Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

پشیمان

Collapse
This topic is closed.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • پشیمان

    پشیمان
    قسط نمبر1
    ریاض عاقب کوہلر
    ” پاگل تو نہیں ہو۔ “رباب نے اسے سختی سے جھڑکا۔
    ” پاگل پن کیسا؟“اسوہ نے منہ بنایا۔
    ”بے چارے نے ایسا کیا کر دیا کہ، تم نے اتنی زیادہ توہین کر دی۔“
    ” لڑکیوں کو گھورنے والے بے شرم مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتے۔پھر موصوف کا مقام دیکھو۔ ایک کلرک کا بیٹا،اسوہ اسلم شکورخان سے عشق فرمانے چلا ہے۔“
    رباب مزاحیہ لہجے میں بولی۔” کیا کہتے ہیں ....
    عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب
    جو لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بجھے
    اسوہ نے قہقہہ لگایا۔”اس کی آتش پر تو ایسا پانی پھینکا ہے چنگاری بھی باقی نہیں رہی ہو گی۔“
    رباب بھی بے ساختہ ہنس پڑی۔” بڑی ظالم ہو یار !اتنا خوبروو پرکشش نوجوان ہے، پڑھائی میں بھی نمایاں ہے،کیا ہوا جو غریب ہے۔“
    اسوہ نے آنکھیں نکالیں۔” بہتر ہوگا خود اسے اپنا لو۔“
    ” میری منگنی ہو چکی ہے۔یوں بھی اسوہ شکور کی موجودی میں کسی اور کی دال کہاں گلتی ہے۔“
    ”نفرت ہے مجھے مرد ذات سے۔“
    رباب نے پوچھا۔”تو کیا ساری زندگی کنواری بیٹھی رہو گی ؟“
    ” حرج ہی کیا ہے ؟“اسوہ نے کندھے اچکائے۔
    رباب نے فلسفیانہ لہجے میں کہا۔” فطرت سے مفر مشکل ہے۔“
    اسوہ ہنسی۔”فطرت سے کون بھاگ رہا ہے،میں تو مردوں سے دور ہونے کی بات کر رہی ہوں۔“
    ” شادی فطرت ہی ہوتی ہے محترمہ۔“
    ” ضرورت محسوس ہوئی تو دیکھا جائے گا،فی الحال تو موڈ خراب نہ کرو۔“اسوہ نے ناک بھوں چڑھائی۔
    رباب نے طنزیہ لہجے میں کہا۔”امیر زادیوںکی طبیعت کی تو کیا بات ہے۔“
    وہ اس کے طنز کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بولی۔”تم کون سامفلس ہو۔“
    ” مگر تمھاری طرح اکلوتی نہیں ہوں۔“
    اسوہ نے موضوع تبدیل کیا۔”لڑائی چھوڑو اور اپنے منگیتر کی سناﺅ؟“
    ”وہی پیسا کمانے کی مشین بنا ہوا ہے۔“رباب نے منہ بنایا۔
    ”اب کال نہیں کرتا؟“
    ”کرتا ہے،مگر اس کے پاس گپ شپ کا وقت نہیں ہوتا۔ خیریت پوچھ کر ایک دو رسمی جملے کہنا اور پھر وقت کی کمی کوکوس کر خدا حافظ۔“
    ”تو یہ کم ہے؟“اسوہ نے طنزکیا۔
    ”پہلے گھنٹا بھر لمبی کالیں کیا کرتا تھا،اب دو تین منٹ سے زیادہ بات نہیں کرتاہو سکتی۔شاید ٹیلی فون کا بل محترم سے برداشت نہیں ہوتا۔“
    ”تمھارے لیے ہی کما رہا ہے محترمہ۔“
    ” کہتی تو ٹھیک ہو۔“رباب نے قہقہ لگایا۔” جب مردہمارے لیے دن رات خوار ہوں، تو بہت اچھے لگتے ہیں۔“
    ”مجھے تو کسی صورت نہیں بھاتے۔“اسوہ نے منہ بنایا۔
    ”اپنے پاپا بھی اچھے نہیں لگتے۔“
    اسوہ برہم ہوئی۔”بکو مت،میں عام مردوں کی بات کر رہی تھی۔“
    رباب نے وارفتگی سے بولی۔”انھی عام مردوںمیں جب کوئی خاص بنتا ہے پھر اس جیسا اپنا کوئی نہیں رہتا۔“
    اس کافلسفہ اسوہ کو مزید تپا گیا تھا۔”تمھاری سوئی اب تک اسی کمینے پر اٹکی ہوئی ہے۔“
    ”نہیں جی۔“رباب نے تردید میں سرہلایا۔”میں اپنے کامی کو یاد کر رہی تھی۔“
    اسوہ نے دھمکی دی۔”خبردار جو تم نے اس کی بات کی۔“
    رباب چڑتے ہوئے بولی۔”میں تو نہیں، البتہ تم بار بار اسی کا ذکر چھیڑ دیتی ہو۔“
    ”کمینے کاذکرکیا اور وہ پہنچ گیا۔“اسوہ کے چہرے پر بیزاری پھیل گئی تھی۔ دونوں یونیورسٹی کنٹین میں بیٹھی تھیں۔رباب نے مڑ کر دیکھا، عمار نے حسبِ عادت ایسی جگہ پسند کی تھی جہاں وہ براہ راست اسوہ کا چہرہ دیکھ سکتا تھا۔اوربیٹھتے ہی اس کی آنکھوں نے اسوہ کے چہرے کا طواف شروع کردیا تھا۔
    ”یہ ایسے باز نہیں آئے گا۔“اسوہ نے دانت پیستے ہوئے نشست چھوڑی، مگر رباب نے جلدی سے اس کی کلائی تھا م لی۔
    ”پاگل مت بنو،کیوں خود کو بدنام کرنے پر تلی ہو۔اور پھر کسی کو یونیورسٹی کی کنٹین میں بیٹھنے سے منع تونہیں کیا جا سکتا۔“
    وہ غصے سے بولی۔”میں کسی کے بیٹھنے پر نہیں دیدے پھاڑ کر گھورنے پر معترض ہوں۔“
    رباب اسے سمجھاتے ہوئے بولی۔”تھوڑی دیر پہلے تم نے اسے گیلری میں جھڑکا،بلکہ اچھی خاصی بے عزتی کی۔ جبکہ اس بے چارے کا قصور صرف اتنا تھا کہ کھڑا محترمہ کا دیدار کر رہا تھا۔ اور میرے خیال میں یہ اتنا بڑا جرم بھی نہیں ہے۔ کسی کاگھورنا اگر اتنا ہی برا لگتا ہے تو نقاب اوڑھنا شروع کر دو،ثواب بھی ملے گا اور گندی نظروں سے چھٹکارابھی۔“
    ” کچھ زیادہ ہی اس کی طرف داری کر رہی ہو۔“وہ رباب پربرس پڑی۔
    رباب کا سر نفی میں ہلا۔”تمھیں سمجھا رہی ہوں۔کسی کے گھورنے سے تمھارا کیا بگڑتا ہے۔“
    ”تو کوئی گھورے کیوں ؟“اسوہ پیر پٹختی ہوئی کنٹین سے باہر نکل گئی۔اور رباب افسوس سے سر ہلاتی ہوئی کاﺅنٹر کی طرف بڑھ گئی۔بل کی ادائی کے بعد وہ عمار کی ٹیبل کی طرف بڑھ گئی۔ اب تک وہ دروازے کی طرف متوجہ تھا جہاں سے اسوہ باہرنکلی تھی۔
    قریب جاکر رباب نے اسے متوجہ کیا۔” آپ کے دو منٹ لے سکتی ہوں مسٹر عمار۔“
    ”کیوں نہیں مس!....“اس کا لہجہ حیرانی سے پر تھا۔
    نشست سنبھالتے ہوئے رباب شائستہ لہجے میں بولی۔”عمار صاحب! اگر میری کوئی بات بری یا توہین آمیزلگے تو براہ مہربانی مجھے معاف کر دینا۔ میرا مقصد آپ کی دل آزاری نہیں ہے۔“
    ”آپ اسوہ کی سہیلی ہیں اس لیے میں آپ کو بہن سمجھتا ہوں اور بہنیں کبھی بھائیوں کا برا نہیں چاہتیں۔“
    ”شکریہ عمار بھائی!“وہ ممنونیت سے بولی۔”میں یہ بتانے آئی ہوں کہ اسوہ کے دل میں آپ کے لیے رتی بھر بھی محبت نہیں ہے۔اور اس کی وجہ شکل و صورت یا کردار کی کوئی خامی نہیں ہے۔آپ کا شماریونیورسٹی کے چند خوش شکل لڑکوں میں کیا جا سکتا ہے۔ عادات و اطوار بھی ٹھیک ہیں۔لیکن معاشی لحاظ سے آپ دونوں کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ وہ اسلم شکورخان کی اکلوتی بیٹی ہے،جو خان گروپ آف کمپنیز کا مالک ہے۔اور آپ ایک کلرک کے بیٹے ہیں۔با لفرض وہ آپ سے شادی پر راضی ہو بھی جاتی ہے تو اس کے باپ کو کون راضی کرے گا،کیا انھیں مخمل میں ٹاٹ کا پیوند گوارا ہو گا؟یا اسوہ بغاوت کر کے شادی کر لے تو کیا آپ اسے وہ سہولیات،وہ عیش آرام مہیا کر سکتے ہیںجن کی وہ بچپن سے عادی ہے۔جانتے ہو اس کے ہینڈ بیگ کی قیمت پچاس ہزار ہے، سینڈلوں کی قیمت بیس پچیس ہزار سے زیادہ ہوگی۔ لباس سے لے کر میک اپ کے سامان تک وہ امپورٹڈ اوراتنا مہنگاسامان خریدتی ہے کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اس کی ایک بار کی شاپنگ سے سفید پوش طبقے کی دس پندرہ لڑکیوں کا جہیز آسانی سے تیار ہو سکتا ہے۔وہ ہر ماہ شاپنگ کے لیے کنیڈا،برطانیہ،فرانس،ابو ظہبی کاچکر لگاتی ہے۔شاید تعلیم کی تکمیل بھی وہ آکسفورڈ،کیمرج جیسی کسی یونیورسٹی میں کرتی، مگر اکلوتا ہونے کی وجہ سے لاڈلی ہے اور والدین سے دور نہیں رہنا چاہتی۔“
    عمار پھیکی مسکراہٹ سے بولا۔” یقینا آپ میرے احساسات سے ناواقف ہیں۔کسی کو چاہنا اختیار سے باہر ہوتا ہے۔خواب دیکھنے والے کی نظراپنی اوقات پر نہیں خدا کی رحمت پر ہوتی ہے اور اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ خواب ہوتا ہی وہی ہے جو امکان سے باہر ہو۔باقی جانتا ہوں وہ مجھے نہیں مل سکتی۔نہ میرا ارادہ اس سے اظہار محبت کرنے کا ہے۔ البتہ اسے دیکھنا میری مجبوری ہے۔نہ چاہتے ہوئے بھی میری نظریں اس پر گڑی رہتی ہیں یقین مانو میں بے بس ہوں۔کاش میں اس قابل ہوتاکہ اپنے خوابوں کو سچا کر سکتا۔“
    ” ناممکن الحصول کی تمنا کرنا بے وقوفی ہی کہلائے گا۔اور ستم تو یہ ہے کہ وہ آپ سے محبت بھی نہیں کرتی،بلکہ برا نہ مانو تو کہوں گی سخت نفرت کرتی ہے۔ ابھی مجھ سے اس لیے جھگڑ کر کے گئی ہے کہ میں نے اسے آپ کی توہین کرنے سے کیوں روکا۔“
    ”اس کی نفرت میرے لیے دکھ کا باعث سہی، مگر یوں میری محبت تو کم نہیں ہو سکتی ناں۔“
    ”چلتی ہوں۔“رباب جانتی تھی کہ اس بحث کا کوئی نتیجا نکلنے والا نہیں تھا۔
    ”آپ شاید خفا ہو گئی ہیں۔“
    ”بس افسوس ہے کہ آپ جان بوجھ کر اپنا وقار اور عزت خراب کرنے پر تُلے ہیں۔“
    ”شکریہ بہن،آپ کا خلوص بھرا رویہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔“
    رباب ہونٹوں پر زبردستی کی مسکراہٹ سجائے واپس مڑ گئی۔عمار نے اسے مایوس کیا تھا۔اس کا خیال تھا کہ وہ اسے قائل کر لے گی،مگر بھول گئی تھی کہ وہ مہلک مرض ناقابل علاج ہوتاہے۔
    ٭٭٭
    ” آج عمار بھائی سے بات کی تھی۔“ پارکنگ کی طرف جاتے ہوئے وہ اسوہ کو مخاطب ہوئی۔
    ”کس سلسلے میں ؟“اس نے حیرانی سے پوچھا۔”اور وہ تمھارا بھائی کب بنا؟“
    ” سوچا اسے برا بھلا سمجھا دوں اور تمھارے مابین طبقاتی فرق کی طرف اس کی توجہ مبذول کر ا دوں۔“
    ”تو ....“
    ”بس تاویلیں کرنے لگا۔“
    اسوہ طنزیہ انداز میں بولی۔”حالانکہ تم نے اسے بھائی بھی بنا دیا پھر بھی نہ مانا۔“
    ” بہن تو خیر مجھے اس نے بنایا ہے،باقی کہہ رہاتھا تمھیں نہ دیکھنا اس کے بس سے باہر ہے۔ باوجود یہ کہ وہ اپنی اور تمھاری حیثیت سے خوب واقف ہے۔بہ قول اس کے نہ تو اس نے کبھی اسوہ کے ساتھ محبت کا اظہار کیا ہے اور نہ وہ ایسا ارادہ رکھتا ہے۔البتہ کسی کو چاہنا غیر ارادی فعل ہے اس لیے وہ خود کو بے بس سمجھتا ہے۔“
    اسوہ بھڑکتے ہوئے بولی۔”اگر کبھی ایسی کوشش کی تواس کی زبان کٹوا دوں گی۔“
    ” جانے دو یار !تم نے تو ہر وقت مرچیں چبائی ہوتی ہیں۔محبت ہی کرتا ہے ناں۔ اور یہ جرم نہیں ہے کہ اسے دشمن سمجھا جائے۔“
    ”وہ مجھے اچھا نہیں لگتا۔یقین مانو میں نے اس بارے پاپاجانی کو کچھ نہیں بتایا، ورنہ اب تک اس کی ہڈیوں کا سرما بن چکا ہوتا۔“
    ”ذرا میں بھی سنوں تم انھیں کیا بتاﺅ گی؟یہی کہ ایک لڑکا تمھاری طرف دیکھتا ہے۔“
    ” غیر عورت کو گھورنا چھوٹا جرم ہے ؟“اسوہ تلخ ہونے لگی۔
    رباب طنزیہ انداز میں بولی۔” اچھا لگنے پر تم اسے نہ گھورتیں؟“
    ”اس میں اچھا لگنے والی کیا بات ہے۔“
    رباب مصر ہوئی۔” فرض کرلو....“
    ”پتا نہیں۔“اسوہ نے منہ بنایا۔
    ”اسما ءکوجانتی ہو ؟“رباب نے اچانک غیر متعلق سوال پوچھا۔
    اسوہ نے تصدیق چاہنے والے انداز میں کہا۔”اپنی کلاس فیلو۔“
    ”ہاں۔“رباب نے اثبات میں سر ہلایا۔
    ” اسے کیا ہوا؟“اسوہ کے لہجے میں حیرانی تھی۔
    ”یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم کہ اسے کیا ہوا،مگر کبھی کلاس روم میں بیٹھے ہوئے اس کا جائزہ لینا۔“
    ”یار !سیدھی طرح پھوٹ دینے سے تمھارا بل نہیں آئے گا۔“
    رباب ہنس پڑی۔ دونوں اسوہ کی کار کے ساتھ رک کر محو گفتگو تھیں۔ ڈرائیور اسے دیکھ کر کار کے عقبی دروازے کے ساتھ اٹن شن کھڑا ہو گیاتھا۔
    ”پچھلے چار پانچ دنوں سے وہ بھی کسی کو ایسے ہی گھورتی ہے جیسے کوئی تمھیں گھورتا ہے۔“
    ”کس کو ؟“
    ”جو تمھیں گھورتا ہے۔“
    ”تم نے پہلے تو ذکر نہیں کیا۔“
    ”آج ہی عاصمہ سے پتا چلاہے۔“
    ”احمقوں کے سینگ تو نہیں ہوتے۔“اسوہ نے نفرت سے ہونٹ سکیڑے۔
    ”کسی کا اچھا لگنا اختیار کے تابع نہیں ہوتا،حالاں کہ وہ اچھی طرح جانتی ہے عمار خود کسی دوسرے کی محبت میں مبتلا ہے۔“
    اسوہ نے بے پرواہی سے کندھے اچکائے۔”پھر؟“
    ”پھرعمار کو کیا کرنا چاہیے۔اسے جھاڑ پلادے،بے عزت کرے یا اس کے منہ پر تھپڑ مارے۔“
    اسوہ نے طنزیہ لہجے میںکہا۔”تمھارا عمار بھائی لڑکی تو نہیں ہے نا۔“
    رباب تلخی سے بولی۔”مس اسوہ اسلم شکورخان !....اپنے لینے اور دینے کے باٹ ایک ہی رکھو۔ ایک طرف مردوں کے ساتھ برابری کا دعوا۔اور دوسری جانب صنف نازک ہونے کاواویلا۔ہم کسی لڑکے کو گھوریں تو خیر ہے، وہ ہمیں دیکھے تو کمینہ اور خبیث ہوا۔ واہ....“
    ”بلا شبہ لڑکیاں ہی تو ہیں نا ہم۔“
    ” لڑکیوں کے لیے جو پردے کا حکم ہے پہلے اسے پورا کرو تاکہ کسی مرد کو کمینگی کا موقع نہ ملے ورنہ کسی گھورنے والی کی خباثت میں آپ برابر کی شریک ہوں گی۔“
    ”واہیات لڑکی۔“منہ بگاڑتے ہوئے اسوہ کار کی جانب بڑھ گئی۔
    ٭٭٭
    ”تم میں ذراسی بھی عقل نہیں ہے۔وہ سیٹھ اسلم شکورخان کی بیٹی ہے۔جو تم جیسوں کو ملازم بھی نہیں رکھے گا کجا حور شکل بیٹی پکڑا دے۔“مدثر نے اسے شرمندہ کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔
    اسے خاموش پا کر مدثر نے لفظی گولہ باری جاری رکھی۔”غضب خدا کا،یونیورسٹی میں کتنی ہی خوب صورت لڑکیاں بھری پڑی ہیں جو خاندانی لحاظ سے تمھاری ہم پلّہ بھی ہیں۔اور تم تمام کو نظر اندازر کر کے براہ راست اسوہ اسلم شکور تک پہنچ گئے۔ خدا کا خوف کرو یا ر۔“
    عمار نے چپ سادھے رکھی۔
    ”اب منہ سے کچھ پھوٹو بھی۔“مدثر برہم ہوا۔
    ” جان بوجھ کر تو ایسا نہیں کر رہا۔“
    ” مان لیا دل تمھارے اختیار میں نہیں،آنکھیں تو ہیں۔“
    ” کسی کو دیکھنا جرم نہیں ہے کہ مجھے سزا ہو جائے گی۔“
    ”گناہ تو ہے۔اوراس وجہ سے تمھاری تعلیم کا کتنا حرج ہو رہا ہے۔یونھی چلتا رہاتو آسانی سے فیل ہو جاﺅ گے۔ کبھی سوچا ہے یونیورسٹی فیس پوری کرنے کے لیے تمھارے والد کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔“
    عمارنے منہ بنایا۔”ایسا بس تم ہی سوچتے ہو۔“
    مدثر نے طنزیہ انداز میں کہا۔” حقیقت بیان کی ہے محترم۔“
    ”کسی کو چاہنے،دیکھنے،دل میں رکھنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں پڑھائی ہی سے غافل ہو جاﺅں،بے فکر رہو،ان شاءاللہ کلاس میںکسی کو آگے نہیں بڑھنے دوں گا۔“
    ”سوائے اسوہ اسلم شکور کے۔“مدثر نے لقمہ دیا۔عمار پھیکے انداز میں مسکرا دیا تھا۔
    ٭٭٭
    ”منہ کیوں پھلایا ہوا ہے ؟“خالی پیریڈ میں اسوہ کے ساتھ قدم ملاتے ہوئے رباب مستفسر ہوئی۔
    ”ایسانہیں ہے۔“اسوہ نے نفی میں سرہلایا، مگر الفاظ اور لہجے کا تضاد واضح تھا۔
    ”جھوٹ، تمھارا گریز کرنا واضح نظر آرہا ہے۔“رباب کے ہونٹوں پر شکوہ مچلا۔
    ”تم میری واحدسہیلی ہو۔اگر ایک بے ہودہ شخص کی طرف داری کرتے ہوئے تم مجھے لعن طعن کرو گی تو کیا مجھے دکھ نہیں ہو گا۔“
    ” کس کی طرف داری کی ہے میری جان!اگر کل کی گفتگو پر خفا ہو تو وہ عمار کی طرف داری ہر گز نہیں تھی۔“
    ”روبا! یاد رکھنا کہ میں اس سے بہت نفرت کرتی ہوں۔ “اس نے نفرت سے ہونٹ سکیڑے۔
    ” اس وجہ سے کہ میں غریب ہوں۔“ عمار کی آوازنے دونوں کوحیران کردیاتھا۔ جانے وہ کب سے عقب میں چلتے ہوئے ان کی گفتگو سن رہا تھا۔
    اسوہ نے حقارت سے زہر اگلا۔ ”نہیں ....بلکہ تم ہو ہی نفرت کے قابل۔“
    ”وجہ ؟“اس کے لہجے میں شامل کرب اسوہ کے لیے حیران کن نہیںتھا۔
    اسوہ استہزائی انداز میں بولی ”محبت اور نفرت کے لیے وجہ بے معنی ہے۔“
    ”ایسا صرف محبت کے بارے سنا تھا۔“
    ” کچھ بے وقوف ایسا ہی سمجھتے ہیں۔“
    رباب حیرانی سے اسوہ کو دیکھ رہی تھی جو عمار کے استفسار پر آگ بگولا ہونے کے بجاے اسے دوبدو جواب دے رہی تھی۔
    ”معلومات میں اضافے کے لیے شکریہ۔“ عمار آگے بڑھ گیا۔
    ”بات سنو۔“اسوہ نے پکارا۔
    ”جی۔“اس کے لہجے میں خوش گوار حیرت تھی۔
    ”میں رباب کی خاطر تمھیں آخری بارتنبیہ کر رہی ہوں۔ اگر یونیورسٹی سے بے دخل نہیں ہوناچاہتے تو اپنی بے ہودہ حرکتوں پر قابو رکھو۔ اوریقینا تم اچھی طرح جانتے ہو کہ یہ دھمکی نہیں ہے۔“ وہ رباب کا بازو پکڑ کر کیفے ٹیریا کی طرف بڑھ گئی۔جبکہ عمار وہیں کھڑامسکراتی نظروں سے انھیں گھورتا رہا۔
    چند قدم لے کر اسوہ پیچھے مڑ ی اور اسے آئینہ دکھاتے ہوئے بولی۔
    ”جب معاشی لحاظ سے میرے برابر ہو جاﺅتو والدین کو ہمارے ہاں بھیج دینا۔یقینا پاپا ہم پلہ خاندان کو ناں نہیں کریں گے۔“
    وہ دعوے سے بولا۔” شادی کروں گا تو آپ سے ورنہ کسی سے بھی نہیں۔“
    اسوہ زہر خند انداز میں مسکرائی۔”اور جب کوئی نواب زادہ مجھے بیاہ لے جائے گا تب؟“
    ”پھر بھی نہیں کروں گا۔“عمار مضبوط لہجے میں بولا تھا۔
    ”کچھ بڑبولوں کو بھونڈے انداز اور لچردعووں سے اظہارمحبت کا شوق ہوتا ہے،مگر تھوڑا وقت گزرنے کے بعد وہ اپنے گزشتہ دعووں کے خلاف کر کے شرمندہ ہونے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔“ طنزیہ انداز میں کہہ کروہ رباب کے ساتھ کیفے ٹیریا کی طرف بڑھ گئی۔
    عمار کے ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہوگئی تھی۔ یوں جیسے جنگل میں ناچتے مور کو اپنے پاوں نظر آ گئے ہوں۔
    ٭٭٭
    ”شکریہ۔“قدم بڑھاتے ہی رباب نے بے ساختہ اس کا ہاتھ تھام لیا۔
    اسوہ مسکرائی۔”شکریہ کیسا۔“
    ” اتنے تحمل کا مظاہرہ کیا اوراسے جتلا بھی دیا کہ یہ سب تم نے میری وجہ سے کیا ہے۔“
    ” پہلی اور آخری کوشش تھی۔اب بھی وہ کمینہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا تو دیکھنا کیا حشر کرتی ہوں۔“
    ”دفع کرو،اتنی اہمیت بھی دینے کی ضرورت نہیں۔“
    ” میری جان! اہمیت تواسے تم نے دلوائی ہے۔ورنہ اسوہ اسلم شکور ایسے بے گرے پڑوں کو گھاس ڈالے،ناممکن۔“
    ”کہاناں دفع کرو۔“رباب نے دوبارہ اس موضوع سے پہلو تہی کرنا چاہی۔
    ”دفع تو کب کا کیا ہوا ہے۔ بس یہ یاد رہے کہ ا ب مجھ سے گلہ نہ کرنا۔“
    ”تم سے بڑھ کر میرے لیے کوئی اہم نہیں سمجھیں۔“نشست سنبھالتے ہوئے رباب نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
    اسوہ مان سے بولی۔”کسی کوہونا بھی نہیں چاہیے۔“
    ” اب تک کل کی گفتگو کو لیے بیٹھی ہو۔“
    ”ہاں،تمھاراایک گھٹیا لڑکے کی طرف داری کرنامیںکہاں برداشت کرسکتی ہوں۔“
    رباب نے صفائی دی۔”میں نے فقط حق کا اظہار کیا تھا۔“
    ”یعنی وہ حق پر ہے۔“اسوہ کا موڈ بگڑنے لگا۔
    ” اب دفع کرو اس موضوع کو۔“ کوفت بھرے انداز میں کہہ کر رباب بیرے کو چاے کا بتانے لگی۔
    ٭٭٭
    ” بہت خوش نظر آرہا ہے میرا بیٹا!“سکینہ نے روٹیوں کا چھابا اور اور سالن کی پلیٹ عمار کے سامنے رکھتے ہوئے خوشگوار لہجے میں پوچھا۔
    ”کوئی خاص بات تو نہیں ہے امی جان !“عمار کے ہونٹوں پر مچلتی مسکراہٹ معدوم نہیں ہوئی تھی۔
    ”اللہ پاک ہمیشہ میرے لال کو مسکراتا رکھے۔“سکینہ اس کے ماتھے پر بوسا دے کر سامنے بیٹھ گئی تھی۔اس کے کھانا کھانے کے دوران اسے وارفتگی سے تکتی رہی۔فارغ ہو کر وہ پاﺅں پسار کر لیٹ گیا۔جبکہ ماں برتن سمیٹ کر باورچی خانے کی طرف بڑھ گئی کہ اسے بیٹے کے لیے چاے بنانا تھی۔
    اس کے چاے تیا ر کرنے تک عمار کا والد دفتر سے واپس آگیا تھا۔ سکینہ،عمار کو چاے دے کر شوہر کے لیے کھانا گرم کرنے لگی۔بشیر صاحب بھی تازہ دم ہو کر بیٹے کے کمرے میں آ گیا تھا۔
    اس چھوٹے سے گھر میں دو کمرے،ان کے سامنے برآمدہ اور ایک چھوٹا سا باورچی خانہ بنا ہوا تھا۔باورچی خانہ برآمدے کے ایک کونے ہی میں تھا۔ بیرونی دروازے کے ساتھ ایک جانب بیت الخلا اورغسل خانہ، جبکہ دوسری جانب عمار کے والد نے ایک دکان بنائی ہوئی تھی۔وہ چھوٹی سی کریانا کی دکان نماز عصر سے رات آٹھ نو بجے تک کھلی رہتی۔البتہ اتوار کے دن دکان صبح دم کھل جاتی۔دکان کمائی کا ذریعہ ہونے کے ساتھ ان کی بیٹھک کی ضرورت کو بھی پورا کرتی تھی۔دکان اورباتھ روم کے درمیانی خلاکے اوپر بھی گھاس پھونس کی چھت ڈالی گئی تھی۔گرمیوں کی دوپہر وہ جگہ مرغیوں کی آما جگاہ بنی رہتی۔گھر کا صحن بہت مختصر تھا۔ موسم گرما میں رات کے وقت وہاں بہ مشکل تین چارپائیوں کی جگہ بنتی تھی۔وہ بھی اس طرح کہ نیچے اترنے کے لیے پاﺅں یا سرھانے کی جانب استعمال کرنا پڑتی۔ مگروہ چار مرلے کا گھر بھی ان کے لیے کسی جنت سے کم نہیں تھا۔سکینہ خاتون صابر و شاکر عورت تھی اور پھر اس کا شوہر بشیر احمد بھی نہایت ملنسار، ہنس مکھ اور خوش اخلاق آدمی تھا۔اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ اس کا سلوک بالکل کسی دوست کاسا تھا۔دونوں آپس میںہر قسم کی گفتگو کر لیتے تھے۔
    ”آرام ہو رہا ہے میاں۔“بشیر احمد دوسری چارپائی پر پھیل کر گیا تھا۔
    ”جی ابو جان!“اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
    ”آج تو بہت تھک گیا ہوں یا ر!“سکینہ خاتون کو کھانا لاتے دیکھ کر وہ چارپائی پر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا تھا۔
    ”تو مان لیں نا اب آپ بوڑھے ہوگئے ہیں۔“عمار کا لہجہ بے تکلّفانہ ہونے کے باوجود ادب کا رنگ لیے ہوئے تھا۔
    ”پرسوں تم نے بھی کچھ ایسا ہی کہا تھا۔“
    عمار ہنسا۔”بوڑھے اور جوان کی تھکاوٹ میں فرق ہوتاہے ابو جان! مجھے تھکا وٹ تھی کام کی زیادتی کی وجہ سے اور آپ کی تھکاوٹ بڑھاپے کے باعث ہے۔“
    ”سنا سکینہ بیگم !لڑکے کی شوخی بھری گفتگواس کے جوان ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔اور جوان اولاد کا ایک ہی تقاضا ہوتا ہے۔“
    ”توبہ۔“عمار نے کانوں کو ہاتھ لگاے۔”اب والد کے ساتھ گپ شپ کرنا بھی قابل گرفت ٹھہرا۔اور خدارا امی جان اب میری شادی کا ذکر نہ چھیڑدینا۔“
    ” نکل گئی شوخی کے غبارے سے ہوا۔“بشیر معنی خیز ہنسی سے بولا۔ ”ویسے شادی اتنی بھی بھیانک نہیں ہوتی۔“
    ”شادی سے کون کم بخت ڈرتا ہے ابو جان !میں تو بیوی سے ڈرتا ہوں۔“
    ”ساری عورتیں تمھاری ماں کی طرح لڑاکاتھوڑی ہوتی ہیں۔“
    ”امی جان تو بہت پیاری ہیں۔“عمارساتھ بیٹھی ماں کو بازوﺅں میں بھرا۔”اورشکر کریں، آپ کی قسمت اچھی تھی جو امی جان جیسی شریک حیات ملیں۔“
    ” نئی سن لو۔“بشیر احمد ہنسا۔”یک نہ شد دو شد“پہلے تمھاری ماں اپنے سگھڑاپے کے راگ الاپتی نظر آتیں،اب بیٹے کی طرف داریاں شروع ہو گئیں۔“
    سکینہ خاتون مسکراتے ہوئے ان کی بحث سن رہی تھی،وہ عموماََ خاموش فریق کا کردار ادا کرتی تھی۔
    ” ابو جان ! ایمان سے بتائیںکیا امی جان جیسی دوسری ڈھونڈ لیں گے؟“
    ”اگرتمھارا خیال ہے کہ میرا جواب نفی میں ہوگا ....“بشیر احمد ایک لحظے کے لیے رکا اور پھر منہ بناتے ہوئے بولا۔”تو یقینا تمھارا خیال درست ہے۔“
    عمار کے ساتھ سکینہ بھی ہنس پڑی تھی۔
    ”تم ہمیشہ اپنی شادی کی بات کو اسی طرح آئیں بائیں کر کے ٹال دیتے ہو۔کہیں کوئی چکر تو نہیں چلا رکھا۔“
    ”ابو جان !اب خواتین کی موجودی میں توایسی باتیں نہ کریں۔“
    بشیر احمد نے زور دار قہقہہ لگایا اور سکینہ خاتون نے جھینپ کر عمار کا کان پکڑ لیا۔ ”اچھا اب میں امی جان سے خاتون ہوگئی ہوں۔“
    ”امی جان !آپ جتنی بھی کوشش کر لیں یہ کان نہیں اکھڑ سکتا،پھر خود کو تھکانے کا فائدہ۔“
    ”بڑا بے شرم ہو گیا ہے یہ لڑکا۔“وہ کھانے کے برتن سمیٹنے لگی۔
    عمار نے منہ بنایا۔” اب خوش ہو جائیں کہ ماں بیٹے میں جھگڑا کرا دیا۔“
    سکینہ برتن اٹھا کر باورچی خانے کی طرف بڑھ گئی تھی۔
    ”یقینا ٹرخانے کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے بر خوردار!“ بشیر احمد بھی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیاتھا۔اسے معلوم تھا کہ عمار نے شادی کے مسئلے پر کبھی سیدھے منہ گفتگو نہیں کرنا تھی۔ یوں بھی وہ پڑھ رہا تھا۔پڑھائی کے بعد ہی اس نے کہیں اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونا تھا،اس کے بعد بشیر احمد اصرار کرتا ہوا اچھا بھی لگتا۔اور یہی وجہ تھی کہ سکینہ خاتون نے اس موضوع پر کبھی بھی اس کی طرف داری نہیں کی تھی۔
    ماں باپ کے رخصت ہوتے ہی اسوہ چھلانگ لا کر اس کے خیالوں میں آ دھمکی تھی۔
    وہ خود کلامی کرتے ہوئے بڑبڑایا۔”ابو جان !میں آپ سے زیادہ بے تاب ہوں۔مگر جس کے لیے بے چین ہوں شاید وہ میری قسمت میں نہیں ہے۔“
    اس کے کانوں میں اسوہ کا نفرت انگیز لہجہ گونجا۔”میں اس سے بہت نفرت کرتی ہوں۔کیونکہ تم ہو ہی نفرت کے قابل ....نفرت کے لیے وجہ کا ہونا ضروری نہیں ہوتا ....اگر یونیورسٹی سے نہیں نکلنا چاہتے تو ........“وہ اس کی گفتگو کو یاد کرنے لگا، کچھ بھی تھا آج وہ اسے مخاطب ہوئی تھی اور عمار کے لیے یہ بھی اعزاز کی بات تھی۔
    ٭٭٭
    اسوہ کے سمجھانے کے باوجود عمارباز نہیں آیا تھا۔چاہ کر بھی وہ خود پر قابو نہیں رکھ سکتا تھا۔اس کی کوشش ہوتی کہ جہاں اسوہ موجود ہو وہاں نہ جائے،ورنہ اسوہ کو دیکھنا اس کی مجبوری بن جاتی تھی۔اتفاق سے دونوں ہم جماعت تھے۔کلاس روم سے باہر تو وہ کوشش کر کے دائیں بائیں ہو جاتا مگر کلاس روم میں خود کو باز نہیں رکھ سکتا تھا۔اس دن بھی دوران سبق پروفیسر ہاشم اسے مخاطب ہوا ....
    ” عمار !....یقینا تمھاری توجہ سبق کی طرف نہیں ہے۔“
    ”نن....نہیں سر۔“اچانک پکارے جانے پر وہ سٹ پٹاکر کھڑا ہو گیا تھا۔اسوہ نے اسے تیز نظروں سے گھورا۔یقیناوہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
    پروفیسر نے معنی خیز انداز میں سر ہلایا۔”چلیں میرے سوال کا جواب دے دیں۔“
    ”سس....سوری سر میں آپ کا سوال نہیں سن سکا ؟“
    ” دو اور دو کتنے ہوتے ہیں ؟“پروفیسر ہاشم نے انتہائی سنجیدگی سے پوچھا۔
    ”چچ....چار۔“اس نے گڑبڑا کر جواب دیا۔
    ”جوطالب علم پڑھائی کے بجائے اپنی توجہ کسی اور طرف مبذول کرے اس کا فیل ہونا دو اور دو چار کی طرح یقینی ہے۔براہ مہربانی آنکھیں اورکان میری طرف متوجہ رکھیں۔“ طلبہ کے چہروں پر مسکراہٹ کھل گئی تھی۔ بلاشبہ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھتے۔اوراس کی اسوہ میں دل چسپی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی تھی۔
    عمار نادم ہو کربیٹھ گیا۔اور جتنی دیر پروفیسرہاشم کاسبق جاری رہا اس نے اسوہ کی طرف دیکھنے سے گریز کیا تھا۔
    پروفیسر ہاشم کے کلاس روم سے نکلنے کی دیر تھی، اسوہ تیر کی طرح اس کی جانب بڑھی۔اور پھر جب تک دوسرے طلبہ سمجھ پاتے کلاس روم” چٹاخ “کی زور دار آواز سے گونج اٹھا۔
    ”تمھاری اتنی جراَت۔“اسوہ پھنکاری۔
    عمارمجرم بنا اس کے چہرے پر پھیلی نفرت کو گھورتا رہا۔اس عالم میں بھی وہ اسے اچھی ہی لگ رہی تھی۔
    اسوہ کا ہاتھ دوبارہ اٹھا مگر اس سے پہلے کہ عمار کے چہرے تک پہنچ پاتا۔ اسماءنے اس کی کلائی تھام لی تھی۔
    ”آپ ہوش میں ہیں؟“اسماءکے لہجے میں شامل غصہ تمام کے لیے حیران کن تھا۔
    ”تم ہوتی کون ہو میرا ہاتھ پکڑنے والی۔“اسوہ نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔اس اثنا میں باقی بھی ان کے نزدیک جمع ہو گئے تھے۔
    اسماءترکی بہ ترکی بولی۔”اور تم کون ہوتی ہو عما رپر ہاتھ اٹھانے والی۔“
    رباب نے اسوہ کو تھام لیا۔”کیا ہوگیا ہے تمھیں۔“
    مگر وہ رباب کو جواب دیے بغیر اسماءکی طرف متوجہ رہی۔”اگر اتنی تکلیف ہوئی ہے تو اسے باندھ کر رکھو۔پرائی لڑکیوں کو گھورنا نہایت گھٹیا،بے ہودہ اور غلیظ حرکت ہے۔نہ جانے اس شہدے کی وجہ سے پروفیسر ہاشم میرے بارے کیا سوچ رہے ہو ں گے۔“
    اسماءبرہمی سے چلائی۔” جانتی ہوں تم جیسی امیرزادیوں کے لچھن بڑی آئی نیک پروین۔“
    ”بتاﺅ، مجھ میں کون سی غلط بات دیکھی ہے؟“اسوہ جارحانہ انداز میں اسماءکی طرف بڑھی۔
    ”پاگل مت بنو۔“رباب نے بے ساختہ اس کا بازو تھام لیاتھا۔
    ”ذرا قریب آﺅ۔“اسماءنے بپھرتے ہوئے اسے للکارا۔
    عمار، اسماءکا ہاتھ تھامتے ہوئے ملتجی ہوا۔ ”غلطی میری تھی،اسے غصہ کرنے کا حق ہے۔“
    ”کیا گنواروں کی طرح لڑ رہے ہو یا ر!“زوہیب جو کہ طلبہ کی ایک یونین کا صدر تھا۔اونچی آواز میں بولا۔”ماسٹر کرنے والے طلبہ کی یہ حالت دیکھ کر مجھے تو رونا آرہا ہے۔اور مس اسوہ ! پلیز،عمار نے ایسا کچھ نہیں کیا کہ آپ یوں بپھر جائیں۔“
    ”میں آپ کو جواب دہ نہیں ہوں مسٹر!“ زوہیب کو کہہ کر وہ قہر آلود نظروں سے اسماءکی جانب متوجہ ہو ئی۔”مس لیلیٰ!تم دیکھنا میں کیا کرتی ہوں۔“یہ کہہ کروہ کلاس روم باہر نکل گئی۔باقی طلبہ بھی منتشر ہونے لگے۔ یوں بھی چھٹی کا وقت تھا۔
    عمار سر تھام کر وہیں بیٹھ گیاتھا۔مدثر قریب آیا۔”چلو چاے پیتے ہیں۔“
    ” تم پیو،میرا دل نہیں چاہ رہا۔“
    ”کہا تھاناں، خود پر قابو رکھا کرو۔“مدثر اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا تھا۔
    ”آپ کو اس کا ہاتھ پکڑنا چاہیے تھا۔نواب زادی اپنے گھر میں ہو گی۔“اسماءسخت تپی ہوئی تھی۔
    ”اسماءبہن ! وہ حق بہ جانب تھی،کیونکہ میری وجہ سے اسے خفت اٹھانا پڑی۔“
    بہن کے لفظ پر اسماءکے چہرے پر ناپسندیدگی نمودار ہوئی مگر عمار اس کی جانب متوجہ ہی نہیں تھا کہ اسے معلوم ہوتا۔یا شاید وہ جان بوجھ کے اسے نظر انداز کر رہا تھا۔اسوہ کے علاوہ اس کے دل میں کسی لڑکی کا دخل ممکن نہیں تھا۔
    ”بس آپ ہی کو دل پر اختیار نہیں ہے۔“جلے بھنے انداز میں کہہ کر وہ بھی باہر نکل گئی۔
    ”اب اٹھو بھی یا یہیں شام کرنا ہے۔“
    ” تھوڑی دیر اکیلا چھوڑ سکتے ہو۔“عمارنے بیزاری ظاہر کی۔
    ” چلتا ہوں۔“مدثر اس کی ذہنی حالت سے واقف تھا، مزید بحث کیے بغیر اٹھ گیا۔
    عمارنے آنکھیں بند کر لیں، اس کی نگاہوں میں اسوہ کا لال بھبوکا چہرہ لہرانے لگا، اس نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ اسو ہ کی آنکھوں میں اس کے لیے اتنی نفرت ہو گی۔
    جاری ہے​
    Last edited by Man moji; 05-08-2023, 10:44 PM.

  • #2
    *پشیمان*
    *قسط نمبر2*
    ریاض عاقب کوہلر

    کلاس روم سے نکل کر اسوہ پارکنگ کی جانب بڑھ گئی۔رباب نے قریب جا کر کہا۔
    ” بہت افسوس ہوا یار!یہ بھلاکوئی طریقہ ہے۔“
    ”شٹ اپ رباب !“وہ سخت غصے میں تھی۔”ایک کمینے کی وجہ سے میری اتنی توہین ہوئی ہے اور تم مجھے اخلاق سکھا رہی ہو۔“
    ” بھاڑ میںجاﺅ۔“ رباب پاﺅں پٹختی ہوئی اپنی کار کی جانب بڑھ گئی۔ جبکہ اسوہ اپنے والد کو گھنٹی کرنے لگی۔
    ”پاپا کی جان !“سیٹھ اسلم شکور نے پہلی گھنٹی پرکال وصول کی تھی۔
    ”پاپا!ایک لڑکے کی وجہ سے میری ہتک ہوئی ہے۔“
    ”کون ہے وہ بد بخت۔“سیٹھ اسلم شکورخان دھاڑا۔
    ”عمار،ایک کلرک کا بیٹا۔“
    ” کہاں ملے گا ؟“
    وہ جلدی سے بولی۔”ابھی تک یو نیورسٹی ہی میںہے۔“
    ” تم وہیں رہو۔اگر کہیں جاتا ہے تو مجھے مطلع کرنا۔“
    ”جی پاپا۔“ وہ اپنی کار میں بیٹھ گئی۔
    دو تین منٹ بعد اس کے والد کی کال آنے لگی۔
    ”جی پاپا!“
    ”پاپا کی جان میں نے تھانے دار کو فون کر دیا ہے وہ یونیورسٹی کی جانب چل پڑاہے۔اسے اس بد بخت کی شناخت کر ا دینا اور پھر تماشادیکھنا۔“
    اس کا۔”میں منتظر ہوں پاپا!“سن کر سیٹھ صاحب نے رابطہ منقطع کر دیا۔
    بہ مشکل آدھا گھنٹاگزرا ہو گا کہ اسے ایک انجان نمبر سے گھنٹی آنے لگی۔
    اس نے گھنٹی اٹھائی۔
    ”مادام ! انسپکٹر راحیل بات کر رہا ہوں۔ہم یونیورسٹی کے گیٹ پر ہیں۔ آپ سے کہاں ملاقات ہو سکتی ہے ؟“
    ” یونیورسٹی پارکنگ میں سفید رنگ کی کارمیں بیٹھی ہوں۔“
    ”ٹھیک ہے مادام ہم آ گئے۔“انسپکٹر نے مودّبانہ لہجے میں کہتے ہوئے رابطہ منقطع کردیا۔چند لمحوں بعد ہی پولیس کی گاڑی پارکنگ میں آ گئی تھی۔وہ اپنی کار سے باہر نکلی۔
    ”السلام علیکم مادام!“انسپکٹر کے لہجے سے ظاہر تھا کہ وہ اسلم شکورخان کی حیثیت اور پہنچ سے اچھی طرح واقف ہے۔
    ”انسپکٹر صاحب!وہ اب تک کلاس روم سے باہرنہیں نکلا۔“
    ”کیا آپ کلاس روم تک ہماری رہنمائی کر سکتی ہیں۔“
    ”کیوں نہیں، آپ کے ساتھ ہی چل رہی ہوں۔“اسوہ ان کے ساتھ ہو لی۔ اس کے دماغ میں رہ رہ کر اسماءکا غصے میں تمتماتا چہرہ گھوم رہا تھا۔عمار کو کو پھینٹی لگوا کر وہ اسماءکو سبق سکھانا چاہتی تھی۔ نہ جانے کیوں اسے اسماءکا عمار کی طرف داری کرنا بہت زیادہ برا لگا تھا۔
    انسپکٹر کے ساتھ چار سپاہی موجود تھے وہ اسوہ کی معیت میں کلاس روم کی طرف بڑھ گئے۔ چاروں سپاہیوں نے رائفلیں یوں تانی ہوئی تھیں گویا کسی دہشت گردکا مقابلہ کرنے جا رہے ہوں۔
    وہ کلاس روم میں داخل ہوئے۔ پاﺅں کی آہٹ سن کر عمار نے آنکھیں کھول دیں۔ اسوہ کے ساتھ پولیس والوں کو دیکھ کر وہ حیران رہ گیا تھا۔
    ”یہی ہے۔“انسپکٹر مستفسر ہوا اور اسوہ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
    ”پکڑ لو اسے۔“انسپکٹر نے سپاہیوں کو اشارہ کیا اور انھوں نے چیل کی طرح جھپٹ کر عمار کو دونوں بازوﺅں سے جکڑ لیاتھا۔
    ”کک.... کیا انسپکٹر صاحب ؟“عمار ششدر رہ گیا تھا۔
    ”یہ تمھیں تھانے چل کر پتا چلے گا بچو، کہ شریف لڑکیوں کو کیسے چھیڑا جاتا ہے اور یونیورسٹی میں بدمعاشی کرنے کا انجام کیا ہوتا ہے۔“
    وہ ہکلایا”آ....آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔“
    ”کیوںمادام جھوٹ کہہ رہی ہیں۔“انسپکٹر نے چھڑی اس کے پیٹ میں چبھوئی۔
    عمارکی استفہامیہ نظریں اسوہ کی جانب اٹھیں۔
    وہ نخوت سے بولی۔” منع کیا تھا نا،مگر لاتوں کے بھوت باتوں سے مان جائیں توانھیں بھوت کون کہے۔“
    عمارکی آنکھوںمیں کرب جھلکا اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اس حد تک گر سکتی تھی۔
    ”لے جاﺅ اسے۔“انسپکٹر درشت لہجے میں بولا اور سپاہی اسے پکڑکر دروازے کی جانب چل پڑے۔
    عمار سرجھکائے ان کے ساتھ چل پڑا۔عمارکو یہ اطمینان ضرورتھا کہ ان کے ہم جماعت یونیورسٹی سے جا چکے تھے۔ اگر پولیس سب کے سامنے اسے پکڑ تی تو یقینا اس کی زیادہ سبکی ہوتی۔
    پارکنگ میں جا کر سپاہیوں نے اسے دھکا دے کرجیپ میں بٹھادیا۔کلاس روم سے پارکنگ تک وہ اسے اشتہاری مجرم کی طرح کھینچ کر لائے تھے۔ یوں بھی غریب شرفا کی ہتک پاکستانی پولیس مثالی انداز میں کرتی ہے۔مرے ہوﺅں کو مارنا اور گرے ہوﺅں کو زندہ درگور کرنا پولیس کی فطرت ثانیہ ہے۔
    ”انسپکٹر صاحب !“انھیں جانے پر تیار دیکھ کر اسوہ نے آواز دی۔
    ”جی مادام!“وہ مستعدی سے جیپ سے نیچے اترا۔
    ”اسے لے کر میرے پیچھے آﺅ۔“
    ”جی بہتر۔“وہ سعادت مندی سے بولا۔
    وہ گردن اکڑائے اپنی کار کی جانب بڑھی۔ڈرائیور نے ادب سے دروازہ کھولا اور وہ عقبی نشست پر بیٹھ گئی۔ڈرائیور نے اپنی جگہ پر بیٹھ کر کار آگے بڑھا دی۔پولیس کی جیپ ان کے پیچھے چل پڑی تھی۔
    آدھے گھنٹے بعد وہ اسلم شکورخان کی وسیع و عریض کوٹھی کے سامنے پہنچے۔ چوکیدار نے اسوہ کو دیکھتے ہی گیٹ کھول دیا تھا۔پولیس کی گاڑی بھی کارکے پیچھے اندر داخل ہو گئی۔
    دو ایکٹر کے رقبے پر پھیلی وسیع و عریض کوٹھی کسی محل سے کم نہیں تھی۔داخلی گیٹ سے اندرونی عمارت تک سرخ بجری کی ایک چوڑی روش تھی جس کے جوانب میں دُرانٹا کی خوب صورت باڑ لگی تھی۔ دائیں بائیں اسٹریلین گھاس کے مخملی قطعات ذوقِ بصارت کودعوتِ نظارا دے رہے تھے۔ دیواروں کے ساتھ بوتل پام،کھجور پام اور کنگھی پام کے درخت ایک ترتیب کے ساتھ لگے ہوئے تھے۔مخملی قطعات میں وقفے وقفے پر سرو کے درخت، مورپنکھ اور ایروکیریا کے بوٹے لگے تھے۔مورپنکھ کی تراش خراش بڑی مہارت سے کی گئی تھی۔ہر درخت کے تنے کے ساتھ پھولوں کی گول کیاری بنی تھی جو موسمی پھولوں سے بھری ہوئی تھی۔گھاس کے قطعات کے تینوں اطراف میں بھی پھولوں کی کیاریاں بنی ہوئی تھیں۔ اندرونی عمارت ہلکے گلابی رنگ میں رنگی تھی۔
    اسوہ کے اشارے پر ڈرائیور نے کار روکی اور جلدی سے اتر کر اس کے لیے دروازہ کھول دیا۔وہ کرّو فر سے نیچے اتری۔انسپکٹر بھی جیپ روک کر نیچے اترا۔
    اسوہ ڈرائیور کو کار گیراج میں لے جانے کا اشارہ کر کے انسپکٹر کی طرف متوجہ ہوئی۔
    ”اسے نیچے اتارو۔“
    ”چل بے !“سپاہیوں نے اسے گریبان سے پکڑ کر نیچے اتارا۔
    عمار خاموشی سے نیچے اتر آیاتھا۔اس کے چہرے پر ڈر،خوف یا گھبراہٹ نظرنہیں آرہی تھی۔
    ”بلاﺅ اپنی اسماءبی بی کو کہ تمھیں چھڑا کر لے جائے۔“اسوہ نے اسے گریبان سے پکڑ کر جھٹکا دیا۔
    عمار خاموش کھڑا رہا۔
    ” تمھیں سمجھایا تھا کہ جب تک میرے ہم پلہ نہیں ہو جاتے گھٹیاعادتوں سے باز آ جاﺅ۔نظر آرہی ہے میری کوٹھی،کچھ اندازہ ہورہا ہے کہ اسوہ اسلم شکورخان کس حیثیت کی مالک ہے۔کیا خیال ہے ایک کلاس میں پڑھنے کی وجہ سے ہم برابر ہو گئے ہیں۔احمق انسان میرے لباس اور جوتوں کی قیمت سے تمھاری طبقے کے لوگوں کا سالانہ بجٹ تیار ہو سکتا ہے اور تم مجھے اپنی گھٹیا محبت سے متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہو۔منع نہیں کیا تھا کہ اپنی حیثیت پہچانو۔“ گریبان چھوڑتے ہوئے اسوہ نے اسے ایک تھپڑ رسید کیا۔”میرے نزدیک،تمھاری حیثیت سڑک پر پھرنے والے کتے کے آوارہ پلّے سے زیادہ نہیں ہے۔گھٹیا نسل کے نیچ انسان، تمھیں میرے نرمی سے سمجھانے کا کوئی اثر ہی نہیں ہورہا تھا کیوں ؟“
    عمار خاموشی سے اسے گھورتا رہا۔اس کی آنکھوں میں کسی جذبے کی جھلک نظر نہیں آرہی تھی۔
    ”نیچے دیکھو۔“ اسوہ نے اسے ایک اور تھپڑ رسید کیا۔
    عمار نے سر جھکا لیا۔
    ”آئندہ اگر مجھے فلمی محبت دکھانے کی کوشش کی تو آنکھیں نکال کر چیل کوّوں کو ڈال دوں گی۔ بڑا آیا مجنوں کی اولاد۔تھانے جا کرتمھارے سر سے محبت کا بھوت اچھی طرح اتر جاتا مگر مجھے تمھارے والدین پر ترس آ رہا ہے۔اور یاد رکھناہمیشہ یہ ترس نہیں آ ئے گا۔بڑا آیا شادی کرنے والا، آخ تھو۔“اس نے سچ مچ اس کے چہرے پر تھوک دیا تھا۔عمار نظریں جھکائے چپ کھڑا رہا۔
    وہ انسپکٹر کی جانب مڑی۔”انسپکٹر صاحب !اسے دھکے دے کر یہاں سے نکال دو۔ اور ہاں خود کھانا کھا کر جانا۔“
    ”جی مادام!“ انسپکٹر نے سپاہیوں کو اشارہ کیا اور وہ عمار کو دھکے دیتے ہوئے گیٹ کی طرف لے جانے لگے۔
    وہ اس کی زیادہ سے زیادہ توہین اسی لیے کر رہی تھی کہ اس کے سامنے سر اٹھانے کے قابل نہ رہے۔
    گیٹ تک وہ سر جھکائے چلتا رہا۔اپنے احساسات کی توجیہ سے وہ قاصر تھا۔اتنی توہین اور ہتک کے بعد انسان کچھ بہتر سوچنے کے قابل نہیں رہتا مگر اس پر بہت سے اسرار منکشف ہو رہے تھے۔دنیا میں عزت سے جینے کے لیے دولت کی ضرورت ہر چیز سے بڑھ کر تھی۔ پیار محبت بھی دولت کا محتاج تھا۔ پہلے رباب،مدثر اور آج اسوہ کی گفتگو کا لبِ لباب ان دونوں کے درمیان پائی جانے والی معاشی خلیج ہی تھی۔وہ اسوہ کی ضروریات کا کفیل نہیں ہو سکتا تھاکہ اس کے پاس دولت نہیں تھی۔اس کی شکل و صورت، کردار، قابلیت ساری کی ساری دولت کے سامنے ہیچ ہو گئی تھی۔تھانے دار اسے غیر قانونی طور پر یونیورسٹی سے اٹھا کر تھانے کے بجائے اسلم شکورخان کی کوٹھی میںلے آیا تھا،کیونکہ اسوہ دولت مند تھی اور وہ غریب۔ نہ احتجاج کر سکتا تھااوربدلہ لینے پر قادر تھا۔
    گیٹ تک کا فاصلہ اسے پل صراط کی طرح نظر آیا تھا۔اتنا طویل کہ چلتے چلتے عمر بیت جائے۔ گیٹ پر پہنچنے تک وہ ایک فیصلے پر پہنچ گیا تھا۔اسے باہر نکالنے کے لیے چوکیدار نے ذیلی کھڑکی کھولی باہر نکلنے سے پہلے اس نے اسوہ پر آخری نظر ڈالنے کے لیے پیچھے مڑ کر دیکھا۔
    وہ کمر پر ہاتھ رکھے کھڑی تھی۔عمار کی آخری نظر میں جانے کیا بات تھی کہ وہ نظر چرانے پر مجبور ہو گئی تھی۔ ساتھ ہی اسے محسوس ہوا کہ کچھ غلط ہونے جا رہا ہے۔دل میں ایک جذبے نے سر ابھارا کہ اسے روک لینا چاہیے۔توہین کی بھی حد ہوتی ہے۔مگر پھر بروقت فیصلہ نہ کر پائی اور وہ باہر نکل گیا۔
    پولیس والے فخریہ انداز میں واپس لوٹے۔
    ”انسپکٹر صاحب تعاون کابہت بہت شکریہ۔آپ کی وجہ سے ایک لفنگے کو میں نے اچھی طرح نصیحت کر دی ہے۔“
    ”مادام! ہم تو اسلم صاحب کے ادنا سے خادم ہیں۔اوریہ لفنگا تو آپ کی رحم دلی کی وجہ سے بچ گیا ورنہ آپ دیکھتیں کیسے زندگی کی بھیک مانگنے کے لیے گڑگڑاتا ہے۔“
    ” آپ کو اصل انعام تو پاپا ہی دیں گے۔میری طرف سے یہ رکھ لو کسی اچھے سے ہوٹل میں کھانا کھا لینا۔“اسوہ نے پر س میں موجود ساری رقم ان کی جانب بڑھا دی۔
    ”اس کی ضرورت تو نہیں تھی،مگر آپ کی عنایت کو ٹھکرانا بے ادبی ہو گی۔“ انسپکٹر نے اس کے ہاتھوں سے رقم جھپٹ لی۔اسوہ کی نظر میں ادنا سی رقم بھی اتنی خطیر تھی کہ انسپکٹر اور اس کے ساتھیوں کی باچھیں کھل گئی تھیں۔
    ” اب آپ جا سکتے ہیں۔“سپاہیوں کی مسرت دیکھ کر وہ متکبرانہ انداز میں مسکراتے ہوئے مڑ گئی۔
    انسپکٹر نے باقاعدہ ایڑیاں بجا کر اسے سیلوٹ کیا اور واپسی کی راہ لی۔ ابھی تک اسلم شکورخان کی بخشش بقایا تھی۔جب بیٹی نے صرف کھانے کے لیے اتنی خطیر رقم عنایت کی تھی تو باپ کا انعام جانے کتنا ہوتا۔انسپکٹر دل ہی دل میں اپنی مستعدی کو سراہنے لگا کہ اسلم شکورخان کی کال ملتے ہی اس نے دیر نہیں لگائی تھی۔
    اگر اس مستعدی سے ہماری پولیس اصل مجرم کی سرکوبی کے لیے روانہ ہونے لگے تو یقینا پاکستان میں جرم کا نام نشان نہ ہوتا۔
    ٭٭٭
    گھر داخل ہونے سے پہلے اس نے اپنا حلیہ ٹھیک کر لیا تھا۔بہ ظاہراسے کوئی زخم نہیں آیا تھا مگر دل کے اتنے ٹکڑے ہوئے تھے کہ کرچیاں سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھیں۔ کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے اس نے خود کلامی کی۔
    محبت ہو چکی پوری
    چلو اب زخم گنتے ہیں
    ماں باورچی خانے میں تھی، جلدی سے کمرے میں گھس کراس نے قمیص اتاری اور تولیا کندھے پر ڈال کر غسل خانے کی طرف بڑھ گیا۔قمیص کے سامنے کے سارے بٹن ٹوٹ گئے تھے اور وہ ماں کے سوالات کا سامنا کرنا نہیں چاہتا تھا۔
    ”آج دیر کر دی،کھانا گرم کر دوں ؟“اسے غسل خانے کا رخ کرتے دیکھ کر ماں نے باورچی خانے سے آواز دی۔
    ” کھا کے آیا ہوں ماں !آپ بس اچھی سی چاے پلا دیں۔“اسے ذرا سی بھی بھوک نہیں تھی۔
    نہا کر نکلا تو ماں چاے کے برتنوں کے ہمراہ اپنے کمرے میں ملی اور بدقسمتی سے اس کی قمیص ماں کے ہاتھ میں تھی۔
    ”یہ بٹن کیسے ٹوٹے کیا کسی سے جھگڑا ہوا ہے ؟“ماں لہجے میں ہزاروں اندیشے پنہاں تھے۔
    ”نہیں ماں !“اس نے جلدی سے بات بنائی۔”یہ مدثر کی مہربانی سے ٹوٹے ہیں۔“
    ” کیسے ؟“
    ” ہوٹل میں کھانا کھایااور بل کی ادائی میں سبقت پر مذاق مذاق میں ہاتھا پائی ہوگئی۔“
    ”تم دونوں کا بچپنا نہیں گیا۔“وہ شفقت سے مسکرائی۔
    ”ابو جان نظر نہیں آ رہے۔“
    ”وہ اس وقت آرام کرتے ہیں۔تمھارا پوچھ رہے تھے،بتا دیا کہ کہیں آوارہ گردی کرنے نکل گیا ہو گا۔“
    ”بیٹے کے کرتوتوں پر کبھی پردہ نہ ڈالنا۔“اس نے منہ بنا یا۔ماں ہنس پڑی تھی۔
    چاے پی کر وہ لیٹ گیااور ماں برتن اٹھا کر باہر نکل گئی۔آنکھیں بند کرتے ہی سامنے اسوہ آ دھمکی تھی۔اس کی مترنم آواز میں آج دکھ دینے والی حقارت اور نفرت ابل رہی تھی وہ اس کی گفتگو یاد کرنے لگا۔
    ”سڑک پرآوارہ گھومنے والا کتے کا پلاّ،گھٹیا آوارہ،بے ہودہ، شہدا۔واہ !بغیر دولت کے میری یہ حیثیت ہے۔کوئی بات نہیں مس اسوہ اسلم شکورخان ....
    جتنی بھی مجھ پہ قرض ہیں سب سود کے سمیت
    واپس کروں گا میں تجھے تیری حقارتیں
    ”میںتمھیں دولت مند ہو کر دکھاوں گا۔اتنا کہ تمھارے ساتھ دست درازی کرنے پر بھی پولیس مجھ پر ہاتھ نہ ڈال سکے۔چاہے تم اس وقت جس کی بھی بیوی ہوئیں،میں تمھیں معاف نہیں کروں گا۔یاد رکھنا اسوہ !تم نے بہت برا کیا،تم نے صرف میرا نہیں میری محبت کا بھی اپمان کیا ہے۔دھن کی کثرت نے تم سے لطیف جذبات کا احساس ہی چھین لیا۔ایک غریب کی محبت اتنی ارزاں ہو گئی کہ اسے کتے سے تشبیہ دے ڈالی۔“وہ سوچتا رہا،خود سے عہد کرتا رہا اور دولت مند ہونے کے منصوبے بناتا رہا۔
    ٭٭٭
    ”خفا ہو۔“اسوہ نے رباب کے سامنے نشست سنبھالی۔
    رباب خاموش رہی تھی۔
    ”ایسی بھی کیا بے مروتی یا ر!“
    ”کل تم نے اچھا نہیں کیا۔اس کی غلطی اتنی نہیں تھی جتنی تم نے بے چارے کی توہین کی۔“
    وہ ڈھٹائی سے بولی۔”ایسا کیا کر دیا۔“
    ”سب کے سامنے اس کے منہ پر تھپڑ جڑ دینا کہاں کی شرافت ہے۔“
    اسوہ نے منہ بنایا۔”ایسے لوگ شرافت کی زبان سمجھتے کب ہیں۔“
    ”میں تم سے اتفاق نہیں کرتی۔“
    ”کرنا پڑے گا،آج اس نے میری طرف دیکھ لیا تو جو جرمانہ کہو گی ادا کروں گی۔بلکہ آج کلاس روم میں بھی وہ مجھے گھورنے کی ہمت نہ کرسکا۔“
    ”غیرت کا تقاضا تو یہی ہے کہ اسے تمھاری طرف بالکل نہیں دیکھنا چاہیے،لیکن وہ جس مرض میں مبتلا ہے مشکل ہے کہ اپنی حرکت سے باز آجائے۔کلاس روم میں تو شاید خود پر قابو پا لے مگر کیفے ٹیریا میں اس کی نظروں کی آوارگی کو روکنا ممکن نہیں ہوگا۔“
    ” لگ گئی شرط۔“اسوہ نے للکارا۔
    ”ٹھیک ہے۔“رباب نے بھی رضامندی ظاہر کر دی۔
    ”جیتنے والا کوئی بھی ایک بات منوا سکتا ہے۔“اسوہ نے شرط پیش کی۔
    ”منظور ہے۔اورجینے پر تمھیں مکرنے نہیں دوں گی۔“
    اسوہ نے پراعتماد انداز میں قہقہ لگایا۔
    ”ہار جاﺅ گی۔“رباب عمار کی فطرت سے واقف تھی اس لیے اسوہ کا اعتماد اسے حیران کر رہا تھا۔
    اسوہ نے ایک اور ہنسی اچھالی۔”یہ تو وقت آنے پر پتا چلے گا۔“
    ان کی گفتگو کے دوران ہی عمار، مدثر کے ہمراہ کینٹین ہال میں داخل ہوا۔
    ”تیار ہو جاﺅ،عاشق نامراد پہنچ گیا۔“اسوہ طنزیہ لہجے میں بولی۔
    دروازے کے قریب کھڑے ہوکر دونوںنے کنٹین کے ہال میں طائرانہ نگاہ دوڑائی۔ہال میں دوہی میزیں خالی پڑی تھیں۔ایک اسوہ اور رباب کی میز کے متصل،جب کہ دوسری دو میزیں چھوڑ کر۔ وہ مدثر کے ساتھ دور پڑی میز کی طرف بڑھ گیا۔ ہر میز کے گرد چار کرسیاں رکھی تھیں۔ رباب کو یقین تھا کہ عمار نے حسب سابق ایسی کرسی کا انتخاب کرناتھا جہاں سے وہ براہ راست اسوہ کو دیکھ سکے۔
    اسوہ کی سوچیں اس سے بر عکس تھیں۔اس کی آنکھوں میں رہ رہ کر عمار کی آخری نگاہ لہرانے لگتی۔ جانے کیوں اسے لگ رہا تھا کہ وہ عمار کی آخری نگاہ تھی۔
    دونوں دوست جیسے ہی میزکے نزدیک پہنچے،وہ کن انکھیوں سے ان کی طرف متوجہ ہو گئیں۔ تبھی اسوہ کے دل میں شدت سے ہار جانے کی تمنا پیدا ہوئی۔وہ اپنی خواہش پر حیران رہ گئی تھی۔مگر توجیہ سے قاصر تھی۔ اس کی تمنا پوری نہ ہوئی،عمار ان کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھ گیا۔رباب کی حیرانی کی انتہا نہ رہی۔اور اسوہ کو یوں لگا جیسے کوئی چیز چھناکے سے اس کے اندر ٹوٹ گئی ہو۔
    ”تم جیت گئیں یار!“رباب کے لہجے میں مایوسی تھی۔اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ عمار اتنی آسانی سے اپنے وظیفے سے باز آ جائے گا۔
    ” کہا تھا نا۔“اسوہ پھیکے لہجے میں بولی۔جیتنے کے باوجودمایوسی کی ہلکی سی لہر نے اس کے دل کو لپیٹ میں لے لیا تھا۔
    رباب ہنسی۔”اب اپنی خواہش بتاو تاکہ ما بدولت پورا کر سکے۔“
    ”ایسا ہے کہ....“اسوہ سوچ میں ڈوب گئی اور پھرسوچتے ہوئے بولی۔ ”آج بل کی ادائی تم کرو گی۔“
    ”بس۔“رباب کے لہجے میں خوشگوار حیرت تھی۔
    اسوہ نے کہا”تمھیں ہرا نے کی خوشی ہی کافی ہے۔“یہ الگ بات کہ اس کے لہجے سے بالکل بھی ظاہر نہیں ہورہا تھا کہ وہ خوش ہے۔
    رباب ہنسی۔”اگر تم ہارتیں تو ایسی شرط منواتی کہ طبیعت صاف ہو جاتی۔“
    ”کیا۔“اسوہ نے اشتیاق ظاہر کیا۔
    ” یہی کہ عمار کے حال پر رحم کرو،اور کم از کم اسے خود کو دیکھنے سے تو منع نہ کرو۔“کیا تم مان جاتیں ؟“
    اسوہ مبہم لہجے میں بولی۔”کیا پتا،ویسے شرط تو شرط ہو تی ہے۔“
    ”اس کی اپنی قسمت۔کہتے ہیں کہ ثابت قدمی کامیابی سے ہم کنار کرتی ہے اور عمار ثابت قدم نہیں رہ پایا۔“
    اسوہ نے مشورہ دیا۔”چلنا چاہیے؟“
    ”مجھے صغرا سے ضروری بات کرنی ہے۔“رباب نے اپنی چچازاد صغرا کو قریب آتے دیکھ کرنہ جانے کا عندیہ دیا۔
    اسوہ سر ہلاتے ہوئے کھڑی ہو گئی۔نہ جانے کیوں عمار کے اس طرح بیٹھنے پر اسے شدیدتوہین کے احساس نے گھیر لیا تھا۔
    کنٹین ہال سے نکلنے کے لیے اس نے جان بوجھ کر ایسا رستا اختیار کیا کہ عمار کی نگاہ فوراََ اس پر پڑ سکے۔ دروازے کے قریب جا کر اس نے اچانک مڑ کر دیکھا۔اسے امید تھی کہ عمار اسے گھور رہا ہوگا،مگر اس کا اندازہ غلط ثابت ہوا۔وہ انہماک سے اپنے موبائل فون کی سکرین دیکھ رہا تھا۔
    کلاس روم کی طرف جاتے ہوئے اسے اسماءءنظر آئی۔وہ سنگی بینچ پر بیٹھی مطالعے میں مصرو ف تھی۔ غصہ ہلکا کرنے کے لیے وہ اسماءکی جانب بڑھ گئی۔ قدموں کی چاپ پر اسماءنے کتاب سے نظریں اٹھائیں۔اسوہ کو دیکھ کر اس کے چہرے پر نفرت وبیزاری پھیل گئی تھی۔اسوہ کو اس کے احساسات کی کیا پروا ہو سکتی تھی،شوخی سے بولی۔
    ”ہیلواسماءعمار!....کیسی ہو ؟“
    اس کے طنزپر بجائے غصہ ہونے کے اسماءکے ہونٹوں پرخوب صورت مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
    ”تمھارے منہ میں گھی شکر،کاش ایسا ہو جائے۔“
    جواب نے اسے سر تا پا سلگادیا تھا۔وہ بے ہودگی پر اتر آئی۔”اپنے یار کا حال بھی پوچھ لینا تھا کہ کل اس کے ساتھ ہوا کیا ہے۔“
    اسماءچہکی۔”مس اسوہ !.... تم مجھے بار بار عمار کے حوالے سے مخاطب کر رہی ہو اور بہ خدا بہت اچھی لگ رہی ہو۔اللہ پاک تمھاری زبان مبارک کرے۔“
    ”کل تم نے میرا ہاتھ پکڑا تھا نا،بدلے میں عمار کو وہ پھینٹی لگوائی ہے کہ عشق و محبت کے سارے جراثیم کا خاتمہ ہو گیاہے۔“
    ” بہت برا کیا،لیکن اس کا اتنا اچھا نتیجہ نکلا کہ تمھاری ساری برائی اب اچھائی لگ رہی ہے۔ دوبارہ اور سہ بارہ شکریہ مس اسوہ اسلم شکور!میں سوچ سوچ کر تھک گئی تھی کہ کس طرح عمار کے دل سے تمھاری محبت ختم کروں۔ مگر نہ تو کوئی تجویز سوجھ رہی تھی اور نہ اسے میری محبت کی قدر تھی۔ تمھاری بات درست ہے تو، امید ہے اب وہ میری طرف لوٹ آئے گا۔میں تمھارا احسان زندگی بھر نہیں اتار سکتی۔ یوں بھی تم دونوں کا ملاپ ناممکن تھا۔وہ سفید پوش طبقے سے تعلق رکھتا ہے اور تم ٹھہریں نواب زادی۔“اسماءکے لہجے میں طنز سے زیادہ حقائق کی جھلک تھی۔مگر اس کی باتیں اسوہ کو بہت بری لگی تھیں۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ سچ مچ اسماءکو خوش خبری سنانے آئی تھی کہ....
    ” محترمہ !اب عمار تمھارا ہوا۔“اور دیکھا جاتا تو عمار کو پھینٹی لگوانے کا مقصد بھی یہی تھا،کہ وہ اسوہ کی جان چھوڑ دے۔اور اسوہ کی طرف سے مایوس ہونے کے بعد لازماََ وہ کسی ہمدرد کی جانب متوجہ ہو جاتا۔اور اسماءسے زیادہ اس کا ہمدرد کون ہو سکتا تھا۔اور پھر اسماءبھی گئی گزری نہیں تھی اچھی خاصی پرکشش اورحسین تھی۔یقینا اس کی پر خلوص چاہت عمار کے زخموں پر مرہم چھڑکنے میں تیر بہ ہدف ثابت ہوتی۔
    اس نے طنزیہ لہجے میں دل کی بھڑاس نکالی۔”تو میرے نواب زادی ہونے میں شک ہی کیا ہے۔“
    ”شک کس کم بخت کو ہے۔بس درخواست ہے کہ اب بھی اگر عمار نہ سدھرا،تو تم نے ایک بار پھراسے ہلکی سی پھینٹی لگوا دینی ہے۔تمھارا تعاون ہمیشہ یاد رہے گا۔“
    وہ پاﺅں پٹختی ہوئی رخصت ہو گئی۔اسماءبھی لبوں پر مسکراہٹ سجائے کلاس روم کی طرف بڑھ گئی تھی۔
    ٭٭٭
    ”اللہ پاک تمھاری زبان مبارک کرے ....تمھارے منہ میں گھی شکر ....“
    اپنی خواب گاہ میں بڑے حجم کے گول بیڈ پر لیٹے ہوئے اس کے دماغ میں اسماءکی باتیںگونج رہی تھیں۔وہ اسے غصہ دلانے گئی تھی مگراسماءبجائے غضب ناک ہونے کے اس کی ممنون و احسان مند ہورہی تھی۔
    ”یوں بھی تم دونوں کا ملاپ ناممکن تھا ....وہ سفید پوش طبقے سے ہے اور تم ٹھہریں نواب زادی ....تمھارا تعاون ہمیشہ یاد رہے گا ........“
    ”بے شرم،بے حیا ....تعاون یاد رہے گا۔“وہ خود کلامی کے انداز میں بڑبڑائی۔ ”گھٹیا خاندان کی نیچ لڑکی۔تمھیں عمار کیوں گھاس ڈالے گا۔“
    ”مگر میں ایسا کیوں سوچ رہی ہوں،عمار اسے قبول کرے یا ٹھکرادے میری بلا سے۔ دونوں جائیں بھاڑ میں۔“وہ کروٹ تبدل کر کے سونے کی کوشش کرنے لگی۔
    کلاس روم میں عمار نے ایک بار بھی نظر اٹھا کر اس کی جانب نہیں دیکھا تھا۔ وہ خود کئی بار بہانے بہانے سے اور کبھی کن انکھیوں سے اس کا جائزہ لے چکی تھی۔مگر عمار نے ایک بار بھی اسے نہیں دیکھا تھا۔
    ” شکر ہے جان چھوٹی۔خواہ مخواہ کی بدنامی کس کو اچھی لگتی ہے۔“اس نے مطمئن انداز میں سوچامگر یہ طفل تسلی تھی۔پہلے وہ اس کے گھورنے پر سیخ پا رہتی اور اب وہ اس حرکت سے باز آ گیا تھا تو اسے عجیب قسم کی بے چینی نے گھیر لیا تھا۔
    وہ سوچنے لگی۔” شاید اپنی اہمیت کے کم ہونے کا احساس ہے یا کسی کی نظروں سے گرنے کا تکلیف دہ خیال۔ممکن ہے ہر وقت میری دید کا متمنی رہنے والے کابے رخی برتنا مجھے ہضم نہ ہو رہا۔“
    وہ یہ سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں تھی کہ یہ عمار کی محبت یا چاہت کی تڑپ ہے۔
    اگلے دن ایک اور حیرانی اس کی منتظر تھی۔پہلے عمار کلاس میںایسی جگہ بیٹھا کرتا تھا جہاں وہ اسوہ کو آسانی سے گھور سکے۔مگر اب اس نے اپنی جگہ پہلی رو میں بیٹھنے والے ایک لڑکے سے تبدیل کرلی تھی۔ اس نے ایسی جگہ کا انتخاب کیا تھا کہ اسوہ کو دیکھنے کے لیے اسے پیچھے مڑنا پڑتا۔
    ”ہونہہ،جیسے میں اس کے لیے مری جا رہی ہوں۔“اسوہ استہزائی انداز میں رباب کو مخاطب ہوئی۔دوسرے پیریڈ کی ابتدا میں عمار نے جگہ تبدیل کی تھی۔
    ” دماغ جگہ پر ہے نا ؟“رباب نے دبے لہجے میں پوچھا۔ کیونکہ پروفیسر فرقان کلاس روم میں داخل ہو گئے تھے۔
    ”کک....کیا ہوا ؟“وہ گڑبڑا گئی۔
    ”یہی تو تم چاہتی تھیں، بلکہ اسی لیے تم نے پولیس سے اس کی چھترول بھی کروائی اور اب کیا فرما رہی ہو۔“
    ”میرا مطلب ہے اس کا انداز ایسا ہے جیسے میں اس کے لیے مری جا رہی ہوں۔“
    ”اچھاخاموشی سے سبق سنو۔“رباب،پروفیسر فرقان کی جانب متوجہ ہو گئی۔
    خالی پیریڈ کے دوران کیفے ٹیریا میں چاے پیتے ہوئے رباب اسے جھڑک رہی تھی۔
    ”غریب کی جان بخش دومحترمہ!اس نے تمھیں گھورنابھی چھوڑ دیا ہے، پھر طعنہ زنی کا مقصد۔“
    ”طعنہ زنی کب کی ہے، یونھی اس کا انداز دیکھ کر غصہ آگیا تھا۔“اسوہ نے صفائی پیش کی۔
    ”ایک بات پوچھوں۔“
    ”پوچھو۔“
    ”جب پولیس والے ایک بے گناہ کی پٹائی کر رہے تھے تو تمھیں ترس نہیں آیا تھا۔“
    ”بے گناہ کیوں، ایک لڑکی کی زندگی اجیرن کر دی اور بے گناہ ہو گیا۔ سوچو اگر میری جگہ کوئی غریب لڑکی ہوتی تو یہ اسے کتنا تنگ کرتا۔“
    ” امکانی گھوڑے دوڑانے کے بجائے وضاحت کردو کہ جب بھری کلاس میں تم نے نہ صرف زبانی کلامی توہین کی بلکہ تھپڑ تک جڑ دیا،پھر پولیس بلوانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔سزا تو بہ ہرحال وہ کاٹ چکا تھا۔“
    ”یہ سزا اسے اسماءکی بد تمیزی کی وجہ سے ملی۔ اسماءنے میری کلائی پکڑ کرللکارا تھا کہ اب میں اسے ہاتھ لگا کر دیکھوں اور میں نے کر دکھایا۔“
    ”جانتی ہو پوری کلاس کو معلوم ہو گیا ہے اور تمام، تمھارے گھٹیا فعل اور نیچ حرکت سے برگشتہ ہیں۔“
    وہ بے پروائی سے بولی۔”گھٹیا کیوں،ایک چھچھوری لڑکی کی جرا¿ت کہ وہ اسوہ اسلم شکور کا مقابلہ کرے۔ میں نے اپنی طاقت دکھانا تھی اور بس۔“
    ” یقین کرو تمھاری یہ حرکت مجھے بھی اتنی بری لگی کہ بیان نہیں کر سکتی۔باقی عمار میں مجھے سوائے خوبیوں کے کچھ نظر نہیں آتااور صرف غربت کی بنا پر اس کی اتنی ہتک اور توہین کہاں کا انصاف ہے یار!“
    اسوہ ہنسی۔” کہیں کامران بھائی کو ہری جھنڈی دکھانے کا ارادہ تو نہیں ہے۔“
    ”بکومت۔“رباب برہم ہوئی۔
    ”سچی،اتنی خوبیوں کا مالک دوبارہ نہیں ملے گااور پھر تمھاری دولت اسے غریب بھی نہیں رہنے دے گی۔“
    رباب ترکی بہ ترکی بولی۔”مجھے تو بہن سمجھتا ہے اور شیدا بھی تم پر ہے۔تو کیا خیال ہے؟“
    اسوہ نے منہ بنایا۔”میں مرنا پسند کروں گی۔“
    ” بہت ہو گیا،اب چاے منگاﺅ۔“رباب فضول بحث سے اکتا گئی تھی۔
    ٭٭٭
    ”بدل گئے ہو یار۔“مدثر کے لہجے میں تعریف کا عنصر نمایاں تھا۔
    عمار نے فلسفیانہ انداز میں کہا۔”حالات بدل دیتے ہیں ورنہ کوئی کب بدلنا چاہتا ہے؟“
    مدثر ہنسا۔”شاید ڈر گئے ہو۔“
    ” کہہ سکتے ہو۔“اس نے اثبات میں سر ہلادیا۔
    ”پولیس سے۔“
    ”نہیں۔“عمار نے نفی میں سر ہلایا۔”اس کی نفرت سے،جب جان لیا کہ میرے گھورنے سے اس کی نفرت کو تقویت مل رہی ہے تو مجھے آنکھوں سے راحت کے لمحے چھیننا پڑے۔“
    ”یعنی اب تک اس کی محبت دل سے رخصت نہیں ہوئی۔“
    عمار کے لب مسکرانے کے انداز میں کھنچے مگر یہ ناکام کوشش تھی۔ مسکراہٹ خوشی کا دوسرانام ہے جب ہنستے چہرے پر دکھ کے بادل منڈلا رہے ہوں تو مسکراہٹ،اذیت کا روپ دھار لیتی ہے۔وہ آہستہ سے گنگنایا....
    دل میں ہوتا تو کسی طور نکل بھی جاتا
    اب تو وہ شخص بہت دور تلک ہے مجھ میں
    ” مطلب؟“
    ”بے بس ہوں،البتہ کوشش کر رہا ہوں اور اتنی کامیابی ہوئی ہے کہ اب اپنی حرکات پر قابو حاصل ہوگیا ہے۔ پہلے بے اختیار اسے دیکھنے لگتا تھا۔اب نہیں دیکھتااور نہ دیکھوں گا۔البتہ اس کی نفرت وحقارت کا جواب ایک دن ضرور دوں گا۔کب ؟یہ میرے ربّ ہی کو معلوم ہے۔ہو سکتا ہے کہ یہ خواب کبھی شرمنداے تعبیر نہ ہو۔“
    ”تمھاری موّخرالذکر بات بالکل درست ہے۔یہ خواب کبھی بھی شرمنداے تعبیر نہیں ہو سکتا۔ اور اگر تمھارے ذہن میں کوئی غلط خیال پرورش پا رہا ہے تو خدا را کچھ کرنے سے پہلے مجھ سے مشورہ ضرور کر لینا۔یہ نہ ہو لینے کے دینے پڑ جائیں۔“
    ”میں بس دولت مند بننا چاہتا ہوں،اتنا کہ اپنے جائز حقوق کے حصول میں دشواری نہ ہو۔“
    مدثر نے کہا۔”وہ تو تم یوں بھی حاصل کر سکتے ہو۔“
    ”غلط،اگر غریبوں کو اپنے حقوق مل جائیں تو سارے جھگڑے،فساد ہی ختم ہو جائیں۔ایک امیر زادی مجھے اس لیے پولیس کے ہاتھوں زدوکوب کراتی ہے کہ میں نے اسے دیکھا کیوں۔اور یہ بدسلوکی تھانے کے بجائے اس کی کوٹھی میں کی جاتی ہے۔اب میں لاکھ پیٹوں، شور مچاﺅں ؟کچھ بھی نہیں ہو گا۔ پولیس نے تو ایف آئی آر ہی نہیں درج کرنی عمل تو بعد کی بات ہے ؟ ہو سکتا ہے کہ کوئی ایسا کیس بنا لیں کہ مجھے جان چھڑانا مشکل ہو جائے۔“
    ”تو اب کیا ارادہ ہے ؟“
    ” دولت کا حصول۔“
    مدثر نے قہقہ لگایا” ایم بی اے کرنے کے بعد تم نوکری کروگے،بہت زیادہ دولت کماﺅ گے، اتنی کہ ایک موٹر سائیکل خرید لو گے۔ نئے جوتے اور قیمتی لباس بھی۔ہے نا.... ؟“
    عمارعزم سے بولا۔” اپنا کاروبار کروں گا۔“
    ”مثلاََ؟“مدثر نے استہزائی انداز میں اشتیاق ظاہر کیا۔
    ”فی الحال اس بارے نہیں سوچا۔“
    مدثر نے حقائق کا پٹارا کھولا۔”تم سگریٹ پا ن کا کھوکا ڈال لینا۔ ساتھ میں چاے بھی بنانا شروع کر دی توکیا کہنے۔سبزی پھل کی ریڑھی بھی عمدہ کاروبار ہے۔کسی خواتین کالج کے سامنے دہی بھلے، چاٹ اور نمکین چاولوں کا خیال بھی برا نہیں ہے۔اور اگر مکئی کے بھٹے بھون کر بیچو تو ہزاروں میں کھیلو گے۔“
    ”اسلم شکورخان اور اس جیسے درجنوں کو،ان کے دوستوں نے یونھی مطعون کیا ہو گا۔“
    ”ہا....ہا....ہا“مدثر نے قہقہہ لگایا۔”اسلم شکورخان خاندانی رئیس ہے اور یاد رکھنا ایسے امراءشروع میں ہزار قسم کے غلط دھندوں میں ملوث ہوتے ہیں۔خوب کمانے کے بعد کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے عام کاروبار کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔تمھارا کیا ارادہ ہے۔
    ” نیت صاف منزل آسان۔“
    مدثر تلخی سے بولا۔”صاف نیت سے تجوریاں خالی ہوتی ہیں بھرتی نہیں۔اس لیے یہ گھسا پٹا محاورہ کتابوں کے لیے رہنے دو۔“
    ” خالی پیریڈ ختم ہونے والا ہے۔“عمار بحث کو ختم کرتے ہوئے کھڑا ہو گیا۔مدثر نے تقلید کی تھی۔وہ سبزہ زار میں گڑی سنگی بینچ پر بیٹھے تھے۔اسوہ کو رباب کے ساتھ کنٹین کی طرف جاتے دیکھ کر وہ مدثر کے ساتھ وہاں آ گیا تھا۔آج کل وہ حتی الوسع کوشش کر رہا تھا کہ اسوہ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
    جاری ہے​
    Last edited by Maniawan; 05-09-2023, 06:04 PM.

    Comment


    • #3
      اچھا لکھ رہے ہیں۔

      Comment


      • #4
        shukria apka
        Originally posted by ismmirster View Post
        اچھا لکھ رہے ہیں۔

        Comment


        • #5
          پشیمان قسط نمبر3ر
          ”گھٹیا لڑکیوں کی گھٹیا محبت۔“اسماءکو عمار کے ساتھ سر جوڑے دیکھ کر وہ رباب کومخاطب ہوئی۔ اس کی آوازبہ ہرحال اتنی بلند ضرور تھی کہ اسماءکے کانوں تک پہنچ گئی تھی۔ اسماءنے عمار کے ساتھ بیٹھنا شروع کر دیا تھا۔
          ” مکھی ہمیشہ صاف چیزوں کو چھوڑ کر گند پر بیٹھتی ہے اور مکھی کی طرح کچھ لوگوں کی ذہنیت بھی اتنی گندی ہوتی ہے کہ صرف غلاظت ہی کو جنم دے سکتی ہے۔“ اسماءکی آواز بھی کافی بلند تھی۔
          ”چور کی داڑھی میں تنکا۔“اسوہ نے طنزیہ لہجے میں کہتے ہوئے بیٹھ گئی تھی۔
          اسماءنے بے باکی سے اعلان کیا۔”تمام سن لیں۔میں عمار کو پسند کرتی ہوں اور ان شاءاللہ جلد ہی ہم شادی کرنے والے ہیں۔بس یا کچھ اور سننا ہے۔“آخر میں وہ اسوہ کو مخاطب ہوئی تھی۔
          ”واہ ....خوب....عمدہ ....بلے بھئی بلے....“طلبہ کی ملی جلی آوازیں بلندہوئی تھیں۔
          ”اسماءبیٹھ جاﺅ۔“عمار نے اسے بازو سے پکڑ کر نیچے کھینچا اور وہ اسوہ کو گھورتی ہوئی بیٹھ گئی۔
          اسوہ نے جواب نہیں دیا تھا،البتہ اسماءکے اعلان نے اس کے دل میں آگ لگا دی تھی۔ پروفیسر ہاشم کلاس روم میں داخل ہوئے اور چہ مگوئیاں خاموشی میں ڈھل گئیں۔تمام پروفیسر کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔سبق شروع ہوا مگر اسوہ باوجودکوشش کے دھیان سے نہ سن سکی۔ دماغ میں مسلسل اسماءکا طنزیہ لہجہ گونج رہا تھا۔”میں عمار کو پسند کرتی ہو ں،جلد ہی ہم شادی کر لیں گے ....شادی کر لیں گے ....شادی کر لیں گے ........“
          سبق کے اختتام پر رباب اسے مخاطب ہوئی۔
          ”تم ٹھیک تو ہو ؟“
          ”آں ....ہاں بالکل ٹھیک ہوں۔“وہ گڑبڑاگئی تھی۔”سر میں درد ہے۔شاید مجھے چھٹی کر لینا چاہیے۔“اگلے پروفیسر کے آنے سے پہلے وہ کلاس روم سے باہر آگئی تھی۔
          ٭٭٭
          ”ہوش میں تو ہو صاحب زادے ؟“بشیر احمد کے لہجے میں حیرانی تھی۔
          ”ابو جان !آپ جانتے ہیںمیں نشہ نہیں کرتا۔“عمارکے اطمینان میں فرق نہیں آیا تھا۔
          ” آج مجھے کچھ شک ہو رہا ہے۔“
          ” مذاق نہیں کر رہا۔“
          ”صحیح کہا،اسے مذاق نہیں بکواس کہتے ہیں۔“
          ”ٹالنے کی کوشش نہ کریں۔“
          ”آپ تعلیم مکمل کرکے اچھی سی نوکری تلاش کریں۔“
          ”آپ نے نوکری سے کیا کما لیا؟“عمار تکرار پر اترآیا تھا۔
          ”تمھیں کسی چیز کی کمی آنے دی۔“بشیر احمد بھی سنجیدہ ہو گیا تھا۔
          ”میرے نہ کرنے سے حقیقت نہیں بدلے گی۔میری بہت ساری خواہشات وسائل کی کمی کی بھینٹ چڑھ گئی تھیں۔امی جان اور آپ نے مجھے اتنی محبت دی کہ شاید ہی کسی کے والدین نے دی ہو۔ مگر یہ بات آپ بھی تسلیم کریں گے کہ ہم غریب ہیں۔اور غربت نوکری کرنے سے کم نہیں ہو سکتی۔“
          ”مطلب،میں تمھاری بہت ساری خواہشات پوری کرنے میں ناکام رہا ہوں۔“بشیر احمد کے لہجے میں دکھ جھلک رہا تھا۔
          ”ہاں،مگر کوئی گلہ نہیں ہے،کیونکہ یہ آپ کے اختیار سے باہر تھا۔“
          ”احسا ن ہے تمھارا ؟“بشیر احمد طنزیہ لہجے میں بولا۔
          عمار مدلل انداز میں بولا۔”میرے چند ہم جماعت ایسے ہیں جو اپنی کار میں یونیورسٹی آتے ہیں۔ان کے ذاتی اکاونٹ میں لاکھوں روپے جمع ہیں۔ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو شاپنگ کے لیے بیرون ملک جاتے ہیں۔ “
          ”ان کے والدین اتنی استطاعت رکھتے ہیں کہ انھیں یہ سہولیات دے سکیں۔ میں اپنی محدود آمدن میں یہ کیسے کرتا۔“
          ”اور میں نہیں چاہتا مجھے بھی اپنی اولاد کو یہی کہنا پڑے۔“
          بشیر احمد شکست خوردہ انداز میں بولے۔” گھر کی قیمت چند لاکھ روپے سے زیادہ نہیں ہے اور یہ رقم کسی بھی کاروبار کے لیے ناکافی ہے۔“
          باپ کے لہجے میں مفاہمت محسوس کرتے ہی وہ مسکرایا۔” اچھی طرح جانتا ہوں مگر میں محدود پیمانے پر کاروبار شروع کروں گا اور پھر آہستہ آہستہ اسے ترقی دوں گا۔“
          ”تم سوائے گھر سے ہاتھ دھونے کے اور کچھ نہیں کرو گے۔“
          ”یقینا آپ کے بعد یہ گھر مجھے ہی ملے گا۔“
          ”تو ....“بشیر احمد نے تیوری چڑھائی۔
          ”تو،میری چیز ہے میں آج بیچوں یا کل۔“
          ”پھر کوئی خیمہ وغیرہ تو لے آﺅ نا،رہیں گے کہاں ؟“
          عمار اطمینان سے بولا۔”آپ کو سرکاری کوارٹر الاٹ ہو سکتاہے۔“
          بشیر احمد نے ٹھنڈا سانس بھرا۔”ایک شرط پر۔“
          ”کیا؟“
          ”اصل وجہ پھوٹو۔“
          چند لمحوں کی خاموشی کے بعد عمار آہستہ سے بولا۔”اس کا نام اسوہ ہے۔اسلم شکورخان کی اکلوتی بیٹی ہے ........“اس نے مختصرالفاظ میں بشمول پولیس کی زیادتی کے تمام قصہ سنادیا تھا۔
          ”تم مجھے دوست نہیں سمجھتے اس لیے ساری کہانی چھپائے رکھی۔“بشیر احمد کے دکھی لہجے میں خفگی کا عنصر نمایاں تھا۔
          ” والد بھی تو ہیں اور میں آپ کو دکھ نہیں دینا چاہتا تھا۔“
          ”دکھ تو اب بھی پہنچا ہے۔“
          ” پہنچا ہو گا،مگر اب تو میں نے اپنے مسائل سے نبٹنے کا منصوبہ سوچ لیا ہے۔“
          بشیر احمد نے منہ بنایا۔”جو کامیاب ہوتا نظر نہیںآتا۔“
          عمار نے فلسفیانہ لہجے میں کہا۔”ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہنے والوں کو وہی ملتا ہے جو کوشش کرنے والوں سے بچ جائے۔“
          ”مطلب،ہمارا بے گھر ہونا طے ہو گیا۔“
          ”کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا تو پڑتا ہے۔“
          ”باتیں کرنا ہی سیکھی ہیں۔خیر،کل میں کوارٹر کے لیے درخواست دے دوں گا اورمنظوری میں ہفتہ ایک لگ جائے گا۔پھر جو چاہے کرتے رہو۔“ بشیر احمد اٹھنے لگا۔
          ” آپ خفا ہو کرجارہے ہیں۔“عمار نے پریشانی ظاہر کی۔
          بشیر احمدنے نفی میں سرہلایا۔”نہیں،آج روک بھی دیا، تو کل بیچ دو گے۔“
          ”شکریہ ابو جان !ان شاءاللہ میں آپ کو مایوس نہیں کروں گا۔“
          اوربشیر احمد مسکراتا ہوا باہر نکل گیا۔
          ٭٭٭
          اسوہ ساری رات سو نہیں سکی تھی۔رہ رہ کر اس کے دماغ میں اسماءکا پر اعتماد لہجہ گونجنے لگتا۔”جلد ہی ہم شادی کر رہے ہیں۔“
          ” بھاڑ میں جائیں۔“اس نے تلخی سے سوچا۔”پتا نہیں کیا ہو گیا ہے مجھے۔ یقینا یہ اسماءکی ذات سے نفرت ہے،مگر عمار سے بھی تو میں نفرت کرتی ہوں اور دو قابلِ نفرت اشخاص اگر ایک ہو رہے ہوں تو مجھے کیا۔“
          وہ ساری رات سوچ کر بھی پریشانی کی وجہ دریافت نہ کر سکی۔عمار کو وہ پسند نہیں کر تی تھی۔ اسماءسے اسے نفرت تھی۔اور ان کی آپس کی محبت نے اس کی نیند اڑا دی تھی۔ سوچتے سوچتے اسے عمار کے ساتھ اپنا رویہ یاد آ گیا۔کتنا توہین آمیز اور ہتک بھراسلوک کیاتھا۔ لیکن اسے کے ہونٹوں سے ایک لفظ بھی تو گلے شکوے کا نہیں نکلا تھا۔بلکہ اس نے تو اس واقعے کا ذکر بھی کسی کے سامنے نہیں کیا تھا۔ اسوہ نے خود ہی سب کچھ اگلا تھا۔ رباب اور دو تین دوسری لڑکیوں نے اسے نادم کرنے کی کوشش کی تھی مگر جس کے ساتھ یہ ظلم ہوا تھا وہ ایک بھی حرفِ شکایت زبان پر نہیں لایا تھا۔
          ”وہ غلطی پر تھا اس لیے خاموش رہا۔“ دماغ میں ایک لولی لنگڑی دلیل گونجی۔
          ساتھ ہی یاداشت میں رباب کی باتیں تازہ ہوئیں۔ ”کسی کو دیکھنا جرم تو نہیں ہے نا۔دنیا کی کوئی عدالت اسے جرم نہیں سمجھتی۔ دینِ اسلام اس کی مذمت کرتا ہے تو وہ عورت کو بھی تو چہرہ ڈھانپنے کا حکم دیتا ہے۔“
          وہ ساری رات الٹی سیدھی سوچوں میں گم رہی۔صبح کی آذان کے ساتھ اسے نیند آ گئی تھی۔دن چڑھے جاگی۔یونیورسٹی پہنچی تو دو پیریڈ گزر گئے تھے۔
          ”خیر تو ہے۔“اسے دیکھتے ہی رباب نے مسکرائی۔
          پروفیسر ہاشم کلاس روم میں داخل ہوا۔اسوہ اسے نہیں دیکھ سکی تھی کہ اس کی دروازے کی جانب پیٹھ تھی۔
          ” رات کومووی دیکھتی رہی اس لیے سویرے آنکھ نہیں کھل سکی۔“
          ”بیٹھو،پروفیسر ہاشم ہمیں گھور رہے ہیں۔“رباب نے گھبراکرکہا اور وہ جلدی سے بیٹھ گئی۔
          پروفیسر ہاشم مسکرایا۔” مس اسوہ !شاید پڑھنے کا موڈ نہیں ہے۔“
          ”ٹھیک کہا سر !....“ارشد نے لقمہ دیا۔ ”محترمہ ابھی ہی پہنچی ہیں۔“
          ”ایساہر طالبِ علم کے ساتھ ہوتا ہے۔بلکہ کبھی کبھی اساتذہ کا بھی پڑھائی سے جی اچاٹ ہو جاتا ہے۔“
          ”ایسی کوئی بات نہیں سر!“اسوہ نے صفائی دیناچاہی،مگر پروفیسرصاحب نے اس کی تردید کو درخور اعتناءنہ جانتے ہوئے کہا۔
          ” پڑھائی نہیں ہو گی۔اوریہ پیریڈ اسوہ کے نام کرتے ہیں۔“
          ”ٹھیک ہے سر،شکریہ سر،واہ،بہت اعلا،مزہ آ گیا سر....“مختلف بولیوں سے کلاس روم گونج اٹھا تھا۔
          پروفیسر ہاشم نے نشست سنبھالی اور کہا۔”مس اسوہ ! کلاس کے سامنے تشریف لائیں۔“
          وہ نادم ہوئی۔”سر !پلیزمیری وجہ سے تمام کی پڑھائی کا حرج ہو گا۔اوربعد میں سارے مجھے برا بھلا کہیں گے۔“
          پروفیسر ہاشم نے پھلجھڑی چھوڑی۔” اگر برا بھلا کہنے سے کسی کاکچھ بگڑتاتو آج ایک بھی سیاست دان زندہ نہ ہوتا۔“طلبہ نے قہقہہ بلند کیا۔
          ” تشریف لائیں۔“پروفیسر ہاشم نے اسے دوبارہ سامنے آنے کی دعوت دی۔
          وہ ہچکچاتے ہوئے طلبہ کے سامنے آ گئی۔تمام کی نظریں اس پر جم گئیں تھیں۔ ایک دم اتنی نظروں کا سامنا کرنا آدمی کوبوکھلا دیتاہے۔خاص کرایسا شخص جس نے پہلے ایک ساتھ اتنی نظروں کا سامنا نہ کیا۔ وہ شاید گھبرا کر واپس لوٹ جاتی کہ اچانک اس کے دماغ میں ایک خیال لپکا۔”اب تو سارے دیکھ رہے ہیں۔یوں بھی کسی کا کلاس کے سامنے کھڑا ہونا واجب کرتا ہے کہ تمام اسے ہی دیکھیں اور یقینی طور پرعمار کو بھی دیکھنے کا بہانہ مل گیا ہوگا۔وہ پروفیسر ہاشم کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔
          ” دیکھ کیا رہی ہو۔“پروفیسر ہاشم مسکرایا۔”شروع کرو بھئی،ساتھیوں کو کچھ سناﺅ۔“
          وہ آہستہ سے بولی۔”ایک شعر عرض ہے۔“
          ” شعر نہیں،گانا سننا ہے۔“ارشد نے آواز بلند کی۔وہ کھاتے پیتے گھرانے کا لڑکا تھا۔ اسوہ کوپسند کرتا تھا،مگر اسوہ کا رویہ ہرلڑکے ساتھ ایسا تھا کہ اسے اظہار کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔
          اس کی تائید میں کلاس میں کئی آوازیں بلند ہوئیں۔”گانا .... گانا ....گانا۔“ زیادہ تر آوازیں لڑکوں کی تھیں۔
          ”مگر ....“
          ”اگر مگر نہیں گانا....“ارشد کے ساتھ چند دوسرے لڑکوں کی آواز بھی شامل تھی۔
          ”تمھاری وجہ سے ان کاسبق بھی ضائع ہورہا ہے۔“پروفیسر ہاشم نے مسکرا کرلڑکوں کی طرف داری کی۔
          اتنی دیر کلاس کے سامنے کھڑے رہنے کے بعد اسوہ کی جھجک بھی اتر گئی تھی۔اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اس کی مدھر آواز بلند ہوئی ....
          ہزار باتیں کہے زمانہ،میری وفا پہ یقین رکھنا
          ہر اک ادا میں ہے بے گناہی،میری ادا پہ یقین رکھنا
          میری محبت کی زندگی کو نظر نہ لگ جائے اس جہاں کی
          یہی صدا ہے دھڑکتے دل کی میری صدا پہ یقین رکھنا
          کلاس میں خاموشی چھا گئی تھی۔ صورت کی طرح اس کی آواز بھی بہت پیاری تھی۔گاتے ہوئے اس نے نظر بھر کر عمار کودیکھا مگر وہ کاپی کھولے الٹی سیدھی لکیریں کھینچ رہا تھا۔وہ اسی کو گھورنے لگی مگر عمار بے نیازی سے بے جان کاغذ کو گھورتا رہا۔
          ”اتنی نفرت،کبھی میرے رخ سے نظر ہی نہیں ہٹتی تھی اوراب ایک نظر بھی ڈالنا گوارا نہیں۔“ اسے گانے کے بول بھولنے لگے۔اس کے چہرے سے نظر ہٹا کر وہ رباب کو دیکھنے لگی جو مسکراتے ہوئے اس کی جانب متوجہ تھی۔گاناختم ہوتے ہی کلاس روم تالیوں سے گونج اٹھا۔
          ”بہت خوب، عمدہ۔“پروفیسر ہاشم نے متاثر کن لہجے میں کہا۔”اتنا اچھا تو خود لتا منگیشکر نے بھی نہیں گایاتھا۔“
          ”شکریہ سر۔“وہ خو ش ہو گئی تھی۔
          ”ایک اور ....ایک اور۔“اکثریت کی آوازمطالبے کی صورت بلند ہوئی۔
          ”نہیں۔“اس نے انکار میں سر ہلایا”تمام کو سامنے آنے کا موقع ملنا چاہیے۔“
          مگر اس کے انکار کے باوجود طلبہ کی اکثریت مصر رہی کہ وہ گانا سنائے۔
          پروفیسر ہاشم نے کہا۔” بس ایک گانا اور سنا دیں،پھر کسی دوسرے کو نامزد کر کے آپ بیٹھ سکتی ہیں۔“
          وہ ہر دل عزیز پروفیسر ہاشم کی بات نہیں ٹال سکی تھی۔دوبارہ اس کی مدھر اور خوش کن آواز سے کلاس روم گونجنے لگا۔
          دل کھویا کھویا گم سم دل کھویاکھویا
          یادوں میں کسی کی گم دل کھویا کھویا
          عشق پر زور کوئی زور کوئی زور کوئی ناں
          گاتے ہوئے بار بار اس کی نظریں بھٹک کر عمارپر جا ٹکتیں،مگر وہ بیگانگی پر آمادہ تھا۔اس کی آواز تھمتے ہی کلاس روم ایک مرتبہ پھر تالیوں سے گونج اٹھاتھا۔
          تالیاں تھمتے ہی پروفیسر ہاشم نے کہا۔”اب آپ کسی کو بھی بلاسکتی ہیں۔“
          ایک بار تو جی کیا عمار کوبلا لے، مگر پھراسے جھجک محسوس ہوئی۔ اتنے ناروا سلوک کے بعدا س کی طرف پیش قدمی کرنااتنا آسان بھی نہیں تھا۔
          ”مس رباب !“ایک لمحہ سوچنے کے بعداس نے اپنی سہیلی کا نام پکارا۔
          اسے غصیلی نظروں سے گھورتی وہ کلاس کے سامنے آ گئی تھی۔
          پروفیسر ہاشم نے مزاحیہ انداز میں پوچھا۔”رباب ہمیں کون سا گانا سنا رہی ہیں ؟“
          وہ اطمینان سے بولی۔” گاناگا تو نہیں،پڑھ سکتی ہوں۔“
          ”کیسے؟“پرفیسر ہاشم مستفسر ہوا۔
          ”جیسے سبق پڑھا جاتا ہے سر!“اس کے اطمینان میں فرق نہیں آیا تھا۔
          ”اہوہ ....“چند لڑکوں کی افسوس ناک آوازیں ابھریں۔
          ”اور کچھ۔“
          ” دو تین لطیفے سنا دیتی ہوں۔“اس نے تجویز پیش کی۔
          ”شروع کرو۔“پروفیسر ہاشم نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
          ”ایک شخص دکان دار کے پاس ........“وہ لطیفے سنانے لگی۔ لطائف اگر چہ اتنے اچھے نہیں تھے،مگر اس کی صورت ایسی تھی کہ کافی لڑکوں کو زبردستی قہقہے لگانے پڑے۔
          اپنی باری بھگتا کر اس نے ارشد کا نام لیاجو بار بار گانے کی آواز بلند کر رہا تھا۔
          وہ کلاس کے سامنے آ گیا۔
          ”گانا سنائیں جناب گانا۔“اسوہ اور رباب کے ہمراہ کئی لڑکیوں کی آواز بلند ہوئی۔
          ”ٹھیک ہے۔“ارشد نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور آنکھیں بند کر کے گانے لگا۔
          کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
          اس نے خوشبو کی طرح میری پزیرائی کی
          دو بول ہی گنگنائے تھے کہ اس کی بھدی آواز سے تنگ آ کر تمام بیک زبان بولے۔
          ”شکریہ ....شکریہ، براہ مہربانی کسی اور کو موقع دیں۔“
          ”آپ خود ہی ضد کر رہے تھے۔خیر۔“وہ پرفیسر ہاشم کی طرف متوجہ ہوا۔”سر! کسی ایسے بندے کو بلا سکتا ہوں جو ایک باری بھگتا چکا ہو؟“
          پروفیسر نے انکار میں سر ہلایا۔”اس طرح تو تمام کو موقع نہیں ملے گا۔“
          اثبات میں سر ہلاتے ہوئے وہ کلاس کی طرف متوجہ ہوا۔”تالیوں کی گونج میں تشریف لاتی ہیں محترمہ سنبل۔“
          سنبل نے ایک ملی نغمہ گا کے سنایا،اس کی آواز بھی کافی بہتر تھی۔اس نے مدثر کو نامزد کیا،جس نے مختلف جانوروں کی آوازیں نکال کے پوری کلاس کو محظوظ کیاتھا۔ وہ اسماءکا نام لے کر اپنی جگہ پر جا بیٹھا۔
          اسماءنے کلاس کے سامنے آتے ہی گانا شروع کر دیا تھا۔اس کی آواز اگر اسوہ سے اچھی نہیں تھی تو اس سے کم بھی نہیں تھی۔
          کتنا پیار تمھیں کرتے ہیں آج ہمیں معلوم ہوا
          جیتے نہیں تم پر مرتے ہیں آج ہمیں معلوم ہوا
          جونھی گانا ختم ہوا تمام نے ایک اورکا مطالبہ کیا۔ بغیر کسی بحث کے اس نے غزل گانا شروع کر دی تھی۔
          چاہت میں کیا دنیا داری عشق میں کیسی مجبوری
          لوگوں کا کیا سمجھانے دو،ان کی اپنی مجبوری
          غزل کے خاتمے پر ایک اور،ایک اور کا شور مچ گیا تھا۔وہ خوش دلی سے ایک اور گانا سنانے لگی۔ گاتے ہوئے اس کی نظریں زیادہ تر عمار کی جانب متوجہ رہی تھیں۔وہ بھی مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا۔ اسوہ کے گانے پر اس نے بالکل داد نہیں دی تھی مگر اسماءکو وہ خوب داد دے رہا تھا۔اور پھر اسماءکا گانا ابھی تک ختم نہیں ہوا تھا کہ پروفیسر فرقا ن کلاس روم میں داخل ہوا، یقینا وہ پیریڈ لینے آیا تھا۔
          ”آئیں سر !....“پروفیسر ہاشم نے کرسی سے اٹھ کر اسے تعظیم دی۔
          ”پلیز سر!تشریف رکھیں۔“پروفیسر فرقان جلدی سے بولا۔”میرا خیال ہے آج پڑھائی کا موڈ نہیں ہے۔“
          ”سر !....آپ بیٹھیں اور سنیں کہ اسماءکتنا اچھا گاتی ہے۔“پروفیسر ہاشم نے ایک طالب علم کو کرسی لانے کا اشارہ۔
          پروفیسر فرقان بھی بیٹھ گیا۔اسماءنے نیا گانا شروع کر دیا۔
          اس نے پانچواں گانا ختم کیا تھا کہ اسوہ کھڑی ہو گئی۔
          ”سر !ہمیں مزید کتنی دیر اسماءاحتشام کی گائیکی سے محظوظ ہونا پڑے گا۔“
          پروفیسر ہاشم نے مسکرا کر کہا۔”تو آپ آ جائیں۔“
          ”میں اپنی باری بھگتا چکی ہوں،اب کسی اور کو موقع ملنا چاہیے۔“
          ”ٹھیک ہے۔“پروفیسر ہاشم اسماءکی طرف متوجہ ہوا۔ ”بہت عمدہ اسماء! آپ کی آواز بہت اچھی ہے۔دل چاہ رہا ہے کہ آپ سے مزید گیت سنے جائیں،مگر معترضین کا اعتراض بھی بر حق ہے،آپ کسی اورکو اپنی جگہ بلا لیں۔“
          ”محترم عمار !“اسماءمحبت بھرے لہجے میں بولی تھی۔
          اسوہ منہ بنا کر نیچے دیکھنے لگی۔نامعلوم کیوں اسے دونوں کی چاہت ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔
          عمار کلاس روم کے سامنے آکر بولا۔
          ”میں اپنی نظم سنانا چاہوں گا۔“
          ”نہیں گاناسناﺅ؟“دو تین لڑکیوں کی آواز ابھری،جن میں اسماءپیش پیش تھی۔
          وہ مسکرا یا۔”ضرور سناتامگر یقین مانو،ارشد بھائی کی آواز میں آپ لوگوں نے پھر بھی دو بول برداشت کر لیے تھے۔میری آواز میں ایک بول بھی برداشت نہیں کر پاﺅ گے۔“
          ”ٹھیک ہے،ویسے بھی لڑکا اپنی نظم سنا رہا ہے۔“پروفیسر فرقان جو ادب سے گہرا لگاﺅ رکھتا تھا۔اس کی طرف داری کرنے لگا۔
          عمارنے ایک طائرانہ نگاہ طلبہ پر ڈالی اور پھر ترنم اور لے سے اپنی نظم پڑھنے لگا۔ صاف معلوم ہو رہا تھا کہ اس نے اپنے بے سرے پن اور آواز کے بھدا ہونے کے بارے غلط بیانی سے کام لیا تھا۔
          طے ہوا اب نہ کبھی اس کی طرف دیکھیں گے
          اور پہلے کی طرح اس کو نہ ہم سوچیں گے
          اب نہ بھولے سے بھی بارش میں ہم نہائیں گے
          خود بھی تنگ ہوں گے نہ احباب کو ستائیں گے
          خود سے اس طور عداوت نہیں ہوتی ہم سے
          تھک گئے اور محبت نہیں ہوتی ہم سے
          ”واہ ....واہ ....کیا بات ہے۔“پروفیسر فرقان نے باآواز بلند داد دی۔
          ”اوے ظالم !....یہ کیا کر دیا۔“ایک دو لڑکوں کی آہ بلند ہوئی۔
          اب نہ جاگیں کے کبھی دیر تلک چاند کے ساتھ
          خود کو پھنسنے نہیں دیں گے یوں تری یاد کے ہاتھ
          اب نہ تڑپیں گے کبھی اس کے لیے روئیں گے
          اب فقط سوئیں گے، ہم سوئیں گے، بس سوئیں گے
          جاں لٹانے کی سخاوت نہیں ہوتی ہم سے
          تھک گئے اور محبت نہیں ہوتی ہم سے
          ”کیا بات ہے ....جاں لٹانے کی سخاوت نہیں ہوتی ہم سے۔“ایک لڑکے نے مصرع اٹھایا۔اسی وقت ایک اور نے لقمہ دیا۔
          ”سونا اپنے مقدر میں کہاں یا ر!امتحان سر پر ہیں،اور جناب کو سونے کی پڑی ہے۔“
          ”خاموش یا ر!سننے دو۔“غصے بھری آواز میں ڈانٹا گیا۔جبکہ عمار تمام سے بے نیاز نظم سناتا رہا ....
          اب نہ زلفوں کو تری،کالی گھٹا بولیں گے
          اب نہ آنکھوں کو تری جھیل سے تشبیہ دیں گے
          مثلِ کویل ہے تری صَو±ت نہیں لکھیں گے
          رخ روشن کو مہِ جوت نہیں لکھیں گے
          ضبط ٹوٹا ہے رعایت نہیں ہوتی ہم سے
          تھک گئے اور محبت نہیں ہوتی ہم سے
          ”اوہ بھائی !....کس کی زلفوں کی بات ہو رہی ہے،ہمیں تو سنہری زلفیں نظر آ رہی ہیں۔“کہنے والے نے یقینا اسماءکی سنہری زلفوں کی بات کی تھی۔
          ”عقل کے اندھے ہو تم۔“ باآواز بلند جواب آیا۔” کالی زلفوں کا غم غلط کرنے کے لیے سنہری زلفوں کو چنا گیا ہے۔“
          تیرا آنچل کبھی لہرائے فضا گاتی ہے
          اب نہ بولیں گے کہ سانسوں سے مہک آتی ہے
          تری مسکان بہاروں کا سندیسا لائے
          یہ غلط تھا،یہ غلط ہے یہی بولا جائے
          ذکر تیرا یہ تلاوت نہیں ہوتی ہم سے
          تھک گئے اور محبت نہیں ہوتی ہم سے
          عمار نے نظم ختم کی اور کلاس روم تالیوں کی زور دار آواز سے گونج اٹھا۔
          رباب نے اسوہ کے کان میں سرگوشی کی۔”تمھاری تمنا تو پوری ہو گئی نا، اب عمار بھائی نہ تو تمھاری زلفوں کو کالی گھٹا بولے گا اور نہ آواز کی تعریف کرے گا، بلکہ تمھاری جانب دیکھے گا ہی نہیں۔“
          ”جائے بھاڑ میں۔“اسوہ نے منہ بنایا۔”اس کے نہ دیکھنے سے مر نہیں جاﺅں گی۔“
          رباب درشتی سے بولی۔” الٹی کھوپڑی !سب کو پتا ہے کہ تم نے ہی اسے اس حد تک لایاہے پھر ایسا کہنے کی کوئی تُک بنتی ہے۔“
          اسوہ نے خاموشی کی پناہ پکڑی۔ پروفیسر فرقان کہہ رہا تھا۔
          ”بہت خوب عمار !لیکن برا نہ مانو تو پوچھنا چاہوں گا کہ یہ محبت شروع کب کی تھی جو تھک بھی چکے ہو۔“
          ”تھکا نہیں ہے سر! تھکایا گیا ہے۔“ارشد کی طنزیہ آواز بلند ہوئی۔”پولیس کی مار بڑے بڑوں کو اوقات میں لے آتی ہے یہ غریب تو کسی شمار میں نہیں ہے۔“
          ”پولیس؟“پروفیسر فرقان متعجب رہ گیا تھا۔ جبکہ پروفیسر ہاشم بھی حیرانی سے ارشد کو گھورنے لگا۔
          ساتھی طالب علم نے کہنی سے ٹہوکا دیتے ہوئے اسے چپ رہنے کا شارہ کیا۔ اس نے جلدی سے بات سنبھال لی۔” مذاق کر رہا تھاسر!“
          ”آپ تمام کا بہت شکریہ۔خصوصاََ جن طلبہ نے باقاعدہ محفل میں حصہ ڈالا۔خوش رہیں،کل ان شاءاللہ ہم تازہ دم ہو کر پڑھائی کا آغاز کریں گے۔“ پروفیسر ہاشم نے پروفیسر فرقان کو چلنے کا اشارہ کیا اور دونوں کلاس روم سے نکل گئے۔ ان کے جاتے ہی اسوہ ارشد کو مخاطب ہو کر دھاڑی۔
          ”شاید تمھیں عزت راس نہیں ہے، منہ میں ایسی لگام ڈالوں گی کہ بولنا بھول جاﺅ گے۔“
          ارشد نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔”زبان سنبھال کر بات کرومحترمہ! میں عمار نہیں ہوں کہ خاموش رہوں گا۔“
          ”تم آئندہ ایسی بکواس کرو۔“اسوہ نے اس کی طرف قدم بڑھائے مگر رباب نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
          ”میں نے کوئی غلط بات نہیں کی۔“اس کے تیور دیکھ کر ارشد گھبرا گیا تھا۔اسے پسپاہونا پڑا۔
          ”تمھیں پولیس کا ذکر کرنے کی جرا¿ت کیسے ہوئی۔وہ میرا اور عمار کا معاملہ تھا۔تم کون ہو بیچ میں ٹانگ اڑانے والے۔“
          ”اسوہ !رہنے بھی دو نا۔“رباب نے اسے دروازے کی طرف کھینچا۔ وہ شعلہ بار نظروں سے ارشد کو گھورتی ہوئی کلاس روم سے باہر نکل آئی۔تب اسے معلوم ہوا کہ عمار جانے کب کا وہاں سے نکل گیا تھا۔
          باہر آتے ہی رباب اسے چھیڑنے لگی۔” بڑی طرف داری ہو رہی تھی عمار بھائی کی۔“
          وہ بات بناتے ہوئے بولی۔”اس شہدے پر غصہ آ گیا تھا۔کوئی بے غیرت کو پوچھے کہ تم کون ہو،جسے ظلم سہنا پڑا وہ خاموش ہے اور چچا خواہ مخواہ یونھی درمیان میں ٹپک رہا ہے۔جب کلاس روم کے سامنے کھڑی تھی تب بھی اس نے کافی بکواس کی تھی،ایک اور گانا،ایک اور گاناکی رٹ سب سے زیادہ یہی لگا رہا تھا۔جیسے اس کے باپ کے دربار کی مغنّیہ ہوں۔“
          ”تب تو خیر میرا بھی دل چاہ رہا تھا کہ تم گاتی رہو اور میں سنتی رہوں۔جانے عمار بھائی پر جادو بھری آواز کا کیا اثر ہوا ہوگا۔“
          ”نہیں اب وہ سچ مچ سنبھل گیا ہے۔“نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے لہجے میں اداسی در آئی تھی۔
          رباب ہنسی۔”ویسے آج یہ تومان لیا کہ تم نے عمار بھائی پرظلم کیا تھا۔“
          ”ہاں۔“اس کا جواب خلاف توقع تھا۔”شاید میں جلد ہی اسے معذرت کہہ لوں۔بلا شبہ میرا رد عمل بہت زیادہ شدید تھا۔“
          ”سچ۔“رباب نے بے ساختہ اس کا ہاتھ تھام لیا تھا۔
          ”ہاں رباب!۔“اسوہ نے ہنستے ہوئے اثبات میں سر ہلادیا۔
          ”میں جانتی تھی تم بہت اچھی ہو۔پتا نہیں تم عمار کے لیے اتنی ظالم کیوں ہو گئی تھیں۔“
          وہ جان چھڑاتے ہوئے بولی۔”مجھے خود بھی نہیںپتا۔“
          وہ باتیں کرتے ہوئے پارکنگ میں پہنچ گئی تھیں۔اسوہ اس سے ہاتھ ملا کر اپنی کار کی جانب بڑھ گئی۔ اسے دور سے آتے دیکھ کر ڈرائیور نے دروازہ کھول دیا تھا۔
          ٭٭٭
          ”یہ دعوت کس خوشی میںہے۔“مدثر نے میز پر سجے لوازمات کو گھور تے ہوئے خوشی سے بھرپور لہجے میں پوچھا۔
          اسماءنے اندازہ لگایا۔”شاید آج عمار کی سال گرہ ہے۔“ تینوں کنٹین میں موجود تھے۔عمار انھیں زبردستی وہاں لایا تھا۔
          ”نہیں۔“عمار نے انکار میں سر ہلایا۔
          ” پھر۔“مدثر نے اشتیاق ظاہر کیا۔
          ” دل کر رہا تھا کہ اپنے دوستوں کے ساتھ چند خوشگوار لمحے گزاروں۔کیا پتا زندگی کب مہلت چھین لے۔“
          ”یوں بدفال تو منہ سے نہ نکالو۔“اسماءنے گھبراکراس کا ہاتھ تھام لیا تھا۔
          ”حقیقت تو یہ ہے آپ دونوں کو بھلا نہیں سکوں گا۔“عمار کے لہجے میں جدائی کی ان دیکھی مہک سونگھی جا سکتی تھی۔
          ”ہماری پڑھائی کا ڈیڑھ سال بقایا ہے۔اور ہم ایک ہی شہر میں رہتے ہیں پھر جدائی کا ذکر کرنا کہاں کی عقل مندی ہے۔“اسماءاسے جھڑکنے سے باز نہیں آئی تھی۔
          ”تمھیں ہوا کیا ہے ؟“مدثر کو بھی اس کا انداز حیران کن لگا تھا۔
          ” آپ لوگوں نے تو بات کا بتنگڑ ہی بنا لیا ہے۔بہتر ہوگاکھانے سے پینے لطف اندوز ہوا جائے۔“اور وہ دونوں اثبات میں سرہلاتے ہوئے لوازمات سے بھری میز کی طرف متوجہ ہو گئے۔
          جاری ہے

          Comment


          • #6
            پشیمان قسط نمبر4


            وہ یونیورسٹی میں عمار کا آخری دن تھا۔نئی زندگی کی شروعات سے پہلے وہ ماضی کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کرچکا تھا۔ اس نے پختہ عزم کیا کہ جب تک اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتا کسی سے واسطہ،تعلق نہیں رکھے گا۔وہ بس پیسا کمانے کی مشین بننا چاہتا تھا۔ گھر وہ دو تین دن پہلے فروخت کر چکا تھا۔ اس کے اکاﺅنٹ میں پچیس لاکھ کے قریب رقم موجود تھی۔وہ پرانے گھر کو چھوڑ کرسرکاری کوارٹرمیں منتقل ہو گئے تھے۔ تعلیم ادھوری چھوڑ کر وہ محنت کے سہارے مقدر آزمانے چلاتھا۔
            مدثر کی دوستی کسی مسئلے کو جنم نہ دیتی البتہ وہ اسماءکی پر خلوص محبت سے ڈرتا تھا۔ اس کا سامنا کرنا اسے ہمیشہ مشکل میں ڈال دیتاتھا۔ اگروہ مدثر سے رابطہ نہ توڑتا تو اسماءکے لیے اسے ڈھونڈنا چنداں دشوار نہ ہوتا۔ وہ فطری طور پر نرم خو اور دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنے والا تھا۔لیکن اسوہ کے علاوہ کسی کو جیون ساتھی بنانے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔اور اسماءسے جان چھڑانے کا اسے یہی طریقہ بہتر لگا تھا۔
            ”کب اور کیا کرنے کا ارادہ ہے برخوردار؟“بشیر احمدنے اندر آتے ہوئے پوچھا۔
            ”آئیں ابوجان۔“وہ والد کو دیکھ کر خوشی سے کھل اٹھا تھا۔بشیر احمد والد سے زیادہ اس کا دوست تھا۔
            ”کچھ پوچھا ہے یار!“اس نے سوال دہرایا۔
            ” آج یونیورسٹی کو خدا حافظ کہہ آیا ہوں۔اورکاروبار کے بارے فی الحال کچھ طے نہیں کیا۔“
            ”جو کرنا ہے جلدی کرو محترم !کیونکہ میری ریٹارمنٹ میں صرف پانچ سال رہ گئے ہیں اور میں نہیں چاہتا ہمیں کراے کا گھر ڈھونڈنا پڑے۔“
            ”آپ ہمیشہ ذاتی مکان میں رہے ہیں۔زندگی کے آخری چند سال اگر کرائے کے مکان میں رہنا پڑا تو کوئی قیامت نہیں ٹوٹے گی۔“
            بشیر احمد نے منہ بنایا۔”مجھے بھی کچھ ایسا ہی شک تھا۔خیر میں تیار ہوں،تم اپنی امی جان کو سمجھا دینا۔“
            ” یہ آپ کا اور آپ کی شریک حیات کا ذاتی معاملہ ہے۔براہ مہربانی مجھے اس لڑائی میں نہ گھسیٹیں۔“
            ”کیا باتیں ہو رہی ہیں باپ بیٹے میں۔“سکینہ کھانے کے برتنوں کے ساتھ نمودار ہوئی۔
            ”اپنے ہونہار سپوت ہی سے سن لو۔“
            ” ابو جان ! میں نے سب کچھ سچ سچ بتا دینا ہے۔مجھ سے جھوٹ نہیں بولا جاتا۔“
            بشیر احمد اطمینان سے سرہلایا۔”میں بھی یہی چاہتا ہوں،کم از کم بیگم صاحبہ کو پتا ضرورچلنا چاہیے کہ اس کا بیٹا کتنا تمیز دار ہے۔“
            ” لڑکیوں کی تصاویرملیں آپ کے پرس میں اور بد تمیز میںٹھہرا۔“
            بشیر احمد سٹپٹاتا ہوا بولا۔”بیگم !اس کی چالاکی دیکھو۔اپنے کہے سے مکرگیا ہے۔بلکہ موضوع ہی تبدیل کردیا ہے۔“
            ”آپ کے درمیان قاضی شریح بھی فیصلہ نہیں کر سکے گا۔ میں غریب کس شمار و قطار میں ہوں۔“سکینہ شوہر کے سامنے کھانے کے برتن رکھ کر کچن کی طرف بڑھ گئی۔
            ”برخوردار ! جھوٹ بلکہ بہتان تراشی کی لت کب سے پڑ گئی ہے۔“
            ”جھوٹ کیسا۔“عمار نے تجاہل عارفانہ سے حیرانی ظاہر کی۔
            ”یہی کہ میں پرس میں لڑکیوں کی تصاویر رکھتا ہوں۔“
            عمار اطمینان سے بولا۔”ذرا پرس کھول کر دیکھیں اور بتائیں کہ سرخ جوڑے میں ملبوس سر پر سلیقے سے دوپٹا لپیٹنے والی لڑکی کون ہے ؟“
            ”دھت تیرے کی،بے شرم !وہ تمھاری ماں ہے۔“
            ”مجھے کب انکار ہے۔ آپ کی زوجہ میری ماں ہی ہو گی۔“
            ”بے حیا!وہ تمھاری حقیقی ماں ہے۔“
            ”تو کیا ؟“عمار زور سے بولا۔”ہے تو لڑکی نا۔“
            ”ابے یہ مذاق کسی دن تمھارے باپ کی جان لے لے گا۔“وہ رنکھے لہجے میں بولا۔”تمھیں نہیں پتا اکیلے میں تمھاری ماں کتنی خون خوار ہو جاتی ہے۔ اس کی ظاہری شفقت اور خدمت پر نہ جانا۔“
            ”تو آپ میری پیاری امی کو ایسا سمجھتے ہیں۔“عمار نے ماں کو آتے دیکھ کر پینترا بدلا۔
            ”ہم کاروبار کے بارے مشورہ کر رہے تھے۔“بشیر احمد نے ایک دم موضوع ِ گفتگو تبدیل کیا۔
            ”کیسا کاروبار؟“
            ” مسخرہ پن چھوڑو اور چاے پیو۔“بشیر نے دبی آواز میں کہا۔
            والد کو پسپا ہوتا دیکھ کر عمار نے ہنستے ہوئے چاے کا کپ اٹھا لیا۔
            بشیر احمد دانت پیستے ہوئے بولا۔” کبھی تو تمھاری شادی بھی ہو گی،آخر کب تک بکرے کی ماں خیر منائے گی۔“
            عمار نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا۔”ہنوز دلی دور است۔“بشیر احمد کے چہرے پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔
            ٭٭٭
            بستر پر لیٹتے ہی اس کے کانوں میں عمار کی آواز گونجی۔
            اب نہ زلفوں کو تری کالی گھٹا بولیں گے
            اب نہ آنکھوں کو تیری جھیل سے تشبیہ دیں گے۔
            زیر لب مسکراتے ہوئے اس نے خودکلامی کی۔”نہیں بچو! اب تو کہنا پڑے گا۔اتنی جلدتمھاری جان نہیں چھوٹنے والی۔“اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ صبح عمار کومنالے گی۔آج ایک دم اس پر انکشاف ہوا تھا کہ اسے محبت ہو گئی ہے۔
            کب،یہ معلوم نہیں تھا۔بس ہو گئی تھی۔شاید پہلے دن ہی سے وہ اسے پسند تھا،مگر کبھی اس کے بارے سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی تھی۔ لاشعوری طور پر عمارکو آزماتی رہی کہ وہ اس کی محبت میں کتنا ثابت قدم ہے۔ اس کے تیئں عمارکسی صورت اس سے خفا نہیں ہو سکتا تھا،مگراس کا اندازہ غلط نکلا۔یا شاید اس نے آزمائش ہی اتنی کڑی رکھی تھی کہ عمار کو محبت سے دست بردار ہونا پڑا۔یقینا عمار کو اس نہج تک لانے والی وہ خود تھی۔ توہین کی کوئی حد ہوتی ہے۔یوں کسی کی غربت کا مذاق اڑانے کو آزمائش نہیں کہتے۔ایسا تو شاید دشمنوں کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا۔اب اسے عمار کو منانا تھا۔وہ جانتی تھی کہ اس کے ایک بار معذرت کرنے پر عمار نے اسے معاف کر دینا تھا۔وہ عمار کو سوچتے سوچتے نیند کی میٹھی وادیوں میں کھو گئی۔
            ”کیا میرے سوری کہنے پر مجھے معاف کر دو گے ؟“ عمار یونیورسٹی کے سبزہ زار میں بیٹھا ایک کتاب کی ورق گردانی میں مشغول تھا جب اس کے سامنے پہنچ کر اسوہ نے بغیر کسی تمہید کے استفسار کیا۔
            ”نہیں۔“اس نے عمار کا سر نفی میں ہلتا ہوا دیکھا۔اور پھر اس کے لب وا ہوئے۔ ”میں تمھیں سوری کرنے ہی نہیں دوں گا۔“
            ”سچ ؟“وہ خوشی سے سرشار ہو گئی تھی۔
            ”اس میں شبہ ہی کیا ہے۔“
            ”اور جو کہا تھا اب میری آواز کو کویل جیسا نہیں کہو گے ؟“اس نے بے اختیار شکوہ کیا۔
            ”میرے کہنے سے فرق ہی کیا پڑتا ہے۔تمھاری آواز کویل جیسی ہے، آنکھیں جھیل سے بھی گہری ہیں،چہرہ چاند سے بھی روشن ہے،زلفیں کالی گھٹا کو شرماتی ہیں،تم ہنستی ہو تو بہاریں امڈ پڑتی ہیں۔ میرا ایسا نہ کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے یہ تو آفاقی حقیقتیں ہیں انھیں بھلاکون جھٹلا سکتا ہے۔“
            وہ بے ساختہ بولی۔”مجھے تو فرق پڑتا ہے نا۔“
            ” تو میں اپنے سارے الفاظ واپس لیتا ہوں اور اعتراف کروں گا کہ........
            مثل کویل ہے تیری صوت یہ حقیقت ہے
            رخ روشن ہے مہِ جوت یہ حقیقت ہے
            تیری مسکان بہاروں کا سندیسا لائے
            یہی سچ تھا یہی سچ ہے یہی بولا جائے
            وہ اٹھّلا کر بولی۔ ”نہیں مجھے گا کر سناﺅ؟“
            ”مگر میں نے کبھی گانا نہیں گایا اور میری آواز بھی کچھ ........“
            وہ لاڈ سے بولی۔” میں جو کہہ رہی ہوں آپ کو گنگنانا پڑے گا۔“
            اس نے اثبات میں سر ہلایا۔” ٹھیک ہے۔لیکن پہلے ساز کاتو بندوبست تو کرلوں۔“
            وہ پوچھنے لگی۔”ساز کہاں سے آئے گا؟“
            وہ وارفتگی سے بولا۔”اپنی نواب زادی کے لیے میں نے پہلے سے انتظام کیا ہوا ہے۔“ اس کی بات ختم ہوتے ہی مدھر موسیقی گونجنے لگی۔ اور اس سے پہلے کہ عمار گانا شروع کرتا اسوہ کی آنکھ کھل گئی۔موبائل فون کاآلارم مسلسل بج رہا تھا۔ اسوہ نیم غنودگی کی حالت میں کافی دیر سہانے سپنے کو سوچتی رہی۔
            ”کیا عمار مجھے اتنا پیارا ہے۔“اسے حیرانی ہوئی تھی۔”اتنی نفرت کے بعد اچانک بے انتہا محبت پیداہوجانا عجیب ہی تو تھا۔
            وہ تازہ دم ہونے غسل خانے کی طرف بڑھ گئی۔
            وہ یونیورسٹی میں پہنچنے والی سب سے پہلی طالبہ تھی۔کلاس روم کے بجائے اس نے باہر بیٹھ کر عمار کا انتظار کرنا مناسب سمجھاتھا۔سپنے میں بھی اس نے یہی سبزہ زار دیکھا تھا۔
            وہ مسلسل عمار کو مخاطب کرنے، معذرت چاہنے اور اظہارِ محبت کے بارے سوچتی رہی۔طلبہ کی آمد شروع ہوئی اور اس کی منتظر نگاہیں داخلی دروازے کی جانب نگراں ہو گئیں۔
            رباب اسے دیکھ کر سخت حیران ہوئی تھی۔” خیر تو ہے، اتنے سویرے؟“
            ” ضروری کام تھا۔“وہ خفیف ہوئی۔
            ”میں بھی سنوں۔“وہ اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئی تھی۔
            ”کسی سے معذرت کرنے کا ارادہ تھا۔“
            ”سچ مچ۔“رباب نے بے اختیار اس کا ہاتھ تھام لیا تھا۔
            ”ہاںمیں نے زیادتی کی تھی۔“اسوہ کا لہجہ ندامت سے پر تھا۔
            رباب مسکرائی۔”احتیاط سے،معذرت کرتے کرتے کہیں حد ہی سے نہ گزر جانا۔“
            اسوہ نے حیا آلود لہجے میں کہا۔”بس میں تھوڑی ہوتا ہے۔“
            ”نہیں۔“رباب ششدر رہ گئی تھی۔
            ”ہاں۔“اسوہ نے ٹھنڈا سانس بھرا۔”پرمجھے نہیں معلوم یہ کب ہوا،بس ہو گیا۔“
            رباب نے تشویش بھرے لہجے میں کہا۔” یہ مبالغہ ہو گا۔ معذرت کرنا کافی تھا۔اور پھر اپنے بیچ طبقاتی فرق کے بارے تم اچھی طرح جانتی ہو۔“
            ” اگر ہماری معاشی حالت برعکس ہوتی،وہ امیر ہوتا اور میں غریب تویقیناوہ اپنی غریب شریک حیات کو دنیا کی ہر خوشی فراہم کرتا۔ کیا میں اپنے شریک حیات کے لیے یہ نہیں کر سکتی۔“
            ”یقین نہیں آتا تم اتنی بدل جاﺅ گی۔باقی عمار کی غربت پر انکل کو اعتراض ہو گا ورنہ میرے نقطہ نظر سے تو امیر لڑکی کے لیے غریب لڑکا ہی بہتر شوہر ثابت ہوتا ہے۔ایسا شوہر بیوی کا احسان مند اور شکر گزار ہوتا ہے۔کبھی حاکم بننے کی کوشش نہیں کرتا۔“
            اسوہ اعتماد سے بولی۔”پاپا کے لیے میری خوشی ہی سب کچھ ہے۔“
            ”اللہ کر ے ایسا ہی ہو۔“دعائیہ لہجے میں کہتے ہوئے رباب کھڑی ہو گئی۔ ”آپ عمار بھائی سے اکیلے ہی میں بات کریں تو زیادہ بہتر ہو گا۔“
            اسوہ کے لبوں پر تبسم نمودار ہوا۔”میرے منہ کی بات چھین لی۔“
            رباب طنزیہ انداز میں بولی....
            راہِ دورِ عشق میںروتا ہے کیا
            آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
            [ویسے میر تقی میرکے اس شعر کا پہلا مصرع یوں زبان زد عام ہے کہ ”ابتداے عشق ہے روتا ہے کیا “ ....مگر یہ غلط ہے ]
            ”بے شرم۔“اسوہ حیا آلود لہجے میں بولی۔اور رباب ہنستی ہوئی کلاس روم کی طرف بڑھ گئی۔
            اسوہ عمار کی راہ تکنے لگی۔یہاں تک کہ سبق شروع ہونے کا وقت ہو گیا۔وہ بوجھل قدموں سے کلاس روم کی طرف بڑھ گئی۔
            ”شاید کلاس روم میں پہنچ گیا ہو۔“امید کی کرن اس کے دل میں زند ہ تھی۔وہ آج ہی عمار کے سامنے دل کھول کر رکھنا چاہتی تھی۔مگر عمار کی خالی کرسی نے اس کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا۔ معذرت، اقرار محبت اوراور دوسری باتوں کو مزید چوبیس گھنٹے کی تاخیر برداشت کرنا پڑ رہی تھی۔
            رباب اس کی پریشانی بھانپ کرکہنے لگی۔”افسردہ نہ ہوکبھی کبھی تاخیر میں بہتری ہوتی ہے۔“
            ”آج میں مکمل طور پر تیار ہو کر آئی تھی اس لیے اس کاکا نہ آنا گراں گزر رہا ہے۔“
            رباب نے پھبتی کسی۔”کہاں بھاگا جا رہا ہے،تمھارے لیے تو گھڑے کی مچھلی ہے۔“
            ”شاید اب وہ بدل گیا ہے۔“اسوہ کے لہجے میں اندشیے پنہاں تھے۔
            رباب تیقن سے بولی۔”غلط فہمی ہے تمھاری۔“
            ”کہیں تمھاری خوش فہمی نہ ہو۔“اسوہ کی آواز میں مایوسی تھی۔
            ”کیا ہو گیا ہے تمھیں ؟“رباب کے لہجے میں حیرانی تھی۔” لگتا ہی نہیں تم اسوہ ہو۔“
            ”پروفیسر صاحب آگئے ہیں۔“اسوہ کے پاس اس کی حیرانی کا جواب نہیں تھا۔
            ٭٭٭
            عمار کی دو تین دن مسلسل غیر حاضری نے اسوہ کو مجبور کیا کہ وہ مدثر سے پوچھے۔خالی پیریڈ میں وہ سنگی بینچ پر بیٹھا تھا جب اسوہ کے قریب پہنچی۔
            ”السلام علیکم مدثر بھائی!“
            ”وعلیکم اسلام !“مدثر حیرانی سے دیکھنے لگا۔ اس جیسی نک چڑھی سے خوش اخلاقی کی توقع صرف خواب ہی میں کی جا سکتی تھی۔
            ”کچھ پوچھنا تھا۔“اسوہ کو اس کا حیرانی بھرا لہجہ عجیب نہیں لگا تھا۔
            ”پوچھیں۔“مدثر کی حیرانی رفع ہونے میں نہیں آر ہی تھی۔
            ”وہ ....میں .... پوچھنا چاہ رہی تھی،کہ....کہ ....وہ ....وہ یونیورسٹی کیوں نہیں آ رہا ؟“ اسوہ سے بات نہیں کی جا رہی تھی۔
            ”کون....؟ عمار ؟“اس کی حیرانی دو چند ہو گئی تھی۔
            ”جج....جی ....جی بھائی !“اسوہ کو خجالت محسوس ہو رہی تھی۔
            ’مدثر نے دائیں بائیں سر ہلایا۔ ” مجھے نہیں معلوم کیوں نہیں آرہا۔ کل دو تین بارکوشش کی تھی مگر اس کا موبائل فون بند جا رہا ہے۔“
            ” گھر جا کر معلوم کر لیتے،کہیں بیمار ہی نہ پڑا ہو۔“اسوہ کے لہجے میں بے تابی تھی۔
            ” خفا نہ ہو ں تو کیا آپ کی پریشانی کی وجہ جان سکتا ہوں؟“ نہ چاہتے ہوئے بھی اسے بداخلاقی کا مظاہرہ کرنا پڑا۔
            وہ گڑبڑاتے ہوئی بولی۔”وہ.... میں ....یونھی،کلاس فیلو ہے اور تین دن سے یونیورسٹی نہیں آ رہا، سوچا آپ سے پوچھ لوں۔“
            ”پھر کوشش کر لیتا ہوں۔“مدثر موبائل فون نکال کر عمار کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔
            ”آپ کے ملائے ہوئے نمبر سے اس وقت جواب موصول نہیں ہو رہا۔“ کی ٹون سن کر اس نے نفی میں سر ہلادیا۔
            ”نہیں اٹھا رہا ؟“اسوہ نے بے صبری سے پوچھا۔
            ”نمبر بند ہے۔خیر آج یونیورسٹی سے سیدھا اس کے گھر جاﺅں گا۔“
            اسوہ نے پوچھا۔” ٹیکسی میں جائیں گے۔“
            ”یونیورسٹی بس میںجاﺅں گا،بس سٹاپ سے گھر زیادہ دور نہیں ہے۔“
            وہ جلدی سے بولی۔”اکٹھے چلیں گے، اس بہانے اس کی عیادت بھی ہو جائے گی۔“
            مدثر بہ مشکل خود کو اچھلنے سے باز رکھ سکا تھا۔اسوہ اسلم شکورخان بہ نفس نفیس عمار کے گھر جانے پر آمادہ تھی۔اور وہ بھی اس کی عیادت کو۔
            ”شاید ساری زندگی اپنی بیماری کو دعائیں دیتا رہے۔“مدثر کی سوچ زبان تک رسائی نہیں پا سکی تھی۔دھیرے سے بولا۔
            ”ٹھیک ہے۔“
            ”شکریہ مدثر بھائی۔“وہ خوش ہو گئی تھی۔
            چھٹی کے وقت وہ پارکنگ میں مدثر کی منتظر تھی۔ڈرائیور کو اس نے گھر جانے کا کہہ دیا تھا۔
            مدثر کی ہچکچاہٹ کو اس نے۔”آئیں مدثر بھائی!“کہہ کر ختم کر دیا تھا۔
            مدثرنے جھجکتے ہوئے اگلی نشست سنبھال لی۔اتنی قیمتی کار میں اسے پہلی بار بیٹھنے کا موقع ملا تھا۔وہ ہلکا سا نروس تھا۔ مگر اسوہ کے دوستانہ لہجے نے اس کی جھجک دور کر دی۔اسے یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ یہ وہی اسوہ تھی جسے پیٹھ پیچھے،نک چڑھی،مغرور، بدمزاج،بد دماغ اور جانے کیا کیا کہتے رہتے تھے۔
            ”کچھ پوچھ سکتی ہوں ؟“پارکنگ سے کار نکالتے ہوئے وہ اس کی جانب متوجہ ہوئی۔
            وہ مسکرایا۔”کیوں نہیں۔“
            ” مجھ سے سخت خفا ہو گا،ہے نا ؟“عمار کا نام لیتے ہوئے اسے عجیب سی جھجک محسوس ہو رہی تھی۔
            مدثر کڑوے سچ اور تلخ حقیقت کومناسب انداز میں بیان کرنے لیے الفاظ ڈھونڈنے لگا۔اسے کش مکش میں دیکھ کر وہ تاکید کرنے لگی۔
            ”مدثر بھائی ! صرف سچ سننا چاہوں گی۔اچھی طرح جانتی ہوں کہ آپ لوگوں کے لیے ناپسندیدہ لڑکی ہوں۔مگر اب بدلنا چاہتی ہوں۔ میں نے عمار پرجو ظلم،زیادتی کی اس پر نادم ہوں،تبھی معافی مانگنے جا رہی ہوں۔“
            ”سچ تو یہ ہے کہ مجھے یقین ہی نہیں آ رہامیرے ساتھ اسوہ اسلم شکور بیٹھی ہے۔باقی رہی عمار کی ناراضی تو وہ خفا ہونے کی اداکاری کر سکتاآپ سے خفا نہیں ہوسکتا۔البتہ اپنی غربت اور تنگ دستی سے شاکی تھا جو آپ تک پہنچنے کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔“
            وہ ندامت سے بولی۔”میں نے عمار کو بہت زیادہ دکھ دیے۔ پلیز آج میری سفارش کر دیجیے گا۔“
            مدثر ہنسا۔” مجھے تو ڈر ہے، آپ کو اپنے گھر دیکھ کر وہ خوشی ہی سے مر نہ جائے ؟“
            اسوہ نے بجھے دل سے کہا۔”یہ خوش فہمی مجھے بھی ہوتی اگر اس کا اعتراف نہ سنا ہوتا۔کیا کہہ رہا تھا:تھگ گئے اور محبت نہیں ہوتی ہم سے۔“
            مدثر فلسفیانہ انداز میں بولا۔”منزل کا اتا پتا معلوم نہ ہوتوتھکناپڑتا ہے۔“
            ”راستے کی تکلیفیںاور مشکلات سے کبھی کبھی منزل تک پہنچنے کی لگن اور شوق بیزای و کوفت میں ڈھل جاتا ہے۔نتیجے میں منزل بدلناناگزیر ہوجاتا ہے۔“اسوہ کے لہجے میں جھلکنے والے اندیشے نہایت واضح تھے۔
            ”اور منزل خود چل کر پاس آجائے پھر کہاں کا تھکنا اور منزل بدلنے کا سوچنا۔اور حقیقت تو یہ ہے کہ اسماءکبھی بھی اسوہ کی جگہ نہیں لے سکتی۔دل اختیار میں نہیں ہوتااور من مانیاں کرتا ہے۔“
            ”دماغ تو اختیار میں ہوتا ہے نا۔“
            مدثر ہنسا۔”دل نے سنی کب ہے دماغ کی۔“
            ”کہتے ہیں ٹوٹے دل دماغ سے رہنمائی لیتے ہیں۔“
            ”یہیں روک دو۔“جواب دینے کے بجائے مدثر نے کار روکنے کا۔ چھوٹے سے مکان پر نظر پڑتے ہی اسوہ کا دل خوش گوار انداز میں دھڑکنے لگا تھا۔
            مدثر دروازے پر دستک دی۔
            ”جی بھائی؟“دروازہ کھولنے والا ادھیڑ عمر شخص تھا۔اسوہ کے اندازے میں اسے عمار کا والد ہونا چاہیے تھا۔خود مدثر کی بھی اب تک عمار کے والد سے ملاقات نہیں ہو ئی تھی۔ وہ بس چند بار اس کی ماں ہی سے ملا تھا۔
            ”چچا جان !میں مدثر ہوں،عمار کا دوست۔“
            ”یہ عمار کا گھر تو نہیں ہے۔“ادھیڑ عمر شخص نے خود حیران ہونے کے ساتھ مدثر کو بھی متعجب کر دیا تھا۔
            اس نے بائیں دائیں طائرانہ نگاہ دوڑائی اور الجھن آمیز لہجے میں بولا۔۔”میں پہلی بار تو نہیں آیا کہ پہچاننے میں غلطی کروں۔“
            وہ مسکرایا۔”ہم کل ہی یہاںمنتقل ہوئے ہیں۔یقینا آپ کا دوست مکان فروخت کر کے جا چکا ہے۔“
            ”یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟“وہ پریشانی ہو گیا تھا۔
            ”بیٹا!ہم تو کرایہ دار ہیں، قرض وغیرہ کا معاملہ ہے توہمیں اس چکر سے دور ہی رکھیے گا۔“
            ”مالک مکان کون ہے ؟“
            ”پراپرٹی ڈیلر اسد خان،میرا پرنا واقف کار ہے۔“
            ”’ آپ مجھے اس اسد خان صاحب کا موبائل فون فون نمبر دے سکتے ہیں۔“
            اس نے موبائل فون نکال کر اسد خان کا نمبر ڈھونڈا اور مدثر کو قلم بندکر ا دیا۔مدثر مصافحہ کر کے مڑ گیا۔
            ”کیا ہوا؟“اسوہ ان کی گفتگو سن کر بھی کسی تسلی کی خواہاں تھی۔
            ” گھر بیچ دیا ہے، موبائل فون نمبر بھی تبدیل کر دیاہے۔یقینا یہ سب کچھ منصوبے کے تحت کیا ہے،کیوں کہ وہ ماضی سے ناتا توڑنا چاہتا ہے۔“مدثر نے قرائن سے صحیح نتیجہ اخذ کیا تھا۔
            ”مم ....میں سمجھی نہیں مدثر بھائی!“اسوہ کا دل ناخوشگوار انداز میں دھڑکنے لگا۔
            ”جس دن کلاس روم میں نظم سنائی تھی۔اسی روز اس نے میری اور اسماءکی دعوت بھی کی تھی اور تب اس کی گفتگو میں جدائی کا ذکر،بچھڑنے کااحساس اور دوریوں ذائقہ گھلا تھا۔مجھے شک ہوا مگر اندازہ نہیں تھا وہ اس آسانی سے اتنا بڑا قدم اٹھا لے گا۔“
            اسوہ ہکلائی۔”آ ....آپ کا مطلب وہ ماضی سے تعلق توڑنا چاہتا ہے۔“
            مدثر کے ہونٹوں پر پھیکی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔” وہ ماضی سے ناتا توڑ چکا ہے بہن! کراچی میں ایک ایسے آدمی کو تلاش کرنا جو آپ سے واسطہ نہ رکھنا چاہتا ہو بھوسے کے ڈھیر سے سوئی تلاشنے سے بھی مشکل ہے۔“
            اسٹیرنگ پر سر ٹیکتے ہوئے اس نے خود کلامی کی۔”اب کیا ہو گا ؟“
            مدثر کولگا وہ اس کی حوصلہ شکنی کر رہا ہے۔ اور یہ بالکل مناسب نہیں تھا۔”اللہ پاک خیر کرے گا اسوہ بہن!مجھے یقین ہے وہ آپ سے زیادہ دن دور نہیں رہ سکے گا۔بلکہ وہ آپ کو دیکھے بغیر زندہ رہ ہی نہیں سکتا۔“
            اسوہ نے دامن امید دراز کیا۔” شاید اسماءاس کا پتا جانتی ہو۔“
            مدثر نے اسے خوش فہمی سے نکالا۔” اس کی روپوشی کی اصل وجہ ہی اسماءہے۔ اس کے پیچھے دیوانی ہورہی تھی،جبکہ وہ اسے ایک اچھے دوست سے زیادہ اہمیت دینے پر تیار نہیں تھا۔اوراسماءسے جان چھڑانے کا اس سے اچھا طریقہ کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔“
            اسوہ نے گاڑی پیچھے موڑ لی۔جبکہ مدثرایک موہوم امید پر اسد خان کاموبائل فون نمبر ملانے لگا۔مگر بات کر کے اسے مایوسی ہوئی تھی۔ اسد خان کے پاس بھی عمار یا اس کے والد صاحب کا رابطہ نمبر موجود نہیں تھا۔
            ٭٭٭
            ”ابو جان ! پانسوروپے ادھار مل جائیں گے۔“
            بشیر احمد ہنسا۔”ابھی سے ہاتھ پھیلانے شرع کر دیے۔“
            ”دینے ہیں کہ، امی جان سے مانگ لوں۔“
            ”یہ لو یار !“بشیر احمد منہ بناتے ہوئے ہزار کا نوٹ نکالا۔”اس نے بھی میری جیب ہی پر ڈاکاڈالنا ہے۔“
            ” ڈرنے کی ضرورت نہیںہے واپس کر دوں گا۔“
            ”امید پر دنیا قائم ہے۔“ بشیر احمد نے دفتر جانے کے ارادے سے باہر کا رخ کیا۔ عمار پھیکے انداز میں ہنس پڑا تھا۔ اپنے والد پروہ ہمیشہ فخر کیا کرتاتھا۔بیٹے کے ساتھ اس کی گہری دوستی تھی۔اتنی زیادہ بے تکلفی اور ہنسی مذاق کے باوجود عمار نے کبھی تمیزکی حد پار نہیں کی تھی۔
            ناشتا کر کے وہ گھر سے نکل آیا۔سارا دن بازاروں کی خاک چھان کر شام کو تھکا ہارا وپس لوٹا۔ اگلے دن پھر صبح سویرے نکلا اور رات گئے ہی واپسی ہوئی۔ اب یہ اس کی روزمرہ بن گئی تھی۔ سبزی منڈی، مارکیٹ، بس اڈے،مختلف کارخانوں، مشہور جنرل سٹوروں،بڑے ہوٹلوں غرض ہر قسم کے کاروبار کواس نے سیکھنے کی غرض سے دیکھا۔مختلف لوگوں سے بات چیت کر کے کچھ نیاجاننے اور سمجھنے کی کوشش کی۔ دوتین ماہ کی بھاگ دوڑ کے بعدایک دن وہ والد صاحب کو اپنی معلومات میں حصہ دار بنا رہا تھا۔
            ”تم نے ہر کاروبار کے متعلق کافی کچھ جان لیا ہے مگر اس جان کاری کا فائدہ کیا ہے ؟نہ تو تم فائیو سٹار ہوٹل کھول سکتے ہو اور نہ اسی نوے لاکھ کی گاڑی خرید کر کراچی سے پشاور چلا سکتے ہو۔“
            ”میں نے تازہ سبزی کا ذکر بھی کیا ہے۔“
            بشیر احمد ہنسا۔” سبزی کی ریڑھی لگانے کا ارادہ ہے ؟“
            ” دیہاتوں سے تازہ سبزی خرید کر منڈی میں بیچی جائے تو کافی منافع کمایا جا سکتا ہے۔“
            ”پڑھو بسم اللہ۔“بشیر احمد نے اثبات میں سر ہلا کر اسے شروعات کی منظوری دی۔
            ٭٭٭
            وہ رات اسوہ نے جاگ کر گزاری تھی۔اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ، عمار یوں غائب ہو جائے گا۔ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ عمار کے غائب ہونے کی بڑی وجہ وہ خود تھی۔آخرکب تک وہ نفرت سہتا۔ اسے ذرا بھی اندازہ نہیں تھاکہ عمار کو پولیس کے ہاتھوں زدوکوب کروانے کایہ نتیجہ نکلے گا۔گوبعد میں وہ بہت پچھتائی تھی مگر پچھتاوں سے گیا وقت ہاتھ نہیں آیا کرتا۔
            اگلے دن دوران سبق بھی اس کی نظریں باربار عمار کی کرسی کا طواف شروع کر دیتیں۔
            دوسرے پیریڈ کی ابتداءمیں پروفیسر ہاشم نے سرسری انداز میں پوچھا۔”تیسرا دن ہے عمار نظر نہیں آرہا،خیر تو ہے؟“
            ”پتا نہیں سر !“مدثرنے مودبانہ لہجے میں جواب دیا۔
            ” موبائل فون نمبر نہیں ہے،پوچھ لیتے۔“
            ” فون نمبر بند جا رہا ہے سر !“ جواب دینے والا مدثر ہی تھا۔
            پروفیسر ہاشم کندھے اچکا کرسبق کی طرف متوجہ ہو گیا، کہ کسی کے جانے سے کاروبارِدنیا نہیں رکا کرتا۔
            اسوہ غائب دماغٰی سے سبق سنتی رہی۔خالی پیریڈ کے دوران کیفے ٹیریا کی طرف جاتے ہوئے اس کی نظر اسماءپر پڑی۔وہ حسب عادت سبزہ زار میں گڑی سنگی بینچ پر بیٹھی تھی۔ وہ عموماََ اسی جگہ بیٹھی نظر آتی۔
            اسوہ، رباب کو معذرت کرکے اس کی طرف بڑھ گئی۔رباب جانتی تھی کہ وہ عمار کے لیے پاگل ہوئی جا رہی تھی۔خوش دلی سے سر ہلاتے ہوئے وہ کیفے ٹیریاکی جانب بڑھ گئی۔
            اسوہ نے قریب جا کر۔”السلام علیکم!“کہا۔
            اسماءاسے دیکھ کر حیران رہ گئی تھی۔ سلام کا جواب دے کر وہ سوالیہ نظروں سے اسے گھورنے لگی۔
            اسوہ اس کے قریب نشست سنبھالتے ہوئے ندامت سے بولی۔”میں معذرت کرنے آئی ہوں۔“
            اسماءکے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ ابھری۔”شاید مجھے سننے میں غلطی ہورہی ہے۔“
            ”نہیں۔“اسوہ نے اس کا دایاں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھاما۔” میں معذرت خواہ ہوں۔ مجھے اپنے رویے پر بہت افسوس ہے۔ کیا آپ مجھے معاف کر سکتی ہیں۔“
            اسماءنے قریب ہو کر اسے بازووں میں بھر لیاتھا۔”میں اپنی بہن سے بالکل بھی خفا نہیں ہوں۔“
            ”آپ بہت اچھی ہیں۔“اسوہ کے لہجے میں خلوص تھا۔
            ”معذرت چاہنے والے کا ظرف،معاف کر دینے والے انسان سے فروتر ہوتا ہے۔“
            اسوہ متشکرانہ انداز میں مسکرائی۔”اچھا ایک بات پوچھو ں؟“
            اسماءخلوص سے بولی۔”بہنوں کو اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔“
            اسوہ نے اٹکتے ہوئے پوچھا۔”وہ....یونیورسٹی کیوں نہیں آرہا۔“
            اسماءکے چہرے پر افسردگی ابھری۔”یقینا اس بارے مسﺅل،سائل سے زیادہ نہیں جانتا۔“
            ” اس کے بارے استفسار کرنے پر آپ کو حیرانی نہیں ہوئی۔“
            اسماءنے نفی میں سر ہلایا۔” جانتی ہوں آپ معذرت کرناچاہتی ہیں۔“
            ”میری زیادتی، معافی کے قابل نہیں ہے۔“اسوہ آبدیدہ ہو گئی تھی۔”کسی کی محبت کو طنز و استہزاءکا نشانہ بنانا،پولیس کے ہاتھوں اسے زدو کوب کرناصرف اس وجہ سے کہ وہ غریب ہے۔اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا۔“
            اسماءنے تسلی دیتے ہوئے کہا۔”پریشان نہیں ہوتے۔انسان خطا کا پتلا ہے۔کجیاں، خامیاں، کمزوریاں آدمی کی سرشت میں داخل ہیں۔جانے انجانے میں گناہ کا صدوربشریت کا خاصاہے۔علماءسے سنا ہے نبی پاک ﷺکے ارشاد کا مفہوم ہے :[ہر انسان گناہ گار ہے اور اچھا گناہ گار وہ ہے جو توبہ کرنے والاہو]اگر تمھیں احساس ہو گیا ہے تواللہ پاک کی ذات سے ناامید مت ہونا۔“
            ”بے شک اللہ پاک کی گناہ گار ہوں اور کریم ذات سے معافی کی امید پر گناہوں کے بھی ڈھیر اکٹھے کیے ہوئے ہیں،مگر عمار کامعاملہ تو حقوق العباد کے دائرے میں آتا ہے۔اور لگتا یہی ہے میری اس سے معذرت کرنے کی خواہش کبھی پوری نہیں ہو گی۔اور اس نے معاف نہ کیا اللہ پاک بھی معاف نہیں کرے گا۔“
            اسماءنے اس کی امید بڑھائی۔” دنیا گول ہے اسوہ ! بھاگنے والے گھوم پھرکر اسی جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں سے فرار ہوئے ہوں۔“
            ” جانے کب وہ وقت آئے گااور کیا خبر اس سے پہلے میرا وقت آجائے۔“
            ”ایسی باتیں نہیں کرتے میری جان۔“اسماءنے اسے لپٹا لیا،یقین ہی نہیں آرہا تھاقابل ِ نفرت اسوہ اسے اتنی اپنی،عزیزاور پیاری لگنے لگے گی۔
            وہ کافی دیر بیٹھی رہیں۔یہاں تک کہ آخری پیریڈ کے اختتام پررباب وہاںپہنچ گئی۔
            ”نئی دوستی کی دھن میں پرانی دوستی ہی کو بھلا دیا گیا ہے۔“اس نے آتے ساتھ گلہ کیا۔
            ”آﺅ رباب !“اسماءنے اٹھ کر اسے خوش آمدید کہا جبکہ اسوہ خفیف انداز میں ہنس دی تھی۔
            رباب نے بیٹھنے سے گریز کرتے ہوئے کہا۔ ”چلتی ہوں بس آپ لوگوں کو صلح کی مبارک باد دینا تھی۔“
            ”خیر مبارک۔“اسماءنے خوش دلی سے کہا،جبکہ اسوہ نے مسکرانے پر اکتفا کیا تھا۔
            ”فی امان اللہ۔“ربا ب ہاتھ لہراکر چل دی۔
            ” ہم بھی چلتے ہیں۔“اسوہ کا انداز مشورہ چاہنے والا تھا۔
            اسماءسر ہلاتے ہوئے کھڑی ہو گئی۔پارکنگ میں جا کر اسماءنے الوداعی مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔
            اسوہ نے پیش کش کی۔”میں چھوڑ دیتی ہوں۔“
            ”شکریہ۔“اسماءنے تکلف برتا۔
            ”مجھے خوشی ہو گی۔“اسوہ مصرہوئی۔
            ”اسوہ بہن!ہم یونیورسٹی بس کی عادی ہیں۔“
            ”بہن کہہ کربھی تکلف برت رہی ہو۔“اسوہ نے کہااور اسماءہچکچاتے ہوئے آمادہ ہوگئی۔ڈرائیور نے ادب سے دروازہ کھولا وہ اسوہ کے اشارے پر اندر بیٹھ گئی۔ڈرائیور نے جلدی دوسری طر ف کا دروازہ اسوہ کے لیے کھول دیا اور پھر اس کے بیٹھتے ہی ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔
            اسوہ اس کے گھر کا پتا معلوم کرنے لگی۔ اسماءکے بتانے پر حیرانی سے بولی۔”آپ کا گھر تو رستے ہی میں پڑتا ہے۔“
            ” اچھا ہواآپ کاوقت ضائع نہیں ہوگا۔“
            ”کل سے اکٹھے آیا کریں گی۔“
            ”لیکن ........؟“اسماءنے انکار کرنے کی کوشش کی۔ اسوہ اس کی بات قطع کرتے ہوئے بولی۔
            ”آپ کا ہچکچانافضول ہے۔“
            اسماءنے چپ سادھتے ہوئے رضامندی ظاہر کردی۔یوں ان کے تعلقات میں مزید پختگی آئی اور ان کی دوستی آئے روز گہری ہونے لگی۔
            جاری ہے

            Comment


            • #7
              man moji bhai is section mai pak naam use kr skty hain na

              Comment


              • #8
                Originally posted by Maniawan View Post
                man moji bhai is section mai pak naam use kr skty hain na
                nahi
                جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
                ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

                Comment


                • #9
                  Originally posted by Man moji View Post

                  nahi
                  Bohat shukria bataney kai liye

                  Comment


                  • #10
                    پشیمان (جدید) قسط نمبر 5
                    ریاض عاقب کوہلر

                    ”جانے دو اسوہ ! اس چھچھورے پر الفاظ ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔“اسماءنے اس کا ہاتھ تھام لیا تھا۔
                    اسوہ نے دانت پیسے۔”ایسے بے غیرت صرف ڈنڈے کو پیر مانتے ہیں۔“
                    اسماءنے اس کے گالوں پرہاتھ رکھتے ہوئے چہرہ اپنی جانب موڑا۔”گندگی میں پتھر پھینکنے سے اپنا ہی لباس آلودہ ہوتا ہے۔“
                    اسوہ ہونٹ بھینچ کر خاموش ہو گئی تھی۔اس سے اگلے دن وہ دونوں کیفے ٹیریا کی طرف جا رہی تھیں۔رباب بھی ان کے ہم راہ تھی۔ ارشد ان کے عقب میں چلتا ہوئے بہ ظاہراپنے دوست کومخاطب تھا۔
                    ”یار!کسی کسی لڑکی پر ہر رنگ جچتا ہے، سرخ لباس پہنے چاہے آسمانی۔“
                    اسوہ نے اس دن آسمانی رنگ کے کپڑے پہنے تھے۔
                    دونوں سہیلیاں اسوہ کو اچھی طرح جانتی تھیں۔ بد مزگی سے بچنے کے لیے انھوں نے اسوہ کو بازووں سے تھام لیا تھا۔وہ فقط خون کے گھونٹ بھر کر رہ گئی تھی۔
                    اس کی خاموشی سے شہ پا کر ارشد کی بے ہودگیاں بڑھنے لگیں۔ اسوہ کو دونوں سہیلیوں نے قابو کیا ہو ا تھا۔خصوصاََ اسماءکی تو وہ کوئی بھی بات ٹالتی ہی نہیں تھی۔ کیوں کہ عمار کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ایک دن اسماءنے خوش دلی سے کہاتھا....
                    ” میں اسے چاہتی ہوں،مگر اس کے دل پر میری پیاری سہیلی کا قبضہ ہے۔اوردوسرے کی ملکیت پرقبضے کی تمنا نری حماقت ہی ہوتی ہے۔“اسماءکے ایثار نے اسوہ کے دل میں اس کی محبت کو سوا کر دیا تھا۔
                    مگر اسماءکی کوششیں بھی ایک دن کارگر ثابت نہیں ہوئی تھیں۔ پروفیسر ہاشم سبق ختم کر کے کلاس روم سے باہر نکلا، دوسرے پروفیسر کی آمد سے پہلے ارشد نے با آواز بلند اپنے دوست کو کہا۔
                    ”جی چاہتا ہے کسی کالے کپڑوں والی کو اٹھا کر دنیا کے اس نکڑے چلا جاﺅں جہاں بندہ ہو نہ بندے کی ذات۔“
                    اسوہ کے علاوہ اس دن کسی لڑکی نے بھی کالے کپڑے نہیں پہنے تھے۔وہ غضب ناک انداز میں اس کی جانب بڑھی۔
                    ”تمھاری یہ جرا¿ت۔“
                    اسماءنے اسے پکڑنے کی کوشش کی مگر وہ ارشد کی کرسی تک پہنچ گئی تھی۔
                    اسوہ کا تھپڑ مارنے والاہاتھ ارشد نے ہوا ہی میں جکڑ لیاتھا۔”ہر کوئی عمار کی طرح بھیڑ بکری نہیں ہوتا۔“
                    ”میرا ہاتھ چھوڑوکمینے۔“اسوہ نے کلائی اس کی گرفت سے آزاد کرانا چاہی،مگر ناکام رہی۔
                    اسماءبھی ان کے قریب پہنچ گئی تھی۔ایک جھٹکے سے ارشد کے ہاتھ کو اسوہ کی کلائی سے علیحدہ کرتے ہوئے وہ طیش بھرے لہجے میں بولی۔
                    ”شرم آنا چاہیے تمھیں لڑکی سے ہاتھا پائی کرتے ہوئے۔“
                    ” کیا چپ چاپ چہرے پر تھپڑ کھا لوں۔میں عمار کی طرح بے غیرت نہیں ہوں۔“
                    اسوہ چلائی۔”تم جیسا گھٹیا انسان عمار کی طرح ہو بھی نہیں سکتا۔“
                    ”گھٹیا ہوگی تم،تمھارا پوراخاندان۔“ارشد بھی طیش میں آگیا تھا۔
                    ”یار !کچھ ہوش کے ناخن لو۔“دو تین لڑکے صلح کرانے درمیان میں آ گئے تھے۔اسماءاور رباب بھی اسوہ کو اپنی نشست کی طرف کھینچ کر لے گئی تھیں۔
                    مدثر، ارشد کو مخاطب ہوا۔”ساری غلطی تمھاری ہے۔تم پہلے بھی اسوہ پر آوازیں کستے رہے ہو۔“
                    ”تو....کیا بگاڑ لو گے میرا۔“ارشد نے آنکھیں نکالیں۔
                    ان کی تند و تیز گفتگو میں پروفیسر فرقان کی آمد نے رکاوٹ ڈالی تھی۔
                    اسوہ دوران سبق ہی سر درد کا بہانہ کرتے ہوئے کلاس روم سے باہر نکل آئی۔اور پارکنگ میں آکر اپنے والد کو گھنٹی کرنے لگی۔ رابطہ ہوتے ہی اس نے گلوگیر لہجے میں ساری تفصیل والد کو کہہ سنائی تھی۔
                    ”یہ وہی بد بخت ہے نا جس نے ایک بار پہلے بھی بد تمیزی کی تھی۔“
                    ”نہیں پاپا!یہ دوسرا لڑکا ہے۔“
                    ” میں ابھی انسپکٹرراحیل کو بھیج رہا ہوں تم وہیں رک کر اس کا انتظار کرو۔“
                    ”جی پاپا!“کہہ کر اس نے رابطہ منقطع کر دیا۔
                    انسپکٹر صاحب سے وہ پہلے بھی مل چکی تھی۔وہ کار میں بیٹھ کر انتظارکرنے لگی۔موبائل فون کی سکرین پر انگلیان چلاتے ہوئے اچانک اس کی نظر اٹھی۔ایک لڑکے کو تیز رفتاری سے پارکنگ سے باہر جاتے دیکھ کراس کادل زور سے دھڑکا یوں لگا کہ وہ عمار ہے۔ پیچھاکرنے کے لیے وہ باہر نکلی،مگر اچانک موبائل فون بجنے لگا۔نامعلوم نمبر سے گھنٹی آ رہی تھی۔ نظر انداز کرنے کے خیال ساتھ ہی اسے انسپکٹر کی آمد یاد آئی۔کال وصول کرنے پر اس کا اندازہ صحیح ثابت ہوا تھا۔
                    ”انسپکٹر راحیل عرض کر رہا ہوں۔“
                    ”یونیورسٹی پارکنگ میں آپ کی منتظر ہوں۔“اسے بتا کر وہ جلدی سے پارکنگ سے باہر نکلی مگر اس آدمی کی کوئی جھلک نظر نہ آئی۔
                    اس نے مایوسی سے سوچا۔” میرا وہم ہوگا۔آخر وہ یہاں کیوں آئے گا۔“
                    دل نے خوش فہمی کا دامن پکڑا۔”مجھے دیکھنے آیا ہوگا۔“مگر دماغ کی طنزیہ ہنسی نے خجالت سے اس پیشانی عرق آلود کر دی تھی۔
                    واپس کار میں بیٹھ کر وہ بے دلی سے انسپکٹر کا انتظار کرنے لگی۔انسپکٹر کی آمد تک چھٹی ہو گئی تھی۔ارشد اسے انسپکٹر کے ساتھ دیکھ کر گھبرا گیا تھا۔ جلدی سے کار میں بیٹھ کراس نے باہر کا رخ کیا۔اس اثناءمیں اسوہ انسپکٹر صاحب کو اس کی نشان دہی کرا چکی تھی۔
                    ” بے فکر ہو جائیں مادام!بس یہ وضاحت کر دیں کہ اسے تھانے لے کے جانا ہے یا آپ کے دولت خانے پر۔“
                    ”تھانے لے جا کر اس کی اچھی خاطر داری کرو اورپاپا یا مجھ سے پوچھے بغیر رہا نہ کرنا۔“
                    ”جی مادام!“ وہ اپنی جیپ کی طرف بڑھ گیا۔
                    ارشد عجلت میں یونیورسٹی سے نکلا،مگر اس کی بھول تھی کہ پولیس کو چکمہ دینے میں کامیاب ہو جائے گا۔ یونیورسٹی سے فرلانگ بھر دور ہی انسپکٹر راحیل نے اسے روک لیاتھا۔
                    ”جی انسپکٹر صاحب !“اس نے باوقار انداز میں کار کا شیشہ نیچے کرتے ہوئے پوچھا۔
                    ”آپ کو ہمارے ساتھ تھانے چلنا ہو گا۔“
                    ”خیر تو ہے۔“اس کا پر اعتماد انداز برقرار رہا۔
                    انسپکٹر راحیل اس کے ساتھ ہی کار میں بیٹھ گیا۔ ”پولیس کی جیپ کے پیچھے پیچھے چلتے رہو۔“
                    ” مک مکا بھی ہو سکتا ہے۔“اس نے کار آگے بڑھانے کی کوشش نہیں کی تھی۔
                    ” شاید بے عزت ہو کر جانے کا ارادہ ہے۔“انسپکٹر کا لہجہ ایسا نہیں تھا کہ اسے انکار کی ہمت ہوتی۔ کار پولیس جیپ کے پیچھے بڑھا تے ہوئے اس نے اپنا تعارف کرانا مناسب سمجھا۔
                    ”انسپکٹر صاحب !میں ملک طاہر جواد کا بیٹا ہوں اور ........“
                    مگر بات مکمل ہونے سے پہلے انسپکٹر راحیل کا ہاتھ اس کی گردن پر پڑا۔
                    ”دوبارہ آواز نکالی تو کارسے باندھ کرگھسیٹتا ہوا تھانے لے جاﺅں گا۔“
                    ارشد نے چپ سادھ لی تھی۔
                    تھانے کے احاطے میں جیپ روک کر سپاہی کار کے قریب آگئے تھے۔ ارشد کو وہاں اسوہ کی کارنظر آئی۔وہ ان سے پہلے وہاں پہنچ چکی تھی۔انسپکٹر نے سپاہیوں کو اشارہ کیا اور وہ ارشد کو بے دردی سے دھکیلتے ہوئے تھانے میں داخل ہوئے۔
                    ” حوالات میں بند کر کے اس کی خاطر مدارت کرو۔“سپاہیوں کوہدایت دے کر وہ دفتر کی جانب بڑھ گیا۔ اسوہ منتظر بیٹھی تھی۔
                    ”مادام !آپ نے کیوں زحمت کی۔“وہ نشست سنبھالتے ہوئے خوشامدانہ لہجے میں بولا۔
                    ”انسپکٹر صاحب ! اس کی خاطر مدارت میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔باقی،پاپا کے علاوہ میری طرف سے بھی خصوصی انعام ملے گا۔“
                    ”آپ کی خوش نودی ہی میرے لیے انعام ہے۔اوربے فکر رہیں اس کی طبیعت تو وہ صاف کریں گے کہ اس کی آنے والی نسلیں بھی شریف لڑکیوں کو چھیڑنے کی جرا¿ت نہیں کریں گی۔
                    ”اسے کچھ کہنا ہے۔“اسوہ کھڑی ہو گئی۔
                    ”آئیں مادام !“ وہ اسوہ کے ساتھ ہو لیا۔
                    سپاہیوں نے ٹھڈے،تھپڑمار مار کر ارشد کا حلیہ بگاڑ دیا تھا۔
                    ”کیا کر رہے ہو بھائی !جانتے نہیں ارشد صاحب کتنے بڑے باپ کے بیٹے ہیں۔“
                    ”محترمہ یاد رکھنا میں زیادہ دیر یہاں نہیں رکوں گا۔اورباقی گپ شپ یونیورسٹی میں ہوگی۔“ارشد نفرت انگیز لہجے میں بولا۔
                    ”سن لیا انسپکٹر صاحب !“اسوہ، انسپکٹر راحیل کی طرف متوجہ ہوئی۔
                    ”مادام !بس آج کی رات انتظار کر لیں۔صبح اس کے منہ سے گڑگڑانے کے علاوہ کچھ سن لیں تو میں گدھے کے پیشاب سے اپنی مونچھیں کٹوا لوں گا۔ “
                    ” لاوارث نہیں ہوں انسپکٹر صاحب۔“وہ انسپکٹر کوبھی دھمکی دینے سے باز نہیں آیا تھا۔
                    ”تم لوگوں نے ہاتھ کیوں روک لیے؟“ انسپکٹر راحیل سپاہیوں پر برس پڑا۔انسپکٹر کی جھاڑ سنتے ہی وہ چیلوں کی طرح ارشد پر جھپٹے۔
                    اسوہ جلدی سے بولی۔”ایک منٹ۔“تمام بیٹی ختم ہونے والے کھلونوںکی طرح ساکت ہو گئے تھے۔
                    ”انسپکٹر صاحب!اس کی عزت افزائی رات کو کرنا۔ابھی موبائل فون اس کے حوالے کردو تاکہ بے چارے کے دل میں کوئی حسرت باقی نہ رہ جائے۔“
                    ”ٹھیک ہے مادام!“انسپکٹر راحیل نے سعادت مندی سر جھکایا۔
                    ”اور آپ کو جس کا فون بھی موصول ہو، بحث و تکرار کے بجائے پاپا جان کو مطلع کرنے پر اکتفا کرنا۔“
                    ”جیسا آپ کہیں مادام!“ انسپکٹر راحیل نے ماتحتوں کے انداز میں سر ہلادیاتھا۔
                    ”مسٹر ارشد ! تمھارے پاس شام تک کا وقت ہے،اگر خود کو رہا کرا سکتے ہو تو صبح یونیورسٹی میںملاقات ہو گی۔ ورنہ کل یہیں تمھاری بے بسی کا تماشا دیکھنے آﺅں گی۔“اطمینان بھرے انداز میںکہتے ہوئے وہ تھانے سے نکل آئی۔
                    ٭٭٭
                    پہلے ماہ عمار کو خسارہ ہوا۔کارکنوںکی اجرت اسے پلے سے دینا پڑ گئی تھی۔ وہ ہمت ہارے بغیر جتا رہا۔آہستہ آہستہ دھندہ خسارے سے برابری کی سطح پر پہنچا اور پھر منافع کی شاہ راہ پر گامزن ہو گیا۔چھے ماہ کے اختتام پر حساب کیا تو وہ دولاکھ کے بہ قدر منافع کما چکا تھا۔اس دوران اسے مزید تجربہ حاصل ہو گیا تھا۔ سبزی منڈی میں اس کے کئی دوست بھی بن گئے تھے،جو برس ہا برس سے اسی پیشے سے منسلک تھے۔ان سے تبادلہ خیال کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ منافع کو زیادہ سے زیادہ چند لاکھ تک مزید بڑھا سکتا تھا۔گویا سخت محنت کے بعد وہ ماہانہ ایک لاکھ یا اس سے کچھ کم وبیش منافع کما سکتا تھا۔اور یہ اس کی منزل نہیں تھی۔ اسے دولت مند بننا تھا۔ اتنا کہ اسلم شکورخان کی امارت بھی اس کے سامنے ہیچ ہو۔اتنا کہ اسوہ اس سے نظریں نہ ملا سکے۔ اور یہ دولت مندی موجودہ کاروبارسے ممکن نہیں تھی۔مجبوراََ اسے علاحدگی اختیار کرناپڑی۔
                    اگلے دن وہ اپنے والد کووضاحت دے رہا تھا۔
                    ” چھے ماہ میں دو لاکھ کمانے کا مطلب ہے ماہانہ تیس سے پینتیس ہزار کمانا، یہ منافع زیادہ سے زیادہ لاکھ روپے ماہانہ تک چلا جائے گا۔ اوریہ میری منزل نہیں ہے۔“
                    ”تو ....؟“بشیر احمد نے سادگی سے پوچھا۔
                    وہ اطمینان سے بولا”کوئی دوسرا کاروبار کروں گا۔“
                    بشیر احمد نے منہ بنایا۔”مہربانی کہ تم نے اتنا بتانا تو گوارا کر لیا۔“
                    ” بے کار نہیں بیٹھ رہادوسراکاروبار ڈھونڈ لیا ہے۔“
                    ”مجھے سن کر اچھا لگے گا۔“
                    ” میرے پاس ستائیس لاکھ روپے موجودہیں۔اگر بیس رکشے خرید کر کرایہ پر دے دوں۔جبکہ ایک رکشے کا ماہانہ کرایہ آٹھ ہزار روپے ملتا ہے۔تو ایک لاکھ ساٹھ ہزار ماہانہ کما سکتا ہوں۔اورہر ماہ ایک رکشا خرید کر اس تعداد میں اضافہ کرتا جاﺅں تو امید ہے جلد ہی ایک بڑی بس خریدنے کے قابل ہو جاﺅں گا۔ پھر آہستہ آہستہ ٹرانسپورٹ کمپنی قائم کر لوں گا۔“
                    بشیر احمد نے نفی میں سر ہلایا۔” کئی قباحتیں ہیں۔“
                    ”مثلاََ....؟“عمار نے اشتیاق ظاہر کیا۔
                    ”ضروری نہیں تمھارے سارے رکشے کرایا پر لگ جائیں۔دوسرا بھتا مافیاکے مطالبات بھی پورے کرنے پڑیں گے۔ڈرائیوروں سے رکشے کا ماہانہ کرایاوصول کرنا بھی اتنا آسان نہ ہو گا۔ اس کے لیے تمھیں تنخواہ پر آدمی رکھنے کی ضرورت ہوگی۔رکشا ڈرائیورزکے ہزارہا مسائل بھی واسطہ پڑے گا۔ ہر ماہ دو میں کوئی نہ کوئی رکشا بھی خراب ہو گا جس کی مرمت وغیرہ مالک ہی کو کرانا پڑتی ہے۔اس کاروبار میں بھی فقط اتنی ہی بچت ہو گی کہ اچھا کھا پی سکو۔مالدار بننے کی تمنا حسرت ہی بنی رہے گی۔“
                    ”بچے کا دل ہی توڑ دیا۔“عمار نے منہ بنایا۔
                    ”یہ وہی بچہ ہے نا،جس نے ماں باپ کو بے گھر کیا ہے۔“
                    عمار موضوع کی طرح پلٹا۔” اگر رکشے نہ خریدوں تو پھر کون سا کاروبار شرع کروں۔“
                    ”خود بھگتو برخوردار !مجھے معاف رکھو۔“
                    ” پراپرٹی ڈیلر بننے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں اور اس میں منافع بھی کافی زیادہ ہے۔“
                    ”پراپرٹی کی خرید اری میں سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔“
                    وہ جلدی سے بولا۔” چھوٹے پیمانے پر شروع کروں گا۔“
                    ”تمھار ا گھر چھوٹا سا ہی تھا۔اوریقینا اب تم اسے دوبارہ خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔“
                    وہ زچ ہو کر بولا۔”تو پھر میں کیا کروں؟“
                    بشیر احمد اطمینان سے بولا۔”تعلیم مکمل کرواوراچھی سی نوکری تلاش کر کے سکون کرو۔“
                    عمار ہنسا۔”میں نے کاروبار سو چا ہوا ہے۔“
                    ”مثلاََ....“بشیر احمد نے جاننے میں دل چسپی ظاہر کی۔
                    ”نہیں بتاتا،آپ نے تو قسم کھائی ہوئی ہے میرا دل توڑنے کی۔“اس نے انکار میں سر ہلادیا۔
                    ”ٹوٹی ہوئی چیز کا کیا توڑنا،یہ مجھ سے بہت پہلے اسوہ بی بی کر چکی ہے۔“قہقہ لگاتے ہوئے بشیر احمد اٹھ گیاکہ اسے دفتر سے دیر ہو رہی تھی۔ مگر اس کے مذاق نے عمار کے دل میںاسوہ کو دیکھنے کی شدید تمناجگا دی۔ دشمن جاں دل و دماغ پر پہلے ہی کی طرح سوار تھی۔ کاروبار کے نت نئے منصوبے بناتے ہوئے اس کی یاد ہلکی سی چٹکی لیتی اور وہ سب کچھ بھلا کر اس کی یادوں میں کھو جاتا۔گواسوہ کی یادیں فقط تلخیوں،نفرتوںاور حقارتوں ہی کی صورت میں موجود تھیں مگر یہ ا بھی اس کے لیے سرمایہ حیات تھا۔کسی مفکر کا قول ہے کہ انسان محبت کو بھلا نہیں سکتا بس بھلانے کی اداکاری کر سکتا ہے۔اوروہ تو اداکاری بھی نہیں کر سکتا تھا تبھی تو اسے راہ فرار اختیار کرنا پڑی تھی۔
                    وہ آرام کادن تھا،مگر اس نے آرام کرنے کے بجائے یونیورسٹی جانے کا ارادہ کر لیا۔ یونیورسٹی پہنچنے کے لیے مناسب چھٹی کا وقت تھا جب وہ کلاس روم سے نکل کر پارکنگ کا رخ کرتی تھی۔
                    کبھی کبھار اسوہ ایک ادھ پیریڈ پہلے چھٹی کر لیتی تھی،یہ حساب ذہن میں رکھ کر یونیورسٹی پہنچا تھا۔ اگر وہ آخری پیریڈ میں حاضری کے بغیر ہی چھٹی کرلیتی تب بھی وہ اس کے دیدار سے پیاسی نگاہیں سیراب کر لیتا۔شناخت چھپانے کے لیے چہرے کے گرد اس نے مفلر لپیٹاہوا تھا۔
                    پارکنگ میں گھستے ہی اس کی نگاہیں کسی ایسے مقام کی متلاشی ہوئیں جہاں وہ چھپ کر اسے دیکھ سکتا۔مگر اس سے پہلے ہی اسوہ پارکنگ میں داخل ہوتی دکھائی دی۔کالے کپڑے اپنے خوش قسمتی پر پھولے نہیں سما رہے تھے۔اسے پہلی مرتبہ دیکھنے کے بعد ہی عمار کا حوروں کے وجود پریقین،عین الیقین کے درجہ کو پہنچا تھا۔ وہ آج بھی ہمیشہ کی طرح پرکشش،حسین اور پیاری لگ رہی تھی۔ شانوں پر بکھرے کالے سیاہ بال دیکھ کر اس کے دل میں بے ساختہ کسی دل جلے کا شعر گونجا ....
                    سر سے گرتی ہیں تو شانوں پہ بکھر جاتی ہیں
                    تم نے زلفوں کو بڑا سر پہ چڑھا رکھا ہے
                    پارکنگ میں داخل ہوتے ہی اگر وہ موبائل فون کی طرف متوجہ نہ ہوتی توعمار کو دیکھ لیتی۔عمار جلدی سے ایک موٹر سائیکل کے ساتھ بیٹھ گیا۔اگر اس وقت موٹر سائیکل کا مالک وہاں آجاتا تواس کی شامت آ جاتی۔مگر اسوہ کو قریب سے دیکھنے اور اس کی آواز سننے کی خواہش نے اس کے ذہن سے ہر اندیشہ محو کر دیا تھا۔
                    ”پاپا!....ایک خبیث لڑکے نے بد تمیزی کی ہے۔میری کلائی کو پکڑ کر مروڑا ہے اور........“ وہ اپنی کار کے ساتھ رک کر والد کو تفصیل بتانے لگی۔ چند گز کے فاصلے پر موٹر سائیکل سے چھیڑ خانی کرتا عمار اس کی ساری گفتگو سنتا رہا۔ اسے ارشد پر شدیدغصہ آ رہا تھا جس نے اسوہ کی نازک کلائی کو پکڑ کر مروڑ ا تھا۔
                    گفتگوکے اختتام پروہ کار میں بیٹھ کرموبائل فون سے کھیلنے لگی۔یقینا اس نے انسپکٹر کی آمد تک وہیں رکنا تھا۔ عمار اس پر آخری نگاہ ڈال کر چل پڑا۔مزید رکنے پروہ پہچانا بھی جا سکتا تھا۔اگر اسوہ اسے دیکھ لیتی تو شاید ارشد کے ساتھ اسے بھی حوالات کی سیر کرنا پڑتی۔ وہ بالکل نہیں بدلی تھی۔وہی تیور،وہی مزاج،وہی غصہ۔اور اتنی ہی پیاری جتنا کہ اسے پہلی نگاہ میں لگی تھی۔
                    ٭٭٭
                    ” تمھیں جرا¿ت کیسے ہوئی میرے بیٹے کو گرفتار کرنے کی۔“ ارشد کے باپ ملک طاہر جوادنے تھانے میں داخل ہوتے ہی ہنگامہ کر دیا تھا۔
                    انسپکٹر راحیل اطمینان سے بیٹھا اس کا واویلا سنتا رہا۔
                    ”تم جانتے نہیں میں کون ہوں .... ایک کال پر تمھاری پیٹی اتروا سکتا ہوں۔ اگر عزت مطلوب ہے تو فی الفور میرے بیٹے کو رہا کرو۔“
                    انسپکٹر راحیل نے ایک سپاہی کوآواز دی۔”وقاص!ایک چاے ہی پلا دو،سر میں سخت درد ہو رہا ہے۔“ارشد کے والد کو اس نے بالکل نظر انداز کر دیا تھا۔
                    ”میرا نام ملک طاہرجواد ہے۔اور تم نے میرے بے قصوربیٹے کو حوالات میں بند کر رکھا ہے۔ میں....میں ....میں تم پر مقدمہ کر دوں گا۔“طاہر جواد سخت غصے میں تھا۔
                    انسپکٹر راحیل اطمینان بھرے لہجے میں بولا۔”دیر کیوں کر رہے ہو؟“
                    ” انسپکٹر صاحب !یہ کوئی مناسب طریقہ نہیں۔“اس کے اطمینان بھرے انداز نے ملک طاہر کو سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔
                    ” آپ کے بیٹے سے جرم سر زد ہوا ہے اور سزابہ ہرحا ل بھگتنا پڑے گی۔“
                    ” کلاس فیلو لڑکی کے ساتھ ہنسی مذاق کرنا کون سا جرم ہے؟“
                    ”یہ طے کرنا جج کاکام ہے،پولیس مقدمہ درج کر کے ملزم کو پکڑتی ہے اورپوچھ گچھ کر کے عدالت میں پیش کر دیتی ہے۔“
                    طاہر جواد نے منہ بنایا۔”انسپکٹر صاحب!جرمانہ فیس بتائیں اورباقی کہانیاں رہنے دیں۔“
                    انسپکٹر راحیل رکھائی سے بولا۔”ایسا سوچنا بھی مت۔“
                    ”تو مفت رہا کرنے کا ارادہ ہے۔“
                    ”ایسا کوئی ارادہ ہی نہیں ہے۔“
                    ” ایس پی صاحب سے بات کرنا پڑے گی۔“طاہر جواد کا انداز دھمکی دینے والا تھا۔
                    ”اب تک کر لینا چاہیے تھی۔“انسپکٹر راحیل کے اطمینان میں فرق نہیں آیا تھا۔ سرائیکی کہاوت ہے کہ ”کٹّہ(بھینس کا بچہ) کھونٹے کے زور پر کودتا ہے۔“اور انسپکٹر راحیل کاکھونٹابہت مضبوط تھا۔
                    طاہرجواداسے کڑی نظروں سے گھورتے ہوئے ایس پی کو گھنٹی کرنے لگا۔رابطہ ہوتے ہی وہ بغیرتعارف کرائے شروع ہوگیا۔یقینا ایس پی کے ساتھ وہ پہلی مرتبہ بات نہیں کر رہا تھا۔
                    ”السلام علیکم ایس پی صاحب !کیسی طبیعت ہے ؟“
                    ”ایک چھوٹا سا مسئلہ درپیش ہے ....“
                    انسپکٹر راحیل اس کی یک طرفہ گفتگو سنتا رہا۔ تفصیل بتانے کے بعد اس نے موبائل فون انسپکٹر راحیل کی جانب بڑھادیا۔
                    وہ مودّبانہ لہجے میں بولا۔”جی سر !انسپکٹر راحیل عرض کر رہا ہوں۔“
                    ”راحیل صاحب !ملک طاہر میرے بہت اچھے دوست ہیں،امید ہے آپ ان کا خیال رکھیں گے۔“
                    ” آپ کا حکم سر آنکھوں پر،میں ملک صاحب کو کال کرنے کی زحمت ہی نہ دیتا،مگر اس کے بیٹے نے سیٹھ اسلم شکورخان کی بیٹی کو چھیڑا ہے۔اور سیٹھ صاحب سے تو آپ واقف ہوں گے۔“
                    ”اوہ !....“ایس پی کی پرتحیر آواز ابھری۔” شکریہ راحیل صاحب۔ آپ جانیں اور آپ کا کام۔“
                    ”یہ لیں ملک صاحب!“اس نے موبائل فون واپس بڑھایا۔ ”اب آپ ڈی آئی جی یابراہ راست آئی جی صاحب کوگھنٹی کریں۔“
                    انسپکٹر راحیل کے مزاحیہ اندازنے ملک طاہرجواد کوسر تاپا سلگادیا تھا۔اس کے چہرے پر خفت و پریشانی دیکھ کر انسپکٹر راحیل نے ہمدردانہ انداز میں مشورہ دیا۔”ملک صاحب !دائیں بائیں ٹامک ٹوئیاں مارنے سے بہتر ہے کہ آپ سیٹھ اسلم شکورکے پاس چلے جائیں۔ کیا بھلی سی کہاوت ہے لاٹھی اور بھینس والی۔چونکہ لاٹھی اسلم شکورصاحب کے ہاتھ میں ہے۔اس لیے پولیس کے کسی عہدہ دار نے آپ کی بات نہیں سننا۔“
                    ” کیا ضمانت ہے کہ میرے جانے کے بعد آپ تفتیش کے نام پر میرے بیٹے کو زدوکوب نہیں کریں گے۔“
                    ”تفتیش میں توآپ کی موجودی بھی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گی ملک صاحب!“
                    ”میں آپ کو منہ مانگی رقم ادا کر سکتا ہوں۔“
                    ”آپ دیر کر رہے ہیں۔ہو سکتا ہے سیٹھ اسلم شکور آپ کی بات مان جائے۔اور میری آپ سے ذاتی دشمنی تونہیں ہے۔“
                    وہ مستفسر ہوا۔” آپ اس کے گھر کا پتا بتا سکتے ہیں ؟“
                    ”کیوں نہیں۔“انسپکٹر راحیل نے اسلم شکورکی کوٹھی کاپتابتا دیا۔
                    ٭٭٭
                    چوکیدارنے موّدبانہ لہجے میں پوچھا۔”کیا آپ کی ملاقات پہلے سے طے ہے ؟“
                    ”نہیں،لیکن آپ خان صاحب کو بتا دیںپراپرٹی ڈیلر ملک طاہرجواد آیا ہے۔“
                    چوکیدار انٹر کام کا رسیوراٹھاکر پوچھننے لگا۔اجازت ملتے ہی اس نے ملک طاہر جوادکی کار کی سرسری تلاشی لے کر دروازہ کھول دیا۔
                    طاہر جوادنے سرخ بجری کی چوڑی روش پر کار آگے بڑھا دی۔ اختتام پر گیراج بنا تھا جس میں چند قیمتی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ کارروک کر وہ نیچے اترا۔ایک معزز جوان نے آگے بڑھ کر مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھادیا۔
                    ”السلام علیکم !میرا نام احتشام ہے اور میںسیٹھ صاحب کا پرسنل سیکرٹری ہوں۔“
                    ”وعلیکم اسلام !میں ملک طاہر جواد۔“مصافحہ کرتے ہوئے اس نے جوابی تعارف کرایا۔
                    ”سر !آپ کی آمد کی غرض و غایت جان سکتا ہوں ؟“
                    وہ مختصراََ بولا۔”ذاتی کام ہے۔“
                    ”آئیں سر !“احتشام نے زیادہ تفتیش کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔
                    اس کی رہنمائی میں وہ پر تعیش ڈرائینگ روم میں پہنچا۔اسے تشریف رکھنے کا کہہ کر احتشام، سیٹھ اسلم شکورخان کو اطلاع دینے چلا گیا۔
                    چند منٹ بعد ایک ملازم چاے اور لوازمات سے بھری ٹرالی کے ساتھ نمودار ہوا۔اس کے سامنے میز پر لوازمات سجا کر اس نے موّدبانہ لہجے میں پوچھا۔”سر چینی کتنی ڈالوں ؟“
                    ”ایک چمچ۔“
                    چاے بنا کر اس نے ملک طاہر کے سامنے رکھی اورواپس لوٹ گیا۔
                    وہ بہ مشکل چاے کی پیالی ختم کر سکا تھا کہ سیٹھ اسلم شکورخان موسم کی مناسبت سے ہلکا پھلکا لباس پہنے نمودار ہوا۔ ملک طاہر نے اسے پہلی بار دیکھا تھا مگر اس کی پر رعب شخصیت نے بغیر کسی شبے کے اپنی پہچان کرا دی تھی۔وہ احتراماََ کھڑاہو گیا۔
                    ”بیٹھو۔“ مصافحہ کر کے اسلم شکورنے نشست سنبھال لی تھی۔
                    ”شکریہ سر !“کہہ کر وہ بیٹھ گیا۔
                    ”خان صاحب !میں ارشد کا والد ہوں۔“
                    ”ارشد؟“اسلم شکورکے لہجے میں حیرانی تھی۔
                    ” وہ آپ کی بیٹی کا کلاس فیلو ہے۔“
                    ” یہ وہ لڑکاتو نہیں جس نے بے بی سے بد تمیزی کی ہے۔“اسلم شکورخان تیکھے لہجے میں مستفسر ہو ا تھا۔
                    ”جناب! چھوٹے موٹے جھگڑے تو نوجوانوں کی روزمرہ ہوتی ہے۔“
                    ”میں کسی لڑکی کوبھی اپنی بیٹی کے ساتھ بد تمیزی کی اجازت نہیں دے سکتاکجا کوئی بے ہودہ لڑکاایسی کوشش کرے۔“
                    ”سر میرا بیٹا ایسا نہیں ہے،شاید بے بی نے غصے میں آکر آپ کو شکایت کی ہو گی۔“
                    ”غصہ کسی وجہ ہی سے آتا ہے۔“
                    ”خان صاحب!....نوجوانوں کو غصہ بھی ذرا سی بات پر آتا ہے اور پھر راضی بھی جلد ہو جاتے ہیں۔اس طرح کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہمیں تھانے کچہری کا رخ نہیں کرنا چاہیے۔“
                    ”تمھارے نزدیک یہ چھوٹی بات ہو گی۔اوریقینا تمھاری آمد کی وجہ یہی چھوٹی سی بات تھی۔ اور اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہمیں وقت ضایع نہیں کرنا چاہیے۔“ سیٹھ اسلم شکورخان کھڑا ہو گیا۔
                    ملک طاہر گھبرا کر بولا۔”سر !آپ میری بات تو سنیں۔“
                    ”اگر مزید چاے پینا ہو تو ملازم کو کہہ دینا۔“اس کی درخواست ان سنا کر کے وہ چل دیا۔
                    ”خان صاحب!بات تو سنیں۔“ طاہر جوادنے اسے روکنے کی کوشش کی مگروہ ڈرائینگ روم سے نکل گیا۔
                    وہ سر پکڑے وہیں بیٹھ گیا تھا۔اسلم شکورپر اسے سخت غصہ آ رہا تھا مگر وہ مجبور تھا۔اوراس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا تھا۔
                    اسلم شکورکا سیکرٹری احتشام اندرآیا۔
                    ملک طاہر نے جلدی سے کہا۔”میں خان صاحب سے دوبارہ ملناچاہتا ہوں۔“
                    ”معذرت جناب اب یہ ممکن نہیں ہے۔“
                    ”کیوں ؟“
                    ”کیوںکہ یہاں حکم صرف خان صاحب کا چلتا ہے اور انھوں نے آپ سے ملنے سے منع فرما دیاہے۔“
                    ملک طاہر ہونٹ بھینچتے ہوئے نکل آیا۔ اس کی کار کا رخ تھانے کی جانب تھا۔
                    ٭٭٭
                    طاہر جواد بھرپور کوشش کے باوجود بیٹے کو رہا کرانے میں ناکام رہا تھا۔انسپکٹر راحیل کا دل نہ تو اس کی منتوں پر پسیجا تھا اور نہ اس کی دھمکیوں سے خوف زدہ ہوا تھا۔ مجبوراََ اسے اپنے بیٹے کو پولیس والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر لوٹناپڑا۔کہیں بھی اس کی شنوائی نہیں ہورہی تھی۔ سیٹھ اسلم شکورخان جیسے مگر مچھ کے سامنے اس کے تعلقات، سفارشیں اور دولت دھری کی دھری رہ گئی تھی۔
                    رات گئے ارشد کو حوالات سے تفتیش کے کمرے میں لایا گیا۔وہ ارشد کی زندگی کی طویل اور بھیانک ترین رات تھی۔ پولیس والے جانے کس جرم کا حساب لے رہے تھے۔کئی مرتبہ بے ہوش ہوا، مگر وہ پانی ڈال کر پھر جگا لیتے۔اس کی ساری اکڑفوں، شیخیاں اور بڑھکیں؛چیخوں،کراہوں اور آہوں میں بدل گئی تھیں۔رات کے دو بجے انسپکٹر راحیل عقوبت خانے میں داخل ہوا۔ اس کے اشارے پر ارشد کو زدوکوب کرتے سپاہیوں کے ہاتھ چابی کے کھلونے کی طرح ساکت ہو گئے تھے۔
                    ”ملک صاحب !یقینا اب تمھیں پتا چل گیا ہو گا کہ مادام اسوہ سے کس طرح گفتگو کرنا ہے۔“ وہ بولنے کے قابل نہیں تھا مگر سپاہیوں کے وحشیانہ تشدد سے بچنے کے لیے بہ دقت تمام بولا۔
                    ” معاف کر دو انسپکٹر صاحب!میرے باپ دادا کی توبہ،اگر آپ کی مرضی کے خلاف ایک لفظ بھی بولوں تو گردن اتار دینا۔“
                    ”شاباش۔“انسپکٹر راحیل چہکا۔”مطلب تمھیں آرام دینا پڑے گا۔“
                    وہ یتیمانہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
                    ”معذرت خواہ ہوں ملک صاحب !مگرمادام کا حکم تھا کہ پوری رات تمھاری سیوا کی جائے۔“ وہ جلادوں کی طرف متوجہ ہوا۔” کام جاری رکھو دوستو۔“
                    ”خدا کے واسطے انسپکٹر صاحب!اگر مس اسوہ کو ذرا بھی شکایت کا موقع دیا تو کل رات جو چاہے سزا دے لینا،مگر اب مہربانی کریں،رحم کریں مجھ میں مزید برداشت نہیں ہے۔“
                    ”کل کی کل دیکھی جائے گی۔“بے پروائی سے کہتے ہوئے انسپکٹر راحیل باہر نکل گیا۔ جلادوں نے دل پسند مشغلہ شروع کر دیا۔عقوبت خانہ ارشد کی چیخوں سے گونج اٹھاتھا۔
                    ٭٭٭
                    کھانے کی میزپر والد نے اسے طاہر جواد کی آمد اور اپنے جواب کے بارے خبر دی۔
                    ”اچھا کیا پاپا!دوتین دن تھانے میں گزارے گا تو اس کی سمجھ میں لڑکیوں کے ساتھ گفتگو کرناآجائے گا۔“
                    سیٹھ اسلم شکور ہنسا۔”مہینا بھرتو ہونا چاہیے۔“
                    وہ لاڈ سے بولی۔” دو تین دن کافی ہیں پاپا۔“
                    اس کی ماں نے پوچھا۔”کیا ہوا ؟“
                    ”کچھ نہیں مما!“
                    اس کی ماں نسرین درشتی سے بولی۔”اسوہ !تم روز بہ روز بگڑتی جا رہی ہو۔“
                    اس نے منہ بنایا۔”مما !آپ ہر وقت ڈانتے رہنا۔“
                    ”تم ایسی حرکتیں نہ کرو۔“
                    ”بیگم !میری گڑیا کو ڈانٹا تو نہ کرو۔“اسلم شکور فوراََ اپنی بیٹی کی طرف داری کرنے لگا۔
                    ”معلوم ہے اسے بگاڑنے میں آپ نے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔“نسرین شوہر پر برس پڑی۔
                    وہ فلسفیانہ لہجے میں بولا۔”لڑائی جھگڑا بچوں کی سرشت میں داخل ہے بیگم!“
                    نسرین سر پکڑتے ہوئے بولی۔”غضب خدا کا یہ بچی ہے۔کب سے پیٹ رہی ہوں جتنا جلدی ہو سکے اس کی شادی کردو اتنے اچھے اچھے رشتے آ رہے ہیں۔تعلیم کا کیا ہے شادی کے بعد بھی جاری رکھ سکتی ہے۔“
                    ”پاپا مجھے اجازت دیں۔“وہ فوراََ کھڑی ہو گئی کیونکہ اس کا ناپسندیدہ موضوع شروع ہو گیا تھا۔ اپنی شادی کی بات تو اسے عمار سے محبت ہونے سے پہلے بھی بری لگتی تھی۔ اب تویہ سن کر اس کا سانس رکنے لگا تھا۔گونسرین شادی کی بات تب ہی چھیڑتی جب اس کا کسی سے لڑائی جھگڑا ہوتاتھا۔اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اس بارے والد کی رائے بالکل مختلف تھی۔مگر اس کے باوجودشادی کی بات سنتے ہی بھاگ کھڑی ہوتی۔ماں کو بھی اس کی کمزوری اچھی طرح معلوم تھی۔اور اس کی بولتی بند کرنے کے لیے وہ فوراََ یہ موضوع چھیڑ دیتی۔ نتیجہ ہمیشہ حسب توقع نکلتا۔
                    بستر پر لیٹتے ہی عمار دھم سے اس کی آنکھوں میں آ بسا تھا۔ ساتھ ہی دن کا واقعہ یاد آیا۔
                    لڑکے کی چال ڈھال اور جسامت بالکل عمار جیسی تھی۔مگراس کی یونیورسٹی پارکنگ میں آمدغیر یقینی تھی۔ وہ تواس کی شکل دیکھنے کا بھی روادار نہیں تھاپھر اس کی خاطر وہاں کیسے آسکتا تھا۔
                    دماغ کی الجھن مٹانے کے لیے پاگل دل فوراََ میدان میں آگیاتھا۔”کیوں کہ خفگی کے باوجود اس کے دل میں میری محبت موجود ہے۔“
                    ”جسے میری وجہ سے اپنی پڑھائی درمیان میں چھوڑ کرجانا پڑا،جس نے دوستوں سے میری وجہ سے ہمیشہ کے لیے قطع تعلق کر لیا،جو میرے کلاس روم کے سامنے کھڑے ہونے پر ایک بار بھی نظریں اٹھانے کی زحمت نہ کرے،اس کے بارے میر ا یہ گمان لطیفہ ہی تو ہے۔“دماغ،دل کو کھری کھری سنانے لگا۔
                    دل اسے اسماءاور مدثر کی تسلیاں یاد دلاکر بہلانے لگا۔گو وہ مانتے تھے کہ عمار کے یونیورسٹی چھوڑ کر جانے کی اصل وجہ اسوہ تھی۔ لیکن وہ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھے کہ عمار اس سے نفرت کرنے لگ گیا تھا۔بلکہ اس کی رخصتی کو بھی وہ عمار کی محبت سمجھتے تھے جس نے محبوب کی خواہش پر سرِ تسلیم خم کیا تھا۔
                    وہ سوچتی رہی،مختلف خیالات دل و دماغ میں سرگرداں رہے۔وہ اپنے دل کی حالت پرسخت حیران تھی،کہاں عمار سے اتنی نفرت کہ اس کا دیکھنا بھی اسے برا لگتا تھااوراب ایسی محبت اس کے بغیر سانس لینا بھی دشوار لگتا تھا۔
                    دل نے ایک خوشگوار یاد کی طرف رہنمائی کی۔” اس نے یہ بھی تو کہا تھا میرے علاوہ کسی سے شادی نہیں گا۔“

                    دماغ نے حقیقت سے پردہ اٹھایا۔”یہ تب ممکن تھاکہ میں نے اسے امید دلائی ہوتی۔اب تو وہ میری نفرت کی انتہا دیکھ کر رخصت ہوا ہے۔“
                    اسے عمار کی آخری نگاہ یاد آئی۔اگر وہ اسے روک کر معذرت کر لیتی تو یقیناوہ یونیورسٹی چھوڑ کر نہ جاتا۔ اس کے بعد بھی وہ چند دن یونیورسٹی آتا رہا تھا اور پھر آخری دن اپنی نظم کے ذریے اسے جتا گیا تھا کہ وہ محبت سے تھک گیاہے۔اور جب بے بسی و ناکامی کا اعتراف کر لیا جائے تو پرانے اقوال اور دعوﺅں کی پابندی لازم نہیں رہتی۔ جب بندہ تھکنے کا اقرار کر لے تواسے مطعون نہیں کیا جاسکتا۔
                    ”اسے تھکنا ہی چاہیے تھا،میں اتنی سخت دل جو ہو گئی تھی۔ دولت کی ریل پیل نے میرے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کر دیا تھا۔اتنا کہ مجھے کسی کی پر خلوص چاہت بھی سجھائی نہ دی۔ یہ بھی معلوم نہ ہوا کہ میرے دل میں اس کی محبت پوشیدہ ہے۔“وہ خود کو کوستی رہی،دوش دیتی رہی، ماضی پر پچھتاتی رہی، مگر اب چڑیاں کھیت چگ کر جا چکی تھیں۔اور کف ِ افسوس ملنے سے کچھ ہاتھ نہیں آنے والا تھا۔
                    آخر نیند کی مہربان دیوی کو اس پر ترس آگیا لیکن دماغ کے میں سرگرداں الٹے سیدھے خیالوں نے خواب کی شکل دھار کر اسے بے چین کیے رکھا۔اگلے دن سویرے ہی اس کی آنکھ کھل گئی تھی۔ناشتا کر کے اس نے تھانے کا رخ کیا۔
                    جاری ہے

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X