپ برابر کی شریک ہوں گی۔“
”واہیات لڑکی۔“منہ بگاڑتے ہوئے اسوہ کار کی جانب بڑھ گئی۔
٭٭٭
”تم میں ذراسی بھی عقل نہیں ہے۔وہ سیٹھ اسلم شکورخان کی بیٹی ہے۔جو تم جیسوں کو ملازم بھی نہیں رکھے گا کجا حور شکل بیٹی پکڑا دے۔“مدثر نے اسے شرمندہ کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔
اسے خاموش پا کر مدثر نے لفظی گولہ باری جاری رکھی۔”غضب خدا کا،یونیورسٹی میں کتنی ہی خوب صورت لڑکیاں بھری پڑی ہیں جو خاندانی لحاظ سے تمھاری ہم پلّہ بھی ہیں۔اور تم تمام کو نظر اندازر کر کے براہ راست اسوہ اسلم شکور تک پہنچ گئے۔ خدا کا خوف کرو یا ر۔“
عمار نے چپ سادھے رکھی۔
”اب منہ سے کچھ پھوٹو بھی۔“مدثر برہم ہوا۔
” جان بوجھ کر تو ایسا نہیں کر رہا۔“
” مان لیا دل تمھارے اختیار میں نہیں،آنکھیں تو ہیں۔“
” کسی کو دیکھنا جرم نہیں ہے کہ مجھے سزا ہو جائے گی۔“
”گناہ تو ہے۔اوراس وجہ سے تمھاری تعلیم کا کتنا حرج ہو رہا ہے۔یونھی چلتا رہاتو آسانی سے فیل ہو جاﺅ گے۔ کبھی سوچا ہے یونیورسٹی فیس پوری کرنے کے لیے تمھارے والد کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔“
عمارنے منہ بنایا۔”ایسا بس تم ہی سوچتے ہو۔“
مدثر نے طنزیہ انداز میں کہا۔” حقیقت بیان کی ہے محترم۔“
”کسی کو چاہنے،دیکھنے،دل میں رکھنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں پڑھائی ہی سے غافل ہو جاﺅں،بے فکر رہو،ان شاءاللہ کلاس میںکسی کو آگے نہیں بڑھنے دوں گا۔“
”سوائے اسوہ اسلم شکور کے۔“مدثر نے لقمہ دیا۔عمار پھیکے انداز میں مسکرا دیا تھا۔
٭٭٭
”منہ کیوں پھلایا ہوا ہے ؟“خالی پیریڈ میں اسوہ کے ساتھ قدم ملاتے ہوئے رباب مستفسر ہوئی۔
”ایسانہیں ہے۔“اسوہ نے نفی میں سرہلایا، مگر الفاظ اور لہجے کا تضاد واضح تھا۔
”جھوٹ، تمھارا گریز کرنا واضح نظر آرہا ہے۔“رباب کے ہونٹوں پر شکوہ مچلا۔
”تم میری واحدسہیلی ہو۔اگر ایک بے ہودہ شخص کی طرف داری کرتے ہوئے تم مجھے لعن طعن کرو گی تو کیا مجھے دکھ نہیں ہو گا۔“
” کس کی طرف داری کی ہے میری جان!اگر کل کی گفتگو پر خفا ہو تو وہ عمار کی طرف داری ہر گز نہیں تھی۔“
”روبا! یاد رکھنا کہ میں اس سے بہت نفرت کرتی ہوں۔ “اس نے نفرت سے ہونٹ سکیڑے۔
” اس وجہ سے کہ میں غریب ہوں۔“ عمار کی آوازنے دونوں کوحیران کردیاتھا۔ جانے وہ کب سے عقب میں چلتے ہوئے ان کی گفتگو سن رہا تھا۔
اسوہ نے حقارت سے زہر اگلا۔ ”نہیں ....بلکہ تم ہو ہی نفرت کے قابل۔“
”وجہ ؟“اس کے لہجے میں شامل کرب اسوہ کے لیے حیران کن نہیںتھا۔
اسوہ استہزائی انداز میں بولی ”محبت اور نفرت کے لیے وجہ بے معنی ہے۔“
”ایسا صرف محبت کے بارے سنا تھا۔“
” کچھ بے وقوف ایسا ہی سمجھتے ہیں۔“
رباب حیرانی سے اسوہ کو دیکھ رہی تھی جو عمار کے استفسار پر آگ بگولا ہونے کے بجاے اسے دوبدو جواب دے رہی تھی۔
”معلومات میں اضافے کے لیے شکریہ۔“ عمار آگے بڑھ گیا۔
”بات سنو۔“اسوہ نے پکارا۔
”جی۔“اس کے لہجے میں خوش گوار حیرت تھی۔
”میں رباب کی خاطر تمھیں آخری بارتنبیہ کر رہی ہوں۔ اگر یونیورسٹی سے بے دخل نہیں ہوناچاہتے تو اپنی بے ہودہ حرکتوں پر قابو رکھو۔ اوریقینا تم اچھی طرح جانتے ہو کہ یہ دھمکی نہیں ہے۔“ وہ رباب کا بازو پکڑ کر کیفے ٹیریا کی طرف بڑھ گئی۔جبکہ عمار وہیں کھڑامسکراتی نظروں سے انھیں گھورتا رہا۔
چند قدم لے کر اسوہ پیچھے مڑ ی اور اسے آئینہ دکھاتے ہوئے بولی۔
”جب معاشی لحاظ سے میرے برابر ہو جاﺅتو والدین کو ہمارے ہاں بھیج دینا۔یقینا پاپا ہم پلہ خاندان کو ناں نہیں کریں گے۔“
وہ دعوے سے بولا۔” شادی کروں گا تو آپ سے ورنہ کسی سے بھی نہیں۔“
اسوہ زہر خند انداز میں مسکرائی۔”اور جب کوئی نواب زادہ مجھے بیاہ لے جائے گا تب؟“
”پھر بھی نہیں کروں گا۔“عمار مضبوط لہجے میں بولا تھا۔
”کچھ بڑبولوں کو بھونڈے انداز اور لچردعووں سے اظہارمحبت کا شوق ہوتا ہے،مگر تھوڑا وقت گزرنے کے بعد وہ اپنے گزشتہ دعووں کے خلاف کر کے شرمندہ ہونے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔“ طنزیہ انداز میں کہہ کروہ رباب کے ساتھ کیفے ٹیریا کی طرف بڑھ گئی۔
عمار کے ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہوگئی تھی۔ یوں جیسے جنگل میں ناچتے مور کو اپنے پاوں نظر آ گئے ہوں۔
٭٭٭
”شکریہ۔“قدم بڑھاتے ہی رباب نے بے ساختہ اس کا ہاتھ تھام لیا۔
اسوہ مسکرائی۔”شکریہ کیسا۔“
” اتنے تحمل کا مظاہرہ کیا اوراسے جتلا بھی دیا کہ یہ سب تم نے میری وجہ سے کیا ہے۔“
” پہلی اور آخری کوشش تھی۔اب بھی وہ کمینہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا تو دیکھنا کیا حشر کرتی ہوں۔“
”دفع کرو،اتنی اہمیت بھی دینے کی ضرورت نہیں۔“
” میری جان! اہمیت تواسے تم نے دلوائی ہے۔ورنہ اسوہ اسلم شکور ایسے بے گرے پڑوں کو گھاس ڈالے،ناممکن۔“
”کہاناں دفع کرو۔“رباب نے دوبارہ اس موضوع سے پہلو تہی کرنا چاہی۔
”دفع تو کب کا کیا ہوا ہے۔ بس یہ یاد رہے کہ ا ب مجھ سے گلہ نہ کرنا۔“
”تم سے بڑھ کر میرے لیے کوئی اہم نہیں سمجھیں۔“نشست سنبھالتے ہوئے رباب نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
اسوہ مان سے بولی۔”کسی کوہونا بھی نہیں چاہیے۔“
” اب تک کل کی گفتگو کو لیے بیٹھی ہو۔“
”ہاں،تمھاراایک گھٹیا لڑکے کی طرف داری کرنامیںکہاں برداشت کرسکتی ہوں۔“
رباب نے صفائی دی۔”میں نے فقط حق کا اظہار کیا تھا۔“
”یعنی وہ حق پر ہے۔“اسوہ کا موڈ بگڑنے لگا۔
” اب دفع کرو اس موضوع کو۔“ کوفت بھرے انداز میں کہہ کر رباب بیرے کو چاے کا بتانے لگی۔
٭٭٭
” بہت خوش نظر آرہا ہے میرا بیٹا!“سکینہ نے روٹیوں کا چھابا اور اور سالن کی پلیٹ عمار کے سامنے رکھتے ہوئے خوشگوار لہجے میں پوچھا۔
”کوئی خاص بات تو نہیں ہے امی جان !“عمار کے ہونٹوں پر مچلتی مسکراہٹ معدوم نہیں ہوئی تھی۔
”اللہ پاک ہمیشہ میرے لال کو مسکراتا رکھے۔“سکینہ اس کے ماتھے پر بوسا دے کر سامنے بیٹھ گئی تھی۔اس کے کھانا کھانے کے دوران اسے وارفتگی سے تکتی رہی۔فارغ ہو کر وہ پاﺅں پسار کر لیٹ گیا۔جبکہ ماں برتن سمیٹ کر باورچی خانے کی طرف بڑھ گئی کہ اسے بیٹے کے لیے چاے بنانا تھی۔
اس کے چاے تیا ر کرنے تک عمار کا والد دفتر سے واپس آگیا تھا۔ سکینہ،عمار کو چاے دے کر شوہر کے لیے کھانا گرم کرنے لگی۔بشیر صاحب بھی تازہ دم ہو کر بیٹے کے کمرے میں آ گیا تھا۔
اس چھوٹے سے گھر میں دو کمرے،ان کے سامنے برآمدہ اور ایک چھوٹا سا باورچی خانہ بنا ہوا تھا۔باورچی خانہ برآمدے کے ایک کونے ہی میں تھا۔ بیرونی دروازے کے ساتھ ایک جانب بیت الخلا اورغسل خانہ، جبکہ دوسری جانب عمار کے والد نے ایک دکان بنائی ہوئی تھی۔وہ چھوٹی سی کریانا کی دکان نماز عصر سے رات آٹھ نو بجے تک کھلی رہتی۔البتہ اتوار کے دن دکان صبح دم کھل جاتی۔دکان کمائی کا ذریعہ ہونے کے ساتھ ان کی بیٹھک کی ضرورت کو بھی پورا کرتی تھی۔دکان اورباتھ روم کے درمیانی خلاکے اوپر بھی گھاس پھونس کی چھت ڈالی گئی تھی۔گرمیوں کی دوپہر وہ جگہ مرغیوں کی آما جگاہ بنی رہتی۔گھر کا صحن بہت مختصر تھا۔ موسم گرما میں رات کے وقت وہاں بہ مشکل تین چارپائیوں کی جگہ بنتی تھی۔وہ بھی اس طرح کہ نیچے اترنے کے لیے پاﺅں یا سرھانے کی جانب استعمال کرنا پڑتی۔ مگروہ چار مرلے کا گھر بھی ان کے لیے کسی جنت سے کم نہیں تھا۔سکینہ خاتون صابر و شاکر عورت تھی اور پھر اس کا شوہر بشیر احمد بھی نہایت ملنسار، ہنس مکھ اور خوش اخلاق آدمی تھا۔اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ اس کا سلوک بالکل کسی دوست کاسا تھا۔دونوں آپس میںہر قسم کی گفتگو کر لیتے تھے۔
”آرام ہو رہا ہے میاں۔“بشیر احمد دوسری چارپائی پر پھیل کر گیا تھا۔
”جی ابو جان!“اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
”آج تو بہت تھک گیا ہوں یا ر!“سکینہ خاتون کو کھانا لاتے دیکھ کر وہ چارپائی پر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا تھا۔
”تو مان لیں نا اب آپ بوڑھے ہوگئے ہیں۔“عمار کا لہجہ بے تکلّفانہ ہونے کے باوجود ادب کا رنگ لیے ہوئے تھا۔
”پرسوں تم نے بھی کچھ ایسا ہی کہا تھا۔“
عمار ہنسا۔”بوڑھے اور جوان کی تھکاوٹ میں فرق ہوتاہے ابو جان! مجھے تھکا وٹ تھی کام کی زیادتی کی وجہ سے اور آپ کی تھکاوٹ بڑھاپے کے باعث ہے۔“
”سنا سکینہ بیگم !لڑکے کی شوخی بھری گفتگواس کے جوان ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔اور جوان اولاد کا ایک ہی تقاضا ہوتا ہے۔“
”توبہ۔“عمار نے کانوں کو ہاتھ لگاے۔”اب والد کے ساتھ گپ شپ کرنا بھی قابل گرفت ٹھہرا۔اور خدارا امی جان اب میری شادی کا ذکر نہ چھیڑدینا۔“
” نکل گئی شوخی کے غبارے سے ہوا۔“بشیر معنی خیز ہنسی سے بولا۔ ”ویسے شادی اتنی بھی بھیانک نہیں ہوتی۔“
”شادی سے کون کم بخت ڈرتا ہے ابو جان !میں تو بیوی سے ڈرتا ہوں۔“
”ساری عورتیں تمھاری ماں کی طرح لڑاکاتھوڑی ہوتی ہیں۔“
”امی جان تو بہت پیاری ہیں۔“عمارساتھ بیٹھی ماں کو بازوﺅں میں بھرا۔”اورشکر کریں، آپ کی قسمت اچھی تھی جو امی جان جیسی شریک حیات ملیں۔“
” نئی سن لو۔“بشیر احمد ہنسا۔”یک نہ شد دو شد“پہلے تمھاری ماں اپنے سگھڑاپے کے راگ الاپتی نظر آتیں،اب بیٹے کی طرف داریاں شروع ہو گئیں۔“
سکینہ خاتون مسکراتے ہوئے ان کی بحث سن رہی تھی،وہ عموماََ خاموش فریق کا کردار ادا کرتی تھی۔
” ابو جان ! ایمان سے بتائیںکیا امی جان جیسی دوسری ڈھونڈ لیں گے؟“
”اگرتمھارا خیال ہے کہ میرا جواب نفی میں ہوگا ....“بشیر احمد ایک لحظے کے لیے رکا اور پھر منہ بناتے ہوئے بولا۔”تو یقینا تمھارا خیال درست ہے۔“
عمار کے ساتھ سکینہ بھی ہنس پڑی تھی۔
”تم ہمیشہ اپنی شادی کی بات کو اسی طرح آئیں بائیں کر کے ٹال دیتے ہو۔کہیں کوئی چکر تو نہیں چلا رکھا۔“
”ابو جان !اب خواتین کی موجودی میں توایسی باتیں نہ کریں۔“
بشیر احمد نے زور دار قہقہہ لگایا اور سکینہ خاتون نے جھینپ کر عمار کا کان پکڑ لیا۔ ”اچھا اب میں امی جان سے خاتون ہوگئی ہوں۔“
”امی جان !آپ جتنی بھی کوشش کر لیں یہ کان نہیں اکھڑ سکتا،پھر خود کو تھکانے کا فائدہ۔“
”بڑا بے شرم ہو گیا ہے یہ لڑکا۔“وہ کھانے کے برتن سمیٹنے لگی۔
عمار نے منہ بنایا۔” اب خوش ہو جائیں کہ ماں بیٹے میں جھگڑا کرا دیا۔“
سکینہ برتن اٹھا کر باورچی خانے کی طرف بڑھ گئی تھی۔
”یقینا ٹرخانے کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے بر خوردار!“ بشیر احمد بھی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیاتھا۔اسے معلوم تھا کہ عمار نے شادی کے مسئلے پر کبھی سیدھے منہ گفتگو نہیں کرنا تھی۔ یوں بھی وہ پڑھ رہا تھا۔پڑھائی کے بعد ہی اس نے کہیں اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونا تھا،اس کے بعد بشیر احمد اصرار کرتا ہوا اچھا بھی لگتا۔اور یہی وجہ تھی کہ سکینہ خاتون نے اس موضوع پر کبھی بھی اس کی طرف داری نہیں کی تھی۔
ماں باپ کے رخصت ہوتے ہی اسوہ چھلانگ لا کر اس کے خیالوں میں آ دھمکی تھی۔
وہ خود کلامی کرتے ہوئے بڑبڑایا۔”ابو جان !میں آپ سے زیادہ بے تاب ہوں۔مگر جس کے لیے بے چین ہوں شاید وہ میری قسمت میں نہیں ہے۔“
اس کے کانوں میں اسوہ کا نفرت انگیز لہجہ گونجا۔”میں اس سے بہت نفرت کرتی ہوں۔کیونکہ تم ہو ہی نفرت کے قابل ....نفرت کے لیے وجہ کا ہونا ضروری نہیں ہوتا ....اگر یونیورسٹی سے نہیں نکلنا چاہتے تو ........“وہ اس کی گفتگو کو یاد کرنے لگا، کچھ بھی تھا آج وہ اسے مخاطب ہوئی تھی اور عمار کے لیے یہ بھی اعزاز کی بات تھی۔
٭٭٭
اسوہ کے سمجھانے کے باوجود عمارباز نہیں آیا تھا۔چاہ کر بھی وہ خود پر قابو نہیں رکھ سکتا تھا۔اس کی کوشش ہوتی کہ جہاں اسوہ موجود ہو وہاں نہ جائے،ورنہ اسوہ کو دیکھنا اس کی مجبوری بن جاتی تھی۔اتفاق سے دونوں ہم جماعت تھے۔کلاس روم سے باہر تو وہ کوشش کر کے دائیں بائیں ہو جاتا مگر کلاس روم میں خود کو باز نہیں رکھ سکتا تھا۔اس دن بھی دوران سبق پروفیسر ہاشم اسے مخاطب ہوا ....
” عمار !....یقینا تمھاری توجہ سبق کی طرف نہیں ہے۔“
”نن....نہیں سر۔“اچانک پکارے جانے پر وہ سٹ پٹاکر کھڑا ہو گیا تھا۔اسوہ نے اسے تیز نظروں سے گھورا۔یقیناوہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
پروفیسر نے معنی خیز انداز میں سر ہلایا۔”چلیں میرے سوال کا جواب دے دیں۔“
”سس....سوری سر میں آپ کا سوال نہیں سن سکا ؟“
” دو اور دو کتنے ہوتے ہیں ؟“پروفیسر ہاشم نے انتہائی سنجیدگی سے پوچھا۔
”چچ....چار۔“اس نے گڑبڑا کر جواب دیا۔
”جوطالب علم پڑھائی کے بجائے اپنی توجہ کسی اور طرف مبذول کرے اس کا فیل ہونا دو اور دو چار کی طرح یقینی ہے۔براہ مہربانی آنکھیں اورکان میری طرف متوجہ رکھیں۔“ طلبہ کے چہروں پر مسکراہٹ کھل گئی تھی۔ بلاشبہ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھتے۔اوراس کی اسوہ میں دل چسپی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی تھی۔
عمار نادم ہو کربیٹھ گیا۔اور جتنی دیر پروفیسرہاشم کاسبق جاری رہا اس نے اسوہ کی طرف دیکھنے سے گریز کیا تھا۔
پروفیسر ہاشم کے کلاس روم سے نکلنے کی دیر تھی، اسوہ تیر کی طرح اس کی جانب بڑھی۔اور پھر جب تک دوسرے طلبہ سمجھ پاتے کلاس روم” چٹاخ “کی زور دار آواز سے گونج اٹھا۔
”تمھاری اتنی جراَت۔“اسوہ پھنکاری۔
عمارمجرم بنا اس کے چہرے پر پھیلی نفرت کو گھورتا رہا۔اس عالم میں بھی وہ اسے اچھی ہی لگ رہی تھی۔
اسوہ کا ہاتھ دوبارہ اٹھا مگر اس سے پہلے کہ عمار کے چہرے تک پہنچ پاتا۔ اسماءنے اس کی کلائی تھام لی تھی۔
”آپ ہوش میں ہیں؟“اسماءکے لہجے میں شامل غصہ تمام کے لیے حیران کن تھا۔
”تم ہوتی کون ہو میرا ہاتھ پکڑنے والی۔“اسوہ نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔اس اثنا میں باقی بھی ان کے نزدیک جمع ہو گئے تھے۔
اسماءترکی بہ ترکی بولی۔”اور تم کون ہوتی ہو عما رپر ہاتھ اٹھانے والی۔“
رباب نے اسوہ کو تھام لیا۔”کیا ہوگیا ہے تمھیں۔“
مگر وہ رباب کو جواب دیے بغیر اسماءکی طرف متوجہ رہی۔”اگر اتنی تکلیف ہوئی ہے تو اسے باندھ کر رکھو۔پرائی لڑکیوں کو گھورنا نہایت گھٹیا،بے ہودہ اور غلیظ حرکت ہے۔نہ جانے اس شہدے کی وجہ سے پروفیسر ہاشم میرے بارے کیا سوچ رہے ہو ں گے۔“
اسماءبرہمی سے چلائی۔” جانتی ہوں تم جیسی امیرزادیوں کے لچھن بڑی آئی نیک پروین۔“
”بتاﺅ، مجھ میں کون سی غلط بات دیکھی ہے؟“اسوہ جارحانہ انداز میں اسماءکی طرف بڑھی۔
”پاگل مت بنو۔“رباب نے بے ساختہ اس کا بازو تھام لیاتھا۔
”ذرا قریب آﺅ۔“اسماءنے بپھرتے ہوئے اسے للکارا۔
عمار، اسماءکا ہاتھ تھامتے ہوئے ملتجی ہوا۔ ”غلطی میری تھی،اسے غصہ کرنے کا حق ہے۔“
”کیا گنواروں کی طرح لڑ رہے ہو یا ر!“زوہیب جو کہ طلبہ کی ایک یونین کا صدر تھا۔اونچی آواز میں بولا۔”ماسٹر کرنے والے طلبہ کی یہ حالت دیکھ کر مجھے تو رونا آرہا ہے۔اور مس اسوہ ! پلیز،عمار نے ایسا کچھ نہیں کیا کہ آپ یوں بپھر جائیں۔“
”میں آپ کو جواب دہ نہیں ہوں مسٹر!“ زوہیب کو کہہ کر وہ قہر آلود نظروں سے اسماءکی جانب متوجہ ہو ئی۔”مس لیلیٰ!تم دیکھنا میں کیا کرتی ہوں۔“یہ کہہ کروہ کلاس روم باہر نکل گئی۔باقی طلبہ بھی منتشر ہونے لگے۔ یوں بھی چھٹی کا وقت تھا۔
عمار سر تھام کر وہیں بیٹھ گیاتھا۔مدثر قریب آیا۔”چلو چاے پیتے ہیں۔“
” تم پیو،میرا دل نہیں چاہ رہا۔“
”کہا تھاناں، خود پر قابو رکھا کرو۔“مدثر اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا تھا۔
”آپ کو اس کا ہاتھ پکڑنا چاہیے تھا۔نواب زادی اپنے گھر میں ہو گی۔“اسماءسخت تپی ہوئی تھی۔
”اسماءبہن ! وہ حق بہ جانب تھی،کیونکہ میری وجہ سے اسے خفت اٹھانا پڑی۔“
بہن کے لفظ پر اسماءکے چہرے پر ناپسندیدگی نمودار ہوئی مگر عمار اس کی جانب متوجہ ہی نہیں تھا کہ اسے معلوم ہوتا۔یا شاید وہ جان بوجھ کے اسے نظر انداز کر رہا تھا۔اسوہ کے علاوہ اس کے دل میں کسی لڑکی کا دخل ممکن نہیں تھا۔
”بس آپ ہی کو دل پر اختیار نہیں ہے۔“جلے بھنے انداز میں کہہ کر وہ بھی باہر نکل گئی۔
”اب اٹھو بھی یا یہیں شام کرنا ہے۔“
” تھوڑی دیر اکیلا چھوڑ سکتے ہو۔“عمارنے بیزاری ظاہر کی۔
” چلتا ہوں۔“مدثر اس کی ذہنی حالت سے واقف تھا، مزید بحث کیے بغیر اٹھ گیا۔
عمارنے آنکھیں بند کر لیں، اس کی نگاہوں میں اسوہ کا لال بھبوکا چہرہ لہرانے لگا، اس نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ اسو ہ کی آنکھوں میں اس کے لیے اتنی نفرت ہو گی۔
جاری ہے
قسط نمبر1
ریاض عاقب کوہلر
” پاگل تو نہیں ہو۔ “رباب نے اسے سختی سے جھڑکا۔
” پاگل پن کیسا؟“اسوہ نے منہ بنایا۔
”بے چارے نے ایسا کیا کر دیا کہ، تم نے اتنی زیادہ توہین کر دی۔“
” لڑکیوں کو گھورنے والے بے شرم مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتے۔پھر موصوف کا مقام دیکھو۔ ایک کلرک کا بیٹا،اسوہ اسلم شکورخان سے عشق فرمانے چلا ہے۔“
رباب مزاحیہ لہجے میں بولی۔” کیا کہتے ہیں ....
عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب
جو لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بجھے
اسوہ نے قہقہہ لگایا۔”اس کی آتش پر تو ایسا پانی پھینکا ہے چنگاری بھی باقی نہیں رہی ہو گی۔“
رباب بھی بے ساختہ ہنس پڑی۔” بڑی ظالم ہو یار !اتنا خوبروو پرکشش نوجوان ہے، پڑھائی میں بھی نمایاں ہے،کیا ہوا جو غریب ہے۔“
اسوہ نے آنکھیں نکالیں۔” بہتر ہوگا خود اسے اپنا لو۔“
” میری منگنی ہو چکی ہے۔یوں بھی اسوہ شکور کی موجودی میں کسی اور کی دال کہاں گلتی ہے۔“
”نفرت ہے مجھے مرد ذات سے۔“
رباب نے پوچھا۔”تو کیا ساری زندگی کنواری بیٹھی رہو گی ؟“
” حرج ہی کیا ہے ؟“اسوہ نے کندھے اچکائے۔
رباب نے فلسفیانہ لہجے میں کہا۔” فطرت سے مفر مشکل ہے۔“
اسوہ ہنسی۔”فطرت سے کون بھاگ رہا ہے،میں تو مردوں سے دور ہونے کی بات کر رہی ہوں۔“
” شادی فطرت ہی ہوتی ہے محترمہ۔“
” ضرورت محسوس ہوئی تو دیکھا جائے گا،فی الحال تو موڈ خراب نہ کرو۔“اسوہ نے ناک بھوں چڑھائی۔
رباب نے طنزیہ لہجے میں کہا۔”امیر زادیوںکی طبیعت کی تو کیا بات ہے۔“
وہ اس کے طنز کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بولی۔”تم کون سامفلس ہو۔“
” مگر تمھاری طرح اکلوتی نہیں ہوں۔“
اسوہ نے موضوع تبدیل کیا۔”لڑائی چھوڑو اور اپنے منگیتر کی سناﺅ؟“
”وہی پیسا کمانے کی مشین بنا ہوا ہے۔“رباب نے منہ بنایا۔
”اب کال نہیں کرتا؟“
”کرتا ہے،مگر اس کے پاس گپ شپ کا وقت نہیں ہوتا۔ خیریت پوچھ کر ایک دو رسمی جملے کہنا اور پھر وقت کی کمی کوکوس کر خدا حافظ۔“
”تو یہ کم ہے؟“اسوہ نے طنزکیا۔
”پہلے گھنٹا بھر لمبی کالیں کیا کرتا تھا،اب دو تین منٹ سے زیادہ بات نہیں کرتاہو سکتی۔شاید ٹیلی فون کا بل محترم سے برداشت نہیں ہوتا۔“
”تمھارے لیے ہی کما رہا ہے محترمہ۔“
” کہتی تو ٹھیک ہو۔“رباب نے قہقہ لگایا۔” جب مردہمارے لیے دن رات خوار ہوں، تو بہت اچھے لگتے ہیں۔“
”مجھے تو کسی صورت نہیں بھاتے۔“اسوہ نے منہ بنایا۔
”اپنے پاپا بھی اچھے نہیں لگتے۔“
اسوہ برہم ہوئی۔”بکو مت،میں عام مردوں کی بات کر رہی تھی۔“
رباب نے وارفتگی سے بولی۔”انھی عام مردوںمیں جب کوئی خاص بنتا ہے پھر اس جیسا اپنا کوئی نہیں رہتا۔“
اس کافلسفہ اسوہ کو مزید تپا گیا تھا۔”تمھاری سوئی اب تک اسی کمینے پر اٹکی ہوئی ہے۔“
”نہیں جی۔“رباب نے تردید میں سرہلایا۔”میں اپنے کامی کو یاد کر رہی تھی۔“
اسوہ نے دھمکی دی۔”خبردار جو تم نے اس کی بات کی۔“
رباب چڑتے ہوئے بولی۔”میں تو نہیں، البتہ تم بار بار اسی کا ذکر چھیڑ دیتی ہو۔“
”کمینے کاذکرکیا اور وہ پہنچ گیا۔“اسوہ کے چہرے پر بیزاری پھیل گئی تھی۔ دونوں یونیورسٹی کنٹین میں بیٹھی تھیں۔رباب نے مڑ کر دیکھا، عمار نے حسبِ عادت ایسی جگہ پسند کی تھی جہاں وہ براہ راست اسوہ کا چہرہ دیکھ سکتا تھا۔اوربیٹھتے ہی اس کی آنکھوں نے اسوہ کے چہرے کا طواف شروع کردیا تھا۔
”یہ ایسے باز نہیں آئے گا۔“اسوہ نے دانت پیستے ہوئے نشست چھوڑی، مگر رباب نے جلدی سے اس کی کلائی تھا م لی۔
”پاگل مت بنو،کیوں خود کو بدنام کرنے پر تلی ہو۔اور پھر کسی کو یونیورسٹی کی کنٹین میں بیٹھنے سے منع تونہیں کیا جا سکتا۔“
وہ غصے سے بولی۔”میں کسی کے بیٹھنے پر نہیں دیدے پھاڑ کر گھورنے پر معترض ہوں۔“
رباب اسے سمجھاتے ہوئے بولی۔”تھوڑی دیر پہلے تم نے اسے گیلری میں جھڑکا،بلکہ اچھی خاصی بے عزتی کی۔ جبکہ اس بے چارے کا قصور صرف اتنا تھا کہ کھڑا محترمہ کا دیدار کر رہا تھا۔ اور میرے خیال میں یہ اتنا بڑا جرم بھی نہیں ہے۔ کسی کاگھورنا اگر اتنا ہی برا لگتا ہے تو نقاب اوڑھنا شروع کر دو،ثواب بھی ملے گا اور گندی نظروں سے چھٹکارابھی۔“
” کچھ زیادہ ہی اس کی طرف داری کر رہی ہو۔“وہ رباب پربرس پڑی۔
رباب کا سر نفی میں ہلا۔”تمھیں سمجھا رہی ہوں۔کسی کے گھورنے سے تمھارا کیا بگڑتا ہے۔“
”تو کوئی گھورے کیوں ؟“اسوہ پیر پٹختی ہوئی کنٹین سے باہر نکل گئی۔اور رباب افسوس سے سر ہلاتی ہوئی کاﺅنٹر کی طرف بڑھ گئی۔بل کی ادائی کے بعد وہ عمار کی ٹیبل کی طرف بڑھ گئی۔ اب تک وہ دروازے کی طرف متوجہ تھا جہاں سے اسوہ باہرنکلی تھی۔
قریب جاکر رباب نے اسے متوجہ کیا۔” آپ کے دو منٹ لے سکتی ہوں مسٹر عمار۔“
”کیوں نہیں مس!....“اس کا لہجہ حیرانی سے پر تھا۔
نشست سنبھالتے ہوئے رباب شائستہ لہجے میں بولی۔”عمار صاحب! اگر میری کوئی بات بری یا توہین آمیزلگے تو براہ مہربانی مجھے معاف کر دینا۔ میرا مقصد آپ کی دل آزاری نہیں ہے۔“
”آپ اسوہ کی سہیلی ہیں اس لیے میں آپ کو بہن سمجھتا ہوں اور بہنیں کبھی بھائیوں کا برا نہیں چاہتیں۔“
”شکریہ عمار بھائی!“وہ ممنونیت سے بولی۔”میں یہ بتانے آئی ہوں کہ اسوہ کے دل میں آپ کے لیے رتی بھر بھی محبت نہیں ہے۔اور اس کی وجہ شکل و صورت یا کردار کی کوئی خامی نہیں ہے۔آپ کا شماریونیورسٹی کے چند خوش شکل لڑکوں میں کیا جا سکتا ہے۔ عادات و اطوار بھی ٹھیک ہیں۔لیکن معاشی لحاظ سے آپ دونوں کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ وہ اسلم شکورخان کی اکلوتی بیٹی ہے،جو خان گروپ آف کمپنیز کا مالک ہے۔اور آپ ایک کلرک کے بیٹے ہیں۔با لفرض وہ آپ سے شادی پر راضی ہو بھی جاتی ہے تو اس کے باپ کو کون راضی کرے گا،کیا انھیں مخمل میں ٹاٹ کا پیوند گوارا ہو گا؟یا اسوہ بغاوت کر کے شادی کر لے تو کیا آپ اسے وہ سہولیات،وہ عیش آرام مہیا کر سکتے ہیںجن کی وہ بچپن سے عادی ہے۔جانتے ہو اس کے ہینڈ بیگ کی قیمت پچاس ہزار ہے، سینڈلوں کی قیمت بیس پچیس ہزار سے زیادہ ہوگی۔ لباس سے لے کر میک اپ کے سامان تک وہ امپورٹڈ اوراتنا مہنگاسامان خریدتی ہے کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اس کی ایک بار کی شاپنگ سے سفید پوش طبقے کی دس پندرہ لڑکیوں کا جہیز آسانی سے تیار ہو سکتا ہے۔وہ ہر ماہ شاپنگ کے لیے کنیڈا،برطانیہ،فرانس،ابو ظہبی کاچکر لگاتی ہے۔شاید تعلیم کی تکمیل بھی وہ آکسفورڈ،کیمرج جیسی کسی یونیورسٹی میں کرتی، مگر اکلوتا ہونے کی وجہ سے لاڈلی ہے اور والدین سے دور نہیں رہنا چاہتی۔“
عمار پھیکی مسکراہٹ سے بولا۔” یقینا آپ میرے احساسات سے ناواقف ہیں۔کسی کو چاہنا اختیار سے باہر ہوتا ہے۔خواب دیکھنے والے کی نظراپنی اوقات پر نہیں خدا کی رحمت پر ہوتی ہے اور اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ خواب ہوتا ہی وہی ہے جو امکان سے باہر ہو۔باقی جانتا ہوں وہ مجھے نہیں مل سکتی۔نہ میرا ارادہ اس سے اظہار محبت کرنے کا ہے۔ البتہ اسے دیکھنا میری مجبوری ہے۔نہ چاہتے ہوئے بھی میری نظریں اس پر گڑی رہتی ہیں یقین مانو میں بے بس ہوں۔کاش میں اس قابل ہوتاکہ اپنے خوابوں کو سچا کر سکتا۔“
” ناممکن الحصول کی تمنا کرنا بے وقوفی ہی کہلائے گا۔اور ستم تو یہ ہے کہ وہ آپ سے محبت بھی نہیں کرتی،بلکہ برا نہ مانو تو کہوں گی سخت نفرت کرتی ہے۔ ابھی مجھ سے اس لیے جھگڑ کر کے گئی ہے کہ میں نے اسے آپ کی توہین کرنے سے کیوں روکا۔“
”اس کی نفرت میرے لیے دکھ کا باعث سہی، مگر یوں میری محبت تو کم نہیں ہو سکتی ناں۔“
”چلتی ہوں۔“رباب جانتی تھی کہ اس بحث کا کوئی نتیجا نکلنے والا نہیں تھا۔
”آپ شاید خفا ہو گئی ہیں۔“
”بس افسوس ہے کہ آپ جان بوجھ کر اپنا وقار اور عزت خراب کرنے پر تُلے ہیں۔“
”شکریہ بہن،آپ کا خلوص بھرا رویہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔“
رباب ہونٹوں پر زبردستی کی مسکراہٹ سجائے واپس مڑ گئی۔عمار نے اسے مایوس کیا تھا۔اس کا خیال تھا کہ وہ اسے قائل کر لے گی،مگر بھول گئی تھی کہ وہ مہلک مرض ناقابل علاج ہوتاہے۔
٭٭٭
” آج عمار بھائی سے بات کی تھی۔“ پارکنگ کی طرف جاتے ہوئے وہ اسوہ کو مخاطب ہوئی۔
”کس سلسلے میں ؟“اس نے حیرانی سے پوچھا۔”اور وہ تمھارا بھائی کب بنا؟“
” سوچا اسے برا بھلا سمجھا دوں اور تمھارے مابین طبقاتی فرق کی طرف اس کی توجہ مبذول کر ا دوں۔“
”تو ....“
”بس تاویلیں کرنے لگا۔“
اسوہ طنزیہ انداز میں بولی۔”حالانکہ تم نے اسے بھائی بھی بنا دیا پھر بھی نہ مانا۔“
” بہن تو خیر مجھے اس نے بنایا ہے،باقی کہہ رہاتھا تمھیں نہ دیکھنا اس کے بس سے باہر ہے۔ باوجود یہ کہ وہ اپنی اور تمھاری حیثیت سے خوب واقف ہے۔بہ قول اس کے نہ تو اس نے کبھی اسوہ کے ساتھ محبت کا اظہار کیا ہے اور نہ وہ ایسا ارادہ رکھتا ہے۔البتہ کسی کو چاہنا غیر ارادی فعل ہے اس لیے وہ خود کو بے بس سمجھتا ہے۔“
اسوہ بھڑکتے ہوئے بولی۔”اگر کبھی ایسی کوشش کی تواس کی زبان کٹوا دوں گی۔“
” جانے دو یار !تم نے تو ہر وقت مرچیں چبائی ہوتی ہیں۔محبت ہی کرتا ہے ناں۔ اور یہ جرم نہیں ہے کہ اسے دشمن سمجھا جائے۔“
”وہ مجھے اچھا نہیں لگتا۔یقین مانو میں نے اس بارے پاپاجانی کو کچھ نہیں بتایا، ورنہ اب تک اس کی ہڈیوں کا سرما بن چکا ہوتا۔“
”ذرا میں بھی سنوں تم انھیں کیا بتاﺅ گی؟یہی کہ ایک لڑکا تمھاری طرف دیکھتا ہے۔“
” غیر عورت کو گھورنا چھوٹا جرم ہے ؟“اسوہ تلخ ہونے لگی۔
رباب طنزیہ انداز میں بولی۔” اچھا لگنے پر تم اسے نہ گھورتیں؟“
”اس میں اچھا لگنے والی کیا بات ہے۔“
رباب مصر ہوئی۔” فرض کرلو....“
”پتا نہیں۔“اسوہ نے منہ بنایا۔
”اسما ءکوجانتی ہو ؟“رباب نے اچانک غیر متعلق سوال پوچھا۔
اسوہ نے تصدیق چاہنے والے انداز میں کہا۔”اپنی کلاس فیلو۔“
”ہاں۔“رباب نے اثبات میں سر ہلایا۔
” اسے کیا ہوا؟“اسوہ کے لہجے میں حیرانی تھی۔
”یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم کہ اسے کیا ہوا،مگر کبھی کلاس روم میں بیٹھے ہوئے اس کا جائزہ لینا۔“
”یار !سیدھی طرح پھوٹ دینے سے تمھارا بل نہیں آئے گا۔“
رباب ہنس پڑی۔ دونوں اسوہ کی کار کے ساتھ رک کر محو گفتگو تھیں۔ ڈرائیور اسے دیکھ کر کار کے عقبی دروازے کے ساتھ اٹن شن کھڑا ہو گیاتھا۔
”پچھلے چار پانچ دنوں سے وہ بھی کسی کو ایسے ہی گھورتی ہے جیسے کوئی تمھیں گھورتا ہے۔“
”کس کو ؟“
”جو تمھیں گھورتا ہے۔“
”تم نے پہلے تو ذکر نہیں کیا۔“
”آج ہی عاصمہ سے پتا چلاہے۔“
”احمقوں کے سینگ تو نہیں ہوتے۔“اسوہ نے نفرت سے ہونٹ سکیڑے۔
”کسی کا اچھا لگنا اختیار کے تابع نہیں ہوتا،حالاں کہ وہ اچھی طرح جانتی ہے عمار خود کسی دوسرے کی محبت میں مبتلا ہے۔“
اسوہ نے بے پرواہی سے کندھے اچکائے۔”پھر؟“
”پھرعمار کو کیا کرنا چاہیے۔اسے جھاڑ پلادے،بے عزت کرے یا اس کے منہ پر تھپڑ مارے۔“
اسوہ نے طنزیہ لہجے میںکہا۔”تمھارا عمار بھائی لڑکی تو نہیں ہے نا۔“
رباب تلخی سے بولی۔”مس اسوہ اسلم شکورخان !....اپنے لینے اور دینے کے باٹ ایک ہی رکھو۔ ایک طرف مردوں کے ساتھ برابری کا دعوا۔اور دوسری جانب صنف نازک ہونے کاواویلا۔ہم کسی لڑکے کو گھوریں تو خیر ہے، وہ ہمیں دیکھے تو کمینہ اور خبیث ہوا۔ واہ....“
”بلا شبہ لڑکیاں ہی تو ہیں نا ہم۔“
” لڑکیوں کے لیے جو پردے کا حکم ہے پہلے اسے پورا کرو تاکہ کسی مرد کو کمینگی کا موقع نہ ملے ورنہ کسی گھورنے والی کی خباثت میں آپ برابر کی شریک ہوں گی۔“
”واہیات لڑکی۔“منہ بگاڑتے ہوئے اسوہ کار کی جانب بڑھ گئی۔
٭٭٭
”تم میں ذراسی بھی عقل نہیں ہے۔وہ سیٹھ اسلم شکورخان کی بیٹی ہے۔جو تم جیسوں کو ملازم بھی نہیں رکھے گا کجا حور شکل بیٹی پکڑا دے۔“مدثر نے اسے شرمندہ کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔
اسے خاموش پا کر مدثر نے لفظی گولہ باری جاری رکھی۔”غضب خدا کا،یونیورسٹی میں کتنی ہی خوب صورت لڑکیاں بھری پڑی ہیں جو خاندانی لحاظ سے تمھاری ہم پلّہ بھی ہیں۔اور تم تمام کو نظر اندازر کر کے براہ راست اسوہ اسلم شکور تک پہنچ گئے۔ خدا کا خوف کرو یا ر۔“
عمار نے چپ سادھے رکھی۔
”اب منہ سے کچھ پھوٹو بھی۔“مدثر برہم ہوا۔
” جان بوجھ کر تو ایسا نہیں کر رہا۔“
” مان لیا دل تمھارے اختیار میں نہیں،آنکھیں تو ہیں۔“
” کسی کو دیکھنا جرم نہیں ہے کہ مجھے سزا ہو جائے گی۔“
”گناہ تو ہے۔اوراس وجہ سے تمھاری تعلیم کا کتنا حرج ہو رہا ہے۔یونھی چلتا رہاتو آسانی سے فیل ہو جاﺅ گے۔ کبھی سوچا ہے یونیورسٹی فیس پوری کرنے کے لیے تمھارے والد کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔“
عمارنے منہ بنایا۔”ایسا بس تم ہی سوچتے ہو۔“
مدثر نے طنزیہ انداز میں کہا۔” حقیقت بیان کی ہے محترم۔“
”کسی کو چاہنے،دیکھنے،دل میں رکھنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں پڑھائی ہی سے غافل ہو جاﺅں،بے فکر رہو،ان شاءاللہ کلاس میںکسی کو آگے نہیں بڑھنے دوں گا۔“
”سوائے اسوہ اسلم شکور کے۔“مدثر نے لقمہ دیا۔عمار پھیکے انداز میں مسکرا دیا تھا۔
٭٭٭
”منہ کیوں پھلایا ہوا ہے ؟“خالی پیریڈ میں اسوہ کے ساتھ قدم ملاتے ہوئے رباب مستفسر ہوئی۔
”ایسانہیں ہے۔“اسوہ نے نفی میں سرہلایا، مگر الفاظ اور لہجے کا تضاد واضح تھا۔
”جھوٹ، تمھارا گریز کرنا واضح نظر آرہا ہے۔“رباب کے ہونٹوں پر شکوہ مچلا۔
”تم میری واحدسہیلی ہو۔اگر ایک بے ہودہ شخص کی طرف داری کرتے ہوئے تم مجھے لعن طعن کرو گی تو کیا مجھے دکھ نہیں ہو گا۔“
” کس کی طرف داری کی ہے میری جان!اگر کل کی گفتگو پر خفا ہو تو وہ عمار کی طرف داری ہر گز نہیں تھی۔“
”روبا! یاد رکھنا کہ میں اس سے بہت نفرت کرتی ہوں۔ “اس نے نفرت سے ہونٹ سکیڑے۔
” اس وجہ سے کہ میں غریب ہوں۔“ عمار کی آوازنے دونوں کوحیران کردیاتھا۔ جانے وہ کب سے عقب میں چلتے ہوئے ان کی گفتگو سن رہا تھا۔
اسوہ نے حقارت سے زہر اگلا۔ ”نہیں ....بلکہ تم ہو ہی نفرت کے قابل۔“
”وجہ ؟“اس کے لہجے میں شامل کرب اسوہ کے لیے حیران کن نہیںتھا۔
اسوہ استہزائی انداز میں بولی ”محبت اور نفرت کے لیے وجہ بے معنی ہے۔“
”ایسا صرف محبت کے بارے سنا تھا۔“
” کچھ بے وقوف ایسا ہی سمجھتے ہیں۔“
رباب حیرانی سے اسوہ کو دیکھ رہی تھی جو عمار کے استفسار پر آگ بگولا ہونے کے بجاے اسے دوبدو جواب دے رہی تھی۔
”معلومات میں اضافے کے لیے شکریہ۔“ عمار آگے بڑھ گیا۔
”بات سنو۔“اسوہ نے پکارا۔
”جی۔“اس کے لہجے میں خوش گوار حیرت تھی۔
”میں رباب کی خاطر تمھیں آخری بارتنبیہ کر رہی ہوں۔ اگر یونیورسٹی سے بے دخل نہیں ہوناچاہتے تو اپنی بے ہودہ حرکتوں پر قابو رکھو۔ اوریقینا تم اچھی طرح جانتے ہو کہ یہ دھمکی نہیں ہے۔“ وہ رباب کا بازو پکڑ کر کیفے ٹیریا کی طرف بڑھ گئی۔جبکہ عمار وہیں کھڑامسکراتی نظروں سے انھیں گھورتا رہا۔
چند قدم لے کر اسوہ پیچھے مڑ ی اور اسے آئینہ دکھاتے ہوئے بولی۔
”جب معاشی لحاظ سے میرے برابر ہو جاﺅتو والدین کو ہمارے ہاں بھیج دینا۔یقینا پاپا ہم پلہ خاندان کو ناں نہیں کریں گے۔“
وہ دعوے سے بولا۔” شادی کروں گا تو آپ سے ورنہ کسی سے بھی نہیں۔“
اسوہ زہر خند انداز میں مسکرائی۔”اور جب کوئی نواب زادہ مجھے بیاہ لے جائے گا تب؟“
”پھر بھی نہیں کروں گا۔“عمار مضبوط لہجے میں بولا تھا۔
”کچھ بڑبولوں کو بھونڈے انداز اور لچردعووں سے اظہارمحبت کا شوق ہوتا ہے،مگر تھوڑا وقت گزرنے کے بعد وہ اپنے گزشتہ دعووں کے خلاف کر کے شرمندہ ہونے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔“ طنزیہ انداز میں کہہ کروہ رباب کے ساتھ کیفے ٹیریا کی طرف بڑھ گئی۔
عمار کے ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہوگئی تھی۔ یوں جیسے جنگل میں ناچتے مور کو اپنے پاوں نظر آ گئے ہوں۔
٭٭٭
”شکریہ۔“قدم بڑھاتے ہی رباب نے بے ساختہ اس کا ہاتھ تھام لیا۔
اسوہ مسکرائی۔”شکریہ کیسا۔“
” اتنے تحمل کا مظاہرہ کیا اوراسے جتلا بھی دیا کہ یہ سب تم نے میری وجہ سے کیا ہے۔“
” پہلی اور آخری کوشش تھی۔اب بھی وہ کمینہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا تو دیکھنا کیا حشر کرتی ہوں۔“
”دفع کرو،اتنی اہمیت بھی دینے کی ضرورت نہیں۔“
” میری جان! اہمیت تواسے تم نے دلوائی ہے۔ورنہ اسوہ اسلم شکور ایسے بے گرے پڑوں کو گھاس ڈالے،ناممکن۔“
”کہاناں دفع کرو۔“رباب نے دوبارہ اس موضوع سے پہلو تہی کرنا چاہی۔
”دفع تو کب کا کیا ہوا ہے۔ بس یہ یاد رہے کہ ا ب مجھ سے گلہ نہ کرنا۔“
”تم سے بڑھ کر میرے لیے کوئی اہم نہیں سمجھیں۔“نشست سنبھالتے ہوئے رباب نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
اسوہ مان سے بولی۔”کسی کوہونا بھی نہیں چاہیے۔“
” اب تک کل کی گفتگو کو لیے بیٹھی ہو۔“
”ہاں،تمھاراایک گھٹیا لڑکے کی طرف داری کرنامیںکہاں برداشت کرسکتی ہوں۔“
رباب نے صفائی دی۔”میں نے فقط حق کا اظہار کیا تھا۔“
”یعنی وہ حق پر ہے۔“اسوہ کا موڈ بگڑنے لگا۔
” اب دفع کرو اس موضوع کو۔“ کوفت بھرے انداز میں کہہ کر رباب بیرے کو چاے کا بتانے لگی۔
٭٭٭
” بہت خوش نظر آرہا ہے میرا بیٹا!“سکینہ نے روٹیوں کا چھابا اور اور سالن کی پلیٹ عمار کے سامنے رکھتے ہوئے خوشگوار لہجے میں پوچھا۔
”کوئی خاص بات تو نہیں ہے امی جان !“عمار کے ہونٹوں پر مچلتی مسکراہٹ معدوم نہیں ہوئی تھی۔
”اللہ پاک ہمیشہ میرے لال کو مسکراتا رکھے۔“سکینہ اس کے ماتھے پر بوسا دے کر سامنے بیٹھ گئی تھی۔اس کے کھانا کھانے کے دوران اسے وارفتگی سے تکتی رہی۔فارغ ہو کر وہ پاﺅں پسار کر لیٹ گیا۔جبکہ ماں برتن سمیٹ کر باورچی خانے کی طرف بڑھ گئی کہ اسے بیٹے کے لیے چاے بنانا تھی۔
اس کے چاے تیا ر کرنے تک عمار کا والد دفتر سے واپس آگیا تھا۔ سکینہ،عمار کو چاے دے کر شوہر کے لیے کھانا گرم کرنے لگی۔بشیر صاحب بھی تازہ دم ہو کر بیٹے کے کمرے میں آ گیا تھا۔
اس چھوٹے سے گھر میں دو کمرے،ان کے سامنے برآمدہ اور ایک چھوٹا سا باورچی خانہ بنا ہوا تھا۔باورچی خانہ برآمدے کے ایک کونے ہی میں تھا۔ بیرونی دروازے کے ساتھ ایک جانب بیت الخلا اورغسل خانہ، جبکہ دوسری جانب عمار کے والد نے ایک دکان بنائی ہوئی تھی۔وہ چھوٹی سی کریانا کی دکان نماز عصر سے رات آٹھ نو بجے تک کھلی رہتی۔البتہ اتوار کے دن دکان صبح دم کھل جاتی۔دکان کمائی کا ذریعہ ہونے کے ساتھ ان کی بیٹھک کی ضرورت کو بھی پورا کرتی تھی۔دکان اورباتھ روم کے درمیانی خلاکے اوپر بھی گھاس پھونس کی چھت ڈالی گئی تھی۔گرمیوں کی دوپہر وہ جگہ مرغیوں کی آما جگاہ بنی رہتی۔گھر کا صحن بہت مختصر تھا۔ موسم گرما میں رات کے وقت وہاں بہ مشکل تین چارپائیوں کی جگہ بنتی تھی۔وہ بھی اس طرح کہ نیچے اترنے کے لیے پاﺅں یا سرھانے کی جانب استعمال کرنا پڑتی۔ مگروہ چار مرلے کا گھر بھی ان کے لیے کسی جنت سے کم نہیں تھا۔سکینہ خاتون صابر و شاکر عورت تھی اور پھر اس کا شوہر بشیر احمد بھی نہایت ملنسار، ہنس مکھ اور خوش اخلاق آدمی تھا۔اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ اس کا سلوک بالکل کسی دوست کاسا تھا۔دونوں آپس میںہر قسم کی گفتگو کر لیتے تھے۔
”آرام ہو رہا ہے میاں۔“بشیر احمد دوسری چارپائی پر پھیل کر گیا تھا۔
”جی ابو جان!“اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
”آج تو بہت تھک گیا ہوں یا ر!“سکینہ خاتون کو کھانا لاتے دیکھ کر وہ چارپائی پر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا تھا۔
”تو مان لیں نا اب آپ بوڑھے ہوگئے ہیں۔“عمار کا لہجہ بے تکلّفانہ ہونے کے باوجود ادب کا رنگ لیے ہوئے تھا۔
”پرسوں تم نے بھی کچھ ایسا ہی کہا تھا۔“
عمار ہنسا۔”بوڑھے اور جوان کی تھکاوٹ میں فرق ہوتاہے ابو جان! مجھے تھکا وٹ تھی کام کی زیادتی کی وجہ سے اور آپ کی تھکاوٹ بڑھاپے کے باعث ہے۔“
”سنا سکینہ بیگم !لڑکے کی شوخی بھری گفتگواس کے جوان ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔اور جوان اولاد کا ایک ہی تقاضا ہوتا ہے۔“
”توبہ۔“عمار نے کانوں کو ہاتھ لگاے۔”اب والد کے ساتھ گپ شپ کرنا بھی قابل گرفت ٹھہرا۔اور خدارا امی جان اب میری شادی کا ذکر نہ چھیڑدینا۔“
” نکل گئی شوخی کے غبارے سے ہوا۔“بشیر معنی خیز ہنسی سے بولا۔ ”ویسے شادی اتنی بھی بھیانک نہیں ہوتی۔“
”شادی سے کون کم بخت ڈرتا ہے ابو جان !میں تو بیوی سے ڈرتا ہوں۔“
”ساری عورتیں تمھاری ماں کی طرح لڑاکاتھوڑی ہوتی ہیں۔“
”امی جان تو بہت پیاری ہیں۔“عمارساتھ بیٹھی ماں کو بازوﺅں میں بھرا۔”اورشکر کریں، آپ کی قسمت اچھی تھی جو امی جان جیسی شریک حیات ملیں۔“
” نئی سن لو۔“بشیر احمد ہنسا۔”یک نہ شد دو شد“پہلے تمھاری ماں اپنے سگھڑاپے کے راگ الاپتی نظر آتیں،اب بیٹے کی طرف داریاں شروع ہو گئیں۔“
سکینہ خاتون مسکراتے ہوئے ان کی بحث سن رہی تھی،وہ عموماََ خاموش فریق کا کردار ادا کرتی تھی۔
” ابو جان ! ایمان سے بتائیںکیا امی جان جیسی دوسری ڈھونڈ لیں گے؟“
”اگرتمھارا خیال ہے کہ میرا جواب نفی میں ہوگا ....“بشیر احمد ایک لحظے کے لیے رکا اور پھر منہ بناتے ہوئے بولا۔”تو یقینا تمھارا خیال درست ہے۔“
عمار کے ساتھ سکینہ بھی ہنس پڑی تھی۔
”تم ہمیشہ اپنی شادی کی بات کو اسی طرح آئیں بائیں کر کے ٹال دیتے ہو۔کہیں کوئی چکر تو نہیں چلا رکھا۔“
”ابو جان !اب خواتین کی موجودی میں توایسی باتیں نہ کریں۔“
بشیر احمد نے زور دار قہقہہ لگایا اور سکینہ خاتون نے جھینپ کر عمار کا کان پکڑ لیا۔ ”اچھا اب میں امی جان سے خاتون ہوگئی ہوں۔“
”امی جان !آپ جتنی بھی کوشش کر لیں یہ کان نہیں اکھڑ سکتا،پھر خود کو تھکانے کا فائدہ۔“
”بڑا بے شرم ہو گیا ہے یہ لڑکا۔“وہ کھانے کے برتن سمیٹنے لگی۔
عمار نے منہ بنایا۔” اب خوش ہو جائیں کہ ماں بیٹے میں جھگڑا کرا دیا۔“
سکینہ برتن اٹھا کر باورچی خانے کی طرف بڑھ گئی تھی۔
”یقینا ٹرخانے کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے بر خوردار!“ بشیر احمد بھی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیاتھا۔اسے معلوم تھا کہ عمار نے شادی کے مسئلے پر کبھی سیدھے منہ گفتگو نہیں کرنا تھی۔ یوں بھی وہ پڑھ رہا تھا۔پڑھائی کے بعد ہی اس نے کہیں اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونا تھا،اس کے بعد بشیر احمد اصرار کرتا ہوا اچھا بھی لگتا۔اور یہی وجہ تھی کہ سکینہ خاتون نے اس موضوع پر کبھی بھی اس کی طرف داری نہیں کی تھی۔
ماں باپ کے رخصت ہوتے ہی اسوہ چھلانگ لا کر اس کے خیالوں میں آ دھمکی تھی۔
وہ خود کلامی کرتے ہوئے بڑبڑایا۔”ابو جان !میں آپ سے زیادہ بے تاب ہوں۔مگر جس کے لیے بے چین ہوں شاید وہ میری قسمت میں نہیں ہے۔“
اس کے کانوں میں اسوہ کا نفرت انگیز لہجہ گونجا۔”میں اس سے بہت نفرت کرتی ہوں۔کیونکہ تم ہو ہی نفرت کے قابل ....نفرت کے لیے وجہ کا ہونا ضروری نہیں ہوتا ....اگر یونیورسٹی سے نہیں نکلنا چاہتے تو ........“وہ اس کی گفتگو کو یاد کرنے لگا، کچھ بھی تھا آج وہ اسے مخاطب ہوئی تھی اور عمار کے لیے یہ بھی اعزاز کی بات تھی۔
٭٭٭
اسوہ کے سمجھانے کے باوجود عمارباز نہیں آیا تھا۔چاہ کر بھی وہ خود پر قابو نہیں رکھ سکتا تھا۔اس کی کوشش ہوتی کہ جہاں اسوہ موجود ہو وہاں نہ جائے،ورنہ اسوہ کو دیکھنا اس کی مجبوری بن جاتی تھی۔اتفاق سے دونوں ہم جماعت تھے۔کلاس روم سے باہر تو وہ کوشش کر کے دائیں بائیں ہو جاتا مگر کلاس روم میں خود کو باز نہیں رکھ سکتا تھا۔اس دن بھی دوران سبق پروفیسر ہاشم اسے مخاطب ہوا ....
” عمار !....یقینا تمھاری توجہ سبق کی طرف نہیں ہے۔“
”نن....نہیں سر۔“اچانک پکارے جانے پر وہ سٹ پٹاکر کھڑا ہو گیا تھا۔اسوہ نے اسے تیز نظروں سے گھورا۔یقیناوہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
پروفیسر نے معنی خیز انداز میں سر ہلایا۔”چلیں میرے سوال کا جواب دے دیں۔“
”سس....سوری سر میں آپ کا سوال نہیں سن سکا ؟“
” دو اور دو کتنے ہوتے ہیں ؟“پروفیسر ہاشم نے انتہائی سنجیدگی سے پوچھا۔
”چچ....چار۔“اس نے گڑبڑا کر جواب دیا۔
”جوطالب علم پڑھائی کے بجائے اپنی توجہ کسی اور طرف مبذول کرے اس کا فیل ہونا دو اور دو چار کی طرح یقینی ہے۔براہ مہربانی آنکھیں اورکان میری طرف متوجہ رکھیں۔“ طلبہ کے چہروں پر مسکراہٹ کھل گئی تھی۔ بلاشبہ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھتے۔اوراس کی اسوہ میں دل چسپی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی تھی۔
عمار نادم ہو کربیٹھ گیا۔اور جتنی دیر پروفیسرہاشم کاسبق جاری رہا اس نے اسوہ کی طرف دیکھنے سے گریز کیا تھا۔
پروفیسر ہاشم کے کلاس روم سے نکلنے کی دیر تھی، اسوہ تیر کی طرح اس کی جانب بڑھی۔اور پھر جب تک دوسرے طلبہ سمجھ پاتے کلاس روم” چٹاخ “کی زور دار آواز سے گونج اٹھا۔
”تمھاری اتنی جراَت۔“اسوہ پھنکاری۔
عمارمجرم بنا اس کے چہرے پر پھیلی نفرت کو گھورتا رہا۔اس عالم میں بھی وہ اسے اچھی ہی لگ رہی تھی۔
اسوہ کا ہاتھ دوبارہ اٹھا مگر اس سے پہلے کہ عمار کے چہرے تک پہنچ پاتا۔ اسماءنے اس کی کلائی تھام لی تھی۔
”آپ ہوش میں ہیں؟“اسماءکے لہجے میں شامل غصہ تمام کے لیے حیران کن تھا۔
”تم ہوتی کون ہو میرا ہاتھ پکڑنے والی۔“اسوہ نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔اس اثنا میں باقی بھی ان کے نزدیک جمع ہو گئے تھے۔
اسماءترکی بہ ترکی بولی۔”اور تم کون ہوتی ہو عما رپر ہاتھ اٹھانے والی۔“
رباب نے اسوہ کو تھام لیا۔”کیا ہوگیا ہے تمھیں۔“
مگر وہ رباب کو جواب دیے بغیر اسماءکی طرف متوجہ رہی۔”اگر اتنی تکلیف ہوئی ہے تو اسے باندھ کر رکھو۔پرائی لڑکیوں کو گھورنا نہایت گھٹیا،بے ہودہ اور غلیظ حرکت ہے۔نہ جانے اس شہدے کی وجہ سے پروفیسر ہاشم میرے بارے کیا سوچ رہے ہو ں گے۔“
اسماءبرہمی سے چلائی۔” جانتی ہوں تم جیسی امیرزادیوں کے لچھن بڑی آئی نیک پروین۔“
”بتاﺅ، مجھ میں کون سی غلط بات دیکھی ہے؟“اسوہ جارحانہ انداز میں اسماءکی طرف بڑھی۔
”پاگل مت بنو۔“رباب نے بے ساختہ اس کا بازو تھام لیاتھا۔
”ذرا قریب آﺅ۔“اسماءنے بپھرتے ہوئے اسے للکارا۔
عمار، اسماءکا ہاتھ تھامتے ہوئے ملتجی ہوا۔ ”غلطی میری تھی،اسے غصہ کرنے کا حق ہے۔“
”کیا گنواروں کی طرح لڑ رہے ہو یا ر!“زوہیب جو کہ طلبہ کی ایک یونین کا صدر تھا۔اونچی آواز میں بولا۔”ماسٹر کرنے والے طلبہ کی یہ حالت دیکھ کر مجھے تو رونا آرہا ہے۔اور مس اسوہ ! پلیز،عمار نے ایسا کچھ نہیں کیا کہ آپ یوں بپھر جائیں۔“
”میں آپ کو جواب دہ نہیں ہوں مسٹر!“ زوہیب کو کہہ کر وہ قہر آلود نظروں سے اسماءکی جانب متوجہ ہو ئی۔”مس لیلیٰ!تم دیکھنا میں کیا کرتی ہوں۔“یہ کہہ کروہ کلاس روم باہر نکل گئی۔باقی طلبہ بھی منتشر ہونے لگے۔ یوں بھی چھٹی کا وقت تھا۔
عمار سر تھام کر وہیں بیٹھ گیاتھا۔مدثر قریب آیا۔”چلو چاے پیتے ہیں۔“
” تم پیو،میرا دل نہیں چاہ رہا۔“
”کہا تھاناں، خود پر قابو رکھا کرو۔“مدثر اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا تھا۔
”آپ کو اس کا ہاتھ پکڑنا چاہیے تھا۔نواب زادی اپنے گھر میں ہو گی۔“اسماءسخت تپی ہوئی تھی۔
”اسماءبہن ! وہ حق بہ جانب تھی،کیونکہ میری وجہ سے اسے خفت اٹھانا پڑی۔“
بہن کے لفظ پر اسماءکے چہرے پر ناپسندیدگی نمودار ہوئی مگر عمار اس کی جانب متوجہ ہی نہیں تھا کہ اسے معلوم ہوتا۔یا شاید وہ جان بوجھ کے اسے نظر انداز کر رہا تھا۔اسوہ کے علاوہ اس کے دل میں کسی لڑکی کا دخل ممکن نہیں تھا۔
”بس آپ ہی کو دل پر اختیار نہیں ہے۔“جلے بھنے انداز میں کہہ کر وہ بھی باہر نکل گئی۔
”اب اٹھو بھی یا یہیں شام کرنا ہے۔“
” تھوڑی دیر اکیلا چھوڑ سکتے ہو۔“عمارنے بیزاری ظاہر کی۔
” چلتا ہوں۔“مدثر اس کی ذہنی حالت سے واقف تھا، مزید بحث کیے بغیر اٹھ گیا۔
عمارنے آنکھیں بند کر لیں، اس کی نگاہوں میں اسوہ کا لال بھبوکا چہرہ لہرانے لگا، اس نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ اسو ہ کی آنکھوں میں اس کے لیے اتنی نفرت ہو گی۔
جاری ہے
Comment