Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

ڈرامہ ختم

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • ڈرامہ ختم



    زندگی عجیب ہے اور دنیا گول ہے' اسے پتا تھا زندگی عجیب ہے مگر اسے ابھی پتا چلا کہ دنیا گول ہے' جب وہ دفتر سے نکل کر گاڑی میں بیٹھی تب بھی سب وہی تھا جب وہ گاڑی سے اتر کر مال گئی تب بھی سب ٹھیک تھا۔ مگر واپس آتے ہوئے راستے میں جب بارش ہو رہی تھی اور جب وہ فٹ پاتھ پہ چھتری لیے کھڑا تھا۔ تب اسے لگا جیسے دنیا گھوم رہی ہے جیسے اس کی نظر چکرا رہی ہے۔ مگر ایسا کچھ نہیں تھا۔ وہ وہی تھا' وہ اس کو دیکھ کر حیران تھا۔ شاید اس کی نگاہ میں بھی دنیا گھوم رہی ہو گی شاید وہ بھی یقین کرنے میں اسی مشکل کا شکار ہو گا۔ مگر شاید ایسا نہ تھا۔

    وہ دوڑتا ہوا اس کے پیچھے ہوٹل کا دروازہ کھول کر داخل ہوا تھا۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتی کونے والی میز پہ آ بیٹھی۔ سامنے کی طرف سے اس کی پشت تھی۔ وہ اسے دور سے دیکھتا ٹیبل تک آیا تھا اور کرسی کھینچ کربیٹھ گیا۔

    " مبینہ۔۔۔۔ مبینہ ۔۔۔۔ تم کیسی ہو؟ وہ تیز تیز چلنے کے سبب ہانپ رہا تھا۔

    " اب یہ مت کہنا کہ تم مجھے نہیں پہچان پائیں۔۔۔۔۔ یہ مت کہنا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ مبینہ تم تو ویسی کی ویسی ہو۔"

    وہ بہت ایکسائنٹڈ تھا۔ بہت پر جوش ، بہت خوش خوش سا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کیا کہے۔۔۔۔ وہ اسے دیکھتی رہی جب یقین آ گیا کہ وہ وہی طاہر تھا تو خاموشی سے بیگ میز سے اٹھایا اور گاڑی کی چابیاں مٹھی میں بند کیں ۔ سیل فون پرس میں رکھا اور بغیر ایک لفظ کہے

    کھڑی ہو گئی۔

    "مبینہ۔۔۔ پلیز رکو مجھ سے بات کرو میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ دیکھو ہم بہت عرصے بعد ملے ہیں۔ " وہ اس کے پیچھے پیچھے آ رہا تھا۔

    " پلیز مبینہ رک جاؤ۔ دو منٹ' صرف دو منٹ مبینہ؟"

    اس کے قدم اس کے ساتھ ساتھ تیز ہو رہے تھے۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے باہر آیا ہوٹل سے باہر پارکنگ تک۔

    ”مبینہ! ایک منٹ' پلیز صرف ایک منٹ۔" وہ گھوم کر آئی گاڑی میں بیٹھی۔

    اس نے پھرتی سے دروازہ کھولا اور بیٹھ گیا۔

    " اتریں گاڑی سے میں آپ کو نہیں جانتی ' آپ کون ہیں ۔ گاڑی سے اتریں ورنہ میں یہاں کسی گارڈ کو آواز دیتی ہوں۔"

    ”مبینہ تم ایسا کیوں کر رہی ہو۔۔۔۔ کیا تم میری بات بھی نہیں سنو گی ۔ پرانی دوستی کے ناتے۔ اس تعلق کے ناتے جو ہم میں کئی سال رہا ۔"

    " میں نے کہا نا کہ میں آپ کو نہیں جانتی۔ کیا آپ نے سنا نہیں یا سمجھ میں نہیں آیا۔ ایک بار پھر سن لیں۔۔۔۔ میں آپ کو نہیں جانتی۔ اب اتریں پلیز۔۔۔۔۔ ورنہ مجھے کسی کو بلانا پڑے گا۔"

    " تم وہی ہو۔۔۔۔۔ یقین نہیں آ رہا۔"

    اس نے ہاتھ بڑھا کر گاڑی کا دروازہ کھولا وہ ناچار اتر گیا۔ اس نے دروازہ بند کیا اور گاڑی اسٹارٹ کی۔
    ​وہ دور کھڑا دیکھتا رہ گیا۔ وہ دیکھتا رہا۔
    وہ کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے پلیئر آن کیا۔
    شام سے پہلے آنا۔۔۔۔۔ عالمگیر کی آواز گونجی گاڑی میں
    دھوپ ساری ڈھل رہی ہو
    پھول سارے کھل رہے ہوں
    موسم سارے لے آنا
    اس کی آنکھوں کے آگے دھند چھا رہی تھی۔
    پھر وہی دن آئے ہیں
    جانے کیا لے آئے ہیں
    جیون میرا۔۔۔۔ سارا تیرا
    جینا تو اک بہانہ ہے
    اسے بار بار آنکھیں صاف کرنا پڑی تھیں تاکہ سکرین صاف نظر آئے۔
    اک تیرے آ جانے سے
    مل رہے ہیں زمانے سے
    جیون میرا سارا تیرا
    دور اب کیا جانا
    شام سے پہلے آنا
    دھوپ ساری' اس نے ہاتھ بڑھا کر پلئیر بند کردیا۔ آنکھوں سے کتنے دنوں بعد پھر وہی سیلاب باہر آیا تھا۔
    جو یاد نہیں کرنا چاہا وہی سب یاد کیوں آنے لگا تھا۔ گاڑی سے گھر تک' گھر سے بستر تک اور رات تک وہ تیز بخار میں جل رہی تھی۔
    " کیا میری مشکلوں کا کبھی خاتمہ نہیں ہو گا ؟" بخار میں کروٹیں بدل بدل کر وہ یہ سوال کس سے پوچھو رہی تھی۔۔۔۔ خود سے یا پھر خدا سے۔۔۔۔؟
    ساری مشکلیں، سارے کڑے وقت اسے یاد تھے۔ جب وہ بارہ سال کی تھی اور اس کی ماں دو جڑواں بچوں کو جنم دے کر مرگئی تھی، اس کی موت کی اصل وجہ کیا تھی۔ اس کا ٹھیک طرح سے نہ علاج ہونا یا پھر اور کچھ ۔۔۔۔ ڈاکٹر نے کہا تھا۔ انہیں بچہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ان کو ٹھیک غذا نہ ملی۔ وہ کمزور تھیں' سوکھی چھڑی کی طرح اور جب ڈاکٹر نے کہا ۔ " بچے کو بچا سکتے ہیں یا ماں کو۔" تو اس کے باپ نے بچے کو ترجیح دی اور اس نے ماں کو کھو دیا۔
    زندگی کا سب سے بڑا حادثہ اس کے ساتھ تب پیش آیا تھا۔
    وہ اس صدمے سے شاید بہت دیر بعد نکلتی اگر وہ خاتون نہ ہوتیں جنہوں نے اس کی ماں کو بیٹی بنایا تھا ماں کے جانے کے بعد وہ عورت اس کا حوصلہ بنی رہی۔ اسے سمجھاتی رہی' حوصلہ دیتی رہی۔
    اس کے باپ نے سمجھا تھا عنقریب وہ دوسری شادی کرلے گا اور سب ٹھیک ہو جائے گا، مگر قسمت نے ساتھ نہیں دیا، دوسرا حادثہ اس کے باپ کا ٹرک ایکسیڈنٹ تھا جس میں اس کی ٹانگیں ضائع ہو گئیں۔ ماں کا جو بچا کھچا زیور تھا۔ وہ باپ کے علاج پر چلا گیا۔ اس کا باپ کچھ بہتر ہو کر گھر آ گیا تھا۔ مگر معذوری اور محتاجی نے ساری امید تو ڑ دی ۔ تب بھی وہ زندگی سے ہاری نہیں تھی۔ اتنی چھوٹی سی عمر میں اپاہج باپ کی خدمت اور دو چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال اور ساتھ میں پڑھائی جسے کسی صورت وہ چھوڑنا نہیں چاہتی تھی۔
    ابھی تو وہ صرف ساتویں میں تھی۔۔۔۔۔ ابھی تو اسے بہت پڑھنا تھا۔ بہت آگے جانا تھا اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے۔ کبھی وہ لکھ رہی ہوتی اور وہ دونوں رونا شروع ہو جاتے۔ وہ پریشان ہو جاتی۔
    " ابا! آفاق فیڈر نہیں پی رہا۔ حرا مسلسل روئے جا رہی ہے۔
    اور وہ اسے جھڑک دیتا ۔۔۔۔ اپنی بیماری کا سارا غصہ اس پر نکال دیتا۔ سارا دن بڑبڑاتا رہتا اور چھوٹے بچوں کو برابھلا کہتا رہتا جو کبھی اس کی خواہش تھی اب اس کے لیے عذاب اور بوجھ بن گئے تھے۔ پھر وہ بڑی اماں کی طرف دوڑ لگاتی۔
    " بڑی اماں! آفاق فیڈر نہیں لے رہا۔ حرا روئے جا رہی ہے۔ میں کیا کروں ؟ انہیں اس معصوم سی ماں پر رحم آ جاتا اور وہ اس کے ساتھ کچھ دیر بچوں کو سنبھال لیتیں جب تک وہ کچھ اور بنا کر آتی۔
    بڑی مشکل سے دو تین سال روتے روتے گزرے۔ اب اسے یہ تسلی تھی کہ وہ دونوں بڑے ہو رہے ہیں۔ کچھ تو وہ آسانی سے گھر کا کام کرلے گی یا پڑھ لے گی۔ بورڈ کے امتحانات اس نے کس افرا تفری میں دیے یہ صرف اسے پتا تھا۔ ابا کہتا تھا پڑھائی چھوڑ دے مگروہ کیسے چھوڑ دیتی اس کا بہت سا پڑھنا اس کی ماں کا خواب تھا۔ اگر وہ نہ پڑھتی تو اپنے بہن بھائیوں کو کیسے پڑھاتی۔
    ایک دن وہ بھی آیا۔ جب وہ دونوں آہستہ آہستہ چیزیں پکڑ کر چلنے لگے اور بات کرنے لگے۔ اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ ہوتا۔ دوڑ کر بڑی اماں کے پاس جاتی۔ ” آج آفاق نے یہ جملہ بولا۔۔۔۔ آج حرا نے یہ کہا۔۔۔۔ وہ تیز تیز دوڑتی ہے۔" وہ اسے خوش دیکھ کر خوش ہو جاتیں۔
    ابا کو کچھ بتاتی تو الٹا ییزاری دیکھنے کو ملتی۔ اسے یہی ایک فکر تھی کہ بچے بڑے ہو رہے ہیں تو ساتھ خرچے بڑھ رہے ہیں۔ گو کہ اس نے سمجھ داری کے ساتھ خرچے کا حساب رکھا ہوا تھا۔ اپنی ضرورتوں سے بچا بچا کر ان کے لیے رکھتی اور ان کی ضرورتیں پوری کرتی۔
    ایک دن وہ بھی آیا جب وہ دونوں کے ہاتھ پکڑے اسکول لے جا رہی تھی جب ان دونوں کے ہاتھ میں کتاب تھی اور اس کی خوشی کا تب بھی کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ کتابوں کی بائینڈ نگ کرتی تھی۔ بچوں کو ٹیوشن پڑھانے لگی اور ان پیسوں سے وہ ان دونوں کے لیے کہانیوں کی کتابیں ، کلر پنسلز اور کورس کی کتابیں لیتی۔ وہ ساری چیزیں جو لینے کے لیے اس کا دل کرتا تھا اور وہ لے نہ پاتی تھی۔ وہ ساری چیزیں وہ ان کے لیے لیتی تھی۔ ویسے کپڑے جو اسے نہیں ملے تھے وہ ان کو دلاتی تھی۔
    پانچویں کے بعد اس نے ان دونوں کو ایک درمیانے درجے کے پرائیویٹ اسکول میں ڈال دیا تھا اور اپنی خواہشیں تو کیا ضرورتیں بھی مار کروہ ان کا خرچا پورا کرتی تھی۔
    رات کو سوتے وقت وہ دونوں اس کے بازو پر لیٹ کر کہانی سنتے ہوئے سو جاتے تھے اور وہ دیر تک جاگتی رہتی اور اپنے ذہن میں سارے اخراجات' پیسے' ارادے اور خواب ترتیب دیتی رہتی۔ گنتی پھر الٹی ہو جاتی۔ وہ پھر سے نئے حساب کتاب میں جت جاتی۔ اسے اپنے تعلیمی اخراجات کے لیے بہت تھوڑی رقم رکھنی ہوتی باقی اضافی اپنے لیے کوئی گنجائش نہ تھی۔
    وہ تقدیر کے بنائے سیدھے راستے پر چلتی رہی۔ مگر اگے اس کے لیے مشکلات کا دور تھا۔ رنگین چکا چوند دنیا تھی ، کالج کا دور اور لڑکیوں کے
    ​​لیے حسین ترین تھا مگر اس کے لیے ایک کڑا امتحان۔
    زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز تھا جب اس کی نسبت اس کے ماموں زاد طاہر کے ساتھ طے ہوئی۔ کہنے کو اک اور نئی بات سوچنے کو اک اور فکر ۔ دیکھنے کو اک اور خواب۔ جھیلنے کو ایک اور مصیبت۔ لوگ۔
    لڑکیاں۔ سہیلیاں۔ کالج فرینڈزباتیں۔ سرگوشیاں۔ خواب اور چھوٹی چھوٹی خواہشیں ایک طرف۔۔۔۔ اور دوسری طرف ۔ گھر دو بہن بھائی (بچے) ابا۔ کام کاج' ذمہ داریوں کا بوجھ فکر ' احساس پڑھائی اور پل پل رنگ بدلتی زندگی۔ ایک فکر نہیں ہٹتی تو دوسری سراٹھاتی۔ ایک امتحان ختم نہیں ہوا تو دوسرا شروع۔ ایک ضرورت پوری نہیں ہوئی تو سو ضرورتیں اور نکل آئیں ، مگر ان سارے مسائل کے ہوتے ہوئے چند مسکراہٹیں تھیں ان بچوں کی' حوصلہ تھا۔ عزم تھا اور زندگی میں نیا آنے والا ایک شخص جو بالکل اجنبی تھا۔ جسے جاننا باقی تھا۔ گو کہ زندگی گزارنے کا کوئی ایک بہانہ نہیں تھا۔ سو بہانے تھے۔
    وہ پہلی بار ملنے کے لیے آیا تھا اور اس کے پاس بولنے کے لیے جیسے کچھ تھا ہی نہیں ، وہی مسلسل بولتا رہا تھا۔
    میری ماں تمہیں اتنا پسند نہیں کرتیں ان کی نظر میں تم میرے معیار پر پوری نہیں اترتیں ۔ مگر میرے ابا تمہیں بہت پسند کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں تم سے زیادہ لائق فائق شاید ہی کوئی ہو اور میری نظر میں تم کیا ہو؟ کیا یہ نہیں پوچھو گی ؟"
    اس نے نفی میں سر ہلا دیا بھول پن سے۔
    "تم واقعی اتنی بھولی ہو یا ڈراما کر رہی ہو؟"
    " مجھے ڈراما کرنا نہیں آتا ۔" اب کی بار وہ خفگی سے بولی۔
    " تو پھر بولو نا جو تمہارے دل میں ہے میرے لیے اچھا برا جو بھی؟"
    "میرے دل میں کچھ نہیں ہے۔" اس نے صاف گوئی سے کام لیا۔
    " تم مجھے پسند کرتی ہو یا نا پسند۔۔۔ یہی بتا دو۔" وہ آسان زبان پر اتر آیا۔
    " نہ پسند' نہ ہی نا پسند ۔" اس کا وہی انداز تھا۔
    " تم میرے بارے میں کچھ تو سوچتی ہو گی نا! وہ عاجز آ گیا۔
    " کچھ بھی نہیں سوچتی۔۔۔۔"
    "کیا تم سوچتی ہی نہیں ہو سرے سے؟"
    " میں سوچتی ہوں اور بہت سی باتیں۔۔۔۔"
    "تو پھر وہی بتا دو۔۔۔۔۔" اس کی شکل دیکھنے والی تھی۔
    " حرا کے لیے کتابیں خریدنی ہیں ، آفاق کے لیے نئے کپڑے چاہئیں۔ کل ٹوٹل اتنا خرچ ہوا' ابا کی دوائیاں لانی ہیں۔ فائنل امتحانات سر پہ کھڑے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب سنتے ہوۓ آپکو زرا بھی مزا نہیں آۓ گا۔"اس بار وہ خود کہتی ہوئی مسکرائی۔
    " چلو تمہیں یہ تو پتا ہے کہ یہ سب سنتے ہوئے مجھے ذرا مزا نہیں آۓ گا۔ سیدھا اٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔ اچھا میں تمہیں کیسا لگتا ہوں ؟ وہ سیدھا اٹھ کر بیٹھ گیا۔ " ٹھیک لگتے ہیں۔"
    " بس ٹھیک ۔ " اس کا منہ لٹک گیا " یونیورسٹی میں بہت لڑکیاں مجھے پہ مرتی ہیں۔
    دیکھو میں اسمارٹ ہوں' پڑھا لکھا ذہین بندہ ہوں۔ ایک خوش حال گھرانے سے تعلق ہے میرا' کیا تمہیں مجھ میں ایک بھی اچھائی نظر نہیں آتی ؟"
    " آپ اپنی تعریف سنتا چاہتے ہیں لڑکیوں کی طرح۔"

    نہیں لڑکیوں کی طرح نہیں۔ ہر انسان اپنی تعریف سننا چاہتا ہے۔"
    " اچھا چلو چھوڑو۔ میں تمہیں بتاؤں ہماری شادی کب ہو گی ؟“ وہ رکا ۔ ”میری پڑھائی کے ڈھائی سال باقی ہیں ، پھر میں جاب کروں گا اندازََ تین چار سال تو لگ جائیں گے۔ ابھی میں بائیس کا ہوں پھرچھبیسں کا ہو جاؤں گا تم بھی انیس کی ہو گی کچھ بڑی لگنے لگو گی۔ پھر ہم شادی کریں گے ٹھیک ہے۔ چار سال لمبا عرصہ ہے نا ! وہ کافی افسوس سے یہ سب بتانے لگا۔
    " مجھے ایف اے نہیں کرنا۔ مجھے ایم اے کرنا ہے اور کمیشن کا امتحان دینا ہے۔ میں بہت پڑھنا چاہتی ہوں۔"
    " چلو پھر تم پی ایچ ڈی کر لینا، بھلے جب تک میں بوڑھا ہی ہو جاؤں۔"
    " نہیں میں اس سے بھی زیادہ پڑھوں گی۔" وہ جان بوجھ کر مسکرائی۔
    " تم بہت پیاری لگ رہی ہو۔"
    " میں اب چلتی ہوں بچے انتظار کر رہے ہوں گے۔ ابا نے کھانا نہیں کھایا ہو گا۔" وہ فورا اٹھ کھڑی ہوئی اور بغیر کچھ سنے چل دی۔
    پہلی ملاقات کچھ اچھا تاثر نہ قائم کر سکی تھی۔ مگر جیسے جیسے وقت گزرا تھا۔ ان کے درمیان کا رشتہ بہت مضبوط اور پائیدار ہوتا جا رہا تھا ۔
    کالج کی لڑکیاں اسے سو مشورے دیتی تھیں اور خود اس نے اپنی ہم عمر لڑکیوں کو ایسا ہی پایا تھا۔ اس کے پڑوس کی لڑکیاں آئے دن رنگ گورا کرنے والی کریمیں فارمولے بنواتیں ۔ سج سنور کر باہر جاتیں۔ شوخ چنچل ادائیں ، ذومعنی جملے۔ اسے کبھی کبھار افسوس سا ہوتا وہ ان سب پر۔۔۔ مگر اسے اپنے کام سے کام تھا۔ اس کے پاس سوچنے کے لیے کئی باتیں تھیں۔ کئی مسئلے تھے۔ کالج سے یونیورسٹی کا سفر اور اس کی بڑھتی ہوئی بے شمار ذمہ داریاں۔
    " مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔" وہ بہت دیر سے فائل ہاتھ میں لیے بیٹھا تھا۔
    " کام کے متعلق تو ہم بات کر چکے ہیں عمیر صاحب!"
    " نہیں کام سے ہٹ کر دراصل میری اماں اور باجی آپ کے گھر آنا چاہتی ہیں۔ آپ کے بڑوں ملنے۔" یہ کہتے ہوئے اس کی نظریں نیچے تھیں۔
    " میرے تو کوئی بڑے نہیں ہیں۔ " وہ اس کی بات کا مطلب سمجھ گئی تھی۔
    " آپ کی بہن اور بھائی۔۔۔۔ بھائی کا ایڈریس دے دیں۔ میں مل لوں گا۔"
    " میری بہن لاہور میں ہوتی ہے اور بھائی بھی مجھ سے چھوٹا ہے آپ کو کیا بات کرنی ہے ان لوگوں سے' جو بات کرنا ہے مجھ سے کرلیں۔"
    "وہ بات یہ ہے کہ ۔" اس کے ہاتھ اب باقاعدہ کانپنے لگے تھے۔
    " ٹائم ختم ہو رہا ہے، مجھے گھر کے لیے نکلنا ہے ۔ آپ سوچ لیں پھر بات کر لیجئے گا۔" وہ فوراََ ہی اٹھی تھی سیٹ سے۔
    ” میڈم ' میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔" وہ فٹ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا اس کے اٹھتے ہی۔
    "بہت بر امذاق ہے۔ " اسے برا لگا تھا۔
    "مذاق نہیں ہے' حقیقت ہے۔"
    " آپ نارمل نہیں ہیں عمیر صاحب! جاتے وقت ڈاکٹر کی طرف سے ہو جائیے گا۔


  • #2
    میں ٹھیک ہوں۔ اگر آپ کو سوچنے کے لیے وقت چاہیے تو لے لیں۔"
    " آپ ٹھیک نہیں ہیں۔۔۔۔۔ جائیں آرام کریں۔ شاباش گھر جائیں۔"
    " میڈم پلیز' میں سنجیدہ ہوں ۔ " اس کی شکل رونکھی سی ہو گئی۔
    " آپ کو شادی ہی کرنی ہے نا !" وہ دروازے کے پاس رک کر بولی۔
    وہ اثبات میں سرہلانے لگا۔
    " اس شہر میں آپ کو اپنی عمر کی کئی لڑکیاں مل جائیں گی۔ میرے ساتھ آئندہ ایسا مذاق نہ کیجئے گا۔ "
    " مگر مجھے آپ۔۔۔۔۔"
    " کام۔۔۔۔ دفتر میں صرف کام ہوتا ہے او کے !" وہ اس کی بات کاٹ کر آگے بڑھی۔
    " میں آپ کے گھر آ جاؤں گا بات کرنے کے لیے۔ "
    " کوشش بھی مت کیجئے گا آنے کی' میں اکیلی رہتی ہوں۔"
    " اپنی اماں کو بھیج دوں گا یا باجی کو پلیز۔۔۔۔"
    " اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میری طرف سے قطعی انکار ہے۔" وہ کہہ کر رکی نہیں تھی۔
    " دماغ خراب ہے لوگوں کا۔ شادی کر لیں۔ پاگل لڑکا۔" وہ بڑبڑاتے ہوئے باہر نکل آئی اور گاڑی میں بیٹھی اور گاڑی اسٹارٹ کی۔ جب اسی ہوٹل کے سامنے سے گزری تو عجیب سا احساس ہوا۔
    ہوٹل کے باہر گاڑی کھڑی تھی۔ اس کے سامنے سے گزرتی ہوئی گاڑی دیکھ کر وہ گاڑی بھی اس کے پیچھے پیچھے گھر تک آئی تھی۔ گاڑی سے اترتے ہوئے گاڑی دیکھی تھی اسے لگ رہا تھا۔ عمیر اس کے پیچھے پیچھے آ رہا ہو گا۔۔۔۔ مگر نہیں اس میں اتنی ہمت کہاں تھی۔ یہ وہی تھا جو اس کے پیچھے آیا تھا۔ اتنی ہمت اسی کی تھی۔
    آفاق نے بورڈ میں نمایاں کامیابی حاصل کی تھی، حرا مناسب نمبروں سے پاس ہو گئی تھی وہ بہت خوش تھی۔ اس نے پہلی مرتبہ طاہر کو فون کیا اور بتایا وہ دونوں کے لیے تحفے لے آیا تھا، طاہر ان کے ساتھ گھل مل گیا تھا۔ وہ گھر آتا تو دونوں اسے گھیر کر بیٹھ جاتے اور گھنٹوں باتیں کرتے رہتے تھے وہ دور بیٹھی مسکراتی رہتی ، طاہر بھی قہقہے لگا رہا ہوتا تو کبھی بری بری شکلیں بناتا۔ وہ ان تینوں کے چٹکلوں سے محظوظ ہوتی رہتی۔ فارغ اوقات میں وہ دونوں کو اپنے ساتھ گھمانے پھرانے لے جاتا وہ ہر طرح سے مطمئن اور خوش تھی۔ طاہر کی تعلیم مکمل ہو چکی تھی اور وہ جاب کی تلاش میں تھا۔
    وہ ہر ہفتے لمبی کال کر کے اسے جاب مل جانے کی دعا کے لیے کہتا، اسے ہر ہر بات بتاتا۔ بظاہر بے معنی' فضول سی باتیں تھیں جن میں وقت گزرنے کا پتا بھی نہیں چلتا تھا مگر لہجہ اور تعلق سب سے اہم تھا' وہ اسی تعلق میں بندھتی جا رہی تھی۔
    طاہر کو جاب مل گئی تھی اور اس نے شور مچایا ہوا تھا۔ اب اس کا آخری بہانہ بھی ختم ہو گیا تھا۔ مگر ان ہی دنوں ابا کی طبیعت بہت خراب ہو گئی تھی اور کچھ دن بعد علالت کے دوران ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ کچھ دن وہ بہت ڈسٹرب رہی بہت زیادہ' وہ جیسا بھی تھا اس کا باپ تھا اور ان دنوں وہ اس سے بہت باتیں کرتا تھا۔ اسے لگا وہ اکیلی سی ہو گئی ہے، مگروہی کام جھمیلے ذمہ داریاں تھیں جو اپنے پاس کھینچ لیتی تھیں۔ آفاق اور حرا کے اداس چہرے تھے جس کی وجہ سے اور بھی مضبوط بننا پڑا
    تھا۔
    اخراجات پورے کر رہی تھی۔ اپنے دونوں بہن بھائی کی تعلیم کے لیے میں نے پہلے جو قرضہ لے رکھا ہے وہ بھی اتارنا ہے۔ میں پریشان تھی کہ یہ سب کیسے ہو گا۔"
    وہ سانس لینے کو رکی۔ اس کے ہاتھ اب بھی اس کے ہاتھوں کو جکڑے ہوئے تھے۔ اسے ڈر تھا وہ بات ختم کرے گی اور وہ یہاں سے اٹھ جاۓ گا' وہ اسے روک لینا چاہتی

    تھی۔

    Comment


    • #3
      لیے کہ تمہیں میری اس قدر ضرورت نہ تھی۔ یا پھر اس لیے کہ تمہیں میری قدر ہی نہیں۔ " اس نے آنکھیں کھول کر ایک لمحے کو اس کی طرف دیکھا۔
      " مجھے تمہاری قدر ہے طاہر ۔ میں صرف تمہیں اتنا بتانا چاہ رہی تھی کہ مجھے اس جاب کی کسی قدر ضرورت ہے تم اس کے علاوہ جو کہو میں ماننے کے لیے تیار ہوں۔
      میں شادی کر رہی ہوں تم سے اسی تاریخ کو بس ایک شرط ہے کہ میں یہ جاب کروں گی۔ اس لیے کہ مجھے اپنا قرضہ اتارنا ہے۔"
      " میں تمہارا قرضہ اتار دوں گا۔"
      "یہ قرضہ میں ہی اتاروں گی۔ میرے بہن بھائی تمہاری ذمہ داری نہیں ہیں طاہر! "
      " تم نے ان کے لیے بہت کچھ کیا ہے ۔ یہ انہیں خود کرنا چاہیے ۔ سوچنا چاہیے کہ تمہیں اپنا گھر بسانا ہے۔ بہرحال میں دعوا نہیں کرتا مگر جہاں تک ہو سکا ان کی مدد کر دوں گا۔ میرے کچھ قریبی دوست بھی اس سلسلہ میں مدد کر سکتے ہیں۔"
      " بس کرو طاہر! اس کے ہاتھ کھسک سے گئے۔ "انہیں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ میں مر نہیں گئی ۔ وہ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے۔" وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی تھی۔
      " تمہیں انتخاب کرنا ہو گا۔ وہ اور جاب' میں اور میری محبت"
      " طاہر! میرے لیے مشکلات مت بڑھاؤ۔ میں نے پالا ہے انہیں' میں ہی ان کا سب کچھ ہوں۔"
      " اورمیں کہیں نہیں ہوں' کچھ نہیں ہوں۔ " وہ بپھرگیا تھا۔
      " تم جو سوچتے ہو۔ وہ صحیح نہیں ہے۔ ایسا مت کرو طاہر! فضول کی ضد کی خاطر ہمارے رشتے کو کمزور مت کرو۔"
      " ضد بھی تم نے کی ہے اور کمزور بھی تم نے بنایا اس رشتے کو' مجھے کل تک تمہارا آخری جواب چاہیے۔۔۔۔۔ ہاں یا نا۔ "
      " طاہر! میری بات تو سنو۔۔۔۔"
      " کوئی فائدہ نہیں ہے مبینہ ! مجھے بس اپنا آخری جواب دے دینا ۔ ہو گا وہی جو تم چاہو گی۔ مجھے کوئی وضاحت نہیں چاہیے۔ بہت انتظار کیا ہے میں نے۔ ہر ضد مانی ہے تمہاری ہر بات اگر ہم اس قدر متضاد ہیں تو کوئی ایک فیصلہ ہو جانا چاہیے۔ اور فیصلے کا حق تمہیں دیتا ہوں کل شام تک ۔" کیسی سنگدلی سے وہ کہہ کر چلا گیا۔ حالانکہ اس کی آنکھیں اس کا ساتھ
      نہیں دے رہی تھیں۔
      اور آنکھیں تو اس کی بھی نم تھیں ۔ وہ کھلے دروازے بند کرتا چلا گیا۔ کل شام تک کا وقت دے کر باقی کا وقت اس پر قیامت کی طرح گزرا تھا۔
      اس نے سمجھا تھا طاہر کچھ دنوں میں ٹھیک ہو جائے گا۔ وہ مان لے گا اس کی ہر بات اس کا غصہ وقتی ہے وہ اسے منا لے گی۔
      مگریہ صرف اس کی سوچ تھی ٹھیک اسی تاریخ پر طاہر کی شادی ہوئی مگر اس کے ساتھ نہیں کسی اور کے ساتھ ۔
      اس کی ماں کی مرضی سے طاہر شادی کے فورا" بعد اس شہر سے کہیں اور چلا گیا جہاں اس کا ٹرانسفر ہوا تھا۔
      زندگی نے اسے جود کھ دیے تھے یہ دکھ سب سے بڑا تھا پھر بھی سہہ ہی لیا ۔ اس سب سے یہ ہوا کہ اس کا مردوں کے اوپر سے اعتماد اٹھ گیا تھا اور وہ اب بھی کولہو کے بیل کی طرح کام کرتی تھی۔ اس کی توجہ کا واحد مرکز وہی تھے جن کی خاطر اب تک وہ جیتی آ رہی تھی۔
      آفاق بہت محنت سے پڑھ رہا تھا۔ جبکہ حرا نے ایف اے بمشکل پاس کیا اور گھر بیٹھ گئی۔ ان ہی دنوں حرا کی دوست کے بھائی کا رشتہ آیا تھا اس کے لیے' لڑکے والوں کا اصرار دیکھ کر اس نے ہامی بھرلی اور شادی ہو گئی۔ حرا بہت خوش نظر آ رہی تھی، شکر اطمینان تھا کہ اس کی شادی اس کی مرضی سے ہوئی ہے۔ اب آفاق کا مسئلہ تھا اس نے بھی یونیورسٹی کی ایک لڑکی پسند کرلی تھی آفاق کے کہنے پر وہ اس کا رشتہ لے کرگئی۔ پہلی ملاقات میں تو علینہ کی ممی نے بہت عجیب باتیں کی تھیں اسے بہت دکھ ہوا مگر آفاق کی خاطر اسے بار بار وہاں جانا پڑا۔ ان کی شرط تھی کہ وہ شادی سے پہلے شہر میں کسی اچھے سے علاقے میں شفٹ ہوں۔ یہ اس کے لیے بہت مشکل تھا مگر افاق کی ضد پر اسے گھر تبدیل کرنا پڑا۔ شادی آفاق کی تعلیم مکمل ہو جانے کے بعد ہوئی تھی۔ ۔ علینہ کی ممی کی سفارش پر علینہ کے بھائی نے آفاق کے دفتر میں جاب دے دی۔ ان دونوں نے مل کر چھوٹا سا بزنس بھی شروع کر دیا تھا۔ بزنس اچھا چل رہا تھا حالات پہلے سے بہت بہتر تھے۔ اس نے ایک فلیٹ بھی لے لیا تھا اور اسے کرائے پر چڑھا دیا۔ آفاق شادی کے بعد خوش تھا۔ اس نے علینہ کو ہر طرح سے خوش رکھنے کی کوشش کی تھی۔ نہ اس پہ کوئی گھر کی ذمہ داری ڈالی نہ ہی کوئی دباؤ ۔ دو سالوں بعد جب اس کے ہاں خوش خبری آئی تو اس نے ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھا اسے' پھر علی کے بعد اس نے کئی کام اپنے ذمے لے لیے۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ مگر اچانک علینہ کو جانے کیا ہوا سب کچھ بگڑتا گیا پتا نہیں کیوں وہ اس کا صرف ہونا بھی برداشت نہیں کر پائی تھی۔
      "کیوں آئے ہو یہاں تم؟" اسے نہ چاہتے ہوئے بھی دروازہ کھولنا ہی پڑا تھا کہ وہ مسلسل باہر کھڑا بیل پہ بیل بجا رہا تھا۔ وہ اندر آ گیا۔
      " تمہیں اتنے عرصے بعد دیکھا تو رہا نہ گیا۔ بہت ڈھونڈا تھا تمہیں۔ تمہیں پتا ہے میں کئی سالوں سے تم سے ملنے کی دعا کرتا رہا ہوں۔" وہ اس کے پیچھے آتے
      ہوئے بول رہا تھا۔
      " بیٹھ جاؤ۔" وہ دروازہ بند کر کے اندر آ گئی۔

      شکریہ ۔۔۔۔ مبینہ' جو ہوا بہت غلط ہوا ۔ " اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ کیسے وضاحت دے۔
      " کیا غلط ہوا ۔ میرا تم پر بھروسا کرنا ۔ تم سے درخواست کرنا یا پھر تمہارا اچانک دھوکا دینا۔" وہ اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی۔
      " میں نے ایسا کبھی سوچا تک نہ تھا کہ۔۔۔۔"
      " جو کچھ سوچا نہیں وہ کر دکھایا۔۔۔۔ بہت خوب!"
      " کاش تم میری بات مان لیتیں یا پھر کاش میں ضد نہ کرتا۔"
      " تمہارا کیا بگڑا ہے طاہر یہ تو بتاؤ۔ شادی ہو گئی بچے بھی ہوں گے۔"
      " ہاں ۔ ایک بیٹی آٹھ سال کی۔ بیٹا نو دس سال کا ہے۔"
      " مکمل فیملی۔ نوکری' پیسہ ' بچے کیا کچھ رہتا ہے۔۔۔۔؟"
      " کچھ اب بھی رہتا ہے مبینہ! دوستی' بھروسا 'محبت' پہلی محبت جو کبھی بھلائی نہیں جاتی۔ "
      " اچھا ڈراما ہے۔ "
      " کیا تم نہیں جانتیں کہ میں تم سے کتنی محبت کرتا تھا۔"
      " بس کر دو طاہر ! تب میں اور اب میں بہت فرق ہے۔ اب ہم بڑے ہو گئے ہیں ۔ تم دو بچوں کے باپ بن چکے ہو اب ایسی باتیں سوٹ نہیں کرتیں تم پر۔
      " اڑا لو مذاق۔۔۔۔ حق ہے تمہیں-" وہ پھیکا مسکرایا۔
      " تمہیں مجھ سے کیا بات کرنی تھی ؟" وہ چاہ رہی تھی وہ بات کر کے جلدی سے جائے۔
      " معافی مانگنا چاہتا تھا تم سے۔۔۔۔ تمہیں دکھ دیا میں نے۔"
      " کر دیا معاف اب تم جا سکتے ہو۔" لہجہ رکھائی لیے ہوئے تھا۔
      " اتنی آسانی سے؟ میں تو سمجھ رہا تھا تم مجھ سے لڑو گی۔ مجھے برا بھلا کہو گی کچھ تو کہو تاکہ میرا دل بھی ہلکا ہو۔"
      "اس سب کا کوئی فائدہ نہیں ہے اب۔۔۔۔ میرے کچھ بھی کہنے سے وہ مشکل وقت واپس نہیں آئے گا نہ آسان ہو گا۔"
      "مجھے احساس ہے مبینہ ! اسی لیے یہ بے چینی مجھے مکمل خوش ہونے نہیں دیتی نہ سکون سے رہ پاتا ہوں ۔
      " میں بہت خوش ہوں اب تم سکون سے رہنا۔۔۔
      اب تم جاؤ۔"
      " بار بار جانے کو کہہ رہی ہو ۔ کیا چائے بھی نہیں پلاؤ گی مجھے؟"
      " آخری بار میں نے چائے پلانی چاہی تھی وہ کپ جو ویسا کا ویسا پڑا رہ گیا تھا۔"
      "مجھے اس کپ کی اب ضرورت ہے۔"
      " تمہاری بیوی کو چائے بنانا نہیں آتی۔۔۔۔۔؟" وہ اٹھی تھی۔
      " وہ باتیں بنا لیتی ہے' اتنا کافی ہے۔" وہ ہنسا تھا اس کی بات پہ۔
      " شوہر کبھی بیویوں سے خوش نہیں ہوتے۔"
      ” بیویاں بھی کبھی شوہروں سے خوش نہیں ہوتیں۔"
      " میں بالکل بھی نہیں چاہوں گی کہ تم اپنی بیوی کی برائیاں کرو اور میں سنوں۔" وہ کچن میں آ گئی تھی۔
      " اور لوگ کہاں ہیں ؟" وہ باہر آتے ہوئے اردگرد دیکھنے لگا اور اس کے پیچھے کچن میں آیا۔
      " کون لوگ ؟" وہ چائے کے لیے پانی رکھنے لگی۔
      " آفاق' حرا ' شادی ہوئی ان میں سے کسی کی؟"
      " حرا کی ایف اے کے فورا بعد شادی ہو گئی تھی۔ دو بچے ہیں اس کے آفاق کا ایک بیٹا ہے دو سال کا ہو گا اس ماہ۔ "
      " تمہارے ساتھ نہیں رہتے۔ کہاں ہیں؟" اپنے اپنے گھر میں ہوتے ہیں۔ حرا لاہور میں ہے اور آفاق اسی شہر میں۔"
      " تم آفاق کے ساتھ کیوں نہیں رہتیں؟"

      Comment


      • #4
        میں ان کی فیملی میں مخل ہونا نہیں چاہتی۔"
        " یہ تو کوئی بات نہیں ہے ۔ کیا اس کی بیوی کو اعتراض ہے؟"
        " تم ایسا کیسے کہہ سکتے ہو؟"
        " اس لیے کہ میری بیوی کو بھی میری ماں کے ساتھ رہنے پر اعتراض ہے۔"
        " میں ماں نہیں ہوں ان لوگوں کی۔"
        ”ہاں تب ہی تم نے اتنی قربانیاں دیں ان کے لیے۔ "
        میں نے اپنا فرض نبھایا تھا۔"
        " اور جب ان کے فرض نبھانے کا ٹائم آیا تو۔۔۔۔ "
        " اپنی باری پر کون پیش ہوتا ہے۔ تم بھی تو چلے گے تھے۔" اس نے چائے کپ میں ڈال کر اسے پیش کی۔
        تمہارے فریج میں کوئی کھانے کی چیزنہیں' میں صبح سے بھوکا ہوں۔" اس نے خود ہی فریج کھول لیا تھا اور دیکھنے لگا۔ پھرایک سیب صاف کر کے کھانے لگا۔ وہ اس کی بے تکلفی پر حیران تھی۔
        " ایک بات پوچھوں مبینہ شادی کیوں نہیں کی ؟"
        " تمہارے بعد کسی سے محبت ہی نہیں ہوئی۔ کوئی اچھا ہی نہیں لگا۔ یہی سنتا چاہتے ہونا ۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہے۔ تمہارے دھوکے کے بعد کسی مرد پر اعتبار نہیں آیا۔ کئی رشتے آئے۔ کئی لوگ۔ آج صبح بھی میرے ایک کولیگ نے مجھے پروپوز کیا ہے۔ " اس کے ہونٹوں پر عجیب تھکی تھکی سی مسکراہٹ تھی۔
        " تو کر لونا شادی ؟" وہ کھاتے کھاتے رکا۔ اس بار وہ صرف مسکرا کر رہ گئی۔
        " کب کر رہی ہو پھر شادی ۔"
        " سوچنے کے لیے وقت مانگا ہے۔" اس نے صاف جھوٹ بول دیا۔
        " اچھی بات ہے زیادہ دیر مت لگانا۔" وہ مسکرا کرچائے کے گھونٹ لینے لگا۔
        " بلانا ضرور۔۔۔۔ اس نے چند منٹ میں کپ خالی کر دیا۔
        " ضرور بلاؤں گی۔ " وہ اس کے ساتھ کچن سے باہر آئی تھی۔
        "اپنے بچوں کو میرا پیار دینا۔ اللہ حافظ "
        "میں پھر آ سکتا ہوں ؟ عجیب بات تھی' وہ پوچھ رہا تھا جبکہ اسے اچھی طرح اندازہ تھا کہ وہ اب یہاں نہیں آ سکتا تھا۔
        ”مبینہ اپنا خیال رکھنا۔ ایک بات کہوں۔ آفاق نے اچھا نہیں کیا۔"
        " پتا نہیں کس نے اچھا نہیں کیا اور سنو یہاں مت آنا ۔ میں نہیں چاہتی کوئی یہاں فضول باتیں کرے میرے لیے۔
        " سمجھ گیا۔ بات تو ہو سکتی ہے نا۔ میرا کارڈ رکھ لو۔" اس نے کارڈ جیب سے نکال کر تھمایا جو مبینہ نے لاپروائی سے میز پر پھینک دیا اس کے سامنے ہی ۔ "تمہارا نمبر۔" اس کے چہرے پر سایہ سا لہرا گیا۔ اس نے پرس سے کارڈ نکال کر پکڑا دیا۔ حالانکہ اسے پتا تھا اس نے اس نے کبھی فون نہیں کرنا۔
        اس کے باہر نکلتے ہی اس نے دروازہ بند کیا اور لمبی سانس لی۔ تنہائی عذاب ہوتی ہے۔ کسی کی کہی ہوئی بات یاد آئی تو مسکراہٹ سمٹ گئی۔ اس نے رسٹ واچ اتار کر ڈریسنگ پر رکھی ، کوٹ اتار کر پھینکا ہے ڈوپٹہ بیڈ پر ڈالا اور بال باندھنے لگی ، چہرے پر سالوں کی تھکن چھائی ہوئی تھی۔ اس نے اپنے چہرے سے نظریں ہٹا لیں اور کھلی دراز میں کچھ ٹٹولنے لگی۔
        کھویا کیا تھا۔ شاید کچھ بھی نہیں یا پھر شاید بہت کچھ ۔
        " آپا ! رکیں آپا ! مجھے ذرا آپ سے بات کرنی ہے۔" وہ لاؤنج کے دروازے کے پاس کھڑی تھی جب وہ تیزی سے سیڑھیاں اترتا ہوا نیچے آ رہا تھا۔
        "بولو ۔۔۔۔ کالج سے دیر ہو رہی ہے مجھے۔" اس نے گھڑی پر نگاہ ڈالی تو آدھا گھنٹہ پہلے ہی لیٹ تھی ۔
        آپ بیٹھ جائیں ذرا دو منٹ ' میں آپ کو چھوڑ دوں گا۔" وہ تیزی سے اترنے کی وجہ سے ہانپ رہا تھا بات کرتے ہوئے۔
        " خیریت ہے نا۔۔۔۔ چلو تو پھر گاڑی میں بات کر لیتے ہیں۔" اس کی عجلت اور فکرمندی سے اسے لگ رہا تھا کوئی کاروباری مسئلہ ہو گا۔
        " ڈرائیور کے سامنے میں پرسنل میٹر تو ڈسکس نہیں کر سکتا نا ۔۔۔۔۔ آپ بیٹھ جائیں بس پانچ منٹ پھر شام میں مجھے علینہ کو باہر لے کر جانا ہو گا وہ خفا ہے مجھ سے۔ " وہ کہتے ہوئے صوفے کی
        طرف بڑھا۔
        " کیوں وہ کیوں خفا ہے ؟" وہ کچھ نا سمجھتے ہوئے بیٹھ گئی۔
        " میں بہت دنوں سے اسے لے جانے کا کہہ رہا ہوں اس کی ممی کے پاس مگر وقت نہیں ملتا ' اسے ٹائم نہیں دے پاتا میں۔ اس کا لہجہ عجیب تھا۔
        "بات کیا کرنی ہے بتاؤ۔"
        " آپا۔۔۔۔ ۔ وہ بات یہ ہے کہ دیکھیں میری پوری بات سنیے گا۔"
        " تمہیں اگر کہنے میں اتنی دیر لگے گی تو ہم رات کو بات کر سکتے ہیں۔"
        " نہیں۔ اچھا سنیں' آپ کی علینہ سے کوئی بات ہوئی ہے؟"
        " علینہ سے۔۔۔۔ کس قسم کی بات؟"
        " دیکھئے آپا! وہ شاید جا رہی تھی اپنی ممی سے ملنے اور آپ نے اسے منع کر دیا۔ آپ نے کیوں ایسا کیا ؟"
        " میں کیوں اسے منع کروں گی اور میرے منع کرنے پر اسے کون سا رک جانا ہے۔ میں تو کہہ رہی تھی کہ تمہیں بتا کر جائے یا پوچھ کر' تم گھر پہ جو نہیں تھے' پھر علی کی طبیعت خراب تھی میں نے کہا رات کو باہر نکلو گی تو بچے کو ٹھنڈ لگ جائے گی احتیاط کرے۔ اس نے تم سے کہا کہ میں نے منع کیا ہے؟" اسے تعجب ہو رہا تھا۔
        " اس نے تو اور بھی بہت کچھ کہا ہے مجھے۔" "مثلا؟ " وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی تھی۔
        "مثلا یہ کہ آپ اسے ہر چھوٹی بڑی بات پہ ٹوکتی ہیں' روکتی ہیں' ہر چیز میں دخل اندازی کرتی ہیں ، وہ ڈسٹرب ہوتی ہے آپا۔۔۔۔ وہ ایسے ماحول سے نہیں آئی جہاں گھر کے فرد ایک دوسرے کے مسائل اور پرائیویسی میں دخل دیتے ہوں۔ مڈل کلاس لڑکیوں کی طرح ہر کام پوچھ کر کرنے کی عادت نہیں ہے اسے۔ "
        " اگر نہیں ہے تو اس نے ایک مڈل کلاس لڑکے سے شادی کیوں کی؟"
        " آپ کو ایسا نہیں کہنا چاہیے۔"
        " کیوں نہیں کہنا چاہیے ۔۔۔۔۔ ہم مڈل کلاس سے ہی تو تعلق رکھتے ہیں میرے بھائی ! یہ بات الگ ہے کہ اب ہماری کلاس بدل رہی ہے۔ بہر حال میں کسی کلاس ولاس کو نہیں مانتی میں صرف رولز اور اقدار کو مانتی ہوں۔ تم نے کلاس کی بات کی تو میں نے تمہیں تمہاری زبان میں جواب دے دیا۔ بہرحال اب میں چلتی ہوں تم نے ایک بیکار بحث کے لیے میرا وقت خراب کر دیا۔ آج میری میٹنگ تھی ضروری۔۔۔۔"
        "میری ایک بات سن لیں آپا ! آپ پلیز اس کے کسی معاملے میں مت بولا کریں' نہ ٹوکا کریں وہ جہاں چاہے آئے جائے یا کسی کو بلائے یا کچھ پکائے کھائے۔۔۔۔ کچھ بھی ہو یہ اس کا اپنا گھر ہے۔ اس کے شوہر کا گھر ہے اسے پوراحق ہے اپنی مرضی سے جینے کا۔

        میں نے کب کہا کہ یہ میرا گھر ہے۔۔۔۔ یہ اس کے شوہر کا گھر ہے اور اس کا گھر ہے۔ " اسے اس کا یہ ایک جملہ بہت برا لگا تھا۔
        " مجھے پتا ہے آپ ہر بات کا الٹا مطلب لیتی ہیں۔۔۔۔۔ مگر پلیز میں آپ کو کہہ رہا ہوں کہ اسے اپنی مرضی ہے یہاں رہنے دیں میرا گھر ان باتوں کی وجہ سے ٹوٹے یہ میں نہیں چاہتا۔"
        " کس قدر فضول اور جاہلانہ بات کی ہے تم نے بالکل اپنی بیوی طرح۔۔۔۔ مجھے نہیں اندازہ تھا کہ تم ایسی ہلکی بات کرو گے۔" وہ بے دلی سے اٹھی اس کے تیور دیکھتے ہوئے۔
        " آپ نے مجھے مجبور کر دیا ہے بات کرنے پر۔۔۔۔ میں چاہتا ہوں آئندہ آپ اسے شکایت کا موقع نہ دیں کہ مجھے آپ سے ایسی کوئی بات نہ کرنی پڑے جس پر آپ کو افسوس ہو اور بعد میں مجھے بھی ہو ۔ " وہ کافی سخت لہجے میں کہتا ہوا اس کے ساتھ ہی باہر آیا تھا۔
        " چلیں بیٹھ جائیں، میں چھوڑ دوں۔" اس کا لہجہ اب بھی ویسا تھا۔
        " بہت شکریہ چلی جاؤں گی میں ٹیکسی سے۔"
        " روز ٹیکسی سے جاتی ہیں کیا ؟" وہ طنز پہ طنز کر رہا تھا۔
        " اب جایا کروں گی۔" وہ گاڑی کے پاس سے گزر کر آگے بڑھی۔
        " میں کہہ رہا ہوں بیٹھ جائیں ۔" وہ زور سے حکمیہ لہجے میں بولا تھا۔
        " اس لہجے میں اپنی بیوی سے بات کر کے دیکھ لینا۔ جواب مل جائے گا۔ " وہ کہتی ہوئی تیز تیز قدم اٹھاتی وہاں سے ہٹ گئی۔
        " شوق سے دھکے کھائیے۔" وہ با آواز بلند کہتا ہوا بیٹھ گیا ڈرائیور حیرت سے اس کے لہجے اور پھر بات سن رہا تھا۔
        " جانا نہیں ہے کیا۔" وہ ڈرائیور کو گھورنے لگا۔
        " جی بیٹا! چلنا ہے۔" انور بابا نے بے بسی سے گاڑی اسٹارٹ کی۔ آج پہلی مرتبہ اس نے آفاق کا یہ روپ دیکھا تھا۔ اس لیے حیرت زدہ تھا۔
        آج وہ دیر تک فٹ پاتھ پر کھڑی رہی۔۔۔۔ جیسے کبھی کچھ سال پہلے وہ کھڑی ہوتی تھی ۔ تب تو اس نے سوچا تھا کہ اب اسے فٹ پاتھ پر کھڑا ہونا نہیں پڑے گا کچھ سالوں بعد ۔۔۔۔
        اسے یاد تھا ایک دفعہ اس نے اپنی گود میں سر رکھ کر لیٹے ہوئے چودہ سالہ آفاق سے کہا تھا۔ تم پڑھ لو ' تم بڑے ہو جاؤ پھر ہماری ساری پریشانیاں ختم ہو جائیں گی۔ پھر مجھے دیر تک فٹ پاتھ یا اسٹاپ پر کھڑے ہو کرانتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ " اس کی آنکھیں گیلی ہو رہی تھیں۔ دھندلی آنکھوں سے پاس سے گزرتی ہوئی آفاق کی گاڑی کو دیکھا جو تیزی سے گزر گئی تھی۔ اس نے دھندلی آنکھوں کو صاف کیا اور سامنے سے آتی ٹیکسی کو روکا تھا۔
        وہ شام میں آئی تو کافی دیر ہو چکی تھی اور وہ دونوں کہیں جا رہے تھے۔
        " السلام علیکم ! اس نے خود ہی سلام میں پہل کی تھی۔
        " وعلیکم السلام۔۔۔" وہ نظریں چرا رہا تھا۔
        " کہیں جا رہے ہو تم لوگ؟"
        " آپ کو کوئی اعتراض ہے؟" علینہ ترش لہجے میں بولی۔
        " مجھے کیوں اعتراض ہو گا۔ علی کا خیال رکھنا' باہر سردی بہت ہے۔"
        وہ نا چاہتے ہوئے کہنے سے رک نہ سکی کہ چھوٹے بچے کی فکر ہو رہی تھی۔
        " میں ماں ہوں اس کی مجس سے زیادہ اس کا خیال کون رکھ سکتا ہے۔"
        " مجھے اندازہ ہے۔ " اسے ہنسی آ گئی اس کی بات پر۔
        " آپ چاہیں تو علی کو آپ کے پاس چھوڑ جاتے ہیں' اگر آپ ڈسٹرب نہ ہوں تو۔" آفاق علی کو گود میں لیے اس کی طرف بڑھا۔
        " پہلے بھی اسے میرے پاس چھوڑ کر جاتے رہے ہو' ہمیشہ یہ پوچھتے ہو کیا ؟"

        Comment


        • #5
          ہم رات دیر سے لوٹیں گے۔ اسے سلا لیجئے گا۔" وہ اسے پکڑا کر کہنے لگا پھر اسے چلنے کا اشارہ کیا۔ علینہ کے چہرے پر ناگواری تھی۔
          علی کو کندھے سے لگا کے وہ اپنے کمرے کی طرف جانے لگی۔
          " مجھ سے پوچھنا تو گوارا کر لیا کرو۔ " علینہ کا لہجہ تیز تھا۔
          " اس سے ہمیں آسانی ہوتی ہے ، ہم مرضی سے گھر آتے ہیں۔ باہر پریشانی نہیں ہوتی ہے۔ چھوٹا بچہ ہے یار!" ان دونوں کی آواز با آسانی سن سکتی تھی وہ' اس کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ آ کر رک گئی۔ امی کے پاس چھوڑ دیتے۔ وہ ہر دفعہ باہر جاتے ہوئے بحث کرتے تھے ۔
          " ہاں تاکہ وہ ساری رات روتا رہے اور ان کے فون پہ فون آتے رہتے۔ بھئی اپنے بچے کو لے جاؤ بہت پریشان کرتا ہے۔"
          " یہ کب کہا انہوں نے ۔ " اسے اچھا نہیں لگا تھا۔
          " ہمیشہ کہتی ہیں۔ جیسے تمہیں تو پتا نہیں ہے۔ " وہ دروازہ کھول کر باہر آیا۔
          " کیا ضرورت تھی ان کے سامنے کہنے کی۔ وہ باہر آ کر بگڑی۔
          " کیا کہا ہے ۔" وہ کندھے اچکا کر آگے بڑھا گاڑی کی طرف۔
          " تم ہمیشہ اپنی بہن کے سامنے میری انسلٹ کرنا ضروری کیوں سمجھتے ہو۔" وہ بیٹھتے ہوئے اسے گھورنے لگی۔
          " یقین نہیں آ رہا ہے تم کہہ رہی ہو جس کی خاطر ہمیشہ ان کی انسلٹ کر دیتا ہوں۔" وہ گاڑی گیٹ سے نکالنے لگا۔
          " پتا ہے مجھے۔۔۔ صبح ان سے کی بات ؟"
          " تمہارے کہنے پر لڑ کر آیا تھا۔ اب تو خوش ہو جاؤ۔" اس کا لہجہ طنزیہ ہو گیا۔
          " یقین تو نہیں آتا۔" اس نے کندھے اچکائے۔
          " آج پہلی مرتبہ وہ پیدل گئیں اسٹاپ تک ، پتا نہیں کب گاڑی ملی ہوگی۔ آج بہت تیز ہو گیا تھا میں بات کرتے ہوئے' سوری کہنے کی بھی ہمت نہیں ہو رہی۔"
          " ان کے رویے سے تو ایسا کچھ نہیں لگ رہا تھا۔" اسے یقین نہیں تھا۔ " یہی تو ایک ماں کی اعلیٰ ظرفی ہوتی ہے۔ " وہ پس پشت اس پر فخر کرتا تھا۔
          "ماں اور بہن میں بہت فرق ہے۔ اس نے فورا" ٹو کا تھا۔
          " مجھے نہیں پتہ ماں کیا ہوتی ہے ، میں نے ماں کے روپ میں بھی اسی صورت کو دیکھا اور بہن کے روپ میں بھی۔"
          " ہم کوئی اور بات نہیں کر سکتے اس کے علاوہ۔ " وہ اس کی بات پر بے بسی سے مسکرا کر رہ گیا۔
          " اب کیا ہے؟" وہ کافی دیر سے منہ پھلائے بیٹھی تھی چُپ۔
          " تم کروبات میں سن رہی ہوں۔"
          "میں کروں گا تو تمہیں برا لگے گا اس لیے تم کرو۔"
          " طنز کرنا ضروری ہے؟"
          " یہ طنزنہیں ہے۔ ایک بات بتا دو علینہ ! تم کب مجھ سے خوش ہو گی۔ کب کہوگی کہ میں تمہارے لیے بہت کچھ کرتا ہوں۔ کب مانو گی ؟"
          " جب تم واقعی میرے لیے کچھ کرو گے اور پھر تمہیں میرا احساس ہو گا۔"
          " سچ کہتے ہیں ۔۔۔۔ سب سے جلدی خوش ہونے والی ہستی ماں کی ہے اور ہمیشہ نا خوش ہونے والی بیوی کی۔"
          " تمہاری یہی باتیں مجھے نا پسند ہیں۔" اس کا موڈ بری طرح سے خراب ہو گیا تھا۔
          " سچ جو ہیں' بری تو لگیں گی۔ سیانے کہتے ہیں سچ کا ٹیسٹ بہت کڑوا ہوتا ہے۔" وہ اتنی دیر میں پہلی مرتبہ ہنسا تھا اور اس کا موڈ اور خراب ہوا تھا۔
          " اب موڈ ٹھیک کر لو ہم پہنچ گئے ہیں۔ " وہ کہتے ہوئے گاڑی پارک کرنے کی جگہ دیکھنے لگا۔
          وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی علینہ کے تیزی سے بدلتے رویے کی اصل وجہ کیا ہے۔ وہ لاکھ تجربہ کار سہی مگر اس کے اندر کی چال کو سمجھنا آسان نہیں تھا۔
          وہ آخر یہ سب کر کے چاہتی کیا ہے مختلف بہانے ڈھونڈ کر وہ بات کو بڑھا دیتی تھی' اس کا تو معمول تھا کالج کے بعد وہ گھر آ کر علی کو اپنے پاس لے آتی۔ اس کے ساتھ کھیلتی اسے کھلاتی پلاتی ، اکثروہ اس کے پاس سوجایا کرتا تھا اور ان دونوں کو کوئی پرواہ نہ ہوتی تھی علی جب سے پیدا ہوا تھا آدھے سے زیادہ علی کی ذمہ داری تھی اس کی تھی وہ دونوں اپنی زندگی میں خوش تھے وہ ان دونوں کے لیے کسی قسم کی ڈسٹربنس کا سبب نہ تھی بلکہ اس کے ہوتے ہوئے وہ ہر ذمہ داری سے بچے ہوئے تھے' گھر کیسے چلتا تھا۔ گھر کی صفائی ستھرائی ' ملازموں سے کام لینا۔ سیلری دینا' کھانا پکانا۔ راشن کی خریداری سب کچھ اس کے ذمے تھا۔ آفاق دفتر کے بعد گھر آ کر سو جاتا اور شام میں یہ دونوں کہیں باہر چلے جاتے اور رات دیر تک واپسی ہوتی وہ اس گھر میں کئی سالوں سے اکیلی رہ رہی تھی جیسے۔
          اس نے کبھی کسی قسم کا کوئی شکوہ نہیں کیا تھا آفاق کے ساتھ ۔
          پھر اس کا صبح والا سلوک جس پہ وہ ساری رات جاگ کر سوچتی رہی تھی۔ شام کو آفاق کا رویہ دیکھ کر اس کے دل سے کچھ بوجھ ہٹا ضرور تھا مگر علینہ کا دن بدن بدلاؤ اس کی سمجھ سے باہر تھا۔
          کچھ دیر پہلے ھی وہ علی کو اس سے لے گئی 'اس نے نوٹ کیا وہ اب علی کو اس کے پاس رہنے نہیں دیتی تھی حالا نکہ وہ اسے ٹھیک طرح سے کھلاتی پلاتی بھی نہیں تھی۔ وہ کمزور ہو رہا تھا اور اسے فکر ہو رہی تھی۔ اس نے سوچا علینہ سے کوئی مناسب موقع دیکھ کر بات کر لے۔
          شام میں جب علینہ کچن میں کھڑی تھی تو وہ اس کے پاس آئی۔
          " کھانا تو میں بنا دیا ہے۔ تم کیا کر رہی ہو علینہ؟" اس نے نوٹ کیا تھا وہ جب فارغ ہو کر کچن سے جاتی تھی تو تب وہ کچن میں آتی تھی۔ اس کی موجودگی میں نہ لاؤنج میں بیٹھتی تھی نہ کچن میں نہ باہر ۔ جہاں وہ ہوتی علینہ وہاں سے کھسک لیتی ۔ اسے اس کی یہ بچگانہ حرکتیں سخت زہر لگ رہی تھیں ۔ اب بھی اس کی بات کا جواب دیے بغیروہ کام کر رہی تھی۔
          " میں پوچھ رہی ہوں تم کیوں کھانا بنا رہی ہو۔ میں نے بریانی بنانی ہے آج تم لوگوں کے لیے۔"
          "بہت شکریہ آپ کا۔۔۔ آئندہ یہ تکلف کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں اپنے لیے خود بناؤں گی اب۔ "
          " اچھا۔۔۔۔۔ علی کہاں ہے ، اس نے کچھ کھایا ہے یا نہیں۔"
          " اس کے بارے میں فکر مند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے آپ کو ۔ میں اس کی ماں ہوں۔
          اس کے کھانے پینے کا خیال رکھ سکتی ہوں۔"
          " تم کہنا کیا چاہتی ہو علینہ؟"
          " جو آپ سمجھنا نہیں چاہتیں۔"
          "دیکھو اگر تمہیں مجھ سے کوئی شکایت ہے تو۔۔۔۔"
          " کوئی شکایت نہیں ہے ۔" اس نے تیزی سے بات کاٹتے ہوۓاس کا ہاتھ جھٹکا۔ "تو پھر تم یہ سب کیوں کر رہی ہو ؟
          " اس لیے کہ اب آپ ہماری جان چھوڑیں اور ہمیں سکون سے جینے دیں۔"
          " کیا چھوڑدوں میں ؟" وہ افسوس سے اسے دیکھنے لگی۔
          " میرے میاں کو چھوڑ دیں ۔ مت بھرا کریں اس کے کان ۔ زندگی زہر کر دی ہے آپ نے میری' سہہ سہہ کر تھک گئی ہوں میں اس کا تلخ رویہ' اس کی باتیں'اس کی ڈانٹ۔
          " وہ تمہیں ڈانٹتا ہے۔۔۔۔ میں بات کروں گی اس سے۔"
          کوئی ضرورت نہیں ہے' کہہ رہی ہوں نا ہمیں جینے دیں' کل کو اگر میرا گھر ٹوٹا تو اس کی وجہ آپ ہوں گی۔"
          " کیا کہہ رہی ہو تم علینہ! میں کیوں ایسا چاہوں گی' میں نے تو ہمیشہ تمہیں سپورٹ کیا ہے اس کے سامنے۔ وہ اگر تمہارے ساتھ نا انصافی کر رہا ہے تو میں بات کروں گی۔"
          "ہاں تاکہ وہ مزید مجھے ذلیل کرے۔ یہی چاہتی ہیں نا آپ۔"
          " میں ایسا کیوں چاہوں گی۔ تم کیوں ایسا سوچ رہی ہو۔"
          "اگر آپ یہ چاہتی ہیں کہ میں یہ گھر چھوڑ کر نہ جاؤں تو خدا کے لیے آفاق سے کچھ مت کہیں اور نہ مجھ سے بات کریں۔ میں مزید کسی بحث میں پڑنا نہیں چاہتی۔ اب آپ یہاں سے جائیں گی یا میں یہاں ہے جاؤں۔"
          وہ خاموشی سے وہاں سے نکل آئی۔۔۔۔ اس سے کچھ بھی کہنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
          رات میں آفاق اسے ملا تھا لاؤنج میں ٹہلتے ہوئے۔
          " تم جاگ رہے ہو آفاق! سے نیند نہیں آ رہی تھی' روز علی کو ساتھ سلا کر سوتی تھی۔
          "جی آپ بھی جاگ رہی ہیں۔"
          ”ہاں۔۔۔۔ وہ علی سو گیا کیا۔"
          " پتا نہیں' رو رہا تھا' بہت چڑچڑا ہو رہا ہے بہت دنوں سے۔"
          " ٹھیک طرح سے کھانا نہیں کھائے گا تو چڑ چڑا تو ہو گا نا۔"
          " آپ کہنا چاہ رہی ہیں وہ اسے کچھ نہیں کھلاتی۔ میرے سامنے سیریلیک کھلانے کی کوشش کی وہ کھاتا ہی نہیں۔"
          " ضروری نہیں وہ سیریلیک نہ کھائے تو اسے کچھ نہ کھلایا جائے ۔ فروٹ کھلاؤ اسے' کیلا تو شوق ہے کھاتا ہے وہ۔ اب دو سال کا ہونے کو آیا ہے۔ میں فش بوائل کر کے کھلاتی تھی تو کھا لیتا تھا۔ چاولوں کی کھیر بھی شوق سے کھاتا ہے۔ بچے کو مختلف خوراک دی جاتی ہیں اگر وہ ایک چیز سے چڑ جائے تو۔"
          " اب یہ سب میں تو نہیں کر سکتا ۔ " وہ بیزار سا تھا۔
          " میں کرتی ہوں ۔ مگر وہ بہت دنوں سے علی کو میرے پاس نہیں چھوڑ رہی حالانکہ وہ دور سے دیکھ کر روتا ہے۔ اشارے کرتا ہے' بلاتا ہے مجھے۔" "آپ کے پاس نہ چھوڑنے کی اس کے پاس کوئی وجہ ہو گی نا۔ وہ کہتی ہے آپ اسے بڑوں کے کھانے کھلاتی ہیں۔ وہ اسی لیے نمکین چیزیں پسند کرتا ہے۔ کوئی چیز ڈھنگ سے نہیں کھاتا۔ "
          " یہ بچے کی فطرت ہوتی ہے کہ وہ نمکین چیزیں زیادہ پسند کرتا ہے۔ تم بھی ایسے تھے دو بچوں کو پال چکی ہوں میں۔"
          "آپ اس سے بھی یہی کہتی ہیں۔"
          " کیا کہتی ہوں میں اسے۔" وہ حیران رہ گئی۔
          " مجھے نہیں پتا آپ کو پتا ہوگا۔ بہرحال میں بیزار ہو گیا ہوں اس صورت حال سے ایک طرف آپ ہیں دوسری طرف وه - میں جاؤں تو کہاں جاؤں۔"
          " میں نے تو تمہیں کچھ نہیں کہا آفاق۔"
          " یہ سب جو آپ کہہ رہی تھیں۔۔۔۔۔ وہ یہ کرتی ہے ' وہ یہ نہیں کرتی ۔
          " میں نے تو صرف علی کی بات کی تھی۔"
          "تو میں بھی علی کی ہی بات کر رہا ہوں ۔ دیکھئے وہ اس کی ماں ہے جو کرتی ہے کرنے دیں ۔ آپ ایک ماں سے اس کی اولاد نہیں دور کر سکتیں۔ آپ جو سوچ رہی ہیں وہ سب غلط ہے۔ ماں کیا ہوتی ہے۔ آپ کو کیا نہیں پتا۔"
          " مجھے پتا ہے ماں کیا ہوتی ہے۔ تمہیں نہیں پتا کہ ماں کیا ہوتی ہے نہ ہی اسے پتا ہے۔"

          Comment


          • #6
            "ٹھیک ہے۔ مجھے نہیں پتا نہ ہی اسے پتا ہے۔ آپ کو پتا ہے تو آپ ہی سمجھ داری سے کام لیں۔ چھوڑ دیں اسے پلیز ورنہ وہ چلی جائے گی یہاں سے۔ گھر ٹوٹ جائے گا میرا مت کریں ایسا ۔"
            " آفاق ! میں کیوں چاہوں گی تمہارا گھر ٹوٹے۔ تم دونوں ایسا کیوں کر رہے ہو میرے ساتھ ۔ ایک طرف وہ الٹی سیدھی باتیں کرتی ہے ایک طرف تم ہو۔ کیا ہو گیا ہے تم لوگوں کو۔"
            " ہم دونوں برے۔ آپ اچھی ہیں بس۔ وہ لاؤ نج سے جانے لگا۔
            "آفاق ! میری بات تو سنو۔"
            " آپا پلیز۔۔۔۔ بہت پریشان ہوں میں پہلے ہی۔ میں صرف اتنا سمجھتا ہوں آپ اگر میری ماں ہو تیں تو ایسا نہ کرتیں میرے ساتھ ۔" وہ کہہ کر رکا نہیں تھا۔
            " میں اگر تمہاری ماں ہوتی۔" وہ وہیں صوفے پر بیٹھ گئی۔
            اس کا ایک ہی جملہ گونج رہا تھا سماعتوں میں اور اس کا دماغ یہ ایک جملہ سننے کے بعد کچھ بھی سوچنے کے قابل نہیں رہا تھا جیسے۔۔۔
            "آپ اگر میری ماں ہوتیں۔"
            دل ٹوٹ کر بکھر رہا تھا۔
            " وہ کیوں گھر چھوڑ گئی ہے آفاق ۔۔۔۔۔ سب ٹھیک تو ہے؟" وہ کل سے بہت پریشان تھی جب پتا چلا کہ وہ سوٹ کیس بھر کر لے گئی ہے ، آفاق کل سارا دن غائب تھا شاید اس کے پاس تھا۔ ابھی وہ گھر آیا تھا اور اسے بات کرنے موقع ملا۔
            " وہ گھر نہیں آئے گی اب' میں علی کو دیکھنے گیا تھا۔ " وہ بہت تھکا ہوا نظر آ رہا تھا۔
            " کیا کہتی ہے وہ اسے پرابلم کیا ہے آخر؟" وہ کہتی ہے وہ آپ کے ہوتے ہوئے یہاں نہیں آئے گی ۔ "
            "میں نے اس کا کیا بگاڑا ہے؟"
            " مجھے نہیں پتا آپا ؟" وہ تھکے ہوئے انداز میں بیٹھ گیا۔
            " اسے سمجھاؤ آفاق ایسے نہیں ہوتا ہے۔"
            " وہ بہت ضدی ہے ، نہیں آئے گی۔"
            " تو اس کی ممی سے بات کرو وہ سمجھائیں' اسے مجھ سے کیا پر ابلم ہے بھلا۔"
            " میں کہتا تھا نا آپ کو مت ٹوکیں اسے مت ایسا کریں۔ اس دن سے ڈرتا تھا۔"
            " خوب تو گویا وہ تمہیں بلیک میل کر رہی ہے۔"
            " وہ جیسی بھی ہے بیوی ہے میری چھوڑ نہیں سکتا میں اسے اس کے بچے کا باپ ہوں میں۔"
            " میں نے تم سے نہیں کہا تم اسے چھوڑو۔"
            "تو پھرمیں کیا کروں یہ تو بتائیں میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔"
            " وہ چاہتی کیا ہے ؟" اسے خوب اندازہ ہو رہا تھا۔
            " آپ یہاں سے چلی جائیں یا ہم کہیں اور شفٹ ہو جاتے ہیں۔"
            " تم بھی یہی چاہتے ہو ؟" دل کٹنے کی تکلیف کیا ہوتی ہے اسے اچھی طرح پتا چل رہا تھا۔
            میں صرف سکون چاہتا ہوں۔"
            " مجھے بتاؤ کہاں جاؤں ؟" اس کی آنکھیں بھرآئیں۔
            " فلیٹ جو کرائے پر دے رکھا ہے۔ وہ خالی ہو سکتا ہے۔"
            " تو گویا تم پہلے سے ہی سب کچھ طے کر چکے ہو۔ "
            " میں یہ سب نہیں چاہتا آپا مگر میں کیا کروں میں مجبور ہوں۔"
            " بہت اچھی بات ہے۔ " اس نے اپنی آنکھیں صاف کیں۔
            " جتنی جلدی ہو فلیٹ خالی کرا دو۔ میں پیکنگ شروع کرتی ہوں۔" وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
            " اتنی جلدی خالی نہیں ہو گا۔ کچھ روز لگیں گے' جب تک آپ رہ لیں۔"
            " وہ آ جائے گی کل یہاں؟"
            " نہیں' اس نے کہا ہے آپ جائیں گی تو ہی وہ گھر میں قدم رکھے گی۔"
            " کل میں حرا کے پاس چلی جاؤں گی لاہور۔۔۔۔ تم اسے لے آنا۔"
            "جیسے آپ ٹھیک سمجھیں۔"
            اس نے صرف ایک لمحہ رک کر اس کے چہرے پر کچھ ڈھونڈنا چاہا تھا دکھ'پشیمانی' افسوس کچھ نہیں تھا سوائے اطمینان کے ۔۔۔۔۔ یہ وہی آفاق تھا اسے یقین کرنے میں بہت مشکل ہو رہی تھی ۔ وہ آفاق کچھ سال پہلے ہی اس نے کھو دیا تھا۔
            کہاں۔۔۔۔ خود اسے بھی معلوم نہ تھا۔
            " رات کو تیز ڈرائیو کر کے پہنچا تھا اور تم نے دروازہ نہیں کھولا۔"
            وہ دفتر سے آئی تو اپنا سیل فون چیک کیا جس پر چوبیس مسڈ کالز تھیں اور کئی میسج ۔۔۔۔۔ اس نے سارے ٹیکسٹ باری باری چیک کیے تھے اور پھر اسے کال بیک کی۔
            "تم کیوں تیز ڈرائیو کر کے پہنچے تھے وہ بھی رات کے وقت "
            پورے بارہ بجے میں تمہارے گھر پہنچا، آدھے گھنٹے تک بیل بجاتا رہا کیک لایا تھا تمہارے لیے۔ رات تمہاری برتھ ڈے سیلیبریٹ کرنا چاہی ۔
            " تمہیں یاد ہے مجھے تو یاد بھی نہیں رہتا اب۔"
            " مجھے بھی نہیں بھولا یہ دن۔ میں ہمیشہ کیک کاٹتا ہوں اس ڈیٹ پہ کیا تم آج میرے ساتھ سیلیبریٹ کر سکتی ہو؟ دیکھو' پھر تو تمہاری شادی ہو جائے گی پھرمیں نہیں ڈسٹرب نہیں کروں گا کبھی بھی۔"
            " تمہیں بہت دکھ ہوا ہے میری شادی کا سن کر؟" " نہیں اطمینان ہوا ہے کہ تم نے اپنے لیے بھی تو کچھ سوچا۔
            " شکریہ تمہارے نیک جذبات کے لیے۔"
            " کیا ہم مل سکتے ہیں کہیں باہر۔ "
            " کس حیثیت سے طاہر! تم شادی شدہ ہو اور میری شادی ہونے والی ہے۔"
            " پلیز آخری بار میں تمہارے ساتھ بہت ساری باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ مناسب سمجھو تو گھر آ جاؤں۔"
            نہیں گھر نہیں۔۔۔۔ "
            " پھر کہیں باہر۔۔۔۔

            Comment


            • #7
              "کہاں؟" اس نے لمبی سانس لی۔ وہ اس شخص کے آگے کیوں نرم پڑ جاتی تھی اسے خود پہ غصہ آتا تھا۔

              "جہاں تم کہو۔"

              "سمندر پر۔۔۔۔ گھنٹے بعد۔۔۔۔ پہنچ رہی ہوں۔" اس نے کہتے ہوۓ فون بند کیا۔

              "بہت شکریہ۔ "

              پہنچ رہی ہوں۔"

              وہ اپنے کمرے میں آ کر وارڈ روب کھول کر کپڑے دیکھنے لگی۔ پہلی بار انتخاب مشکل لگا تھا۔

              وارڈ روب کے آگے تین چار منٹ سے زیادہ نہیں رکتی تھی۔

              "یاد ہے کبھی تم نے کہا تھا کہ جب ہم بڑے ہوں گے تو وقت بہت بدل چکا ہو گا۔ سب کچھ ٹھیک ہو چکا ہو گا' سب کچھ ٹھیک ہو چکا ہے شاید پر ہم بدل گئے ہیں۔" اس نے کافی کا کپ ادھورا چھوڑ دیا تھا۔

              " مگر تم نہیں بدلے۔۔۔۔۔ ابھی بھی کافی کپ میں چھوڑ دیتے ہو۔ ہر کام ادھورا کرتے ہو۔ بتاؤ کتنی نوکریاں چھوڑی ہیں۔"

              " اب تک صرف چار۔۔۔

              " اب تک صرف چار۔۔۔۔ تمہیں شرم آنی چاہیے۔۔۔۔ چار کم ہیں۔ اب تو نوکریاں ملتی ہی نہیں ہیں۔"

              " مجھے ہر کام کی جلدی پڑی رہتی ہے۔ سوچتا ہوں جلدی جلدی سب کچھ ہو جائے۔ انتظار میری جان لے لیتا ہے۔ تم سے شادی بھی تو جلدی کرنا چاہی تھی پھر۔۔۔۔" وہ کپ کی سطح پر انگلیاں پھیرنے لگا۔

              " جلدی جلدی سب ہو تو گیا۔ شادی، بچے سب کچھ۔۔۔"

              "ہاں سب ہو گیا۔ اب لگتا ہے جیسے دل خالی خالی سا رہ گیا ہے۔"

              "ایسا کیوں سوچتے ہو۔ ہو نا ناشکرے۔"

              "ٹھیک سوچتا ہوں۔ مگر بدلی تم بھی نہیں اب تک اتنی ہی سچی ہو اتنی ہی سست۔ ہر کام دیر سے کرتی ہو۔ شادی بھی اتنی لیٹ۔"

              " ایک بات کہوں طاہر! میں شادی نہیں کر رہی۔"

              " کیا۔۔۔۔۔ مگر تم نے تو کہا تھا کہ کسی نے پروپوز کیا تھا اور۔۔۔۔"

              " ہاں کیا تھا۔ پر میں نے تبھی منع کر دیا تھا۔ مجھے شادی نہیں کرنی۔"

              " مگر کیوں نہیں کرنی یار تم اکیلی ہو۔ کیسے گزرے گی زندگی نہ بھائی ساتھ نہ بہن۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے مبینہ اپنے لیے سوچو پلیز۔ "

              " بس اس کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے۔"

              "یہ زیادتی کر رہی ہو اپنے ساتھ ۔۔۔۔۔ کاش ہماری شادی ہو جاتی۔"

              اچھا ہوا نہیں ہوئی میں ہر کام میں سستی کرتی ہوں۔ تم ہر کام میں تیز جوڑ نہیں بنتا روز لڑائی ہوتی۔ وہ زبردستی مسکرائی۔

              " یاد ہے تم کہتی تھیں کہ میں کھانا بنانے میں دیر لگاؤں کی تمہیں دفتر سے دیر ہو جائے گی پھر تم بگڑو گے۔ ہماری لڑائیاں ہوں گی۔" وہ کہتے ہوئے ہنسا تھا۔

              " ہاں یاد ہے۔" وہ بھی ہنسی۔

              " مبینہ! بہت اکیلا ہوں میں۔۔۔۔ شادی کرو گی مجھ سے؟"

              " ابھی تو تم نارمل تھے کیا ہو گیا ؟" وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی۔

              " میں اب بھی نارمل ہوں اور پورے ہوش و حواس کے ساتھ کہہ رہا ہوں پلیز مان لو۔"

              " تمہارا ایک گھر ہے، فیملی ہے بیوی بچے ہیں۔ تم ایسا کیسے کہہ سکتے ہو؟"
              ​" کیا زندگی پر میرا اپنا کوئی حق نہیں ہے۔۔۔ کیا میں اپنے لیے نہیں جی سکتا۔ سب کچھ دیا ہے میں نے بیوی کو اور بچوں کو اب کچھ دن اپنے لیے جینا چاہتا ہوں۔"
              " مجھے لگتا ہے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے گھر جاؤ آرام کرو میں بھی اب چلتی ہوں۔" وہ اٹھی تھی فوراََ۔
              " میں سنجیدہ ہوں مبینہ مجھے جواب چاہیے۔" وہ بھی اٹھا اس کے ساتھ ۔
              وہ اسے دیکھتی رہ گئی۔
              اس نے طاہر کو صاف صاف جواب دے دیا تھا۔
              وہ نہ اس کی کل اٹھا رہی تھی نہ میسج کا جواب دے رہی تھی۔
              یہ سچ تھا کہ زندگی تھوڑی نہیں بہت مشکل تھی۔ یہ بھی سچ تھا کہ اکیلے رہنا مشکل تھا۔ ماحول' باتیں، لوگ۔
              وہ ساری چیزوں کو نظر انداز کرتی رہی تھی۔ کئی دفعہ دیر سے آتے ہوۓ گاڑی خراب ہوئی تھی۔ کئی دفعہ وہ اکیلی بیچ سڑک کھڑی رہتی تھی۔ مگر کسی سے لفٹ لینے یا مدد لینے کا رسک نہیں لے سکتی تھی۔
              صرف ایک تنہائی تھی جس نے اندر سے توڑپھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اس کے ساتھ کوئی اچھا دوست تک نہیں تھا جس کے ساتھ کچھ وقت گزار کروہ تازہ دم ہو جاتی ۔ اس کی بہن کئی کئی مہینے اسے فون نہیں کرتی تھی۔ خود وہ ٹائم نکال کر کرتی تب بھی اس کے ساتھ زیادہ بات نہ ہو پاتی۔ وہ بار بار اسے بتاتی کہ غیر شادی شدہ بندہ شادی شدہ لائف کے بارے میں نہیں سمجھ سکتا۔ وہ اسے جتاتی کہ بے وقت فون سننا اس کے لیے مشکل ہے۔
              اس نے فون کرنا ہی چھوڑ دیا تھا۔
              اور جو اس کا بھائی تھا اس نے تو پلٹ کر خبر تک نہ لی تھی۔ یہ تھے اس کے اپنے جن کی خاطر اس نے زندگی قربان کی۔
              طاہر نے پھر بھی اتنا برا تو نہیں کیا اس کے ساتھ جتنا وہ لوگ کر رہے تھے۔ مگر پھر بھی اس نے شادی سے انکار کر دیا۔ کیوںکہ طاہر کی اپنی فیملی تھی وہ کیسے ان سب کی مجرم بن جاتی۔ وہ خاموش تھی۔ طاہر کئی بار دروازے سے لوٹ گیا تھا۔ دو چار چکر اس نے دفتر کے لگا لیے۔ آخر کار مجبور ہو کر اس نے سوچنے کے لیے وقت مانگا۔ وہ اپنے بہن' بھائی سے مشورہ کرنا چاہتی تھی۔ اس نے آفاق کو بلایا مگروہ نہیں آیا۔ دو دن بعد وہ خود اس کے گھر پر تھی۔ علی نے بہت دنوں بعد دیکھا تھا مگر لپٹ گیا۔ اس کی گود سے اتر نہیں رہا تھا۔
              اس نے علینہ کو اگنور کر دیا تھا کیوں کہ اس کا رویہ ویسا ہی عجیب تھا۔ اس نے ڈائریکٹ آفاق سے بات کی تھی۔
              " آپ شادی کر رہی ہیں ؟ وہ حیران ہو گیا تھا۔ علینہ نے طنزیہ نظروں سے پہلے اسے پھر آفاق کی طرف دیکھا تھا۔
              " اس عمر میں آپ کو شادی کی کیا ضرورت پڑ گئی ہے۔"
              عادت سے مجبور علینہ چپ نہیں رہ سکی تھی۔
              " میں اپنے بھائی سے بات کر رہی ہوں۔"
              " آپ کو واقعی کیا ضرورت ہے آپا۔۔۔ آپ اچھی جگہ رہتی ہیں اچھا کھاتی ہیں خوش ہیں۔" وہ بھی بیوی کے ساتھ متفق تھا۔
              " میں اکیلی رہتی ہوں۔ مجھے کئی مسائل ہیں۔ طاہر بہت فورس کر رہا ہے۔"
              " وہ دھوکے باز آیا۔۔۔۔ کیا کیا تھا اس نے آپ کے ساتھ ۔ کچھ یاد ہے؟"
              " اچھا تو میرے ساتھ کسی نے نہیں کیا ۔ اگر میں یاد کرتی رہوں تو زندہ کیسے رہوں گی بھلا۔"
              " ٹھیک ہے ۔ آپ کی مرضی۔ مگر میں نہیں سمجھتا یہ شادی کامیاب ہوگی۔"
              یہ اس کا بھائی تھا جو پہلے سے شادی کی ناکامی کی پیش گوئی کر رہا تھا بجائے کوئی دعا دینے کے' بجائے حوصلے کے۔
              وہ اسے دیکھتی رہ گئی ۔
              " آپ کو اب اگر اتنا ہی شوق ہوا ہے شادی کا تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں بھلا۔ "

              یہ وہی زہر اگلنے والی بلا تھی۔
              "میرا خیال ہے۔ میں چلتی ہوں۔ علی گود سے اتر کر کھیلنے لگا تھا وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
              " شادی پر تو بلائیں گی نا۔" علینہ کا لہجہ ویسا ہی تھا۔
              " ضرور!" وہ اتنا ہی کہہ سکی۔
              گھر آتے ہی اس نے سب سے پہلا فون طاہر کو کیا تھا۔ اور پھر حرا کو۔۔۔۔ بیل مسلسل جا رہی تھی۔
              تیسری چوتھی بیل پر اس نے فون اٹھ ہی لیا تھا۔
              " ہاں آپا! بولیں شرجیل کے کپڑے چھوڑ کر آئی ہوں پریس کرنے لگی تھی۔ پر فون بج رہا تھا رنگ پہ رنگ سب خیریت ہے نا؟" وہی سلام دعا کے بغیر عجلت بھرا لہجہ۔
              " بہت ضروری بات کرنی تھی تم سے۔۔۔۔ میں شادی کر رہی ہوں۔"
              " کس کے ساتھ ؟"
              " طاہر کے ساتھ ۔۔۔۔"
              " ہیں۔۔۔۔ آپا ہوش میں ہیں۔ طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟"
              "حرا میں ٹھیک ہوں بالکل سب ٹھیک ہے۔ میں اپنے ہوش میں ہوں۔"
              " آپا شادی اب۔۔۔۔ اب کیا فائدہ ؟"
              " کیا مطلب؟ کیا فائدہ۔"
              " مطلب یہ کہ آپا اتنی عمرمیں پرابلم ہوتی ہے۔ بچے۔ وہ کہتے کہتے رُک گئی۔
              " حرا میں شادی بچوں کے لیے نہیں اپنی تنہائی کی کی وجہ سے کر رہی ہوں۔"
              " آپا اس عمر میں؟"
              " اسی عمر میں تو کسی اپنے کے ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے۔"
              ”میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آ رہا آپا!"
              " تم اپنے کمزور دماغ پر زور مت ڈالو۔ یہ بتاؤ آسکوگی یا نہیں؟"
              " آپا ! میرے میاں کیا کہیں گے۔ لوگ کیا کہیں کے۔ آپ نے کچھ تو سوچ لیا ہوتا۔ " یہ بھی اس کی سگی بہن تھی ۔
              "ٹھیک ہے حرا! یہی کہنا ہے یا اور بھی کچھ باقی ہے؟"
              "میرا تو دماغ کام نہیں کر رہا آپ کی بات سن کر۔"
              " اور میرا دل کام نہیں کر رہا تم لوگوں کی باتیں سن کر۔" اس نے فون رکھ دیا اور بیٹھ گئی۔ یہ تھے اس کے اپنے اور یہ تھے لوگ۔ شادی کی بات سنتے ہی اعتراضات کھڑے ہو گئے تھے۔ وہ حیران تھی۔ حالانکہ اب اسے حیران ہونے کی ضرورت نہ تھی۔
              اس نے ان چند دنوں میں لوگوں کے مزید رنگ دیکھ لیے تھے کہ جب کوئی اپنی زندگی بنانے جا رہا ہو تا ہے تو لوگ کیا کرتے ہیں۔ ہاتھ سے نہیں روک سکتے ، عمل سے نہیں روک سکتے مگر زبان سے کوشش ضرور کرتے ہیں۔
              اور سب سے زیادہ بات کرنے اور انگلی اٹھانے والے کون تھے خود اس کے اپنے بہن بھائی۔ جو رشتے دکھ سکھ کے ساتھی کہلاتے ہیں۔ وہی رشتے اسے برا بھلا کہہ کر مزید خون جلا رہے تھے۔
              ایک دن اسے طاہر اپنے ساتھ شاپنگ پر لے گیا اور مال میں علینہ اور آفاق مل گئے۔ علینہ باز نہیں آئی تھی پاس سے گزرتے ہوئے بھی دل جلا گئی' اسے ایسے کاموں میں کمال حاصل تھا۔ آفاق کتنا انجان تھا۔ اسے ایک دفعہ احساس ہوا کہ اس سے پوچھے' بات کرے' کہے کہ وہ اس کا چھوٹا بھائی ہے جسے بچوں کی طرح اس نے پالا ہے اور یہاں تک پہنچایا ہے۔ مگر اس کے پاس وقت ہی کہاں تھا اس کے لیے رک کر بات سننے اور سمجھنے کے لیے وہ اسے دور تک جا تا دیکھتی رہی تھی۔

              Comment


              • #8
                چلیں مبینہ ! " طاہر اس کے ساتھ کھڑا تھا۔
                "ہاں چلیں۔۔۔۔ " وہ چپ چاپ اس کے ساتھ باہر نکل آئی تھی۔
                " ان لوگوں کی خاطر تم ضائع کر رہی تھیں خود کو۔ " وہ گاڑی میں بیٹھتے اسے جتانے لگا۔
                " تب وہ لوگ نہیں بچے تھے۔ اب لوگ بنے ۔"
                "جانے دو تم تو پھر بھی ۔۔۔۔ "
                " طاہر ! میں سب کچھ بھلا دینا چاہتی ہوں۔ ہر حوالے سے۔"
                " اوکے تو آگے کے کیا پلان ہیں پھر؟"
                " نہیں طاہر ! اب کوئی تیاری نہیں پلیز۔۔۔۔۔ سادگی سے چند لوگوں کی موجودگی میں نکاح ہو گا۔ میں دفتر کے لوگوں کو بلا لوں گی۔ تم اپنے ایک آدھ کسی دوست کو بلا لینا۔"
                " تاریخ کیا سوچی تم نے؟"
                " اٹھائیس ٹھیک ہے۔"
                " ہوں۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے پورے بائیس دن ہیں۔ زیادہ نہیں؟"
                " بہت کم ہیں طاہر بائیس دن۔"
                " بائیس دنوں میں تو بہت کچھ ہو جاتا ہے یار۔"
                " کچھ نہیں ہو تا طاہر! اتنے سالوں میں کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔ بائیس دنوں میں کیا ہو جائے گا بھلا ہے"؟
                " تم کہتی ہو تو ٹھیک ہی ہے تمہیں فلیٹ پر چھوڑ دوں؟"
                " ہاں پھر تمہیں اپنے گھر بھی جانا ہے۔ اپنے بیوی سے بچوں کے پاس۔ وہ سب ویٹ کر رہے ہوں گے تمہارا ہے نا؟"
                " پلیز مبینہ ! کیا ہم ایک ساتھ رہتے ہوئے صرف اپنی بات نہیں کر سکتے؟ "
                " یہ ایک حقیقت ہے۔۔۔۔۔" اس کی مسکراہٹ میں تھکن تھی 'تم نے سوچا ہے طاہر! تم کیسے مین ٹین کرو گے سب کچھ ۔"
                " نہیں تمہیں اس بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں کر لوں گا۔ اور میں نہیں چاہتا کہ اس بات کو لے کر ہمارے بیچ میں کوئی بھی تلخی آئے۔ دیکھو مبینہ جب میں تمہارے پاس ہوں تو صرف تمہارا ہوں گا۔"
                " اور جب ان کے پاس ہو گے تو صرف ان کے ہو گے۔" وہ اسے بغور دیکھ رہی تھی۔
                " پلیز مبینہ!" وہ الجھے ہوئے انداز میں باہر دیکھ رہا تھا۔
                ”ہمارے آنکھیں بند کر لینے سے کچھ نہیں بدلے گا طاہر !"
                " پلیز تم چاہتی ہو کہ میں کہیں گاڑی دے ماروں۔" وہ چلایا۔
                " تم ایموشنل کیوں ہو رہے ہو طا ہر ؟"
                "دیکھو میں تمہیں نہیں چھوڑ سکتا اب ان ساری باتوں کو بنیاد بنا کر تم ایسی باتیں مت کرو ٹینشن ہوتی ہے مجھے ۔"
                "اچھا او کے بس آخری سوال ۔"
                " کہو۔" وہ بے بسی سے دیکھنے لگا اسے۔
                " اپنی فیملی کو شادی کے بارے میں بتایا ہے ؟"
                " بتا دوں گا۔ " وہ فورا ڈھیلا پڑ گیا تھا۔
                " تم نے اب تک بتایا نہیں ؟ وہ تعجب سے دیکھنے لگی۔
                " میں ضروری نہیں سمجھتا۔"

                پور پور میں اتر رہی تھی۔ حالانکہ ابھی بہت کام باقی تھے۔
                پورے اٹھارہ دن پر لگا کر اڑے تھے۔ ان کی شادی مزید ایک ہفتہ لیٹ ہو گئی تھی۔ طاہر کچھ مصروفیات میں پھنسا ہوا تھا۔
                وہ بتا رہا تھا دفتر میں نیا پروجیکٹ ملا ہے۔ بہت سارا کام ہے۔
                اس نے سوچا چلو وہ بھی کچھ سستا لے گی۔
                وہ روز اسے میسج کر کے حال احوال پوچھتی۔ پورے سولہ دنوں سے ان کی ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی ۔ وہ کہاں مصروف تھا۔
                آج وہ ساحل سمندر پر آئی تھی۔ دل چاہ رہا تھا کچھ فریش ہوا جائے۔
                اس نے کہا تھا اتوار کو ملیں گے۔ وہ اتوار کی شام اس کے انتظار میں یہاں بیٹھی تھی۔
                " کہاں ہو طاہر تمہارے بیٹے کی طبیعت کیسی ہے اب ؟" وہ کال ریسیو نہیں کر رہا تھا اس نے میسج کر دیا ہے۔
                " ابھی بھی بخار ہے اسے میں دفتر میں ہوں میٹنگ میں۔"

                طاہر ! آج سنڈے ہے۔ " وہ لکھتے لکھتے رک گئی کیوں کہ وجہ سامنے تھی۔
                وہ اس سے کچھ فاصلے پر تھا۔ وہ اپنے بچوں اور بیوی کے ساتھ سمندر پر موجود تھا۔ وہ اپنے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ اس کی بیوی کے چہرے پر کھلکھلاتی مسکراہٹ تھی۔ اور وہ خود کتنا مطمئن تھا۔ کتنی مکمل فیملی تھی ' کتنا سکون تھا ۔ سب کچھ تو تھا ایک مکمل فیملی'مکمل گھر۔
                کیا کمی تھی۔ سب کچھ تو تھا۔ پھر وہ ان سب میں کہاں تھی۔ کسی جگہ تھی ۔ اس کا کیا مقام تھا وہ کہاں کھڑی تھی۔ کیا حیثیت تھی اس تعلق کی ایک طرف مکمل گھر اور ایک طرف صرف وہ ۔۔۔۔ وہ کتنے دنوں سے نہیں آیا تھا۔
                اس نے ان دنوں میں اسے کتنا یاد کیا ۔ آواز دی اور وہ جھوٹ پر جھوٹ بولتا جا رہا تھا۔ ایک جھوٹ دو جھوٹ ۔ کتنے جھوٹ ۔ کل ملا کر کتنے جھوٹ ۔ وہ ایک جھوٹ کی بنیاد پر گھر بنا رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو کیوں بہے تھے۔ اسے دکھ کیوں ہوا تھا۔
                وہ الٹے قدموں واپس پلٹی تھی۔
                " دفتر میں ہوں۔ میٹنگ ہے۔ کام ہے۔ " اس کا ٹیکسٹ کھلا ہوا تھا۔
                " آج تو سنڈے ہے طاہر! آج بھی دفتر میں ہو۔۔۔۔۔ آج بھی کام ہے۔ سمندر تو اس کے اندر ٹھاٹھیں مارتا رہا۔ دکھ کا سمندر وہ رو رہی تھی پروہ رونا نہیں چاہتی تھی
                اس نے آج بہت تیز ڈرائیو کیا تھا پلیئر آن کر دیا
                شام سے پہلے آنا
                پھول سارے کھل رہے ہوں
                دھوپ ساری ڈھل رہی ہو
                موسم سارے لے آنا
                پھر وہی دن آئے ہیں
                جانے کیا لے آئے ہیں
                جیون میرا ۔۔۔۔ سارا تیرا۔۔۔۔۔
                جینا تو اک بہانہ ہے۔
                "شادی کرو گی مجھ سے؟"
                ایک شرط پر۔۔۔۔"
                "وہ کیا ؟"
                " تم کافی کا پورا کپ پیو گے۔"
                " اور؟"
                "اور یہ کہ نوکری نہیں چھوڑو گے۔"
                "بس اتنا۔۔۔۔ قبول ہے۔"
                "جھوٹ نہیں بولو گے؟"
                " نہیں بولوں گا۔"
                "مجھ سے ہمیشہ محبت کرو گے۔"
                "ہمیشہ کروں گا۔ "
                "مجھے چھوڑ تو نہیں دو گے؟"
                " کبھی نہیں۔"
                ایک تیرے آ جانے سے
                مل رہے ہیں زمانے سے
                جیون میرا۔۔۔۔ سارا تیرا۔۔۔۔۔
                دور اب کیا جانا ہے
                شام سے پہلے آنا۔
                شام تیزی سے ڈھل رہی تھی۔ شام اس کے اندراتری ہوئی تھی۔
                ہال رنگین روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ آج وہ بھی یہاں انوائیٹڈ تھا۔ اسے ایک میسیج کیا ۔
                "پتا نہیں کہاں ہو تم ۔ "
                "ہو کہاں مصروف؟"
                "مجھے پتا ہے ناراض ہو جب ہی کوئی جواب نہیں دیا۔"
                "بدلہ لے رہی ہو نا ۔ چلو لے لو خوش ہو جاؤ۔"
                "میں آتا ہوں ملنے اور منانے۔ ایک ہفتے سے مصروف تھا۔"
                وہ کسی میسیج کا جواب نہیں دے رہی تھی۔

                Comment


                • #9
                  " پتا ہے مبینہ ! آج ہماری شادی کی ڈیٹ فکس ہوئی تھی نا۔ سوری میری مصروفیت کی وجہ سے سارا کچھ لیٹ ہو گیا ہے۔"

                  تمہیں کہا بھی تھا کہ بائیس دن بہت ہیں۔ مگر تم بھی نا۔ چلو کوئی بات نہیں ہم اب دور کی ڈیٹ نہیں رکھیں گے۔ ایسا کرتے ہیں کل ہی مولوی کو بلا کر نکاح پڑھوا لیتے ہیں۔۔۔۔۔ کیا خیال ہے؟"

                  " یار جواب تو دو نا۔۔۔۔!"

                  وہ ہال میں بیٹھا بور ہو رہا تھا، ابھی دولہا دلہن بھی نہیں آئے تھے وہ شاید وقت سے پہلے آ گیا تھا۔ یا دیگر مہمان لیٹ ہو گئے تھے۔

                  " دیکھو اب میں تیز ڈرائیو نہیں کرتا مبینہ !"

                  " آج میں نے کافی کا پورا کپ پیا تھا۔ یہ مت پوچھنا کہ کافی کس نے بنائی تھی اور یہ بھی مت پوچھنا کہ کیسی تھی؟"

                  وہ اسے جواب دینے کے لیے اکسا رہا تھا۔

                  " اچھا نوکری بھی نہیں چھوڑوں گا اب۔ "

                  " اچھا سنو نا! جواب تو دو میں یہاں شادی میں بیٹھا ہوا ہوں۔"

                  " دولہا دلہن نہیں آئے۔ آؤ دونوں یہاں بیٹھ کر نکاح پڑھوا لیں' کیسا آئیڈیا ہے ۔ تمہارے گھر سے قریب ہے یار آ جاؤ نا مبینہ !"

                  " اچھا چلو ٹھیک ہے میں ہی آ جاتا ہوں۔۔۔۔ بس عمیر سے مل لوں' اس کا بھائی میرا بہت اچھا دوست ہے۔

                  سینٹ آئٹم بھرا ہوا تھا۔ اور ان باکس خالی تھا ایک بھی جواب نہیں آیا تھا اس نے لمبی سانس بھری اور دوسری طرف متوجہ ہوا۔

                  دولہا دولہن آ رہے تھے۔ دولہا بہت خوش لگ رہا تھا۔

                  دولہن کا گھونگھٹ نکلا ہوا تھا۔ یقیناً وہ بہت خوب صورت ہوگی۔ وہ سوچتے ہوئے اسٹیج تک آیا۔

                  عمیر سے گلے ملا اسے مبارک باد دی پھر نیچے آ گیا۔

                  کھانے کے بعد رخصتی تھی۔ رخصتی کی گھڑی بھی عجیب ہوتی ہے۔ وہ عمیر کے بھائی کے ساتھ ہال کے گیٹ پر کھڑا باتیں کر رہا تھا۔ جب دولہا دلہن ساتھ ساتھ چلے آ رہے تھے۔

                  مووی والے کی ہدایت پر کسی نے دلہن کا ڈوپٹہ ٹھیک کیا تھا۔ اس کی نظر اٹھی تھی اور۔۔۔۔

                  کیا وہ وہی تھی۔۔۔ یا اس سے ملتی جلتی؟ مگر یہ تو بہت حسین تھی۔

                  " بھا بھی عمیر سے بڑی ہیں کچھ سال۔ مگر یہ ماننا پڑے گا کہ عمیر سے زیادہ خوب صورت لگ رہی ہیں ہیں نا۔ " عمیر کی بہن کہہ رہی تھی۔

                  " اچھا۔ اللہ ان دونوں کو خوش رکھے۔ مبینہ بھا بھی بہت اچھی خاتون ہیں۔ مل چکا ہوں میں بہت دفعہ۔" عمیر کا بھائی اس سے مخاطب ہوا تھا۔ وہ پتھر کے بت کی طرح کھڑا تھا۔

                  " اتنا بڑا دھوکا میرے ساتھ ۔۔۔۔ اتنی بڑی گیم مبینه ! کھیلا ہے تم نے میرے

                  ساتھ ۔ دھوکا کیا ہے۔۔۔۔ کچھ دیر بعد سینٹ آئٹم میں ایک اور میسج کا اضافہ ہوا تھا۔ اس سے کھڑا ہوا نہیں جا رہا تھا۔ وہ اپنی گاڑی میں آ کر بیٹھ گیا جب سیل فون بجا۔ مبینہ کالنگ جگمگا رہا تھا
                  ​تم نے اتنا بڑا دھوکا کیا میرے ساتھ ۔ یہ ڈیٹ تو ہماری شادی کی تھی۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تم مجھ سے اس طرح بدلہ لوگی؟" وہ برس پڑا تھا۔ " میں نے نہ تم سے بدلہ لیا ہے طاہرنہ گیم کھیلا ہے۔ میں نے تو اس گیم کو انجام تک پہنچایا ہے جسے تم ادھورا چھوڑ گئے تھے۔ گیم تو تم کھیل رہے تھے میرے ساتھ تب بھی اور اب بھی۔ ہر بار اپنی باری کھیل کر تم ہٹ جاتے تھے میں نے تو صرف اپنی باری کھیلی ہے۔ اب ڈراما ختم اور زندگی شروع۔"
                  فون ساکت تھا۔ وہ ساکت تھا۔ ہر چیز ساکت تھی کیونکہ ڈراما ختم تھا اور زندگی تو اب شروع ہوئی تھی!

                  Comment


                  • #10
                    Wah lafzon ma biyan nhi kya ja sakta boht khoobsurat kahani kya likhi ha or end ki to kya bat boht zabardast end yaqeenan mobina na sahe kya sari zindagi us na dusron ka bare ma socha or usye kya mila khuch b nhi pehli bar us na apne bare ma socha

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X