Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

فقیر سے بادشاہ تک کا سفر

Collapse
This topic is closed.
X
This is a sticky topic.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #71
    زبردست شروعات

    Comment


    • #72
      بہت اچھا سٹارٹ ہے

      Comment


      • #73
        Introduction bht acha diya ha

        Comment


        • #74
          ھیرو سے ایک چھاپا مروا کر اسکے چاچے کی بیٹی کی پھدی کا دیدار کروایا. گیا ھے..... ابھی حویلی کے کئی راز بھی ھیرو کے لن.کی چابی سے کھلیں گے

          Comment


          • #75
            چھا گئے هو استاد ج

            Comment


            • #76
              Srdar se dosti mtlb hero ki life brbad aa gay dekhte hain hota ha kia mst update

              Comment


              • #77
                کمال کی اپڈیٹ

                Comment


                • #78
                  اسٹوری بہت ہی شاندار اور عمدہ ہے اپنے سحر میں انسان کو گم کر لیتی ہے ہے انتہائی قابل تعریف

                  Comment


                  • #79
                    قسط نمبر۲




                    اچانک دروازہ کھلا اور پائل اور نورین اندر داخل ہوئیں جیسے ہی ان کی نظر مجھ پر پڑی تو دونوں کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا دونوں کی نظریں میرے لن پر تھیں اور گبھراہٹ اورجلدی میں شلوار اوپر کرنے کی بجائے نیچے گردی نورین اور پائل کی نظر تو جیسے میرے لن پر جم گئی تھی میں نے جلدی سے شلوار اوپر کی تودونوں کو ہوش آیا اور وہ جلدی سے باہر بھاگ گئیں میری ساری مستی نکل چکی تھی اور ڈر نے جگہ لے لی تھی نورین تو شاہد نہ بتاتی لیکن پائل جو کہ امی کی چہیتی ہے امی کو بتا دے اور ابو کو بھی میری بہت پٹائی ہونےوالی تھی امی کو تو بس بہانہ چاہیے تھا مجھے مارنے کا کہ کوئی موقع ملے ۔میں کافی دیر کمرے میں رہا ڈر کے مارےلیکن کب تک باہر تو جانا تھا شام کا ٹائم تھاابو بھی آنے والے تھے آپی تو شام کو آتی لیکن امی رات کو میں باہر نکلا اور ادھر ادھر نظریں گھمائیں باہر سویرا اور نازنین بیٹھی تھی میں نے سوچا کھیتوں میں جاتا ہوں وہیں رہ جاوں گا کیوں کہ میں کبھی کبھی کھیتوں میں سو جاتاتھامیں جلدی جلدی نہایا اور باہر نکلنے لگا تو پیچھے سے سویرا نے آواز دی کے کہاں جارہے ہو میں نے کہاکھیتوں میں جارہا ہوں بولی تمہاری تو طبیعت خراب تھی نہ میں بولا اب ٹھیک ہوں دوپہر سے آرام ہی کرہاہوں ابھی ہم باتیں کررہی رہے تھے کہ باہر کا دروازہ بجا میں باہر آیا تو ایک آدمی کھڑا تھا یہ ہمارے گھرکے ساتھ ہی رہتا تھا اور حویلی میں کام کرتا تھا بولا کہ تم کو سردار جہانگیر خان حویلی میں بلا رہا ہے میں توجیسے بہت ڈر گیا کہ نورین نے شاہد جہانگیرخان کو کمرے والی بات بتا دی ہے اس لیے بلا رہا ہے پیچھے سے ابو بھی آگئے بولے کیا بات ہے میں نے ان کو بتایاکہ سردار جہانگیر خان بلا رہا ہے میرے ابو کے بھی ہاتھ پاوں پھول گئے ساری لائف انہوں نے مجھے حویلی سے بچایا تھااب اچانک حویلی والوں نے مجھے بلایاتھا تو میرے ابو بھی ڈر گئے لیکن وہ سرداروں کا پیغام ٹال نہیں سکتے تھے ۔آدمی کو بولا تم جاو میں اسے ساتھ لاتا ہوں حویلی ۔ ابو مجھ سے بولےتمہیں کیوں بلایا ہے میں بولا ابو مجھے کیاپتامیں توگھرمیں تھاابھی اس آدمی نے پیغام دیاتھااور آپ کو بھی بولا ۔ ابو بولے خیرہو حویلی کی نظر تم پر کیسے پڑگئی میں بولا مجھے کیا پتہ میں تو چھپ کر ہی رہتا ہوں اور باہر جاتا بھی نہیں اب میں اندر سے مزید ڈر گیا پھر سوچا ہو گا دیکھا جائے گا زیادہ سے زیادہ مجھے مار ہی پٹے گی اور کیاہونا ہے اور ابو کے ساتھ حویلی چل دیا ۔ میں حویلی میں جانا چاہتا تھا بہت شوق تھا لیکن ابو اور آپی نے مجھے کبھی حویلی نہیں جانے دیا بلکہ مجھے بچا کررکھا ۔لیکن اب حویلی سے میرابلاوا آیا تھا اس لیے ٹال نہیں سکتے تھے میں جب بھی ابو سے پوچھتا تو وہ یہی کہتے وہ بہت خطر ناک جگہ ہے کئی لوگوں کے جوان بچوں کو کھا گئی ہے ایک بار جو حویلی والوں کی نظر میں آگیا وہ پھر نہ لوٹا ۔ ہم حویلی پہنچے ۔میں حویلی کا نقشہ تھوڑا سا بتا دوں ۔ حویلی بہت بڑی جگہ پر گاوں کے آخر پربنی ہوئی ہے جس کے ساتھ بیٹھک مطلب ایک بڑی سی جگہ بنی ہوئی ہے جہاں پر کچھ کمرے مہمان خانے بنے ہوئے تھے اور صحن میں گھاس لگی ہوئی تھی اور بیٹھے کی جگہ نہانے دھونے کی جگہ بنی ہوئی تھی جہاں پر سردار بیٹھ کر مسئلے سنتا تھا اور پنجائیت ہوتی تھی اور سردار کے مہمان ٹھہرتے تھے ۔اس کےساتھ گھوڑوں کا اصطبل تھا جہاںسرداروں کے گھوڑے پلتے تھے وہاں اعلیٰ نسل کے گھوڑے اور گھوڑیاں پالی جاتی اور ان کو ٹرین کیا جاتا ۔ پھر حویلی جو کہ کافی بڑی جگہ پر پھیلی ہوئی تھی جس میں دو پورشن تھے پہلے پورشن پر آٹھ بڑے کمرے تھے جن میں تین کمرے حویلی کے خاص مہمانوں کے لیے تھا باقی پانچ گھر والوں کے لیے حویلی کے دروازے کی ساتھ سرونٹ کوارٹر بنے ہوئے تھے چھ جن میں ملازم اور ملازمائیں رہتی تھیں دوسرے پورشن میں میں دس کمرے تھے باہرسے حویلی ایسے نظر آتی جیسےبہت پرانے زمانےکی ہو لیکن اندر سے بہت جدید انداز میں تعمیر کی گئی تھی ۔پہلےحویلی سادہ تھی جیسے پہلی حویلیاں ہوا کرتی تھیں لیکن بعد میں دوبارہ تعمیر کروائی گئی جو کہ جب سرداورں کی شادی مطلب دونوں بیٹوں کی شادی ہونی تھی تب تعمیر کروائی گئی بہت ہی جدید تعمیر کروائی گئی ہر روم کے ساتھ اٹیچ باتھ روم سنٹرل ائر کنڈیشن ، ڈرائنگ روم ، ٹی و ی حال ، کھانے کے لیے الگ حال اور سٹور روم خوراک سٹور کرنے کےلیے ، کچن الگ بڑا سا جہاں پر سارا دن کچھ نہ کچھ پکتا رہتا ۔ ایسا لگتا تھاکہ حویلی میں نہیں بلکہ کسی باہر کے ملک میں آگئے ہیں ایک الگ ہی جہان آباد تھا ۔ نیچے ماسٹر بیڈ رومز میں ایک کمرے میں بڑے سردار اور ان کی بیوی عاصمہ خان رہتے تھے اور ایک ماسٹر روم میں سردار اورنگزیب اور ان کی بیوی شینا رہتی تھی اور نیچے زروا خان چھوٹی بیٹی رہتی تھی ۔ اوپر ماسٹر بیڈ رومز میں ایک میں مہک خان اور ایک کمرے میں سردار جہانگیرخان رہتا تھا باقی کمرے بھی خالی نہیں تھے فلی فرنشڈ تھے جب بہووں کی فیملیاں یا قریبی لوگ آتے تو ٹھہرتے تھے ۔ تو یہ تھا حویلی کا تعارف ۔ تو میں ابو کے ساتھ حویلی کیطرف چل پڑا جب حویلی پہنچے تو وہ ہی آدمی کھڑا تھا بولا آگئے ہو ابو بولے جی وہ ہمیں بیٹھک میں لے کر چلا گیا جہاں پر ایک کمرے میں سردار جہانگیر خان بیٹھا تھا ابواور میں نےسردار کو سلام کیا میں دل میں سوچ رہا تھا لے بیٹا اب تیار ہو جا سزا کے لیے سردارجہانگیرخان تجھے سزادے گا جو صبح تم نے ان کی بات نہیں مانی یاپھر نورین نے کمرے والی بات بتا دی ہے ۔ سردارنے بات شروع کی کہ آفتا ب تم کا بیٹا ہے بولے جی یہ میری پہلی بیوی سے ہے سردار بولاکبھی کو دیکھا نہیں بولے بس جی گھر ہی رہتا ہے اکیلا بیٹا ہے تو باہر نہیں جانے دیا اور میرے ساتھ کھیتوں میں کام کرتا ہے ۔ سردار بولا کچھ پڑھا ہوا ہے کہ نہیں ابو بولے جی ایف اے کیاہے بولے ٹھیک ہے آج سے یہ حویلی میں کام کرے گا میں نے پتہ کروا یاہے کہ یہ بہت اچھا ہے پہلوان بھی ہے اور محنتی بھی ہے تو آج سے حویلی میں کام کرے گا ابو بولےسردار صاحب اگر یہ یہاں کام کرے گا تو میرے ساتھ کھتیوں میں کام کون کرے گا جی میں تو اب بوڑھا ہوچکا ہوں یہ ہی کام کرے گا سردار بولا تم ہماری زمین پر کام کرتے ہو اگر زمین ہی واپس لے لوں تو کس پر کام کرو گے ۔ ابو بولے سردار صاحب ایسامت کریں ہمارے پاس اور کوئی کام نہیں ہے تو سردار بولا تو پھر اگر زمین رکھنی ہے تو اس کو حویلی پر بھیج دو ۔اب ابو کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا بولے کیا کام کرنا ہوگا بولے اسے حویلی کے کام کرنے ہوں گے اس کو گارڈ کی ٹریننگ بھی دی جائے گی ،ڈرائیوری بھی سیکھائی جائے گی اور گھوڑ سواری بھی ۔ اب سے حویلی کی خدمت کرے گا ۔ اوراگر اس کو پڑھنے کاشوق ہوا تو میں وعدہ کرتا ہوںاس کو پڑھاوں گا بھی ۔تم فکر نہ کرو اس کی ذمہ داری اب میری ، ابو خاموش ہوگئے کیونکہ ان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا اور وہ بار بار مجھے دیکھ رہے تھے میرے دل سے اب ڈر نکل گیا تھا کہ مجھے سزا دی جائے گی ۔ ابو بولے کل سے اس کو حویلی بھیج دینا میں غفورے کو کہہ دوں گا اس کو سب سیکھا دے پہلے اس کو حویلی کے اداب وغیرہ اور ٹریننگ دی جائے گی پھر اس کو حویلی میں کیسے کام کیا جاتا ہے وہ سیکھا دے گا ۔ جب اس کی تربیت مکمل ہوجائے گی تو اس کو حویلی میں کام پر لگا دیں گے ۔ ایک بات اپنے بیٹے کو سمجھا دینا اور تم بھی جانتے ہو گے کہ یہ جنتا اچھا کام کرے گا اتنا تم کو انعام مل جائے گا اگر اس نے دھوکہ دیاتو اس کی سزااس کو نہیں تم کو ملے گی ۔ ابو بولے جی میرا بیٹا بہت محنتی اور سمجھدار ہے ایک بار جو سمجھایا ہے وہ کبھی نہیں بھولا آپ کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا ۔ میں اب اندر سےبہت خوش تھاکہ میں اب حویلی میں کام کروں گا اور حویلی کا خاص آدمی بنوں گا مجھے غفورے عرف غفور خان کا پتہ تھا وہ گاوں میں حویلی کا خاص آدمی تھا اور بہت ہی خوشحال تھا اس کی اپنی حویلی تھی بڑی سی اور زمین بھی جو اس کو حویلی والوں نے دی تھی ۔ میں بھی اپنے معصوم دماغ سے خواب دیکھ رہاتھا کہ اب میں بھی کام کروں گا اور میں بھی خوشحال ہوجاوں گا اور اپنی بہنوں کے لیے کچھ کرسکوں گا لیکن یہ سب خواب تھا جس کا ابھی حقیقت سے کوئی واسطہ نہ تھا ۔ لیکن میری کامیابی کی پہلی سیڑھی شائد یہیں سے شروع ہوئی۔بولےاب جاوکل اس کو بھیج دینا اور میری ابو کے تو اس وقت ہاتھ پاوں پھولےہوئے تھے کہ ایک ہی بیٹا تھا وہ بھی حویلی والوں نے چھین لیا ہے اور وہ کچھ کربھی نہیں سکتے تھے ۔ ابوواپس مڑے تو سردار جہانگیر خان نے مجھے اپنے پاس آنے کا کہا بولےاور آہستہ سے بولے دوستی یاد ہے نہ میں بولا جی بولے مجھے تم جہانگیرکہہ سکتےہو ۔ میں نے تو اپنی دوستی تم کو دیکھا دی آج ہی حویلی میں بلوا لیا اور کام دے دیا ورنہ تم سارا دن کھیتوں میں ہی ہل چلاتے رہتے اور یہیں چلاتے چلاتے مرجاتے ۔ میں نے تم کے بارے سب پتہ کروا لیا تم تو بہت چھپے رستم ہو نورین نے سب بتایا ہے مجھے ۔ نورین کا نام آتے ہی اس کا ننگا جسم یا د آگیا اور اس کے ہونٹ جو بہت ہی رسیلے تھے ۔ میں نے بھی کہاجہانگیر میں بھی اپنی دوستی نبھاوں گا بولے یاد رکھنا ۔ جہانگیر بولا کہ گاوں کے بہت سے لوگ سردار کی دوستی کے خواہش مند ہوتے ہیں اور دن رات ایسا کرنے کا سوچتے ہیں کہ سرداروں کی نظروں میں آجائیں لیکن ہم دوست نہیں بناتے لیکن میں نےتم کو دوست بنایا ہے ۔ بولا اب جاو کل آجانا میں نے غفورے کو کہہ دیا ہے تم کو سب سمجھا دے گا ۔ ابو جو کہ اپنی سوچوں میں کافی آگے جاچکے تھے میں بھی بھاگ کر ان کے ساتھ مل گیا اور گھر کی طرف چل پڑے ۔ جب گھر پہنچے تو دروازہ نور نے کھولا اور ابو کا لٹکا ہو منہ دیکھا اور ساتھ مجھے دیکھا تو پریشانی سے بولی سب خیرتو ہے میں بولا اندر تو چلو کے یہیں سب پوچھ لو گی آپی نے راستہ دیا اور اندر چلے گئے جہاں سب باہر ہی بیٹھے تھے چارپائیوں پر پھر ابو نے سب کوبتایا کہ کیسے سردار نے بلایااور کیسے اس کا اب حویلی میں کام کرنا ہوگا ۔ جس پر میری بہنوں کے منہ تو بجھ گئے لیکن پہلی بار امی کو خوش دیکھا بولی ۔لیکن ابو کے سامنے کچھ کہہ نہیں سکتی تھیں اس لیے بولی یہ تو بہت برا ہوا میری بہنیں تو رونے والی تھی ۔ خیر امی نےکھانا لگایا جو وہ حویلی سے لائی تھی کیونکہ آج حویلی میں کچھ لوگوں کی دعوت تھی تو کھانا بنا جو کہ امی بھی لے آئیں ۔ لیکن نہ کھانا ابو نے کھایا اور نہ ہی میری بہنوں نے لیکن نازنین اور امی اور پائل تو چٹخارے لے لے کر کھا رہی تھیں ابو اندر کمرے میں چلے گئے تو امی بولی شکر کرو اب تم کام کروں گے چار پیسے کماو گے یہاں تومفت کی روٹیاں ہی توڑتے ہو۔ پائل جو کہ چور نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ مجھے ہی غور رہی تھی میں نے شرمندگی سے سرجھکالیا اور کچھ بہنوں اور ابو کو غمگین دیکھا تو میں بھی تھوڑا غمگین ہوگیا تھا اور سرجھکا کر بیٹھا رہا پھر سویرا نے کھانا اٹھایا اور مجھے اور آپی کو کھانے کو بولا کہ اس طرح بوکھا رہنے سے کچھ نہیں ہونے والا مجھےاوپر والے پر پورا بھروسہ ہے اور اپنے بھائی پر بھروسہ ہے ہم نے کھانا کھایا اور اندر چلے گئے اور میں بھی کمرے میں چلا گیا ہم تینوں بہن بھائی ایک ہی کمرے میں سوتے تھے ایک کمرے میں نازنین اور پائل اور ایک کمرے میں امی ابو سوتے تھے پھر آپی جس کی چار پائی میرے ساتھ ہی ہوتی تھی بولی افی مجھے تم پر بھروسہ ہے اور پھر حویلی کے بارے میں بتانے لگی کہ وہاں کا نظام کیسا ہے اور کہا کہ افی ایک بات بتا دوں وہاں کسی کو بھی کسی کام کی سزا دے دی جاتی ہے اس لیے تم دھیان رکھنا ۔ اور بہت سی نصیحت کی میں بولا آپی آپ بھی تو وہاں ہوگی مجھے گائید کرتی رہنا ۔ اور پھر آپی بولی کے افی ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ حویلی میں جو کچھ دیکھو وہ صرف اپنے تک ہی رکھنا تم بہت سے چیزیں ایسی دیکھو کہ تم شائد برداشت نہ کرسکو لیکن خود کو قابو میں رکھنا جیسا ہمیشہ خود کو قابو میں رکھتے ہو اور کچھ بھی ہو جائے کسی کے معاملے میں خود کو مت ڈالنا ورنہ وہ چھوٹ جائے گا تم کی جان پھنس جائے گی ۔ اسی طرح کی باتیں ہوتی رہیں اچانک آپی نے سائیڈ تبدیل کی تو اس کی قیمض مموں پر سے ٹائٹ ہوگئی اورمیری نظر سیدھی وہاں گئی مجھے ایک جھٹکا لگا آپی اپنی باتوں میں لگی ہوئی تھیں اور بولتی جارہی تھی حالانکہ آپی نے سارے کپڑے پہنے تھے لیکن بہت ٹائٹ تھے اور آپی کے مموں کے ابھار صاف واضح نظر ہورہے تھے ۔مجھے اچانک نورین کا ننگا جسم کا منظر یاد آگیا اور میں بے چین ہوگیا آپی نے دیکھا کہ میرا ان کی باتوں پر دھیان نہ ہے تو انہوں نے میری نظر کا پیچھا کیا اور اپنے سینے پر پائی تو فوراً ڈوپٹہ لے لیا اور میں بھی نورین کے خیالوں سےباہر آگیا اور پھر سمجھا کہ میں نے کتنی غلط حرکت کی ہے پہلے بھی رو ز ہم باتیں کرتیں تھے لیکن میں نےایسی کوئی حرکت نہیں کی تھی لیکن آج ایک ہی دن میں مجھے دو بار شرمندہ ہونا پڑا میں فوراً اپنا منہ دوسری طرف کرلیا اور خود کو کوستا رہا کہ مجھے کیا ہوتا جارہا ہے صبح نورین اور پائل کے سامنے شرمندہ ہوا اور اب آپی نے اپنے ممے دیکھتے پکڑ لیا آپی نے مجھے کچھ کہا تو نہیں لیکن میں اپنی ہی نظر میں شرمندہ ہوگیا ۔ کافی دیر خود کوستا رہا پھر میں سو گیا صبح وہی روٹین تھی۔۔۔۔ کے بعد کھیتوں میں گیا پھر ورزش کی اور گھر لوٹ آیا آج مجھے بھی حویلی جانا تھا اس بات کی مجھے بھی اندورنی خوشی تھی لیکن میں ظاہر نہیں کررہا تھا ۔ خیر گھر گیا آج ابو بھی گھر تھے اور سب نے مل کر ناشتہ کیااور پھر میں امی اور اپی کے ساتھ ہی حویلی کی طرف چل پڑا امی اور آپی تو حویلی کے اندر چلی گئیں لیکن غفورا باہر میرا انتظار کررہا تھا جس نے کہا بھئی بڑی قسمت ہے تیری سردار نے مجھے خصوصی طور پر تمہارے لیے کہا ہے پھر وہ مجھے سب سمجھانے لگا کہ حویلی کے آداب کیا ہیں کیسے اندر جانا کسی سے بات کیسے کرنی ہے اور پھر مجھے سیکھانا اور سمجھانا شروع کردیا شروع کردیا ۔قدرت نے مجھے جو ذہانت دی تھی وہ میرے لیے خاص تحفہ تھی اس لیے جلد ہی میں سب کچھ سیکھ گیا جس میں گھوڑ سواری ،پسٹل چلانا اور نشانہ بازی ، گاڑی چلانا اور میں ان چیزوں میں ماہر ہوتاجارہا تھا اور کم سے کم وقت میں کسی بھی چیز کو نشانہ بنا سکتا تھا ۔ یہ صرف اس لیے سیکھایا جارہا تھا کہ مجھے حویلی کی طرف سے جو بھی حکم ملے وہ پورا ہوسکے ۔ لیکن میں نے لگن سے سب سیکھا اس دوران 2 ماہ کا وقت گزر گیا اس دوران بس صبح سے شام تک میں اپنی ٹریننگ مکمل کرتا رہا دوماہ میں یوں سمجھ لیں میں سونے کے لیے گھر جاتا میرا پائل سے یا نورین سے ابھی تک اکیلے سامنا نہیں ہوا تھا کیوں کہ میں صبح گھر سے نکلتا اور رات کو گھر جاتا اور اتنا تھک جاتا کہ جاتے ہی سو جاتا اس دوران سردار جہانگیر خان بھی میرے پاس اکثر آتا اور میری ٹریینگ کے بارے میں پوچھتا یہ ٹریننک صرف خاص لوگوں کو دی جاتی تھی لیکن سردار کی وجہ سے مجھے ملی تھی اب میں ہر کام میں ماہر ہوگیا تھا جس میں میری ذہانت نے پورا ساتھ دیاتھا ۔ اب میری ٹریننگ مکمل ہوگئی تھی اور میں حویلی کے لیے تیار تھا مجھے نہیں پتہ تھا کہ سردار مجھے یہ سب کیوں سیکھانے کے لیےکہا جو کہ مجھے بعد میں آگے جا کر پتہ چلا کہ میرے ساتھ ایسا کیوں کیا گیا ہے لیکن ابھی تک سردار نے مجھے حویلی کے لیے نہیں بلایا تھا ادھر میرا رزلٹ بھی آگیا تھا اور میں نے اچھے نمبروں سےایف اے کرلیا تھا غفور ا مجھ سے بہت خوش تھابولا کے کسی نے اتنی جلدی سب نہیں سیکھا ۔ خیر اب میں غفورے کے گھر بھی آتا جاتا تھا غفورے کی بیوی فوت ہوچکی تھی ایک بیٹا اور بہو اور ایک بیٹی ہی غفورے کے گھر رہتی تھی بیٹا بھی غفورے کی طرح حویلی میں کام کرتا تھا اور سرداروں کے گارڈز کا انچارج تھا بہو کانام گلناز تھا بیٹی کا نام صائمہ تھا ۔ بہوکی عمر تقریبا پچیس سال تھی اور بیٹی کی عمر بائیس سال تھی ان دو ماہ میں گلناز اور صائمہ سے اچھی جان پہچان ہوگئی تھی اور ان سے اب میں بلا جھجھک بات کرلیتا تھا ۔ صائمہ کی شادی کو تین سال ہوچکے تھے لیکن ابھی تک اس کے گھر کوئی اولاد نہیں تھی ۔ وہ دونوں سارا دن گھر میں اکیلی ہوتی تھیں دونوں باپ بیٹا سارا دن حویلی میں ہوتے تھے ابھی تک سردار کی طرف سے مجھے حویلی کی اجازت نہیں ملی تھی لیکن غفورے کے گھر میں اکثر جا سکتا تھا اس کا کوئی بھی کام ہوتا اب وہ مجھے ہی کہتا تھا ایک دن میں غورے کے کام سے کھیتوں کی طرف جارہا تھا کہ سامنے سے مجھے نورین آتی دیکھائی دی ۔ مجھے دیکھ کر بولی اب توتم عید کا چاند ہوگئے ہو کبھی ہمیں جلوہ دیکھاواور میری شلوار پر لن والی جگہ دیکھنے لگی ۔ بولی اس دن کے بعد آج ملے ہو تم نے تو جاندار سانپ پال رکھا ہے کس کی یاد میں کھڑا کیا ہوا تھا بولی لگتا ہے مجھے یاد کررہے تھے اب بھی کرتے ہو میں نے تو تم کو اس دن کھلی آفر دی تھی ۔لیکن تم ہی شرما گئے تھے یہ ساری باتیں وہ چٹر پٹر بولے جارہی تھی میں بولا شرم نہیں آتی اپنا تو منہ کالا کیا ساتھ مجھے بھی سردار کے پاس پھنسا دیا بولی تم نے ہی ہمیں پکڑا تھا بھول گئے باقی سردار نے پوچھا تو میں نے بتا دیا کہ تم بہت شریف ہو اور بڑے پارسا بنے ہوئے ہو کسی کو منہ نہیں لگاتے ۔ میری نظر بار بار نورین کے مموں پر جارہی تھی جسے اس نے نوٹ کرلیا بولی دوبارہ دیکھنے ہیں میں جلدی سے بولا نہیں بولے کب تک بچو گے ۔ بولی مجھے تو دیکھایا ساتھ پائل کو بھی دیکھا دیا میں نے بولا بس جان بوجھ کر نہیں دیکھا مجھے کسی چیز نے کاٹا تھا بولی اب اتنے بھی نہ بنو کھڑا کر کے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا میں بولا جاو مجھے بھی کام سے جانا ہے بولی کب تک بھاگو گے ۔ پتہ نہیں کیوں مجھے اب اس لڑکی سے ڈر لگنے لگ گیا تھا لیکن اب میں ہر ڈر چھوڑ دیا تھا اور سوچا جو ہوگا دیکھا جائے گا ۔ غفورے کا کام کر کے واپس جاہی رہا تھا کہ رستے میں صائمہ دکھی جو کہ گاوں کے ایک لڑکے کے ساتھ تیزی سے کھیتوں کی طر ف جارہی تھی مجھے کچھ حیرانی ہوئی کہ اس وقت یہ کہاں جارہی ہے اس نے مجھے نہ دیکھا تھا میں بھی ان کے پیچھے چل دیا اور وہ بنے پر چلتے ہوئے کافی آگے چلے گئے جہاں کوئی بھی نہیں تھا مجھے کافی حیرانی ہوئی اور وہ کماد کی فصل کے ساتھ بنے ہوئے باغ میں چلے گئے باغ ابھی چھوٹا اور گھاس لگی ہوئی تھی اور کافی گھنہ تھا میں بھی دبے پاوں ان کے پیچھے تھا جہاں پر وہ ایک دوسرے کو گلے لگا کر چوما چاٹی کررہے تھے صائمہ کی قمیض اتری ہوئی تھی اور لڑکا جس کا نام شہباز تھا صائمہ کے ممے چوس رہا تھا یہ دیکھ کر میرا برا حال ہونا شروع ہوگیا وہ سین یاد آیا جو اس دن نورین کو ننگا دیکھا تھا میں چھپ کر دیکھنا شروع کردیا اور بار بار شہباز صائمہ کی شلوار اتارنے کی کوشش کرتا لیکن صائمہ اس کو روک رہی تھی کہ لیکن شہباز ہار ماننے والوں سے نہیں تھا اس نے بھی صائمہ کی شلوار اتار دی صائمہ اب صرف برا میں تھی جس سے اس کے گورے ممے باہرآنے کو بےتاب تھے آج تو میرا خون بھی جوش مار رہا تھا اور میرا لن اس وقت راڈ کی طرح سخت ہوگیا تھا شہباز نے صائمہ کی برا بھی اتار دی اور اس کو زمین پر چادر پر لٹا دیا اور اپنا لن اس کی پھدی پر رگڑ رہا تھا پھر شہبا ز نے صائمہ کے منہ پر ہاتھ رکھا اور ایک ہی جھٹکے میں اپنا لن صائمہ کی پھدی میں اتار دیا میرا بھی اب صبر ختم ہورہاتھا میں اب آگے بڑھا اور اچانک سے للکارا کیا ہورہا ہے میری آواز سن کر دونوں جھٹکے سے الگ ہوئے اور صائمہ مجھے دیکھ کر ڈر گئی بولی افی تم یہاں میں بولا تم یہاں منہ کالا کررہی ہو تم کو شرم نہیں آتی میں ابھی تم کے ابو کو جا کر بتاتا ہوں وہ فورامیرے پاوں پڑگئی اور معافی مانگنے لگی اور بولی مجھے معاف کردو میں بولا تم یہ گندہ کام کب سے کررہی ہو بولی مجھے معاف کردو شہباز کو میں نے پکڑ لیا تھا وہ سنگل پسلی لڑکادیا تھا میرے ایک ہاتھ کی مار تھا میں بولا تم دونوں کو غفورے کے پاس لے کر جاوںگا جس پر صائمہ زور زور سے رونے لگی بولی ابا مجھے جان سے مار دے گا معاف کردو میں بولا تو ایسے کام کیوں کرتی ہو چپ رہی اور کچھ نہ بولی اس وقت ننگی تھی بولی جو تم کہو گے میں کروں گی مجھے نورین کی بات یاد آگئی اور میرے دل میں مسکان جاگ گئی ۔ میں بولا تم کو چھوڑ کر میرا کیا فائدہ بولی تم جو بولوگے میں کروں گی شہباز بھی کب سے معافی مانگ رہاتھا میں نے اس کو بھگا دیا کہ اب صائمہ کے آس پاس بھی نظر آیا تو جان سے ماردوں گا جس پر وہ بھاگ گیا اور صائمہ اپنے کپڑوں کی طرف بڑھی تو میں نے پکڑ لیا کہ تم کہاں جارہی ہو بولی دیکھو مجھے معاف کردو مجھے بھی جانے دو لیکن میں نے بولا جا و میں تم کے ابو کو بتا دوں گا بولی کیوں مجھے مروانے پر تلے ہوئے ہو میں نے کہا جو اتنی دور اس لڑکے کے ساتھ آئی تھی تب کوئی مرنے کی فکر نہ تھی بولی وہ چپ ہوگئی بولی میں اس سے پیار کرتی تھی اس لیے اس کے ساتھ آئی تھی میں بولا کہاں ہے تم کا پیا ر جو تم کو میرے پاس چھوڑ کر بھاگ گیا بولی مجھے پتہ لگ گیا ہے وہ دھوکہ باز نکلا ہے میں نے پوچھا کب سے اس چدوا رہی ہو جب میں نے چدائی کا لفظ بولا تو اس نے میری طرف دیکھا اور نظریں جھکا لیں میں بولا چل اب ڈرامہ بندکر بول کب سے چدوا رہی ہے پہلی دفعہ نہیں لگتا بولی آج تیسری بار آئی ہوں میں نے اس کے ممے پر ہاتھ رکھااور دبانے لگا اس نےبولا چھوڑوںمجھے میں بولا ٹھیک ہے میں جاتا ہوںاور تم کے ابو کو بتاتا ہوں بولی رکو ٹھیک ہے کر لو جو کرنا ہے مطلب مجھے اجازت مل گئی مجھے یقین نہیں تھا کہ اتنی آسانی سے مان جائے گی اس کا قد پانچ فٹ تھا میں نے اس کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا میرا بھی پہلی بار تھا دو بار صرف دیکھا ہی تھا لیکن مجھےنورین کا کس کرنا یا د آیا میں نے جھک کر اس کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیے اسنے منہ ادھر ادھر کرنا شروع کردیا میں بولا میں جاوں تو بولی اچھا ٹھیک ہے اور پھر خود ہی میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور چوسنے شروع کردیے ۔ میں نے ایک ہاتھ اس کے گول مٹول سفید مموںپر رکھا جس پر پنک نپلز تھے چھوٹے اورپیارے پیارے ان کو مسلنا شروع کردیا اور وہ زور سے کسنگ کرنے لگ پڑی ۔میرا تو مزے سے بر ا حال تھا ایسا مزا کبھی سوچا بھی نہ تھا پھر وہ خود ہی لیٹ گئی بولی ٹائم کم ہے جلدی کرو میں گھرجانا ہے اور جگہ بھی سیف نہیں ہے تم آسکتے ہو تو کوئی اور بھی آسکتا ہے ۔ اس کی پھدی جو کہ بالوں سے پاک تھی سفید پانی رس رہا تھا میں نے اس پر ہاتھ لگایا تو اس نے سسکاری لی لائف میں پہلی بار کسی کی پھدی پر ہاتھ لگا رہا تھا ایک عجیب سے نشا اور سرشاری تھی لیکن واقع اس اوپن جگہ پر خطرہ تھا اوپر سے ابھی تھا بھی اناڑی ہی لیکن اتنا تو پتہ ہی تھا لیکن لڑکی کی پھدی میں لن ڈالتے ہیں ۔ میں نے شلوار اتاری اور اپنے لن کو اس کی پھدی پر رگڑا اور آگے ڈالنے کی کوشش کرنے لگا لیکن مجھ سے ڈالا نہیں جارہا تھا کبھی اوپر نکل جاتا اور کبھی نیچے مجھےغصہ چڑھ رہا تھا میں نے دونوں ہاتھوں سے پھدی کا منہ کھول کر زور سے گھسا مارا تو میرا ٓدھا لن اس کی پھدی چیرتا ہوا اندر گھس گیا اور اس کے منہ سے زور سے چیخ نکلی آئی میں مر گئی میں گبھرا گیا کیوں کہ اس نے چیخ ہی اتنی زور سے ماری تھی ۔بولی مار دیا کیا ڈالا ہے میں نے بولا لن ہی ڈالا ہے بولی ایسے ڈالتا ہے ہی کوئی میں بولا میرا پہلی بار تھا مجھے نہیں پتہ تھا بولی سچ میں تم کا پہلی بار ہے ۔ میں بولا ہاں میرا پہلی بار ہے بولی آرام سے ڈالتے ہیں ۔ کچھ دیر بعد بولی اب آرام سے گھسے مارو میں نے آہستہ آہستہ آگے پیچھے ہونا شروع کردیا شروع میں سپیڈ سلو رکھی لیکن میرا دل کررہا تھا کہ پورا لن ڈالوں تو میں نے جوشں آکر زور سے گھسا مارا تو میرا پورا لن صائمہ کی پھدی چیرتا ہوا اندر گھس گیا ور کسی چیز سے ٹکرایا اس کی اور میری ایک ساتھ چیخ نکلی میں نے فوراً ہلاتھ اس کےمنہ پر رکھا اب میں فل جوش پر تھا میں رکا نہیں اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر زور زور سے گھسے مارتا رہا پہلے تو وہ اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرتی رہی لیکن پھر اس کا بھی جوش بڑھا گیا اور آگے پیچھے ہونے لگ گئی لیکن کچھ منٹ بعد ہی میرے لن پر کچھ گرم گرم محسوس ہوا اور پھدی میں لن جانے کی روانی آگئی وہ پھر مجھ سے خود کو چھڑانے لگی لیکن مجھے تو ایک جنون سوار ہوچکا تھا مجھے ایسا مزاکبھی نہیں آیا تھا میں نے گھسے جاری رکھے اب وہ گھوں گھوں کررہی تھی لیکن میں رک نہیں رہا تھا پھر مجھے ایسا لگا کہ میری جان میرے لن کی جانب آرہی تھی اب کی بار پھر وہ فارغ ہورہی تھی مطلب لن پر گیلا پن محسوس ہورہا تھا پھر میرے لن کی جان اس کے اندر نکلنا شروع ہوگئی میں نے اتنے زور سے گھسے مارے کےایسا دل کررہا تھا کہ اس کے اندر ہی لن کے ساتھ خود بھی گس جاوں پھر میں پیسنے سے شرابور اس کے اوپر ہی گر گیاکچھ پلوں بعد مجھے ہوش آیا اٹھا تو دیکھا صائمہ بے ہوش ہوچکی تھی اور اس کی پھدی سے خون نکل رہا اورمیرےلن پر بھی خون نکل رہا تھا میری تو ہوا ٹائٹ ہوگئی کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اچانک

                    نوٹ ۔۔۔
                    ہمارے فورم پر کوئی انڈیا سے ممبر ہے ؟
                    اگر ہے تو ہمارے ایجنٹ کو ہیلپ چاہیے ۔
                    اگر کوئی بھائی انڈیا سے ہے تو پلیز فورم پر دیے گئے واٹس ایپ
                    نمبر پر ہمارے ایجنٹ سے رابطہ کر لے ۔
                    امید ہے کوئی انڈين بھائی ضرور رابطہ کرے گا وہا ۔
                    Last edited by Man moji; 02-01-2023, 09:50 AM.
                    جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
                    ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

                    Comment


                    • #80
                      Zabar10

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X