Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

ن م راشد

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • ن م راشد


    ۔۔۔۔۔۔۔۔ زندگی سے ڈرتے ہو؟
    زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں!
    آدمی سے ڈرتے ہو؟
    آدمی تو تم بھی ہو، آدمی تو ہم بھی ہیں!
    آدمی زباں بھی ہے، آدمی بیاں بھی ہے،
    اس سے تم نہیں ڈرتے!
    حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے، آدمی ھے وابستہ
    آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ
    اس سے تم نہیں ڈرتے!
    "ان کہی" سے ڈرتے ہو
    جو ابھی نہیں آئی، اس گھڑی سے ڈرتے ہو
    اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو!

    ۔۔۔۔۔۔۔ پہلے بھی تو گزرے ہیں،
    دور نارسائی کے، "بے ریا" خدائی کے
    پھر بھی یہ سمجھتے ہو، ہیچ آرزو مندی
    یہ شب زباں بندی، ہے رہ ِخداوندی!
    تم مگر یہ کیا جانو،
    لب اگر نہیں ہلتے، ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں
    ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں، راہ کا نشاں بن کر
    نور کی زباں بن کر
    ہاتھ بول اٹھتے ہیں، صبح کی اذاں بن کر
    روشنی سے ڈرتے ہو؟
    روشنی تو تم بھی ہو، روشنی تو ہم بھی ہیں،
    روشنی سے ڈرتے ہو!

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شہر کی فصیلوں پر
    دیو کا جو سایہ تھا پاک ہو گیا آخر
    رات کا لبادہ بھی
    چاک ہو گیا آخر، خاک ہو گیا آخر
    اژدہام ِانساں سے فرد کی نوا آئی
    ذات کی صدا آئی
    راہِ شوق میں جیسے، راہرو کا خوں لپکے
    اک نیا جنوں لپکے!
    آدمی چھلک اٹّھے
    آدمی ہنسے دیکھو، شہر پھر بسے دیکھو
    تم ابھی سے ڈرتے ہو؟​

  • #2
    lajawab

    Comment


    • #3
      Shandar aur behtreen

      Comment


      • #4
        شہر میں صبح -- از ن م راشد

        مجھے فجر آئی ہے شہر میں
        مگر آج شہر خموش ہے!

        کوئی شہر ہے،
        کسی ریگ زار سے جیسے اپنا وصال ہو!
        نہ صدائے سگ ہے نہ پائے دزد کی چاپ ہے
        نہ عصائے ہمّتِ پاسباں
        نہ اذانِ فجر سنائی دے ۔۔۔۔۔۔

        اب وجد کی یاد، صلائے شہر،
        نوائے دل
        مرے ھم رکاب ہزار ایسی بلائیں ہیں!
        (اے تمام لوگو!
        کہ میں جنھیں کبھی جانتا تھا
        کہاں ہو تم؟
        تمہیں رات سونگھ گئی ہے کیا
        کہ ہو دور قیدِ غنیم میں؟
        جو نہیں‌ ہیں قیدِ غنیم میں
        وہ پکار دیں!)

        اسی اک خرابے کے سامنے
        میں یہ بار ِدوش اتار دوں
        ِِِمجھے سنگ و خشت بتا رہے ہیں کہ کیا ہوا
        مجھے گرد و خاک سنا رہے ہیں وہ داستاں
        جو زوالِ جاں کا فسانہ ہے
        ابھی بُوئے خوں ہے نسیم میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
        تمہیں آن بھر میں‌خدا کی چیخ نے آلیا
        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ خدا کی چیخ
        جو ہر صدا سے ہے زندہ تر

        کہیں گونج کوئی سنائی دے
        کوئی بھولی بھٹکی فغاں ملے،
        میں پہنچ گیا ہوں تمہارے بستر خواب تک
        کہ یہیں سے گم شدہ راستوں کا نشاں ملے!​

        Comment


        • #5
          اندھا کباڑی -- از ن م راشد

          شہر کے گوشوں میں ہیں بکھرے ھوئے
          پا شکستہ سر بریدہ خواب
          جن سے شہر والے بے خبر!

          گھومتا ہوں شہر کے گوشوں میں روز و شب
          کہ ان کو جمع کر لوں
          دل کی بھٹی میں تپاؤں
          جس سے چھٹ جائے پرانا میل
          ان کے دست و پا پھر سے ابھر آئیں
          چمک اٹھیں لب و رخسار و گردن
          جیسے نو آراستہ دولھوں کے دل کی حسرتیں
          پھر سے ان خوابوں کو سمت رہ ملے!

          "خواب لے لو خواب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "
          صبح ہوتے ہی چوک میں جا کر لگاتا ہوں صدا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
          "خواب اصلی ہیں کہ نقلی"
          یوں پرکھتے ہیں کہ جیسے ان سے بڑھ کر
          خواب داں کوئی نہ ہو!

          خواب گر میں بھی نہیں
          صورت گر ثانی ہوں بس ۔۔۔۔۔۔۔
          ہاں مگر میری معیشت کا سہارا خواب ہیں!

          شام ھو جاتی ہے
          میں پھر سے لگاتا ہوں صدا ۔۔۔۔۔۔۔
          "مفت لے لو مفت، یہ سونے کے خواب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
          "مفت" سن کر اور ڈر جاتے ہیں لوگ
          اور چپکے سے سرک جاتے ہیں لوگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
          "دیکھنا یہ "مفت" کہتا ہے
          کوئی دھوکا نہ ہو!
          ایسا کوئی شعبدہ پنہاں نہ ہو
          گھر پہنچ کر ٹوٹ جائیں
          یا پگھل جائیں یہ خواب
          بھک سے اڑ جائیں کہیں
          یا ہم پہ کوئی سحر کر ڈالیں یہ خواب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
          جی نہیں کس کام کے؟
          ایسے کباڑی کے یہ خواب
          ایسے نابینا کباڑی کے یہ خواب!"

          رات ہو جاتی ہے
          خوابوں کے پلندے سر پہ رکھ کر
          منہ بسورے لوٹتا ہوں
          رات بھر پھر بڑبڑاتا ہوں
          "یہ لے لو خواب ۔۔۔۔۔۔۔۔"
          اور لے لو مجھ سے ان کے دام بھی
          خواب لے لو، خواب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
          میرے خواب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
          خواب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے خواب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
          خو ا ا ا ا ب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
          ان کے د ا ا ا ا م بھی ی ی ی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"​

          Comment


          • #6
            رقص -- از ن م راشد

            اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
            زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں میں
            ڈر سے لرزاں ہوں کہیں ایسا نہ ہو
            رقص گہ کے چور دروازے سے آ کر زندگی
            ڈھونڈ لے مجھ کو، نشاں پا لے مرا
            اور جرم عیش کرتے دیکھ لے!

            اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
            رقص کی یہ گردشیں
            ایک مبہم آسیا کے دور ہیں
            کیسی سرگرمی سے غم کو روندتا ہوں میں!
            جی میں کہتا ھوں کہ ہاں،
            رقص گہ میں زندگی کے جھانکنے سے پیشتر
            کلفتوں کا سنگریزہ ایک بھی رہنے نا پائے!

            اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
            زندگی میرے لیے
            ایک خونیں بھیڑ یے سے کم نہیں
            اے حسین و اجنبی عورت اسی کے ڈر سے میں
            ہو رہا ہوں لمحہ لمحہ اور بھی تیرے قریب
            جانتا ھوں تو مری جاں بھی نہیں
            تجھ سے ملنے کا پھر امکاں بھی نہیں
            تو مری ان آرزوؤں کی مگر تمثیل ھے
            جو رھیں مجھ سے گریزاں آج تک!

            اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
            عہد پارینہ کا میں انساں نہیں
            بندگی سے اس در و دیوار کی
            ہو چکی ہیں خواہشیں بے سوز و رنگ و ناتواں
            جسم سے تیرے لپٹ سکتا تو ہوں
            زندگی پر میں جھپٹ سکتا نہیں!
            اس لیے اب تھام لے
            اے حسین و اجنبی عورت مجھے اب تھام لے!​

            Comment


            • #7
              زندگی اک پیرہ زن!

              زندگی اک پیرہ زن!
              جمع کرتی ھے گلی کوچوں میں روز و شب پرانی دھجیاں!
              تیز، غم انگیز، دیوانہ ہنسی سے خندہ زن
              بال بکھرے، دانت میلے، پیرہن
              دھجیوں کا ایک سونا اور نا پیدا کراں، تاریک بن!

              لو ہوا کے ایک جھونکے سے اڑی ہیں ناگہاں
              ہاتھ سے اس کے پرانے کاغذوں کی بالیاں
              اور وہ آپے سے باہر ہو گئی
              اس کی حالت اور ابتر ہو گئی
              سہہ سکے گا کون یہ گہرا زیاں

              اب ہوا سے ہار تھک کر جھک گئی ھے پیرہ زن
              جھک گئی ہے پاؤں پر، جیسے دفینہ ہو وہاں!
              زندگی، تو اپنے ماضی کے کنوئیں میں جھانک کر کیا پائے گی

              اس پرانے اور زہریلی ہواؤں سے بھرے، سونے کنویں میں
              جھانک کر اس کی خبر کیا لائے گی
              اس کی تہہ میں سنگریزوں کے سوا کچھ بھی نہیں
              جز صدا کچھ بھی نہیں!​

              Comment


              • #8
                کونسی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟ - از ن م راشد

                لب بیاباں، بوسے بے جاں
                کونسی الجھن کو سلجھاتے ھیں ہم؟
                جسم کی یہ کار گاہیں
                جن کا ہیزم آپ بن جاتے ہیں ہم!
                نیم شب اور شہر خواب آلودہ، ہم سائے
                کہ جیسے دزدِ شبِ گرداں کوئی!
                شام سے تھے حسرتوں کے بندہ بے دام ہم
                پی رھے تھے جام پر ہر جام ہم
                یہ سمجھ کر، جرعہ ِپنہاں کوئی
                شائد آخر، ابتدائے راز کا ایما بنے

                مطلب آساں، حرف بے معنی
                تبسّم کے حسابی زاو یے
                متن کے سب حاشیے،
                جن سے عیش خام کے نقش ریا بنتے رہے!
                اور آخر بعُد جسموں میں سر مو بھی نہ تھا
                جب دلوں کے درمیاں حائل تھے سنگیں فاصلے
                قرب چشم و گوش سے ہم کونسی الجھن کو سلجھاتے رہے!
                کونسی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟
                شام کو جب اپنی غم گاہوں سے دزدانہ نکل آتے ہیں ہم!
                زندگی کو تنگنائے تازہ تر کی جستجو
                یا زوال عمر کا دیو سبک پا رو برو
                یا انا کے دست و پا کو وسعتوں کی آرزو
                کونسی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟​

                Comment


                • #9
                  آئینہ حسّ و خبر سے عاری - از ن م راشد


                  آئینہ حسّ و خبر سے عاری،
                  اس کے نابود کو ہم ہست بنائیں کیسے؟
                  منحصر ہستِ تگا پوئے شب و روز پہ ہے
                  دلِ آئینہ کو آئینہ دکھائیں کیسے؟
                  دلِ آئینہ کی پہنائی بے کار پہ ہم روتے ہیں،
                  ایسی پہنائی کہ سبزہ ہے نمو سے محروم
                  گل ِنو رستہ ہے بو سے محروم!

                  آدمی چشم و لب و گوش سے آراستہ ہیں
                  لطفِ ہنگامہ سے نور ِمن و تو سے محروم!
                  مے چھلک سکتی نہیں، اشک کے مانند یہاں
                  اور نشّے کی تجلّی بھی جھلک سکتی نہیں
                  نہ صفائے دلِ آئینہ ِگزرگاہِ خیال!

                  آئینہ حسّ و خبر سے عاری
                  اس کے نابود کو ہم ہست بنائیں کیسے؟
                  آئینہ ایسا سمندر ہے جسے
                  کر دیا دستِ فسوں گر نے ازل میں ساکن!
                  عکس پر عکس در آتا ہے یہ امّید لیے
                  اس کے دم ہی سے فسونِ دلِ تنہا ٹوٹے
                  یہ سکوتِ اجل آسا ٹوٹے!

                  آئینہ ایک پر اسرار جہاں میں اپنے
                  وقت کی اوس کے قطروں کی صدا سنتا ہے،
                  عکس کو دیکھتا ہے، اور زباں بند ہے وہ
                  شہر مدفون کے مانند ہے وہ!
                  اس کے نابود کو ہم ہست بنائیں کیسے؟
                  آئینہ حسّ و خبر سے عاری!​

                  Comment


                  • #10

                    میرے بھی ہیں کچھ خواب - از ن م راشد

                    اے عشق ازل گیر و ابد تاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب
                    میرے بھی ہیں کچھ خواب!
                    اس دور سے، اس دور کے سوکھے ہوئے دریاؤں سے،
                    پھیلے ہوئے صحراؤں سے، اور شہروں کے ویرانوں سے
                    ویرانہ گروں سے میں حزیں اور اداس!
                    اے عشق ازل گیر و ابد تاب
                    میرے بھی ہیں کچھ خواب!

                    اے عشق ازل گیر و ابد تاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب
                    میرے بھی ہیں کچھ خواب
                    وہ خواب کہ اسرار نہیں جن کے ہمیں آج بھی معلوم
                    وہ خواب جو آسودگیء مرتبہ و جاہ سے،
                    آلودگیء گرد سر راہ سے معصوم!
                    جو زیست کی بے ہودہ کشاکش سے بھی ہوتے نہیں معدوم
                    خود زیست کا مفہوم!

                    اے عشق ازل گیر و ابد تاب،
                    اے کاہن دانشور و عالی گہر و پیر
                    تو نے ہی بتائی ہمیں ہر خواب کی تعبیر
                    تو نے ہی سجھائی غم دلگیر کی تسخیر
                    ٹوٹی ترے ہاتھوں ہی سے ہر خوف کی زنجیر
                    اے عشق ازل گیر و ابد تاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب
                    میرے بھی ہیں کچھ خواب!

                    اے عشق ازل گیر و ابد تاب،
                    کچھ خواب کہ مدفون ہیں اجداد کے خود ساختہ اسمار کے نیچے
                    اجڑے ہوئے مذہب کے بنا ریختہ اوہام کی دیوار کے نیچے
                    شیراز کے مجذوب تنک جام کے افکار کے نیچے
                    تہذیب نگوں سار کے آلام کے انبار کے نیچے!

                    کچھ خواب ہیں آزاد مگر بڑھتے ھوئے نور سے مرعوب
                    نے حوصلہءخوب ہے، نے ہمت نا خوب
                    گر ذات سے بڑھ کر نہیں کچھ بھی انھیں محبوب
                    ہیں آپ ہی اس ذات کے جاروب
                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذات سے محجوب!

                    کچھ خواب ہیں جو گردش آلات سے جویندہء تمکین
                    ہے جن کے لیے بندگی قاضی حاجات سے اس دہر کی تزئین
                    کچھ جن کے لیے غم کی مساوات سے انسان کی تامین
                    کچھ خواب کہ جن کا ہوس جور ہے آئین
                    دنیا ہے نہ دین!

                    کچھ خواب ہیں پروردہء انوار، مگر ان کی سحر گم
                    جس آگ سے اٹھتا ہے محبّت کا خمیر، اس کے شرر گم
                    ہے کل کی خبر ان کو مگر جز کی خبر گم
                    یہ خواب ہیں وہ جن کے لیے مرتبہ دیدہءتر ہیچ
                    دل ہیچ ہے، سر اتنے برابر ہیں کہ سر ہیچ
                    ۔۔۔۔۔۔۔۔ عرض ہنر ہیچ!

                    اے عشق ازل گیر و ابد تاب
                    یہ خواب مرے خواب نہیں ہیں کہ مرے خواب ہیں کچھ اور
                    کچھ اور مرے خواب ہیں، کچھ اور مرا دور
                    خوابوں کے نئے دور میں، نے مور و ملخ، نے اسد و ثور
                    نے لذّت تسلیم کسی میں نہ کسی کو ہوس جور
                    ۔۔۔۔۔۔۔۔ سب کے نئے طور!

                    اے عشق ازل گیر و ابد تاب،
                    میرے بھی ہیں کچھ خواب!
                    ہر خواب کی سوگند!
                    ہر چند کہ وہ خواب ہیں سر بستہ و روبند
                    سینے میں‌چھپائے ہوئے گویائی دو شیزہء لب خند
                    ہر خواب میں اجسام سے افکار کا، مفہوم سے گفتار کا پیوند
                    عشّاق کے لب ہائے ازل تشنہ کی پیوستگیء شوق کے مانند
                    (اے لمحہ خورسند!)

                    اے عشق ازل گیر و ابد تاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب
                    وہ خواب ہیں آزادی کامل کے نئے خواب
                    ہر سعئی جگر دوز کے حاصل نے نئے خواب
                    آدم کی ولادت کے نئے جشن پہ لہراتے جلاجل کے نئے خواب
                    اس خاک کی سطوت کی منازل کے نئے خواب
                    اے عشق ازل گیر و ابد تاب
                    میرے بھی ہیں کچھ خواب
                    میرے بھی ہیں کچھ خواب!​

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X