Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

محسن نقوی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Poetry محسن نقوی

    اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
    حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر
    کیا جانئے کیوں تیز ہوا سوچ میں گم ہے
    خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اڑا کر
    اس شخص کے تم سے بھی مراسم ہیں تو ہوں گے
    وہ جھوٹ نہ بولے گا مرے سامنے آ کر
    ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
    تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
    وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
    ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر
    اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے
    تو حلقۂ یاراں میں بھی محتاط رہا کر
    اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسنؔ
    دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر

  • #2
    Originally posted by Sexy_dick_lhr View Post
    اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
    حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر
    کیا جانئے کیوں تیز ہوا سوچ میں گم ہے
    خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اڑا کر
    اس شخص کے تم سے بھی مراسم ہیں تو ہوں گے
    وہ جھوٹ نہ بولے گا مرے سامنے آ کر
    ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
    تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
    وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
    ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر
    اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے
    تو حلقۂ یاراں میں بھی محتاط رہا کر
    اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسنؔ
    دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر
    Wah wah boht aala

    Comment


    • #3
      تجھے اب کس لئے شکوہ ہے بچے گھر نہیں رہتے
      جو پتے زرد ہو جائیں وہ شاخوں پر نہیں رہتے
      تو کیوں بے دخل کرتا ہے مکانوں سے مکینوں کو
      وہ دہشت گرد بن جاتے ہیں جن کے گھر نہیں رہتے
      جھکا دے گا تیری گردن کو یہ خیرات کا پتھر
      جہاں میں مانگنے والوں کے اونچے سر نہیں رہتے
      یقیناً یہ رعایا بادشاہ کو قتل کر دے گی
      مسلسل جبر سے محسن دلوں میں ڈر نہیں رہتے

      Comment


      • #4
        فنکار ہے تو ہاتھہ پہ سورج سجا کے لا
        بجھتا ہوا دیا نہ مقابل ہوا کے لا
        دریا کا انتقام ڈبو دے نہ گھر تیرا
        ساحل سے روز روز نہ کنکر اٹھا کے لا
        اب اختتام کو ہے سخی حرف التماس
        کچھہ ہے تو اب وہ سامنے دست دعا کے لا
        پیماں وفا کے باندھ مگر سوچ سوچ کر
        اس ابتدا میں یوں نہ سخن انتہا کے لا
        آرائش جراحت یاراں کی بزم میں
        جو زخم دل میں ہیں سبھی تن پر سجا کے لا
        تھوڑی سی اور موج میں آ اے ہوائے گل
        تھوڑی سی اس کے جسم کی چرا کے لا
        گر سوچنا ہیں اہل مشیت کے حوصلے
        میداں سے گھر میں ایک تو میت اٹھا کے لا
        محسن اب اس کا نام ہے سب کی زبان پر
        کس نے کہا کہ اس کو غزل میں سجا لا

        Comment


        • #5
          یہ رونقیں یہ لوگ یہ گھر چھوڑ جاؤنگا
          اک دن میں روشنی کا نگر چھوڑ جاؤ نگا
          مرنے سے پیشتر میری آواز مت چرا
          میں اپنی جاۂیداد ادھر چھوڑ جاؤں گا
          قاتل مرا نشان مٹانے پہ ہے بضد
          میں بھی سناں کی نوک پہ سرَ چھوڑ جاؤنگا
          تْو نے مجھے چراغ سمجھ کر بجھا دیا
          لیکن تیرے لۓ میں سحر چھوڑ جاؤنگا
          آۂندہ نسل مجھ کو پڑھے گی غزل غزل
          میں حرف حرف اپنا ہنر چھوڑ جاؤنگا

          Comment


          • #6
            میرے سِوا سرِ مقتل مقام کس کا ہے
            کہو کہ اب لبِ قاتل پہ نام کس کا ہے
            یہ تخت و تاج و قبا سب انہیں مبارک ہوں
            مگر بہ نوکِ سِناں احترام کس کا ہے
            تمہاری بات نہیں تم تو چارہ گر تھے مگر
            یہ جشنِ فتح، پسِ قتلِ عام کس کا ہے
            ہماری لاش پہ ڈھونڈو نہ اُنگلیوں کے نشاں
            ہمیں خبر ہے عزیزو یہ کام کس کا ہے
            فنا کے ہانپتے جھونکے ہوا سے پوچھتے ہیں
            جبینِ وقت پہ نقشِ دوام کس کا ہے
            تمہاری بات تو حرفِ غلط تھی مِٹ بھی گئی
            اُتر گیا جو دلوں میں کلام کس کا ہے
            وہ مطمئن تھے بہت قتل کر کے محسنؔ کو
            مگر یہ ذکرِ وفا صبح و شام کس کا ہے

            Comment


            • #7
              فلک پر اِک ستارا رہ گیا ہے
              میرا ساتھی اکیلا رہ گیا ہے
              یہ کہہ کر پھر پلٹ آئیں ہوائیں
              شجر پر ایک پتا رہ گیا ہے
              ہر اِک رُت میں تیرا غم ہے سلامت
              یہ موسم ایک جیسا رہ گیا ہے
              ہمارے بعد کیا گزری عزیزو
              سناؤ شہر کیسا رہ گیا ہے؟
              برس کچھ اور اے آوارہ بادل
              کہ دِل کا شہر پیاسا رہ گیا ہے
              خداوندا سنبھال اپنی امانت
              بشر دنیا میں تنہا رہ گیا ہے
              حوادث کس لیے ڈھونڈیں گے مجھ کو؟
              میرے دامن میں اب کیا رہ گیا ہے؟
              ستارے بانٹتا پھرتا ہوں "محسن"
              مگر گھر میں اندھیرا رہ گیا ہے

              Comment


              • #8
                مطمئن ہوں کہ مجھے یاد رکھے گی دنیا
                جب بھی اس شہر کی تاریخِ وفا لکھے گی
                میرا ماتم اِسی چپ چاپ فضاء میں ہوگا
                میرا نوحہ اِنہی گلیوں کی ہوا لکھے گی

                Comment


                • #9
                  بچھڑ کے مجھ سے کبھی تو نے یہ بھی سوچا ہے
                  ادھورا چاند بھی کتنا اداس لگتا ھے
                  یہ ختم وصال کا لمحہ ہے را ئگاں نہ سمجھ
                  کہ اس کے بعد وہی دوریوں کا صحرا ہے
                  کچھ اور دیر نہ جھاڑنا اداسیوں کے شجر
                  کسے خبر کون تیرے سائے میں بیٹھا ہے
                  یہ رکھ رکھاؤ محبت سکھا گئی اس کو
                  وہ روٹھ کر بھی مجھے مسکرا کے ملتا ہے
                  میں کس طرح تجھے دیکھوں نظر جھجکتی ہے
                  یہ بدن ہے کہ آئینو ں کا دریا ہے
                  کچھ اس قدر بھی تو آساں نہیں ہے عشق تیرا
                  یہ زہر دل میں اتر کے ہی راس آتا ہے
                  میں تجھ کو پا کے بھی کھویا ہوا سا رہتا ہوں
                  کبھی کبھی تو مجھے تو نے ٹھیک سمجھا ہے
                  مجھے خبر ہے کہ کیا ہے جدائیوں کا عذاب
                  کہ میں نے شاخ سے گل کوبچھڑتے دیکھا ہے
                  میں مسکرا بھی پڑا ہوں تو کیوں خفا ہیں یہ لوگ
                  کہ پھول ٹوٹی ہو ئی قبر پر بھی کھلتا ہے
                  اسے گنوا کے میں زندہ ہوں اس طرح محسن
                  کہ جیسے تیز ہوا میں چراغ جلتا ہے

                  Comment


                  • #10
                    خزاں کی دھوپ سے شکوہ فضول ہے محسن
                    میں یوں بھی پھول تھا آخر مجھے بکھرنا تھا
                    وہ کون لوگ تھے ، ان کا پتہ تو کرنا تھا
                    مرے لہو میں نہا کر جنہیں نکھرنا تھا
                    یہ کیا کہ لوٹ بھی آئے سراب دیکھ کے لوگ
                    وہ تشنگی تھی کہ پاتال تک اترنا تھا
                    گلی کا شور ڈرائے گا دیر تک مجھ کو
                    میں سوچتا ہوں دریچوں کو وا نہ کرنا تھا
                    یہ تم نے انگلیاں کیسے فگار کر لی ہیں ؟
                    مجھے تو خیر لکیروں میں رنگ بھرنا تھا
                    وہ ہونٹ تھے کہ شفق میں نہائی کرنیں تھیں ؟
                    وہ آنکھ تھی کہ خنک پانیوں کا جھرنا تھا ؟
                    گلوں کی بات کبھی راز رہ نہ سکتی تھی
                    کہ نکہتوں کو تو ہر راہ سے گزرنا تھا
                    خزاں کی دھوپ سے شکوہ فضول ہے محسن
                    میں یوں بھی پھول تھا آخر مجھے بکھرنا تھا

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X