Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

محسن نقوی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • محسن نقوی

    محسن نقوی کا تعارف
    تخلص :'محسن'
    اصلی نام :سید غلام عباس
    پیدائش :05 May 1947 | ڈیرہ غازی خان, پنجاب
    وفات :15 Jan 1996 | لاہور, پنجاب
    ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
    تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
    نام سید غلام عباس اورمحسن تخلص تھا۔ ۵؍مئی۱۹۴۷ء کو ڈیرہ غازی خاں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پرائمری اسکول، ڈیرہ غازی خاں میں حاصل کی۔ اس کے بعد گورنمنٹ کالج، ڈیرہ غازی خاں(موجودہ نام ٹیکنکل انسٹی ٹیوٹ) میں تعلیم پائی۔ بعد ازاں ایم اے تک تعلیم حاصل کی۔ شاعری میں شفقت کاظمی اور عبدالحمید عدم سے رہنمائی حاصل کی۔ ۱۹۶۹ء میں ڈیرہ غازی خاں کے ہفت روزہ’’ہلال‘‘ میں باقاعدہ ہفتہ وار قطعہ اور کالم لکھنا شروع کیا۔ اسی سال ملتان کے روزنامہ ’’امروز‘‘ میں ہفتے وار کالم لکھے۔ وہ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما تھے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں تمغا برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ ۱۵؍جنوری ۱۹۹۶ء کولاہور میں کسی نامعلوم شخص کی گولی سے جاں بحق ہوگئے۔ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’’بند قبا‘، ’برگ صحرا‘، ’ریزہ حرف‘، ’موج ادراک‘، ’ ردائے خواب‘، ’عذاب دید‘، ’طلوع اشک‘، ’رخت شب‘، ’خیمہ جاں‘، ’فرات فکر‘، ’میرا نوحہ انھی گلیوں کی ہوا لکھے گی‘

    اتنی مدت بعد ملے ہو
    محسن نقوی

    اتنی مدت بعد ملے ہو
    کن سوچوں میں گم پھرتے ہو
    اتنے خائف کیوں رہتے ہو
    ہر آہٹ سے ڈر جاتے ہو
    تیز ہوا نے مجھ سے پوچھا
    ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو
    کاش کوئی ہم سے بھی پوچھے
    رات گئے تک کیوں جاگے ہو
    میں دریا سے بھی ڈرتا ہوں
    تم دریا سے بھی گہرے ہو
    کون سی بات ہے تم میں ایسی
    اتنے اچھے کیوں لگتے ہو
    پیچھے مڑ کر کیوں دیکھا تھا
    پتھر بن کر کیا تکتے ہو
    جاؤ جیت کا جشن مناؤ
    میں جھوٹا ہوں تم سچے ہو
    اپنے شہر کے سب لوگوں سے
    میری خاطر کیوں الجھے ہو
    کہنے کو رہتے ہو دل میں
    پھر بھی کتنے دور کھڑے ہو
    رات ہمیں کچھ یاد نہیں تھا
    جیسے ہو پھر بھی اچھے ہو

  • #2
    بھڑکائیں مری پیاس کو اکثر تری آنکھیں
    محسن نقوی


    بھڑکائیں مری پیاس کو اکثر تری آنکھیں
    صحرا مرا چہرا ہے سمندر تری آنکھیں
    پھر کون بھلا داد تبسم انہیں دے گا
    روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تری آنکھیں
    خالی جو ہوئی شام غریباں کی ہتھیلی
    کیا کیا نہ لٹاتی رہیں گوہر تیری آنکھیں
    بوجھل نظر آتی ہیں بظاہر مجھے لیکن
    کھلتی ہیں بہت دل میں اتر کر تری آنکھیں
    اب تک مری یادوں سے مٹائے نہیں مٹتا
    بھیگی ہوئی اک شام کا منظر تری آنکھیں
    ممکن ہو تو اک تازہ غزل اور بھی کہہ لوں
    پھر اوڑھ نہ لیں خواب کی چادر تری آنکھیں
    میں سنگ صفت ایک ہی رستے میں کھڑا ہوں
    شاید مجھے دیکھیں گی پلٹ کر تری آنکھیں
    یوں دیکھتے رہنا اسے اچھا نہیں محسنؔ
    وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر تری آنکھیں

    Comment


    • #3
      اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
      محسن نقوی


      اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
      حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر
      کیا جانئے کیوں تیز ہوا سوچ میں گم ہے
      خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اڑا کر
      اس شخص کے تم سے بھی مراسم ہیں تو ہوں گے
      وہ جھوٹ نہ بولے گا مرے سامنے آ کر
      ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
      تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
      وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
      ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر
      اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے
      تو حلقۂ یاراں میں بھی محتاط رہا کر
      اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسنؔ
      دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر

      Comment


      • #4
        ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی
        محسن نقوی


        ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی
        میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی
        مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا
        رستہ بدل کے چلنے کی عادت اسے بھی تھی
        اس رات دیر تک وہ رہا محو گفتگو
        مصروف میں بھی کم تھا فراغت اسے بھی تھی
        مجھ سے بچھڑ کے شہر میں گھل مل گیا وہ شخص
        حالانکہ شہر بھر سے عداوت اسے بھی تھی
        وہ مجھ سے بڑھ کے ضبط کا عادی تھا جی گیا
        ورنہ ہر ایک سانس قیامت اسے بھی تھی
        سنتا تھا وہ بھی سب سے پرانی کہانیاں
        شاید رفاقتوں کی ضرورت اسے بھی تھی
        تنہا ہوا سفر میں تو مجھ پہ کھلا یہ بھید
        سائے سے پیار دھوپ سے نفرت اسے بھی تھی
        محسنؔ میں اس سے کہہ نہ سکا یوں بھی حال دل
        درپیش ایک تازہ مصیبت اسے بھی تھی

        Comment


        • #5
          یہ دل یہ پاگل دل مرا کیوں بجھ گیا آوارگی
          محسن نقوی
          دلچسپ معلومات
          فلم ماٹی مانگے خون ۱۹۸۴



          یہ دل یہ پاگل دل مرا کیوں بجھ گیا آوارگی
          اس دشت میں اک شہر تھا وہ کیا ہوا آوارگی
          کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا
          میں نے کہا تو کون ہے اس نے کہا آوارگی
          لوگو بھلا اس شہر میں کیسے جئیں گے ہم جہاں
          ہو جرم تنہا سوچنا لیکن سزا آوارگی
          یہ درد کی تنہائیاں یہ دشت کا ویراں سفر
          ہم لوگ تو اکتا گئے اپنی سنا آوارگی
          اک اجنبی جھونکے نے جب پوچھا مرے غم کا سبب
          صحرا کی بھیگی ریت پر میں نے لکھا آوارگی
          اس سمت وحشی خواہشوں کی زد میں پیمان وفا
          اس سمت لہروں کی دھمک کچا گھڑا آوارگی
          کل رات تنہا چاند کو دیکھا تھا میں نے خواب میں
          محسنؔ مجھے راس آئے گی شاید سدا آوارگی

          Comment


          • #6
            میں دل پہ جبر کروں گا تجھے بھلا دوں گا
            محسن نقوی


            میں دل پہ جبر کروں گا تجھے بھلا دوں گا
            مروں گا خود بھی تجھے بھی کڑی سزا دوں گا
            یہ تیرگی مرے گھر کا ہی کیوں مقدر ہو
            میں تیرے شہر کے سارے دیئے بجھا دوں گا
            ہوا کا ہاتھ بٹاؤں گا ہر تباہی میں
            ہرے شجر سے پرندے میں خود اڑا دوں گا
            وفا کروں گا کسی سوگوار چہرے سے
            پرانی قبر پہ کتبہ نیا سجا دوں گا
            اسی خیال میں گزری ہے شام درد اکثر
            کہ درد حد سے بڑھے گا تو مسکرا دوں گا
            تو آسمان کی صورت ہے گر پڑے گا کبھی
            زمیں ہوں میں بھی مگر تجھ کو آسرا دوں گا
            بڑھا رہی ہیں مرے دکھ نشانیاں تیری
            میں تیرے خط تری تصویر تک جلا دوں گا
            بہت دنوں سے مرا دل اداس ہے محسنؔ
            اس آئنے کو کوئی عکس اب نیا دوں گا

            Comment


            • #7
              اگرچہ میں اک چٹان سا آدمی رہا ہوں
              محسن نقوی


              اگرچہ میں اک چٹان سا آدمی رہا ہوں
              مگر ترے بعد حوصلہ ہے کہ جی رہا ہوں
              وہ ریزہ ریزہ مرے بدن میں اتر رہا ہے
              میں قطرہ قطرہ اسی کی آنکھوں کو پی رہا ہوں
              تری ہتھیلی پہ کس نے لکھا ہے قتل میرا
              مجھے تو لگتا ہے میں ترا دوست بھی رہا ہوں
              کھلی ہیں آنکھیں مگر بدن ہے تمام پتھر
              کوئی بتائے میں مر چکا ہوں کہ جی رہا ہوں
              کہاں ملے گی مثال میری ستم گری کی
              کہ میں گلابوں کے زخم کانٹوں سے سی رہا ہوں
              نہ پوچھ مجھ سے کہ شہر والوں کا حال کیا تھا
              کہ میں تو خود اپنے گھر میں بھی دو گھڑی رہا ہوں
              ملا تو بیتے دنوں کا سچ اس کی آنکھ میں تھا
              وہ آشنا جس سے مدتوں اجنبی رہا ہوں
              بھلا دے مجھ کو کہ بے وفائی بجا ہے لیکن
              گنوا نہ مجھ کو کہ میں تری زندگی رہا ہوں
              وہ اجنبی بن کے اب ملے بھی تو کیا ہے محسنؔ
              یہ ناز کم ہے کہ میں بھی اس کا کبھی رہا ہوں

              Comment


              • #8
                جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا
                محسن نقوی


                جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا
                اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا
                یہ دل یہ آسیب کی نگری مسکن سوچوں وہموں کا
                سوچ رہا ہوں اس نگری میں تو کب سے مہمان ہوا
                صحرا کی منہ زور ہوائیں اوروں سے منسوب ہوئیں
                مفت میں ہم آوارہ ٹھہرے مفت میں گھر ویران ہوا
                میرے حال پہ حیرت کیسی درد کے تنہا موسم میں
                پتھر بھی رو پڑتے ہیں انسان تو پھر انسان ہوا
                اتنی دیر میں اجڑے دل پر کتنے محشر بیت گئے
                جتنی دیر میں تجھ کو پا کر کھونے کا امکان ہوا
                کل تک جس کے گرد تھا رقصاں اک انبوہ ستاروں کا
                آج اسی کو تنہا پا کر میں تو بہت حیران ہوا
                اس کے زخم چھپا کر رکھیے خود اس شخص کی نظروں سے
                اس سے کیسا شکوہ کیجے وہ تو ابھی نادان ہوا
                جن اشکوں کی پھیکی لو کو ہم بے کار سمجھتے تھے
                ان اشکوں سے کتنا روشن اک تاریک مکان ہوا
                یوں بھی کم آمیز تھا محسنؔ وہ اس شہر کے لوگوں میں
                لیکن میرے سامنے آ کر اور بھی کچھ انجان ہوا

                Comment


                • #9
                  Bohat hi behtreen bohat hi aala aur shandar is main Meri aik top of my favorite ghazaal bhi hai bohat hi Pasand hai mujhey shukkriya purani yadeen taza Karne ke liye bohat arsa ho giya shayri parhey huy

                  Comment


                  • #10
                    خوبصورت شاعری ہے مزہ آگیا ہے

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X