Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

فقیر سے بادشاہ تک کا سفر

Collapse
This topic is closed.
X
This is a sticky topic.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • زبردست کہانی ہے پڑھ کر مزہ آ گیا بہت اعلی

    Comment


    • 6








      نورین سردار کے اوپر ہی لیٹی رہی میں سائیڈ میں ہو کر لمبے لمبےسانس لینے لگا سردار نے نورین کو بھی سائیڈ پر لیٹا دیا کہ اچانک نورین چیخ مارتے ہوئے ہوش میں آگئی اور رونے لگ گئی سردار نے نورین کو چپ کروانے کی کوشش لیکن نورین سسکتی رہی اور روتی رہی بولی تم دونوں نے میرے ساتھ بہت ظلم کیا ہے مجھ سے کون سے بدلہ لیا ہے تو سردار بولا اس میں بدلے والی کون سے بات ہے تم نے خود کہا تھا کہ دونوں کے ساتھ ایک ساتھ کرنا چاہتی ہو تو نورین بولی ایسے تھوڑی کہا تھا میری بینڈ بجا دو ۔ پھر سب نے صفائی کر کے کپڑے پہنے لیکن نورین درد کی وجہ سے روئے جارہی تھی اور جیسے ہی اٹھ کر کھڑی ہوئی لڑکھڑا کر گر پڑی اور زور سے رونے لگ پڑی کہ مجھ سے تو چلا بھی نہیں جارہا ۔ جس پر سردار نے مجھے کہا کہ گاڑی کی چابیوں کے ساتھ اس الماری کی چابی ہوگی اس میں ایک سپرے ہے ہرے رنگ کا نکال کر لاو میں الماری کھول کر سپرے نکال لایا اور سردار نے نورین کو بولا شلوار اتار و اور لیٹ جاو جس پر نورین پہلے تو ڈر گئی کہ دوبارہ تو شروع نہیں کرنے لگے لیکن سردار نے کہا کہ اس سپرے سے تم کا درد ختم ہوجائے گا ۔ مجھے بڑی حیرانی ہوئی سوچا دیکھتے ہیں ۔ خیر نورین لیٹ گئی سردار نے پہلے پھدی والی جگہ پر سپرے کیا جس کی حالت بگڑ چکی ہے اور بہت سوج چکی تھی اور پھر الٹا لیٹاکر گانڈ والی جگہ پر سپرے کیا ۔ کچھ دیر بعد نورین بولی میرا درد تو ختم ہوگیا ہے کمال کا سپرے ہے ۔ مجھے بھی بڑی حیرانی ہوئی کہ جادوئی سپرے ہے ۔سردار سے پوچھوں گا کہ یہ کیسے کام کرتا ہے جو اتنی جلدی درد ختم کردیتا ہے ۔ پھر نورین چلی گئی میں نے چادر اٹھا کر سائیڈ میں ڈال دی اور الماری سے نئی چادر وغیرہ بچھا دی کیونکہ پہلے والی چادر کا حال برا ہوچکا تھا ۔ پھر گاڑی میں بیٹھے تو میں نے سردار صاحب سے پوچھا کہ یہ کیسا سپرے تھا بولے یہ جادوئی سپرے ہے یہ جگہ کو سن کر دیتا ہے جس وجہ سے درد محسوس نہیں ہوتی ۔ بولا تم کو بتایا تو ہے کہ مجھے ایک ہی شوق ہے چدائی کا لیکن میں آج تک پکڑا اسی لیے نہیں گیا کہ میرے پاس ہر انتظام ہوتا ہے ۔ جیسے ٹائمنگ کی گولیاں ، حمل روکنے والی گولیاں ، درد والی گولیاں اور اگر اس طرح کا معاملہ بن جائے جیسے کنواری کو چودوں تو سپرے اور کئی ایسے ہی شبدے رکھے ہیں ۔ تاکہ جب بھی کسی چیز کی ضرورت ہو تو مسئلہ نہ بنے اور ضرورت کے وقت ایک لیڈی ڈاکٹر بھی ہے جو کہ پنڈی شہر کی ہے اگر کوئی ایسا ویسا مسئلہ ہوجائے کہ میرے ایک فون کال پر حاضر ہوجاتی ہے تم کو بھی اس سے ملوا دوں گا اور تم کو بھی اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو استعمال کر سکتے ہو میں بولا سردار میں تو ایک عام آدمی ہوں اور زندگی میں پہلی بار عورت کا جسم بھی آپ نے تحفے میں دیا ہے ورنہ ہم جیسے غریبوں کو کون منہ لگاتا ہے تو بولا اب تم بہت خاص ہوچکے ہو تم میرے خاص آدمی ہو اور حویلی کے آدمی ہو اب تم کو کوئی نہ نہیں کرے گا اور نہ کرے گی ۔ کوئی بھی مسئلہ ہو تو تم مجھ سے کہہ سکتے ہومیں حیران تھا کہ سرداورں کے بارے میں یہی سنا تھا کہ بہت ظالم ہیں لیکن ابھی تک میں نے تم سردار جہانگیر خان کا کوئی ظلم نہیں دیکھا پر ابھی مجھے دو ہی دن تو ہوئے ہیں ۔ گاوں میں موبائل سروس شروع ہوچکی تھی اور گاوں میں خاص خاص مطلب بڑے لوگوں کے پاس اب موبائل فون بھی تھے جس میں کیمرے اور پتہ نہیں کیا کچھ تھا سردار صاحب کے پاس بھی ایک ٹچ موبائل تھا ۔جو بہت قیمتی تھا اس کی بیل بجی اور سردار صاحب بات کرنے لگے ۔ اور میں اپنے بارے میں سوچنے لگا کہ میں کیا سے کیا بنتا جارہا ہوں جس کو کل تک یہ پتہ نہ تھا ٹھیک طرح سے کہ عورت کیا ہوتی ہے اور عورت کا جسم کیا ہوتا ہے اب ہر وقت عورتوں کے بارے میں سوچتا ہوں ۔ خیر سردار صاحب بولے کہ حویلی چلو حویلی سے فون تھا میں نے گاڑی حویلی کی طرف موڑ دی ۔ حویلی پہنچے تو سردار صاحب چلے گئے میں وہیں باہر غفورے کے پاس بیٹھ گیا اور یاد آیا کہ اس کے بعد صائمہ اور گلناز سے بات ہی نہیں ہوئی وہ بولیں گی کہ اتنے وعدہ کرے کے بھول گیا سوچا جلدی ملنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ ابھی انہی سوچوں میں گم تھا کہ ایک لڑکی آئی کہ آپ کو سردار جہانگیر خان بلا رہا ہے ۔ میں فوراً اس کے ساتھ ہی چلا گیا اور جب سردار کے کمرے پہنچا تو یاسمین نے دروازہ کھولا میں اندر گیا تو سردار تو نہا رہا تھا اور سردارنی بولی کہ مجھے اور زروا کو شہر میں کچھ کام ہے اور دوسرے گارڈ اور ڈرائیوربڑے سردار اور اورنگ زیب کے ساتھ کسی پنجائیت میں گئے ہوئے ہیں ۔میں بولا جی میں گاڑی نکالتا ہوں ۔ اتنے میں سردار جہانگیر باہر نکلا بولاافی ان کو شہر لے جاو اور جو کام ہو کروا کر لے آو میں بولا گاڑی تو میں چلا لوں گا لیکن شہر کا مجھے نہیں پتہ کیونکہ میں آج تک شہر نہیں گیا تو سردار بولا فکر نہ کرو یاسمین شہرسے ہی ہے اس لیے وہاں کے راستوں کو اچھی طرح پہچانتی ہے میں بولا ٹھیک ہے جی بولا کل تم کوغفورے کے ساتھ شہر بھیجوں گا جو تم کو وہاں کے راستے بھی اچھے سے سمجھا دے گا ۔میں نے گاڑی نکالی اور اتنے میں عبایا میں یاسمین خان اور زروا خان نکل دروازے سے نکل آئیں ۔ میں نے دراوزہ کھولا پہلے یاسمین خان پھر زروا خان بیٹھ گئی ۔ میں نے گاڑی آگے بڑھائی اور نارمل رفتار سے گاڑی چلانے لگا ۔ یاسمین اور زروا نے گاوں سے باہر آکرعبایا اتار دیا ویسے بھی پچارو کے شیشے کالے تھے تو باہر سے اندر نہیں دیکھ سکتا تھا کوئی بھی اس وقت یاسمین خان نے ایک فٹنگ والا پیلے رنگ کاسوٹ پہنا تھا اور سورج مکھی پھول کی طرح ہی لگ رہی تھی اور زروا نے تو بیلو پینٹ اور اوپر لانگ کاسنی شرٹ پہنی ہوئی تھی جو کہ اس کی جسامت کے ساتھ کسی ہوئی تھی اور اس کے مموں کو واضح کررہی تھی یاسمین نے توڈوپٹہ لیا ہوا تھا لیکن زروا تو بغیر ڈوپٹہ کے تھی میں نے پہلی بار حقیقت کسی لڑکی کو پتلون پہنے دیکھی تھی میں فرنٹ شیشے سے اسے دیکھ رہا تھا کہ زروا کی نظر مجھ سے ٹکرائی جس نے مجھے خود کو تاڑتے ہوئے دیکھ لیا کچھ پل میری آنکھوں میں دیکھا لیکن میں نے نظریں گھما لیں ۔ زروا بولی شکریہ بھابھی حویلی سے باہر نکل کا آزادی کا احسا س ہوتا ہے ۔ یاسمین بس مسکرا دی ۔ زروا مجھے بولی گاڑی چلانی نہیں آتی میں نے بولا کیا ہوا سردارنی صاحبہ بولی اتنی آہستہ تو بیل گاڑی بھی نہ چلے جتنی آہستہ تم گاڑی چلا رہے ہو اس طرح تو ہمیں شہر پہنچتے پہنچتے شام ہوجائے گی ۔ یاسمین بولی زروا کو تیز رفتاری بہت پسند ہے ۔ میں بھی گاوں کے لنک روڈ سے مین جی ٹی روڈ پر آچکا تھا تو پھر ریس پر پاوں رکھ لیا اور بچاروتو گاڑیوں کی بادشاہ ہوتی ہے فراٹے بھرنے لگی اور میں نے 100 کلو میٹر کا فیصلہ صرف 25 منٹ میں طے کرلیا جس پر یاسمین نے بولا اب بتاو کسی لگی ڈرائیونگ بولی لڑکا ڈرائیونگ میں تو پاس ہوگیا کہ گاڑی چلا سکتا ہے ۔گاڑی شہر میں داخل ہوچکی تھی میرے لیے بھی تمام جگہیں اور عمارتیں نئی تھی میں بولا سردارنی صاحبہ اب آپ کی ذمہ داری ہے میرے لیے یہ نئی جگہ ہے پھر یاسمین خان مجھے راستہ بتانے لگی ایک بڑے شاپنک مال کے پارکنگ میں گاڑی روکوا دی ۔ اور یاسمین اور زروا گاڑی سے اتر کر چل پڑیں میں بھی گاڑی بند کر کے ان کے پیچھے چل پڑا ۔ اتنی بڑی عمار ت میں نے زندگی میں پہلی بار دیکھی تھی اور یہاں پر تو لڑکیوں نے بے شرمی کی حد کی ہوئی تھی ڈوپٹہ تو یہاں لینا جیسے گناہ سمجھا جاتا ہو اور اتنے کسے ہوئے لباس کہ عورتوں اور لڑکیوں کے جسم کے ہر حصے کی پوری نمائش ہو میں تو یہاں آکر دنگ رہ گیا ایسا لگتا تھا کہ کسی اور ملک آگئے ہیں پہلی بار لڑکیوں اور عورتوں کو ایسے کسے ہوئے اور بے شرمی والے لباسوں میں دیکھا تھا کہ میرا لن پتلون میں سر اٹھانے لگا تھا یہ سب کچھ میرے لیے نیا تھا حالانکہ آج نورین کو اچھے سے بجا کر آیا تھا اب پھر ان تنگ اور ماڈرن لباس لڑکیوں اور عورتوںکو دیکھ کر میرا کنٹرول کھوتا جارہا تھا بڑی مشکل سے خود کو قابو کیا ۔ یاسمین اور زروا ایک بری سے کپڑوں کی دوکان میں گھس گئے میں دوکان کے کاوئنٹر پر کھڑا ہوگیا ۔ جہاں پر ایک ماڈرن سی لڑکی کھڑی تھی اس نے بولا کہ خان صاحب وہاں سامنے صوفے پر بیٹھ جاو ۔ میں جا کر صوفے پر بیٹھ گیا اور لڑکی کو دیکھ نے لگا جس نے سفید ٹی شرٹ پہنی تھی اس میں اس کے بازو ننگے تھے اور نیچے نیلی رنگ کی ٹائٹ پتلون پہنی تھی ۔گاوں کے حسا ب سے میں نے بھی ماڈرن لباس پہنا تھا لیکن شہر میں آکر پتہ چلا کہ ماڈرن لباس کیا ہوتا ہے میں نے دل میں ٹھان لی کہ ایک دن میں بھی شہر میں گھر بناوں گا ۔ گاوں سے تھا اور ابھی تک معصومیت باقی تھی اس لیے بچگانہ سوچ ابھی بھی مجھ میں باقی تھی ۔ اتنے میں زروا اور یاسمین کچھ کپڑے لے کر کاونٹر پر آگئی اور یاسمین نے اپنے پرس سے پیمنٹ کی میں نے آگے بڑھ کر شاپر پکڑ لیے اور ان کے پیچھے چل پڑا زروا خان نے بہت ٹائٹ پتلون پہنی ہوئی تھی جس سے اس کی گانڈ ڈھولکی کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ بج رہی تھی اور مجھ پر بجلی گرا رہی تھی یہی حال یاسمین کا بھی تھا یہاں وہ بھی آکر ڈوپٹہ وغیرہ بھول گئی تھی وہ تو رہی ہی خیر شہر میں ہے ۔ زورا یاسمین سے کہہ رہی تھی شکر ہے ان گارڈز سے اور ڈرائیوروں سے پیچھا چھوٹا یہ لڑکا اچھا ہے اس کے ساتھ یہاں چلنے میں اتنا مسئلہ نہیں ہورہا ہے ان کے ساتھ تو ہم عجیب لگتے تھے شہروالوں کو جیسے جنگلی مخلوق گاوںسے شہر آگئی سب کی اتنی بڑی موچھیں اور پگڑیاں ہوتیں ہیں ۔ یہ لڑکا دیکھنے میں ٹھیک ہے بس تھوڑی گرومنگ کی ضرورت ہے ۔ یاسمین بولی جو بھی ہو ہے تو ہمارا خادم تو زروا بولی میں نے کب کہا کے ہم اس کو مالک بنا لیں لیکن میں اس کو گرومنگ کروا وں گی تاکہ جب بھی شہر یا باہر جانا ہو تو مسئلہ نہ ہو بولی یہ کچھ پڑھا ہوا بھی ہے ۔ ایف کیاہے اچھا پھر تو اور اچھی بات ہے مطلب اس کو بات سمجھانے میں زیادہ مسئلہ نہیں ہوگا ۔ پھر وہ ایک اور کپڑے والی دوکان میں گھس گئی اوروہاں سے خریداری کی ۔ میں ان کے ساتھ ساتھ تھا پھر زروا بولی مجھے بھوک لگی ہے کچھ کھاتے ہیں بھوک تو مجھے بھی لگی تھی اتنی محنت جو کی نورین پر اور پھر کب سے مال میں گھوم رہیں ہیں پھر ہم ایک بندڈبے نماجگہ میں داخل ہوگئے جو ہم کواوپرکی طرف لے جانےلگی میں یاسمین سے پوچھا یہ کیا ہے بولی اس کو لفٹ بولتے ہیں بجلی پرچلتی ہے لفٹ کے بارے میں پڑھا ہوا تو تھا لیکن دیکھا پہلی بار تھا خیرایک جگہ انٹر ہوئے جس کے باہر بڑا سا لکھا تھاپیزا پارلر ۔ میں بھی ان کے پیچھے اندر داخل ہوگیا اور کاوئنٹر کے ساتھ ایک صوفے پر بیٹھ گیا یاسمین نے کہایہاں کیو بیٹھ گئے ہو ہمارے ساتھ چلو میں بولا میں کیسےآپ کے ساتھ بیٹھ کر کھاسکتا ہوں بولی کوئی بات نہیں زروا بولی یہ شہر ہے یہاں تم یہ سمجھو کہ تم ہمارے ساتھ ہو خادم نہیں بلکہ ہمارے ساتھ فیملی کی طرح ہو میں بولا جی میں ایک خادم ہو اور مجھے میری اوقات میں ہی رہنے دیں زروا والی ہمیں تمہاری اوقات پتہ ہے چپ چاپ چلو میں ان کے ساتھ چل پڑا ۔ اندر ایک فیملی کیبن میں داخل ہوگئے میں ایک طرف اور ایک طرف یاسمین اور زروا بیٹھ گئے ۔ یہاں پر زروا مجھے غور رہی تھی ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اس کی آنکھیں آر پار ہو رہیں ہیں پھر تو اس نے میرا انٹر ویو شروع کردیا آرڈر کرتے کھانا کھاتے مجھ سے سب کچھ پوچھ لیا بچپن سے جوانی تک کیاکرتا ہوں کہاں سے آیا ہوں ماں باپ کیا کرتے ہیں کتنا پڑھے ہو وغیرہ وغیرہ یاسمین کو بھی شاہد میرے بارے میں سب کچھ جاننا تھا تو آخر میں یاسمین نے پوچھا تم کو جہانگیرخان نے کہا دیکھا میں کیا بتاتا کہ میں نے چدائی کرتے پکڑا تھا بولا کہ کھیتوں میں ہل چلا رہا تھا وہیں پر دیکھا تھا پھر مجھے بلایا اور کہا کہ حویلی پر کام کرو گے میں ان کو انکار نہیں کرسکتا تھا ۔ پھر انہوں نے مجھے ٹرین کروایا اور کل سے ان کے ساتھ ہوں ۔ میری امی حویلی میں ہیڈ ہیں گلشن آرا یاسمین بولی تم کی سوتیلی ماں ہے نہ تو میں بولاجی میری اصلی ماں مرچکی ہے پھر بقیہ سب بھی بتایا اور یہ بھی بتایا کہ میری بہن نور بھی حویلی میں کام کرتی ہے یاسمین بولی نور کو تو میں اچھے سے جانتی ہوں وہ بہت محنتی اور ایماندار ہے میں بولا بس اسی نے میری تربیت بھی کی ہے ۔ زروا سب دلچسپی سے دیکھ رہی تھی اس وقت کھلے بالوں میں تھی اور لگ ہی نہیں رہاتھا کہ یہ گاوں سےآئی ہے ایسا لگ رہا تھا کہ یہیں کی ہے ۔ ہم نے کھانا کھایا باہرنکلے تو زروا بولی بھابھی اس کو اب بھیج دو ہم وہ سامان لے لیں جس پر یاسمین بولی ہاں ٹھیک ہے تو مجھے بولی تم جا کر شاپر گاڑی میں رکھو اور گاڑی نکال کر ہمارا انتظار کرو میں وہاں سے نکل آیا لیکن مجھے تجسس ہوا کہ یہ کون سا سامان لینا چاہتی ہیں میں چھپ کر ان کے پیچھے گیا تو وہ ایک انڈر گارمنٹس کی دوکان پر گئیں میں بھی چھپ کر ان کو دوکان کے باہر دیکھنے لگا جہاں پر زروا اور یاسمین نےاپنے لیے برا اور انڈر ویئر لیے مجھے گلناز ان سب کے بارے میں بتا چکی تھی زروا نے دو تین سیٹ لیے اور یاسمین خان نےبھی اسی طرح کے کچھ سیٹ خریدے میں ان کا سائز نہ جان سکا کیوں کہ میں باہر تھا اس لیے آواز باہر نہیں آرہی تھی میں جلدی سے باہر چلا گیا اور گاڑی نکال کر روڈ پر لایا ۔ مال سے باہر نکال کر ایک درخت کے نیچے پارک کردی ۔ اتنے میں زروا اور یاسمین باہر آرہے تھے لیکن ان کے پیچھے سے تین لڑکے آرہے تھے جو آوازیں کس رہے تھے کہ آجا سوہنیوں ہم چھوڑ دیتے ہیں ایک بولا اوہ چن مکھنوں آو کوئی لسی وغیرہ پی لو ۔ میں سن رہا تھا جلدی سے باہر نکل آیا اور جلدی سےان کے پاس پہنچ گیا ایک لڑکے نے زروا کو پیچھے سے قمیض سے پکڑنےکی کوشش کی اتنے میں پہنچ چکا تھا ۔ زروا اور یاسمین کو کہا کہ آپ گاڑی میں بیٹھیں ان کو میں دیکھتا ہوں ایک لڑکا بولا لو آگیا ان کا یار بھی بڑی شریف بن رہی تھیں میں بولا کیا مسئلہ ہے آپ کو ۔ ان میں سےایک بولا ہمیں یہ مال پسند آگیا ہے اس لیے بہتر ہے کہ اپنی جان بچا اور چلا جا یہاں سے یہ لڑکیاں اب ہمارےساتھ جائیں گی ۔ میں بولا دیکھو بھائی ہماری تم سے کوئی دشمنی نہیں ہے اس لیے بہتر ہے کہ ہمیں جانے دو ۔ و ہ لڑکے سمجھے شاہد میں ڈر گیا ہوں اور اس لیے ان سے منت کررہا ہوں ۔ ایک لڑکا بولا کہ آخری موقع دے رہے ہیں ان کو چھوڑ کر بھاگ جا دو چار دن میں واپس کردیں گے کیوں اپنی جان سے جاتا ہے ۔ میں بولا ٹھیک ہے اگر تم کی صلاح مار کھانے کی ہے تو پھریہی سہی وہ سب ہنسنے لگے کہ بچے کو جوش آگیا جس نے کہا تھا بچے کو جوش آگیا میں نے آگے بڑھ کر ایک کک پوری طاقت سے اس کے سینے پر ماری وہ اس کے لیے شاہد تیا رنہیں تھالڑکتا ہوا دور جا گرا ۔ باقی دونوں مجھ سے الجھ پڑے میں نے ان دونوں کے سے لڑتا رہا اور اچھی خاصی کٹ لگائی لیکن جو تیسرا تھا اس کو موقع مل گیا اس کے ہاتھ چھوٹا سا خنجر نما چاقو تھا وہ میری طرف بڑھا میں ان دونوں کو مار رہا تھا جیسےہی پلٹا تو اس نے خنجر دے مارا میں نے اس کو بلاک کرنےکی کوشش کی لیکن اتنے میں دیر ہوچکی تھی اور چاقومیری ٹانگ پر بالکل اور تھائی پر پیٹ اور تھائی کے جوڑ نیچے گھسا ۔میرے منہ سے ہلکی سی آواز نکلی میں نے اس کو ٹانگ ماری مجھے چاقو لگتا دیکھ زروا نے بھی چیخ ماری ۔ خون دیکھ کر مجھ پر حیوانگی سوار ہوچکی تھی میں نے ان کو مار مار کر ادھ مرا کردیا اور چاقو اسی طرح میری ٹانگ میں گھسا ہوا تھا پریکٹس بہت کی لیکن اصل لڑائی پہلی بار لڑا تو تھوڑی چوک ہوگئی۔ وہاں پر بہت سے لوگ اکٹھےہوچکے تھے ۔ زروا اور یاسمین بھی آچکی تھیں ۔جو کہ سب دیکھ رہی تھی کہ میں نے ان کی بینڈ بجا دی اور وہ معافیاں مانگ رہے تھے یاسمین آگے بڑھ کر بولی کہ تم کے گھر ماں بہن نہیں ہے جو ہمیں اغوا کرنا چاہتے تھے جب لوگوں نے یہ سنا تو ان پر کچھ جوشیلے لڑکے ان پر پل پڑے کچھ لوگ آگے بڑھے اور مجھے پکڑ لیا خون میری ٹانگ سے بہہ رہا تھا میں نے ان میں سے ہی ایک لڑکے کی شرٹ پھاڑ لی اور چاقو نکال کر ٹانگ پر پٹی باندھ لی کچھ لوگوںنے مجھے پکڑ لیا کہ تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں اور انہیں پولیس سٹیشن ۔ پولیس کا نام سن کر میں بولا نہیں مجھے پولیس سٹیشن نہیں جانا اورمیں نے سردارنیوںسے کہا گاڑی میں بیٹھیں ۔ جلدی کریں میں نے دوسرے لڑکے کی بھی شرٹ پھاڑی اور اپنی ٹانگ پر باندھ لی ۔ سردارنیاں گاڑی میں بیٹھ چکی تھیں میں بھی جلدی سے گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی بھگا دی ۔ زروا بولی تم کا بہت خون بہ چکا ہے میں بولا کہ میں آپ کو صحیح سلامت حویلی پہنچا دوں پھر وہاں اس کا بھی کچھ کروں گا ۔ یاسمین بولی تم پاگل ہوگیا ہم ٹھیک ہیں ۔ میں نے کہا کہ میں ٹھیک ہوں ۔اور میرا پہلا کام آپ کو حویلی پہنچانا ہے ۔ یاسمین بولی میں تم کی مالکن تم کی سردارنی ہوں جو میں حکم دوں گی وہ کرنا ہے تم نے اسی وقت جس راستے میں کہتی ہوں چلو ۔ بولا ٹھیک ہے چل دیا ۔ وہ راستے بتاتی گئی میں نے زروا کو دیکھا جو کافی پریشان دکھ رہی تھی مجھے تھوڑی حیرانی ہوئی ۔ خیر ہم ایک کلینک کے باہر رکے یاسمین اندر گئی اور کچھ دیر بعد ایک لڑکی کے ساتھ باہر آئی جو کہ ڈاکٹر تھی وہ آکر گاڑی میں بیٹھ گئی یاسمین بولی چلو میں نے گاڑی آگے بڑھائی ۔ لڑکی بولی مریض کدھر ہے یاسمین بولی جو گاڑی چلا رہا تو لڑکی بولی تم نے کہا تھا کہ چاقو لگا ہوا ہے ۔ یاسمین بولی ہاں چاقو لگا ہوا ہے خود یکھ لینا ۔بولی پولیس کیس ہے اسی وجہ سے میں گھرلے کر جا رہی ہوں اب تم کو میں نہ بول سکتی ہوں کیا میری بچپن کی دوست ہوتم ۔ پھر ایک گھر کے پاس انہوں نے گاڑی رکوائی میری ٹانگ میں شدیددرد تھا لیکن میں اپنی ہمت اور برداشت کی وجہ سے ابھی تک خود قابو میں رکھا ہوا تھا ہارن دیا تو گیٹ پر چوکیدار آیا جس کو لڑکی جو کہ ڈاکٹر تھی نے گیٹ کھولنے کے لیے بولا ۔ اور گاڑی اندر کھڑی کی ۔ سب اترے میں بھی اترا میرا ابھی خون رس رہا تھا لیکن اب بہت کم ۔ میں جب اترا تو مجھے چکر آرہے تھے خون زیادہ بہہ جانےکی وجہ سے جو کہ زروا نے دیکھ لیا اور مجھے پکڑ لیا ۔ یاسمین نے بھی پکڑ لیا پھر مجھے اندر لے گئے ۔ اور ایک کمرے میں ایک سٹریچر نما بیڈ پر لٹا دیا شاہد ڈاکٹر نے گھر میں ہی چھوٹا سا روم بنا رکھا تھا جہاں مریضوں کو چیک وغیرہ کرتی ہوگی ۔ مجھے بیڈ پر لٹا دیا ۔ ڈاکٹر بولی کہ ہمیں خود ہی سارا کام کرنا پڑے گا ۔ کیوں کہ باہرسے کسی کو بلایا تو پولیس کو نہ بتا دے ۔ اس لیے سب ہمیں ہی دیکھنا پڑے گا ۔سب سے پہلے اس کے زخم کو دیکھنا پڑے گا کہ صرف پٹی سے کام چل جائے گا یا ٹانکین لگانے پڑےگے ۔ مجھے بولی پینٹ اتار دو میں اس کی شکل دیکھنے لگا گیا ۔ اور یاسمین اور زروا کو دیکھنے لگ گیا میں بولامیں نہیں اتاروں گا آپ اوپر سےپٹی لگا دیں ڈاکٹر بولی ایسےکیسے لگا سکتی ہوںمجھے تم کا زخم دیکھنا ہوگا ۔ میں بولا پلیز کسی مرد ڈاکٹر کو بلالیں بولے اگر جیل جانا ہے تو بلا لیتی ہوں یاسمین بولی اتار و بھی جلدی کرو میں بولامیں کیسے سب کے سامنے اتار دوں ۔ ڈاکٹر بولی اچھامیں ان کو باہر بھیج دیتی ہوں میراتو کام ہے میں نےحامی بھر لی زروا بولی ہےتو یہ بھی لڑکی ہی نامیں بولاڈاکٹر ہے اور مجبوری ہے ۔ ڈاکٹر بولی یاسمین یار سامنے کچن ہے پانی گرم کرو ۔ زروا اور یاسمین باہر چلی گئیں ۔ ڈاکٹر بولی اب اتارو پھر سب سے پہلے جو شرٹس اوپر باندھی ہوئی تھیں ہوکھولی اور پھر پتلون اتار دی ۔ نیچے میں نے کھچا پہنا ہوا تھا۔ ڈاکٹر بولی اسے بھی اتار ومیں نے وہ بھی اتار دیا ۔ پٹی کھلنے سے میراخون دوبار بہنا شروع ہوگیا ۔ میں نے کچھا بھی اتار دیا اب میں نیچے سے بالکل ننگا تھا خون بہنےکی وجہ سے سب خون لگا ہواتھا میرا لن بھی خون میں بھیگا ہوا تھا میں نے جیسےہی کچھااتار ڈاکٹر کی نظر سیدھے میرے لن پر گئی ایک پل کےلیے اس کی آنکھوںمیں چمک ہوئی پھر معدوم ہوگئی پھر ڈاکٹرنے میرے زخم کو دیکھا ڈاکٹر بولی تم چل کیسے پارہے ہو اتنا خون بہہ چکاہے اور اتنا گہر کٹ لگا ہوا ہے ۔ میں چپ رہا۔ ڈاکٹر بولی کٹ بہت گہرا ہے ٹانگیں لگانے پڑیں گے ۔ ڈاکٹر نے مجھے درد کے انجیکشن لگائے اور جگہ سن کرنے کے لیے انجکشن لگائے ۔یاسمین کو آواز دی پانی لے آو میں بولا پلیزبولی ٹانگین لگانے ہیں جو اکیلے کا کام نہیں ہے ۔ یاسمین اور زروا کمرے میں اگئے میں نے نظریں جھکا لیں ۔ ڈاکٹر بولی میں نے سن کرنے کے لیے انجکشن لگا دیا ہے اب خون صاف کرلو اس نے گرم پانی لیااور میری ٹانگین صاف کرنے لگی ۔ڈاکٹر نے جیسے ہی میرے لن کو چھوا میرےلن میں حرکت ہوئی ڈاکٹر نے لن کو آگے پیچھے کرکے گرم پانی سے صاف کیا لیکن ڈاکٹر کا ہاتھ لگتے ہی میرا لن پوری طرح کھڑا ہوگیا ڈاکٹر بولی تم کا پینس ٹھیک کام رہاہے شکرہے کوئی اس کی نس نہیں کٹی میں نے اوپر دیکھا تو یاسمین اور زوروا میرے لن کو ہی دیکھ رہی تھیں جیسے ہی میری نظر زروا سے ٹکرائی اس کے فیس پر سمائل آگئی۔ اور آنکھوںمیں عجیب سے چمک آگئی ۔ یاسمین کا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا میرا لن تھا کہ جھٹکے پر جھٹکے مارے جارہا تھا ۔ پھر ڈاکٹر نے مجھے لٹا دیا میرا لن سیدھا اوپر کی طرف کھڑا تھا اور جھٹکے کھارہا تھا پھر ڈاکٹر نے یاسمین کو کہا کہ اس کی ٹانگ پکڑو اور سیدھی رکھو کے میں ٹانگین لگا لوں زروا جلدی سے آگے آئی اور میری ٹانگ پکڑلی ڈاکٹر ٹانکین لگانےلگی سن کےٹیکے کی وجہ سے مجھے درد محسود نہیں ہو رہا تھا لیکن ڈاکٹر اور زروا کے ہاتھ لگنے کی وجہ سے میرا لن تھا کہ جھٹکے لیا جارہا تھا ڈاکٹر بولی ویسے میں نے آج تک اتنا تگڑا پینس نہیں دیکھا شہر میں تو ایسا دیکھنے کو ملتا ہی نہیں ۔ یاسمین بولی کہ پٹھان ہے اورجوان ہے ۔ بولی پینس دیکھ کر لگتا ہے جس پر چڑھے گا تسلی کروا دے گا یاسمین بولی تم کی تسلی اس کے کروا دوں کیا ڈاکٹر بولی دیکھتے ہیں ۔ فی الحال تو ٹانگین لگا لوں ان کی باتیں سن کرمیرا لن اور جھٹکے کھانے لگا ڈاکٹر مذاق میں بولی میں ہوں نہ ہوں یہ چڑھنے کے لیے تیار لگتا ہے ڈاکٹر نے ٹانگین لگا دیے اور پٹی کا سامان اٹھانے گئی تو زروا نے ٹانگ چھوڑ دی اور میرے لن پر ایک تھپڑ مارا جس سے میرے لن نے جھٹکا کھایا ۔ ڈاکٹر نے پٹی کر دی اور مجھے ایک چادر سی دے دی جو میں نے باندھ لی ڈاکٹر نے مجھے دوائی کھلائی مجھے سن کے ٹیکے کی وجہ سے ابھی درد نہیں تھی ۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا لیکن میرا لن تھا کہ بیٹھنے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔میں بولا اب چلیں سردارنی جی اب تو آپ نے اپنی مرضی کرلی بولی تم واقع ہی پاگل ہو آرام کرو میں نے جہانگیر خان کو فون کر کے ساری بات بتا دی ہے کہ کیسے تم نے بہادری سے ان کا مقابلہ کیا اور زخمی ہونے کے باوجود ٹھیک ہواور ہوش میں ہو وہ آرہا ہوگا ۔ میں بولا آپ نے سردار کو کیوں تکلیف دی ہم ابھی خود حویلی چلے جاتے جس پر ڈاکٹر بولی واقع لڑکا یا پاگل ہے یا بہت بہادر ۔ میں بولا صرف خادم ۔ ڈاکٹر بولی میں نےٹیکا لگا دیا ہے اب تم سو جاو ۔ سب کی نظریں میں لن پر تھیں میں بہت شرمندہ ہورہا تھا ۔ خیر بڑی مشکل سے کسی طرح لن کو ایڈجسٹ کیا اور خود کو قابو۔ یاسمین بولی شکریہ سحر تم نے آج ہماری بہت بڑی مدد کی ۔ تو ڈاکٹر کا نام سحر تھا ۔ پچیس ،جھبیس سال کی اور سلم سمارٹ اور خوبصورت لڑکی تھی اور شہر کی ماڈرن اورڈاکٹر بھی تھی ۔ ابھی میں ڈاکٹر کو تاڑ ہی رہا تھاکہ سردار جہانگیرخان بھی پہنچ گیا میں فوراکھڑا ہوگیا سردار بولالیٹے رہو یار ۔ یاسمین اور زروا نے سردار کو ساری بات بتا دی لیکن یہ ننگے ہونے اور ٹانکون کی بات نہیں بتائی ۔ سردار بولا مجھے افی پر یقین ہےاور وفاداری پر بھی اب بہادری پربھی یقین آگیا ہے ۔اور آج کے واقع سے ثابت ہوا کہ میرا انتخاب غلط نہیں ہے ۔ میں بولا اب میں ٹھیک ہوں واپس چلتےہیں ۔ بولا نہیں آج نہیں ایک دو دن رکنا ہے یہاں پر میں نےگھر بتا دیا تھا کہ شہر میں کام ہے ایک دو دن لگ جائیں گے۔ تم آرام کرو ۔ مجھے گرم دودھ دیا اور سونے کا بولا ۔ رات کا کون سا پہر تھا کہ اچانک پیاس سے میری آنکھ کھلی لیکن پیاس نہیں کوئی میرےلن سے کھیل رہا تھا اور میری دھوتی سائیڈ پر تھی کمرے میں اندھیرا تھا مجھےکچھ نظر نہین آرہا تھا اور جو بھی تھا اس کےہاتھ بہت نرم تھےاور میرےلن کو آگے پیچھے کررہی تھی پھر اس نے میر ے لن پر زبان پھیری اور چاٹنے لگی اورمیرے لن کو منہ میں بھرنے کی کوشش کی کہ اچانک
      جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
      ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

      Comment


      • اس کیا کمال کی اپڈیٹ ہے ایکشن سسپنس اور سیکس کرتڑ کا زبر دست

        Comment


        • آج کے ایکشن کے بعد لگ رہا ہے کہ آفی سیکس کے بعد ایکشن کے میدان کا بھی سوپرھیٹ کھلاڑی ثابت ہوگا گا

          Comment


          • لگ رہا ہے کہ اب حویلی کی خواتین کی بھی بینڈ بجنے والی ہے

            Comment


            • زبردست کہانی

              Comment


              • کمال کی منظر کشی کی ہے اور سسپنس سونے پہ سہاگہ

                Comment


                • نہایت ہی زبردست کمال کی کی اپڈیٹ ہے سٹوری دوسری مرتبہ پڑھنے کا الگ ہی مزہ ہے

                  Comment


                  • Iffi kau lun ki roonumai hogaye hai.. ahki episode main iffi ko sardarnion ya unki fldost say inaam zaror milay ga..
                    narm hath doctor ya zarwa kai hain .. ab daikhtay hain andhairay k peechay kaya nikalta hai..

                    Comment


                    • Wah kia garam update thi lun khara karne wali

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X