Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے جرم سے رہائی تک کی داستان

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Life Story امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے جرم سے رہائی تک کی داستان

    قسط نمبر 1
    ریمنڈ ڈیوس کو پاکستان آنے والاایسا امریکی جاسوس قرار دیا جاتا ہے جس نے لاہور میں دو افراد کودن دیہاڑے گولیاں مار کر قتل کیا اور پھر گرفتار ہوا ۔ اس پر قتل کا مقدمہ چلا اور قریب تھا کہ اسے سزائے موت سنا دی جاتی لیکن حالات نے ڈرامائی موڑ لے لیا ۔ اچانک مقتول کے ورثا دیت پر راضی ہو گئے ۔ کروڑوں روپے دیت کی رقم کس نے ادا کی اس پر متضاد رائے ہے کیونکہ کوئی بھی اس رقم کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہ ہوا ۔ بہرحال یہ شخص جسے کبھی سفارتی عملہ کا حصہ قرار دینے کی کوشش کی گئی تو کبھی اسے بلیک واٹر کے قاتل کورڈ کا حصہ قرار دیا گیا، باآسانی پاکستان سے امریکہ پہنچنے میں کامیاب ہو گیا ۔ وہاں اس نے اس ساری صورت حال پر ’’ کنٹریکٹر ‘‘کے نام سے ایک کتاب لکھی جس کا اردو ترجمہ ڈیلی پاکستان آن لائن میں قسط وار پیش کیا جا رہا ہے ۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ادارہ یا قاری کا اس کتاب کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔ کتاب پڑھتے وقت یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ یہ کتاب ایک ایسے شخص نے لکھی ہے جو خود کو کچھ بھی کہے لیکن پاکستان کے عوامی حلقوں میں اسے جاسوس قرار دیا جاتا ہے ۔ ریمنڈ ڈیوس کے عزائم اور اسکے ’’مالکوں‘‘ کی فطرت اور طریقہ کار کو سامنے لانے کی غرض سے اس کتاب کا اردو ترجمہ کرنا قومی مفاد کا درجہ رکھتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی اس کتاب میں جو ’’انکشافات‘‘ کئے گئے ہیں انہوں نے ایک بار پھر پاکستانی سیاست میں بھونچال پیدا کر دیا ہے ۔ کتاب کا ترجمہ و تلخیص نامورتحقیقاتی صحافی سید بدر سعید نے کیاہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے بعد پاکستان میں چھپنے والی پہلی اردو تحقیقاتی رپورٹ سید بدر سعید نے ہی لکھی تھی ۔ مصنف اس سے قبل ’’خودکش بمبار کے تعاقب میں ‘‘ اور ’’صحافت کی مختصر تاریخ . قوانین و ضابطہ اخلاق ‘‘ جیسی تحقیقاتی کتب لکھ چکے ہیں ۔ انہیں دہشت گردی ، طالبانائزیشن اور انٹیلی جنس امور پر اتھارٹی سمجھا جاتا ہے ۔وہ پاکستان کے اہم صحافتی اداروں میں اہم عہدوں پر ذمہ داریاں سر انجام دے چکے ہیں ۔

    میں نے 2011 میں پاکستانی جیل میں جو وقت گزارا اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن بدقسمتی سے اس میں سے زیادہ تر مواد جھوٹ پر مبنی ہے ۔ مجھے امید ہے کہ اب اس کتاب کے بعد ریکارڈ درست ہو جائے گا ۔ اگر میں اس داستان میں کچھ چھپا رہا ہوں تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ میں کوئی ایسی معلومات افشا نہیں کرنا چاہتا جو ہماری اپنی قومی سلامتی اور امریکی سروسز اہلکاروں یا نجی کنٹریکٹرز کی سلامتی کو نقصان پہنچائے ۔ اسی لئے کچھ نام بھی تبدیل کر دیئے گئے ہیں ۔یہ کتاب میرے ذاتی خیالات پر مبنی ہے اور اس کا تعلق امریکن سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ یا کسی بھی ایسے ملٹری اور نجی کنٹریکٹرز کے اداروں سے نہیں ہے جہاں میں ملازمت کرتا رہا ہوں ۔ واضح رہے کہ یہ تمام واقعات میں اپنی یادداشت کے سہارے لکھ رہا ہوں اور میں نے پوری کوشش کی ہے کہ مجھ سے کوئی غلطی نہ ہو اس کے باوجود چونکہ اس سارے عرصہ میں مجھے دستی گھڑی یا وال کلاک کی سہولت میسر نہیں تھی اس لئے بعض واقعات کی ٹائمنگ میں کچھ فرق آ سکتا ہے۔اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ میں نے جو گفتگو شامل کی ہے اس کے الفاظ بالکل وہی ہوں جو اس وقت ادا ہوئے تھے ۔
    مزنگ چوک لاہور ، پاکستان 27 جنوری ، 2011 ، پہلا دن
    یہ بہت عجیب بات ہے کہ ہماری زندگی میں کئے گئے بہت معمولی اور چھوٹے چھوٹے فیصلے مل کر بعض اوقات بہت بڑے نتائج کے حامل بن جاتے ہیں ۔ اس روز مجھے جاگے ابھی ایک گھنٹہ بھی نہ ہوا تھا کہ مجھے بھی ایسا ہی ایک فیصلہ کرنا پڑا ۔ ہمارا ٹیم لیڈر ایک سابق نیوی سیلر تھا ۔ اس نے مجھے بتایا کہ ہمارے پا س اس وقت صرف ایک ہی گاڑی (ایس یو وی ) کھڑی ہے ۔ کیا تمہیں اس کی ضرورت ہے ؟ یا پھر میں اس میں دفتر چلا جاؤں ؟ ۔
    ہمارا دفتر پاکستان کے شہر لاہور میں امریکن قونصلیٹ جنرل تھا ۔ نجی ملٹری کنٹریکٹر کے طور پر ہماری ذمہ داری بیرون ملک کام کرنے والے امریکیوں کی حفاظت کرنا تھا ۔ یہ زیادہ خوشگوار کام نہ تھا ۔ کچھ لوگ ہمیں بہترین سکیورٹی گارڈ کہتے تھے تو کئی لوگ ہمیں کرایہ کا قاتل قرار دیتے تھے جن کا کام لوگوں کو قتل کرنا ہے ۔ بہرحال ہمارا جو بھی کام تھا لیکن یہ بات طے ہے کہ یہ بہت اہم نوعیت کی ذمہ داری تھی ۔ سادہ سی بات اتنی ہے کہ اگر ہم نہ ہوتے تو بیرون ممالک کام کرنے والے مزید کئی امریکی شہری قتل ہو گئے ہوتے ۔
    جنوبی ایشیا کے ان ممالک میں انتہائی خراب سڑکیں ہیں جبکہ ہم سفر کے لئے ایس یو وی گاڑی پسند کرتے تھے ۔ ایک واقعہ سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمیں کن حالات میں کام کرنا پڑ رہا تھا ۔ ایک بار افغانستان میں ایک اہم آپریشن کے لئے میں بڑی ایس یو وی وین لے گیا تھا لیکن دوران سفر اس کا فریم ٹوٹ گیا اور ہم اسے بہت مشکل سے ایک اور گاڑی کے پیچھے باندھ کر واپس لانے میں کامیاب ہوئے۔
    لاہور میں ہمارے پاس نسبتاً چھوٹی ایس یو وی تھی ۔ میرا ٹیم لیڈر اسی کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ میں نے ہمیشہ ٹیم ورکر کے طور پر اپنی ذمہ داری ادا کی ہے لہذا اس وقت بھی میں نے ٹیم رکن کے طور پر اسے کہا کہ مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے وہ ایس یو وی لے جائے ۔ میں آج سفید سیڈان میں چلا جاؤں گا۔میرا ارادہ کرایہ کی کار لے کر لاہور کی سڑکوں پر گھومنے کا تھا ۔ یہاں سے ان واقعات کا آغاز ہوا جس نے پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کر لیا اور پھر یہ سب جان ایف کینڈی سکول ہارورڈ میں ایک کیس سٹڈی کے طور پر پڑھایا گیا کہ کس طرح بظاہر بے ضرر اور چھوٹے چھوٹے واقعات مل کر ایک بڑے بحران کو جنم دیتے ہیں ۔
    لاہور میں میرے ساتھ پیش آنے والا یہ حادثہ نصابی کتب میں ایک کیس سٹڈی کے طور پر محفوظ ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے میرے نام سے جڑ گیا ہے۔ ایک چھوٹی سی غلطی سفارتی بحران بن کر آپ کے پیچھے ہو تو پھر آپ ساری عمر اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے ۔ یہ سب میرے ساتھ تب شروع ہوا جب میں نے ایک کنٹریکٹر اور پیشہ ور محافظ ہونے کے باوجود رضاکارانہ طور پر ایک ایسی گاڑی استعمال کرنے کا فیصلہ کیا جوان حالات کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی جن کا اس روز مجھے سامنا کرنا پڑا ۔ اگر اس دن بھی میں تھوڑا جلدی اٹھ جاتا تو شاید یہ سب نہ ہوتا ۔(جار ی ہے)​

  • #2
    زبردست آغاز۔۔۔
    پڑھ کر مزا آیا

    Comment


    • #3
      قسط نمبر 2

      ​گزشتہ دو برس کے دوران میں نویں بار پاکستان آیا تھا ۔ اس میں سے آدھا وقت میں نے پاکستان کے اہم شہر پشاور میں گزارا جو کہ افغانستان کی سرحد کے قریب ہے جبکہ باقی آدھا وقت صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں رہا تھا جو کہ ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے ۔ ایک کروڑ آبادی کا حامل یہ شہر لاتعداد جامعات ، بازار ، مساجد ، تاریخی عمارتوں اور ریسٹورنٹس کی وجہ سے مشہور ہے ۔ لاہور اپنی قدیم روایات اور تایخ کی وجہ سے بھی انتہائی اہم شہر ہے ۔یہ شہر دہشت گردوں کا گڑھ بھی تھا اور دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائن کی حیثیت بھی رکھتا تھا ۔ میرا کام یہاں موجود غیر ملکیوں کی حفاظت تھی اور یہی وجہ تھی کہ مجھے یہ کام پسند تھا ۔
      مجھے غلط نہ سمجھیں لیکن اس وقت میں اور میری باقی ٹیم کے لوگ محض کھیل کے میدان کے ریفری نہیں تھے ۔ اگر کوئی ہمارا نوٹس نہیں لیتا تو اس کا مطلب تھا ہم ٹھیک کام کر رہے ہیں ۔ ایسے واقعات بہت کم تھے جو ناپسندیدگی کا باعث بنتے لیکن اس وقت ہمیں پوری قوت سے یہ بتانا پڑتا تھا کہ ہم وہاں موجود ہیں۔​

      سکیورٹی کنٹریکٹر کے طور پر ہماری بنیادی ذمہ داری اہم لوگوں کی انہی سے حفاظت کرناتھی ۔ مجھے غلط مت سمجھیئے ۔بہت سے لوگ جن کی حفاظت میرے ذمہ تھی وہ بہت زیادہ ذہین نہیں تھے لیکن اپنے کام میں ماہر تھے ۔وہ متوقع خطرات کو بھانپنے کی صلاحیت سے عاری تھے اور وہ غلط موقع پر غلط جگہ پر گھومنے چلے جاتے تھے۔ وہ لوگ واشنگٹن ڈی سی کے دفاتر جیسے عمدہ ماحول کے عادی تھے لیکن انہیں ایسے ممالک میں جانا پڑتا تھا جہاں امریکا کی مخالفت انتہا پر تھی اور شدت پسند گروپ موجود تھے ۔ میری موجودگی اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ وہ وہاں کوئی احمقانہ حرکت نہ کریں جس سے انہیں نقصان پہنچے اور بحفاظت واپس اپنے گھر لوٹ سکیں ۔ ایک کنٹریکٹر کی ڈیوٹی کتنی اہم ہوتی ہے اور اسے کتنے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگائیں ۔کچھ عرصہ قبل میری ذمہ داری یو ایس ایڈ کے افسران کی حفاظت کرنا تھی جو افغانستان کے دیہی علاقوں میں سڑکیں اور چھوٹے مکانات تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ وہاں سروے کے لئے نکلنے سے پہلے میں نے اس گروپ کو خبردار کیا تھا کہ یہ ملک بارودی سرنگوں سے بھرا ہوا ہے لہذا ہر وقت محتاط رہیں ۔
      میں نے واضح طور پر کہا تھا کہ کوئی اِدھر اُدھر نہ ہو اور صرف اس کام پر توجہ رکھیں جو وہ کرنے آئے ہیں ۔ اس کے باوجود ایک خاتون کسی چیز کی تصویر کھینچ رہی تھی جب میں چلایا ’’ رکو ! مزید ایک قدم بھی مت چلنا ‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا کہ میں نے اسے رکنے کا کیوں کہا ہے ۔ میں نے اس کی توجہ سرخ نشان والے پتھر کی طرف دلائی ۔ تب اسے معلوم ہوا کہ وہ خطرناک بارودی سرنگوں کے درمیان کھڑی تھی جو کسی بھی وقت پھٹ سکتی تھیں ۔۔
      بارودی سرنگ کے درمیان پھنسی اس خاتون کوبچانے کے لئے اس وقت میرے پاس فوری طور پرکوئی بہتر طریقہ نہیں تھا ۔ میں اس بارودی سرنگ کے قریب گیا اور یو ایس ایڈ کی اس خاتون کو انہی قدموں پر واپس لانے کے لئے اس کی راہنمائی کی اور بالآخراسے وہاں سے نکال لانے میں کامیاب ہو گیا ۔ ایک غلط قدم ہمیں موت سے ہمکنار کر سکتا تھا لیکن میرے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا ۔بارودی سرنگوں کے درمیان محفوظ راستہ تلاش کرنا بھی میری ڈیوٹی کا حصہ تھا ۔ ایک سکیورٹی کنٹریکٹر کے طور پر آپ کو صورت حال کے مطابق کوئی بھی قدم اٹھانا پڑ سکتا ہے ، اس وقت مسئلہ کو حل کرنے کے لئے جو کرنا پڑے وہ آپ کرتے ہیں ۔ یہاں کسی کے ایک غلط فیصلے کی وجہ سے کچھ بھی ہو سکتا ہے ، یہ بھی ممکن ہے کہ آپ بھی مارے جائیں لہذآ پ کو ہر لمحہ مستعد رہنا پڑتا ہے ۔ میرے خیال میں یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ اپنے ڈیوٹی کے دوران مجھے کبھی ایسی صورت حال سے کوئی فرق نہیں پڑا ۔ میں نے متعدد بار ایسے حالات کا سامنا کیا ۔ مثال کے طور پر ایک بار مجھے کہا گہا کہ میں ڈک چینی ( امریکی نائب صدر ) کے وفد کی گاڑی کے آگے آگے حفاظتی گائیڈ کے طور
      پر جاؤں۔ میری ذمہ داری تھی کہ ان کے وفد کے راستہ میں مخالف سمت سے آنے والی گاڑیوں کو ان سے دور رکھوں تاکہ وہ بحفاظت اپنی منزل تک پہنچ جائیں ۔اس روز بھی ہمیں ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ۔(جاری ہے)​


      Comment


      • #4
        3
        افغان صدر حامد کرزئی کے محل سے واپس امریکی سفارت خانے جاتے وقت میں نے دیکھا کہ ایک کار ہائی وے کے انتہائی بائیں سمت سے ہماری جانب آ رہی ہے ۔ میں نے فوری طور پر اپنے اسلحہ بردار ساتھی کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس قافلہ کی دوسری گاڑیوں کو وائرلیس پر اطلاع کرے کہ وہ انتہائی دائیں جانب ہو جائیں ۔ یہ ہدایت دیتے ہی میں خود فوری طور پر سامنے سے آنے والی آنے والی گاڑی کے راستے میں حائل ہو گیا ۔ میری ڈیوٹی تھی کہ میں اپنے پیچھے آنے والے نائب صدر کی گاڑی کو ہر قیمت پر اس سے بچاؤں اور اگر تیزی سے ہماری جانب بڑھنے والی اس اجنبی کار میں بارودی مواد بھرا ہوا تھا تو میں اسے اس قافلہ سے جتنا بھی دور رکھ سکتا ہوں اتنا دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کروں ۔ اس کا دوسرا مطلب یہ تھا کہ میں اس ساری کارروائی کے دوران زخمی بھی ہو سکتا تھا اور ممکن ہے مارا بھی جا تا لیکن اپنا فرض نبھانے کے لئے مجھے یہ سب کرنا ہی تھا ۔ میں نے اس کار سے ٹکرانے کا حتمی فیصلہ کر لیا تھا لیکن آخری لمحہ میں اس کار نے راستہ بدل لیا ۔میرے خیال میں اس روز میری قسمت میرا ساتھ دے رہی تھی۔

        ہمیں علم ہے کہ ہماری ڈیوٹی کا سب سے خطرناک مرحلہ کسی بھی وقت آ سکتا ہے ۔کبھی آپ رات کو اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے بیئر پی رہے ہوتے ہیں تو کبھی آپ کی لاش آپ کے گھر بھجوائی جا رہی ہوتی ہے ۔ ایک سکیورٹی کنٹریکٹر کے طور پر میں نے متعدد سفارت کاروں کے ہمراہ افغانستان اور پاکستان میں فرائض سر انجام دیئے ہیں ۔ میں نے جنگی علاقوں اور پُر امن دفاتر دونوں میں کام کیا ۔ ان حالات میں کام کرنے والے کنٹریکٹر کے پاس دو اضافی صلاحیتیں ہوتی ہیں جن کے بل پر وہ کام کر رہا ہوتا ہے۔ ایک اس کے کام کی مہارت اور دوسرا اس کی قسمت ۔ اسے کسی بھی وقت خطرناک صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ ممکن ہے کسی بھی وقت آپ کی مہارت اور قابلیت ناکام ہو جائے لیکن آپ کی قسمت حاوی ہو کر آپ کی جان بچانے کا باعث بن جائے ۔
        ابتدا میں آپ کے پاس تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے آپ کی صلاحیتیں کم ہوتی ہیں لیکن جیسے جیسے آپ کسی ایک کام میں ماہر ہوتے جائیں آپ کی مہارت اور قابلیت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔متعدد جنگی ماہرین اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد لمبے عرصہ تک سکیورٹی کنٹریکٹر کے طور پر اپنے فرائض سر انجام دیتے رہتے ہیں ۔ طویل تجربہ انہیں بروقت فیصلہ سازی میں ماہر بنا دیتا ہے جس کی بدولت وہ اپنی جان بچانے میں کامیاب رہتے ہیں ۔ اس سارے عمل میں قسمت کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ جس دن قسمت ان سے روٹھ جائے اس روز ان کا تمام تر تجربہ اور مہارت دھری کی دھری رہ جاتی ہے اوروہ مارے جاتے ہیں ۔ یہ بات طے ہے کہ ہمیں بالکل علم نہیں ہوتا کہ قسمت ہمیں کتنے مواقع فراہم کرے گی اور کب ہم سے روٹھ جائے گی ۔ اس لئے اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم ان واقعات کی وجہ سے مستقل پریشان رہیں یا پھر اسے ڈیوٹی کا حصہ سمجھ کر معمول کی کارروائی سمجھیں ۔
        بہرحال اب میں دوبارہ وہیں آتا ہوں جہاں سے یہ ساری داستان شروع ہوئی تھی ۔ اس روز میں سفید سیڈان کار میں لاہور کے سکاچ کارنر (اپر مال ) میں اس احاطے سے باہر آیا جہاں میری ٹیم ٹھہری ہوئی تھی ۔ اس وقت میں صرف اپنے مشن کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔ میں چاہتا تھا کہ اس روٹ کا جائزہ لے لوں جہاں تین دن بعد میں نے کسی کو لے کر جانا تھا ۔ میرا مقصد اس راستے میں آنے والے ممکنہ خطرناک مقامات کی نشاندہی کرنا تھا تاکہ عین وقت پر کسی قسم کی بدمزگی نہ ہو ۔ یاد رہے کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں شدت پسندوں کی نرسریاں قائم ہیں۔ آپ کو یہاں ہر لمحہ چوکس رہنا پڑتا ہے ۔ جب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی ہے یہاں متعدد امریکی مشن اور تاجروں پر حملے ہو چکے ہیں ۔اسی طرح 2010 میں دہشت گردوں کے حملوں میں سیکڑوں پاکستانی شہری بھی مارے جا چکے ہیں جبکہ اسی سال افغانستان میں مارے جانے والے شہریوں کی تعداد اس سے کم ہے حالانکہ افغانستان تو دہشت گردی کی اس جنگ کا حصہ تھا لیکن پاکستان کو سرکاری سطح پر اس جنگ کا حصہ قرار نہیں دیا گیا تھا ۔
        لاہور بہت بڑا شہر ہے لیکن اس کے باوجود یہاں اس طرح کا خطرہ کبھی محسوس نہیں کیا گیا جس طرح کا خطرہ کراچی میں محسوس کیا جاتا ہے جہاں دہشت گردی کے حملے معمول کی بات تھی ۔لاہور بغداد نہیں تھا لیکن سچ یہ ہے کہ یہ کنساس بھی نہ تھا ۔ میں اونچی دیواروں اور اس گھر کے اندر بھی بہت محتاط رہتا تھا جہاں ہم لوگ ٹھہرے ہوئے تھے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ حس مزاح سے بھی عاری ہو جاتا ۔ اس روز صبح بھی میں حسب معمول کار چلاتے ہوئے ماحول سے لطف اندوز ہو رہا تھا ۔میں ایک گانے کو گنگنا تے ہوئے مسکرا رہا تھا۔ مجھے اس دوران ایک لڑکی بھی یاد آئی ۔ لیکن یہ یاد بہت مختصر ثابت ہوئی۔
        میں مال روڈ سے ایک ذیلی سڑک پر آ گیا ۔دراصل یہ ایک کھلی گلی تھی جس میں ابھی تک اس دور کی عمارتیں موجود تھیں جب پاکستان انڈیا کا حصہ تھا اور انڈیا بھی اس وقت برطانیہ کا حصہ تھا۔ میں گاڑی چلاتے وقت محتاط نگاہوں سے ارد گرد کا جائزہ لے رہا تھا ۔ یہاں کئی قسم کے خطرات ہو سکتے تھے ۔مثال کے طور پر کسی سمت سے آتے ہوئے ایک عام سے نوجوان کی کمر کے پاس ابھار کا مطلب تھا کہ وہ مسلح ہے ۔ایک زیادہ وزنی گاڑی بھی دھماکہ خیز مواد سے بھری ہو سکتی ہے ۔ اس گرم موسم میں ڈھیلے اور مکمل لباس میں ملبوس کوئی خاتون خودکش بمبار بھی ہو سکتی تھی ۔ یہ سب خطرات اپنی جگہ موجود تھے اور میں گزشتہ پانچ روز سے ایسے ہی خطرات کا جائزہ لے رہا تھا ۔ میرے یہ پانچ دن ایسے ہی گزرے تھے ۔ شہر کے راستوں کا سمجھتے ہوئے ، ارد گرد کے ماحول کی گرما گرمی کو محسوس کرتے ہوئے ہر لمحہ یہ ذہن میں رہتا تھا کہ اب کیا ہونے والا ہے۔​

        Comment


        • #5
          4
          لاہور میں سفر کرتے ہوئے مجھے ٹریفک جام کا بھی خیال رکھنا ہوتا تھا ۔ ان چند سالوں میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں بھی کشیدگی آئی تھی۔ اس لئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان دنوں ، خاص طور پر ایسے امریکوں کو کس قدر مشکل صورت حال کا سامنا تھا جن کا تعلق سفارت خانے سے تھایا وہ سفارت خانے کے لئے کام کرتے تھے ۔ یہاں ایسے واقعات بھی پیش آ چکے تھے کہ سفارتی نمبر پلیٹ والی گاڑیوں کو چیک پوائنٹ پر روک کر بدسلوکی کی گئی ۔ ایسی صورت میں جب پولیس اہلکار ہمیں روکتے تو وہ فوراًہمیں گاڑی سے باہر آنے کے لئے دباؤ ڈالتے لیکن ہم ہر بار ان کی یہ بات ماننے سے انکار کر دیتے تھے ۔ عراق میں ہونے والے کئی واقعات نے ہمیں باور کرا دیا تھا کہ پولیس اہلکاروں کی وردی میں دہشت گرد بھی ہو سکتے ہیں اس لئے ہم کسی قسم کا خطرہ مول نہیں لیتے تھے۔ایسی صورت میں پولیس ہماری گاڑی کو وہیں سڑک کنارے ٹھہرا لیتی اور ہم گھنٹے سے بھی زیادہ وقت ریجنل سکیورٹی آفیسر کے انتظار میں اس گاڑی میں بند رہ کر گزارتے تھے ۔

          ریجنل سکیورٹی آفیسر سینئر قانون دان بھی ہوتا ہے جو ہر امریکی سفارت خانے میں تعینات ہوتا ہے ۔ وہ آ کر ہمیں وہاں سے بحفاظت لیے جاتا تھا۔ پاکستانی پولیس نے تو ایک ایسی بزرگ خاتون کو بھی گرفتار کر لیا تھا جو کسی کی دادی اماں جیسی تھی ۔ اس کو ایک جاسوس کے طور پر پیش کیا گیا ۔ پولیس کا کہنا تھا کہ اس کے پاس سے جاسوسی کے آلات اور ایک کلاشنکوف برآمد ہوئی ہے ۔ جاسوسی کے آلات بعد میں ایک کیمرے میں تبدیل ہو گئے اور کلاشنکوف والی بات تو مکمل جھوٹ تھی ۔ بہرحال پولیس نے برآمدگی ڈال کر مقدمہ درج کر لیا لیکن جب پولیس کسی قسم کے شواہد پیش نہ کر پائی تو لاہور ہائی کورٹ نے یہ مقدمہ خارج کر دیا ا اور اس خاتون کو رہا کر دیا گیا ۔
          بہرحال میں جب شہر میں نکلتا تو ٹریفک کے راستوں پر خاص توجہ دیتا تھا ، میں خاص طور پر یہ بات نوٹ کرتا تھا کہ کسی جگہ پھنسنے کی صورت میں کس کس راستے سے باہر نکل سکتا ہوں ۔ اس روز جب میں رضا کارانہ طور پر سفید سڈان استعمال کر رہا تھا تب ٹریفک معمول کے مطابق تھی ۔ میں جیل روڈ پر تھا جہاں تین لائن ایک سمت میں جاتی تھیں اور درمیان میں گھاس کا فٹ پاتھ تھا ۔ یہ سڑک اسی طرح فیروزپور روڈ سے جا ملتی تھی ۔ پاکستان میں بڑے چوراھے کو چوک کہتے ہیں ۔ میرے سامنے مزنگ چوک تھا جو بس سٹاپ ، مختلف بنک اور ریسٹورنٹس کی وجہ سے کافی مشہور چوک ہے ۔ٹریفک کی وجہ سے اس چوک پر آتے ہی میری رفتار کم ہونا شروع ہو گئی ، یہاں تک کہ مجھے مکمل طور پر رکنا پڑا ۔ مجھے ایک ٹریفک اہلکار نظر آیا جو اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہا تھا۔وہاں نیلی وردی میں ملبوس یہ اہلکار جگہ جگہ نظر آتے ہیں ۔ پاکستان میں ٹریفک اہلکار کے پاس پستول نہیں ہوتی ۔ ان کا کام ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھنے کے لئے لوگوں کی راہنمائی اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر ان کا چالان کرنا ہے۔ کسی قسم کی ہنگامی صورت حال میں یہ مقابلے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے ۔
          جب میں چوک پر پہنچا تو تین رویہ سڑک کے درمیان میں تھا ۔ مجھے سے آگے لگ بھگ دس کاریں تھیں ۔ میرے دائیں بائیں دونوں جانب کی لائنیں گاڑیوں سے بھر گئی تھیں اور ان کاروں کے درمیان کی جگہ موٹرسائیکلوں ، سائیکلوں اور رکشوں سے بھری ہوئی تھی ۔ یہاں تین پہیوں پر مشتمل بہت سے موٹر سائیکل رکشے’’چنگ چی ‘‘ بھی تھے ۔ یہاں اس قدر موٹر سائیکلیں تھیں کہ مجھے لگ رہا تھا میری کار موٹر سائیکلوں کی ریس کے میدان میں ہے۔ ان کے درمیان ایک ایسا عجیب پاکستانی بھی تھا جس نے ایک موٹر سائیکل پر سات افراد کو بٹھایا ہوا تھا ۔یہاں بھی میں مسلسل اپنے ارد گرد کا جائزہ لے رہا تھا ۔
          بظاہر سب ٹھیک تھا اور میں صورت حال سے مکمل طور پر مطمئن تھا ۔ مجھے یہاں رکے دو منٹ ہوئے ہوں گے جب سیاہ رنگ کی ایک موٹر سائیکل میرے سامنے آ کر رکی ۔ اس پر دو نوجوان سوار تھے ۔ موٹر سائیکل کے ڈرائیور نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا ۔ اس کے بارے میں بعد میں معلوم ہوا کہ اس کا نام فیضان حیدر تھا ۔ اس کے پیچھے سوار دوسرے نوجوان کا نام محمد فہیم تھا جو ڈرائیور کے عین پیچھے بیٹھا ہوا تھا لیکن اس کے جسم کا رخ میری جانب تھا ۔ مجھے اس کے ہاتھ میں واضح طور پر پستول نظر آ رہا تھا ۔(جاری ہے)​

          Comment


          • #6
            قسط نمبر 5


            عام طور پر پاکستانی شہری یوں اپنے پاس ہتھیار رکھتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ انہیں کسی سے خطرہ ہو یا وہ کسی کے لئے خطرے کا باعث بنیں ۔اس کے باوجود اگر کوئی مصروف شاہراہ پر آپ پر پستول تانے کھڑا ہو تو پھر ایسی تمام توقعات ختم ہو جاتی ہیں اور وہ شخص آپ کے لئے سنگین خطرہ بن جاتا ہے ۔ عام طور پر ایسی صورتحال میں جب لوگوں کو موت سامنے نظر آّتی ہے تو ان کا ذہن کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور وہ بدحواس ہو جاتے ہیں ۔اس طرح وہ مزید خطرے میں گھر جاتے ہیں ۔ ایسی صورت میں اگر انہیں بھاگنے کا موقع ملے تو وہ فورا بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس کے برعکس یہ میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے دنیا کے بہترین ٹرینرز سے تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا تھا اور میں جانتا تھا کہ ایسے موقع پر مجھے کیا کرنا ہے۔

            میں نے گہرا سانس لے کر خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کی تاکہ میرے اعصاب پر پڑنے والا بوجھ کم ہو سکے۔ عام طور پر ایسے حالات میں لوگوں کی ساری توجہ صرف پستول پر ہوتی ہے لیکن میں اپنے سامنے موجود 65 انچ کی سکرین پر ارد گرد کے سارے منظر نامے کا جائزہ لے رہا تھا ۔ میرے سامنے ٹریفک کی ساری صورت حال واضح تھی ۔ ان مسلح افراد نے کسی قسم کی یونیفارم نہیں پہن ہوا تھا جس کا مطلب تھا کہ ان کا تعلق قانون نافذ کرنے والے اداروں سے نہیں ہے ۔ میرے سامنے دو نوجوان تھے جنکے پاس پستول تھی ۔ اس سارے منظر نامے کا جائزہ لینے کے بعداب میری توجہ پستول کی جانب تھی۔ میں نے اسے پستول نکالتے اور اس کا رخ اپنی جانب کرتے دیکھا ۔ ایسا لگتا تھا جیسے وقت رک گیا ہے
            بگ سٹون کیپ ورجینا (1979 ) جہاں میں پیدا ہوا، وہاں زندگی اتنی بھی آسان نہیں تھی ۔ میرے والد وہاں کوئلہ کی صنعت میں کام کرتے تھے اور وہیں وہ ایک حادثے کا شکار ہو گئے تھے ۔ ان پر کام کے دوران سات سو پاؤنڈ وزنی چٹان گر گئی تھی ۔ اس وقت میں محض پانچ سال کا تھا لیکن اپنے والد کے زخمی ہونے کا منظر میرے ذہن میں ثبت ہو گیا ۔ ہماری کفالت اور زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لئے میری والدہ کو تین جگہوں پر کام کرنا پڑتا تھا۔ان دنوں ہمارے پاس پیسوں کی قلت تھی لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ مجھے یا میرے بہن بھائیوں کو بھوکے پیٹ سونا پڑا ہو۔جب میں جوان ہوا تو اپنے گریڈ کی نسبت زیادہ صحت مند تھا ۔ مین ساتویں گریڈ میں ہونے کے باوجود آٹھویں گریڈ کی فٹ بال ٹیم میں شمولیت کا حق دار تھا۔ میں بہت تیز رفتار اور طاقتور تھا ۔ میرے والد بھی میری اتھلیٹ کی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے ۔ میں نے ریسلنگ اور سکول ریس مین بھی حصہ لیا لیکن میرے والد میری کامیابیاں دیکھنے سے پہلے ہی وفات پا گئے ۔ ان کی موت ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہوئی تھی۔ ان کے بعد مجھے مزدوری بھی کرنبی پڑی ۔ میں اینٹیں اور بلاک اٹھاتا تھاجس کے بدلے مجھے فی گھنٹہ دس ڈالر ملا کرتے تھے جس میں کبھی اضافہ بھی ہو جاتا تھا ۔ اس وقت میری عمر پندرہ برس تھی ۔ میں مزدوری کے بدلے ملنے والا چیک لا کر اپنی والدہ کو دے دیتا تھا۔ اس ساری محنت کے باوجود مجھے یقین تھا کہ میں مزدوری کرنے کے لئے پیدا نہیں ہوا ہوں ۔ اسی لئے میں مقامی آرمڈ فورسز ریکروٹمنٹ دفتر گیا اور میں نے میرین کمانڈوز میں شامل ہونے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ ریکروٹ آفیسر نے مجھے بتایا کہ صرف انفرنٹری میں پوسٹ خالی ہے ۔ میں اس وقت صرف اٹھارہ برس کا تھا جب ہوائی جہاز میں بیٹھ کر جارجیا گیا ۔ اس کے بعدایک ایسا دور شروع ہوا جو سخت محنت ، مشقت ، مہارت اور ٹرینگ سے عبارت تھا۔
            کابل افغانستان (جون 2004 ) کے بعد میری منزل لاہور تھی۔ یہاں سے ہم دوبارہ لاہور مزنگ چوک کی طرف چلتے ہیں ۔ جب اس موٹر سائیکل سوار نے اپنی پستول کا رخ میری جانب کیا تو میں انتہائی مشکل صورت حال کا شکار ہو چکا تھا ۔اس گن اور میرے درمیان دس فٹ سے زیادہ فاصلہ نہ تھا۔ اگر سڑک کھلی ہوتی تو میں ریس پر پاؤں رکھ کر گاڑی بھگا کر وہاں سے نکل جاتا لیکن بدقسمتی سے اس وقت مین ٹریفک میں پھنسا ہوا تھا لہذا گاڑی بھگا لیجانے کی آپشن موجود نہ تھی ۔ اگر میں مخصوص ایس یو وی گاڑی میں ہوتا تب بھی ان کی جانب مسکرا کر دیکھتا کیونکہ ان کی چلائی کوئی گولی گاڑی پر اثر انداز نہ ہوتی ، اس گاڑی کے شیشے بلٹ پروف تھے لیکن بدقسمتی سے میں عام سیڈان میں تھا ۔
            شام کا ہلکا ہلکا اندھیرا میرے ارد گرد چھا رہا تھا ۔ اس موقع پر میرے پاس اپنے ٹرینرز کی دی گئی تربیت کے سوا کچھ نہ تھا ۔میری تربیت نے مجھے سکھایا تھا کہ اگر میری جان کا خطرہ ہو تو مجھے اس صورت میں کیا کرنا ہے لہذا میں نے وہی کیا جو مجھے سکھایا گیا تھا ۔
            ان کے پستول کی نالی کا رخ میری جانب تھا ۔ میں نے ہاتھ کو غیر محسوس انداز مین حرکت دیتے ہوئے اپنی سیٹ بیلٹ کھول دی اور اپنی گن کی جانب ہاتھ بڑھایا ۔۔۔​

            Comment


            • #7
              قسط نمبر 6

              ​مجھے اپنی پستول نکالنے میں زیادہ وقت نہیں لگا ۔ میں نے ایک سیکنڈ میں اپنی ٹی شرٹ میں ہاتھ ڈال کر پستول باہر نکال لی۔آپ کو حیرت ہو گی کہ ایسا کیسے ہوا لیکن میرے لئے یہ معمول کی تربیت تھی ۔ میں نے اپنی ساری زندگی اسلحہ چلانے میں ہی بسر کی ہے۔ نجی زندگی سے لے کر فوج تک اسلحہ سے میرا انتہائی قریبی تعلق رہا ہے ۔ میرے ٹرینرز اور افسران تو جانتے ہیں کہ میں اسلحہ کے استعمال میں کتنا تیز ہوں لیکن اگر اس بات کا علم ان نوجوانوں کو بھی ہوتا جو مزنگ چوک میں مجھ پر حملہ آور ہوئے تھے تو شاید وہ کبھی بھی یوں مجھ سے ٹکرانے کی غلطی نہ کرتے۔ ایسی صورت میں اس شام انہیں موقعہ واردات سے ہٹنے کے لئے کئی بہانے مل سکتے تھے ۔ اس وقت ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ میں کس قدر تیزی سے اپنی پستول نکالنے میں کامیاب ہو جاؤں گا ۔ میرے پاس مکمل آٹو میٹک نئی پستول تھی۔ جیسے ہی میرا ہاتھ کار کے سٹیرنگ سے اوپر ہوا میں نے برق رفتاری سے ان پر فائر کر دیا ۔ یہ پستول برانڈ نیو گلک 17 تھی جو مجھے لاہور پہنچتے ہی فراہم کی گئی تھی۔اس وقت میرے پاس دیگر ضروری اشیا بھی موجود تھیں جن میں جی پی ایس ، ریڈیو ، کیمرہ فون وغیرہ شامل تھے ۔

              اس روز مزنگ چوک میں میں نے دو یا تین سیکنڈ میں 10 گولیاں چلائیں اور کھیل ختم ہو گیا ۔ میری گولیاں گاڑی کی ونڈ سکرین توڑتی ہوئی اپنے ٹارگٹ کی جانب گئی تھیں لیکن اس کے باوجود ساری گولیاں اپنے حدف پر لگیں ۔ میرا نشانہ بہت اچھا تھا ۔ اس وقت مزنگ چوک پر کافی رش تھا لیکن پھر بھی کوئی غیر متعلقہ شخص زخمی نہ ہوا۔ اگر نشانہ تھوڑا سا بھی چوک جاتا تو کافی لوگوں کی جان جا سکتی تھی۔
              اس روز ہلاک ہونے والوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق موٹر سائیکل پر پیچھے بیٹھے شخص کوپانچ گولیاں لگی تھیں جن میں سے ایک دائیں ٹانگ پر ، ایک بائیں ٹانگ پر ، دو گولیاں سینے پر اور ایک سر کے پیچھے لگی تھی۔ وہ شخص موقع پر ہی ہلاک ہو گیا تھا جبکہ فیضان حیدر کو پانچ گولیاں پشت پر لگی تھیں اور وہ شدید زخمی ہو گیا تھا ۔ ان کی موٹر سائیکل وہیں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے درمیان سڑک پر گر گئی تھی۔فیضان حیدر نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی لیکن شدید زخمی ہونے کی وجہ سے زیادہ دور نہ جا سکتا اور میری کار سے تیس فٹ دور جا کر گرا اور وہیں مر گیا۔
              یہ درست ہے کہ کسی شخص کی جان لینا قابل تعریف عمل نہیں ہے لیکن جب کوئی شخص مجھ پر اسلحہ تان لیتا ہے تو اس وقت سب سے سے اہم اپنی جان بچانا ہوتا ہے اور اس فوری خطرے کو ختم کرنا بہت ضروری ہو جاتا ہے ۔ میں نے ان پر آخری گولی چلاتے ہی فوراً اپنے ارد گرد دیکھا کہ کہیں کوئی اور خطرہ تو میرے سر پر نہیں منڈلا رہا ۔ گولیاں چلانے کی وجہ سے میری گاڑی کی ونڈ سکرین بری طرح متاثر ہوئی تھی اور مجھے واضح طور پر نظر نہیں آ رہا تھا لہذا میں گاڑی سے باہر نکل کر ارد گرد کا جائزہ لینے لگا ۔ اس وقت کافی لوگ وہاں جمع ہو رہے تھے لیکن اب میں خطرے سے باہر تھا ۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ جگہ پر سکون ہو گئی لیکن میں جانتا تھا کہ یہ خاموشی عارضی ہے۔ وہاں سے امریکی قونصلیٹ تین میل کی دوری پر تھا ۔ میں نے فوراً! ہی اپنے سفری بیگ سے کیمرہ نکالا اور فیضان کی تصاویر بنانے لگا۔ میں مقامی انتظامیہ کو دینے کے لئے کچھ ثبوت اکٹھے کرنا چاہتا تھا ۔(جاری ہے)​

              Comment


              • #8
                قسط نمبر 7

                ​مجھے مارنے کے لئے محمد فہیم کو بھی صرف ایک گولی چلانی تھی ۔ اگر وہ اپنے کام میں ماہر ہوتا تو شاید سیکنڈز کے ہزارویں حصہ میں یہ کام کر سکتا تھا لیکن وہ خود مارا گیا ۔ میں نے تصاویر بنانے کے بعد اپنا کیمرہ واپس گاڑی میں رکھ دیا ۔ اتنی دیر میں وہاں ٹریفک پولیس کا اہلکار بھی آ گیا۔ وہ حیرت سے نیچے گری ہوئی موٹر سائیکل اور لاشوں کی جانب دیکھ رہا تھا ۔ میں نے اپنا سفارتی پاسپورٹ اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا اور کہا کہ میں فوری طور پر امریکن قونصل خانہ جانا چاہتا ہوں لیکن اسے انگریزی سمجھ نہیں آتی تھی ۔ دوسری جانب مجھے بھی پنجابی یا اردو نہیں آتی تھی ۔ اتنی دیر میں کئی لوگ میری کار کی جانب تیزی سے آنے لگے ۔ ان کا انداز جارحانہ ہرگز نہیں تھا لیکن میں پاکستان میں ہجوم کے رویے کو بہتر انداز سے سمجھ سکتا ہوں ۔ اس لئے جیسے ہی ٹریفک اہلکار نے رخ بدلا میں فوراً اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا اور اندر سے دروازہ بند کر لیا ۔ میں نے ریڈیو (وائرلیس ) آن کیا ’’ بیس ۔۔۔ میں کراس بات کر رہا ہوں ‘‘ کراس میرا شناختی نام تھا ۔۔ بیس نے مجھے شناخت کر لیا اور پوچھا ’’ ہاں کراس ، بولو کیا بات ہے ؟‘‘

                میں نے اسے اس حملے کا بتایا تو فوراً ہی چیف لائن پر آ گیا ۔میں اتنی دیر میں جی پی ایس بھی آن کر چکا تھا ۔ چیف مجھ سے واقعات پوچھنے لگا لیکن میں نے کہا ’’ پہلے مجھے یہاں سے نکالنے کا بندوبست کرو ۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ میرا شمار بھی ان لوگوں میں ہونے لگے جو پاکستان کی گلیوں میں بے موت مارے جاتے ہیں ‘‘ جس وقت میں چیف سے گفتگو کر رہا تھا اس وقت بھی میری نظر ہجوم کی جانب تھی۔
                جب میں گاڑی سے تصاویر بنانے کے لئے اترا تھا تب میری کار گیئر میں نہیں تھی ۔ مجھے اس کی ہینڈ بریک لگانا بھی یاد نہیں رہا لہذا وہ ڈھلوان پر آگے کی جانب بڑھ گئی اور اس کا بمپر اگلی گاڑی کے بمپر کے ساتھ جا لگا ۔ میں اب وہاں سے نکلنے کا سوچ رہا تھا لیکن جب اگلی گاڑی آگے گئی تو میری کار بھی اس کے ساتھ جڑ گئی ۔ یہ دیکھ کر میں اپنے ہوش و ہواس کھونے لگا۔
                میرے چیف نے میری مدد کے لئے ٹیم میٹ ایگل آئی کو میری جانب بھجوا دیا تھا ۔ اب وہ لوگ میری طرف آ رہے تھے لیکن رش کی وجہ سے انہیں میری درست پوزیشن کا اندازہ نہیں تھا ۔ اتنی دیر میں ہجوم نے میری کار پر مکے برسانا شروع کر دیئے ۔ انہوں نے کار کی سکرین توڑ دی اور کچھ لوگوں نے مجھے پکڑ کر مارنا شروع کر دیا ۔ میں جانتا تھا کہ اگر اب بھی میں نے کچھ نہ کیا تو یہ ہجوم مجھے یہیں مار دے گا ۔ مجھے ہر صورت اپنی جان بچانی تھی ۔اس لئے میں نے اپنی کار کو پہلے گیئر میں ڈالا اور ہجوم کے درمیان سے گزرنے کی کوشش کرنے لگا۔ مشتعل ہجوم میری کار کے ساتھ ساتھ بھاگ رہا تھا ۔ مجھ سے اگلی کار نے یوٹرن لیا تو مجھے رفتار مزید کم کرنی پڑی ۔ اتنے میں ایک موٹر سائیکل سوار میری کار کے برابر آیا اور اس نے اردو میں مجھ پر چیخنا چلانا شروع کر دیا ۔دوسری جانب مجھے بھی راستہ مل گیا اور میں نے کار کی رفتار مزید بڑھا دی ۔ میرا ارادہ مال روڈ پر پہنچنے کا تھا لیکن اس کے لئے بھی مجھے انارکلی کی تنگ گلیوں سے گزرنا تھا ۔اچانک ہی ایک بزرگ خاتون ڈرائیور نے میرے آگے آ کر اپنی گاڑی روک دی ۔ میں نے اسے ہٹانے کے لئے دونوں ہاتھوں سے ہارن بجانا شروع کر دیا لیکن وہ اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہ ہلی ۔ اتنی دیر میں جائے حادثہ سے میرا تعاقب کرنے والا موٹر سائیکل سوار ایک بار پھر میرے قریب پہنچ گیا ۔ اس نے اردو میں وہاں موجود لوگوں کو چیخ چیخ کر صورت حال کے بارے میں بتانا شروع کر دیا ۔ میری کار کے گرد سیکڑوں لوگ اکٹھے ہو چکے تھے ۔ یہ ہجوم میری کار پر حملہ کر رہا تھا ۔ کسی نے پیچھے سے پہلا پتھر پھینکا اور میری کار کا پچھلا شیشہ بھی ٹوٹ گیا ۔ میرے پاس اب اس کے سوا کوئی راستہ نہ تھا کہ میں اس خاتون کی گاڑی کو ایک طرف دھکیل کر اپنا راستہ بناؤں لیکن اس سے پہلے ہی ہجوم نے مجھے پکڑ کر مارنا شروع کر دیا ۔
                کسی نے میرے چہرے پر لات ماری ۔ میرے پاس اپنی پستول موجود تھی لیکن اس موقع پر میں اسے استعمال نہیں کر سکتا تھا ۔ میں اپنے ہاتھوں سے صورت حال کو کنٹرول کرنے اور خود کو بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ وقت پستول نکالنے کا نہیں تھا اور میں جانتا تھا کہ ہر کام کا ایک مناسب وقت ہوتا ہے ۔ایک وجہ تو یہ تھی کہ اخلاقی اور جنگی نقطہ نظر سے یہ مناسب نہ تھا کہ میں پستول نکالتا ۔ دوسری وجہ یہ تھی ہجوم بہت زیادہ تھا اور وہ لوگ مجھ سے پستول چھین سکتے تھے ۔ اس وقت میری واحد امید وہ ایس یو وی گاڑی تھی جسے میری مدد کے لئے آنے والا ایگل چلا رہا تھا ۔ جیسے ہی مجھے پتا چلا کہ وہ لوگ بھی رش میں پھنس گئے ہیں تو میں نے ریڈیو پر ایک بار پھر انتہائی تشویش ناک پیغام بھیجا اور فوری مدد کا کہا ۔ ان حالات میں ایگل نے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے اپنی گاڑی کا رخ سڑک کے مخالف سمت موڑ دیا ۔ وہاں ایک موٹر سائیکل سوار عبد الرحمن تھا جو فوری طور پر گاڑی کو نہ دیکھ سکا ۔ ایگل نے اسے بچانے کے لئے بریک لگائی لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی ۔ عبد الرحمن کا خون سڑک پر دور دور تک بکھر چکا تھا ۔​

                Comment


                • #9
                  قسط نمبر 8


                  اس وقت صورت حال انتہائی گھمبیر ہو چکی تھی ۔ مشتعل ہجوم نے مجھے کار سے کھینچ کر باہر نکال لیا تھا ۔ اتنے میں وہاں ایک پولیس اہلکار بھی پہنچ گیا ۔ اسے دیکھ کر مجھے امید کی کرن نظر آنے لگی۔وہ پولیس اہلکار مجھے مشتعل لوگوں سے بچانے کی کوشش کرنے لگا ۔ لوگوں نے اسے اردو میں کچھ بتایا تو وہ انہیں سمجھانے کی کوشش کرنے لگا ۔ اس نے لوگوں کو بتایا کہ اس شخص کے پاس ابھی بھی پستول موجود ہے ۔ یہ سن کر لوگ پیچھے ہٹنے لگے ۔ اب میرے ساتھ کار میں ایک پولیس اہلکار بھی تھا۔ اس نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن ہوا یہ کہ وہ بہانے سے میرا پستول لے کر رفو چکر ہو گیا۔اتنی دیر میں وہاں پنجاب رینجرز پہنچ گئی اور انہوں نے مجھے تھانہ انارکلی پہنچا دیا ۔ یہاں پولیس اہلکار محمد اورینجرز مجھے ایک کمرے میں لے گئے ۔ وہاں پولیس افسران نے مجھ سے پنجابی ، اردو اور انگریزی میں سوالات کرنے شروع کر دیئے ۔ میں نے اپنا بیج نکالا اور انہیں دکھاتے ہوئے کہا کہ میں امریکن قونصلیٹ جانا چاہتا ہوں۔ پولیس آفیسر کا لہجہ بلند ہو گیا لیکن اس کمرے کی صورت حال باہر انارکلی کی صورت حال سے پھر بھی بہتر تھی ۔ میں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بتایا کہ مجھے پیاس لگی ہے ۔ ایک شخص نے مجھے کہا کہ پیسوں کے بنا پانی نہیں ملے گا ۔ انہوں نے میرے سامان کی تلاشی لی اور مجھے بتایا کہ یہاں میری موجودگی میرے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے لہذا وہ مجھے کسی محفوظ مقام پر منتقل کرنے کا انتظام کرتے ہیں ۔ انہوں نے میرے سر پر کمبل لپیٹا اور مجھے وہاں سے باہر لے آئے ۔ جب میرے سر سے کمبل ہٹایا گیا تو میں پاکستانی فوج کے ایک کیمپ میں تھا ۔ وہاں موجود آفیسر میری طرف دیکھ کر مسکرایا اور کہا کہ تم نے ایک مشکل دن گزارہ ہے ۔ ایک اور کہنے لگا ’’ سر آپ توبہت اچھے شوٹر ہیں اور آپ کے پاس بہت اعلٰی معیار کی تربیت ہے ‘‘ میں نے اس کی بات سے اتفاق کیا ۔ اس کے بعد میں نے انہیں اس روز کی ساری داستان سنائی۔
                  اس رات میں محض پندہ منٹ ہی سو سکا ۔ اپنے تحفظ کے حوالے سے میں شدید تشویش کا شکار تھا ۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ جو گارڈ میری نگرانی پر متعین تھا اس نے اپنی پستول نکال کر ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی ۔​
                  جیسے ہی صبح ہوئی میں نے سکون کا سانس لیا ۔ گارڈ نے مجھے عدالت میں پیشی پر لیجانے کے لئے اٹھایا ۔ مجھے بتایا گیا کہ ناشتہ کے لئے مجھے میکڈونلڈ لیجایا جا رہا ہے ۔ ناشتہ کے دوران میں نے مقامی چینل پر اس واقعہ اور اپنے خلاف فوٹیج دیکھیں جن میں لوگ احتجاج کر رہے تھے اور مجھے سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا ۔اس دوران میری نگرانی پر موجود لیفٹیننٹ نے مجھے بتایا کہ جن دو افراد کو میں نے گولی ماری تھی وہ ہلاک ہو گئے ہیں اور ان میں سے ایک نوجوان کی بیوی نے رات زہر کھا کر خودکشی کر لی ہے۔ اس نے کہا کہ ان تمام اموات کے ذمہ دار تم ہو ۔ مجھے لگا کہ لیفٹیننٹ میرا ردعمل دیکھنا چاہتا ہے لہذا میں نے کوئی جواب نہ دیا اور خود کو پُر اعتماد ظاہر کرنے لگا ۔
                  مجھے ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کیا گیا ۔ کمرہ عدالت لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور وہاں میں واحد امریکی تھا ۔ وہاں میری پیروی کرنے والا بھی کوئی نہ تھا ۔ یہاں تک کہ امریکن قونصلیٹ کی جانب سے بھی کوئی نمائندہ نہ آیا ۔ جج نے تفصیلات دریافت کیں تو ڈی ایس پی کاظمی نے مزنگ چونگی کا واقعہ بیان کیا ۔ یہ وہی سب تھا جو میں نے پولیس کو بیان میں بتایا تھا ۔ ڈی ایس پی کاظمی کے اس بیان سے مجھے حوصلہ ہوا کہ پولیس حقائق تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پراسیکیوٹر نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا میں اردو جانتا ہوں ۔ مجھے اردو کے محض چند الفاظ ہی آتے تھے لیکن پراسیکیوٹر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ میں اردو جانتا ہوں اور درحقیقت ایک جاسوس ہوں ۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ جاسوس کو مقامی زبانوں سے آگہی ہوتی ہے ۔ یہی بات ظاہر کرنے کے لئے پراسیکیوٹر نے جج سے اردو میں گفتگو شروع کر دی جس پر میں نے اعتراض کیا کہ مجھے صرف انگریزی آتی ہے لہذا میں کمرہ عدالت کی کارروائی سمجھنے سے قاصر ہوں ۔ اس کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ میں نے جن لڑکوں کو گولی ماری تھی وہ پولیس ریکارڈ یافتہ تھے اور متعدد بار گرفتار ہو چکے تھے ۔ اس واقعہ کے بعد بھی ان کے قبضہ سے ناجائز اسلحہ اور چوری شدہ موبائل برآمد ہوئے تھے ۔ اس کے باوجود پراسیکیوٹر نے مجھے مجرم ثابت کرنے کی پوری کوشش کی اورجج نے مجھے چودہ روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ۔​

                  Comment


                  • #10
                    یہ بہت ہائی لائٹ اسٹوری ہے۔۔۔۔اور یہ ہمارے لیے المیہ بھی ہے کہ ہمارے سیکورٹی ادارے کیا کر رہے ہیں؟ ملکی سالمیت اور شہریوں کی جان و مال کی حفاظت آخر کس کی زمہ داری ہے۔۔۔؟

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X