Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

فقیر سے بادشاہ تک کا سفر

Collapse
This topic is closed.
X
This is a sticky topic.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • آفتاب صاحب آپ پھر سے دیکھ کر اچھا لگا ۔۔۔۔۔آغاز تو لاجواب ہے

    Comment


    • نہایت عمدہ اور لاجواب

      Comment


      • قسط نمبر :5
        ​​




        ابھی ہم باتیں کررہے تھے کہ اچانک دروازہ کھلا سردار جہانگیر خان اندر داخل ہوگیا میں نے جلدی سے خود کو ڈھانپا لیکن کومل ایسے ہی بیٹھی رہی ۔ سردار کومل کو بولا لگتا ہے لڑکے کا شرم تم نے ٹھیک سے اتار ا نہیں بولی سر لڑکا نیا ہے کافی حد تک میں نے شرم اتاردی ہے لیکن کچھ وقت تو لگے گاسر ۔ بولا ہاں یہ تو ہے کافی شرمیلا لڑکا ہے جس پر کومل مسکرا دی اور مجھے آنکھ ماری ۔ میں بھی مسکرا دیا مجھے پوچھا کیسا لگا میں مسکرا دیا اور بولا بہت اچھا تھا میرے لیے نیا تجربہ تھا لیکن کومل نے بہت ہی اچھے سے سکھایا سب کچھ ۔ بولا کوئی نہیں اگر کوئی کثر رہ گئی تو وہ بھی سیکھ جاو گے کومل بولی لڑکا کافی ہوشیار ہے سب جلدی سیکھ جاتا ہے ۔ پھر سردار صاحب باہر چلے گئے تو کومل بولی سرکو نہیں پتہ تم پورے کھلاڑی ہو اور اتنے ماہر اور جاندار ہو کے کسی کی بھی بینڈ بجا سکتے ہو میں نے سر کے کافی مہمانوں کو خوش کیا ہے لیکن تم نے تو مجھے ہی خوش کردیا ہے ۔ خیر ہم نے کپڑے پہنے تو کومل بولی اتنی دمدار چودائی کے بعد اب بس سونے کو جی چاہتا ہے تم نے پورا تھکا دیا ہے ۔ میں تیار ہو کر باہر نکلا ۔ جہانگیر بولا کہ کافی وقت لگا دیا لگتا ہے بہت پسند آگئی میں بولا جناب ٓاپکا تحفہ تھا اور میرا پہلی بار تھا بس شرم کی وجہ سے مجھ سے کچھ ہو نہیں رہا تھا ۔ بولا اب تم شرم اتر گئی میں بولا جی ۔ پھر بولا چلو ۔ ہم باہر نکلے اور پھر سردار صاحب نے ایک دوکان پر رکے اور میرے لیے کچھ پتلون اور شرٹس لیں جو کہ میرے جسم پر فٹ ہوں جس سے مجھے بھاگنے اور کام کرنے میں مسئلہ نہ ہو بولے اب سے تم حویلی میں یہی پہنو ں گے کالی پتلون کپڑے والی اور کالی ہی شرٹ جیسے بنیان کا کپڑ ا ہوتا ہے ۔خیر پھر ہم حویلی کی طرف روانہ ہوگئے بولے آج کیسا لگا میرے ساتھ بولے اب تم کا اور میرا ساتھ ہے تو ہمارے درمیان بے تکلفی ہونی چاہیے تاکہ تم کو مجھ سے بات کرنے میں کوئی مشکل نہ ہو ۔ میری اور تم کی عمر میں بھی اتنا فرق نہیں ہے 7/5 سال ہوگااور ہم دوست بھی ہیں ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے سردار صاحب ۔ ہم حویلی پہنچے تو میں نے پچارو گیراج میں کھڑی کی اور چابی لے کر حویلی میں چلا گیا اب خو د گیا کیوں کہ سب سے میرا تعارف ہوچکا تھا جہانگیر خان اپنے کمرے میں چلا گیا تھا میں گاڑی کھڑی کر کے ان کے کمرے میں جارہا تھا جیسے ہی اوپر سیڑھیاں چڑھنا شروع کی تو مجھے ایک لڑکی نظر آئی جو کہ نیچے آرہی تھی اس نے بالکل سادہ شلوار قیمض میں تھی اس وقت اس نے سفید شلوار قیمیض پہن رکھا تھا اور ڈوپٹہ بھی لےرکھا تھا لیکن جتنی سادہ تھی اتنی ہی خوبصورت تھی مطلب سادگی میں بھی بے مثال تھی مجھے دیکھ کر بولی تم کون ہو میں نے کہا کہ جی میں سردار جہانگیر خان کا نیا اسسٹنٹ اور گارڈ ہوں تو بولی اچھا تو تم وہ ہو جس کی بھائی بہت تعرفیں کررہا تھا بھائی مطلب یہ سردار جہانگیر خان کی بہن تھی بڑی بہن تو پڑھنےکے لیے شہر میں رہتی ہے مطلب یہ زروا خان ہے ۔غفورے نے سب کے بارے میں اچھےسے بتایا تھا کہ رزوا خان جتنی سادہ ہے اتنی ہی خطر ناک بھی اس نے پڑھائی چھوڑ دی ہے اور حویلی میں ہوتی ہے لیکن سب اس کے نام سے بھی ڈرتے ہیں کیونکہ یہ ایک منٹ بھی نہیں لگاتی سزا دینے میں ۔ اور مجھے نور آپی نے بھی بتایا تھا کہ زرواخان سے بچ کر رہنا ۔ خیر مجھے تو یہ بہت سادہ اور معصوم لگی ۔ حالانکہ سردار جہانگیر خان کے بارے میں بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ بھی کافی سخت ہے ابھی تک مجھے کوئی سختی دیکھنے کو نہیں ملی ۔ پھر بولی کے تم دیکھنے میں تو 19/18سال کے لگتے ہو اور ابھی لڑکے ہو تم میں جہانگیر خان نے کیا دیکھ لیا بس قد کے لمبے ہو شکل بھی اچھی ہے۔ ہاں اب رنگ میرا گندمی سے صاف سفید اور سرخ ہوگیا تھا کیوں کہ میں اب کھیتوں میں دھوپ میں کام نہیں کرتا تھا اور بال بھی بڑھا لیے تھے ۔ میں بولا سردارنی صاحبہ یہ تو ان کو پتہ ہوگا کہ انہوں نے مجھ میں کیا دیکھا مجھے تو خدمت کا حکم ہوا میں حاضر ہوگیا اچھاٹھیک ہے جاو پتہ چل ہی جائے گا تم میں کیا ہوگا مجھے غفورے کی بات ٹھیک لگی اس کی شکل میں تو معصومیت ہے لیکن آنکھوں میں حوانگی ٹپکتی ہے ۔ خیر میں سردار جہانگیر خان کے کمرے میں پہنچا اور دروازہ بجایا دروازہ اس بار بھی یاسمین نے کھولا ، یاسمین شکل و عقل اور خوبصورتی کا لاجواب کمبی نیشن تھی ۔ اور مجھے بولا آو میں بولا جی اندر آئے تو مجھے ایک صوفے پر بیٹھنے کو کہا اور مجھ سے باتیں کرنے لگی کہ کیسے ہو کیاکرتے تھے وغیرہ وغیرہ اور ساتھ ہی بتایا کہ سردار صاحب نہا رہے ہیں ۔ مجھ سے پوچھا کچھ پڑھا بھی ہے یا کھیتوں میں ہل چلایا ہے تو ان کو بتایا کہ میں نے حال ہی میں ایف اے کیا ہے بولی اچھی بات ہے آگے نہیں پڑھنا میں بولا جی اب آگے وسائل نے اجازت نہیں دی اور دوسرا سردار صاحب نے مجھے اپنی خدمت کے لیے چن لیا ۔پتہ نہیں کیا بات تھی میں ان کی طرف کھینچا جا رہا تھا اتنے میں سردار صاحب نہا کر باہر نکلے بولے کیا بات ہے میں بولا جی پچارو کی چابی دینی تھی اور پوچھنا تھاکوئی حکم ہے تو بتا دیں بولے نہیں آج کے لیے کافی ہے جاو ۔ بولے کھانا تو تم نے کھایا نہیں رکو میں نے بھی کھانا ہے منگواتا ہوتم بھی کھا لینا میں بولا سردار صاحب مجھے خادم ہی رہنے دیں میں نیچے کھا لوں گا یاسمین بولی کہ تو کیا ہمیں کوئی بیماری ہے جو تم ہمارے ساتھ نہیں کھا سکتے میں بولا جی ایسی بات نہیں ہے تو بولی ہمارے ساتھ ہی کھاو پھر بیل دی تو نور آپی اندر آئی۔ تو یاسمین نے کھانے کا بولا اور کہا کہ تین لوگوں کا کھانا لانا ۔ بولی جی اچھا ۔جہانگیر خان بولا کہ ایک بات اور بتاتا چلوں کہ سرداروں کے دشمن بھی ہوتے ہیں اور کچھ میرے بھی ہوں گے اب چونکہ تم میرے خاص آدمی ہو تو ظاہرہے تم کو بھی گھیرنےکی کوشش کرسکتے ہیں ۔ تم ہوشیار رہنا اب ۔ میں بولا ٹھیک ہے جی ۔ یاسمین بولی ہاں خیال رکھنا ان کے دشمن کچھ زیادہ ہی ہیں ۔اتنے میں دروازہ بجا تو یاسمین نے بولا کے آجاو تو آپی اندر آگئی اور مجھے بیٹھا دیکھ خوش ہوئی ۔ اور سردارنی سے بولی یاسمین باجی یہ میرا چھوٹا بھائی ہے بولی اچھا پھر تو بہت اچھی بات ہے سردار سے بولی سردار صاحب میرا بھائی سیدھا سادھا ہے اور کم عمر ہے اگر اس سے کوئی غلطی ہوجائے تو معاف کردیجیے گا تو سردار بولا تم کا بھائی بہت اچھا ہے فکر نہ کرو اس کا خیال رکھوں گا ۔ دیکھ لوہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہا ہے ۔ پھر آپی چلی گئی اور ہم نے بیٹھ کر کھانا کھایا ۔یاسمین بہت فرینک ہو کر بیٹھی تھی پڑھی لکھی تھی اور شہر سے تھی اس لیے ڈوپٹہ نہیں لیا ہوا تھا جس کی وجہ قیمیض میں ان کا سفید سینا جھانک رہا تھا اور ان کا رنگ اتنا سفید کہ جیسے دودھ ہو لیکن اتنی خوبصورتی کے بعد بھی سادگی تھی اور تہذیب تھی ان میں ۔ میں نے خود کو قابو میں رکھا اورکچھ کھا نا کھا کر اٹھ گیا اور اجازت چاہی تو یاسمین بولی کے تم نے تو کچھ کھایا نہیں میں بولا بس اتنی بھوک تھی اور بولی ٹھیک ہے سردار بولا اسے جانے دو خو د ہی کچھ دنوں میں ٹھیک ہوجائے گا آج پہلادن تھا اور جاتے ہو ئے مجھے ایک سردار بولا ایک آخری نصیحت کہ اب تم میرے ساتھ ہوگے سارا دن تو میرا راز راز ہی رہے کسی کو بھی کبھی کچھ بھی نہیں بتا نا میں بولا فکر نہ کریں سردار صاحب آپ کی ہر بات میرے سینے میں دفن رہے گی ۔ اجازت لے کر باہر نکلا اور نیچے چل دیا اس بار پھر زروا سے سامنا ہوا وہ اوپر آرہی تھی ۔ مجھے بولی کہ تم صرف سردار جہانگیرخان کے ہی کام کرو گے کیا میں بولا سردارنی جی جو حکم دیں میں تو خادم ہوں حویلی کا ۔ اس کے فیس پر سمائل آگئی بولی ٹھیک ہے پھر دیکھتے ہیں ۔ اور اوپر چلی گئی ۔ میں نیچے آیا اور کچن میں گیا جہاں آپی تھی بولی بھائی کیا بات ہے میں بولا بھوک لگی ہے کھانا دو تو بولی ابھی تو سردار کے ساتھ بیٹھ کر کھایا میں بولا مجھ سے شرم سے کھایا ہی نہیں گیا بولی اچھابیٹھو ۔ میں کچن میں ہی ایک طرف بیٹھ گیا جہاں پر کھانے کی جگہ بنی ہوئی تھی ۔ اتنے میں ایک لڑکی آئی ارے یہ تو گڑیاتھی میرے چچا کی بیٹی اور نور کی بہت اچھی دوست مجھے دیکھ کر بولی کیسے ہو اب تم بھی آگئے حویلی میں ۔میں بولا جی اب میں بھی یہیں کام کروں گا ۔ اتنے میں نور کھانا لے کر آئی اور میرے ساتھ ہی بیٹھ کر کھانے لگی اور پوچھتی رہی کیسا رہا پہلا دن میں بولا بہت اچھا ۔ اتنے میں ایک لڑکی آئی جس نے آپی کو بولا کہ باجی آپ کو سردار اورنگ زیب بلارہے ہیں جس پر آپی بولی ٹھیک ہے تم جاو میں آتی ہوں ۔ آپی بولی بھائی اب کوئی اور کام تو نہیں میں بولا فی الحال تو نہیں اب کھانا کھا کر گھر کی طرف ہی جارہا ہوں بولی ٹھیک ہے رکو سا تھ ہی چلتے ہیں۔ گڑیا بولی کہ کیسا رہ پہلا دن میں بولا اچھا رہا سردار صاحب سخت نہیں ہیں بولی ہاں جہانگیر خان سخت نہیں ہے بڑے سردار اور اورنگ زیب سخت ہے ۔ اتنے میں آپی آگئی اور ہم گھر کی طرف چل دیے ۔ راستے میں آپی یاسمین کے بارے میں بتاتی رہی کہ وہ بہت اچھی ہیں تمام سردارنیوں میں وہ بہت نرم دل ہیں جبکہ شینا اور عاصمہ خان سخت ہیں ۔ خاص کر عاصمہ خان بہت ہی سخت ہیں ۔ خیر ابھی تک میرا ان سے سامنا نہیں ہوا تھا کہ پہلے حویلی کے باہر تھا آج بھی تقریباً باہر ہی رہا اس لیے سامنا نہیں ہوسکا ۔ خیر ہم گھر پہنچے ۔ ابھی امی نہیں آئیں تھیں اور آپی میرے ساتھ آئی تھی ۔ ابو بھی آچکے تھے ابو نے مجھ سے پوچھا میں نے ان کو بتایا کہ اچھا تھا سردار نے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھلایا تو بولے بیٹا پہلے ساتھ کھانا کھلاتے ہیں اور گولی بھی ساتھ ہی کھانا پڑتی ہے اور دکھی ہوگئے ۔ جس پر میں نے ان کو اپنا پسٹل دکھایا کہ سردار نے دیا ہے اگر کوئی مجھ پر حملہ کرے تو میں جواب دے سکتا ہوں بولے بیٹے جب دشمن سر پر آتے ہیں تو اکثر بھرے ہوئے پستول جیبوں میں ہی پڑے رہ جاتے ہیں خیر جو اوپر والے کی مرضی اب تم اس کے حوالے ہی ہو ۔ خیر امی بھی آگئی اور پھر سب کمروں میں چلے گئے ۔ میں تھوڑی دیر باہر ہی بیٹھا رہا اور سویرا کو پانی گرم کرنے کا بولا کہ نہا لوں جس پر پائل بولی میں گرم کردیتی ہوں تم کو میں نے پوچھا کیا بولی پانی کا ہی بولا ہے نہ اور مسکرانے لگی جب گرم کرنے کی بات کررہی تھی تو میرے لن والی جگہ پر ہی نظریں ٹکی ہوئی تھیں ۔ جب میں نے محسوس کیا تو مجھے پھر نورین پر غصہ آنا شروع ہوگیا سالی نورین کی وجہ سے آج میں اس حال میں ہوں ۔ خیر ایک بات تو ہے اب مجھے امی سے آزادی مل چکی تھی اور امی کی مار سے بھی اپنی مرضی سے کہیں بھی آجا سکتا تھا کیونکہ وقت بھی حویلی والے کی طرف سے کام کہا جاسکتا تھا چاہے دن ہو رات ہو کرنا ہی پڑے گا ۔اور دوسرا اب میں ذہنی طور پر بھی آزاد ہوچکا تھا اور دماغ چلنا شروع ہوگیا تھا ۔ اور اوپر والے نے مجھے اس صلاحیت میں خوب نوازا تھا ۔ اور خوبصورت تو تھا ہی لیکن اب اچھے کپڑوں اور دھوپ میں کام نہ کرنے کی وجہ سے رنگ اور نکھر گیا اور بال بھی میں نے رکھ لیے اور قدتو تھا ہی اس لیے کل ملا کر ایک اچھا نکھار آگیا اور خاص کر لڑکیوں اور عورتوں کے لیے شاہد میں آئیڈئل تھا جو کہ نورین بھی کہہ کچی تھی کہ کئی کزنے اس پر لٹو ہیں یہ گھاس ہی نہیں ڈالٹا یہ اپنے منہ میاں مٹھو والی بات ہوگئی لیکن میں صرف تفصیل سے خود کے بارے میں بتاناچاہتا ہوں ۔ اور پھر اب تو سردار کا خاص آدمی ہوں تو مجھے شاہد خود پر گمان ہونے لگا لیکن پھر ابو اور آپی کی نصیحت یاد آگئی کہ غرور کر سرنیچا ہوتا ہے اور صرف جو شاخ جھکتی ہے اس پر ہی پھل لگتا ہے اکڑنے والی شاخ ہمیشہ ٹو ٹ جاتی ہے ۔ اس لیے خود میں لچک رکھو کبھی نہیں ٹوٹوگے ۔ تو بہ کی کہ ایسا گمان نہیں کروں گا ۔ اتنے میں پائل نے آواز دی گرم ہوگیا ہے میں نے پوچھا کیا بولی پانی ۔میں نے پانی چولہے اٹھا کر واش روم میں رکھ دو اس نے پانی اٹھا کر واش روم میں رکھا اور نلکا چلا اکر بالٹی میں پانی مکس کرنے لگی جب پائل جھک کر نلکا چلا رہی تھی اس کی پھیلی ہوئی گانڈ اور باہر کو نکل آئی جس سے میرے لن میں ہل چل سی ہوئی حالانکہ آج میں کومل کی پھدی اور گانڈ مار کر آیا تھا لیکن جب سے پھدی کا مزا چکھا تھا کہ لن اب قابو سے باہر ہونے لگا تھا کہیں بھی ہل چل شروع ہوجاتی ہے کسی کی بھی گانڈ کا ممے دیکھ کر ۔ میں لن اب ادھا کھڑا ہوچکا تھا میں نلکے کا دروازہ چھوٹا تھا جس میں سے ایک بندہ آرام سے گز ر جاتا لیکن دوسرا نہیں گزر سکتا تھا میں اندر جانے کے لیے جیسے ہی دروزے میں پہنچا تو پائل نلکے کی ہتھی کو نیچے کی طرف لے جارہی تھی جس کی گانڈ میر ی طرف جھک گئی اور میرا لن جو کہ آدھا سے زیادہ کھڑا ہوچکا تھا اس کی گانڈ دیکھ کر سیدھا پائل کی گانڈ پر ٹچ ہوا جس کا مجھے اور پائل کو ایک ساتھ جھٹکا لگا لیکن پائل اپنے کام میں لگی رہی میں نے کہا رستہ دو اندر جانے کا بولی گرز جاو میں نے کون سے روک رکھا ہے اور ایسے ہی میرے سامنے جھک کر نلکا چلاتی رہی میر ا لن پائل کی گانڈ کی گرمی پا کر پورا کھڑا ہوا چکا اور پائل کی گانڈ میں دھنس رہا تھا جس کو پائل پورا فیل کررہی تھی ۔ خیر میں لن رگڑتے ہوئے اندر گھس گیا جس پر پائل کی سسکاری نکل گئی اور اندر میں کھونٹی پر کپڑے ٹانگنے لگا جیسے ہی مڑا پائل مجھے ہی دیکھ رہی تھی اور جھک کر نلکا چلا رہی تھی ڈوپٹہ نہ ہونے کی وجہ سے اورجھکنے کی وجہ سے اس کے ممے قمیض سے جھانک رہے تھے کیونکہ پائل کی قمیض زیادہ ہی ٹائٹ تھی۔ جب دیکھا کہ میں اس کو دیکھ رہا تو اس نے زیادہ جھک کر نلکا چلانا شروع کردیا ۔ جس وجہ سے اس کے ممے زیادہ واضح ہونے لگے اور میرا لن پوری طرح کھڑا ہوگیا اور شلوار قمیض میں تنبو بن گیا جس کو پائل بڑے غور سے دیکھ رہی تھی ۔ بالٹی بھر چکی تھی لیکن پائل میرے لن کو غورتے ہوئے نلکا چلائے جارہی تھی آخر میں نے پائل کو ٹوکا کہ بالٹی بھر گئی ہے اور پانی گر رہا ہے جس پر وہ چونکی اور سیدھی ہوگئی لیکن اس کی نظر اب بھی میرے لن پر ٹکی ہوئی تھی ۔ پھر بولی افی اس دن تم کمرے میں ننگےہو کر کیا کررہے تھے میں گھبرا گیا حقلا کے بولا کچھ نہیں وہ تو کسی چیز نے کاٹا تھا تو دیکھ رہا تھا بولی لیکن تم کو کچھ اور ہی کررہے تھے میں نے بولا کیا کررہا تھا بولی سچ سچ بتاو ورنہ اماں کو بتا دوں گی ان کا پتہ ہے نہ اماں کا نام سن کے میری ہوا ٹائٹ ہوگئی کیونکہ بچپن س ان کے ظلم سہہ اب بھی ان کے نام سے ڈر لگتا تھا ۔ میں نے بولا میں سچ میں کچھ نہیں کررہا تھا مجھے کسی چیز نے کاٹ لیا تھا بس وہی دیکھ رہا تھا بولی ٹھیک ہے مت بتاو ۔اماں خود ہی تم سے پوچھ لے گی ۔ میں اب پھنس چکا تھا میں بولا میرے وہاں دانے بنے تھےکھیتوں میں کام کر تے ہوئے مجھے کسی چیز نے کاٹا تھا تو میں دیکھ رہا تھا بولی تم جھوٹ بول رہے ہو نورین نے مجھے بتایا تھا کہ تم کیا کررہے ہو۔ پھر نورین۔ اس بہن کی لوڑی کی تو میں ماں بہن ایک کروں گا سالی کب پیچھا چھوڑے گی ۔ آخر تنگ آکر بولا کہ جوانی کا جوش چڑھا تھا اور پکڑ کر ہلا رہا تھا بولی کے لگتا ہے جوش زیادہ چڑھ گیا تھا جو بہن کو کھمبا دکھا رہا تھا ۔ میں بولا اب معاف کرے گی یا ڈھندورا پیٹے گی ۔ بولی چل معاف کیا لیکن میری شرط ہے میں بولا میری ماں اب کیا چاہتی ہے پہلے تو اس نے ادھر ادھر دیکھا کوئی نہیں تھا پھر بولی مجھے تم کا کھمبا دیکھنا ہے ۔ میں بولا تجھ کو شرم نہیں آئے ایسی بات کرتے ہوئے بولی تجھے ہلاتے ہوئے آئی تھی جو مجھے آئے گی تم اکیلے جوان نہیں ہوئے ہم بھی جوان ہیں ۔ میں بولا تم میری بہن ہو بولی زیادہ تقریر مت کر دیکھانا ہے یا بتاوں اماں کو اور جب میرے پیچھے لگا رہا تھا تب شرم نہیں آئی۔ میں بولا پلیز میری ماں مجھے معاف کردے ۔ بولی معافی ایک صورت میں ملے گی کہ اپنا کھمبا دکھاو ۔ میں بولا یار کوئی آجائے گا کیوں مجھے مروانے پر تلی ہوئی ہو۔بولی ٹھیک ہے اب مجھے گلا مت دینا ۔ میں تم کو بچی سمجھتا تھا بولی میں کب سے جوان ہوچکی ہوں اور اپنا سینا آگے کر کے دکھایا اور بولی مجھے دیکھتے ہوئے شرم نہیں آتی ابھی بھی مجھے غور رہا تھا ۔ میں اب پھنس چکا تھا ۔ بولا اچھا ٹھیک ہے میں نے قمیض اتاری اور بنیان بھی اتار دی بولی واہ تم نے باڈی اچھی بنا لی ہے پھر آنکھیں میرے لن والی جگہ پر ٹکا لیں ۔ میں نے اپنی شلوار اتار دی اور پورا ننگا ہوگیا ۔میں نے ایسا کبھی سوچا بھی نہ تھااور وہ بھی پائل سوتیلی ہی سہی میری بہن تھی اور وہ بھی سب سے چھوٹی ابھی کچھ ماہ پہلے وہ سولہ سال کی ہوئی تھی ۔ وہ غور سے دیکھنےلگی میرےلن کو ۔ پھر میرے قریب آگئی اور ہاتھ میں پکڑا لیا جو بھی تھا میں مرد تھا اس کے ہاتھ لگتے ہی میرا لن فوراً سلامی دینے لگا جس سے پائل بھی مدہوش ہونے لگی بولی واہ کیا بات ہے میرے ہاتھوں میں تو جادو ہے ہاتھ لگتے ہی کھمبا تیار ہوگیا ۔ جب پائل نے لن کو ہاتھ لگایا تو اس کو اور مجھ کو جھٹکا لگا تھا ۔ میرا لن اوپر سے نیچے جھٹکے کھا رہا تھا ۔ پائل کی سانسیں تیز ہورہی تھیں پائل بھی میرے لن پر ہاتھ آگے پیچھے کررہی تھی جس سے میرے لن کا جوش بڑھتا جارہاتھا میں نے بھی پائل کے مموں کوقمیض اوپر سے پکڑ لیا جس سے پائل کسمسانے لگی اور بولی چھوڑو میں بولا تم نے بھی تو میرا پکڑا ہے ۔ پھر پائل چپ ہوگئی اور میں بھی اس کے ممے دبانے لگا جو کہ گھر میں دوسرے نمبر پر تھےپتہ نہیں اس کو اتنی عمر میں اتنی آگ کیوںلگی ہے یہ بات مجھے بعد میں پتہ چلی ۔اب میں ہوش کھوتا جارہاتھا پھر میں نے خود کو قابو کیا اور گھوم گیا تو پائل ہوش میں آگئی ۔ میں نے بولا اب جاو یہاں سے ۔ پائل چپ چاپ چلی گئی اور مجھےآگ لگا گئی سالا لن تھا کہ اب بیٹھنے کا نام نہیں لے رہا تھا اور اس وقت کسی کی پھدی لے نہیں سکتا تھا کیونکہ میں صرف ابھی صائمہ اور گلناز کو ہی جانتا تھا اور اس وقت تو غفوراور سارنگ گھر میں ہوتے ہیں ۔ میں نے خود کو قابو کیا اور ٹھنڈے پانی سے نہایا کیونکہ کافی دیر سے پانی پڑا تھا اور پائل نے بھی زیادی ٹھنڈا پانی ملا دیا تھا تو خود ہی سارے ارمان رہ گئے ۔ میں تو یہ سوچ کے پاگل تھا کہ پائل ابھی بچی ہے لیکن اس کی حرکتیں پوری جوان عورتوں کی ہیں ۔ خیرمیں نہایا اور کمرے میں جا کر سو گیا ۔ صبح اٹھا اب میں زیادہ ورزش اور پریکٹس کرتا ۔ ایک گھنٹہ پورا پسینہ بہاتا اور پہلوانی داو پیچ اور لڑائی کی مشق وغیرہ کرتا ۔ پھر گھر آکر ناشتہ کیا امی اور نورپہلےہی جاچکی تھیں میں نے پائل کو دیکھاتو وہ مجھے ہی غور رہی تھی میں نے اپنی نظریں جھکا لیں کمرے میں جا کر اپنے نئے کپڑے پہنے جو کل سردار نے دلوائے تھے سمجھ لیں میرا یونیفورم ہے ۔ آرمی والی کپڑے کی پتلون اور کالی ٹی شرٹ ۔ اس میں میرا سراپا اور نکھر گیا تھا آج تک پتلون نہیں پہنی تھی تھوڑا عجیب لگ رہا تھا لیکن اب سے یہی میرا لباس تھا پسٹل رکھاکمر کے ساتھ اندر کی طرف اور پاوں پر خجر باندھ لیا جو کہ اب میرے دکھ سکھ کے ساتھی تھے ۔ سویرا کمرے میں آئی تو مجھے دیکھ کر بولی واہ بھائی اس میں میرا بھائی بہت پیارا لگ رہا ہے کسی کی نظر نہ لگے اور میرے گلے لگ گئی ۔ جس سے سویرا کے ممے میرے سینے میں گھس گئے میں جلدی سے الگ ہوا کہ اس سے پہلے میرا لن سلامی دے ۔ خیر سویراباہر نکل گئی میں ابھی تیار ہورہا تھا کہ پائل اندر آگئی بولی بہت پیارے لگ رہے ہو ۔تم پر لڑکیاں اب بہت فدا ہوں گی بچ کررہنا ۔میں بولا ایسا بھی کچھ نہیں تم مجھے جانتی ہو بولی تم کو تو جانتی ہوں لیکن تم لڑکیوں کو نہیں جانتے ۔ میں بولا کیا مطلب بولی کچھ نہیں سمجھ جاو گے خود کو ۔ بولی اسی خوشی میں آج تم کو ایک گفٹ دوں گی ۔ میں بولا کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہا تم اور گفٹ ۔ بولی کیا میں نہیں دے سکتی اور بولی ایسا گفٹ دوں گی جیسا آج تک کسی نے تم کونہ دیا ہوگا میں بولا کیا بولی شام کو دوں گی ۔ مجھےدیر ہو رہی تھی میں باہر نکلا اور سیدھا حویلی پہنچا ۔ سب لوگ میرے نئےروپ کو دیکھ کر باتیں کرنے لگے کہ بلکل کسی کمانڈو کی طرح لگ رہا ہوں ۔ خیر میں سیدھا سردار کے کمرے کی طرف چلا گیا ابھی کمرے کے باہر ہی پہنچا تھا تو مجھے زروا خان نے بلایا جوکہ دروازے میں کھڑی تھی میں ڈرتے ڈرتے اس کے پاس چلا گیا بولی تم کیا فوج میں بھرتی ہوگئے جو وردی پہن لی میں بولا جی سردار صاحب کی طرح سے یہی کپڑے پہننے کا حکم ہوا ہے بولی اچھا ٹھیک ہے اور کہا زیادہ خوش فہمی میں مت رہنا میں بولا مجھے کوئی خوش فہمی نہیں ہے میں تو بس خادم ہوں ٹھیک ہے خادم جی جاو ۔پھر میں نے دروازہ بجایا جس پر یاسمین خان نے دوازہ کھولا بولی آو اندر گیا یاسمین بولی ناشتہ کرلیا ۔ میں بولا جی کر کے آیا ہوں بولی اس وردی میں بہت پیارے لگ رہے ہو میں نے کہا کہ سردار صاحب کی مہربانی ہے انہوںنے ہی دلائے ہیں ۔ پتہ نہیں کیوں میں یاسمین خان کو جب بھی دیکھتا ہوں اپنے ہوش کھونے لگتا ہوں اس میں کشش ہی بہت ہے ابھی تک جتنی عورتیں میری نظروں سے گزری ہیں اس میں یاسمین خان سب سے پرکشش ہے بالکل سیڈول جسم کی مالک لمبا قد بھاری سینا بہترین نین نقش کل ملا کر قاتلانہ حسن ہے ۔ تم نور کے بھائی ہو وہ بہت اچھی بچی ہے ۔ میں بولا جی میں اس کا بھائی ہوں ۔ ابھی ہم باتیں کررہی رہے تھے کہ سردار جہانگیرخان باتھ روم سے تیار ہوکر نکلا بولا آگئے میں بولا جی ۔ بولا چلو گاڑی نکالو میں آتا ہوں نیچے آیا تو سامنے سے ایک عورت آرہی تھی بہت ہی خوبصورت اور بہت ہی روب والی تھی مجھے دیکھا اور بولی تم کون ہو میں بولا جی میں سردار جہانگیرخان کا نیا آدمی ہو بولی اچھا تو تم ہو وہ میں حیران ہوں جس کو بھی بتاتا ہوں وہ ایسا ہی ریکشن دیتا ہے ۔ خیر وہ چلی گئی جو کہ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ یہ شینا خان اورنگ زیب خان کی بیوی تھی ۔خیر میں نے گاڑی نکالی اور سردار کا انتظار کرنے لگا ۔ سردار آیااور ہم چل دیے ۔ بولے مجھے آج ایک لڑکی سے ملنا ہے شکر ہے اب تم ساتھ ہو ورنہ جو گارڈ یا ڈرائیو ر پہلے تھے وہ میری باتیں بڑے سردار کو بتا دیتے تھے ۔ اس لیے تم کے آنے کا یہ فائدہ تو ہوا کہ ان سب سے جان چھوٹ گئی اور اب میں اپنی مرضی کرسکتا ہوں مجھ سے بولے آفتاب قسم کھاو کے میرے راز کو راز ہی رکھو گے میں بولا جی یہی تو پہلا اصول ہے میں وعدہ کرتا ہوں آپ کا کوئی راز بھی مجھ سے آگے نہیں جائے گا بولے وعدہ نہیں قسم کھاو میں بولا ٹھیک ہے جی قسم کھاتا ہوں اب ٹھیک ہے بولے ٹھیک ہے ۔پھر ہم دوپہر تک زمینوں پر رہے اور مختلف کام نپٹاتےرہے پھر مجھ سے بولے چلو جہاں میں نے اپنی دنیا آباد کررکھی ہے ۔ گاوں سے باہر ایک باغ تھا وہاں گئے جہاں پرایک چھوٹا سا کمرہ بنا ہوا تھا ۔ جہانگیرخان نے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوگئے کمرہ اتنا بڑھانہیں تھا تو اتناچھوٹا بھی نہیں تھا۔ سردار نکر پر گیا اور مجھے بولا یہ چار پائی ہٹاو میں نے چارپائی اٹھا کر دوسری سائیڈ رکھ دی پھر بولا صف بھی ہٹاو میں نے ہٹائی تو نیچے ایک دروازہ تھا بولا کھولو میں نے دروازہ کھولا تو سیڑھیاں نظر آئیں جو نیچے کی طرف جارہی تھیں میں اندر داخل ہو ااور نیچے اترتا گیا ۔ سردار بھی ساتھہ ہی اترا نیچے آکر بلب کا بٹن دبایا جہاں پرروشنی ہوگئی ۔ ایک بڑا حال نما کمرہ تھا جہاںپر ایک طرف ڈبل سائز بیڈ تھا صوفےپڑے تھے اور ایک طرف پانی والے کھڑےرکھے ہوئے ۔ لیکن یہاں پر گھٹن نہیں تھی بلکہ ٹھنڈک تھی ۔ سردار بولا یہ میرا پرائیوٹ ڈیرہ ہے جس کا بہت ہی کم لوگوں کو علم ہے ۔ اور ان میں سے ایک تم ہو۔ اوپر بظاہر ایک کمرہ ڈیرہ نما بنا ہے لیکن اصل یہ روم ہے ۔ زیادہ تر کمرہ میں اوپر والا استعمال کرتا ہوں نیچے تب آتا ہوں جب کوئی خاص ضرورت ہو پھر وہاں پر موجود الماری کھولی اس میں ایک ڈبیا نکالی اور اس میں سے ایک گولی نکال کر کھا لی اور ایک گولی مجھے دی کہ یہ ٹانمنگ کی گولی ہے اس سے وقت زیادہ لگتا ہے یہ میں نے باہر سے منگوائی ہوئی ہیں میرے ایک دوست نےتحفہ دیں تھیں مجھے جب بھی کوئی خاص موقع ہو تو میں کھاتا ہوں آج میں بہت موڈ میں ہوں اور زیادہ انجوائے کرنا چاہتا ہوں اس نے گولی کھا لی لیکن میں گولی نہیں کھائی کیوں کہ مجھےخود پر یقین تھا ویسے گولی جیب میں رکھا لی جو کہ کوٹنگ میں تھی سلور کوٹنگ میں تھی کہ کبھی ٹرائی کروں گا ۔ بولے تم نےدیکھ لیا ہے اب چلو کیوں کہ آج اس کی ضرورت نہیں ہے میں نے سب کچھ بند کیا اور ہم اوپر آگئے میں نےسب ویسے ہی سیٹ کردیا سردار بولا کہ تم یہ جگہ استعمال کرسکتے ہو جیسے چاہو یا میرا کوئی کام ہو تو اب تم نے یہ جگہ دیکھ لی ہے ۔پھر سردار بولا آج نورین کو بلایا ہے سالی میں بہت گرمی ہے بہت اچھے سے مزا کرواتی ہے میں نے بہت سی لڑکیوں کو چودا ہے لیکن سالی اس کی بات ہی الگ ہے ۔ بہت بڑی چنال ہے ۔ نورین کا نام سن کر تو میرا خون کھولنےلگا ۔ سالی آج اگر موقع ملا تو ایسا رگڑوں گا کہ خود چل کر نہیں جائے گی ۔ پھر دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور نورین کمرے میں داخل ہوگئی ۔ پھر سلام کیا اور مجھے دیکھ کر بولی واہ آج تو تم اس کوبھی پکڑ لائے ۔ میں بولا ہاں تمہاری ہی مہربانی ہے اب میں سردار کا خاص آدمی ہوں ۔ بولی پھر تم کو میرے پاو دھو کر پینے چاہیں میں نے تم کو گھر کی قید اور ہر قید سےآزاد کروا دیا ۔ میں نے دل میں سوچا چھوٹی قید سے آزادی دلوا کر بڑی قید میں ڈلوا دیا ۔ میں بولا جی شکریاجناب کا سردار بولا بس کرو اب کتنا احسان جتلاو گی ۔ میں نے دل میں سوچا میں وہ حال کروں گا دوبارہ احسان کا نام نہیں لے گی ۔ پھر میں بولا ٹھیک ہے سردار صاحب میں باہر رکتا ہوں میں باہر جانے لگا تو سردار نے آواز دی کہ کہاں جا رہے ہو آج مل کر مزے کریں گےمیں نے نورین سے وعدہ کیا تھا کہ تم کو اس کے ساتھ کرواوں گا ۔ یہ تمہیں چاہتی ہے اور تم سے چدائی کرنا چاہتی ہے ۔میں بولا ایسے مجھے بہت شرم آئے گی بولا فکر نہ کرو نورین تمہاری آج ساری شرم اتار دے گی کچھ میں اتار دوں گا ۔ تم نے میرے بارے میں سنا ہی ہوگا کہ مجھے ایک ہی چیز کی طلب رہتی ہے وہ ہے لڑکی ۔ اس یہ میرے ساتھ رہنا ہے تو اپنی شرم اتار دے ۔ سمجھ لے یہ بھی تیری ٹریننگ کا حصہ ہے ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے آپ لوگ شروع کرو میں پھر شامل ہوجاوں گا ۔ نورین بولی پہلی ہمیں ہی کرنے پڑے گی یہ بہت شرمیلا اور پارسا بنتا ہے لیکن کمرے میں جا کر مٹھ ماری تھی اس دن جس دن ہمیں پکڑا تھا ۔ بولا تم ہو ہی ایسی کہ بیچارہ شرافت میں بھی رہا لیکن دل تو اس کا بھی دھڑکتا ہے ۔ ایک طرف بڑی چارپائی تھی جس پربستر بچھا تھا اور ایک طرف کرسیاں پڑی تھیں میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا سردار اور وہ شروع ہوگئے اور جلد ہی سردار اور نورین کپڑوں سےآزاد ہوگئے نورین کا گورا جسم جسے میں دوسری بار ننگا دیکھا رہا تھا واقعی ہی کمال تھا اس میں کوئی شک نہیں تھا درمیانہ قد تھا اور جسم بلکل سفید تھا سردار وہ نورین کسنگ کررہے تھے اور سردار نورین کے ممے دبا رہا تھا اور مسل رہا تھا ادھر میرےلن بھی پوری آب وتاب سے کھڑا تھا اور پتلون سے تنبو بنا کھڑا تھا ۔ سردار کا لن بھی جاندار تھا تقریباًساڑھے آٹھ انچ لمبا اور اڑہائی انچ موٹا تھا ۔اور نورین سردار کے لن کو پکڑ کر مسل رہی تھی پھر سردار نیچے لیٹ گیا اور اور نورین سردار پر جھک کر سردار کا لن منہ میں بھرلیا ۔نورین سردار کا لن برے طریقے سے چوس رہی تھی میں نے ایسی لن چوسائی پہلی بار دیکھی تھی جو لن کے ساتھ ساتھ سردار کے ٹٹے بھی چاٹ اور چوم رہی تھی میرا تو لن دیکھ دیکھ کر ہی پھٹا جارہاتھا ۔ نورین کے جھکنے کی وجہ سے گانڈ اور پھدی میری طرف تھی اور نورین جان جان کر اپنی گانڈ ہلا کر مجھے بلا رہی تھی مجھے پتہ ہی نہ چلا کب نورین کے پاس پہنچ گیا اور نورین کی گانڈ پر ہاتھ پھیرنے لگا ۔ جس سے نورین اور زیادہ جوش سے گانڈ ہلانے لگی ۔ میں نے نورین کی بل کھاتی کمر چومنا شروع کردی ۔ کچھ دیر اسی طرح چلتا رہا پھر سردار نے نورین کو ینچے لیٹنے کو کہا جس پر نورین نیچے ٹانگیں کھول کر لیٹ گئی اور سردار نے اپنا لن پہلےنورین کی پھدی پر رگڑا جس سے نورین سسکیاں لیتی رہی پھر ایک ہی جھٹکے میں پورا نورین کی پھدی میں تار دیا نورین بولی مزا آگیا آج کافی دنوں بعد چس آئی ہے ۔ سردار نے ٹانگیں اٹھا کر کاندھوںپر رکھ لیں اور نورین کی پھدی بجانے لگی جس سے کمرہ پچ پچ کی آوازسے گونج اٹھا میں اب نورین کی طرف بڑھا اور نورین نے مجھے پکڑ کر پہلے تو جھکا لیا اور کسنگ کرنے لگ پڑی پھر مجھے اشارہ کیا کہ کپڑے اتار دو ۔ جس پر میں نے اپنے کپڑے جلدی سے اتار کر سائیڈ پر رکھے ۔ اور جیسے ہی نورین کے پاس پہنچا تو اس کی نظریں میرے جھٹکے کھاتے لن پر پڑی اس کی آنکھوں میں چمک آئی جیسے برسوں سے پیاسی کو پانی ملنے کی امید ملی ہو اور بولی کیا مست جسم بنایا ہوا ہے اسی لیے چھپا کر رکھا تھا کیا ۔ اس نے فوراً میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور ادھر سردار نے اس کو گھوڑی بنا لیا اور اس کی پھدی بجانا شروع کردی ۔ ادھر نورین نے مجھے لینٹے کو کہا اور میرے لن کو منہ مین بھرلیا موٹائی زیادہ تھی لیکن نورین کسی طرح آدھا لن منہ میں لے ہی گئی اور ایسے لن چوس رہی تھی کہ سالی جڑ سے اکھاڑ لے گئی ۔ ایسی چسائی تو گلناز اور کومل نے بھی نہ کی تھی سالی بہت اچھاچوستی میں تو جیسےآسمانوں پر اڑرہاتھا ۔ سردار پر گولی کا پورا اثر تھا اور وہ نورین کو طوفانی دھکوں سے چود رہا تھا اور لگ بھگ بیس منٹ ہوچکے تھے نورین بھی آج پوری تیاری سے چدوانے کے موڈ میں آئی ہوئی تھی ادھر وہ سردار کے دھکوں کا پورا جواب دے رہی تھی ادھر میرے لن کو زیادہ سے زیادہ منہ میں نگلنے کی کوشش کررہی تھی لیکن اتنی کوشش کے بعد بھی لن آدھے سے زیادہ اندر نہیں جارہا تھا ۔ لیکن وہ ہار ماننے کو تیار نہیں تھا سالی پتہ نہیں کیاچاہتی تھی ادھر اچانک نورین نے میرے لن کو چھوڑ دیا اور زور زور سے سسکیاں لینا شروع کردیں سردار کے دھکے بھی طوفانی ہوچکے تھے ۔ شاہد نورین فارغ ہوچکی تھی جس وجہ سے نورین آگے کو ہورہی تھی لیکن سردار نے اس کی کمر کو کس کے پکڑ رکھا تھا اور دھکے لگائی جارہے تھے میں آسما ن پر تھا جب نورین میرا لن چوس رہی تھی لیکن اب وہ منہ مین نہیں لے رہی تھی اس لیےمیرا مزا کم ہوگیا تھا میں نے آگے بڑھ کر نورین کو بالوں سے پکڑا اور اپنا لن اس کے منہ میں گھسا دیا اور دھکے لگانے لگ گیا اور پیچھے سے سردار چود رہا تھا اور منہ میں لن ڈال کر میں نے آگے پیچھے کرنا شروع کردیا میرا لن موٹا تھا اور اس کے حلق تک پھنس کر جارہا تھا جس سے مجھے بہت مزا آرہا تھا وہ چھڑوانے کی کوشش کررہی تھی لیکن نہ ہی سردار چھوڑ رہا تھا اور نہ ہی میں نورین کے منہ سے گھوں گھوں کی آواز آرہی تھی لیکن وہ چیخ نہیں پارہی تھی کیوں کہ میں نے بھی بالوں سے جکڑ رکھا تھا اور لن کو زیادی سے زیادہ اندر گھسانے کی کوشش کررہا تھا ادھر سردار بھی ایسے دھکے لگا رہا تھاکہ پورا اندر گھس جائے گا ۔ میری بھی یہی کوشش تھی کہ میرا لن آر پار ہوجائے ۔ مجھے بہت مزا آرہا تھا ۔ سالی کی وجہ سے میں آج حویلی والوں کا غلام بن چکا تھا اور اپنے باپ سے دور ہوچکا تھا ۔اس لیے پورے جوش لن اس کے منہ میں گھسا رہا تھا بیچاری چیخ بھی نہیں پار رہی تھی ادھر سردار بھی فل زورں سے دھکے لگا رہا تھا آخر کار سردار اس کے اندر ہی فارغ ہوگیا جس وجہ سے نورین نیچے الٹی ہی لیٹ گئی اور سردار نے اس کے اوپر ہی لن گھسائے گر گیا نورین کے نیچے گرنے سے میرا لن اس کے منہ سے نکل گیا اور وہ لمبے لمبے سانس لینے لگی ۔ کچھ دیربعد بولی کیاتم دونوںکا مجھے مارنےکا ارادہ تھا جو ایسے جانوروںکی طرح مجھے دونوں بجا رہے تھے میرا پورا اندر ہلا دیا سردار بولا تجھے ہی شوق تھا دو کے ساتھ کرنے کا اب بھگت تم نے ہی بولاتھا کہ میرے ساتھ اور آفتا ب کے ساتھ ایک ساتھ کرنا ہے ۔بولی ٹھیک ہے آرام سے بھی تو کرسکتے ہو بولا ہم جیسے چاہیں کریں ۔ میں اٹھ کر پیچھے آگیا اور ایک کپڑے سے نورین کی پھدی صاف کی جس سے نورین کی پھدی اور سردار کا پانی بہہ رہا تھا میں بولا چل صاف کر بولی تم ابھی فارغ نہیں ہوئے میں بولا آخر پر تھا تم نے منہ سے نکال دیا بولی تیرا بس چلتا تو میرے حلق تک گھسا دیتا میں بولا مجھے مزا ہی اتنا آرہا تھا ۔ اس نے پھدی صاف کی تو میں نے لن پر تھوک لگایا ۔ اور ایک ہی دھکے میں پورا لن نورین کی پھدی میں اتار دیا جس پر نورین نے زور سےچیخ ماری میں نے جلدی سے اس کے منہ پر ہاتھ رکھالیا ۔ سردار بولا کیا ہوا کیا پہلی بار لیا ہے نورین بولی ہاں اتنابڑا پہلی بار لیا ہے میرے پیٹ تک اوپر تک گھسا پڑا ہے ۔ میں نے آو دیکھا نہ تاو اور دے دھنا دھن شروع کردیا اور نورین کی منہ پر سختی سے ہاتھ رکھ جکیا جارہا ہو لیکن اس پر مجھے سردار نے کہا ہاتھ اٹھالے چیخنے دے یہاں کوئی نہیں آتا ۔ جس پر میں نے ہاتھاٹھا لیا اور نورین کی ٹانگیں اٹھا کر کندھوںپر رکھ لی اور طوفانی انداز میں دھکے لگانا شروع کردیے نورین چیخے جارہے تھی جیسے کسی بکری کے بچے کو ذبع کیا جارہا ہو لیکن مجھے اس پر کوئی ترس نہیں آرہا تھا وہ جتنا چیختی اتنا میں زور سے دھکے لگاتا پھر مجھے اپنے لن پر گیلاپن محسوس ہوانورین فارغ ہوگئی اور سردار سے بولی اس کو روکو بولا کیوں سردار بولا لگے رہوبولتی تھی کہ تم نامرد ہو تب ہی تم نے اس کو چھوڑ دیاتھا ورنہ کوئی نہ چھوڑتے ۔ یہ بات سن کر مجھے اور غصہ آگیا اور میں پوری طاقت جتنی مجھ میں تھی نورین کو چودنے لگا نورین چیخ رہی تھی لیکن میں کوئی رحم نہیں کررہا تھانورین پھر فارغ ہوگئی اور اپنے اپ کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگی اور منتیں کرنے لگی آخر کار میرے لن نے بھی اپنی اننگ پوری کی اور اس کے پیٹ کو اپنے مال سے بھرنا شروع کردیا تب جا کر نورین کی جان میں جان آئی اور جب آخری قطرہ بھی نگل گیا تو میں بھی چارپائی پر گر گیا ۔کچھ دیرسانس بحال کرنے کے بعد نورین بولی تم تو بالکل جانور بن گئےتھے میں بولا کہ مزا ہی اتنا آرہاتھا کہ رکا نہیں جارہا تھا بولی کیا تم نے کوئی نشہ استعمال کیا ہے جو اتنا جوش چڑگیا میں بولا نہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔ اور کیا نشہ کرنے سے زیادہ جوش چڑھتا ہے ۔ بولی تم نے تو مزا لیا مجھے بھی مزا دیتے میں بولا ٹھیک ہے اگلی دفعہ جیسا تم کہو گی کروں گا مجھے اتنا تجربہ نہیں ہے مجھے بولتے میں سیکھا دیتی میں بولا سیکھ جاوں گا دو چار بار تم سےکروں گا بولی یہ بھی ٹھیک ہے ۔سردار جو ہماری باتیں سن رہا تھا بولا اب باتیں ہی کرو گے یا شروع کرو گے نورین بولی آج کے لیے کافی ہے مجھ سے تو ابھی ہلا بھی نہیں جارہا تو سردار بولا تو میں اس کا کیا کروں گا جو کب سے اپنی باری کا انتظار کررہا ہے ۔ بولی سردار آج جانے دے پھر آجاوں گی بولا نہیں ۔ ابھی میرا دل نہیں بھرا ۔ میں پھر اس کے قریب ہوگیااور نورین کو کسنگ شروع کردی وہ بھی میرا ساتھ دینے لگی اسے سمجھ لگ گئی تھی کہ ہم اس کو جانے نہیں دیں گے ۔ پھر میں اس کے مموں کو چوسناشروع کردیا اور سردار اس کی پھدی کو صاف کررہا تھا کپڑے سے پھر اس نے تھوک لگا کر ایک جھکٹے میں ڈال دیا اور ٹھوکنےلگ گیا میں بھی نورین کے مموںسے بری طرح کھیل رہا تھا جوس رہا تھا کاٹ رہا تھا جیسے مجھے گلناز نے سکھیایا تھا میں پورے چوش سے مموں کی بینڈ بجا رہا تھا نیچے سردار نورین کی پھدی کی بینڈ بجا رہا تھا اور پورے جوش سے دھکے لگا رہاتھا نورین کی سسکیاں پورے کمرے میں گونج رہی تھیں ۔ اور پندرہ منٹ تک ایسے ہی میں نورین کے مموں سے کھیلتا اور کسنگ کرتا رہا اور سردارنورین کی پھدی میں دھکے پر دھکے لگاتا رہا ۔ پھر سردار نے نورین سے کہا کے گھوڑی بنو نورین گھوڑی بن گئی سردار نے لن پر تھوک پھینکا اور نورین کی گانڈ پر بھی تھوک پھینکا اور نورین کی گانڈ میں لن اتار دیا نورین نےزور سےچیخ ماری بولیآرام سے لیکن سردار نے نہ سنی میں نیچے لیٹ گیا اور نورین کو بالوں سے پکڑ کر لن پر جھکا دیا جہاں پر ابھی بھی اس کی پھدی کا پانی لگا ہوا تھا ۔ نورین کے نیچے جھکنے سے گانڈ اور اوپر ہوگئی جس سے سردار پوری چوش سے نورین کی گانڈ مارنے لگا کچھ دیر نورین نے میرا لن چوسا اور ٹٹے چوسے زبان اوپر سے نیچے پھیرتی میں تو جیسے پاگل ہی ہوگیا واقع سردار نے کہاتھا کہ سال بہت بڑی چنال ہے بہت مزا دیتی ہے ۔ میرے لن کو ایسے چوس رہی تھی کہ جیسے لولی پاپ ہو اور ایسے چاٹا مار رہی تھی کہ بس مزے کی بلندیوںپر پہنچا ہوا تھا۔پھر سردار رک گیا اور گانڈ سے لن نکال کر نیچے لیٹ گیا نورین نے دونوں ٹانگین سردار کے اردگرد کیں اور منہ سردار کی طرف کیا اور سردار کا لن پکڑ کر اپنی پھدی سے لگا دیا اور اس پر بیٹھ گئی لن ایک ہی جھٹکے میں نورین کی پھدی میں اتر گیا میرا مزا خراب ہوگیا لیکن سردار نے مجھے نورین کےپیچھے آنے کا اشارہ کیا میں نورین کے پیچھے آیا اور سردار نے نورین کو پکڑ کر سینے سے لگا لیا اور نیچے سے جھٹکے دینے لگ گیا ۔ سردار نے مجھے اشارے سے کہاکہ نورین کی گانڈ میں ڈالوں ۔ پہلے تو کچھ سمجھ نہ آئی بھی سمجھا اپنےلن پر تھوک لگائی اور سردار نے نورین کو کس کے پکڑ لیا بولا ڈال دو نورین بولی کیاڈال دو لیکن اتنے تک دیر ہوچکی تھی میں نے نورین کی گانڈ پر لن رکھا اس سےپہلے کہ وہ سمجھتی میں نے ایک ہی جھٹکے میں آدے سے زیادہ لن نورین کی گانڈ میں ڈال دیا نیچے مجھےایسامحسوس ہوا کہ میرا لن سردار کے لن سے رگڑ کھا رہا ہے ۔ لیکن نورین نےایسی چیخ ماری کے روحیں بھی کانپ جائیں ۔ میں نے دوسرے دھکے میں لن نورین کے گانڈ میں بھر دیا نیچے سردار نے پوراڈال کر جھٹکے لگا رہاتھا ۔ نورین چیختی رہی اور منتیں کرتی رہی کہ ایک ایک کر کے کرلو لیکن ہم تو اس وقت ساتویں آسمان پر تھے ۔ نورین چیخ چیخ کر گلا بیٹھ چکا تھا اور وہ ہمارے درمیان سینڈوچ بنی ہوئی تھی سردار اور میں پورے رفتار سے دھکے لگا رہے تھے نورین بے جان ہو کر ہمارے دھکے برداشت کررہی تھی ۔ مجھے پتہ نہیں کیوں اس پر ترس نہیں آرہا تھا میں اپنی پوری جان سے چود رہا تھا سردار بھی چود رہا تھا انہوں نے گولی گھائی ہوئی تھی انہیں لگ رہا تھا کہ میں نے بھی گولی کھائی ہوئی ہے حالانکہ میں نے نہیں کھائی تھی۔ ہم اسی طرھ نورین کو بری طرح چودتے رہے چالیس منٹ ہوچکے تھے نورین چیختی کبھی منتیں کرتی سردار آکر کار اس کی پھدی میں مال نکال چکا تھا لیکن میں ابھی اسی رفتا رسے گانڈ کی بینڈ بجا رہا تھا بیس منٹ بعد آخرکار مجھے بھی لن میں جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی میں نے بھی نورین کی گانڈ کو اپنے مال سے بھر دیا جب لن خالی ہوگیا تو لن باہر نکالا تو پھک کی آواز سے باہر نکلا نورین کی گانڈ میں بڑا سال ہول بنا ہوا تھا۔ نورین سردار کے اوپر ہی لیٹی رہی میں سائیڈ میں ہو کر لمبے لمبےسانس لینے لگا سردار نے نورین کو بھی سائیڈ پر لیٹا دیا کہ اچانک
        جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
        ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

        Comment


        • Kamal ki Kahani ha shidat sevpsrpor

          Comment


          • اچھی جا رہی یے سٹوری

            Comment


            • Wow itni garam update maza aa gya

              Comment


              • Wooow pahle payal aur ab Noreen .Noreen ko to dono ne sandwich hi bana diya bohat hi behtreen aur shandar update hai story Apne arooj ki taraf ja Rahi hai

                Comment


                • Man Moji bhai app ki kawish ko salaam

                  Comment


                  • اتنی جاندار شاندار اور زبردست اپڈیٹ تھی کہ سٹارٹ سے اینڈ ٹک ہتھیار سلامی کے لیے کھڑا رہا ہاں

                    Comment


                    • کہانی پڑھتے ہوئے انسان پوری طرح اس کے سحر میں ڈوب جاتا ہے

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X