Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

مرزا غالب

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Poetry مرزا غالب

    دکھ دے کر سوال کرتے ہو
    تم بھی غالب کمال کرتے ہو

    دیکھ کر پوچھ لیا حال میرا
    چلو کچھ تو میرا خیال کرتے ہو

    شہرِ دل میں یہ اداسیاں کیسی
    یہ بھی مجھ سے سوال کرتے ہو

    مرنا چاہیں تو مر نہیں سکتے
    تم بھی جینا محال کرتے ہو

    اب کس کس کی مثال دوں تم کو
    ہر ستم بے مثال کرتے ہو​

  • #2


    گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا
    وہ جو رکھتے تھے ہم اک حسرت تعمیر سو ہے​

    Comment


    • #3
      کیوں جل گیا نہ تاب رخ یار دیکھ کر
      جلتا ہوں اپنی طاقت دیدار دیکھ کر
      آتش پرست کہتے ہیں اہل جہاں مجھے
      سرگرم نالہ ہائے شرربار دیکھ کر
      کیا آبروئے عشق جہاں عام ہو جفا
      رکتا ہوں تم کو بے سبب آزار دیکھ کر
      آتا ہے میرے قتل کو پر جوش رشک سے
      مرتا ہوں اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر
      ثابت ہوا ہے گردن مینا پہ خون خلق
      لرزے ہے موج مے تری رفتار دیکھ کر
      واحسرتا کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ
      ہم کو حریص لذت آزار دیکھ کر
      بک جاتے ہیں ہم آپ متاع سخن کے ساتھ
      لیکن عیار طبع خریدار دیکھ کر
      زنار باندھ سبحۂ صد دانہ توڑ ڈال
      رہ رو چلے ہے راہ کو ہموار دیکھ کر
      ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں
      جی خوش ہوا ہے راہ کو پر خار دیکھ کر
      کیا بد گماں ہے مجھ سے کہ آئینے میں مرے
      طوطی کا عکس سمجھے ہے زنگار دیکھ کر
      گرنی تھی ہم پہ برق تجلی نہ طور پر
      دیتے ہیں بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر
      سر پھوڑنا وہ غالبؔ شوریدہ حال کا
      یاد آ گیا مجھے تری دیوار دیکھ کر

      Comment


      • #4
        دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
        دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی
        شق ہو گیا ہے سینہ خوشا لذت فراغ
        تکلیف پردہ داری زخم جگر گئی
        وہ بادۂ شبانہ کی سرمستیاں کہاں
        اٹھیے بس اب کہ لذت خواب سحر گئی
        اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں
        بارے اب اے ہوا ہوس بال و پر گئی
        دیکھو تو دل فریبی انداز نقش پا
        موج خرام یار بھی کیا گل کتر گئی
        ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
        اب آبروئے شیوۂ اہل نظر گئی
        نظارہ نے بھی کام کیا واں نقاب کا
        مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی
        فردا و دی کا تفرقہ یک بار مٹ گیا
        کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گزر گئی
        مارا زمانہ نے اسداللہ خاں تمہیں
        وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی

        Comment


        • #5
          مہرباں ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس وقت
          میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں
          ضعف میں طعنہ اغیار کا شکوہ کیا ہے
          بات کچھ سر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں
          زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستم گر ورنہ
          کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں
          اس قدر ضبط کہاں ہے کبھی آ بھی نہ سکوں
          ستم اتنا تو نہ کیجے کہ اٹھا بھی نہ سکوں
          لگ گئی آگ اگر گھر کو تو اندیشہ کیا
          شعلۂ دل تو نہیں ہے کہ بجھا بھی نہ سکوں
          تم نہ آؤ گے تو مرنے کی ہیں سو تدبیریں
          موت کچھ تم تو نہیں ہو کہ بلا بھی نہ سکوں
          ہنس کے بلوائیے مٹ جائے گا سب دل کا گلہ
          کیا تصور ہے تمہارا کہ مٹا بھی نہ سکوں

          Comment


          • #6
            رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
            ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہمزباں کوئی نہ ہو
            بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے
            کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
            پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار
            اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو

            Comment


            • #7
              ملتی ہے خوئے یار سے نار التہاب میں
              کافر ہوں گر نہ ملتی ہو راحت عذاب میں
              کب سے ہوں کیا بتاؤں جہان خراب میں
              شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں
              تا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر
              آنے کا عہد کر گئے آئے جو خواب میں
              قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
              میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
              مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دور جام
              ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
              جو منکر وفا ہو فریب اس پہ کیا چلے
              کیوں بد گماں ہوں دوست سے دشمن کے باب میں
              میں مضطرب ہوں وصل میں خوف رقیب سے
              ڈالا ہے تم کو وہم نے کس پیچ و تاب میں
              میں اور حظ وصل خدا ساز بات ہے
              جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں
              ہے تیوری چڑھی ہوئی اندر نقاب کے
              ہے اک شکن پڑی ہوئی طرف نقاب میں
              لاکھوں لگاؤ ایک چرانا نگاہ کا
              لاکھوں بناؤ ایک بگڑنا عتاب میں
              وہ نالہ دل میں خس کے برابر جگہ نہ پائے
              جس نالہ سے شگاف پڑے آفتاب میں
              وہ سحر مدعا طلبی میں نہ کام آئے
              جس سحر سے سفینہ رواں ہو سراب میں
              غالبؔ چھٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی
              پیتا ہوں روز ابر و شب ماہتاب میں

              Comment


              • #8
                شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
                یہ بھی مت کہہ کہ جو کہیے تو گلہ ہوتا ہے
                پر ہوں میں شکوے سے یوں راگ سے جیسے باجا
                اک ذرا چھیڑئیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے
                گو سمجھتا نہیں پر حسن تلافی دیکھو
                شکوۂ جور سے سرگرم جفا ہوتا ہے
                عشق کی راہ میں ہے چرخ مکوکب کی وہ چال
                سست رو جیسے کوئی آبلہ پا ہوتا ہے
                کیوں نہ ٹھہریں ہدف ناوک بیداد کہ ہم
                آپ اٹھا لاتے ہیں گر تیر خطا ہوتا ہے
                خوب تھا پہلے سے ہوتے جو ہم اپنے بد خواہ
                کہ بھلا چاہتے ہیں اور برا ہوتا ہے
                نالہ جاتا تھا پرے عرش سے میرا اور اب
                لب تک آتا ہے جو ایسا ہی رسا ہوتا ہے
                خامہ میرا کہ وہ ہے باربد بزم سخن
                شاہ کی مدح میں یوں نغمہ سرا ہوتا ہے
                اے شہنشاہ کواکب سپہ و مہر علم
                تیرے اکرام کا حق کس سے ادا ہوتا ہے
                سات اقلیم کا حاصل جو فراہم کیجے
                تو وہ لشکر کا ترے نعل بہا ہوتا ہے
                ہر مہینے میں جو یہ بدر سے ہوتا ہے ہلال
                آستاں پر ترے مہ ناصیہ سا ہوتا ہے
                میں جو گستاخ ہوں آئین غزل خوانی میں
                یہ بھی تیرا ہی کرم ذوق فزا ہوتا ہے
                رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
                آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

                Comment


                • #9
                  گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر
                  جانے گا اب بھی تو نہ مرا گھر کہے بغیر
                  کہتے ہیں جب رہی نہ مجھے طاقت سخن
                  جانوں کسی کے دل کی میں کیونکر کہے بغیر
                  کام اس سے آ پڑا ہے کہ جس کا جہان میں
                  لیوے نہ کوئی نام ستم گر کہے بغیر
                  جی میں ہی کچھ نہیں ہے ہمارے وگرنہ ہم
                  سر جائے یا رہے نہ رہیں پر کہے بغیر
                  چھوڑوں گا میں نہ اس بت کافر کا پوجنا
                  چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر
                  مقصد ہے ناز و غمزہ ولے گفتگو میں کام
                  چلتا نہیں ہے دشنہ و خنجر کہے بغیر
                  ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
                  بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
                  بہرا ہوں میں تو چاہیئے دونا ہو التفات
                  سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر
                  غالبؔ نہ کر حضور میں تو بار بار عرض
                  ظاہر ہے تیرا حال سب ان پر کہے بغیر

                  Comment


                  • #10
                    تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے
                    حوران خلد میں تری صورت مگر ملے
                    اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعد قتل
                    میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے
                    ساقی گری کی شرم کرو آج ورنہ ہم
                    ہر شب پیا ہی کرتے ہیں مے جس قدر ملے
                    تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم
                    میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے
                    تم کو بھی ہم دکھائیں کہ مجنوں نے کیا کیا
                    فرصت کشاکش غم پنہاں سے گر ملے
                    لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
                    جانا کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے
                    اے ساکنان کوچۂ دل دار دیکھنا
                    تم کو کہیں جو غالب آشفتہ سر ملے

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X