Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

ماضی کی اذیت

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • ماضی کی اذیت

    ایک بیوی اپنے شوہر کے ماضی میں کس قدر دلچسپی رکھتی ہے، یہ تو سبھی بیویاں جانتی ہیں۔ میں بھی مارے تجس کے ہر قیمت پر چاہتی تھی کہ وہ مجھے اپنے سارے راز بتادیں۔ تجس کی وجہ یہ تھی کہ جب میری شفقت سے شادی ہوئی، تب وہ کھوئے کھوئے سے رہتے تھے۔ ان کی شخصیت اس قیدی کی مانند تھی ، جو یادوں کے جال میں محصور ہوتا ہے۔ میں نئی دلہن تھی ، ان کے ہر وقت کھوئے رہنے کا راز جاننا چاہتی تھی لیکن کچھ پوچھنے سے ہچکچا رہی تھی۔ آخر ایک دن ہمت کر کے پوچھ ہی لیا کہ آپ کے دل پر کیسا بوجھ ہے ؟ کیوں پریشان سے رہتے ہیں۔ کہنے لگے۔ تم میری بیوی ہو، اگر دوست بنو تو میں تمہیں اپنے ماضی کی سیر کرائوں۔ ان کے ایسا کہنے پر خاموش ہو رہی۔ جانتی تھی کہ شفقت دیہات کے رہنے والے ہیں جو بیویوں کو دوست نہیں بناتے۔ ان کی بیویاں بس بیویاں ہی ہوتی ہیں ، جو ان کا ہر حکم بلا چون و چرا بجا لاتی ہیں۔ وہ بھلا کب ان کو اپنے دل کے راز سے آگاہ کرتے ہیں۔ وقت گزرتا گیا۔ شادی کے سال بعد میں ایک بیٹے کی ماں بن گئی۔ وہ بیٹے سے محبت کرتے تھے اور میں بھی۔ اس کڑی نے ہمیں ایک دوسرے سے قریب کر دیا تھا۔ مجھے لگا کہ اب وہ مجھ پر بھروسہ کرنے لگے ہیں اور ہمارے بیچ دوستی ایسا رشتہ قائم ہو رہا ہے، تبھی میں نے انہیں کریدا۔ آپ کے دل میں کیا ہے ؟ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ آپ ماضی میں کھو جاتے ہیں تو کئی دنوں تک گم صم رہتے ہیں۔ اب کی بار انہوں نے اجنبیوں کی طرح جواب نہیں دیا، بلکہ جیون ساتھی سمجھتے ہوئے دکھ سکھ بانٹا تو میں ششدر رہ گئی۔
    انہوں نے بتایا کہ گائوں میں ان کے بچپن کے کچھ دوست ایسے تھے جو کھاتے پیتے گھرانے سے تھے۔ وہ پڑھائی کی طرف توجہ نہیں دیتے تھے ، بے وجہ کی مصروفیات میں اپنا وقت ضائع کرتے تھے۔ انہی دوستوں میں ان کا زیادہ وقت گزرنے لگا۔ ہوتے ہوتے شفقت ان آوارہ مزاج لڑکوں کی ٹولی کے سرغنہ ہو گئے۔ میں نے از راہ مذاق کہا۔ مجھے تو پہلے یہ شک تھا آج آپ نے خود کہہ دیا کہ آپ واقعی آوارہ مزاج نوجوانوں کی ٹولی کے سرغنہ ہیں۔ یہ بات میں نے مذاق میں کہی تھی ، وہ سنجیدہ ہو گئے۔ بولے ایسا مت سوچو انعم ! تب مجھے احساس ہوا کہ جب کسی کے دل کی بات جاننی ہو تو اس سے اس طرح مذاق نہیں کیا کرتے۔ میں جانتی تھی کہ شفقت فطرتاً شرمیلے اور شریف خاندان سے ہیں۔ اچھے لڑکوں کی صحبت نہ ملی تو ایسے ویسے لڑکوں کے نرغے میں گھر گئے اور انہوں نے اُن کو اپنی لائن پر لگا لیا۔ اس عمر میں لڑکے باختہ دماغ ہوتے ہیں۔ بس پھر یہ انہی کے رنگ میں رنگ گئے اور پڑھائی سے دل اٹھا لیا۔ انہوں نے بالآخر مجھے اپنے ماضی کے بارے بتا دیا کہ …. جب شفقت کے والد نے بیٹے کی یہ حالت دیکھی تو ان کو بڑے بھائیوں کے سپرد کر دیا۔ شروع میں تو یہ بھائیوں کے ساتھ مل چلے جاتے تھے اور ان کی ہمراہی میں کام کرتے لیکن بعد میں یہ ان کے ساتھ جانے اور کام سے جی چرانے لگے۔ صبح سویرے نکل جاتے تو رات گئے گھر میں گھستے۔ سار ا وقت ان آوارہ مزاج لڑکوں کی صحبت میں گزارتے ، جو لڑکیوں کے پیچھے پھرتے۔ ان لڑکوں کو تو لڑکیوں کے پیچھے پھرنے کا جنون سا ہو گیا تھا لیکن ، وہ کہتے ہیں نا کہ جب برا وقت آتا ہے انسان کا سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ کم عقلی کی وجہ سے ان پر بھی برا وقت آگیا۔
    ہوا یوں کہ اپنے والد کی نگرانی اور دن رات کی نصیحتیں ان کو بہت بری لگتی تھیں۔ انہیں اب اپنے باپ کی ہر بات سے چڑا رہنے لگی۔ یہ ایسے ہو گئے کہ ہر وہ کام کرتے جس سے ان کو منع کیا جاتا۔ ان کی طبیعت میں ضد پیدا ہو گئی تھی۔ انہی دنوں ان کے ایک دوست ابرار کی گائوں کی دو تین لڑکیوں سے دوستی ہو گئی۔ وہ ان کو علیحدہ علیحدہ بے وقوف بنا رہا تھا۔ اکثر شفقت سے بھی کہتا کہ یار تم تو خوبصورت ہو اوراچھا لباس بھی پہنتے ہو پھر بھی کسی لڑکی کو مرعوب کر کے اسے اپنا دوست نہیں بنا سکے۔ آخر کیا بات ہے؟ کیا کمی ہے تم میں ؟ میں بہت شرمیلا ہوں۔ شفقت کا یہی جواب تھا۔ ان کی گفتگو تیسرے دوست وقار نے بھی سنی جو قریب ہی موجود تھا اور قدرے شریف لڑکا تھا۔ اس نے ابرار سے کہا۔ یار میں نے کتنی بار تم سے کہا ہے کہ شفقت شریف آدمی ہے ، اس کے ساتھ صرف اچھی دوستی رکھو اور ایسے ویسے چکروں میں نہ گھسیٹو۔ کسی دن اس بیچارے پر مصیبت آجائے گی- یہ لڑکا شفقت کو ابرار کے ساتھ جانے سے بھی منع کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ پانی کی بوند مسلسل پتھر پر بھی گرتی رہے تو اس میں شگاف ڈال دیتی ہے پس شفقت بھی ابرار کی چکنی چپڑی باتوں میں آگیا اور اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کر بیٹھا۔ اب وہ اکثر اپنے رنگین مزاج دوستوں کے ہمراہ گلیوں میں گھوما کرتا۔یہ کھیتوں میں چھپ کر لڑکیوں کو تاکتے اور کبھی کسی لڑکی کی تلاش میں دیواریں بھی پھلانگ جاتے تھے۔ ایک روز شفقت گلی سے گزر رہا تھا کہ نظر سامنے والے گھر میں بیٹھی ہوئی لڑکی پر پڑی، جو اپنے بال خشک کر رہی تھی ۔ اس کی نظر شفقت پر پڑی تو وہ ہنس دی، جیسے کوئی کسی مسخرے یا جوکر کو دیکھ کر ہنستا ہے۔ لڑکی کو تمسخرانہ انداز میں ہنستے دیکھ کر شفقت کو بڑا غصہ آیا، تبھی لڑکی نے اس کے کرتے کی طرف اشارہ کیا جو اس نے الٹا پہنا ہوا تھا۔ جب اس نے اپنے سراپا پر نظر کی تو جھینپ کر رہ گیا۔ یہ لڑکی جس برادری سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ بڑے سخت لوگ تھے اور اپنی لڑکیوں کے معاملے میں ایسے حساس کہ قتل ہو جاتے تھے۔ اس لڑکی کا نام علیزے تھا۔ اس کا باپ ایک سخت گیر اور خونخوار انسان تھا۔ وہ دولت مند بھی تھا۔ اکثر و بیشتر اس کا علاقے کے بار سوخ اور بڑے لوگوں سے ملنا ہوتا تھا۔ وہ اتنا ظالم تھا کہ اس کے قبیلے والے بھی اس سے کانپتے تھے۔ لوگوں پر ظلم کرتے ہوئے اس کو ذرہ بھر بھی ملال نہیں ہوتا تھا۔ اس کا نام شبیر خان تھا۔ اس شخص سے سبھی لوگ ڈرتے تھے مگر شفقت کو اس سے ذرا بھی ڈر نہیں لگتا تھا کیونکہ اس کی بیٹی علیزے اسے اچھی لگتی تھی۔ ۔ یہ اس کاروزانہ کا معمول ہو گیا کہ ایک خاص وقت پر اس کی گلی سے گزرتا اور جب تک اس کو دیکھ نہ لیتا، اسے چین نہ آتا۔ وہ علیزے کی چاہت میں اپنے ہوش گنوا بیٹھا تھا۔ وہ یہی سمجھتا تھا کہ علیزے بھی اس کو چاہتی ہے اور روزانہ اس کی ایک جھلک دیکھنے کی آرزو مند رہتی ہے۔ شفقت اپنی چاہت کی آرزو میں مست تھا۔ روزنت نئے کپڑے پہن کر اس کا دیدار کرنے جاتا، وہ نظر نہ آتی تو آوارہ بادل کی طرح سارا سارا دن کھیتوں کھلیانوں اور گائوں کی گلیوں میں بے مقصد گھومتا پھرتا تھا اور چلتے پھرتے علیزے کے رام ہونے کی دعا بھی کرتا تھا، یہاں تک کہ اس نے کئی پیروں کے درباروں میں حاضری بھی دی اور کئی مزاروں پر جا کر دیئے جلائے کہ یہ حسینہ مجھ پر مہربان ہو جائے۔
    دل سے مانگی دعا ضرور اثر رکھتی ہے۔ کسی خاص گھڑی میں اس کی دعا قبول ہو گئی۔ ایک دن ایک بچی کے ہاتھ اس نے پیغام بھیجا کہ تم رات کو میرے گھر کے بیرونی دروازے پر آجائو، میں وہاں تمہارا انتظار کروں گی۔ آج کل بابا جان گھر پر نہیں ہیں۔ اس پیغام کے ملتے ہی شفقت کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ اس کے دل کی مراد بر آئی۔ رات کے بارہ بجے تک وہ اپنے گھر کے صحت میں ٹہلتا رہا۔ بارہ بج کر پانچ منٹ پر وہ روانہ ہوا اور اس کے گھر کے بیرونی دروازے پر پہنچا۔ دیکھا تو وہ سراپا انتظار اس کی راہ تک رہی ہے۔ علیزے نے اسے گھر کے اندر آنے کا اشارہ کیا۔ شفقت دو گھنٹے اس کے پاس بیٹھا رہا اور وہ لڑکی بڑے اطمینان سے اس کے ساتھ باتیں کرتی رہی۔ اس کو کوئی خوف نہیں تھا۔ شفقت حیران تھا کہ یہ کیسی دلیر ہے کہ لڑکی ہو کر لڑکوں کے جیسا جگرا رکھتی ہے۔ آخر اس کے گھر کے باقی افراد کہاں ہیں ؟ بعد میں معلوم ہوا کہ علیزے کا باپ اکثر باہر رہتا ہے۔ ایک چچا ہے جو اپنی زمین پر ہوتا ہے۔ ایک بوڑھی دادی اور ایک چھوٹا بھائی تھا جسے وہ بہلا پھسلا کر سلا دیتی تھی۔ اس طرح انہیں ملتے ہوئے چھ ماہ گزر گئے لیکن ملاقاتیں صرف باتوں تک محدود ہوتی تھیں۔ شفقت نے اس لڑکی کی پاکیزگی کا خیال رکھا اور یہ اخلاقی فاصلہ ہمیشہ برقرار رہا، تاہم وہ علیزے کی چاہت میں دنیا ومافیہا کو بھلا چکا تھا۔ اس کے لئے چاند رات کو سورج بن کر طلوع ہوتا تھا اور بہار کا موسم بھی رات کو ہی پھولوں میں خوشبو بھرتا تھا۔
    یہ بہار کی مد ہوش کر دینے والی رات تھی، جس کے بارے میں اسے گمان تھا کہ شاید ہمیشہ اس کی زندگی کے روزوشب مہکاتی رہے گی۔ اسے کیا خبر تھی کہ یہ بہار کا جوبن عارضی ہے اور اس پر اب خزاں کا موسم آنے والا ہے۔ شاید بد قسمتی کا دور شروع ہو چکا تھا۔ وہ معمول کی طرح اس کے مکان پر پہنچا۔ دیوار پر چڑھا اور دوسری طرف چھلانگ لگا دی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اس کا باپ گھر نہیں ہو گا۔ اب یہ شفقت کی بد نصیبی تھی کہ حالات کی ستم ظریفی، کسی وجہ سے لڑکی کا باپ گھر واپس آچکا تھا، لیکن شفقت تو علیزے کا پروانہ تھا اور پروانے کی مانند اس کا دیوانہ ، بغیر ادھر ادھر دیکھے سیدھا علیزے کے کمرے کی طرف بڑھا اور دروازے کے ساتھ منہ لگا کر دیکھنے لگا۔ ابھی وہ دیکھ ہی رہا تھا کہ اسے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ پلٹ کر دیکھا تو شبیر خان کھڑا تھا۔ اونچا لمبا بھاری بھر کم جثہ ، جیسے کوئی مست ہاتھی چاروں پائوں پھیلائے کھڑا ہو۔ اس کے ہاتھ میں بندوق تھی۔ شفقت کو دیکھتے ہی اس کا چہرہ وحشت ناک ہو گیا اور شفقت کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتا، شبیر خان نے اس کے سر پر بندوق کا بٹ ماردیا۔ وہ بے ہوش ہو کر زمین پر ڈھیر ہو گیا۔ ہوش میں آیا تو شبیر خان کے ملازم سر پر کھڑے تھے۔ انہوں نے ٹھوکروں سے شفقت کو زمین پر رول کرنا شروع کر دیا جیسے قالین کو لپیٹتے ہیں۔ اس کا سارا بدن ہی لہو لہان اور نیلو نیل تھا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ یہ مرنے کے قریب ہے تو پولیس کو اطلاع کر دی کہ ہمارے گھر کود کرآیا تھا ہم نےاس کی خاطر تواضع کر دی ہے۔
    شفقت کی حالت غیر تھی، سو پولیس والے اسے اسپتال لے گئے جب حالت کچھ سنبھلی تو حوالات میں بند کر دیا۔ انہوں نے شفقت سے تفتیش کی۔ اس نے بتایا کہ میں چوری ڈکیتی کرنے ان کے گھر میں نہیں کو دا تھا بلکہ مجھے خودان کی لڑکی نے بلایا تھا اور اپنے کمرے میں بٹھایا ہوا تھا۔ جب پولیس علیزے کا بیان لینے گئی تو اس نے الٹ بیان دیا۔ کہا که شفقت اور ابرار نے کافی دنوں سے مجھے پریشان کیا ہوا تھا اور یہ دونوں ہی میری عزت کے دشمن ہیں۔ اس طرح ابرار بھی گرفتار ہو گیا۔ جب یہ بیانات ہو گئے تو شبیر خان نے اپنی لڑکی کو بھی معاف نہیں کیا، بلکہ ایک رات ٹوکے کے وار کر کے اسے بھی ختم کر دیا۔ علاقے میں ہاہا کار مچ گئی۔ پولیس ایک بار پھر وہاں گئی اور علیزے کی لاش کو قبضے میں کیا۔ لڑکی کا پوسٹ مارٹم ہوا تو سب حیران رہ گئے خاص طور پر شفقت کیونکہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں لڑکی کی پاکیزگی ختم ہو چکی تھی حالانکہ شفقت نے تو کبھی اس کی طرف میلی نگاہ سے بھی نہیں دیکھا تھا۔ جب ابرار پر سختی کی گئی اس نے قبول کر لیا کہ وہ علیزے سے تنہائی میں معنی خیز ملاقاتیں کیا کرتا تھا، جو پاکیزگی کی حدود میں نہیں رہی تھیں۔ شفقت کے والد صاحب نے اثر ورسوخ استعمال کر کے اپنے بیٹے کی خلاصی کر والی۔ اسے تو رہائی مل گئی مگر اقبالی بیان کی وجہ سے ابرار پر فرد جرم عائد کر دی گئی اور وہ لمبی سزا میں جیل چلا گیا۔ شفقت صاحب جب آزاد ہوئے تب قدر آئی کہ آزادی کتنی بڑی نعمت ہے اور محبت پر سے تو ان کا ایمان ہی اٹھ گیا۔ علیزے بہ یک وقت دونوں دوستوں سے دوستی کا ڈرامہ کھیل رہی تھی تبھی جان سے گئی۔ شفقت صاحب کا کہنا تھا۔ میں اس کی عزت کرتا تھا، تو وہ مجھ سے باتوں کی حد تک ملتی تھی اور ابرار کا دین ایمان کچھ اور روش پر تھا۔ وہ اس کے ساتھ اسی روش پر ملتی تھی۔ جتنی ہمارے شوہر صاحب کی خطا تھی بقول ان کے ، ان کو اتنی سزا ملی اور ابراراب تک جیل میں سزا بھگت رہا تھا۔ شبیر نے اس کی ضمانت بھی نہ ہونے دی تھی اور خود بیٹی کے قتل سے بری ہو گیا کہ وہاں کوئی عینی شاید بھی نہ تھا۔ یہ سب دولت کے کھیل ہیں۔ شفقت نے مجھ سے کہا تھا کہ تم میری ذہنی الجھن اور برسوں سے پڑے میرے دل پر پڑے بوجھ کے بارے میں پوچھ تو رہی ہو ، کیا تم مجھے معاف کر سکو گی ؟ میں نے وعدہ کیا تھا کہ ناراض نہیں ہوں گی اور کبھی ان کو ان کے ماضی کا طعنہ بھی نہیں دوں گی۔ بس انہیں جو دکھ ہے اس کو بانٹنے کی خواہش ہے۔ میں حسب وعدہ ان کی بیتی سن کر ناراض نہیں ہوئی بلکہ تسلی دی۔
    عورت بھی عجیب مخلوق ہے کبھی تو اتنی فراخ دل کہ شوہر کی ہر خطا بخش دے اور اف نہ کرے اور بھی اتنی تنگ دل کہ ذراسی بات پر اس کی اور اپنی زندگی اجیرن بنا دے لیکن شاید یہ صرف عورت کی فطرت پر ہی منحصر نہیں، مرد بھی کچھ کم شکی مزاج نہیں ہوتے۔ فرق صرف یہ ہے کہ عورت اپنی ناطاقتی کے سبب سب کچھ جھیلنے پر مجبور ہوتی ہے اور مرد خود مختار ہوتا ہے، غلطی کر کر کے بھی شرمندہ نہیں ہونا چاہتا۔ میرے ہی اصرار پر شفقت نے مجھے اپنے ماضی کا یہ ورق دکھایا تھا۔ مجھے کچھ وحشت سی ہوئی۔ وہ مجھے وقتی طور پر برے بھی لگے۔ جی چاہا کہ ان سے لڑپڑوں مگر میں ان سے نہ روٹھنے کا وعدہ کر چکی تھی، لہٰذا غصے اور رنج پر قابو پانا ہی تھا۔ تاہم مجھے پتا چل گیا کہ مرد کی ذات قابل اعتبار نہیں ہے۔ آج بھی جب وہ مجھ سے محبت جتلاتے ہیں تو مجھ یہ بات یاد آ جاتی ہے کہ محبت تو وہ کر. چکے علیزے سے کیونکہ محبت زندگی میں ایک ہی بار ہوتی ہے ، تب ان کا اقرار محبت مجھے جھوٹی بات لگنے لگتی ہے۔ سوچتی ہوں اے کاش میں ان کے منہ سے ان کی داستان محبت نہ سنتی کیونکہ وہ تو ماضی تھا اور ماضی قصہ پارینہ ہوتا ہے، لہٰذا شوہر کو بیوی سے اور بیوی کو شوہر سے کبھی اس کا ماضی نہ پوچھنا چاہیے۔ اس امر میں سوائے تکلیف اور ذہنی اذیت کے کچھ نہیں۔

  • #2
    زبردست۔۔۔۔۔۔۔

    Comment


    • #3
      زبردست

      Comment


      • #4
        بہت عمدہ کہانی۔

        Comment


        • #5
          محبت بھی کیا عجب چیز ہے جو اس کا ہو اُسے نوازتی ہے جو اس سے مقابلہ کرے اسے اجاڑتی ہے
          عورت کو کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے یہ معاف کرنا ب جانتی ہے ر انتقام لینا بھی سبق اور سچائی پر مبنی ایک لاجواب کہانی

          Comment


          • #6
            Boht dilchasp or behtareen Kahani

            Comment

            Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

            Working...
            X