Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

ویلنٹائین ڈے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • ویلنٹائین ڈے

    آج معمول سے زیادہ سردی تھی۔ بادل بھی چھاۓ ہوۓ تھے۔ اندر کی تنہائی سے گھبرا کر میں سامنے والے پارک میں چلی گئی۔ پارک میں اکا دکا لوگ موجود تھے۔ ہمیشہ کی طرح جا کر بنچ پر بیٹھ گئی۔
    سردی سے کپکپاتے جسم کو میں نے چادر سے ڈھانپنے کی ناکام کوشش کی میرے بنچ سے آگے والے بنچ پر ایک اور لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ چپس کھانے کے ساتھ ساتھ موبائل پر کسی سے گفتگو بھی کر رہی تھی ۔ میں نہ چاہتے ہوۓ بھی اسی کی طرف متوجہ ہو گئی۔ بات کرتے وقت اس کی اواز کبھی اونچی اور کبھی بہت دھیمی ہو جاتی تھی کسی کی باتیں چوری چھپے سننا اصولا بری بات ہے۔ مگر اس لڑکی کی باتوں میں ویلنٹائن کا ذکر سن کر میں چونکے بنا رہ نہ سکی۔
    آہ! کل 14 فروری ہے میرے لیے دکھوں بھرا دن تین سال ہو گئے مجھے اپنی نادانی میں کی گئی غلطی کی سزا اب بھی یاد ہے' 14 فروری کا وہی ظالم دن تھا۔ جب میرے اپنے میری نادانیوں کی وجہ سے مجھ سے دور ہو گئے تھے۔ اتنے دور کہ میں اب چاہتے ہوۓ بھی ان کو اواز نہیں دے سکتی ہوں۔
    میرے اندر کا دکھ اچانک بڑھ گیا تھا۔ وہ لڑکی اب بھی موبائل سے لگی ہوئی تھی۔ خود پر قابو پانے کے بعد اٹھ کر اس نادان لڑکی کے پاس چلی گئی جو گھر والوں سے چھپ کر ویلنٹائن منانے کا پروگرام بنا رہی تھی۔ مجھے اپنی طرف آتا دیکھ کر اس نے فورا موبائل کان سے ہٹا کر بند کر دیا۔
    " مجھے نہیں پتا کہ تم کون ہو اور نہ تم مجھے جانتی ہومگر میرا مقصد تمہیں سمجھانا ہے۔ کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ تم بھی میری طرح اپنوں کا بھروسہ گنوا دو۔ میری طرح جان بوجھ کر غلطی کا خمیازہ ساری زندگی بھگتو۔"
    " کون ہیں آپ؟ اور یہ کیا کہہ رہی ہیں؟" وہ لڑکی حیرت سے بولی۔
    " میں کل وہ تھی جو آج تم ہو اور میں نہیں چاہتی کہ تم وہ بنو جو آج میں ہوں ۔ چلو ان باتوں کو چھوڑو میں تم کو اپنی کہانی سناتی ہوں۔ سن کر تم کو سمجھ آۓ گی حالانکہ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اپنا ماضی کا کمزور گوشہ کسی کے ساتھ شئیر کرنے کا ' آج دل پر پتھر رکھ کر میں اپنی ماضی کی کہانی تم کو سنانا چاہتی ہوں' کیونکہ میں نہیں چاہتی ہوں کہ کوئی بھی لڑکی ایسی غلطی کرے جو میں کر چکی
    ​​​​​​ہوں۔" وہ لڑکی شش و پنج میں تھی۔
    " بہت زیادہ وقت نہیں لوں گی؟ "میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر بٹھا لیا۔ وہ الجھن​​ ​​​​​​میں مجھے دیکھتی ہوئی بنچ کے کنارے پر بیٹھ گئی۔
    " میں زارش سلمان تین بھائیوں کی اکلوتی بہن ہوں۔ گھر بھر کی لاڈلی۔ بھائیوں کی تو مجھ میں جان تھی۔ امن اور بابا بھی مجھ سے بے پناہ پیار کرتے تھے۔ میٹرک تک مجھے بھائی اسکول چھوڑنے جاتے تھے الگ الگ دن کو ڈیوٹی ہوتی تھی تینوں بھائیوں کی۔ وہ دن بہت اچھا تھا جب میں نے میٹرک پاس کیا اس دن بابا نے شاندار پارٹی رکھی گھر میں۔
    پھر میرا داخلہ شہر کے مشہور کالج میں ہوا۔ کیونکہ ڈاکٹر بننا میرا شوق تھااور بابا کا خواب بھی' میں بہت محنت سے پڑھتی تھی وہاں کالج میں ہمارا الگ گروپ بنا ہوا تھا۔ جس میں میرے علاوہ پانچ اور لوگ تھے۔ کرن' رملا' علی' احمد' کاشف ان سب میں میری کاشف سے دوستی زیادہ تھی۔ کاشف بھی مجھے پسند کرتا تھا۔ اس طرح ایک دن میں لائبریری سے آئی تو وہ سب زور و شور سے کسی بات پر بحث کر رہے تھے۔
    " کیا بات ہے۔ اتنا شور کیوں مچایا ہوا ہے ؟" میں کاشف کے قریب بیٹھ گئی۔
    " چلو زارش آ گئی ہے اب وہ فیصلہ کرے گی ' چلو بتاؤ زاری اس بار ہم ویلنٹائن پر کہاں جائیں گے ۔" رملہ نے سب کو خاموش کروا کر مجھ سے پوچھا۔
    " ویلنٹائن تو میں نے کبھی نہیں منایا تم لوگ جگہ کا فیصلہ کرو۔"
    " کیا مطلب ہم جگہ کا فیصلہ کریں۔ تو کیا تم نہیں جاؤ گی؟" کاشف نے چونک کر مجھے دیکھا۔
    " دراصل مجھے کہیں باہر جانے کی اجازت نہیں ہے اور اس طرح اس دن کع منانے کے لیے میں باہر جانے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔
    " لو یہ کیا بات ہوئی جس کے لیے میں نے یہ پروگرام بنایا ہے۔ جب یہ نہیں جا رہی ہے پھر کیا فائدہ ؟ پھر میں بھی نہیں جا رہا ہوں۔" کاشف نے ناراضی سے کہا۔
    " کیا ہے زارش تمہارے بغیر تو زرا بھی مزا نہیں آۓ گا ۔ اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے۔ ہم گھر والوں کو بغیر بتاۓ جائیں گے۔ گھر سے کالج آئیں گے اور پھر یہاں سے چلے جائیں گے۔" کرن نے تو پورا پروگرام ترتیب دے لیا۔
    " کیا ہے یار چلی چلو نا گھر والوں کو کون بتاۓ گا۔" مجھے تذبذب میں دیکھ کر کرن نے میرا حوصلہ بڑھا دیا۔
    " میں نے گھر والوں سے کبھی کوئی بات نہیں چھپائی تھی اور نہ میں کاشف کو ناراض کرنا چاہتی تھی۔ چلو ٹھیک ہے۔ مگر ہم جلدی واپس آئیں گے۔" میں نے کہا۔
    " ہاں جلدی واپس آئیں گے۔" علی نے کاشف کو دیکھ کر آنکھ ماری' میرے دوست کے گھر ویلنٹائن پارٹی ہے۔ ہم سب وہاں جائیں گے۔ بہت مزا آۓ گا۔" سب اس بات پر متفق ہوۓ۔
    گھر آ کر میں تھوڑی پریشان تھی۔ یہ سوچ کر اپنے آپ کو تسلی دی کہ میں کونسا غلط کام کر رہی ہوں۔ اگلی صبح منصوبے کے مطابق ہم کالج کے ساتھ والی دکان کے سامنے چلے گئے۔ وہاں رملہ اور کرن میرا انتظار کر رہی تھیں۔ تھوڑا آگے جا کر کاشف کی کی گاڑی کھڑی تھی۔ علی اور احمد بھی ساتھ تھے۔ " جلدی سے بیٹھو۔شکر ہے کہ تم آ گئی زاری۔"
    " کیسے نہ اتی میں نے بھی بلایا تھا۔" کاشف نے کہا۔

    " ہاں اب تک کون تم کو انکار کر پایا ہے۔ کسی کی اتنی جرات کے میرے یار کے کہنے پر نہ آۓ۔" احمد کی بات پر سب نے قہقہہ لگایا ' یوں ہم سارے راستے پر ہنسی مذاق کرتے رہے اور پھر آدھ گھنٹہ بعد ہم ایک خوب صورت بنگلے کے سامنے رک گئے۔ جو کہ انتہائی سنسان جگہ پر تھا۔
    " کاشی یہ تمہارے دوست کا بنگلہ تو ڈریم لینڈ ہے مائی گاڈ۔" رملہ نے کہا۔
    " اندر چلو یہ اس سے بھی زیادہ خوب صورت ہے۔" کاشف نے کہا۔
    ہم سب اندر چلے گئے۔ اندر سے واقعی بنگلہ بہت خوب صورت تھا۔ اندرونی ہال میں جوں ہی ہم داخل ہوۓ ۔ میوزک کی تیز اواز نے ان کا استقبال کیا۔ وہان کافی تعداد میں لوگ موجود تھے۔ کچھ لڑکیاں سٹیج پر ڈانس کر رہی تھیں۔ مجھے یہ سب دیکھ کر کچھ عجیب سا لگ رہا تھا۔ ہمیں دیکھ کر درمیانی عمر کا آدمی ہماری طرف آ گیا۔
    " ہیلو ینگ مین کیسے ہو تم بہت دیر کر دی تم لوگوں نے۔" وہ آدمی کاشف کو گلے ملتے ہوۓ بولا۔
    " لیٹ تو نہیں ہوۓ ہیں ابھی تو 9 بجے ہیں۔"
    " لیٹ ایسے کہ یہ پارٹی تو رات 12 بجے سے جاری ہے اچھا اب سب کا تعارف کروا دو۔ اس نے کاشف کو کہا۔
    " ہاں یہ کرن ' رملہ اور زارش میں اور یہ علی اور احمد ہیں۔" کاشف نے تعارف کروایا کاشف اور آغا فیضان کے دوست کہنے پر مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ کیونکہ وہ کاشف سے عمر میں کافی بڑا تھا۔
    " واؤ سب کو دیکھ کر بہت اچھا لگا۔" آغا فیضان نے کہا۔
    " چلو اندر اور انجواۓ کرو۔" آغا فیضان نے انجواۓ پر کافی زور دیا۔ رملہ اور کرن گھوم پھر کر اندرونی ہال دیکھ رہی تھیں۔ جبکہ میں کافی نروس وہاں کھڑی رہی۔
    " آؤ نہ رک کیوں گئی۔ کاشف میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اندر لے گیا۔ مجھے ایک سائیڈ پر کرسی پر بٹھا کر کاشف وہاں سے چلا گیا۔ رملہ اور کرن نجانے کہاں رہ گئیں تھیں' میں نے ان کی تلاش میں نگاہیں دوڑائیں لیکن وہ کہیں بھی نظر نہیں آ ئیں مجھے پریشانی نے گھیر لیا۔ وہاں میں نے کافی وقت گزارا مگر کسی کا کوئی پتا نہیں تھا۔
    ہال میں عجیب سا سماں تھا۔ اسٹیج پر لڑکے لڑکیاں بے ہودہ رقص کر رہے تھے اور بعض اپنے اپنے پارٹنر کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
    " آپ کیوں خاموش بیٹھی ہیں۔" نجانے کب آغا فیضان میرے ساتھ والی کرسی پر آ کر بیٹھ گیا تھا۔
    " جی! لگتا ہے آپ پہلی بار ایسی پارٹی میں آئی ہو ۔"
    آغا میرے قریب ہو کر کہنے لگا۔ میں اپنے آپ میں سمٹ گئی۔ مجھے خاموش دیکھ کر آغا نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔
    " چلیں آؤ تمہیں انجواۓ کرواؤں۔"
    " کیا بے ہودگی ہے چھوڑو میرا ہاتھ ۔" میں نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی بہت کوشش کی مگر اس کی گرفت بہت مضبوط تھی۔
    " چھوڑ دیں گے اتنی بھی کیا جلدی ہے۔" اس نے کمینگی سے کہا جبکہ میرا حال بہت برا تھا۔

    " کاشف' کاشف' رملہ' علی کہاں ہو تم سب۔ مگر بے سود وہ لوگ نجانے کہاں چلے گئے تھے۔ سب لوگ آپس میں اتنے مگن تھے کہ کسی نے بھی میری چیخنے کی اواز نہ سنی۔
    " نکالو جتنی اوازیں نکال سکتی ہو اور رہا کاشف وہ ہی تمہیں میرے پاس لایا ہے۔ بقول اس کے بہت ٹاپ چیز ہو تم۔" وہ خباثت سے مسکرایا اور پھر مجھے گھسیٹ کر اندر لے جانے کی کوشش کرنے لگا۔ میں نے بھرپور مزاحمت کی۔ مگر بےسود۔ وہ مجھے گھسیٹ کر سامنے کمرے میں لے آیا۔
    " یا اللہ میری عزت بچا لے۔" روتے روتے میں نے پوری شدت سے خدا کو پکارا' شاید وہ لمحے قبولیت کے تھے۔ باہر بہت شور مچا ہوا تھا۔ لوگوں کے دوڑنے کی اوازیں آ رہی تھیں۔ اس سے پہلے کہ آغا مجھ سے مزید بد تمیزی کرتا اس کا موبائل بج پڑا اور نجانے دوسری طرف سے کسی نے کیا کہا۔ وہ مجھے وہاں چھوڑ کر بھاگتا ہوا چلا گیا۔ میں بھی موقع پا کر باہر کی طرف بھاگی۔ مگر باہر بھی ذلت اور شرمندگی میری منتظر تھی۔ باہر اپنے کزن ڈی-ایس-پی وقاص کو دیکھ کر میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹ جاۓ اور میں اس میں سما جاؤں۔
    مجھے نہیں پتا تھا کہ پولیس وہاں کیوں آئی تھی۔ وقاص کی انکھیں مجھے دیکھ کر جیسے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس نے مجھ سے کچھ نہ پوچھا پوچھنے کی ضرورت رہی بھی نہیں تھی۔ اس نے فیضان آغا کو کمرے سے نکلتے دیکھا تھا اور اس کمرے میں صرف میں تھی اس نے میرے بھائی کو فون کر کے بلایا اور پچھلے دروازے سے مجھے ان کے ساتھ بھیج دیا۔ مجھے دیکھ کر بھائی کی انکھوں میں جو درد اور کرب تھا۔ وہ دیکھ کر میرا مر جانے کو دل کرتا تھا سارے راستے بھائی نے ضبط کر کے گاڑی چلائی۔ تین بار حادثہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔
    بھائی گاڑی کھڑی کر کے میری طرف دیکھے بغیر اندر چلا گیا۔ مرے مرے قدموں سے میں خود کو گھسیٹتی اندر آئی سامنے امن بابا اور میرے دو بھائی کھڑے تھے ۔ میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی کہ میری کیا کیفیت تھی۔ بھائیوں کی انکھیں بالکل سرخ تھیں اج ان کی لاڈلی بہن نے ان کا اعتماد کھو دیا تھا ان کی عزت کو خاک میں ملا دیا۔ رہے بابا جان ' ان کی خاموشی سے مجھے اور بھی خوف آ رہا تھا۔ مجھ میں اندر جانے کی ہمت نہیں تھی۔ میں وہیں دروازے پر رک گئی۔ بابا چلتے ہوئے میرے پاس آۓ۔
    " مجھے تم پر بہت مان تھا۔ بہت بھروسہ تھا اور اب مجھے لگتا ہے کہ میری زندگی کی بڑی غلطی تم کو کالج میں داخل کرانا تھا۔ شاید اب میں کبھی بھی تم پر اعتماد نہ کر سکوں ۔ تم نے تو مجھ کو جیتے جی مار دیا۔ ایک پل میں سو بار مرنا کسے کہتے ہیں وہ یہی ہے' جو تم نے کیا۔ " بابا جان ٹوٹے ہوۓ لحجے میں بولے اور میں دل ہی دل میں مرنے کی دعا مانگ رہی تھی۔
    " بابا جان میرا کوئی قصور نہیں ہے۔"
    " تمہارا قصور کیوں نہیں ہے ۔ کیا وہ لوگ تم کو زبردستی لے گئے تھے۔ تم خود اپنی مرضی سے گئی تھیں۔ ان کے ساتھ' ہمیں بتاۓ بغیر۔"
    بابا جان نے امن کو اشارا کیا۔ میں بہت کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ وہ چاروں غصے سے چلے گئے اور میں روتے ہوۓ امن کے ساتھ لپٹ گئی۔ ماں کی گود میں بہت سکون ہوتا ہے۔
    ماں کے گلے لگ کر میں خوب روئی ' لیکن میرے انسو میری غلطی کا مداوا نہ کر سکے۔ پھر چند دنوں کے بعد امن نے مجھے بتایا۔ بابا جان نے میرا رشتہ طے کیا تھا۔ میرا دکھ ایک بار پھر بڑھ گیا۔ کہ مجھ سے پوچھا تک نہیں مگر میں تو یہ حق گنوا چکی تھی۔ میں نے خود کو وقت کی دھار پر چھوڑ دیا۔ میری شادی بہت سادگی سے ہوئی۔ محض نکاح کر کے مجھے سعید کے حوالے کیا گیا۔
    سعید کا رویہ کچھ عرصے تک تو ٹھیک رہا۔ مگر نہ جانے اسے کیسے میرے ساتھ اس واقعے کا پتا چلا پھر میری سزا میں مزید اضافہ ہو گیا۔
    لیکن اب سعید مجھے کچھ نہیں کہتا مگر جب میں اس کو دوسری لڑکیوں سے افئیر چلانے سے منع کرتی ہوں۔ تو وہ مجھے یہ واقعہ یاد دلا کر میرا جینا حرام کر دیتا ہے۔"
    وہ لڑکی ساکت ہو کر میری کہانی سن رہی تھی۔ میرے خاموش ہونے پر اس نے چونک کر مجھے دیکھا۔
    " سنو پیاری لڑکی' ویلنٹائن کچھ بھی نہیں ہوتا۔ محبوب کو خوش کرنے کے لیے ہم اپنے گھر والوں کا بھروسا توڑتے ہیں یہ سارا کا سارا دھوکہ ہوتا ہے۔ جو بنا سوچے سمجھے آپ' اپنوں کو دیتی ہو۔
    سرخ لباس پہن کر لڑکیاں اکثر گیر مردوں کے ساتھ یہ محبت کا دن منانے چلی جاتی ہیں اور ان میں اکثر کے ساتھ میرے جیسا سلوک ہوتا ہے اور شادی کے دن یہ جوڑا ان کے نصیب میں نہیں ہوتا اور اپنے قریبی رشتوں کو بھی کھو دیتی ہیں اور ان کے لیے ساری عمر یہ ایک غلطی ندامت اور بے عزتی کا سبب بن جاتی ہے۔
    اس لڑکی کا چہرہ ندامت سے بھیگ گیا ۔ میں وہاں سے بوجھل قدموں سے چلی گئی۔
    میں اپنی غلطیوں کی اتنی بڑی سزا پا چکی ہوں ۔ مجھے سمجھ نہیں اتی میری خطا بڑی تھی یا سزا۔


  • #2
    بالکل سچ کہا گیا اس کہانی میں
    آج کل ہی کچھ ہوتا ہے

    Comment


    • #3
      ایک کرب ناک واقعہ نوجوان نسل کےلیے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہےاس واقعے میں

      Comment


      • #4
        آج کل پیار کے نام پر بس جسم کی پیاس بجھائی جاتی ہے

        Comment


        • #5
          آج کل کی درد ناک حقیقت کی سہی معنوں میں عکاس کرتی ہوئی کہانی

          Comment


          • #6

            بہت اچھی اسٹوری تھی دل کو چھو گئی​

            Comment

            Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

            Working...
            X