Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

فقیر سے بادشاہ تک کا سفر

Collapse
This topic is closed.
X
This is a sticky topic.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • لاجواب تحریر ہے پڑھ کر مزہ آگیا یار

    Comment


    • Lajwab story hai bhai g

      Comment


      • یہ اس فورم کی بہترین کہانیوں میں سے ایک ہے ۔ایسی جگہ پر لاکر چھوڑا ہے بندہ بے چین ہی رہے اور آگے پڑھنے کے تجسس میں رہے۔

        Comment


        • 7










          میرےلن کو آگے پیچھے کررہی تھی پھر اس نے میر ے لن پر زبان پھیری اور چاٹنے لگی اورمیرے لن کو منہ میں بھرنے کی کوشش کی کہ اچانک کمرے کی لائٹ جل گئی اور میری آنکھیں دیکھنے کے قابل ہوگئی یہ کیا میرے اوپر ڈاکٹر سحر جھکی ہوئی تھی اور میرے لن کو ایک ہاتھ سے پکڑ کر منہ میں بھرنے کی کوشش کررہی تھی تو لائٹ کس نے جلائی میں نے نظریں گھما کر دیکھا تو زروا دروازے کے پاس کھڑی تھی ۔ پھر بولی واہ یہاں تو مزے ہورہےہیں ۔ سحر نے پہلے ہی زروا کو دیکھ لیا تھا لیکن وہ رکی نہیں بلکہ اپنے کام میں لگی رہی ۔ پھر بولی ہاں یار اس نے تو شاہد آج چلے جانا ہے لیکن مجھے شاہد ایساجاندار پینس شاہد دوبارہ دیکھنے کو نہ ملے ۔ جب سے دیکھا تھا سکون نہیں آرہا تھا اور میں اپنی فیس اس سے وصول کرنے چلی آئی ۔ زروا بھی اب آگے آچکی تھی بولی ہتھیار تو اس کا واقع بہت جاندار اور شاندار ہے ایسے تو ہمارے وہاں بھی شاہد نہ ہوں ۔ سحر بولی تم بھی چیک کرو گی ۔ بولی نہیں تم کرو میں تو بس یہ دیکھنے آئی تھی کہ ٹھیک ہے یا نہیں ۔ لیکن اس کی نظریں تھیں کہ میرے لن پر تھیں ۔ سحر کے ہاتھ ابھی ویسے ہی حرکت کررہے تھے میرے لن پر ۔ سحر بولی شرماو مت میں نے تمہاری آنکھوں میں دیکھ لیا ہے تم کو بھی اس نے اپنےسحر میں جھکڑا ہوا ہے ۔ زروا بھی آگے آگئی ۔ سحر بولی اس کو چیک کرو یہ بالکل اصلی ہے ۔ زروا نے بھی ہاتھ آگے بڑھایا اور میرے لن کو پکڑ لیا ۔ واہ ایسے نرم ہاتھ تو ڈاکٹر سحر کے بھی نہیں تھی ۔ میں چپ کر کے لیٹا ہوا تھا اور وہ دونوں اپنے کام میں ایسے لگی ہوئیں تھیں جیسے میں یہاں ہوں ہی نہیں ۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے سحر نیچے جھکی اور میرے جھٹکے کھاتے لن کو منہ میں بھر لیا لیکن بہت کوشش کے بعد بھی سحر آدھے سے زیادہ نہیں لے جاسکی اور لن کو باہر نکال کر کھانسی کرنے لگی اور بولی بہت موٹا ہے پورا نہیں جائے گا زروا بولی ہاہاہاہا تم کا چھوٹا سا منہ اس کا کیا بگاڑ پائے گا ۔ تو سحر بولی تم ڈال کے دیکھ لو اگر اتناہی ہے تو جس پر زروا آگے بڑی پہلے تو میرے لن پر ہاتھ آگے پیچھے کرتی رہی پھر اس نے اپنا پورا منہ کھولا اور میرے لن کو منہ میں ڈال لیا اور آہستہ آہستہ منہ نیچے لے جانے لگی واہ میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کبھی ایسا ہوگا میرا لن ایک سردارنی کے منہ میں یہ سوچ کر ہی میرا تو مزے سے برا حال تھا مجھے درد بھی تھا لیکن اس مزے کے آگے درد کیا چیز ہے ۔ زروا نے پوری کوشش کی کہ میرا لن منہ میں ڈال لے اس نے اپنے گلے کو بالکل سیدھا کیااور زور لگایا لیکن اس کا گلہ چھوٹا تھا میرا لن کا ٹوپا اس کے حلق اور گلے میں پھنس گیا مجھے ایسا محسوس ہورہا تھاکہ زروا میرا لن نگل لے گی لیکن اس سے آگے نہیں لے جا پائی لیکن زروا پہلی لڑکی تھی جس نے میرے لن کے تین حصے تک اپنے منہ میں لے لیا تھا زروا نے ہار نہیں مانی اور ایک بار پھر باہر نکال کر پوری کوشش کی لیکن اس سے آگے نہیں لے جاسکی ۔ پھر لن باہر نکال کر بولی واقع ہی بہت موٹا ہے میرے چھوٹے گلے سے نہیں گزرے گا ۔ پھرتو دونوں شروع ہوگئی کبھی ایک میرے لن کو چاٹا مارتی کبھی دوسری ۔ میں نے سحر کو پکڑ پر اپنے اوپر جھکا لیا اور اس کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں بھر لیےکیا نرم اور کمال کے ہونٹ تھے سحر کے جیسے کسی نےشہد میں بھگو کر رکھے ہوں زروا میرے لن کو چوس رہی تھی اور اپنی ہر حسرت پوری کرنے کی کوشش کررہی تھی ۔ پھر میں نے سحر کی شرٹ اتار دی اس نےنیچے بلیک برا پہنی تھی اور اس کے چھتیس سائز کے ممے باہر آنے کو بے تاب تھے جن کو میں برا کے اوپر سے ہی مسلنے لگا اور پھر سحر نے ہاتھ پیچھے لے جا کر برا کے ہک کھول دیے ۔ جس سے سحر کے سفید نرم روئی کے گالوں کی طرح ممے اچھل کر اپنی آزادی پر ناچنے لگے ۔ زروا بھی اپنا پورا جوش لگا رہی تھی کہ کسی طرح میرے لن کو پورا منہ میں لے لے جب میرا لن اس کے گلے میں پھنس جاتا تو مجھے مزے کا ایک جھٹکا لگتا۔ میں سحرکے مموں کو بری طرح سے چوس اور کاٹ رہاتھا جس سےسحر کی سسکیاں پورے روم میں گونج رہی تھیں ۔ ہم تینوںاپنی مستی میں ایسے کھوئے ہوئے تھے کہ جیسے کسی ایسی جگہ پر ہیں جہاں پر کوئی آنہیں سکتا ۔ پھر سحر نے اپنا پتلون نماشلوار یا ٹراوزر بھی اتار دیا اور اس کی پانی بہاتی پھدی میرے سامنے آگئی سحر واقع ہی سحر تھی جو کہ ایک جادوئی جسم کی مالک تھی ۔ بالکل سیڈول جسم تھا نہ کم نہ زیادہ ۔ میں نے سحرکی ٹانگوں کوپکڑا اوراپنےمنہ پر بیٹھنے کے کہا جس نے اپنی پھدی کو میرے منہ پر لگایا واہ کیا خوشبو تھی پھدی کی بھینی سی ۔ ایسا لگتا تھا کہ گلاب کے پھولوں میں ڈبو کررکھتی ہو اپنی پھدی کو بالکل صاف اور پنکش تھی اور پھدی کی لکیر ایسے ملی ہوئی تھی کہ جیسے جنگ کررہی ہوں کہ ہم کبھی الگ نہ ہوں گے ۔ جلد ہی سحر نے اپنا پانی مجھے پلا دیا ۔ اور اٹھ گئی ۔ پھر اس نے زروا کو روکا کہ بس کرو بہت چمکا لیا اس کا کچھ نہیں بگڑے گا ۔ سحر جو کہ میرے بیڈ یا سٹریچر پر تھی اور زروا نیچے کھڑی ہوئی تھی ۔ سحر زروا سے بولی وہ سامنے سے لوشن لے آو ۔ زروا نے لوشن لا کر سحر کو دیا جس کو سحر نے کھول کر میرے لن پر لگا کر ملنا شروع کردیا اور کافی سار ا لگا دیا ۔ زروا کھڑی ہو کر یہ سب دیکھ رہی تھی لیکن ایک بات تھی کہ زروا نے ابھی تک نہ تو کپڑے اتارے تھے ااور نہ ہی لن چسوائی کے علاوہ کچھ اور کیا تھا ایک کس تک بھی نہ کیتھی میں زروا کو ایک کس کرناچاہتا تھا لیکن ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ ایک کس مانگ سکوں ۔ خیر سحر نے میرےپورے لن کو اچھی طرح لوشن سے نہلا دیا اور اپنی پھدی پر بھی لوشن لگایا ۔ پھر دونوں ٹانگیں پھیلا کر میرےاوپر کھڑی ہوئی اور میرے لن کو پکڑکر اپنی پھدی کا راستہ دکھایا ۔ پہلے تو لن اپنی پھدی پر بھیرا جس کی وجہ سے مجھے چس چڑھ رہی تھی پھر آہستہ آہستہ میرے لن کو ٹوپا پھدی میں اتار لیا زروا ایسے ساکت تھی جیسے حرکت کرے گی تو گرجائے گی ۔ سامنےلائیو چدائی چل رہی تھی اس کا حال بھی برا تھا ۔ لیکن وہ واقعی مضبوط تھی جس نے ابھی تک خود کو قابو میں رکھا ہوا تھا خیر کب تک رکھے گی دیکھ لوں گا ۔ سحر جو کہ آہستہ آہستہ کر کے میرا آدھالن لے چکی تھی اور سی سی کررہی تھی ۔ اس کی پھدی کافی ٹائٹ تھی لیکن کنواری نہیں لگ رہی تھی کیونکہ میں اب تک کئیوں کی پھدی مار چکا تھا اتنا تو پتہ چل جاتا ہے کہ کنواری نہیں ہے کیونکہ کہ ابھی تک کوئی بھی کنواری پھدی نہیں ملی ۔ سحر جہاں تک میرا لن لیا تھا وہیں رک گئی اور آہستہ آہستہ اوپر ہوئی پھر نیچے اور اتنے ہی لن سے چدوانےلگی زروا بولی پورا کیوں نہیں لیتی سحر بولی مرنا ہے کیا مجھے جو اس کا پورا چڑھا لوں اور اتنے لن کے ساتھ اوپر نیچے ہورہی تھی ۔ زروا نے مجھے اشارہ کیا کہ پورا ڈال دو پکڑ کر ۔ پہلی بار زروا نے کوئی حکم دیا تھا اور میں تو حکم کاغلام تھا ۔ مجھے بھی پورا مزا نہیں آرہا تھا ۔ تو میں نے پہلے تو سحر کو پکڑ لیا اور اوپر نیچے کرنے لگا پھرایک بار جب سحر نیچے آئی میں نے اس کو پکڑ کر نیچے کیااور نیچے سے لن کو جھٹکا مارا جس سے میرا پورا لن سحر کی پھدی چیرتا ہو اندر گھس گیا اور اس نے ایک زور دار چیخ ماری اور میرے اوپر گر گئی اور سسکیاںلینے لگی میں نے سحرکے منہ کو پکڑا جس میں آنسو تھے میں نے سحر کے آنسو پی لیے ۔ اور اس کے ہونٹوں کو چوسنےلگ پڑا نیچےمیرا لن اس کی پھدی میں ایسے ہی گھسا ہوا تھا اور ہونٹوں کو چوسنے کے ساتھ اپنے ہاتھ اس کے نرم مموں پر رکھے اور مسلنےلگ پڑا ۔ کچھ پلوں بعد سحر نیچے سے ہلنے لگ پڑی میں نےسحر کو باہوںمیں بھرلیااور نیچےسےآہستہ آہستہ دھکے لگانے شروع کردیے مجھے بہت درد ہورہی تھی اس وقت تو جسم گرم تھا لیکن اب زخم ٹھنڈا ہوچکا تھا اور سن کا بھی اثر کم ہورہاتھا لیکن سحر جیسی لڑکی کو کیسےچھوڑ سکتا تھا۔ سحر کے منہ کو آزاد کیا تو سحر بولی بہت ظالم ہو آج تم نے مجھے مار ہی دیا تھا میں بولا کیا کروں تمہاری ٹائٹ پھدی مزا ہی بہت دے رہی تھی کہ جوش میں ہوش کھو بیٹھا ۔ زروا جو کافی دیرسے کھڑی تھی وہ آگے آئی اور سحر جو کہ میرے اوپر پورے لن کے ساتھ بیٹھ چکی تھی میرا پورا لن سحر کی پھدی میں غائب تھا کو پکڑ کا سیدھا بیٹھا دیا اور اس کو کسنگ کرنے لگی واہ یہ نظارہ تو قابل دید تھا نیچے میرا لن سحر کی ٹائٹ پھدی میں اور اوپر سے لائیو کسنگ سین ۔ میں تو ہواوں میں اڑ رہاتھا اور میں نے اسی جوش میں سحر کو نیچے سے جھٹکے دینےشرو ع کردیے لیکن زروا اور سحر نے کسنگ نہ توڑی ۔ خیر میں نے اب نیچے سے دھکے کافی تیز کردیے مجھے بہت درد ہورہا تھا لیکن اس درد میں بہت مزا مل رہاتھا لیکن جلد ہی سحر نے میرے لن پر گرم گرم پانی گرا دیا اور ہانپتی ہوئی میرےاوپر گر پڑی اور لمبے لمبے سانس لینے لگی لیکن میں نے نیچے سے دھکے جاری رکھے تو سحر سسکنے لگی اور سائیڈ پر ہونے کی کوشش کرنے لگی لیکن میں نے اس کو اپنے بازوںکے حسار میں جکڑ لیا تھا اور نیچے سے دھکے لگا رہا تھا جس پر سحر کی سسکیاں بہت اونچی ہوگئی تھیں ۔ پھر میں جو کب سے لیٹا تھا اب سحر کو چھوڑ کر لیٹا دیا ور خود کھڑا ہوا تو درد کی ایک لہر میرے پورے جسم میں دوڑ گئی جس نے مجھے اور جوش دلا دیا ۔ میں نے سحر کو پکڑ کر الٹا کیا اور اس کو پکڑ کر گھوڑی بنا لیا ۔ اپنے لن پر تھوک پھینکا اور اپنا لن ایک ہی جھٹکے میں سحر کی پھدی میں اتار دیا جس نے ایک زور دار چیخ ماری ۔ میں نے ہمت کر کے زروا جو کہ پاس ہی کھڑی تھی پکڑ لیا اور اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹو ںکے ملا لیا ۔ واہ ایسا مزا تو آج تک نہیں آیا ایسے رسیلے ہونٹ کے دل کرے کھاجائے زروا نے بھی پورا جوش دکھایا اور میرے ہونٹوں پر ٹوٹ پڑی جیسے کاٹ کر لے جائے گی ۔ ادھر میں آہستہ آہستہ سحر کی پھدی میں دھکے لگا رہا تھا اور ادھر میں زروا کے ہونٹوں کا سارا رس چوس لینا چاہتا تھا پھر سحر ایک بار فارغ ہوئی اور میرا لن پوری روانی سے اندر بار جانے لگا اور پچ پچ کی آواز آنے لگی اب میں اتنا جوش میں آچکا تھا کہ میں نے زروا کو چھوڑا تو اس نے مدہوش آنکھوں کے ساتھ مجھے دیکھا جیسے پوچھ رہی ہو کہ کیوں چھوڑا مجھے ۔ لیکن اب میں نے سحر کو پکڑا اور پورے جوش کے ساتھ دھکے لگانے لگا جس پر سحر چیخنا شروع کردیا تھا اور زروا کو بولی اس کو روکو میں مزید اور نہیں برداشت کرسکتی مجھے شاہد سن والا جو ٹیکا لگا تھا اس سے مجھے اپنے لن پر اتنا محسوس نہیں ہورہاتھا بس سحر کی گرم گرم پھدی اور گرم لاوا محسوس ہوجاتا ۔ لیکن زروا بولی کہ افی اور زور سے کرو مجھے لگا کہ زروا کو لوگوں کو درد دے کر مزا آتا ہے میں یہی سنا تھا کہ یہ سزا دینے میں ماہر ہے سب اس سے ڈرتے ہیں ۔ پھر کیا تھا میں نے پسٹن چلانا شروع کردیا اور سحر بھاگنے کی اور نکلنےکی کوشش کرتی لیکن میرے آگے بے سود ۔میں کھڑا ہو کر اتنی سپیڈ سے پسٹن چلا رہاتھا کہ میرا لن نظر نہیں آرہا تھا کہ کب اند ر گیا کب باہرسحر نیچے پڑی سسک رہی تھی اور اب توروکنے کی کوشش بھی نہیں کررہی تھی پھر مجھے بھی اپنے لن میں جان آنا محسوس ہوئی اور مجھے لگا کہ میں بھی فارغ ہونے والا ہوں میں نے پھر زروا کو پکڑ ااور اس کو کسنگ کرنا شروع کردیااور سحر ایک ہاتھ سےسحر کو بھی پکڑا اور دھکے دیتا رہا پھر میں فارغ ہونے لگ گیا نہ ہی سحر کو چھوڑا اور نہ ہی زروا کو ۔ سحر پھر جھٹکے کھانے لگی اور اپنا لاوا اگل دیا اور ساتھ ہی میرے لن نے بھی بندوق کھالی کرنا سٹارٹ کردی اور ادھر زورا کو بھی جھٹکے لگ رہے تھے شاہد وہ بھی فارغ ہوچکی تھی ۔ جب میرے لن نے آخری قطرہ بھی نکال دیا تو میں سحر کے اوپر ہی گر پڑا اور زور زور سے سانس لینے لگا ۔ میں سحرسے اٹھا تو وہ الٹی لیٹی ہوئی تھی اور اس کی پھدی سے میرا مال اور ہلکا خون لالی کی شکل میں بہہ رہا تھا ۔ ادھر نظر گھمائی تو دروازے پر یاسمین کھڑی تھی ۔ جسے دیکھ کر میرے ٹٹے شاٹ ہوگئے ۔ کیوں کہ سحر کی تو خیرتھی لیکن زروا ۔ میں نے نظر گھمائی تو یہاںپر زروا نہیں تھی ۔ ہم دونوںہی ننگے بیڈ پر پڑے ہوئے تھے ۔ یاسمین آگے آئی تو سحر کو بولی تو تم نے اپنے اوپر چڑھا ہی لیا ۔ پھر بولی تم سے صبر نہیں ہوا اس کی ٹانگ کی حالت دیکھو سحر پلٹی تو میرے ٹانگ سے پھر سے خون بہہ رہاتھا میں جوش میں ہوش کھو بیٹھاتھااور درد ہونے کے باوجود دھیان نہیں دیا ۔ سحراٹھنے لگی تو لڑکھڑا کر گر پڑی یاسمین بولی لگتا ہے تیر ی ساری گرمی نکال دی افی نے ۔ پھر سحر کسی طرح اٹھی اور واش روم گئی ۔ اور یاسمین نے مجھے بولا کہ تم کو تو بعد میں دیکھوں گی میں فوراً بولا سردارنی جی میری کوئی غلطی نہیں ہے میں تو سویا ہوا تھا اور یہ میرے روم میں آکر سوتے ہوئے کے ساتھ شروع ہوگئی آخرمیں بھی مرد تھا بولی وہ تو دیکھ لیا ہے بولی اچھا اس کا فیصلہ بعد میں کریں گے ۔ سحر لنگڑاتی ہوئی آئی اور ساتھ پانی بھی لائی پھر مجھے لٹا دیا اور مجھے صاف کیا پٹی کھولی تو دو ٹانگین ٹوٹ چکے تھے جس پر یاسمین بولی دیکھ لو اپنے مزے کے لیے کیا کیا جس پر سحر بیچاری شرمندگی میں کچھ نہیں بول پائی پھر اس نے دوبارہ مجھے اچھے سے صاف کیا اور زخم کو صاف کر کے مجھے ٹانگین لگانے لگی تو یاسمین نے اس بار میری ٹانگ پکڑ لی اور میرے لن نے پھر سے انگڑائی لی تو سحر بولی کیا ہے ابھی میری بینڈ بجا کر دل نہیں بھرا جو پھر سے کھڑا کردیا ۔ میں بولا اس پر میرا کنٹرول نہیں ہے کیاں کروں ۔ خیرجب میری نظر یاسمین پر پڑی تو وہ میرے لن کو غور رہی تھی جیسے ہی اس کی نظر مجھ سے ملی تو میری ہوا ٹائٹ ہوگئی اور لن صاحب ایسے گرے کہ یہاں کوئی لن رہتا ہی نہ ہو ۔ خیر سحر نے ٹانگین لگا کر پٹی لگا دی ۔ اور مجھے درد کے ٹیکے لگائے ۔ پھر فریج سے کچھ فروٹ اور دودھ لائی اور مجھے دیا کہ میری انرجی بہال ہوجائے مجھے بھوک لگی تھی تو میں چٹ کرگیا اور دودھ پی گیا ۔ اورٹیکوں کی وجہ سے جلدہی مجھے نیند آنے لگی سحر بیچاری لنگڑاتی ہوئی باہر چلی گئی ۔ یاسمین بولی سو جاو اور اس بات کا ذکر کسی سے نہ کرنا کہ تمہیں دوبارہ ٹانگین لگانے پڑے ۔ یاسمین بھی بتی بجھا کر چلی گئی ۔ صبح میری آنکھ لیٹ ہی کھلی تو سب سے پہلے جسم میں درد کا احساس ہوا شاہد سن کے ٹیکے کا اثر پھر سے کم ہوچکا تھا میں اٹھا تو دیکھا کہ سردار جہانگیر اور غفورا میرے پاس بیٹھےہوئے تھے ۔ غفور ے کو دیکھ کر حیرانی ہوئی تو وہ بولا کہ کل جب یاسمین کی کال آئی تھی تو جلد ی میں نکلا اور غفورے کو بتایا تھا کہ تم سردارنیوں کی جان اور عزت بچاتے ہوئے زخمی ہوگئے بس پھر کیا تھا پوری حویلی میں یہ بات پھیل گئی کہ تم سردارنیوں کی جان اور عزت بچاتے بہت زخمی ہوگئے ۔ بات سردارنیوں کی تھی اس لیے سب حرکت میں آگئے اور مجھے کال کر کے سب پوچھا اور میں نے بھی کنجوسی نہیں کی اور تم کی بہادری کے بارے میں سب کو بتا دیا تو غفورا اور گارڈز وغیرہ یہاں آگئے سردارنیوں کو تمہیں لے جانے ۔ ڈاکٹر سے میری بات ہوگئی ہے بولی تم ٹھیک ہو جاسکتے ہو۔ ٹانکے کھلوانے دوبارہ آنا پڑے گا ۔ غفورے نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولا خوش کردیا تم نے میری عزت رکھ لی ۔ خیر کچھ دیر بعد سحر بھی آئی اب وہ ٹھیک چل رہی تھی ظاہر ڈاکٹر ہے تو کچھ کیا ہی ہوگا ۔ مجھے سے بولی کیسے ہو اور درد کیسا ہے ۔ میں بولا ٹھیک ہوں جس پر مجھے بولی کہ اب کچھ دن تم نے بھاگ دوڑ والا کام نہیں کرنا اور تین چار دن تو مکمل بیڈ پر ریسٹ کرنی ہے ہفتے بعد تمہارے ٹانکین نکل جائیں گے اور جو دوائی میں نے دی ہے وہ لیتے رہنا اور ہر دون دن بعد پٹی بدلوا لینا ۔ دوائی اور سامان سارا میں نے دے دیا ہے ۔ پھر میں اٹھنے لگا تو غفورا بولا تجھے بہت جلدی ہے کیاصبر نہیں ہوتا ۔ میں بولا یار غفور ے تم نے حویلی میں بتا کر اچھا نہیں کیا میری امی اور بہن حویلی میں کام کرتی ہیں ان کو پتہ لگا ہوگا کہ میں زخمی ہوگیا ہوں تو میرے گھر والے بہت پریشان ہونگے اور خاص کر میرے ابو ۔ بولے پریشان نہ ہو میں تیرے ابا سے مل کر آیا تھا اور انہیں بتا دیا تھا کہ تم بہت بڑے ہسپتال میں ہواور بالکل ٹھیک ہو ۔ خیر سب ملے لیکن زروا پھر نظر نہیں آئی ۔ ڈاکٹر بولی سب باہر جاو میں زرازخم چیک کرلو ۔ سب باہر چلے گئے تو سحر بولی کہ رات تم نے مجھے وہ مزا دیا جو خواب میں بھی نہیں سوچا تھا ایسی چدائی تو کبھی فلموں میں بھی نہیں دیکھی پھر بولی یہ میرا فون نمبر ہے میرا گھر اور ہسپتال تو تم نے دیکھ لیا ہے میرے دل کے اور پھدی کے دروازے تم کے لیے ہمیشہ کھلے رہے گے اور ہنس دی اور میں بھی بولا کہ سچ میں سحر تم نے واقعی مجھے سحر میں مبتلا کردیا میں یہاں چکر لگایا کروں گا جب بھی شہر آوں بولی بس ایک فون کردینا مجھے کسی پی سی او سے میں خود ہی تم تک پہنچ جاوں گی ۔ پھر مجھے ایک بھر پور کس کی اور باہر چلی گئی ۔ پھر غفورا اور ایک گارڈ مجھے پکڑ کر گاڑی میں بیٹھا دیا اور حویلی کی طر ف چل دیے ۔ خیر حویلی پہنچے تو میرا باپ اور میرےبہنیں دروازے پرہی میرا انتظار کررہے تھے جیسے ہی میں گاڑی میں اترا تو میرا باپ مجھے سینے سے لگا کررونے لگا میں نے بولا ابو میں ٹھیک ہوں اور آپ کے سامنے ہوں دیکھ لیں اور پوری طرح کھڑا ہوں ۔ مجھ میں کچھ بھی کم نہیں ہے لیکن میری پتلون جو کہ خون الود تھی نے سارا حال بیان کردیا تھا کیونکہ واپس آتے ہوئے میں نے وہی پتلون پہن لی تھی ۔ میری بہنیں بھی مجھے سے لپٹ گئیں اس وقت کوئی غلط خیال نہ تھا بلکہ ایک دوسرے کے لیے بے شمار پیار تھا ۔ خیر غفورا اور ابو مجھے حویلی لے کر گئےا ور مہمان خانے میں بیٹھا دیا ۔ سب ہی نے ہی میری خیریت دریافت کی ۔ پھر بڑےسردار اور اورنگ زیب بھی آئے آج پہلی بار ان سے اس طرح سامنا ہوا یہ نہیں تھا کہ انہوں نے مجھے دیکھا نہیں تھا حویلی میں ہی تھا باہر تھا لیکن آتے جاتے مجھے کئی بار غفور ے کے ساتھ دیکھا تھا لیکن اس طرح آمنے سامنے نہیں سردار جہانگیر بھی آگیا اور آتے ہی بولا کیا اب بھی کوئی شک ہے کہ میں نے غلط انتخاب کیا ہے ۔ بڑے سردار بولے نہیں بیٹا تم نے ٹھیک انتخاب کیا ہے ۔ پھر سارا واقع تفصیل سے بتا یاکہ کس طرح بہادری سے میں نےسردارنیوں کو اغوا ہونے سے بچایا اور زخمی ہونے کے باوجود بھی ہوش نہیں کھویا خود گاڑی چلا کر ان کو محفوظ مقام پر پہنچایا۔ سب نے شاباش دی ۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ اتنا جلدی میرا نام بڑے سردار اور اورنگ زیب تک پہنچ جائے گا ۔ لیکن اب پوری حویلی میرا نام ہر کوئی جانتا تھا چاہے شکل سے مجھے کوئی جانتا ہو یا نہ ہو حالانکہ ایسا کوئی خاص کارنامہ تو سرانجام دیا نہیں تھا صر ف تین لوگوں سے لڑا تھا اور ایک چھوٹا سا زخم تھا ۔ خیر بڑے سردار بولے کہ کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتانا اور سردار نے 50ہزار روپے دیے کے رکھ لو کچھ کھا پی لینا اور دوا دارولے لینا میں نے جہانگیر کی طرف دیکھا اس نے اشارہ کیا میں نے پیسے رکھ لیے پھر سردار اور اورنگ زیب چلے گئے ۔جہانگیر بولا کہ تم حویلی کے مہمان ہو جب تک ٹھیک نہیں ہوجاتے حویلی میں رہو کھاو پیو تم نے بڑے سردار اور اورنگ زیب کے سامنے میرا سر اونچا کردیا ہے ۔ میں بولا نہیں سردار صاحب میں گھر جانا چاہوں گا اور میں جلد سے جلد حویلی پر لوٹ آوں ۔ سردار جہانگیر بولا کوئی بات نہیں آرام کرو جب تک ٹھیک نہیں ہوجاتے میں بولا اب دل آرام کو نہیں مانتا ۔ بولے اچھا ٹھیک ہے جب تک ٹانگیں نہیں کھلتے آرام کرو میں بولا ٹھیک ہے ۔ پھر سردار جہانگر خان نے مجھے ہزار ہزار روپے والی ایک کاپی دی بولے یہ کچھ روپے ہیں تمہارے کھانے پینے کے لیے اور کچھ اپنے ابو کو میری طرف سے دے دینا ۔ میرے منع کیا لیکن کہ بڑے سردار نے بھی دیے ہیں تو سردار بولا میں نے بولا تھا حویلی کی طرف سے جو تحفہ ملے انکار نہیں کرنا ۔ میں نے روپے جیب میں رکھ لیے ۔ بولے تمہیں پسٹل اور خنجر دیا تھا اس کا استعمال کیوں نہیں کیا میں بولا کہ وہاں بہت لوگ تھے پولیس آسکتی تھی اور وہ لوگ تو میری ایک ہاتھ کی مار تھے بس بے خیالی میں مار کھا گیا پھر جب ڈاکٹر کی طرف گئے تو میں نے گاڑی میں پسٹل اور خنجر رکھ دیا تھا ۔ بولے اچھا اب مزید احتیاط کرنا ۔ میں بولا پہلا تجربہ تھا تو مار کھاگیا اب مزید محنت کروں گا اور خود کو اور بہتر بناوں گا بولے اچھی بات ہے ۔ پھر میں باہر نکلا تو ابو بیٹھے ہوئے تھے جن کے ساتھ میں گھر آنے لگا تو غفورا مجھے گاڑی میں بیٹھا کر گھر چھوڑ گیا ۔ میں گھر پہنچا تو وہاں میرے کافی رشتہ دار بیٹھے ہوئے تھے جن میں چچا اور ماموں کی فیملیاں بھی موجود تھیں گھر بھرا پڑا تھا سب نے میری خیریت دریافت بھی سویرا نے میرا بسر اندر لگا دیا اور مجھے لیٹا دیا ۔ میری ایسی آو بھگت تو کبھی زندگی میں نہ ہوئی تھی ۔ باری باری سب نے پوچھا ۔ پھر سب اپنے اپنے گھر جانے لگے ۔ نورین بھی آئی تھی اس نے بھی میری خیر یت دریافت کی اور میں نے اس کی خیریت دریافت کی کیونکہ کل اس کے ساتھ کافی برا کیا تھا بولی ٹھیک ہوں ۔ بولی اب تو تم کی بہت واہ واہ ہوگئی ہے ۔ میں بولا یہ سب تمہارا نظر کرم ہی ہوا ہے ورنہ میں کہاں ۔ بولی اس لیے تم نے کل مجھے اس کا صلہ دیا ہے میں بولا دیکھومیرا پہلی دفعہ تھا تو زیادہ جوش میں آگیا میرا ایسا کوئی مقصد نہیں تھا بس پہلی بار تھا اور تم ہو ہی اتنی سیکسی کہ خود کو روک ہی نہیں پایا اور لائف میں تم پہلی لڑکی ہو ۔ بولی کر تو ایسے رہے تھے جیسے بہت تجربہ ہے میں بولا یہ تجربہ بھی تم نے ہی دیا تھا اس دن کھیتوں میں ۔ میں بولا بس زیادہ جوش آگیا اور کوئی بات نہیں اب سے ہم پکے فرینڈز ہیں ۔ پھر کچھ مسکا وغیرہ لگایا کہ تم نے مجھے قید سے آزاد کروا کر کہان پہنچا دیااور اب ہر کوئی میرا نام جانتا ہے ۔ پھر اسی طرح کی باتیں ہوتی رہی پھر گلناز اور صائمہ بھی آئیں دونوں بیچاری بہت دکھی تھیں میں نے ان کو کہا کہ فکر نہ کرو جلد ٹھیک ہو کر تمہارے پاس آوں گا بولیں انتظار ہے گا گلناز بولی جیسے ہی غفور سے پتہ چلا تو میری تو جان ہی نکلنے والی ہوگئی تھی لیکن پھر انہوں نے بتایا کہ تم ٹھیک ہو میرا بس نہی چل رہا تھا کہ اڑ کر تم کے پاس پہنچ جاوں میں بولا دوستی اسی چیز کا نام ہے خیر میں بولا جلد آتا ہوں پھر تیار رہنا تو گلناز مسکرا دی ۔ اور سب چلے گئے ۔ گھر والے سب رات کو کمرے میں میرے پاس آئے ابو بولے کہ اسی بات کا ڈر تھا وہی ہوا تم کو اتنا خون بہہ گیا ۔ حویلی میں جو جاتا ہے یہی ہوتا ہے اس کے ساتھ میں بولا ابو کچھ نہیں ہوگا آپ نے مجھے بہت بہادر بنا یا ہے ۔ بولے اسی لیے پہلی بار میں ہی مار کھا کر آگئے میں بولا مار نہیں کھائی بس بے خیالی میں زخم دے گیا بولے بے خیالی میں گولی بھی آتی ہے میں بولا جو تقدیر میں ہوگا دیکھا جائے گا اور میں نے جیب سے1لاکھ والی کاپی نکال کر ابو کو دے دیے کے سردار نےدیے ہیں اور بڑے سردار والے پیسے خود رکھ لیے کیونکہ میں اپنی بہنوں کے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا جس کا مجھے آج تک موقع نہ ملا تھا ان کے لیے کپڑے جوتے لینا چاہتا تھا ۔ امی نے جھٹ سے پیسے پکڑ لیے کہ اتنے پیسے واہ اور نازنین او ر پائل کی آنکھوں میں چمک آگئی کیونکہ مجھے پتہ تھا ان میں سے ہم بہن بھائیوں کو کچھ نہیں ملنا سارے امی اور نازنین اور پائل ہی استعمال کرنے ہیں ۔ ابو بولے میرے بیٹے کے خون کا بدلہ دیا اور وہ بھی ایک لاکھ کسی غریب کی جان کی قیمت صرف ایک لاکھ روپے جس پر امی بولی کچھ نہیں ہوا ہے اور سرداروں نے کتنے احسان کیے ہیں ابھی دو دن ہی ہوئے اور بیٹا ایک لاکھ روپے لے آیا اور کیا چاہیے آپ کو ۔ آپ کا بیٹا بہت بہادر ہے ۔ خیر پھر امی ابو اور نازنین اور پائل چلے گئے ۔ میں نے سویرا سے کہا کہ پانی گرم کردو میں ایک بار نہا لوں خون کی بہت بو آرہی ہے جس پر سویرا نے پانی گر م کیا ایک بار پھر مجھے قید ہوچکی تھی مطلب 7دن بعد میرے ٹانگین نکلنے تھے لیکن مجھے سویرا نے 7 دن ہلکنے تک نہ دیا ۔ نوراور سویرا نے میرا بہت خیال رکھا میرا زخم اچھی خوراک کی وجہ سے جلدی بھر گیا اور پھر غفورے کے ساتھ میں شہر چلا گیا سحر کے پاس ٹانگیں نکلوانے جہاں پر سحر مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئی مجھے کمرے میں لے جا کر زخم کا معائنہ کیا بولی واہ ایسا لگتا ہے زخم تھا ہی نہیں بڑی جلدی مل گیا ۔ میں نے کہا تم نے دوا ہی بڑی کمال کی دی تھی بولی آج رات تم میرے مہمان ہو میں غفورے کو بو ل دیا ہے کہ تم کے ٹانکین کچے ہیں ایک دن اور رکنا پڑے گا کل نکال دوں گی جس پر وہ واپس چلا گیا ہے کل آکر تمہیں لے جائے گا ۔ میں بولا کیا ارادہ ہے بولی جو پیاس پچھلی بار بھجائی تھی پھر جاگ اٹھی ہے ۔ میں بولا کوئی نہیں میں بھی ساتھ دن سے بستر پر ہی پڑا ۔ بولی ابھی آرام کرو اور یہ گولی کھا لو اس سے تم کو درد نہیں ہوگا ۔ میں رات کو کمر ے میں آوں گی اپنا کام ختم کرکے ۔ پھر رات کو سحر ایک گلاس میں بادام والا دودھ لے کر کمرے میں آگئی اس وقت اس نے ایک ریشمی نائٹی پہنی ہوئی تھی جس میں اس کاجسم جھانگ رہا تھا اور ایک ایک انگ خوبصورتی کے ساتھ سمویا ہوا تھا ۔ مجھے پہلے دودھ دیا اور ڈرائی فروٹس دیے جو کہ میں نے جی بھر کے کھایا پھر سحر بیڈ پر بیٹھ گئی مجھ سے کچھ فاصلہ رکھ کر ۔ میں بولا پھر اتنی دور کیوں بیٹھی ہوپھر وہ اٹھی اور میرے پاس آگئی۔ میں اٹھ کھڑا ہوا اوراس کا ہاتھ پکڑ لیا بیڈ سے اٹھا کر کھینچ کر اپنے گلے لگا لیا وہ میرے گلے لگ گئی میں نے اس کے منہ کو پکڑا اور اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پررکھ دیے جس کے لیے مجھے تھوڑا سر نیچے کرنا پڑا کیونکہ اس کا قد چھوٹا تھا اس کے ہونٹ کمال کے تھے نرم و نازک وہ بھی میرا بھر پور ساتھ دے رہی تھی اور میرے ہونٹو ں کو کسی ایکپرٹ کی طرح زور زور سے چوس رہی تھی میں نے اس کی نرم گانڈ پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیے اور کسنگ جاری رکھی کوئی بھی ہونٹ چھوڑنے کو تیا رنہ تھا۔ آخر جب سانس پھولنے لگی تواس نے ہونٹ الگ کرلیے ۔ میں نے اس کی نائٹی پکڑی اور اتاردی ساتھ ہی برا بھی اتار دی اس کے 36سائز کے ممے اچھل کر باہر آگئے جیسے کسی نے زبردستی قید میں رکھا تھا اس کے ممے بڑے نرم تھے جیسے روئی ہو اس پر ہلکے پنکش نپل تھے جو مٹر کے دانے کے جتنے تھے۔ میں نے سحر کو اٹھاکر بیڈپر لیٹایا اپنی قمیض اتار کر اس پر سوار ہوگیا اور اس کے مموں پر ٹوٹ پڑا ایک ہاتھ سے مسلتا اور دوسرے کو منہ میں بھرتا جتنا ہوتا اس کے منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھیں میں نے 15منٹ اس کے ممے چوس چوس کر اور ہلکے ہلکے کاٹ کر لال کردیے تھے ان پر ہلکے ہلکے نشان تھے میرا دل نہیں بھر رہا تھا اس کے ممے تھے ہی ایسے پھر میں نیچے آنا شروع ہوا اس کے پیٹ پر چومنا شروع کردیا اور ناف میں زبان گھسا کر جب چاٹا مارا تو اس کا جسم اکڑا اور اس نے پانی چھوڑ دیا ۔ لمبے لمبے سانس لینے لگی۔ بولی مزا آگیا ایسا مزا پہلی بار آیا ہے تم تو ماہر کھلاڑی ہو ۔ بولی اب میری باری ہے تم کو مزا دینے کی مجھے دھکا دے دیا میں لیٹ گیا۔ وہ میرے اوپر آگئی اور میرے ہونٹ چوسنے لگ پڑی پھر میرے سینہ کو چوسنا شروع کردیا میری تو جیسے مزے سے جان ہی نکلنے والی ہوگئی پھر وہ نیچے آئی ابھی تک اس نے میرے لن کو نہیں پکڑا تھا اب اس نے میرا لن کو شلوار کے اوپر سے ہی پکڑ لیا اور آگے پیچھے کرنے لگ پڑی جلدی سے شلوارنیچے کیا تو میرا لن پھنکاراتا باہر آیا ۔اس نے فوراً میرے لن پر تھوک پھینکا اس پر مل دیا پھر اس کو منہ میں بھر لیا جتنا ہوسکتا تھا اور اس کو چوسنا شروع کردیا موٹائی زیادہ ہونے کی وجہ سے زبان سے رگڑ تو نہ لگاپائی لیکن اس نے ایسا چوسا کہ مزے سے میرے آنکھیں بند ہوگئی اور منہ سے سسکاریا ں اور مزے کے مارے آوازیں نکل رہی تھیں وہ کبھی میرا لن منہ میں ڈال کر چوستی کبھی ہاتھ چلاتی کبھی میرے ٹٹوں کو چوستی۔ مجھے لگا میں ہواوں میں ہوں ۔ لن چوس چوس کر جب تھک گئی تومیرالن منہ نکالا اور بولی تم بہت جاندار ہو اس کے ساتھ ہی میں نے اس کے پکڑ کر لٹا لیا ا ور اس پر ٹوٹ پڑا ہونٹ چوسے پھر اس کے مموں کو کچھ دیر چوسا پھر اس کی پینٹی کو پاؤں سے نکالا۔ اس کی پھدی بالکل صاف تھی جیسے ابھی صاف کرکے آئی ہواس کی پھدی سے مست قسم کی خوشبو آرہی تھی مجھ سے رہا نہ گیا اور میں بھی پھدی پرٹوٹ پڑا اور ایک انگلی اس کی پھدی میں داخل کر کے آگے پیچھے کرنے لگا اور ساتھ میں اس کا دانہ چوسنے لگا تو اس کی آواز سسکیوں کی جگہ چیخوں میں بدل گئی اس کو بہت مزا آرہا تھا میرا یہ وار وہ سہ نہ پائی اور جلدہی پانی چھوڑ دیا جو میں نے پی لیا سحر بولی یا ر تم کیا چیز ہو ایسا مزا میں نے زندگی میں نہیں چکھا تم نے مجھے ہی مست کردیا ہے تم میری جان بھی مانگو تو حاضر ہے میں بولا صرف دوستی چاہیے بولی سحر آج سے تم کی ہوئی ۔میں بولا یاد رکھنا بولی یاد رہے گا میں نے بولا اصلی مزا تو ااب آئے گا اور اپنا لن اس کے منہ کی طرف کردیا اس نے منہ میں لیا اور تھوڑا ساچوسا پھر اس پر تھوک پھینک دیا پھر میں اس کی ٹانگوں کی طرف آیا اور اس کی ٹانگیں اٹھا کر لیں بولی آہستہ کرنا میں نے لن اس کی پھدی پر رکھا اور پھیرا تو اس کی سسکی نکل گئی بولی اب ڈال دو انتظار نہیں ہورہا۔ میں نے بھی لن اس کی پھدی کے سوراخ پر رکھا اور ایک ہلکا دھکا مارا جس سے میرا لن تین انچ تک اندر چلا گیا ا س کی ہلکی سی چیخ نکل گئی میں رک گیا پھر ایک دھکا مار اتو میرا آدھا لن اس کے اندر چلا گیا اس نے ایک زور دار چیخ ماری میں رک گیا اور اس کے اوپر جھگ گیا اور اس کے مموں کو منہ میں بھر لیا چوسنے لگ پڑا تھوڑی دیر بعد اس نے گانڈ ہلائی تو میں نے بھی آہستہ سے باہر نکال کر ہلکے دھکے لگانے شروع کردیے سپیڈ سلو رکھی۔اس کی سسکیاں بلند ہو رہی تھیں اس کی پھدی مزا پورا دے رہی تھی اب سحر بھی میراساتھ دے رہی تھی میں نے آدھے لن سے ہی چدائی جاری رکھی 10منٹ کے بعد اس کے جسم نے اکڑنا شروع کیا میں نے اس کے ہونٹو ں کو منہ میں بھر لیا اس کے اوپر لیٹ گیا اب وہ میرے نیچے تھی میں نے لن سارا باہر نکالا صرف ٹوپی اندر رکھی اور ایک زور دار دھکا مارا جس سے میرا سارا لن اس کے اندر جڑ تک گھس گیا اس نے زور سے چیخ ماری بولی جان لے کر رہو گے گیا آہستہ اف آرام سے کرو پھر بولنے لگ پڑی مزا آرہا ہے تیز کرو میں نے بھی رفتار بڑھا دی جتنا ہوسکتا تھا اتنی تیزی سے دھکے لگانے لگ پڑا اس کی سسکیاں بلند ہوچکی تھیں پھراس کا جسم اکڑنا شروع ہوگیا میرے لن پر گرم گرم پانی محسوس ہوا لیکن میں نے دھکے جاری رکھے تو سحر نے چیخنا شروع کردیا۔ لیکن میں نہ رکا میری رفتا ر طوفانی ہوچکی تھی سحر نیچے سے نکلنا چاہتی تھی لیکن میں نے اس کوقابو رکھا اور دھکے جاری رکھے پھر آخری جھٹکا مارا اور اس کے اوپر لیٹ گیا۔ میرے لن سے پچکاریاں نکل نکل کر اس کے پھدی کو بھر رہیں تھیں جب آخری قطرہ نکل گیا تو میں اس کے اوپر اٹھ گیا تو پھدی سے اس کااور میرا پانی نکل نکل کر نیچے گر رہی تھی۔ اور اس کی پھدی کھل بند ہو رہی تھی۔ میں سائیڈ لیٹ گیا سانس بحال کیا اٹھا اس کو سوری بولا تو بولی تم نے مجھے زندگی کا مزا دے دیا سوری کیوں بول رہے ہو بولی مجھے تو بہت مزا آیا ایسی چدائی کبھی زندگی میں نہیں ہوئی ۔ وہ اٹھی اور لنگڑاتی ہوئی باتھ روم گئی فریش ہونے پھر میں گیا واش روم وہ نہا رہی تھی میں بھی اس کے ساتھ کھڑا ہوگیا اور اس کو اپنی طرف پلٹ کر کسنگ کرنا شروع کردی وہ بھی میر ا ساتھ دینے لگ پڑی پھر اس کے مموں سے کھیلنا شروع کردیا اس نے سسکنا شروع کردیا پھر میں نے اس کو پکڑ کر اپنے لن کی طرف سے کیا جو کہ کھڑا ہوچکا تھا اور جھٹکے لگارہا تھا سحر نے لن منہ لیا اور چوسنا شروع کردیا اس کا چوپاکمال کا تھا مجھے بہت مزا آرہا تھا میں نے اس کے منہ میں دھکے لگانے شروع کردیے جس سے اس کی رال بہ رہی تھی پھر اس کو میں نے گھوڑی بنا دیا سحر جھگ گئی میں نے لن اس کی پھدی کے سوراخ پر رکھی اور ایک جاندار دھکا مارا میرا آدھے سے زیادہ لن اس کی پھدی میں چلا گیا اس منہ سے چیخ نکلی میں نے ساتھ ہی دوسرا دھکا مارا میرا پوا لن اس کے اندر تھا پھر میں نے تیز رفتار دھکے لگانے شروع کردیے اس کی چیخے نکل رہی تھی میں نے کوئی پرواہ نہ کی پھر مجھے لن پر گرم پانی محسوس ہوا لیکن میں نہیں رکا وہ نیچے گرنی لگی میں نے اسے کو پلٹا کر گود میں اٹھا لیا اور لن اس کی پھدی میں ڈال دیا اور اس کو چودتا چودتا کمرے میں لے گیا اس کوبیڈ پر گھوڑی بنایا اور لن اس کی پھدی میں ہی رکھا اور چودنا شروع کردیا تھوڑی دیر بعد پھر اس کا پانی مجھے اپنے لن پر محسوس ہوا میں نے لن نکال لیا لن پہلے ہی اس کے پانی سے چکنا ہوچکا تھا میں نے لن اس کی گانڈ پر رکھا اور ایک زور سے دھکا مار اجتنی میری جان سے لن اس کی گانڈ چیرتا ہوا جڑ تک گھس گیا اس نے ایسی چیخ ماری کے بس ۔ اور لیٹ گئی نے اس کو قابو کر لیا اور اس کو چودنا نہ چوڑا وہ نیچے سے نکلنا چاہتی تھی لیکن مجھے پتہ لگ چکا تھا اس کو رف چدائی پسند تھی اس لیے میں رکا نہیں اس کو چودتا رہا وہ چیختی رہی کہ میری پھدی مار لو گانڈسے نکال لو تم کا بہت بڑا ہے مجھے تہ چل چکا تھا اس کی گانڈکھلی ہوئی ہے میں نے ایک نہ سنی اور گانڈ مارتا رہا پھر کچھ دیر گزری تو سحر کو بھی گانڈ مروانے میں مزا آنے لگ پڑا اور اس نے بھی گانڈ کو اٹھا نا شروع کردیا لیکن کچھ دیر بعد پھر پانی نکال چکی تھی35منٹ ہو چکے تھے گانڈ مارتے ہوئے سحر نیچے سسک رہی تھی اور میں گانڈ پر دھکے پر دھکا ماری جاررہا تھا پھر مجھے بھی اپنا وقت قریب محسوس ہوا میں نے بھی رفتا ر طوفانی کرتے ہوئے دھکے لگانا شروع کردیا 5منٹ بعد میرے لن نے اس کی گانڈ بھرنا شروع کردی جب لن خالی ہوا تو اس کے اوپر سے اترا میں اس وقت پسینے سے بھیگ چکا تھا حالانکہ کے ائیر کنڈیشن چل رہا تھا جیسے ہی لن اس کی گانڈ سے نکلا تو پھک کی آواز آئی اور اس کی گانڈ میں بڑا ہول بنا ہوا تھا اور میرا مال اور خون اس کی گانڈ سے باہر نکل نکل کر نیچے بیڈ پر گررہے تھے۔ پھر میں اٹھا اس کو اٹھا کر واش روم لے گیا خود بھی نہایا اس کو بھی صاف کیا ا میں بولا سوری یار لگتا مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن تم کی مست گانڈ دیکھی تو نہیں رہا گیا بولی کوئی بات نہیں میرا پورا جسم درد کررہا ہے لیکن جو مزا آیا و ہ بیان سے باہر ہے میں نے ایسی چودائی تو خوابوں میں بھی نہیں سوچی تھی خیر صبح تک ساتھ گلے لگ کر ننگے ہی سوتے رہے پھر مجھے اس نے اٹھایا اور ناشتہ کروایا اور کافی دیر کسنگ کی اور مجھے پھر رخصت کردیا اس وعدہ کے ساتھ کے آتا رہوں گا ۔ میں گھر آگیا غفورے نے مجھے گھر اتار ا تھا کہ آج آرام کرلو اب مت ٹھیک ہو کل سے حویلی آجانا میں نے بولا ٹھیک ہے ۔ شام کو سویرا کسی پروس میں گئی تھی اور نازنین کمرے میں گھسی تھی میں نے پائل کو پانی گرم کرنے کا کہا تو پائل جھٹ سے بولی کہ میں نے گرم کردیا ہے مجھے پتہ تھا کہ تم آکر نہاو گے ۔ میں اٹھا اور ایک ڈھیلا سا شلوار قمیض اٹھا کر باہر چلا گیا پائل پہلے ہی چلی گئی تھی اور پانی نلکے میں رکھ کر اسی دن کی طرح نلکا چلا رہی تھی اور اپنی گانڈ مٹکا رہی تھی اس کو دیکھ کر میرا لن حرکت میں آنے لگا اور کھڑا ہوگیا میں نے سیدھا اس کی گانڈ میں لن دے دیا اور اس کے پیچھے کھڑا ہوگیا ۔ پائل اسی طرح گانڈ میری طرف کر کے جھکی رہی میں نے پائل کی گانڈ میں زور سے گھسا مارا جس پرپا ئل نے سسکاری ماری میں پیچھے نہیں ہٹا اور ایک اور گھسا مارا جس پر پائل نے ایک اور سسکاری ماری ۔ میں بولا پائل تم نے کوئی گفٹ دینےکا وعدہ کیا تھا ور جان بوجھ کر ایک زور سے گھسا مارا جس پر پال آگے کو گرنے کو ہوئی میں نے اس کی کمرکو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر تھام لیا جس سے پائل گرنے سے بچ گئی ۔یہ سب نلکے کے دروازے پر کھڑا کررہا تھا پھر خیال آیا کوئی آنہ جائے تو اندر چلا گیا ۔ میرا لن اسی طرح اکڑا ہوا تھا اور جھٹکے کھارہا تھا ۔ پائل بولی انعام تو بنتا ہے کہتی اچھا چلو آج تم کو میں انعام دوں گی لیکن پہلے تم اپنے گھوڑے کو دکھاو میں بولا میرے پاس کونسا گھوڑا ہے پائل نے آگے بڑھ کر میرے لن کو شلوار کے اوپر سے ہی پکڑ لیا بولی یہ جو پال رکھا ہے میں بولا بہت بے شرم ہوگئی ہو بولی بہن کس کی ہوں تم بی تو کمرے میں جا کر ہلاتے ہو پھر خود ہی میری شلوار کا نالا کھول کر میری شلوار نیچے اتار دی اور میرے لن پر ہاتھ آگے پیچھے کرنے لگی بولی واقعی گھوڑا لگتا ہے ۔ پائل کے نرم و نازک ہاتھ لگتے ہی میرے لن نے جھٹکے لینے شروع کردیے اور پائل کے ہاتھ نے ہی اتنا مزا دیا کہ کیا بتاوں ۔ ہمارے گھر میں سب سے چھوٹی تھی لیکن لگتا ایسے تھا کہ سب سے بڑی ہے اور اس کام میں ماہر ہے ۔ بولی آنکھیں بند کرو تم کو گفٹ دوں میں نے آنکھیں بند کرلیں بولی آنکھیں نہ کھولنا اور پھرمیرا لن چھوڑ دیا اور کچھ دیر بعد بولی آنکھیں کھول لو ۔جب آنکھیں کھولی تو پائل بالکل ننگی کھڑی تھی پائل کا خوبصورت جسم بالکل بے داغ تھا اور کم سے کم 38ممے تو ہوں گے ان پر پنکش نپلز ۔ نیچے بالوں سے پاک پھدی جیسے دو لکیرے آپس میں مل گئیں ہوں اور کبھی الگ نہ ہونا چاہتی ہوں ۔اور پیٹ جو بالکل ساتھ لگا ہوا تھا بالکل کوئی فیٹ نہیں ۔ میں تو جیسے پائل میں کھو چکا تھا ایسا جسم شاہد ابھی تک کسی کا نہیں دیکھا تھا ۔ پائل کی عمر ہی کیا تھی 16سال لیکن جوبن ایسا تھا کہ 24/23سال کی لگتی تھی ۔ میں آگے بڑھا تو پائل پیچھے ہٹی بولی بس دیکھ لو تم بھی کیا یاد کرو گے کہ ایک دلدار لڑکی سے پالا پڑا تھا تم نے کبھی ننگی لڑکی نہیں دیکھی ہوگئی میں جانتی ہوں اس لیے ایسا تحفہ دیا ۔ میں مدہوش ہوتے ہوئے بولا بس ایک بار چھو لوں کچھ نہیں کرتا ۔ نیچے تھا کہ میرا لن جھٹکے پر جھٹکے لے رہا تھا اور پائل جان جان کے مجھے ترسائے جارہی تھی ۔ پھر گھوم گھوم کر خود کو دکھانے لگی اور اس کی گانڈ واہ کمال دی جیسے دو پہاڑیوں کو جوڑ دیا گیا ہو ۔ میں نے آگے بڑھ کر پکڑ لیا اور گلے سے لگا لیا میرا لن اس کے پیٹ مین جبھ رہا تھا میں نے اس کے دونوں مموں کو پکڑنے کی کوشش کی جو کہ میرے ہاتھ میں بھی نہیں آرہے تھے پائل نے آنکھیں بند کرلیں تھے ۔ میں نے پائل کے فیس کو پکڑ کر اوپر کیا اور اپنے ہونٹ پائل کے ہونٹوں پر رکھ دیے پائل کے ہونٹ نرم تھے لیکن انگاروں کی طرح گرم تھے جیسے سب کچھ پگھلا دیں گے ۔میرے ہاتھ اس کے 38 سائز کے ممو ں پر تھے جو کہ ایک ہاتھ میں نہیں آرہے تھے ۔ ہماری کسنگ اتنی وائلڈ ہوچکی تھی کہ کوئی ہوش نہیں تھا کہ ہم کون اور کہاں ہیں اور کیاکررہے ہیں بس پاگلوں کی طرح کسنگ کررہے تھے کہ اچانک
          جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
          ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

          Comment


          • زبردست اور کمال کی اپڈیٹ ہے جتنی تعریف کی جائے کم ہے

            Comment


            • Comment


              • ہر اپڈیٹ پہلے سے زیادہ مزے دار کیا کہنے زبردست جنابِ مصنف صاحب تسی چھا گئے یو

                Comment


                • Boht aala story

                  Comment


                  • لاجواب تحریر ہے

                    Comment


                    • Buhat hi garam update
                      shikar doctorni ka huwa aur 2 sardarnian kine main bhi laga li..
                      Payel say aghaz kar liya..
                      Mast update hai.
                      Iffi bhai tu fukl mazay main agaye hain. Ghar bahir har jaga naya maza mil raha hai..

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X